ہدایۃ الامۃ علی منہاج القرآن والسنۃ - الجزء الاول

اللہ عزوجل کے بارے میں حسن ظن

فَصْلٌ فِي حُسْنِ الظَّنِّ بِاللهِ تَعَالَی

{اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے بارے میں حسنِ ظن رکھنے کا بیان}

اَلْآیَاتُ الْقُرْآنِيَّةُ

1۔ اَلَّذِيْنَ یَظُنُّوْنَ اَنَّهُمْ مُّلٰـقُوْا رَبِّهِمْ وَاَنَّهُمْ اِلَيْهِ رٰجِعُوْنَo

(البقرۃ، 2 : 46)

’’(یہ وہ لوگ ہیں) جو یقین رکھتے ہیں کہ وہ اپنے رب سے ملاقات کرنے والے ہیں اور وہ اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیںo‘‘

2۔ وَطَآئِفَةٌ قَدْ اَهَمَّتْهُمْ اَنْفُسُهُمْ یَظُنُّوْنَ بِاللهِ غَيْرَ الْحَقِّ ظَنَّ الْجَاهِلِيَّةِ ط یَقُوْلُوْنَ هَلْ لَّـنَا مِنَ الْاَمْرِ مِنْ شَيْئٍ ط قُلْ اِنَّ الْاَمْرَ کُلَّهٗ ِللهِ۔

(آل عمران، 3 : 154)

’’اور ایک گروہ کو (جو منافقوں کا تھا) صرف اپنی جانوں کی فکر پڑی ہوئی تھی، وہ اللہ کے ساتھ ناحق گمان کرتے تھے جو (محض) جاہلیت کے گمان تھے، وہ کہتے ہیں : کیا اس کام میں ہمارے لیے بھی کچھ (اختیار) ہے؟ فرما دیں کہ سب کام اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے۔‘‘

3۔ مَنْ کَانَ یَظُنُّ اَنْ لَّنْ يَّنْصُرَهُ اللهُ فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَةِ فَلْیَمْدُدْ بِسَبَبٍ اِلَی السَّمَآء ثُمَّ لْیَقْطَعْ فَلْیَنْظُرْ ھَلْ یُذْھِبَنَّ کَيْدُهٗ مَا یَغِيْظُo

(الحج، 22 : 15)

’’جو شخص یہ گمان کرتا ہے کہ اللہ اپنے (محبوب و برگزیدہ) رسول کی دنیا و آخرت میں ہرگز مدد نہیں کرے گا اسے چاہئے کہ (گھر کی) چھت سے ایک رسی باندھ کر لٹک جائے پھر (خود کو) پھانسی دے لے پھر دیکھے کیا اس کی یہ تدبیر اس (نصرتِ الٰہی) کو دور کر دیتی ہے جس پر غصہ کھا رہا ہےo‘‘

4۔ وَ ذٰلِکُمْ ظَنُّکُمُ الَّذِيْ ظَنَنْتُمْ بِرَبِّکُمْ اَرْدٰ کُمْ فَاَصْبَحْتُمْ مِّنَ الْخٰسِرِيْنَo

(فصلت، 41 : 23)

’’اور تمہارا یہی گمان جو تم نے اپنے رب کے بارے میں قائم کیا، تمہیں ہلاک کر گیا سو تم نقصان اٹھانے والوں میں سے ہو گئےo‘‘

5۔ وَ یُعَذِّبَ الْمُنٰـفِقِيْنَ وَالْمُنٰـفِقٰتِ وَالْمُشْرِکِيْنَ وَالْمُشْرِکٰتِ الظَّآنِّيْنَ بِاللهِ ظَنَّ السَّوْءِ ط عَلَيْهِمْ دَآئِرَةُ السَّوْءِ ج وَغَضِبَ اللهُ عَلَيْھِمْ وَلَعَنَھُمْ وَاَعَدَّ لَھُمْ جَھَنَّمَ ط وَسَآءَتْ مَصِيْرًاo

(الفتح، 48 : 6)

’’اور (اس لیے بھی کہ ان) منافق مردوں اور منافق عورتوں اور مشرک مردوں اور مشرک عورتوں کو عذاب دے جو اللہ کے ساتھ بُری بدگمانیاں رکھتے ہیں، انہی پر بُری گردش (مقرر) ہے، اور ان پر اللہ نے غضب فرمایا اور ان پر لعنت فرمائی اور ان کے لیے دوزخ تیار کی، اور وہ بہت بُرا ٹھکانا ہےo‘‘

6۔ وَ اَنَّهُمْ ظَنُّوْا کَمَا ظَنَنْتُمْ اَنْ لَّنْ يَّبْعَثَ اللهُ اَحَدًاo

(الجن، 72 : 7)

’’اور (اے گروهِ جنات!) وہ انسان بھی ایسا ہی گمان کرنے لگے جیسا گمان تم نے کیا کہ اللہ (مرنے کے بعد) ہرگز کسی کو نہیں اٹھائے گاo‘‘

اَلْأَحَادِيْثُ النَّبَوِيَّةُ

1۔ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه قَالَ : قَالَ النَّبِيُّ ﷺ : یَقُوْلُ اللهُ تَعَالَی : أَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِي بِي، وَأَنَا مَعَهُ إِذَا ذَکَرَنِي، فَإِنْ ذَکَرَنِي فِي نَفْسِهِ ذَکَرْتُهُ فِي نَفْسِي، وَإِنْ ذَکَرَنِي في مَـلَإٍ ذَکَرْتُهُ فِي مَـلَإٍ خَيْرٍ مِنْهُمْ، وَإِنْ تَقَرَّبَ إِلَيَّ شِبْرًا تَقَرَّبْتُ إِلَيْهِ ذِرَاعًا، وَإِنْ تَقَرَّبَ إِلَيَّ ذِرَاعًا تَقَرَّبْتُ إِلَيْهِ بَاعًا، وَإِنْ أَتَانِي یَمْشِي، أَتَيْتُهُ هَرْوَلَةً۔

مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ۔

1 : أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب : التوحید، باب : قول اللہ تعالی، ویحذرکم اللہ نفسہ، 6 / 2694، الرقم : 6970، ومسلم في الصحیح، کتاب : الذکر والدعاء والتوبۃ والاستغفار، باب : الحث علی ذکر اللہ تعالی، 4 / 2061، الرقم : 2675، والترمذي في السنن، کتاب : الزہد، باب : في حسن الظن باللہ عزوجل، 5 / 581، الرقم : 3603، وابن ماجہ في السنن، کتاب : الأدب، باب : فضل العمل، / 1255، الرقم : 3822۔

’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرا بندہ میرے متعلق جیسا خیال رکھتا ہے میں اس کے ساتھ ویسا ہی معاملہ کرتا ہوں۔ جب وہ میرا ذکر کرتا ہے تو میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں۔ اگر وہ اپنے دل میں میرا ذکر (ذکر خفی) کرے تو میں بھی خفیہ طور پر اس کا ذکر کرتا ہوں، اور اگر وہ جماعت میں میرا ذکر (ذکر جلی) کرے تو میں اس کی جماعت سے بہتر جماعت میں اس کا ذکر کرتا ہوں۔ اگر وہ ایک بالشت میرے نزدیک آئے تو میں ایک بازو کے برابر اس کے نزدیک ہو جاتا ہوں۔ اگر وہ ایک بازو کے برابر میرے نزدیک آئے تو میں دو بازؤوں کے برابر اس کے نزدیک ہو جاتا ہوں اور اگر وہ میری طرف چل کر آئے تو میں اس کی طرف دوڑ کر آتا ہوں۔‘‘

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

2۔ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه عَنْ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ قَالَ : إِنَّ اللهَ عزوجل قَالَ : إِذَا تَلَقَّانِي عَبْدِي بِشِبْرٍ، تَلَقَّيْتُهُ بِذِرَاعٍ۔ وَإِذَا تَلَقَّانِي بِذِرَاعٍ، تَلَقَّيْتُهُ بِبَاعٍ، وَإِذَا تَلَقَّانِي بِبَاعٍ، جِئْتُهُ أَتَيْتُهُ بِأَسْرَعَ۔ رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ۔

2 : أخرجه مسلم في الصحیح، کتاب : الذکر والدعاء والتوبۃ والاستغفار، باب : الحث علی ذکر الله تعالی، 4 / 2061، الرقم : 2675، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 316، الرقم : 8178، وأیضاً، 3 / 283، الرقم : 14045۔

’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے فرمایا : جب میرا بندہ ایک بالشت میری طرف بڑھتا ہے، میں ایک ہاتھ اس کی طرف بڑھتا ہوں اور اگر وہ ایک ہاتھ میری طرف بڑھتا ہے تو میں دو ہاتھ اس کی طرف بڑھتا ہوں اور جب وہ میری طرف دو ہاتھ بڑھتا ہے تو میں تیزی سے اس کی طرف بڑھتا ہوں (یعنی بکثرت اس پر اپنی رحمت اور مدد و نصرت فرماتا ہوں)۔‘‘ اس حدیث کو امام مسلم اور احمد بن حنبل نے روایت کیا ہے۔

3۔ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : إِنَّ اللهَ یَقُوْلُ : أَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِي بِي، وَأَنَا مَعَهُ إِذَا دَعَانِي۔ مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ۔

3 : أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب : التوحید، باب : قول الله تعالی : یریدون أن یبدلوا کلام الله، 6 / 2725، الرقم : 7066، ومسلم في الصحیح، کتاب : الذکر والدعاء والتوبۃ والاستغفار، باب : فضل الذکر والدعاء والتقرب إلی الله تعالی، 4 / 2067، الرقم : 2675، والترمذي في السنن، کتاب : الدعوات، باب : في حسن الظن بالله عزوجل، 5 / 581، الرقم : 3603، وأحمد بن حنبل عن أنس في المسند، 3 / 277، الرقم : 13969، وأبو یعلی في المسند، 6 / 12، الرقم : 3232۔

’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : میں اپنے بندے کے گمان کے ساتھ ہوتا ہوں جو وہ میرے بارے میں رکھتا ہے، اور میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں جب وہ مجھے پکارتا ہے۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

4۔ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ : قَالَ اللهُ تَعَالَی : أَنَا مَعَ عَبْدِي إِذَا ھُوَ ذَکَرَنِي وَتَحَرَّکَتْ بِي شَفَتَاهُ۔ رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَابْنُ مَاجَه وَاللَّفْظُ لَهُ وَأَحْمَدُ۔

4 : أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب : التوحید، باب : قول الله تعالی : لَا تُحَرِّکْ بِهِ لِسَانَکَ، ]القیامۃ، 75 : 16[، 6 / 2736، وابن ماجه في السنن، کتاب : الأدب، باب : فضل الذکر، 2 / 1246، الرقم : 3792، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 540، الرقم : 10981، 10988، 10989، وابن حبان في الصحیح، 3 / 97، الرقم : 815، والحاکم في المستدرک، 1 / 673، الرقم : 1824، والطبراني في المعجم الأوسط، 6 / 363، الرقم : 6621، وفي مسند الشامیین، 1 / 320، الرقم : 562، 2 / 319، الرقم : 1417، والدیلمي في مسند الفردوس، 3 / 186، الرقم : 4511، وابن المبارک في الزھد، 1 / 339، الرقم : 956، والمنذري في الترغیب والترھیب، 2 / 253، الرقم : 2289۔

’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : میں بندے کے ساتھ ہوتا ہوں جب وہ میرا ذکر کرتا ہے اور اس کے لب میرے ذکر کے لئے حرکت کرتے ہیں۔‘‘ اس حدیث کو امام بخاری، ابن ماجہ اور احمد نے روایت کیا ہے اور مذکورہ الفاظ امام ابن ماجہ کے ہیں۔

5۔ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ قَالَ : حُسْنُ الظَّنِّ مِنْ حُسْنِ الْعِبَادَةِ۔

رَوَاهُ أَبُوْ دَاوُدَ وَأَحْمَدُ۔

5 : أخرجه أبو داود في السنن، کتاب : الأدب، باب : في حسن الظن، 4 / 298، الرقم : 4993، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 297، الرقم : 7943، وابن حبان في المسند، 2 / 399، الرقم : 631، وعبد بن حمید في المسند، 1 / 417، الرقم : 1425۔

’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : حسن ظن رکھنا حسنِ عبادت میں سے ہے۔‘‘ اس حدیث کو امام ابو داود اور احمد نے روایت کیا ہے۔

6۔ عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ رضي الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : إِنْ شِئْتُمْ أَنْبَأْتُکُمْ مَا أَوَّلُ مَا یَقُوْلُ اللهُ عزوجل لِلْمُؤْمِنِيْنَ، وَمَا أَوَّلُ مَا یَقُوْلُوْنَ لَهُ یَوْمَ الْقِیَامَةِ۔ قُلْنَا : نَعَمْ یَا رَسُوْلَ اللهِ، قَالَ : إِنَّ اللهَ عزوجل یَقُوْلُ لِلْمُؤْمِنِيْنَ : هَلْ أَحْبَبْتُمْ لِقَائِي؟ فَیَقُوْلُوْنَ : نَعَمْ، یَا رَبَّنَا۔ فَیَقُوْلُ : لِمَ؟ فَیَقُوْلُوْنَ : رَجَوْنَا عَفْوَکَ وَمَغْفِرَتَکَ۔ فَیَقُوْلُ : قَدْ وَجَبَتْ لَکُمْ مَغْفِرَتِي۔ رَوَاهُ أَحْمَدُ۔

6 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 5 / 238، الرقم : 22125، والطبراني في المعجم الکبیر، 20 / 125، الرقم : 251۔

’’حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اگر تم چاہو تو میں تمہیں بتاؤں کہ اللہ عزوجل مؤمنوں سے پہلی بات کیا کرے گا اور وہ مؤمن اسے پہلی بات کیا کہیں گے؟ ہم نے عرض کیا : ہاں یا رسول اللہ! آپ ﷺ نے فرمایا : اللہ عزوجل مومنوں سے فرمائے گا کہ کیا تم میری ملاقات کرنا چاہتے تھے؟ وہ عرض کریں گے : اے رب! ہاں۔ تو وہ فرمائے گا : کیوں؟ وہ عرض گزار ہوں گے : (اس لئے کہ) ہم تیری معافی اور بخشش کی امید رکھتے تھے۔ تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا : میں نے تمہیں اپنی بخشش دے دی۔‘‘ اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔

7۔ عَنْ وَاثِلَةَ بْنِ الْأَسْقَعِ رضي الله عنه قَالَ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ یَقُوْلُ : قَالَ اللهُ تَبَارَکَ وَتَعَالیَ : أَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِي بِي، فَلْیَظُنَّ بِي مَا شَاء۔

رَوَاهُ ابْنُ حِبَّانَ وَالدَّارِمِيُّ وَأَحْمَدُ، وَقَالَ الْحَاکِمُ : ھَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الْإِسْنَادِ۔

7 : أخرجه ابن حبان في الصحیح، 2 / 401، الرقم : 633، والحاکم في المستدرک، 4 / 268، الرقم : 7603، والدارمي في السنن، 2 / 395، الرقم : 2731، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 491، والطبراني في مسند الشامیین، 2 / 384، الرقم : 1546، والھیثمي في موارد الظمآن، 1 / 184، الرقم : 717۔

’’حضرت واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم ﷺ کو فرماتے ہوے سنا : اللہ تعالیٰ نے فرمایا : میں اپنے بندے کے گمان کے مطابق ہوتا ہوں جو وہ میرے بارے میں رکھتا ہے لهٰذا وہ جو چاہے میرے بارے میں گمان رکھ لے۔‘‘

اس حدیث کو ابن حبان، دارمی اور احمد نے روایت کیا ہے اور امام حاکم کہتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح الاسناد ہے۔

8۔ عَنْ أبِي ھُرَيْرَةَ رضي الله عنه عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ : قَالَ اللهُ تَعَالَی : عَبْدِي عِنْدَ ظَنِّهِ بِي وَأَنَا مَعَهُ إِذَا دَعَانِي إِنْ ذَکَرَنِی فِي نَفْسِهِ ذَکَرْتُهُ فِي نَفْسِي وَإِنْ ذَکَرَنِي فِي مَلَإٍ ذَکَرْتُهُ فِي مَلَإٍ خَيْرٍ مِنْهُ وَأَطْیَبَ۔ رَوَاهُ ابْنُ حِبَّانَ۔

8 : أخرجه ابن حبان في الصحیح، 3 / 95، الرقم : 812۔

’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : میرا بندہ اپنے گمان کے مطابق میرے ساتھ ہوتا ہے اور میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں جب وہ مجھے پکارتا ہے۔ اگر وہ مجھے اپنے دل میں یاد کرے تو میں بھی اسے خفیہ طور پر یاد کرتا ہوں اور اگر وہ مجھے جماعت میں یاد کرے تو میں اسے اس کی جماعت سے بہتر اور زیادہ پاکیزہ جماعت میں یاد کرتا ہوں۔‘‘

اس حدیث کو امام ابن حبان نے روایت کیا ہے۔

9۔ عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ سَمُرَةَ، فِي رِوَایَةٍ طَوِيْلَةٍ قَالَ : خَرَجَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ فَقَالَ : إِنِّي رَأَيْتُ الْبَارِحَةَ عَجَبًا رَأَيْتُ رَجُلاً مِنْ أُمَّتِي قَائِماً عَلَی الصِّرَاطِ یَرْعَدُ کَمَا تَرْعَدُ السَّعَفَةُ فَجَائَهُ حُسْنُ ظَنِّهِ بِاللهِ فَسَکَنَ رِعْدَتُهُ وَمَضَی۔

رَوَاهُ الْحَکِيْمُ التِّرْمِذِيُّ۔

9 : أخرجه الحکیم الترمذي في نوادر الأصول، 3 / 243، والهیثمي في مجمع الزوائد، 7 / 179، 180، وابن رجب الحنبلی في التخویف من النار، 1 / 42، والواسطيفي تاریخ واسط، 1 / 169، 170۔

’’حضرت عبد الرحمن بن سمرہ رضی اللہ عنہ ایک طویل روایت میں بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ ایک دن گھر سے باہر تشریف لائے اور فرمایا : گذشتہ شب میں نے خواب میں عجیب چیز دیکھی، میں نے اپنی امت کا ایک آدمی دیکھا کہ وہ پل صراط پر خوف کے مارے کانپ رہا ہے جیسا کہ کھجور کی شاخ (ہوا سے لرزتی ہے)۔ پس اُس کا اللہ کے ساتھ حسنِ ظن آتا ہے تو اس کی کپکپاہٹ ختم ہو جاتی ہے اور وہ اس سے گزر جاتا ہے۔‘‘ اس حدیث کو حکیم ترمذی نے روایت کیا ہے۔

اَلْآثَارُ وَالْأَقْوَالُ

1۔ عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُوْدٍ رضي الله عنه قَالَ : وَالَّذِي لَا إِلَهَ غَيْرُهُ لَا یُحْسِنُ عَبْدٌ اللهَ الظَّنَّ إِلَّا أَعْطَاهُ ظَنَّهُ وَذَلِکَ بِأَنَّ الْخَيْرَ فِي یَدِهِ۔

رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَالطَّبَرِانِيُّ، وَھَذَا لَفْظُهُ۔

1 : أخرجه ابن أبي شیبۃ في المصنف، 7 / 108، الرقم : 34564، والطبراني في المعجم الکبیر، 9 / 154، الرقم : 8772، والبیهقي في شعب الإیمان، 2 / 8، الرقم : 1014۔

’’حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اس ذات کی قسم ہے جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں، جو آدمی اللہ تعالیٰ کے متعلق حسن ظن رکھتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کا حسن ظن ہی اسے عطا کر دیتا ہے کیونکہ ہر قسم کی بھلائی اس کے اختیار میں ہے۔‘‘

اسے امام ابن ابی شیبہ اور طبرانی نے روایت کیا ہے، مذکورہ الفاظ طبرانی کے ہیں۔

2۔ عَنْ ثَابِتٍ قَالَ : قَالَ أَبُوْ عُثْمَانَ النَّھْدِيُّ إِنِّي لَأَعْلَمُ حِيْنَ یَذْکُرُنِي رَبِّي۔ قَالُوْا : وَکَيْفَ ذَاکَ؟ قَالَ : إِنَّ اللهَ یَقُوْلُ : {فَاذْکُرُوْنِيْ أَذْکُرْکُمْ} [البقرۃ، 2 : 152] فَإِذَا ذَکَرْتُ ذَکَرَنِي۔ رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ۔

2 : أخرجه ابن أبی شیبه في المصنف، 7 / 206، الرقم : 35367 والبیهقي في شعب الإیمان، 2 / 51، الرقم : 1138، وأبو نعیم في حلیۃ الاولیائ، 2 / 324، والمزی في تهذیب الکمال، 17 : 428۔

’’حضرت ثابت سے روایت ہے کہ ابو عثمان نہدی نے کہا : مجھے معلوم ہے جس وقت میرا رب مجھے یاد کرتا ہے۔ لوگوں نے کہا وہ کیسے؟ انہوں نے کہا : بے شک اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : {تم مجھے یاد کرو میں تجھے کروں گا} پس جب میں (اسے) یاد کرتا ہوں (تو) وہ مجھے یاد کرتا ہے۔‘‘

3۔ قَالَ عَبْدُ اللهِ بْنُ الْمُبَارَکِ : جِئْتُ إِلَی سُفْیَانَ عَشِيَّةَ عَرَفَةَ وَهُوَ جَاثٍ عَلَی رُکْبَتَيْهِ وَعَيْنَاهُ تَهْمِلَانِ، فَبَکَيْتُ، فَالْتَفَتَ إِلَيَّ فَقَالَ : مَا شَأْنُکَ؟ فَقُلْتُ : مَنْ أَسْوَأُ هَذَا الْجَمْعِ حَالًا؟ قَالَ : الَّذِي یَظُنُّ أَنَّ اللهَ عزوجل لَا یَغْفِرُ لَهُمْ۔

3 : أخرجه ابن أبي الدنیا في حسن الظن بالله، 1 / 92، الرقم : 78۔

’’حضرت عبد اللہ بن مبارک رَحِمَهُ اللہ فرماتے ہیں کہ میں عرفہ کی رات حضرت سفیان کے پا س آیا، جبکہ وہ اپنے گھٹنوں کے بل بیٹھے ہوئے تھے، اور ان کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے، پس میں بھی رو پڑا، تو وہ میری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا : کیا بات ہے؟ میں نے کہا : لوگوں کے اس مجمع میں سب سے برا حال شخص کون سا ہے؟ آپ نے کہا : جو یہ گمان کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے بخشے گا نہیں۔‘‘

4۔ رؤي مالک بن دینار في المنام، فقیل له : ما فعل الله بک۔ قال : قدمت علی ربي ل، بذنوب کثیرۃ محاها عنّي عن حسن ظني به تعالی۔

4 : أخرجه القشیري في الرسالۃ : 134۔

’’حضرت مالک بن دینار رَحِمَهُ اللہ کو خواب میں دیکھا گیا اور پوچھا گیا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ سے کیا معاملہ کیا؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ میں اپنے رب کے پاس زیادہ گناہ لے کر پہنچا جن کو اللہ تعالیٰ کے متعلق میرے حسن ظن نے بالکل مٹا دیا۔‘‘

5۔ سُئِلَ الحارثُ عن الرَّجاء، فقال : الطّمَعُ في فَضْلِ الله تعالی ورَحْمتِه، وصِدْقُ حُسْنِ الظن عند نُزول الموتِ۔

5 : أخرجه السُّلمي في طبقات الصّوفیۃ : 59۔

’’حضرت حارث رَحِمَهُ اللہ سے رجا کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا : اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی رحمت میں طمع کرنا اور موت کے وقت(اللہ کے بارے میں) حسن ظن کا پختہ ہونا۔‘‘

6۔ قالَ أبو حفص رَحِمَهُ الله : من رأی فضلَ اللهِ علیه، في کلِّ حالٍ، أرجُو أَلاّ یهلک۔

6 : أخرجه السّلمي في طبقات الصّوفیۃ : 121۔

’’حضرت ابو حفص رَحِمَهُ اللہ نے فرمایا : جو کوئی یہ گمان کرے کہ اس پر ہر حال میں اللہ تعالیٰ کا فضل ہی ہے، میں امید کرتا ہوں کہ وہ ہلاک نہیں ہو گا۔‘‘

7۔ سئل أبو عمرو رَحِمَهُ الله عن التوکل : فقال : أدناه حسن الظن بالله عزوجل۔

7 : أخرجه السّلمي في طبقات الصّوفیۃ : 454۔

’’حضرت ابو عمرو رَحِمَهُ اللہ سے پوچھا گیا کہ توکل کیا ہے؟ انہوں نے کہا : توکل کا ادنیٰ درجہ اللہ تعالیٰ کی ذات کے بارے حسن ظن رکھنا ہے۔‘‘

8۔ کان مطرف بن عبد الله رَحِمَهُ الله یقول : اللّٰھم ارض عنا، فإن لم ترض فاعف فإن المولی قد یعفو عن عبده، وهو غیر راض عنه۔

8 : أخرجه الشعراني في الطبقات الکبری : 53۔

’’حضرت مطرف بن عبد اللہ رَحِمَهُ اللہ دعا کیا کرتے کہ اے اللہ! ہم سے راضی ہو جا اگر تو راضی نہ ہو تو معاف فرما کیونکہ کبھی مالک راضی نہ ہونے کے باوجود اپنے غلام کو معاف کر دیتا ہے۔‘‘

Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved