عقیدہ شفاعت: احادیثِ مبارکہ کی روشنی میں

قرآن مجید، رمضان المبارک اور دیگر اسباب کے باعث شفاعت کے عطا کیے جانے کا بیان

بَابٌ فِي شَفَاعَةِ الْقُرْآنِ وَالصِّيَامِ وَإِعْطَاؤُهَا بِأَسْبَابٍ أُخْرَی

 (قرآن مجید، رمضان المبارک اور دیگر اسباب کے باعث شفاعت کے عطا کیے جانے کا بیان)

364 / 1. عَنِ النَّوَّاسِ بْنِ سَمْعَانَ الْکِلَابِيِّ رضی اﷲ عنه قَالَ : سَمِعْتُ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ : يُؤْتَی بِالْقُرْآنِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَأَهْلِهِ الَّذِيْنَ کَانُوْا يَعْمَلُوْنَ بِهِ، تَقْدُمُهُ سُوْرَةُ الْبَقَرَةِ وَآلُ عِمْرَانَ. وَضَرَبَ لَهُمَا رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم ثَلَاثَةَ أَمْثَالٍ مَا نَسِيْتُهُنَّ بَعْدُ. قَالَ : کَأَنَّهُمَا غَمَامَتَانِ أَوْ ظُلَّتَانِ سَوْدَاوَانِ بَيْنَهُمَا شَرْقٌ أَوْ کَأَنَّهُمَا حِزْقَانِ مِنْ طَيْرٍ صَوَافَّ تُحَاجَّانِ عَنْ صَاحِبِهِمَا.

رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالتِّرْمِذِيُّ وَأَحْمَدُ وَالطَّبَرَانِيُّ وَالْبَيْهَقِيُّ.

1 : أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب : صلاة المسافرين، باب : فضل قرآة القرآن، 1 / 554، الرقم : 805، والترمذي في السنن، کتاب : فضائل القرآن، باب : ما جاء في سورة آل عمران، 5 / 160، الرقم : 2883، وأحمد بن حنبل في المسند، 4 / 183، الرقم : 17637، والطبراني في مسند الشاميين، 2 / 320، الرقم : 1418، والبيهقي في الشعب، 2 / 451، الرقم : 2373.

’’حضرت نواس بن سمعان کلابی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا : قیامت کے دن قرآن اور قرآن والے جو اس پر عمل کرتے تھے لائے جائیں گے۔ قرآن کے آگے سورۃ بقرۃ اور آل عمران ہوں گی۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے لئے تین مثالیں بیان فرمائیں جن کو میں اس کے بعد نہیں بھولا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا گویا کہ وہ دوبال، یا دو سیاہ سائے ہیں جن کے درمیان روشنی ہے، یا صف باندھے اڑتے ہوئے پرندوں کی دو ٹولياں ہیں۔ وہ دونوں اپنے پڑھنے والوں (کی بخشش) کے لیے جھگڑا کریں گی۔‘‘

اس حدیث کو امام مسلم، ترمذی، احمد، طبرانی اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔

365 / 2. عَنْ أَبِي أُمَامَةَ الْبَهِلِيِّ رضی اﷲ عنه قَالَ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ : إِقْرَءُ وا الْقُرْآنَ، فَإِنَّهُ يَأْتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ شَفِيْعًا لِأَصْحَابِهِ. إِقْرَءُ وا الزَّهْرَاوَيْنِ الْبَقَرَةَ وَسُوْرَةَ آلِ عِمْرَانَ، فَإِنَّهُمَا تَأْتِيَانِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ کَأَنَّهُمَا غَمَامَتَانِ أَوْ کَأَنَّهُمَا غَيَيَتَانِ أَوْ کَأَنَّهُمَا فِرْقَانِ مِنْ طَيْرٍ صَوَافَّ تُحَاجَّانِ عَنْ أَصْحَابِهِمَا. إِقْرَءُ وْا سُوْرَةَ الْبَقَرَةِ فَإِنَّ أَخْذَهَا بَرَکَةٌ وَتَرْکَهَا حَسْرَةٌ وَلَا تَسْتَطِيْعُهَا الْبَطَلَةُ. قَالَ مُعَاوِيَةُ : بَلَغَنِي أَنَّ الْبَطَلَةَ : السَّحَرَةُ.

رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالطَّبَرَانِيُّ وَالْبَيْهَقِيُّ.

2 : أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب : صلاة المسافرين، باب : فضل قرآة القرآن، 1 / 553، الرقم : 804، والطبراني في المعجم الأوسط، 1 / 150، الرقم : 468، والبيهقي في السنن الصغری، 1 / 547، الرقم : 998، وأيضاً في السنن الکبری، 2 / 395، وأيضاً في شعب الإيمان، 2 / 451، الرقم : 2372، والمنذري في الترغيب والترهيب، 2 / 227، الرقم : 2195.

’’حضرت ابو اُمامہ باہلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا : قرآن مجید پڑھا کرو کہ یہ اپنے پڑھنے والوں کے لئے قیامت کے دن شفاعت کرے گا۔ تم دو روشن سورتیں بقرۃ اور آلِ عمران پڑھا کرو کیونکہ وہ قیامت کے دن دو بادلوں یا دو سائبانوں یا صف باندھے اڑتے ہوئے پرندوں کی دو ٹولیوں کی طرح آکر اپنے پڑھنے والوں کی طرف سے جھگڑا کریں گی۔ تم سورۃ بقرۃ پڑھا کرو کیونکہ اس کا پڑھنا باعثِ برکت اور ترک کرنا حسرت ہے اور اہلِ باطل اس کی استطاعت نہیں رکھتے۔ معاویہ کہتے ہیں کہ مجھے یہ خبر پہنچی ہے کہ اہلِ باطل سے مراد جادوگر ہیں۔‘‘

اسے امام مسلم، طبرانی اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔

366 / 3. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی اﷲ عنه عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : إِنَّ سُوْرَةً مِنَ الْقُرْآنِ ثَلَاثُوْنَ يَةً شَفَعَتْ لِرَجُلٍ حَتَّی غُفِرَ لَهُ، وَهِيَ سُوْرَةُ تَبَارَکَ الَّذِي بِيَدِهِ الْمُلْکُ.

رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَأَبُوْ دَاوُدَ وَابْنُ مَاجَةَ وَغَيْرُهُمْ، وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ : هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ.

3 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : فضائل القرآن، باب : في فضل سورة الملک، 5 / 164، الرقم : 2891، وأبوداود في السنن، 2 / 57، کتاب : الصلاة، باب : في عدد الآي، الرقم : 1400، وابن ماجة في السنن، کتاب : الأدب، باب : ثواب القرآن، 2 / 1244، الرقم : 3786، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 299، الرقم : 7975، وابن حبان في الصحيح، 3 / 67، 69، الرقم : 787، 788، والحاکم في المستدرک، 1 / 753، الرقم : 2075، وقال : هذا حديث صحيح الإسناد.

’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : قرآن میں تیس آیتوں والی ایسی سورت ہے جو کسی شخص کے لئے یہاں تک شفاعت کرے گی کہ اسے بخش دیا جائے گا اور وہ سورۃ (الملک) تَبَارَکَ الَّذِيْ بِيَدِهِ الْمُلْکُ ہے۔‘‘

اس حدیث کو امام ترمذی، ابوداؤد، ابنِ ماجہ اور دیگر ائمہ نے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے کہا ہے : یہ حدیث حسن ہے۔

367 / 4. عَنْ کَثِيْرِ بْنِ قَيْسٍ قَالَ : قَدِمَ رَجُلٌ مِنَ الْمَدِيْنَةِ عَلَی أَبِي الدَّرْدَاءِ وَهُوَ بِدِمَشْقَ، فَقَالَ : مَا أَقْدَمَکَ يَا أَخِي؟ فَقَالَ : حَدِيْثٌ، بَلَغَنِي أَنَّکَ تُحَدِّثُهُ عَنْ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم. قَالَ : أَمَا جِئْتَ لِحَاجًةٍ؟ قَالَ : لَا! قَالَ : أَمَا قَدِمْتَ لِتِجَارَةٍ؟ قَالَ : لَا! قَالَ : مَا جِئْتُ إِلَّا فِي طَلَبِ هَذَا الْحَدِيْثِ. قَالَ : فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ : مَنْ سَلَکَ طَرِيْقًا يَبْتَغِي فِيْهِ عِلْمًا، سَلَکَ اﷲُ بهِ طَرِيْقًا إِلَی الْجَنَّةِ، وَإِنَّ الْمَلَائِکَةَ لَتَضَعُ أَجْنِحَتَهَا رِضَاءً لِطَالِبِ الْعِلْمِ وَإِنَّ الْعَالِمَ لَيَسْتَغْفِرُ لَهُ مَنْ فِي السَّمَوَاتِ وَمَنْ فِي الْأَرْضِ حَتَّی الْحِيْتَانُ فِي الْمَاءِ. وَفَضْلُ الْعَالِمِ عَلَی الْعَابِدِ کَفَضْلِ الْقَمَرِ عَلَی سَائِرِ الْکَوَاکِبِ، إِنَّ الْعُلَمَاءَ وَرَثَةُ الْأَنْبِيَاءِ، إِنَّ الْأَنْبِيَاءَ لَمْ يُوَرِّثُوْا دِيْنَارًا وَلَا دِرْهَمًا، إِنَّمَا وَرَّثُوا الْعِلْمَ فَمَنْ أَخَذَ بِهِ أَخَذَ بِحَظٍّ وَافِرٍ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَابْنُ مَاجَةَ وَأَحْمَدُ وَالدَّارِمِيُّ وَالْبَيْهَقِيُّ.

4 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : العلم، باب : ما جاء في فضل الفقه علی العبادة، 5 / 48، الرقم : 2682، وابن ماجة في السنن، المقدمة، باب : فضل العلماء والحثّ علی طلب العلم، 1 / 81، الرقم : 223، وأحمد بن حنبل في المسند، 5 / 196، الرقم : 21715، والدارمي في السنن، 1 / 110، الرقم : 342، والبيهقي في الشعب، 2 / 262، الرقم : 1696.

’’کثیر بن قیس روایت کرتے ہوئے کہتے ہیں : ایک شخص مدینہ منورہ سے دمشق میں حضرت ابو دَرداء رضی اللہ عنہ کے پاس حاضر ہوا. آپ نے اس سے پوچھا : میرے بھائی! تو کس لئے آیا ہے؟ اس نے کہا : ایک حدیث کے لئے جسے آپ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بیان کرتے ہیں۔ آپ نے پوچھا : کیا تو کسی حاجت کے لئے آیا ہے؟ اس نے کہا : نہیں! پوچھا : کیا تو تجارت کی غرض سے آیا ہے؟ اس نے کہا : نہیں! اس نے کہا : میں صرف اس حدیث کی طلب میں حاضر ہوا ہوں. آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا : جو شخص طلبِ علم کے راستے پر چلا اللہ تعالیٰ اسے جنت کے راستے پر چلاتا ہے، فرشتے طالبِ علم کی رضا کے لئے اپنے پَر بچھاتے ہیں اور طالبِ علم کے لئے آسمان و زمین کی تمام مخلوق حتی کہ پانی کی مچھلياں بھی مغفرت طلب کرتی ہیں، عالم کی فضیلت عبادت گزار پر ایسے ہی ہے جیسے چاند کی تمام ستاروں پر ہے، یقیناً علماء، انبیاء کرام کے وارث ہیں اور انبیاء کسی کو دینار اور درہم کا وارث نہیں بناتے وہ صرف علم کا وارث بناتے ہیں تو جس نے اس میں سے ليا وافر حصہ ليا۔‘‘

اسے امام ترمذی، ابنِ ماجہ، احمد، دارمی اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔

368 / 5. عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رضی اﷲ عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : مَنْ قَرَأَ الْقُرْآنَ وَاسْتَظْهَرَهُ، فَأَحَلَّ حَلَالَهُ وَحَرَّمَ حَرَامَه، أَدْخَلَهُ اﷲُ بِهِ الْجَنَّةَ وَشَفَّعَه فِي عَشْرَةٍ مِنْ أَهْل بِيْتِهِ کُلُّهُمْ قَدْ وَجَبَتْ لَه النَّارُ.

رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَأَحْمَدُ وَالْبَيْهَقِيُّ.

5 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : فضائل القرآن، باب : ما جاء في فضل قارئ القرآن، 5 / 171، الرقم : 2905، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 / 148، الرقم : 1267، والبيهقي في شعب الإيمان، 2 / 329، الرقم : 1947، والمنذري في الترغيب والترهيب، 2 / 231، الرقم : 2212، والآجري في الشريعة : 350.

’’حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جس نے اس طرح قرآن پڑھا کہ اس پر حاوی ہو گیا، پس اس کے حلال کو حلال اور حرام کو حرام سمجھا. اللہ تعالیٰ اسے جنت میں داخل کرے گا اور اس کے خاندان سے ایسے دس آدمیوں کے بارے میں اس کی شفاعت قبول فرمائے گا جن پر جہنم واجب ہو چکی ہوگی۔‘‘

اسے امام ترمذی، احمد اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔

369 / 6. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی اﷲ عنه عَنْ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : إِنَّ رَجُلَيْنِ مِمَّنْ دَخَلَ النَّارَ اشْتَدَّ صِيَاحُهُمَا، فَقَالَ الرَّبُّ عَزَّوَجَلَّ أَخْرِجُوْهُمَا. فَلَمَّا أُخْرِجَا، قَالَ لَهُمَا : لِأَيِّ شَيْئٍ اشْتَدَّ صِيَاحُکُمَا؟ قَالَا : فَعَلْنَا ذَلِکَ لِتَرْحَمَنَا، قَالَ : إِنَّ رَحْمَتِي لَکُمَا أَنْ تَنْطَلِقَا فَتُلْقِيَا أَنْفُسَکُمَا حَيْثُ کُنْتُمَا مِنَ النَّارِ، فَيَنْطَلِقَانِ فَيُلْقِي أَحَدُهُمَا نَفْسَهُ، فَيَجْعَلُهَا عَلَيْهِ بَرْدًا وَسَلَامًا. وَيَقُوْمُ الْآخَرُ فَلَا يُلْقِي نَفْسَهُ، فَيَقُوْلُ لَهُ الرَّبُّ عزوجل : مَا مَنَعَکَ أُنْ تُلْقِيَ نَفْسَکَ کَمَا أَلْقَی صَاحِبُکَ؟ فَيَقُوْلُ : يَا رَبِّ! إِنِّي لَأَرْجُوْ أَنْ لَا تُعِيْدَنِي فِيْهَا بَعْدَ مَا أَخْرَجْتَنِي. فَيَقُوْلُ لَهُ الرَّبُّ : لَکَ رَجَاؤُکَ فَيَدْخُلَانِ جَمِيْعًا الْجَنَّةَ بِرَحْمَةِ اﷲِ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَابْنُ الْمُبَارَکِ.

6 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : صفة جهنم، باب : ما جاء أن للنار نفسين وما ذکر من يخرج من النار من أهل التوحيد، 4 / 714، الرقم : 2599، وابن المبارک في الزهد، 1 / 123، الرقم : 410، وابن رجب في التخويف من النار، 1 / 154.

’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جہنم میں داخل ہونے والوں میں سے دو اشخاص کی بہت شدید چیخوں کی آواز آئے گی تو رب ذوالجلال فرمائے گا ان دونوں کو نکالو. جب انہیں نکالا جائے گا تو وہ ان سے پوچھے گا : کس چیز کے لیے تمہاری شدید چیخیں بلند ہوئی ہیں؟ وہ عرض کریں گے : ہم نے یہ اس لئے کیا ہے تاکہ تو ہم پر رحم فرمائے۔ وہ فرمائے گا : میری رحمت تم دونوں کے لئے یہی ہے کہ تم اپنے آپ کو جہنم میں ڈال دو جہاں تم پہلے تھے۔ جب وہ دونوں جائیں گے تو ان میں سے ایک اپنے آپ کو ڈال دے گا تو اللہ اس پر آگ کو ٹھنڈک اور سلامتی والا بنا دے گا۔ جبکہ دوسرا کھڑا رہے گا اور اپنے آپ کو اس میں نہیں ڈالے گا تو پروردگار عزوجل فرمائے گا : تمہیں کس چیز نے اپنے آپ کو (جہنم میں دوبارہ) ڈالنے سے روکا جیسا تمہارے ساتھی نے کیا؟ وہ عرض کرے گا : اے میرے رب! مجھے بھرپور امید ہے کہ تو مجھے اس میں سے نکالنے کے بعد دوبارہ نہیں لوٹائے گا۔ پس اس کا رب فرمائے گا : تمہارے لئے تمہاری امید ہے۔ لہذا وہ دونوں اللہ تعالیٰ کی رحمت سے جنت میں داخل ہو جائیں گے۔‘‘

اسے امام ترمذی اور ابنِ مبارک نے روایت کیا ہے۔

370 / 7. عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رضی اﷲ عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : مَنْ قَرَأَ القُرْآنَ وَحَفِظَهُ أَدْخَلَهُ اﷲُ الْجَنَّةَ وَشَفَّعَه فِي عَشْرَةٍ مِنْ أَهْلِ بَيْتِهِ، کُلُّهُمْ قَدِ اسْتَوْجَبُوا النَّارَ. رَوَاهُ ابْنُ مَاجَةَ وَالطَّبَرَانِيُّ وَالْبَيْهَقِيُّ.

7 : أخرجه ابن ماجة في السنن، المقدمة، باب : فضل من تعلّم القرآن وعلّمه، 1 / 78، الرقم : 216، والطبراني في المعجم الأوسط، 5 / 217، الرقم : 5130، والبيهقي في شعب الإيمان، 2 / 552، الرقم : 2691.

’’حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جس شخص نے قرآن پڑھا اور اس کو حفظ کر ليا، اللہ تعالیٰ اسے جنت میں داخل کرے گا اور وہ اس کی شفاعت اس کے خاندان کے اُن دس افراد کے حق میں قبول فرمائے گا جن کے لئے جہنم واجب ہو چکی ہو گی۔‘‘

اسے امام ابنِ ماجہ، طبرانی اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔

371 / 8. عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ عَمْرٍو رضی اﷲ عنهما أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : أَلصِّيَامُ وَالْقُرْآنُ يَشْفَعَانِ لِلْعَبْدِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ. يَقُوْلُ الصِّيَامُ : أَيْ رَبِّ! مَنَعْتُهُ الطَّعَامَ والشَّهَوَاتِ بِالنَّهَارِ فَشَفِّعْنِي فِيْهِ. وَيَقُوْلُ الْقُرْآنُ : مَنَعْتُهُ النَّوْمَ بِاللَّيْلِ فَشَفِّعْنِي فِيْهِ، قَالَ : فَيُشَفَّعَانِ.

رَوَاهُ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ وَالْحَاکِمُ وَالْبَيْهَقِيُّ، وَقَالَ الْحَاکِمُ : هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ عَلَی شَرْطِ مُسْلِمٍ.

8 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 2 / 174، الرقم : 6626، والحاکم في المستدرک، 1 / 740، الرقم : 2036، والبيهقي في شعب الإيمان، 2 / 346، الرقم : 1994، والمنذري في الترغيب والترهيب، 2 / 50، الرقم : 1455، وقال : رجاله محتج بهم في الصحيح، والهيثمي في مجمع الزوائد، 3 / 181 وقال : رجال الطبراني رجال الصحيح.

’’حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اﷲ عنہما سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : روزے اور قرآن مجید قیامت کے دن بندے کے لئے شفاعت کریں گے۔ روزے عرض کریں گے : اے رب! میں نے اسے دن کے وقت کھانے اور شہوت کرنے سے روکے رکھا پس تو اس کے حق میں میری شفاعت قبول فرما. قرآن عرض کرے گا : میں نے اسے رات کے وقت نیند سے بیدار رکھا پس تو اس کے حق میں میری شفاعت قبول فرما. آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : دونوں کی شفاعت قبول کی جائے گی۔‘‘

اسے امام احمد بن حنبل، حاکم اور بیہقی نے روایت کیا ہے نیز امام حاکم نے کہا ہے : یہ حدیث امام مسلم کی شرط پر صحیح ہے۔

372 / 9. عَنِ الْحَسَنِ رضی اﷲ عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : إِنَّ هَذَا الْقُرْآنَ شَافِعٌ وَمُشَفَّعٌ وَصَادِقٌ مَاحِلٌ. رَوَاهُ عَبْدُ الرَّزَّاقِ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ.

9 : أخرجه عبد الرزاق في المصنف، 3 / 373، الرقم : 6011، وابن أبي شيبة في المصنف، 7 / 258، الرقم : 35859.

’’حضرت حسن بصری رضی اللہ عنہ سے مرسلاً روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بے شک یہ قرآن شفاعت کرنے والا، شفاعت قبول کیے جانے والا اور سچ بولنے والا جھگڑالو ہے۔‘‘

اسے امام عبد الرزاق اور ابنِ ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔

373 / 10. عَنْ أَبِي أُمَامَةَ رضی اﷲ عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : تَعَلَّمُوا الْقُرْآنَ، فَإِنَّهُ شَافِعٌ يَوْمَ الْقِيَامَةِ. تَعَلَّمُوا الْبَقَرَةَ وَآلَ عِمْرَانَ. تَعَلَّمُوا الزَّهْرَاوَيْنِ، فَإِنَّهُمَا يْتِيَانِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ کَأَنَّهُمَا غَمَامَتَانِ أَوْ غَيَيَتَانِ أَوْ کَأَنَّهُمَا فِرْقَانِ مِنْ طَيْرٍ صَوَافَّ يُحَاجَّانِ عَنْ صَاحِبِهِمَا. تَعَلَّمُوا الْبَقَرَةَ فَإِنَّ تَعْلِيْمَهَا بَرَکَةٌ وَتَرْکَهَا حَسْرَةٌ وَلَا يَسْتَطِيْعُهَا الْبَطَلَةُ.

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَعَبْدُ الرَّزَّاقِ وَالطَّبَرَانِيُّ فِي الْکَبِيْرِ. حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ، رِجَالُهُ ثِقَاتٌ.

10 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 5 / 251، الرقم : 22257، وعبد الرزاق في المصنف، 3 / 365، الرقم : 5991، والطبراني في المعجم الکبير، 8 / 291، الرقم : 8118.

حضرت ابو اُمامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : قرآن سیکھو بے شک یہ قیامت کے دن شفاعت کرے گا۔ سورۃ بقرۃ اور آلِ عمران سیکھو. یہ دونوں روشن سورتیں سیکھو کیونکہ یہ قیامت کے دن دو بادلوں یا دو سائبانوں یا صف باندھے قطار کی شکل میں اڑتے ہوئے پرندوں کی دو ٹولیوں کی طرح آکر اپنے پڑھنے والوں کی طرف سے جھگڑا کریں گی۔ تم سورۃ بقرۃ سیکھو کیونکہ اس کا تعلیم حاصل کرنا باعثِ برکت اور ترک کرنا حسرت ہے اور جادوگر اس کی استطاعت نہیں رکھتے۔‘‘

اسے امام احمد، عبدالرزاق اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔ یہ حديث صحيح ہے اور اس کے رجال ثقہ ہیں۔

374 / 11. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی اﷲ عنه عَنْ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : إِقْرَءُ وا الْقُرْآنَ لَا تَأْکُلُوْا بِهِ وَلَا تَسْتَکْثِرُوْا بِهِ وَلَا تَغْلُوْا فِيْهِ وَلَا تَجْفُوْا عَنْهُ. تَعَلَّمُوا الْقُرْآنَ فَإِنَّهُ شَافِعٌ لِصَاحِبِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، تَعَلَّمُوا الزَّهْرَاوَيْنِ سُورَةَ الْبَقَرَةِ وَآلَ عِمْرَانَ فَإِنَّهُمَا يَجِيْئَانِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ کَأَنَّهُمَا غَمَامَتَانِ أَوْ غَيَيَتَانِ أَوْ کَفِرْقَيْنِ مِنْ طَيْرٍ يَشْفَعَانِ لِصَاحِبِهِمَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ. تَعَلَّمُوا الْبَقَرَةَ فَإِنَّ أَخْذَهَا بَرَکَةٌ، تَرْکَهَا حَسْرَةٌ وَلَا تَسْتَطِيْعُهَا الْبَطَلَةُ.

رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْأَوْسَطِ.

11 : أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 8 / 344، الرقم : 8823، والهيثمي في مجمع الزوائد، 7 / 168.

’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم قرآن پڑھا کرو، نہ تم اس کے ذریعہ کھاؤ، نہ اس کے سبب کثرت سے مال طلب کرو، نہ تم اس میں خیانت کرو اور نہ اس سے جفا کرو. قرآن سیکھو کیونکہ وہ قیامت کے دن اپنے پڑھنے والے کی شفاعت کرے گا۔ دونوں روشن سورتیں بقرۃ اور آلِ عمران سیکھو کیونکہ وہ قیامت کے دن دو بادلوں یا دو سائبانوں یا پرندوں کی دو جماعتوں کی طرح آکر اپنے پڑھنے والوں کے لئے شفاعت کریں گی۔ تم سورۃ بقرۃ سیکھو کیونکہ اس کا سیکھنا باعثِ برکت، اس کا ترک کرنا حسرت ہے اور جادوگر اس کی استطاعت نہیں رکھتے۔‘‘

اسے امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔

375 / 12. عَنْ مَعْقِلِ بْنِ يَسَارٍ الْمُزَنِيِّ رضی اﷲ عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : إِعْمَلُوْا بِکِتَابِ اﷲِ وَلَا تُکَذِّبُوْا بِشَيئٍ مِنْهُ، فَمَا اشْتَبَهَ عَلَيْکُمْ مِنْهُ فَاسْأَلُوْا عَنْهُ أَهْلَ الْعِلْمِ يُخْبِرُوْکُمْ. آمِنُوْا بِالتَّوْرَاةِ وَالْإِنْجِيْلِ، وَآمِنُوْا بِالفُرْقَانِ فَإِنَّ فِيْهِ الْبَيَانَ، وَهُوَ الشَّافِعُ وَهُوَ الْمُشَفَّعُ وَالْمَاحِلُ وَالْمُصَدِّقُ.

رَوَاهُ الْحَاکِمُ.

12 : أخرجه الحاکم في المستدرک علی الصحيحين، 3 / 669، الرقم : 6471.

’’حضرت معقل بن یسار رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم اللہ تعالیٰ کی کتاب پر عمل کیا کرو اور اس کی کسی چیز کو نہ جھٹلاؤ. جس چیز کا تمہیں اس میں شبہ ہو تو اس کے بارے اہلِ علم سے پوچھ ليا کرو وہ تمہیں خبر دیں گے۔ تم تورات اور انجیل پر ایمان لاؤ اور فرقان (یعنی قرآن) پر ایمان لاؤ کیونکہ اس میں (ہر شے کا) بیان ہے اور یہ شفاعت کرنے والا، شفاعت قبول کیے جانے والا، جھگڑالو اور تصدیق کرنے والا ہے۔‘‘

اسے امام حاکم نے روایت کیا ہے۔

376 / 13. عَنْ مَعْقِلِ بْنِ يَسَارٍ رضی اﷲ عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : إِعْمَلُوْا بِالْقُرْآنِ وَأَحِلُّوْا حَلَالَه وَحَرِّمُوْا حَرَامَه، وَاقْتَدُوْا بِهِ وَلَا تَکْفُرُوْا بِشَيْئٍ مِنْهُ، وَمَا تَشَابَهَ عَلَيْکُمْ مِنْهُ فَرُدُّوْهُ إِلَی اﷲِ وَإِلَی أُوْلِي الْأَمْرِ مِنْ بَعْدِي، کَيْمَا يُخْبِرُوْکُمْ. وَآمِنُوْا بِالتَّوْرَاةِ وَالْإِنْجِيْلِ وَالزَّبُوْرِ وَمَا أُوْتِيَ النَّبِيُّوْنَ مِنْ رَبِّهِمْ. وَلْيَسْعَکُمُ الْقُرْآنَ وَمَا فِيْهِ مِنَ الْبَيَانِ، فَإِنَّه شَافِعٌ مُشَفَّعٌ وَمَاحِلٌ مُصَدِّقٌ. أَلَا وَلِکُلِّ يَةٍ نُوْرٌ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَإِنِّي أُعْطِيْتُ سُوْرَةَ الْبَقَرَةِ مِنَ الذِّکْرِ الْأَوَّلِ، وَأُعْطِيْتُ طٰهٰ وَطَوَاسِيْنَ وَالْحَوَامِيْمَ مِنْ أَلْوَاحِ مُوْسٰی، وَأُعْطِيْتُ فَاتِحَةَ الْکِتَابِ مِنْ تَحْتِ الْعَرْشِ.

رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَالْبَيْهَقِيُّ فِي السُّنَنِ الْکُبْرَی وَالشُّعَبِ، وَقَالَ الْحَاکِمُ : هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الْإِسْنَادِ.

13 : أخرجه الحاکم في المستدرک علی الصحيحين، 1 / 757، الرقم : 2087، والبيهقي في السنن الکبری، 10 / 9، وأيضاً في شعب الإيمان، 2 / 485، رقم : 478، والهيثمي في مجمع الزوائد، 1 / 169.

’’حضرت معقل بن یسار رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم قرآن پر عمل کیا کرو، اس کے حلال کو حلال جانو اور اس کے حرام کو حرام قرار دو، اس کی پیروی کرو اور اس کی کسی بات کا انکار نہ کرو۔ اس میں جس چیز کا تمہیں شبہ ہو تو اس کو اللہ (یعنی قرآن) اور میرے بعد اولو الامر کی طرف لوٹا دو تاکہ وہ تمہیں (اس شے کی حقیقت کی) خبر دیں. تم تورات، انجیل، زبور اور نبیوں کو جو ان کے رب کی طرف سے عطا کیا گیا تھا پر ایمان لاؤ۔ قرآن اور اس میں جو بیان ہے، اس پر عمل کرنے کی سعی کرو کیونکہ وہ شفاعت کرنے والا، شفاعت قبول کیے جانے والا اور جھگڑالو تصدیق کرنے والا ہے۔ خبردار قیامت کے دن ہر آیت کا نور ہوگا۔ بے شک مجھے سورۃ بقرۃ ذکرِ اوّل سے عطا کی گئی ہے، طہٰ، طواسین اور حوامیم مجھے الواح موسیٰ سے عطا کی گئیں اور سورۃ فاتحہ عرش کے نیچے سے عطا کی گئی ہے۔‘‘

اس حدیث کو امام حاکم اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔ امام حاکم نے کہا ہے : اس حدیث کی اسناد صحیح ہے۔

377 / 14. عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ مَسْعُوْدٍ رضی اﷲ عنهما قَالَ : إِنَّ الْقُرْآنَ شَافِعٌ وَمُشَفَّعٌ وَمَاحِلٌ مُصَدِّقٌ. فَمَنْ جَعَلَه أَمَامَه قَادَه إِلَی الْجَنَّةِ وَمَنْ جَعَلَه خَلْفَه سَاقَه إِلَی النَّارِ. رَوَاهُ عَبْدُ الرَّزَّاقِ وَالطَّبَرَانِيُّ فِي الْکَبِيْرِ.

14 : أخرجه عبد الرزاق في المصنف، 3 / 372، الرقم : 6010، والطبراني في المعجم الکبير، 9 / 132، الرقم : 8655.

’’حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اﷲ عنہما نے فرمایا : بے شک قرآن شفاعت کرنے والا، شفاعت قبول کیے جانے والا اور جھگڑالو تصدیق کرنے والا ہے۔ پس جس نے اس کو مقدم رکھا تو وہ اسے جنت کی طرف لے جائے گا اور جس نے اسے پسِ پشت ڈالا وہ اسے جہنم کی طرف ہانک لے جائے گا۔‘‘

اس حدیث کو امام عبد الرزاق اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔

378 / 15. عَنِ الشَّعْبِيِّ أَنَّ ابْنَ مَسْعُوْدٍ رضی اﷲ عنه کَانَ يَقُوْلُ : يَجِيئُ الْقُرْآنُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَيَشْفَعُ لِصَاحِبِهِ فَيَکُوْنُ لَهُ قَائِدًا إِلَی الْجَنَّةِ وَيَشْهَدُ عَلَيْهِ وَيَکُوْنُ لَهُ سَائِقًا إِلَی النَّارِ. رَوَاهُ الدَّارِمِيُّ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ.

15 : أخرجه الدارمي في السنن، 2 / 525، الرقم : 3325، وابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 131، الرقم : 30053.

’’شعبی سے روایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اﷲ عنہما فرمایا کرتے تھے : قرآن قیامت کے دن اپنے پڑھنے والے کی شفاعت کرے گا تو اسے جنت کی طرف لے جائے گا اور جس کے خلاف گواہی دے گا تو اسے جہنم کی طرف لے جائے گا۔‘‘

اس حدیث کو امام دارمی اور ابنِ ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔

379 / 16. عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضی اﷲ عنه قَالَ : يَجِيئُ الْقُرْآنُ يَشْفَعُ لِصَاحِبِهِ يَقُوْلُ : يَا رَبِّ! لِکُلِّ عَامِلٍ عُمَالَةٌ مِنْ عَمَلِهِ وَإِنِّي کُنْتُ أَمْنَعُهُ اللَّذَّةَ وَالنَّوْمَ فَأَکْرِمْهُ. فَيُقَالُ : أُبْسُطْ يَمِيْنَکَ فَتُمْلَأُ مِنْ رِضْوَانِ اﷲِ، ثُمَّ يُقَالُ : أُبْسُطْ شِمَالَکَ فَتُمْلَأُ مِنْ رِضْوَانِ اﷲِ، وَيُکْسَی کِسْوَةَ الْکَرَامَةِ، وَيَحَلَّی بِحِلْيَةِ الْکَرَامَةِ وَيُلْبَسُ تَاجَ الْکَرَامَةِ. رَوَاهُ الدَّارِمِيُّ.

16 : أخرجه الدارمي في السنن، 2 / 523، الرقم : 3312.

’’حضرت ابنِ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : قرآن اپنے پڑھنے والے کے لئے شفاعت کرتے ہوئے آئے گا تو عرض کرے گا : اے رب! ہر عمل کرنے والے کو اس کے عمل پر اجرت ملتی ہے، میں نے اسے لذت اور نیند سے روکے رکھا لہذا تو اسے عزت وتکریم سے نواز. کہا جائے گا : (اے قرآن پڑھنے والے) تو اپنا دایاں ہاتھ پھیلا تو اسے اللہ کی رضا سے بھر دیا جائے گا پھر کہا جائے گا : اپنا بایاں ہاتھ پھیلا تو اسے بھی اللہ کی رضا سے بھر دیا جائے گا، اسے لباسِ تکریم پہنایا جائے گا، اسے شاندار زیور سے آراستہ کیا جائے گا اور اس کے سر پر معزز تاج رکھا جائے گا۔‘‘

اس حدیث کو امام دارمی نے روایت کیا ہے۔

380 / 17. عَنْ أَبِي صَالِحٍ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ رضی اﷲ عنه يَقُوْلُ : إِقْرَءُ وا الْقُرْآنَ، فَإِنَّهُ نِعْمَ الشَّفِيْعُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ. إِنَّهُ يَقُوْلُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ : يَا رَبِّ! حَلِّهِ حِلْيَةَ الْکَرَامَةِ فَيُحَلَّی حِلْيَةَ الْکَرَامَةِ، يَا رَبِّ! أُکْسُهُ کِسْوَةَ الْکَرَامَةِ فَيُکْسَی کِسْوَةَ الْکَرَامَةِ، يَا رَبِّ! أَلْبِسْهُ تَاجَ الْکَرَامَةِ، يَا رَبِّ! إِرْضَ عَنْهُ فَلَيْسَ بَعْدَ رِضَاکَ شَيئٌ. رَوَاهُ الدَّارِمِيُّ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ.

17 : أخرجه الدارمي في السنن، 2 / 522، الرقم : 3311، وابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 130، الرقم : 30047، والديلمي في الفردوس بمأثور الخطاب، 4 / 262، الرقم : 6772.

’’ابو صالح سے روایت ہے کہ میں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا : تم قرآن پڑھا کرو کیونکہ وہ قیامت کے دن بہت اچھی شفاعت کرنے والا ہے۔ وہ قیامت کے دن کہے گا : اے پروردگار! تُو اسے شاندار زیور سے آراستہ کر تَو اسے شاندار زیور سے آراستہ کیا جائے گا، (پھر کہے گا) اے پروردگار! تُو اسے لباسِ تکریم سے نواز تَو اسے لباسِ تکریم پہنایا جائے گا، (پھر کہے گا) اے پروردگار! تُو اسے معزز تاج پہنا، (پھر کہے گا) اے پروردگار! تُو اس سے راضی ہوجا کیونکہ تیری رضا سے بڑھ کر کوئی شے نہیں۔‘‘

اس حدیث کو امام دارمی اور ابنِ ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔

381 / 18. عَنْ فَضَالَةَ بْنِ عُبَيْدٍ وَعُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ رضی اﷲ عنهما أَنَّهُمَا حَدَّثَا أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : إِذَا کَانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ وَفَرَغَ اﷲُ تَعَالَی مِنْ قَضَاءِ الْخَلْقِ، فَيَبْقَی رَجُلَانِ فَيُؤْمَرُ بِهِمَا إِلَی النَّارِ. فَيَلْتَفِتُ أَحَدُهُمَا، فَيَقُوْلُ الْجَبَّارُ : رُدُّوْهُ! فَيَرُدُّوْهُ، فَيَقُوْلُ لَهُ : لِمَ الْتَفَتَّ؟ قَالَ : إِنْ کُنْتُ أَرْجُوْ أَنْ تُدْخِلَنِي الْجَنَّةَ؟ قَالَ : فَيُؤْمَرُ بِهِ إِلَی الْجَنَّةِ، فَيَقُوْلُ : لَقَدْ أَعْطَانِيَ اﷲُ عزوجل حَتَّی لَوْ أَنِّي أَطْعَمْتُ أَهْلَ الْجَنَّةِ مَا نَقَصَ ذَلِکَ مَا عِنْدِي شَيْءًا، فَکَانَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم إِذَا ذَکَرَهُ يُرَی السُّرُوْرُ فِي وَجْهِهِ.

رَوَاهُ أَحْمَدُ.

18 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 5 / 329، الرقم : 22793، وابن المبارک في الزهد، 1 / 123، الرقم : 409، والهيثمي في مجمع الزوائد، 10 / 384.

’’فضالہ بن عبید اور عبادہ بن صامت رضی اﷲ عنہما دونوں بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جب قیامت کے دن اللہ تعالیٰ مخلوق کے حساب سے فارغ ہو جائے گا تو دو آدمی بچ جائیں گے جنہیں جہنم کی طرف لے جانے کا حکم دے دیا جائے گا۔ ان میں سے ایک شخص مڑ کر دیکھے گا تو ربِ جبار فرمائے گا : اسے لوٹاؤ! فرشتے اسے واپس لائیں گے تو وہ اس سے فرمائے گا : تم نے مڑ کر کیوں دیکھا؟ وہ عرض کرے گا : مجھے امید تھی کہ تو مجھے جنت میں داخل کرے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اسے جنت میں جانے کا حکم دے دیا جائے گا تو وہ کہے گا : میرے اللہ عزوجل نے مجھے اتنا کچھ عطا کیا ہے کہ اگر میں اہلِ جنت کو اس میں سے کھلاؤں تو بھی میرے پاس کم نہ ہو۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب اسے بیان کیا تو آپ کا چہرۂ انور خوشی سے تمتما رہا تھا۔‘‘

اس حدیث کو امام احمد بن حنبل نے روایت کیا ہے۔

382 / 19. عَنْ جَابِرٍ رضی اﷲ عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : أَلقُرْآنُ شَافِعٌ مُشَفَّعٌ وَمَاحِلٌ مَُصَدِّقٌ، فَمَنْ جَعَلَه إِمَامًا قَادَه إِلَی الْجَنَّةِ وَمَنْ جَعَلَه خَلْفَه سَاقَه إِلَی النَّارِ. رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ فِي الشُّعَبِ.

19 : أخرجه البيهقي في شعب الإيمان، 2 / 351، الرقم : 2010، والهيثمي في موارد الظمآن، 1 / 443، الرقم : 1793، والمنذري في الترغيب والترهيب، 2 / 227، الرقم : 2194.

’’حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : قرآن شفاعت کرنے والا، شفاعت قبول کیے جانے والا اور جھگڑالو، تصدیق کرنے والا ہے۔ پس جس نے اس کو امام بنا کر رکھا تو وہ اسے جنت کی طرف لے جائے گا اور جس نے اسے پس پشت ڈالا تو وہ اسے جہنم کی طرف لے جائے گا۔‘‘

اس حدیث کو امام بیہقی نے روایت کیا ہے۔

383 / 20. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی اﷲ عنه أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : إِنَّ سُوْرَةً مِنْ کِتَابِ اﷲِ عَزَّوَجَلَّ، مَا هِيَ ثَلَاثُوْنَ يَةً، شَفَعَتْ لِرَجُلٍ فَأَخْرَجَتْهُ مِنَ النَّارِ وَأَدْخَلَتْهُ الْجَنَّةَ وَهِيَ سُوْرَةُ تَبَارَکَ. رَوَاهُ عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ.

20 : أخرجه عبد بن حميد في المسند، 1 / 421، الرقم : 1445.

’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : قرآن میں تیس آیتوں والی ایسی سورت ہے جو کسی شخص کے لئے شفاعت کرے گی تو اسے جہنم سے نکال کر جنت میں داخل کرے گی اور وہ سورت تَبَارَکَ [سورۃ الملک] ہے۔‘‘

اس حدیث کو امام عبد بن حميد نے روایت کیا ہے۔

384 / 21. عَنِ الْمُسَيَبِ بْنِ رَافِعٍ قَالَ : يَجِيئُ الْقُرْآنُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ شَافِعٌ مُطَاعٍ وَمَاحِلٌ مُصَدِّقٌ. فَيَشْفَعُ لِصَاحِبِه، فَيَقُوْلُ : يَا رَبِّ! اجْزِهُ فَإِنَّه کَانَ يَعْمَلُ بِي وَيَسْهَرُ بِي وَيَنْصَبُ بِي، فَاجْزِهُ. فَيُقَالُ : حُلَّةَ الْکَرَامَةِ. فَيَقُوْلُ : يَا رَبِّ! اجْزِهُ فَإِنَّهُ کَانَ يَعْمَلُ بِي وَيَسْهَرُ بِي وَيَنْصَبُ بِي، فَاجْزِهُ. فَيُقَالُ : تَاجَ الْکَرَامَةِ. فَيَقُوْلُ : يَا رَبِّ! اجْزِهُ فَإِنَّهُ کَانَ يَعْمَلُ بِي وَيَسْهَرُ بِي وَيَنْصَبُ بِي. قَالَ : فَيُقَالُ : رِضْوَانِي لَا سَخَطَ بَعْدَه. قَالَ : فَإِلَی ذَلِکَ تَنْتَهِي شَفَاعَةُ القُرْآنِ. رَوَاهُ سَعِيْدُ بْنُ مَنْصُوْرٍ.

21 : أخرجه سعيد بن منصور في السنن، 1 / 65، الرقم : 12.

’’حضرت مسیب رحمۃ اللہ علیہ بن رافع نے روایت کرتے ہوئے فرمایا : قرآن قیامت کے دن شفاعت کرنے والا، اطاعت کیے جانے والا اور جھگڑالو، تصدیق کرنے والا بن کر آئے گا۔ وہ اپنے ساتھی کی شفاعت کرتے ہوئے عرض کرے گا : اے رب! تُو اسے جزا دے کیونکہ یہ مجھ پر عمل کرتا تھا، میرے ساتھ جاگتا تھا اور میرے ساتھ قیام کرتا تھا لہذا تُو اسے جزا دے، کہا جائے گا : اسے شاندار زیور سے آراستہ کیا جائے۔ وہ (پھر) عرض کرے گا : اے رب! تُو اسے جزا دے کیونکہ یہ مجھ پر عمل کرتا تھا، میرے ساتھ جاگتا تھا اور میرے ساتھ قیام کرتا تھا لہذا تُو اسے جزا دے تَو کہا جائے گا : اسے معزز تاج پہنایا جائے۔ وہ (پھر) عرض کرے گا : اے رب! تُو اسے جزا دے کیونکہ یہ مجھ پر عمل کرتا تھا، میرے ساتھ جاگتا تھا اور میرے ساتھ قیام کرتا تھا۔ فرماتے ہیں پس کہا جائے گا : اسے میری ایسی رضا حاصل ہوگی جس کے بعد کوئی ناراضگی نہیں۔ انہوں نے فرمایا : پس قرآن کی شفاعت اس انتہا تک پہنچے گی۔‘‘

اِسے سعید بن منصور نے روایت کیا ہے۔

385 / 22. عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ أَبِي بَکْرٍ الصِّدِّيْقِ رضی اﷲ عنهما قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : إِذَا بَلَغَ الْمَرْءُ الْمُسْلِمُ أَرْبَعِيْنَ سَنَةً، صَرَفَ اﷲُ عَنْهُ ثَلَاثَ أَنْوَاعٍ مِنَ الْبَلَاءِ : الْجُنُوْنَ وَالْجُذَامَ وَالْبَرَصَ. وَإِذَا بَلَغَ خَمْسِيْنَ سَنَةً، غَفَرَ لَهُ ذَنْبَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْهُ وَمَا تَأَخَّرَ، وَکَانَ أَسِيْرَ اﷲِ فِي الْأَرْضِ وَالشَّفِيْعَ فِي أَهْلِ بَيْتِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ. رَوَاهُ الْحَاکِمُ.

22 : أخرجه الحاکم في المستدرک، 3 / 544، الرقم : 6023، وابن قانع في معجم الصحابة، 2 / 100، الرقم : 549، والهيثمي في مجمع الزوائد، 10 / 206.

’’حضرت عبداللہ بن ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جب کوئی مسلمان 40 سال کو پہنچتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس سے تین بلائیں دور فرماتا ہے : پاگل پن، کوڑھ اور برص کے سفید داغ۔ جب وہ 50 سال کو پہنچتا ہے تو اس کے پہلے اور بعد کے گناہ بخش دیتا ہے اور وہ زمین میں اللہ کا قیدی ہوتا ہے اور قیامت کے دن اپنے گھر والوں کی شفاعت کرے گا۔‘‘

اسے امام حاکم نے روایت کیا ہے۔

386 / 23. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی اﷲ عنه، أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : مَا مِنْ مُعَمَّرٍ يُعَمَّرُ فِي الْإِسْلَامِ أَرْبَعِيْنَ سَنَةً إِلَّا صَرَفَ اﷲُ عَنْهُ ثلَاثَةَ أَنْوَاعٍ مِنَ الْبَلَاءِ : الْجُنُوْنَ وَالْجُذَامَ وَالْبَرَصَ. فَإِذَا بَلَغَ خَمْسِيْنَ سَنَةً : لَيَنَ اﷲُ عَلَيْهِ الْحِسَابَ. فَإِذَا بَلَغَ سِتِّيْنَ : رَزَقَهُ اﷲُ الْإِنَابَةَ إِلَيْهِ بِمَا يُحِبُّ، فَإِذَا بَلَغَ سَبْعِيْنَ سَنَةً : أَحَبَّهُ اﷲُ وَأَحَبَّهُ أَهْلُ السَّمَائِ. فَإِذَا بَلَغَ الثَّمَانِيْنَ : قَبِلَ اﷲُ حَسَنَاتِهِ وَتَجَاوَزَ عَنْ سَيِّئَاتِهِ. فَإِذَا بَلَغَ تِسْعِيْنَ : غَفَرَ اﷲُ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ وَمَا تَأَخَّرَ، وَسُمِّيَ أَسِيْرَ اﷲِ فِي الْأَرْضِ وَشَفَعَ لِأَهْلِ بَيْتِهِ.

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَأَبُويَعْلَی. وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ : رَوَاهُ الْبَزَّارُ بِإِسْنَادَيْنِ وَرِجَالُ أَحَدِهِمَا ثِقَاتٌ.

23 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 3 / 217، الرقم : 13279، وأبويعلی في المسند، 7 / 241، الرقم : 4246، والهيثمي في مجمع الزوائد، 10 / 205، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 3 / 209، والخطيب البغدادي في تاريخ بغداد، 9 / 71، الرقم : 1034.

’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کسی بھی شخص کو جب اسلام میں 40 سال تک عمر دی جاتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس سے تین قسم کی بلائیں دور فرماتا ہے : پاگل پن، کوڑھ اور سفید داغ۔ پھر جب وہ 50 سال کو پہنچتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس پر حساب نرم فرماتا ہے۔ پھر جب وہ 60 سال کو پہنچتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی طرف ایسے رجوع فرماتا ہے جیسے وہ پسند کرتا ہے۔ پھر جب وہ 70 سال کو پہنچتا ہے تو اللہ تعالیٰ اور اہلِ آسمان اس سے محبت کرنے لگتے ہیں۔ پھر جب وہ 80 سال کو پہنچتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی نیکیاں قبول فرماتا ہے اور اس کی برائیوں سے درگزر کرتا ہے۔ جب وہ 90 سال کو پہنچتا ہے تو اس کے پہلے اور بعد کے گناہ بخش دیتا ہے، اسے زمین میں اللہ کے قیدی کا نام دیا جاتا ہے اور وہ اپنے گھر والوں کی شفاعت کرے گا۔‘‘

اسے امام احمد اور ابویعلی نے روایت کیا ہے۔ امام ہیثمی نے کہا ہے : امام بزار نے اس حدیث کو دو اسانید سے روایت کیا ہے ان میں سے ایک کے رجال ثقہ ہیں۔

387 / 24. عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ رضی اﷲ عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : إِذَا اسْتَکْمَلَ الْعَبْدُ أَرْبَعِيْنَ سَنَةً وَطُعِنَ فِي الْخَمْسِيْنَ أَمِنَ الدَّاءَ الثَلَا ثَةَ : الْجُنُوْنَ وَالْجُذَامَ وَالْبَرَصَ، فَإِذَا بَلَغَ خَمْسِيْنَ سَنَةً حُوْسِبَ حِسَابًا يَسِيْرًا، وَإِبْنَ السِّتِّيْنَ يُعْطِي الْإِنَابَةَ إِلَی اﷲِ ل، وَإِبْنَ السَّبْعِيْنَ تُحِبُّهُ مَلَائِکَةُ السَّمَاءِ، وَإِبْنَ الثَّمَانِيْنَ تُکْتَبُ حَسَنَاتُهُ وَلَا تُکْتَبُ سَيِّئَاتُهُ، وَإِبْنَ التِّسْعِيْنَ يُغْفَرُ لَهُ مَا سَلَفَ مِنْ ذُنُوْبِهِ، وَيَشْفَعُ فِي سَبْعِيْنَ مِنْ أَهْلِ بَيْتِهِ، وَتَکْتُبُهُ مَلَائِکَةُ سَمَاءِ الدُّنْيَا أَسِيْرُ اﷲِ فِي الْأَرْضِ.

رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ فِي الزُّهْدِ الْکَبِيْرِ.

24 : أخرجه البيهقي في الزهد الکبير، 2 / 245، الرقم : 643، والهيثمي في مجمع الزوائد، 10 / 205.

’’حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جب بندہ عمر کے 40 سال مکمل کر لیتا ہے اور 50 ویں سال میں داخل ہوتا ہے تو وہ تین قسم کی بلاؤں سے محفوظ ہو جاتا ہے : پاگل پن، کوڑھ اور سفید داغ. پھر جب وہ 50 سال کو پہنچتا ہے تو اس کا آسان حساب ليا جاتا ہے۔ پھر جب وہ 60 سال کو پہنچتا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع فرماتا ہے۔ 70 ویں سال کے شخص سے فرشتے محبت کرتے ہیں۔ 80 ویں سال کے شخص کی نیکیاں قبول کی جاتی ہیں اور اس کی برائیوں سے درگزر کیا جاتا ہے۔ 90 ویں سال کے بندہ کے پہلے گناہ بخش دئیے جاتے ہیں اور وہ اپنے گھر والوں میں سے 70 افراد کی شفاعت کرے گا اور آسمانِ دنیا کے فرشتے اسے زمین میں اللہ کا قیدی لکھ لیتے ہیں۔‘‘

اسے امام بیہقی نے روایت کیا ہے۔

Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved