حضور ﷺ کے اخروی خصائصِ مبارکہ

حضور ﷺ کا تمام انبیاء کرام واُمتوں پر گواہ ہونے کا بیان

بَابٌ فِي کَوْنِه صلی الله عليه واله وسلم شَهِيْدًا عَلٰی جَمِيْعِ الْأَنْبِيَاءِ وَالْأُمَمِ

{حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا تمام انبیاءِ کرام و اُمتوں پر گواہ ہونے کا بیان}

146 /1. عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ رضی الله عنه أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه واله وسلم خَرَجَ يَوْمًا فَصَلّٰی عَلٰی أَهْلِ أُحُدٍ صَلَاتَه عَلَی الْمَيِّتِ تُمَّ انْصَرَفَ إِلَی الْمِنْبَرِ فَقَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم : إِنِّي فَرَطٌ لَکُمْ وَأَنَا شَهِيْدٌ عَلَيْکُمْ وَإِنِّي وَاﷲِ، لَأَنْظُرُ إِلٰی حَوْضِي الْآنَ، وَإِنِّي أُعْطِيْتُ مَفَاتِيْحَ خَزَائِنِ الْأَرْضِ، أَوْ مَفَاتِيْحَ الْأَرْضِ، وَإِنِّي وَاﷲِ، مَا أَخَافُ عَلَيْکُمْ أَنْ تُشْرِکُوْا بَعْدِي وَلٰـکِنْ أَخَافُ عَلَيْکُمْ أَنْ تَتَنَافَسُوْا فِيْهَا. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

1: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الجنائز، باب الصلاة علی الشهيد، 1 /451، الرقم: 1279، وأيضًا في کتاب المغازي، باب أحد يحبنا ونحبه، 4 /1498، الرقم: 3857، وأيضًا في کتاب المناقب، باب علامات النبوة في الإسلام، 3 /1317، الرقم: 3401، وأيضًا في کتاب الرّقاق، باب ما يحذر من زهرة الدّنيا والتّنافس فيها، 5 /2361، الرقم: 6062، ومسلم في الصحيح، کتاب الفضائل، باب إثبات حوض نبينا صلی الله عليه واله وسلم وصفاته، 4 /1795، الرقم: 2296، وأحمد بن حنبل في المسند، 4 /153، والأصبهاني في دلائل النبوة، 1 /191، الرقم: 248.

’’حضرت عقبہ بن عامرص سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم ایک روز (مدینہ طیبہ سے اُحد کی طرف) تشریف لے گئے۔ تو شہداءِ اُحد (کے مزارات پر) نماز پڑھی جیسے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم میت پر نماز پڑھتے تھے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم منبر پر جلوہ افروز ہوئے اور فرمایا: بے شک میں تمہارا پیش رو اور (روزِ قیامت) تم پر گواہ ہوں۔ بیشک اﷲ ربّ العزت کی قسم! میں اپنے حوض کو اِس وقت بھی دیکھ رہا ہوں اور بیشک مجھے زمین کے خزانوں کی کنجیاں (یا فرمایا: روئے زمین کی کنجیاں) عطا کر دی گئی ہیں۔ اﷲ ربّ العزت کی قسم! مجھے یہ ڈر نہیں کہ میرے بعد تم شرک کرنے لگو گے بلکہ مجھے ڈر اِس بات کا ہے کہ تم دنیا کی محبت میں اس کے حصول کے لیے ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے لیے کوشاں ہو جاؤ گے۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

147 /2. عَنْ عَبْدِ اﷲِ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم : اِقْرَأْ عَلَيَّ. قَالَ: قُلْتُ: أَقْرَأُ عَلَيْکَ وَعَلَيْکَ أُنْزِلَ؟ قَالَ: إِنِّي أَشْتَهِي أَنْ أَسْمَعَه مِنْ غَيْرِي. قَالَ: فَقَرَأْتُ النِّسَاءَ حَتّٰی إِذَا بَلَغْتُ: {فَکَيْفَ إِذَا جِئْنَا مِنْ کُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيْدٍ وَّجِئْنَا بِکَ عَلٰی هٰـؤُلَاءِ شَهِيْدًا} ]النساء، 4: 41[. قَالَ لِي: کُفَّ أَوْ أَمْسِکْ فَرَأَيْتُ عَيْنَيْهِ تَذْرِفَانِ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

2: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب فضائل القرآن، باب البکاء عند قرائة القرآن، 4 /1927، الرقم: 4768، وأيضًا في کتاب تفسير القرآن، باب قوله تعالی: فکيف إذا جئنا من کل أمة بشهيد وجئنا بک علی هولاء شهيدا، 4 /1673، الرقم: 4306، ومسلم في الصحيح، کتاب صلاة المسافرين وقصرها، باب فضل استماع القرآن وطلب القرائة من حافظه للاستماع، 1 /551، الرقم: 800، والنسائي في السنن الکبری، 5 /29، الرقم: 8079، والطبراني في المعجم الکبير، 9 /80، الرقم: 8459، ، والبيهقي في شعب الإيمان، 2 /363، الرقم: 2052، وابن منصور في السنن، 1 /212، الرقم: 51.

’’حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے انہیں فرمایا: مجھے قرآن مجید پڑھ کر سناؤ۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا:(یا رسول اللہ !) میں آپ کو قرآن پڑھ کر سناؤں حالانکہ قرآن تو نازل ہی آپ پر ہوا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: میری یہ خواہش ہے کہ میں اپنے سوا کسی اور سے (قرآن) سنوں۔ حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ پھر میں نے سورہ نساء کی تلاوت کی یہاں تک کہ جب میں اِس آیت مبارکہ پر پہنچا: {فَکَيْفَ اِذَا جِئْنَا مِنْ کُلِّ اُمَّةٍ بِشَهِيْدٍ وَجِئْنَا بِکَ عَلٰی هٰـؤُلَاءِ شَهِيْدًا} ’’پھر اس دن کیا حال ہوگا جب ہم ہر امت سے ایک گواہ لائیں گے اور (اے حبیب!) ہم آپ کو ان سب پر گواہ لائیں گے۔‘‘ تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: رک جاؤ، پس میں نے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی چشمانِ اقدس کو دیکھا تو وہ آنسو بہا رہی تھیں۔‘‘

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

148 /3. وفي رواية عنه: قَالَ: قَالَ لِي رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم : اِقْرَأْ عَلَيَّ فَقُلْتُ: أَقْرَأُ عَلَيْکَ وَعَلَيْکَ أُنْزِلَ؟ فَقَالَ: إِنِّي أُحِبُّ أَنْ أَسْمَعَه غَيْرِي، فَافْتَتَحْتُ، فَقَرأْتُ سُوْرََةَ النِّسَاءِ، حَتّٰی بَلَغْتُ: {فَکَيْفَ إِذَا جِئْنَا مِنْ کُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيْدٍ، وَجِئْنَا بِکَ عَلٰی هٰـؤُلَاءِ شَهِيْدًا} ]النساء، 4: 41[، فَاغْرَوْرَقَتْ عَيْنَاه صلی الله عليه واله وسلم . فَأَمْسَکْتُ، فَقَالَ لِيْ: سَلْ تُعْطَه.

رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَالْبَزَّارُ.

3: أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 2 /164، الرقم: 1587، وأيضًا في المعجم الصغير، 1 /136، الرقم: 204، والبزار في المسند، 4 /322، 346، الرقم: 1510، 1543، وأيضًا، 5 /9، الرقم: 1564.

’’اور ایک روایت میں حضرت عبد اﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ایک مرتبہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے مجھے ارشاد فرمایا: مجھے قرآن سناؤ، میں نے عرض کیا: (آقا!) میں آپ کو (قرآن) سنائوں حالانکہ یہ قرآن تو آپ پر نازل ہوا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: میں چاہتا ہوں کہ کسی دوسرے سے قرآن مجید سنوں۔ ( حضرت عبد اﷲ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ) میں نے قرآت شروع کی اور میں نے سورہ نساء کی تلاوت کی یہاں تک کہ میں جب اِس آیت مبارکہ پر پہنچا: {فَکَيْفَ اِذَا جِئْنَا مِنْ کُلِّ اُمَّةٍ بِشَهِيْدٍ وَجِئْنَا بِکَ عَلٰی هٰـؤُلَاءِ شَهِيْدًا}’’پھر اس دن کیا حال ہوگا جب ہم ہر اُمت سے ایک گواہ لائیں گے اور (اے حبیب!) ہم آپ کو ان سب پر گواہ لائیں گے‘‘۔ تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی چشمانِ اقدس آب ریز ہو گئیں، تو میں (تلاوتِ قرآن سے) رک گیا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے مجھے فرمایا: مانگو، تمہیں عطا کیا جائے گا۔‘‘ اِس حدیث کو امام طبرانی اور بزار نے روایت کیا ہے۔

149 /4. عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم : يَجِيئُ نُوْحٌ وَأُمَّتُه فَيَقُوْلُ اﷲُ تَعَالٰی: هَلْ بَلَّغْتَ؟ فَيَقُوْلُ: نَعَمْ أَي رَبِّ، فَيَقُوْلُ لِأُمَّتِه: هَلْ بَلَّغَکُمْ؟ فَيَقُوْلُوْنَ: لَا مَا جَائَنَا مِنْ نَبِيٍّ فَيَقُوْلُ لِنُوْحٍ: مَنْ يَشْهَدُ لَکَ؟ فَيَقُوْلُ: مُحَمَّدٌ صلی الله عليه واله وسلم وَأُمَّتُه فَنَشْهَدُ أَنَّه قَدْ بَلَّغَ وَهُوَ قَوْلُه جَلَّ ذِکْرُه: {وَکَذَالِکَ جَعَلْنَاکُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِتَکُوْنُوْا شُهَدَاءَ عَلَی النَّاسِ} [البقرة،2:143]. وَالْوَسَطُ الْعَدْلُ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَالتِّرْمِذِيُّ.

150 /5. وَذَکَرَ الْعَسْقَـلَانِيُّ فِي ’الْفَتْحِ (8 /172)‘: فَأَخْرَجَ ابْنُ أَبِي حَاتِمٍ بِسَنَدٍ جَيِّدٍ عَنْ أَبِي الْعَالِيَةِ عَنْ أُبَيِّ بْنِ کَعْبٍ رضی الله عنه فِي هٰذِهِ الْأيَةِ قَالَ: لِتَکُوْنُوْا شُهَدَاءَ وَکَانُوْا شُهَدَاءَ عَلَی النَّاسِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ کَانُوْا شُهَدَاءَ عَلٰی قَوْمِ نُوْحٍ وَقَوْمِ هُوْدٍ وَقَوْمِ صَالِحٍ وَقَوْمِ شُعَيْبٍ وَغَيْرِهِمْ أَنَّ رُسُلَهُمْ بَلَّغَتْهُمْ وَأَنَّهُمْ کَذَّبُوْا رُسُلَهُمْ.

4-5: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب أحاديث الأنبياء، باب قول اﷲ تعالی: إنّا أرسلنا نوحا إلی قومه الخ، 3 /1215، الرقم: 3161، وأيضًا في کتاب تفسير القرآن، باب قوله تعالی: وکذالک جعلناکم أمة وسطا لتکونوا شهداء علی الناس الخ، 4 /1632، الرقم: 4217، وأيضًا في کتاب الاعتصام بالکتاب والسنة، باب قوله تعالی: وکذلک جعلناکم أمة وسطا، 6 /2675، الرقم: 6917، والترمذي في السنن، کتاب تفسير القرآن، باب ومن سورة البقرة، 5 /207، الرقم: 2961، وقال: هذا حديث حسن صحيح، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 /32، الرقم: 11301، وابن أبي شيبة في المصنف، 6 /310، الرقم: 31684، وابن حبان في الصحيح، 14 /397، الرقم: 6477، وأبو يعلی في المسند، 2 /397، الرقم: 1173، والبيهقي في شعب الإيمان، 1 /248، الرقم: 264.

’’حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: جب حضرت نوح اور اُن کی اُمت بارگاہ خداوندی میں حاضر ہوں گے تو اللہ تعالیٰ (حضرت نوح سے) دریافت فرمائے گا، کیا آپ نے میرے احکام پہنچا دیئے تھے؟ وہ جواب دیں گے: ہاں اے میرے ربّ! پھر اُن کی اُمت سے فرمائے گا: کیا نوح نے تم تک میرے احکام پہنچا دیئے تھے؟ وہ جواب دیں گے: نہیں، بلکہ ہمارے پاس تو کوئی بھی نبی نہیں آیا تھا۔ اللہ تعالیٰ حضرت نوح سے فرمائے گا، کیا تمہاری گواہی دینے والا کوئی ہے؟ وہ عرض کریں گے: حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم اور اُن کی اُمت (میری گواہ ہے)۔ پس ہم یہ گواہی دیں گے کہ یقینا (حضرت نوح ) نے احکام پہنچا دیئے تھے اور یہی ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’’اور (اے مسلمانو!) اِسی طرح ہم نے تمہیں (اعتدال والی) بہتر اُمت بنایا تاکہ تم لوگوں پر گواہ بنو اور (ہمارا یہ برگزیدہ) رسول ( صلی اللہ علیہ والہ وسلم ) تم پر گواہ ہوں۔ وسط سے مراد عدل ہے۔‘‘ اِسے امام بخاری اور ترمذی نے روایت کیا ہے۔

’’امام عسقلانی نے فتح الباري میں بیان فرمایا: ’’امام ابن ابی حاتم نے عمدہ سند کے ساتھ حضرت ابو العالیہ سے، اُنہوں نے حضرت اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ سے اِس آیت کی تفسیر میں بیان کیا ہے (لتکونوا شھداء) کا مطلب ہے کہ اُمت محمدیہ کے لوگ روزِ قیامت تمام لوگوں پر گواہ ہوں گے، قوم نوح، قوم ھود، قوم صالح، قوم شعیب اور اُن کے علاوہ دوسرے رسولوں کی قوموں پر گواہ ہوں گے (اور کہیں گے) کہ اُن کے رسولوں نے اُن تک اﷲ تعالیٰ کاپیغام پہنچایا، اور یہ کہ اُنہوں نے اپنے رسولوں کو جھٹلایا۔‘‘

151 /6. عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم : يَجِيئُ النَّبِيُّ وَمَعَهُ الرَّجُـلَانِ وَيَجِيئُ النَّبِيُّ وَمَعَهُ الثَّـلَاثَةُ وَأَکْثَرُ مِنْ ذَالِکَ وَأَقَلُّ فَيُقَالُ لَه: هَلْ بَلَّغْتَ قَوْمَکَ؟ فَيَقُوْلُ: نَعَمْ، فَيُدْعٰی قَوْمُه فَيُقَالُ: هَلْ بَلَّغَکُمْ فَيَقُوْلُوْنَ: لَا. فَيُقَالُ: مَنْ يَشْهَدُ لَکَ؟ فَيَقُوْلُ: مُحَمَّدٌ وَأُمَّتُه فَتُدْعٰی أُمَّةُ مُحَمَّدٍ فَيُقَالُ: هَلْ بَلَّغَ هٰذَا؟ فَيَقُوْلُوْنَ: نَعَمْ، فَيَقُوْلُ: وَمَا عِلْمُکُمْ بِذَالِکَ؟ فَيَقُوْلُوْنَ: أَخْبَرَنَا نَبِيُنَا بِذَالِکَ أَنَّ الرُّسُلَ قَدْ بَلَّغُوْا فَصَدَّقْنَاهُ قَالَ: فَذَالِکُمْ قَوْلُه تَعَالٰی: {وَکَذَالِکَ جَعَلْنَاکُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِتَکُوْنُوْا شُهَدَاءَ عَلَی النَّاسِ وَيَکُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَيْکُمْ شَهِيْدًا} [البقرة،2:143]. رَوَاهُ ابْنُ مَاجَه وَالنَّسَائِيُّ.

152 /7. وَقَالَ أَبُوْ حَاتِمٍ الرَّازِيُّ فِي ’الْجَرْحِ وَالتَّعْدِيْلِ (2 /3)‘: عَنْ أَبِي الْعَالِيَةِ لِتَکُوْنُوْا شُهَدَاءَ عَلَی النَّاسِ يَقُوْلُ: لِتَکُوْنُوْا شُهَدَاءَ عَلَی الْأُمَمِ الَّتِي خَلَتْ قَبْلَکُمْ بِمَا جَائَتْهُمْ بِه رُسُلُهُمْ وَبِمَا کَذَّبُوْهُمْ…عَنِ الْحَسَنِ قَوْلُه: لِتَکُوْنُوْا شُهَدَاءَ عَلَی النَّاسِ أَي عَدْلًا عَلَی النَّاسِ.

6-7: أخرجه ابن ماجه في السنن، کتاب الزهد، باب صفة أمّة محمد صلی الله عليه واله وسلم ، 2 /1432، الرقم: 4284، والنسائي في السنن الکبری، 6 /292، الرقم: 11007، والبيهقي في شعب الإيمان، 1 /248، الرقم: 264، والعسقلاني في فتح الباري، 8 /172، الرقم: 4217، والزيلعي في تخريج الأحاديث والآثار، 1 /93، الرقم: 73، والمبارکفوري في تحفة الأحوذي، 8 /239.

’’حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا: قیامت کے دن کچھ نبی اس حال میں تشریف لائیں گے کہ اُن کے ساتھ دو آدمی ہوں گے اور کچھ نبی تشریف لائیں گے کہ ان کے ساتھ تین لوگ ہوں گے۔ اور کسی کے ساتھ اس سے زیادہ یا اس سے کم اور اُس نبی سے دریافت کیا جائے گا: کیا آپ نے اپنی قوم کو میرا پیغام پہنچا دیا تھا۔ وہ عرض کرے گا: جی ہاں، تو اُن کی قوم کو طلب کیا جائے گا اور اُس سے پوچھا جائے گا: کیا اِنہوں نے تمہیں میرا پیغام پہنچایا تھا تو وہ قوم جواب دے گی: نہیں، (اِس نے ہمیں کوئی پیغام نہیں پہنچایا۔) اُس نبی سے دریافت کیا جائے گا: تمہارے حق میں کون گواہی دیتا ہے؟ تو وہ جواب دے گا: محمد ( صلی اللہ علیہ والہ وسلم ) اور اُن کی اُمت۔ تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی اُمت کو طلب کیا جائے گا اور اُن سے دریافت کیا جائے گا: کیا اِس نبی نے میرا پیغام پہنچایا تھا؟ اُمتِ محمدیہ جواب دے گی: جی ہاں۔ تو اﷲ تبارک وتعالیٰ فرمائے ہوگا: تمہیں اس کا علم کیسے ہوا ؟اُمتِ محمدیہ عرض کرے گی: ہمارے نبی نے ہمیں اِس بات کی خبر دی تھی کہ تمام پیغمبروں نے اپنی اپنی قوم کو (اﷲ تبارک وتعالیٰ کا)پیغام پہنچایا ہے تو ہم نے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی تصدیق کی۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا: یہی تمہارے لیے ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’’اور (اے مسلمانو!) اِسی طرح ہم نے تمہیں (اعتدال والی) بہتر اُمت بنایا تاکہ تم لوگوں پر گواہ بنو اور (ہمارا یہ برگزیدہ) رسول ( صلی اللہ علیہ والہ وسلم ) تم پر گواہ ہوں۔‘‘

اسے امام ابن ماجہ اور نسائی نے روایت کیا ہے۔

’’اور امام ابو حاتم رازی نے الجرح و التعدیل میں حضرت ابو عالیہ سے روایت کیا ہے، ’لِتَکُوْنُوْا شُهَدَاءَ عَلَی النَّاسِ‘ سے مراد یہ ہے کہ تم اپنے سے پہلی امتوں پر گواہ ہو جاؤ جو کچھ ان کے پاس ان کے رسول لے کر تشریف لائے اور یہ کہ انہوں نے اپنے رسولوں کو جھٹلایا۔ حضرت حسن رضی اللہ عنہ سے اﷲ تعالیٰ کے فرمان ’لِتَکُوْنُوْا شُهَدَاءَ عَلَی النَّاسِ‘ کی تفسیر میں مروی ہے کہ اس سے مراد لوگوں پر عادل گواہ ہونا ہے۔‘‘

153 /8. عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم : يُدْعٰی نُوْحٌ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَيُقَالُ لَه: هَلْ بَلَّغْتَ؟ فَيَقُوْلُ: نَعَمْ فَيُدْعٰی قَوْمُه فَيُقَالُ لَهُمْ: هَلْ بَلَّغَکُمْ؟ فَيَقُوْلُوْنَ: مَا أَتَانَا مِنْ نَذِيْرٍ أَوْ مَا أَتَانَا مِنْ أَحَدٍ قَالَ: فَيُقَالُ لِنُوْحٍ: مَنْ يَشْهَدُ لَکَ؟ فَيَقُوْلُ: مُحَمَّدٌ وَأُمَّتُه قَالَ: فَذَالِکَ قَوْلُه:{وَکَذَالِکَ جَعَلْنَاکُمْ أُمَّةً وَسَطًا} [البقرة، 2:143] قَالَ: الْوَسَطُ الْعَدْلُ قَالَ: فَيُدْعَوْنَ فَيَشْهَدُوْنَ لَه بِالْبَـلَاغِ قَالَ: ثُمَّ أَشْهَدُ عَلَيْکُمْ. رَوَاهُ أَحْمَدُ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ.

8: أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 3 /32، الرقم: 11301، وابن أبي شيبة في المصنف، 6 /310، الرقم: 31684، وابن کثير في تفسير القرآن، 1 /191.

’’حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: روزِ قیامت حضرت نوح کو پکارا جائے گا اور اُنہیں کہا جائے گا: کیا آپ نے (اپنی قوم کو اﷲ تعالیٰ کے احکام) پہنچا دیئے تھے؟ تو وہ کہیں گے: ہاں، پھر ان کی قوم کو پکارا جائے گا اور انہیں کہا جائے گا کیا تمہیں نوح نے اﷲ تعالیٰ کے احکام پہنچا دیئے تھے؟ تو وہ کہیں گے: ہمارے پاس کوئی ڈرانے والا نہیں آیا یا ہمارے پاس کوئی نہیں آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: پھر نوح سے کہا جائے گا: آپ کے حق میں کون گواہی دیتا ہے؟ تو وہ کہیں گے محمد ( صلی اللہ علیہ والہ وسلم ) اور آپ کی اُمت۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: یہی وہ اﷲ تعالیٰ کا فرمان ہے: ’’اور (اے مسلمانو!) اسی طرح ہم نے تمہیں (اعتدال والی) بہتر اُمت بنایا۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: وسط سے مراد عدل ہے۔ پھر فرمایا: پس میری اُمت کے لوگوں کو بلایا جائے گا تو وہ حضرت نوح کی تبلیغ کی گواہی دیں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: پھر میں تم پر گواہی دوں گا۔‘‘ اِسے امام اَحمد اور ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔

158 /9. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي اﷲ عنهما فِي قَوْلِه: {رَبَّنَا اٰمَنَّا فَاکْتُبْنَا مَعَ الشّٰهِدِيْنَo} [المائدة، 5:83] قَالَ: مَعَ مُحَمَّدٍ صلی الله علیه واله وسلم وَأُمَّتِه فَإِنَّهُمْ شَهِدُوْا لَه أَنَّه قَدْ بَلَّغَ وَشَهِدُوْا لِلرَّجُلِ أَنَّهُمْ قَدْ بَلَّغُوْا.

رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَابْنُ جَرِيْرٍ وَابْنُ أَبِي حَاتِمٍ.

9: أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 11 /279، الرقم: 11732، وابن جرير الطبري في جامع البيان، 7 /6، وابن أبي حاتم في تفسيره، 4 /1185، الرقم: 6682، والسيوطي في الدر المنثور، 2 /224، وأيضًا، 3 /139.

’’حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما اﷲ تعالیٰ کے فرمان مبارک: ’’اے ہمارے ربّ! ہم (تیرے بھیجے ہوئے حق پر) ایمان لائے ہیں سو تو ہمیں (بھی حق کی) گواہی دینے والوں کے ساتھ لکھ دے‘‘ کی تفسیر میں بیان کرتے ہیں کہ اِس سے مراد محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم اور اُن کی اُمت کے ساتھ لکھ دے کہ بے شک وہ آپ کے لیے گواہی دیں گے کہ آپ نے اﷲ تعالیٰ کے احکام پہنچا دئیے اور وہ اُس شخص کے لئے بھی گواہی دیں گے کہ انہوں نے اﷲ تعالیٰ کے احکام پہنچا دیے۔‘‘

اِسے امام طبرانی، ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے روایت کیا ہے۔

159 /10. عَنْ حَيَانَ بْنِ أَبِي جَبَلَةَ يُسْنِدُه قَالَ: أَوَّلُ مَنْ يُدْعٰی يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِسْرَافِيْلُ فَيَقُوْلُ اﷲُ: هَلْ بَلَّغْتَ عَهْدِي فَيَقُوْلُ: نَعَمْ رَبِّي، قَدْ بَلَّغْتُه جِبْرَائِيْلَ فَيُدْعٰی جِبْرَائِيْلُ فَيُقَالُ: هَلْ بَلَّغَکَ إِسْرَافِيْلَ عَهْدِي فَيَقُوْلُ: نَعَمْ، فَيُخَلّٰی عَنْ إِسْرَافِيْلَ فَيَقُوْلُ لِجِبْرَائِيْلَ: مَا صَنَعْتَ بِعَهْدِي؟ فَيَقُوْلُ: يَا رَبِّي، بَلَّغْتُ الرُّسُلَ فَيُدْعَی الرُّسُلُ فَيُقَالُ لَهُمْ: هَلْ بَلَغَّکُمْ جَبْرِيْلُ عَهْدِي؟ فَيَقُوْلُوْنَ: نَعَمْ، فَيُخَلّٰی عَنْ جَبْرِيْلَ فَيُقَالُ لِلرُّسُلِ: هَلْ بَلَّغْتُمْ عَهْدِي؟ فَيَقُوْلُوْنَ: نَعَمْ، بَلَّغْنَا الْأُمَمَ فَتُدْعَی الْأُمَمُ فَيُقَالُ لَهُمْ: هَلْ بَلَّغَتْکُمُ الرُّسُلُ عَهْدِي؟ فَمُکَذِّبٌ وَمُصَدِّقٌ فَيَقُوْلُ الرُّسُلُ: لَنَا عَلَيْهِمْ شُهَدَاءُ فَيَقُوْلُ: مَنْ؟ فَيَقُوْلُوْنَ: أُمَّةُ مُحَمَّدٍ صلی الله عليه واله وسلم فَتُدْعٰی أُمَّةُ مُحَمَّدٍ فَيُقَالُ لَهُمْ: أَتَشْهَدُوْنَ أَنَّ الرُّسُلَ قَدْ بَلَّغَتِ الْأُمَمَ؟ فَيَقُوْلُوْنَ: نَعَمْ، فَتَقُوْلُ الْأُمَمُ: يَا رَبَّنَا، کَيْفَ يَشْهَدُ عَلَيْنَا مَنْ لَمْ يُدْرِکْنَا فَيَقُوْلُ اﷲُ: کَيْفَ تَشْهَدُوْنَ عَلَيْهِمْ وَلَمْ تُدْرِکُوْهُمْ فَيَقُوْلُوْنَ: يَا رَبَّنَا، أَرْسَلْتَ إِلَيْنَا رَسُوْلًا وَأَنْزَلْتَ إِلَيْنَا کِتَابًا وَقَصَصْتَ عَلَيْنَا فِيْهِ أَنْ قَدْ بَلَّغُوْا فَذَالِکَ قَوْلُ اﷲِ: {وَکَذَالِکَ جَعَلْنَاکُمْ أُمَّةً وَّسَطًا لِتَکُوْنُوْا شُهَدَاءَ عَلَی النَّاسِ وَيَکُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَيْکُمْ شَهِيْدًا} [البقرة،2:143].

رَوَاهُ ابْنُ الْمُبَارَکِ وَابْنُ جَرِيْرٍ وَالسُّيُوْطِيُّ.

10: أخرجه ابن المبارک في الزهد، 1 /557، الرقم: 1598، وابن جرير الطبري في جامع البيان، 2 /10، والسيوطي في الدر المنثور، 1 /352.

’’حضرت حیان بن ابی جبلہ اپنی سند کے ساتھ بیان کرتے ہیں کہ پہلا شخص جسے روزِ قیامت بلایا جائے گا وہ اسرافیل ہوں گے۔ اﷲ تعالیٰ فرمائے گا: کیا تو نے میرا عہد پہنچا دیا تو وہ کہیں گے: ہاں میرے رب میں نے وہ عہد جبرائیل کو پہنچایا۔ پھر جبرائیل کو بلایا جائے گا اور اُنہیں کہا جائے گا: کیا تمہیں اسرافیل میں میرا عہد پہنچایا؟ وہ عرض کریں گے: ہاں، پس اُنہیں چھوڑ دیا جائے گا، پھر اﷲ تعالیٰ جبرائیل سے دریافت فرمائے گا: تو نے میرے عہد کا کیا کیا؟ وہ عرض کریں گے: اے میرے ربّ! میں نے وہ عہد رسولوں کو پہنچایا تھا۔ پھر رسولوں کو بلایا جائے گا اور اُنہیں کہا جائے گا: کیا جبرائیل نے تم تک میرا عہد پہنچایا؟ تو وہ کہیں گے: ہاں، پھر جبرائیل کو چھوڑ دیا جائے گا۔ پھر رسولوں سے پوچھا جائے گا: کیا تم نے میرا عہد پہنچا دیا تھا؟ وہ عرض کریں گے: ہاں ہم نے (اپنی اپنی) اُمتوں تک پہنچا دیا تھا۔ پھر اُمتوں کو بلایا جائے گا اور اُن سے کہا جائے گا: کیا (میرے) رسولوں نے تم تک میرا عہد پہنچایا تھا؟ تو اُن میں سے کچھ جھٹلانے والے ہوں گے اور کچھ تصدیق کرنے والے۔ پس انبیاء و رُسل عرض کریں گے: (مولا!) ہمارے پاس اِن کے خلاف گواہ ہیں۔ اﷲ تعالیٰ فرمائے گا: کون (ہیں)؟ وہ عرض کریں گے: اُمتِ محمدیہ۔ پھر اُمتِ محمدیہ کو بلایا جائے گا اور اُنہیں کہا جائے گا: کیا تم گواہی دیتے ہو کہ تمام انبیاء و رُسل نے اِن اُمتوں تک میرے احکام پہنچا دئیے تھے؟ اُمتِ محمدیہ کے افراد عرض کریں گے: ہاں، پس (سابقہ) اُمتیں عرض کریں گی: اے ربّ! ہم پر وہ شخص کیسے گواہی دے سکتا ہے جس نے ہمارا زمانہ ہی نہیں پایا؟ تو اﷲ تعالیٰ فرمائے گا: تم اِن پر کیسے گواہی دے رہے ہو حالانکہ تم نے تو ان کا زمانہ ہی نہیں پایا؟ وہ عرض کریں گے: اے ربّ! تو نے ہماری طرف رسول مکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو مبعوث فرمایا اور ہماری طرف کتاب نازل فرمائی اور اُس میں تو نے سابقہ اُمم کے قصص بیان فرمائے کہ اِن رسولوں نے اﷲ تعالیٰ کے احکام اپنی اُمتوں تک پہنچا دئیے تھے اور یہی اﷲ تعالیٰ کا فرمان ہے: ’’اور (اے مسلمانو!) اِسی طرح ہم نے تمہیں (اعتدال والی) بہتر اُمت بنایا تاکہ تم لوگوں پر گواہ بنو اور (ہمارا یہ برگزیدہ) رسول ( صلی اللہ علیہ والہ وسلم ) تم پر گواہ ہوں۔‘‘

اِسے امام ابن مبارک، ابن جریر طبری اور سیوطی نے روایت کیا ہے۔

160 /11. عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اﷲِ رضي اﷲ عنهما أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله علیه واله وسلم قَالَ: إِنِّي وَأُمَّتِي لَعَلٰی کَوْمٍ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مُشْرِفِيْنَ عَلَی الْخَلَائِقِ مَا أَحَدٌ مِنَ الْأُمَمِ إِلَّا وَدَّ أَنَّه مِنْهَا أَيَتُهَا الْأُمَّةُ وَمَا مِنْ نَبِيٍّ کَذَّبَه قَوْمُه إِلَّا نَحْنُ شُهَدَاؤُه يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَنَّه قَدْ بَلَّغَ رِسَالَاتِ رَبِّه وَنَصَحَ لَهُمْ قَالَ: وَيَکُوْنُ الرَّسُوْلُ عَلَيْکُمْ شَهِيْدًا. رَوَاهُ ابْنُ جَرِيْرٍ وَالدَّيْلَمِيُّ وَابْنُ کَثِيْرٍ وَالسُّيُوْطِيُّ.

11: أخرجه ابن جرير الطبري في جامع البيان، 2 /8، والديلمي في مسند الفردوس، 1 /76، الرقم: 231، وابن کثير في تفسير القرآن، 1 /192، والسيوطي في الدر المنثور، 1 /349، والعسقلاني في فتح الباري، 8 /172، والمبارکفوري في تحفة الأحوذي، 8 /239.

’’حضرت جابر بن عبد اﷲ رضی اﷲ عنہما سے مروی ہے کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: بے شک میں اور میری اُمت روزِ قیامت ایک ٹیلے پر ہوں گے اور تمام مخلوقات کو تک رہے ہوں گے، اور امتوں میں سے کوئی شخص بھی ایسا نہیں ہوگا۔ جو یہ نہ چاہ رہا ہو کہ وہ بھی اس امت سے ہوتا۔ اے اُمت (مصطفویہ)! اور کوئی نبی ایسا نہیں ہو گا جس کی قوم اسے جھٹلائے گی مگر یہ کہ روزِ قیامت ہم اُس نبی کے گواہ ہوں گے کہ اس نے اپنے ربّ ذو الجلال اﷲ تعالیٰ کے احکام پہنچا دئیے تھے اور اُنہیں نصیحت کی تھی۔اﷲ ربّ العزت نے فرمایا: اور (ہمارا یہ برگزیدہ) رسول تم (سب) پر گواہ ہو گا۔‘‘

اِسے امام ابن جریر طبری، دیلمی، ابن کثیر اور سیوطی نے روایت کیا ہے۔

161 /12. وفي رواية: عَنْ عَطِيَةَ کُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ، قَالَ: خَيْرُ النَّاسِ لِلنَّاسِ شَهِدْتُمْ لِلنَّبِيِّيْنَ الَّذِيْنَ کَفَرَ بِهِمْ قَوْمُهُمْ بِالْبَـلاَغِ. رَوَاهُ ابْنُ أَبِي حَاتِمٍ وَالسُّيُوْطِيُّ.

12: أخرجه ابن أبي حاتم في تفسير القرآن العظيم، 3 /733، والسوطي في الدر المنثور، 2 /295.

’’ایک روایت میں حضرت عطیہ سے مروی ہے کہ {کُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ} سے مراد ہے: تم لوگوں کے لیے بہترین لوگ ہو، تم ان انبیاءِ کرام کی گواہی دو گے جن کی قومیں اُنہیں جھٹلا رہی ہوں گی۔‘‘

اِسے امام ابن ابی حاتم اور سیوطی نے روایت کیا ہے۔

162 /13. عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ فَضَالَةَ الظَّفَرِيِّ رضی الله عنه وَکَانَ مِمَّنْ صَحِبَ النَّبِيَّ صلی الله عليه واله وسلم أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم أَتَاهُمْ فِي مَسْجِدِ بَنِي ظُفُرٍ فَجَلَسَ عَلَی الصَّخْرَةِ الَّتِي فِي مَسْجِدِ بَنِيْ ظُفُرٍ الْيَوْمَ وَمَعَه عَبْدُ اﷲِ بْنُ مَسْعُوْدٍ وَمُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ رضي اﷲ عنهما وَأُنَاسٌ مِنْ أَصْحَابِه فَأَمَرَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم قَارِئًا فَقَرَأَ حَتّٰی أَتٰی عَلٰی هٰذِهِ الآيَةَ: {فَکَيْفَ إِذَا جِئْنَا مِنْ کُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيْدٍ وَّجِئْنَا بِکَ عَلٰی هٰـؤُلَاءِ شَهِيْدًا} ]النساء، 4: 41[، فَبَکٰی رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم حَتَّی اضْطَرَبَ لَحْيَاه فَقَالَ: أَيْ رَبِّ، شَهِدْتَ عَلٰی مَنْ أَنَا بَيْنَ ظَهْرَيْهِ فَکَيْفَ بَمَنْ لَمْ أَرَ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَابْنُ قَانِعٍ. وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ: رِجَالُه ثِقَاتٌ.

13: أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 19 /243، الرقم: 546، وابن قانع في معجم الصحابة، 3 /21، الرقم: 964، والعسقلاني في الإصابة، 6 /5، وأيضًا في فتح الباري، 9 /99، والهيثمي في مجمع الزوائد، 7 /4، وابن کثير في تفسير القرآن، 1 /499،والسّيوطي في الدر المنثور، 2 /541، والمبارکفوري في تحفة الأحوذي، 8 /300.

’’حضرت محمد بن فضالہ ظفری رضی اللہ عنہ جو کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے صحابہ میں سے ہیں بیان کرتے ہیں کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم ان کے پاس بنو ظفرکی مسجد میں تشریف لائے اور اس چٹان پر تشریف فرما ہوئے جو اب بنو ظفر کی مسجد میں ہے، اور آپ کے ساتھ حضرت عبداﷲ بن مسعود اور حضرت معاذ بن جبل رضی اﷲ عنہما اور کچھ دیگر صحابہ کرام بھی تھے، پس حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے قاری کو قرآ ت کا حکم دیا تو اس نے قرآت کی یہاں تک کہ اِس آیت پر پہنچا: ’’پھر اُس دن کیا حال ہوگا جب ہم ہر اُمت سے ایک گواہ لائیں گے اور (اے حبیب!) ہم آپ کو اُن سب پر گواہ لائیں گےo‘‘ تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم آبدیدہ ہو گئے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی داڑھی مبارک بھیگ گئی تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے کہا: اے میرے ربّ! میں اُن کی گواہی تو دوں جن کے درمیان میں رہتا ہوں لیکن اُس کی گواہی کیسے دوں جسے میں نے دیکھا ہی نہیں۔‘‘

اِس حدیث کو امام طبرانی اور ابن قانع نے روایت کیا ہے۔ اور امام ہیثمی نے فرمایا: اِس کے رجال ثقات ہیں۔

163 /14. وَذَکَرَ الْعَسْقَـلَانِيُّ وَابْنُ کَثِيْرٍ: قَالَ ابْنُ الْمُبَارَکِ: أَخْبَرََنَا رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ عَنِ الْمِنْهَالِ بْنِ عَمَرٍو أَنَّه سَمِعَ سَعِيْدَ بْنَ الْمُسَيَبِ يَقُوْلُ: لَيْسَ مِنْ يَوْمٍ إِلَّا يُعْرَضُ فِيْهِ عَلَی النَّبِيِّ صلی الله عليه واله وسلم أُمَّتُه غُدْوَةً وَعَشِيَةً فَيَعْرِفُهُمْ بِأَسْمَائِهِمْ وَأَعْمَالِهِمْ فَلِذَالِکَ يَشْهَدُ عَلَيْهِمْ يَقُوْلُ اﷲُ تَعَالٰی: { فَکَيْفَ إِذَا جِئْنَا مِنْ کُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيْدٍ وَّجِئْنَا بِکَ عَلٰی هٰـؤُلَاءِ شَهِيْدًا} ]النساء، 4: 41[، فَإِنَّه أَثَرٌ وَفِيْهِ انْقِطَاعٌ فَإِنَّ فِيْهِ رَجُلًا مُبْهَمًا لَمْ يُسَمَّ وَهُوَ مِنْ کَـلَامِ سَعِيْدِ بْنِ الْمُسَيَبِ لَمْ يَرْفَعْه وَقَدْ قَبِلَهُ الْقُرْطَبِيُّ فَقَالَ بَعْدَ إِيْرَادِه: قَدْ تَقَدَّمَ أَنَّ الْأَعْمَالَ تُعْرَضُ عَلَی اﷲِ کُلَّ يَوْمِ أَثْنَيْنِ وَخَمِيْسٍ وَعَلَی الْأَنْبِيَاءِ وَالْآبَاءِ وَالْأُمَّهَاتِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ قَالَ: وَلَا تَعَارُضَ فَإِنَّه يَحْتَمِلُ أَنْ يُخَصَّ نَبِيُنَا صلی الله عليه واله وسلم بِمَا يُعْرَضُ عَلَيْهِ کُلَّ يَوْمٍ وَيَوْمَ الْجُمُعَةِ مَعَ الْأَنْبِيَاءِ عَلَيْهِ وَعَلَيْهِمْ أَفْضَلُ الصَّلَاةِ وَالسَّلَامِ.

14: أخرجه ابن کثير في تفسير القرآن، 1 /500، والعسقلاني في فتح الباري، 9 /99.

’’امام عسقلانی اور ابن کثیر بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابن مبارک رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ہمیں ایک انصاری شخص نے منہال بن عمرو سے روایت بیان کی اُنہوں نے حضرت سعید بن مسیب صکو یہ فرماتے ہوئے سنا: کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جس میں صبح و شام حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی اُمت پیش نہیں کی جاتی۔ پس آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم اُنہیں اُن کے ناموں اور اعمال سے جانتے ہیں۔ اِسی لیے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم اُن پر گواہی دیں گے۔ اﷲ تعالیٰ کا فرمان مبارک ہے: ’’پھر اُس دن کیا حال ہوگا جب ہم ہر اُمت سے ایک گواہ لائیں گے اور (اے حبیب!) ہم آپ کو اُن سب پر گواہ لائیں گےo‘‘ پس یہ اثر ہے اور اس میں انقطاع ہے کیوں کہ اس میں ایک راوی مبہم ہے جس کا نام مذکور نہیں ہے، اور یہ حضرت سعید بن مسیب کا کلام ہے جسے اُنہوں نے مرفوعاً بیان نہیں کیا، اور اس اثر کو امام قرطبی نے قبول کیا اور اِسے ذکر کرنے کے بعد فرمایاـ: پہلے گزر چکا ہے کہ اعمال ہر پیر اور جمعرات کو اﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں پیش کیے جاتے ہیں اور انبیاء کرام علیھم السلام، آباء و اجداد اور ماؤں پر جمعہ والے دن پیش کیے جاتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: اِن کا آپس میں کوئی تعارض نہیں ہے کیوں کہ اس چیز کا احتمال ہے کہ ہر روز خاص طور پر ہمارے نبی مکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر اعمال پیش کیے جاتے ہوں اور انبیاء کرام علیھم السلام کے ساتھ بھی ہر جمعہ کے روز پیش کیے جاتے ہوں۔‘‘

Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved