الاربعین فی فضائل النبی الامین

حضور ﷺ کے اختیارات اور باذن اللہ کائنات میں تصرفات کا بیان

فَصْلٌ فِي کَوْنِهِ صلی الله علیه وآله وسلم مُتَصَرِّفًا فِي الْوُجُوْدِ بِإِذْنِ خَالِقِهِ

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اختیارات اور باذن اللہ کائنات میں تصرفات کا بیان

27/1. عَنْ رَبِیْعَةَ بْنِ کَعْبٍ الْأَسْلَمِيِّ رضی الله عنه قَالَ: کُنْتُ أَبِیْتُ مَعَ رَسُوْلِ ﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم فَأَتَیْتُهُ بِوَضُوْئِهِ وَحَاجَتِهِ فَقَالَ لِي: سَلْ، فَقُلْتُ: أَسْأَلُکَ مُرَافَقَتَکَ فِي الْجَنَّةِ قَالَ: أَوْ غَیْرَ ذَلِکَ قُلْتُ: هُوَ ذَاکَ، قَالَ: فَأَعِنِّي عَلَی نَفْسِکَ بِکَثْرَةِ السُّجُوْدِ.

رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَبُوْدَاوُدَ.

أخرجه مسلم في الصحیح، کتابالصلاة، باب فضل السجود والحث علیه، 1/353، الرقم: 489، وأبوداود في السنن، کتاب الصلاة، باب وقت قیام النبي صلی الله علیه وآله وسلم من اللیل، 2/35، الرقم: 1320، والنسائي في السنن، کتاب التطبیق، باب فضل السجود، 2/227، الرقم: 1138، وفي السنن الکبری، 1/242، الرقم: 724، وأحمد بن حنبل في المسند، 4/59، والطبراني في المعجم الکبیر،5/56، الرقم: 4570، والبیهقي في السنن الکبری، 2/486، الرقم: 4344.

’’حضرت ربیع بن کعب اسلمی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں میں رات کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں رہا کرتا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے استنجاء اور وضو کے لئے پانی لاتا ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’مانگ کیا مانگتا ہے‘‘ میں نے عرض کیا: میں آپ سے جنت کی رفاقت مانگتا ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اس کے علاوہ ’’اور کچھ‘‘ میں نے کہا مجھے یہی کافی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تو پھر کثرتِ سجود سے اپنے معاملے میں میری مدد کرو۔‘‘

اس حدیث کو امام مسلم اور ابوداود نے روایت کیا ہے۔

28/2. عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ رضی الله عنه قَالَ: کَانَ شَابٌّ یَخْدُمُ النَّبِيَّ صلی الله علیه وآله وسلم وَیُخِفُّ فِي حَوَائِجِهِ، فَقَالَ: سَلْنِي حَاجَةً فَقَالَ: اُدْعُ ﷲَ تَعَالَی لِي بِالْجَنَّةِ قَالَ: فَرَفَعَ رَأْسَهُ فَتَنَفَّسَ وَقَالَ: نَعَمْ، وَلَکِنْ أَعِنِّي بِکَثْرَةِ السُّجُوْدِ.

رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.

أخرجه الطبراني في المعجم الکبیر، 2/245، الرقم: 2029، وفي المعجم الأوسط، 3/63، الرقم: 2488، وابن المبارک في الزهد، 1/455، الرقم: 1287، والمروزي في تعظیم قدر الصلاة، 1/329، الرقم: 319، والعسقلاني في الإصابة، 6/125.

’’حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک نوجوان حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں رہا کرتا تھا اور اپنی ذاتی ضروریات بیان نہ کرتا پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: مجھ سے مانگو (جو کچھ بھی چاہے) پس اس نے عرض کیا: اﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں میرے لئے جنت کی دعا فرمائیں۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سر انور اوپر اٹھایا، سانس لیا اور فرمایا، ٹھیک ہے لیکن کثرتِ سجود کے ساتھ میری مدد کرو۔‘‘

اس حدیث کو امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔

29/3. عَنْ زِیَادِ بْنِ أَبِي زِیَادٍ مَوْلٰی بَنِي مَخْزُوْمٍ عَنْ خَادِمٍ لِلنَّبِيِّ صلی الله علیه وآله وسلم رَجُلٍ أَوِ امْرَأَةٍ قَالَ: کَانَ النَّبِيُّ صلی الله علیه وآله وسلم مِمَّا یَقُوْلُ لِلْخَادِمِ: أَلَکَ حَاجَۃٌ؟ قَالَ: حَتّٰی کَانَ ذَاتَ یَوْمٍ فَقَالَ: یَا رَسُوْلَ ﷲِ، حَاجَتِي، قَالَ: وَمَا حَاجَتُکَ؟ قَالَ: حَاجَتِي أَنْ تَشْفَعَ لِي یَوْمَ الْقِیَامَةِ؟ قَالَ: وَمَنْ دَلَّکَ عَلَی هَذَا؟ قَالَ: رَبِّي. قَالَ: إِمَّا لَا، فَأَعِنِّي بِکَثْرَةِ السُّجُوْدِ.

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَقَالَ الْهَیْثَمِيُّ: رِجَالُهُ رِجَالُ الصَّحِیْحِ.

 أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 3/500، الرقم: 16120، والهیثمي في مجمع الزوائد، 2/249، والسیوطي في الجامع الصغیر، 1/237، الرقم: 397.

’’بنو مخزوم کے مولی زیاد بن ابی زیاد فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایک خادم مرد یا عورت سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے خادم سے فرمایا کرتے تھے: کیا تمہیں کوئی حاجت درپیش ہے؟ راوی بیان کرتے ہیں کہ یہاں تک کہ ایک روز اس خادم نے عرض کیا: یارسول اللہ! مجھے ایک حاجت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: بتاؤ تمہاری کیا حاجت ہے؟ اس نے عرض کیا: میری حاجت یہ ہے کہ آپ روزِ قیامت میری شفاعت فرمائیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کس نے تمہاری اس بات کی طرف رہنمائی کی ہے؟ اس نے عرض کیا: میرے رب نے! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کیوں نہیں! پس تو کثرتِ سجود سے میری مدد کر۔‘‘

اس حدیث کو امام احمد نے روایت کیا ہے۔ امام ہیثمی نے فرمایا کہ اس کے رجال صحیح حدیث کے رجال ہیں۔

30/4. عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ رضی الله عنه قَالَ: دَخَلَ رَسُوْلُ ﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم الْمَسْجِدَ وَهُوَ بَیْنَ أَبِي بَکْرٍ وَعُمَرَ وَإِذَا ابْنُ مَسْعُوْدٍ یُصَلِّي وَإِذَا هُوَ یَقْرَأُ النِّسَائَ فَانْتَهَی إِلٰی رَأْسِ الْمِائَةِ فَجَعَلَ ابْنُ مَسْعُوْدٍ یَدْعُوْ وَهُوَ قَائِمٌ یُصَلِّي فَقَالَ النَّبِيُّ صلی الله علیه وآله وسلم: اسْأَلْ تُعْطَهُ، اسْأَلْ تُعْطَهُ، ثُمَّ قَالَ: مَنْ سَرَّهُ أَنْ یَقْرَأَ الْقُرْآنَ غَضًّا کَمَا أُنْزِلَ فَلْیَقْرَأَ بِقِرَائَ ةِ ابْنِ أُمِّ عَبْدٍ فَلَمَّا أَصْبَحَ غَدَا إِلَیْهِ أَبُوْ بَکْرٍ لِیُبَشِّرَهُ وَقَالَ لَهُ: مَا سَأَلْتَ ﷲَ الْبَارِحَةَ؟ قَالَ: قُلْتُ: اَللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُکَ إِیْمَانًا لَا یَرْتَدُّ وَنَعِیْمًا لَا یَنْفَدُ وَمُرَافَقَةَ مُحَمَّدٍ صلی الله علیه وآله وسلم فِي أَعْلَی جَنَّةِ الْخُلْدِ ثُمَّ جَاءَ عُمَرُ فَقِیْلَ لَهُ: إِنَّ أَبَا بَکْرٍ قَدْ سَبَقَکَ قَالَ: یَرْحَمُ ﷲُ أَبَا بَکْرٍ مَا سَبَقْتُهُ إِلٰی خَیْرٍ قَطُّ إِلَّا سَبَقَنِي إِلَیْهِ.

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَابْنُ حِبَّانَ وَالْحَاکِمُ. وَقَالَ الْحَاکِمُ: هَذَا حَدِیْثٌ صَحِیْحُ الإِسْنَادِ.

 أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 1/454، الرقم: 4340، وابن حبان في الصحیح، 5/303، الرقم: 1970، والحاکم في المستدرک، 3/358، الرقم: 5386، والطبراني في المعجم الکبیر، 9/67، الرقم: 8413، وابن سرایا في سلاح المؤمن في الدعاء، 1/126، الرقم: 196، وابن عساکر في تاریخ مدینة دمشق، 33/96، والهیثمي في موارد الظمآن، 1/604، الرقم: 2436.

’’حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسجد میں داخل ہوئے جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت ابوبکر و عمر رضی اﷲ عنہما کے درمیان تھے، جبکہ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نماز ادا کر رہے تھے اور سورۃ النساء کی تلاوت کر رہے تھے، آپ رضی اللہ عنہ نے سو آیات تک کی تلاوت کی اور پھر حالتِ نماز میں دعا مانگنا شروع کی، تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: مانگو تمہیں عطا کیا جائے گا، مانگو تمہیں عطا کیا جائے گا، پھر فرمایا: جس شخص کو یہ پسند ہو کہ وہ قرآن کو ٹھہر ٹھہر کر اسی طرح پڑھے جس طرح وہ نازل ہوا تو وہ ابن ام عبد کی طرح پڑھے۔ پس جب صبح ہوئی تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ انہیں خوشخبری دینے پہنچ گئے اور انہیں کہا: آپ نے گزشتہ رات اللہ تعالیٰ سے کیا مانگا تھا؟ انہوں نے کہا: میں نے عرض کیا تھا: اے اللہ! میں تجھ سے ایسا ایمان مانگتا ہوں جس میں ارتداد نہ ہو اور ایسی نعمت مانگتا ہوں جو چھن نہ جائے اور ہمیشہ رہنی والی جنت کے اعلی درجہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مرافقت پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ (خوشخبری دینے کے لئے) تشریف لائے تو انہیں کہا گیا: بے شک حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ آپ سے سبقت لے گئے۔ آپ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ ابوبکر پر رحم فرمائے میں نے جب بھی خیر کے کام میں ان سے سبقت لے جانا چاہا تو وہ مجھ پر سبقت لے گئے۔‘‘

اس حدیث کو امام احمد، ابن حبان اور حاکم نے روایت کیا ہے۔ امام حاکم نے فرمایا کہ اس حدیث کی سند صحیح ہے۔

وفي روایة: عَنْ عَلِيٍ قَالَ: کُنْتُ مَعَ النَّبِيِّ صلی الله علیه وآله وسلم وَمَعَهٗ أبُوْبَکْرٍ رضی الله عنه وَمَنْ شَاءَ ﷲُ مِنْ أصْحَابِهٖ فَمَرَرْنَا بِعَبْدِ ﷲِ بْنِ مَسْعُوْدٍ، وَ هُوَ یُصَلِّيْ، فَقَالَ النَّبِيُّ صلی الله علیه وآله وسلم: مَنْ هَذَا؟ فَقِیْلَ: عَبْدُﷲِ بْنُ مَسْعُوْدٍ فَقَالَ: إِنَّ عَبْدَﷲِ یَقْرَأُ الْقُرْآنَ غَضًّا کَمَا أَنْزِلَ فَأَثْنٰی عَبْدُ ﷲِ عَلٰی رَبِّهٖ وَحَمِدَهٗ فَأَحْسَنَ فِي حَمْدِهِ عَلٰی رَبِّهٖ ثُمَّ سَأَلَهٗ فَأَجْمَلَ الْمَسْأَلَةَ وَ سَأَلَهٗ کَأَحْسَنِ مَسْأَلَةٍ سَأَلَهَا عَبْدٌ رَبَّهُ ثُمَّ قَالَ: اَللّٰهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُکَ إِیْمَانًا لَا یُرْتَدُّ وَ نَعِیْمًا لَا یُنْفَذُ وَ مُرَافَقَةَ مُحَمَّدٍ صلی الله علیه وآله وسلم فِي أَعلَی عِلِّیِّیْنَ فِي جِنَانِکَ جِنَانِ الْخُلْدِ قَالَ: وَکَانَ رَسُوْلُ ﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم یَقُوْلُ: سَلْ تُعْطَ سَلْ تُعْطَ مَرَّتَیْنِ فَانْطَلَقْتُ لِأُبَشِّرَهُ فَوَجَدْتُ أَبَا بَکْرٍ قَدْ سَبَقَنِيْ وَکَانَ سَبَّاقاً بِالْخَیْرِ.

أخرجه الحاکم في المستدرک، 3:358، الرقم: 5386.

حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے‘ وہ فرماتے ہیںکہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تھا، جبکہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سمیت آپ کے دیگر بہت سے صحابہ بھی جنہیں اللہ تعالیٰ نے چاہا ساتھ تھے۔ پس ہم حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس سے گزرے ‘جبکہ وہ نماز پڑھ رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دریافت فرمایا: یہ کون ہے؟ عرض کی گئی کہ عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ  ہیں۔ حضرت علیص فرماتے ہیں کہ عبداللہ ابن مسعودص قرآن کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھتے تھے جیسا کہ نازل ہوا۔پس عبداللہ ابن مسعودص نے اپنے رب کی خوب حمد و ثنا کی اور سب سے بہتر سوال کیا جتنا کوئی آدمی کرسکتا ہے کہ ’’اے اللہ میں تجھ سے ایسا ایمان مانگتا ہوں‘ جس میں ارتداد نہ ہو اور وہ نعمت‘ جو نہ چھن جائے اور ہمیشہ رہنے والی تیری جنتوں میں (تیرے حبیب) محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اعلیٰ علین میں مرافقت مانگتا ہوں اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرما رہے تھے۔ مانگ عطا کر دیا جائے گا، مانگ عطا کردیا جائے گا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں چل پڑا تاکہ اس (دعا کی قبولیت کی) خوشخبری سناؤں، مگر میں نے دیکھا کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ مجھ سے سبقت لے چکے ہیں۔ اور حضرت ابوبکرص خیر کے کاموں میں سبقت لے جانے والے تھے۔

Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved