الاربعین فی فضائل النبی الامین

حضور ﷺ کی اِنتہائی تعظیم و تکریم میں صحابہ کرام کے معمولات مبارکہ کا بیان

فَصْلٌ فِي جُهْدِ الصَّحَابَةِ لِغَایَةِ تَعْظِیْمِهِ صلی الله علیه وآله وسلم

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اِنتہائی تعظیم و تکریم میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے معمولات مبارکہ کا بیان

86/1. عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ السَّاعِدِيِّ رضی الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ ﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم ذَهَبَ إِلٰی بَنِي عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ لِیُصْلِحَ بَیْنَهُمْ فَحَانَتِ الصَّلَاةُ، فَجَاءَ الْمُؤَذِّنُ إِلٰی أَبِي بَکْرٍ، فَقَالَ: أَ تُصَلِّي لِلنَّاسِ فَأُقِیْمَ؟ قَالَ: نَعَمْ، فَصَلَّی أَبُوْ بَکْرٍ، فَجَاءَ رَسُوْلُ ﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم وَالنَّاسُ فِي الصَّلَاةِ فَتَخَلَّصَ حَتّٰی وَقَفَ فِي الصَّفِّ فَصَفَّقَ النَّاسُ، وَکَانَ أَبُوبَکْرٍ لَا یَلْتَفِتُ فِي صَلَاتِهِ، فَلَمَّا أَکْثَرَ النَّاسُ التَّصْفِیقَ، الْتَفَتَ، فَرَأَی رَسُوْلَ ﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم، فَأَشَارَ إِلَیْهِ رَسُوْلُ ﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم: أَنِ امْکُثْ مَکَانَکَ. فَرَفَعَ أَبُوْبَکْرٍ رضی الله عنه یَدَیْهِ، فَحَمِدَ ﷲَ عَلَی مَا أَمَرَهُ بِهِ رَسُوْلُ ﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم مِنْ ذَلِکَ، ثُمَّ اسْتَأْخَرَ أَبُوْ بَکْرٍ حَتَّی اسْتَوٰی فِي الصَّفِّ، وَتَقَدَّمَ رَسُوْلُ ﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم، فَلَمَّا انْصَرَفَ، قَالَ: یَا أَبَا بَکْرٍ! مَا مَنَعَکَ أَنْ تَثْبُتَ إِذْ أَمَرْتُکَ. فَقَالَ أَبُوبَکْرٍ: مَا کَانَ لِابْنِ أَبِي قُحَافَةَ أَنْ یُصَلِّيَ بَیْنَ یَدَي رَسُوْلِ ﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم، فَقَالَ رَسُوْلُ ﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم: مَا لِي رَأَیْتُکُمْ أَکْثَرْتُمُ التَّصْفِیقَ، مَنْ رَابَهُ شَيئٌ فِي صَلَاتِهِ فَلْیُسَبِّحْ، فَإِنَّهُ إِذَا سَبَّحَ الْتُفِتَ إِلَیْهِ، وَ إِنَّمَا التَّصْفِیقُ لِلنِّسَاءِ.

مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ.

أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب الأذان، باب من دَخَلَ لِیَؤمَّ النَّاسَ فجاء الإمام الأول فَتَأَخَّرَ الْأَوّلُ أو لَمْ یَتَأَخَّرْ جازت صلاته فیه عائشة عن النبي صلی الله علیه وآله وسلم، 1/242، الرقم: 652، وأیضا في أبواب العمل في الصلاة، باب ما یجوز من التسبیح والحمد في الصلاة للرجال، 1/402، الرقم: 1143، وأیضا في باب التصفیق للنساء، 1/403، الرقم: 1146، وأیضا في باب الأیدی في الصلاة، 1/407، الرقم: 1160، وأیضا في أبواب: السهو، باب الإشارة في الصلاة، 1/414، الرقم: 1177، 2544، 2547، 6767، ومسلم في الصحیح، کتاب الصلاة، باب تقدیم الجماعة من یصلی بهم إذا تأخر الإمام، 1/316، الرقم: 421، وأبوداود في السنن، کتاب الصلاة، باب التصفیق في الصلاة، 1/247، الرقم: 940، والنسائي في السنن، کتاب آداب القضاة، باب مصیر الحاکم إلٰی رعیتهٖ للصلح بینهم، 8/243، الرقم: 5413، وفي کتاب الإمامة، باب إذ تقدم الرجل من الرعیة ثم جاء الوالی هل یتأخر، 2/77، الرقم: 784، ومالک في الموطأ، کتاب قصر الصلاة في السفر، باب الإلتفات والتصفیق عند الحاجة في الصلاة، 1/163، الرقم: 61.

’’حضرت سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قبیلہ بنی عمرو بن عوف میں (کسی مسئلہ پر) صلح کرانے تشریف لے گئے، اتنے میں نماز کا وقت ہو گیا۔ مؤذن نے حضرت ابو بکرصدیق رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا: کیا آپ نماز پڑھا دیں گے تاکہ میں اقامت کہوں؟ انہوں نے فرمایا: ہاں۔ چنانچہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو نماز پڑھانا شروع کر دی، دوران نماز حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی تشریف لے آئے اور صفوں کو چیرتے ہوئے صف اول میں جاکر کھڑے ہو گئے، لوگوں نے (حضرت ابوبکر کو متوجہ کرنے کے لئے) تالیاں بجائیں لیکن حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نماز میں کسی اور جانب التفات نہیں فرمایا کرتے تھے۔ جب تالیوں کی آواز زیادہ ہو گئی تو حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ متوجہ ہوئے تو دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (تشریف لے آئے ہیں تو انہوں نے اپنی جگہ سے پیچھے ہٹنے کا ارادہ کیا) لیکن حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اپنی جگہ پر کھڑے رہو۔ حضرت ابو بکرص نے دونوں ہاتھ اٹھا کر خدا کا شکر ادا کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں امامت کا حکم دیا ہے۔ اس کے بعد حضرت ابوبکرص پیچھے ہٹے حتی کہ صف اول کے برابر آگئے اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آگے بڑھ کر امامت کرائی۔ نماز سے فارغ ہونے کے بعد حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے ابو بکر! جب میں نے حکم دیا تھا تو تم مُصلّی پر کیوں نہیں ٹھہرے رہے؟ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: (یا رسول اﷲ!) ابوقحافہ کے بیٹے کی کیا مجال کہ وہ حضور کے سامنے امامت کرائے۔ اس کے بعد حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا: اس کی کیا وجہ ہے کہ میں نے تمہیں تالیاں بجاتے دیکھا؟ اگر کسی کو نماز میں کوئی حادثہ پیش آئے تو (بلند آواز سے) سبحان اللہ کہے چنانچہ جب کوئی سبحان اللہ کہے تواس کی طرف توجہ دی جائے، اور تالیاں بجانا تو صرف عورتوں کے لئے مخصوص ہے۔‘‘

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved