Mamulat-e-Milad

باب 7 :ضیافتِ میلاد

محافلِ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ہر خاص و عام کے لیے ماکولات و مشروبات کا اِنتظام کیا جاتا ہے، اَنواع و اَقسام کے کھانے تیار کئے جاتے ہیں، مٹھائی اور شیرینی تقسیم کی جاتی ہے۔ کھانا کھلانا شرعاً مقبول عمل ہے جسے ﷲ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پسند فرمایا ہے، اور قرآن و حدیث میں اِس کی بہت زیادہ ترغیب دی گئی ہے۔

1۔ قرآن حکیم میں کھانا کھلانے کی فضیلت

1۔ کھانا کھلانے کے باب میں اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں مومنین کی صفات بیان کرتے ہوئے فرمایا:

وَیُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ علٰی حُبِّهٖ مِسْکِیْنًا وَّیَتِیْماً وَّاَسِیْراًo اِنَّمَا نُطْعِمُکُمْ لِوَجْهِ ﷲ لَا نُریْدُ مِنْکُمْ جَزَآءً وَّلَا شُکُوْرًاo

الدهر، 76: 8، 9

’’اور (اپنا) کھانا ﷲ کی محبت میں (خود اُس کی طلب و حاجت ہونے کے باوُجود اِیثاراً) محتاج کو اور یتیم کو اور قیدی کو کھلا دیتے ہیں۔ (اور کہتے ہیں کہ) ہم تو محض اللہ کی رضا کے لیے تمہیں کھلا رہے ہیں، نہ تم سے کسی بدلہ کے خواست گار ہیں اور نہ شکرگزاری کے (خواہش مند) ہیں۔‘‘

2۔ مناسکِ حج میں سے ایک قربانی کے جانور ذبح کرنا ہے۔ اللہ رب العزت نے ذبیحہ کے گوشت کو خود کھانے اور باقی ضرورت مندوں کو کھلانے کاحکم دیا ہے:

فَکُلُوْا مِنْهَا وَاَطْعِمُوا الْبـَـآئِسَ الْفَقِیْرَo

الحج، 22: 28

’’پس تم اس میں سے خود (بھی) کھاؤ اور خستہ حال محتاج کو (بھی) کھلاؤ۔‘‘

ایک اور مقام پر فرمایا:

فَکُلُوْا مِنْهَا وَاَطْعِمُوا الْقَانِعَ وَالْمُعْتَرَّ.

الحج، 22: 36

’’تو تم خود (بھی ) اس میں سے کھاؤ اور قناعت سے بیٹھے رہنے والوں کو اور سوال کرنے والے (محتاجوں) کو بھی کھلاؤ۔‘‘

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صحابہ کرام ث کو کھانے کی دعوت پر بلایاکرتے تھے، جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہوا:

یٰٓـاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَدْخُلُوْا بُیُوْتَ النَّبِیِّ اِلَّـآ اَنْ یُّؤْذَنَ لَکُمْ اِلٰی طَعَامٍ غَیْرَ نٰظِرِیْنَ اِنٰهُ وَلٰـکِنْ اِذَا دُعِیْتُمْ فَادْخُلُوْا فَاِذَا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوْا وَلَا مُسْتَاْنِسِیْنَ لِحَدِیْثٍ.

الأحزاب، 33: 53

’’اے ایمان والو! نبیٔ (مکرّم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے گھروں میں داخل نہ ہوا کرو سوائے اس کے کہ تمہیں کھانے کے لیے اجازت دی جائے (پھر وقت سے پہلے پہنچ کر) کھانا پکنے کا انتظار کرنے والے نہ بنا کرو، ہاں جب تم بلائے جاؤ تو (اُس وقت) اندر آیا کرو پھر جب کھانا کھاچکو تو (وہاں سے اُٹھ کر) فوراً منتشر ہو جایا کرو اور وہاں باتوں میں دل لگا کر بیٹھے رہنے والے نہ بنو۔‘‘

اِن آیاتِ مبارکہ سے واضح ہے کہ کھانے کی دعوت دینا اور اپنے دوست اَحباب، ضرورت مندوں، محتاجوں اور بے کسوں کو کھاناکھلانا عین سنتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حکم خداوندی ہے۔

2۔ اَحادیثِ مبارکہ میں کھانا کھلانے کی ترغیب

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کئی مواقع پر غرباء و مساکین اور رشتہ داروں اور مستحقین کو کھانا کھلانے کی ترغیب دی ہے۔ اس حوالے سے چند اَحادیث مبارکہ ذیل میں درج کی جاتی ہیں:

1۔ حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی ﷲ عنھما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کسی شخص نے سوال کیا: بہترین اسلام کون سا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

تطعم الطعام وتقرأ السّلام علی من عرفت ومن لم تعرف.

  1. بخاری، الصحیح، کتاب الإیمان، باب إطعام الطعام من الإسلام، 1: 13، رقم : 12
  2. بخاری، الصحیح، کتاب الإیمان، باب إفشاء السّلام، 1: 19، رقم : 28
  3. بخاری، الصحیح، کتاب الإستئذان، باب السّلام للمعرفة وغیراالمعرفة، 5: 2302، رقم: 5882
  4. مسلم، الصحیح، کتاب الإیمان، باب تفاضل الإیمان، 1: 65، رقم: 39
  5. أبو داود، السنن، کتاب الأدب، باب فی إفشاء السّلام، 4: 350، رقم: 5194
  6. نسائی، السنن، کتاب الإیمان، باب أیّ الإسلام خیر، 8: 107، رقم: 5000
  7. ابن ماجه، السنن، کتاب الأطعمة، باب إطعام الطعام، 2: 1083، رقم: 3253

’’تو کھانا کھلائے یا سلام کرے اُس شخص کوجسے تو پہچانتا ہو یا نہ پہچانتا ہو۔‘‘

2۔ حضرت عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جس وقت مدینہ تشریف لائے تو اَوّل کلام جو میں نے ان سے سنا وہ یہ تھا:

یاأیها الناس! أفشوا السّلام، وأطعموا الطّعام، وصلّوا والنّاس نیام تدخلون الجنّة بسلام.

  1. ترمذی، الجامع الصحیح، کتاب صفة القیامة والرقائق والورع، 4: 652، رقم: 2485
  2. ابن ماجه، السنن، کتاب إقامة الصلاة والسنة فیھا، باب فی قیام اللیل، 1: 423، رقم: 1334
  3. ابن ماجه، السنن، کتاب الأطعمة، باب إطعام الطعام، 2: 1083، رقم: 3251
  4. أحمد بن حنبل، المسند، 5: 451، رقم: 23835
  5. دارمی، السنن، 1: 405، رقم: 1460

’’اے لوگو! سلام عام کرو اور کھانا کھلاؤ، اور نماز پڑھو جب لوگ سو رہے ہوں، تم سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہو جاؤ گے۔‘‘

3۔ حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

أعبدوا الرحمن، وأطعموا الطّعام، وأفشوا السّلام، تدخلوا الجنّة بسلام.

  1. ترمذی، الجامع الصحیح، کتاب الأطعمة، باب ما جاء فی فضل إطعام الطعام، 4: 2870، رقم: 1855
  2. أحمد بن حنبل، المسند، 2: 170، رقم: 6587
  3. دارمی، السنن، 2: 148، رقم: 2081
  4. بزار، البحر الزخار (المسند)، 6: 383، رقم: 2402
  5. بخاری، الأدب المفرد، 1: 340، رقم: 981

’’تم رحمان کی عبادت کرو اور کھانا کھلاؤ اور سلام عام کرو، سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہو جاؤ گے۔‘‘

4۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت صہیب رضی اللہ عنہ سے کثرت کے ساتھ کھانا کھلانے کا شکوہ کیا اور اسے اِسراف قرار دیا، تو انہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس فرمان کا حوالہ دیا:

خیارکم من أطعم الطّعام، وردّ السّلام.

  1. أحمد بن حنبل، المسند، 6: 16، رقم: 23971، 23974
  2. طحاوی، شرح معانی الآثار، 4: 166، 167، رقم: 7105
  3. حاکم، المستدرک علی الصحیحین، 4: 310، رقم:7739
  4. بیهقی، شعب الإیمان، 6: 478، رقم:8973

’’تم میں سے بہترین وہ ہیں جو کھانا کھلاتے ہیں اور سلام کا جواب دیتے ہیں۔‘‘

5۔ حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

من أطعم أخاه خبزاً حتی یشبعه، وسقاه ماء حتی یرویه، بعّده ﷲ عن النار سبع خنادق بُعد ما بین خندقین مسیرة خمسمائة سنة.

  1. حاکم، المستدرک علی الصحیحین، 4: 144، رقم:7172
  2. طبرانی، المعجم الأوسط، 6: 320، رقم: 6518
  3. بیهقی، شعب الإیمان، 3: 218، رقم: 3368
  4. دیلمی، الفردوس بمأثور الخطاب، 3: 576، رقم: 5807
  5. منذری، الترغیب والترهیب من الحدیث الشریف، 2: 36، رقم: 1403
  6. هیثمی، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، 3: 130

’’جو شخص اپنے کسی بھائی کو پیٹ بھر کر کھانا کھلائے اور پانی پلائے گا اللہ تعالیٰ اُسے (دوزخ کی) آگ سے سات خندق جتنے فاصلے کی دوری پَر کر دے گا، اور دو خندقوں کے درمیان پانچ سو سال کا فاصلہ ہے۔‘‘

اِن تمام اَحادیث سے یہ نتیجہ اَخذ ہوا کہ اپنے بیگانے کی تمیز کے بغیر کسی کو بھی کھانا کھلانا بہترین عمل ہے۔ یہ بھی پتہ چلا کہ کھانا کھلانے سے دوزخ سے رہائی ملتی ہے اور جنت میں ٹھکانہ ملتا ہے۔ لہٰذا اگر عام دنوں میں کسی بھوکے اور محتاج کو کھانا کھلانے کا اتنا زیادہ ثواب ہے تو جس دن بے کسوں کے والی، بے آسروں کے آسرا اور بے سہاروں کے سہارا سرورِ کونین حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اِس عالم آب و گل میں تشریف آوری ہوئی اُس موقع پر لوگوں کو کھانا کھلانا کتنے اَجر کا باعث ہوگا۔

Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved