عقائد میں احتیاط کے تقاضے

مزاراتِ اَولیاء کی زیارت اورحاضری کے آداب

اولیاء اللہ کے مزارات پر حاضری اور دُعا سے متعلق بعض طبقات کی سوچ اور طرزِ عمل افراط و تفریط کا شکار ہے۔ ایک طبقہ وہ ہے جو سرے سے اِس کے جواز کا ہی قائل نہیں بلکہ اِسے صریح شرک و بدعت گردانتا ہے۔ اِس کے برعکس ایک طبقہ عوام الناس کا ہے جسے اہلِ علم کی سند حاصل نہیں وہ بھی اِس سلسلہ میں جہالت اور تفریط میں مبتلا ہے۔ جمہور مسلمانوں کا مزارات پر طریقِ حاضری و دُعا نہایت معقول اور حزم و احتیاط کا آئینہ دار ہے۔ قاضی الحاجات، فریاد رس اور حقیقی مشکل کشا اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ لیکن مقربینِ بارگاہِ الٰہی انبیاء و اولیاء کا دُعا میں توسل جائز ہے اور اِن کے توسل سے دُعائیں قبول ہوتی ہیں۔ اِس سلسلہ میں حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :

واز جملہ آدابِ زیارت است کہ روئے بجانب قبر و پشت بجانب قبلہ مقابل روئے میت بایستد و سلام دہد و مسح نکند قبر را بدست و بوسہ ندہد آنرا و منحنی نشود و روئے بخاک نمالد کہ ایں عادتِ نصاریٰ است۔ وقرات نزد قبر مکروہ است نزدِ ابی حنیفہ و نزدِ محمد مکروہ نیست۔ و صدر الشہید کہ یکے از مشائخ حنفیہ است بقولِ محمد اخز کرد و فتویٰ ہم بریں است۔ و شیخ امام محمد بن الفضل گفتہ کہ مکروہ قراتِ قرآن بہ جہر است واما مخافت لا باس بہ است اگرچہ ختم کند۔

’’قبورِ اولیاء کی زیارات کے آداب میں سے ہے کہ زائر قبر کی طرف منہ اور قبلہ کی جانب پیٹھ کر کے صاحبِ قبر کے منہ کے برابر کھڑا ہو جائے، اُسے سلام کہے، ہاتھ سے قبر کو نہ چھوئے اور نہ قبر کو بوسہ دے اور نہ قبر کے سامنے جھکے اور قبر کے سامنے مٹی پر اپنا منہ نہ ملے کیونکہ یہ طریقہ نصاریٰ کا ہے۔ قبر کے پاس قرآن حکیم کی تلاوت امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک (بآوازِ بلند) مکروہ ہے، مگر امام محمد رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک مکروہ نہیں ہے۔ علمائِ احناف میں سے صدر الشہید نے امام محمد رحمۃ اللہ علیہ کے قول کو اختیار کیا ہے اور اِسی پر فتویٰ ہے۔ شیخ امام محمد بن الفضل نے کہا ہے کہ قبر کے نزدیک اُونچی آواز میں قرآن خوانی مکروہ ہے، لیکن اگر دھیمی آواز میں ہو تو سارا قرآن مجید پڑھ لینے میں بھی کوئی حرج نہیں۔‘‘

شاه عبدالحق، اشعة اللمعات، باب زيارة القبور : 763

یہ بات ذہن نشین رہے کہ صالحینِ اُمت کے مزارات کو بوسہ دینا ضروری اُمور میں سے نہیں ہے لہٰذا اس عمل کو منکرین و مخالفین کے ردِعمل میں بے ادبی اور گستاخی سمجھنا اچھا نہیں ہے۔ اکابر مشائخ کے ملفوظات اور اُن کے معمولات میں احتیاط پسندی کی خاطر بوسہ دینے سے منع کیا گیا ہے۔ چنانچہ پیر سید مہر علی شاہ گولڑوی رحمۃ اللہ علیہ اِس سلسلہ میں لکھتے ہیں :

پس اقربِ بصواب می نماید کہ کسے از ثقات و مقتدایان تقبیلِ مزارات متبرکہ ہم ننماید، تاکہ عوام کالانعام در ورطۂ ضلال نیفتند۔ چہ بہ سبب جہل فرق میانِ سجود و تقبیل کردن نمی توانند۔

’’بہتر یہی ہے کہ اربابِ علم اور رہنمایانِ قوم میں سے کوئی آدمی مزارات کا بوسہ نہ لے تاکہ دیکھا دیکھی میں بے علم اور عام اَن پڑھ لوگ گمراہی کے بھنور میں نہ پھنس جائیں۔ کیونکہ وہ جہالت کی وجہ سے بوسہ اور سجدہ میں تمیز نہیں کر سکتے۔‘‘

پير مهر علی شاه، تحقيق الحق : 159

تعظیماً بوسہ دینا فی نفسہ منع اور ناجائز نہیں ہے۔ اکابر علماء و مشائخ نے صرف احتیاط کی خاطر بوسہ دینے سے منع کیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ خواص کا عمل عامۃ الناس کے لئے دلیل و حجت ہوتا ہے اِس لئے خواص کو بطورِ خاص احتیاط کا دامن تھامنے کی طرف متوجہ کیا گیا ہے۔ خواص تو بوسہ اور سجدہ کا فرق بخوبی سمجھتے ہیں لیکن عوام یہ فرق نہیں سمجھتے اِس لئے عوام کی خاطر انہیں بھی منع کیا گیا ہے۔

مزاراتِ اولیاء پر دعا کا درست طریقہ

سلف صالحین نے قبورِ اولیاء پر حاضری دینے والے زائرین اور دُعا کرنے والوں کے لئے دو طریقے بیان کئے ہیں :

1۔ پہلا طریقہ یہ ہے کہ دعا مانگنے والا اللہ تعالیٰ کا محتاج اور فقیر ہے اور اپنی حاجت اللہ تعالیٰ سے طلب کرتا ہے، مگر دُعا میں صاحبِ مزار کی روحانیت، بزرگی اور اُس کی خدماتِ جلیلہ کا وسیلہ پیش کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے مانگتا ہے اور یہ عرض کرتا ہے کہ ’’اے میرے مولا! اِس صاحبِ مزار کی برکت سے اور اُس رحمت و عنایت کے صدقے جو تو نے اس صاحب مزار پر کی ہے اور اسے عظمت و بزرگی عطا فرمائی ہے، میری فلاں حاجت کو پورا فرما، کیونکہ حقیقی عطا کرنے والا اور مرادیں پوری کرنے والا تو ہے۔‘‘

2۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ دعا مانگنے والا صاحبِ مزار کو مخاطب کرتے ہوئے کہے کہ ’’اے اللہ تعالیٰ کے مقبول بندے! میری فلاں مراد اللہ تعالیٰ سے طلب کیجئے، اللہ تعالیٰ مجھے میری مطلوب شے عطا کر دے۔‘‘ اِس طرح بھی سوال اللہ تعالیٰ ہی سے کیا جاتا ہے کیونکہ حقیقی مشکل کشا وہی ذات ہے، لیکن یہ اسلوب اختیار کرنا بطریقِ مجاز ہے جس کے تحت صاحبِ قبر کو بطور وسیلہ پیش کیا جاتا ہے۔ یہ طریقہ بھی اِس لئے جائز ہے کہ اللہ تعالیٰ اس پر قادر ہے کہ جسے چاہے اس کی التجا سنوا دے کیونکہ ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ کوئی قبر والا ہو یا زندہ چلتا پھرتا انسان، اللہ تعالیٰ کی طرف سے رحمت کے بغیر نہیں سن سکتا۔ یہ امر بعید نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ دُعا کرنے والے کی آواز کو قبر والے تک پہنچا دے اور پھر صاحبِ قبر عالمِ ارواح میں اللہ تعالیٰ سے اُس حاجت مند کے مقاصد کو پورا کر دینے کی التجا کرے۔ اِس طریقے میں بھی حاجت مند بالواسطہ اللہ تعالیٰ ہی سے مانگ رہا ہوتا ہے نہ کے صاحبِ قبر سے۔

اِن نازک اعتقادی اُمور کو بڑی احتیاط کے ساتھ عامۃ المسلمین کے سامنے بیان کرنا چاہیے۔ بعض حضرات مزارات پر حاضری دیتے وقت ایسے اعمال و افعال کرتے ہیں جو جمہور امت کے شعار کے خلاف ہیں۔ اِس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ معاندین و مخالفین کو اعتراض کا موقع مل جاتا ہے۔ اس میں قصور درحقیقت ہمارے ان بعض ائمہ و خطبا کا ہوتا ہے جو ایسے نازک عقائد میں احتیاط کو ملحوظ نہیں رکھتے اور بے جا تاویلات اور اُلٹے سیدھے دلائل عوام کی تائید کی خاطر بیان کرتے رہتے ہیں۔ اس سے ناقص لوگوں کے ذہن اُلجھاؤ کا شکار ہو جاتے ہیں۔

ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ حیات شیخ و مرشد سے دُعا کرانے کی صورت میں بھی حاجت مانگنا اللہ تعالیٰ ہی سے متصور ہوتا ہے کیونکہ وہ بھی تو اللہ تعالیٰ ہی سے مانگتا ہے۔ کوئی ولی اللہ یا شیخِ طریقت یہ نہیں کہتا کہ ’’ اے حاجت مند! یہ سب کچھ میں تجھے دے رہا ہوں، ‘‘ بلکہ وہ تو یہ کہتے ہیں کہ تم بھی اللہ تعالیٰ سے مانگو اور ہم بھی اُسی سے تمہارے لئے دعا کرتے ہیں۔ بعض اوقات کئی جہلا ’’پیر صاحب‘‘ کو مخاطب کرکے کہتے ہیں : ’’یا صاحبِ مزار مجھے اولاد دے دیں، صحت دے دیں یا فلاں مسئلہ حل کر دیں۔‘‘ ایسے موقعوں پر دین سے محبت، اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول پر ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ بروقت ایسے لوگوں کی اصلاح کر دی جائے۔

3۔ بزرگوں کے نزدیک دُعا میں زیادہ پسندیدہ اور محتاط طریقہ یہی ہے کہ قرآن و سنت میں منقول دُعائیں مانگنا معمول بنایا جائے اور حضرات انبیاء علیہم السلام و اولیاء کرام کا وسیلہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں پیش کیا جائے۔ اگر خاص حاجت مانگنی ہو تو حضرات انبیاء و اولیاء و مقربینِ بارگاہ اِلٰہی سے اور بالخصوص حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں درخواست کی جائے کہ آپ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ بے کس پناہ میں دُعا فرما دیں کہ ہماری مشکلات آسان فرما دے اور حاجتیں بر لائے۔ یہ وہ محتاط طریقہ دُعا ہے جس پر کوئی شخص اعتراض نہیں کر سکتا۔ حزم و احتیاط کا تقاضا بھی یہی ہے کہ جہاں توہمات اور بدعات و خرافات میں مبتلا ہونے کا اندیشہ ہو اُس راستہ کو یکسر بند کر دیا جائے۔

باقی رہے خواص تو اپنی خداداد بصیرت اور رُوحانی طاقت سے عالمِ کشف میں وہ صاحبانِ قبر سے ہم کلام بھی ہوتے ہیں اور صاحبِ مزار سے رابطہ بھی رکھتے ہیں۔ جہاں صالحین کے مزار کی زیارت سے زائرین کو روحانی فیض و برکت حاصل ہوتی ہے وہاں بعض اوقات صاحبِ ولایت و مقام زائرین سے صاحبانِ قبر کی رُوح بھی روحانی برکت و فیض حاصل کرتی ہے۔

حضرات انبیاء علیہم السلام اور اولیاء کرام کے متعلق یہ عقیدہ رکھنا کہ وہ ذاتی یا مستقل طور پر متصرف ہیں یا اِس طرح تصرف و اختیار میں شریک سمجھنا کہ اللہ تعالیٰ اُن کی شرکت کے بغیر کائنات کا نظام نہیں چلا سکتا، کفر ہے۔ اس طرح کی ہر غلطی کی اصلاح کرکے اسے جڑ سے اُکھاڑ پھینکنا چاہئے۔ بزرگوں سے عقیدت اپنی جگہ لیکن کسی بھی مسئلہ میں غلو جائز نہیں۔

مزارات کے طواف اور شور و غل کی ممانعت

کعبۃ اللہ کے علاوہ کسی مقام یا قبر کا طوافِ تعظیمی منع ہے۔ فقہائے کرام نے قبرستان میں خیرات اور شیرینی تقسیم کرنے سے اس لئے منع کیا ہے کہ تقسیم کے وقت بچے اور عورتیں شور و غل کرتے ہیں۔ قبرستان کا ادب و احترام قائم نہیں رہتا لہٰذا ایسا کرنے میں بھی احتیاط کرنی چاہیے۔ مساکین اور زائرین کے لئے مزارات پر الگ اہتمام ہونا چاہیے۔ مقبولانِ بارگاہِ خداوندی کے اعراس میں جو ناجائز افعال و اعمال کئے جاتے ہیں اِن سے صاحبِ مزار کو تکلیف و اذیت پہنچتی ہے۔ اِس طرح صاحبِ مزار کا فیض اور برکت زائر کو نصیب نہیں ہوتی۔ خیرات کی چیزیں اُوپر سے پھینکنا اور لوگوں کا اُن کو بطور تبرک حاصل کرنے کے لئے شور و غل کرنا، ایسے تمام اُمور غلط ہیں اور سلف صالحین نے اِن کی حوصلہ شکنی کی ہے۔ اس طرزِ عمل سے ایک تو رزق کی بے حرمتی ہوتی ہے، دوسرا مزار کا ماحول اور اُس کا تقدس پامال ہوتا ہے اور تیسرا اِس میںریاکاری کا عمل دخل ہے۔ لہٰذا ایسے تمام اُمور سے پرہیز کرنا چاہیے۔

مزارات پر نذر و نیاز اور تبرک کی حقیقت

مزاراتِ اولیاء پر نذر و نیاز دینے اور وہاں ’’لنگر‘‘ پکانے یا کھانے کی حقیقت صرف اتنی ہے کہ یہ ایک نیک عمل ہے جس کی اصل قرآن و سنت میں موجود ہے۔ یہ صدقہ جاریہ کی ایک مستحسن صورت ہے جس سے اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب بندوں کو نواز رکھا ہے۔ ’’اطعام الطعام‘‘ تعلیمات قرآن و سنت کی معروف اصطلاح اور اسلامی تہذیب و ثقافت کی ایک نمایاں خصوصیت ہے۔ سورۃ الدھر میں اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب اور مخلص بندوں کی خصوصیات بیان فرمائی ہیں جن میں ضرورت مندوں اور ناداروں کو کھانا کھلانا بنیادی خصوصیت قرار دیا گیا، ارشادِ باری تعالیٰ ہے :

وَيُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَى حُبِّهِ مِسْكِينًا وَيَتِيمًا وَأَسِيرًاO إِنَّمَا نُطْعِمُكُمْ لِوَجْهِ اللَّهِ لَا نُرِيدُ مِنكُمْ جَزَاءً وَلَا شُكُورًاO إِنَّا نَخَافُ مِن رَّبِّنَا يَوْمًا عَبُوسًا قَمْطَرِيرًاO

’’اور (اپنا) کھانا اﷲ کی محبت میں (خود اس کی طلب و حاجت ہونے کے باوُجود اِیثاراً) محتاج کو اور یتیم کو اور قیدی کو کھلا دیتے ہیںo (اور کہتے ہیں کہ) ہم تو محض اللہ کی رضا کیلئے تمہیں کھلا رہے ہیں، نہ تم سے کسی بدلہ کے خواستگار ہیں اور نہ شکرگزاری کے (خواہشمند) ہیںo ہمیں تو اپنے ربّ سے اُس دن کا خوف رہتا ہے جو (چہروں کو) نہایت سیاہ (اور) بدنما کر دینے والا ہےo‘‘

الدهر، 76 : 8 - 10

یہ کام اہل اﷲ کے نزدیک نفلی عبادت سے زیادہ باعثِ ثواب ہے۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ مخلوقِ خدا کی خدمت دراصل اللہ تعالیٰ کو خوش رکھنے کا ایک ذریعہ ہے۔ یہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرتِ طیبہ کا نمایاں وصف ہے اور اسوۂ حسنہ کے اتباع میں تمام صوفیاء کا معمول رہا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود یتیموں، مسکینوں اور ناداروں کا سہارا اور ملجا تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مروی متعدد احادیث میں ’’اطعام الطعام‘‘ کی ترغیب اور حکم موجود ہے۔ بلکہ بعض صحیح احادیث میں بیان ہوا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسلام کی تعریف اور بنیادی خصوصیات میں کھانا کھلانے اور دوسرے کی خیر خواہی چاہنے کو شامل فرمایا۔ ملاحظہ ہو فرمان نبوی :

1۔ حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کسی نے سوال کیا :

أَيُّ الْاِسْلَامِ خَيْرٌ؟ قَالَ : تُطْعِمُ الطَّعَامَ وَتَقْرَأُ السَّلَامَ عَلَی مَنْ عَرَفْتَ وَ مَنْ لَمْ تَعْرِفْ.

’’بہترین اسلام کون سا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تو کھانا کھلائے اور سلام کرے اس شخص کوجس کو تو پہچانتا ہو یا نہ پہچانتا ہو۔‘‘

1. بخاري، الصحيح، کتاب الإيمان، باب افشاء السلام، 1 : 19، رقم : 28
2. مسلم، الصحيح، کتاب الإيمان، باب تفاضل الإيمان، 1 : 65، رقم : 39
3. ابوداؤد، السنن، کتاب الأدب، باب في افشاء السلام، 4 : 350، رقم : 5194

2۔ اسی طرح مشہور صحابی سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دریافت فرمایا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! مجھے کوئی ایسا عمل بتائیں جس کی بجا آوری سے میں جنت کا حق دار ٹھہر سکوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

أطْعِمِ الطَّعَامَ، وَ أفْشِ السَّلَامَ، وَصِلِ الْأرْحَامَ، وَصَلِّ بِالَّيْلِ وَالنَّاسُ نَيامٌ تَدْخُلُ الْجَنَّة بِسَلَامٍ.

’’ضرورت مند کو کھانا کھلاؤ، سلام (سلامتی اور خیر خواہی) کو عام کرو، صلہ رحمی کرو اور دوسرے لوگ نیند کے مزے لے رہے ہوں تو تم اٹھ کر نماز (تہجد) پڑھا کرو (ان اعمال کے باعث تم) سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہو جاؤ گے۔‘‘

1. ابن حبان، الصحيح، 6 : 299، رقم : 2559
2. حاکم، المستدرک، 4 : 144، رقم : 7174

3۔ حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جس وقت مدینہ تشریف لائے تو اول کلام جو میں نے ان سے سنا وہ یہ تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

اَيُّهَا النَّاسُ أَفْشُوا السَّلَامَ وَ أَطْعِمُوا الطَّعَامَ وَصَلُّوْا وَالنَّاسُ نِيَامٌ تَدْخُلُوا الْجَنَّة بِسَلَامٍ.

’’لوگو! سلام کو عام کرو اور کھانا کھلاؤ اور جب لوگ سو رہے ہوں، نماز پڑھو تم سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہو جاؤ گے۔‘‘

1. ترمذي، السنن، کتاب صفة القيامة، 4 : 652، رقم : 2485
2. ابن ماجه، السنن، کتاب الأطعمة، 2 : 1083، رقم : 3251
3. احمد بن حنبل، المسند، 5 : 451، رقم : 23835

4۔ حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے اس سے مماثل روایت ہے جس میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اطعام الطعام کو اﷲ کی عبادت کا ہم پلہ عمل قرار دیتے ہوئے فرمایا :

اعْبُدُوا الرَّحْمٰنَ وَ أَطْعِمُوا الطَّعَامَ وَ أَفْشُوا السَّلَامَ تَدْخُلُوا الْجَنَّة بِسَلَامٍ.

’’تم رحمٰن کی عبادت کرو اور کھانا کھلاؤ اور سلام عام کرو ان تین امور کی انجام دہی کے ثمر کے طور پر تم سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہو جاؤ گے۔‘‘

1. ترمذی، السنن، کتاب الأطعمة، باب فضل اطعام الطعام، 4 : 2870، رقم : 1855
2. احمد بن حنبل، المسند، 2 : 170، رقم : 6587
3. دارمی، السنن، 2 : 148، رقم : 2081
4. بزار، المسند، 6 : 383، رقم : 2402
5. بخاری، الأدب المفرد، 1 : 340، رقم : 981

آپ نے قرآن و سنت کے واضح احکام کو ملاحظہ کیا کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کھانا کھلانے کا کس قدر اہتمام اور تاکید کے ساتھ ذکر فرمایا۔ بھلا یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ اللہ کے متقی، پرہیزگار، مخلصین اور محبین، اللہ تعالیٰ سے قربت اور اخلاص کا دعویٰ کریں اور اس کے محبوب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت و اطاعت کا دم بھی بھریں لیکن ان کے ہاں مخلوقِ خدا کو خیر خواہی نہ ملے، بھوکوں کو کھانا کھلانے کی ترغیب اور عملی مظاہرہ نہ ہو چنانچہ مقربینِ بارگاہِ ایزدی جب حیات ہوتے ہیں خود بھی مخلوق کے لیے سراپا خیر ہوتے ہیں، ان کے دوست دشمن، امیر غریب جاننے والے اور غیر سب کے لیے ان کا دست عطا کھلا رہتا ہے اور جب وہ دنیا سے چلے جاتے ہیں تو اس وقت بھی ان کے اس عمل خیر میں انقطاع نہیں ہوتا۔

چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا میں جہاں جہاں ایسے مزارات ہیں وہاں قائم لنگرخانوں میں نادار، غریب اور مفلوک الحال لوگ پیٹ کی آگ بجھاتے ہیں۔ انہیں دو وقت کا کھانا مفت ملتا ہے تو یہ خود ایک بہت بڑی انسانی خدمت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی زندگی میں ان کے اخلاصِ عمل کو برکت سے نواز کر ان کے وصال کے بعد بھی ایصالِ ثواب کی یہ سبیل جاری رکھی ہوئی ہے۔ یہ دراصل زمین پر مائدۃ الرحمن (الوہی دسترخوان) ہے جس کی سعادت سے یہی عظیم المرتبت لوگ نوازے جاتے ہیں۔ انسانی استطاعت و طاقت سے یہ ممکن نہیں ہوتا بلکہ صرف اللہ تعالیٰ کی توفیق اور عنایت سے ہی اس قدر وسیع اسباب و وسائل میسر آتے ہیں۔

برصغیر پاک و ہند میں ایسے مزارات بکثرت موجود ہیں مثلاً سیدنا علی بن عثمان الہجویری المعروف داتا صاحب رحمۃ اللہ علیہ، حضرت بابا فرید مسعود گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ پاک پتن شریف، خواجہ ھند حضرت معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ، حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ، حضرت بہاؤ الدین ذکریا ملتانی رحمۃ اللہ علیہ، حضرت مجدد الف ثانی، شیخ احمد فاروقی سرہندی رحمۃ اللہ علیہ بطور خاص قابل ذکر ہیں۔ اسی طرح کے سینکڑوں مراکز اور مقامات ہیں جہاں آج بھی ہزاروں اور لاکھوں ایسے لوگ کھانا کھاتے ہیں جو بے روزگار اور بے سہارا ہوتے ہیں۔ غریب اور یتیم بچے، عورتیں، بوڑھے اور بیمار، سب بلاتمیز رنگ و نسل، عقیدہ و مذہب ان آستانوں پر آزادانہ کھاتے پیتے ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق حضرت داتا صاحب کے احاطۂ مزار میں ہر روز 20 سے 30 ہزار لوگ مختلف شکلوں میں ’’لنگر‘‘ سے کھانا حاصل کرتے ہیں۔ اتنی بڑی تعداد میں بھوکوں، بے روزگاروں اور ضرورت مندوں کو کھانا کھلانا کوئی معمولی بات نہیں۔

یہ تو صرف اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم اور اس کی خصوصی عطاء سے ہی ممکن ہے ورنہ دنیا کا کوئی بادشاہ، دولت مند شخص یا تنظیم ایسا کرنے کی صلاحیت و قدرت نہیں رکھتی۔ پھر یہ سلسلہ دو چار دنوں یا مہینوں سے نہیں بلکہ صدیوں سے جاری و ساری ہے۔ ایسے نیک اور خدمتِ خلق پر مبنی عمل کو بلاسوچے سمجھے شرک و بدعت اور حرام کہنا بجائے خود بہت بڑی جسارت ہے۔ جیسا کہ اوپر ہم عرض کر چکے ہیں کہ یہ ’’اطعام الطعام‘‘ کے فرمانِ الٰہی پر عمل درآمد کی ایک بہترین شکل ہے۔ جائز مشروع اور مخلوقِ خدا کیلئے مفید عمل کو بلادلیل ناجائز عمل کہنا دراصل دین میں تجاوز ہے۔ یہ ایک طرف کی سوچ اور نقطۂ نظر ہے۔

دوسری طرف اس سے بھی زیادہ قباحتیں موجود ہیں۔ انہی قباحتوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ کئی لوگوں نے اس لنگر یا نذر و نیاز کے کھانے سے متعلق بہت سی خود ساختہ باتیں گھڑ رکھی ہیں۔ کہیں اس کی شفا کے مبالغہ آمیز تذکرے کیے جاتے ہیں، کہیں اس کے عدمِ استعمال پر انجام بد سے ڈرایا جاتا ہے اور کسی جگہ کا لنگر ہر گناہ اور معصیت سے چھٹکارے کا ضامن سمجھا جاتا ہے۔ بزرگانِ دین کے مزارات اور ان کی قربت بلاشبہ باعثِ خیر و برکت ہے اور ان کے آستانوں پر توسلاً اللہ پاک بیماروں کو شفا بھی دیتا ہے مگر یہ سب فوائد اضافی ہیں بنیادی غرض و غایت تو ضرورت مندوں کی بھوک کا ازالہ ہے۔

علاہ ازیں بعض مقامات اور مزارات پر اس نیک عمل کو بے جا پابندیوں اور اضافی شرطوں سے خاص کردیا جاتا ہے مثلاً شیرینی کے ساتھ مختلف تحریریں لکھ دی جاتی ہیں جن کے ذریعے زائرین پر نفسیاتی طور پر ترغیب و ترھیب سے اثر انداز ہونے کی کوشش بھی کی جاتی ہے کہ ’’یہ کھانے سے اتنے پھیرے اور اسی طرح کی نیاز کی مزید تقسیم ضروری ہے۔‘‘ وغیرہ۔

یہ سب رسوم و رواج جہالت اور مزارات کے غلط استعمال کی مختلف شکلیں ہیں ایسی قباحتوں سے صاحبِ مزار کو یقینا تکلیف پہنچتی ہے اس لئے ایسے امور سے ہر ممکن بچنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ عرس کی شیرینی کھانے کے فضائل بیان کرنے اور نہ کھانے والے کو محروم سمجھے جانے کی کوئی اصل نہیں ہے۔

اعلیٰ حضرت محدث بریلوی رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا گیا کہ عرس کی شیرینی کے متعلق یہ کہنا کہ جوکوئی اِس کو کھائے گا اُس کا جنت مقام و دوزخ حرام ہے یہ کہنا شرعاً کیا حکم رکھتا ہے؟

انہوں نے جواب دیا : ’’یہ کہنا جزاف اور یاوہ گوئی ہے۔ اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ کس کا جنت مقام اور کس پر دوزخ حرام ہے۔ عرس کی شیرینی کھانے پر اللہ و رسول کا کوئی وعدہ ایسا نہیں ثابت جس کے بھروسہ پر یہ حکم لگا سکیں۔ یہ تقول علی اﷲ کے مترادف ہے اور وہ ناجائز ہے۔

قال اﷲ تعالی : اَطَّلَعَ الْغَيبَ اَمِ اتَّخَذَ عِنْدَ الرَّحْمٰنِ عَهْدًا (مريم، 19 : 78)، قال اﷲ تعالی : أَتَقُوْلُوْنَ عَلَي اﷲِ مَالَا تَعْلَمُوْن (البقرة، 2 : 80).

ارشادِ باری تعالیٰ ہے : ’’وہ غیب پر مطلع ہے یا اس نے (خدائے) رحمن سے (کوئی) عہد لے رکھاہے؟ (اسی طرح) اﷲ تعالیٰ نے فرمایا : ’’تم اللہ پر یونہی (وہ) بہتان باندھتے ہو جو تم خود بھی نہیں جانتے۔‘‘

احمد رضا خان، فتاویٰ رضويه، 4 : 219

کلماتِ توسُّل میں احتیاط

اگر کوئی جاہل یہ عقیدہ رکھتا ہو کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں وسیلہ کے بغیر دُعا قابلِ سماعت ہی نہیں یا وسیلہ کا معنی یہ سمجھتا ہو کہ اللہ تعالیٰ پر العیاذ باللہ کوئی بوجھ یادباؤ پڑتا ہے، تو ایسا عقیدہ باطل ہے جس کا سلف صالحین کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا محدث بریلوی رحمۃ اللہ علیہ سے مزارات پر فاتحہ کے طریقہ کے متعلق پوچھا گیا کہ ’’بزرگوں کے مزارپر جائیں تو فاتحہ کس طرح سے پڑھا کریں؟‘‘ انہوں نے جواب دیا : ’’مزاراتِ شریفہ پر حاضر ہونے میں پائنتی کی طرف سے جائے اور کم از کم چار ہاتھ کے فاصلہ پر مواجہہ میں کھڑا ہو اور متوسط آواز میں مودِبانہ سلام کرے۔ ختم وغیرہ پڑھ کر اللہ عزوجل سے دعا کرے کہ الٰہی اس قرات پر مجھے اتنا ثواب دے جو تیرے کرم کے قابل ہے نہ اِتنا جو میرے عمل کے قابل ہے اور اِسے میری طرف سے اِس بندہ مقبول کو نذر پہنچا۔ پھر اپنا جو مطلب جائز شرعی ہو اُس کے لئے دُعا کرے اور صاحبِ مزار کی رُوح کو اللہ عزوجل کی بارگاہ میں اپنا وسیلہ قرار دے۔ پھر اُسی طرح سلام کر کے واپس آئے۔ مزار کو ہاتھ نہ لگائے، نہ بوسہ دے۔ طواف بالاتفاق ناجائز ہے جبکہ سجدہ حرام ہے۔‘‘

احمد رضا خان، فتاویٰ رضويه، 4 : 212

سجدۂ تعظیمی اور قبر کی سمت سجدہ کرنے کی ممانعت

سجدہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کے لئے جائز نہیں۔ غیر اللہ کو سجدۂ عبادت کھلا کفر ہے اور سجدۂ تعظیمی حرام ہے بلکہ ایسا عمل بھی ممنوع ہے جو سجدہ کی سی مشابہت رکھتا ہو وہ بھی مزارات پر نہیں کرنا چاہیے۔

حضرت ابو مرثد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا :

لَا تُصَلُّوْا إِلَی الْقُبُوْرِ وَ لَا تَجْلِسُوْا عَلَيْهَا.

’’قبروں کی طرف رخ کر کے نماز نہ پڑھو اور نہ اُن پر بیٹھو۔‘‘

1. مسلم، الصحيح، کتاب الجنائز، باب النهی عن الجلوس علی القبر، 2 : 668، رقم : 972
2. نسائی، السنن، کتاب القبلة، باب النهی عن الصلوة إلی القبر، 2 : 67، رقم : 760
3. احمد بن حنبل، 4 : 135

سج عامۃ الناس میں سے بعض لوگ مزارات کو بوسہ دیتے اور چوکھٹ چومتے ہیں یہ ناپسندیدہ فعل، مکروہ کے زمرے میں داخل ہے مگر شرک کے دائرے میں نہیں آتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ زمین بوسی حقیقتاً سجدہ نہیں کیونکہ سجدہ میں سات اعضاء کا بیک وقت زمین پر رکھنا ضروری ہے۔ ہاں زمین بوسی اِس وجہ سے ممنوع ہے کہ مشابہتًا بت پرستی اور صورۃً قریبِ سجدہ ہے۔ حقیقتاً سجدہ نہ سہی پھر بھی منع ہے۔ اعلیٰ حضرت محدث بریلوی مولانا احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ نے اِس مسئلہ پر باقاعدہ الگ کتاب ’’الزبدۃ الزکیۃ لتحریم سجود التحیۃ‘‘ لکھی ہے جس میں انہوں نے ٹھوس دلائل سے سجدۂ تعظیمی اور خلافِ شرع اُمور کی تردید فرمائی ہے۔

اَعراس سے متعلقہ اُمور میں احتیاط

متعلقاتِ اعراس کے بارے میں مخالفین کا طرزِ عمل تو واضح ہے کہ وہ ہر جائز اور مباح کو شرک و بدعت گردانتے ہیں جو کہ قرآن و سنت کے نصوص کے برعکس ہے لیکن ان مبارک امور کو ماننے والے بھی بعض اوقات ان کی انجام دہی میں بڑی بے احتیاطی کرتے ہیں لہٰذا انہیں محتاط طرزِ عمل اختیار کرنا چاہیے۔ پیر سید مہر علی شاہ گولڑوی رحمۃ اللہ علیہ اِن نازک اُمور کے بارے میں لکھتے ہیں :

این طعن مبنی است بر جہل بہ احوالِ مطعون علیہ زیرا کہ غیر از فرائض شرعیہ مقررہ را ہیچ کس فرض نمی داند۔ آرے زیارت و تبرک بہ قبورِ صالحین و امدادِ ایشاں باہداء ثواب و تلاوتِ قرآن و دعائے خیر و تقسیم طعام و شیرینی امر مستحسن و خوب موجبِ فلاح و نجات است۔ و خلف را لازم است کہ سلف خود را بدیں نوع برّو احسان نماید، چنانچہ در احادیث ثابت است کہ ولد صالح یدعو لہ۔ تلاوتِ قرآن و اہدائے ثواب را عبادت قرار دادن، مبنی برکمالِ بلادت و افراطِ جہل است۔ آرے اگر کسے سجدہ و طواف بہ نحوِ یا فلاں افعل کذا آرد مشابہت بہ عبدۃُ الاوثان کردہ باشد وچوں چنیں نیست پس در محل طعن نباشد۔

’’یہ طعن اور اعتراض حقیقتِ حال سے عدم واقفیت کے باعث کیا گیا ہے اِس لئے کہ شریعت کے مقرر کردہ فرائض کے سوا کوئی آدمی کسی شے کو اپنی طرف سے فرض نہیں سمجھتا۔ ہاں البتہ اولیاء اللہ کے مزارات کی زیارت کرنا اور اُن سے فیض و برکت حاصل کرنا اور قرآنِ حکیم کی تلاوت کے بعد اُن کی ارواحِ طیبہ کو ثواب کا ہدیہ پیش کر کے اُن کی مدد کرنا، وہاں اچھی دُعائیں کرنا، مٹھائی یا کھانا تقسیم کرنا ایک اچھا عمل ہے اور فلاح و نجات کا بہت اچھا ذریعہ ہے۔ بعد میں آنے والوں پر لازم ہے کہ وہ اپنے اسلاف پر اس طرح کا احسان کریں چنانچہ احادیثِ مبارکہ سے ثابت ہے کہ نیک اولاد ماں باپ کے لئے دُعا مانگے۔ قرآن حکیم کی تلاوت اور اِس کے ایصالِ ثواب کو عبادت کے زُمرے میں داخل کرنا بے وقوفی اور جہالت پر مبنی ہے۔ ہاں اگر کوئی شخص کسی قبر کے سامنے سجدہ کرے یا اُس کا طواف کرے یا اِن الفاظ میں دُعا کرے کہ اے صاحبِ مزار! میرا فلاں کام یوں کر دے، ایسا کرنا بتوں کے پجاریوں سے مشابہت پیدا کرتا ہے۔ چونکہ اولیاء اللہ کی قبروں پر آنے والے اِس طرح کا کوئی عمل نہیں کرتے اِس لئے اُن پر اِس قسم کا طعن درست نہیں ہے۔‘‘

مهر علی شاه، اعلاء کلمة اﷲ : 66

یہ ایک حقیقت ہے کہ کسی بھی مزار پر جا کر براہِ راست اُنہیں حاجت روا سمجھ کر ایسے الفاظ کہنا جائز نہیں۔ اِس سلسلہ میں ہمیں لوگوں کو صحیح اور متوازن طریقہ بتاتے رہنا چاہیے۔ مشکل کشا، داتا گنج بخش، غریب نواز، دستگیر وغیرہ جیسے القابات جو بزرگوں کے ساتھ اِستعمال کیے جاتے ہیں، مجازاً کئے جاتے ہیں۔ اِن الفاظ کو حقیقتاً اور مستقلاً کسی کے ساتھ بھی اِستعمال کرنا جائز نہیں۔

Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved