Qarardad e Amn - Presented by Shaykh-ul-Islam Dr Muhammad Tahir-ul-Qadri

آرٹیکل نمبر 21

آرٹیکل نمبر 21

ہم دنیا کی تمام حکومتوں سے بھی یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ نفرت، تشدد، مذہبی عدمِ رواداری اور قومیت پرستی کے خلاف اپنی اقلیتوں کو مکمل تحفظ فراہم کریں۔

غیر مسلموں کے حقوق کا تحفظ جس انداز میں عہد رسالت مآب صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم میں کیا گیا اس کی مثال پوری اِنسانی تاریخ میں نہیں ملتی۔ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے مواثیق، معاہدات اور فرامین کے ذریعے اس تحفظ کو آئینی اور قانونی حیثیت عطا فرما دی تھی۔ عہدِ نبوی میں اَہلِ نجران سے ہونے والا معاہدہ مذہبی تحفظ اور آزادی کے ساتھ ساتھ جملہ حقوق کی حفاظت کے تصور کی عملی وضاحت کرتا ہے۔ اِسے امام ابو عبید القاسم بن سلام، امام حمید بن زنجویہ، ابن سعد، بیہقی اور بلاذری سب نے روایت کیا ہے۔ اِس میں حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ تحریری فرمان جاری فرمایا تھا:

وَلِنَجْرَانَ وَحَاشِيَتِهَا ذِمَّهُ اﷲِ وَذِمَّهُ مُحَمَّدٍ النَّبِيِّ رَسُوْلِ اﷲِ، عَلٰی دِمَائِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ وَأَرْضِهِمْ وَأَمْوَالِهِمْ وَمِلَّتِهِمْ وَرَهْبَانِيَتِهِمْ وَاسَاقِفَتِهِمْ وَغَائِبِهِمْ وَشَاهِدِهِمْ وَبَعْثِهِمْ وَامْثِلَتِهِمْ. لَا يُغَيَرُ مَا کَانُوْا عَلَيْهِ، وَلَا يُغَيَرُ حَقٌّ مِنْ حُقُوقِهِمْ وَأَمْثِلَتِهِمْ، لَا يُفْتَنُ أُسْقُفٌ مِنْ أُسْقُفِيَتِهِ، وَلَا رَاهِبٌ مِنْ رَهْبَانِيَتِهِ، وَلَا وَاقِفٌ مِنْ وَقَافِيَتِهِ، عَلٰی مَا تَحْتَ أَيْدِيْهِمْ مِنْ قَلِيْلٍ أَوْ کَثِيْرٍ، وَلَيْسَ عَلَيْهِمْ رَهَقٌ.

  1. بيهقي، دلائل النبوة، 5: 359-389
  2. ابن سعد، الطبقات الکبری، 1: 288، 358
  3. أبو يوسف، کتاب الخراج: 78
  4. أبو عبيد القاسم، کتاب الاموال: 244-245، رقم:503
  5. ابن زنجويه، کتاب الاموال: 449-450، رقم:732

اللہ تعالیٰ اور اُس کے نبی رسول محمد صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم، اَہلِ نجران اور ان کے حلیفوں کے لیے اُن کے خون، ان کی جانوں، ان کی زمینوں، ان کے اَموال، ان کے مذہب، ان کے راہبوں اور پادریوں، ان کے موجود اور غیر موجود اَفراد اور قافلوں اور اُن کے استھان (مذہبی ٹھکانے) وغیرہ کے ضامن اور ذِمہ دار ہیں۔ جس دین پر وہ ہیں اس سے ان کو نہ پھیرا جائے گا۔ ان کے حقوق اور اُن کی عبادت گاہوں کے حقوق میں کوئی تبدیلی نہ کی جائے گی۔ نہ کسی پادری کو، نہ کسی راہب کو، نہ کسی سردار کو اور نہ کسی عبادت گاہ کے خادم کو - جو اُن کے ہاتھوں (یعنی ملکیت) میں ہے، چاہے وہ کم ہو یا زیادہ اﷲ تعالیٰ اور اس کا رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے ذمہ دار ہیں - (اس سے نہیں ہٹایا جائے گا) اور ان کو کوئی خوف و خطرہ نہ ہوگا۔

امام حمید بن زنجویہ نے بیان کیا ہے کہ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال مبارک کے بعد بھی عہد صدیقی میں یہی معاہدہ نافذ العمل رہا۔ پھر عہد فاروقی اور عہد عثمانی میں حالات کی تبدیلی کے پیش نظر کچھ ترامیم کی گئیں مگر غیر مسلموں کے مذکورہ بالا حقوق کی حفاظت و ذمہ داری کا وہی عمل کامل روح کے ساتھ برقرار رہا۔

اِسی طرح حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فتح خیبر کے موقع پر بھی یہود کے اَموال و اَملاک کے بارے میں اِعلان فرمایا تھا۔ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ وہ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ غزوہ خیبر میں موجود تھے۔ لوگ (مجاہدین) جلدی میں یہود کے بندھے ہوئے جانور بھی لے گئے۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے نماز کے لیے اذان دینے کا حکم فرمایا۔ نماز کے بعد آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

الَا! وَإِنّيْ احَرِّمُ عَلَيْکُمْ أَمْوَالَ الْمُعَاهِدِيْنَ بِغَيْرِ حَقِّهَا.

خبردار! میں تم پر غیر مسلم اقلیتوں کے اَموال پر ناحق قبضہ کرنا حرام کرتا ہوں۔

طبرانی، المعجم الکبير، 4: 111، رقم: 3828

دورِ نبوی میں ان معاہدات، دستاویزات اور اعلانات سے اقلیتوں کے حقوق کا درج ذیل خاکہ سامنے آتا ہے:

  1. اِسلامی حکومت کے تحت رہنے والی غیر مسلم رعایا کو مساوی قانونی حقوق حاصل ہوتے ہیں۔
  2. ان کے مذہب سے کسی قسم کا تعرض نہیں کیا جا سکتا۔
  3. ان کے اَموال، جان اور عزت و آبرو کی حفاظت مسلمانوں ہی کی طرح اِسلامی حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے۔
  4. اِسلامی حکومت اُنہیں اِنتظامی اُمور کے عہدے، جس قدر وہ اَہلیت و اِستحقاق رکھیں، تفویض کر سکتی ہے۔
  5. اپنے مذہبی نمائندے اور عہدے دار وہ خود متعین کرنے کے مجاز ہوتے ہیں، ان کی عبادت گاہیں قابلِ اِحترام ہیں اور انہیں مکمل تحفظ حاصل ہے۔

أبو يوسف، کتاب الخراج: 158

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنی زندگی کے آخری لمحے تک اقلیتوں کا خیال تھا حالانکہ ایک اَقلیتی فرقہ کے فرد نے ہی آپ کو شہید کیا، لیکن اس کے باوجود انہوں نے فرمایا:

أُوْصِی الْخَلِيْفَةَ مِنْ بَعْدِيْ بِذِمَّةِ اﷲِ وَذِمَّةِ رَسُوْلِهِ: أَنْ يُوْفٰی لَهُمْ بِعَهْدِهِمْ، وَأَنْ يُقَاتَلَ مِنْ وَرَائِهِمْ، وَأَنْ لَا يُکَلَّفُوْا فَوْقَ طَاقَتِهِمْ.

میں اپنے بعد والے خلیفہ کو اﷲ اور اس کے رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذمہ میں آنے والے غیر مسلم شہریوں کے بارے میں یہ وصیت کرتا ہوں کہ ان سے کیے ہوئے عہد کو پورا کیا جائے، ان کی حفاظت کے لیے بوقتِ ضرورت لڑا بھی جائے اور اُن پر اُن کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہ ڈالا جائے۔

بخاری، الصحيح، کتاب الجنائز، باب ما جاء فی قبر النبی 1: 469، رقم: 1328

  • ہم اِس قراردادِ اَمن کے ذریعے مطالبہ کرتے ہیں کہ آئے روز اقلیتوں کے حقوق کی پامالی کی جو خبریں ملتی ہیں ان کا نوٹس لے کر اِنتہا پسند اور دہشت گرد عناصر کو قرار واقعی سزا دی جائے۔ اِسی طرح اِس قرارداد کے ذریعے ہم یہ بھی مطالبہ کرتے ہیں تمام ممالک کی حکومتیں اپنے اپنے ممالک میں اقلیتوں کے لیے ایسی اقدار کو فروغ دیں جو رسول اﷲ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے معاشرے میں اقلیتوں کے لیے رائج فرمائی تھیں۔

Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved