اربعین: فضائلِ جمعۃ المبارک

الاحادیث النبویۃ

اَ لْأَحَادِيْثُ النَّبَوِيَّةُ

1. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه أَنَّهٗ سَمِعَ رَسُولَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُولُ: نَحْنُ الْآخِرُونَ السَّابِقُونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، بَيْدَ أَنَّهُمْ أُوتُوا الْکِتَابَ مِنْ قَبْلِنَا، ثُمَّ هٰذَا يَوْمُهُمُ الَّذِي فُرِضَ عَلَيْهِمْ فَاخْتَلَفُوا فِيهِ، فَهَدَانَا اﷲُ فَالنَّاسُ لَنَا فِيهِ تَبَعٌ، الْيَهُودُ غَدًا وَالنَّصَارَی بَعْدَ غَدٍ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

1: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الجمعة، باب فرض الجمعة، 1/299، الرقم: 836، ومسلم في الصحيح، کتاب الجمعة، باب هداية هذه الأمة ليوم الجمعة، 2/585، الرقم: 855، وأحمد بن حنبل في المسند، 2/312، الرقم: 8100، والنسائي في السنن، کتاب الجمعة، باب إيجاب الجمعة، 3/85، الرقم: 1367.

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ہم (دنیا میں) آخری ہیں اور روزِقیامت سب سے پہلے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم سے پہلے لوگوں کو بھی کتاب دی گئی۔ پھر یہی روز (جمعہ) ہے جو ان پر فرض کیا گیا لیکن انہوں نے اس میں اختلاف کیا تو اللہ تعالیٰ نے ہماری رہنمائی فرمائی(یعنی ہمیں یہ دن عطا فرما دیا)۔ اس بارے میں لوگ ہمارے پیروکار ہیں کیونکہ یہود کل (ہفتہ) اور نصاریٰ پرسوں (اتوار) کی طرف چلے گئے۔

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

2. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم ذَکَرَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ فَقَالَ: فِيْهِ سَاعَةٌ لَا يُوَافِقُهَا عَبْدٌ مُسْلِمٌ وَهُوَ قَائِمٌ يُصَلِّي يَسْأَلُ اﷲَ تَعَالٰی شَيْئًا إِلَّا أَعْطَاهُ إِيَّاهُ. وَأَشَارَ بِيَدِهٖ يُقَلِّلُهَا. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

2: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الجمعة، باب الساعة التي في يوم الجمعة، 1/316، الرقم: 893، ومسلم في الصحيح، کتاب الجمعة، باب في الساعة التي في يوم الجمعة، 2/583، الرقم: 852، وأحمد بن حنبل في المسند، 2/485، الرقم: 10307، والترمذي في السنن، أبواب الوتر، باب ما جاء في الساعة التي ترجی في يوم الجمعة، 2/362، الرقم: 491.

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جمعہ کے روز کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: اس میں ایک ساعت ہے جو مسلمان بندہ اسے اس حالت میں پائے کہ وہ کھڑا ہو کر نماز پڑھ رہا ہو تو وہ اللہ تعالیٰ سے جو چیز مانگے گا اسے وہی عطا فرمائے گا۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہاتھ کے اشارے سے بتایا کہ وہ قلیل وقت ہے۔

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

3. عَنْ أَبِي بُرْدَةَ بْنِ أَبِي مُوْسَی الْأَشْعَرِيِّ قَالَ: قَالَ لِي عَبْدُ اﷲِ بْنُ عُمَرَ: أَسَمِعْتَ أَبَاکَ يُحَدِّثُ عَنْ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم فِي شَأْنِ سَاعَةِ الْجُمُعَةِ؟ قَالَ: قُلْتُ: نَعَمْ، سَمِعْتُهٗ يَقُوْلُ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ: هِيَ مَا بَيْنَ أَنْ يَجْلِسَ الْإِمَامُ إِلٰی أَنْ تُقْضَی الصَّـلَاةُ.

رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَبُوْ دَاوُدَ.

3: أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الجمعة، باب في الساعة التي في يوم الجمعة، 2/584، الرقم: 853، وأبو داود في السنن، کتاب الصلاة، باب الإجابة أية ساعة هي في يوم الجمعة، 1/276، الرقم: 1049، وابن خزيمة في الصحيح، 3/120، الرقم: 1739، والروياني في المسند، 1/ 326، الرقم: 494، والبيهقي في السنن الکبری، 3/250، الرقم: 5795.

حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے حضرت ابو بُردہ کہتے ہیں: مجھ سے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا: کیا تم نے اپنے والد گرامی سے جمعہ (کے روز قبولیتِ دعا) کی ساعت کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کوئی حدیث سنی ہے؟ فرماتے ہیں: میں نے عرض کیا: جی ہاں! میں نے اپنے والد گرامی سے سنا، وہ کہتے ہیں کہ اُنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: وہ ساعت امام کے (خطبہ کے لیے) بیٹھنے سے لے کر نماز پڑھی جانے تک ہے۔

اس حدیث کو امام مسلم اور ابو داؤدنے روایت کیا ہے۔

4. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه يَقُوْلُ: قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : خَيْرُ يَوْمٍ طَلَعَتْ عَلَيْهِ الشَّمْسُ يَوْمُ الْجُمُعَةِ، فِيْهِ خُلِقَ آدَمُ وَفِيْهِ أُدْخِلَ الْجَنَّةَ وَفِيْهِ أُخْرِجَ مِنْهَا. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ وَالتِّرْمِذِيُّ وَالنَّسَائِيُّ.

4: أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الجمعة، باب فضل يوم الجمعة، 2/585، الرقم: 854، وأحمد بن حنبل في المسند، 2/512، الرقم: 10653، والترمذي في السنن، أبواب الوتر، باب ما جاء في فضل يوم الجمعة، 2/359، الرقم: 388، والنسائي في السنن، کتاب الجمعة، باب ذکر فضل يوم الجمعة، 3/89، الرقم: 1373.

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: سب سے بہترین دن جس میں سورج طلوع ہوتا ہے جمعہ کا دن ہے، (کیوںکہ) اسی دن حضرت آدم علیہ السلام پیدا کئے گئے اور اسی دن حضرت آدم علیہ السلام جنت میں داخل کئے گئے اور اسی دن وہ جنت سے (زمین پر) اُتارے گئے۔

اس حدیث کو امام مسلم، احمد، ترمذی اور نسائی نے روایت کیا ہے۔

5. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُولُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : اَلْيَوْمُ الْمَوْعُودُ يَوْمُ الْقِيَامَةِ وَالْيَوْمُ الْمَشْهُودُ يَوْمُ عَرَفَةَ وَالشَّاهِدُ يَوْمُ الْجُمُعَةِ، وَمَا طَلَعَتِ الشَّمْسُ وَلَا غَرَبَتْ عَلٰی يَوْمٍ أَفْضَلَ مِنْهُ، فِيهِ سَاعَةٌ لَا يُوَافِقُهَا عَبْدٌ مُؤْمِنٌ يَدْعُو اﷲَ بِخَيْرٍ إِلَّا اسْتَجَابَ اﷲُ لَهٗ، وَلَا يَسْتَعِیذُ مِنْ شَيْئٍ إِلَّا أَعَاذَهُ اﷲُ مِنْهُ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالطَّبَرَانِيُّ وَالْبَيْهَقِيُّ.

5: أخرجه الترمذي في السنن، کتاب تفسیر القرآن، باب ومن سورة البروج، 5/436، الرقم: 3339، والطبراني في المعجم الأوسط، 2/18، الرقم: 1087، والبيهقي في السنن الکبری، 3/170، الرقم: 5353.

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’یوم موعود‘‘ قیامت کا دن ہے، ’’یوم مشہود‘‘ عرفہ کا دن ہے اور ’’شاہد‘‘ جمعہ کا دن ہے۔ سورج اس سے اچھے دن پر طلوع اور غروب نہیں ہوا۔ اس میں ایک ایسی ساعت ہے جس میں مومن آدمی اﷲ تعالیٰ سے جس خیر کی بھی دعا کرتا ہے اﷲ تعالیٰ اس کی دعا قبول فرماتا ہے اور وہ جس چیز سے بھی پناہ مانگتا ہے اللہ تعالیٰ اسے پناہ دیتا ہے۔

اس حدیث کو امام ترمذی، طبرانی اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔

6. عَنْ أَبِي لُبَابَةَ بْنِ عَبْدِ الْمُنْذِرِ رضی الله عنه قَالَ: اَنَّ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: سَيِّدُ الْأَيَّامِ يَوْمُ الْجُمُعَةِ وَأَعْظَمُهَا عِنْدَهٗ، وَهُوَ أَعْظَمُ عِنْدَ اﷲِ مِنْ َيوْمِ الْفِطْرِ وَ يَوْمِ الْأَضْحٰی وَ فِيْهِ خَمْسُ خِـلَالٍ: خَلَقَ اﷲُ فِيْهِ آدَمَ، وَأَهْبَطَ اﷲُ فِيْهِ آدَمَ إِلَی الْأَرْضِ، وَفِيْهِ تَوَفَّی اﷲُ آدَمَ، وَفِيْهِ سَاعَةٌ لَا يَسْأَلُ الْعَبْدُ فِيْهَا شَيْئًا إِلاَّ آتاهُ اللّٰهُ تَعَالٰی وَإِيَّاهُ مَا لَمْ يَسْأَلْ حَرَامًا، وَفِيْهِ تَقُوْمُ السَّاعَةُ. مَا مِنْ مَلَکٍ مُقَرَّبٍ وَلَا سَمَاء وَلَا أَرْضٍ وَلَا رِيَاحٍ وَلَا جِبَالٍ وَلَا بَحْرٍ إِلاَّ وَهُنَّ يُشْفِقْنَ مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ.

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَابْنُ مَاجَه بِإِسْنَادٍ حَسَنٍ.

6: أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 3/430، الرقم: 15587، وابن ماجه في السنن، کتاب إقامة الصلاة والسنة فيها، باب في فضل الجمعة، 1/344، الرقم: 1084، وابن أبي شيبة في المصنف، 1/477، الرقم: 5516، والطبراني في المعجم الکبير، 5/33، الرقم: 4511.

حضرت ابو لبابہ بن عبد المنذر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جمعہ کا دن تمام دِنوں کا سردار ہے اور اﷲ تعالیٰ کے ہاں سب دِنوں سے زیادہ عظمت والا ہے۔ یہ اﷲ تعالیٰ کے ہاں عید قربان اور عید الفطر کے دن سے بھی عظیم ہے۔ اس کی پانچ خوبیاں ہیں: اسی (دن) میں اﷲ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو پیدا کیا، اسی (دن) میں آدم علیہ السلام کو زمین پر اُتارا اور اسی (دن) میں آدم علیہ السلام کو وفات دی، اس میں ایک ایسا وقت ہے جس میں بندہ اﷲ تعالیٰ سے کوئی بھی چیز مانگے تو اﷲ تعالیٰ اسے ضرور عطا کرتا ہے، بشرطیکہ وہ حرام کا سوال نہ کرے اور اسی روز قیامت برپا ہو گی۔ ہر مقرب فرشتہ، آسمان، زمین، ہوا، پہاڑ اور سمندر جمعہ کے دن سے خوف محسوس کرتے ہیں۔

اِس حدیث کو امام احمد نے اور ابن ماجہ نے سند حسن کے ساتھ روایت کیا ہے۔

7. عَنْ أَوْسِ بْنِ أَوْسٍ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : مِنْ أَفْضَلِ أَيَّامِکُمْ يَوْمَ الْجُمُعَةِ، فِيْهِ خُلِقَ آدَمُ، وَفِيْهِ قُبِضَ، وَفِيْهِ النَّفْخَةُ، وَفِيْهِ الصَّعْقَةُ، فَأَکْثِرُوْا عَلَيَّ مِنَ الصَّلَاةِ فِيْهِ، فَإِنَّ صَلَاتَکُمْ مَعْرُوْضَةٌ عَلَيَّ، فَقَالُوْا: يَا رَسُوْلَ اﷲِ، وَکَيْفَ تُعْرَضُ عَلَيْکَ صَـلَاتُنَا وَقَدْ أَرِمْتَ يَعْنِيْ وَقَدْ بَلِيْتَ. قَالَ: إِنَّ اﷲَ سبحانه وتعالیٰ حَرَّمَ عَلَی الْأَرْضِ أَنْ تَأْکُلَ أَجْسَادَ الْأَنْبِيَاءِ.

وفي رواية: فَقَالَ: إِنَّ اﷲَ جَلَّ وَعَـلَا حَرَّمَ عَلَی الْأَرْضِ أَنْ تَأْکُلَ أَجْسَامَنَا.

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَأَبُوْ دَاوُدَ وَالنَّسَائِيُّ وَابْنُ مَاجَه وَالدَّارِمِيُّ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَابْنُ خُزَيْمَةَ وَابْنُ حِبَّانَ. وَقَالَ الْحَاکِمُ: هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ عَلَی شَرْطِ الْبُخَارِيِّ. وَقَالَ الْوَادِيَاشِيُّ: صَحَّحَهُ ابْنُ حِبَّانَ. وَقَالَ الْعَسْقَـلَانِيُّ: وَصَحَّحَهُ ابْنُ خُزَيْمَةَ. وَقَالَ الْعَجْلُوْنِيُّ: رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ بِإِسْنَادٍ جَيِّدٍ. وَقَالَ ابْنُ کَثِيْرٍ: تَفَرَّدَ بِهِ أَبُوْ دَاوُدَ وَصَحَّحَهُ النَّوَوِيُّ فِي الْأَذْکَارِ.

7: أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 4/8، الرقم: 16207، وأبو داود في السنن، کتاب الصلاة، باب فضل يوم الجمعة وليلة الجمعة، 1/275، الرقم: 1047، والنسائي في السنن، کتاب الجمعة، باب بإکثار الصلاة علی النبي صلی الله عليه وآله وسلم يوم الجمعة، 3/91، الرقم: 1374، وابن ماجه في السنن، کتاب إقامة الصلاة، باب في فضل الجمعة، 1/345، الرقم: 1085، والدارمي في السنن، 1/445، الرقم: 1572، وابن أبي شيبة في المصنف، 2/253، الرقم: 8697، والبزار في المسند، 8/411، الرقم: 3485، وابن خزيمة في الصحيح، 3/118، الرقم: 1733، 1734، وابن حبان في الصحيح، 3/190، الرقم:910، والحاکم في المستدرک، 1/413، الرقم: 1029.

حضرت اَوس بن اَوس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: بیشک تمہارے دنوں میں سے جمعہ کا دن سب سے بہتر ہے۔ اس دن حضرت آدم علیہ السلام پیدا ہوئے، اور اسی دن انہوں نے وفات پائی اور اسی دن صور پھونکا جائے گا، اور اسی دن سخت آواز ظاہر ہو گی۔ سو اس دن مجھ پر کثرت سے درود بھیجا کرو کیونکہ تمہارا درود مجھے پیش کیا جاتا ہے۔ صحابہ کرام نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہمارا درود آپ کو کیسے پیش کیا جائے گا؟ جبکہ آپ کا جسدِ مبارک خاک میں مل چکا ہو گا؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: بیشک اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے زمین پر انبیائے کرام کے جسموں کو (کھانا) حرام کر دیا ہے۔

اور ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: بے شک اللہ برزگ و برتر نے زمین پر حرام قرار دیا ہے کہ وہ ہمارے جسموں کو کھائے۔

اس حدیث کو امام احمد، ابو داود، نسائی، ابن ماجہ، دارمی، ابن ابی شیبہ، بزار، ابن خزیمہ اور ابن حبان نے روایت کیا ہے اور امام حاکم نے فرمایا: یہ حدیث امام بخاری کی شرائط پر صحیح ہے اور امام وادیاشی نے فرمایا: اسے امام ابن حبان نے صحیح قرار دیا ہے اور امام عسقلانی نے فرمایا: اسے امام ابن خزیمہ نے صحیح قرار دیا ہے اور امام عجلونی نے فرمایا: اسے امام بیہقی نے جید سند کے ساتھ روایت کیا ہے۔ اور حافظ ابن کثیر نے کہا ہے: اسے امام ابو داؤد نے منفرد روایت کہا ہے اور امام نووی نے الاَذکار میں صحیح قرار دیا ہے۔

8. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ: قِيلَ لِلنَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم لِأَيِّ شَيْئٍ سُمِّيَ يَوْمُ الْجُمُعَةِ؟ قَالَ: لِأَنَّ فِيهَا طُبِعَتْ طِينَةُ أَبِيکَ آدَمَ وَفِيهَا الصَّعْقَةُ وَالْبَعْثَةُ وَفِيهَا الْبَطْشَةُ وَفِي آخِرِ ثَـلَاثِ سَاعَاتٍ مِنْهَا سَاعَةٌ، مَنْ دَعَا اﷲَ سبحانه وتعالیٰ فِيهَا اسْتُجِيبَ لَهٗ. رَوَاهُ أَحْمَدُ.

8: أخرجه أحمد في المسند، 2/311، الرقم:8088، وذکره التبريزي في مشکاة المصابيح، 1/431، الرقم: 1365، والمنذري في الترغيب والترهيب، 1/284، 1051.

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا گیا: جمعہ کے دن کو یہ نام کس شے کی وجہ سے دیا گیا ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کیونکہ اس دن تمہارے باپ حضرت آدم علیہ السلام کا خمیر تیار کیا گیا، اور اسی دن صور پھونکا جائے گا اور اسی دن لوگوں کو قبروں سے اٹھایا جائے گا اور اسی دن حساب کتاب ہو گا اور اس کی آخری تین گھڑیوں میں ایک گھڑی ایسی ہے جس میں جو کوئی اﷲ تعالیٰ سے دعا کرتاہے تو اس کی دعا قبول کی جاتی ہے۔

اس حدیث کو امام احمد نے روایت کیا ہے۔

9. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم أَنَّهٗ قَالَ: الْتَمِسُوا السَّاعَةَ الَّتِي تُرْجٰی فِي يَوْمِ الْجُمُعَةِ بَعْدَ الْعَصْرِ إِلٰی غَيْبُوبَةِ الشَّمْسِ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ.

9: أخرجه الترمذي في الصحيح، کتاب الجمعة، باب في الساعة التيترجی في يوم الجمعة، 2/360، الرقم: 489، وذکره التبريزي في مشکاة المصابيح، 1/429، الرقم: 1360.

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اس ساعت کو تلاش کرو جس کے بارے میں امید ہے کہ وہ جمعہ کے دن عصر کی نماز کے بعد سے لے کر غروب آفتاب کے درمیان ہے۔

اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔

10. عَنْ عَمَّارِ بْنِ أَبِي عَمَّارٍ قَالَ: قَرَأَ ابْنُ عَبَّاسٍ {الْيَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِينَکُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْکُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَکُمْ الْإِسْلَامَ دِينًا} [المائدة، 5: 3] وَعِنْدَهٗ يَهُودِيٌّ، فَقَالَ: لَوْ أُنْزِلَتْ هٰذِهِ عَلَيْنَا لَاتَّخَذْنَا يَوْمَهَا عِيدًا. قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: فَإِنَّهَا نَزَلَتْ فِي يَوْمِ عِيدَيْنِ، فِي يَوْمِ جُمُعَةٍ وَيَوْمِ عَرَفَةَ.

رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالطَّيَالِسِيُّ وَالطَّبَرَانِيُّ وَالطَّحَاوِيُّ.

10: أخرجه الترمذي في السنن، کتاب تفسیر القرآن، باب ومن سورة المائدة، 5/250، الرقم: 3044، والطیالسي في المسند، 1/353، الرقم: 2709، والطبراني في المعجم الکبیر، 12/184، الرقم: 12835، والطحاوي في شرح مشکل الآثار، 6/308.

حضرت عمار بن ابی عمار سے روایت ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے آیت مبارکہ {آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لیے اسلام کو (بطور) دین (یعنی مکمل نظام حیات کی حیثیت سے) پسند کر لیا۔ } پڑھی تو پاس ہی (کھڑا) ایک یہودی کہنے لگا کہ اگر یہ آیت ہم پر نازل ہوتی تو ہم اس کے نزول کا دن عید کے طورپر مناتے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: بے شک یہ آیت دو عیدوں یعنی جمعہ اور عرفہ کے دن نازل ہوئی۔

اس حدیث کو امام ترمذی، طیالسی، طبرانی اور طحاوی نے روایت کی ہے۔

11. عَنْ طَارِقِ بْنِ شِهَابٍ رضی الله عنه عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: الْجُمُعَةُ حَقٌّ وَاجِبٌ عَلٰی کُلِّ مُسْلِمٍ فِي جَمَاعَةٍ إِلَّا أَرْبَعَةً: عَبْدٌ مَمْلُوکٌ أَوِ امْرَأَةٌ أَوْ صَبِيٌّ أَوْ مَرِيضٌ. رَوَاهُ أَبُوْ دَاوُدَ وَالْحَاکِمُ وَالْبَيْهَقِيُّ.

11: أخرجه أبو داود في السنن، کتاب الصلاة، باب الجمعة للمملوک والمرأة، 1/280، الرقم: 1067، والحاکم في المستدرک، 1/425، الرقم: 1062، والبيهقي في السنن الکبری، 3/172، الرقم: 5368، وأیضا في معرفة السنن والآثار، 2/471، الرقم: 1678.

حضرت طارق بن شہاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: نمازِ جمعہ ادا کرنا ہر مسلما ن پرضروری حق ہے ماسوائے چار کے: مملوک غلام، عورت، بچہ اور بیمار۔ ‘‘ اس حدیث کو امام ابو داؤد، حاکم اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔

12. عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اﷲِ رضی الله عنه قَالَ:خَطَبَنَا رَسُولُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم فَقَالَ: وَاعْلَمُوا أَنَّ اﷲَ قَدِ افْتَرَضَ عَلَيْکُمُ الْجُمُعَةَ فِي مَقَامِي هٰذَا، فِي يَوْمِي هٰذَا فِي شَهْرِي هٰذَا مِنْ عَامِي هٰذَا إِلٰی يَوْمِ الْقِيَامَةِ، فَمَنْ تَرَکَهَا فِي حَيَاتِي أَوْ بَعْدِي وَلَهٗ إِمَامٌ عَادِلٌ أَوْ جَائِرُ اسْتِخْفَافًا بِهَا أَوْ جُحُودًا لَهَا، فَـلَا جَمَعَ اﷲُ لَهٗ شَمْلَهٗ وَلَا بَارَکَ لَهٗ فِي أَمْرِهٖ. أَلَا وَلَا صَلَاةَ لَهٗ وَلَا زَکَاةَ لَهٗ وَلَا حَجَّ لَهٗ وَلَا صَوْمَ لَهٗ وَلَا بِرَّ لَهٗ حَتَّی يَتُوبَ، فَمَنْ تَابَ تَابَ اﷲُ عَلَيْهِ. رَوَاهُ ابْنُ مَاجَه وَأَبُوْ يَعْلٰی وَالطَّبَرَانِيُّ وَالْبَيْهَقِيُّ.

12: أخرجه ابن ماجہ في السنن، کتاب إقامة الصلاة والسنة فیھا، باب في فرض الجمعة، 1/343، الرقم: 1081، وأبو یعلی في المسند، 3/ 382، الرقم: 1856، والطبراني في المعجم الأوسط، 2/64، الرقم: 1261، والبيهقي في السنن الکبری، 3/171، الرقم: 5359.

حضرت جابر بن عبد اﷲ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں خطبہ ارشاد فرمایا، پس فرمایا: اور جان لو کہ اللہ تعالیٰ نے تم پر جمعہ اس مقام، اس دن، اس مہینہ میں فرض کیا ہے اور اس سال سے تا قیامت فرض ہے۔ جس نے اسے میری زندگی میں یا میرے بعد چھوڑا حالانکہ اس کے لیے امام موجود ہو- چاہے وہ منصف ہو یا ظالم- اسے حقیر جانتے ہوئے یا اس کا انکار کرتے ہوئے تو اللہ تعالیٰ اس کے ٹکڑے ٹکڑے کرے اور اس کے کام میں برکت نہ کرے۔ خبردار! نہ تو اس کی نماز ہے، نہ زکوٰۃ، نہ حج، نہ روزہ اور نہ کوئی نیکی، حتیٰ کہ وہ توبہ کرے۔ پس جو توبہ کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول فرماتا ہے۔

اس حدیث کو امام ابن ماجہ، ابو یعلیٰ، طبرانی اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔

13. عَنْ جَابِرٍ رضی الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: مَنْ کَانَ يُؤْمِنُ بِاﷲِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَعَلَيْهِ الْجُمُعَةُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ إِلَّا مَرِيْضٌ أَوْ مُسَافِرٌ أَوِ امْرَأَةٌ أوْ صَبِيٌّ أَوْ مَمْلُوْکٌ، فَمَنِ اسْتَغْنٰی بِلَهْوٍ أَوْ تِجَارَةٍ اسْتَغْنَی اﷲُ عَنهُ وَاﷲُ غَنِيٌّ حَمِيْدٌ. رَوَاهُ الدَّارَقُطْنِيُّ.

13: أخرجه الدارقطني في السنن، 1/283، الرقم: 1560.

حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جو شخص اﷲ تعالیٰ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے تو اس پر جمعہ کے دن نماز جمعہ فرض ہے سوائے بیمار، مسافر، عورت، بچے اور مملوک غلام کے۔ جو کھیل یا تجارت میں مشغول رہنے کی وجہ سے نماز جمعہ سے بے نیاز رہا تو اﷲ تعالیٰ کو بھی اس کی ضرورت نہیںاور اﷲ تعالیٰ غنی اور لائق تعریف ہے۔

اِس حدیث کو امام دار قطنی نے روایت کیا ہے۔

14. عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ عُمَرَ وَأَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنهم قَالَا: أَنَّهُمَا سَمِعَا رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ عَلٰی أَعْوَادِ مِنْبَرِهٖ: لَيَنْتَهِيَنَّ أَقْوَامٌ عَنْ وَدْعِهِمُ الْجُمُعَاتِ أَوْ لَيَخْتِمَنَّ اﷲُ عَلٰی قُلُوبِهِمْ، ثُمَّ لَيَکُونُنَّ مِنَ الْغَافِلِينَ.

رَوَاهُ مُسلِمٌ وَأَحْمَدُ.

14: أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الجمعة، باب التغليظ في ترک الجمعة 2/591، الرقم: 865 (40)، وأحمد بن حنبل في المسند، 1/239، الرقم: 2132، والنسائي في السنن، کتاب الجمعة، باب التشديد في التخلف عن الجمعة، 3/88، الرقم: 1370، وابن ماجه في السنن، کتاب المساجد والجماعات باب التغليظ في التخلف عن الجماعة، 1/260، الرقم: 794.

حضرت عبد اللہ بن عمر اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہم بیان کرتے ہیں کہ ان دونوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو منبر کی سیڑھیوں پر یہ فرماتے ہوئے سنا: جمعہ چھوڑنے سے لوگ باز آ جائیں ورنہ اللہ تعالیٰ ان کے دلوں پر مہر لگا دے گا اور پھر وہ غافلوں میں سے ہو جائیں گے۔

اس حدیث کو امام مسلم اور احمد بن حنبل نے روایت کیا ہے۔

15. عَنْ عَبْدِ اﷲِ رضی الله عنه أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ لِقَوْمٍ يَتَخَلَّفُونَ عَنِ الْجُمُعَةِ: لَقَدْ هَمَمْتُ أَنْ آمُرَ رَجُلًا يُصَلِّي بِالنَّاسِ ثُمَّ أُحَرِّقَ عَلٰی رِجَالٍ يَتَخَلَّفُونَ عَنِ الْجُمُعَةِ بُيُوتَهُمْ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ.

15: أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب المساجد و مواضع الصلاة، باب فضل صلاة الجماعة وبیان التشديد في التخلف عنها، 1/452، الرقم: 652 (254)، وأحمد بن حنبل في المسند، 1/402، الرقم: 3816، وأبو يعلی في المسند، 9/228، الرقم: 5335، وابن أبي شيبة فيالمصنف، 1/480، الرقم: 5539، وابن خزيمة في الصحيح، 3/174، الرقم: 1853، والبيهقي في السنن الکبری، 3/172، الرقم: 5365.

حضرت عبد اللہ (بن مسعود) رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جمعہ میں حاضر نہ ہونے والوں کے بارے میں فرمایا: میں نے ارادہ کیا کہ کسی شخص کو جماعت کرانے کا حکم دوں، پھر ان لوگوں کے گھروں میں آگ لگا دوں جو نمازِ جمعہ کے لئے نہیں آتے۔

اس حدیث کو امام مسلم، احمد، ابو یعلی، ابن أبی شیبہ، ابن خزیمہ اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔

16. عَنْ أَبِي الْجَعْدِ الضَّمْرِيِّ وَکَانَتْ لَهٗ صُحْبَةٌ أَنَّ رَسُولَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: مَنْ تَرَکَ ثَـلَاثَ جُمَعٍ تَهَاوُنًا مِنْ غَيْرِ عُذْرٍ طَبَعَ اﷲُ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی عَلٰی قَلْبِهٖ. رَوَاهُ أَحْمَدُ وَأبُوْ دَاوُدَ وَالنَّسَائِيُّ.

16: أخرجه أحمد بن حنبل فی المسند، 3/424، الرقم: 15537، وأبو داود في السنن، کتاب الصلاة، باب التشديد في ترک الجمعة، 1/277، الرقم: 1052، والنسائي في السنن، کتاب الجمعة، باب التشدید في التخلف عن الجمعة، 3/88، الرقم: 1369، والحاکم فی المستدرک، 1/415، الرقم: 1034، وابن الجارود فی المنتقی، 1/81، الرقم: 288.

حضرت ابو الجعد ضمری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے-اور وہ صحابی تھے- کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جو بغیر عذر کے کاہلی کے باعث تین جمعہ ترک کردے تو اﷲ تعالیٰ اس کے دل پر مہر لگا دیتا ہے۔

اس حدیث کو امام احمد، ابو داود اور نسائی نے روایت کیا ہے۔

17. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضی الله عنهما أَنَّ النَّبِی صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: مَنْ تَرَکَ الْجُمُعَةَ مِنْ غَيْرِ ضَرُوْرَةٍ کُتِبَ مُنَافِقًا فِي کِتاَبٍ لَا يُمْحٰی وَلَا يُبَدَّلُ. وَفِي بَعْضِ الْحَدِیثِ ثَـلَا ثًا. رَوَاهُ الشَّافِعِيُّ وَالْبَيْهَقِيُّ.

17: أخرجه الشافعي في المسند، 1/70، والبيهقي في معرفة السنن والآثار، 2/527، الرقم: 1809.

حضرت (عبد اﷲ) بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس نے کسی ضروری وجہ کے بغیر جمعہ ترک کیا اسے کتاب میں منافق لکھا جائے گا جسے نہ مٹایا جا سکتا ہے اور نہ تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ اور کسی حدیث میں (مسلسل) تین بار (جمعہ ترک کرنے کا ) بھی (فرمایا) ہے۔ اس حدیث کو امام شافعی اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔

18. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم کَانَ يُصَلِّيْ الْجُمُعَةَ حِينَ تَمِيلُ الشَّمْسُ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَأَحْمَدُ وَالتِّرْمِذِيُّ.

18: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الجمعة، باب وقت الجمعة إذا زالت الشمس 1/307، الرقم: 862، وأحمد بن حنبل فی المسند، 3/150، الرقم: 12537، والترمذي فی السنن، کتاب الجمعة، باب ما جاء فی وقت الجمعة، 2/377، الرقم: 503، والطيالسي في المسند، 1/285، الرقم: 2139، وابن الجارود فی المنتقٰی، 1/81، الرقم: 389، والبيهقي في السنن الکبری 3/190، الرقم: 5460.

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُس وقت نماز جمعہ پڑھا کرتے جب سورج ڈھل جاتا۔

اس حدیث کو امام بخاری، احمد اور ترمذی نے روایت کیا ہے۔

19. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه يَقُولُ: کَانَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم إِذَا اشْتَدَّ الْبَرْدُ بَکَّرَ بِالصَّلَاةِ وَإِذَا اشْتَدَّ الْحَرُّ أَبْرَدَ بِالصَّلَاةِ يَعْنِي الْجُمُعَةَ.

رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ.

19: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الجمعة، باب إذا اشتد الحر يوم الجمعة، 1/307، الرقم: 864، وابن خزیمة في الصحيح، 3/170، الرقم: 1842، والبيهقي في السنن الکبری، 3/191، الرقم: 5469.

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ جب سخت سردی ہوتی تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز جمعہ جلد پڑھ لیتے اور جب سخت گرمی ہوتی تو نماز جمعہ ٹھنڈی کر کے پڑھتے۔ اس حدیث کو امام بخاری نے روایت کیا ہے۔

20. عَنِ السَّائِبِ بْنِ يَزِیدَ رضی الله عنه يَقُولُ: إِنَّ الْأَذَانَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ کَانَ أَوَّلُهٗ حِينَ يَجْلِسُ الْإِمَامُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ عَلَی الْمِنْبَرِ فِي عَهْدِ رَسُولِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم وَأَبِي بَکْرٍ وَعُمَرَ رضی الله عنهما، فَلَمَّا کَانَ فِي خِلَافَةِ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ رضی الله عنه وَکَثُرُوا، أَمَرَ عُثْمَانُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ بِالْأَذَانِ الثَّالِثِ، فَأُذِّنَ بِهٖ عَلَی الزَّوْرَاءِ، فَثَبَتَ الْأَمْرُ عَلٰی ذٰلِکَ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَالنَّسَائِيُّ.

20: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الجمعة، باب التأذين عند الخطبة، 1/310، الرقم: 874، وأبوداود في السنن، کتاب الصلاة، باب النداء يوم الجمعة، 1/285، الرقم: 1087، والنسائي في السنن، کتاب الجمعة، باب الأذان للجمعة 3/100، الرقم: 1392، والطبراني فيالمعجم الکبير، 7/147، الرقم: 6648، والبيهقي في السنن الکبير، 3/205، الرقم: 5535.

حضرت سائب بن یزید رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، حضرت ابو بکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما کے عہد میں جمعہ کے روز کی پہلی اذان وہی ہوتی جس وقت امام جمعہ کے روز منبر پر بیٹھتا۔ جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں لوگ بڑھ گئے تو آپ رضی اللہ عنہ نے جمعہ کے روز تیسری اذان کہنے کا حکم فرمایا۔ پس وہ زوراء کے مقام پر کہی جاتی تھی اور یہی معمول قرار پایا۔

اِس حدیث کو امام بخاری اور نسائی نے روایت کیا ہے۔

ما هوالأذان الثالث؟

قال العيني: إنما سمي ثالثا باعتبارکونه مزيدا، لأن الأول هو الأذان عند جلوس الإمام علی المنبر، والثاني هو الإقامة للصلاة عند نزوله، والثالث عند دخول وقت الظهر. فإن قلت: هو الأول لأنه مقدم عليهما. قلت: نعم، هو أول فی الوجود، ولکنهٗ ثالث باعتبار شرعيته باجتهاد عثمان وموافقة سائر الصحابة به بالسکوت وعدم الإنکار، فصار إجماعا سکوتيا، وإنما أطلق الأذان علی الإقامة لأنها إعلام کالأذان، ومنه قوله: ’’بَيْنَ کُلِّ أَذَانَيْنِ صَلَاةٌ لِمَنْ شَاءَ‘‘ ويعنی به بين الأذان والإقامة، وإنما أولناه هٰکذا حتی لا يلزم أن يکون الأذان ثلاثا، ولم يکن کذلک ولا يلزم أيضا أن يکون فی الزمن الأول أذانان، ولم يکن إلا أذان واحد، فالأذان الثالث الذي زاده عثمان هو الأول اليوم، فيکون الأول هو الأذان الذي کان في زمن النبي صلی الله عليه وآله وسلم وزمن أبي بکر وعمر رضی الله عنهما عند الجلوس علی المنبر، والثاني هو الإقامة، والثالث الأذان الذي زاده عثمان، فأذن به علی الزوراء. (1)

(1) العيني، عمدة القاري شرح صحيح البخاري، 6/211.

تیسری اذان سے کیا مراد ہے؟

امام عینی فرماتے ہیں: اس کو تیسری اذان زیادہ ہونے کی نسبت سے کہا گیا ہے، کیونکہ پہلی اذان امام کے منبر پر بیٹھنے کے وقت ہے اور دوسری اس کے منبر سے اترنے کے وقت اقامتِ نماز کے لئے ہے اور تیسری ظہر کا وقت داخل ہونے کے وقت ہے۔ اور اگر آپ کہیں کہ یہ تو پہلی اذان ہے کیونکہ یہ باقی دونوں اذانوں سے پہلے ہے، تو میرا جواب یہ ہے کہ ہاں یہ باعتبارِ وجود اول ہے مگر حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے اجتہاد اور جمیع صحابہ کرام کی اس سے سکوت کے ساتھ موافقت اورعدم انکار کی وجہ سے اپنی شرعی حیثیت کے اعتبار سے تیسری ہے.پس یہ اجماع سکوتی ٹھہرا۔ اور اقامت پر اذان کا اطلاق اس وجہ سے کیا گیا ہے کیونکہ یہ اذان کی طرح اعلان ہے اوریہ فرمان رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسی قبیل سے ہے کہ’’ہر دو اذانوں کے درمیان نماز ہے اس کے لئے جو چاہے۔ ‘‘ اس سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مراد اذان اور اقامت کے درمیانی وقت ہے۔ اور ہم نے اس کی یہ تاویل اس لئے کی ہے کہ اذان تین بار لازم نہ آئے۔ اور ایسا نہیں تھا اور لازم نہیں آتا کہ پہلے زمانہ میں دو اذانیں ہوں اور اس وقت بھی ایک ہی اذان تھی۔ پس تیسری اذان- جس کا اضافہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے فرمایا- وہ آج کے دورمیں پہلی اذان ہے.پس حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کے عہد میں منبر پر بیٹھتے وقت کہی گئی اذان پہلی اذان ہے اور دوسری اذان اقامت ہے اور تیسری اذان وہ ہے جسے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے زیادہ کیا اور زوراء کے مقام پر دی گئی۔

قال ابن رجب في فتح الباري: (فثبت الأمر علی ذلک) يدل علی أن هذا من حين حدده عثمان استمر، ولم يترک بعده. وهذا يدل علی أن علياً أقر عليه، ولم يبطله، فقد اجتمع علی فعله خليفتان من الخلفاء الراشدين رضی الله عنهم.

ابن رجب الحنبلي، فتح الباری، 5/462.

علامہ ابن رجب فتح الباری میں کہتے ہیں: ’پس تیسری اذان کا یہ معمول اسی طرح قائم رہا‘ یہ قول اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ یہ عمل اس وقت سے جاری ہے جب سے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے اسے شروع فرمایا تھا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بھی اس عمل کو برقرار رکھا اور اسے باطل قرار نہ دیا۔ پس آپ رضی اللہ عنہ کے اس عمل پر خلفائے راشدین میں سے دو خلفاء متفق ہوئے۔

ما هي الزَّوْرَاءُ؟

قال العيني: وقد فسرها البخاري بقوله: موضع بالسوق بالمدينة. وقال ابن بطال: هو حجر کبير عند باب المسجد. قال أبو عبيد: هي ممدودة ومتصلة بالمدينة وبها کان مال أحيحة بن الجلاح، وهی التي عنيت بقوله:

إني مقيم علی الزوراء أعمرها
إن الکريم علی الإخوان ذو المال

وقال أبو عبد اﷲ الحموي: هی قرب الجامع مرتفعة کالمنارة، ويفرق بينها وبين أرض أحيحة، وفي فتاوی ابن يعقوب الخاصي: هي المأذنة وفيه نظر، ولم يکن في زمن النبي صلی الله عليه وآله وسلم مأذنة التي يقال لها المنارة، نعم کل موضع مرتفع عال يشبه بالمنارة وعند ابن ماجه وابن خزيمة بلفظ زاد النداء الثالث علی دار في السوق، يقال لها الزوراء. وعند الطبراني: فأمر بالنداء الأول علی دار له يقال لها الزوراء. (1)

العيني، عمدة القاری، 6/212

زوراء کون سا مقام ہے؟

امام عینی فرماتے ہیں: امام بخاری نے اس کی تفسیر اپنے اس قول سے کی ہے: یہ مدینہ طیبہ کے ایک بازار میں ایک جگہ کا نام ہے۔ اور ابن بطال کہتے ہیں: یہ مسجدنبوی کے دروازے کے قریب ایک بڑا پتھر ہے۔ ابو عبید کہتے ہیں: یہ جگہ پھیلی ہوئی ہے اور مدینہ منورہ سے متصل ہے۔ اس جگہ أحیحہ بن الجلاح کا مال تھا اور یہ وہی جگہ ہے جو اس کے اس شعر میں مراد ہے:

میں زوراء کے علاقے میں مقیم ہو کر اس کو آباد کرتا ہوں
بے شک بھائیوں پر سخاوت کرنے والا صاحبِ مال ہے

اور ابو عبداﷲ الحموی کہتے ہیں: یہ مسجد نبوی کے قریب مینار کی طرح بلند مقام ہے اور وہ اس کے اورأحیحہ کی زمین کے درمیان فرق کرتے ہیں۔ اور فتاوی ابن یعقوب الخاصی میں ہے کہ یہ اذان دینے کی جگہ ہے اور یہ محل نظر ہے اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عہد میں ا ذان دینے کے لئے کوئی ایسا مقام نہیں تھا جسے مینار کہا جائے۔ ہاں ہر اونچا اور بلند مقام مینار کے مشابہ ہوتاہے۔ اور ابن ماجہ اور ابن خزیمہ کے یہ الفاظ ہیں: آپ رضی اللہ عنہ نے بازار میں جسے زوراء کہا جاتا ہے۔ ایک گھرپر تیسری اذان کا اضافہ فرمایا اور طبرانی کے یہ الفاظ ہیں کہ آپ رضی اللہ عنہ نے اپنے ایک گھر جسے زوراء کہا جاتا ہے پر پہلی اذان دینے کا حکم فرمایا۔

21. عَنِ السَّائِبِ بْنِ يَزِيْدَ رضی الله عنه قَالَ: إِنَّ التَّأْذِينَ الثَّانِيَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ أَمَرَ بِهِ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ رضی الله عنه حِينَ کَثُرَ أَهْلُ الْمَسْجِدِ وَکَانَ التَّأْذِينُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ حِينَ يَجْلِسُ الإِمَامُ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ.

21: أخرجه البخاري فی الصحيح، کتاب الجمعة، باب الجلوس علی المنبر عند التأذين، 1/310، الرقم:873.

حضرت سائب بن یزید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جمعہ کے روز دوسری اذان کہنے کا حکم حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے دیا جب کہ مسجد میں آنے والوں کی تعداد بڑھ گئی ورنہ جمعہ کے روز صرف اُس وقت اذان ہوتی تھی جب امام منبر پر بیٹھ جاتا تھا۔

اس حدیث کو امام بخاری نے روایت کیا ہے۔

22. عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ عُمَرَ رضی الله عنهما أَنَّ رَسُولَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: إِذَا جَاءَ أَحَدُکُمْ الْجُمُعَةَ فَلْيَغْتَسِلْ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

22: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الجمعة، باب فضل الغسل يوم الجمعة، 1/299، الرقم: 837، ومسلم في الصحيح، کتاب الجمعة، 2/579، الرقم: 844، والترمذي في السنن، کتاب الجمعة، باب ما جاء في الاغتسال يوم الجمعة، 2/364، الرقم: 492، والنسائي في السنن، کتاب الجمعة، باب الأمر بالغسل يوم الجمعة، 3/93، الرقم: 1376، وابن ماجه في السنن، کتاب إقامة الصلاة والسنة فيها، باب ما جاء في الغسل يوم الجمعة، 1/346، الرقم:1088.

حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی نماز جمعہ کے لیے آئے تو اسے غسل کر لینا چاہیے۔

یہ حدیث متفق علیہ ہے

23. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : مَنْ تَوَضَّأَ فَأَحْسَنَ الْوُضُوْءَ، ثُمَّ أَتَی الْجُمُعَةَ فَاسْتَمَعَ وَأَنْصَتَ غُفِرَ لَهٗ مَا بَيْنَهٗ وَبَيْنَ الْجُمُعَةِ وَزِيَادَةُ ثَــلَاثَةِ أَيَّامٍ، وَمَنْ مَسَّ الْحَصٰی فَقَدْ لَغَا.

رَوَاهُ مُسْلِمٌ وََأَبُوْدَاوُدَ وَالتِّرْمِذِيُّ وَابْنُ مَاجَه.

23: أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الجمعة، باب فضل من استمع وأنصت في الخطبة، 2/588، الرقم: 857، وأبو داود في السنن، کتاب الصلاة، باب فضل الجمعة، 1/276، الرقم: 1050، والترمذي في السنن، کتاب الجمعة، باب ما جاء في الوضوء يوم الجمعة، 2/ 371، الرقم: 498، وابن ماجه في السنن، کتاب إقامة الصلاة والسنة فيها، باب ما جاء في الرخصة في ذلک، 1/346، الرقم: 1090.

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے اچھی طرح وضو کیا، پھر جمعہ پڑھنے آیا اور خاموشی کے ساتھ غور سے خطبہ سنا، اس کے اس جمعہ سے لے کر گزشتہ جمعہ تک اور تین دن زائد کے گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں اور جس شخص نے کنکریاں چھوئیں(یعنی توجہ سے خطبہ نہ سنا بلکہ کنکریوں سے کھیلتا رہا ) اس نے لغو کام کیا۔

اس حدیث کو امام مسلم، ابو داود، ترمذی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔

24. عَنْ سَلْمَانَ الْفَارِسِيِّ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم : لَا يَغْتَسِلُ رَجُلٌ يَوْمَ الْجُمُعَةِ وَيَتَطَهَرُ مَا اسْتَطَاعَ مِنْ طُهْرٍ وَيَدَّهِنُ مِنْ دُهْنِهٖ أَوْ يَمَسُّ مِنْ طِيْبِ بَيْتِهٖ، ثُمَّ يَخْرُجُ فَـلَا يُفَرِّقُ بَيْنَ اثْنَيْنِ، ثُمَّ يُصَلِّي مَا کُتِبَ لَهٗ، ثُمَّ يُنْصِتُ إِذَا تَکَلَّمَ الْإِمَامُ إِلَّا غُفِرَ لَهٗ مَا بَيْنَهٗ وَبَيْنَ الْجُمُعَةِ الْأُخْرٰی. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَأَحْمَد وَابْنُ مَاجَه.

24: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الجمعة، باب الدهن للجمعة، 1/301، الرقم: 843، وأحمد بن حنبل في المسند، 5/438، الرقم: 23761، وابن ماجه عن أبي ذر في السنن، کتاب إقامة الصلاة والسنة فيها، باب ما جاء في الزينة يوم الجمعة، 1/349، الرقم: 1097.

حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جو آدمی جمعہ کے روز غسل کرے اور حسبِ استطاعت طہارت کرے، تیل لگائے اور خوشبو لگائے، پھر اپنے گھر سے نمازِ جمعہ کے لیے نکلے اور (صفوں کی حالت میں پرسکون بیٹھے ہوئے) دو آدمیوں کے درمیان نہ گھسے، پھر نماز پڑھے جو اس پر فرض کی گئی ہے، پھر جب امام خطبہ دے تو خاموش رہے تو اس کے اس جمعہ سے دوسرے جمعہ تک کے گناہ بخش دیئے جاتے ہیں۔

اس حدیث کو امام بخاری، احمد اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔

25. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ رَسُولِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ:تَقْعُدُ الْمَلَائِکَةُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ عَلَی أَبْوَابِ الْمَسْجِدِ يَکْتُبُونَ النَّاسَ عَلَی مَنَازِلِهِمْ، فَالنَّاسُ فِيهِ کَرَجُلٍ قَدَّمَ بَدَنَةً، وَکَرَجُلٍ قَدَّمَ بَقَرَةً، وَکَرَجُلٍ قَدَّمَ شَاةً، وَکَرَجُلٍ قَدَّمَ دَجَاجَةً، وَکَرَجُلٍ قَدَّمَ عُصْفُورًا، وَکَرَجُلٍ قَدَّمَ بَيْضَة

رَوَاهُ النَّسَائِيُّ وَابْنُ خُزَيْمَةَ وَابْنُ حِبَّانَ وَأبُوْ يَعْلیٰ.

25: أخرجه النسائي في السنن، کتاب الصّلاة، باب التبکير إلی الجمعة، 3/98، الرقم: 1387، وابن خزيمة في الصحيح، 3/1341، وابن حبان في الصحيح، 7/11، الرقم: 2774، وأبو يعلیٰ في المسند، 11/385، الرقم: 6498.

ً سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: فرشتے جمعۃ المبارک کے دن مسجد کے دروازوں پر بیٹھتے ہیں اور لوگوں کو ان کے درجوں کے مطابق لکھتے ہیں، پس بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جیسے کسی شخص نے قربانی کے لیے مکہ مکرمہ میں اونٹ بھیجا، بعضے لوگ ایسے ہوتے ہیں جیسے کسی نے ایک گائے قربانی کے لیے بھیجی، اور بعضے ایسے ہوتے ہیں جیسے کسی نے ایک مرغی قربانی کے لیے بھیجی اور بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جیسے کسی نے ایک چڑیا قربانی کے لیے ارسال کی اور بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جیسے کسی نے ایک انڈا قربانی کے لیے بھیجا۔

اس حدیث کو امام نسائی، ابن خزیمہ، ابن حبان اور ابو یعلیٰ نے روایت کیا ہے۔

وَفِي رِوَايَةٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ عَنْ أَبِيْهِ عَنْ جَدِّهٖ عَنِ النَّبِِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم أَنَّهٗ قَالَ: تُبْعَثُ الْمَـلَائِکَةُ عَلٰی أَبْوَابِ الْمَسْجِدِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ يَکْتُبُوْنَ مَجِيئَ النَّاسِ، فَإِذَا خَرَجَ الإِمَامُ طُوِيَتِ الصُّحُفُ وَرُفِعَتِ الأَقْـلَامُ فَتَقُوْلُ الْمَـلَائِکَةُ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ: مَا حَبَسَ فُــلَانًا؟ فَتَقُوْلُ الْمَـلَائِکَةُ: اَللّٰهُمَّ إِنْ کَانَ ضَالاًّ فَاهْدِهٖ وَإِنْ کَانَ مَرِيْضًا فَاشْفِهٖ وَإِنْ کَانَ عَائِــلًا فَأَغْنِهٖ. رَوَاهُ ابْنُ خَُزَيْمَةَ. (1)

(1) أخرجه ابن خزيمة في الصحيح، 3/134، الرقم: 1771.

حضرت عمرو بن شعیب اپنے والد سے، وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جمعہ کے دن فرشتوں کو مساجد کے دروازوں پر بھیج دیا جاتا ہے جو لوگوں کی آمد لکھتے رہتے ہیں۔ جب امام آ جاتا ہے تو رجسٹر بند کر کے قلم روک لیے جاتے ہیں۔ فرشتے ایک دوسرے سے کہتے ہیں: فلاں آدمی کو (جمعہ میں آنے سے) کس چیز نے روکا ہے؟ پھر فرشتے کہتے ہیں: اے اﷲ! اگر وہ گمراہ ہے تو اسے ہدایت دے، اگر وہ بیمار ہے تو اسے شفا دے اور اگر وہ تنگ دست ہے تو اسے دولت مند بنا دے۔

اس حدیث کو ابن خزیمہ نے روایت کیا ہے۔

26. عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اﷲِ رضی الله عنهما قَالَ: جَائَ رَجُلٌ وَالنَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم يَخْطُبُ النَّاسَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ فَقَالَ: أَصَلَّيْتَ يَا فُـلَانُ؟ قَالَ: لَا. قَالَ: قُمْ فَارْکَعْ رَکْعَتَيْنِ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

26: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الجمعة، باب إذا رأی الإمام رجلا جاء و هو يخطب أمره أن يصلي رکعتين، 1/315، الرقم: 888، ومسلم في الصحيح، کتاب الجمعة، باب التحية والإمام يخطب، 2/596، الرقم: 875، وأبوداود في السنن، کتاب الصلاة، باب إذا دخل الرجل والإمام يخطب، 1/291، الرقم: 1116، وابن ماجه في السنن، کتاب إقامة الصلاة والسنة فيها، باب ما جاء فيمن دخل المسجد والإمام يخطب، 1/353، الرقم: 1114.

حضرت جابر بن عبد اﷲ رضی اللہ عنہما نے فرمایا: ایک آدمی آیا درآنحالیکہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جمعہ کے روز خطبہ دے رہے تھے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے فلاں! کیا تم نے نماز پڑھی؟ عرض کیا: نہیں۔ فرمایا: پھر کھڑے ہو کر دو رکعتیں پڑھ لو۔ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

27. عَنْ أَبِيْ هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: إِذَا قُلْتَ لِصَاحِبِکَ أَنْصِتْ يَوْمَ الْجُمُعَةِ وَالْإِمَامُ يَخْطُبُ، فَقَدْ لَغَوْتَ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

27: أخرجه البخاري في الصحيح کتاب الجمعة، باب الإنصات يوم الجمعة والإمام يخطب وإذا قال لصاحبه: أنصت فقد لغا، 1/316، الرقم: 892، ومسلم في الصحيح، کتاب الجمعة، باب في الإنصات يوم الجمعة فيالخطبة، 2/583، الرقم: 851، وأحمد بن حنبل في المسند، 2/272، الرقم: 7672، وأبوداود في السنن، کتاب الصلاة، باب الکلام والإمام یخطب، 1/290، الرقم: 1112، والنسائي في السنن، کتاب الجمعة، باب الإنصات للخطبة يوم الجمعة، 3/104، الرقم: 1402، وابن ماجه في السنن، کتاب إقامة الصلاة والسنة فيها، باب ما جاء في الاستماع للخطبة والإنصات لها، 1/352، الرقم: 1110.

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اگر تم نے جمعہ کے دن دورانِ خطبہ اپنے ساتھی سے کہا ’’چپ ہو جائو تو تم نے لغو کام کیا۔ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

28. عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ رضی الله عنه قَالَ: کَانَتْ لِلنَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم خُطْبَتَانِ يَجْلِسُ بَيْنَهُمَا، يَقْرَأُ الْقُرْآنَ وَيُذَکِّرُ النَّاسَ.

رَوَاهُ مُسْلِمٌ وأَحْمَدُ وَأَبُوْ دَاوُدَ.

28: أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الجمعة، باب ذکر الخطبتين قبل الصلاة وما فيهما من الجلسة، 2/589، الرقم: 862، وأحمد بن حنبل فيالمسند، 5/94، الرقم: 20916، وأبو داود في السنن، کتاب باب الخطبة قائماً، 1/286، الرقم: 1094، والدارمي في السنن، 1/441، الرقم: 1559، وابن ابي شيبة في المصنف، 1/448، الرقم: 5177.

حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دو خطبے دیتے تھے اور ان کے درمیان آپ بیٹھتے۔ (خطبہ میں) آپ قرآن مجید پڑھتے اور لوگوں کو نصیحت فرماتے۔

اس حدیث کو امام مسلم، احمد اور ابوداود نے روایت کیاہے۔

29. عَنْ أَبِي رِفَاعَةَ رضی الله عنه قَالَ: انْتَهَيْتُ إِلَی النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم وَهُوَ يَخْطُبُ قَالَ: فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اﷲِ، رَجُلٌ غَرِيبٌ جَاءَ يَسْأَلُ عَنْ دِيْنِهٖ، لَا يَدْرِي مَا دِيْنُهٗ. قَالَ: فَأَقْبَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم وَتَرَکَ خُطْبَتَهٗ حَتَّی انْتَهٰی إِلَيَّ، فَأُتِيَ بِکُرْسِیٍّ حَسِبْتُ قَوَائِمَهٗ حَدِيدًا. قَالَ: فَقَعَدَ عَلَيْهِ رَسُولُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم وَجَعَلَ يُعَلِّمُنِي مِمَّا عَلَّمَهُ اﷲُ، ثُمَّ أَتٰی خُطْبَتَهٗ فَأَتَمَّ آخِرَهَا. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالنَّسَائِيُّ وَالْبُخَارِيُّ فِي الْأَدَبِ الْمُفْرَدِ.

29: أخرجه مسلم فيالصحيح، کتاب الجمعة، باب حديث التعليم في الخطبة، 2/597، الرقم: 876، والنسائي في السنن، کتاب الزینة، باب الجلوس علی الکرسی، 8/220، الرقم: 5377، والبخاري في الأدب المفرد، 1/399، الرقم: 1164، وابن خزيمة في الصحيح، 3/151، الرقم: 1800، والطبراني في المعجم الکبير، 2/59، الرقم: 1284، والبيهقي في السنن الکبری، 3/218، الرقم: 5608.

حضرت ابو رفاعہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا درآں حالیکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خطبہ دے رہے تھے۔ وہ کہتے ہیں: میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ایک مسافر دین کے بارے میں سوال کرنے آیا ہے! اسے نہیں معلوم کہ دین کیا ہے! وہ کہتے ہیں کہ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خطبہ چھوڑ کر میری طرف متوجہ ہوئے اور میرے پاس تشریف لائے، پھر ایک کرسی لائی گئی۔ میرا خیال ہے اس کرسی کے پائے لوہے کے تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ پھر اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیٹھ گئے اور جو کچھ آپ کو اللہ تعالیٰ نے دین کا علم دیا تھا اس کی مجھے تعلیم دی اور پھر اپنا خطبہ پورا فرمایا۔

اس حدیث کو امام مسلم، نسائی اور بخاری نے الأدب المفرد میں روایت کیا ہے۔

30. عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضی الله عنه قَالَ: کَانَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم يَخْطُبُ خُطْبَتَيْنِ کَانَ يَجْلِسُ إِذَا صَعِدَ الْمِنْبَرَ حَتّٰی يَفْرَغَ أُرَاهُ، قَالَ الْمُؤَذِّنُ: ثُمَّ يَقُومُ فَيَخْطُبُ ثُمَّ يَجْلِسُ فَلَا يَتَکَلَّمُ ثُمَّ يَقُومُ فَيَخْطُبُ.

رَوَاهُ أَبُوْ دَاوُدَ وَالْبَيْهَقِيُّ.

30: أخرجه ابو داود في السنن، کتاب الصلاة، باب الجلوس إذا صعد المنبر، 1/286، الرقم: 1092، والبيهقي في السنن الکبری، 3/205، الرقم: 5538.

حضرت (عبد اﷲ) بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دو خطبے دیا کرتے اور منبر پر جلوہ افروز ہوکر بیٹھے رہتے، یہاں تک کہ مؤذن فارغ ہو جاتا۔ بقول راویـ: پھر کھڑے ہو کر خطبہ دیتے، پھر بیٹھ جاتے اور کسی سے کلام نہ کرتے، پھر کھڑے ہو کر دوسرا خطبہ دیتے۔

اس حدیث کو امام ابوداود اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔

31. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: مَنْ أَدْرَکَ مِنَ الْجُمُعَةِ رَکْعَةً فَلْيَصِلْ إِلَيْهَا أُخْرٰی.

رَوَاهُ ابْنُ مَاجَه وَابْنُ خُزَيْمَةَ وَالدَّارَقُطْنِيُّ وَالْحَاکِمُ وَالْبَيْهَقِيُّ.

31: أخرجه ابن ماجه في السنن، کتاب إقامة الصلاة والسنة فيها، باب ما جاء فيمن أدرک من الجمعة رکعة، 1/356، الرقم: 1121، وابن خزيمة في الصحيح، 3/174، الرقم: 1851، والدارقطني فی السنن، 1/278، الرقم: 1593، والحاکم في المستدرک، 1/429، الرقم: 1079، والبيهقي في السنن الکبری، 3/203، الرقم: 5526.

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو جمعہ کی ایک رکعت پا لے تو اس کے ساتھ دوسری رکعت ملا لے۔

اس حدیث کو امام ابن ماجہ، ابن خزیمہ، دارقطنی، حاکم اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔

32. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُولُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : إِذَا صَلَّيْتُمْ بَعْدَ الْجُمُعَةِ فَصَلُّوا أَرْبَعًا. زَادَ عَمْرٌو فِي رِوَايَتِهِ قَالَ ابْنُ إِدْرِيسَ: قَالَ سُهَيْلٌ: فَإِنْ عَجِلَ بِکَ شَيْئٌ فَصَلِّ رَکْعَتَيْنِ فِي الْمَسْجِدِ وَرَکْعَتَيْنِ إِذَا رَجَعْتَ. رَوَاهُ مُسْلِم وَأحْمَدُ وَالتِّرْمِذِيُّ وَالنَّسَائِيُّ.

32: أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الجمعة، باب الصلاة بعد الجمعة، 2/600، الرقم: 881، وأحمد بن حنبل في المسند، 2/499، الرقم:10491، والترمذي في السنن، کتاب الجمعة، باب ما جاء في الصلاة، 2/400، الرقم: 523، وأبو داود في السنن، کتاب الصلاة، باب الصلاة بعد الجمعة، 1/294، الرقم:1131، والنسائي في السنن، کتاب الجمعة، باب عدد الصلاة بعد الجمعة في المسجد، 3/113، الرقم: 1426، والدارمي في السنن، 1/446، الرقم: 1575.

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جب تم جمعہ کے بعد نماز پڑھو تو چار رکعت پڑھو۔ حضرت عمرو نے اپنی روایت میں اضافہ کیا ہے کہ ابن ادریس نے بیان کیا ہے کہ سہیل نے کہا ہے کہ اگر تمہیں جلدی ہو تو دو رکعت مسجد میں اور دو رکعت گھر جا کر پڑھو۔

اس حدیث کو امام مسلم، احمد، ترمذی اور نسائی نے روایت کیا ہے۔

33. عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : أَکْثِرُوْا الصَّلَاةَ عَلَيَّ يَوْمَ الْجُمُعَةِ، فَإِنَّهٗ مَشْهُوْدٌ تَشْهَدُهُ الْمَـلَائِکَةُ وَإِنَّ أَحَدًا لَنْ يُصَلِّيَ عَلَيَّ إِلَّا عُرِضَتْ عَلَيَّ صَلَاتُهٗ، حَتّٰی يَفْرُغَ مِنْهَا. قَالَ: قُلْتُ: وَبَعْدَ الْمَوْتِ؟ قَالَ: وَبَعْدَ الْمَوْتِ، إِنَّ اﷲَ حَرَّمَ عَلَی الْأَرْضِ أَنْ تَأْکُلَ أَجْسَادَ الْأَنْبِيَاءِ فَنَبِيُّ اﷲِ حَيٌّ يُرْزَقُ.

رَوَاهُ ابْنُ مَاجَه بِإِسْنَادٍ صَحِيْحٍ. وَقَالَ الْمُنْذِرِيُّ: رَوَاهُ ابْنُ مَاجَه بِإِسْنَادٍ جَيِّدٍ. وَقَالَ الْمُنَاوِيُّ: قَالَ الدَّمِيْرِيُّ: رِجَالُهٗ ثِقَاتٌ. وَقَالَ الْعَجْلُوْنِيُّ: حَسَنٌ.

33: أخرجه ابن ماجه في السنن، کتاب الجنائز، باب ذکر وفاته ودفنه صلی الله عليه وآله وسلم، 1/524، الرقم: 1637، وذکره المنذري في الترغيب والترهيب، 2/328، الرقم: 2582، والمزي في تهذيب الکمال، 10/23، الرقم: 2090، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 3/515، 4/493، والمناوي في فيض القدير، 2/87، والعجلوني في کشف الخفاء، 1/190، الرقم: 501.

حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جمعہ کے دن مجھ پر زیادہ سے زیادہ درود بھیجا کرو، یہ یوم مشہود (یعنی میری بارگاہ میں فرشتوں کی خصوصی حاضری کا دن) ہے، اس دن فرشتے (خصوصی طور پر کثرت سے میری بارگاہ میں) حاضر ہوتے ہیں، بے شک کوئی شخص جب بھی مجھ پر درود بھیجتا ہے اس کے فارغ ہونے تک اس کا درود مجھے پیش کر دیا جاتا ہے۔ حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے عرض کیا: اور (یا رسول اﷲ!) آپ کے وصال کے بعد بھی؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہاں وصال کے بعد بھی (اسی طرح پیش کیا جائے گا کیونکہ) اللہ تعالیٰ نے زمین پر انبیائے کرام f کے جسموں کا کھانا حرام کر دیا ہے۔ سو اﷲ سبحانہ و تعالیٰ کا نبی زندہ ہوتا ہے اور اسے رزق بھی دیا جاتا ہے۔

اس حدیث کو امام ابن ماجہ نے سند صحیح کے ساتھ روایت کیا ہے اور امام مناوی نے بیان کیا کہ امام دمیری نے فرمایا: اس کے رجال ثقات ہیں اور عجلونی نے فرمایا: یہ حدیث حسن ہے۔

34. عَنْ أَبِي مَسْعُوْدٍ الْأَنْصَارِيِّ رضی الله عنه عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: أَکْثِرُوْا عَلَيَّ الصَّـلَاةَ فِي يَوْمِ الْجُمُعَةِ، فَإِنَّهٗ لَيْسَ أَحَدٌ يُصَلِّي عَلَيَّ يَوْمَ الْجُمُعَةِ إِلاَّ عُرِضَتْ عَلَيَّ صَلَا تُهٗ.

رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَالْبَيْهَقِيُّ، وَقَالَ الْحَاکِمُ: ھٰذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِْسْنَادِ.

34: أخرجه الحاکم في المستدرک، باب تفسير سورة الأحزاب، 2/457، الرقم: 3577، والبيهقي في شعب الإيمان، 3/110، الرقم: 3030، وذکره الشوکاني في نيل الأوطار، 3/305.

حضرت ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جمعہ کے دن مجھ پر درود کی کثرت کیا کرو، بے شک جو بھی مجھ پر جمعہ کے دن درود بھیجتا ہے اس کا درود مجھے پیش کیا جاتا ہے۔

اس حدیث کو امام حاکم اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔ امام حاکم نے فرمایا: اس حدیث کی سند صحیح ہے۔

35. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه خَادِمِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم : إِنَّ أَقْرَبَکُمْ مِنِّي يَوْمَ الْقِيَامَةِ فِي کُلِّ مَوَاطِنَ أَکْثَرُکُمْ عَلَيَّ صَـلَاةً فِي الدُّنْيَا، مَنْ صَلَّی عَلَيَّ فِي يَوْمِ الْجُمُعَةِ وَلَيْلَةِ الْجُمُعَةِ مِائَةَ مَرَّةٍ قَضَی اﷲُ لَهُ مِائَةَ حَاجَةٍ، سَبْعِيْنَ مِنْ حَوَائِجِ الْآخِرَةِ وَثَـلَاثِيْنَ مِنْ حَوَائِجِ الدُّنْيَا، ثُمَّ يُوَکِّلُ اﷲُ بِذَالِکَ مَلَکًا يُدْخِلُهٗ فِي قَبْرِي کَمَا يُدْخَلُ عَلَيْکُمُ الْهَدَايَا، يُخْبِرُنِي مَنْ صَلّٰی عَلَيَّ بِاسْمِهٖ وَنَسَبِهٖ إِلٰی عَشِيْرَتِهٖ، فَأُثْبِتُهٗ عِنْدِي فِي صَحِيْفَةٍ بَيْضَاءَ. رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ وَابْنُ مَنْدَہ وَابْنُ عَسَاکِرَ.

35: أخرجه البيهقي في شعب الإيمان، فضل الجمعة، 3/111، الرقم: 3035، وأيضًا في فضائل الأوقات، 1/498، الرقم: 276، وابن منده في الفوئد، 1/82، الرقم: 56، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 54/301.

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خادمِ خاص حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: بے شک قیامت کے روز ہر ایک مقام پر تم میں سے سب سے زیادہ میرے قریب وہ شخص ہو گا جو تم میں سے دنیا میں سب سے زیادہ مجھ پر درود بھیجنے والا ہو گا۔ سو جو شخص جمعہ کے دن اورجمعہ کی رات مجھ پر سو (100) مرتبہ درود بھیجتاہے اللہ تعالیٰ اس کی سو حاجتیں پوری فرما دیتا ہے۔ (ان میں سے) ستر حاجتیں آخرت کی اور تیس دنیا کی حاجتوں سے متعلق ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ اس کے لئے ایک فرشتہ مقرر فرما دیتا ہے جو وہ (تحفہ) درود اس طرح میری قبر انور میں پیش کرتا ہے جس طرح تمہیں تحائف پیش کئے جاتے ہیں اور وہ فرشتہ مجھے اس درود بھیجنے والے شخص کا نام اور اس کے خاندا ن کا سلسلۂ نسب بتاتا ہے۔ پس میں یہ ساری معلومات اپنے پاس ایک سفید کتاب میں محفوظ کرلیتا ہوں۔

اس حدیث کو امام بیہقی، ابن مندہ اور ابن عساکر نے روایت کیا ہے۔

36. عَنْ أَٔبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: إِنَّ أَعْمَالَ بَنِي آدَمَ تُعْرَضُ کُلَّ خَمِيْسٍ لَيْلَةَ الْجُمُعَةِ فَـلَا يُقْبَلُ عَمَلُ قَاطِعِ رَحِمٍ. رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالْبَيْهَقِيُّ.

36: أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 2/483، الرقم: 10277، والبيهقي في شعب الإيمان، 6/224، الرقم: 7966.

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں: میں نے سنا کہ: رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہر جمعرات یعنی شبِ جمعہ بنی آدم کے اعمال پیش کئے جاتے ہیں لیکن قطع رحمی کرنے والے کا عمل قبول نہیں کیا جاتا۔

اس حدیث کو امام احمد اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔

37. عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ عَمْرٍوعَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: مَا مِنْ مُسْلِمٍ يَمُوتُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ أَوْ لَيْلَةَ الْجُمُعَةِ إِلَّا وَقَاهُ اﷲُ فِتْنَةَ الْقَبْرِ.

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالتِّرْمِذِيُّ.

37: أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 2/169، الرقم: 6582، والترمذي في الصحيح، کتاب الجنائز، باب ماجاء فيمن مات يوم الجمعة، 3/386، الرقم: 1074، وذکره التبريزی فی مشکاة المصابيح، 1/431، الرقم: 1367.

حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جو شخص جمعہ کے دن یاجمعہ کی رات فوت ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے عذابِ قبر سے محفوظ رکھتا ہے۔ اس حدیث کو امام احمد اور ترمذی نے روایت کیا ہے۔

38. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : مَنْ قَرَأَ حٰمٓ الدُّخَانَ فِي لَيْلَةِ الْجُمُعَةِ غُفِرَ لَهٗ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَأَبُو يَعْلٰی.

38: أخرجه الترمذي في السنن، کتاب فضائل القرآن، باب ما جاء في فضل حم الدخان 5/163، الرقم: 2889، وأبو يعلیٰ في المسند، 11/93، الرقم: 6224.

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جو آدمی جمعہ کی رات کو سورۂ دخان پڑھے تو اس کے گناہ بخش دیئے جاتے ہیں۔

اس حدیث کو امام ترمذی اور ابو یعلیٰ نے روایت کیا ہے۔

39. عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رضی الله عنه قَالَ: مَنْ قَرَأَ سُورَةَ الْکَهْفِ لَيْلَةَ الْجُمُعَةِ أَضَاءَ لَهٗ مِنَ النُّورِ فِيمَا بَيْنَهٗ وَبَيْنَ الْبَيْتِ الْعَتِيقِ.

رَوَاهُ الدَّارِمِيُّ.

39: أخرجه الدارمي فی السنن، 2/546، الرقم: 407.

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جس نے شبِ جمعہ سورۂ کہف پڑھی تو اﷲ تعالیٰ اس کے اور خانہ کعبہ کے درمیان کو نور سے روشن فرما دیتا ہے۔ اس حدیث کو امام دارمی نے روایت کیا ہے۔

40. عَنِ ابْنِ شِهَابٍ رضی الله عنه أَنَّ النَّبيَّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: مَنْ مَاتَ لَيْلَةَ الْجُمُعَةِ أَوْ يَوْمَ الْجُمُعَةِ بَرِيئَ مِنْ فِتْنَةِ الْقَبْرِ أَوْ قَالَ: وُقِيَ فِتْنَةَ الْقَبْرِ وَکُتِبَ شَهِيْدًا. رَوَاهُ عَبْدُ الرَّزَّاقِ.

40: أخرجه عبد الرزاق في المصنف، 3/269، الرقم: 5595.

حضرت ابن شہاب سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جو مسلمان جمعہ کی شب یا جمعہ کے دن فوت ہوا وہ قبر کے فتنہ (منکر و نکیر کے سوالات اور عذابِ قبر) سے رہائی پا گیا؛ یا فرمایا: قبر کے فتنہ سے بچ گیا اور شہید لکھ دیا گیا۔

اس حدیث کو امام عبدالرزاق نے روایت کیا ہے۔

41. عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضی الله عنه قَالَ: خَمْسُ لَيَالٍ لَا تُرَدُّ فِيْهِنَّ الدُّعَائُ: لَيْلَةَ الْجُمُعَةِ وَأَوَّلَ لَيْلَةٍ مِنْ رَجَبٍ وَلَيْلَةَ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ وَلَيْلَتَي الْعِيْدَيْنِ. رَوَاهُ عَبْدُ الرَّزَّاقِ.

41: أخرجه عبد الرزاق في المصنف، 4/317، الرقم: 7927.

حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ پانچ راتیں ایسی ہیں جن میں دعا رد نہیں ہوتی: جمعہ کی رات، رجب کی پہلی رات، نصف شعبان کی رات اور عیدین کی دونوں راتیں۔ اس حدیث کو امام عبد الرزاق نے روایت کیا ہے۔

Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved