ہدایۃ الامۃ علی منہاج القرآن والسنۃ - الجزء الاول

نفلی نمازوں کی فضیلت

فَصْلٌ فِي فَضْلِ صَلَوَاتِ التَّطَوُّعِ

{نفلی نمازوں کی فضیلت}

اَلْآیَاتُ الْقُرْآنِيَّةُ

1۔ وَمِنَ الَّيْلِ فَتَهَجَّدْ بِهٖ نَافِلَةً لَّکَ ق عَسٰٓی اَنْ يَّبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًاo

(الإسرائ، 17 : 79)

’’اور رات کے کچھ حصہ میں (بھی) قرآن کے ساتھ (شب خیزی کرتے ہوئے) نماز تہجد پڑھا کریں یہ خاص آپ کے لیے زیادہ (کی گئی) ہے، یقینا آپ کا رب آپ کو مقامِ محمود پر فائز فرمائے گا (یعنی وہ مقامِ شفاعتِ عظمیٰ جہاں جملہ اوّلین و آخرین آپ کی طرف رجوع اور آپ کی حمد کریں گے)o‘‘

2۔ وَالَّذِيْنَ یَبِيْتُوْنَ لِرَبِّهِمْ سُجَّدًا وَّ قِیَامًاo

(الفرقان، 25 : 63)

’’اور (یہ) وہ لوگ ہیں جو اپنے رب کے لئے سجدہ ریزی اور قیامِ (نِیاز) میں راتیں بسر کرتے ہیںo‘‘

3۔ تَتَجَافٰی جُنُوْبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ یَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَّطَمَعًا۔

(السجدۃ، 32 : 16)

’’ان کے پہلو اُن کی خوابگاہوں سے جدا رہتے ہیں اور اپنے رب کو خوف اور امید (کی مِلی جُلی کیفیت) سے پکارتے ہیں۔‘‘

4۔ وَمِنَ الَّيْلِ فَسَبِّحْهُ وَاَدْبَارَ السُّجُوْدِo

(ق، 50 : 40)

’’اور رات کے بعض اوقات میں بھی اس کی تسبیح کیجئے اور نمازوں کے بعد بھیo‘‘

5۔ کَانُوْا قَلِيْلًا مِّنَ الَّيْلِ مَا یَھْجَعُوْنَo وَبِالْاَسْحَارِ ھُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَo

(الذاریات، 51 : 17۔18)

’’وہ راتوں کو تھوڑی سی دیر سویا کرتے تھےo اور رات کے پچھلے پہروں میں (اٹھ اٹھ کر) مغفرت طلب کرتے تھےo‘‘

6۔ وَمِنَ الَّيْلِ فَسَبِّحْهُ وَاِدْبَارَ النُّجُوْمِo

(الطور، 52 : 49)

’’اور رات کے اوقات میں بھی اس کی تسبیح کیجئے اور (پچھلی رات بھی) جب ستارے چھپتے ہیںo‘‘

7۔ یٰـٓاَیُّھَا الْمُزَّمِّلُo قُمِ الَّيْلَ اِلاَّ قَلِيْلاًo نِّصْفَهٗٓ اَوِ انْقُصْ مِنْهُ قَلِيْلًاo اَوْزِدْ عَلَيْهِ وَرَتِّلِ الْقُرْاٰنَ تَرْتِيْلاًo اِنَّا سَنُلْقِيْ عَلَيْکَ قَوْلًا ثَقِيْلًاo اِنَّ نَاشِئَةَ الَّيْلِ هِیَ اَشَدُّ وَطْاً وَّاَقْوَمُ قِيْلًاo اِنَّ لَکَ فِی النَّهَارِ سَبْحًا طَوِيْلًاo

(المزمل، 73 : 1۔7)

’’اے کملی کی جھرمٹ والے(حبیب!)o آپ رات کو (نماز میں) قیام فرمایا کریں مگر تھوڑی دیر (کے لیے)o آدھی رات یا اِس سے تھوڑا کم کر دیںo یا اس پر کچھ زیادہ کر دیں اور قرآن خوب ٹھہر ٹھہر کر پڑھا کریںo ہم عنقریب آپ پر ایک بھاری فرمان نازل کریں گےo بے شک رات کا اُٹھنا (نفس کو) سخت پامال کرتا ہے اور (دِل و دِماغ کی یکسوئی کے ساتھ) زبان سے سیدھی بات نکالتا ہےo بے شک آپ کے لیے دن میں بہت سی مصروفیات ہوتی ہیںo‘‘

8۔ اِنَّ رَبَّکَ یَعْلَمُ اَنَّکَ تَقُوْمُ اَدْنٰی مِنْ ثُلُثَیِ الَّيْلِ وَ نِصْفَهٗ وَ ثُلُثَهٗ وَ طَآئِفَةٌ مِّنَ الَّذِيْنَ مَعَکَ۔

(المزمل، 73 : 20)

’’بے شک آپ کارب جانتا ہے کہ آپ (کبھی) دو تہائی شب کے قریب اور (کبھی) نصف شب اور (کبھی) ایک تہائی شب (نماز میں) قیام کرتے ہیں، اور اُن لوگوں کی ایک جماعت (بھی) جو آپ کے ساتھ ہیں (قیام میں شریک ہوتی ہے)۔‘‘

9۔ وَاذْکُرِ اسْمَ رَبِّکَ بُکْرَةً وَّاَصِيْلًاo وَمِنَ الَّيْلِ فَاسْجُدْ لَهٗ وَسَبِّحْهُ لَيْلًا طَوِيْلًاo

(الإنسان، 76 : 25، 26)

’’اور صبح و شام اپنے رب کے نام کا ذکر کیا کریںo اور رات کی کچھ گھڑیاں اس کے حضور سجدہ ریزی کیا کریں اور رات کے (بقیہ) طویل حصہ میں اس کی تسبیح کیا کریںo‘‘

اَلْأَحَادِيْثُ النَّبَوِيَّةُ

1۔ فَضْلُ صَلَاةِ التَّهَجُّدِ

{نمازِ تہجد کی فضیلت}

1۔ عَنْ عَائِشَةَ رضي الله عنها أَنَّ نَبِيَّ اللهِ ﷺ کَانَ یَقُوْمُ مِنَ اللَّيْلِ حَتَّی تَتَفَطَّرَ قَدَمَاهُ فَقَالَتْ عَائِشَةُ : لِمَ تَصْنَعُ هَذَا یَا رَسُوْلَ اللهِ؟ وَقَدْ غَفَرَ اللهُ لَکَ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِکَ وَمَا تَأَخَّرَ؟ قَالَ : أَفَـلَا أُحِبُّ أَنْ أَکُوْنَ عَبْدًا شَکُوْرًا۔ فَلَمَّا کَثُرَ لَحْمُهُ صَلَّی جَالِسًا فَإِذَا أَرَادَ أَنْ یَرْکَعَ قَامَ فَقَرَأَ ثُمَّ رَکَعَ۔ مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ۔

1 : أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب : التفسیر، باب : قوله لیغفرلک الله ما تقدم من ذنبک وما تأخر، 4 / 1830، الرقم : 4557، ومسلم في الصحیح، کتاب : صفۃ القیامۃ والجنۃ والنار، باب : إکثار الأعمال والاجتهاد في العبادۃ، 4 / 2172، والترمذي عن المغیرۃ بن شعبۃ في السنن، کتاب : الصلاۃ، باب : ما جاء في الاجتهاد في الصلاۃ، 2 / 268، الرقم : 412۔

’’حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ رات کے وقت اس درجہ قیام فرمایا کرتے کہ دونوں قدم مبارک پھٹ جاتے۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا عرض گزار ہوئیں کہ یا رسول اللہ! آپ ایسا کیوں کرتے ہیں جب کہ آپ کے سبب اللہ تعالیٰ نے آپ کے اگلوں اور پچھلوں کے گناہ معاف فرما دیئے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا : کیا مجھے یہ پسند نہیں کہ میں شکرگزار بندہ بنوں؟ جب جسم مبارک قدرے بھاری ہو گیا تو آپ ﷺ نمازِ تہجد بیٹھ کر ادا فرمانے لگے اور جب رکوع کرنے کا ارادہ ہوتا تو کھڑے ہو کر قرأت کرتے اور پھر رکوع میں جاتے۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

2۔ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ ، قَالَ : یَنْزِلُ رَبُّنَا تَبَارَکَ وَتَعَالَی کُلَّ لَيْلَةٍ إِلَی السَّمَاءِ الدُّنْیَا حِيْنَ یَبْقَی ثُلُثُ اللَّيْلِ الْآخِرُ یَقُوْلُ : مَنْ یَدْعُوْنِي فَأَسْتَجِيْبَ لَهُ، مَنْ یَسْأَلُنِي فَأُعْطِیَهُ، وَمَنْ یَسْتَغْفِرُنِي فَأَغْفِرَ لَهُ۔ مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ۔

2 : أخرجه البخاري في الصحیح، أبواب : التھجد، باب : الدُّعاءِ وَالصَّلَاةِ مِن آخِرِ اللَّيْلِ، 1 / 384، الرقم : 1094، وفي کتاب : الدعوات، باب : الدُّعائُ نصفَ اللَّيْلِ، 5 / 2330، الرقم : 5962، وفي کتاب : التوحید، باب : قول الله تعالی : یریدونَ أَن یُبَدِّلُوْا کَلَامَ اللهِ ]الفتح : 15[، 6 / 2723، الرقم : 7056، ومسلم في الصحیح، کتاب : صلاۃ المسافرین، باب : الترغیب في الدعاء والذکر في آخر اللیل والإجابۃ فیه، 1 / 521، الرقم : 705۔

’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ہمارا رب تبارک و تعالیٰ ہر رات کو جب رات کا تہائی حصہ باقی رہ جاتا ہے تو آسمانِ دنیا پر نزول فرماتا ہے اور ارشاد فرماتا ہے : ہے کوئی جو مجھ سے دعا کرے تاکہ میں اس کی دعا قبول کروں، ہے کوئی جو مجھ سے سوال کرے کہ میں اسے عطا کروں، ہے کوئی جو مجھ سے معافی چاہے کہ میں اسے بخش دوں۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

3۔ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : أَفْضَلُ الصِّیَامِ بَعْدَ رَمَضَانَ شَهْرُ اللهِ الْمُحَرَّمُ وَأَفْضَلُ الصَّلَاةِ بَعْدَ الْفَرِيْضَةِ صَلَاةُ اللَّيْلِ۔

رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالتِّرْمِذِيُّ وَالنَّسَائِيُّ۔

3 : أخرجه مسلم في الصحیح، کتاب : الصیام، باب : فضل صوم المحرم، 2 / 821، الرقم : 1163، والترمذي في السنن، کتاب : الصلاۃ، باب : ما جاء في فضل صلاۃ اللیل، 2 / 301، الرقم : 438، والنسائي في السنن، کتاب : قیام اللیل وتطوع النهار، باب : فضل صلاۃ اللیل، 3 / 206، الرقم : 1613، وأبو یعلی في المسند، 11 / 280، الرقم : 6392، وابن حبان في الصحیح، 8 / 398، الرقم : 3636۔

’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : رمضان کے بعد سب سے افضل روزے اللہ کے مہینے محرم کے ہیں اور فرض نماز کے بعد سب سے افضل نماز تہجد کی نماز ہے۔‘‘

اس حدیث کو امام مسلم، ترمذی اور نسائی نے روایت کیا ہے۔

4۔ عَنْ أَبِي أُمَامَةَ رضی الله عنه عَنْ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ أَنَّهُ قَالَ : عَلَيْکُمْ بِقِیَامِ الَّليْلِ، فَإِنَّهُ دَأْبُ الصَّالِحِيْنَ قَبْلَکُمْ، وَھُوَ قُرْبَةٌ إِلَی رَبِّکُمْ، وَمَکْفَرَةٌ لِلسَّيِّئَاتِ، وَمَنْھَاةٌ لِلْإِثْمِ۔

رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالْحَاکِمُ، وَ قَالَ أَبُوْعِيْسَی : هَذَا حَدِيْثٌ أَصَحُّ، وَقَالَ الْحَاکِمُ : هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ۔

4 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : الدعوات، باب : في دعاء النبی ﷺ ، 5 / 552، الرقم : 3549، والحاکم في المستدرک، 1 / 451، الرقم : 1156، والبیهقي في السنن الکبری، 2 / 502، الرقم : 4423، والطبراني في المعجم الکبیر، 8 / 92، الرقم : 7766۔

’’حضرت ابو اُمامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : رات کا قیام اپنے اوپر لازم کر لو کہ وہ تم سے پہلے کے نیک لوگوں کا طریقہ ہے اور تمہارے لیے قربِ خداوندی کا باعث ہے، برائیوں کو مٹانے والا اور گناہوں سے روکنے والا ہے۔‘‘

اس حدیث کو امام ترمذی اور حاکم نے روایت کیا ہے ۔ امام ترمذی اور امام حاکم نے کہا ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے۔

5۔ عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ الخُدْرِيِّ وَأَبِي ھُرَيْرَةَ رضي الله عنھما قَالاَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : مَنِ اسْتَيْقَظَ مِنَ اللَّيْلِ وَأَيْقَظَ امْرَأَتَهُ فَصَلَّیَا رَکْعَتَيْنِ جَمِيْعًا کُتِبَا مِنَ الذَّاکِرِيْنَ اللهَ کَثِيْرًا وَالذَّاکِرَاتِ۔

رَوَاهُ أَبُوْ دَاوُدَ وَابْنُ مَاجَه وَالنَّسَائِيُّ، وَقَالَ الْحَاکِمُ : ھَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ۔

5 : أخرجه أبو داود في السنن، کتاب : التطوع، باب : الحث علی قیام اللیل، 2 / 70، الرقم : 1451، وابن ماجه في السنن، کتاب : إقامۃ الصلاۃ والسنۃ فیھا، باب : ما جاء فیمن أیقظ أھله من اللیل،1 / 423، الرقم : 1335، وعبد الرزاق في المصنف، 3 / 48، الرقم : 4738، والنسائي في السنن الکبری، 1 / 413، الرقم : 1310، 11406، والحاکم في المستدرک، 1 / 461، الرقم : 189۔

’’حضرت ابو سعید خدری اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ حضورنبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جو شخص خود رات کو بیدار ہو اور اپنی اہلیہ کو (بھی) بیدار کرے، دونوں دو رکعت نماز مل کر ادا کریں تو ان کا شمار کثرت سے اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے والوں اور (کثرت سے) ذکر کرنے والی عورتوںمیں ہو گا۔‘‘

اس حدیث کو امام ابو داود،ابن ماجہ اور نسائی نے روایت کیا ہے ۔ امام حاکم نے کہا ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے۔

6۔ عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ أَبِي قَيْسٍ یَقُوْلُ : قَالَتْ عَائِشَةُ رضي الله عنها : لَا تَدَعْ قِیَامَ اللَّيْلِ فَإِنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ کَانَ لَا یَدَعُهُ، وَکَانَ إِذَا مَرِضَ أَوْ کَسِلَ صَلَّی قَاعِدًا۔

رَوَاهُ أَبُوْ دَاوُدَ وَأَحْمَدُ وَابْنُ خُزَيْمَةَ۔

6 : أخرجه أبو داود في السنن، کتاب : الصلاۃ، باب : قیام اللیل، 2 / 32، الرقم : 1307، وأحمد بن حنبل في المسند، 6 / 249، الرقم : 26157، والحاکم في المستدرک، 1 / 452، الرقم : 1158، والبیهقي في السنن الکبری، 3 / 14، الرقم : 4498، والطیالسي في المسند، 1 / 214، الرقم : 1519، وابن خزیمۃ في الصحیح، 2 / 177، الرقم : 1137، والبخاري في الأدب المفرد، 1 / 279، الرقم : 800۔

’’حضرت عبد اللہ بن ابی قیس کا بیان ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے مجھے نصیحت کی کہ قیام اللیل نہ چھوڑنا کیونکہ حضور نبی اکرم ﷺ اسے نہیں چھوڑا کرتے تھے۔ جب آپ ﷺ بیمار ہو جاتے یا کمزور ہو جاتے تو بیٹھ کر پڑھ لیتے۔‘‘

اس حدیث کو امام ابو داود، احمد بن حنبل اور ابن خزیمہ نے روایت کیا ہے۔

7۔ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ رضي الله عنهما قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : قَالَتْ أُمُّ سُلَيْمَانَ بْنِ دَاوُدَ لِسُلَيْمَانَ : یَا بُنَيَّ، لَا تُکْثِرِ النَّوْمَ بِاللَّيْلِ، فَإِنَّ کَثْرَةَ النَّوْمِ بِاللَّيْلِ تَتْرُکُ الرَّجُلَ فَقِيْرًا یَوْمَ الْقِیَامَةِ۔ رَوَاهُ ابْنُ مَاجَه، وَالْبَيْهَقِيُّ۔

7 : أخرجه ابن ماجه في السنن، کتاب : اقامۃ الصلاۃ والسنۃ فیھا، باب : ما جاء في قیام اللیل، 1 / 422، الرقم : 1332، والبیھقي في شعب الإیمان، 4 / 183، الرقم : 4746، والطبراني في المعجم الصغیر، 1 / 210، الرقم : 337، والدیلمي في مسند الفردوس، 3 / 197، الرقم : 4552۔

’’حضرت جابر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : حضرت سلیمان بن داؤد علیہما السلام کی ماں نے حضرت سلیمان علیہ السلام کو نصیحت کرتے ہوئے کہا : اے میرے پیارے بیٹے! رات کو زیادہ نہ سونا (بلکہ اللہ تعالیٰ کے حضور قیام کرنا)، کیونکہ رات کو زیادہ سونے والا شخص قیامت کے دن فقیر بن کر آئے گا۔‘‘ اس حدیث کو امام ابن ماجہ اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔

8۔ عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ یَزِيْدَ رضي الله عنهما عَنْ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ قَالَ : یُحْشَرُ النَّاسُ فِي صَعِيْدٍ وَاحِدٍ یَوْمَ الْقِیَامَةِ فَیُنَادِي مُنَادٍ فَیَقُوْلُ : أَيْنَ الَّذِيْنَ کَانَتْ تَتَجَافَی جُنُوْبُھُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ؟ فَیَقُوْمُوْنَ وَھُمْ قَلِيْلٌ فَیَدْخُلُوْنَ الْجَنَّةَ بِغَيْرِ حِسَابٍ ثُمَّ یُؤْمَرُ بِسَائِرِ النَّاسِ إِلَی الْحِسَابِ۔ رَوَاهُ الْبَيْھَقِيُّ۔

8 : أخرجه البیهقي في شعب الإیمان، 3 / 169، الرقم : 3244، والمنذري في الترغیب والترهیب، 1 / 240، الرقم : 912، والحاکم في المستدرک، 2 / 433، الرقم : 3508، وابن المبارک في الزهد، 1 / 101، الرقم : 353۔

’’حضرت اسماء بنت یزید رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضورنبی اکرم ﷺ نے فرمایا : لوگ قیامت کے دن ایک میدان میں اکٹھے کئے جائیں گے اور ایک منادی اعلان کرے گا : جن لوگوں کے پہلو (اپنے رب کی یاد میں) بستروں سے جدا رہتے تھے، وہ کہاں ہیں؟ وہ کھڑے ہو جائیں گے، ان کی تعداد بہت کم ہوگی اور وہ جنت میں بغیر حساب و کتاب کے داخل ہوجائیں گے پھر باقی (بچ جانے والے) لوگوں کے حساب وکتاب کا حکم جاری کر دیا جائے گا۔‘‘ اس حدیث کو امام بیہقی نے روایت کیا ہے ۔

9۔ عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُوْدٍ رضی الله عنه قَالَ : فَضْلُ صَلاَةِ اللَّيْلِ عَلَی صَلاَةِ النَّھَارِ کَفَضْلِ صَدَقَةِ السِّرِّ عَلَی صَدَقَةِ الْعَلاَنِیَةِ۔

رَوَاهُ عَبْدُ الرَّزَّاقِ وَالطَّبَرَانِيُّ بِإِسْنَادٍ لَابَأْسَ بِهِ۔

9 : أخرجه عبد الرزاق في المصنف، 3 / 47، الرقم : 4735، والطبراني في المعجم الکبیر، 9 / 205، الرقم : 8999، وأیضًا 10 / 179، الرقم : 10382، والبیهقي في شعب الإیمان، 3 / 130، الرقم : 3098، والدیلمی في مسند الفردوس، 3 / 129، الرقم : 4348۔

’’حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رات کی نماز دن کی نماز سے اتنی ہی افضل ہے جتنا پردہ میں صدقہ کرنا سرعام صدقہ کرنے سے افضل ہے۔‘‘

اسے امام عبد الرزاق اور طبرانی نے ناقابل اعتراض سند کے ساتھ بیان کیا ہے۔

10۔ عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : مَا خَيَّبَ اللهُ عَبْدًا قَامَ فِي جَوْفِ اللَّيْلِ فَافْتَتَحَ سُوْرَةَ الْبَقَرَةِ وَآلِ عِمْرَانَ۔ رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ۔

10 : أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 2 / 214، الرقم : 1772، وأبو نعیم في حلیۃ الأولیاء، 8 / 129، والمنذري في الترغیب والترهیب، 1 / 245، الرقم : 934، والهیثمي في مجمع الزوائد، 2 / 254، والمناوي في فیض القدیر، 5 / 444۔

’’حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ ایسے آدمی کو کبھی ناکام نہیں کرتا جو رات کے وقت قیام کرتے ہوئے سورۂ بقرہ اور آل عمران سے آغاز کرتا ہے۔‘‘ اس حدیث کو امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔

11۔ عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ رضی الله عنه عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ : عَجِبَ رَبُّنَا عزوجل مِنْ رَجُلَيْنِ : رَجُلٌ ثَارَ عَنْ وِطَائِهِ وَلِحَافِهِ مِنْ بَيْنِ أَهْلِهِ وَحَيِّهِ إِلَی صَلَاتِهِ فَیَقُوْلُ رَبُّنَا : أَیَا مَـلَائِکَتِي، انْظُرُوْا إِلَی عَبْدِي ثَارَ مِنْ فِرَاشِهِ وَوِطَائِهِ مِنْ بَيْنِ حَيِّهِ وَأَهْلِهِ إِلَی صَلَاتِهِ رَغْبَةً فِيْمَا عِنْدِي وَشَفَقَةً مِمَّا عِنْدِي۔ وَرَجُلٌ غَزَا فِي سَبِيْلِ اللهِ عزوجل فَانْهَزَمُوْا فَعَلِمَ مَا عَلَيْهِ مِنَ الْفِرَارِ وَمَا لَهُ فِي الرُّجُوْعِ فَرَجَعَ حَتَّی أُهَرِيْقَ دَمُهُ رَغْبَةً فِيْمَا عِنْدِي وَشَفَقَةً مِمَّا عِنْدِي فَیَقُوْلُ اللهُ عزوجل لِمَلَائِکَتِهِ : اُنْظُرُوْا إِلَی عَبْدِي رَجَعَ رَغْبَةً فِيْمَا عِنْدِي وَشَفَقَةً مِمَّا عِنْدِي حَتَّی أُهَرِيْقُ دَمُهُ۔

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَأَبُوْ یَعْلَی وَابْنُ حِبَّانَ۔

11 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 1 / 416، الرقم : 3949، وابن حبان في الصحیح، 6 / 298، الرقم : 2557، والطبراني في المعجم الکبیر، 10 / 179، الرقم : 10383، والمنذري في الترغیب والترهیب، 1 / 246، الرقم : 936، والهیثمي في موارد الظمآن، 1 / 168، الرقم : 643۔

’’حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ہمارا پروردگار دو آدمیوں پر بڑا خوش ہے : ایک وہ شخص جو نرم و گرم بستر اور محبوب بیوی اور دیگر اہل خانہ کو چھوڑ کر نماز کے لئے کھڑا ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : اے میرے فرشتو! میرے بندے کو دیکھو نرم و گرم بستر اور محبوب بیوی اور دیگر اہل خانہ کو چھوڑ کر میری رحمت کی تلاش اور خوف عذاب کے باعث نماز کے لئے کھڑا ہو گیا ہے۔ دوسرا وہ شخص جس نے اللہ کی راہ میں جنگ کی اور اس کے ساتھی شکست خوردہ ہوگئے اور وہ پسپائی کی ذلت اور ثابت قدمی کے ثواب کو مدنظررکھ کر تا دمِ زیست میری رحمت کی تلاش اور خوف عذاب کے باعث لڑتا رہا۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : میرے بندے کو دیکھو، میری رحمت کی امید سے، میرے عذاب کے خوف کی وجہ سے خون کا آخری قطرہ بہنے تک لڑتا رہا۔‘‘

اس حدیث کو امام احمد بن حنبل، ابو یعلی اور ابن حبان نے روایت کیا ہے۔

اَلْآثَارُ وَالْأَقْوَالُ

1۔ قال مالک بن دینار رَحِمَهُ الله : لم یبق من روح الدنیا إلا ثلاثۃ : لقاء الإخوان والتهجد بالقرآن وبیت خال یذکر الله فیه۔

1 : أخرجه الشعراني في الطبقات الکبری : 58۔

’’حضرت مالک بن دینار رَحِمَهُ اللہ نے فرمایا : دنیا کی راحت سے صرف تین چیزیں باقی ہیں : احباب کی زیارت، قرآن مجید کی تلاوت کے ساتھ تہجد ادا کرنا اور خالی گھر جہاں اللہ تعالیٰ کا ذکر کیا جائے۔‘‘

2۔ عن الإمام القشیري رَحِمَهُ الله قال : قیل : وضعَ الله تعالی خمسةَ أشیائَ في خمسةِ مواضعَ : العزّ في الطاعّۃ، والذلّ في المعصیةِ، والهیبۃ في قیامِ اللّیلِ، والحِکْمَۃ في البطن الخالي، والغِنی في القناعۃ۔

2 : أخرجه القشیري في الرسالۃ : 161۔

’’امام قشیری رَحِمَهُ اللہ بیان کرتے ہیں : مروی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پانچ چیزوں کو پانچ جگہوں پر رکھا ہے : عزت کو اطاعت میں، ذلت کو معصیت میں، مصیبت کو قیام اللیل میں، حکمت کو خالی پیٹ میں، اور مالداری کو قناعت میں۔‘‘

3۔ قال إبراهیم الخواص رحمه الله : دواء القلب خمسۃ أشیاء : قرائۃ القرآن بالتدبر، وخلاء البطن، وقیام اللیل، والتضرع عند السحر، ومجالسۃ الصالحین۔

3 : أخرجه السّلمي في طبقات الصّوفیۃ : 286۔

’’ابراہیم الخواص رَحِمَهُ اللہ نے فرمایا : دل کی دواء پانچ چیزیں ہیں : غور و تدبر کے ساتھ قرآن حکیم کی تلاوت کرنا، پیٹ کو خالی رکھنا، رات کو (عبادتِ الٰہی کے لیے) قیام کرنا، سحری کے وقت گریہ زاری کرنا، صالحین کی مجلس میں بیٹھنا۔‘‘

4۔ قال جعفر بن محمد : بت لیلۃ مع إبراهیم، فانتبهت، فإذا هو یناجي إلی الصباح ویقول : برح الخفاء، وفي التلاقي راحۃ هل یشفي خل بغیر خلیله؟!

4 : أخرجه السّلمي في طبقات الصّوفیۃ : 285۔

’’حضرت جعفر بن محمد خلدی بیان کرتے ہیں : میں نے ابراہیم الخواص رَحِمَهُ اللہ کے پاس رات گزاری میں اچانک جاگا تو سنا کہ وہ رات کو گریہ زاری کرتے ہوئے کہہ رہے تھے : ناراضگی دور ہو گئی اور محبوب کے وصال میں ہی راحت ہے کیا دوست اپنے دوست کے بغیر شفاء پا سکتا ہے؟‘‘

5۔ قال أبو العالیۃ رَحِمَهُ الله : من أعظم الذنوب أن یتعلم الرجل القرآن، ثم ینام عنه ولا یتهجد به۔

5 : أخرجه الشعراني في الطبقات الکبری : 55۔

’’حضرت ابو عالیہ رَحِمَهُ اللہ نے فرمایا : بہت بڑے گناہوں میں سے یہ ہے کہ ایک شخص قرآن مجید کا علم حاصل کرے اور پھر سویا رہے اور اس کے ساتھ تہجد نہ پڑھے۔‘‘

2۔ فَضْلُ صَلَاةِ الْإِشْرَاقِ

{نمازِ اشراق کی فضیلت}

1۔ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : مَنْ صَلَّی الْغَدَاةَ فِي جَمَاعَةٍ ثُمَّ قَعَدَ یَذْکُرُ اللهَ حَتَّی تَطْلُعَ الشَّمْسُ ثُمَّ صَلَّی رَکْعَتَيْنِ کَانَتْ لَهُ کَأَجْرِ حَجَّةٍ وَعُمْرَةٍ، قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : تَامَّةٍ تَامَّةٍ تَامَّةٍ۔

رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالطَّبَرَانِيُّ وَالْبَيْهَقِيُّ، وَقَالَ أَبُوْ عِيْسَی : ھَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ۔

1 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : الجمعۃ، باب : ذکر ما یستحب من الجلوس في المسجد بعد صلاۃ الصبح حتی تطلع الشمس، 2 / 481، الرقم : 586، والطبراني في مسند الشامیین، 2 / 42، الرقم : 885، والبیهقي في شعب الإیمان، 7 / 138، الرقم : 9762، والمنذري في الترغیب والترھیب، 1 / 178، الرقم : 667۔

’’حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جو شخص صبح کی نماز با جماعت پڑھ کر طلوعِ آفتاب تک بیٹھا، اللہ کا ذکر کرتا رہا، پھر دو رکعت نماز (اشراق) ادا کی اس کے لیے کامل (و مقبول) حج اور عمرہ کا ثواب ہے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے لفظ تامۃ ’’ کامل‘‘ تین مرتبہ فرمایا۔‘‘

اس حدیث کو امام ترمذی ، طبرانی اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے کہا ہے کہ یہ حدیث حسن ہے۔

2۔ عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ : کَانَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ إِذَا صَلَّی الْفَجْرَ لَمْ یَقُمْ مِنْ مَجْلِسِهِ حَتَّی یُمْکِنَهُ الصَّـلَاةُ وَقَالَ : مَنْ صَلَّی الصُّبْحَ ثُمَّ جَلَسَ فِي مَجْلِسِهِ حَتَّی یُمْکِنَهُ الصَّلَاةُ کَانَتْ بِمَنْزِلَةِ عُمْرَةٍ وَحَجَّةٍ مُتَقَبَّلَتَيْنِ۔

رَوَاهُ الطَّبَرَاِنيُّ وَالْهَيْثَمِيُّ۔

2 : أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 5 / 375، الرقم : 5602، والهیثمي في مجمع الزوائد، 10 / 105، والشعراني في لواقح الأنوار القدسیۃ : 68۔

’’حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ جب فجر کی نماز ادا فرماتے تو اس وقت تک اپنی جگہ سے نہ اُٹھتے جب تک کہ دوسری نماز (اشراق) نہ پڑھ لیتے۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جس شخص نے صبح (فجر) کی نماز ادا کی، پھر وہ اسی جگہ پر بیٹھا رہا یہاں تک کہ (جب سورج ایک نیزے کے برابر بلند ہوا اور) وہ دوسری نماز (یعنی نمازِ اشراق) پر قادر ہوا تو اس کا یہ عمل بمنزل ایک مقبول حج اور عمرہ کے ہو گا۔‘‘ اس حدیث کو امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔

3۔ فَضْلُ صَلَاةِ الضُّحَی

{نمازِ چاشت کی فضیلت}

1۔ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ أَوْصَانِي خَلِيْلِي بِثَـلَاثٍ لَا أَدَعُهُنَّ حَتَّی أَمُوْتَ : صَوْمِ ثَـلَاثَةِ أَيَّامٍ مِنْ کُلِّ شَهْرٍ وَصَلَاةِ الضُّحَی وَنَوْمٍ عَلَی وِتْرٍ۔ مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ۔

1 : أخرجه البخاري في الصحیح، أبواب : التطوع، باب : صلاۃ الضحی في الحضر، 1 / 395، الرقم : 1124، ومسلم في الصحیح، کتاب : صلاۃ المسافرین وقصرھا، باب : استحباب صلاۃ الضحی، 1 / 499، الرقم : 721۔

’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : مجھے میرے خلیل (رحمت دو عالم ﷺ ) نے تین باتوں کی وصیت فرمائی ہے کہ مرتے دم تک انہیں نہ چھوڑوں : ہر مہینے میں تین روزے رکھنا، نماز چاشت پڑھنا اور سونے سے پہلے وتر پڑھ لینا۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

2۔ عَنْ أَبِي ذَرٍّ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّهُ قَالَ : یُصْبِحُ عَلَی کُلِّ سُلَامَی مِنْ أَحَدِکُمْ صَدَقَةٌ، فَکُلُّ تَسْبِيْحَةٍ صَدَقَةٌ، وَکُلُّ تَحْمِيْدَةٍ صَدَقَةٌ، وَکُلُّ تَهْلِيْلَةٍ صَدَقَةٌ، وَکُلُّ تَکْبِيْرَةٍ صَدَقَةٌ، وَأَمْرٌ بِالْمَعْرُوْفِ صَدَقَةٌ، وَنَهْيٌ عَنِ الْمُنْکَرِ صَدَقَةٌ، وَیُجْزِیئُ مِنْ ذَلِکَ رَکْعَتَانِ یَرْکَعُهُمَا مِنَ الضُّحَی۔ رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَبُوْدَاوُدَ۔

2 : أخرجه مسلم في الصحیح، کتاب : صلاۃ المسافرین وقصرھا، باب : استحباب صلاۃ الضحی، 1 / 498، الرقم : 720، وأبو داود في السنن، کتاب : الصلاۃ، باب : صلاۃ الضحی، 2 / 26، الرقم : 1285، وأحمد بن حنبل في المسند، 5 / 167، الرقم : 12513۔

’’حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جب کوئی شخص صبح اُٹھتا ہے تو اس کے ہر جوڑ پر صدقہ واجب ہوتا ہے اور اس کا ایک بار سبحان اللہ کہہ دینا صدقہ ہے۔ ایک بار الحمد لله کہہ دینا صدقہ ہے، ایک بار لا الٰہ الا اللہ کہہ دینا صدقہ ہے، ایک بار اللہ اکبر کہہ دینا صدقہ ہے۔ کسی شخص کو نیکی کا حکم دینا صدقہ ہے، کسی کو برائی سے روک دینا صدقہ ہے اور چاشت کی نماز پڑھ لینا ان تمام اُمور سے کفایت کر جاتا ہے۔‘‘ اس حدیث کو امام مسلم اور ابو داود نے روایت کیا ہے۔

3۔ عَنْ أَبِي ھُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : مَنْ حَافَظَ عَلَی شُفْعَةِ الضُّحَی غُفِرَتْ لَهُ ذُنُوْبُهُ وَإِنْ کَانَتْ مِثْلَ زَبَدِ الْبَحْرِ۔ رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَابْنُ مَاجَه۔

3 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : الصلاۃ، باب : ما جاء في صلاۃ الضحی، 2 / 341، الرقم : 476، وابن ماجه في السنن، کتاب : إقامۃ الصلاۃ والسنۃ فیھا، باب : ما جاء في صلاۃ الضحی، 1 / 440، الرقم : 1382، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 443، الرقم : 9714۔

’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جو شخص چاشت کی دو رکعات کی پابندی کرتا ہے، اس کے گناہ بخش دیئے جاتے ہیں اگرچہ سمندر کی جھاگ کے برابر ہوں۔‘‘

اس حدیث کو امام ترمذی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے ۔

4۔ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : مَنْ صَلَّی الضُّحَی ثِنْتَيْ عَشْرَةَ رَکْعَةً بَنَی اللهُ لَهُ قَصْرًا مِنْ ذَھَبٍ فِي الْجَنَّةِ۔ رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَابْنُ مَاجَه۔

4 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : الصلاۃ، باب : ما جاء في صلاۃ الضحی، 2 / 337، الرقم : 473، وابن ماجه في السنن، کتاب : إقامۃ الصلاۃ والسنۃ فیھا، باب : ما جاء في صلاۃ الضحی، 1 / 439، الرقم : 1380۔

’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جو شخص چاشت کی بارہ رکعتیں پڑھتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے لئے جنت میں سونے کا ایک محل بنا دیتا ہے۔‘‘

اس حدیث کو امام ترمذی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے ۔

5۔ عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ السَّائِبِ رضی الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ کَانَ یُصَلِّي أَرْبَعًا بَعْدَ أَنْ تَزُوْلَ الشَّمْسُ قَبْلَ الظُّهْرِ وَقَالَ : إِنَّهَا سَاعَةٌ تُفْتَحُ فِيْهَا أَبْوَابُ السَّمَاءِ وَأُحِبُّ أَنْ یَصْعَدَ لِي فِيْهَا عَمَلٌ صَالِحٌ۔ رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ۔

5 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : الوتر، باب : ما جاء في الصلاۃ عند الزوال، 2 / 342، الرقم : 478۔

’’حضرت عبد اللہ بن سائب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ زوال کے بعد ظہر سے پہلے چار رکعتیں پڑھا کرتے تھے اور فرماتے : یہ وہ گھڑی ہے جس میں آسمانوں پر (رحمت) کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور میں پسند کرتا ہوں کہ اس میں میرے نیک اعمال اوپر اٹھائے جائیں۔‘‘

اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔

6۔ عَنْ سَھْلِ بْنِ مُعَاذِ بْنِ أَنَسٍ الْجُهَنِيِّ عَنْ أَبِيْهِ أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ : مَنْ قَعَدَ فِي مُصَلَّاهُ حِيْنَ یَنْصَرِفُ مِنْ صَلَاةِ الصُّبْحِ حَتَّی یُسَبِّحَ رَکْعَتَي الضُّحَی لَا یَقُوْلُ إِلَّا خَيْرًا غُفِرَ لَهُ خَطَایَاهُ وَإِنْ کَانَتْ أَکْثَرَ مِنْ زَبَدِ الْبَحْرِ۔

رَوَاهُ أَبُوْ دَاوُدَ وَأَحْمَدُ۔

6 : أخرجه أبو داود في السنن، کتاب : التطوع، باب : صلاۃ الضحی، 2 / 27، الرقم : 1287، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 438، والطبراني في المعجم الکبیر، 20 / 196، الرقم : 442، والبیهقي في السنن الکبری، 3 / 49، الرقم : 4686۔

’’حضرت سہل بن معاذ بن انس الجہنی اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جو شخص صبح کی نماز کے سلام پھیرنے سے لے کر چاشت کی دو رکعت پڑھنے تک اپنی نماز والی جگہ پر بیٹھا رہے، نیکی کے علاوہ کوئی بات نہ کرے، اس کے تمام گناہ بخش دیئے جاتے ہیں اگرچہ وہ سمندر کی جھاگ کے برابر ہوں۔‘‘ اس حدیث کو امام ابو داود اور احمد نے روایت کیا ہے ۔

7۔ عَنْ أَبِي ھُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ : إِنَّ فِي الْجَنَّةِ بَابًا یُقَالُ لَهُ الضُّحَی، فَإِذَا کَانَ یَوْمُ الْقِیَامَةِ نَادَی مُنَادٍ : أَيْنَ الَّذِيْنَ کَانُوْا یُدِيْمُوْنَ عَلَی صَلَاةِ الضُّحَی؟ هَذَا بَابُکُمْ فَادْخُلُوْهُ بِرَحْمَةِ اللهِ۔ رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ۔

7 : أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 5 / 195، الرقم : 5060، والدیلمي في مسند الفردوس، 1 / 206، الرقم : 788، والمنذري في الترغیب والترھیب، 1 / 267، الرقم : 1009، والھیثمي في مجمع الزوائد، 2 / 239۔

’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جنت میں ایک دروازہ ہے جس کا نام ضحی ہے۔ جب قیامت کا دن ہو گا، ایک آواز دینے والا آواز دے گا : نماز ضحی کی پابندی کرنے والو! کہاں ہو؟ یہ تمہارا دروازہ ہے، اس میں اللہ کی رحمت سے داخل ہو جاؤ۔‘‘

اس حدیث کو امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔

4۔ فَضْلُ صَلَاةِ الْأَوَّابِيْنَ

{نماز اَوّابین کی فضیلت}

1۔ عَنْ أَبِي ھُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : مَنْ صَلَّی بَعْدَ الْمَغْرِبِ سِتَّ رَکَعَاتٍ لَمْ یَتَکَلَّمْ فِيْمَا بَيْنَھُنَّ بِسُوْءٍ عُدِلْنَ لَهُ بِعِبَادَةِ ثِنْتَي عَشْرَةَ سَنَةً۔

رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَابْنُ مَاجَه۔

1 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : الصلاۃ، باب : ما جاء في فضل التطوع وست رکعات بعد المغرب، 2 / 298، الرقم : 435، وابن ماجه في السنن، کتاب : إقامۃ الصلاۃ والسنۃ فیھا، باب : ما جاء في ست رکعات بعد المغرب، 1 / 369، الرقم : 1167، والمنذري في الترغیب والترھیب، 1 / 227، الرقم : 862۔

’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جو شخص مغرب کے بعد چھ رکعت نفل اس طرح پڑھے کہ ان کے درمیان کوئی بری بات نہ کرے، اس کے لئے یہ نفل بارہ سال کی عبادت کے برابر شمار ہوں گے۔‘‘ اس حدیث کو امام ترمذی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے ۔

2۔ عَنْ عَائِشَةَ رضي الله عنها عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ : مَنْ صَلَّی بَعْدَ الْمَغْرِبِ عِشْرِيْنَ رَکْعَةً بَنَی اللهُ لَهُ بَيْتًا فِي الجَنَّةِ۔ رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَابْنُ مَاجَه۔

2 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : الصلاۃ، باب : ما جاء في فضل التطوع وست رکعات بعد المغرب، 2 / 298، الرقم : 435، وابن ماجه في السنن، کتاب : إقامۃ الصلاۃ والسنۃ فیھا، باب : ما جاء في الصلاۃ بین المغرب والعشائ، 1 / 437، الرقم : 1373، وأبو یعلی في المسند، 8 / 360، الرقم : 4948۔

’’حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا حضور نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتی ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا : جو شخص مغرب کے بعد بیس رکعات پڑھتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کے لئے جنت میں گھر بنا دیتا ہے۔‘‘

اس حدیث کو امام ترمذی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے ۔

3۔ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه فِي ھَذِهِ الآیَةِ : {تَتَجَافَی جُنُوْبُھُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ یَدْعُوْنَ رَبَّھُمْ خَوْفًا وَطَمَعًا وَمِمَّا رَزَقْنٰـھُمْ یُنْفِقُوْنَ} [السجدۃ، 32 : 16] قَالَ : کَانُوْا یَتَیَقَّظُوْنَ مَا بَيْنَ الْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ یُصَلُّوْنَ قَالَ : وَکَانَ الْحَسَنُ یَقُوْلُ : قِیَامُ اللَّيْلِ۔ رَوَاهُ أَبُوْ دَاوُدَ۔

3 : أخرجه أبو داود في السنن، کتاب : الصلاۃ، باب : وقت قیام النبي ﷺ من اللیل، 2 / 35، الرقم : 1321، 1322، والبیهقي في السنن الکبری، 3 / 19، الرقم : 4524، وفي السنن الصغری، 1 / 478، الرقم : 841۔

’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے اس آیت : {ان کے پہلو اُن کی خوابگاہوں سے جدا رہتے ہیں اور اپنے رب کو خوف اور اُمید (کی ملی جُلی کیفیت) سے پکارتے ہیں اور ہمارے عطا کردہ رِزق میں سے (ہماری راہ میں) خرچ کرتے ہیں} کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا : صحابہ کرام مغرب اور عشاء کے درمیان نفل پڑھا کرتے تھے۔ حسن بصری کہا کرتے تھے کہ رات کو قیام کیا کرتے تھے۔‘‘

اس حدیث کو امام ابو داودنے روایت کیا ہے۔

4۔ عَنْ عَمَّارِ بْنِ یَاسِرٍ رضی الله عنه قَالَ : رَأَيْتُ حَبِيْبِي رَسُوْلَ اللهِ ﷺ صَلَّی بَعْدَ الْمَغْرِبِ سِتَّ رَکَعَاتٍ وَقَالَ : مَنْ صَلَّی بَعْدَ الْمَغْرِبِ سِتَّ رَکَعَاتٍ غُفِرَتْ لَهُ ذُنُوْبُهُ وَإِنْ کَانَتْ مِثْلَ زَبَدِ الْبَحْرِ۔ رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ۔

4 : أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 7 / 191، الرقم : 7245، وفي المعجم الصغیر، 2 / 127، الرقم : 900، والهیثمي في مجمع الزوائد، 2 / 230، والمنذري في الترغیب والترھیب، 1 / 227، الرقم : 864۔

’’حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے محبوب حضور نبی اکرم ﷺ کو مغرب کے بعد چھ رکعتیں پڑھتے دیکھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا : جو شخص مغرب کے بعد چھ رکعتیں پڑھتا ہے، اس کے تمام گناہ بخش دیئے جاتے ہیں اگرچہ وہ سمندر کی جھاگ کے برابر ہی ہوں۔‘‘

اس حدیث کو امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔

5۔ عَنْ حُذَيْفَةَ رضی الله عنه قَالَ : أَتَيْتُ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ فَصَلَّيْتُ مَعَهُ الْمَغْرِبَ فَصَلَّی إِلَی الْعِشَاءِ۔ رَوَاهُ النَّسَائِيُّ بِإِسْنَادٍ صَحِيْحٍ۔

5 : أخرجه النسائي في السنن الکبری، 1 / 157، الرقم : 380، والحاکم في المستدرک، 1 / 457، الرقم : 1177، والمنذري في الترغیب والترھیب، 1 / 228، الرقم : 868۔

’’حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور میں نے آپ ﷺ کے ساتھ مغرب کی نماز پڑھی۔ آپ ﷺ عشاء تک (نوافل) پڑھتے رہے۔‘‘

اس حدیث کو امام نسائی نے صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے۔

6۔ عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ رضي الله عنها قَالَتْ : کَانَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ إِذَا انْصَرَفَ مِنْ صَلَاةِ الْمَغْرِبِ یَدْخُلُ فَیُصَلِّي رَکْعَتَيْنِ ثُمَّ یَقُوْلُ فيْمَا یَدْعُوْ : یا مُقَلِّبَ القُلُوْبِ، ثَبِّتْ قُلُوْبَنَا علَی دِيْنِکَ۔ رَوَاهُ النَّسَائِيُّ۔

6 : أخرجه النسائي في عمل الیوم واللیلۃ، 1 / 609، الرقم : 658، والنّووي في الأذکار من کلام سیّد الأبرار : 83۔

’’حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ جب نماز مغرب سے فارغ ہوتے تو گھر میں داخل ہو کر دو رکعت نماز نفل ادا فرماتے، پھر اپنی دعا میں یوں فرماتے : اے دلوں کو موڑنے والے! ہمارے دلوں کو اپنے دین پر ثابت قدم رکھ۔‘‘

اس حدیث کو امام نسائی نے روایت کیا ہے۔

5۔ فَضْلُ صَلَاةِ تَحِيَّةِ الْوُضُوْءِ

{نماز تحیۃ الوضوء کی فضیلت}

1۔ عَنْ أَبِي ھُرَيْرَةَ رضی الله عنه أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ لِبِلَالٍ رضی الله عنه عِنْدَ صَلَاةِ الْفَجْرِ : یَا بِلَالُ، حَدِّثْنِي بِأَرْجَی عَمَلٍ عَمِلْتَهُ فِي الْإِسْلَامِ، فَإِنِّي سَمِعْتُ دَفَّ نَعْلَيْکَ بَيْنَ یَدَيَّ فِي الْجَنَّةِ، قَالَ : مَا عَمِلْتُ عَمَلًا أَرْجَی عِنْدِي أَنِّي لَمْ أَتَطَھَّرْ طَھُوْرًا فِي سَاعَةِ لَيْلٍ أَوْ نَھَارٍ إِلَّا صَلَّيْتُ بِذَلِکَ الطُّھُوْرِ مَا کُتِبَ لِي أَنْ أُصَلِّيَ۔

مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ وَھَذَا لَفْظُ الْبُخَارِيِّ۔

1 : أخرجه البخاري في الصحیح، أبواب : التطوع، باب : فضل الطھور باللیل والنھار وفضل الصلاۃ بعد الوضوء باللیل والنھار، 1 / 386، الرقم : 1098، ومسلم في الصحیح، کتاب : فضائل الصحابۃ ث، باب : من فضائل بلال رضی الله عنه، 4 / 1910، الرقم : 2458، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 333، الرقم : 8384 ۔

’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ سے نماز فجر کے وقت فرمایا : اے بلال! مجھے اپنا وہ اُمید افزا عمل بتائو جو تم نے زمانہ اسلام میں کیا ہو، کیونکہ میں نے جنت میں اپنے آگے آگے تمہارے جوتوں کی آواز سنی ہے۔ عرض کیا : میرے نزدیک تو ایسا امید افزا کوئی عمل نہیں ہے ما سوائے اس کے کہ رات یا دن کی کسی بھی ساعت کے اندر میں نے جب بھی وضو کیا تو اس کے ساتھ نماز (تحیۃ الوضوئ) جو قسمت میں لکھی ہے ضرور پڑھتا ہوں۔‘‘

یہ حدیث متفق علیہ ہے اور الفاظ بخاری کے ہیں۔

2۔ عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : مَا مِنْ مُسْلِمٍ یَتَوَضَّأُ فَیُحْسِنُ وُضُوْئَهُ ثُمَّ یَقُوْمُ فَیُصَلِّي رَکْعَتَيْنِ مُقْبِلٌ عَلَيْهِمَا بِقَلْبِهِ وَوَجْهِهِ إِلَّا وَجَبَتْ لَهُ الْجَنَّةُ۔ رَوَاهُ مُسْلِمٌ، وَأَحْمَدُ۔

2 : أخرجه مسلم في الصحیح، کتاب : الطھارۃ، باب : الذکر المستحب عقب الوضوئ، 1 / 209، الرقم : 234، وأحمد بن حنبل في المسند، 4 / 153، والبیهقي في السنن الکبری، 1 / 78، الرقم : 373، وابن خزیمۃ في الصحیح، 1 / 110، الرقم : 222۔

’’حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جو مسلمان اچھی طرح وضو کرے اور پھر کھڑا ہو کر حضور قلب کے ساتھ دو رکعات نماز پڑھے اس کے لیے جنت واجب ہو جائے گی۔‘‘ اس حدیث کو امام مسلم اور احمد نے روایت کیا ہے۔

3۔ عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُهَنِيِّ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ : مَنْ تَوَضَّأَ فَأَحْسَنَ وُضُوْئَهُ ثُمَّ صَلَّی رَکْعَتَيْنِ لَا یَسْهُوْ فِيْهِمَا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ۔ رَوَاهُ أَبُوْ دَاوُدَ، وَأَحْمَدُ۔

3 : أخرجه أبو داود في السنن، کتاب : الصلاۃ، باب : کراهیۃ الوسوسۃ وحدیث النفس في الصلاۃ، 1 / 238، الرقم : 905، وأحمد بن حنبل في المسند، 4 / 117، والطبراني في المعجم الکبیر، 5 / 249، الرقم : 5242، والحاکم في المستدرک، 1 / 222، الرقم : 451، وعبد بن حمید في المسند، 1 / 118، الرقم : 280۔

’’حضرت زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضورنبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جس نے وضو کیا اور اچھی طرح وضو کیا پھر دو رکعتیں پڑھیں جن میں کوئی بھول چوک نہ ہو تو اس کے سابقہ گناہ معاف فرمادیئے جاتے ہیں۔‘‘ اس حدیث کو امام ابو داود اور احمد نے روایت کیا ہے۔

6۔ فَضْلُ صَلَاةِ تَحِيَّةِ الْمَسْجِدِ

{نماز تحیۃ المسجد کی فضیلت}

1۔ عَنْ أَبِي قَتَادَةَ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : إِذَا دَخَلَ أَحَدُکُمُ الْمَسْجِدَ، فَـلَا یَجْلِسْ حَتَّی یُصَلِّيَ رَکْعَتَيْنِ۔ مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ وَهَذَا لَفْظُ الْبُخَارِيِّ۔

1 : أخرجه البخاري في الصحیح، أبواب : التطوع، باب : ما جاء في التطوع مثنی مثنی، 1 / 391، الرقم : 1110، ومسلم في الصحیح، کتاب : صلاۃ المسافرین وقصرھا، باب : استحباب تحیۃ المسجد برکعتین وکراهۃ الجلوس قبل صلاتهما وأنها مشروعۃ في جمیع الأوقات، 1 / 495، الرقم : 714۔

’’حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی مسجد میں داخل ہو تو دو رکعت(تحیۃ المسجد) پڑھے بغیر نہ بیٹھے۔‘‘

یہ حدیث متفق علیہ ہے اور یہ الفاظ امام بخاری کے ہیں۔

2۔ عَنْ أَبِي قَتَادَةَ رضی الله عنه صَاحِبِ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ ، قَالَ : دَخَلْتُ الْمَسْجِدَ وَرَسُوْلُ اللهِ ﷺ جَالِسٌ بَيْنَ ظَھْرَانَي النَّاسِ قَالَ : فَجَلَسْتُ۔ فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : مَا مَنَعَکَ أَنْ تَرْکَعَ رَکْعَتَيْنِ قَبْلَ أَنْ تَجْلِسَ؟ قَالَ : فَقُلْتُ : یَا رَسُوْلَ اللهِ، رَأَيْتُکَ جَالِسًا وَالنَّاسُ جُلُوْسٌ۔ قَالَ : فَإِذَا دَخَلَ أَحَدُکُمُ الْمَسْجِدَ فَـلَا یَجْلِسْ حَتَّی یَرْکَعَ رَکْعَتَيْنِ۔ رَوَاهُ مُسْلِمٌ، وَأَحْمَدُ۔

2 : أخرجه مسلم في الصحیح، کتاب : صلاۃ المسافرین وقصرھا، باب : استحباب تحیۃ المسجد برکعتین وکراھۃ الجلوس قبل صلاتھما وأنھا مشروعۃ في جمیع الأوقات، 1 / 495، الرقم : 714، وأحمد بن حنبل في المسند، 5 / 305، الرقم : 22654، وابن خزیمۃ في الصحیح، 3 / 164، الرقم : 1829، وأبو عوانۃ في المسند، 1 / 346، الرقم : 1240۔

’’صحابی رسول حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں مسجد میں داخل ہوا اور حضور نبی اکرم ﷺ لوگوں کے درمیان تشریف فرما تھے۔ میں بھی بیٹھ گیا، آپ ﷺ نے فرمایا : بیٹھنے سے پہلے دو رکعت نماز پڑھنے سے تم کو کس نے روکا؟ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ! میں نے آپ کو اور لوگوں کو بیٹھے ہوئے دیکھا۔ فرمایا : تم میں سے جب کوئی شخص مسجد میں آئے تو دو رکعت نماز (تحیۃ المسجد) پڑھنے سے پہلے نہ بیٹھے۔‘‘ اس حدیث کو امام مسلم اور احمد نے روایت کیا ہیں۔

7۔ فَضْلُ صَلَاةِ التَّسْبِيْحِ

{نماز تسبیح کی فضیلت}

1۔ عَنْ أَبِي وَهْبٍ قَالَ : سَأَلْتُ عَبْدَ اللهِ بْنَ الْمُبَارَکِ عَنِ الصَّلَاةِ الَّتِي یُسَبَّحُ فِيْهَا فَقَالَ : یُکَبِّرُ ثُمَّ یَقُوْلُ : سُبْحَانَکَ اللَّهُمَّ وَبِحَمْدِکَ وَتَبَارَکَ اسْمُکَ وَتَعَالَی جَدُّکَ وَلَا إِلَهَ غَيْرُکَ۔ ثُمَّ یَقُوْلُ خَمْسَ عَشْرَةَ مَرَّةً : سُبْحَانَ اللهِ وَالْحَمْدُ لِلّٰهِ وَلَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَاللهُ أَکْبَرُ۔ ثُمَّ یَتَعَوَّذُ وَیَقْرَأُ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْمِ وَفَاتِحَةَ الْکِتَابِ وَسُوْرَةً ثُمَّ یَقُوْلُ عَشْرَ مَرَّاتٍ : سُبْحَانَ اللهِ وَالْحَمْدُ لِلّٰهِ وَلَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَاللهُ أَکْبَرُ ثُمَّ یَرْکَعُ فَیَقُوْلُهَا عَشْرًا ثُمَّ یَرْفَعُ رَأْسَهُ مِنَ الرُّکُوْعِ فَیَقُوْلُهَا عَشْرًا ثُمَّ یَسْجُدُ فَیَقُوْلُهَا عَشْرًا ثُمَّ یَرْفَعُ رَأْسَهُ فَیَقُوْلُهَا عَشْرًا ثُمَّ یَسْجُدُ الثَّانِیَةَ فَیَقُوْلُهَا عَشْرًا یُصَلِّي أَرْبَعَ رَکَعَاتٍ عَلَی هَذَا فَذَلِکَ خَمْسٌ وَسَبْعُوْنَ تَسْبِيْحَةً فِي کُلِّ رَکْعَةٍ یَبْدَأُ فِي کُلِّ رَکْعَةٍ بِخَمْسَ عَشْرَةَ تَسْبِيْحَةً ثُمَّ یَقْرَأُ ثُمَّ یُسَبِّحُ عَشْرًا۔ فَإِنْ صَلَّی لَيْلًا فَأَحَبُّ إِلَيَّ أَنْ یُسَلِّمَ فِي الرَّکْعَتَيْنِ وَإِنْ صَلَّی نَهَارًا فَإِنْ شَائَ سَلَّمَ وَإِنْ شَاءَ لَمْ یُسَلِّمْ۔ قَالَ أَبُوْ وَهْبٍ وَأَخْبَرَنِي عَبْدُ الْعَزِيْزِ بْنُ أَبِي رِزْمَةَ عَنْ عَبْدِ اللهِ أَنَّهُ قَالَ : یَبْدَأُ فِي الرُّکُوْعِ بِسُبْحَانَ رَبِّيَ الْعَظِيْمِ وَفِي السُّجُوْدِ بِسُبْحَانَ رَبِّيَ الْأَعْلَی ثَـلَاثًا ثُمَّ یُسَبِّحُ التَّسْبِيْحَاتِ قَالَ أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ وَحَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ زَمْعَةَ قَالَ أَخْبَرَنِي عَبْدُ الْعَزِيْزِ وَهُوَ ابْنُ أَبِي رِزْمَةَ قَالَ : قُلْتُ لِعَبْدِ اللهِ بْنِ الْمُبَارَکِ : إِنْ سَهَا فِيْهَا یُسَبِّحُ فِي سَجْدَتَي السَّهْوِ عَشْرًا عَشْرًا؟ قَالَ : لَا إِنَّمَا هِيَ ثـَلَاثُ مِائَةِ تَسْبِیحَةٍ۔ رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَأَبُوْ دَاوُدَ وَابْنُ مَاجَه ۔

وَفِي رِوَایَةٍ : عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو رضي الله عنهما قَالَ : قَالَ لِيَ النَّبِيُّ : فَإِنَّکَ لَوْ کُنْتَ أَعْظَمَ أَھْلِ الْأَرْضِ ذَنْبًا غُفِرَ لَکَ بِذَلِکَ قُلْتُ : فَإِنْ لَمْ أَسْتَطِعْ أَنْ أُصَلِّیَھَا تِلْکَ السَّاعَةَ۔ قَالَ : صَلِّھَا مِنَ اللَّيْلِ وَالنَّھَارِ۔ رَوَاهُ أَبُوْ دَاوُدَ۔

1 : أخرجه الترمذي في السنن، أبواب : الوتر، باب : ما جاء في صلاۃ التسبیح، 2 / 350، الرقم : 481، وأبو داود في السنن، کتاب : التطوع، باب : صلاۃ التسبیح، 2 / 29، الرقم : 1297، و2 / 30، الرقم : 1298، وابن ماجه في السنن، کتاب : إقامۃ الصلاۃ والسنۃ فیھا، باب : ما جاء في صلاۃ التسبیح، 1 / 442،443، الرقم : 13860،1387۔

’’ابو وہب کہتے ہیں میں نے حضرت عبد اللہ بن مبارک سے تسبیحات والی نماز کے بارے میں پوچھا، آپ نے فرمایا : تکبیر کہہ کر سبحانک اللہم الخ پڑھے، پھر پندرہ مرتبہ سبحان اللہ والحمد لله ولا إلہ إلا اللہ واللہ أکبر کہے، پھر أعوذ باللہ پڑھے، بسم اللہ پڑھے، سورہ فاتحہ اور کوئی دوسری سورت پڑھے اور پھر دس مرتبہ تسبیح (مذکورہ بالا) کہے، رکوع میں دس مرتبہ، رکوع سے اٹھ کر دس مرتبہ، سجدہ میں دس مرتبہ، سجدہ سے اٹھ کر دس مرتبہ اور پھر دوسرے سجدہ میں دس مرتبہ یہی تسبیحات کہے، یوں چار رکعتیں پڑھے، اس طرح ہر رکعت میں پچھتر (75) تسبیحات ہوں گی، ہر رکعت کے شروع میں پندرہ مرتبہ اور پھر قرأت کے بعد دس دس مرتبہ پڑھے، اگر رات کو پڑھے تو ہر دو رکعتوں پر سلام پھیرنا مجھے پسند ہے، اگر دن کو پڑھے تو چاہے سلام پھیرے چاہے نہ پھیرے۔ ابو وہب فرماتے ہیں : مجھے ابو رزمہ عبد العزیز نے بتایا کہ عبد اللہ بن مبارک نے فرمایا : رکوع میں پہلے سبحان ربی العظیم کہے اور سجدے میں پہلے سبحان ربی الاعلیٰ کہے، پھر تسبیحات پڑھے۔ ابو رزمہ عبد العزیز فرماتے ہیں : میں نے عبد اللہ بن مبارک سے پوچھا، اگر سہو ہو جائے تو کیا سجدہ سہو میں بھی دس دس مرتبہ تسبیحات کہے، آپ نے فرمایا : نہیں یہ صرف تین سو تسبیحات ہیں۔‘‘ اس حدیث کو امام ترمذی، ابو داود اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے ۔

’’حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ مجھ سے حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اگر تمہارے گناہ تمام اہلِ زمین سے بھی زیادہ ہوں تب بھی اس (نماز) کے باعث معاف کر دیئے جائیں گے۔ میں نے عرض کیا : اگر اس وقت نہ پڑھ سکوں؟ فرمایا : رات اور دن میں جس وقت بھی پڑھ سکو (پڑھ لو)۔‘‘ اس حدیث کو امام ابو داود نے روایت کیا ہے ۔

8۔ فَضْلُ صَلَاةِ الْاِسْتِخَارَةِ

{نمازاِستخارہ کی فضیلت}

1۔ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ رضي الله عنهما قَالَ : کَانَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ یُعَلِّمُنَا الْاِسْتِخَارَةَ فِي الْأُمُوْرِ کُلِّھَا کَمَا یُعَلِّمُنَا السُّوْرَةَ مِنَ الْقُرْآنِ یَقُوْلُ : إِذَا ھَمَّ أَحَدُکُمْ بِالْأَمْرِ فَلْیَرْکَعْ رَکْعَتَيْنِ مِنْ غَيْرِ الْفَرِيْضَةِ ثُمَّ لِیَقُلْ : اَللَّھُمَّ، إِنِّي أَسْتَخِيْرُکَ بِعِلْمِکَ وَأَسْتَقْدِرُکَ بِقُدْرَتِکَ وَأَسْأَلُکَ مِنْ فَضْلِکَ الْعَظِيْمِ۔ فَإِنَّکَ تَقْدِرُ وَلَا أَقْدِرُ وَتَعْلَمُ وَلَا أَعْلَمُ وَأَنْتَ عَلَّامُ الْغُیُوْبِ۔ اَللَّھُمَّ، إِنْ کُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ ھَذَا الْأَمْرَ خَيْرٌ لِي فِي دِيْنِي وَمَعَاشِي وَعَاقِبَةِ أَمْرِي۔ أَوْ قَالَ : عَاجِلِ أَمْرِي وَآجِلِهِ فَاقْدُرْهُ لِي وَیَسِّرْهُ لِي ثُمَّ بَارِکْ لِي فِيْهِ وَإِنْ کُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ ھَذَا الْأَمْرَ شَرٌّ لِي فِي دِيْنِي وَمَعَاشِي وَعَاقِبَةِ أَمْرِي۔ أَوْ قَالَ : فِي عَاجِلِ أَمْرِي وَآجِلِهِ فَاصْرِفْهُ عَنِّي وَاصْرِفْنِي عَنْهُ وَاقْدُرْ لِيَ الْخَيْرَ حَيْثُ کَانَ ثُمَّ أَرْضِنِي۔ قَالَ : وَیُسَمِّي حَاجَتَهُ۔ رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ، وَالتِّرْمِذِيُّ، وَأَبُوْ دَاوُدَ، وَالنَّسَائِيُّ، وَابْنُ مَاجَه۔

1 : أخرجه البخاري في الصحیح، أبواب : التطوع، باب : ما جاء في التطوع مثنی مثنی، 1 / 391، الرقم : 1113، وفي کتاب : الدعوات، باب : الدعاء عند الاستخارۃ، 5 / 2345، الرقم : 6019، والترمذي في السنن، کتاب : الصلاۃ، باب : ما جاء في صلاۃ الاستخارۃ، 2 / 345، الرقم : 480، وقال الترمذي : حدیث صحیح، وأبو داود في السنن، کتاب : الصلاۃ، باب : في الاستخارۃ، 2 / 89، الرقم : 1538، والنسائي في السنن، کتاب : النکاح، باب : کیف الاستخارۃ، 6 / 80، الرقم : 3253، وابن ماجه في السنن، کتاب : إقامۃ الصلاۃ والسنۃ فیھا، باب : ما جاء في صلاۃ الاستخارۃ، 1 / 440، الرقم : 1383۔

’’حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ ہمیں تمام معاملات میں استخارہ کرنا اسی طرح سکھایا کرتے تھے جیسے قرآن مجید کی سورت سکھاتے۔ آپ ﷺ فرماتے : جب تم میں سے کوئی کسی کام کا ارادہ کرے تو دو رکعت نفل نماز پڑھے، پھر یوں کہے : اَللَّھُمَّ إِنِّي أَسْتَخِيْرُکَ بِعِلْمِکَ وَأَسْتَقْدِرُکَ بِقُدْرَتِکَ وَأَسْأَلُکَ مِنْ فَضْلِکَ الْعَظِيْمِ۔ فَإِنَّکَ تَقْدِرُ وَلَا أَقْدِرُ وَتَعْلَمُ وَلَا أَعْلَمُ وَأَنْتَ عَلَّامُ الْغُیُوْبِ۔ اَللَّھُمَّ إِنْ کُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ ھَذَا الْأَمْرَ خَيْرٌ لِي فِي دِيْنِي وَمَعَاشِي وَعَاقِبَةِ أَمْرِي۔ أَوْ قَالَ : عَاجِلِ أَمْرِي وَآجِلِهِ فَاقْدُرْهُ لِي وَیَسِّرْهُ لِي ثُمَّ بَارِکْ لِي فِيْهِ وَإِنْ کُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ ھَذَا الْأَمْرَ شَرٌّ لِي فِي دِيْنِي وَمَعَاشِي وَعَاقِبَةِ أَمْرِي۔ (أَوْ قَالَ : فِي عَاجِلِ أَمْرِي وَآجِلِهِ) فَاصْرِفْهُ عَنِّي وَاصْرِفْنِي عَنْهُ وَاقْدُرْ لِيَ الْخَيْرَ حَيْثُ کَانَ ثُمَّ أَرْضِنِي ’’اے اللہ! میں تجھ سے تیرے علم کے ذریعے بھلائی طلب کرتا ہوں اور تیری قدرت کے سبب طاقت چاہتا ہوں اور تیرے عظیم فضل میں سے سوال کرتا ہوں کیونکہ تو قدرت رکھتا ہے اور میں قدرت نہیں رکھتا۔ تو جانتا ہے اور میں نہیں جانتا اور تو چھپی باتوں کا خوب جاننے والا ہے۔ اے اللہ! اگر تیرے علم میں یہ کام میرے دین، میری معاش، میرے اُخروی معاملے یا انجام کار میں میرے لیے بہتر ہے تو اسے میرے لیے مقدر فرما دیے اور میرے لیے آسان کر دے، تو اس میں مجھے برکت دے اور اگر تیرے علم میں یہ کام میرے دین، میری معاش، میرے اخروی معاملے یا انجام کار میں میرے لیے برا ہے تو اسے مجھ سے دور رکھ اور اس سے مجھے دور رکھ اور میرے لیے بھلائی کو مقرر فرما خواہ وہ کہیں ہو۔ پھر مجھے راضی کر دے۔‘‘ فرمایا : اور (پھر) اپنی حاجت کا نام لے۔‘‘

اس حدیث کو امام بخاری، ترمذی، ابو داود، نسائی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔

9۔ فَضْلُ صَلَاةِ الْحَاجَةِ

{نمازِحاجت کی فضیلت}

1۔ عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ أَبِي أَوْفَی رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : مَنْ کَانَتْ لَهُ إِلَی اللهِ حَاجَةٌ أَوْ إِلَی أَحَدٍ مِنْ بَنِي آدَمَ فَلْیَتَوَضَّأْ وَلْیُحْسِنِ الْوُضُوْءَ ثُمَّ لِیُصَلِّ رَکْعَتَيْنِ، ثُمَّ لِیُثْنِ عَلَی اللهِ، وَلْیُصَلِّ عَلَی النَّبِيِّ ﷺ ، ثُمَّ لِیَقُلْ : {لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ الْحَلِيْمُ الْکَرِيْمُ سُبْحَانَ اللهِ رَبِّ الْعَرْشِ الْعَظِيْمِ، الْحَمْدُ ِللهِ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ، أَسْأَلُکَ مُوْجِبَاتِ رَحْمَتِکَ، وَعَزَائِمَ مَغْفِرَتِکَ، وَالْغَنِيْمَةَ مِنْ کُلِّ بِرٍّ، وَالسَّلَامَةَ مِنْ کُلِّ إِثْمٍ، لَا تَدَعْ لِي ذَنْبًا إِلَّا غَفَرْتَهُ وَلَا ھَمًّا إِلَّا فَرَّجْتَهُ وَلَا حَاجَةً ھِيَ لَکَ رِضًا إِلَّا قَضَيْتَھَا یَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِيْنَ}۔

زَادَ ابْنُ مَاجَه : ثُمَّ یَسْأَلُ اللهَ مِنْ أَمْرِ الدُّنْیَا وَالْآخِرَةِ مَا شَاءَ فَإِنَّهُ یُقَدَّرُ۔

رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَابْنُ مَاجَه وَالْحَاکِمُ بِأَسَانِيْدِھِمْ۔

1 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : الصلاۃ، باب : ما جاء في صلاۃ الحاجۃ، 2 / 344، الرقم : 479، وابن ماجه في السنن، کتاب : إقامۃ الصلاۃ والسنۃ فیھا، باب : ما جاء في صلاۃ الحاجۃ، 1 / 441، الرقم : 1384، والحاکم في المستدرک، 1 / 466، الرقم : 1199۔

’’حضرت عبد اللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جس شخص کو اللہ تعالیٰ یا کسی آدمی سے کوئی کام ہو، اُسے چاہیے کہ وہ اچھے طریقے سے وضو کرے اور دو رکعت نماز پڑھے، پھر اللہ تعالیٰ کی تعریف کرے، پھر حضور نبی اکرم ﷺ پر درود بھیجے، پھر کہے : {لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ الْحَلِيْمُ الْکَرِيْمُ سُبْحَانَ اللهِ رَبِّ الْعَرْشِ الْعَظِيْمِ، اَلْحَمْدُ ِللهِ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ، أَسْأَلُکَ مُوْجِبَاتِ رَحْمَتِکَ وَعَزَائِمَ مَغْفِرَتِکَ وَالْغَنِيْمَةَ مِنْ کُلِّ بِرٍّ وَالسَّلَامَةَ مِنْ کُلِّ إِثْمٍ لَا تَدَعْ لِي ذَنْبًا إِلَّا غَفَرْتَهُ وَلَا ھَمَّا إِلَّا فَرَّجْتَهُ وَلَا حَاجَةً ھِيَ لَکَ رِضًا إِلَّا قَضَيْتَھَا یَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِيْنَ} ’’اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ بردبار بزرگی والا ہے۔ پاک ہے اللہ اور عرش عظیم کا مالک ہے۔ تمام تعریفیں اللہ ہی کے لئے ہیں جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے۔ اے اللہ! میں تجھ سے وہ چیزیں مانگتا ہوں جو تیری رحمت اور تیری بخشش کا سبب ہوتی ہیں اور میں ہر نیکی میں سے اپنا حصہ مانگتا ہوں اور ہر گناہ سے سلامتی طلب کرتا ہوں۔ اے اللہ! میرے کسی گناہ کو بخشے بغیر، میرے کسی غم کو دور کئے بغیر اور میری کسی حاجت کو جو تیرے نزدیک پسندیدہ ہو، پورا کئے بغیر نہ چھوڑنا۔ اے رحم کرنے والوں میں سے سب سے زیادہ رحم کرنے والے! (رحم فرما)۔‘‘

’’امام ابنِ ماجہ نے ان الفاظ کا اضافہ کیا ہے : پھر دنیا اور آخرت کی کوئی چیز مانگے تو وہ اس کے لئے مقدر کر دی جائے گی۔‘‘

اس حدیث کو امام ترمذی، ابن ماجہ اور امام حاکم نے اپنی اپنی اسناد کے ساتھ نقل کیا ہے۔

2۔ عَنْ عُثْمَانَ بْنِ حُنَيْفٍ رضی الله عنه أَنَّ رَجُـلًا ضَرِيْرَ الْبَصَرِ أَتَی النَّبِيَّ ﷺ فَقَالَ : ادْعُ اللهَ لِي أَنْ یُعَافِیَنِي۔ فَقَالَ : إِنْ شِئْتَ أَخَّرْتُ لَکَ وَهُوَ خَيْرٌ۔ وَإِنْ شِئْتَ دَعَوْتُ۔ فَقَالَ : ادْعُهُ۔ فَأَمَرَهُ أَنْ یَتَوَضَّأَ فَیُحْسِنَ وُضُوْئَهُ وَیُصَلِّيَ رَکْعَتَيْنِ۔ وَیَدْعُوَ بِهَذَا الدُّعَاءِ : اَللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُکَ وَأَتَوَجَّهُ إِلَيْکَ بِمُحَمَّدٍ نَبِيِّ الرَّحْمَةِ۔ یَا مُحَمَّدُ، إِنِّي قَدْ تَوَجَّهْتُ بِکَ إِلَی رَبِّي فِي حَاجَتِي هَذِهِ لِتُقْضَی، اَللَّهُمَّ شَفِّعْهُ فِيَّ۔

رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالنَّسَائِيُّ وَابْنُ مَاجَه وَاللَّفْظُ لَهُ۔ وَقَالَ أَبُوْ عِيْسَی : هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ۔ وَقَالَ الْحَاکِمُ : هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ۔

2 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : الدعوات، باب : 119، 5 / 569، الرقم : 3578، وابن ماجه في السنن، کتاب : إقامۃ الصلاۃ والسنۃ فیها، باب : ما جاء في صلاۃ الحاجۃ، 1 / 441، الرقم : 1385، وأحمد بن حنبل في المسند، 4 / 138، الرقم : 17240۔17242، والنسائي في السنن الکبری، 6 / 168، الرقم : 10494۔ 10495، وفي عمل الیوم واللیلۃ، 1 / 417، الرقم : 658۔660، وابن خزیمۃ في الصحیح، 2 / 225، الرقم : 1219، والحاکم في المستدرک، 1 / 458، 700، 707، الرقم : 1180۔ 1909۔ 1929، والطبراني في المعجم الصغیر، 1 / 306، الرقم : 508، وفي المعجم الکبیر، 9 / 30، الرقم : 8311، والبخاري في التاریخ الکبیر، 6 / 209، الرقم : 2192، وعبد بن حمید في المسند، 1 / 147، الرقم : 379۔

’’حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک نابینا شخص حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض گزار ہوا : یا رسول اللہ! میرے لئے بینائی کی دعا فرمائیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا : اگر تو چاہے تو تیرے لئے دعا کو مؤخر کر دوں جو تیرے لئے بہتر ہے اور اگر تو چاہے تو تیرے لئے دعا کر دوں۔ اس نے عرض کیا : (آقا) دعا فرما دیں۔ آپ ﷺ نے اسے اچھی طرح وضو کرنے اور دو رکعت نماز پڑھنے کا حکم دیا اور فرمایا : (نماز کے بعد) یہ دعا کرنا : {اَللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُکَ وَأَتَوَجَّهُ إِلَيْکَ بِمُحَمَّدٍ نَبِيِّ الرَّحْمَةِ، یَا مُحَمَّدُ، إِنِّي قَدْ تَوَجَّهْتُ بِکَ إِلَی رَبِّي فِي حَاجَتِي هَذِهِ لِتُقْضَی، اَللَّهُمَّ فَشَفِّعْهُ فِيَّ} ’’اے اللہ! میں نبیٔ رحمت (حضرت)محمد ﷺ کے وسیلے سے تجھ سے سوال کرتا ہوں اور تیری طرف توجہ کرتا ہوں۔ اے محمد(ﷺ)! میں آپ کے وسیلہ سے اپنے رب کی بارگاہ میں اپنی حاجت پیش کرتا ہوں کہ پوری ہو۔ اے اللہ! میرے حق میں سرکار کی شفاعت قبول فرما۔‘‘

اس حدیث کو امام ترمذی، نسائی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے اور یہ الفاظ ابن ماجہ کے ہیں۔ امام ابوعیسیٰ ترمذی کہتے ہیں کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

10۔ فَضْلُ صَلَاةِ التَّوَسُّلِ

{نماز توسل کی فضیلت}

1۔ عَنْ عُثْمَانَ بْنِ حُنَيْفٍ رضی الله عنه أَنَّ رَجُـلًا ضَرِيْرَ الْبَصَرِ أَتَی النَّبِيَّ ﷺ فَقَالَ : ادْعُ اللهَ لِي أَنْ یُعَافِیَنِي۔ فَقَالَ : إِنْ شِئْتَ أَخَّرْتُ لَکَ وَهُوَ خَيْرٌ۔ وَإِنْ شِئْتَ دَعَوْتُ۔ فَقَالَ : ادْعُهُ۔ فَأَمَرَهُ أَنْ یَتَوَضَّأَ فَیُحْسِنَ وُضُوْئَهُ وَیُصَلِّيَ رَکْعَتَيْنِ۔ وَیَدْعُوَ بِهَذَا الدُّعَاءِ : اَللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُکَ وَأَتَوَجَّهُ إِلَيْکَ بِمُحَمَّدٍ نَبِيِّ الرَّحْمَةِ۔ یَا مُحَمَّدُ، إِنِّي قَدْ تَوَجَّهْتُ بِکَ إِلَی رَبِّي فِي حَاجَتِي هَذِهِ لِتُقْضَی، اَللَّهُمَّ شَفِّعْهُ فِيَّ۔

رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالنَّسَائِيُّ وَابْنُ مَاجَه وَاللَّفْظُ لَهُ۔ وَقَالَ أَبُوْ عِيْسَی : هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ۔ وَقَالَ الْحَاکِمُ : هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ۔

1 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : الدعوات، باب : 119، 5 / 569، الرقم : 3578، وابن ماجه في السنن، کتاب : إقامۃ الصلاۃ والسنۃ فیها، باب : ما جاء في صلاۃ الحاجۃ، 1 / 441، الرقم : 1385، وأحمد بن حنبل في المسند، 4 / 138، الرقم : 17240۔17242، والنسائي في السنن الکبری، 6 / 168، الرقم : 10494۔ 10495، وفي عمل الیوم واللیلۃ، 1 / 417، الرقم : 658۔660، وابن خزیمۃ في الصحیح، 2 / 225، الرقم : 1219، والحاکم في المستدرک، 1 / 458، 700، 707، الرقم : 1180۔ 1909۔ 1929، والطبراني في المعجم الصغیر، 1 / 306، الرقم : 508، وفي المعجم الکبیر، 9 / 30، الرقم : 8311، والبخاري في التاریخ الکبیر، 6 / 209، الرقم : 2192، وعبد بن حمید في المسند، 1 / 147، الرقم : 379۔

’’حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک نابینا شخص حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض گزار ہوا : یا رسول اللہ! میرے لئے بینائی کی دعا فرمائیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا : اگر تو چاہے تو تیرے لئے دعا کو مؤخر کر دوں جو تیرے لئے بہتر ہے اور اگر تو چاہے تو تیرے لئے دعا کر دوں۔ اس نے عرض کیا : (آقا) دعا فرما دیں۔ آپ ﷺ نے اسے اچھی طرح وضو کرنے اور دو رکعت نماز پڑھنے کا حکم دیا اور فرمایا : (نماز کے بعد) یہ دعا کرنا : {اَللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُکَ وَأَتَوَجَّهُ إِلَيْکَ بِمُحَمَّدٍ نَبِيِّ الرَّحْمَةِ، یَا مُحَمَّدُ، إِنِّي قَدْ تَوَجَّهْتُ بِکَ إِلَی رَبِّي فِي حَاجَتِي هَذِهِ لِتُقْضَی، اَللَّهُمَّ فَشَفِّعْهُ فِيَّ} ’’اے اللہ! میں نبیٔ رحمت (حضرت)محمد ﷺ کے وسیلے سے تجھ سے سوال کرتا ہوں اور تیری طرف توجہ کرتا ہوں۔ اے محمد(ﷺ)! میں آپ کے وسیلہ سے اپنے رب کی بارگاہ میں اپنی حاجت پیش کرتا ہوں کہ پوری ہو۔ اے اللہ! میرے حق میں سرکار کی شفاعت قبول فرما۔‘‘

اس حدیث کو امام ترمذی، نسائی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے اور یہ الفاظ ابن ماجہ کے ہیں۔ امام ابوعیسیٰ ترمذی کہتے ہیں کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

11۔ فَضْلُ صَلَاةِ التَّطَوُّعِ فِي الْبَيْتِ

{گھر میں نفلی نماز ادا کرنے کی فضیلت}

1۔ عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ رضی الله عنه أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ : صَلُّوْا أَیُّهَا النَّاسُ، فِي بُیُوْتِکُمْ فَإِنَّ أَفْضَلَ صَلَاةِ الْمَرْءِ فِي بَيْتِهِ إِلَّا الصَّلَاةَ الْمَکْتُوْبَةَ۔ مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ۔

1 : أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب : الاعتصام بالکتاب والسنۃ، باب : ما یکره من کثرۃ السؤال وتکلف ما لا یعنیه، 6 / 2658، الرقم : 6860، ومسلم في الصحیح، کتاب : صلاۃ المسافرین وقصرھا، باب : استحباب الصلاۃ النافلۃ في بیته وجوازھا في المسجد، 1 / 540، الرقم : 781، والنسائي في السنن، کتاب : قیام اللیل، باب : الحث علی الصلاۃ في البیوت والفضل في ذلک، 3 / 197، الرقم : 1599۔

’’حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اے لوگو! اپنے گھروں میں نماز پڑھا کرو، کیونکہ افضل یہ ہے کہ آدمی فرض نمازوں کے علاوہ باقی نمازیں گھر میں ادا کرے۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

2۔ عَنْ جَابِرٍ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : إِذَا قَضَی أَحَدُکُمُ الصَّلَاةَ فِي مَسْجِدِهِ فَلْیَجْعَلْ لِبَيْتِهِ نَصِيْبًا مِنْ صَلَاتِهِ فَإِنَّ اللهَ جَاعِلٌ فِي بَيْتِهِ مِنْ صَلَاتِهِ خَيْرًا۔

رَوَاهُ مُسْلِمٌ، وَعَبْدُ الرَّزَّاقِ، وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَأَحْمَدُ۔

2 : أخرجه مسلم في الصحیح، کتاب : صلاۃ المسافرین وقصرھا، باب : استحباب صلاۃ النافلۃ في بیته، 1 / 539، الرقم : 778، وعبد الرزاق في المصنف، 3 / 70، الرقم : 4837، وابن أبي شیبۃ في المصنف، 2 / 60، الرقم : 6450، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 315، الرقم : 14431۔

’’حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی شخص اپنی مسجد میں نماز پڑھ لے تو وہ اپنی نمازوں کا کچھ حصہ اپنے گھر پڑھنے کے لیے بھی رکھ لے کیونکہ اللہ تعالیٰ اس کی نمازوں کی وجہ سے اس کے گھر میں بہتری پیدا کر دے گا۔‘‘

اس حدیث کو امام مسلم، عبد الرزاق، ابن ابی شیبہ اور احمد بن حنبل نے بیان کیا ہے۔

3۔ عَنْ أَبِي مُوْسَی رضی الله عنه عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ : مَثَلُ الْبَيْتِ الَّذِي یُذْکَرُ اللهُ فِيْهِ وَالْبَيْتِ الَّذِي لَا یُذْکَرُ اللهُ فِيْهِ مَثَلُ الْحَيِّ وَالْمَيِّتِ۔ رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالْبَيْهَقِيُّ۔

3 : أخرجه مسلم في الصحیح، کتاب : صلاۃ المسافرین وقصرھا، باب : استحباب صلاۃ النافلۃ في بیته، 1 / 539، الرقم : 779، والبیهقي في شعب الإیمان، 1 / 401، الرقم : 536، وأبو یعلی في المسند، 13 / 291، الرقم : 7306، وابن حبان في الصحیح، 3 / 135، الرقم : 854۔

’’حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جس گھر میں اللہ تعالیٰ کا ذکر کیا جائے اور جس گھر میں اللہ تعالیٰ کا ذکر نہ کیا جائے ان کی مثال زندہ اور مردہ کی سی ہے۔‘‘

اس حدیث کو امام مسلم اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔

4۔ عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ سَعْدٍ رضی الله عنه قَالَ : سَأَلْتُ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ : أَیُّمَا أَفْضَلُ : اَلصَّلَاةُ فِي بَيْتِي أَوِ الصَّلَاةُ فِي الْمَسْجِدِ؟ قَالَ : أَلَا تَرَی إِلَی بَيْتِي مَا أَقْرَبَهُ مِنَ الْمَسْجِدِ فَـلَأَنْ أُصَلِّيَ فِي بَيْتِي أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ أُصَلِّيَ فِي الْمَسْجِدِ إِلَّا أَنْ تَکُوْنَ صَلَاةً مَکْتُوْبَةً۔ رَوَاهُ ابْنُ مَاجَه وأَحْمَدُ وَالْبَيْهقِيُّ۔

4 : أخرجه ابن ماجه في السنن، کتاب : إقامۃ الصلاۃ والسنۃ فیها، باب : ما جاء في التطوع في البیت، 1 / 439، الرقم : 1378، وأحمد بن حنبل في المسند، 4 / 342، الرقم : 19029، والبیهقي في السنن الکبری، 2 / 411، الرقم : 3934، والدیلمي في مسند الفردوس، 5م172، الرقم : 7864۔

’’حضرت عبد اللہ بن سعد رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے حضور نبی اکرم ﷺ سے پوچھا : گھر میں ادا کی گئی نماز افضل ہے یا مسجد میں؟ آپ ﷺ نے فرمایا : تم دیکھ نہیں رہے ہو کہ میرا گھر مسجد کے کتنا نزدیک ہے، اس کے باوجود فرض نماز کے علاوہ گھر میں نماز پڑھنا مسجد میں نماز پڑھنے سے مجھے زیادہ پسندیدہ ہے۔‘‘ اس حدیث کو امام ابن ماجہ، احمد اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔

Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved