مطالعہ سیرت کے بنیادی اصول

حصہ سوم

مطالعۂ سیرۃُ الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بنیادی اُصول

مؤثر استدلال اور مضبوط و منظم علمی بنیادوں پر سیرت الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فہم و ابلاغ کے لئے ضروری ہے کہ دورِ حاضر کے درپیش مسائل اور تقاضوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے سیرت الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مطالعہ کے ایسے اُصول طے کئے جائیں جو سیرت کے منظم اور مربوط فہم میں معاون ثابت ہوں۔

جب سے علوم کی ترتیب و تدوین کا مرحلہ شروع ہوا تمام علوم بشمول تفسیر، حدیث اور فقہ کی ترتیب و تدوین کے لئے اہل علم نے کئی اُصول طے کئے جن کی روشنی میں ان علوم کی ثقاہت کو نہ صرف پرکھا گیا بلکہ اُنہیں منظم و مرتب بھی کیا گیا۔ لیکن سیرت الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مطالعہ اور تفہیم کے لئے تاحال کوئی واضح اُصول مرتب نہیں کئے گئے۔ دورِ حاضر میں جبکہ ملتِ اِسلامیہ کی انفرادی و اجتماعی اور بین الاقوامی زندگی کو سیرت کے ساتھ مربوط کرنے کی ضرورت اور تقاضے پہلے زمانے سے کہیں زیادہ بڑھ چکے ہیں، اس امر کی ضرورت ہے کہ مطالعہ سیرت کے لئے مؤثر اور جامع ضابطوں کا تعین کیا جائے۔ اس ذیل میں یہاں کچھ اُصول بیان کئے جاتے ہیں :

  1. سیرت کا بطور وحدت فہم اورتفہیم
  2. فکر و عمل کے بحران میں سیرت سے رہنمائی
  3. سیرت الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روشنی میں قرآنی تعلیمات کی توضیح
  4. عصری مسائل کے حل کے لئے سیرت کا اطلاقی مطالعہ
  5. سیرت الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روشنی میں توازن اجتماعی کا حصول
  6. سیرت الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بطور رسولِ اِنسانیت مطالعہ
  7. فہم کمالِسیرت میں عقل اِنسانی کی نارسائی کا اعتراف

اب ذیل میں ان کی وضاحت کی جاتی ہے :

1۔ سیرت کی بطور وحدت فہم اورتفہیم

سیرت الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مطالعہ بطور ایک وحدت کے کیا جائے۔ یعنی سیرت کے روحانی، جمالیاتی، احکامی اور اطلاقی پہلوؤں کو ایک دوسرے سے الگ کرکے نہ دیکھا جائے بلکہ اُنہیں بطور ایک وحدت کے سمجھنے اور اختیار کرنے کی سعی کی جائے۔ کیونکہ یہی وہ جامع منہج ہے جس کے ذریعے سے نہ صرف سیرت سے ہم آہنگی اور جامع تعلق پیدا ہو سکتا ہے بلکہ اس تعلق کی تاثیر عملی زندگی میں محسوس ہو سکتی ہے۔ اس کی ایک بڑی نظیر غزوۂ تبوک میں صحابۂ کرام کی طرف سے پیش کی جانے والی قربانیوں کا واقعہ ہے۔ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غزوۂ تبوک کے موقع پر تمام صحابہ کرام کو قربانی کی تلقین کی تو ہر ایک حسبِ استطاعت اس غزوہ میں اپنا حصہ ڈالنے لگا۔ لیکن حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا عمل اتنا بے نظیر و بے مثال تھا کہ وہ تاابد قربانی و ایثار کا استعارہ بن گیا۔ اگرچہ کئی صحابۂ کرام نے سینکڑوں اور ہزاروں درہم و دینار کی شکل میں قربانی پیش کی اور ان کے مقابل حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی طرف سے پیش کئے جانے والے اثاثے شاید ظاہری لحاظ سے اس مقدار و معیار کے نہ تھے لیکن حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ روحانی اور قلبی وابستگی کا اثر تھا کہ آپ نے اپنے گھر کے تمام اثاثے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں نچھاور کر دیئے۔ جس سے اس غزوہ کی تیاری میں ایمانی تاثیر کا وہ عالم پیدا ہوا جو نہ صرف خوشنودی پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور خوشنودئ خدا کا باعث ہوا بلکہ اس غزوہ کی فتح کا سبب بھی بنا۔ گویا انفرادی اور اجتماعی زندگی میں حصولِ منزل کے لئے ظاہری اسباب کے ساتھ ساتھ نادیدہ اسباب کے حصول اور تائید میسر آنے کا واحد راستہ سیرت الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ایسا ہمہ گیر تعلق ہے جس میں اخلاقی، روحانی، عملی اور احکامی پہلوؤں میں سے کوئی بھی نظر انداز نہ کیا گیا ہو۔

2۔ فکر و عمل کے بحران میں سیرت سے رہنمائی

فکر و عمل کے بحران کے حل کے لئے سیرت سے راہنمائی حاصل کی جائے۔ دورِ حاضر میں جبکہ زندگی فکری اور عملی سطح پر کئی جہات میں ارتقاء پذیر ہے، لگے بندھے فکری اور عملی ضابطے نہ صرف یہ کہ دورِ حاضر کی فکری اور علمی ترقی کے ساتھ میل نہیں کھاتے بلکہ اس کا ساتھ دینے سے بھی قاصر ہیں۔ آج ہمیں ایک ہمہ گیر فکری تبدیلی (Paradigme shift) کی ضرورت ہے۔ اور ایک صحت مندانہ فکری تبدیلی (Paradigm shift) اسی وقت ممکن ہے جب ہم فکر و عمل کے باب میں راہنمائی براہِ راست سیرت الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حاصل کریں۔

3۔ سیرت الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روشنی میں قرآنی تعلیمات کی توضیح

قرآنی تعلیمات کو سیرت الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تناظر میں سمجھنے کی سعی کی جائے۔ سیرت الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہٹ کر قرآنِ حکیم کا فہم صرف تلقین اور تحکیم تک ہی محدود رہتا ہے جبکہ اس کے اطلاق اور تنفیذ کی سبیل اور راستے اسی وقت میسر آسکتے ہیں جب ہم قرآنِ حکیم کی آیات اور تعلیمات کو سیرت الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں موجود واقعات کے ساتھ مربوط کرکے سمجھنے اور ان کا فہم حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ مثلاًسورۂ توبہ میں غزوۂ تبوک کا جابجا بیان ہوا ہے۔ غزوۂ تبوک کن حالات میں وقوع پذیر ہوا؟ اس موقع پر مسلمانوں کی راہ میں کیا رکاوٹیں حائل تھیں؟ اس نازک مرحلے پر اِسلام کو اندرون اور بیرون ریاست کون کون سی سازشیں درپیش تھیں اور ان سازشوں کا قلع قمع کس طرح کیا گیا؟ ان سب سوالات کے جوابات ان آیاتِ مبارکہ کو سیرت کی روشنی میں سمجھنے سے ملتے ہیں۔ مثلاً قرآن حکیم میں مخالفینِ اِسلام کی سازشوں کا ذِکر کرتے ہوئے اﷲ تعالی ارشاد فرماتا ہے :

لَقَدِ ابْتَغَوُاْ الْفِتْنَةَ مِن قَبْلُ وَقَلَّبُواْ لَكَ الْأُمُورَ حَتَّى جَاءَ الْحَقُّ وَظَهَرَ أَمْرُ اللّهِ وَهُمْ كَارِهُونَO

’’درحقیقت وہ پہلے بھی فتنہ پردازی میں کوشاں رہے ہیں اور آپ کے کام الٹ پلٹ کرنے کی تدبیریں کرتے رہے ہیں یہاں تک کہ حق آ پہنچا اور اللہ کا حکم غالب ہو گیا اور وہ (اسے) ناپسند ہی کرتے رہےo‘‘

القرآن، التوبة، 9 : 48

اس آیت میں مذکور الفاظ وقلبوا لک الامور ان تمام سازشوں کا احاطہ کرتے ہیں جو اِسلام اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف کفار اور منافقین کی طرف سے کی گئیں۔ ان سازشوں کا قلع قمع کس طرح ہوا؟ تائیدِ ایزدی اور بصیرتِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کس طرح پہلو بہ پہلو کام کرتے ہوئے اِسلام کو کامیابی کی طرف لے گئی! ان اُمور کا احاطہ اسی صورت میں ممکن ہے جب ان آیات کو ان کے مقابل موجود سیرت کے واقعات کے ساتھ مربوط کرکے سمجھا جائے۔

4۔ عصری مسائل کے حل کے لئے سیرت کا اِطلاقی مطالعہ

عصری مسائل کے حل کے لئے سیرت الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اطلاقی مطالعہ متعارف کرانے کی ضرورت ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے پاس موجودہ صدیوں کے علمی ذخیرے میں فہمِ اسلام کے باب میں وافر سرمایہ موجود ہے۔ لیکن اس تمام علمی سرمائے میں اقداری ربط و ترتیب ( Axiological Systematization) کا فقدان ہے۔ یعنی سیرت میں مذکور واقعات کا اپنے وقوعی زمان و مکاں کے تناظر میں ذکر اور اس کا دورِ حاضر کے زماں و مکاں کے تناظر میں اطلاق اور ربط، یہ وہ خلا ہے جسے پر کرنے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ اس کے بغیر ہم سیرت کی اصل معنویت تک رسائی نہیں پا سکتے۔ قرآن حکیم کے نزول کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ ہر آیت کا نزول کسی نہ کسی واقعے اور کسی نہ کسی سبب کے نتیجے میں ہوتا رہا۔ وہ واقعہ اور وہ سبب ایک مخصوص زماں و مکاں کے اندر محدود تھا مگر اس کے نتیجے میں اُترنے والی آیات کی اہمیت ابدی اور لامحدود ہے۔ اس لامحدود اور محدود کے ربط (Association of Infinite & Finite) کی دریافت ہی ہمیں دورِ حاضر میں قرآنِ حکیم کی تعلیمات کی مؤثریت کی منزل پر لاسکتی ہے۔ یہ سیرت کے اطلاقی مطالعہ کی منہج کی دریافت کے بغیر ممکن نہیں۔

5۔ سیرت الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روشنی میں توازنِ اِجتماعی کا حصول

اﷲ تعالیٰ نے اُمتِ مسلمہ کو اُمتِ وسط بنا کر بھیجا ہے۔ سیرت الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مطالعہ کے ذریعے سے زندگی کے ہمہ گیر توازن کی تلاش کو ممکن بنانے کی ضرورت ہے۔ یعنی عقیدہ و عمل کا توازن، دُنیا و آخرت کا توازن، اخلاقی و مادی تقاضوں کا توازن، روحانیت و مادیت کا توازن، استدلال اور محبت کا توازن الغرض کہ زندگی کے ہر دائرے میں ایک ہمہ گیر اور قابلِ عمل توازن کی یافت ہی اُمتِ مسلمہ کو اُمت وسط کے منصب پر فائز کر سکتی ہے اور یہ صرف سیرت سے عملی اور زندہ تعلق سے ہی ممکن ہے۔

6۔ سیرت الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بطور رسولِ اِنسانیت مطالعہ

سیرت الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو انسانیت کی ضرورت کے طور پر پیش کیا جائے۔ تاکہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رسولِ اِسلام کی بجائے رسول انسانیت کے طور پر دُنیا میں متعارف ہوں۔ اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب ہم سیرت الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو انسانی فلاح کے لئے ناگزیر سر چشمہِ ہدایت کے طور پر پیش کریں اور زندگی کے ہر شعبے میں ارتقاء کی بنیادوں کو جو فی الحقیقت تاریخی طور پر سیرت الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہی میسر آئی ہیں، نمایاں کریں۔ دلائل کی قوت اور براہین کی طاقت سے اس امر کو عالمِ انسانیت کے سامنے واضح کیا جائے کہ آج بھی بنی نوع اِنسان کو سیرت الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے راہنمائی کی اسی طرح ضرورت ہے جس طرح آج سے چودہ سو سال پہلے دورِ ظلمت سے نکلنے کے لئے سیرت الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انسانیت کی دستگیری کی تھی۔

7۔ فہم کمالِ سیرت میں عقل اِنسانی کی نارسائی کا اعتراف

سیرت الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بیان کے باب میں ایک انتہائی اہم اُصول ہمہ وقت فہمِ انسانی کی نارسائی کا اعتراف ہے۔ جب سیرت الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حالات اور واقعات کو انسان کے محدود عقلی اور فکری چوکھٹے میں بند کرکے دیکھا جاتا ہے، وہیں سے عقیدہ، فکر اور عمل کے باب میں گمراہی کا دروازہ کھلتا ہے۔ لہٰذا سیرت الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ان توضیحات اور تفصیلات کے باب میں جہاں کسی بھی علمی یا فکری لغزش کا احتمال موجود ہو انسانی فہم کی نارسائی کبھی بھی نظروں سے اوجھل نہیں ہونی چاہیے۔ اگر اس اُصول کو سیرت الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فہم میں مستقل ضابطے کے طور پر اختیار کر لیا جائے تو سیرت الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بے شمار واقعات۔ ۔ ۔ مثلاً انتم اعلم بامور دنیاکم(1)۔ ۔ ۔ کے بیان اور تفصیل و توضیح میں کبھی بھی عقیدہ، فکر یا عمل کی لغزش کا ارتکاب نہیں ہوگا۔ کیونکہ ہمہ وقت ایکم مثلی، انی لست مثلکم اور لست کہیئتکم کا ضابطہ سیرت الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سمجھنے اور بیان کرنے والے کے پیشِ نظر رہے گا۔ (2)

(1) مسلم، الصحيح، کتاب الفضائل، باب وجوب الامتثال ما قاله شرعا، 4 : 1836، رقم : 2363
(2) i. بخاري، الصحيح، کتاب الصوم، باب الوصال ومن قال ليس في اليل، 2 : 693، رقم : 1861
ii. مسلم، الصحيح، کتاب الصيام، باب النهي عن الوصال، 2 : 774، رقم : 1102

مطالعہ سیرت کے باب میں مذکورہ بالا اصولوں کے استحضار سے نہ صرف زندگی کے تمام شعبوں میں سیرت سے رہنمائی اخذ کی جا سکتی ہے بلکہ دور حاضر میں سیرت الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مطالعہ سیرت ست وابستگی کی ناگزیریت بھی واضح ہو سکتی ہے اس طرح انفرادی اور اجتماعی معاشرے کو سیرت کے نمونے پر ڈہالنے کے ساتھ ساتھ اسلام کی حقانیت پر ایمان وایقان کے استحکام کا سامان بھی کیا جا سکتا ہے۔

Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved