جمیع خلق پر حضور نبی اکرم ﷺ کی رحمت و شفقت

حضور ﷺ کی جانوروں اور پرندوں پر رحمت و شفقت

بَابٌ فِي رَحْمَتِه صلی الله عليه وآله وسلم وَمُـلَاطَفَتِه عَلَی الْحَيَوَانِ وَالطُّيُوْرِ

{حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جانوروں اور پرندوں پر رحمت و شفقت}

228 /1. عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عُمَرَ رضي الله عنهما أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: عُذِّبَتِ امْرَأَةٌ فِي هِرَّةٍ حَبَسَتْهَا حَتّٰی مَاتَتْ جُوْعًا، فَدَخَلَتْ فِيْهَا النَّارَ، قَالَ: فَقَالَ: وَاللهُ أَعْلَمُ، لَا أَنْتِ أَطْعَمْتِهَا وَلَا سَقَيْتِهَا حِيْنَ حَبَسْتِهَا وَلَا أَنْتِ أَرْسَلْتِهَا فَأَکَلَتْ مِنْ خَشَاشِ الْأَرْضِ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

1: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب المساقاة، باب فضل سقي الماء، 2 /834، الرقم: 2236، ومسلم في الصحيح، کتاب السلام، باب تحريم قتل الهرة، 4 /1760، الرقم: 2242، والدارمي في السنن، 2 /426، الرقم: 2814، والبيهقي في السنن الکبری، 5 /214، الرقم: 9851.

’’حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ایک عورت کو ایک بلی کی وجہ سے عذاب دیا گیا اُس نے اُس بلی کو (کسی جگہ) بند کر دیا تھا یہاں تک کہ وہ بھوکی مر گئی۔ وہ عورت اُس کی وجہ سے دوزخ میں داخل کی گئی۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: (اللہ تعالیٰ اُس سے فرمائے گا:) اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ جب تو نے اُسے باندھا تو تو نے نہ اُسے کھلایا نہ پلایا اور نہ ہی اُسے کھلا چھوڑا کہ وہ (خود) زمین کے کیڑے مکوڑے کھا لیا کرتی۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

229 /2. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه عَنْ رَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: دَخَلَتِ امْرَأَةٌ النَّارَ مِنْ جَرَّاءِ هِرَّةٍ لَهَا أَوْ هِرٍّ رَبَطَتْهَا فَـلَا هِيَ أَطْعَمَتْهَا وَلَا هِيَ أَرْسَلَتْهَا تُرَمْرِمُ مِنْ خَشَاشِ الْأَرْضِ حَتّٰی مَاتَتْ هَزْلً.

مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ واللَّفْظُ لِمُسْلِمٍ.

2: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب بدء الخلق، باب خمس من الدواب فواسق يقتلن في الحرم، 3 /1205، الرقم: 3140، ومسلم في الصحيح، کتاب البر والصلة والآداب، باب تحريم تعذيب الهرة ونحوها من الحيوان الذي لا يؤذي، 4 /2110، الرقم: 2619، وابن ماجه في السنن، کتاب الزهد، باب ذکر التوبة، 2 /1421، الرقم: 4256، وعبد الرزاق في المصنف، 11 /284، الرقم: 20549، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 /269، الرقم: 7635، وأبو يعلی في المسند، 10 /432، الرقم: 6044، وابن راهويه في المسند، 1 /147، الرقم: 83، والديلمي في مسند الفردوس، 2 /217، الرقم: 3058.

’’حضرت ابو ہریرہ، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ایک عورت اپنی بلی ہی کی وجہ سے دوزخ میں داخل ہو گئی جسے اُس نے باندھ کر رکھا تھا، اُسے نہ تو خود کھلایا اور نہ ہی چھوڑا کہ وہ زمین کے کیڑے مکوڑے ہی کھا لیتی حتیٰ کہ وہ کمزوری سے مر گئی۔‘‘

یہ حدیث متفق علیہ ہے اورمذکورہ الفاظ مسلم کے ہیں۔

230 /3. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم : بَيْنَمَا کَلْبٌ يُطِيْفُ بِرَکِيَةٍ کَادَ يَقْتُلُهُ الْعَطَشُ إِذْ رَأَتْه بَغِيٌّ مِنْ بَغَايَا بَنِي إِسْرَائِيْلَ فَنَزَعَتْ مُوْقَهَا فَسَقَتْهُ فَغُفِرَ لَهَا بِه . مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

3: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب أحاديث الأنبياء، باب حديث الغار، 3 /1279، الرقم:3280، ومسلم في الصحيح، کتاب السلام، باب فضل سقي البهائم المحترمة وإطعامها، 4 /1761، الرقم: 2245، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 /510، الرقم: 10629، والبيهقي في السنن الکبری، 8 /14، الرقم: 15597، والديلمي في مسند الفردوس، 2 /19، الرقم: 2126.

’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ایک کتا کسی کنوئیں کے گرد گھوم رہا تھا۔ قریب تھا کہ وہ پیاس سے مر جائے گا۔ اچانک اُسے بنی اسرائیل کی ایک بدکار عورت نے دیکھ لیا۔ اُس نے اپنا موزہ اُتارا اور اُس سے پانی نکال کر کتے کو پلا دیا۔ اُس کے اِس عمل کی وجہ سے اُس کی مغفرت فرما دی گئی۔‘‘

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

231 /4. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: بَيْنَمَا رَجُلٌ يَمْشِي بِطَرِيْقٍ اشْتَدَّ عَلَيْهِ الْعَطَشُ فَوَجَدَ بِئْرًا فَنَزَلَ فِيْهَا فَشَرِبَ ثُمَّ خَرَجَ فَإِذَا کَلْبٌ يَلْهَثُ يَأْکُلُ الثَّرَی مِنَ الْعَطَشِ، فَقَالَ الرَّجُلُ: لَقَدْ بَلَغَ هٰذَا الْکَلْبَ مِنَ الْعَطَشِ مِثْلُ الَّذِي کَانَ بَلَغَ مِنِّي، فَنَزَلَ الْبِئْرَ فَمَلَأَ خُفَّهُ مَاءً ثُمَّ أَمْسَکَهُ بِفِيْهِ حَتّٰی رَقِيَ، فَسَقَی الْکَلْبَ فَشَکَرَ اللهُ لَه فَغَفَرَ لَه. قَالُوْا: يَا رَسُوْلَ اللهِ، وَإِنَّ لَنَا فِي هٰذِهِ الْبَهَائِمِ لَأَجْرًا فَقَالَ: فِي کُلِّ کَبِدٍ رَطْبَةٍ أَجْرٌ.

مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ وَاللَّفْظُ لِمُسْلِمٍ.

4: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب المساقاة، باب فضل سقي الماء، 2 /833، الرقم: 2234، وأيضًا فيکتاب المظالم والغضب، باب الآبار علی الطرق إذا لم يتأذ بها، 2 /870، الرقم: 2334، ومسلم في الصحيح، کتاب السلام، باب فضل سقي البهائم المحترمة وإطعامها، 4 /1761، الرقم: 2244، وأبو داود في السنن، کتاب الجهاد، باب ما يؤمر به من القيام علی الدّواب والبهائم، 3 /24، الرقم:2550، ومالک في الموطأ، 2 /929، الرقم: 1661، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 /517، الرقم: 10710.

’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ایک شخص جا رہا تھا کہ اُسے راستے میں شدید پیاس لگی، اُس نے ایک کنواں دیکھا تو وہ اُس کنویں میں اُتر گیا اور پانی پیا، جب وہ کنویں سے نکلا تو اُس نے دیکھا کہ ایک کتا پیاس کی وجہ سے ہانپ رہا ہے اور کیچڑ چاٹ رہا ہے، اُس شخص نے سوچا اِس کتے کی بھی پیاس سے وہی حالت ہو رہی ہے جو (کچھ دیر قبل) میری ہو رہی تھی، پس وہ کنویں میں اُترا اور اپنے موزے میں پانی بھرا، پھر اُس موزے کو منہ سے پکڑ کر اُوپر چڑھا اور کتے کو پانی پلایا، اللہ تعالیٰ نے اُس کی یہ نیکی قبول کی اور اُس کی مغفرت فرما دی، صحابہ کرام نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا اِن جانوروں میں بھی ہمارے لئے اجر ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہر تر جگر والے (یعنی ہر زندہ جانور) میں اَجر ہے (یعنی اللہتعالیٰ کی کسی بھی مخلوق سے نیکی کرنے پر اجر ملتا ہے)۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے اورمذکورہ الفاظ مسلم کے ہیں۔

232 /5. عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ جَعْفَرٍ رضي الله عنه قَالَ: فَدَخَلَ حَائِطًا لِرَجُلٍ مِنَ الْأَنْصَارِ فَإِذَا جَمَلٌ. فَلَمَّا رَأَی النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم حَنَّ وَذَرَفَتْ عَيْنَاهُ. فَأَتَاهُ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم فَمَسَحَ ذِفْرَاهُ فَسَکَتَ فَقَالَ: مَنْ رَبُّ هٰذَا الْجَمَلِ؟ لِمَنْ هٰذَا الْجَمَلُ؟ فَجَاءَ فَتًی مِنَ الْأَنْصَارِ فَقَالَ: لِي، يَا رَسُوْلَ اللهِ. فَقَالَ: أَفَـلَا تَتَّقِي اللهَ فِي هٰذِهِ الْبَهِيْمَةِ الَّتِي مَلَّکَکَ اللهُ إِيَهَا، فَإِنَّه شَکَا إِلَيَّ أَنَّکَ تُجِيْعُهُ وَتُدْئِبُهُ. رَوَاهُ أَبُوْ دَاوُدَ وَأَحْمَدُ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَأَبُوْ يَعْلٰی.

وَقَالَ الْحَاکِمُ: هٰذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ. وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ: فِيْهِ عَبْدُ الْحَکِيْمِ ابْنِ سُفْيَانَ ذَکَرَهُ ابْنُ أَبِي حَاتِمٍ وَلَمْ يَجْرِحْه أَحَدٌ وَبَقِيَةُ رِجَالِه ثِقَاتٌ.

5: أخرجه أبو داود في السنن، کتاب الجهاد، باب ما يومر به من القيام علي الدواب والبهائم، 3 /23، الرقم: 2549، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 /205، الرقم: 1754، وابن أبي شيبة في المصنف، 6 /322، الرقم: 31756، وأبو يعلي في المسند، 12 /158159، الرقم: 6787، وأبو عوانة فی المسند، 1 /168، الرقم: 497، والمقدسي في الأحاديث المختارة، 9 /159، الرقم: 135، وابن عبد البر في التمهيد، 22 /9، وأبو المحاسن في معتصر المختصر، 2 /19، والمزي في تهذيب الکمال، 6 /165، الرقم: 1232.

’’حضرت عبد اللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک انصاری شخص کے باغ میں داخل ہوئے تو وہاں ایک اُونٹ تھا۔ جب اُس نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا تو وہ رو پڑا اور اُس کی آنکھوں سے آنسو بہ نکلے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُس کے پاس تشریف لے گئے اور اُس کے سر پر دستِ شفقت پھیرا تو وہ خاموش ہو گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دریافت فرمایا: اِس اُونٹ کا مالک کون ہے، یہ کس کا اُونٹ ہے؟ انصار کا ایک نوجوان حاضر خدمت ہوا اور عرض کیا: یا رسول اللہ! یہ میرا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کیا تم اس بے زبان جانور کے معاملے میں اللہ تعالیٰ سے نہیں ڈرتے جس کا اللہ تعالیٰ نے تمہیں مالک بنایا ہے۔ اس نے مجھے شکایت کی ہے کہ تم اسے بھوکا رکھتے ہو اور اس سے بہت زیادہ کام لیتے ہو۔‘‘

اِس حدیث کو امام ابو داود، احمد، ابن ابی شیبہ اور ابو یعلی نے روایت کیا ہے۔ امام حاکم نے فرمایا: اِس حدیث کی سند صحیح ہے۔ امام ہیثمی نے فرمایا: اِس کی سند میں عبد الحکیم بن سفیان نامی راوی ہے، امام ابن ابی حاتم نے اُس کا بغیر کسی جرح کے ذکر کیا ہے اور اُس کے علاوہ بھی تمام رجال ثقہ ہیں۔

233 /6. عَنْ سَهْلِ بْنِ الْحَنْظَلِيَةِ رضي الله عنه قَالَ: مَرَّ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم بِبَعِيْرٍ قَدْ لَحِقَ ظَهْرُه بِبَطْنِه، فَقَالَ: اتَّقُوْا اللهَ فِي هٰذِهِ الْبَهَائِمِ الْمُعْجَمَةِ فَارْکَبُوْهَا صَالِحَةً وَکُلُوْهَا صَالِحَةً. رَوَاهُ أَبُوْ دَاوُدَ وَابْنُ خُزَيْمَةَ.

6: أخرجه أبو داود في السنن، کتاب الجهاد، باب ما يومر به من القيام علی الدواب والبهائم، 3 /23، الرقم: 2548، وابن خزيمة في الصحيح، 4 /143، الرقم: 2545، والمنذري في الترغيب والترهيب، 3 /146، الرقم: 3433، والنووي في رياض الصالحين /242.

’’حضرت سہل بن حنظلیہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا گزر ایک اُونٹ کے پاس سے ہوا جس کی کمر اُس کے پیٹ سے لگی ہوئی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اِن بے زبان جانوروں کے معاملے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرو، جب یہ تندرست ہوں تو ان پر سوار ہوا کرو اور جب یہ تندرست نہ رہیں تو اِنہیں کھا لیا کرو۔‘‘

اِس حدیث کو امام ابو داود اور ابن خزیمہ نے روایت کیا ہے۔

234 /7. عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو رضي الله عنهما أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم صَلَّی الظُّهْرَ فَوَجَدَ نَاقَةً مَعْقُوْلَةً، فَقَالَ: أَيْنَ صَاحِبُ هٰذِهِ الرَّاحِلَةِ؟ فَلَمْ يَسْتَجِبْ لَه أَحَدٌ، فَدَخَلَ الْمَسْجِدَ فَصَلّٰی حَتّٰی فَرَغَ فَوَجَدَ الرَّاحِلَةَ کَمَا هِيَ، فَقَالَ: أَيْنَ صَاحِبُ هٰذِهِ الرَّاحِلَةِ؟ فَاسْتَجَابَ لَه صَاحِبُهَا فَقَالَ: أَنَا، يَا نَبِيَّ اللهِ، فَقَالَ: أَلَا تَتَّقِيَ اللهَ تَعَالٰی فِيْهَا إِمَّا أَنْ تَعْقِلَهَا وَإِمَّا أَنْ تُرْسِلَهَا حَتّٰی تَبْتَغِيَ لِنَفْسِهَ.

رَوَاهُ الْهَيْثَمِيُّ وَقَالَ: رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَإِسْنَادُه جَيِّدٌ.

7: أخرجه الهيثمي في مجمع الزوائد، 8 /196197

’’حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نماز ظہر ادا فرمائی تو ایک اُونٹنی باندھی ہوئی دیکھی اور فرمایا: اِس سواری کا مالک کہاں ہے؟ تو کسی نے جواب نہ دیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسجد میں داخل ہوئے اور نماز ادا فرمائی۔ یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز سے فارغ ہوگئے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اونٹنی کو بدستور بندھا ہوا پایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اس سواری (اونٹنی) کا مالک کہاں ہے؟ تو اُس کے مالک نے جواب دیا: یا نبی اللہ! میں ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تمہیں اللہ تعالیٰ کا خوف نہیں ہے۔ یا اسے باندھ کر رکھ (اور چارہ ڈال) یا اسے کھلا چھوڑ دے تاکہ وہ خود چارہ وغیرہ کھا لے۔‘‘

اِس حدیث کو امام ہیثمی نے روایت کیا ہے اور فرمایا: اسے امام طبرانی نے روایت کیا ہے اور اِس کی اسناد جید ہے۔

235 /8. عَنْ شَدَّادِ بْنِ أَوْسٍ رضي الله عنه قَالَ: ثِنْتَانِ حَفِظْتُهُمَا عَنْ رَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: إِنَّ اللهَ کَتَبَ الْإِحْسَانَ عَلٰی کُلِّ شَيئٍ، فَإِذَا قَتَلْتُمْ فَأَحْسِنُوْا الْقِتْلَةَ، وَإِذَا ذَبَحْتُمْ فَأَحْسِنُوْا الذَّبْحَ، وَلْيُحِدَّ أَحَدُکُمْ شَفْرَتَه فَلْيُرِحْ ذَبِيْحَتَه.

رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالتِّرْمِذِيُّ وَأَبُوْ دَاوُدَ وَالنَّسَائِيُّ وَابْنُ مَاجَه.

8: أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الصيد والذبائح، باب الأمر بإحسان الذبح والقتل وتحديد الشفرة، 3 /1548، الرقم: 1955، والترمذي في السنن، کتاب الديات، باب ما جاء في النهي عن المثلة، 4 /23، الرقم: 1409، وأبو داود في السنن، کتاب الضحايا، باب في النهي أن تصبر البهائم والرفق بالذبيحة، 3 /100، الرقم: 2815، والنسائي في السنن، کتاب الضحايا، باب الأمر بإحداد الشفرة، 7 /227، الرقم: 4405، وأيضًا في باب حسن الذبح، 7 /229، الرقم: 4412، وابن ماجه في السنن، کتاب الذبائح، باب إذا ذبحتم فأحسنوا الذبح، 2 /1058، الرقم: 3170، ، وأحمد بن حنبل في المسند، 4 /123، 125، الرقم: 17154، 17179، وابن حبان في الصحيح، 13 /199، الرقم: 5883.

’’حضرت شداد بن اوس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دو باتیں یاد رکھی ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کے ساتھ نیکی کرنے کا حکم دیا ہے، سو جب تم کسی شے کا شکار کرو تو اُسے احسن طریقہ سے شکار کرو اور جب تم ذبح کرو تو احسن طریقہ سے ذبح کرو، تم میں سے ہر شخص کو چاہیے کہ وہ چھری تیز کرے اور اپنے ذبیحہ کو آرام پہنچائے۔‘‘

اِس حدیث کو امام مسلم، ترمذی، ابو داود، نسائی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔

236 /9. عَنْ قُرَّةَ بْنِ إِيَاسٍ رضي الله عنه أَنَّ رَجُـلًا قَالَ: يَا رَسُوْلَ اللهِ، إِنِّي لَأَذْبَحُ الشَّاةَ وَأَنَا أَرْحَمُهَا، أَوْ قَالَ: إِنِّي لَأَرْحَمُ الشَّاةَ أَنْ أَذْبَحَهَا، فَقَالَ: وَالشَّاةُ، إِنْ رَحِمْتَهَا رَحِمَکَ اللهُ.

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَالْبَزَّارُ وَالْبُخَارِيُّ فِي الأَدَبِ. وَقَالَ الْحَاکِمُ: هٰذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ. وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ: وَلَه أَلْفَاظٌ کَثِيْرَةٌ وَرِجَالُه ثِقَاتٌ.

9: أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 3 /436، وأيضًا، 5 /34، الرقم: 15630، 20379، والبخاري في الأدب المفرد /136، الرقم: 373، وابن أبي شيبة في المصنف، 5 /214، الرقم: 25361، والبزار في المسند، 8 /257، الرقم: 3322، والحاکم في المستدرک، 4 /257، الرقم: 7562، والطبراني في المعجم الکبير، 19 /23، الرقم: 45، والهيثمي في مجمع الزوائد، 4 /33.

’’حضرت قرہ بن ایاس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا: یا رسول اللہ! جب میں بکری کو ذبح کرتا ہوں تو مجھے اُس پر رحم آتا ہے، یا یہ کہا کہ مجھے بکری کو ذبح کرنے سے اُس پر رحم آتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اگر تجھے بکری پر رحم آتا ہے تو اللہ تعالیٰ تجھ پر رحم فرمائے گا۔‘‘

اِس حدیث کو امام احمد، ابن ابی شیبہ، بزار اور بخاری نے ’الادب المفرد‘ میں روایت کیا ہے۔ امام حاکم نے فرمایا: یہ حدیث صحیح الاسناد ہے۔ جبکہ امام ہیثمی نے بھی فرمایا: یہ حدیث کثیر الفاظ کے ساتھ مروی ہے اور اِس کے رجال ثقہ ہیں۔

237 /10. عَنْ أَبِي أُمَامَةَ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم : مَنْ رَحِمَ وَلَوْ ذَبِيْحَةَ عُصْفُوْرٍ رَحِمَهُ اللهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ.

رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَالْبَيْهَقِيُّ وَالْبُخَارِيُّ فِي الأَدَبِ. وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ: رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَرِجَالُه ثِقَاتٌ.

10: أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 8 /234، الرقم: 7915، والبيهقي في شعب الإيمان، 7 /482، الرقم: 11070، والبخاري في الأدب المفرد /138، الرقم: 181، والهيثمي في مجمع الزوائد، 4 /33.

’’حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس نے (کسی چیز پر) رحم کیا خواہ چڑیا کے ذبیحہ پر ہی کیوں نہ ہو اللہ تعالیٰ قیامت کے روز اُس پر رحم کرے گا۔‘‘

اِس حدیث کو امام طبرانی، بیہقی اور بخاری نے ’الادب المفرد‘ میں روایت کیا ہے۔ امام ہیثمی نے فرمایا: اِسے امام طبرانی نے ثقہ رجال کے ساتھ روایت کیا ہے۔

238 /11. عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو رضي الله عنهما قَالَ: مَرَّ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم بِرَجُلٍ يَحْلَبُ شَاةً، فَقَالَ: أَي فُـلَانُ، إِذَا حَلَبْتَ فَأَبْقِ لِوَلِدِهَا، فَإِنَّهَا مِنْ أَبَرِّ الدَّوَابِ.

رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَأَبُوْ نُعَيْمٍ. وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ: وَرِجَالُه رِجَالُ الصَّحِيْحِ غَيْرَ عَبْدِ اللهِ بْنِ جَنَادَةَ وَهُوَ ثِقَةٌ.

11: أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 1 /271، الرقم: 885، وأبو نعيم في حلية الأولياء، 8 /176، والهيثمي في مجمع الزوائد، 8 /196.

’’حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک شخص کے پاس سے گزرے جو بھیڑ کا دودھ دھو رہا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُس سے فرمایا: اے فلاں! جب تم دودھ نکالو تو اِس کے بچے کے لئے بھی چھوڑ دو یہ جانوروں کے ساتھ سب سے بڑی نیکی ہے۔‘‘

اِس حدیث کو امام طبرانی اور ابو نعیم نے روایت کیا ہے۔ امام ہیثمی نے فرمایا: اِس کے تمام رجال صحیح ہیں سوائے عبد اللہ بن جنادہ کے جو ثقہ ہیں۔

239 /12. عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضي الله عنهما لَعَنَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم مَنْ مَثَّلَ بِالْحَيَوَانِ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَالنَّسَائِيُّ وَالدَّارِمِيُّ.

12: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الذبائح والصيد، باب ما يکره من المثلة والمصبورة والمجثمة، 5 /2100، الرقم: 5196، والنسائي في السنن، کتاب الضحايا، باب النهي عن المجثمة، 7 /238، الرقم: 4442، والدارمي في السنن، 2 /113، الرقم: 1973، وابن حبان في الصحيح، 12 /434، الرقم: 5617.

’’حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُس شخص پر لعنت فرمائی ہے جو جانوروں کا مثلہ کرے (یعنی اُن کے ناک کان وغیرہ کاٹے۔)‘‘ اِس حدیث کو امام بخاری، نسائی اور دارمی نے روایت کیا ہے۔

240 /13. عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ يَزِيْدَ رضي الله عنه عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم أَنَّه نَهَی عَنِ النُّهْبَةِ وَالْمُثْلَةِ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَأَحْمَدُ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ.

13: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الذبائح والصيد، باب ما يکره من المثلة والمصبورة والمجثمة، 5 /2100، الرقم: 5197، وأحمد بن حنبل في المسند، 4 /307، الرقم: 18762، 18764، وابن أبي شيبة في المصنف، 4 /481، الرقم: 22321، وابن الجعد في المسند، 1 /85، الرقم: 476، وابن أبي عاصم في الآحاد والمثاني، 4 /137، الرقم: 2117، والطبراني في المعجم الکبير، 4 /124، الرقم: 3872.

’’حضرت عبد اللہ بن یزید، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نے لوٹ مار اور مُثلہ کرنے یعنی (ناک کان وغیرہ اعضاء کاٹنے) سے منع فرمایا۔‘‘ اِسے امام بخاری، احمد اور ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔

241 /14. عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ جَعْفَرٍ رضي الله عنه قَالَ: مَرَّ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم عَلٰی أُنَاسٍ وَهُمْ يَرْمُوْنَ کَبْشًا بِالنَّبْلِ، فَکَرِهَ ذَالِکَ وَقَالَ: لَا تَمْثُلُوْا بِالْبَهَائِمِ. رَوَاهُ النَّسَائِيُّ وَأَبُو يَعْلٰی.

14: أخرجه النسائي في السنن، کتاب الضحايا، باب النهي عن المجثمة، 7 /238، الرقم: 4440، وأيضًا في السنن الکبری، 3 /72، الرقم: 4529، وأبو يعلی في المسند، 12 /162، الرقم: 6790، والمقدسي في الأحاديث المختارة، 9 /198199، الرقم: 185، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 59 /244، والعيني في عمدة القاري، 21 /125.

’’حضرت عبد اللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کچھ لوگوں کے پاس سے گزرے تو وہ ایک مینڈھے کو (باندھ کر) تیروں سے مار رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اِسے ناپسند فرمایا اور ارشاد فرمایا: جانوروں کا مثلہ نہ کیا کرو۔‘‘

اِسے امام نسائی اور ابو یعلی نے روایت کیا ہے۔

242 /15. عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضي الله عنهما قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ: مَنْ مَثَّلَ بِذِي رُوْحٍ ثُمَّ لَمْ يَتُبْ مَثَّلَ اللهُ بِه يَوْمَ الْقِيَامَةِ.

رَوَاهُ أَحْمَدُ، وَقَالَ الْمُنْذَرِيُّ وَالْهَيْثَمِيُّ وَالْعَسْقَـلَانِيُّ: رِجَالُه ثِقَاتٌ.

15: أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 2 /92، 115، الرقم: 5661، 5956، وابن الجعد في المسند /330، الرقم: 2264، وابن رجب الحنبلي في جامع العلوم والحکم، 1 /153، والمنذري في الترغيب والترهيب، 2 /102، الرقم: 1676، والهيثمي في مجمع الزوائد، 4 /32، والعسقلاني في فتح الباري، 9 /644.

’’حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ اُنہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: جس نے کسی ذی روح کا مثلہ کیا اور پھر اِس گناہ سے توبہ نہ کی(اور اسی حال میں مرگیا) تو اللہ تعالیٰ روزِ قیامت اُس کا مثلہ کرے گا۔‘‘

اِس حدیث کو امام احمد نے روایت کیا ہے۔ امام منذری، ہیثمی اور عسقلانی نے فرمایا: اِس کے رجال ثقہ ہیں۔

243 /16. عَنْ هِشَامِ بْنِ زَيْدٍ قَالَ: دَخَلْتُ مَعَ أَنَسٍ رضي الله عنه عَلَی الْحَکَمِ بْنِ أَيُّوْبَ فَرَأَی غِلْمَانًا أَوْ فِتْيَانًا نَصَبُوْا دَجَاجَةً يَرْمُوْنَهَا فَقَالَ أَنَسٌ: نَهَی النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم أَنْ تُصْبَرَ الْبَهَائِمُ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

16: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الذبائح والصيد، باب ما يکره من المثلة والمصبورة والمجثمة، 5 /2100، الرقم: 5194، ومسلم في الصحيح، کتاب الصيد والذبائح، باب النهي عن صبر البهائم، 3 /1549، الرقم: 1956، وأبو داود في السنن، کتاب الضحايا، باب في النهي أن تصبر البهائم والرفق بالذبيحة، 3 /100، الرقم: 2816، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 /171، الرقم: 12769، وأبو عوانة في المسند، 5 /51، الرقم: 7756، والبيهقي في السنن الکبری، 9 /86، الرقم: 17908.

’’حضرت ہشام بن زیاد کا بیان ہے کہ میں حضرت انس رضی اللہ عنہ کے ساتھ حضرت حکم بن ایوب کی خدمت میں حاضر ہوا تو اُنہوں نے چند لڑکوں یا نوجوانوں کو دیکھا کہ ایک مرغی کو باندھ کر اُس پر تیر چلا رہے ہیں۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جانوروں کو باندھ کر مارنے سے منع فرمایا ہے۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

244 /17. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: لَا تَتَّخِذُوْا شَيْئًا فِيْهِ الرُّوْحُ غَرَضً. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالتِّرْمِذِيُّ وَالنَّسَائِيُّ وَابْنُ مَاجَه.

17: أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الصيد والذبائح، باب النهي عن صبر البهائم، 3 /1549، الرقم: 1957، والترمذي في السنن، کتاب الصيد، باب ما جاء في کراهية أکل المصبورة، 4 /72، الرقم: 1475، وَقَالَ: هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ، والنسائي في السنن، کتاب الضحايا، باب النهي عن المجثمة، 7 /238، الرقم: 4443، وابن ماجه في السنن، کتاب الذبائح، باب النهي عن صبر البهائم وعن المثلة، 2 /1063، الرقم: 3187، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 /280، 285، 340، الرقم: 2532، 2586، 3155، وابن حبان في الصحيح، 12 /422، الرقم: 5608، وأبو عوانة في المسند، 5 /52، الرقم: 7759، والطحاوي في شرح معاني الآثار، 3 /181.

’’حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کسی جاندار کو (تیر اندازی کے لئے) ہدف مت بناؤ۔‘‘

اِس حدیث کو امام مسلم، ترمذی، نسائی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔

245 /18. عَنْ سَعِيْدِ بْنِ جُبَيْرٍ رضي الله عنه قَالَ: کُنْتُ عِنْدَ ابْنِ عُمَرَ رضي الله عنهما فَمَرُّوْا بِفِتْيَةٍ أَوْ بِنَفَرٍ نَصَبُوْا دَجَاجَةً يَرْمُوْنَهَا فَلَمَّا رَأَوْا ابْنَ عُمَرَ رضي الله عنهما تَفَرَّقُوْا عَنْهَا وَقَالَ ابْنُ عُمَرَ: مَنْ فَعَلَ هٰذَا إِنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم لَعَنَ مَنْ فَعَلَ هٰذَ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ.

18: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الذبائح والصيد، باب ما يکره من المثلة والمصبورة والمجثمة، 5 /2100، الرقم: 5196، وابن سرايا في سلاح المؤمن في الدعائ، 1 /229، الرقم: 412، والحسيني في البيان والتعريف، 2 /162، الرقم: 1367، والعسقلاني في الوقوف علی الموقوف، 1 /105، الرقم: 134.

’’حضرت سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ تھا کہ آپ کا گزر چند لڑکوں یا آدمیوں کے پاس سے ہوا جو ایک مرغی کو باندھ کر نشانہ بازی کر رہے تھے۔ جب اُنہوں نے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو دیکھا تو منتشر ہوگئے اور حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے دریافت فرمایا: یہ کام کس نے کیا ہے؟ بیشک حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُس پر لعنت فرمائی ہے جو ایسا کام کرے۔‘‘

اِسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔

246 /19. عَنْ سَعِيْدِ بْنِ جُبَيْرٍ رضي الله عنه قَالَ: مَرَّ ابْنُ عُمَرَ رضي الله عنهما بِفِتْيَانٍ مِنْ قُرَيْشٍ قَدْ نَصَبُوْا طَيْرًا وَهُمْ يَرْمُوْنَه وَقَدْ جَعَلُوْا لِصَاحِبِ الطَّيْرِ کُلَّ خَاطِئَةٍ مِنْ نَبْلِهِمْ فَلَمَّا رَأَوْا ابْنَ عُمَرَ رضي الله عنهما تَفَرَّقُوْا، فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ: مَنْ فَعَلَ هٰذَا لَعَنَ اللهُ مَنْ فَعَلَ هٰذَا إِنَّ رَسُوْلَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم لَعَنَ مَنِ اتَّخَذَ شَيْئًا فِيْهِ الرُّوْحُ غَرَضً. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالتِّرْمِذِيُّ وَالنَّسَائِيُّ وَابْنُ مَاجَه.

19: أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الصيد، والذبائح وما يؤکل من الحيوان، باب النهي عن صبر البهائم، 3 /1550، الرقم: 1958، والترمذي في السنن، کتاب الصيد، باب ما جاء في کراهية أکل المصبورة، 4 /72، الرقم: 1475، وقال: هٰذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ، والنسائي في السنن، کتاب الضحايا، باب النهي المجثمة، 7 /239، الرقم: 4444، وابن ماجه في السنن، کتاب الذبائح، باب النهي عن صبر البهائم وعن المثلة، 2 /1063، الرقم: 3187.

’’امام سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا قریش کے چند جوانوں پر گذر ہوا جو ایک پرندے کو باندھ کر اُس پر تیر اندازی کی مشق کر رہے تھے اور اُنہوں نے پرندے والے سے یہ طے کر لیا تھا کہ جس کا تیر نشانہ پر نہیں لگے گا وہ اُس کو کچھ دے گا، جب اُنہوں نے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو دیکھا تو اِدھر اُدھر ہو گئے۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا: یہ کام کس نے کیا جو شخص اِس طرح کرے اُس پر اللہ تعالیٰ نے لعنت فرمائی ہے، جو شخص کسی جاندار کو ہدف بنائے بلاشبہ اُس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لعنت کی ہے۔‘‘

اِس حدیث کو امام مسلم، ترمذی، نسائی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔

247 /20. عَنْ سَعِيْدِ بْنِ جُبَيْرٍ رضي الله عنه يَقُوْلُ: خَرَجْتُ مَعَ ابْنِ عُمَرَ رضي الله عنهما فِي طَرِيْقٍ مِنْ طُرُقِ الْمَدِيْنَةِ فَإِذَا بِغِلْمَةٍ يَرْمُوْنَ دَجَاجَةً فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ: مَنْ فَعَلَ هٰذَا؟ فَتَفَرَّقُوْا فَقَالَ: إِنَّ رَسُوْلَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم لَعَنَ مَنْ مَثَّلَ بِالْحَيَوَانِ.

رَوَاهُ الدَّارِمِيُّ وَأَبُوْ نُعَيْمٍ وَقَالَ الْحَاکِمُ: هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ عَلٰی شَرْطِ الشَّيْخَيْنِ.

20: أخرجه الدارمي في السنن، 2 /113، الرقم: 1973، والحاکم في المستدرک، 4 /261، الرقم: 7575، وأبو نعيم في حلية الأولياء، 4 /296، والمناوي في فيض القدير، 6 /388.

’’حضرت سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ مدینہ منورہ کی ایک راہ پر جا رہا تھا تو کیا دیکھتے ہیں کہ کچھ لڑکے ایک مرغی کو باندھے اُس پر نشانہ بازی کر رہے ہیں۔ پس حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا: یہ کس نے کیا ہے؟ (یہ سن کر) لڑکے بھاگ گئے۔ انہوں نے فرمایا: بے شک حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جانوروں کے مثلہ کرنے والے پر لعنت بھیجی ہے۔‘‘

اِس حدیث کو امام دارمی، اور ابو نعیم نے روایت کیا ہے۔ امام حاکم نے فرمایا: یہ حدیث بخاری اور مسلم کی شرائط پر صحیح ہے۔

248 /21. عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضي الله عنهما أَنَّه مَرَّ عَلٰی قَوْمٍ وَقَدْ نَصَبُوْا دَجَاجَةً حَيَةً يَرْمُوْنَهَا فَقَالَ: إِنَّ رَسُوْلَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم لَعَنَ مَنْ مَثَّلَ بِالْبَهَائِمِ.

رَوَاهُ أَحْمَدُ.

21: أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 2 /13، الرقم: 4622.

’’حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کچھ لوگوں کے پاس سے گزرے جنہوں نے ایک زندہ مرغی کو زمین میں گاڑ رکھا تھا اور اُس پر نشانہ بازی کر رہے تھے، آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: بے شک حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جانوروں کے مثلہ کرنے والے پر لعنت فرمائی ہے۔‘‘ اِسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔

249 /22. عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضي الله عنهما أَنَّه دَخَلَ عَلٰی يَحْيَی بْنِ سَعِيْدٍ وَغُلَامٌ مِنْ بَنِي يَحْيٰی رَابِطٌ دَجَاجَةً يَرْمِيْهَا فَمَشٰی إِلَيْهَا ابْنُ عُمَرَ حَتّٰی حَلَّهَا ثُمَّ أَقْبَلَ بِهَا وَبِالْغُـلَامِ مَعَه فَقَالَ: ازْجُرُوْا غُـلَامَکُمْ عَنْ أَنْ يَصْبِرَ هٰذَا الطَّيْرَ لِلْقَتْلِ فَإِنِّي سَمِعْتُ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم نَهَی أَنْ تُصْبَرَ بَهِيْمَةٌ أَوْ غَيْرُهَا لِلْقَتْلِ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَأَحْمَدُ.

22: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الذبائح والصيد، باب ما يکره من المثلة والمصبورة والمجثمة، 5 /2100، الرقم: 5195، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 /94، الرقم: 5682، وأبو عوانة في المسند، 5 /53، الرقم: 7765، والبيهقي في السنن الکبری، 9 /334، الرقم: 19268.

’’حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما، حضرت یحییٰ بن سعید کے پاس گئے تو حضرت یحییٰ کے خاندان میں سے ایک لڑکے کو دیکھا کہ مرغی کو باندھ کر اُسے پتھر مار رہا ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضي اللہ عنہما نے اُس کے پاس جا کر اُسے آزاد کیا۔ پھر مرغی اور اُس لڑکے کو ساتھ لے کر حضرت یحییٰ بن سعید کے پاس گئے اور فرمایا: اپنے لڑکے کو تنبیہ کریں کہ پرندے کو اِس طرح بے بس نہ کیا کرے کیونکہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے: آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مویشی وغیرہ کو باندھ کر قتل کرنے سے منع فرمایا ہے۔‘‘

اِس حدیث کو امام بخاری اور احمد نے روایت کیا ہے۔

250 /23. عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ رضي الله عنهما قَالَ: نَهَی رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم أَنْ يُقْتَلَ شَيئٌ مِنَ الدَّوَابِّ صَبْرً. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَابْنُ مَاجَه وَأَحْمَدُ.

23: أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الصيد، والذبائح وما يؤکل من الحيوان، باب النهي عن صبر البهائم، 3 /1550، الرقم: 1959، وابن ماجه في السنن، کتاب الذبائح، باب النهي عن صبر البهائم وعن المثلة، 2 /1064، الرقم: 3188، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 /318، 321، الرقم: 14463، 14488، وأبو يعلی في المسند، 4 /163، الرقم: 2231، وأبو عوانة في المسند، 5 /54، الرقم: 7768، والبيهقي في السنن الکبری، 9 /334، الرقم: 19269.

’’حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کسی جانور کو باندھ کر مارنے سے منع فرمایا ہے۔‘‘

اِس حدیث کو امام مسلم، ابن ماجہ اور احمد نے روایت کیا ہے۔

251 /24. عَنِ الشَّرِيْدِ بْنِ سُوَيْدٍ رضي الله عنه قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ: مَنْ قَتَلَ عُصْفُوْرًا عَبَثًا عَجَّ إِلَی اللهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ يَقُوْلُ: يَا رَبِّ، إِنَّ فُـلَانًا قَتَلَنِي عَبَثًا، وَلَمْ يَقْتُلْنِي لِمَنْفَعَةٍ.

رَوَاهُ النَّسَائِيُّ وَأَحْمَدُ وَابْنُ حِبَّانَ.

24: أخرجه النسائي في السنن، کتاب الضحايا، باب من قتل عصفورا بغير حقها، 7 /239، الرقم: 4446، وأيضًا في السنن الکبري، 3 /73، الرقم: 4535، وأحمد بن حنبل في المسند، 4 /389، الرقم: 19488، وابن حبان في الصحيح، 13 /214، الرقم: 5894، والطبراني في المعجم الکبير، 7 /317، الرقم: 7245، والبيهقي في شعب الإيمان، 7 /483، الرقم: 11076، والهيثمي في موارد الظمآن، 1 /263، الرقم: 1071.

’’حضرت شرید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: جس نے کسی چڑیا کو بلا وجہ مار ڈالا تو وہ چڑیا قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے سامنے چلائے گی اور عرض کرے گی : اے اللہ! فلاںشخص نے مجھے بلا وجہ بغیر کسی فائدہ کے قتل کیا۔‘‘ اِس حدیث کو امام نسائی، احمد اور ابن حبان نے روایت کیا ہے۔

252 /25. عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو رضي الله عنهما أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: مَا مِنْ إِنْسَانٍ قَتَلَ عُصْفُوْرًا فَمَا فَوْقَهَا بِغَيْرِ حَقِّهَا إِلَّا سَأَلَهُ اللهُ عَنْهَا، قِيْلَ: يَا رَسُوْلَ اللهِ، وَمَا حَقُّهَا، قَالَ: يَذْبَحُهَا، فَيَأْکُلُهَا، وَلَا يَقْطَعُ رَأْسَهَا يَرْمِي بِهَ.

رَوَاهُ النَّسَائِيُّ وَالشَّافِعِيُّ وَالْحَاکِمُ. وَقَالَ الْحَاکِمُ: هٰذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ.

25: أخرجه النسائي في السنن، کتاب الصيد والذبائح، باب إباحة أکل العصافير، 7 /206، الرقم: 4349، وأيضًا في السنن الکبری، 3 /163، الرقم: 4860، والشافعي في السنن المأثورة /413، الرقم: 606، وأيضًا في الأم، 4 /287، والحاکم في المستدرک، 4 /261، الرقم: 7574، والطيالسي في المسند، 1 /301، الرقم: 2279، والمنذري في الترغيب والترهيب، 2 /101، الرقم: 1672.

’’حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنھما راوی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے چڑیا یا اُس سے بھی چھوٹا جانور ناحق قتل کیا تو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس سے اُس کے متعلق بھی پوچھے گا (تو نے یہ جان ناحق کیوں لی)۔ لوگوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اُس کا حق کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اس کا حق یہ ہے کہ وہ اُسے ذبح کرے اور کھائے اور (بلا ضرورت صرف شوقِ شکار میں) اُس کا سر کاٹ کر نہ پھینک دے۔‘‘

اِس حدیث کو امام نسائی، شافعی اور حاکم نے روایت کیا ہے۔ امام حاکم نے فرمایا: یہ حدیث صحیح الاسناد ہے۔

253 /26. عَنْ مُعَاذِ بْنِ أَنَسٍ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم : ارْکَبُوْا هٰذِهِ الدَّوَابَّ سَالِمَةً، وَلَا تَتَّخِذُوْهَا کَرَاسِيَّ.

رَوَاهُ الدَّارِمِيُّ وَأَحْمَدُ وَابْنُ خُزَيْمَةَ.

26: أخرجه الدارمي في السنن، کتاب الاستئذان، باب في النهي عن أن تتخذ الدواب کراسي، 2 /371، الرقم: 2668، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 /440، وأيضًا، 4 /234، الرقم: 15677، 18081، وابن خزيمة في الصحيح، 4 /142، الرقم: 2544، وابن حبان في الصحيح، 12 /437، الرقم: 5619، والحاکم في المستدرک، 1 /612، 2 /109، الرقم: 1625، 2486، والبيهقي في السنن الکبری، 5 /255، الرقم: 10116، والهيثمي في موارد الظمآن، 1 /491، الرقم: 2002، .

’’حضرت معاذ بن انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جانوروں پر تب سوار ہو جب وہ صحیح سالم ہوں، اور اُنہیں اپنی کرسیاں نہ بنا لو (کہ جب جی چاہا اُن پر بیٹھ گئے)۔‘‘

اِس حدیث کو امام دارمی، احمد اورابن خزیمہ نے روایت کیا ہے۔

254 /27. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: إِيَاکُمْ أَنْ تَتَّخِذُوْا ظُهُوْرَ دَوَابِّکُمْ مَنَابِرَ، فَإِنَّ اللهَ إِنَّمَا سَخَّرَهَا لَکُمْ لِتُبَلِّغَکُمْ إِلٰی بَلَدٍ لَمْ تَکُوْنُوْا بَالِغِيْهِ إِلَّا بِشِقِّ الْأَنْفُسِ، وَجَعَلَ لَکُمُ الْأَرْضَ فَعَلَيْهَا فَاقْضُوْا حَاجَتَکُمْ. رَوَاهُ أَبُوْ دَاوُدَ وَالطَّبَرَانِيُّ وَالْبَيْهَقِيُّ وَالْبَغَوِيُّ.

27: أخرجه أبو داود في السنن، کتاب الجهاد، باب في الوقوف علی الدابة، 3 /27، الرقم: 2567، والطبرني في مسند الشاميين، 2 /34، الرقم: 867، والبيهقي في السنن الکبری، 5 /255، الرقم: 10115، وأيضًا في شعب الإيمان، 7 /485، الرقم: 11083، والبغوي في شرح السنة، 11 /32، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 67 /212.

’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جانوروں کی پیٹھوں کو منبر بنانے سے بچو بے شک اللہ تعالیٰ نے اُنہیں تمہارا اِس لئے مطیع کیا ہے تاکہ وہ تمہیں اُس شہر تک پہنچائیں جہاں تم بغیر شدید مشقت کے نہیں پہنچ سکتے تھے اور تمہارے لئے زمین بنائی ہے تاکہ تم اپنی ضرورتیں اِس سے پوری کرو۔‘‘

اِسے امام ابو داود، طبرانی، بیہقی اور بغوی نے روایت کیا ہے۔

255 /28. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: إِذَا سَافَرْتُمْ فِي الْخِصْبِ فَأَعْطُوْا الإِبِلَ حَظَّهَا مِنَ الْأَرْضِ، وَإِذَا سَافَرْتُمْ فِي السَّنَةِ فَبَادِرُوْا بِهَا نِقْيَهَا، وَإِذَا عَرَّسْتُمْ فَاجْتَنِبُوْا الطَّرِيْقَ، فَإِنَّهَا طُرُقُ الدَّوَابِّ وَمَأْوَی الْهَوَامِّ بِاللَّيْلِ.

رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالتِّرْمِذِيُّ وَأَبُوْ دَاوُدَ وَالنَّسَائِيُّ. وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هٰذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ.

28: أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الإمارة، باب مراعاة مصلحة الدواب في السير والنهي عن التعريس في الطريق، 3 /1525، الرقم: 1926، والترمذي في السنن، کتاب الأدب، باب ما جاء في الفصاحة والبيان، 5 /143، الرقم: 2858، وأبو داود في السنن، کتاب الجهاد، باب في سرعة السير والنهي عن التعريس في الطريق، 3 /28، الرقم: 2569، والنسائي في السنن الکبری، 5 /252، الرقم: 8814، وابن حبان في الصحيح، 6 /422، الرقم: 2705، وابن خزيمة في الصحيح، 4 /145، الرقم: 2550، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 /378، الرقم: 8905، وأبو عوانة في المسند، 4 /510، الرقم: 7516، والبيهقي في السنن الکبری، 5 /256، الرقم: 10120.

’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب تم ہریالی میں سفر کرو تو زمین سے اُونٹوں کو اُن کا حصہ دو اور جب تم خشک سالی میں سفر کرو تو تیز چلو (تاکہ اُونٹ کمزور نہ ہو جائیں) اور جب تم اخیر شب میں قیام کرو تو گزرگاہ سے احتراز کرو کیونکہ رات کے وقت وہ جگہ جانوروں اور حشرات الارض کی آماجگاہ ہوتی ہے۔‘‘

اِس حدیث کو امام مسلم، ترمذی، ابو داود اور نسائی نے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے فرمایا: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

256 /29. عَنْ أَنَسٍ رضي الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: إِذَا أَخْصَبَتِ الأَرْضُ فَانْزِلُوْا عَنْ ظَهْرِکُمْ، وَأَعْطُوْا حَقَّهُ الْکَلَأَ، وَإِذَا أَجْدَبَتِ الأَرْضُ فَامْضُوْا عَلَيْهَا بِنِقْيِهَا، وَعَلَيْکُمْ بِالدُّلْجَةِ فَإِنَّ الأَرْضَ تُطْوَی بِاللَّيْلِ.

رَوَاهُ أَبُوْ يَعْلٰی وَالطَّحَاوِيُّ وَالْبَيْهَقِيُّ.

29: أخرجه أبو يعلي في المسند، 6 /301، الرقم: 3618، والطحاوي في مشکل الآثار، 1 /106، الرقم: 94، والبيهقي في السنن الکبری، 5 /256، الرقم: 10123، والمقدسي في الأحاديث المختارة، 7 /195، الرقم: 2630.

’’حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جب زمین سر سبز ہو تو اپنی سواری سے اُتر جایا کرو اور اُسے سبزا کھانے کا حق دیا کرو۔ اور جب زمین خشک (اور بنجر) ہو تو جلدی سے وہاں سے اپنی سواری کو جب تک وہ طاقتور اور چست ہو (اس خشک حصے سے) گزار لیا کرو۔ رات کے پہلے حصہ میں سفر کا آغاز کیا کرو کیونکہ زمین رات کو لپیٹ دی جاتی ہے۔‘‘

اِس حدیث کو امام ابو یعلی، طحاوی اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔

257 /30. عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ رضي الله عنهما قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم : إِذَا سِرْتُمْ فِي الْخِصْبِ فَأَمْکِنُوْا الرِّکَابَ أَسْنَانَهَا، وَلَا تُجَاوِزُوا الْمَنَازِلَ، وَإِذَا سِرْتُمْ فِي الْجَدْبِ فَاسْتَجِدُّوْا، وَعَلَيْکُمْ بِالدَّلْجِ فَإِنَّ الْأَرْضَ تُطْوَی بِاللَّيْلِ، وَإِذَا تَغَوَّلَتْ لَکُمُ الْغِيْـلَانُ فَنَادُوْا بِالْأَذَانِ وَإِيَاکُمْ وَالصَّلَاةَ عَلٰی جَوَادِّ الطَّرِيْقِ وَالنُّزُوْلَ عَلَيْهَا، فَإِنَّهَا مَأْوَی الْحَيَاتِ وَالسِّبَاعِ وَقَضَاءِ الْحَاجَةِ فَإِنَّهَا الْمَلَاعِنُ.

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَابْنُ السُّنِّيِّ.

30: أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 3 /305، الرقم: 14316، وابن السني في عمل اليوم والليلة / 468470، الرقم: 532، والمناوي في فيض القدير، 1 /374.

’’حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جب تم سر سبز زمین پر چلو تو اپنی سواریوں کو سبزا (وغیرہ) کھانے دو اور گھروں سے (بہت زیادہ) دور نہ نکل جایا کرو۔ جب خشک اور بنجر زمین پر سے گزرو تو جلدی سے گزر جایا کرو اور اوّل رات میں سفر شروع کیا کرو کیونکہ رات کو زمین لپیٹ (سکیڑ) دی جاتی ہے۔ اور (دورانِ سفر) جب تمہیں جن بھوت وغیرہ بھٹکا دیں تو اذان دیا کرو۔ راستے کے درمیان نماز پڑھنے سے بچا کرو اور اُن میں پڑاؤ ڈالنے سے بھی بچا کرو کیونکہ یہ سانپوں اور درندوں کی پناہ گاہ ہوتے ہیں۔ اِسی طرح راستے کے درمیان قضائے حاجت کرنا لعنت کی جگہ ہے۔‘‘ اِس حدیث کو امام احمد اور ابن السنی نے روایت کیا ہے۔

258 /31. عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ رضي الله عنه قَالَ: إِنِّي سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ: إِنَّ اللهَ يُوْصِيْکُمْ بِهٰذِهِ الْعُجْمِ خَيْرًا، أَنْ تَنْزِلُوْا بِهَا مَنَازِلَهَا، فَإِذَا أَصَابَتْکُمْ سَنَةٌ أَنْ تَنْجُوْا عَلَيْهَا بِنِقْيِهَ. رَوَاهُ الْحَارِثُ.

31: أخرجه الحارث في مسند الحارث، 2 /838، الرقم: 885.

’’حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے سنا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: بے شک اللہ تعالیٰ تمہیں اِن گونگے (بے زبان) جانوروں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے کی وصیت فرماتا ہے اور یہ کہ اُنہیں اُن کے ٹھکانوں پر رکھو اور جب تم قحط سالی کا شکار ہو جاؤ تو اُنہیں، جب تک یہ چست اور طاقتور ہوں، وہاں سے لے کر جلدی سے نکل جایا کرو۔‘‘ اس حدیث کو امام حارث نے روایت کیا ہے۔

259 /32. عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ رضي الله عنهما قَالَ: سِرْنَا مَعَ رَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم فِي غَزْوَةِ بَطْنِ بُوَاطٍ وَهُوَ يَطْلُبُ الْمَجْدِيَّ بْنَ عَمْرٍو الْجُهَنِيَّ وَکَانَ النَّاضِحُ يَعْقُبُهُ مِنَّا الْخَمْسَةُ وَالسِّتَّةُ وَالسَّبْعَةُ فَدَارَتْ عُقْبَةُ رَجُلٍ مِنَ الْأَنْصَارِ عَلٰی نَاضِحٍ لَه، فَأَنَاخَه فَرَکِبَه ثُمَّ بَعَثَه فَتَلَدَّنَ عَلَيْهِ بَعْضَ التَّلَدُّنِ، فَقَالَ لَه: شَأْ، لَعَنَکَ اللهُ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم : مَنْ هٰذَا اللَّاعِنُ بَعِيْرَه؟ قَالَ: أَنَا، يَا رَسُوْلَ اللهِ، قَالَ: انْزِلْ عَنْهُ، فَـلَا تَصْحَبْنَا بِمَلْعُوْنٍ، لَا تَدْعُوْا عَلٰی أَنْفُسِکُمْ، وَلَا تَدْعُوْا عَلٰی أَوْلَادِکُمْ، وَلَا تَدْعُوْا عَلٰی أَمْوَالِکُمْ، لَا تُوَافِقُوْا مِنَ اللهِ سَاعَةً يُسْأَلُ فِيْهَا عَطَاءٌ فَيَسْتَجِيْبُ لَکُمْ.

رَوَاهُ مُسْلِمٌ.

32: أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الزهد والرقائق، باب حديث جابر الطويل وقصة أبي اليسر، 4 /2304، الرقم: 3009، والمنذري في الترغيب والترهيب، 2 /322، الرقم: 2555، وابن رجب الحنبلي في جامع العلوم والحکم، 1 /149، والعسقلاني في فتح الباري، 8 /347، والنووي في رياض الصالحين /335.

’’حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ بواط کی جنگ میں گئے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجدی بن عمرو جہنی کو ڈھونڈ رہے تھے، ایک اونٹ پر ہم پانچ، چھ اور سات آدمی باری باری بیٹھتے تھے، ایک انصاری اُونٹ پر بیٹھنے لگا، اُس نے اُونٹ کو بٹھایا، پھر اُس پر سوار ہوا، پھر اُس کو چلانے لگا، اُونٹ نے اس کے ساتھ کچھ شوخی کی، اُس نے اونٹ سے کہا: چل، اللہ تعالیٰ تجھ پر لعنت کرے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا: اپنے اونٹ کو لعنت کرنے والا یہ کون شخص ہے؟ اُس نے عرض کیا: یا رسول اللہ! یہ میں ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اِس اونٹ سے اُتر جاؤ، ہمارے ساتھ کسی ملعون جانور کو نہ رکھو، اپنے آپ کو بددعا نہ دو، نہ اپنی اولاد کو بددعا دو، اور نہ اپنے اموال کو بددعا دو، کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ وہ ساعت ہو جس میں اللہ تعالیٰ سے کسی عطا کا سوال کیا جائے، اور وہ دعا قبول ہو جائے۔‘‘ اِس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے۔

260 /33. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه قَالَ: کَانَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم فِي سَفَرٍ يَسِيْرُ فَلَعَنَ رَجُلٌ نَاقَةً، فَقَالَ: أَيْنَ صَاحِبُ النَّاقَةِ؟ فَقَالَ الرَّجُلُ: أَنَا، قَالَ: أَخِّرْهَا، فَقَدْ أُجِبْتَ فِيْهَ.

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالنَّسَائِيُّ. وَقَالَ الْمُنْذِرِيُّ: رَوَاهُ أَحْمَدُ بِإِسْنَادٍ جَيِّدٍ، وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ: وَرِجَالُه رِجَالُ الصَّحِيْحِ.

33: أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 2 /428، الرقم: 9518، والنسائي في السنن الکبری، 5 /252، الرقم: 8815، والمنذري في الترغيب والترهيب، 3 /314، الرقم: 4223، والهيثمي في مجمع الزوائد، 8 /77، والطحاوي في مشکل الآثار، 9 /171.

’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک سفر میں چل رہے تھے کہ ایک آدمی نے اونٹنی کو (سست روی پر) لعنت کی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اِس اونٹنی کا مالک کون ہے؟ ایک آدمی نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میں ہوں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اِس کو پیچھے رکھو، کیونکہ اِس کے حق میں تمہاری دعا سنی گئی ہے۔ (یعنی اب یہ ملعون ہے)۔‘‘

اِس حدیث کو امام احمد اور نسائی نے روایت کیا ہے۔ امام منذری نے فرمایا: اِسے امام احمد نے جید اسناد کے ساتھ روایت کیا ہے، جبکہ امام ہیثمی نے بھی فرمایا: اِس کے رجال صحیح حدیث کی رجال ہیں۔

261 /34. عَنْ عَبْدِ اللهِ رضي الله عنه أَنَّهُ قَالَ: نَزَلَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم مَنْزِلًا، فَانْطَلَقَ لِحَاجَتِه فَجَاءَ وَقَدْ أَوْقَدَ رَجُلٌ عَلٰی قَرْيَةِ نَمْلٍ، إِمَّا فِي الْأَرْضِ، وَإِمَّا فِي شَجَرَةٍ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم : أَيُّکُمْ فَعَلَ هٰذَا؟ فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ: أَنَا، يَا رَسُوْلَ اللهِ، قَالَ: اطْفُهَا اطْفُهَ. رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالطَّيَالِسِيُّ.

34: أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 1 /396، الرقم: 3763، والطيالسي في المسند، 1 /46، الرقم: 345، والفاکهي في أخبار مکة، 5 /141، والهيثمي في مجمع الزوائد، 4 /41.

’’حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک سفر میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک جگہ قیام کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی کام کے لئے تشریف لے گئے پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم واپس تشریف لائے تو کسی شخص نے چیونٹیوں کے مسکن کو آگ لگا رکھی تھی، وہ مسکن یا تو زمین پر تھا یا کسی درخت پر تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دریافت فرمایا: یہ کس نے کیا ہے؟ لوگوں میں سے ایک شخص نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میں نے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اِسے بجھا دو، اِسے بجھا دو۔‘‘ اِسے امام احمد اور طیالسی نے روایت کیا ہے۔

262 /35. عَنْ عَبْدِ اللهِ رضي الله عنه قَالَ: … رَأَی رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم قَرْيَةَ نَمْلٍ قَدْ حَرَّقْنَاهَا، فَقَالَ: مَنْ حَرَّقَ هٰذِهِ؟ قُلْنَا: نَحْنُ، قَالَ: إِنَّه لَا يَنْبَغِي أَنْ يُعَذِّبَ بِالنَّارِ إِلَّا رَبُّ النَّارِ. رَوَاهُ أَبُوْ دَاوُدَ.

وفي رواية: قَالَ: إِنَّه لَا يَنْبَغِي لِبَشَرٍ أَنْ يُعَذِّبَ بِعَذَابِ اللهِ.

رَوَاهُ النَّسَائِيُّ وَعَبْدُ الرَّزَّاقِ وَأَحْمَدُ وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ: وَرِجَالُه رِجَالُ الصَّحِيْحِ.

35: أخرجه أبو داود في السنن، کتاب الجهاد، باب في کراهية حرق العدو بالنار، 3 /55، الرقم: 2675، وأيضًا فيکتاب الأدب، باب في قتل الذر، 4 /367، الرقم: 5268، والنسائي في السنن الکبری، 5 /183، الرقم: 8614، وعبد الرزاق في المصنف، 5 /213، الرقم: 9414، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 /423، الرقم: 4018، والهيثمي في مجمع الزوائد، 4 /41، والبيهقي في دلائل النبوة، 6 /3233.

’’حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چیونٹیوں کا ایک بل دیکھا جسے ہم نے جلا دیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اِسے کس نے جلایا ہے؟ ہم عرض گزار ہوئے: (یا رسول اللہ!) ہم نے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: آگ کے ساتھ عذاب دینا، آگ کے (پیدا کرنے والے) رب کے سوا کسی اور کے لئے روا نہیں ہے۔‘‘ اِسے امام ابو داود نے روایت کیا ہے۔

ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’بندے کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ اللہ تعالیٰ کا عذاب کسی کو دے۔‘‘

اِسے امام نسائی، عبد الرزاق اور احمد نے روایت کیا ہے۔ امام ہیثمی نے فرمایا: اِسے امام احمد نے روایت کیا ہے اور اِس کے رجال صحیح حدیث کے رجال ہیں۔

263 /36. عَنْ جَابِرٍ رضي الله عنه أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم مَرَّ عَلَيْهِ حِمَارٌ، قَدْ وُسِمَ فِي وَجْهِه فَقَالَ: لَعَنَ اللهُ الَّذِي وَسَمَه. رَوَاهُ مُسْلِمٌ.

36: أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب اللباس والزينة، باب النهي عن ضرب الحيوان في وجهه ووسمه فيه، 3 /1673، الرقم: 2117، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 /323، الرقم: 14499، وعبد الرزاق في المصنف، 9 /444، الرقم: 17949، وابن حبان في الصحيح، 12 /432، الرقم: 5627، وأبو يعلی في المسند، 4 /76، الرقم: 2099، والبخاري في الأدب المفرد /72، الرقم: 175، والبيهقي في السنن الکبری، 7 /35، الرقم: 13037، والمنذري في الترغيب والترهيب، 3 /153، الرقم: 3464، والنووي في رياض الصالحين / 367، والعيني في عمدة القاري، 21 /139.

’’حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس سے ایک گدھا گزرا جس کے منہ کو داغا گیا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اُس پر اللہ کی لعنت ہو جس نے اِسے داغا ہے۔‘‘ اِسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔

264 /37. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما قَالَ: رَأَی رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم حِمَارًا مَوْسُوْمَ الْوَجْهِ، فَأَنْکَرَ ذَالِکَ، قَالَ: فَوَاللهِ، لَا أَسِمُه إِلَّا فِي أَقْصٰی شَيئٍ مِنَ الْوَجْهِ، فَأَمَرَ بِحِمَارٍ لَه فَکُوِيَ فِي جَاعِرَتَيْهِ فَهُوَ أَوَّلُ مَنْ کَوَی الْجَاعِرَتَيْنِ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَابْنُ حِبَّانَ.

37: أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب اللباس والزينة، باب النهي عن ضرب الحيوان في وجهه ووسمه فيه، 3 /1673، الرقم: 2118، وابن حبان في الصحيح، 12 /441، الرقم: 5624، والطبراني في المعجم الکبير، 10 /332، الرقم: 10822، والنووي في رياض الصالحين / 367، والزيلعي في تخريج الأحاديث والآثار، 4 /78.

’’حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک گدھا دیکھا جس کے چہرے کو داغا ہوا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اِس عمل کو ناپسند فرمایا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کی قسم! میں (جانور کے) صرف اُس عضو کو داغتا ہوں جو چہرے سے بہت دور ہو۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے گدھے کو داغنے کا حکم دیا، سو اُس کی سرین کو داغا گیا، اور سب سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہی (جانور کی) سرین کو داغا تھا۔‘‘

اِسے امام مسلم اور ابن حبان نے روایت کیا ہے۔

265 /38. عَنْ جَابِرٍ رضي الله عنه أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم رَأَی حِمَارًا، قَدْ وُسِمَ فِي وَجْهِه فَقَالَ: أَلَمْ أُنْهِ عَنْ هٰذَا؟ لَعَنَ اللهُ مَنْ فَعَلَه. رَوَاهُ ابْنُ حَبَّانَ وَأَبُو يَعْلٰی.

38: أخرجه ابن حبان في الصحيح، 12 /432، الرقم: 5627، وأبو يعلی في المسند، 4 /76، الرقم: 2099.

’’حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک گدھے کو دیکھا جس کے منہ کو داغا گیا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کیا میں نے تمہیں اِس سے منع نہیں کیا؟ جس نے اِسے داغا ہے اُس پر اللہ کی لعنت ہو۔‘‘

اِسے امام ابن حبان اور ابو یعلی نے روایت کیا ہے۔

266 /39. وَعَنْهُ قَالَ: مَرَّ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم بِحِمَارٍ قَدْ وُسِمَ فِي وَجْهِه يُدَخِّنُ مَنْخِرَاهُ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم : مَنْ فَعَلَ هٰذَا؟ لَا يَسِمَنَّ أَحَدٌ الْوَجْهَ لَا يَضْرِبَنَّ أَحَدٌ الْوَجْهَ.

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَعَبْدُ الرَّزَّاقِ وَالْبُخَارِيُّ فِي الأَدَبِ.

39: أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 3 /323، الرقم: 14499، وعبد الرزاق في المصنف، 9 /444، الرقم: 17949، والبخاري في الأدب المفرد / 72، الرقم: 175.

’’حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک گدھے کے پاس سے گزرے جس کے منہ کو گرم لوہے سے داغا گیا تھا، ور اُس کے نتھنوں میں دھونی دی جا رہی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: یہ کس نے کیا ہے؟ کوئی شخص (جانور کے) چہرے کو نہ داغے اور نہ ہی اُس کے چہرے پر مارے۔‘‘

اِسے امام احمد، عبد الرزاق اور بخاری نے ’الادب المفرد‘ میں روایت کیا ہے۔

267 /40. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما قَالَ: رَأَی رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم حِمَارًا مَوْسُوْمَ الْوَجْهِ، فَأَنْکَرَ ذَالِکَ، قَالَ: فَوَاللهِ، لَا أَسِمُهُ إِلَّا فِي أَقْصٰی شَيئٍ مِنَ الْوَجْهِ، فَأَمَرَ بِحِمَارٍ لَه فَکُوِيَ فِي جَاعِرَتَيْهِ فَهُوَ أَوَّلُ مَنْ کَوَی الْجَاعِرَتَيْنِ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَابْنُ حِبَّانَ.

40: أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب اللباس والزينة، باب النهي عن ضرب الحيوان في وجهه ووسمه فيه، 3 /1673، الرقم: 2118، وابن حبان في الصحيح، 12 /441، الرقم: 5624، والطبراني في المعجم الکبير، 10 /332، الرقم: 10822، والنووي في رياض الصالحين / 367، والزيلعي في تخريج الأحاديث والآثار، 4 /78.

’’حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک گدھا دیکھا جس کے چہرے کو داغا ہوا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اِس عمل کو ناپسند فرمایا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کی قسم! میں (جانور کے) صرف اُس عضو کو داغتا ہوں جو چہرے سے بہت دور ہو۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے گدھے کو داغنے کا حکم دیا، سو اُس کی سرین کو داغا گیا، اور سب سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہی (جانور کی) سرین کو داغا تھا۔‘‘

اِسے امام مسلم اور ابن حبان نے روایت کیا ہے۔

268 /41. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما أَنَّ الْعَبَّاسَ وَسَمَ بَعِيْرًا أَوْ دَابَةً فِي وَجْهِه، فَرَآهُ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم فَغَضِبَ. فَقَالَ عَبَّاسٌ: لَا أَسِمُهُ إِلَّا فِي آخِرِه فَوَسَمَه فِي جَاعِرَتَيْهِ. رَوَاهُ ابْنُ حِبَّانَ وَالْبَيْهَقِيُّ.

41: أخرجه ابن حبان في الصحيح، 12 /440، الرقم: 5623، والبيهقي في السنن الکبری، 7 /36، الرقم: 13041، والزيلعي في تخريج أحاديث والآثار، 4 /78.

’’حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے ایک اونٹ یا کسی اور جانور کو اُس کے منہ سے داغا، پس حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُسے دیکھا اور غصہ فرمایا۔ اِس پر حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے کہا: میں اِس کو (منہ کی بجائے) پچھلے حصہ کو داغوں گا پھر اُس کی سرین کو داغا۔‘‘

اِس حدیث کو امام ابن حبان اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔

269 /42. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما قَالَ: نَهَی رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم عَنِ التَّحْرِيْشِ بَيْنَ الْبَهَائِمِ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَأَبُوْ دَاوُدَ وَأَبُوْ يَعْلٰی.

42: أخرجه الترمذي في السنن، کتاب الجهاد، باب ما جاء في کراهية التحريش بين البهائم والضرب والوسم في الوجه، 4 /210، الرقم: 1708، وأبو داود في السنن، کتاب الجهاد، باب في التحريش بين البهائم، 3 /26، الرقم: 2562، وأبو يعلی في المسند، 4 /389، الرقم: 2509، والطبراني في المعجم الکبير، 11 /85، الرقم: 11123، والبيهقي في السنن الکبری، 10 /22، الرقم: 19567، وأيضًا في شعب الإيمان، 5 /246، الرقم: 6539، والمنذري في الترغيب والترهيب، 3 /147، الرقم: 3437.

’’حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جانوروں کو باہم لڑانے سے منع فرمایا۔‘‘

اِسے امام ترمذی، ابو داود اور ابویعلی نے روایت کیا ہے۔

270 /43. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: لَتُوَدُّنَّ الْحُقُوْقَ إِلٰی أَهْلِهَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ، حَتّٰی يُقَادَ لِلشَّاةِ الْجَلْحَاءِ مِنَ الشَّاةِ الْقَرْنَاء.

وفي رواية أحمد: تَنْطَحُهَ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالتِّرْمِذِيُّ وَأَحْمَدُ.

وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: حَدِيْثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.

43: أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب البر والصلة والآداب، باب تحريم الظلم، 4 /1997، الرقم: 2582، والترمذي في السنن، کتاب صفة القيامة والرقائق، باب ما جاء في شأن الحساب والقصاص، 4 /614، الرقم: 2420، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 /301، 411، الرقم: 7983، 9322، وأبو يعلی في المسند، 11 /395، الرقم: 6513، والبيهقي في السنن الکبری، 6 /93، الرقم: 11285، والمنذري في الترغيب والترهيب، 4 /217، الرقم: 5455، وابن حزم في المحلی، 1 /15، والنووي في رياض الصالحين / 74.

’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: قیامت کے دن تم سے حقداروں کے حقوق وصول کیے جائیں گے، حتیٰ کہ بے سینگ بکری کا سینگ والی بکری سے بدلہ لیا جائے گا۔‘‘ امام احمد کی روایت میں ہے: ’’جس نے اُسے سینگ مارا تھا۔‘‘

اِسے امام مسلم، ترمذی اور احمد نے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے فرمایا: حدیثِ ابو ہریرہ حسن صحیح ہے۔

271 /44. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضي الله عنه أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم کَانَ إِذَا صَلَّی الْفَجْرَ فِي السَّفَرِ مَشٰی.

رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَالْبَيْهَقِيُّ وَأَبُوْ نُعَيْمٍ. وَقَالَ الْمَقْدِسِيُّ: إِسْنَادُه صَحِيْحٌ.

44: أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 7 /92، الرقم: 6951، الرقم: 2724، والبيهقي في السنن الکبری، 5 /255، الرقم: 10118، وأبو نعيم في حلية الأولياء، 8 /180، والمقدسي في الأحاديث المختارة، 7 /271، والهيثمي في مجمع الزوائد، 3 /215.

’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سفر میں جب نمازِ فجر ادا فرما لیتے تو اُس کے بعد (سواری پر سوار نہ ہوتے بلکہ تھوڑی دیر) پیدل چلتے۔‘‘

اِسے امام طبرانی، بیہقی اور ابو نعیم نے روایت کیا ہے۔ امام مقدسی نے فرمایا: اس کی سند صحیح ہے۔

272 /45. عَنْ يَحْيَی بْنِ سَعِيْدٍ رضي الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم رُئِيَ وَهُوَ يَمْسَحُ وَجْهَ فَرَسِه بِرِدَائِه … الحديث. رَوَاهُ مَالِکٌ وَابْنُ مَنْصُوْرٍ.

45: أخرجه مالک في الموطأ، کتاب الجهاد، باب ما جاء في الخيل والمسابقة بينها والنفقة في الغزو، 2 /468، الرقم: 1002، وسعيد بن منصور في السنن، 2 /203، الرقم: 2438، والحارث في المسند، 2 /675، الرقم: 651، وابن عبد البر في التمهيد، 24 /101.

’’حضرت یحیی بن سعید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے گھوڑے کا چہرہ اپنی چادر مبارک سے صاف کر رہے تھے۔‘‘

اِسے امام مالک اور ابن منصور نے روایت کیا ہے۔

273 /46. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه يَقُوْلُ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم : بَيْنَمَا رَجُلٌ يَسُوْقُ بَقَرَةً لَه، قَدْ حَمَلَ عَلَيْهَا الْتَفَتَتْ إِلَيْهِ الْبَقَرَةُ فَقَالَتْ: إِنِّي لَمْ أُخْلَقْ لِهٰذَا وَلٰـکِنِّي إِنَّمَا خُلِقْتُ لِلْحَرْثِ. فَقَالَ النَّاسُ: سُبْحَانَ اللهِ، تَعَجُّبًا وَفَزَعًا أَ بَقَرَةٌ تَکَلَّمُ؟ فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم : فَإِنِّي أُوْمِنُ بِه وَأَبُوْ بَکْرٍ وَعُمَرُ….مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

46: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب فضائل أصحاب النبي صلی الله عليه وآله وسلم، باب من فضائل أبي بکر الصديق، 3 /1339، الرقم: 3463، ومسلم في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب فضائل أبي بکر، 4 /1858، الرقم: 2388، والترمذي في السنن، کتاب المناقب عن رسول اللہ صلی الله عليه وآله وسلم، باب في مناقب أبي بکر وعمر رضی اللہ عنهما کليهما، 5 /615، الرقم: 3677.

’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ایک مرتبہ ایک شخص اپنی گائے پر بوجھ ڈالے اُسے ہانک کر لے جا رہا تھا۔ گائے نے اُس کی طرف دیکھا اور کہنے لگی: میں اِس (کام) کے لئے پیدا نہیں کی گئی بلکہ میں تو کھیتی باڑی کے لئے تخلیق کی گئی ہوں۔ لوگوں نے تعجب اور گھبراہٹ کے عالم میں کہا: سبحان اللہ ! گائے بھی گفتگو کرتی ہے؟ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: بیشک میں تو اِسے سچ مانتا ہوں اور ابوبکر و عمر بھی اِسے سچ تسلیم کرتے ہیں۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

274 /47. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما قَالَ: مَرَّ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم عَلٰی رَجُلٍ وَاضِعٍ رِجْلَه عَلٰی صَفْحَةِ شَاةٍ، وَهُوَ يَحُدُّ شَفْرَتَه، وَهِيَ تَلْحَظُ إِلَيْهِ بِبَصَرِهَ. فَقَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم : أَفَـلَا قَبْلَ هٰذَا؟ أَوْ تُرِيْدُ أَنْ تُمِيْتَهَا مَوْتَتَيْنِ.

وفي رواية للحاکم: فَقَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم : أَتُرِيْدُ أَنْ تُمِيْتَهَا مَوْتَاتٍ هَلْ حَدَدْتَ شَفْرَتَکَ قَبْلَ أَنْ تَضْجَعَهَ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَالْحَاکِمُ.

وَقَالَ الْحَاکِمُ: هٰذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ عَلٰی شَرْطِ الشَّيْخَيْنِ. وَقَال الْهَيْثَمِيُّ: وَرِجَالُه رِجَالُ الصَّحِيْحِ.

47: أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 11 /332، الرقم: 11916، وأيضًا في المعجم الأوسط، 4 /53، الرقم: 3590، والحاکم في المستدرک، 4 /260، الرقم: 7570، والبيهقي في السنن الکبری، 9 /280، الرقم: 18922، والمنذري في الترغيب والترهيب، 3 /142، الرقم: 3422، والهيثمي في مجمع الزوائد، 4 /33.

’’حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک آدمی کے پاس سے گزرے جو اپنی ٹانگ بھیڑ کی گردن پر رکھے چھری تیز کر رہا تھا، وہ اُسے اپنی آنکھوں سے دیکھ رہی تھی۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کیا یہ کام پہلے نہیں ہو سکتا تھا؟ (یعنی چھری اس سے پہلے تیز کر لینی چاہئے تھی)، کیا تم اُسے دو موتیں مارنا چاہتے ہو۔‘‘

اور امام حاکم کی روایت میں ہے: ’’آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کیا تم اسے کئی موتیں مارنا چاہتا ہے۔ تُو نے اِسے (ذبح کے لئے) لٹانے سے قبل چھری تیز کیوں نہ کرلی۔‘‘

اِسے امام طبرانی اور حاکم نے روایت کیا ہے، امام حاکم نے فرمایا: یہ حدیث بخاری و مسلم کی شرائط پر صحیح ہے، جبکہ امام ہیثمی نے فرمایا: اِس حدیث کے رجال صحیح ہیں۔

275 /48. عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عُمَرَ رضي الله عنهما قَالَ: أَمَرَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم بِحَدِّ الشِّفَارِ وَأَنْ تُوَارَی عَنِ الْبَهَائِمِ وَقَالَ: إِذَا ذَبَحَ أَحَدُکُمْ فَلْيُجْهِزْ. رَوَاهُ ابْنُ مَاجَه وَأَحْمَدُ.

48: أخرجه ابن ماجه في السنن، کتاب الذبائح، باب إذا ذبحتم فأحسنوا الذبح، 2 /1059، الرقم: 3172، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 /108، الرقم: 5864، والبيهقي في السنن الکبری، 9 /280، الرقم: 18920، وأيضًا في شعب الإيمان، 7 /483، الرقم: 11074، والمنذري في الترغيب والترهيب، 2 /101، الرقم: 1671.

’’حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چھریوں کو تیز کرنے اور جانور سے اُنہیں چھپانے کا حکم دیا ہے اور مزید فرمایا: جب تم میں سے کوئی (جانور) ذبح کرے تو تیزی سے ذبح کرے۔‘‘

اِسے امام ابن ماجہ اور احمد نے روایت کیا ہے۔

276 /49. عَنْ أَبِي وَاقِدٍ اللَّيْثِيِّ رضي الله عنه قَالَ: قَدِمَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم الْمَدِيْنَةَ وَهُمْ يَجُبُّوْنَ أَسْنِمَةَ الْإِبِلِ، وَيَقْطَعُوْنَ أَلْيَاتِ الْغَنَمِ، فَقَالَ: مَا يُقْطَعُ مِنَ الْبَهِيْمَةِ وَهِيَ حَيَةٌ فَهِيَ مَيْتَةٌ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَأَبُوْ دَاوُدَ وَالدَّارِمِيُّ.

49: أخرجه الترمذي في السنن، کتاب الصيد، باب ما قطع من الحي فهو ميت، 4 /74، الرقم: 1480، وأبو داود في السنن، کتاب الصيد، باب في صيد قطع منه قطعة، 3 /111، الرقم: 2858، والدارمي في السنن، 2 /128، الرقم: 2018، وعبد الرزاق في المصنف، 4 /494، الرقم: 8612، والدار قطني في السنن، 4 /292، الرقم: 83، وأبو يعلی في المسند، 3 /36، الرقم: 1450، والطبراني في المعجم الکبير، 3 /248، الرقم: 3304، وابن الجعد في المسند، 1 /434، الرقم: 2952، والبيهقي في السنن الکبری، 9 /245، الرقم: 18703.

’’حضرت ابو واقد لیثی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے (تو دیکھا کہ) وہاں کے لوگ زندہ اُونٹوں کی کوہان اور زندہ دُنبوں کی چکیاں کاٹتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: زندہ جانور سے جو حصہ کاٹا جائے وہ مردار ہے۔‘‘

اِسے امام ترمذی، ابو داود اور دارمی نے روایت کیا ہے۔

277 /50. عَنْ عَبْدِ اللهِ رضي الله عنه قَالَ: کُنَّا مَعَ رَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم فِي سَفَرٍ فَانْطَلَقَ لِحَاجَتِه فَرَأَيْنَا حُمَّرَةً مَعَهَا فَرْخَانِ فَأَخَذْنَا فَرْخَيْهَا فَجَائَتِ الْحُمَّرَةُ فَجَعَلَتْ تَفْرِشُ فَجَاءَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم فَقَالَ: مَنْ فَجَّعَ هٰذِه بِوَلَدِهَا رُدُّوْا وَلَدَهَا إِلَيْهَا وَرَأَی قَرْيَةَ نَمْلٍ قَدْ حَرَّقْنَاهَا فَقَالَ: مَنْ حَرَّقَ هٰذِه ؟ قُلْنَا: نَحْنُ قَالَ: إِنَّه لَا يَنْبَغِي أَنْ يُعَذِّبَ بِالنَّارِ إِلَّا رَبُّ النَّارِ. رَوَاهُ أَبُوْ دَاوُدَ.

50: أخرجه أبو داود في السنن، کتاب الجهاد، باب في کراهية حرق العدو بالنار، 3 /55، الرقم: 2675، وأيضًا فيکتاب الأدب، باب في قتل الذر، 4 /367، الرقم: 5268، والذهبي في الکبائر، 1 /206، والزيلعي في نصب الراية، 3 /407، والنووي في رياض الصالحين /367، الرقم: 367، والبيهقي في دلائل النبوة، 6 /3233، وابن کثير في شمائل الرسول صلی الله عليه وآله وسلم / 289.

’’حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک سفر میں ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قضائے حاجت کے لئے تشریف لے گئے تو ہم نے ایک چڑیا دیکھی جس کے ساتھ دو بچے تھے۔ ہم نے اُس کے بچے پکڑ لئے تو چڑیا پر بچھانے لگی۔ پس حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لے آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کس نے اِسے اِس کے بچوں کی وجہ سے تڑپایا ہے؟ اِس کے بچے اِسے لوٹا دو۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چیونٹیوں کا ایک بل دیکھا جسے ہم نے جلا دیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اِسے کس نے جلایا ہے؟ ہم عرض گزار ہوئے: (یا رسول اللہ!) ہم نے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: آگ کے ساتھ عذاب دینا، آگ کے (پیدا کرنے والے) رب کے سوا کسی کے لئے مناسب نہیں ہے۔‘‘ اِسے امام ابو داود نے روایت کیا ہے۔

278 /51. عَنِ عَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُوْدٍ رضي الله عنه قَالَ: کُنَّا مَعَ رَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم فِي سَفَرٍ وَمَرَرْنَا بِشَجَرَةٍ فِيْهَا فَرْخَا حُمَّرَةٍ، فَأَخَذْنَاهُمَ. قَالَ: فَجَائَتِ الْحُمَّرَةُ إِلَی النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم وَهِيَ تَصِيْحُ، فَقَالَ: مَنْ فَجَعَ هٰذِهِ بِفَرْخَيْهَا؟ قَالَ: فَقُلْنَا: نَحْنُ. قَالَ: رُدُّوْهُمَ.

رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَالْبَيْهَقِيُّ، وَقَالَ الْحَاکِمُ: هٰذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ.

51: أخرجه الحاکم في المستدرک، کتاب الذبائح، 4 /267، الرقم: 7599، والبيهقي في دلائل النبوة، 1 /321، والهناد في الزهد، 2 /620، الرقم: 1337، والجزري في النهاية، 4 /121.

’’حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم ایک سفر میں حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ تھے، ہم ایک درخت کے پاس سے گزرے جس میں چَنڈُول(ایک خوش آواز چڑیا) کے دو بچے تھے، ہم نے وہ دوبچے اُٹھا لئے۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ وہ چَنڈُول حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں شکایت کرتے ہوئے حاضر ہوئی۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کس نے اِس چَنڈُول کو اِس کے بچوں کی وجہ سے تکلیف دی ہے؟ راوی بیان کرتے ہیں: ہم نے عرض کیا: ہم نے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اِس کے بچے اِسے لوٹا دو۔‘‘

اِس حدیث کو امام حاکم اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔ امام حاکم نے فرمایا: اِس حدیث کی سند صحیح ہے۔

279 /52. عَنْ يَعْلَی بْنِ سِيَابَةَ رضي الله عنه قَالَ: کُنْتُ مَعَ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم فِي مَسِيْرٍ لَه، فَأَرَادَ أَنْ يَقْضِيَ حَاجَةً، فَأَمَرَ وَدْيَتَيْنِ فَانْضَمَّتْ إِحْدَاهُمَا إِلَی الْأُخْرَی، ثُمَّ أَمَرَهُمَا فَرَجَعَتَا إِلٰی مَنَابَتِهِمَا وَجَاءَ بَعِيْرٌ فَضَرَبَ بِجِرَانِه إِلَی الْأَرْضِ ثُمَّ جَرْجَرَ حَتَّی ابْتَلَّ مَا حَوْلَه فَقَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم : أَتَدْرُوْنَ مَا يَقُوْلُ الْبَعِيْرُ إِنَّه يَزْعُمُ أَنَّ صَاحِبَه يُرِيْدُ نَحْرَه فَبَعَثَ إِلَيْهِ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم فَقَالَ: أَوَاهِبُه أَنْتَ لِي فَقَالَ: يَا رَسُوْلَ اللهِ، مَا لِي مَالٌ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْهُ قَالَ: اسْتَوْصِ بِه مَعْرُوْفًا فَقَالَ: لَا جَرَمَ لَا أُکْرِمُ مَالًا لِي کَرَامَتُه يَا رَسُوْلَ اللهِ، وَأَتَی عَلٰی قَبْرٍ يُعَذَّبُ صَاحِبُه فَقَالَ: إِنَّه يُعَذَّبُ فِي غَيْرِ کَبِيْرٍ فَأَمَرَ بِجَرِيْدَةٍ فَوُضِعَتْ عَلٰی قَبْرِه فَقَالَ: عَسٰی أَنْ يُخَفَّفَ عَنْه مَا دَامَتْ رَطْبَةً.

رَوَاهُ أَحْمَدُ. وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ: إِسْنَادُه حَسَنٌ وَرِجَالُه ثِقَاتٌ.

52: أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 4 /172، والخطيب البغدادي في موضح أوهام الجمع والتفريق، 1 /272، والهيثمي في مجمع الزوائد، 1 /205، وأيضًا، 9 /6.

’’حضرت یعلی بن سیابہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں ایک سفر میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک جگہ قضائے حاجت کا ارادہ فرمایا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کھجور کے دو درختوں کو حکم دیا۔ وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم سے ایک دوسرے سے مل گئے (اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے پردہ بن گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے پیچھے قضائے حاجت فرمائی)۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں دوبارہ حکم دیا تو وہ اپنی اپنی جگہ پر لوٹ گئے۔ پھر ایک اونٹ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں اپنی گردن کو زمین پر رگڑتا ہوا حاضر ہوا۔ وہ اتنا بلبلایا کہ اس کے (آنسووں سے) ارد گرد کی جگہ گیلی ہو گئی۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کیا تم جانتے ہو کہ یہ اُونٹ کیا کہہ رہا ہے؟ اس کا خیال ہے کہ اس کا مالک اسے ذبح کرنا چاہتا ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کے مالک کی طرف آدمی بھیجا (کہ اسے بلا لائے۔ جب وہ آ گیا تو) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے فرمایا: کیا یہ اونٹ مجھے ہبہ کرتے ہو؟ اس نے عرض کیا: یا رسول اللہ! مجھے اس سے بڑھ کر اپنے مال میں سے کوئی چیز محبوب نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میں تم سے اس کے معاملہ میں بھلائی کی توقع رکھتا ہوں۔ اس صحابی نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میں اپنے تمام مال سے بڑھ کر اس کا خیال رکھوں گا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا گزر ایک قبر سے ہوا جس کے اندر موجود میت کو عذاب دیا جا رہا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اسے گناہ کبیرہ کی وجہ سے عذاب نہیں دیا جا رہا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک درخت کی ٹہنی طلب فرمائی اور اسے اس قبر پر رکھ دیا اور فرمایا: جب تک یہ ٹہنی خشک نہیں ہو جاتی اسے عذاب میں تخفیف دی جاتی رہے گی۔‘‘

اس حدیث کو امام احمد نے روایت کیا ہے۔ امام ہیثمی نے فرمایا: اِس کی اسناد حسن اور رجال ثقہ ہیں۔

280 /53. عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ رضي الله عنها قَالَتْ: کَانَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم فِي الصَّحْرَاءِ فَإِذَا مُنَادٍ يُنَادِيْهِ ’’يَا رَسُوْلَ اللهِ‘‘ فَالْتَفَتَ فَلَمْ يَرَ أَحَدً. ثُمَّ الْتَفَتَ فَإِذَا ظَبْيَةٌ مُوْثَقَةٌ فَقَالَتْ: أُدْنُ مِنِّي، يَا رَسُوْلَ اللهِ، فَدَنَا مِنْهَا فَقَالَ: حَاجَتُکِ؟ قَالَتْ: إِنَّ لِي خَشْفَيْنِ فِي ذَالِکَ الْجَبَلِ. فَخَلِّنِي حَتّٰی أَذْهَبَ فَأُرْضِعَهُمَا ثُمَّ أَرْجِعُ إِلَيْکَ. قَالَ: وَتَفْعَلِيْنَ؟ قَالَتْ: عَذَّبَنِيَ اللهُ عَذَابَ الْعَشَّارِ إِنْ لَمْ أَفْعَلْ. فَأَطْلَقَهَا، فَذَهَبَتْ، فَأَرْضَعَتْ خَشْفَيْهَا، ثُمَّ رَجَعَتْ، فَأَوْثَقَهَ. وَانْتَبَهَ الْأَعْرَابِيُّ فَقَالَ: لَکَ حَاجَةٌ، يَا رَسُوْلَ اللهِ؟ قَالَ: نَعَمْ، تُطْلِقُ هٰذِه . فَأَطْلَقَهَا، فَخَرَجَتْ تَعْدُوْ وَهِيَ تَقُوْلُ: أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلٰهَ إِلاَّ اللهُ وَأَنَّکَ رَسُوْلُ اللهِ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.

53: أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 23 /331، الرقم: 763، والمنذري في الترغيب والترهيب، 1 /321، الرقم: 1176، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 4 /380، والعسقلاني في لسان الميزان، 6 /311، الرقم: 1124، وابن کثير في تحفة الطالب، 1 /186، الرقم: 80، والهيثمي في مجمع الزوائد، 8 /295.

’’حضرت اُمّ سلمہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ ایک دفعہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک صحراء میں سے گزر رہے تھے کہ کسی ندا دینے والے نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ’یا رسول اللہ‘ کہہ کر پکارا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آواز کی طرف متوجہ ہوئے لیکن سامنے کوئی نظر نہ آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دوبارہ غور سے دیکھا تو وہاں ایک ہرنی بندھی ہوئی تھی۔ اس نے عرض کیا: یا رسول اللہ، میرے نزدیک تشریف لائیے۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے قریب ہوئے اور اس سے پوچھا: تمہاری کیا حاجت ہے؟ اس نے عرض کیا: اس پہاڑ میں میرے دو نومولود بچے ہیں۔ پس آپ مجھے آزاد کردیجئے کہ میں اُنہیں دودھ پلا کر آپ کے پاس واپس لوٹ آؤں گی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا: کیا تم ایسا ہی کرو گی؟ اس نے عرض کیا: اگر میں ایسا نہ کروں تو اللہ تعالیٰ مجھے سخت عذاب دے۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے آزاد کردیا۔ وہ گئی اس نے اپنے بچوں کو دودھ پلایا اور پھر لوٹ آئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے دوبارہ باندھ دیا۔ پھر اچانک وہ اعرابی (جس نے اس ہرنی کو باندھ رکھا تھا) متوجہ ہوا اور اس نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میں آپ کی کوئی خدمت کرسکتا ہوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہاں، اس ہرنی کو آزاد کردو۔ پس اس اعرابی نے اسے فوراً آزاد کردیا۔ وہ وہاں سے دوڑتی ہوئی نکلی اور وہ یہ کہتی جا رہی تھی: میں گواہی دیتی ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور بے شک آپ اللہتعالیٰ کے رسول ہیں۔‘‘ اِس حدیث کو امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔

281 /54. عَنْ شِمْرِ بْنِ عَطِيَةَ رضي الله عنه عَنْ رَجُلٍ مِنْ مُزَيْنَةَ أَوْ جُهَيْنَةَ قَالَ: صَلّٰی رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم الْفَجْرَ فَإِذَا هُوَ بِقَرِيْبٍ مِنْ مِائَةِ ذِئْبٍ قَدْ أَقْعَيْنَ وَفُوْدُ الذِّئَابِ. فَقَالَ لَهُمْ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم : تَرْضَخُوْا لَهُمْ شَيْئًا مِنْ طَعَامِکُمْ وَتَأْمَنُوْنَ عَلٰی مَا سِوَی ذَالِکَ؟ فَشَکَوْا إِلٰی رَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم الْحَاجَةَ. قَالَ: فَاذِنُوْهُنَّ. قَالَ: فَاذَنُوْهُنَّ فَخَرَجْنَ وَلَهُنَّ عُوَاءٌ.

رَوَاهُ الدَّارِمِيُّ.

54: أخرجه الدارمي في السنن، المقدمة، باب ما أکرم اللہ به نبيه صلی الله عليه وآله وسلم من إيمان الشجر به والبهائم والجن، 1 /25، الرقم: 22، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 4 /376.

’’حضرت شمر بن عطیہ، مزینہ یا جہینہ قبیلے کے ایک آدمی سے روایت بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نمازِ فجر ادا فرمائی تو اچانک ایک سو کے لگ بھگ بھیڑئیے پچھلی ٹانگوں کو زمین پر پھیلا کر اور اگلی ٹانگوں کو اٹھائے اپنی سرینوں پر بیٹھے ہوئے (باقی) بھیڑیوں کے قاصد بن کر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: (اے گروہ صحابہ!) تم اپنے کھانے پینے کی اشیاء میں سے تھوڑا بہت ان کا حصہ بھی نکالا کرو اور باقی ماندہ کھانے کو (ان بھیڑیوں سے) محفوظ کر لیا کرو۔ پھر اُن بھیڑیوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اپنی کسی حاجت کی شکایت کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: انہیں اجازت دو۔ راوی بیان کرتے ہیں انہوں نے ان (بھیڑیوں) کو اجازت دی پھر وہ اپنی مخصوص آواز نکالتے ہوئے چل دیے۔‘‘

اِس حدیث کو امام دارمی نے روایت کیا ہے۔

282 /55. عَنْ حَمَزَةَ بْنِ أَبِي أُسَيْدٍ رضي الله عنه قَالَ: خَرَجَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم فِي جِنَازَةِ رَجُلٍ مِنَ الْأَنْصَارِ بِالْبَقِيْعِ، فَإِذَا الذِّئْبُ مُفْتَرِشًا ذِرَاعَيْهِ عَلَی الطَّرِيْقِ. فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم : هٰذَا أُوَيْسٌ يَسْتَفْرِضُ فَافْرِضُوْا لَه. قَالُوْا: نَرَی رَأْيَکَ، يَا رَسُوْلَ اللهِ. قَالَ: مِنْ کُلِّ سَائِمَةٍ شَاةٌ فِي کُلِّ عَامٍ. قَالُوْا: کَثِيْرٌ. قَالَ: فَأَشَارَ إِلَی الذِّئْبِ أَنْ خَالِسْهُمْ. فَانْطَلَقَ الذِّئْبُ. رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ.

55: أخرجه البيهقي في دلائل النبوة، 6 /40، وابن کثير في البداية والنهاية، 6 /146، وأيضًا في شمائل الرسول صلی الله عليه وآله وسلم /343، 344، والسيوطي في الخصائص الکبری، 2 /62.

’’حضرت حمزہ بن ابی عبید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انصار میں سے کسی آدمی کے جنازہ کے لیے جنت البقیع کی طرف تشریف لے گئے۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اچانک دیکھا کہ ایک بھیڑیا اپنے بازو پھیلائے راستے میں بیٹھا ہوا ہے۔ (اسے دیکھ کر) حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: یہ بھیڑیا (تم سے اپنا) حصہ مانگ رہا ہے پس اسے اس کا حصہ دو۔ صحابہ کرام نے عرض کیا: یا رسول اللہ! (اس کے حصہ کے بارے میں) ہم آپ کی رائے جاننا چاہتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہر سال ہر چرنے والے جانور کے بدلہ میں ایک بھیڑ۔ صحابہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! یہ زیادہ ہے۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھیڑئیے کی طرف اشارہ فرمایا کہ وہ ان سے اپنا حصہ چھین لیا کرے۔ پس (یہ سننے کے بعد) بھیڑیا چل دیا۔‘‘

اِس حدیث کو امام بیہقی نے روایت کیا ہے۔

283 /56. عَنْ يَعْلَی بْنِ مُرَّةَ الثَّقَفِيِّ رضي الله عنه قَالَ: ثَـلَاثَةُ أَشْيَاءَ رَأَيْتُهُنَّ مِنْ رَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم بَيْنَ نَحْنُ نَسِيْرُ مَعَه إِذْ مَرَرْنَا بِبَعِيْرٍ يُسْنٰی عَلَيْهِ. فَلَمَّا رَاهُ الْبَعِيْرُ جَرْجَرَ وَوَضَعَ جِرَانَه، فَوَقَفَ عَلَيْهِ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم فَقَالَ: أَيْنَ صَاحِبُ هٰذَا الْبَعِيْرِ؟ فَجَاءَ، فَقَالَ: بِعْنِيْهِ؟ فَقَالَ: لَا، بَلْ هَبُه لَکَ. فَقَالَ: لَا، بِعْنِيْهِ. قَالَ: لَا، بَلْ هَبُه لَکَ، وَإِنَّه لِهْلِ بَيْتٍ مَا لَهُمْ مَعِيْشَةٌ غَيْرُهُ. قَالَ: أَمَا إِذْ ذَکَرْتَ هٰذََا مِنْ أَمْرِه فَإِنَّه شَکَا کَثْرَةَ الْعَمَلِ وَقِلَّةَ الْعَلَفِ. فَأَحْسِنُوْا إِلَيْهِ. قَالَ: ثُمَّ سِرْنَا فَنَزَلْنَا مَنْزِلًا، فَنَامَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم، فَجَائَتْ شَجَرَةٌ تَشُقُّ الْأَرْضَ حَتّٰی غَشِيَتْهُ، ثُمَّ رَجَعَتْ إِلٰی مَکَانِهَ. فَلَمَّا اسْتَيْقَظَ ذَکَرْتُ لَه، فَقَالَ: هِيَ شَجَرَةٌ اسْتَأْذَنَتْ رَبَّهَا ل أَنْ تُسَلِّمَ عَلٰی رَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم فَأَذِنَ لَهَ. قَالَ: ثُمَّ سِرْنَا فَمَرَرْنَا بِمَاءٍ فَأَتَتْهُ امْرَأَةٌ بِابْنٍ لَهَا، بِه جِنَّةٌ. فَأَخَذَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم بِمَنْخَرِه فَقَالَ: اخْرُجْ، إِنِّي مُحَمَّدٌ رَسُوْلُ اللهِ. قَالَ: ثُمَّ سِرْنَا، فَلَمَّا رَجَعْنَا مِنْ سَفَرِنَا مَرَرْنَا بِذَالِکَ الْمَاءِ، فَأَتَتْهُ الْمَرْأَةُ بِجُزُرٍ وَلَبَنٍ. فَأَمَرَهَا أَنْ تَرُدَّ الْجُزُرَ وَأَمَرَ أَصْحَابَه فَشَرِبُوْا مِنَ اللَّبَنِ. فَسَأَلَهَا عَنِ الصَّبِيِّ. فَقَالَتْ: وَالَّذِي بَعَثَکَ بِالْحَقِّ، مَا رَأَيْنَا مِنْهُ رَيْبًا بَعْدَکَ.

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَأَبُوْ نُعَيْمٍ وَابْنُ حُمَيْدٍ. وَقَالَ الْمُنْذِرِيُّ: إِسْنَادُهُ جَيِّدٌ. وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ. رَوَاهُ أَحْمَدُ بِإِسْنَادَيْنِ وَالطَّبَرَانِيُّ بِنَحْوِه وَأَحَدُ إِسْنَادَي أَحْمَدَ رِجَالُه رِجَالُ الصَّحِيْحِ.

56: أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 4 /170، 173، وأبو نعيم في دلائل النبوة، 1 /158، الرقم: 184، وعبد بن حميد في المسند، 1 /154، الرقم: 405، والمنذري في الترغيب والترهيب، 3 /144، الرقم: 3430، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 4 /368، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 /5.

’’حضرت یعلی بن مرہ ثقفی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: جب ہم (ایک سفر میں) حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ جا رہے تھے تو میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے تین اُمور (معجزات) دیکھے۔ ہمارا گزر ایک اونٹ کے پاس سے ہوا جس پر پانی رکھا جا رہا تھا۔ اس اونٹ نے جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا تو وہ بلبلانے لگا اور اپنی گردن (از راہِ تعظیم) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے جھکا دی۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے پاس کھڑے ہو گئے اور فرمایا: اس اونٹ کا مالک کہاں ہے؟ اس کا مالک حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے پوچھا: یہ اونٹ مجھے بیچتے ہو؟ اس نے عرض کیا: نہیں، حضور! بلکہ یہ آپ کے لیے تحفہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: نہیں، بلکہ اسے مجھے بیچ دو۔ اس نے دوبارہ عرض کیا: نہیں، بلکہ یہ آپ کے لیے تحفہ ہے، اور بے شک یہ ایسے گھرانے کی ملکیت ہے کہ جن کا ذریعہ معاش اس کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اب تمہارے ذہن میں یہ بات آئی ہے کہ اس اونٹ نے ایسا کیوں کیا ہے۔ اس نے شکایت کی ہے کہ تم اس سے کام زیادہ لیتے ہو اور چارہ کم ڈالتے ہو۔ اس کے ساتھ اچھا برتاؤ کرو۔ حضرت یعلی بن مروہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: پھر ہم روانہ ہوئے اور ہم نے ایک جگہ پڑاؤ کیا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہاں محوِ استراحت ہو گئے۔ اتنے میں ایک درخت زمین کو چیرتا ہوا آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر سایہ فگن ہو گیا پھر کچھ دیر بعد وہ واپس اپنی جگہ پر چلا گیا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیدار ہوئے تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس واقعہ کا ذکر کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اس درخت نے اپنے رب سے اجازت طلب کی تھی کہ وہ اللہ تعالیٰ کے رسول کی بارگاہ میں سلام عرض کرے، پس اس نے اسے اجازت دے دی۔ پھر ہم وہاں سے آگے چلے اور ہمارا گزر پانی کے پاس سے ہوا۔ وہاں ایک عورت تھی اس کے ساتھ اس کا بیٹا بھی تھا جسے جن چمٹے ہوئے تھے۔ وہ اسے لے کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس لڑکے کی ناک کا نتھنا پکڑ کر فرمایا: نکل جاؤ میں محمد، اللہ کا رسول ہوں۔ حضرت یعلی بن مرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: پھر ہم آگے بڑھے۔ جب ہم اپنے سفر سے واپس لوٹے تو ہم دوبارہ اسی پانی کے پاس سے گزرے۔ پس وہی عورت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس بھنا ہوا گوشت اور دودھ لے کر حاضرِ خدمت ہوئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُسے حکم دیا کہ وہ گوشت واپس لے جائے اور اپنے صحابہ کو حکم فرمایا تو اُنہوں نے دودھ میں سے کچھ پی لیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے بچے کے متعلق پوچھا تو اس نے جواب دیا: قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا! اس کے بعد ہم نے اس میں کبھی اس بیماری کا شائبہ تک نہیں پایا۔‘‘

اِس حدیث کو امام احمد، ابونعیم اور ابن حمید نے روایت کیا ہے۔ امام منذری نے فرمایا: اِس کی سند جید ہے۔ امام ہیثمی نے فرمایا: اِسے امام احمد نے دو اسناد کے ساتھ روایت کیا ہے۔ امام طبرانی نے بھی اسی کی مثل روایت کیا ہے اور امام احمد کی ایک سند کے رجال صحیح حدیث کے رجال ہیں۔

284 /57. عَنْ تَمِيْمِ الدَّارِيِّ رضي الله عنه قَالَ: کُنَّا جُلُوْسًا مَعَ رَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم إِذْ أَقْبَلَ بَعِيْرٌ يَعْدُوْ حَتّٰی وَقَفَ عَلٰی هَامَةِ رَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم . فَقَالَ: أَيُّهَا الْبَعِيْرُ، اسْکُنْ. فَإِنْ تَکُ صَادِقًا فَلَکَ صِدْقُکَ، وَإِنْ تَکُ کَاذِبًا فَعَلَيْکَ کَذِبُکَ مَعَ أَنَّ اللهَ تَعَالٰی قَدْ أَمَّنَ عَائِذَنَا وَلَيْسَ بِخَائِبٍ لَائِذُنَ. فَقُلْنَا: يَا رَسُوْلَ اللهِ، مَا يَقُوْلُ هٰذَا الْبَعِيْرُ؟ فَقَالَ: هٰذَا بَعِيْرٌ قَدْ هَمَّ أَهْلُه بِنَحْرِه وَأَکْلِ لَحْمِه فَهَرَبَ مِنْهُمْ وَاسْتَغَاثَ بِنَبِيِّکُمْ صلی الله عليه وآله وسلم . فَبَيْنَا نَحْنُ کَذَالِکَ إِذْ أَقْبَلَ أَصْحَابُه يَتَعَادَوْنَ. فَلَمَّا نَظَرَ إِلَيْهِمُ الْبَعِيْرُ عَادَ إِلٰی هَامَةِ رَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم . فَـلَاذَ بِهَ. فَقَالُوْا: يَا رَسُوْلَ اللهِ، هٰذَا بَعِيْرُنَا هَرَبَ مُنْذُ ثَـلَاثَةِ أَيَامٍ. فَلَمْ نَلْقَهُ إِلَّا بَيْنَ يَدَيْکَ. فَقَالَ صلی الله عليه وآله وسلم : أَمَّا إِنَّه يَشْکُوْ إِلَيَّ، فَبِئْسَتِ الشِّکَايَةُ. فَقَالُوْا: يَا رَسُوْلَ اللهِ، مَا يَقُوْلُ؟ قَالَ: يَقُوْلُ: إِنَّه رُبِّيَ فِي أَمْنِکُمْ أَحْوَالًا، وَکُنْتُمْ تَحْمِلُوْنَ عَلَيْهِ فِي الصَّيْفِ إِلٰی مَوْضِعِ الْکَلَاءِ. فَإِذَا کَانَ الشِّتَاءُ رَحَلْتُمْ إِلٰی مَوْضِعِ الدِّفَاءِ. فَلَمَّا کَبِرَ اسْتَفْحَلْتُمُوْهُ، فَرَزَقَکُمُ اللهُ مِنْهُ إِبِلًا سَائِمَةً. فَلَمَّا أَدْرَکَتْه هٰذِهِ السَّنَةُ الْخَصْبَةُ هَمَمْتُمْ بِنَحْرِه، وَأَکْلِ لَحْمِه . فَقَالُوْا: قَدْ وَاللهِ، کَانَ ذَالِکَ، يَا رَسُوْلَ اللهِ. فَقَالَ عليه الصلاة والسلام: مَا هٰذَا جَزَاءُ الْمَمْلُوْکِ الصَّالِحِ مِنْ مَوَالِيْهِ؟ فَقَالُوْا: يَا رَسُوْلَ اللهِ، فَإِنَّا لَا نَبِيْعُهُ وَلَا نَنْحَرُهُ. فَقَالَ عليه الصلاة والسلام: کَذَبْتُمْ. قَدِ اسْتَغَاثَ بِکُمْ فَلَمْ تُغِيْثُوْهُ، وَأَنَا أَوْلٰی بِالرَّحْمَةِ مِنْکُمْ. فَإِنَّ اللهَ نَزَعَ الرَّحْمَةَ مِنْ قُلُوْبِ الْمُنَافِقِيْنَ وَأَسْکَنَهَا فِي قُلُوْبِ الْمُؤْمِنِيْنَ. فَاشْتَرَاهُ عليه الصلاة والسلام مِنْهُمْ بِمِائَةِ دِرْهَمٍ، وَقَالَ: يٰا أَيُّهَا الْبَعِيْرُ، انْطَلِقْ فَأَنْتَ حُرٌّ لِوَجْهِ اللهِ تَعَالٰی. فَرَغٰی عَلٰی هَامَةِ رَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم . فَقَالَ عليه الصلاة والسلام: آمِيْنَ. ثُمَّ دَعَا فَقَالَ: آمِيْنَ. ثُمَّ دَعَا فَقَالَ: آمِيْنَ. ثُمَّ دَعَا الرَّابِعَةَ فَبَکَی عليه الصلاة والسلام. فَقُلْنَا: يَا رَسُوْلَ اللهِ، مَا يَقُوْلُ هٰذَا الْبَعِيْرُ؟ قَالَ: قَالَ: جَزَاکَ اللهُ، أَيُّهَا النَّبِيُّ، عَنِ الإِسْلَامِ وَالْقُرْآنِ خَيْرً. فَقُلْتُ: آمِيْنَ. ثُمَّ قَالَ: سَکَّنَ اللهُ رُعْبَ أُمَّتِکَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ کَمَا سَکَّنْتَ رُعْبِي. فَقُلْتُ: آمِيْنَ. ثُمَّ قَالَ: حَقَنَ اللهُ دِمَاءَ أُمَّتِکَ مِنْ أَعْدَائِهَا کَمَا حَقَنْتَ دَمِي. فَقُلْتُ: آمِيْنَ. ثُمَّ قَالَ: لَا جَعَلَ اللهُ بَأْسَهَا بَيْنَهَا، فَبَکَيْتُ. فَإِنَّ هٰذِهِ الْخِصَالَ سَأَلْتُ رَبِّي فَأَعْطَانِيْهَا وَمَنَعَنِي هٰذِه، وَأَخْبََرَنِي جِبْرِيْلُ عَنِ اللهِ تَعَالٰی أَنَّ فَنَاءَ أُمَّتِي بِالسَّيْفِ. جَرَی الْقَلَمُ بِمَا هُوَ کَائِنٌ. رَوَاهُ ابْنُ مَاجَه کَمَا قَالَ الْمُنْذِرِيُّ.

57: أخرجه المنذري في الترغيب والترهيب، 3 /144، 145، الرقم: 3431.

’’حضرت تمیم داری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہِ اقدس میں حاضر تھے کہ ایک اُونٹ بھاگتا ہوا آیا اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سرِ انور کے پاس آکر کھڑا ہوگیا (جیسے کان میں کوئی بات کہہ رہا ہو)۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے اُونٹ! پرسکون ہوجا۔ اگر تو سچا ہے تو تیرا سچ تجھے فائدہ دے گا اور اگر تو جھوٹا ہے تو تجھے اس جھوٹ کی سزا ملے گی۔ بے شک جو ہماری پناہ میں آجاتا ہے اللہ تعالیٰ بھی اسے امان دے دیتا ہے اور ہمارے دامن میں پناہ لینے والا کبھی نامراد نہیں ہوتا۔ ہم نے عرض کیا: یارسول اللہ! یہ اونٹ کیا کہتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اس اونٹ کے مالکوں نے اسے ذبح کرکے اس کا گوشت کھانے کا ارادہ کرلیا تھا۔ سو یہ ان کے پاس سے بھاگ آیا ہے اور اس نے تمہارے نبی کی بارگاہ میں استغاثہ کیا ہے۔ ہم ابھی باہم اسی گفتگو میں مشغول تھے کہ اس اونٹ کے مالک بھاگتے ہوئے آئے۔ جب اونٹ نے ان کو آتے دیکھا تو وہ دوبارہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سر مبارک کے قریب ہوگیااور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے چھپنے لگا۔ ان مالکوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہمارا یہ اونٹ تین دن سے ہمارے پاس سے بھاگا ہوا ہے اور آج یہ ہمیں آپ کی خدمت میں ملا ہے۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: یہ میرے سامنے شکایت کر رہا ہے اور یہ شکایت بہت ہی بری ہے۔ انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! یہ کیا کہہ رہا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: یہ کہتا ہے کہ یہ تمہاری پاس کئی سال تک پلا بڑھا۔ جب موسم گرما آتا تو تم گھاس اور چارے والے علاقوں کی طرف اس پر سوار ہوکر جاتے اور جب موسم سرما آتا تو اسی پر سوار ہوکر گرم علاقوں کی جانب کوچ کرتے۔ پھر جب اس کی عمر زیادہ ہوگئی تو تم نے اسے اپنی اونٹنیوں میں افزائش نسل کے لئے چھوڑ دیا۔ اللہ تعالیٰ نے تمہیں اس سے کئی صحت مند اونٹ عطا کئے۔ اب جبکہ یہ اس خستہ حالی کی عمر کو پہنچ گیا ہے تو تم نے اسے ذبح کر کے اس کا گوشت کھالینے کا منصوبہ بنالیا ہے۔ انہوں نے عرض کیا: خدا کی قسم، یا رسول اللہ! یہ بات من وعن اسی طرح ہے جیسے آپ نے بیان فرمائی۔ اس پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ایک اچھے خدمت گزار کی اس کے مالکوں کی طرف سے کیا یہی جزا ہوتی ہے؟! انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اب ہم نہ اسے بیچیں گے اور نہ ہی اسے ذبح کریں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تم جھوٹ کہتے ہو۔ اس نے پہلے تم سے فریاد کی تھی مگر تم نے اس کی داد رسی نہیں کی اور میں تم سب سے بڑھ کر رحم فرمانے والا ہوں۔ بے شک اللہ تعالیٰ نے منافقوں کے دلوں سے رحمت نکال لی ہے اور اسے مومنین کے دلوں میں رکھ دیا ہے۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس اونٹ کو ان سے ایک سو درہم میں خرید لیا اور پھر فرمایا: اے اونٹ! جا، تو اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر آزاد ہے۔ اس اونٹ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سر مبارک کے پاس اپنا منہ لے جاکر کوئی آواز نکالی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: آمین۔ اس نے پھر دعا کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پھر فرمایا: آمین۔ اس نے پھر دعا کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پھر فرمایا: آمین۔ اس نے جب چوتھی مرتبہ دعا کی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آبدیدہ ہوگئے۔ ہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ! یہ اونٹ کیا کہہ رہا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اس نے پہلی دفعہ کہا: اے نبی مکرم! اللہ تعالیٰ آپ کو اسلام اور قرآن کی طرف سے بہترین جزا عطا فرمائے۔ میں نے کہا: آمین۔ پھر اس نے کہا: اللہ تعالیٰ قیامت کے روز آپ کی امت سے اسی طرح خوف کو دور فرمائے جس طرح آپ نے مجھ سے خوف کو دور فرمایا ہے۔ میں نے کہا: آمین۔ پھر اس نے دعا کی: اللہ تعالیٰ دشمنوں سے آپ کی اُمت کے خون کو اسی طرح محفوظ رکھے جس طرح آپ نے میرا خون محفوظ فرمایا ہے۔ اس پر بھی میں نے آمین کہا۔ پھر اس نے کہا: اللہ تعالیٰ ان کے درمیان جنگ وجدال پیدا نہ ہونے دے یہ سن کر مجھے رونا آگیا کیونکہ یہی دعائیں میں نے بھی اپنے رب سے مانگی تھیں تو اس نے پہلی تین تو قبول فرما لیں لیکن اس آخری دعا سے منع فرما دیا۔ جبرائیل نے مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے خبر دی ہے کہ میری یہ امت آپس میں تلوار زنی سے فنا ہوگی۔ جو کچھ ہونے والا ہے قلم اسے لکھ چکا ہے۔‘‘

امام منذری نے فرمایا: اس حدیث کو امام ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔

Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved