عقیدہ شفاعت: احادیثِ مبارکہ کی روشنی میں

مدینہ طیبہ کے مصائب برداشت کرنے اور مشکلات پر صبر کرنے کے باعث شفاعتِ نبوی نصیب ہونے کا بیان

بَابٌ فِي شَفَاعَةِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم لِلصَّبْرِ عَلَی الْأَوَاءِ الْمَدِيْنَةِ وَجَهْدِهَا

 (مدینہ طیبہ کے مصائب برداشت کرنے اور مشکلات پر صبر کرنے کے باعث شفاعتِ نبوی نصیب ہونے کا بیان)

217 / 1. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی اﷲ عنه أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : لَا يَصْبِرُ عَلَی لَأْوَاءِ الْمَدِيْنَةِ وَشِدَّتِهَا أَحَدٌ مِنْ أُمَّتِي إِلَّا کُنْتُ لَهُ شَفِيْعًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَوْ شَهِيْدًا.

رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالتِّرْمِذِيُّ وَأَحْمَدُ وَابْنُ حِبَّانَ، وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ : هَذَا حَسَنٌ.

1 : أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب : الحج، باب : الترغيب في سکنی المدينة والصبر علی لأوائها، 2 / 1004، الرقم : 1378، والترمذي في السنن، کتاب : المناقب، باب : في فضل المدينة، 5 / 722، الرقم : 3924، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 397، الرقم : 9161، وابن حبان في الصحيح، 9 / 56، الرقم : 3739.

’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میری امت میں سے جو کوئی بھی مدینہ طیبہ کی سختی اور شدت پر صبر کرے گا میں قیامت کے دن اس کی شفاعت کروں گا یا اس کے حق میں گواہی دوں گا۔‘‘

اس حدیث کو امام مسلم، ترمذی، احمد اور ابنِ حبان نے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے کہا ہے : یہ حدیث حسن ہے۔

218 / 2. عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضی اﷲ عنه قَالَ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ : مَنْ صَبَرَ عَلَی لَأْوَائِهَا کُنْتُ لَهُ شَهِيْدًا أَوْ شَفِيْعًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ.

رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ.

2 : أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب : الحج، باب : الترغيب في سکنی المدينة والصبر علی لأوائها، 2 / 1004، الرقم : 1377، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 155، الرقم : 6440.

’’حضرت ابنِ عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا : جو شخص مدینہ طیبہ کی بھوک پیاس اور سختی پر صبر کرے گا میں قیامت کے دن اس کے حق میں گواہی دوں گا یا اس کی شفاعت کروں گا۔‘‘

اس حدیث کو امام مسلم اور احمد نے روایت کیا ہے۔

219 / 3. عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ رضی اﷲ عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : إِنِّي أُحَرِّمُ مَا بَيْنَ لَابَتَی الْمَدِيْنَةِ أَنْ يُقْطَعَ عِضَاهُهَا أَوْ يُقْتَلَ صَيْدُهَا، وَقَالَ : أَلْمَدِيْنَةُ خَيْرٌ لَهُمْ لَوْ کَانُوْا يَعْلَمُوْنَ، لَا يَدَعُهَا أَحَدٌ رَغْبَةً عَنْهَا إِلَّا أَبْدَلَ اﷲُ فِيْهَا مَنْ هُوَ خَيْرٌ مِنْهُ، وَلَا يَثْبُتُ أَحَدٌ عَلَی لَأْوَائِهَا وَجَهْدِهَا إِلَّا کُنْتُ لَهُ شَفِيْعًا أَوْ شَهِيْدًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ.

رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَعَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ.

3 : أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب : الحج، باب : فضل المدينة ودعاء النبي صلی الله عليه وآله وسلم فيها بالبرکة، 2 / 1002، الرقم : 1363، وعبد بن حميد في المسند، 1 / 81، الرقم : 153.

’’حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں مدینہ کے دونوں سیاہ پتھریلے کناروں کی درمیانی جگہ کو حرم قرار دیتا ہوں نہ اس کے کانٹے دار درختوں کو کاٹا جائے نہ اس کے شکار کو قتل کیا جائے۔ اور فرمایا : کاش اہلِ مدینہ جانتے کہ مدینہ ان کے لئے بہتر ہے، جو کوئی مدینہ سے اعراض کر کے اسے چھوڑے گا اللہ تعالیٰ اس کے بدلے اس سے بہتر کو مدینہ میں سکونت عطا کرے گا، اور جو کوئی بھی اس کی بھوک، سختی اور مشقت پر صبر کرے گا میں قیامت کے دن اس کی شفاعت کروں گا یا اس کے حق میں گواہی دوں گا۔‘‘

اسے امام مسلم اور عبد بن حميد نے روایت کیا ہے۔

220 / 4. عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ مَوْلَی الْمَهْرِيِّ أَنَّهُ جَاءَ أَبَا سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ رضی اﷲ عنه لَيَالِيَ الْحَرَّةِ، فَاسْتَشَارَهُ فِي الْجَلَاءِ مِنَ الْمَدِيْنَةِ، وَشَکَا إِلَيْهِ أَسْعَارَهَا وَکَثْرَةَ عِيَالِهِ، وَأَخْبَرَهُ أَنْ لَا صَبْرَ لَهُ عَلَی جَهْدِ الْمَدِيْنَةِ وَلَأْوَائِهَا، فَقَالَ لَهُ : وَيْحَکَ لَا آمُرُکَ بِذَلِکَ، إِنِّي سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ : لَا يَصْبِرُ أَحَدٌ عَلَی لَأْوَائِهَا فَيَمُوْتُ إِلَّا کُنْتُ لَهُ شَفِيْعًا أَوْ شَهِيْدًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِذَا کَانَ مُسْلِمًا. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ وَالنَّسَائِيُّ وَأَبُويَعْلَی.

4 : أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب : الحج، باب : الترغيب في سکنی المدینة والصبر علی لأوائہا، 2 / 1002، الرقم : 1374، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 58، الرقم : 11554، والنسائي في السنن الکبری، 2 / 487، الرقم : 4280، وأبويعلی في المسند، 2 / 455، الرقم : 1266، والمنذري في الترغيب والترهيب، 2 / 144، الرقم : 1852.

’’ابو سعید مولیٰ مہری سے روایت ہے کہ جنگِ حرہ کے زمانہ میں اس نے حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کے پاس حاضر ہو کر مدینہ سے چلے جانے کے بارے مشورہ کیا اور ان سے مدینہ کی مہنگائی اور اپنے کثرتِ عیال کی شکایت کی اور یہ بھی بتایا کہ اب وہ مدینہ کی مشکلات پر مزید صبر نہیں کرسکتا. آپ رضی اللہ عنہ نے اس سے کہا : اللہ تعالیٰ تم پر رحم کرے! میں تمہیں یہاں سے چلے جانے کے بارے میں نہیں کہوں گا کیونکہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے : جو کوئی بھی اس کی بھوک پیاس اور سختی پر صبر کرے گا میں قیامت کے دن اس کی شفاعت کروں گا یا اس کے حق میں گواہی دوں گا بشرطیکہ وہ مسلمان ہو۔‘‘

اسے امام مسلم، احمد، نسائی اور ابو یعلی نے روایت کیا ہے۔

221 / 5. عَنْ يُحَنَّسَ مَوْلَی الزُّبَيْرِ رضی اﷲ عنه أَنَّهُ کَانَ جَالِسًا عِنْدَ عَبْدِاﷲِ بْنِ عُمَرَ رضی اﷲ عنهما فِي الْفِتْنَةِ، فَأَتَتْهُ مَوْلَةٌ لَه تُسَلِّمُ عَلَيْهِ، فَقَالَتْ : إِنِّي أَرَدْتُ الْخُرُوْجَ، يَا أَبَا عَبْدِالرَّحْمٰنِ! إِشْتَدَّ عَلَيْنَا الزَّمَانُ، فَقَالَ لَهَا عَبْدُ اﷲِ : اقْعُدِي لَکَاعِ، فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ : لَا يَصْبِرُ عَلَی لَأْوَائِهَا وَشِدَّتِهَا أَحَدٌ إِلَّا کُنْتُ لَهُ شَهِيْدًا أَوْ شَفِيْعًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَمَالِکٌ وَأَحْمَدُ وَالنَّسَائِيُّ.

5 : أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب : الحج، باب : الترغيب في سکنی المدينة والصبر علی لأوائها، 2 / 1004، الرقم : 1377، ومالک في الموطأ، 2 / 885، الرقم : 1569، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 113، الرقم : 5935، والنسائي في السنن الکبری، 2 / 487، الرقم : 4281.

’’حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کے آزاد کردہ غلام یحنس سے روایت ہے کہ وہ فتنہ کے دَور میں حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اﷲ عنہما کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ اسی اثناء میں ان کی ایک لونڈی نے ان کے پاس آ کر سلام کر کے کہا : ابوعبدالرحمن! میں (مدینہ سے) جانا چاہتی ہوں، ہم پر حالات تنگ ہوگئے ہیں تو حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ نے اس سے فرمایا : بے سمجھ (خاموشی سے) یہاں بیٹھی رہ کیونکہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا : جو کوئی بھی اس کی بھوک پیاس اور مشقت پر صبر کرے گا میں قیامت کے دن اس کے حق میں گواہی دوں گا یا اس کی شفاعت کروں گا۔‘‘

اسے امام مسلم، مالک، احمد اور نسائی نے روایت کیا ہے۔

222 / 6. عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضی اﷲ عنه أَنَّ مَوْلَاةً لَه أَتَتْهُ فَقَالَتْ : إِشْتَدَّ عَلَيَّ الزَّمَانُ وَإِنِّي أُرِيْدُ أَنْ أَخْرُجَ إِلَی الْعِرَاقِ. قَالَ : فَهَلَّا إِلَی الشَّامِ أَرْضِ الْمَنْشَرِ؟ إِصْبِرِي لَکَاعِ، فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ : مَنْ صَبَرَ عَلَی شِدَّتِهَا وَلَأْوَائِهَا کُنْتُ لَهُ شَهِيْدًا أَوْ شَفِيْعًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ.

رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَقَالَ : هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ.

6 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : المناقب، باب : ما جاء في فضل المدينة، 5 / 719، الرقم : 3918.

’’حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ ان کی ایک لونڈی نے ان کے پاس آکر کہا : ہم پر حالات تنگ ہو گئے ہیں اس لیے میں عراق جانا چاہتی ہوں. آپ نے فرمایا : کیا شام تو نہیں جانا جو زمین محشر ہے؟ نادان صبر کرکے یہاں رہو کیونکہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا : جو کوئی بھی اس کی سختی و مشقت اور بھوک پیاس پر صبر کرے گا میں قیامت کے دن اس کے حق میں گواہی دوں گا یا اس کی شفاعت کروں گا۔‘‘

اسے امام ترمذی نے روایت کیا اور کہا : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

223 / 7. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی اﷲ عنه عَنْ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم أَنَّهُ قَالَ : تُفْتَحُ الْبِلَادُ وَالْأَمْصَارُ، فَيَقُوْلُ الرِّجَالُ لِإِخْوَانِهِمْ : هَلُمُّوْا إِلَی الرِّيْفِ وَالْمَدِيْنَةُ خَيْرٌ لَهُمْ لَوْ کَانُوْا يَعْلَمُوْنَ، لَا يَصْبِرُ عَلَی لَأْوَائِهَا وَشِدَّتِهَا أَحَدٌ إِلَّا کُنْتُ لَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ شَهِيْدًا أَوْ شَفِيْعًا.

رَوَاهُ أَحْمَدُ. حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ، وَهَذَا إِسْنَادٌ حَسَنٌ.

7 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 2 / 338، الرقم : 8458.

’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ یقیناً حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جب شہر اور بڑے بڑے علاقے فتح ہوجائیں گے تو لوگ اپنے بھائیوں سے کہیں گے : چلو (مدینہ سے نکل کر فلاں) زرخیز اور ترقی یافتہ علاقہ میں چلیں، کاش وہ جانتے کہ مدینہ ان کے لئے بہتر ہے۔ جو کوئی اس کی بھوک پیاس، تنگی اور مشقت پر صبر کرے گا میں قیامت کے دن اس کے حق میں گواہی دوں گا یا اس کی شفاعت کروں گا۔‘‘

اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔ یہ حديث صحيح ہے اور اس کی اسناد حسن ہے۔

224 / 8. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی اﷲ عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : إِنَّ رِجَالًا يَسْتَنْفِرُوْنَ عَشَائِرَهُمْ يَقُوْلُوْنُ : الْخَيْرَ الْخَيْرَ، وَالْمَدِيْنَةُ خَيْرٌ لَهُمْ لَوْ کَانُوْا يَعْلَمُوْنَ، وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ! لَا يَصْبِرُ عَلَی لَأْوَائِهَا وَشِدَّتِهَا أَحَدٌ إِلَّا کُنْتُ لَهُ شَهِيْدًا أَوْ شَفِيْعًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ. وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِه إِنَّهَا لَتَنْفِي أَهْلَهَا کَمَا يَنْفِي الْکَيْرُ خَبَثَ الْحَدِيْدِ. وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ! لَا يَخْرُجُ مِنْهَا أَحَدٌ رَاغِبًا عَنْهَا إِلَّا أَبْدَلَهَا اﷲُ عَزَّوَجَلَّ خَيْرًا مِنْهُ. رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالْبَيْهَقِيُّ فِي الشُّعَبِ. حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ، إِسْنَادُهُ حَسَنٌ.

8 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 2 / 439، الرقم : 9670، والبيهقي في شعب الإيمان، 3 / 496، الرقم : 4179، وابن عبد البر في التمهيد، 22 / 279.

’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : لوگ اپنے خاندانوں اور قبائل کو یہ کہتے ہوئے (مدینہ سے) بھگا لے جائیں گے کہ بھلائی کی طرف چلو، خیر اور ترقی کی طرف چلو، کاش وہ جانتے کہ مدینہ ان کے لئے بہتر ہے۔ اس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جان ہے! جو کوئی اس کی بھوک پیاس، تنگی اور مشقت پر صبر کرے گا میں قیامت کے دن اس کے حق میں گواہی دوں گا یا اس کی شفاعت کروں گا۔ اس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے! بے شک یہ اپنے رہنے والوں (میں سے بد) کو اس طرح علیحدہ کر دیتا ہے جس طرح لوہار کی بھٹی لوہے کا کھوٹ علیحدہ کردیتی ہے۔ اس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جان ہے! جو کوئی مدینہ سے منہ پھیر کر نکلے گا اللہ تعالیٰ اس سے بہتر کو مدینہ میں سکونت عطا کرے گا۔‘‘

اسے امام احمد اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔ یہ حديث صحيح ہے اور اس کی اسناد حسن ہے۔

225 / 9. عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ مَوْلَی الْمَهْرِيِّ قَالَ : تُوُفِّيَ أَخِي وَأَتَيْتُ أَبَا سَعِيْدٍ الْخُدْرِيَّ رضی اﷲ عنه، فَقُلْتُ : يَا أَبَا سَعِيْدٍ! إِنَّ أَخِي تُوُفِّيَ وَتَرَکَ عِيَالًا، وَلِي عِيَالٌ وَلَيْسَ لَنَا مَالٌ، وَقَدْ أَرَدْتُ أَنْ أَخْرُجَ بِعِيَالِي وَعِيَالِ أَخِي حَتَّی نَنْزِلَ بَعْضَ هَذِهِ الْأَمْصَارِ، فَيَکُوْنَ أَرْفَقَ عَلَيْنَا فِي مَعِيْشَتِنَا، قَالَ : وَيْحَکَ لَا تَخْرُجْ فَإِنِّي سَمِعْتُهُ يَقُوْلُ يَعْنِي النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم : مَنْ صَبَرَ عَلَی لَأْوَائِهَا وَشِدَّتِهَا کُنْتُ لَهُ شَفِيْعًا أَوْ شَهِيْدًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ. رَوَاهُ أَحْمَدُ.

9 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 3 / 29، الرقم : 11264.

’’ابو سعید مولیٰ مہری سے روایت ہے کہ میرے بھائی کی (مدینہ میں) وفات ہوئی تو میں نے حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کے پاس حاضر ہو کر عرض کیا : ابو سعید! میرا بھائی فوت ہوگیا ہے اور اس نے اپنا اہل و عیال چھوڑا ہے جبکہ میرے بھی اہل و عیال ہیں اور میرے پاس مال نہیں ہے، لہذا میرا ارادہ ہے کہ میں اپنے اور اپنے بھائی کے خاندان سمیت کسی اور علاقے میں چلا جاؤں جس سے ہماری معاشی صورتحال بہتر ہو۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ تم پر رحم کرے! یہاں سے نہ جاؤ کیونکہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا : جس نے مدینہ کی بھوک پیاس اور مشقت پر صبر کیا میں قیامت کے دن اس کی شفاعت کروں گا یا اس کے حق میں گواہی دوں گا۔‘‘

اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔

226 / 10. عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ مُسْلِمٍ الطَّوِيْلِ صَاحِبِ الْمَصَاحِفِ أَنَّ کِلَابَ بْنَ تَلِيْدٍ أَخَا بَنِي سَعْدِ بْنِ لَيْثٍ، أَنَّه بَيْنَا هُوَ جَالِسٌ مَعَ سَعِيْدِ بْنِ الْمُسَيَبِ جَاءَ هُ رَسُوْلُ نَافِعِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمِ بْنِ عَدِيٍّ يَقُوْلُ : إِنَّ ابْنَ خَالَتِکَ يَقْرَأُ عَلَيْکَ السَّلَامَ، وَيَقُوْلُ : أَخْبِرْنِي کَيْفَ الحديث الَّذِي کُنْتَ حَدَّثْتَنِي عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ عُمَيْسٍ؟ فَقَالَ سَعِيْدُ بْنُ الْمُسَيَبِ : أَخْبِرْهُ أَنَّ أَسْمَاءَ بِنْتَ عُمَيْسٍ رضی اﷲ عنها أَخْبَرَتْنِي أَنَّهَا سَمِعَتْ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ : لَا يَصْبِرُ عَلَی لَأْوَاءِ الْمَدِيْنَةِ وَشِدَّتِهَا أَحَدٌ إِلَّا کُنْتُ لَهُ شَفِيْعًا أَوْ شَهِيْدًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ. رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالنَّسَائِيُّ وَابْنُ أَبِي عَاصِمٍ.

10 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 6 / 369، الرقم : 27085، والنسائي في السنن الکبریٰ، 2 / 487، الرقم : 4282، وابن أبي عاصم في الآحاد والمثاني، 5 / 457، الرقم : 3147.

’’صاحب المصاحف عبد اللہ بن مسلم طویل سے روایت ہے کہ بنو سعد بن لیث کا ایک شخص کلاب بن تلید، سعید بن مسیب کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ اسی دوران نافع بن جبیر بن مطعم بن عدی کا قاصد آ کر کہنے لگا : آپ کی خالہ کا بیٹا آپ کو سلام کہتے ہوئے پوچھ رہا ہے : آپ مجھے اس حدیث کے بارے میں بتلائیے جو آپ نے حضرت اَسماء بنتِ عمیس رضی اﷲ عنہا سے مجھے بیان کی تھی؟ سعید بن مسیب نے فرمایا : تم اسے بتلانا کہ حضرت اَسماء بنتِ عمیس رضی اﷲ عنہا نے مجھے خبر دی کہ انہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا : جس نے مدینہ کی بھوک پیاس اور مشقت پر صبر کیا تو میں قیامت کے دن اس کی شفاعت کروں گا یا اس کے حق میں گواہی دوں گا۔‘‘

اسے امام احمد، نسائی اور ابنِ ابی عاصم نے روایت کیا ہے۔

227 / 11. عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ رضی اﷲ عنه أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : لَا يَخْرُجُ أَحَدٌ مِنَ الْمَدِيْنَةِ رَاغِبًا عَنْهَا إِلَّا أَبْدَلَهَا اﷲُ خَيْرًا مِنْهُ، وَلَا يَثْبُتُ فِيْهَا أَحَدٌ يَصْبِرُ عَلَی جَهْدِهَا وَشِدَّتِهَا حَتَّی يَمُوْتَ فِيْهَا إِلَّا کُنْتُ لَهُ شَهِيْدًا أَوْ شَفِيْعًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ. رَوَاهُ النَّسَائِيُّ وَالْبَزَّارُ.

11 : أخرجه النسائي في السنن الکبری، 2 / 486، الرقم : 4279، والبزار في المسند، 3 / 327، الرقم : 1124، والأصبهاني في المسند المستخرج علی صحیح الإمام مسلم، 4 / 38، الرقم : 3167.

’’حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو کوئی مدینہ سے اعراض کر کے نکلے گا اللہ تعالیٰ اس سے بہتر کو مدینہ میں سکونت عطا کرے گا، اور جو کوئی اس کی سختی اور مشقت پر صبر کرے گا یہاں تک کہ وہاں وفات پا جائے تو میں قیامت کے دن اس کے حق میں گواہی دوں گا یا اس کی شفاعت کروں گا۔‘‘

اسے امام نسائی اور بزار نے روایت کیا ہے۔

228 / 12. عَنْ عُمَرَ رضی اﷲ عنه قَالَ : غَلَا السَّعْرُ بِالْمَدِيْنَةِ فَاشْتَدَّ الْجَهْدَ، فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : إِصْبِرُوْا وَأَبْشِرُوْا فَإنِّي قَدْ بَارَکْتُ عَلَی صَاعِکُمْ وَمَدِّکُمْ، فَکُلُوْا وَلَا تَفَرَّقُوْا فَإِنَّ طَعَامَ الْوَاحِدِ يَکْفِي الْإِثْنَيْنِ وَطَعَامَ الْإِثْنَيْنِ يَکْفِي الْأَرْبَعَةَ، وَطَعَامَ الْأَرْبَعَةِ يَکْفِي الْخَمْسَةَ وَالسِّتَّةَ، وَإِنَّ الْبَرَکَةَ فِي الْجَمَاعَةِ، فَمَنْ صَبَرَ عَلَی لَأْوَائِهَا وَشِدَّتِهَا کُنْتُ لَه شَفِيْعًا أَوْ شَهِيْدًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَمَنْ خَرَجَ عَنْهَا رَغْبَةً عَمَّا فِيْهَا أَبْدَلَ اﷲُ بِه مَنْ هُوَ خَيْرٌ مِنْهُ فِيْهَا، وَمَنْ أَرَادَهَا بِسُوْئٍ أَذَابَهُ اﷲُ کَمَا يَذُوْبُ الْمِلْحُ فِي الْمَاءِ.

رَوَاهُ الْبَزَّارُ. وَقَالَ الْمُنْذَرِيُّ : إِسْنَادُهُ جَيِّدٌ، وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ : رِجَالُهُ رِجَالُ الصَّحِيْحِ.

12 : أخرجه البزار في المسند، 1 / 240، الرقم : 127، والمنذري في الترغيب والترهيب، 2 / 145، الرقم : 1857، والهيثمي في مجمع الزوائد، 3 / 305.

’’حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مدینہ میں مہنگائی کی بدولت سخت تنگی ہوئی تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے مخاطب ہوتے ہوئے) فرمایا : تم صبر کرو اور خوشخبری سناؤ کہ میں نے تمہارے ناپ تول کے پیمانوں میں برکت کی دعا کی ہے۔ تم مل کر کھاؤ اور جدا جدا نہ ہوا کرو کیونکہ ایک شخص کا کھانا دو کو کفایت کرے گا اور دو کا کھانا چار کے لیے، چار کا کھانا پانچ اور چھ اشخاص کو کافی ہوگا اور یقینا جماعت میں برکت ہے۔ جس نے مدینہ کی بھوک پیاس اور مشقت و سختی پر صبر کیا میں قیامت کے دن اس کی شفاعت کروں گا یا اس کے حق میں گواہی دوں گا، اور جو کوئی مدینہ سے منہ موڑ کے نکلے گا اللہ تعالیٰ اس سے بہتر کو مدینہ میں سکونت عطا کرے گا، اور جس نے اس کے ساتھ کسی قسم کی برائی کا ارادہ کیا تو اللہ تعالیٰ اُسے (دوزخ میں) اِس طرح پگھلائے گا جیسے نمک پانی میں پگھلتا ہے۔‘‘

اسے امام بزار نے روایت کیا ہے۔ امام منذری نے کہا ہے : اس کی اسناد جید ہے، اور امام ہیثمی نے کہا ہے : اس کے رِجال صحیح حدیث کے رجال ہیں.

229 / 13. عَنْ أَبِي أُسَيْدٍ السَّاعِدِيِّ رضی اﷲ عنه قَالَ : أَنَا مَعَ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم عَلَی قَبْرِ حَمْزَةَ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ رضی اﷲ عنه، فَجَعَلُوْا يَجُرُّوْنَ النَّمِرَةَ عَلَی وَجْهِهِ فَتَنْکَشِفُ قَدَمَاهُ وَيَجُرُّوْنَهَا عَلَی قَدَمَيْهِ فَيَنْکَشِفُ وَجْهُهُ. فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : إِجْعَلُوْهَا عَلَی وَجْهِهِ، وَاجْعَلُوْا عَلَی قَدَمَيْهِ مِنْ هَذَا الشَّجَرِ، قَالَ : فَرَفَعَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم رَأْسَهُ فَإِذَا أَصْحَابُهُ يَبْکُوْنَ، فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : إِنَّهُ يَأْتِي عَلَی النَّاسِ زَمَانٌ يَخْرُجُوْنَ إِلَی الْأَرْيَافِ، فَيُصِيْبُوْنَ بِهَا مَطْعَمًا وَمَلْبَسًا وَمَرْکَبًا، أَوْ قَالَ : مَرَاکِبَ، فَيَکْتُبُوْنَ إِلَی أَهْلِيْهِمْ هَلُمَّ إِلَيْنَا، فَإِنَّکُمْ بِأَرْضٍ مَجَازٍ جَدُوَبَةٍ، وَالْمَدِيْنَةُ خَيْرٌ لَهُمْ لَوْ کَانُوْا يَعْلَمُوْنَ، وَلَا يَصْبِرُ عَلَی لَأْوَائِهَا وَشِدَّتِهَا أَحَدٌ إِلَّا کُنْتُ لَهُ شَفِيْعاً وَشَهِيْدًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ.

رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْمُعْجَمِ الْکَبِيْرِ. وَقَالَ الْمُنْذَرِيُّ وَالْهَيْثَمِيُّ : إِسْنَادُهُ حَسَنٌ.

13 : أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 19 / 265، الرقم : 587، والمنذري في الترغيب والترهيب، 2 / 145، الرقم : 1856، والهيثمي في مجمع الزوائد، 3 / 300، وأيضاً فی، 6 / 119.

’’حضرت ابو اُسید الساعدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حمزہ بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ (کو دفناتے وقت ان) کی قبر پر میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تھا۔ صحابہ اونی چادر سے ان کا چہرہ ڈھانپتے تو پاؤں ننگے ہو جاتے اور اس کو ان کے قدموں پر کرتے تو چہرہ ننگا رہ جاتا. اس پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے فرمایا : تم اس چادر کو ان کے چہرے پر ڈال دو اور ان کے پاؤں اس درخت کے پتوں سے ڈھانپ دو۔ بیان کرتے ہیں : حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کا سر اٹھایا تو آپ کے صحابہ یہ (کسمپرسی کی حالت) دیکھ کر رونے لگے اسوقت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : لوگوں پر ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ وہ مدینہ سے دوسروں علاقوں کی طرف نکلیں گے تو وہاں انہیں کھانا پینا، لباس اور سواری یا فرمایا : سواریاں میسر ہوں گی تو وہ اپنے خاندان والوں کو لکھیں گے کہ ہمارے پاس آجاؤ، تم تو اخروٹ والی خشک و بنجر سرزمین میں ہو، کاش وہ جانتے کہ مدینہ ان کے لئے بہتر ہے۔ جو کوئی بھی اس کی بھوک پیاس اور مشقت و سختی پر صبر کرے گا میں قیامت کے دن اس کی شفاعت کروں گا اور اس کے حق میں گواہی دوں گا۔‘‘

اسے امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔ امام منذری اور ہیثمی نے اس کی اِسناد کو حسن کہا ہے۔

230 / 14. عَنْ أَفْلَحٍ مَوْلَی أَبِي أَيُّوْبَ الْأَنْصَارِيِّ رضی اﷲ عنه أَنَّهُ مَرَّ بِزَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ وَأَبِي أَيُّوْبَ وَهُمَا قَاعِدَانِ عِنْدَ مَسْجِدِ الْجَنَائِزِ، فَقَالَ أَحَدُهُمَا لِصَاحِبِهِ : تَذْکُرْ حَدِيْثَنَا حَدَثَّنَاهُ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم فِي هَذَا الْمَجْلِسِ الَّذِي نَحْنُ فِيْهِ؟ قَالَ : نَعَمْ! عَنِ الْمَدِيْنَةِ سَمِعْتُه وَهُوَ يَزْعَمُ : أَنَّه سَيْتِي عَلَی النَّاسِ زَمَانٌ يُفْتَحُ فِيْهِ فَتَحَاتُ الْأَرْضِِ، فَيَخْرُجُ إِلَيْهَا رِجَالٌ يُصِيْبُوْنَ رَخَاءً وَعَيْشًا وَطَعَامًا، فَيَمُرُّوْنَ عَلَی إِخْوَانٍ لَهُمْ حُجَّاجًا أَوْ عُمَّارًا، فَيَقُوْلُوْنَ : مَا يُقِيْمُکُمْ فِي لَأْوَاءِ الْعَيْشِ وَشِدَّةِ الْجُوْعِ؟ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : فَذَهِبٌ وَقَاعِدٌ، حَتَّی قَالَهَا مِرَارًا. وَالْمَدِيْنَةُ خَيْرٌ لَهُمْ لَا يَثْبُتُ بِهَا أَحَدٌ فَيَصْبِرُ عَلَی لَأْوَائِهَا وَشِدَّتِهَا حَتَّی يَمُوْتَ إِلَّا کُنْتُ لَه يَوْمَ الْقِيَامَةِ شَهِيْدًا أَوْ شَفِيْعًا.

رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْمُعْجَمِ الْکَبِيْرِ. وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ : رِجَالُهُ ثِقَاتٌ.

14 : أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 4 / 153، الرقم : 3985، والهيثمي في مجمع الزوائد.

’’حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے آزاد کردہ غلام افلح سے روایت ہے کہ اس کا گزر حضرت زید بن ثابت اور ابو ایوب رضی اﷲ عنہما کے پاس سے ہوا جبکہ وہ جنازہ گاہ کے نزدیک بیٹھے ہوئے تھے تو ان میں سے ایک نے دوسرے اپنے ساتھی سے کہا : آپ کو وہ حدیث یاد ہے جسے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس مجلس میں ہمیں بیان فرمائی جس میں ہم موجود تھے؟ انہوں نے کہا : ہاں! مدینہ کے متعلق، میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سنا اور آپ گمان کرتے : عنقریب لوگوں پر ایسا زمانہ آئے گا جس میں زمینی فتوحات ہوں گی تو لوگ آسودہ حالی، عیش و عشرت اور معاشی خوشحالی کی تلاش میں ان کی طرف نکل کھڑے ہوں گے۔ وہ حج کرنے والے یا عمرہ کرنے والے بھائیوں کے پاس سے گزریں گے تو انہیں کہیں گے : کس چیز نے تم کو سختی و مشقت اور بھوک پیاس کی شدت میں رکھا ہوا ہے؟ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : پس (ان میں سے بعض) جانے والے اور بعض وہیں رہنے والے ہوں گے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ جملہ کئی بار فرمایا۔ اور (فرمایا) مدینہ ان کے لئے بہتر ہے، جو کوئی بھی اس کی بھوک پیاس اور مشقت پر صبر کرتے ہوئے ثابت قدم رہے گا یہاں تک کہ وفات پا جائے تو میں قیامت کے دن اس کے حق میں گواہی دوں گا یا اس کی شفاعت کروں گا۔‘‘

اسے امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔ امام ہیثمی نے کہا ہے : اس کے رجال ثقہ ہیں.

231 / 15. عَنْ أَبِي قَزَعَةَ قَالَ : حَدَّثَنِي رَجُلٌ مِنْ آلِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رضی اﷲ عنه أَنَّهُ سَمِعَ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ : مَنْ مَاتَ بِأَحَدِ الْحَرَمَيْنِ مَکَّةَ أَوِ الْمَدِيْنَةِ، بُعِثَ مِنَ الْأَرْضِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، قَالَ أَبُوْبَکْرٍ الْقَبَّابُ : هٰکَذَا فِي کِتَابِي وَوَجَدْتُ فِي نُسْخَةٍ أُخْرَی مِنَ الْآمِنِيْنَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ. وَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : مَنْ سَکَنَ الْمَدِيْنَةَ فَصَبَرَ عَلٰی لَأْوَائِهَا وَشِدَّتِهَا کُنْتُ لَه شَفِيْعًا وَشَهِيْدًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ. رَوَاهُ ابنُ أَبِي عَاصِمٍ.

15 : أخرجه ابن أبي عاصم في الآحاد والمثاني، 2 / 61، الرقم : 756.

’’ابو قزعہ سے روایت ہے کہ مجھے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی اولاد میں سے ایک شخص نے بتایا کہ اس نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا : جو شخص مکہ یا مدینہ حرمین میں سے کسی ایک میں فوت ہو گیا، وہ اسی زمین سے اٹھایا جائے گا۔ ابو بکر قبَّاب فرماتے ہیں : اسی طرح میری کتاب میں لکھا ہوا ہے، اور میں نے دوسرے نسخہ میں لکھا ہوا دیکھا کہ قیامت کے دن (وہ شخص) امن پانے والوں میں سے اٹھایا جائے گا اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جس نے مدینہ میں سکونت اختیار کی اور اس کی بھوک پیاس اور مشقت پر صبر کیا تو قیامت کے دن میں اس کی شفاعت کروں گا اور اس کے حق میں گواہی دوں گا۔‘‘

اسے امام ابنِ ابی عاصم نے روایت کیا ہے۔

Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved