الاربعین فی فضائل النبی الامین

حضور ﷺ کی شان میں طعن کرنے والوں کی مذمت اوران کی علامات کا بیان

فَصْلٌ فِي ذَمِّ مَنْ یَطْعَنُ فِي شَانِ النَّبِيِّ صلی الله علیه وآله وسلم وَعَلاَمَاتِهِ

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں طعن کرنے والوں کی مذمت اوران کی علامات کا بیان

103/1. عَنْ أَبِي سَعِیْدٍ رضی الله عنه قَالَ: بَیْنَا النَّبِيُّ صلی الله علیه وآله وسلم یَقْسِمُ، جَاءَ عَبْدُ ﷲِ بْنُ ذِي الْخُوَیْصِرَةِ التَّمِیْمِيُّ فَقَالَ: اعْدِلْ یَا رَسُوْلَ ﷲِ! قَالَ: وَیْحَکَ، وَمَنْ یَعْدِلُ إِذَا لَمْ أَعْدِلْ. قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ: اِئْذَنْ لِي فَأَضْرِبَ عُنُقَهُ، قَالَ: دَعْهُ، فَإِنَّ لَهُ أَصْحَابًا، یَحْقِرُ أَحَدُکُمْ صَلَاتَهُ مَعَ صَلَاتِهِ وَصِیَامَهُ مَعَ صِیَامِهِ، یَمْرُقُوْنَ مِنَ الدِّیْنِ کَمَا یَمْرُقُ السَّھْمُ مِنَ الرَّمِیَّةِ، یُنْظَرُ فِي قُذَذِهِ فَـلَا یُوْجَدُ فِیْهِ شَيئٌ، ثُمَّ یُنْظَرُ فِي نَصْلِهِ فَـلَا یُوْجَدُ فِیْهِ شَيئٌ ثُمٌ یُنْظَرُ فِي رِصَافِهِ فَـلَا یُوْجَدُ فِیْهِ شَيئٌ، ثُمَّ یُنْظَرُ فِي نَضِیِّهِ فَـلَا یُوْجَدُ فِیْهِ شَيئٌ، قَدْ سَبَقَ الفَرْثَ وَالدَّمَ… الحدیث.

مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ.

وفي رویة لأحمد: قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ: یَا رَسُوْلَ اللّٰهِ، دَعْنِي أَقْتُلْ هَذَا الْمُنَافِقَ الْخَبِیثَ.

أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب استابة المرتدین والمعاندین، باب مَن ترک قتال الخوارجِ لِلتَّألُّفِ، وَ لِئَلَّا یَنْفِرَ النَّاسُ عَنه، 6/2540، الرقم: 6534، 6532، وفي کتاب المناقب، باب علاماتِ النُّبُوّةِ في الإِسلامِ، 3/1321، الرقم: 3414، وفي کتاب فضائل القرآن، باب البکاء عند قراءة القرآن، 4/1928، الرقم: 4771، وفي کتاب الأدب، باب ما جاء في قول الرَّجلِ ویْلَکَ، 5/2281، الرقم: 5811، ومسلم في الصحیح، کتاب الزکاة، باب ذکر الخوارج وصفاتهم، 2/744، الرقم: 1064، ونحوه النسائی عن أبی برزة رضی الله عنه في السنن، کتاب تحریم الدم، باب من شهر سیفه ثم وضعه في الناس، 7/119، الرقم: 4103، وفي السنن الکبری، 6/355، الرقم: 11220، وابن ماجه في السنن، المقدمة، باب في ذکر الخوارج، 1/61، الرقم: 172، وابن الجارود في المنتقی، 1/272، الرقم: 1083، وابن حبان في الصحیح، 15/140، الرقم: 6741، والحاکم عن أبي برزة رضی الله عنه في المستدرک، 2/160، الرقم: 2647، وقال: هَذَا حَدِیثٌ صَحِیْحٌ، وأحمد بن حنبل في المسند، 3/56، الرقم: 11554، 14861، وابن أبی شیبة في المصنف، 7/562، الرقم: 37932، وعبد الرزاق في المصنف، 10/146، ونحوه البزار عن أبی برزة رضی الله عنه في المسند، 9/305، الرقم: 3846، والبیهقي في السنن الکبری، 8/171، والطبراني في المعجم الأوسط، 9/35، الرقم: 9060، وأبویعلی في المسند، 2/298، الرقم: 1022، والبخاري عن جابر رضی الله عنه في الأدب المفرد، 1/270، الرقم: 774.

’’حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مالِ غنیمت تقسیم فرما رہے تھے کہ عبد اللہ بن ذی الخویصرہ تمیمی آیا اور کہنے لگا: یارسول اللہ! انصاف سے تقسیم کیجئے (اس کے اس طعن پر) حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کمبخت اگر میں انصاف نہیں کرتا تو اور کون کرتا ہے؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اجازت عطا فرمائیے میں اس (خبیث منافق) کی گردن اڑا دوں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: رہنے دو اس کے کچھ ساتھی ایسے ہیں(یاہوں گے) کہ ان کی نمازوں اور ان کے روزوں کے مقابلہ میں تم اپنی نمازوں اور روزوں کو حقیر جانو گے لیکن وہ لوگ دین سے اس طرح خارج ہوں گے جس طرح تیر نشانہ سے پار نکل جاتا ہے۔ (تیر پھینکنے کے بعد) تیر کے پر کو دیکھا جائے گا تو اس میں بھی خون کا کوئی اثر نہ ہوگا۔ تیر کی باڑ کو دیکھا جائے گا تو اس میں بھی خون کا کوئی نشان نہ ہوگا اور تیر (جانور کے) گوبر اور خون سے پار نکل چکا ہوگا۔ (ایسی ہی ان خبیثوں کی مثال ہے کہ دین کے ساتھ ان کا سرے سے کوئی تعلق نہ ہو گا)۔‘‘

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

امام احمد بن حنبل نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے حوالے سے ان الفاظ کااضافہ کیا ہے:

’’یارسول اللہ! اجازت عطا فرمائیے کہ اس خبیث منافق کی گردن اُڑا دوں۔‘‘

104/2. عَنْ أَبِي سَعِیْدٍ الْخُدْرِيِّ رضی الله عنه یَقُوْلُ: بَعَثَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ رضی الله عنه إِلٰی رَسُوْلِ ﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم مِنَ الْیَمَنِ بِذُهَیْبَةٍ فِي أَدِیْمٍ مَقْرُوْظٍ لَمْ تُحَصَّلْ مِنْ تُرَابِهَا. قَالَ: فَقَسَمَهَا بَیْنَ أَرْبَعَةِ نَفَرٍ بَیْنَ عُیَیْنَةَ ابْنِ بَدْرٍ وَأَقْرَعَ بْنِ حَابِسٍ وَزَیْدٍ الْخَیْلِ وَالرَّابِعُ إِمَّا عَلْقَمَةُ وَإِمَّا عَامِرُ بْنُ الطُّفَیْلِ، فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِهِ: کُنَّا نَحْنُ أَحَقَّ بِهَذَا مِنْ هَؤُلَاءِ قَالَ: فَبَلَغَ ذٰلِکَ النَّبِيَّ صلی الله علیه وآله وسلم، فَقَالَ: أَلاَ تَأْمَنُوْنِي، وَأَنَا أَمِیْنُ مَنْ فِي السَّمَاءِ، یَأْتِیْنِي خَبَرُ السَّمَاءِ صَبَاحًا وَمَسَاءً، قَالَ: فَقَامَ رَجُلٌ غَائِرُ العَیْنَیْنِ، مُشْرِفُ الْوَجْنَتَیْنِ، نَاشِزُ الْجَبْهَةِ، کَثُّ اللِّحْیَةِ، مَحْلُوْقُ الرَّأْسِ، مُشَمَّرُ الإِزَارِ. فَقَالَ: یَارَسُوْلَ ﷲِ، اتَّقِ ﷲَ، قَالَ: وَیْلَکَ! أَوَلَسْتُ أَحَقَّ أَھْلِ الْأَرْضِ أَنْ یَتَّقِيَ ﷲَ ؟ قَالَ: ثُمَّ وَلّٰی الرَّجُلُ، قَالَ خَالِدُ بْنُ الْوَلِیْدِ: یَارَسُوْلَ ﷲِ، أَلاَ أَضْرِبُ عُنُقَهُ؟ قَالَ: لاَ، لَعَلَّهُ أَنْ یَکُوْنَ یُصَلِّي. فَقَالَ خَالِدٌ: وَکَمْ مِنْ مُصَلٍّ یَقُوْلُ بِلِسَانِهِ مَا لَیْسَ فِي قَلْبِهٖ، قَالَ رَسُوْلُ ﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم: إِنِّي لَمْ أُوْمَرْ أَنْ أَنْقُبَ عَنْ قُلُوْبِ النَّاسِ، وَلَا أَشُقَّ بُطُوْنَهُمْ، قَالَ: ثُمَّ نَظَرَ إِلَیْهِ وَهُوَ مُقَفٍّ، فَقَالَ: إِنَّهُ یَخْرُجُ مِنْ ضِئْضِیئِ هَذَا قَوْمٌ یَتْلُوْنَ کِتَابَ ﷲِ رَطْبًا لَا یُجَاوِزُ حَنَاجِرَهُمْ یَمْرُقُوْنَ مِنَ الدِّیْنِ کَمَا یَمْرُقُ السَّھْمُ مِنَ الرَّمِیَّةِ. وَأَظُنُّهُ قَالَ: لَئِنْ أَدْرَکْتُهُمْ لَأَقْتُلَنَّهُمْ قَتْلَ ثَمُوْدَ.

مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ.

أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب المغازي، باب بعث علی بن أبي طالب وخالد بن الولید رضي اﷲ عنهما إلی الیمن قبل حجة الوداع، 4/1581، الرقم: 4094، ومسلم في الصحیح، کتاب الزکاة، باب ذکر الخوارج وصفاتهم، 2/742، الرقم: 1064، وأحمد بن حنبل في المسند، 3/4، الرقم: 11021، وابن خزیمة في الصحیح، 4/71، الرقم: 2373، وابن حبان في الصحیح، 1/205، الرقم: 25، وأبویعلی في المسند، 2/390، الرقم: 1163، وأبو نعیم في المسند المستخرج، 3/128، الرقم: 2375، وفي حلیة الأولیاء، 5/71، والعسقلاني في فتح الباری، 8/68، الرقم: 4094، وفي حاشیة ابن القیم، 13/16، والسیوطي في الدیباج، 3/160، الرقم: 1064، وابن تیمیة في الصارم المسلول، 1/188، 192۔

’’حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے یمن سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں چمڑے کے تھیلے میں بھر کر کچھ سونا بھیجا، جس سے ابھی تک مٹی بھی صاف نہیں کی گئی تھی۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وہ سونا چار آدمیوں عیینہ بن بدر، اقرع بن حابس، زید بن خیل اور چوتھے علقمہ یا عامر بن طفیل کے درمیان تقسیم فرما دیا۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصحاب میں سے کسی نے کہا: ان لوگوں سے تو ہم زیادہ حقدار تھے۔ جب یہ بات حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کیا تم مجھے امانت دار شمار نہیں کرتے؟ حالانکہ آسمان والے کے نزدیک تو میں امین ہوں۔ اس کی خبریں تو میرے پاس صبح و شام آتی رہتی ہیں۔ راوی کا بیان ہے کہ پھر ایک آدمی کھڑا ہو گیا جس کی آنکھیں اندر کو دھنسی ہوئیں، رخساروں کی ہڈیاں ابھری ہوئیں، اونچی پیشانی، گھنی داڑھی، سر منڈا ہوا تھا اور وہ اونچا تہبند باندھے ہوئے تھا، وہ کہنے لگا: یا رسول اللہ! خدا سے ڈریں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تو ہلاک ہو، کیا میں تمام اہلِ زمین سے زیادہ خدا سے ڈرنے کا مستحق نہیں ہوں؟ سو جب وہ آدمی جانے کے لئے مڑا تو حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میں اس کی گردن نہ اڑا دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ایسا نہ کرو، شاید یہ نمازی ہو، حضرت خالد رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: بہت سے ایسے نمازی بھی تو ہیں کہ جو کچھ ان کی زبان پر ہے وہ دل میں نہیں ہوتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: مجھے یہ حکم نہیں دیا گیا کہ لوگوں کے دلوں میں نقب لگائوں اور ان کے پیٹ چاک کروں۔ راوی کا بیان ہے کہ وہ پلٹا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پھر اس کی جانب دیکھا تو فرمایا: اس کی پشت سے ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو کتاب اﷲ کی تلاوت سے زبان تر رکھیں گے، لیکن قرآن ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا۔ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے پار نکل جاتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ بھی فرمایا تھا کہ اگر میں ان لوگوں کو پائوں تو قوم ثمود کی طرح انہیں قتل کر دوں۔‘‘

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

105/3. وفي روایة لمسلم: فَقَامَ إِلَیْهِ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رضی الله عنه، فَقَالَ: یَا رَسُوْلَ ﷲِ، أَلاَ أَضْرِبُ عُنُقَهُ؟ قَالَ: لاَ، قَالَ: ثُمَّ أَدْبَرَ فَقَامَ إِلَیْهِ خَالِدٌ سَیْفُ ﷲِ. فَقَالَ: یَا رَسُوْلَ ﷲِ، أَلاَ أَضْرِبُ عُنُقَهُ؟ قَالَ: لاَ، فَقَالَ: إِنَّهُ سَیَخْرُجُ مِنْ ضِئضِیئِ هَذَا قَوْمٌ، یَتْلُوْنَ کِتَابَ ﷲِ لَیِّنًا رَطْبًا، (وَقَالَ: قَالَ عَمَّارَةُ: حَسِبْتُهُ) قَالَ: لَئِنْ أَدْرَکْتُهُمْ لَأَقْتُلَنَّهُمْ قَتْلَ ثَمُوْدَ.

مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ.

’’اور مسلم کی ایک روایت میں اضافہ ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا میں اس (منافق) کی گردن نہ اڑا دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: نہیں، پھر وہ شخص چلا گیا، پھر حضرت خالد سیف اللہ رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہو کر عرض کیا: یا رسول اللہ! میں اس (منافق) کی گردن نہ اڑا دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: نہیں، اس کی نسل سے ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو قرآن بہت ہی اچھا پڑھیں گے (مگر وہ ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا) (راوی) عمارہ کہتے ہیں کہ میرا خیال ہے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ بھی فرمایا: اگر میں ان لوگوں کو پالیتا تو (قومِ) ثمود کی طرح ضرور انہیں قتل کر دیتا۔‘‘

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved