جمیع خلق پر حضور نبی اکرم ﷺ کی رحمت و شفقت

حضور ﷺ کی نباتات اور جمادات پر رحمت و شفقت

بَابٌ فِي رَحْمَتِه صلی الله عليه وآله وسلم وَمُـلَاطَفَتِه عَلَی النَّبَاتَاتِ وَالْجَمَادَاتِ

{حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نباتات اور جمادات پر رحمت و شفقت}

285 / 1. عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ رضي الله عنهما أَنَّ امْرَأَةً مِنَ الْأَنْصَارِ، قَالَتْ لِرَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم : يَا رَسُوْلَ اللهِ، أَ لَا أَجْعَلُ لَکَ شَيْئًا تَقْعُدُ عَلَيْهِ، فَإِنَّ لِي غُـلَامًا نَجَّارًا. قَالَ: إِنْ شِئْتِ قَالَ: فَعَمِلَتْ لَهُ الْمِنْبَرَ، فَلَمَّا کَانَ يَوْمُ الْجُمُعَةِ، قَعَدَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم عَلَی الْمِنْبَرِ الَّذِي صُنِعَ فَصَاحَتِ النَّخْلَةُ الَّتِي کَانَ يَخْطُبُ عِنْدَهَا، حَتّٰی کَادَتْ أَنْ تَنْشَقَّ، فَنَزَلَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم حَتّٰی أَخَذَهَا فَضَمَّهَا إِلَيْهِ، فَجَعَلَتْ تَئِنُّ أَنِيْنَ الصَّبِيِّ الَّذِي يَسَکَّتُ، حَتَّی اسْتَقَرَّتْ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَالتِّرْمِذِيُّ وَالنَّسَائِيُّ وَابْنُ مَاجَه.

1: أخرجه البخاري في الصحيح،کتاب البيوع، باب النجار، 2 / 378، الرقم: 1989، وايضًا فيکتاب المناقب، باب علامات النبوة في الإسلام، 3 / 1314، الرقم: 3391.3392، وايضًا في کتاب المساجد، باب: الاستعانة بالنجار والصناع في أعواد المنبر والمسجد، 1 / 172، الرقم: 438، والترمذي في السنن، کتاب المناقب، باب: (6)، 5 / 594، الرقم: 3627، والنسائي في السنن، کتاب الجمعة، باب: مقام الإمام في الخطبة، 3 / 102، الرقم: 1396، وابن ماجه في السنن، کتاب إقامة الصلاة والسنة فيها، باب: ما جاء في بدء شأن المنبر، 1 / 454، الرقم: 1414.1417، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 226، والدارمي نحوه في السنن، 1 / 23، الرقم: 42.

’’حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ ایک انصاری عورت نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا میں آپ کے تشریف فرما ہونے کے لئے کوئی چیز نہ بنوا دوں؟ کیونکہ میرا غلام بڑھئی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اگر تم چاہو (تو بنوا دو)۔ اُس عورت نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے ایک منبر بنوا دیا۔ جمعہ کا دن آیا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسی منبر پر تشریف فرما ہوئے جو تیار کیا گیا تھا لیکن (حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے منبر پر تشریف رکھنے کی وجہ سے) کھجور کا وہ تنا جس سے ٹیک لگا کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خطبہ ارشاد فرماتے تھے (ہجر و فراق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں) چِلاَّ (کر رو) پڑا یہاں تک کہ پھٹنے کے قریب ہو گیا۔ یہ دیکھ کر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منبر مبارک سے نیچے تشریف لائے اور کھجور کے ستون کو گلے سے لگا لیا۔ ستون اس بچہ کی طرح رونے لگا، جسے تھپکی دے کر چپ کرایا جاتا ہے، یہاں تک کہ اسے سکون آ گیا۔‘‘

اس حدیث کو امام بخاری، ترمذی، نسائی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔

286 / 2. عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضي الله عنهما کَانَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم يَخْطُبُ إِلٰی جِذْعٍ. فَلَمَّا اتَّخَذَ الْمِنْبَرَ تَحَوَّلَ إِلَيْهِ، فَحَنَّ الْجِذْعُ. فَأَتَاهُ، فَمَسَحَ يَدَه عَلَيْهِ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَابْنُ حِبَّانَ.

2: أخرجه البخاري في الصحيح،کتاب المناقب، باب علامات النبوة في الإسلام، 3 / 1313، الرقم: 3390، وابن حبان في الصحيح، 14 / 435، الرقم: 6506، واللالکائي في اعتقاد أهل السنة، 4 / 797، الرقم: 1469.

’’حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنھما بیان کرتے ہیں کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک درخت کے تنے کے ساتھ ٹیک لگا کر خطاب فرمایا کرتے تھے۔ جب منبر بنا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُس پر جلوہ افروز ہوئے تو لکڑی کا وہ ستون گریہ و زاری کرنے لگا۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے پاس تشریف لائے او راس پر اپنا دستِ شفقت پھیرا (تو وہ خشک ستون چپ ہوا)۔‘‘

اِس حدیث کو امام بخاری اور ابن حبان نے روایت کیا ہے۔

287 / 3. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضي الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم خَطَبَ إِلٰی عِذْقِ جِذْعٍ وَاتَّخَذُوْا لَه مِنْبَرًا. فَخَطَبَ عَلَيْهِ، فَحَنَّ الْجِذْعُ حَنِيْنَ النَّاقَةِ. فَنَزَلَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم فَمَسَّه فَسَکَنَ.

رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ. وَقَالَ: هٰذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ.

3: أخرجه الترمذي في السنن،کتاب المناقب، باب فيآيات إثبات نبوة النبي صلی الله عليه وآله وسلم وما قد خصه اللہ به، 5 / 594، الرقم: 3627.

’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کجھور کے ایک تنے کے ساتھ کھڑے ہو کر خطبہ ارشاد فرمایا کرتے تھے۔ صحابہ کرام نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے منبر بنوا دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُس پر تشریف فرما ہو کر خطبہ دینے لگے تو وہ تنا اس طرح رونے لگا جس طرح اونٹنی اپنے بچے کی خاطر روتی ہے۔ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منبر سے نیچے تشریف لائے اور اس پر اپنا دستِ اقدس پھیرا تو وہ خاموش ہو گیا۔‘‘

اِس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا اور فرمایا: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

288 / 4. عَنْ أَنَسٍ رضي الله عنه أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم کَانَ يَخْطُبُ إِلٰی جِذْعٍ. فَلَمَّا اتَّخَذَ الْمِنْبَرَ ذَهَبَ إِلَی الْمِنْبَرِ. فَحَنَّ الْجِذْعُ، فَأَتَاه، فَاحْتَضَنَه، فَسَکَنَ. فَقَالَ: لَوْ لَمْ أَحْتَضِنْه لَحَنَّ إِلٰی يَوْمِ الْقِيَامَةِ.

رَوَاهُ ابْنُ مَاجَه وَأَبُوْ يَعْلٰی وَالْبُخَارِيُّ فِي الْکَبِيْرِ.

289 / 5. وفي رواية عن جابر ص: حَتّٰی سَمِعَه أَهلُ الْمَسْجِدِ حَتّٰی أَتَاه رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم فَمَسَحَه فَسَکَنَ. فَقَالَ بَعْضُهُمْ: لَوْ لَمْ يَأْتِهِ، لَحَنَّ إِلٰی يَوْمِ الْقِيَامَةِ.

4.5: أخرجه ابن ماجه في السنن،کتاب إقامة الصلاة والسنة فيها، باب ما جاء في بدء شأن المنبر، 1 / 454، الرقم: 1415، والبخاري في التاريخ الکبير، 7 / 26، الرقم: 108، وأبو يعلی في المسند، 6 / 114، الرقم: 3384، وعبد بن حميد في المسند، 1 / 396، الرقم: 1336، والمقدسي في الأحاديث المختارة، 5 / 37، الرقم: 1643.

’’حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک ستون سے ٹیک لگا کر خطبہ دیتے تھے۔ پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے منبر تیار ہوگیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منبر کی طرف تشریف لے گئے تو وہ ستون (بچے کی طرح) رونے لگا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے پاس تشریف لائے اور اسے سینہ سے لگایا تو وہ پر سکون ہوگیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اگرمیں اسے سینہ سے نہ لگاتا تو یہ قیامت تک روتا رہتا۔‘‘

اِس حدیث کو امام ابن ماجہ، ابو یعلی اور بخاری نے ’التاریخ الکبیر‘ میں روایت کیا ہے۔

’’حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ایک اور روایت میں ہے کہ (ستون کے رونے کی) آواز تمام اہلِ مسجد نے سنی۔ (اس کا رونا سن کر) حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے پاس تشریف لائے اور اس پر اپنا دستِ شفقت پھیرا تو وہ پرسکون ہو گیا۔ بعض صحابہ کہنے لگے: اگر حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے پاس تشریف نہ لاتے تو یہ قیامت تک روتا رہتا۔‘‘

290 / 6. عَنْ أُبَيِّ بْنِ کَعْبٍِ رضي الله عنه قَالَ: کَانَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم يُصَلِّي إِلٰی جِذْعٍ إِذْ کَانَ الْمَسْجِدُ عَرِيْشًا وَکَانَ يَخْطُبُ إِلٰی ذَالِکَ الْجِذْعِ فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِه: هَلْ لَکَ أَنْ نَجْعَلَ لَکَ شَيْئًا تَقُوْمُ عَلَيْهِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ حَتّٰی يَرَاکَ النَّاسُ وَتُسْمِعَهُمْ خُطْبَتَکَ قَالَ: نَعَمْ فَصَنَعَ لَه ثَـلَاثَ دَرَجَاتٍ فَهِيَ الَّتِي أَعْلَی الْمِنْبَرِ فَلَمَّا وُضِعَ الْمِنْبَرُ وَضَعُوْهُ فِي مَوْضِعِهِ الَّذِي هُوَ فِيْهِ فَلَمَّا أَرَادَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم أَنْ يَقُوْمَ إِلَی الْمِنْبَرِ مَرَّ إِلَی الْجِذْعِ الَّذِي کَانَ يَخْطُبُ إِلَيْهِ فَلَمَّا جَاوَزَ الْجِذْعَ خَارَ حَتّٰی تَصَدَّعَ وَانْشَقَّ فَنَزَلَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم لَمَّا سَمِعَ صَوْتَ الْجِذْعِ فَمَسَحَه بِيَدِه حَتّٰی سَکَنَ ثُمَّ رَجَعَ إِلَی الْمِنْبَرِ فَکَانَ إِذَا صَلّٰی صَلّٰی إِلَيْهِ فَلَمَّا هُدِمَ الْمَسْجِدُ وَغُيِّرَ أَخَذَ ذَالِکَ الْجِذْعَ أُبَيُّ بْنُ کَعْبٍ رضي الله عنه وَکَانَ عِنْدَه فِي بَيْتِه…الحديث. رَوَاهُ ابْنُ مَاجَه وَالدَّارِمِيُّ وَالشَّافِعِيُّ وَأَحْمَدُ.

وَقَالَ الْمَقْدِسِيُّ: رَوَاهُ أَبُوْ عَبْدِ اللهِ ابْنُ مَاجَه عَنْ إِسْمَاعِيْلَ بْنِ عَبْدِ اللهِ لَه شَاهِدٌ فِي الصَّحِيْحِ مِنْ حَدِيْثِ ابْنِ عُمَرَ وَجَابِرٍ ث وَلَه طُرُقٌ عَنْ غَيْرِ وَاحِدٍ مِنَ الصَّحَابَةِ وَإِسْنَادُه حَسَنٌ. وَقَالَ الْکِنَانِيُّ: هٰذَا إِسْنَادٌ حَسَنٌ وَرَوَاهُ أَبُوْ يَعْلَی الْمُوْصِلِيُّ فِي مُسْنَدِه.

6: أخرجه ابن ماجه في السنن، کتاب إقامة الصلاة والسنة فيها، باب ما جاء في بدء شأن المنبر، 1 / 454، الرقم: 1414، والدارمي في السنن، 1 / 30، الرقم: 36، والشافعي في المسند، 1 / 65، وأحمد بن حنبل في المسند، 5 / 137. 138، الرقم: 21285، 21289، وابن سعد في الطبقات الکبری، 1 / 252، والمقدسي في الأحاديث المختارة، 1 / 393، الرقم: 1192، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 4 / 392، والعسقلاني في فتح الباري، 6 / 603، الرقم: 3390، وأبو المحاسن في معتصر المختصر، 1 / 9، والعيني في عمدة القاري، 6 / 215، والکناني في مصباح الزجاجة، 2 / 16، الرقم: 504.

’’حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھجور کے ایک تنے سے ٹیک لگا کر خطبہ دیا کرتے تھے اُس وقت مسجد نبوی چھپر کی تھی۔ ایک شخص نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیوں نہ ہم آپ کے لئے ایسی چیز تیار کر دیں جس پر آپ جمعہ کے دن قیام فرما ہوں تاکہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت بھی کر سکیں اور خطبہ بھی سن سکیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اجازت عطا فرما دی۔ لہٰذا منبر تیار کیا گیا جس کی تین سیڑھیاں تھیں۔ صحابہ کرام نے اس منبر کو اُس کے مقام پر رکھ دیا۔ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے منبر پر کھڑے ہونے کا ارادہ فرمایا اور اس ستون کے قریب سے گزرے جس پر ٹیک لگا کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خطبہ دیا کرتے تھے تو اس ستون میں سے (ہجر و فراقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں) رونے کی آواز آئی اور وہ ستون درمیان سے شق ہو گیا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کے رونے کی یہ حالت دیکھی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس پر اپنا دستِ شفقت پھیرا جس سے اس ستون کی حالت گریہ ختم ہو گئی پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منبر پر تشریف لے گئے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز پڑھتے تو اس کی طرف نماز پڑھتے جب مسجد منہدم کی گئی تو اس ستون کو حضرت ابی کعب رضی اللہ عنہ نے لے لیا اور انہی کے گھر میں رہا۔۔۔الحدیث۔‘‘

اِس حدیث کو امام ابن ماجہ، دارمی، شافعی اور احمد نے روایت کیا ہے۔

امام مقدسی نے فرمایا: اسے امام ابو عبد اللہ ابن ماجہ نے حضرت اسماعیل بن عبد اللہ سے روایت کیا ہے اور اس کے شواہد حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اور حضرت جابر سے مروی احادیث صحیح (بخاری و مسلم) میں بھی ہیں اور اس کے بے شمار صحابہ کرام سے دیگر طرق بھی مروی ہیں اور اِس کی اسناد حسن ہے۔ امام کنانی نے فرمایا: یہ اسناد حسن ہے اور اسے امام ابو یعلی الموصلی نے بھی اپنی مسند میں روایت کیا ہے۔

291 / 7. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما وَعَنْ ثَابِتٍ عَنْ أَنَسٍ أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم کَانَ يَخْطُبُ إِلٰی جِذْعٍ فَلَمَّا اتَّخَذَ الْمِنْبَرَ ذَهَبَ إِلَی الْمِنْبَرِ فَحَنَّ الْجِذْعُ فَأَتَاه فَاحْتَضَنَه فَسَکَنَ فَقَالَ: لَوْ لَمْ أَحْتَضِنْه لَحَنَّ إِلٰی يَوْمِ الْقِيَامَةِ.

رَوَاهُ ابْنُ مَاجَه وَأَحْمَدُ وَالدَّارِمِيُّ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَأَبُوْ يَعْلٰی وَالْبُخَارِيُّ فِي الْکَبِيْرِ. وَقَالَ الْمَقْدِسِيُّ: إِسْنَادُه صَحِيْحٌ. وَقَالَ الْکِنَانِيُّ: هٰذَا إِسْنَادٌ صَحِيْحٌ وَرِجَالُه ثِقَاتٌ.

7: أخرجه ابن ماجه في السنن،کتاب إقامة الصلاة والسنة فيها، باب ما جاء في بدء شأن المنبر، 1 / 454، الرقم: 1415، وأحمد بن حنبل عن ابن عباس رضی اللہ عنهما في المسند، 1 / 249، 363، الرقم: 2236، 3430، والدارمي في السنن، 1 / 31، 442، الرقم: 39، 1563، والبخاري في التاريخ الکبير، 7 / 26، الرقم: 108، وابن أبي شيبة عن ابن عباس رضی اللہ عنهما في المصنف، 6 / 319، الرقم: 31746، وأبو يعلی في المسند، 6 / 114، الرقم: 3384، والطبراني في المعجم الکبير، 12 / 187، الرقم: 12841، وعبد بن حميد في المسند، 1 / 396، الرقم: 1336، والمقدسي في الأحاديث المختارة، 5 / 37.38، الرقم: 1643.1645، وابن سعد في الطبقات الکبری، 1 / 252، والعسقلاني في فتح الباري، 6 / 602، الرقم: 3390، والکناني في مصباح الزجاجة، 2 / 16، الرقم: 505.

’’حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے اور حضرت ثابت حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک ستون سے ٹیک لگا کر خطبہ دیا کرتے تھے۔ پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے منبر تیار ہو گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منبر پر تشریف لے گئے۔ اِس پر وہ ستون (فراقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں زار و قطار) رونے لگا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُس کے پاس تشریف لائے اور اُسے تشفی دی حتی کہ وہ پرسکون ہو گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اگر میں اسے تسلی نہ دیتا تو یہ قیامت تک یونہی روتا رہتا۔‘‘

اِس حدیث کو امام ابن ماجہ، احمد، دارمی، ابن ابی شیبہ، ابو یعلی اور بخاری نے ’التاریخ الکبیر‘ میں روایت کیا ہے۔ امام مقدسی نے فرمایا: اس کی سند صحیح ہے۔ امام کنانی نے بھی فرمایا: اِس کی سند صحیح اور رجال ثقات ہیں۔

292 / 8. عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ رضي الله عنه قَالَ: حَنَّتِ الْخَشَبَةُ الَّتِي کَانَ يَقُوْمُ عِنْدَهَا، فَقَامَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم إِلَيْهَا: فَوَضَعَ يَدَه عَلَيْهَا فَسَکَنَتْ.

رَوَاهُ الدَّارِمِيُّ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَأَبُوْ يَعْلٰی وَابْنُ خُزَيْمَةَ. وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ: رَوَاهُ أَبُوْ يَعْلٰی عَنْ جَابِرٍ رضي الله عنه وَرِجَالُه مُوَثَّقُوْنَ.

8: أخرجه الدارمي في السنن، المقدمة، باب ما أکرم النبي صلی الله عليه وآله وسلم بحنين المنبر، 1 / 32، 442، الرقم: 40، 1565، وابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 319، الرقم: 31747، وأبو يعلی في المسند، 2 / 328، الرقم: 1067، وأيضًا، 4 / 128، الرقم: 2177، 5 / 142، الرقم: 2756، وابن خزيمة في الصحيح، 3 / 139، الرقم: 1776، وابن حبان في الصحيح، 14 / 436، الرقم: 6507، والطبراني في المعجم الأوسط، 2 / 108، الرقم: 1408، وابن الجعد في المسند، 1 / 466، الرقم: 3219، والهيثمي في مجمع الزوائد، 2 / 180.181.

’’حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ وہ (کھجور کے تنے کی خشک) لکڑی جس کے پاس کھڑے ہو کر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خطاب فرمایا کرتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت میں چیخ چیخ کر رونے لگی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے پاس تشریف لے گئے اور اپنا دستِ اقدس اس پر رکھا تو وہ خاموش ہو گئی۔‘‘

اِس حدیث کو امام دارمی، ابن ابی شیبہ، ابو یعلی اور ابن خزیمہ نے روایت کیا ہے۔ امام ہیثمی نے فرمایا: اسے امام ابو یعلی نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے اور اس کے رجال ثقہ ہیں۔

293 / 9. عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ رضي الله عنه قَالَ: کَانَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم يَخْطُبُ إِلٰی لِزْقِ جِذْعٍ فَأَتَاه رَجُلٌ رُوْمِيٌّ فَقَالَ: أَصْنَعُ لَکَ مِنْبَرًا تَخْطُبُ عَلَيْهِ، فَصَنَعَ لَه مِنْبَرًا هٰذَا الَّذِي تَرَوْنَ. قَالَ: فَلَمَّا قَامَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم يَخْطُبُ حَنَّ الْجِذْعُ حَنِيْنَ النَّاقَةِ إِلٰی وَلَدِهَا فَنَزَلَ إِلَيْهِ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم فَضَمَّه إِلَيْهِ فَسَکَنَ فَأُمِرَ بِه أَنْ يُحْفَرَ لَه وَيُدْفَنَ. رَوَاهُ الدَّارِمِيُّ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ.

9: أخرجه الدارمي في السنن، المقدمة، باب ما أکرم النبي صلی الله عليه وآله وسلم بحنين المنبر، 1 / 31، الرقم: 37، وابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 319، الرقم: 31749، والعسقلاني في المطالب العالية، 4 / 698، الرقم: 2، وأيضًا في فتح الباري، 6 / 602، الرقم: 3390، والعيني في عمدة القاري، 16 / 128.

’’حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھجور کے ایک خشک تنے کے پاس قیام فرما ہو کر خطاب فرمایا کرتے تھے، تو ایک رومی شخص آیا اور عرض کیا: (یا رسول اللہ!) میں آپ کے لئے منبر تیار کر دیتا ہوں جس پر تشریف فرما ہو کر آپ خطاب کرسکیں گے۔ پھر (اجازت ملنے پر) اس نے یہ منبر تیار کر دیا جسے تم دیکھ رہے ہو۔ راوی بیان کرتے ہیں: جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس منبر پر خطاب فرمانے کے لئے کھڑے ہوئے تو کھجور کا وہ خشک تنا یوں تڑپنے لگا جیسے اونٹنی اپنے (گمشدہ) بچے کے لئے تڑپتی ہے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس منبر سے اتر کر اس کھجور کے خشک تنے کی طرف تشریف لائے اور اسے اپنے سینے سے لگایا تو وہ پر سکون ہوگیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کے بارے میں حکم دیا کہ (اسی منبر کے نیچے) گڑھا کھود کر اسے اس میں دفن کر دیا جائے۔‘‘

اس حدیث کو امام دارمی اور ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔

294 / 10. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضي الله عنه أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم کَانَ يَقُوْمُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ فَيُسْنِدُ ظَهْرَه إِلٰی جِذْعٍ مَنْصُوْبٍ فِي الْمَسْجِدِ فَيَخْطُبُ النَّاسَ فَجَائَه رُوْمِيٌّ فَقَالَ: أَلاَ أَصْنَعُ لَکَ شَيْئًا تَقْعُدُ عَلَيْهِ وَکَأَنَّکَ قَائِمٌ فَصَنَعَ لَه مِنْبَرًا لَه دَرَجَتَانِ وَيَقْعُدُ عَلَی الثَّالِثَةِ فَلَمَّا قَعَدَ نَبِيُّ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم عَلٰی ذَالِکَ الْمِنْبَرِ خَارَ الْجِذْعُ کَخُوَارِ الثَّوْرِ حَتَّی ارْتَجَّ الْمَسْجِدُ حُزْنًا عَلٰی رَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم فَنَزَلَ إِلَيْهِ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم مِنَ الْمِنْبَرِ فَالْتَزَمَه وَهُوَ يَخُوْرُ فَلَمَّا الْتَزَمَه رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم سَکَتَ ثُمَّ قَالَ: أَمَا وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِه، لَوْ لَمْ أَلْتَزِمْه لَمَا زَالَ هٰکَذَا إِلٰی يَوْمِ الْقِيَامَةِ حُزْنًا عَلٰی رَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم فَأَمَرَ بِه رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم فَدُفِنَ.

رَوَاهُ الدَّارِمِيُّ وَابْنُ خُزَيْمَةَ وَصَحَّحَه وَاللَّالْکَائِيُّ. وَقَالَ الْمَقْدِسِيُّ: إِسْنَادُه صَحِيْحٌ.

10: أخرجه الدارمي في السنن، المقدمة، باب ما أکرم النبي صلی الله عليه وآله وسلم بحنين المنبر، 1 / 32، الرقم: 41، وابن خزيمة في الصحيح، 3 / 104، الرقم: 1777، واللالکائي في اعتقاد أهل السنة، 4 / 798، الرقم: 1472، والمقدسي في الاحاديث المختارة، 4 / 356.357، الرقم: 1519.1520، والعسقلاني في فتح الباري، 2 / 399.

’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ معمول مبارک تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جمعہ کے دن مسجد میں نصب شدہ ایک کجھور کے تنے سے ٹیک لگا کر قیام فرما ہوتے اور لوگوں سے خطاب فرماتے۔ ایک رومی صحابی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: (یا رسول اللہ!) کیا میں آپ کے لئے ایسی چیز تیار نہ کر لاؤں کہ آپ اُس پر بیٹھ جائیں اور یوں محسوس ہو کہ آپ قیام فرما ہیں؟ پس اس نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے منبر تیار کیا۔ اس منبر کے دو درجے تھے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تیسرے درجہ پر جلوہ افروز ہوئے۔ جب حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (پہلی مرتبہ) اس منبر پر جلوہ افروز ہوئے تو وہ کجھور کا تنا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جدائی کی وجہ سے بیل جیسی آواز نکالنے لگا یہاں تک کہ پوری مسجد اُس کی آواز سے غمگین ہوگئی۔ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کی خاطر منبر سے نیچے تشریف لائے۔ اس کے پاس گئے اور اسے اپنے ساتھ لپٹا لیا جبکہ وہ بلبلا رہا تھا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے اپنے ساتھ لگایا تو وہ پر سکون ہو گیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں محمد( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی جان ہے! اگر میں اسے اپنے ساتھ نہ ملاتا تو یہ اللہ کے رسول کے غم (جدائی) کی وجہ سے قیامت تک اسی طرح روتا رہتا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کے بارے میں حکم فرمایا تو اسے دفن کردیاگیا۔‘‘

اِس حدیث کو امام دارمی، ابن خزیمہ نے سندِ صحیح کے ساتھ اور لالکائی نے روایت کیا ہے۔ امام مقدسی نے فرمایا: اِس کی سند صحیح ہے۔

295 / 11. عَنِ ابْنِ بُرَيْدَةَ رضي الله عنهما عَنْ أَبِيْهِ قَالَ: کَانَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم إِذَا خَطَبَ قَامَ فَأَطَالَ الْقِيَامَ فَکَانَ يَشُقُّ عَلَيْهِ قِيَامُه فَأُتِيَ بِجِذْعِ نَخْلَة فَحُفِرَ لَه وَأُقِيْمَ إِلٰی جَنْبِه قَائِمًا لِلنَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم فَکَانَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم إِذَا خَطَبَ فَطَالَ الْقِيَامُ عَلَيْهِ وَغَلَبَهُ اسْتَنَدَ إِلَيْهِ فَاتَّکَأَ عَلَيْهِ فَبَصُرَ بِه رَجُلٌ کَانَ وَرَدَ الْمَدِيْنَةَ فَرَاه قَائِمًا إِلٰی جَنْبِ ذَالِکَ الْجِذْعِ فَقَالَ لِمَنْ يَلِيْهِ مِنَ النَّاسِ: لَوْ أَعْلَمُ أَنَّ مُحَمَّدًا يَحْمَدُنِي فِي شَيئٍ يَرْفُقُ بِه لَصَنَعْتُ لَه مَجْلِسًا يَقُوْمُ عَلَيْهِ فَإِنْ شَاءَ جَلَسَ مَا شَاءَ وَإِنْ شَاءَ قَامَ. فَبَلَغَ ذَالِکَ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم فَقَالَ: اِئْتُوْنِي بِه. فَأَتَوْهُ بِه فَأُمِرَ أَنْ يَصْنَعَ لَه هٰذِهِ الْمَرَاقِيَ الثَّلاَثَ أَوِ الْأَرْبَعَ، هِيَ الانَ فِي مِنْبَرِ الْمَدِيْنَةِ، فَوَجَدَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم فِي ذَالِکَ رَاحَةً فَلَمَّا فَارَقَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم الْجِذْعَ وَعَمَدَ إِلٰی هٰذِهِ الَّتِي صُنِعَتْ لَه جَزِعَ الْجِذْعُ فَحَنَّ کَمَا تَحِنُّ النَّاقَةُ حِيْنَ فَارَقَهُ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم فَزَعَمَ ابْنُ بُرَيْدَةَ رضي الله عنه عَنْ أَبِيْهِ أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم حِيْنَ سَمِعَ حَنِيْنَ الْجِذْعِ رَجَعَ إِلَيْهِ فَوَضَعَ يَدَه عَلَيْهِ وَقَالَ: اِخْتَرْ أَنْ أَغْرِسَکَ فِي الْمَکَانِ الَّذِي کُنْتَ فِيْهِ فَتَکُوْنَ کَمَا کُنْتَ وَإِنْ شِئْتَ أَنْ أَغْرِسَکَ فِي الْجَنَّةِ فَتَشْرَبَ مِنْ أَنْهَارِهَا وَعُيُوْنِهَا فَيَحْسُنَ نَبْتُکَ وَتُثْمِرَ فَيَاْکُلَ أَوْلِيَاءُ اللهِ مِنْ ثَمَرَتِکَ وَنَخْلِکَ فَعَلْتُ. فَزَعَمَ أَنَّه سَمِعَ مِنَ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم وَهُوَ يَقُوْلُ لَه: نَعَمْ، قَدْ فَعَلْتُ مَرَّتَيْنِ. فَسُئِلَ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم فَقَالَ: اِخْتَارَ أَنْ أَغْرِسَه فِي الْجَنَّةِ. رَوَاهُ الدَّارِمِيُّ.

11: أخرجه الدارمي في السنن، المقدمة، باب ما أکرم النبي صلی الله عليه وآله وسلم بحنين المنبر، 1 / 29، الرقم: 32، وأبو نعيم في حلية الاولياء، 9 / 116، والبيهقي في الاعتقاد، 1 / 271، وايضًا في دلائل النبوة، 6 / 68، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 4 / 391، والعسقلاني في فتح الباري، 6 / 603، الرقم: 3393، وابن کثير في شمائل الرسول / 251، والعيني في عمدة القاري، 16 / 129، الرقم: 5853.

’’حضرت ابن بریدہ رضی اللہ عنہما اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب خطاب فرماتے تو کھڑے ہو کر فرماتے اور دوران خطاب کبھی قیام طویل ہو جاتا تو یہ طوالت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طبیعت مقدسہ پر گراں گزرتی، تب ایک کھجور کا خشک تنا ایک گڑھا کھود کر گاڑھ دیا گیا، پس حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب خطاب فرماتے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا قیام طویل اور تھکا دینے والا ہو جاتا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھجور کے اُس خشک تنے کا سہارا لے لیتے اور اس کے ساتھ ٹیک لگا لیتے، پس ایک شخص نے جو کہ مدینہ منورہ میں باہر سے آیا ہوا تھا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس حالت میں دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کھجور کے تنے کے پہلو میں کھڑے ہیں، تو اس شخص نے اپنے آس پاس بیٹھے ہوئے لوگوں سے کہا: اگر مجھے معلوم ہو جائے کہ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میری اس چیز کو پسند فرمائیں گے جو ان کے لئے آرام دہ ہوگی تو میں ان کے لئے ایک ایسی مسند تیار کر دوں، جس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قیام فرما ہو سکیں اور اگر چاہیں تو اُس پر تشریف فرما بھی ہو جائیں۔ یہ بات حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اس شخص کو میرے پاس لے کر آؤ۔ صحابہ کرام اُس شخص کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں لے آئے۔ پس اس شخص کو حکم دے دیا گیا کہ وہ تین یا چار پائیدان والا منبر تیار کر دے، جسے آج ’’منبر المدینہ‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس میں راحت محسوس کی۔ پس جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس خشک کھجور کے تنے سے جدائی اختیار کی اور اس منبر پر جلوہ افروز ہوئے جو ان کے لئے بنایا گیا تھا، تو وہ خشک لکڑی کا تنا غمناک ہوگیا، اور ایسے دھاڑیں مارنے لگا جیسے اونٹنی اپنے (گمشدہ) بچے کے لئے دھاڑیں مارتی ہے۔ حضرت ابن بریدہ رضی اللہ عنہما اپنے والد سے یہ بیان کرتے ہیں کہ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس خشک تنے کی آہ و بکاء سنی تو اس کے پاس تشریف لائے اور اپنا دستِ اقدس اُس پر رکھا اور فرمایا: تم چاہے یہ چیز اختیار کر لو کہ میں تمہیں اسی جگہ میں دوبارہ لگا دوں جہاں تم پہلے تھے، اور تم دوبارہ ایسے ہی سرسبز ہو جاؤ جیسا کہ کبھی تھے، اور اگر چاہو تو (اپنی اس خدمت کے صلہ میں جو تم نے میری کچھ عرصہ کی ہے) تمہیں جنت میں لگا دوں، وہاں تم جنت کے نہروں اور چشموں سے سیراب ہوتے رہو، پھر تمہاری پیداوار بہترین ہو جائے اور تم پھل دینے لگو، اور پھر اولیاء اللہ، تیرا پھل کھائیں۔ راوی کا خیال ہے کہ شاید اُس تنے نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بات سن لی تھی لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُسے دو مرتبہ فرمایا: ہاں میں نے ایسا کر دیا۔ پس حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس بارے میں پوچھا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اس کھجور کے تنے نے یہ اختیار کیا کہ میں اسے جنت میں لگاؤں۔‘‘

اِس حدیث کو امام دارمی نے روایت کیا ہے۔

296 / 12. عَنْ جَابِرٍ رضي الله عنه قَالَ: کَانَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْمُ إِلَی الْخَشَبةِ يَتَوَکَّأُ عَلَيْهَا يَخْطُبُ کُلُّ جُمُعَةٍ حَتّٰی أَتَاهُ رَجُلٌ مِنَ الرُّوْمِ وَقَالَ: إِنْ شِئْتَ جَعَلْتُ لَکَ شَيْئًا إِذَا قَعَدْتَ عَلَيْهِ کُنْتَ کَأَنَّکَ قَائِمٌ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَجَعَلَ لَهُ الْمِنْبَرَ فَلَمَّا جَلَسَ عَلَيْهِ حَنَّتِ الْخَشَبَةُ حَنِيْنَ النَّاقَةِ عَلٰی وَلَدِهَا حَتّٰی نَزَلَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم فَوَضَعَ يَدَه عَلَيْهَا فَلَمَّا کَانَ مِنَ الْغَدِ فَرَأَيْتُهَا قَدْ حُوِّلَتْ فَقُلْنَا: مَا هٰذَا؟ قَالَ: جَاءَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم وَأَبُوْ بَکْرٍ وَعُمَرُ رضي الله عنهما فَحَوَّلُوْهَا. رَوَاهُ أَبُوْ يَعْلٰی وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ: رِجَالُه مُوَثَّقُوْنَ.

297 / 13. وفي رواية: عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضي الله عنه قَالَ: کَانَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْمُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ يُسْنِدُ ظَهْرَه إِلٰی سَارِيَةٍ مِنْ خَشَبٍ أَوْ جِذْعٍ أَوْ نَخْلَةٍ (شکّ المبارک) فَلَمَّا کَثُرَ النَّاسُ قَالَ: ابْنَوْا لِي مِنْبَرًا فَبَنَوْا لَهُ الْمِنْبَرَ فَتَحَوَّلَ إِلَيْهِ حَنَّتِ الْخَشَبَةُ حَنِيْنَ الْوَالِهِ فَمَا زَالَتْ حَتّٰی نَزَلَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم مِنَ الْمِنْبَرِ فَأَتَاهَا فَاحْتَضَنَهَا فَسَکَنَتْ. رَوَاهُ ابْنُ خُزَيْمَةَ.

1213: أخرجه أبو يعلی في المسند، 4 / 128، الرقم: 2177، 2 / 328، الرقم: 1067، وابن خزيمة في الصحيح، 3 / 139، الرقم: 1776، والهيثمي في مجمع الزوائد، 2 / 181.

’’حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر جمعہ کو ایک لکڑی کے پاس کھڑے ہو کر اس کا سہارا لے کر خطاب فرماتے، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس روم کا ایک شخص آیا اور عرض کیا: (یا رسول اللہ!) اگر آپ چاہیں تو میں آپ کے لئے ایک ایسی چیز تیار کر دوں کہ جب آپ اس پر تشریف فرما ہوں تو یوں لگے گویا آپ قیام فرما ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہاں ٹھیک ہے۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ تب اس شخص نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے منبر تیار کر دیا، جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس پر تشریف فرما ہوئے تو اس لکڑی نے (جس سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ٹیک لگا کر خطبہ دیا کرتے تھے) یوں رونا اور تڑپنا شروع کر دیا جیسے اونٹنی اپنے (گمشدہ) بچے کے لئے تڑپتی ہے۔ یہاں تک حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منبر سے نیچے تشریف لائے اور اپنا دستِ شفقت اس پر رکھا، پھر اگلے دن میں نے اسے دیکھا کہ اسے وہاں سے منتقل کر دیا گیا، پس ہم نے کہا: یہ کیا ہے؟ کسی نے کہا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، حضرت ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما تشریف لائے تھے اور اس (لکڑی) کو یہاں سے (اس منبر کے نیچے) منتقل (دفن) کر دیا ہے۔‘‘

اس حدیث کو امام ابو یعلی نے روایت کیا ہے۔ امام ہیثمی نے فرمایا: اِس کے رجال ثقہ ہیں۔

’’اور ایک روایت میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جمعہ کے روز خطبہ کے لئے قیام فرما ہوتے اور اپنی پشت مبارک لکڑی یا کھجور کے خشک تنے یا کھجور کے درخت کے ساتھ بطور سہارا لگا لیتے (اُن میں سے کون سی چیز تھی راوی کو شک گزرا ہے) پھر جب رفتہ رفتہ لوگوں کی تعداد کثیر ہوگئی تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میرے لئے ایک منبر تیار کر دو، صحابہ کرام ث نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے ایک منبر تیار کر دیا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُس کی طرف منتقل ہو گئے تو اُس لکڑی نے اس طرح رونا شروع کیا جس طرح ایک ایسی ماں روتی ہے جس کا بچہ فوت ہو گیا ہو، یہاں تک کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منبر سے نیچے تشریف لائے اور اسے اپنی گود میں لے لیا پھر وہ پر سکون ہو گئی۔‘‘

اِس حدیث کو امام ابن خزیمہ نے روایت کیا ہے۔

298 / 14. عَنِ الْحَسَنِ عليه الرحمة عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضي الله عنه قَالَ: کَانَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم يَخْطُبُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ إِلٰی جَنْبِ خَشَبَةٍ يُسْنِدُ ظَهْرَه إِلَيْهَا. فَلَمَّا کَثُرَ النَّاسُ قَالَ: ابْنُوْا لِي مِنْبَرًا. فَبَنَوْا لَه مِنْبَرًا لَه عَتَبَتَانِ. فَلَمَّا قَامَ عَلَی الْمِنْبَرِ لِيَخْطُبَ، حَنَّتِ الْخَشَبَةُ إِلٰی رَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم . فَقَالَ أَنَسٌ: وَأَنَا فِي الْمَسْجِدِ، فَسَمِعْتُ الْخَشَبَةَ حَنَّتْ حَنِيْنَ الْوَلَدِ. فَمَا زَالَتْ تَحِنُّ، حَتّٰی نَزَلَ إِلَيْهَا رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم، فَاحْتََضَنَهَا فَسَکَنَتْ.

قَالَ: وَکَانَ الْحَسَنُ عليه الرحمة إِذَا حَدَّثَ بِهٰذَا الْحَدِيْثِ بَکَی ثُمَّ قَالَ: يَا عِبَادَ اللهِ، اَلْخَشَبَةُ تَحِنُّ إِلٰی رَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم شَوْقًا إِلَيْهِ لِمَکَانِه مِنَ اللهِ. فَأَنْتُمْ أَحَقُّ أَنْ تَشْتَاقُوْا إِلٰی لِقَائِه.

رَوَاهُ ابْنُ حِبَّانَ وَأَبُوْ يَعْلٰی وَالطَّبَرَانِيُّ.

14: أخرجه ابن حبان في الصحيح، باب ذکر البيان بان الجذع الذي ذکرناه إنما سکن عن حنينه باحتضان المصطفی صلی الله عليه وآله وسلم إياه، 14 / 436، الرقم: 6507، وأبو يعلی في المسند، 5 / 142، الرقم: 2756، والطبراني في المعجم الاوسط، 2 / 108، الرقم: 1409، وابن الجعد في المسند، 1 / 466، الرقم: 3219، والمقدسي في الاحاديث المختارة، 5 / 289، الرقم: 6507، والهيثمي في موارد الظمان، 1 / 151، الرقم: 574، والعسقلاني في فتح الباري، 6 / 602، وابن کثير في شمائل الرسول صلی الله عليه وآله وسلم / 240.

’’حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ نے بیان کیا کہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جمعہ کے دن ایک لکڑی کے ساتھ اپنی پشت مبارک کی ٹیک لگا کر خطاب فرمایا کرتے تھے۔ پھر جب لوگوں کی کثرت ہو گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میرے لئے منبر تیار کرو۔ لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے منبر تیار کیا جس کے دو درجے تھے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خطاب فرمانے کے لیے منبر پر تشریف فرما ہوئے تو وہ (خشک) لکڑی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فراق میں رونے لگی۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں اُس وقت مسجد میں موجود تھا۔ میں نے خود اس (خشک) لکڑی کو بچے کی طرح روتے ہوئے سنا۔ وہ لکڑی مسلسل روتی رہی یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے لئے منبر سے نیچے تشریف لائے اور اسے سینے سے لگایا تو وہ پرسکون ہوئی۔‘‘

’’راوی بیان کرتے ہیں کہ حضرت حسن بصری علیہ الرحمۃ جب یہ حدیث بیان کرتے تو رو پڑتے اور فرماتے: اے اللہ کے بندو! خشک لکڑی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے شوقِ ملاقات میں اور بارگاہِ الٰہی میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقام و مرتبہ کی وجہ سے گریہ کناں ہے۔ پس تم اس بات کے زیادہ حقدار ہو کہ تم اپنے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ملاقات کا (شدید) اشتیاق رکھو۔‘‘ اِس حدیث کو امام ابن حبان، ابو یعلی اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔

299 / 15. عَنْ أَبِي حُمَيْدٍ رضي الله عنه قَالَ: أَقْبَلْنَا مَعَ النَّبِيِ صلی الله عليه وآله وسلم مِنْ غَزْوَةِ تَبُوْکَ حَتّٰی إِذَا أَشْرَفْنَا عَلَی الْمَدِيْنَةِ قَالَ: هٰذِه طَابَةُ وَهٰذَا أُحُدٌ جَبَلٌ يُحِبُّنَا وَنُحِبُّه. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

15: أخرجه البخاري في الصحيح،کتاب المغازي، باب نزول النبي صلی الله عليه وآله وسلم الحجر، 4 / 1610، الرقم: 4160، وأيضًا فيکتاب الزکاة، باب خرص التمر، 2 / 539، الرقم: 1411، ومسلم في الصحيح، کتاب الفضائل، باب في معجزات النبي صلی الله عليه وآله وسلم، 4 / 1785، الرقم: 1392، وأيضًا في کتاب الحج، باب أحد جبل يحبنا ونحبه، 2 / 1011، الرقم: 1392، وابن حبان في الصحيح، 10 / 355، وأحمد بن حنبل في المسند، 5 / 424، الرقم: 23652، وابن أبي شيبة في المصنف، 7 / 423، الرقم: 37006، والبيهقي في السنن الکبری، 6 / 372، الرقم: 12889، وأبو نعيم في دلائل النبوة، 171، الرقم: 212.

’’حضرت ابو حمید ساعدی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم غزوہ تبوک سے واپسی کے دوران حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ تھے۔ جب ہم مدینہ منورہ کے نزدیک پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: یہ طابہ (یعنی مدینہ منورہ) ہے اور یہ اُحد پہاڑ ہے جو ہم سے محبت کرتا ہے اور ہم اس سے محبت کرتے ہیں۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

300 / 16. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضي الله عنه قَالَ: صَعِدَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم إِلٰی أُحُدٍ وَمَعَه أَبُوْ بَکْرٍ وَعُمَرُ وَعُثْمَانُ فَرَجَفَ بِهِمْ فَضَرَبَه بِرِجْلِه وَقَالَ: اثْبُتْ أُحُدُ، فَمَا عَلَيْکَ إِلَّا نَبِيٌّ أَوْ صِدِّيْقٌ، أَوْ شَهِيْدَانِ.

رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَالتِّرْمِذِيُّ وَأَبُوْ دَاوُدَ.

16: أخرجه البخاري في الصحيح،کتاب المناقب، باب مناقب عمر بن الخطاب، 3 / 1348، الرقم: 3483، وأيضًا في باب لو کنت متخذًا خليلاً، 3 / 1344، الرقم: 3472، والترمذي في السنن، کتاب المناقب، باب في مناقب عثمان ص، 5 / 624، الرقم: 3697، وأبو داود في السنن، کتاب السنة، باب في الخلفاء، 4 / 212، الرقم: 4651، وابن حبان في الصحيح، 15 / 280، الرقم: 6865، والنسائي في السنن الکبری، 5 / 43، الرقم: 8135.

’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک روز حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جبلِ اُحد پر تشریف لے گئے اُس وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ حضرت ابو بکر، حضرت عمر اور حضرت عثمان ث تھے۔ ان سب کی موجودگی کی وجہ سے پہاڑ (جوشِ مسرت سے) وجد میں آگیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس پر اپنا قدم مبارک مارا اور فرمایا: اے اُحد ٹھہر جا! تیرے اوپر ایک نبی، ایک صدیق اور دو شہیدوں کے سوا اور کوئی نہیں۔‘‘

اِس حدیث کو امام بخاری، ترمذی اور ابو داود نے روایت کیا ہے۔

301 / 17. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم کَانَ عَلٰی حِرَاءٍ هُوَ وَأَبُوْ بَکْرٍ وَعُمَرُ وَعُثْمَانُ وَعَلِيٌّ وَطَلْحَةُ وَالزُّبَيْرُ فَتَحَرَّکَتِ الصَّخْرَةُ. فَقَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم : اهْدَأْ فَمَا عَلَيْکَ إِلَّا نَبِيٌّ أَوْصِدِّيْقٌ أَوْشَهِيْدٌ.

رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالتِّرْمِذِيُّ وَالنَّسَائِيُّ وَأَحْمَدُ.

17: أخرجه مسلم في الصحيح،کتاب فضائل الصحابة، باب من فضائل طلحة والزبير رضي اللہ عنهما، 4 / 1880، الرقم: 2417، والترمذي في السنن، کتاب المناقب، باب في مناقب عثمان بن عفان ص، 5 / 624، الرقم: 3696، والنسائی في السنن الکبری، 5 / 59، الرقم: 8207، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 419، الرقم: 9420، وابن حبان في الصحيح، 15 / 441، الرقم: 6983، وابن أبي عاصم في السنة، 2 / 621، الرقم: 1441.

’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حرا پہاڑ پر تشریف فرما تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ حضرت ابوبکر، حضرت عمر، حضرت عثمان، حضرت علی، حضرت طلحہ اور حضرت زبیر ث تھے پس وہ پہاڑ (جوشِ مسرت میں) ہلنے لگا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: (اے پہاڑ!) ٹھہر جا، کیونکہ تیرے اُوپر نبی، صدیق اور شہید کے سوا کوئی نہیں ہے۔‘‘ اِس حدیث کو امام مسلم، ترمذی، نسائی اور احمد نے روایت کیا ہے۔

Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved