Huzoor Nabi Akram ﷺ ka Paikar e Jamal

ابتدائیہ

ماہرین لغت و لسانیات اِس پر متفق ہیں کہ ’’شمائل‘‘ شمال یا شمیلہ کی جمع ہے، جس کے معنی سیرت، عادت اور عمدہ طبیعت کے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ آقاے کائنات ﷺ کے شمائل و خصائل ہی دراصل آپ ﷺ کا اُسوۂ حسنہ ہیں۔ شمائلِ مبارکہ میں آپ ﷺ کا حلیہ مبارک، آپ ﷺ کا حسین سراپا، آپ ﷺ کی پوشاک مبارک، آپ ﷺ کی غذا مبارک، آپ ﷺ کے لیل و نہار کے معمولات کا ذِکرِ جمیل و مشک بو ملتا ہے۔ ’’شمائل الترمذی‘‘ میں حضرت ابو عیسیٰ امام محمد الترمذی نے نہایت محنت و کاوش اورعرق ریزی سے سیّد کائنات، فخرِ موجودات ﷺ کی زندگی کے ہر گوشے سے متعلق معلومات کو احادیث کی روشنی میں جمع کر دیا ہے۔ آپ کی دو تصانیف جریدۂ عالم پر مہرِ دوام ثبت کرچکی ہیں۔ ایک حضور نبی اکرم ﷺ کی سیرت جس کا نام ’’شمائل الترمذی‘‘ ہے اور دوسری احادیث کا مجموعہ جو ’’جامع الترمذی‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ دونوں کتابیں بہت وقیع اور مستند ہیں۔ جب قاری عشق و محبت کے جذبات سے سرشار ہو کر ’’شمائل الترمذی‘‘ کا مطالعہ کرتا ہے تو اسے پڑھتے ہوئے اپنے باطن میں انشراح و ابتہاج محسوس کرتا ہے۔ اس دوران کبھی تو اس کےچہرے پر مسکراہٹ کے غنچے چٹکنے لگتے ہیں اور کبھی اس کی پلکیں نم ہوجاتی ہیں۔ آپ ﷺ کے رُخِ زیبا کا بیان پڑھتا ہے تو دل کی کلی کھل جاتی ہے اور جب آپ ﷺ کے گزر اوقات پر نظر جاتی ہے تو بے اختیار آنسوؤں کی لڑیاں گرنا شروع ہوجاتی ہیں۔

شمائل کے موضوع پر ہر دور میں کتب اور ان کی شروحات لکھی گئی ہیں۔ یہ کتب ان علماء و محدثین کے حضور نبیِ محتشم ﷺ کے ساتھ بے پایاں عشق اور بے کراں محبت کی عکاسی کرتی ہیں۔ محدثین کرام اور مصنفینِ سیرت نے روایات صحیحہ کے ساتھ آپ ﷺ کے سراپا مبارک کے تناسب وتوازن اور حسن و جمال کو بیان کیا ہے۔ اسی تناظر میں کیا خوب کہا گیا ہے کہ مسلمانوں کے اس فخر کا قیامت تک کوئی حریف نہیں ہوسکتا کہ انہوں نے اپنے پیغمبر ﷺ کے حالات اور واقعات کا ایک ایک حرف اس استقصا کے ساتھ محفوظ رکھا کہ کسی شخص کے حالات آج تک اس جامعیت اور احتیاط کے ساتھ قلم بند نہیں ہوسکے اور نہ آئندہ توقع کی جاسکتی ہے۔ اس گلشنِ ہستی میں خَلقی اور خُلقی ہرلحاظ سے آپ ﷺ یگانہ و یکتا ہیں۔ جو شمائل خالقِ کائنات نے محبوب کائنات ﷺ کو ودیعت فرمائے یومِ الست سے تا قیامِ قیامت انسانیت کے لیے سرچشمہِ ہدایت ہیں اور ظلمت کدۂ عالم میں آفتابِِ غروبِ ناشناس کی حیثیت سے فجر ریز رہیں گے۔ قرآنِ عالی شان میں آپ ﷺ کے جو بھی مکارمِ اِخلاق رب عظیم نے بیان کیے ہیں، صاحبِ خلقِ عظیم ﷺ کی ذاتِ ستودہ صفات اس کا مظہرِ اَتم ہے۔

رُخِ مصطفی ہے وہ آئینہ کہ اب ایسا دوسرا آئینہ
نہ کسی کی بزمِ خیال میں، نہ دکانِ آئینہ ساز میں

حضور نبی اکرم ﷺ صوری و معنوی ہر لحاظ سے اجمل و اکمل، احسن و افضل، احسب و انسب اور اعلیٰ و ارفع ہیں۔ آپ ﷺ کے زندہ معجزوں کی تعداد بے شمار ہے لیکن آپ ﷺ کی زندگی کے ہر پہلو اور ہر گوشہ کا بہ تمام و کمال محفوظ رہنا خود ایک عظیم معجزہ ہے۔ آپ ﷺ کے اقوال وافعال، وضع و قطع، شکل و شباہت، رفتار و گفتار، مذاقِ طبیعت، اندازِ گفتگو، طرزِ زندگی، طریقِ معاشرت، اکل و شرب، نشست و برخاست اور سونے جاگنے کی ایک ایک ادا محفوظ ہے۔ اللہ تعالیٰ کے پسندیدہ اور چنیدہ انسان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تھے۔ ہم اور آپ حضور نبی اکرم ﷺ کی شانِ بے مثال اور جمال بے بدل کا بھلا کیوں کر ادراک کر سکتے ہیں! ہم اس سعادت سے محروم رہتے اگرصحابہ کرام رضی اللہ عنہم آپ ﷺ کے ایک ایک عضو مبارک کا حال اور ایک ایک ادائے حسیں کا بیان شرح و بسط کے ساتھ نہ کرتے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جو رزم و بزم، خلوت و جلوت، روز و شب، یُسر و عُسر اور سفر و حضر میں آپ ﷺ کے روئے رخشاں و تاباں کے رخشندہ انوار سے اپنے قلب و نظر کو منور کرتے رہے، اولین مرحلے پر وہی مجاز ہیں کہ آپ ﷺ کے وجود اقدس کی تجلیات کو نثر و نعت میں پیش کر کے اپنی ارادت و عقیدت کو عنبر افشاں الفاظ کے لطیف و نظیف پیرہن میں سمو سکیں۔ وہ جمالِ نبوت کے آفتاب سے بہ راہِ راست اِکتسابِ ضیا کرتے رہے۔

یہ جو مہر میں ہیں حرارتیں، وہ ترا ظہورِ جلال ہے
یہ جو کہکشاں میں ہے روشنی، وہ ترا غبارِ جمال ہے

امام جلال الدین سیوطی فرماتے ہیں: رسول اللہ ﷺ کی ذاتِ مبارکہ پر ایمان کے ساتھ ساتھ آپ ﷺ کے حسن و جمال پر ایمان لانا بھی ضروری ہے یعنی تکمیل ایمان کے لیے یہ بات بھی شرط ہے کہ ہم اس بات کا اقرار کریں کہ رب کائنات نے حضور ﷺ کا وجودِ اقدس حسن و جمال میں بے نظیر و بے مثال بنایا ہے۔ امام زرقانی امام قرطبی کا بیان نقل فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ کا حسن و جمال مکمل طور پر ہم پر ظاہر نہیں کیا گیا۔ اگر آقائے کائنات ﷺ کا تمام حسن و جمال ہم پر ظاہر کردیا جاتا تو ہماری آنکھیں حضور ﷺ کے جلووں کا نظارہ کرنے سے قاصر رہتیں۔ شیخ عبد الحق محدث دہلوی حسن و جمال مصطفی ﷺ کے بیان میں لکھتے ہیں: اگر آپ ﷺ کا حسن و جمال بشر کے لباس میں چھپاہوا نہ ہوتا تو روئے منور کی طرف دیکھنا ناممکن ہو جاتا۔ امام شرف الدین بوصیری اپنے معروف ’’قصیدہ بردہ‘‘ میں فرماتے ہیں:

فَجَوْهَرُ الْحُسْنِ فِیْهِ غَیْرُ مَنْقَسِمِ
مُنَزَّهٌ عَنْ شَرِیْكٍ فِي مَحَاسِنِهِ

یعنی محبوب خدا ﷺ اپنی خوبیوں میں ایسے یکتا ہیں کہ اس معاملہ میں ان کا کوئی شریک ہی نہیں ہے۔ کیونکہ ان میں جو حسن کا جوہر ہے وہ قابلِ تقسیم ہی نہیں۔ بہر حال اس پر تمام امت کا ایمان ہے کہ تناسبِ اَعضاء اور حسن و جمال میں حضور نبی آخر الزماں ﷺ بے مثل و بے مثال ہیں۔

تھکی ہے فکرِ رسا اور مدح باقی ہے
قلم ہے آبلہ پا اور مدح باقی ہے

تمام عمر لکھا اور مدح باقی ہے
ورق تمام ہوا اور مدح باقی ہے

اس باب میں حضور نبی اکرم ﷺ کے لاثانی حسن و جمال، آپ ﷺ کی رنگت، آپ ﷺ کے ماہتاب سے بھی روشن تر چہرۂ مبارک کا بیان جب آپ پڑھیں گے تو آپ کو یہ باور کرنے میں کوئی مشکل نہ ہوگی کہ صبحِ اَلست سے شام ابد تک کسی بھی ہستی کو وہ خوب رُوئی، رَعنائی، زیبائی، دل کشی، دلبری، دلربائی اور کشش عطا نہیں کی گئی جو خالقِ کائنات نے اپنے حبیب مکرم ﷺ کو بہ تمام و کمال اور بہ افراط عطا فرمائی۔ نگاہِ عشق سے دیکھنے والے جب آپ ﷺ کے روئے مبارک کی زیارت سے مشرف ہوتے تو بے ساختہ کہہ اٹھتے کہ آپ ﷺ چاند سے کئی گنا بڑھ کر صاحبِ جمال اور جاذبِ نظر ہیں۔ آپ ﷺ کا حسن قامت بھی اپنی مثال آپ تھا۔ اس لحاظ سے بھی آپ ﷺ تمام انسانوں سے زیادہ حسین و جمیل اور شکیل و رعنا تھے۔

اس باب میں آپ احادیث کی روشنی میں حضور نبی اکرم ﷺ کے روئے انور کو بھی اپنی چشم تصور سے دیکھنے کی خوش بختی سے ہم کنار ہوں گے۔ آپ ﷺ کی رنگت، آپ ﷺ کے جسم اطہر کی لطافت و نظافت اور اس حسین پیکر کے بدنِ اَطہر سے پھوٹنے والی عنبریں خوشبو سے بھی اپنے مشامِ جاں کو معطر ہوتا ہوا محسوس کریں گے۔ آپ ﷺ کے موئے مبارک گہرے سیاہ، حسین و جمیل، خم دار اور گیسو مبارک کانوں کی لَو سے بڑھے ہوتے۔ اس باب کے مطالعہ سے آپ یہ بھی جان سکیں گے کہ حضور نبی اکرم ﷺ کے سر انور اور ریش مبارک میں کتنے بال سفید تھے۔ جب آپ اپنے بالوں کو جھٹکتے تو آپ ﷺ کا روئے مبارک روشن تر اورتابناک تر ہو جاتا۔ جب آپ ﷺ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی محفل میں صبح صادق یا شام کے وقت تشریف لاتے تو آپ ﷺ کی جبینِ مبارک یوں ضو فشاں ہوتی جیسے روشن چراغ چمک رہا ہو۔ آپ ﷺ کے چشمانِ مقدسہ سیاہ، پلکیں دراز اور پتلیاں گہری سیاہ تھیں جن میں کبھی کبھی سرخ رنگ کے ڈورے بھی دکھائی دیتے۔ آنکھیں اس حد تک سرمگیں تھیں کہ جب بھی کوئی عاشق آپ ﷺ کے چہرے کی طرف دیکھتا تو اسے محسوس ہوتا کہ چشمان مقدسہ میں سرمہ لگا ہوا ہے۔ آپ ﷺ کی بصارت اس حد تک تیز تھی کہ رات کے گھنے اندھیرے میں بھی آپ ﷺ اسی طرح دیکھتے جس طرح دن کے اجالے میں دیکھتے ہیں۔ آنے والی سطور میں آپ حضور ﷺ کی دلنشیں آواز، آپ ﷺ کی دیدہ زیب ریش مبارک، آپ ﷺ کے موتیوں سے بھی روشن تر مقدس دانت، آپ ﷺ کے مشک بار رخسار، سینہ مبارک، بطن اقدس، نازک گردن، خوبصورت شانے اور بغلیں، آپ ﷺ کی کلائیاں، ہاتھ، ہتھیلیاں، انگلیاں اور قدمین مبارک کی زیارت سے بھی آپ کی چشمِ تصور بہرہ یاب ہوگی۔ حضور نبی اکرم ﷺ کے جسمِ اَطہر کے کس کس عضوِ مبارک اور وصفِ منور کا بیان کیا جائے! گویا آپ ﷺ حسن و جمال کا ایک جہانِ بے پایاں تھے۔

لا یمکن الثناء كما كان حقہ
بعد اَز خدا بزرگ توئی قصہ مختصر

Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved