اربعین: فضیلت و فرضیت نماز اور ترک پر وعید

فرض نمازوں کی پابندی کا حکم

اَلْمُحَافَظَةُ عَلَی الصَّلَوٰتِ الْمَفْرُوْضَةِ

{فرض نمازوں کی پابندی کرنے کا حکم}

اَلْقُرْآن

  1. حٰـفِظُوْا عَلَی الصَّلَوٰتِ وَالصَّلٰوةِ الْوُسْطٰي ق وَقُوْمُوْا ِﷲِ قٰـنِتِيْنَo

(البقرة، 2/ 238)

سب نمازوں کی محافظت کیا کرو اور بالخصوص درمیانی نماز کی، اور اﷲ کے حضور سراپا ادب و نیاز بن کر قیام کیا کرو۔

  1. اِنَّ الصَّلٰوةَ کَانَتْ عَلٰی الْمُؤْمِنِيْنَ کِتٰـبًا مَّوْقُوْتًاo

(النساء، 4/ 103)

بے شک نماز مومنوں پر مقررہ وقت کے حساب سے فرض ہے۔

  1. وَاَقِمِ الصَّلٰوةَ طَرَفَیِ النَّهَارِ وَزُلَفًا مِّنَ الَّيْلِ ط اِنَّ الْحَسَنٰتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّاٰتِ ط ذٰلِکَ ذِکْرٰی لِلذّٰکِرِيْنَo

(هود، 11/ 114)

اور آپ دن کے دونوں کناروں میں اور رات کے کچھ حصوں میں نماز قائم کیجیے۔ بے شک نیکیاں برائیوں کو مٹا دیتی ہیں۔ یہ نصیحت قبول کرنے والوں کے لیے نصیحت ہے۔

  1. اَقِمِ الصَّلٰوةَ لِدُلُوْکِ الشَّمْسِ اِلٰی غَسَقِ الَّيْلِ وَقُرْاٰنَ الْفَجْرِط اِنَّ قُرْاٰنَ الْفَجْرِ کَانَ مَشْهُوْدًاo

(بنی اسرائيل، 15/ 78)

آپ سورج ڈھلنے سے لے کر رات کی تاریکی تک (ظہر، عصر، مغرب اور عشاء کی) نماز قائم فرمایا کریں اور( نمازِ) فجر کا قرآن پڑھنا بھی (لازم کر لیں)، بے شک (نمازِ) فجر کے قرآن میں (فرشتوں کی) حاضری ہوتی ہے (اور حضوری بھی نصیب ہوتی ہے)۔

  1. فَاصْبِرْ عَلٰی مَا يَقُوْلُوْنَ وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ قَبْلَ طُلُوْعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ غُرُوْبِهَا ج وَمِنْ اٰنَآیِٔ الَّيْلِ فَسَبِّحْ وَاَطْرَافَ النَّهَارِ لَعَلَّکَ تَرْضٰیo

(طهٰ، 20/ 130)

پس آپ ان کی (دل آزار) باتوں پر صبر فرمایا کریں اور اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح کیا کریں طلوع آفتاب سے پہلے (نمازِ فجر میں) اور اس کے غروب سے قبل (نمازِ عصر میں) اور رات کی ابتدائی ساعتوں میں (یعنی مغرب اور عشاء میں) بھی تسبیح کیا کریں اور دن کے کناروں پر بھی (نمازِ ظہر میں جب دن کا نصفِ اوّل ختم اور نصفِ ثانی شروع ہوتا ہے، (اے حبیبِ مکرّم! یہ سب کچھ اس لیے ہے) تاکہ آپ راضی ہو جائیں۔

  1. وَالَّذِيْنَ هُمْ عَلٰی صَلَوٰتِهِمْ يُحٰفِظُوْنَo اُولٰٓـئِکَ هُمُ الْوٰرِثُوْنَo الَّذِيْنَ يَرِثُوْنَ الْفِرْدَوْسَ ط هُمْ فِيْهَا خٰـلِدُوْنَo

(المؤمنون، 23/ 9-11)

اور جو اپنی نمازوں کی (مداومت کے ساتھ) حفاظت کرنے والے ہیں۔ یہی لوگ (جنت کے) وارث ہیں۔ یہ لوگ جنت کے سب سے اعلیٰ باغات (جہاں تمام نعمتوں، راحتوں اور قربِ الٰہی کی لذتوں کی کثرت ہو گی ان) کی وراثت (بھی) پائیں گے، وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے۔

  1. الَّذِيْنَ هُمْ عَلٰی صَلَاتِهِمْ دَآئِمُوْنَo

 (المعارج، 70/ 23)

جو اپنی نماز پر ہمیشگی قائم رکھنے والے ہیں۔

  1. وَالَّذِيْنَ هُمْ عَلٰی صَلَاتِهِمْ يُحَافِظُوْنَo اُولٰٓئِکَ فِيْ جَنّٰتٍ مُّکْرَمُوْنَo

(المعارج، 70/ 34-35)

اور وہ لوگ جو اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیںoیہی لوگ ہیں جو جنتوں میں معزّز و مکرّم ہوں گے۔

اَلْحَدِيْث

  1. عَنْ عَبْدِ اﷲِ رضی الله عنه قَالَ: سَأَلْتُ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم: أَيُّ الْعَمَلِ أَحَبُّ إِلَی اﷲِ؟ قَالَ: اَلصَّلَاةُ عَلٰی وَقْتِهَا. قَالَ: ثُمَّ أَيٌّ؟ قَالَ: ثُمَّ بِرُّ الْوَالِدَيْنِ. قَالَ: ثُمَّ أَيٌّ؟ قَالَ: اَلْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اﷲِ. قَالَ: حَدَّثَنِي بِهِنَّ وَلَوِ اسْتَزَدْتُهُ لَزَادَنِي.

مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب مواقيت الصلاة، باب فضل الصلاة لوقتها، 1/ 197، الرقم/ 504، ومسلم في الصحيح، کتاب الإيمان، باب بيان کون الإيمان باﷲ تعالی أفضل الأعمال، 1/ 89، الرقم/ 85، وأحمد بن حنبل في المسند، 1/ 409، الرقم/ 389، والترمذي مثله في السنن، کتاب الصلاة، باب ما جاء في الوقت الأول من الفضل، 1/ 325، الرقم/ 173، والنسائي في السنن، کتاب المواقيت، باب فضل الصلاة لمواقيتها، 1/ 292، الرقم/ 116.

حضرت عبد اﷲ (بن مسعود) رضی اللہ عنہما سے روایت ہے: میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا: اللہ تعالیٰ کو کونسا عمل زیادہ محبوب ہے؟ فرمایا: نماز کو اس کے وقت پر ادا کرنا۔ (میں نے عرض کیا) پھر کون سا؟ فرمایا: پھر والدین کے ساتھ نیکی (اور حسن سلوک) کرنا۔ میں عرض گزار ہوا کہ پھر کون سا ہے؟ فرمایا: اللہ کی راہ میں جہاد کرنا۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے ان چیزوں کے بارے میں بیان فرمایا اور اگر میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے زیادہ پوچھتا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھے اور زیادہ بتا دیتے۔

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

  1. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: يَتَعَاقَبُوْنَ فِيْکُمْ مَـلَائِکَةٌ بِاللَّيْلِ وَمَـلَائِکَةٌ بِالنَّهَارِ، وَيَجْتَمِعُوْنَ فِي صَـلَاةِ الْفَجْرِ وَصَـلَاةِ الْعَصْرِ، ثُمَّ يَعْرُجُ الَّذِيْنَ بَاتُوْا فِيْکُمْ، فَيَسْأَلُهُمْ وَهُوَ أَعْلَمُ بِهِمْ: کَيْفُ تَرَکْتُمْ عِبَادِي؟ فَيَقُوْلُوْنَ: تَرَکْنَاهُمْ وَهُمْ يُصَلُّوْنَ، وَأَتَيْنَاهُمْ وَهُمْ يُصَلُّوْنَ.

مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب مواقيت الصلاة، باب فضل صلاة العصر، 1/ 203، الرقم/ 530، ومسلم في الصحيح، کتاب المساجد ومواضع الصلاة، باب فضل صلاتي الصبح والعصر والمحافظة عليهما، 1/ 439، الرقم/ 632، وأحمد بن حنبل في المسند، 2/ 257، الرقم/ 7483، ومالک في الموطأ، 1/ 170، الرقم/ 411، والنسائي في السنن، کتاب الصلاة، باب فضل صلاة الجماعة، 1/ 240، الرقم/ 485.

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: رات اور دن کے فرشتے تمہارے پاس باری باری آتے رہتے ہیں اور فجر اور عصر کی نماز کے وقت وہ اکٹھے ہوجاتے ہیں۔ پھر جب وہ فرشتے جو تمہارے پاس ٹھہرے تھے، اوپر چڑھ جاتے ہیں اور ان سے ان کا پروردگار پوچھتا ہے حالانکہ وہ انہیں (اپنے بندوں کو) خوب جانتا ہے، تم نے میرے بندوں کو کس حال میں چھوڑا؟ وہ کہتے ہیں: جب ہم ان کے پاس سے روانہ ہوئے تو وہ نماز پڑھ رہے تھے اور جب ان کے پاس پہنچے تھے تو بھی وہ نماز پڑھ رہے تھے۔

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

  1. عَنْ أَبِي ذَرٍّ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم وَضَرَبَ فَخِذِي: کَيْفَ أَنْتَ إِذَا بَقِيْتَ فِي قَوْمٍ يُؤَخِّرُوْنَ الصَّـلَاةَ عَنْ وَقْتِهَا؟ قَالَ: قَالَ: مَا تَأْمُرُ؟ قَالَ: صَلِّ الصَّـلَاةَ لِوَقْتِهَا، ثُمَّ اذْهَبْ لِحَاجَتِکَ، فَإِنْ أُقِيْمَتِ الصَّـلَاةُ وَأَنْتَ فِي الْمَسْجِدِ فَصَلِّ.

رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ وَالنَّسَائِيُّ وَعَبْدُ الرَّزَّاقِ وَالْبَزَّارُ.

أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب المساجد ومواضع الصلاة، باب کراهية تأخير الصلاة عن وقتها المختار وما يفعله المأموم إذا أخرها الإمام، 1/ 448، الرقم/ (241) 648، وأحمد بن حنبل في المسند، 5/ 168، الرقم/ 21516، والنسائي في السنن، کتاب الإمامة، باب إعادة الصلاة بعد ذهاب وقتها مع الجماعة، 2/ 113، الرقم/ 859، وعبد الرزاق في المصنف، 2/ 380، الرقم/ 3780، والبزار في المسند، 9/ 374، الرقم/ 3954.

حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میری ران پر ہاتھ مارتے ہوئے فرمایا: تم جب ایسے لوگوں میں رہ جاؤ جو نماز (کی ادائیگی) میں مقررہ وقت سے دیر کریں گے۔ تو تم کیا کرو گے؟ حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ فرماتے کہ میں نے عرض کیا: آپ (مجھے) کیا حکم فرماتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:نماز کو اس کے مقررہ وقت پرپڑھ لینا، پھر اپنے کام کے لئے چلے جانا، اور اگر تمہارے مسجد میں ہوتے ہوئے جماعت کھڑی کی جائے تو تم بھی (جماعت کے ساتھ) نماز پڑھ لینا۔

اس حدیث کو امام مسلم، احمد، نسائی، عبد الرزاق اور بزار نے روایت کیا ہے۔

  1. عَنْ ثَوْبَانَ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم: اسْتَقِيْمُوْا وَلَنْ تُحْصُوْا، وَاعْلَمُوْا أَنَّ خَيْرَ أَعْمَالِکُمُ الصَّلَاةُ، وَلَا يُحَافِظُ عَلَی الْوُضُوْئِ إِلاَّ مُؤْمِنٌ.

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَابْنُ مَاجَه وَاللَّفْظُ لَهُ وَالدَّارِمِيُّ وَابْنُ حِبَّانَ وَالطَّبَرَانِيُّ.

أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 5/ 282، الرقم/ 22489، وابن ماجه في السنن، کتاب الطهارة وسننها، باب المحافظة علی الوضوء، 1/ 101، الرقم/ 277، والدارمي في السنن، 1/ 174، الرقم/ 655، وابن حبان في الصحيح، 3/ 311، الرقم/ 1037، والطبراني في المعجم الأوسط، 7/ 116، الرقم/ 7019.

حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: (دین کے زیادہ سے زیادہ شعبوں پر) اِستقامت اِختیار کرو اگرچہ تم ہرگز ان کا اِحاطہ نہیں کرسکو گے۔ اوریہ بات جان لو کہ تمہارے تمام اَعمال میں سب سے اَفضل عمل نماز ہے اور مومن کے سوا کوئی شخص باوضو رہنے کی پابندی نہیں کرتا۔

اس حدیث کو امام احمد، ابن ماجہ، دارمی، ابن حبان اور طبرانی نے روایت کیا ہے اور یہ الفاظ ابن ماجہ کے ہیں۔

  1. عَنْ أَبِي قَتَادَةَ بْنِ رِبْعِيٍّ رضی الله عنه، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم: قَالَ اﷲُ: افْتَرَضْتُ عَلٰی أُمَّتِکَ خَمْسَ صَلَوَاتٍ. وَعَهِدْتُ عِنْدِي عَهْدًا أَنَّهُ مَنْ حَافَظَ عَلَيْهِنَّ لِوَقْتِهِنَّ أَدْخَلْتُهُ الْجَنَّةَ. وَمَنْ لَمْ يُحَافِظْ عَلَيْهِنَّ، فَـلَا عَهْدَ لَهُ عِنْدِي.

رَوَاهُ أَبُوْ دَاوُدَ وَابْنُ مَاجَه وَاللَّفْظُ لَهُ وَالطَّيَالِسِيُّ وَالدَّيْلَمِيُّ وَذَکَرَهُ َالْمَرْوَزِيُّ وَالْمَقْرِيْزي.

أخرجه أبو داود في السنن، کتاب الصلاة، باب في المحافظة علی وقت الصلاة، 1/ 117، الرقم/ 430، وابن ماجه في السنن، کتاب إقامة الصلاة والسنة فيها، باب ما جاء في فرض الصلوات الخمس والمحافظة عليها، 1/ 450، الرقم/ 1403، والطيالسي في المسند، 1/ 78، الرقم/ 573، والمقدسي في الأحاديث المختارة، 8/ 305، الرقم/ 368، والديلمي في مسند الفردوس، 3/ 166، الرقم/ 4440، وذکره المروزي في تعظيم قدرة الصلاة، 2/ 970، الرقم/ 1054، والمقريزي في مختصر کتاب الوتر، 1/ 31، الرقم/ 13.

حضرت ابو قتادہ بن ربعی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اﷲ تعالیٰ نے فرمایا: میں نے آپ کی اُمت پر پانچ نمازیں فرض کی ہیں اور میں نے اپنے ہاں عہد کر رکھا ہے کہ جو شخص ان کے اوقات کے ساتھ ان نمازوں کی پابندی کرے گا اسے جنت میں داخل کروں گا اور جو ان کی پابندی نہیں کرے گا تو اس کے ساتھ میرا کوئی عہد نہیں (کہ اسے سزا دوں یا بخش دوں)۔

اس حدیث کو امام ابو داود، ابن ماجہ، طیالسی اور دیلمی نے روایت کیاہے اور مروزی اور مقریزی نے بیان کیا ہے، مذکورہ الفاظ ابن ماجہ کے ہیں۔

  1. عَنْ عُمَيْرٍ اللَّيْثِيِّ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُولُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ: إِنَّ أَوْلِيَاءَ اﷲِ الْمُصَلُّوْنَ، وَمَنْ يُقِيْمُ الصَّلَوَاتِ الْخَمْسَ الَّتِي کَتَبَهُنَّ اﷲُ عَلٰی عِبَادِهِ، وَيَصُوْمُ رَمَضَانَ، وَيَحْتَسِبُ صَوْمَهُ، وَيُؤْتِي الزَّکَاةَ طَيِّبَةً بِهَا نَفْسُهُ يَحْتَسِبُهَا، وَيَجْتَنِبُ الْکَبَائِرَ الَّتِي نَهَی اﷲُ عَنْهَا.

رَوَاهُ اْلحَاکِمٌ وَالطَّبَرَانِيُّ وَاللَّفْظُ لَهُ، وَالْبَيْهَقِيُّ.

أخرجه الحاکم في المستدرک، 1/ 127، الرقم/ 197، والطبراني في المعجم الکبير، 17/ 47، الرقم/ 101، والبيهقي في السنن الکبریٰ، 10/ 186، الرقم/ 20541.

حضرت عمیر اللّیثی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر ارشاد فرمایا: بے شک اللہ تعالیٰ کے ولی نمازی ہوتے ہیں، اور وہ شخص بھی ولی اللہ ہے جو ان نمازوں کو پابندی سے ادا کرتا ہے جو اﷲتعالیٰ نے اپنے بندوچں پر فرض کی ہیں۔ خود احتسابی کے ساتھ اَجر و ثواب کی نیت سے رمضان کے روزے رکھتا ہے، خوش دلی سے حصولِ ثواب کے لئے زکوٰۃ ادا کرتا ہے اور ان کبیرہ گناہوں سے بچتا ہے جن سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے۔

اس حدیث کو امام حاکم، طبرانی اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔مذکورہ الفاظ امام طبرانی کے ہیں۔

Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved