اربعین: علامات قیامت اور فتنوں کا ظہور

دور فتن میں دین پر قائم رہنا اور فرقہ پرستی سے بچنا

اَلصَّبْرُ عَلَی الدِّيْنِ فِي الْفِتَنِ وَاجْتِنَابُ الْفُرْقَةِ

{دورِ فتن میں دین پر قائم رہنا اور فرقہ پرستی سے بچنا}

اَلْقُرْآن

(1) وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللهِ جَمِيْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوْا وَاذْکُرُوْا نِعْمَتَ اللهِ عَلَيْکُمْ اِذْ کُنْتُمْ اَعْدَآءً فَالَّفَ بَيْنَ قُلُوْبِکُمْ فَاَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِهٖٓ اِخْوَانًا ج وَکُنْتُمْ عَلٰی شَفَا حُفْرَةٍ مِّنَ النَّارِ فَاَنْقَذَکُمْ مِّنْهَا ط کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللهُ لَکُمْ اٰیٰـتِهٖ لَعَلَّکُمْ تَهْتَدُوْنَo (آل عمران، 3/ 103)

اور تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ مت ڈالو، اور اپنے اوپر اللہ کی اس نعمت کو یاد کرو جب تم (ایک دوسرے کے) دشمن تھے تو اس نے تمہارے دلوں میں الفت پیدا کر دی اور تم اس کی نعمت کے باعث آپس میں بھائی بھائی ہوگئے، اور تم (دوزخ کی) آگ کے گڑھے کے کنارے پر (پہنچ چکے) تھے پھر اس نے تمہیں اس گڑھے سے بچا لیا، یوں ہی اللہ تمہارے لیے اپنی نشانیاں کھول کر بیان فرماتا ہے تاکہ تم ہدایت پا جائوo

(2) وَاَنْ اَقِمْ وَجْھَکَ لِلدِّيْنِ حَنِيْفًا ج وَلاَ تَکُوْنَنَّ مِنَ الْمُشْرِکِيْنَo (یونس، 10/ 105)

اور یہ کہ آپ ہر باطل سے بچ کر (یکسو ہوکر) اپنا رخ دین پر قائم رکھیں اور ہرگز شرک کرنے والوں میں سے نہ ہوںo

(3) وَالَّذِيْنَ اتَّخَذُوْا مَسْجِدًا ضِرَارًا وَّکُفْرًا وَّتَفْرِيْقًام بَيْنَ الْمُؤْمِنِيْنَ وَاِرْصَادًا لِّمَنْ حَارَبَ اللهَ وَرَسُوْلَهٗ مِنْ قَبْلُ ط وَلَیَحْلِفُنَّ اِنْ اَرَدْنَآ اِلَّا الْحُسْنٰی ط وَاللهُ یَشْهَدُ اِنَّهُمْ لَکٰذِبُوْنَo (التوبۃ، 9/ 107)

اور (منافقین میں سے وہ بھی ہیں) جنہوں نے ایک مسجد تیارکی ہے (مسلمانوں کو) نقصان پہنچانے اور کفر (کو تقویت دینے) اور اہلِ ایمان کے درمیان تفرقہ پیدا کرنے اور اس شخص کی گھات کی جگہ بنانے کی غرض سے جو اللہ اور اس کے رسول ( ﷺ ) سے پہلے ہی سے جنگ کر رہا ہے، اور وہ ضرور قَسمیں کھائیں گے کہ ہم نے (اس مسجد کے بنانے سے) سوائے بھلائی کے اور کوئی ارادہ نہیں کیا، اور اللہ گواہی دیتا ہے کہ وہ یقینا جھوٹے ہیںo

(4) شَرَعَ لَکُمْ مِّنَ الدِّيْنِ مَا وَصّٰی بِهٖ نُوْحًا وَّالَّذِيْٓ اَوْحَيْنَآ اِلَيْکَ وَمَا وَصَّيْنَا بِهٖٓ اِبْرٰهِيْمَ وَمُوْسٰی وَعِيْسٰٓی اَنْ اَقِيْمُوا الدِّيْنَ وَلَا تَتَفَرَّقُوْا فِيْهِ ط کَبُرَ عَلَی الْمُشْرِکِيْنَ مَا تَدْعُوْهُمْ اِلَيْهِ ط اَللهُ یَجْتَبِيْٓ اِلَيْهِ مَنْ يَّشَآء وَیَهْدِيْٓ اِلَيْهِ مَنْ یُّنِيْبُo (الشوریٰ، 42/ 13)

اُس نے تمہارے لیے دین کا وہی راستہ مقرّر فرمایا جس کا حکم اُس نے نُوح ( علیہ السلام ) کو دیا تھا اور جس کی وحی ہم نے آپ کی طرف بھیجی اور جس کا حکم ہم نے ابراھیم اور موسیٰ و عیسیٰ ( علیہم السلام ) کو دیا تھا (وہ یہی ہے) کہ تم (اِسی) دین پر قائم رہو اور اس میں تفرقہ نہ ڈالو، مشرکوں پر بہت ہی گراں ہے وہ (توحید کی بات) جس کی طرف آپ انہیں بلا رہے ہیں۔ اللہ جسے (خود) چاہتا ہے اپنے حضور میں (قربِ خاص کے لیے) منتخب فرما لیتا ہے اور اپنی طرف (آنے کی) راہ دکھا دیتا ہے (ہر) اس شخص کو جو (اللہ کی طرف) قلبی رجوع کرتا ہےo

(5) اِنَّ الَّذِيْنَ اتَّقَوْا اِذَا مَسَّهُمْ طٰٓئِفٌ مِّنَ الشَّيْطٰنِ تَذَکَّرُوْا فَاِذَا هُمْ مُّبْصِرُوْنَo وَاِخْوَانُهُمْ یَمُدُّوْنَهُمْ فِی الْغَیِّ ثُمَّ لَا یُقْصِرُوْنَo

(الأعراف، 7/ 201-202)

بے شک جن لوگوں نے پرہیزگاری اختیار کی ہے، جب انہیں شیطان کی طرف سے کوئی خیال بھی چھو لیتا ہے (تو وہ اللہ کے امر و نہی اور شیطان کے دجل و عداوت کو) یاد کرنے لگتے ہیں سو اسی وقت ان کی (بصیرت کی) آنکھیں کھل جاتی ہیںo اور (جو) ان شیطانوں کے بھائی (ہیں) وہ انہیں (اپنی وسوسہ اندازی کے ذریعہ) گمراہی میں ہی کھینچے رکھتے ہیں پھر اس (فتنہ پروری اور ہلاکت انگیزی) میں کوئی کوتاہی نہیں کرتےo

اَلْحَدِيْث

28۔ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : یَأْتِي عَلَی النَّاسِ زَمَانٌ الصَّابِرُ فِيْهِمْ عَلٰی دِيْنِهٖ کَالْقَابِضِ عَلَی الْجَمْرِ۔

رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ۔

28: أخرجہ الترمذي في السنن، کتاب الفتن، باب ما جاء في النھي عن سب الریاح، 4/ 526، الرقم/ 2260۔

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: لوگوں پر ایک زمانہ ایسا آئے گا جس میں اپنے دین پر ثابت قدم رہنے والے کی مثال ایسے ہو گی جیسے کوئی شخص آگ کے انگاروں سے مٹھی بھر لے۔

اِس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔

29۔ عَنْ مَعْقَلِ بْنِ یَسَارٍ رضي الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ: الْعِبَادَةُ فِي الْهَرْجِ کَهِجْرَةٍ إِلَيَّ۔

رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَابْنُ مَاجَہ وَالطَّیَالِسِيُّ وَابْنُ حُمَيْدٍ۔

29: أخرجہ مسلم في الصحیح، کتاب الفتن وأشراط الساعۃ، باب فضل العبادۃ في الہرج، 4/ 2268، الرقم/ 2948، وابن ماجہ في السنن، کتاب الفتن، باب الوُقوف عند الشُّبُہات، 2/ 1319، الرقم/ 3985، والطیالسي في المسند، 1/ 126، الرقم/ 931، وابن حمید في المسند، 1/ 153، الرقم/ 402، والطبراني في المعجم الکبیر، 20/ 212، الرقم/ 488، 490،

حضرت معقل بن یسار رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: فتنوں کے زمانہ میں عبادت کرنے کا اجر میری طرف ہجرت کرنے کے برابر ہوگا۔

اسے امام مسلم، ابن ماجہ، طیالسی اور ابن حمید نے روایت کیا ہے۔

وَفِي رِوَایَةٍ عَنْهُ قَالَ: الْعَمَلُ فِي الْهَرْجِ کَهِجْرَةٍ إِلَيَّ۔ (1)

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالطَّبَرَانِيُّ۔

(1) أخرجہ أحمد بن حنبل في المسند، 5/ 25، الرقم/ 20313، والطبراني في المعجم الکبیر، 20/ 212، الرقم/ 489،

ایک روایت میں حضرت معقل بن یسار رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا: زمانہ فتن میں نیک عمل کرنے کا اجر میری طرف ہجرت کرنے کے برابر ہے۔

اسے امام اَحمد اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔

30۔ عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ رضي الله عنه {وَجَعَلْنَا فِيْ قُلُوْبِ الَّذِيْنَ اتَّبَعُوْهُ رَاْفَةً وَّرَحْمَةً ط وَرَهْبَانِيَّةَ نِابْتَدَعُوْهَا مَا کَتَبْنٰهَا عَلَيْهِمْ اِلَّا ابْتِغَآءَ رِضْوَانِ اللهِ فَمَا رَعَوْهَا حَقَّ رِعَایَتِهَا ج فَاٰتَيْنَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْهُمْ اَجْرَهُمْ وَکَثِيْرٌ مِّنْهُمْ فٰـسِقُوْنَo} [الحدید، 57/ 27]، قَالَ ابْنُ مَسْعُوْدٍ: قَالَ لِيَ النَّبِيُّ ﷺ : یَا عَبْدَ اللهِ بْنَ مَسْعُوْدٍ، فَقُلْتُ: لَبَّيْکَ یَا رَسُوْلَ اللهِ، ثَـلَاثَ مِرَارٍ، قَالَ: هَلْ تَدْرِي أَيُّ عُرَی الإِیمَانِ أَوْثَقُ؟ قُلْتُ: اَللهُ وَرَسُوْلُهٗ أَعْلَمُ۔ قَالَ: أَوْثَقُ الإِیمَانِ الْوَلَایَةُ فِي اللهِ بِالْحُبِّ فِيْهِ وَالْبُغْضِ فِيْهِ، یَا عَبْدَ اللهِ بْنَ مَسْعُوْدٍ، قُلْتُ: لَبَّيْکَ یَا رَسُوْلَ اللهِ، ثَـلَاثَ مِرَارٍ، قَالَ: هَلْ تَدْرِي أَيُّ النَّاسِ أَفْضَلُ؟ قُلْتُ: اَللهُ وَرَسُوْلُهٗ أَعْلَمُ۔ قَالَ: فَإِنَّ أَفْضَلَ النَّاسِ أَفْضَلُهُمْ عَمَلًا إِذَا فَقِهُوْا فِي دِینِهِمْ، یَا عَبْدَ اللهِ بْنَ مَسْعُوْدٍ قُلْتُ: لَبَّيْکَ وَسَعْدَيْکَ، ثَـلَاثَ مِرَارٍ، قَالَ: هَلْ تَدْرِي أيُّ النَّاسِ أَعْلَمُ؟ قُلْتُ: اَللهُ وَرَسُوْلُهٗ أَعْلَمُ۔ قَالَ: فَإِنَّ أَعْلَمَ النَّاسِ أَبْصَرُهُمْ بِالْحَقِّ إِذَا اخْتَلَفَتِ النَّاسُ، وَإِنْ کَانَ مُقَصِّرًا فِي الْعَمَلِ وَإِنْ کَانَ یَزْحَفُ عَلَی اسْتِهٖ، وَاخْتَلَفَ مَنْ کَانَ قَبْلَنَا عَلَی اثْنَتَيْنِ وَسَبْعِيْنَ فِرْقَةً نَجَا مِنْهَا ثَـلَاثٌ، وَهَلَکَ سَائِرُهَا، فِرْقَةٌ وَازَتِ الْمُلُوْکَ وَقَاتَلَتْهُمْ عَلٰی دِيْنِ اللهِ وَدِيْنِ عِيْسَی ابْنِ مَرْیَمَ حَتّٰی قُتِلُوْا، وَفِرْقَةٌ لَمْ یَکُنْ لَهُمْ طَاقَةٌ بِمُوَازَاةِ الْمُلُوْکِ فَأَقَامُوْا بَيْنَ ظَهْرَانَي قَوْمِهِمْ فَدَعَوْهُمْ إِلٰی دِینِ اللهِ وَدِيْنِ عِيْسَی ابْنِ مَرْیَمَ فَقَتَلَتْهُمُ الْمُلُوْکُ، وَنَشَرَتْهُمْ بِالْمَنَاشِيْرِ، وَفِرْقَةٌ لَمْ یَکُنْ لَهُمْ طَاقَةٌ بِمُوَازَاةِ الْمُلُوْکِ وَلَا بِالْمُقَامِ بَيْنَ ظَهْرَانَي قَوْمِهِمْ فَدَعَوْهُمْ إِلَی اللهِ وَإِلٰی دِيْنِ عِيْسَی ابْنِ مَرْیَمَ فَسَاحُوْا فِي الْجِبَالِ وَتَرَهَّبُوْا فِيْهَا فَهُمُ الَّذِيْنَ قَالَ اللهُ: {وَجَعَلْنَا فِيْ قُلُوْبِ الَّذِيْنَ اتَّبَعُوْهُ رَاْفَةً وَّرَحْمَةً ط وَرَهْبَانِيَّةَ نِابْتَدَعُوْهَا مَا کَتَبْنٰهَا عَلَيْهِمْ اِلَّا ابْتِغَآء رِضْوَانِ اللهِ فَمَا رَعَوْهَا حَقَّ رِعَایَتِهَا ج فَاٰتَيْنَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْهُمْ اَجْرَهُمْ وَکَثِيْرٌ مِّنْهُمْ فٰـسِقُوْنَo} [الحدید، 57/ 27] فَالْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِيْنَ آمَنُوْا بِي وَصَدَّقُوْنِي وَالْفَاسِقُوْنَ الَّذِيْنَ کَفَرُوا بِي وَجَحَدُوْا بِي۔

رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَالطَّیَالِسِيُّ وَالطَّبَرَانِيُّ، وَقَالَ الْحَاکِمُ: هٰذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ۔

30: أخرجہ الحاکم في المستدرک، 2/ 522، الرقم/ 3790، والطیالسي مختصرًا في المسند، 1/ 101، الرقم/ 747، والطبراني في المعجم الکبیر، 10/ 171، 220، الرقم/ 10357، 10531، وأیضًا في المعجم الصغیر، 1/ 372-373، الرقم/ 624، والشاشي في المسند، 2/ 203، الرقم/ 772، والبیہقي في شعب الإیمان، 7/ 69، الرقم/ 9510۔

وَفِي رِوَایَةِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما قَالَ: لَمْ یَکُنْ فِي بَنِي إِسْرَائِيْلَ شَيئٌ إِلَّا وَهُوَ فِيْکُمْ کَائِنٌ۔ (1)

رَوَاهُ ابْنُ حَمَّادٍ وَالْمَرْوَزِيُّ۔

(1) أخرجہ ابن حماد في السنن، 1/ 38، الرقم/ 36، والمروزي في السنۃ، 1/ 25، الرقم/ 67، وذکرہ الہندي في کنز العمال، 11/ 109، الرقم/ 31396۔

حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ آیت کریمہ: {اور ہم نے اُن لوگوں کے دلوں میں جو اُن کی (یعنی عیسٰی علیہ السلام کی صحیح) پیروی کر رہے تھے شفقت اور رحمت پیدا کر دی۔ اور رہبانیت (یعنی عبادتِ الٰہی کے لیے ترکِ دنیا اور لذّتوں سے کنارہ کشی) کی بدعت انہوں نے خود ایجاد کر لی تھی، اسے ہم نے اُن پر فرض نہیں کیا تھا، مگر (انہوں نے رہبانیت کی یہ بدعت) محض اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لیے (شروع کی تھی) پھر اس کی عملی نگہداشت کا جو حق تھا وہ اس کی ویسی نگہداشت نہ کرسکے (یعنی اسے اسی جذبہ اور پابندی سے جاری نہ رکھ سکے)، سو ہم نے اُن لوگوں کو جو ان میں سے ایمان لائے (اور بدعتِ رہبانیت کو رضائے الٰہی کے لیے جاری رکھے ہوئے) تھے، اُن کا اجر و ثواب عطا کر دیا اور ان میں سے اکثر لوگ (جو اس کے تارک ہوگئے اور بدل گئے) بہت نافرمان ہیںo} کی تفسیر میں بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے مجھ سے فرمایا: اے عبد اللہ بن مسعود! میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میں حاضر ہوں۔ تین مرتبہ میں نے ایسا کہا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: کیا تم جانتے ہو ایمان کے حلقوں میں سے کون سا حلقہ سب سے مضبوط ہے؟ میں نے عرض کیا: اللہ اور اس کا رسول ﷺ بہتر جانتے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: مضبوط ترین ایمان اللہ کے واسطے دوستی ہے، اللہ کے لیے (دوسروں سے) محبت کرنا اور اللہ کے لیے (دوسروں) سے بغض رکھنا ہے۔ اے عبد اللہ بن مسعود! میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میں حاضر ہوں۔ تین مرتبہ ایسا کہا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: کیا تم جانتے ہو، کون سا شخص زیادہ فضیلت والا ہے؟ میں نے عرض کیا: اللہ اور اس کا رسول ﷺ زیادہ جاننے والے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: بے شک زیادہ فضیلت والا شخص وہ ہے جو ان میں عمل کے اعتبار سے افضل ہے، جب انہیں دین کی سمجھ بوجھ ہو۔ اے عبد اللہ بن مسعود! میں نے عرض کیا: میں آپ کی خدمت میں دل و جان سے حاضر ہوں۔ تین مرتبہ ایسا کہا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: کیا تم جانتے ہو کہ زیادہ جاننے والا شخص کون ہے؟ میں نے عرض کیا: اللہ اور اس کے رسول ﷺ بہتر جانتے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: زیادہ جاننے والا شخص وہ ہے جو اس وقت حق کی زیادہ بصیرت رکھتا ہے جب لوگوں میں اختلاف پیدا ہوجائے، اگرچہ وہ عمل میں کمی کرنے والا ہی کیوں نہ ہو اور اگرچہ وہ اپنی سرین کے بل ہی آگے بڑھنے والا کیوں نہ ہو۔ ہم سے پہلے لوگ بہتر فرقوں میں تقسیم ہوگئے تھے۔ ان میں سے صرف تین (فرقوں) نے نجات پائی اور باقی سارے ہلاک ہو گئے۔ پہلا فرقہ وہ ہے جس نے حکمرانوں کا مقابلہ کیا اور اللہ تعالیٰ کے دین اور عیسیٰ بن مریم علیہما السلام کے دین پر ان کے ساتھ قتال کیا یہاں تک کہ انہیں شہید کردیا گیا، دوسرا فرقہ ناجیہ وہ ہے جن کے پاس حکمرانوں کے ساتھ مقابلہ کرنے کی طاقت نہیں تھی، سو وہ اپنی قوم کے لوگوں میں کھڑے ہوئے اور انہیں اللہ تعالیٰ کے دین اور عیسیٰ بن مریم علیہما السلام کے دین کی دعوت دی، پھر انہیں بھی حکمرانوں نے مروا دیا اور آریوں سے چیر ڈالا۔ اور تیسرا ناجیہ فرقہ وہ ہے جن کے پاس حکمرانوں کا مقابلہ کرنے کی طاقت تھی نہ ہی اپنی قوم کے لوگوں میں (حق کے لیے)کھڑے ہونے کی، انہوں نے بھی لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے دین اور عیسیٰ بن مریم علیہما السلام کے دین کی دعوت دی، اور پہاڑوں میں (عبادت و) سیاحت کرتے رہے اور انہی میں راہب بن کے زندگی گزار دی، یہی وہ لوگ ہیں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: {اور ہم نے اُن لوگوں کے دلوں میں جو اُن کی (یعنی عیسٰی علیہ السلام کی صحیح) پیروی کر رہے تھے شفقت اور رحمت پیدا کر دی۔ اور رہبانیت (یعنی عبادتِ الٰہی کے لیے ترکِ دنیا اور لذّتوں سے کنارہ کشی) کی بدعت انہوں نے خود ایجاد کر لی تھی، اسے ہم نے اُن پر فرض نہیں کیا تھا، مگر (انہوں نے رہبانیت کی یہ بدعت) محض اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لیے (شروع کی تھی) پھر اس کی عملی نگہداشت کا جو حق تھا وہ اس کی ویسی نگہداشت نہ کرسکے (یعنی اسے اسی جذبہ اور پابندی سے جاری نہ رکھ سکے)، سو ہم نے اُن لوگوں کو جو ان میں سے ایمان لائے (اور بدعتِ رہبانیت کو رضائے الٰہی کے لیے جاری رکھے ہوئے) تھے، اُن کا اجر و ثواب عطا کر دیا اور ان میں سے اکثر لوگ (جو اس کے تارک ہوگئے اور بدل گئے) بہت نافرمان ہیںo} پس مومن وہی ہیں جو مجھ پر ایمان لائے اور فاسق وہی ہیں جنہوں نے میرا انکار کیا۔

اس حدیث کو امام ابن ابی شیبہ اور حاکم نے مذکورہ الفاظ سے اور طیالسی اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔ امام حاکم نے فرمایا: اس حدیث کی اسناد صحیح ہے۔

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ فرمایا: بنی اسرائیل میں جو کچھ بھی وقوع پذیر ہوا وہ تم میں بھی ہونے والا ہے۔

اسے امام ابن حماد اور مروزی نے روایت کیا ہے۔

نوٹ: احادیث مبارکہ میں 73 گروہوں کے ذکر سے بعض لوگوں کو یہ مغالطہ لاحق ہوا ہے کہ ’اتحاد اُمت‘ کی کوشش کرنا فرمانِ نبوی کے خلاف ہے۔ یہ سوچ گمراہ کن ہے۔ تفرقہ ہرگز امر الٰہی نہیں ہے اور نہ ہی حکم رسول ﷺ ہے بلکہ یہ اُمت کے برے احوال کی خبر ہے۔ یہ ایک پیشین گوئی ہے جیسے دیگر بہت سے اُمور کی خبر دی گئی ہے مگر ان کے خلاف جد و جہد کرنے اور ان فتنوں سے لڑنے کا حکم بھی دیا گیا ہے۔

Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved