اربعین: تکوینی امور میں تصرفات مصطفی ﷺ

القرآن

(1) وَمَا رَمَیْتَ اِذْ رَمَیْتَ وَلٰـکِنَّ اللهَ رَمٰی ج وَلِیُبْلِیَ الْمُؤْمِنِیْنَ مِنْهُ بَـلَآءً حَسَنًا ط اِنَّ اللهَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌo

(الأنفال، 8:17)

اور (اے حبیبِ محتشم!) جب آپ نے (ان پر سنگریزے) مارے تھے (وہ) آپ نے نہیں مارے تھے بلکہ (وہ تو) اللہ نے مارے تھے اور یہ (اس لیے) کہ وہ اہلِ ایمان کو اپنی طرف سے اچھے انعامات سے نوازے، بے شک اللہ خوب سننے والا جاننے والا ہے۔

(2) وَلَوْ اَنَّهُمْ رَضُوْا مَآ اٰتٰهُمُ اللهُ وَ رَسُوْلُهٗ لا وَ قَالُوْا حَسْبُنَا اللهُ سَیُؤْتِیْنَا اللهُ مِنْ فَضْلِهٖ وَ رَسُوْلُهٗٓ لا اِنَّآ اِلَی اللهِ رَاغِبُوْنَo

(التّوبة، 9: 59)

اور کیا ہی اچھا ہوتا اگر وہ لوگ اس پر راضی ہو جاتے جو ان کو اللہ اور اس کے رسول ( ﷺ ) نے عطا فرمایا تھا اور کہتے کہ ہمیں اللہ کافی ہے۔ عنقریب ہمیں اللہ اپنے فضل سے اور اس کا رسول ( ﷺ مزید) عطا فرمائے گا۔ بے شک ہم اللہ ہی کی طرف راغب ہیں (اور رسول ﷺ اسی کا واسطہ اور وسیلہ ہے، اس کا دینا بھی اللہ ہی کا دینا ہے۔ اگر یہ عقیدہ رکھتے اور طعنہ زنی نہ کرتے تو یہ بہتر ہوتا)۔

Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved