اربعین: انبیاء و رسل (علیہم السلام) کی فضیلت

الاحادیث النبویۃ

1. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: بُعِثْتُ بِجَوَامِعِ الْکَلِمِ، وَنُصِرْتُ بِالرُّعْبِ، وَبَيْنَا أَنَا نَائِمٌ رَأَيْتُنِي أُتِيْتُ بِمَفَاتِيْحِ خَزَائِنِ الْأَرْضِ، فَوُضِعَتْ فِي يَدِي. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

1: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الاعتصام بالکتاب والسنة، باب قول النبي صلی الله عليه وآله وسلم : بعثت بجوامع الکلم، 6 / 2654، الرقم: 6845، وأيضًا في کتاب الجهاد، باب قول النبي صلی الله عليه وآله وسلم : نُصِرْتُ بِالرُّعْبِ مسيرة شهر، 3 / 1087، الرقم: 2815، وأيضًا في کتاب التعبير، باب المفاتيح في اليد، 6 / 2573، الرقم: 6611، ومسلم في الصحيح، کتاب المساجد ومواضع الصلاة، 1 / 371، الرقم: 523، والنسائي في السنن، کتاب الجهاد، باب وجوب الجهاد، 6 / 3.4، الرقم: 3087. 3089.

’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میں جامع کلمات کے ساتھ مبعوث کیا گیا ہوں اور رعب کے ساتھ میری مدد کی گئی ہے اور جب میں سویا ہوا تھا اس وقت میں نے اپنے آپ کو دیکھا کہ زمین کے خزانوں کی کنجیاں میرے لیے لائی گئیں اور میرے ہاتھ میں تھما دی گئیں۔‘‘

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

2. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه قَالَ: کَانَ أَبُوْ ذَرٍّ رضی الله عنه يُحَدِّثُ أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: فُرِجَ عَنْ سَقْفِ بَيْتِي، وَأَنَا بِمَکَّةَ فَنَزَلَ جِبْرِيْلُ، فَفَرَجَ صَدْرِي، ثُمَّ غَسَلَهُ بِمَائِ زَمْزَمَ، ثُمَّ جَاءَ بِطَسْتٍ مِنْ ذَهَبٍ مُمْتَلِئٍ حِکْمَةً وَإِيْمَانًا فَأَفْرَغَهُ فِي صَدْرِي، ثُمَّ أَطْبَقَهُ، ثُمَّ أَخَذَ بِيَدِي، فَعَرَجَ بِي إِلَی السَّمَائِ الدُّنْيَا. الحديث.

مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

2: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الصلاة، باب کيف فرضت الصلاة في الإسراء، 1 / 135، الرقم: 342، ومسلم في الصحيح، کتاب الإيمان، باب الإسراء برسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم إلی السمٰوات وفرض الصلوات، 1 / 148، الرقم: 163، وأحمد بن حنبل في المسند، 5 / 143، الرقم: 21326.

’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابو ذر (غفاری) رضی اللہ عنہ بیان کیا کرتے تھے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میرے گھر کی چھت کو کھولا گیا جبکہ میں مکہ میں تھا اور اس میں سے جبریل امین علیہ السلام نازل ہوئے، اور انہوں نے میرا سینہ کھولا، پھر اس کو زمزم کے پانی سے دھویا، پھر وہ سونے کی ایک طشت لے کر آئے جو حکمت اور ایمان سے بھری ہوئی تھی، جبریل امین نے یہ ساری طشت میرے سینے میں انڈیل دی، پھر اسے بند کردیا، پھرمیرا ہاتھ پکڑا اور مجھے اپنے ساتھ لے کر آسمانِ دنیا کی طرف بلند ہو گئے۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

3. عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضی الله عنهما : کَانَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم يَخْطُبُ إِلٰی جِذْعٍ، فَلَمَّا اتَّخَذَ الْمِنْبَرَ تَحَوَّلَ إِلَيْهِ، فَحَنَّ الْجِذْعُ. فَأَتَاهُ، فَمَسَحَ يَدَهُ عَلَيْهِ.

رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَابْنُ حِبَّانَ.

3: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب المناقب، باب علامات النبوة في الإسلام، 3 / 1313، الرقم: 3390، وابن حبان في الصحيح، 14 / 435، الرقم: 6506، واللالکائي في اعتقاد أهل السنة، 4 / 797، الرقم: 1469.

’’حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک درخت کے تنے کے ساتھ ٹیک لگا کر خطاب فرمایا کرتے تھے۔ جب منبر بنا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس پر جلوہ افروز ہوئے تو لکڑی کا وہ ستون گریہ و زاری کرنے لگا۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے پاس تشریف لائے اور اُس پر اپنا دستِ شفقت پھیرا (تو وہ ستون خاموش ہو گیا)۔‘‘ اِسے امام بخاری اور ابن حبان نے روایت کیا ہے۔

4. عَنْ کَعْبٍ رضی الله عنه قَالَ: إِنَّ اﷲَ قَسَمَ رُؤْيَتَهُ وَکَلَامَهُ بَيْنَ مُحَمَّدٍ وَمُوْسٰی. فَکَلَّمَ مُوْسٰی عليه السلام مَرَّتَيْنِ وَرَآهُ مُحَمَّدٌ صلی الله عليه وآله وسلم مَرَّتَيْنِ.

رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالْحَاکِمُ وَابْنُ أَحْمَدَ، وَرِجَالُهُ ثِقَاتٌ.

4: أخرجه الترمذي في السنن، کتاب تفسير القرآن، باب ومن سورة والنجم، 5 / 368، الرقم: 3278، والحاکم في المستدرک، 2 / 629، الرقم: 4099، وعبد اﷲ بن أحمد في السنة، 1 / 286، الرقم: 548، وابن راهويه في المسند، 3 / 790، الرقم: 1421، وابن النجاد في الرد علی من يقول القرآن مخلوق، 1 / 37، الرقم: 17.

’’حضرت کعب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ بے شک اﷲ تعالیٰ نے اپنی رؤیت (دیدار) اور اپنے کلام کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کے درمیان تقسیم فرمایا۔ پس اﷲ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ دو مرتبہ کلام فرمایا اور محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اﷲ تعالیٰ کو دو مرتبہ دیکھا۔‘‘

اِسے امام ترمذی، حاکم اور عبد اﷲ بن احمد نے ثقہ رجال سے روایت کیا ہے۔

5. عَنْ أَبِي لُبَابَةَ بْنِ عَبْدِ الْمُنْذِرِ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم : إِنَّ يَوْمَ الْجُمُعَةِ سَيِّدُ الْأَيَامِ، وَأَعْظَمُهَا عِنْدَ اﷲِ وَهُوَ أَعْظَمُ عِنْدَ اﷲِ مِنْ يَوْمِ الْأَضْحٰی، وَيَوْمِ الْفِطْرِ، فِيْهِ خَمْسُ خِ.لَالٍ: خَلَقَ اﷲُ فِيْهِ آدَمَ إِلَی الْأَرْضِ، وَفِيْهِ تَوَفَّی اﷲُ آدَمَ، وَفِيْهِ سَاعَةٌ لَا يَسْأَلُ اﷲَ فِيْهَا الْعَبْدُ شَيْئًا إِلَّا أَعْطَاهُ مَا لَمْ يَسْأَلْ حَرَامًا، وَفِيْهِ تَقُومُ السَّاعَةُ مَا مِنْ مَلَکٍ مُقَرَّبٍ وَلَا سَمَائٍ وَلَا أَرْضٍ وَلَا رِيَاحٍ وَلَا جِبَالٍ وَلَا بَحْرٍ إِلَّا وَهُنَّ يُشْفِقْنَ مِنْ يَومِ الْجُمُعَةِ.

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَابْنُ مَاجَه وَاللَّفْظُ لَهُ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ.

5: أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 3 / 430، 5 / 284، الرقم: 22510، وابن ماجه في السنن، کتاب إقامة الصلاة والسنة فيها، باب في فضل الجمعة، 1 / 344، الرقم: 1084، وابن أبي شيبة في المصنف، 1 / 477، الرقم: 5516، والشافعي في المسند، 1 / 71، والبزار عن سعد بن عبادة رضی الله عنه في المسند، 9 / 191، الرقم: 3738، وعبد بن حميد في المسند، 1 / 127، الرقم: 309، والطبراني في المعجم الکبير، 5 / 33، الرقم: 4511، 6 / 19، الرقم: 5376، والبخاري في التاريخ الکبير، 4 / 44، الرقم: 1911.

’’حضرت ابو لبابہ بن عبد المنذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: بے شک جمعہ کا دن تمام دنوں کا سردار ہے اور باقی دنوں سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کے ہاں عظمت والا ہے اور اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کی عظمت عید الاضحی اور عید الفطر سے بھی بڑھ کر ہے (کیوں کہ) اس دن میں پانچ خصلتیں پائی جاتی ہیں: اس دن اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا فرمایا اور اسی دن انہیں وفات دی. نیز اس دن میں ایک ساعت ایسی ہوتی ہے جس میں بندہ اللہ تعالیٰ سے جو بھی سوال کرے وہ اسے عطا فرماتا ہے جب تک کہ وہ کسی حرام چیز کا سوال نہیں کرتا، اور اسی دن قیامت بپا ہو گی. کوئی مقرب فرشتہ، آسمان، زمین، ہوا، پہاڑ اور سمندر ایسا نہیں جو جمعہ کے دن سے نہ ڈرتا ہو (کیوں کہ اسی دن قیامت بپا ہوگی).‘‘

اسے امام احمد، ابن ماجہ نے مذکورہ الفاظ کے ساتھ اور ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔

وفي رواية: عَنْ بُرَيْدَةَ رضی الله عنه يَرْفَعُهُ قَالَ: لَوْ کَانَ بُکَائُ دَاوُدَ عليه السلام وَبُکَائُ جَمِيْعِ أَهْلِ الْأَرْضِ جَمِيْعًا يُعْدَلُ بِبُکَائِ آدَمَ عليه السلام مَا عَدَلَهُ.

رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَأَبُوْ نُعَيْمٍ، وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ: وَرِجَالُهُ ثِقَاتٌ.

أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 1 / 51، الرقم: 143، وأبو نعيم في حلية الأولياء، 7 / 257، وذکره الهيثمي في مجمع الزوائد، 8 / 198، والمناوي في فيض القدير، 5 / 308.

’’حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ مرفوعا روایت کرتے ہیں کہ اگر حضرت داؤد علیہ السلام اور تمام اہلِ زمین کی (خوفِ الٰہی سے) آہ و بکا کا موازنہ حضرت آدم علیہ السلام کی آہ و بکا سے کیا جائے تو ان سب کی آہ و بکا (ملا کر بھی) حضرت آدم علیہ السلام کی آہ و بکا کے برابر نہیں ہو سکتی.‘‘

اِس حدیث کو امام طبرانی اور ابو نعیم نے روایت کیا ہے، اور امام ہیثمی نے فرمایا: اِس کی سند کے رجال ثقہ ہیں۔

6. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ وَأَنَسٍ رضی الله عنهما عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم (في حديث الشفاعة) قَالَ: فَيَأتُوْنَ نُوْحًا فَيَقُوْلُوْنَ: يَا نُوْحُ، إِنَّکَ أَنْتَ أَوَّلُ الرُّسُلِ إِلٰی أَهْلِ الْأَرْضِ. وَقَدْ سَمَّاکَ اﷲُ عَبْدًا شَکُوْرًا.

مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

6: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب تفسير القرآن، باب ذرية من حملنا مع نوح إنه کان عبدًا شکورًا، 4 / 1745.1746، الرقم: 4435، ومسلم في الصحيح، کتاب الإيمان، باب أدنی أهل الجنة منزلة فيها، 1 / 184.185، الرقم: 194، والترمذي في السنن، کتاب صفة القيامة والرقائق والورع، باب ما جاء في الشفاعة، 4 / 622، الرقم: 2434.

’’حضرت ابو ہریرہ اور حضرت انس رضی اللہ عنہما حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مروی (طویل حدیث شفاعت میں بیان کرتے ہیں کہ) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تمام لوگ (روزِ قیامت) حضرت نوح علیہ السلام کے پاس آئیں گے اور عرض کریں گے: اے نوح! بیشک آپ اہلِ زمین کی طرف سب سے پہلے رسول ہیں اور تحقیق اللہ تعالیٰ نے آپ کو ’شکر گزار بندے‘ کا لقب عطا کیا۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

7. عَنْ عَلِيٍّ رضی الله عنه قَالَ: جَمَعَ رَبُّنَا لِنُوْحٍ عِلْمَ کُلِّهِمْ وَأَيَدَهُ بِرُوْحٍ مِنْهُ، فَدَعَا قَوْمَهُ سِرًّا وَعَلَانِيَةً تِسْعَ مِاءَةٍ وَخَمْسِيْنَ سَنَةً کُلَّمَا مَضٰی قَرْنٌ أَتْبَعَهُ قَرْنٌ، فَزَادَهُمْ کُفْرًا وَطُغْيَانًا.

رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَابْنُ حَيَانَ، وَقَالَ الْحَاکِمُ: هٰذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِْسْنَادِ.

7: أخرجه الحاکم في المستدرک، 2 / 597، الرقم: 4011، وابن حيان في العظمة، 5 / 1605.

’’حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہمارے رب نے حضرت نوح علیہ السلام کے لیے سابقہ تمام لوگوں کا علم جمع فرما دیا اور انہیں اپنی مدد و نصرت سے نوازا، پس انہوں نے اپنی قوم کو مخفی اور اعلانیہ طور پر ساڑھے نو سو سال تک دعوتِ حق دی. پس ساڑھے نو سو سالوں میں ایک کے بعد دوسری صدی گزرتی گئی لیکن ان کی قوم کے لوگ (بجائے دعوتِ حق قبول کرنے کے) کفر و سرکشی میں بڑھتے گئے۔‘‘

اس حدیث کو امام حاکم اور ابن حیان نے روایت کیا ہے۔ اور امام حاکم نے فرمایا: اس حدیث کی سند صحیح ہے۔

8. عَنْ کَعْبٍ رضی الله عنه قَالَ: کَانَ نَبِيُّ اﷲِ هُوْدٌ عليه السلام أَشْبَهَ النَّاسِ بِآدَمَ عليه السلام . رَوَاهُ الْحَاکِمُ.

8: أخرجه الحاکم في المستدرک، 2 / 616، الرقم: 4064.

’’حضرت کعب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ کے نبی حضرت ہود علیہ السلام تمام لوگوں سے بڑھ کر حضرت آدم علیہ السلام کے مشابہ تھے۔‘‘

اس حدیث کو امام حاکم نے روایت کیا ہے۔

9. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضی الله عنهما قَالَ: خَطَبَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم فَقَالَ: يَأَيُّهَا النَّاسُ إِنَّکُمْ مَحْشُوْرُوْنَ إِلَی اﷲِ حُفَاةً عُرَاةً غُرْلًا. ثُمَّ قَالَ: ﴿کَمَا بَدَأنَا أَوَّلَ خَلْقٍ نُعِيْدُهُ وَعْدًا عَلَيْنَا إِنَّا کُنَّا فَاعِلِيْنَ﴾ [الأنبياء، 21:104]، ثُمَّ قَالَ: أَلَا وَإِنَّ أَوَّلَ الْخَ.لَائِقِ يُکْسٰی يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِبْرَاهِيْمُ . . . الحديث. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

9: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب تفسير القرآن، باب وکنت عليهم شهيدًا ما دمت فيهم، 4 / 1691، الرقم: 4349، ومسلم في الصحيح، کتاب الجنة وصفة نعيمها وأهلها، 4 / 2194، الرقم: 2860، والترمذي في السنن، کتاب صفة القيامة والرقائق والورع، باب ما جاء في شأن الحشر، 4 / 615، الرقم: 2423.

’’حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ ایک روز حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا: اے لوگو! تم روزِ محشر اﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں یوں حاضر کیے جاؤ گے کہ برہنہ پا، ننگے جسم اور بغیر ختنہ کے ہوگے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی:﴿جس طرح ہم نے (کائنات کو) پہلی بار پیدا کیا تھا، ہم (اس کے ختم ہو جانے کے بعد) اسی عملِ تخلیق کو دہرائیں گے۔﴾ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ساری مخلوق میں سب سے پہلے جنہیں لباس پہنایا جائے گا وہ حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ ہوں گے۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

10. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلٰی رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم فَقَالَ: يَا خَيْرَ الْبَرِيَةِ. فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : ذَاکَ إِبْرَاهِيْمُ عليه السلام .

رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ وَأَبُوْدَاوُدَ وَالنَّسَائِيُّ.

وفي رواية لابن عساکر: أَنَّ رَجُلًا قَالَ لِلنَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم : يَا خَيْرَ النَّاسِ، قَالَ: ذَاکَ إِبْرَاهِيْمُ. قَالَ: يَا أَعْبَدَ النَّاسِ. قَالَ: ذَاکَ دَاوُدُ.

10: أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الفضائل، باب من فضائل إبراهيم الخليل عليه السلام ، 4 / 1839، الرقم: 2369، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 178، 184، الرقم: 12849، 12930. 12931، وأبو داود في السنن، کتاب السنة، باب في التخيير بين الأنبياء رضوان الله عليهم اجمعين ، 4 / 218، الرقم: 4672، والنسائي في السنن الکبری، 6 / 520، الرقم: 11692، وابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 329، الرقم: 31816، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 6 / 220، وأيضًا، 7 / 86.

’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوا اور عرض کیا: اے مخلوق میں سب سے بہتر! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: وہ (تو) حضرت ابراہیم علیہ السلام ہیں (یعنی یہ ان کا لقب بھی ہے).‘‘

اس حدیث کو امام مسلم، احمد، ابو داود اور نسائی نے روایت کیا ہے۔

ابن عساکر کی روایت میں ہے: ’’ایک آدمی نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا: اے لوگوں میں سب سے بہتر! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام ہیں (یعنی یہ ان کا لقب بھی ہے). پھر اس آدمی نے عرض کیا: اے سب لوگوں سے بڑھ کر عبادت گذار! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: وہ حضرت داود علیہ السلام ہیں (یعنی یہ ان کا لقب بھی ہے).‘‘

11. عَنْ عَبْدِ اﷲِ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : إِنَّ لِکُلِّ نَبِيٍّ وُلَاةً مِنَ النَّبِيِّيْنَ وَإِنَّ وَلِيِّي أَبِي وَخَلِيْلُ رَبِّي. (وفي رواية للحاکم: وَإِنَّ وَلِيِّي، وَخَلِيْلِي، أَبِي إِبْرَاهِيْمُ). ثُمَّ قَرَأَ: ﴿إِنَّ أَوْلَی النَّاسِ بِإِبْرَاهِيْمَ لَلَّذِيْنَ اتَّبَعُوْهُ وَهٰذَا النَّبِيُّ وَالَّذِيْنَ آمَنُوْا وَاﷲُ وَلِيُّ الْمُؤْمِنِيْنَ﴾، [آل عمران، 3: 68].

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالتِّرْمِذِيُّ وَاللَّفْظُ لَهُ وَالْحَاکِمُ وَالْبَزَّارُ. وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هٰذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيْثِ أَبِي الضُّحٰی عَنْ مَسْرُوْقٍ وَأَبُو الضُّحٰی اسْمُهُ مُسْلِمُ بْنُ صُبَيْحٍ، وَقَالَ الْحَاکِمُ: هٰذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ.

11: أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 1 / 400، 429، الرقم: 3800، 4088، والترمذي في السنن، کتاب تفسير القرآن، باب ومن سورة آل عمران، 5 / 223، الرقم: 2995، والحاکم في المستدرک، 2 / 320، 603، الرقم: 3151، 4030. 4031، والبزار في المسند، 5 / 345، 351، الرقم: 1973، 1981، وابن منصور في السنن، 3 / 1047، الرقم: 501، وسنده صحيح.

’’حضرت عبد اﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: بے شک ہر نبی کے انبیائِ کرام میں سے دوست ہوتے ہیں اور بے شک میرے دوست، میرے والد اور میرے رب کے دوست (یعنی حضرت ابراہیم علیہ السلام ) ہیں۔ (امام حاکم کی روایت میں ہے: اور بے شک میرے دوست اور میرے خلیل میرے والد حضرت ابراہیم علیہ السلام ہیں۔) پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ آیت پڑھی: (بیشک سب لوگوں سے بڑھ کر ابراہیم ( علیہ السلام ) کے قریب (اور حقدار) تو وہی لوگ ہیں جنہوں نے ان (کے دین) کی پیروی کی ہے اور (وہ) یہی نبی ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) اور (ان پر) ایمان لانے والے ہیں، اور اللہ ایمان والوں کا مددگار ہے)۔‘‘

اِس حدیث کو امام احمد، ترمذی نے مذکورہ الفاظ کے ساتھ اور حاکم اور بزار نے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے فرمایا: ابو الضحیٰ کی اس حدیث کی سند صحیح تر ہے جو حضرت مسروق سے مروی ہے اور ابو الضحیٰ کا نام مسلم بن صبیح ہے۔ اور امام حاکم نے بھی فرمایا: یہ حدیث صحیح ہے۔

12. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضی الله عنهما قَالَ: اَلإِِْسْلَامُ ثَ.لَاثُوْنَ سَهْمًا وَمَا ابْتُلِيَ بِهٰذَا الدِّيْنِ أَحَدٌ فَأَقَامَهُ إِلَّا إِبْرَاهِيْمُ عليه السلام . قَالَ اﷲُ تَعَالٰی: ﴿وَإِبْرَاهِيْمُ الَّذِي وَفّٰی﴾ [النجم، 53:37] فَکَتَبَ اﷲُ لَهُ بَرَاءَةً مِنَ النَّارِ.

رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ مُخْتَصَرًا. وَقَالَ الْحَاکِمُ: هٰذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِْسْنَادِ.

12: أخرجه الحاکم في المستدرک، 2 / 602، الرقم: 4027، وابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 331، الرقم: 31829، والطبري في جامع البيان، 1 / 524، وأيضًا في تاريخ الأمم والملوک، ا / 168، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 6 / 194.

’’حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ اسلام کے تیس حصے ہیں اور کوئی شخص ایسا نہیں جسے اس دین کے ذریعے آزمایا گیا اور وہ اس آزمائش پر پورا اترا ہو سوائے ابراہیم علیہ السلام کے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿اور ابراہیم ( علیہ السلام )جنہوں نے (اللہ کے ہر امر کو) بتمام و کمال پورا کیا﴾. پس (اسی وجہ سے) اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے آگ سے نجات مقدر کر دی.‘‘

اس حدیث کو امام حاکم نے اور ابن ابی شیبہ نے بھی مختصراً روایت کیا ہے۔ امام حاکم نے فرمایا: اس حدیث کی سند صحیح ہے۔

وفي رواية: عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : فَيَقُوْلُوْنَ: يَا إِبْرَاهِيْمُ، أَنْتَ خَلِيْلُ الرَّحْمٰنِ، قَدَ سَمِعَ بِخُلَّتِکَ أَهْلُ السَّمَاوَاتِ وَأَهْلُ الْأَرْضِ.

رَوَاهُ الْحَاکِمُ. وَقَالَ: هٰذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ.()

() أخرجه الحاکم في المستدرک، 2 / 599، الرقم: 4017، والعسقلاني في فتح الباري، 6 / 395، الرقم: 3181.

’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: (روزِ محشر) لوگ کہیں گے: اے ابراہیم! آپ اللہ تعالیٰ کے دوست ہیں اور آپ کی دوستی کا آسمان والوں اور زمین والوں نے بھی خوب چرچا سن رکھا ہے۔‘‘

اِس حدیث کو امام حاکم نے روایت کیا اور فرمایا: یہ حدیث صحیح ہے۔

13. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضی الله عنهما قَالَ: اَلذَّبِيْحُ إِسْمَاعِيْلُ عليه السلام .

وفي رواية: عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضی الله عنهما : ﴿وَفَدَيْنَاهُ بِذِبْحٍ عَظِيْمٍ﴾ [الصافات، 37: 107]، قَالَ: إِسْمَاعِيْلُ. ثُمَّ ذَبَحَ إِبْرَاهِيْمُ الْکَبْشَ.

وفي رواية: عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضی الله عنهما أَنَّهُ قَالَ: الْمَفْدِيُّ إِسْمَاعِيْلُ وَزَعَمَتِ الْيَهُوْدُ أَنَّهُ إِسْحَاقُ وَکَذَبَتِ الْيَهُوْدُ.

رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَالطَّبَرِيُّ، وَقَالَ الْحَاکِمُ: هٰذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ.

13: أخرجه الحاکم في المستدرک، 2 / 604.605، الرقم: 4034.4035، 4037. 4038، والطبري في جامع البيان، 23 / 83. 85، والقرطبي في الجامع لأحکام القرآن، 15 / 101، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 4 / 19، والعسقلاني في فتح الباري، 12 / 378.379، والطبري في تاريخ الأمم والملوک، 1 / 160.

’’حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ ذبیح اللہ حضرت اسماعیل علیہ السلام ہیں۔

ایک روایت میں حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اللہ عنہما آیہ مبارکہ ﴿اور ہم نے ایک بہت بڑی قربانی کے ساتھ اس کا فدیہ کردیا﴾ کی وضاحت میں فرماتے ہیں کہ ذبح عظیم سے مراد حضرت اسماعیل علیہ السلام ہیں، پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے (ان کی جگہ جنتی) مینڈھے کو ذبح کیا۔‘‘

ایک روایت میں حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ جس کا فدیہ دیا گیا وہ حضرت اسماعیل علیہ السلام ہیں جبکہ یہود کا گمان ہے کہ وہ حضرت اسحاق علیہ السلام ہیں لیکن یہود جھوٹے ہیں۔‘‘

اس حدیث کو امام حاکم اور طبری نے روایت کیا ہے۔ امام حاکم نے فرمایا: یہ حدیث صحیح ہے۔

14. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضی الله عنهما قَالَ: أَوَّلُ مَنْ نَطَقَ بِالْعَرَبِيَةِ وَوَضَعَ الْکِتَابَ عَلٰی لَفْظِهِ وَمَنْطَقِهِ، ثُمَّ جَعَلَ کِتَاباً وَاحِدًا مِثْلُ بِسْمِ اﷲِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ الْمَوْصُوْلِ حَتّٰی فَرَّقَ بَيْنَهُ وَلَدُهُ إِسْمَاعِيْلُ بْنُ إِبْرَاهِيْمَ .

رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَالْبَيْهَقِيُّ. وَقَالَ الْحَاکِمُ: هٰذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِْسْنَادِ.

14: أخرجه الحاکم في المستدرک، 2 / 602، الرقم: 4029، والبيهقي في شعب الإيمان، 2 / 233، الرقم: 1617، والعسقلاني في فتح الباري، 6 / 403.

’’حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ سب سے پہلے جس شخص نے عربی زبان بولی اور اپنے الفاظ اور منطق (بول چال) پر کتاب کو وضع کیا پھر کتاب کو اس طرح ایک کیا کہ وہ آپس میں ملی ہوئی ہو جیسا بسم اﷲ الرحمٰن الرحیم کی کتابت، یہاں تک کہ اس کتابت کو جدا جدا کیا، (ان تمام اُمور کو سر انجام دینے والے) حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لختِ جگر حضرت اسماعیل علیہ السلام ہیں۔‘‘

اِس حدیث کو امام حاکم اور بیہقی نے روایت کیا ہے اور امام حاکم نے فرمایا: اس حدیث کی سند صحیح ہے۔

15. عَنْ کَعْبٍ الْأَحْبَارِ رضی الله عنه قَالَ: کَانَ إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيْمَ الَّذِي جَعَلَهُ اﷲُ نُوْرًا وَضِيَائً وَقُرَّةَ عَيْنٍ لِوَالِدَيْهِ، فَکَانَ مِنْ أَحْسَنِ النَّاسِ وَجْهًا وَأَکْثَرُهُ جَمَالًا وَأَحْسَنُهُ مَنْطِقًا، فَکَانَ أَبْيَضَ جَعْدَ الرَّأسِ وَاللِّحْيَةِ مُشْبَهًا بِإِبْرَاهِيْمَ خَلَقًا وَخُلُقًا وَوُلِدَِلإِسْحَاقَ يَعْقُوْبُ وَعَيْصٌ فَکَانَ يَعْقُوْبُ أَحْسَنُهُمَا وَأَنْطَقُهُمَا وَأَکْثَرُهُمَا جَمَالًا وَظَرْفًا . . . الحديث. رَوَاهُ الْحَاکِمُ.

15: أخرجه الحاکم في المستدرک، 2 / 607، الرقم: 4043.

’’حضرت کعب الاحبار رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت اسحاق بن ابراہیم کو اللہ تعالیٰ نے نور، روشنی اور اپنے والدین کی آنکھوں کی ٹھنڈک بنایا تھا۔ پس آپ علیہ السلام تمام لوگوں سے بڑھ کر خوبصورت چہرے والے تھے اور بہت زیادہ جمال والے اور خوبصورت گفتگو فرمانے والے تھے۔ آپ علیہ السلام سفید رنگت والے، سر اور داڑھی کے گھنگھریالے بالوں والے تھے۔ آپ ظاہری نقوش میں اور اخلاق ہر دو حوالوں سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے مشابہ تھے۔ حضرت اسحاق علیہ السلام کے ہاں حضرت یعقوب علیہ السلام اور حضرت عیص علیہ السلام پیدا ہوئے پس ان دونوں میں سے حضرت یعقوب علیہ السلام زیادہ حسین، زیادہ فصیح و بلیغ اور زیادہ حسن و جمال اور دانائی والے تھے۔‘‘

اس حدیث کو امام حاکم نے روایت کیا ہے۔

16. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضی الله عنهما :﴿وَبَشَّرْنَاهُ بِإِسْحَاقَ﴾، [الصافات، 37: 112]، قَالَ: بُشْرٰی نُبُوَّةٍ بُشِّرَ بِهِ مَرَّتَيْنِ حِيْنَ وُلِدَ وَحِيْنَ نُبِّءَ.

رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَالطَّبَرِيُّ. وَقَالَ الْحَاکِمُ: صَحِيْحُ الإِْسْنَادِ.

16: أخرجه الحاکم في المستدرک، 2 / 607، الرقم: 4044، والطبري في جامع البيان، 23 / 89، والقرطبي في الجامع لأحکام القرآن، 15 / 112، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 4 / 20.

’’حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اللہ عنہما آیت مبارکہ ﴿اور ہم نے (اسماعیل علیہ السلام کے بعد) انہیں اسحاق ( علیہ السلام )کی بشارت دی﴾ کی تفسیر میں بیان کرتے ہیں کہ اس خوشخبری سے مراد نبوت کی خوشخبری ہے جو انہیں دو مرتبہ دی گئی. (پہلی) جب آپ کی ولادت ہوئی اور (دوسری) جب آپ کو منصبِ نبوت عطا ہوا۔‘‘

اِس حدیث کو امام حاکم اور طبری نے روایت کیا ہے۔ امام حاکم نے فرمایا: اس حدیث کی سند صحیح ہے۔

17. عَنْ کَعْبٍ الْأَحْبَارِ رضی الله عنه قَالَ: کَانَ لُوْطٌ عليه السلام نَبِيَّ اﷲِ وَکَانَ ابْنَ أَخِي إِبْرَاهِيْمَ وَکَانَ رَجُ.لًا أَبْيَضَ حُسْنَ الْوَجْهِ دَقِيْقَ الْأَنْفِ صَغِيْرَ الْأُذُنِ طَوِيْلَ الْأَصَابِعِ، جَيِّدَ الثَّنَايَا أَحْسَنَ النَّاسِ مَضْحَکًا، إِذَا ضَحِکَ وَأَحْسَنَهُ وَأَرْزَنَهُ وَأَحْکَمَهُ وَأَقَلَّهُ أَذًی لِقَوْمِهِ، وَهُوَ حِيْنَ بَلَغَهُ عَنْ قَوْمِهِ مَا بَلَغَهُ مِنَ الْأَذَی الْعَظِيْمِ الَّذِي أَرَادُوْهُ عَلَيْهِ، حَيْثُ يَقُوْلُ: ﴿لَوْ أَنَّ لِي بِکُمْ قُوَّةً أَوْ آوِيْ إِلٰی رُکْنٍ شَدِيْدٍ﴾ [هود، 11:80]. رَوَاهُ الْحَاکِمُ.

17: أخرجه الحاکم في المستدرک، 2 / 612، الرقم: 4057.

’’حضرت کعب الاحبار رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت لوط علیہ السلام اﷲ تعالیٰ کے نبی تھے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بھتیجے تھے اور آپ سفید رنگت، خوبصورت چہرے، پتلی ناک، چھوٹے کانوں، لمبی انگلیوں اور خوبصورت دانتوں والے تھے۔ جب ہنستے تھے تو تمام لوگوں سے بڑھ کر خوبصورت لگتے تھے۔ آپ لوگوں میں سب سے حسین، باوقار اور حکمت والے اور اُس وقت اپنی قوم کو کم تکلیف دینے والے تھے جب آپ کو اپنی قوم کی طرف سے تکلیف پہنچی جو بھی پہنچی جس کا آپ کی قوم نے آپ کے لیے ارادہ کیا تھا جیسا کہ آپ نے فرمایا: ﴿کاش مجھ میں تمہارے مقابلہ کی ہمت ہوتی یا میں (آج) کسی مضبوط قلعہ میں پناہ لے سکتا﴾.‘‘

اِس حدیث کو امام حاکم نے روایت کیا ہے۔

18. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم : إِنَّ الْکَرِيْمَ بْنَ الْکَرِيْمِ ابْنِ الْکَرِيْمِ ابْنِ الْکَرِيْمِ يُوْسُفُ بْنُ يَعْقُوْبَ بْنِ إِسْحَاقَ بْنِ إِبْرَاهِيْمَ خَلِيْلِ اﷲِ.

وَقَالَ الْبَرَائُ عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم : أَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ.

رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَأَحْمَدُ وَالتِّرْمِذِيُّ.

18: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب المناقب، باب من انتسب إلی آبائه في الإسلام والجاهلية، 3 / 1298، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 96، الرقم: 5712، 8373، 9369، والترمذي في السنن، کتاب تفسير القرآن، باب ومن سورة يوسف، 5 / 293، الرقم: 3116، وابن حبان في الصحيح، 13 / 92، الرقم: 5776، والطبراني في المعجم الأوسط، 3 / 116، الرقم: 2657.

’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: معزز بن معزز بن معزز بن معزز تو صرف یوسف بن یعقوب بن اسحاق بن ابراہیم ہیں۔‘‘

حضرت براء رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میں عبد المطلب کا بیٹا ہوں۔‘‘

اِس حدیث کو امام بخاری، احمد اور ترمذی نے روایت کیا ہے۔

19. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : أُعْطِيَ يُوْسُفُ عليه السلام شَطْرَ الْحُسْنِ. وفي رواية: أُعْطِيَ يُوْسُفُ وَأُمُّهُ شَطْرَ الْحُسْنِ. رَوَاهَ أَحْمَدُ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَالْحَاکِمُ وَأَبُوْ يَعْلٰی.

وفي رواية: عَنْ عَبْدِ اﷲِ رضی الله عنه قَالَ: أُعْطِيَ يُوْسُفُ عليه السلام وَأُمُّهُ ثُلُثَ حُسْنِ الْخَلْقِ. وفي رواية: ثُلُثَ الْحُسْنِ. رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ.

19: أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 3 / 286، الرقم: 14082، وابن أبي شيبة في المصنف، 4 / 42، 6 / 347، الرقم: 31920. 31921، والحاکم في المستدرک، 2 / 622، الرقم: 4082، وأبو يعلی في المسند، 6 / 107، الرقم: 3373، والطبري في جامع البيان، 12 / 207، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 2 / 477.478، والهيثمي في مجمع الزوائد، 8 / 203، وقال: ورجاله رجال الصحيح، والعجلوني في کشف الخفاء، 1 / 161، الرقم: 416، وسنده صحيح.

’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: یوسف علیہ السلام کو کل حسن کا آدھا حصہ عطا ہوا۔‘‘

ایک روایت میں ہے کہ یوسف علیہ السلام اور ان کی والدہ محترمہ کو کل حسن کا آدھا حصہ عطا ہوا۔‘‘

اِس حدیث کو امام احمد، ابن ابی شیبہ، حاکم اور ابو یعلی نے روایت کیا ہے۔

ایک روایت میں حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: یوسف علیہ السلام اور آپ کی والدہ ماجدہ کو کل مخلوق کا ایک تہائی حسن نصیب ہوا، اور ایک روایت میں ہے کہ کل حسن کا ایک تہائی حصہ نصیب ہوا۔‘‘

اس حدیث کو امام ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔

20. عَنْ کَعْبٍ رضی الله عنه قَالَ: کَانَ أَيُّوْبُ بْنُ أَمْوَصَ عليه السلام نَبِيَّ اﷲِ الصَّابِرَ الَّذِي جَلَبَ عَلَيْهِ إِبْلِيْسُ إِلَيْهِ سَبِيْلًا، فَأَلْقَی اﷲُ عَلٰی أَيُّوْبَ السَّکِيْنَةَ وَالصَّبْرَ عَلٰی بَلَائِهِ الَّذِي ابْتَلَاهُ فَسَمَّاهُ اﷲُ: ﴿نِعْمَ الْعَبْدُ إِنَّهُ أَوَّابٌ﴾ [ص، 38:30]، وَکَانَ أَيُّوْبُ رَجُلًا طَوِيْلًا جَعْدَ الشَّعْرِ وَاسِعَ الْعَيْنَيْنِ حُسْنَ الْخَلْقِ، وَکَانَ عَلٰی جَبِيْنِهِ مَکْتُوْبٌ اَلْمُبْتَلَی الصَّابِرُ، وَکَانَ قَصِيْرَ الْعُنُقِ عَرِيْضَ الصَّدْرِ غَلِيْظَ السَّاقَيْنِ وَالسَّاعِدَيْنِ، وَکَانَ يُعْطِي الْأَرَامِلَ وَيَکْسُوْهُمْ جَاهِدًا نَاصِحًاِﷲِ. رَوَاهُ الْحَاکِمُ.

20: أخرجه الحاکم في المستدرک، 2 / 634، الرقم: 4113.

’’حضرت کعب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت ایوب بن اموص علیہ السلام اﷲ تعالیٰ کے صابر نبی تھے جن کو شیطان نے ایذا دینے کی کوشش کی تو اﷲ تعالیٰ نے آپ کی اس آزمائش پر . جس میں اس نے آپ کو مبتلا کیا . سکون اور صبر نازل کیا اور اﷲ تعالیٰ نے آپ کے لیے فرمایا: ﴿کیا خوب بندہ تھا، بے شک وہ (ہماری طرف) بہت رجوع کرنے والا تھا﴾. اور آپ درازقد، گھنگریالے بال، چوڑی آنکھوں، خوبصورت خلقت والے تھے اور آپ کی پیشانی پر ’’آزمودہ صابر‘‘ لکھا ہوا تھا اور آپ چھوٹی گردن، چوڑے سینے، سخت بازوں اور پنڈلیوں والے تھے۔ آپ محتاجوں کو عطا کرنے اور انہیں کپڑے پہنانے والے اور اﷲ تعالیٰ کی خاطر جہاد اور نصیحت کرنے والے تھے۔‘‘

اس حدیث کو امام حاکم نے روایت کیا ہے۔

وفي رواية: عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضی الله عنهما أَنَّ امْرَأَةَ أَيُّوْبَ عليه السلام قَالَتْ لَهُ: وَاﷲِ، قَدْ نَزَلَ بِي الْجَهْدُ وَالْفَاقَةُ مَا أَنْ بَعَثَ قَوْمِي بِرَغِيْفٍ فَأَطْعَمْتُکَ فَادْعُ اﷲَ أَنْ يَشْفِيَکَ. قَالَ: وَيْحَکِ کُنَّا فِي النَّعَمَائِ سَبْعِيْنَ عَامًا فَنَحْنُ فِي الْبَ.لَائِ سَبْعَ سِنِيْنَ.

رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَالْبَيْهَقِيُّ.()

() أخرجه الحاکم في المستدرک، 2 / 635، الرقم: 4114، والبيهقي في شعب الإيمان، 7 / 147، الرقم: 9794.

’’حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضرت ایوب علیہ السلام کی بیوی نے آپ سے عرض کیا: اﷲ کی قسم! بے شک بھوک اور فاقہ نے ہمارے ہاں گھر کرلیا ہے اور میری قوم نے ایک روٹی تک نہیں بھیجی کہ میں آپ کو کھلاتی. پس اﷲ تعالیٰ سے دعا کریں کہ وہ آپ کو شفا عطا کرے۔ حضرت ایوب علیہ السلام نے فرمایا: تمہارا بھلا ہو. ہم ستر سال تک ہر آسائشِ زندگی میں تھے۔ اب ہم صرف سات سال سے آزمائش میں ہیں۔ (پس ہمیں ہر حال میں اﷲ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے).‘‘

اِس حدیث کو امام حاکم اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔

وفي رواية: عَنْ قَتَادَةَ رضی الله عنه قَالَ: ابْتُلِيَ أَيُّوْبُ سَبْعَ سِنِيْنَ مُلْقًی عَلٰی کُنَاسَةِ بَيْتِ الْمَقْدِسِ. رَوَاهُ الْحَاکِمُ.()

() أخرجه الحاکم في المستدرک، 2 / 636، الرقم: 4117.

’’حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ سات سال تک حضرت ایوب علیہ السلام آزمائش میں مبتلا بیت المقدس کی مٹی پر لیٹے رہے۔‘‘

اِس حدیث کو امام حاکم نے روایت کیا ہے۔

21. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: لَا يَنْبَغِي لِعَبْدٍ أَنْ يَقُوْلَ: أَنَا خَيْرٌ مِنْ يُونُسَ بْنِ مَتّٰی عليه السلام . مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

وفي رواية لهما: قَالَ: مَنْ قَالَ: أَنَا خَيْرٌ مِنْ يُونُسَ بْنِ مَتّٰی، فَقَدْ کَذَبَ.

21: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الأنبياء، باب قول اﷲ تعالی: وإن يونس لمن المرسلين، 3 / 1255، الرقم: 3234، وأيضًا في کتاب تفسير القرآن، باب قوله: إنا أوحينا إليک کما أوحينا إلی نوح، 4 / 1681، الرقم: 4327.4328، ومسلم في الصحيح، کتاب الفضائل، باب في ذکر يونس، 4 / 1846، الرقم: 2376، والترمذي في السنن، کتاب الصلاة، باب ما جاء في کراهية الصلاة بعد العصر وبعد الفجر، 1 / 343. 344، الرقم: 183، وأيضًا في کتاب تفسير، باب ومن سورة الزمر، 5 / 373، الرقم: 3245.

’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کسی شخص کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ یہ کہے کہ میں یونس بن متی علیہ السلام سے بہتر ہوں۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

متفق علیہ روایت میں ہی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’جو شخص یہ کہے کہ میں یونس بن متی علیہ السلام سے بہتر ہوں، تو وہ جھوٹا ہے۔‘‘

22. عَنْ سَعْدٍ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : دَعْوَةُ ذِي النُّوْنِ إِذْ دَعَا وَهُوَ فِي بَطْنِ الْحُوْتِ: ﴿لَا إِلٰ.هَ إِلَّا أَنْتَ سُبْحَانَکَ إِنِّي کُنْتُ مِنَ الظَّالِمِيْنَ﴾، [الأنبياء، 21: 87]، فَإِنَّهُ لَمْ يَدْعُ بِهَا رَجُلٌ مُسْلِمٌ فِي شَيئٍ قَطُّ إِلَّا اسْتَجَابَ اﷲُ لَهُ.

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالتِّرْمِذِيُّ وَاللَّفْظُ لَهُ وَالنَّسَائِيُّ.

22: أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 1 / 170، الرقم: 1462، والترمذي في السنن، کتاب الدعوات، باب ما جاء في عقد التسبيح باليد، 5 / 529، الرقم: 3505، والنسائي في السنن الکبری، 6 / 168، الرقم: 10490. 10492، وأيضًا في عمل اليوم والليلة / 416، الرقم: 656، وأبو يعلی في المسند، 2 / 110، الرقم: 772.

’’حضرت سعد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ذوالنون (حضرت یونس) علیہ السلام کی وہ دعا جو آپ نے مچھلی کے پیٹ میں کی تھی، یہ ہے:

﴿لَا إِلٰهَ إِلَّا أَنْتَ سُبْحَانَکَ إِنِّي کُنْتُ مِنَ الظَّالِمِيْنَ﴾

’’اے اﷲ! تیرے سوا کوئی معبود نہیں تیری ذات پاک ہے، بے شک میں ہی (اپنی جان پر) زیادتی کرنے والوں میں سے تھا۔‘‘ پس بے شک جو مسلمان بھی کسی چیز کے بارے میں یہ دعا کرتا ہے تو اﷲ تعالیٰ اس کی یہ دعا قبول فرماتا ہے۔‘‘

اِس حدیث کو امام احمد، ترمذی نے مذکورہ الفاظ کے ساتھ، احمد اور نسائی نے روایت کیا ہے۔

23. عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ رضی الله عنه قَالَ: کَانَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم إِذَا ذَکَرَ شُعَيْبًا عليه السلام قَالَ: ذَاکَ خَطِيْبُ الأَنْبِيَائِ لِمُرَاجَعَتِهِ قَوْمَهُ.

رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَالْحَکِيْمُ التِّرْمِذِيُّ وَالطَّبَرِيُّ.

23: أخرجه الحاکم في المستدرک، 2 / 620، الرقم: 4071، والحکيم الترمذي في نوادر الأصول، 4 / 60، والطبري في جامع البيان، 9 / 4، والقرطبي في الجامع لأحکام القرآن، 9 / 90.

’’محمد بن اسحاق رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب حضرت شعیب علیہ السلام کا تذکرہ کرتے تو فرماتے: شعیب علیہ السلام اپنی قوم کی طرف تبلیغ کی خاطر (بار بار) رجوع کرنے کی بناء پر تمام انبیاء کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے خطیب تھے۔‘‘

اس حدیث کو امام حاکم، حکیم ترمذی اور طبری نے روایت کیا ہے۔

24. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضی الله عنهما أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم لَمَّا قَدِمَ الْمَدِيْنَةَ وَجَدَهُمْ يَصُوْمُوْنَ يَوْمًا يَعْنِي عَاشُوْرَاءَ؟ فَقَالُوْا: هٰذَا يَوْمٌ عَظِيْمٌ وَهُوَ يَوْمٌ نَجَّی اﷲُ فِيْهِ مُوْسٰی وَأَغْرَقَ آلَ فِرْعَوْنَ، فَصَامَ مُوْسٰی شُکْرًاِﷲِ. فَقَالَ: أَنَا أَوْلٰی بِمُوْسٰی مِنْهُمْ فَصَامَهُ وَأَمَرَ بَصِيَامِهِ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

24: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الأنبياء، باب قول اﷲ تعالی: وهل أتاک حديث موسی [طٰه، 20: 9]، 3 / 1244، الرقم: 3216، ومسلم في الصحيح، کتاب الصيام، باب صوم يوم عاشوراء، 2 / 796، الرقم: 1130، وأبو داود في السنن، کتاب الصوم، باب في صوم يوم عاشوراء، 2 / 326، الرقم: 2444.

’’حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جب مدینہ منورہ میں تشریف آوری ہوئی تو ان لوگوں کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عاشورہ کا روزہ رکھتے ہوئے پایا۔ (آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دریافت کرنے پر) یہودی کہنے لگے: یہ بڑی عظمت والا دن ہے۔ اس روز اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو (فرعون کے لشکر سے) بچایا اور آل فرعون کو غرق کیا تو شکر گزاری کے طور پر موسیٰ علیہ السلام نے اس دن روزہ رکھا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میں یہودیوں کی نسبت موسیٰ علیہ السلام کے زیادہ قریب ہوں۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود روزہ رکھا اور دوسروں کو بھی روزہ رکھنے کا حکم دیا۔‘‘

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

25. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ: أُرْسِلَ مَلَکُ الْمَوْتِ إِلٰی مُوْسٰی عليه السلام ، فَلَمَّا جَاءَ هُ صَکَّهُ فَفَقَأَ عَيْنَهُ فَرَجَعَ إِلٰی رَبِّهِ فَقَالَ: أَرْسَلْتَنِي إِلٰی عَبْدٍ لَا يُرِيْدُ الْمَوْتَ فَرَدَّ اﷲُ عَلَيْهِ عَيْنَهُ. فَقَالَ: ارْجِعْ، فَقُلْ لَهُ: يَضَعُ يَدَهُ عَلٰی مَتْنِ ثَوْرٍ فَلَهُ بِکُلِّ مَا غَطَّتْ بِهِ يَدُهُ بِکُلِّ شَعْرَةٍ سَنَةً. قَالَ: أَي رَبِّ، ثُمَّ مَاذَا؟ قَالَ: ثُمَّ الْمَوْتُ. قَالَ: فَالآنَ. فَسَأَلَ اﷲَ أَنْ يُدْنِيَهُ مِنَ الْأَرْضِ الْمُقَدَّسَةِ رَمْيَةً بِحَجَرٍ. قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : فَلَوْ کُنْتُ ثَمَّ لَأَرَيْتُکُمْ قَبْرَهُ إِلٰی جَانِبِ الطَّرِيْقِ عِنْدَ الْکَثِيْبِ الْأَحْمَرِ.

مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

25: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الجنائز، باب من أحب الدفن في الأرض المقدسة أو نحوها، 1 / 449، الرقم: 1274، وأيضًا في کتاب الأنبياء، باب وفاة موسی عليه السلام وذکره بعد، 3 / 1250، الرقم: 3226، ومسلم في الصحيح، کتاب الفضائل، باب من فضائل موسی عليه السلام ، 4 / 1842، الرقم: 2372، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 269، والنسائي في السنن، کتاب الجنائز، باب نوع آخر، 4 / 118.119، الرقم: 2089.

’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس ملک الموت (حضرت عزرائیل علیہ السلام ) کو بھیجا گیا، جب ان کے پاس ملک الموت آیا تو انہوں نے ملک الموت کو ایک تھپڑ مارا اور ان کی آنکھ پھوڑ دی. پس ملک الموت نے اپنے رب کے پاس جا کر عرض کیا: اے میرے رب! تو نے مجھے ایسے بندے کے پاس بھیجا ہے جو مرنے کا ارادہ نہیں رکھتا۔ اﷲ تعالیٰ نے اس کی آنکھ لوٹا دی اور فرمایا: ان کے پاس دوبارہ جاؤ اور ان سے کہو کہ ایک بیل کی پشت پر اپنا ہاتھ رکھ دیں۔ پس جتنے بال ان کے ہاتھ کے نیچے آئیں گے اتنے سال ان کی عمر بڑھا دی جائے گی. حضرت موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا: اے رب! پھر کیا ہو گا؟ فرمایا: پھر موت ہے۔ کہا: تو اب ہی سہی، پھر اﷲ تعالیٰ سے یہ دعا کی: اے اﷲ! مجھے ارض مقدسہ سے ایک پتھر پھینکے جانے کے فاصلہ پر کر دے (تاکہ میری روح اس مقدس مقام پر قبض ہو اور میری تدفین بھی اس مقدس مقام پر ہو. پس ان کی دعا قبول ہو گئی. حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اگر میں اس جگہ ہوتا تو تمہیں سرخ ٹیلے کے نزدیک راستہ کی ایک جانب ان کی قبر دکھاتا۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

وفي رواية: عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: أَتَيْتُ، (وَفِي رِوَايَةِ هَدَّابٍ:) مَرَرْتُ عَلٰی مُوسٰی لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِي عِنْدَ الْکَثِيْبِ الْأَحْمَرِ وَهُوَ قَائِمٌ يُصَلِّي فِي قَبْرِهِ.

رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ وَالنَّسَائِيُّ.()

() أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الفضائل، باب من فضائل موسی عليه السلام ، 4 / 1845، الرقم: 2375، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 148، الرقم: 12526. 13618، والنسائي في السنن، کتاب قيام الليل وتطوع النهار، باب ذکر صلاة نبي اﷲ موسی عليه السلام ، 3 / 215، الرقم: 161. 1632، وأيضًا في السنن الکبری، 1 / 419، الرقم: 1328، وابن أبي شيبة في المصنف، 7 / 335، الرقم: 36575.

’’حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میں آیا (اور ہدّاب کی ایک روایت میں ہے کہ) شب معراج سرخ ٹیلے کے پاس موسیٰ علیہ السلام کے قریب سے میرا گزر ہوا (تومیں نے دیکھا کہ) موسیٰ علیہ السلام اپنی قبر میں کھڑے مصروفِ صلاة تھے۔‘‘

اسے امام مسلم، احمد اور نسائی نے روایت کیا ہے۔

26. عَنْ أَبِي الْحُوَيْرَثِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ مُعَاوِيَةَ رضی الله عنه قَالَ: مَکَثَ مُوْسٰی عليه السلام بَعْدَ أَنْ کَلَّمَهُ اﷲُ أَرْبَعِيْنَ يَوْمًا، لَا يَرَاهُ أَحَدٌ إِلَّا مَاتَ مِنْ نُوْرِ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ. رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَابْنُ أَحْمَدَ.

26: أخرجه الحاکم في المستدرک، 2 / 629، الرقم: 4101، وعبد اﷲ بن أحمد في السنة، 2 / 278، الرقم: 1097، وابن معين في التاريخ (رواية الدوري)، 3 / 183، الرقم: 824، والذهبي في ميزان الاعتدال، 4 / 319، 7 / 15.

’’حضرت ابو حویرث عبد الرحمن بن معاویہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اﷲ تعالیٰ سے ہمکلام ہونے کے بعد چالیس دن تک ایک جگہ ٹھہرے رہے، جو بھی آپ کو دیکھتا وہ اﷲ رب العالمین کے نور کی تاب نہ لا کر فوت ہو جاتا۔‘‘

اس حدیث کو امام حاکم اور عبد اﷲ بن احمد نے روایت کیا ہے۔

وفي رواية: عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : لَمَّا کَلَّمَ اﷲُ مُوْسٰی، کَانَ يُبْصِرُ دَبِيْبَ النَّمْلِ عَلَی الصَّفَا فِي الَّليْلَةِ الظُّلْمَائِ مِنْ مَسِيْرَةِ عَشْرَةِ فَرَاسِخَ.

رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَالدَّيْلِمِيُّ.()

() أخرجه الطبراني في المعجم الصغير، 1 / 65، الرقم: 77، والديلمي في مسند الفردوس، 3 / 424، الرقم: 5301، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 2 / 247، والهيثمي في مجمع الزوائد، 8 / 203.

’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جب اللہ تعالیٰ حضرت موسیٰ علیہ السلام سے ہمکلام ہوا تو آپ علیہ السلام تاریک رات میں دس فرسخ (تیس میل) کی مسافت سے واضح طور پر رینگتی ہوئی چیونٹی بھی دیکھ لیتے تھے۔‘‘

اس حدیث کو امام طبرانی اور دیلمی نے روایت کیا ہے۔

27. عَنْ وَهْبِ بْنِ مُنَبَّهٍ رضی الله عنه قَالَ: کَانَ هَارُوْنُ بْنُ عِمْرَانَ فَصِيْحَ اللِّسَانِ بَيِّنَ الْمَنْطِقِ يَتَکَلَّمُ فِي تُؤَدَةٍ وَيَقُوْلُ بِعِلْمٍ وَحِلْمٍ، وَکَانَ أَطْوَلَ مِنْ مُوْسٰی طُوْلًا وَأَکْبَرَهُمَا فِي السِّنِّ، وَکَانَ أَکْثَرَهُمَا لَحْمًا وَأَبْيَضَهُمَا جِسْمًا وَأَعْظَمَهُمَا أَلْوَاحًا، وَکَانَ مُوْسٰی رَجُ.لًا جَعْدًا آدَمَ طِوَالًا کَأَنَّهُ مِنْ رِجَالِ شَنُوْءَةَ، وَلَمْ يَبْعَثِ اﷲُ نَبِهًّا إِلَّا وَقَدْ کَانَتْ عَلَيْهِ شَامَةُ النُّبُوَّةِ فِي يَدِهِ الْيُمْنٰی إِلَّا أَنْ يَکُوْنَ نَبِيُّنَا مُحَمَّدٌ صلی الله عليه وآله وسلم ، فَإِنَّ شَامَةَ النُّبُوَّةِ کَانَتْ بَيْنَ کَتْفَيْهِ، وَقَدْ سُئِلَ نَبِيُّنَا صلی الله عليه وآله وسلم عَنْ ذَالِکَ، فَقَالَ: هٰذِهِ الشَّامَةُ الَّتِي بَيْنَ کَتْفَيَّ شَامَةُ الْأَنْبِيَائِ قَبْلِي لِأَنَّهُ لَا نَبِيَّ بَعْدِي وَلَا رَسُوْلٌ. رَوَاهُ الْحَاکِمُ.

27: أخرجه الحاکم في المستدرک، 2 / 631، الرقم: 4105.

’’حضرت وہب بن منبہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت ہارون بن عمران علیہ السلام فصیح اللسان اور واضح کلام فرمانے والے تھے۔ آپ پرسکون لہجہ میں علم و حلم سے بات کرتے تھے۔ قد میں آپ حضرت موسیٰ علیہ السلام سے لمبے تھے اور عمر میں بھی ان سے بڑے تھے اور ان سے زیادہ پُر گوشت اور سفید جسم والے تھے اور آپ کے جسم کی ہڈیاں بھی ان کے جسم کی ہڈیوں سے بڑی تھیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام گھنگریالے بالوں والے، گندم گوں اور لمبے قد کے مالک تھے گویا آپ قبیلہ شنؤہ کے کوئی شخص ہوں۔ اﷲ تعالیٰ نے کسی نبی کو بھی نہیں بھیجا مگر یہ کہ اس کے دائیں ہاتھ میں مہرِ نبوت ہوتی تھی سوائے ہمارے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مہرِ نبوت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک شانوں کے درمیان تھی. ہمارے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس بارے میں عرض کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: یہ جو مہر میرے شانوں کے درمیان ہے یہ (میری اور) مجھ سے پہلے مبعوث ہونے والے انبیاء کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی مہر ہے کیوں کہ اب میرے بعد کوئی نبی ہے نہ رسول (اس لیے میرے بعد کسی کے لیے بھی ایسی مہر نہیں ہو گی).‘‘

اس حدیث کو امام حاکم نے روایت کیا ہے۔

28. عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ عَمْرٍو رضی الله عنهما قَالَ: قَالَ لِي رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : أَحَبُّ الصِّيَامِ إِلَی اﷲِ صِيَامُ دَاوُدَ، کَانَ يَصُوْمُ يَوْمًا وَيُفْطِرُ يَوْمًا، وَأَحَبُّ الصَّلَاةِ إِلَی اﷲِ صَلَاةُ دَاوُدَ، کَانَ يَنَامُ نِصْفَ اللَّيْلِ وَيَقُوْمُ ثُلُثَهُ وَيَنَامُ سُدُسَهُ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

28: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الأنبياء، باب أحب الصلاة إلی اﷲ صلاة داود، 3 / 1257، الرقم: 3238، ومسلم في الصحيح، کتاب الصيام، باب النهي عن صوم الدهر لمن تضرر به أو فوت به حقا، 2 / 816، الرقم: 1159، وأبو داود في السنن، کتاب الصوم، باب في صوم يوم وفطر يوم، 2 / 327، الرقم: 2448، والنسائي في السنن، کتاب قيام الليل وتطوع النهار، باب ذکر صلاة نبي اﷲ داود عليه السلام بالليل، 3 / 214، الرقم: 1630، وأيضًا في کتاب الصوم، باب صوم نبي اﷲ داود عليه السلام ، 4 / 198، الرقم: 2344، وابن ماجه في السنن، کتاب الصيام، باب ما جاء في صيام داود عليه السلام ، 1 / 546، الرقم: 1712.

’’حضرت عبد اﷲ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے فرمایا: اللہ تعالیٰ کو حضرت داود علیہ السلام کا روزہ سب روزوں سے زیادہ پسند ہے۔ وہ ایک دن روزہ رکھتے تھے اور ایک دن نہیں رکھتے تھے۔ اللہ تعالیٰ کو حضرت داود علیہ السلام کی نفل نماز تمام (نفل) نمازوں سے زیادہ پسند ہے۔ وہ رات کا نصف اوّل سوتے، پھر تہائی رات قیام کرتے پھر باقی چھٹا حصہ سوتے۔‘‘

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

29. عَنْ أَبِي الدَّرْدَائِ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : کَانَ مِنْ دُعَائِ دَاوُدَ عليه السلام يَقُولُ: اَللّٰهُمَّ، إِنِّي أَسْأَلُکَ حُبَّکَ وَحُبَّ مَنْ يُحِبُّکَ وَالْعَمَلَ الَّذِي يُبَلِّغُنِي حُبَّکَ؛ اَللّٰهُمَّ اجْعَلْ حُبَّکَ أَحَبَّ إِلَيَّ مِنْ نَفْسِي وَأَهْلِي وَمِنَ الْمَائِ الْبَارِدِ. قَالَ: وَکَانَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم إِذَا ذَکَرَ دَاوُدَ عليه السلام يُحَدِّثُ عَنْهُ، قَالَ: کَانَ أَعْبَدَ الْبَشَرِ.

رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالْحَاکِمُ. وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هٰذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ. وَقَالَ الْحَاکِمُ: صَحِيْحُ الإِْسْنَادِ.

وفي رواية للمَرْوَزي: إِنَّ أَخِي دَاوُدَ عليه السلام کَانَ أَعْبَدَ الْبَشَرِ، کَانَ يَقُوْمُ نِصْفَ اللَّيْلِ وَيَصُوْمُ نِصْفَ الدَّهْرِ.

29: أخرجه الترمذي في السنن، کتاب الدعوات، باب ما جاء في عقد التسبيح باليد، 5 / 522، الرقم: 3490، والحاکم في المستدرک، 2 / 470، الرقم: 3621، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 17 / 86، والمروزي في تعظيم قدر الصلاة / 110، الرقم: 23، وذکره الهيثمي في مجمع الزوائد، 8 / 206، وقال: رواه البزار وإسناده حسن، والمبارکفوري في تحفة الأحوذي، 9 / 325، والمناوي في فيض القدير، 4 / 544.

’’حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: داود علیہ السلام کی دعا یہ تھی کہ آپ فرمایا کرتے تھے: ’اے اﷲ، بے شک میں تجھ سے تیری محبت اور تجھ سے محبت کرنے والے کی محبت اور اس عمل کا سوال کرتا ہوں جو مجھے تیری محبت تک پہنچا دے (یعنی ایسا عمل جس سے میں تیرا محبوب بن جاؤں). اے اﷲ، تو اپنی محبت کو میرے نزدیک میرے نفس، میرے اہل و عیال اور ٹھنڈے پانی سے بھی زیادہ محبوب بنا دے۔‘ راوی بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب حضرت داود علیہ السلام کا ذکر کرتے تھے تو آپ علیہ السلام کے بارے میں بیان فرماتے تھے: آپ علیہ السلام (اپنے دور میں) تمام انسانوں سے زیادہ عبادت گذار تھے۔‘‘

اسے امام ترمذی اور حاکم نے روایت کیا ہے۔ نیز امام ترمذی نے فرمایا: یہ حدیث حسن ہے۔ اور امام حاکم نے فرمایا: اس حدیث کی سند صحیح ہے۔

امام مروزی کی روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’بے شک میرے بھائی داود علیہ السلام (اپنے دور میں) تمام انسانوں سے زیادہ عبادت گذار تھے، آپ آدھی رات تک قیام کیا کرتے اور آپ نے اپنی عمر کا آدھا حصہ روزے کی حالت میں گزارا۔‘‘

30. عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِيْهِ قَالَ: اخْتَارَ اﷲُ لِنُبُوَّتِهِ وَانْتَخَبَ لِرِسَالَتِهِ دَاوُدَ بْنَ إِيْشَا فَجَمَعَ اﷲُ لَهُ ذَالِکَ النُّوْرَ وَالْحِکْمَةَ وَزَادَهُ الزَّبُوْرَ مِنْ عِنْدِهِ، فَمَلَکَ دَاوُدُ بْنُ إِيْشَا سَبْعِيْنَ سَنَةً فَأَنْصَفَ النَّاسَ بَعْضَهُمْ مِنْ بَعْضٍ وَقَضٰی بِالْفَصْلِ بَيْنَهُمْ بِالَّذِي عَلَّمَهُ اﷲُ وَأَعْطَاهُ مِنْ حِکْمَتِهِ. وَأَمَرَ رَبُّنَا الْجِبَالَ فَأَطَاعَتْهُ وَأَلاَنَ لَهُ الْحَدِيْدَ بِإِذْنِ اﷲِ. وَأَمَرَ رَبُّنَا الْمَ.لَائِکَةَ بِأَنْ تَحْمِلَ لَهُ التَّابُوْتَ فَلَمْ يَزَلْ دَاوُدُ يُدَبِّرُ بِعِلْمِ اﷲِ وَنُوْرِهِ قَاضِيًا بِحَ.لَالِهِ، نَاهِيًا عَنْ حَرَامِهِ حَتّٰی إِذَا أَرَادَ اﷲُ أَنْ يَقْبِضَهُ إِلَيْهِ أَوْحٰی إِلَيْهِ أَنِ اسْتَوْدِعْ نُوْرَ اﷲِ وَحِکْمَتَهُ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ إِلَی ابْنِکَ سُلَيْمَانَ بْنَ دَاوُدَ، فَفَعَلَ. رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَابْنُ حَيَانَ.

30: أخرجه الحاکم في المستدرک، 2 / 642، الرقم: 4135، وابن حيان في العظمة، 5 / 1610.1611.

’’حضرت محمد بن جعفر بن محمد اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ نے اپنی نبوت اور رسالت کے لیے حضرت داود بن ایشا علیہ السلام کا انتخاب فرمایا اور ان کے نور و حکمت کو جمع فرمایا اور اپنی طرف سے انہیں زبور عطا فرمائی. سو حضرت داود بن ایشا علیہ السلام نے ستر سال تک حکومت کی. انہوں نے لوگوں کے درمیان عدل و انصاف سے فیصلہ فرمایا اور انہوں نے یہ فیصلے اس علم کے ذریعے فرمائے جو اﷲ تعالیٰ نے انہیں عطا فرمایا تھا اور اﷲ تعالیٰ نے انہیں اپنی حکمت میں سے حصہ وافر عطا فرمایا اور ہمارے رب کریم نے پہاڑوں کو حکم دیا کہ وہ ان کی اطاعت بجا لائیں اور انہوں نے اﷲ تعالیٰ کے اذن سے لوہے کو اپنے لیے نرم کیا۔ اور ہمارے رب نے ملائکہ کو حکم دیا کہ وہ ان کا تابوت اٹھائیں۔ پس حضرت داود علیہ السلام ہمیشہ اﷲ تعالیٰ کے (عطاکردہ) علم اور نور کے ذریعے تدبیر کرتے رہے، حلال کا حکم دیتے ہوئے اور حرام سے منع کرتے ہوئے یہاں تک کہ جب اﷲ تعالیٰ نے چاہا کہ ان کی روح قبض کر لے تو ان کی طرف وحی فرمائی کہ وہ اﷲ تعالیٰ کا نور اور اس کی ظاہری و مخفی حکمت اپنے بیٹے سلیمان بن داود کو ودیعت کر دیں۔ پس انہوں نے ایسا ہی کیا۔‘‘

اس حدیث کو امام حاکم اور ابن حیان نے روایت کیا ہے۔

31. عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ أَبِيْهِ قَالَ: أُعْطِيَ سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ مُلْکَ مَشَارِقِ الأَرْضِ وَمَغَارِبِهَا، فَمَلَکَ سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ سَبْعَمِاءَةِ سَنَةٍ وَسِتَّةَ أَشْهُرٍ، مَلَکَ أَهْلَ الدُّنْيَا کُلَّهُمْ مِنَ الْجِنِّ وَالإِْنْسِ وَالشَّيَاطِيْنِ وَالدَّوَّابِّ، وَالطَّيْرِ وَالسَّبَاعِ وَأُعْطِيَ عِلْمَ کُلِّ شَيئٍ وَمَنْطِقَ کُلِّ شَيئٍ، وَفِي زَمَانِهِ صُنِعَتِ الصَّنَائِعُ الْمُعْجَبَةُ الَّتِي مَا سَمِعَ بِهَا النَّاسُ وَسُخِّرَتْ لَهُ، فَلَمْ يَزَلْ مُدَبِّرًا بِأَمْرِ اﷲِ وَنُوْرِهِ وَحِکْمَتِهِ حَتّٰی إِذَا أَرَادَ اﷲُ أَنْ يَقْبِضَهُ، أَوْحٰی إِلَيْهِ أَنِ اسْتَوْدِعْ عِلْمَ اﷲِ وَحِکْمَتَهُ أَخَاهُ وَوَلَدَ دَاوُدَ.

رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَابْنُ حَيَانَ وَابْنُ عَسَاکِرَ.

31: أخرجه الحاکم في المستدرک، 2 / 643، الرقم: 4139، وابن حيان في العظمة، 5 / 1611، وابن عساکر في تاريخ دمشق الکبير، 22 / 263.

’’حضرت محمد بن جعفر بن محمد اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت سلیمان بن داود علیہ السلام کو زمین کے مشرق و مغرب کی حکومت عطا ہوئی، پس حضرت سلیمان بن داود علیہ السلام نے سات سو سال اور چھ ماہ تک حکومت کی اور آپ کی حکومت تمام اہلِ دنیا پر تھی جن میں تمام جن و انس، شیاطین، چوپائے اور درندے شامل تھے۔ آپ کو ہر چیز کا علم اور ہر چیز کی زبان عطا ہوئی اور آپ کے زمانے میں بہت خوب ایجادات ہوئیں جن کے بارے میں لوگوں نے پہلے کبھی سنا بھی نہیں تھا۔ یہ ساری چیزیں آپ کے لیے مسخر کر دی گئیں تھیں۔ پس آپ اﷲ تعالیٰ کے امر اور اس کے نور و حکمت کے ذریعے ان کی تدبیر کرتے رہے یہاں تک کہ جب اﷲ تعالیٰ نے آپ کی روح قبض کرنے کا ارادہ فرمایا تو آپ کی طرف وحی بھیجی کہ اﷲ تعالیٰ کے عطا کردہ علم و حکمت کو اپنے بھائی اور حضرت داود علیہ السلام کے بیٹے کو ودیعت کردیں۔‘‘

اس حدیث کو امام حاکم، ابن حیان اور ابن عساکر نے روایت کیا ہے۔

32. عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ کَعْبٍ رضی الله عنه قَالَ: بَلَغَنَا أَنَّ سُلَيْمَانَ بْنَ دَاوُدَ کَانَ عَسْکَرُهُ مِاءَةَ فَرْسَخٍ: خَمْسَةٌ وَعِشْرُوْنَ مِنْهَا لِلإِْنْسِ، وَخَمْسَةُ وَعِشْرُوْنَ لِلْجِنِّ، وَخَمْسَةٌ وَعِشْرُوْنَ لِلْوَحْشِ، وَخَمْسَةٌ وَعِشْرُوْنَ لِلطَّيْرِ، وَکَانَ لَهُ أَلْفُ بَيْتٍ مِنْ قَوَارِيْرَ عَلَی الْخَشَبِ مِنْهَا: ثَ.لَاثُ مِاءَةٍ صَرِيْحَةً، وَسَبْعُ مِاءَةٍ سِرِّيَةً، فَأَمَرَ الرِّيْحَ الْعَاصِفَ فَرَفَعَتْهُ فَأَمَرَ الرِّيْحَ فَسَارَتْ بِهِ فَأَوْحَی اﷲُ إِلَيْهِ وَهُوَ يَسِيْرُ بَيْنَ السَّمَائِ وَالأَرْضِ، إِنِّي قَدْ زِدْتُ فِي مُلْکِکَ أَنْ لَا يَتَکَلَّمَ أَحَدٌ مِنَ الْخَ.لَائِقِ بِشَيئٍ إِلَّا جَاءَ تِ الرِّيْحُ فَأَخْبَرَتْکَ. رَوَاهُ الْحَاکِمُ.

32: أخرجه الحاکم في المستدرک، 2 / 644، الرقم: 4141، والطبري في جامع البيان، 19 / 141، وأيضًا في تاريخ الأمم والملوک، 1 / 288، وذکره القرطبي في الجامع لأحکام القرآن، 13 / 167.

’’حضرت محمد بن کعب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: ہمیں یہ بات معلوم ہوئی کہ حضرت سلیمان بن داود علیہ السلام کا لشکر سو فرسخ (یعنی تین سو میل) پر پھیلا ہوا تھا، ان میں سے پچیس فرسخ انسانوں کے لیے، پچیس جنوں کے لیے، پچیس وحشی جانوروں کے لیے اور پچیس پرندوں کے لیے تھے۔ آپ کے ایک ہزار گھر تھے جو لکڑی کے بنے ہوئے تھے اور ان پر شیشے کا کام ہوا تھا، ان میں تین سو گھر ظاہر تھے اور تین سو مخفی تھے۔ آپ علیہ السلام آندھی کو حکم دیتے تو وہ آپ علیہ السلام کو اٹھا لیتی، ہوا کو حکم دیتے تو آپ کو ساتھ لے کر چلتی. اﷲ تبارک و تعالیٰ آپ کی طرف وحی فرماتا در آنحالیکہ آپ زمین و آسمان کے درمیان چل رہے ہوتے تھے۔ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے: (اے سلیمان!) میں نے تمہاری بادشاہت میں یہ اضافہ کر دیا ہے کہ مخلوقات میں سے جو بھی کوئی بات کرے گا ہوا تجھے اس کے بارے میں بتا دے گی.‘‘

اس حدیث کو امام حاکم نے روایت کیا ہے۔

وفي رواية: عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضی الله عنهما قَالَ: کَانَ سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ يُوْضَعُ لَهُ سِتُّ مِاءَةِ أَلْفِ کُرْسِيٍّ، ثُمَّ يَجِيئُ أَشْرَافُ الإِْنْسِ فَيَجْلِسُوْنَ مِمَّا يلِيْهِ، ثُمَّ يَجِيئُ أَشْرَافُ الْجِنِّ فَيَجْلِسُوْنَ مِمَّا يَلِي أَشْرَافَ الإِْنْسِ ثُمَّ يَدْعُو الطَّيْرَ فَتُظِلُّهُمْ، ثُمَّ يَدْعُو الرِّيْحَ فَتَحْمِلُهُمْ. قَالَ: فَيَسِيْرُ فِي الْغَدَاةِ الْوَاحِدَةِ مَسِيْرَةَ شَهْرٍ.

رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَابْنُ عَسَاکِرَ.()

() أخرجه الحاکم في المستدرک، 2 / 400، 644، الرقم: 3525، 4142، وذکره الطبري في جامع البيان، 19 / 144، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 22 / 266. 267.

’’حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضرت سلیمان بن داود کے لیے چھ لاکھ کرسیوں کا ایک تخت بچھایا جاتا تھا، پھر انسانوں میں سے بزرگ مرتبہ لوگ آتے اور وہ ان کے ساتھ والی کرسیوں پر بیٹھ جاتے، پھر جنات میں سے بزرگ جن آتے اور وہ بزرگ لوگوں کے ساتھ والی کرسیوں پر بیٹھ جاتے۔ پھر آپ پرندوں کو حکم فرماتے تو وہ ان سب پر سایہ فگن ہو جاتے، پھر آپ ہوا کو حکم فرماتے تو وہ ان سب کو اٹھا لے جاتی، اس طرح وہ ایک صبح میں ایک ماہ کی مسافت طے کر لیتے۔‘‘

اِس حدیث کو امام حاکم اور ابن عساکر نے روایت کیا ہے۔

33. عَنْ کَعْبٍ رضی الله عنه قَالَ:کَانَ يَحْيَی بْنُ زَکَرِيَا سَيِّدًا وَحَصُوْرًا، وَکَانَ لَا يَقْرُبُ النِّسَاءَ وَلَا يَشْتَهِيْهُنَّ، وَکَانَ شَابًّا حُسْنَ الْوَجْهِ وَالصُّوْرَةِ لَيِّنَ الْجَنَاحِ، قَلِيْلَ الشَّعْرِ، قَصِيْرَ الْأَصَابِعِ، طَوِيْلَ الْأَنْفِ، أَقْرَنَ الْحَاجَبَيْنِ، دَقِيْقَ الصَّوْتِ، کَثِيْرَ الْعِبَادَةِ، قَوِهًّا فِي طَاعَةِ اﷲِ.

رَوَاهُ الْحَاکِمُ.

33: أخرجه الحاکم في المستدرک، 2 / 647، الرقم: 4150، والنووي في تهذيب الأسماء واللغات، 2 / 449.

’’حضرت کعب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت یحییٰ بن زکریا سردار اور پاکدامن تھے، وہ عورتوں کے قریب تک نہ جاتے تھے اور نہ ہی عورتوں کی خواہش رکھتے تھے۔ آپ خوبصورت شکل و صورت کے حامل جھکے ہوئے کندھوں والے (یعنی نہایت متواضع)، کم بالوں، چھوٹی انگلیوں، اونچی ناک اور ملی ہوئی پلکوں والے، باریک آواز والے، بہت زیادہ عبادت گذار اور اﷲ تعالیٰ کی اطاعت میں پختہ نوجوان تھے۔‘‘ اِس حدیث کو امام حاکم نے روایت کیا ہے۔

34. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : کُلُّ بَنِي آدَمَ يَلَقَی اﷲَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِذَنْبٍ، وَقَدْ يُعَذِّبُهُ إِنْ شَاءَ أَوْ يَرْحَمُهُ إِلَّا يَحْيَی بْنُ زَکَرِيَا . فَإِنَّهُ کَانَ سَيِّدًا وَحُصُوْرًا، وَنَبِهًّا مِنَ الصَّالِحِيْنَ. وَأَهْوَی النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم إِلٰی قًذَاةٍ مِنَ الْأَرْضِ فَأَخَذَهَا، وَقَالَ: ذَکَرَهُ مِثْلَ هٰذِهِ الْقَذَاةِ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَابْنُ عَدِيٍّ.

34: أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 6 / 333، الرقم: 6556، وابن عدي في الکامل، 2 / 234، الرقم: 412، والخطيب البغدادي في موضح أوهام الجمع والتفريق، 2 / 80، وذکره العسقلاني في لسان الميزان، 2 / 177، والقرطبي في الجامع لأحکام القرآن، 4 / 79، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 1 / 362، والهيثمي في مجمع الزوائد، 8 / 209.

’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تمام بنی آدم روزِ قیامت اپنے اپنے گناہوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے حضور پیش ہوں گے اور اگر اللہ تعالیٰ چاہے گا تو انہیں عذاب دے گا یا ان پر رحم فرمائے گا سوائے حضرت یحییٰ بن زکریا علیہ السلام کے۔ پس بے شک آپ علیہ السلام سردار، پاکیزہ و بلند کردار کے حامل صالح نبی تھے۔ پھر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جھک کر ایک تنکا پکڑا اور فرمایا: آپ نے یحییٰ بن زکریا علیہ السلام (کے مناقب) کا فقط اس تنکے کے برابر ذکر کیا ہے۔‘‘

اس حدیث کو امام طبرانی اور ابن عدی نے روایت کیا ہے۔

35. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ: مَا مِنْ بَنِي آدَمَ مَوْلُوْدٌ إِلَّا يَمَسُّهُ الشَّيْطَانُ حِيْنَ يُوْلَدُ، فَيَسْتَهِلُّ صَارِخًا مِنْ مَسِّ الشَّيْطَانِ غَيْرَ مَرْيَمَ وَابْنِهَا. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

35: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الأنبياء، باب قول اﷲ تعالی: واذکر في الکتاب مريم، 3 / 1265، الرقم: 3248، وأيضًا في کتاب تفسير القرآن، باب وإني أعيذها بک وذريتها من الشيطان الرجيم، 4 / 1655، الرقم: 4274، ومسلم في الصحيح، کتاب الفضائل، باب فضائل عيسی عليه السلام ، 4 / 1838، الرقم: 2366، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 233، 274، الرقم: 7182، 7694.

’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: بنی آدم میں سے کوئی مولود ایسا نہیں ہے جسے پیدائش کے وقت شیطان مس نہ کرے۔ پس وہ بچہ اس شیطان کے مس کرنے کی وجہ سے چیخنا چلانا شروع کردیتا ہے سوائے مریم اور ان کے بیٹے عیسیٰ کے (کہ انہیں شیطان نے مس نہیں کیا).‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

36. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لَيُوْشِکَنَّ أَنْ يَنْزِلَ فِيْکُمُ ابْنُ مَرْيَمَ حَکَمًا عَدْلًا، فَيَکْسِرَ الصَّلِيْبَ وَيَقْتُلَ الْخِنْزِيْرَ وَيَضَعَ الْجِزْيَةَ وَيَفِيْضَ الْمَالُ حَتّٰی لَا يَقْبَلَهُ أَحَدٌ حَتّٰی تَکُوْنَ السَّجْدَةُ الْوَاحِدَةُ خَيْرًا مِنَ الدُّنْيَا وَمَا فِيْهَا.

مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

36: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الأنبياء، باب نزول عيسی ابن مريم، 3 / 1272، الرقم: 3264، ومسلم في الصحيح، کتاب الإيمان، باب نزول عيسی ابن مريم حاکما بشريعة نبينا محمد صلی الله عليه وآله وسلم ، 1 / 136، الرقم: 155، والترمذي في السنن، کتاب الفتن، باب ما جاء في نزول عيسی بن مريم عليه السلام ، 4 / 506، الرقم: 2233، وابن ماجه في السنن، کتاب الفتن، باب فتنة الدجال وخروج عيسی بن مريم، 2 / 1363، الرقم: 4078.

’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے! عنقریب تم میں عیسیٰ بن مریم علیہ السلام نازل ہوں گے، وہ عدل کے ساتھ فیصلے فرمانے والے ہوں گے، صلیب کو توڑیں گے، خنزیر کو قتل کریں گے، جزیہ موقوف کر دیں گے اور مال اتنا بڑھ جائے گا کہ کوئی لینے والا نہ رہے گا، یہاں تک کہ (بارگاهِ الٰہی میں) ایک سجدہ دنیا و ما فیہا سے بہتر ہوگا۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

37. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه ، عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم أَنَّهُ قَالَ: إِنِّي لَأَرْجُوْ إِنْ طَالَ بِي عُمْرٌ أَنْ أَلْقٰی عِيْسَی بْنَ مَرْيَمَ فَإِنْ عَجِلَ بِي مَوْتٌ فَمَنْ لَقِيَهُ مِنْکُمْ فَلْيُقْرِئْهُ مِنِّي السَّلَامَ.

رَوَاهُ أَحْمَدُ مَرْفُوْعًا، وَمَوْقُوْفًا، وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ: وَرِجَالُهُمَا رِجَالُ الصَّحِيْحِ.

37: أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 2 / 298.299، الرقم: 7957.7958، 7965، وابن الجعد في المسند، 1 / 175، الرقم: 1124، وذکره الهيثمي في مجمع الزوائد، 8 / 5، 205.

’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میں امید کرتا ہوں کہ اگر میری عمر طویل ہوئی تو میں عیسیٰ بن مریم سے ملاقات کروں گا۔ اور اگر میرا وصال جلد ہوگیا تو تم میں سے جو شخص انہیں ملے تو وہ انہیں میری طرف سے سلام کہے۔‘‘

اس حدیث کو امام احمد نے مرفوعا اور موقوفاً روایت کیا ہے۔ امام ہیثمی نے فرمایا: دونوں روایات کے رجال صحیح حدیث کے رجال ہیں۔

وفي رواية: عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ سَلَامٍ رضی الله عنه قَالَ: يُدْفَنُ عِيْسَی ابْنُ مَرْيَمَ مَعَ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم وَصَاحِبَيْهِ رضی الله عنهما ، فَيَکُوْنُ قَبْرُهُ رَابِعٌ.

رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ کَمَا قَالَ الْهَيْثَمِيُّ وَابْنُ عَبْدِ الْبَرِّ.()

() أخرجه الطبراني کما قال الهيثمي في مجمع الزوائد، 8 / 201، وذکره العسقلاني في فتح الباري، 13 / 308، وقال: رواه الطبراني، وابن عبد البر في التمهيد، 14 / 202، والمزي في تهذيب الکمال، 19 / 394.

’’حضرت عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے دونوں رفقاء (حضرت ابو بکر صدیق اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما ) کے ساتھ دفن کیا جائے گا۔ پس آپ کی قبر چوتھی ہوگی.‘‘

امام ہیثمی نے فرمایا: اس حدیث کو امام طبرانی نے روایت کیا ہے اور امام ابن عبد البر نے بھی اسے روایت کیا ہے۔

38. عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ رضی الله عنه ، عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: لَا تُخَيِّرُوْا بَيْنَ الْأَنْبِيَائِ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

38: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الديات، باب إذا لطم المسلم يهوديا عند الغضب، 6 / 2534، الرقم: 6518، ومسلم في الصحيح، کتاب الفضائل، باب من فضائل موسی عليه السلام ، 4 / 1845، الرقم: 2374، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 31، 33، الرقم: 11283، 11304، وأبو داود في السنن، کتاب السنة، باب في التخيير بين الأنبياء عليهم الصلاة والسلام، 4 / 217، الرقم: 4668.

’’حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: انبیاء کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے درمیان (بعض کو بعض پر) فضیلت مت دو.‘‘

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

39. عَنْ أَوْسِ بْنِ أَوْسٍ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : إِنَّ مِنْ أَفْضَلِ أَيَامِکُمْ يَوْمَ الْجُمُعَةِ، فِيْهِ خُلِقَ آدَمُ، وَفِيْهِ قُبِضَ، وَفِيْهِ النَّفْخَةُ، وَفِيْهِ الصَّعْقَةُ، فَأَکْثِرُوْا عَلَيَّ مِنَ الصَّلَاةِ فِيْهِ، فَإِنَّ صَلَاتَکُمْ مَعْرُوْضَةٌ عَلَيَّ، قَالَ: قَالُوْا: يَا رَسُوْلَ اﷲِ، کَيْفَ تُعْرَضُ صَ.لَاتُنَا عَلَيْکَ وَقَدْ أَرِمْتَ؟ قَالَ: يَقُوْلُوْنَ: بَلِيْتَ. قَالَ: إِنَّ اﷲَ حَرَّمَ عَلَی الْأَرْضِ أَجْسَادَ الْأَنْبِيَائِ.

وفي رواية: فَقَالَ: إِنَّ اﷲَ جَلَّ وَعَ.لَا حَرَّمَ عَلَی الْأَرْضِ أَنْ تَأْکُلَ أَجْسَامَنَا.

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَأَبُوْ دَاوُدَ وَاللَّفْظُ لَهُ وَالنَّسَائِيُّ وَابْنُ مَاجَه وَالدَّارِمِيُّ وَابْنُ خُزَيْمَةَ وَابْنُ حِبَّانَ. وَقَالَ الْحَاکِمُ: هٰذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ عَلٰی شَرْطِ الْبُخَارِيِّ. وَقَالَ الْوَادِيَاشِيُّ: صَحَّحَهُ ابْنُ حِبَّانَ. وَقَالَ الْعَسْقَ.لَانِيُّ: وَصَحَّحَهُ ابْنُ خُزَيْمَةَ. وَقَالَ الْعَجْلُوْنِيُّ: رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ بِإِسْنَادٍ جَيِّدٍ. وَقَالَ ابْنُ کَثِيْرٍ: وَقَدْ صَحَّحَ هٰذَا الْحَدِيْثَ بْنُ خُزَيْمَةَ، وَابْنُ حِبَّانَ، وَالدَّارَ قُطْنِيُّ، وَالنَّوَوِيُّ فِي الْأَذْکَارِ.

39: أخرجه أبو داود في السنن، کتاب الصلاة، باب فضل يوم الجمعة وليلة الجمعة، 1 / 275، الرقم: 1047، وأيضًا فيکتاب الصلاة، باب في الاستغفار، 2 / 88، الرقم: 1531، وأحمد بن حنبل في المسند، 4 / 8، الرقم: 16207، والنسائي في السنن ،کتاب الجمعة، باب بإکثار الصلاة علی النبي صلی الله عليه وآله وسلم يوم الجمعة، 3 / 91، الرقم: 1374، وأيضًا في السنن الکبری، 1 / 519، الرقم: 1666، وابن ماجه في السنن، کتاب إقامة الصلاة، باب في فضل الجمعة، 1 / 345، الرقم: 1085، والدارمي في السنن، 1 / 445، الرقم: 1572، وابن أبي شيبة في المصنف، 2 / 253، الرقم: 8697، وابن خزيمة في الصحيح، 3 / 118، الرقم: 1733. 1734، وابن حبان في الصحيح، 3 / 190، الرقم: 910، والحاکم في المستدرک، 1 / 413، الرقم: 1029، والبزار في المسند، 8 / 411، الرقم: 3485، والطبراني في المعجم الأوسط، 5 / 97، الرقم:4780، وأيضًا في المعجم الکبير، 1 / 261، الرقم: 589، والبيهقي في السنن الصغری، 1 / 371، الرقم: 634، وأيضًا في السنن الکبری، 3 / 248، الرقم: 5789، وأيضًا في شعب الإيمان، 3 / 109، الرقم: 3029، والجهضمي في فضل الصلاة علی النبي صلی الله عليه وآله وسلم / 37، الرقم: 22، والوادياشي في تحفة المحتاج، 1 / 524، الرقم: 661، وذکره العسقلاني في فتح الباري، 11 / 370، والعجلوني في کشف الخفاء، 1 / 190، الرقم: 501، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 3 / 515.

’’حضرت اَوس بن اَوس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: بیشک تمہارے دنوں میں سے جمعہ کا دن سب سے بہتر ہے۔ اِس دن آدم علیہ السلام پیدا ہوئے اور اسی دن انہوں نے وفات پائی اور اسی دن صور پھونکا جائے گا اور اسی دن سخت آواز ظاہر ہوگی. پس اس دن مجھ پر کثرت سے درود بھیجا کرو کیوں کہ تمہارا درود مجھ پر پیش کیا جاتا ہے۔ صحابہ کرام نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہمارا درود آپ کے وصال کے بعد آپ کو کیسے پیش کیا جائے گا؟ کیا آپ کا جسدِ مبارک خاک میں نہیں مل چکا ہوگا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: (نہیں ایسا نہیں ہے)، اللہ تعالیٰ نے زمین پر اَنبیائِ کرام ( رضوان اللہ علیہم اجمعین ) کے جسموں کو (کھانا یا کسی بھی قسم کا نقصان پہنچانا) حرام فرما دیا ہے۔‘‘

ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: بے شک اللہ برزگ و برتر نے زمین پر حرام قرار دیا ہے کہ وہ ہمارے جسموں کو کھائے۔‘‘

اِس حدیث کو امام اَحمد، ابو داود نے مذکورہ الفاظ کے ساتھ، نسائی، ابن ماجہ، دارمی، ابن خزیمہ اور ابن حبان نے روایت کیا ہے۔ امام حاکم نے فرمایا: یہ حدیث امام بخاری کی شرائط پر صحیح ہے۔ اور امام وادیاشی نے بھی فرمایا: اِسے امام ابن حبان نے صحیح قرار دیا ہے۔ اور امام عسقلانی نے فرمایا: اِسے امام ابن خزیمہ نے صحیح قرار دیا ہے اور امام عجلونی نے فرمایا: اِسے امام بیہقی نے جید سند کے ساتھ روایت کیا ہے۔ حافظ ابن کثیر نے فرمایا: اِسے امام ابن خزیمہ، ابن حبان، دار قطنی اور نووی نے الاذکار میں صحیح قرار دیا ہے۔

40. وفي رواية: عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : اَلْأَنْبِيَائُ أَحْيَاءٌ فِي قُبُوْرِهِمْ يُصَلُّوْنَ.

رَوَاهُ أَبُوْ يَعْلٰی وَرِجَالُهُ ثِقَاتٌ وَابْنُ عَدِيٍّ وَالْبَيْهَقِيُّ وَالدَّيْلِمِيُّ. وَقَالَ ابْنُ عَدِيٍّ: وَأَرْجُوْ أَنَّهُ لَا بَأسَ بِهِ. وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ: رِجَالُ أَبِي يَعْلٰی ثِقَاتٌ. وَقَالَ الشَّوْکَانِيُّ: فَقَدْ صَحَّحَهُ الْبَيْهَقِيُّ وَأَلَّفَ فِي ذَالِکَ جُزْئًا. وَقَالَ الزُّرْقَانِيُّ: وَجَمَعَ الْبَيْهَقِيُّ کِتَابًا لَطِيْفًا فِي حَيَاةِ الأَنْبِيَائِ وَرَوٰی فِيْهِ بِإِسْنَادٍ صَحِيْحٍ عَنْ أَنَسٍ رضی الله عنه مَرْفُوْعًا.

40: أخرجه أبو يعلی في المسند، 6 / 147، الرقم: 3425، وابن عدي في الکامل، 2 / 327، الرقم: 460، وقال: هذا أحاديث غرائب حسان وأرجو أنه لا بأس به، والديلمي في مسند الفردوس، 1 / 119، الرقم: 403، وذکره العسقلاني في فتح الباري، 6 / 487، وأيضًا في لسان الميزان، 2 / 175، 246، الرقم: 787، 1033، والهيثمي في مجمع الزوائد، 8 / 211، والسيوطي في شرحه علی سنن النسائي، 4 / 110، والعظيم آبادي في عون المعبود، 6 / 19، والمناوي في فيض القدير، 3 / 184، والشوکاني في نيل الأوطار، 5 / 178، والزرقاني في شرحه علی موطأ الإمام مالک، 4 / 357.

’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: انبیائِ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اپنی اپنی قبروں میں حیات ہیں اور نماز بھی پڑھتے ہیں۔‘‘

اِس حدیث کو امام ابو یعلی نے ثقہ رجال سے روایت کیا ہے اور ابن عدی، بیہقی اور دیلمی نے بھی روایت کیا ہے۔ امام ابن عدی نے فرمایا: اِس حدیث کی سند میں کوئی نقص نہیں ہے۔ امام ہیثمی نے بھی فرمایا: امام ابو یعلی کے رجال ثقات ہیں۔ علامہ شوکانی نے فرمایا: اسے امام بیہقی نے صحیح قرار دیا ہے اور حیاتِ انبیاء رضوان اللہ علیہم اجمعین پر انہوں نے ایک جزء (اَحادیث کی مختصر کتاب) بھی تالیف کی ہے۔ اسی طرح امام زرقانی نے بھی فرمایا: امام بیہقی نے حیاتِ انبیاء رضوان اللہ علیہم اجمعین پر ایک نہایت لطیف کتاب تالیف کی ہے جس میں انہوں نے حضرت اَنس رضی اللہ عنہ کی مرفوع روایات اِسنادِ صحیح کے ساتھ بیان کی ہیں۔

وقال العسقلاني في ’’الفتح‘‘: قَدْ جَمَعَ الْبَيْهَقِيُّ کِتَابًا لَطِيْفًا فِي حَيَاةِ الْأَنْبِيَائِ فِي قُبُوْرِهِمْ أَوْرَدَ فِيْهِ حَدِيْثَ أَنَسٍ رضی الله عنه : اَلْأَنْبِيَائُ أَحْيَاءٌ فِي قُبُوْرِهِمْ يُصَلُّوْنَ. أَخْرَجَهُ مِنْ طَرِيْقِ يَحْيَی بْنِ أَبِي کَثِيْرٍ وَهُوَ مِنْ رِجَالِ الصَّحِيْحِ عَنِ الْمُسْتَلِمِ بْنِ سَعِيْدٍ، وَقَدْ وَثَّقَهُ أَحْمَدُ وَابْنُ حِبَّانَ عَنِ الْحَجَّاجِ الْأَسْوَدِ وَهُوَ ابْنُ أَبِي زِيَادِ الْبَصْرِيُّ وَقَدْ وَثَّقَهُ أَحْمَدُ وَابْنُ مَعِيْنٍ عَنْ ثَابِتٍ عَنْهُ. وَأَخْرَجَهُ أَيْضًا أَبُوْ يَعْلٰی فِي مُسْنَدِهِ مِنْ هٰذَا الْوَجْهِ وَأَخْرَجَهُ الْبَزَّارُ وَصَحَّحَهُ الْبَيْهَقِيُّ.

ذکره العسقلاني في فتح الباري، 6 / 487.

’’امام عسقلانی فتح الباري میںبیان کرتے ہیں کہ امام بیہقی نے انبیاء کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے اپنی قبروں میںزندہ ہونے کے بارے میں ایک خوبصورت کتاب لکھی ہے جس میں انہوں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث بھی وارد کی ہے کہ انبیاء کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اپنی قبور میں (حیاتِ ظاہری کی طرح ہی) زندہ ہوتے ہیں اور صلاة بھی ادا کرتے ہیں۔ یہ حدیث اُنہوں نے یحیی بن ابی کثیر کے طریق سے روایت کی ہے اور وہ صحیح حدیث کے راویوں میں سے ہیں۔ اُنہوں نے مستلم بن سعید سے روایت کی اور امام احمد بن حنبل نے بھی انہیں ثقہ قرار دیا ہے۔ امام ابن حبان نے یہ حدیث حجاج اسود سے روایت کی ہے اور وہ ابن ابی زیاد بصری ہیں اور اُنہیں بھی امام اَحمد بن حنبل نے ثقہ قرار دیا ہے۔ امام ابن معین نے بھی حضرت ثابت سے یہ حدیث روایت کی ہے۔ امام ابو یعلی نے بھی اپنی مسند میں اسی طریق سے یہ حدیث روایت کی ہے اور امام بزار نے بھی اس کی تخریج کی ہے اور امام بیہقی نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔‘‘

41. وفي رواية: عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضی الله عنهما أَنَّهُ قَالَ: لَقَدْ سَلَکَ فَجَّ الرَّوْحَائِ سَبْعُوْنَ نَبِهًّا حُجَّاجًا عَلَيْهِمْ ثِيَابُ الصُّوْفِ، وَلَقَدْ صَلّٰی فِي مَسْجِدِ الْخَيْفِ سَبْعُوْنَ نَبِهًّا. رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَالْبَيْهَقِيُّ.

وفي رواية: عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضی الله عنهما قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : فِي مَسْجِدِ الْخَيْفِ قَبْرُ سَبْعِيْنَ نَبِهًّا.

رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَالْفَاکِهِيُّ وَالْبَزَّارُ وَرِجَالُهُ ثِقَاتٌ.

41: أخرجه الحاکم في المستدرک، 2 / 653، الرقم: 4169، والبيهقي في السنن الکبری، 5 / 177، الرقم: 9618، والطبراني في المعجم الکبير، 12 / 474، الرقم: 13525، والفاکهي في أخبار مکة، 4 / 266، الرقم: 2594، والهيثمي في مجمع الزوائد، 3 / 297، وقال: رواه البزار ورجاله ثقات، والمناوي في فيض القدير، 4 / 459.

’’حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ روحاء کے راستے پر ستر انبیاء کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین حج کی غرض سے گزرے ہیں جو اون کے کپڑے زیب تن کیے ہوئے تھے اور مسجد خیف میں ستر انبیاء رضوان اللہ علیہم اجمعین نے نماز ادا کی.‘‘

اِس حدیث کو امام حاکم اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔

حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: مسجد خیف میں ستر انبیاء کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے مزارات ہیں۔‘‘

اِسے امام طبرانی، فاکہی اور بزار نے روایت کیا ہے نیز اِس کے رجال ثقہ ہیں۔

وفي رواية عنه: قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : صَلّٰی فِي الْمَسْجِدِ الْخَيْفِ سَبْعُوْنَ نَبِهًّا مِنْهُمْ مُوْسٰی عليه السلام کَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَيْهِ وَعَلَيْهِ عِبَاءَ تَانِ قِطْوَانِيَتَانِ وَهُوَ مُحْرَمٌ عَلٰی بَعِيْرٍ مِنْ إِبِلِ شَنُوَّةَ مَخْطُوْمٌ بِخُطَامِ لِيْفٍ لَهُ ضِفْرَانٍ.

رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَأَبُوْ نُعَيْمٍ وَالْفَاکِهِيُّ.

أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 11 / 452، الرقم: 12283، وأبو نعيم في حلية الأولياء، 2 / 10، وابن عدي في الکامل، 6 / 58، والفاکهي في أخبار مکة، 4 / 266، الرقم: 2593، والذهبي في ميزان الاعتدال، 5 / 494، والديلمي في مسند الفردوس، 2 / 392، الرقم: 3740، والمقدسي في الأحاديث المختارة، 10 / 292، الرقم: 319، والمنذري في الترغيب والترهيب، 2 / 117، الرقم: 1736، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 61 / 167، والهيثمي في مجمع الزوائد، 3 / 221، 297، وقال: رواه البزار ورجاله ثقات.

’’آپ ہی سے مروی ایک روایت میں ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: مسجدِ خیف میں ستر انبیاء کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے نماز ادا کی جن میں موسیٰ علیہ السلام بھی شامل تھے، گویا میں ان کی طرف دیکھ رہا ہوں اور ان پر دو قطوانی چادریں تھیں اور وہ حالتِ احرام میں قبیلہ شنوہ کے اونٹوں میں سے ایک اونٹ پر سوار تھے جس کی نکیل کھجور کی چھال کی تھی جس کی دو رسیاں تھیں۔‘‘

اِس حدیث کو امام طبرانی، ابو نعیم اور فاکہی نے روایت کیا ہے۔

Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved