اسیران جمال مصطفیٰ ﷺ

پیش لفظ

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات گرامی امت مسلمہ کے ایمان کا مرکز و محور ہے۔ امت مسلمہ کی بقا، سلامتی اور ترقی کا راز اس بات پر منحصر ہے کہ وہ ذات مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنی جملہ عقیدتوں اور محبتوں کا مرکز و محور سمجھے۔ ہمارے ایمان کی مضبوطی اور استحکام کا دار و مدار بھی ذات مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تعلقِ عشقی مستحکم کرنے پر ہے۔ اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ عشق و محبت والا تعلق مضبوط ہو جائے تو پھر ایمان بھی کامل ہو جائے گا اور اعمال و عبادات بھی بامقصد و بامراد ہوں گی۔

صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم ذات مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنی محبت کا مرکز و محور سمجھتے تھے۔ وہ جانتے تھے کہ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس کے ساتھ تعلق جس قدر مضبوط و مستحکم ہو گا اسی قدر ایمان بھی مضبوط و مستحکم ہوتا جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس درجہ تعظیم کرتے تھے کہ مخالفین بھی ان کے اس عمل پر پکار اٹھے کہ اب یہ قوم ناقابل تسخیر قوت بن گئی ہے۔ صلح حدیبیہ کے موقع پر صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے وارفتگی کا جو منظر حضرت عروہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے دیکھا۔ اگرچہ وہ اس وقت مسلمان نہیں ہوئے تھے۔ ۔ ۔ تو انہوں نے کفار مکہ سے برملا کہہ دیا کہ میں نے بڑے بڑے بادشاہوں کے دربار میں سلیقۂ ادب و احترام دیکھا ہے، لیکن خدا کی قسم! میں نے ہرگز کسی بادشاہ کو نہیں دیکھا کہ اس کے مصاحب اس کی اتنی تعظیم کرتے ہوں جتنی تعظیم محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اصحاب اپنے رسول محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی کرتے ہیں۔ بعدازاں انہوں نے کفار کو مسلمانوں پر حملہ نہ کرنے کا مشورہ دیا کیونکہ وہ بطور ماہر سفارتکار جانتے تھے کہ جو قوم اپنے رسول کے جسم سے مس ہونے والا پانی، لعاب دہن اور موئے مبارک کا زمین پر گرنا برداشت نہیں کر سکتے وہ میدان جنگ میں اس کے خون کا زمین پر گرنا کیونکر برداشت کر سکتی ہے!

آج اگر امت مسلمہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی سنت پر چلتے ہوئے ذات مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ عشق و محبت اور ادب و تعظیم کا تعلق مضبوط تر کر لے تو پھر یہ دوبارہ ایک ناقابل تسخیر قوت بن سکتی ہے، جسے دنیا کی کوئی طاقت شکست نہیں دے سکتی۔ تحریکِ منہاج القرآن امت مسلمہ کا اپنے آقا و مولیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ٹوٹا ہوا تعلق پھر سے بحال کرنا چاہتی ہے۔ اس کے بانی قائد انقلاب ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے اس تعلق کو بحال کرنے کے لئے اپنی تقریر و تحریر کے ذریعے جس قدر شعور اجاگر کیا ہے دور حاضر میں اِس کی مثال ملنی مشکل ہے۔

زیرنظر کتاب میں عشاق صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے چالیس واقعات کے ذریعہ اس بات کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ اگر آج ہم اس پیکر جمال صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ محبت و احترام کا تعلق مضبوط و مستحکم کر لیں تو اپنے آپ کو ناقابل تسخیر بنا سکتے ہیں، جبکہ اسلام دشمن طاقتوں کی خواہش ہے کہ امت مسلمہ کے سینوں سے ادب و تعظیم اور عشق و محبت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نکال دیا جائے تاکہ امت مسلمہ کو شکست خوردہ قوم بنایا جائے، جیسا کہ اِس حقیقت کی طرف علامہ اقبال رحمۃ اﷲ علیہ نے اپنے ان اشعار میں توجہ دلائی ہے:

یہ فاقہ کش جو موت سے ڈرتا نہیں ذرا
روحِ محمد (ص) اس کے بدن سے نکال دو

فکرِ عرب کو دے کر فرنگی تخیلات
اسلام کو حجاز و یمن سے نکال دو

لہٰذا آج ضرورت اس امر کی ہے کہ امت مسلمہ اپنے اندر احوال عشق مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پھر سے زندہ کرے تاکہ یہ اجتماعی طور پر ماضی کی طرح ناقابل شکست اور ناقابل تسخیر قوت بن جائے۔

محمد تاج الدین کالامی
ریسرچ سکالر
فریدِ ملت ریسرچ انسٹی ٹیوٹ

Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved