ہدایۃ الامۃ علی منہاج القرآن والسنۃ - الجزء الاول

روزے اور قیام کی فضیلت کا بیان

فَصْلٌ فِي فَضْلِ الصِّیَامِ وَالْقِیَامِ

{روزے اور قیام کی فضیلت کا بیان}

اَلْآیَاتُ الْقُرْآنِيَّةُ

1۔ یٰٓاَیُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَيْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَo

(البقرۃ، 2 : 183)

’’اے ایمان والو! تم پر اسی طرح روزے فرض کیے گئے ہیں جیسے تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤo‘‘

2۔ شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِيْٓ اُنْزِلَ فِيْهِ الْقُرْاٰنُ هُدًی لِّلنَّاسِ وَ بَيِّنٰتٍ مِّنَ الْهُدٰی وَالْفُرْقَانِ ج فَمَنْ شَهِدَ مِنْکُمُ الشَّهْرَ فَلْیَصُمْهُ۔

(البقرۃ، 2 : 185)

’’رمضان کا مہینہ (وہ ہے) جس میں قرآن اتارا گیا ہے جو لوگوں کے لیے ہدایت ہے اور (جس میں) رہنمائی کرنے والی اور (حق و باطل میں) امتیاز کرنے والی واضح نشانیاں ہیں، پس تم میں سے جو کوئی اس مہینہ کو پالے تو وہ اس کے روزے ضرور رکھے۔‘‘

3۔ وَالَّذِيْنَ یَبِيْتُوْنَ لِرَبِّهِمْ سُجَّدًا وَّ قِیَامًاo

(الفرقان، 25 : 63)

’’اور (یہ) وہ لوگ ہیں جو اپنے رب کے لئے سجدہ ریزی اور قیامِ (نِیاز) میں راتیں بسر کرتے ہیںo‘‘

4۔ تَتَجَافٰی جُنُوْبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ یَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَّطَمَعًا۔

(السجدۃ، 32 : 16)

’’ان کے پہلو اُن کی خوابگاہوں سے جدا رہتے ہیں اور اپنے رب کو خوف اور امید (کی مِلی جُلی کیفیت) سے پکارتے ہیں۔‘‘

5۔ وَالصَّآئِمِيْنَ وَالصّٰئِمٰتِ وَالْحٰفِظِيْنَ فُرُوْجَھُمْ وَالْحٰفِظٰتِ وَالذّٰکِرِيْنَ اللهَ کَثِيْرًا وَّالذّٰکِرٰتِ اَعَدَّ اللهُ لَھُمْ مَّغْفِرَةً وَّ اَجْرًا عَظِيْمًاo

(الأحزاب، 33 : 35)

’’اور روزہ دار مرد اور روزہ دار عورتیں، اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے مرد اور حفاظت کرنے والی عورتیں، اور کثرت سے اللہ کا ذکر کرنے والے مرد اور ذکر کرنے والی عورتیں، اللہ نے اِن سب کے لیے بخشِش اور عظیم اجر تیار فرما رکھا ہےo‘‘

6۔ یٰـٓاَیُّھَا الْمُزَّمِّلُo قُمِ الَّيْلَ اِلاَّ قَلِيْلاًo نِّصْفَهٗٓ اَوِ انْقُصْ مِنْهُ قَلِيْلًاo اَوْزِدْ عَلَيْهِ وَرَتِّلِ الْقُرْاٰنَ تَرْتِيْلاًo اِنَّا سَنُلْقِيْ عَلَيْکَ قَوْلًا ثَقِيْلًاo اِنَّ نَاشِئَةَ الَّيْلِ هِیَ اَشَدُّ وَطْاً وَّاَقْوَمُ قِيْلًاo اِنَّ لَکَ فِی النَّهَارِ سَبْحًا طَوِيْلًاo

(المزمل، 73 : 1۔7)

’’اے کملی کی جھرمٹ والے(حبیب!)o آپ رات کو (نماز میں) قیام فرمایا کریں مگر تھوڑی دیر (کے لیے)o آدھی رات یا اِس سے تھوڑا کم کر دیںo یا اس پر کچھ زیادہ کر دیں اور قرآن خوب ٹھہر ٹھہر کر پڑھا کریںo ہم عنقریب آپ پر ایک بھاری فرمان نازل کریں گےo بے شک رات کا اُٹھنا (نفس کو) سخت پامال کرتا ہے اور (دِل و دِماغ کی یکسوئی کے ساتھ) زبان سے سیدھی بات نکالتا ہےo بے شک آپ کے لیے دن میں بہت سی مصروفیات ہوتی ہیںo‘‘

7۔ وَاذْکُرِ اسْمَ رَبِّکَ بُکْرَةً وَّاَصِيْلًاo وَمِنَ الَّيْلِ فَاسْجُدْ لَهٗ وَسَبِّحْهُ لَيْلًا طَوِيْلًاo

(الإنسان، 76 : 25، 26)

’’اور صبح و شام اپنے رب کے نام کا ذکر کیا کریںo اور رات کی کچھ گھڑیاں اس کے حضور سجدہ ریزی کیا کریں اور رات کے (بقیہ) طویل حصہ میں اس کی تسبیح کیا کریںo‘‘

اَلْأَحَادِيْثُ النَّبَوِيَّةُ

1۔ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه یَقُوْلُ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : قَالَ اللهُ : کُلُّ عَمَلِ ابْنِ آدَمَ لَهُ إِلَّا الصِّیَامَ، فَإِنَّهُ لِي وَأَنَا أَجْزِي بِهِ، وَالصِّیَامُ جُنَّةٌ، وَإِذَا کَانَ یَوْمُ صَوْمِ أَحَدِکُمْ فَـلَا یَرْفُثْ وَلَا یَصْخَبْ، فَإِنْ سَابَّهُ أَحَدٌ أَوْ قَاتَلَهُ فَلْیَقُلْ : إِنِّي امْرُؤٌ صَائِمٌ، وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِهِ، لَخُلُوْفُ فَمِ الصَّائِمِ أَطْیَبُ عِنْدَ اللهِ مِنْ رِيْحِ الْمِسْکِ۔ لِلصَّائِمِ فَرْحَتَانِ یَفْرَحُهُمَا : إِذَا أَفْطَرَ فَرِحَ، وَإِذَا لَقِيَ رَبَّهُ فَرِحَ بِصَوْمِهِ۔ مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ۔

1 : أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب : الصوم، باب : ھل یقول إني صائم إذا شتم، 2 / 673، الرقم : 1805، ومسلم في الصحیح، کتاب : الصیام، باب : فضل الصیام، 2 / 807، الرقم : 1151، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 323، الرقم : 7174، والبزار في المسند، 3 / 129، الرقم : 915، والنسائي في السنن الکبری، 2 / 90، الرقم : 2525۔

’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ابن آدم کا ہر عمل اُسی کے لیے ہے سوائے روزے کے، کیونکہ روزہ میرے لیے ہے اور اُس کی جزاء میں ہی دیتا ہوں۔ روزہ ڈھال ہے اور جس روز تم میں سے کوئی روزے سے ہو تو نہ فحش باتیں کرے اور نہ جھگڑے۔ اگر اُسے کوئی گالی دے یا لڑے تو کہہ دے کہ میں روزے سے ہوں۔ قسم ہے اُس ذات کی جس کے قبضے میں محمد مصطفی کی جان ہے! روزہ دار کے منہ کی بو اللہ تعالیٰ کو مشک کی خوشبو سے زیادہ پیاری ہے۔ روزہ دار کے لیے دو خوشیاں ہیں جن سے اُسے فرحت ہوتی ہے۔ افطار کرے تو خوش ہوتا ہے اور جب اپنے رب سے ملے گا تو روزے کے باعث خوش ہو گا۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

2۔ عَنْ سَهْلٍ رضی الله عنه عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ : إِنَّ فِي الْجَنَّةِ بَابًا یُقَالُ لَهُ الرَّيَّانُ، یَدْخُلُ مِنْهُ الصَّائِمُوْنَ یَوْمَ الْقِیَامَةِ، لَا یَدْخُلُ مِنْهُ أَحَدٌ غَيْرُهُمْ۔ یُقَالُ : أَيْنَ الصَّائِمُوْنَ؟ فَیَقُوْمُوْنَ لَا یَدْخُلُ مِنْهُ أَحَدٌ غَيْرُهُمْ۔ فَإِذَا دَخَلُوْا أُغْلِقَ، فَلَمْ یَدْخُلْ مِنْهُ أَحَدٌ۔ مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ۔

2 : أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب : الصوم، باب : الریان للصائمین، 2 / 671، الرقم : 1797، ومسلم في الصحیح، کتاب : الصیام، باب : فضل الصیام، 2 / 808، الرقم : 1152، والنسائي في السنن، کتاب : الصیام، باب : ذکر الاختلاف علی محمد بن أبي یعقوب في حدیث أبي أمامۃ في فضل الصائم، 4 / 168، الرقم : 2236، وابن ماجه في السنن، کتاب : الصیام، باب : ما جاء في فضل الصیام، 1 / 525، الرقم : 1640۔

’’حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جنت میں ایک دروازہ ہے جس کو رَيَّان کہا جاتا ہے۔ قیامت کے روز اُس سے روزہ دار داخل ہوں گے اور اُن کے سوا اُس سے کوئی داخل نہیں ہو گا۔ کہا جائے گا کہ روزہ دار کہاں ہیں؟ (اس دروازہ میں سے داخل ہونے کے لئے) روزہ دار کھڑے ہو جائیں گے۔ اس دروازہ میں ان کے علاوہ کوئی داخل نہیں ہو گا۔ جب وہ داخل ہو جائیں گے تو دروازہ بند کر دیا جائے گا اور کوئی دوسرا اُس سے داخل نہیں ہو گا۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

3۔ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه یَقُوْلُ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : إِذَا دَخَلَ شَهْرُ رَمَضَانَ فُتِّحَتْ أَبْوَابُ السَّمَاءِ، وَغُلِّقَتْ أَبْوَابُ جَهَنَّمَ، وَسُلْسِلَتْ الشَّیَاطِيْنُ۔ مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ۔

3 : أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب : الصوم، باب : ھل یقال رمضان أو شھر رمضان ومن رأی کله واسعا، 2 / 672، الرقم : 1800، ومسلم في الصحیح، کتاب : الصیام، باب : فضل شھر رمضان، 2 / 758، الرقم : 1079، والنسائي في السنن، کتاب : الصیام، باب : فضل شھر رمضان، 4 / 126، الرقم : 2097۔

’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب رمضان کا مہینہ آتا ہے تو آسمان کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں، جہنم کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں اور شیاطین کو زنجیروں سے جکڑ دیا جاتا ہے۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

4۔ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : إِذَا کَانَ أَوَّلُ لَيْلَةٍ مِنْ شَهْرِ رَمَضَانَ، صُفِّدَتِ الشَّیَاطِيْنُ، وَمَرَدَةُ الْجِنِّ، وَغُلِّقَتْ أَبْوَابُ النَّارِ، فَلَمْ یُفْتَحْ مِنْهَا بَابٌ، وَفُتِحَتْ أَبْوَابُ الْجَنَّةِ، فَلَمْ یُغْلَقْ مِنْهَا بَابٌ، وَیُنَادِي مُنَادٍ یَا بَاغِيَ الْخَيْرِ، أَقْبِلْ، وَیَا بَاغِيَ الشَّرِّ، أَقْصِرْ، وَلِلّٰهِ عُتَقَاءُ مِنَ النَّارِ، وَذَلِکَ کُلَّ لَيْلَةٍ۔

رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ، وَابْنُ مَاجَه۔

4 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : الصوم، باب : ما جاء في فضل شھر رمضان، 3 / 66، الرقم : 682، وابن ماجه في السنن، کتاب : الصیام، باب : ما جاء في فضل شھر رمضان، 1 / 526، الرقم : 1642، وابن حبان في الصحیح، 8 / 221، الرقم : 3435۔

’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جب ماہ رمضان کی پہلی رات ہوتی ہے شیطانوں اور سرکش جنوں کو بیڑیاں پہنا دی جاتی ہیں اور جہنم کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں اور ان میں سے کوئی دروازہ کھولا نہیں جاتا، جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں پس ان میں سے کوئی بند نہیں کیا جاتا۔ ایک منادی پکارتا ہے : اے طالب خیر! آگے آ، اے شر کے متلاشی! رک جا، اور اللہ تعالیٰ کئی لوگوں کو جہنم سے آزاد کر دیتا ہے۔ ماہ رمضان کی ہر رات یونہی ہوتا رہتا ہے۔‘‘

اس حدیث کو امام ترمذی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔

5۔ عَنْ أَبِي أُمَامَةَ قَالَ : قُلْتُ : یَا رَسُوْلَ اللهِ، مُرْنِي بِعَمَلٍ۔ قَالَ : عَلَيْکَ بِالصَّوْمِ فَإِنَّهُ لَا عِدْلَ لَهُ۔ قُلْتُ : یَا رَسُوْلَ اللهِ، مُرْنِي بِعَمَلٍ۔ قَالَ : عَلَيْکَ بِالصَّوْمِ فَإِنَّهُ لَا عِدْلَ لَهُ۔ رَوَاهُ النَّسَائِيُّ، وَعَبْدُ الرَّزَّاقِ، وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَأَحْمَدُ۔

5 : أخرجه النسائي في السنن، کتاب : الصیام، باب : في فضل الصیام، 4 / 165، الرقم : 2223، وعبد الرزاق في المصنف، 4 / 308، الرقم : 7899، وابن أبي شیبۃ في المصنف، 2 / 273، الرقم : 8895، وأحمد بن حنبل في المسند، 5 / 249، الرقم : 22203، والطبراني في المعجم الکبیر، 8 / 91، الرقم : 7464، والحاکم في المستدرک، 1 / 582، الرقم : 1533۔

’’حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ! مجھے کسی عمل کے کرنے کا حکم فرمائیے۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا : روزہ ! اس کے برابر کوئی دوسرا عمل نہیں۔ میں نے دوبارہ عرض کیا : یا رسول اللہ! مجھے کسی عمل کے کرنے کا حکم فرمائیے۔ آپ ﷺ نے فرمایا : روزہ رکھو، اس کے برابر کوئی دوسرا عمل نہیں ہے۔‘‘ اس حدیث کو امام نسائی، عبدالرزاق، ابن ابی شیبہ اور احمد نے روایت کیا ہے۔

6۔ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ رضی الله عنه : أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ ذَکَرَ رَمَضَانَ یُفَضِّلُهُ عَلَی الشُّهُوْرِ فَقَالَ : مَنْ قَامَ رَمَضَانَ إِيْمَانًا وَاحْتِسَابًا خَرَجَ مِنْ ذُنُوْبِهِ کَیَوْمٍ وَلَدَتْهُ أُمُّهُ۔ رَوَاهُ النَّسَائِيُّ، وَابْنُ مَاجَه، وَالْبَيْهَقِيُّ۔

6 : أخرجه النسائي في السنن، کتاب : الصیام، باب : ذکر اختلاف یحیی بن أبي کثیر والنضر بن شیبان، 4 / 158، الرقم : 2208، وابن ماجه في السنن، کتاب : إقامۃ الصلاۃ والسنۃ فیها، باب : ما جاء في قیام شهر رمضان، 1 / 421، الرقم : 1328، والبیهقي في شعب الإیمان، 3 / 314، الرقم : 3635، وابن خزیمۃ في الصحیح، 3 / 335، الرقم : 2201۔

’’حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے رمضان کی دوسرے مہینوں پر فضلیت بیان کرتے ہوئے فرمایا : جو شخص رمضان المبارک میں ایمان و اخلاص کے ساتھ قیام کرتا ہے وہ اپنے گناہوں سے اس طرح پاک ہو جاتا ہے جس طرح آج ہی اس کی ماں نے اسے جنا ہو۔‘‘

اس حدیث کو امام نسائی، ابن ماجہ، اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔

7۔ عَنْ أَبِي أُمَامَةَ رضی الله عنه عَنْ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ أَنَّهُ قَالَ : عَلَيْکُمْ بِقِیَامِ الَّليْلِ، فَإِنَّهُ دَأْبُ الصَّالِحِيْنَ قَبْلَکُمْ، وَھُوَ قُرْبَةٌ إِلَی رَبِّکُمْ، وَمَکْفَرَةٌ لِلسَّيِّئَاتِ، وَمَنْھَاةٌ لِلْإِثْمِ۔

رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالْحَاکِمُ، وَقَالَ أَبُوْعِيْسَی : هَذَا حَدِيْثٌ أَصَحُّ، وَقَالَ الْحَاکِمُ : هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ۔

7 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : الدعوات، باب : في دعاء النبي ﷺ ، 5 / 552، الرقم : 3549، والحاکم في المستدرک، 1 / 451، الرقم : 1156، والبیهقي في السنن الکبری، 2 / 502، الرقم : 4423، والطبراني في المعجم الکبیر، 8 / 92، الرقم : 7766۔

’’حضرت ابو اُمامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : رات کا قیام اپنے اوپر لازم کر لو کہ وہ تم سے پہلے کے نیک لوگوں کا طریقہ ہے اور تمہارے لیے قربِ خداوندی کا باعث ہے، برائیوں کو مٹانے والا اور گناہوں سے روکنے والا ہے۔‘‘

اس حدیث کو امام ترمذی اور حاکم نے روایت کیا ہے ۔ امام ترمذی اور امام حاکم نے کہا ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے۔

8۔ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : لِکُلِّ شَيْئٍ زَکَاةٌ وَزَکَاةُ الْجَسَدِ الصَّوْمُ۔ زَادَ مُحْرِزٌ فِي حَدِيْثِهِ : وَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : اَلصِّیَامُ نِصْفُ الصَّبْرِ۔ رَوَاهُ ابْنُ مَاجَه، وَالطَّبَرَانِيُّ۔

8 : أخرجه ابن ماجه في السنن، کتاب : الصیام، باب : في الصوم زکاۃ الجسد، 1 / 555، الرقم : 1745، والطبراني في المعجم الکبیر، 6 / 193، الرقم : 5973، وعبد بن حمید في المسند، 1 / 423، الرقم : 1449، وأبو نعیم في حلیۃ الأولیاء، 7 / 136، والبیهقي في شعب الإیمان، 3 / 292، الرقم : 3578۔

’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا : ہر چیز کی کوئی نہ کوئی زکوٰۃ ہے اور جسم کی زکوٰۃ روزہ ہے اور روزہ آدھا صبر ہے۔‘‘

اس حدیث کو امام ابن ماجہ اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔

9۔ عَنْ عُثْمَانَ بْنِ أَبِي الْعَاصِ رضی الله عنه قَالَ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ یَقُوْلُ : اَلصِّیَامُ جُنَّةٌ مِنَ النَّارِ کَجُنَّةِ أَحَدِکُمْ مِنَ الْقِتَالِ، قَالَ : وَصِیَامٌ حَسَنٌ صِیَامُ ثَـلَاثَةِ أَيَّامٍ مِنْ کُلِّ شَھْرٍ۔ رَوَاهُ ابْنُ مَاجَه، وَالنَّسَائِيُّ، وَابْنُ خُزَيْمَةَ وَاللَّفْظُ لَهُ۔

9 : أخرجه ابن ماجه في السنن، کتاب : الصیام، باب : ما جاء في فضل الصیام، 1 / 525، الرقم : 1639، والنسائي في السنن، کتاب : الصیام، باب : ذکر الاختلاف علی محمد بن أبي یعقوب في حدیث أبي أمامۃ في فضل الصائم، 4 / 167، الرقم : 2231، والطبراني في المعجم الکبیر، 9 / 51، الرقم : 8360، وابن خزیمۃ في الصحیح، 3 / 193، الرقم : 1891۔

’’حضرت عثمان ابن ابی العاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : جیسے تم میدانِ جنگ میں (دشمن سے بچاؤ کے لیے) ڈھال استعمال کرتے ہو ایسے ہی روزہ دوزخ سے (بچاؤ کے لیے) ڈھال ہے۔ بہتر (طریقہ) ہر ماہ تین دن روزہ رکھنا ہے۔‘‘

اس حدیث کو امام ابن ماجہ، نسائی اور ابن خزیمہ نے روایت کیا ہے، مذکورہ الفاظ ابن خزیمہ کے ہیں۔

10۔ عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو رضي الله عنهما : أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ : اَلصِّیَامُ وَالْقُرْآنُ یَشْفَعَانِ لِلْعَبْدِ یَوْمَ الْقِیَامَةِ، یَقُوْلُ الصِّیَامُ : أَيْ رَبِّ، مَنَعْتُهُ الطَّعَامَ وَالشَّھَوَاتِ بِالنَّھَارِ فَشَفِّعْنِي فِيْهِ، وَیَقُوْلُ الْقُرْآنُ : مَنَعْتُهُ النَّوْمَ بِاللَّيْلِ فَشَفِّعْنِي فِيْهِ۔ قَالَ : فَیُشَفَّعَانِ۔ رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالطَّبَرَانِيُّ وَالْحَاکِمُ، وَقَالَ : صَحِيْحٌ عَلَی شَرْطِ مُسْلِمٍ۔

10 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 2 / 174، الرقم : 6626، والحاکم في المستدرک، 1 / 740، الرقم : 2036، والبیهقي في شعب الإیمان، 2 / 346، الرقم : 1994، وابن المبارک في المسند، 1 / 59، الرقم : 96، والدیلمي في مسند الفردوس، 2 / 408، الرقم : 3815۔

’’حضرت عبد اللہ بن عمر رضي الله عنهما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : روزہ اور قرآن بندے کے لیے قیامت کے دن سفارش کریں گے۔ روزہ کہے گا : اے میرے رب! میں نے اسے کھانے اور خواہش نفس سے روکا لهٰذا اس کے لیے میری سفارش قبول کر اورقرآن کہے گا : اے میرے رب! میں نے اسے رات کے وقت نیند سے روکا (اور قیام اللیل میں مجھے پڑھتا یا سنتا رہا) لهٰذا اس کے متعلق میری سفارش قبول کر۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : دونوں کی سفارش قبول کر لی جائے گی۔‘‘

اس حدیث کو امام احمد، طبرانی، حاکم نے روایت کیا ہے، نیز آپ نے اسے مسلم کی شرط کے مطابق صحیح قرار دیا ہے۔

11۔ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ رضی الله عنه : أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ : أُعْطِیَتْ أُمَّتِي فِي شَھْرِ رَمَضَانَ خَمْسًا لَمْ یُعْطَھُنَّ نَبِيٌّ قَبْلِي : أَمَّا وَاحِدَةٌ فَإِنَّهُ إِذَا کَانَ أَوَّلُ لَيْلَةٍ مِنْ شَھْرِ رَمَضَانَ نَظَرَ اللهُ عزوجل إِلَيْھِمْ وَمَنْ نَظَرَ اللهُ إِلَيْهِ لَمْ یُعَذِّبْهُ أَبَدًا۔ وَأَمَّا الثَّانِیَةُ فَإِنَّ خُلُوْفَ أَفْوَاھِھِمْ حِيْنَ یُمْسُوْنَ أَطْیَبُ عِنْدَ اللهِ مِنْ رِيْحِ الْمِسْکِ۔ وَأَمَّا الثَّالِثَهُ فَإِنَّ الْمَلاَئِکَةَ تَسْتَغْفِرُ لَھُمْ فِي کُلِّ یَوْمٍ وَلَيْلَةٍ۔ وَأَمَّا الرَّابِعَةُ فَإِنَّ اللهَ عزوجل یَأْمُرُ جَنَّتَهُ فَیَقُوْلُ لَھَا : اسْتَعِدِّي وَتَزَيَّنِي لِعِبَادِي أَوْشَکُوْا أَنْ یَسْتَرِيْحُوْا مِنْ تَعَبِ الدُّنْیَا إِلَی دَارِي وَکَرَامَتِي۔ وَأَمَّا الْخَامِسَةُ فَإِنَّهُ إِذَا کَانَ آخِرُ لَيْلَةٍ غُفِرَ لَھُمْ جَمِيْعًا۔ فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ : أَھِيَ لَيْلَةُ الْقَدْرِ؟ فَقَالَ : لَا، أَلَمْ تَرَ إِلَی الْعُمَّالِ یَعْمَلُوْنَ فَإِذَا فَرَغُوْا مِنْ أَعْمَالِھِمْ وُفُّوْا أُجُوْرَھُمْ؟ رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ۔

11 : أخرجه البیھقي في شعب الإیمان، 3 / 303، الرقم : 3603، والمنذري في الترغیب والترهیب، 2 / 56، الرقم : 1477۔

’’حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میری امت کو ماہ رمضان میں پانچ تحفے ملے ہیں جو اس سے پہلے کسی نبی کو نہیں ملے۔ پہلا یہ ہے کہ جب رمضان کی پہلی رات ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ ان کی طرف نظر التفات فرماتا ہے اور جس پر اس کی نظر پڑجائے اسے کبھی عذاب نہیں دے گا۔ دوسرا یہ ہے کہ شام کے وقت ان کے منہ کی بو اللہ تعالیٰ کو کستوری کی خوشبو سے بھی زیادہ اچھی لگتی ہے۔ تیسرا یہ ہے کہ فرشتے ہر دن اور ہر رات ان کے لیے بخشش کی دعا کرتے رہتے ہیں۔ چوتھا یہ ہے کہ اللہ عزوجل اپنی جنت کو حکم دیتاہے کہ میرے بندوں کے لیے تیاری کرلے اور مزین ہو جا، تاکہ وہ دنیا کی تھکاوٹ سے میرے گھر اور میرے دارِ رحمت میں پہنچ کر آرام حاصل کریں۔ پانچواں یہ ہے کہ جب (رمضان کی) آخری رات ہوتی ہے ان سب کو بخش دیا جاتا ہے۔ ایک صحابی نے عرض کیا : کیا یہ شبِ قدر ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا : نہیں۔ کیا تم جانتے نہیں ہو کہ جب مزدور کام سے فارغ ہو جاتے ہیں تو انہیں مزدوری دے دی جاتی ہے؟‘‘ اس حدیث کو امام بیہقی نے روایت کیا ہے۔

اَلْآثَارُ وَالْأَقْوَالُ

1۔ عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ أَبِي قَيْسٍ یَقُوْلُ : قَالَتْ عَائِشَةُ رضي الله عنها : لَا تَدَعْ قِیَامَ اللَّيْلِ فَإِنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ کَانَ لَا یَدَعُهُ، وَکَانَ إِذَا مَرِضَ أَوْ کَسِلَ صَلَّی قَاعِدًا۔ رَوَاهُ أَبُوْ دَاوُدَ وَأَحْمَدُ۔

1 : أخرجه أبو داود في السنن، کتاب : الصلاۃ، باب : قیام اللیل، 2 / 32، الرقم : 1307، وأحمد بن حنبل في المسند، 6 / 249، الرقم : 26157، والحاکم في المستدرک، 1 / 452، الرقم : 1158، والبیهقي في السنن الکبری، 3 / 14، الرقم : 4498، والطیالسي في المسند، 1 / 214، الرقم : 1519، وابن خزیمۃ في الصحیح، 2 / 177، الرقم : 1137، والبخاري في الأدب المفرد، 1 / 279، الرقم : 800۔

’’حضرت عبد اللہ بن ابی قیس کا بیان ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے مجھے نصیحت کی کہ قیام اللیل نہ چھوڑنا، کیونکہ حضور نبی اکرم ﷺ اسے نہیں چھوڑا کرتے تھے۔ جب آپ ﷺ بیمار ہو جاتے یا کمزور ہو جاتے تو (نماز)بیٹھ کر پڑھ لیتے۔‘‘ اس حدیث کو امام ابو داود اور احمد بن حنبل نے روایت کیا ہے۔

2۔ قال أبو بکر بن حفص رَحِمَهُ الله : ذکر لي أن أبا بکر کان یصوم الصیف ویفطر الشتاء۔

2 : أخرجه أحمد بن حنبل في الزهد : 167۔

’’حضرت ابو بکر بن حفص رَحِمَهُ اللہ بیان کرتے ہیں کہ مجھے بتایا گیا کہ حضرت ابو بکر گرمیوں میں روزے سے ہوتے اور سردیوں میں افطار کرتے۔‘‘

3۔ قال ربیع بن خراش رَحِمَهُ الله : الجوع یصفي الفؤاد ویمیت الهوی ویورث العلم۔

3 : أخرجه الشعراني في الطبقات الکبری : 67۔

’’حضرت ربیع بن خراش رَحِمَهُ اللہ نے فرمایا کہ بھوک دل کو صاف، خواہش نفس کو تباہ کرتی ہے اور علم کا وارث بناتی ہے۔‘‘

4۔ قال سهل بن عبد الله التستري رحمه الله لأصحابه : ما دامت النفس تطلب منکم المعصیۃ فأدبوها بالجوع والعطش، فإذا لم ترد منکم المعصیۃ فأطعموها ما شاء ت، واترکوها تنام من اللیل ما أحبت۔

4 : أخرجه الشعراني في الطبقات الکبری : 119۔

’’حضرت سہل بن عبد اللہ تستری رَحِمَهُ اللہ اپنے خدام سے فرماتے : جب تک تمہارا نفس گناہ طلب کرتا ہے اسے بھوک اور پیاس کے ساتھ سزا دو جب تم سے گناہ کی طلب نہ کرے تو جو چاہے اسے کھلاؤ اور اسے رات کو جب تک چاہے سویا رہنے دو۔‘‘

5۔ قال سفیان رحمه الله : إیاکم والبطنۃ، فإنها تُقسي القلب، واکظموا العلم، ولا تکثروا الضحک، فتمجه القلوب۔

5 : أخرجه ابن المبارک في الزهد : 114، وأبو نعیم في حلیۃ الأولیاء، 7 / 36۔

’’حضرت سفیان ثوری رَحِمَهُ اللہ نے فرمایا : کثرتِ طعام سے بچو کہ یہ دل میں سختی پیدا کرتا ہے اور علم سے اپنے آپ کو سیراب کرو، اور کثرت سے نہ ہنسو کہ دلوں کو ناگزیر لگنے لگے۔‘‘

Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved