ہدایۃ الامۃ علی منہاج القرآن والسنۃ - الجزء الاول

مسجد میں نیکی اور نماز کی نیت سے بیٹھنے کے اجر کا بیان

فَصْلٌ فِي أَجْرِ مَنْ لَزِمَ الْمَسْجِدَ وَجَلَسَ فِيْهِ لِلْخَيْرِ وَالصَّلَاةِ

{مسجد میں نیکی اور نماز کی نیت سے بیٹھنے کا اَجر}

اَلْآیَاتُ الْقُرْآنِيَّةُ

1۔ وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ مَّنَعَ مَسٰجِدَ اللهِ اَنْ یُّذْکَرَ فِيْهَا اسْمُهٗ وَسَعٰی فِيْ خَرَابِهَا ط اُولٰٓئِکَ مَا کَانَ لَهُمْ اَنْ يَّدْخُلُوْهَآ اِلَّا خَآئِفِيْنَ ط لَهُمْ فِی الدُّنْیَا خِزْیٌ وَّلَهُمْ فِی الْاٰخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيْمٌo

(البقرۃ، 2 : 114)

’’اور اس شخص سے بڑھ کر کون ظالم ہو گا جو اللہ کی مسجدوں میں اس کے نام کا ذکر کیے جانے سے روک دے اور انہیں ویران کرنے کی کوشش کرے، انہیں ایسا کرنا مناسب نہ تھا کہ مسجدوں میں داخل ہوتے مگر ڈرتے ہوئے، ان کے لیے دنیا میں (بھی) ذلّت ہے اور ان کے لیے آخرت میں (بھی) بڑا عذاب ہےo‘‘

2۔ فِيْ بُیُوْتٍ اَذِنَ اللهُ اَنْ تُرْفَعَ وَیُذْکَرَ فِيْهَا اسْمُهٗ لا یُسَبِّحُ لَهٗ فِيْهَا بِالْغُدُوِّ وَالْاٰصَالِo

(النور، 24 : 36۔37)

’’(اللہ کا یہ نور) ایسے گھروں (مساجد اور مراکز) میں (میسر آتا ہے) جن (کی قدر و منزلت) کے بلند کیے جانے اور جن میں اللہ کے نام کا ذکر کیے جانے کا حکم اللہ نے دیا ہے (یہ وہ گھر ہیں کہ اللہ والے) ان میں صبح و شام اس کی تسبیح کرتے ہیںo‘‘

3۔ اِنَّمَا یَعْمُرُ مَسٰجِدَ اللهِ مَنْ اٰمَنَ بِاللهِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَاَقَامَ الصَّلٰوةَ وَاٰتَی الزَّکٰوةَ وَلَمْ یَخْشَ اِلَّا اللهَ قف فَعَسٰٓی اُولٰٓئِکَ اَنْ يَّکُوْنُوْا مِنَ الْمُهْتَدِيْنَo

(التوبۃ، 9 : 18)

’’اللہ کی مسجدیں صرف وہی آباد کر سکتا ہے جو اللہ پر اور یومِ آخرت پر ایمان لایا اور اس نے نماز قائم کی اور زکوٰۃ ادا کی اور اللہ کے سوا (کسی سے) نہ ڈرا۔ سو امید ہے کہ یہی لوگ ہدایت پانے والوں میں ہو جائیں گےo‘‘

اَلْأَحَادِيْثُ النَّبَوِيَّةُ

1۔ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ : سَبْعَةٌ یُظِلُّهُمُ اللهُ فِي ظِلِّهِ، یَوْمَ لَا ظِلَّ إِلَّا ظِلُّهُ : اَلْإِمَامُ الْعَادِلُ، وَشَابٌّ نَشَأَ فِي عِبَادَةِ رَبِّهِ، وَرَجُلٌ قَلْبُهُ مُعَلَّقٌ فِي الْمَسَاجِدِ، وَرَجُلَانِ تَحَابَّا فِي اللهِ اجْتَمَعَا عَلَيْهِ وَتَفَرَّقَا عَلَيْهِ، وَرَجُلٌ طَلَبَتْهُ امْرَأَةٌ ذَاتُ مَنْصِبٍ وَجَمَالٍ فَقَالَ : إِنِّي أَخَافُ اللهَ، وَرَجُلٌ تَصَدَّقَ، أَخْفَی حَتَّی لَا تَعْلَمَ شِمَالُهُ مَا تُنْفِقُ یَمِيْنُهُ، وَرَجُلٌ ذَکَرَ اللهَ خَالِیًا، فَفَاضَتْ عَيْنَاهُ۔ مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ۔

1 : أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب : الجماعۃ والإمامۃ، باب : من جلس في المسجد ینتطر الصلاۃ وفضل المساجد، 1 / 234، الرقم : 629، ومسلم في الصحیح، کتاب : الزکاۃ، باب : فضل إخفاء الصدقۃ، 2 / 715، الرقم : 1031، والترمذي في السنن، کتاب : الزهد، باب : ما جاء في الحب في الله، 4 / 598، الرقم : 2391۔

’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : سات آدمی ایسے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ اپنے سایہ رحمت میں جگہ دے گا، جس روز کہ اس کے سائے کے سوا کوئی سایہ نہ ہو گا : عادل حاکم، وہ نوجوان جو اپنے رب کی عبادت میں پروان چڑھا، وہ آدمی جس کا دل مسجد میں لٹکا رہتا ہے، وہ دو آدمی جو اللہ سے محبت کے باعث اکٹھے ہوں اور اسی سبب سے جدا ہوں، وہ آدمی جس کو حیثیت اور جمال والی عورت بلائے(مراد برائی کی دعوت دے) مگر وہ کہہ دے کہ میں اللہ سے ڈرتا ہوں، وہ آدمی جو چھپا کر خیرات کرے، یہاں تک کہ اس کے بائیں ہاتھ کو معلوم نہ ہو کہ دائیں ہاتھ نے کیا خرچ کیا اور وہ آدمی جو خلوت میں اللہ کا ذکر کرے تو اس کی آنکھیں بہنے لگیں۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

2۔ عَنْ حُمَيْدٍ قَالَ : سُئِلَ أَنَسُ بْنُ مَالِکٍ : هَلِ اتَّخَذَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ خَاتَمًا؟ فَقَالَ : نَعَمْ أَخَّرَ لَيْلَةً صَلَاةَ الْعِشَاءِ إِلَی شَطْرِ اللَّيْلِ، ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَيْنَا بِوَجْهِهِ بَعْدَ مَا صَلَّی۔ فَقَالَ : صَلَّی النَّاسُ وَرَقَدُوْا، وَلَمْ تَزَالُوْا فِي صَلَاةٍ مُنْذُ انْتَظَرْتُمُوْهَا۔ قَالَ : فَکَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَی وَبِيْصِ خَاتَمِهِ۔ مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ۔

2 : أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب : الجماعۃ والإمامۃ، باب : من جلس في المسجد ینتظر الصلاۃ وفضل المساجد، 1 / 235، الرقم : 630، وکتاب : اللباس، باب : فص الخاتم، 5 / 2203، الرقم : 5531، ومسلم في الصحیح، کتاب : المساجد ومواضع الصلاۃ، باب : وقت العشاء وتأخیرها، 1 / 443، الرقم : 640، والنسائي في السنن، کتاب : المواقیت، باب : آخر وقت العشائ، 1 / 268، الرقم : 539۔

’’حمید سے روایت ہے کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا : کیا رسول اللہ ﷺ نے انگوٹھی پہنی تھی؟ فرمایا : ہاں۔ ایک دفعہ آپ ﷺ نے نصف رات تک نماز عشاء میں تاخیر کر دی۔ پھر نماز پڑھنے کے بعد ہماری جانب متوجہ ہو کر فرمایا : لوگ نماز پڑھ کر سو گئے اور تم اسی وقت سے نماز میں ہو جب سے اس کا انتظار کر رہے ہو۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ گویا میں آپ ﷺ کی انگوٹھی کی چمک کو دیکھ رہا ہوں۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

3۔ عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ رضی الله عنه أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ کَانَ إِذَا صَلَّی الْفَجْرَ جَلَسَ فِي مُصَلَّاهُ حَتَّی تَطْلُعَ الشَّمْسُ حَسَنًا۔ رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَأَحْمَدُ۔

3 : أخرجه مسلم في الصحیح، کتاب : المساجد ومواضع الصلاۃ، باب : فضل الجلوس في مصلاه بعد الصبح وفضل المساجد، 1 / 464، الرقم : 670، والنسائي في السنن، کتاب : الصلاۃ، باب : قعود الإمام في مصلاه بعد التسلیم، 3 / 80، الرقم : 1357، وفي السنن الکبری، 6 / 51، الرقم : 9998، وابن أبي شیبۃ في المصنف، 5 / 309، الرقم : 26384۔

’’حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ صبح کی نماز پڑھنے کے بعد اپنے مصلیٰ پر بیٹھے رہتے حتیٰ کہ سورج اچھی طرح نکل آتا۔‘‘

اس حدیث کو امام مسلم، ابن ابی شیبہ اور احمد نے روایت کیا ہے۔

4۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : أَتَانِي اللَّيْلَةَ رَبِّي تَبَارَکَ وَتَعَالَی فِي أَحْسَنِ صُوْرَةٍ، قَالَ : أَحْسَبُهُ قَالَ : فِي الْمَنَامِ، فَقَالَ : یَا مُحَمَّدُ، هَلْ تَدْرِي فِيْمَ یَخْتَصِمُ الْمَلَأُ الْأَعْلَی؟ قَالَ : قُلْتُ : لَا۔ قَالَ : فَوَضَعَ یَدَهُ بَيْنَ کَتِفَيَّ حَتَّی وَجَدْتُ بَرْدَهَا بَيْنَ ثَدْیَيَّ، أَوْ قَالَ : فِي نَحْرِي، فَعَلِمْتُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ۔ قَالَ : یَا مُحَمَّدُ، هَلْ تَدْرِي فِيْمَ یَخْتَصِمُ الْمَلَأُ الْأَعْلَی؟ قُلْتُ : نَعَمْ۔ قَالَ : فِي الْکَفَّارَاتِ۔ وَالْکَفَّارَاتُ : الْمُکْثُ فِي الْمَسَاجِدِ بَعْدَ الصَّلَوَاتِ، وَالْمَشْيُ عَلَی الْأَقْدَامِ إِلَی الْجَمَاعَاتِ، وَإِسْبَاغُ الْوُضُوْءِ فِي الْمَکَارِهِ، وَمَنْ فَعَلَ ذَلِکَ، عَاشَ بِخَيْرٍ، وَمَاتَ بِخَيْرٍ وَکَانَ مِنْ خَطِيْئَتِهِ کَیَوْمِ وَلَدَتْهُ أُمُّهُ۔

رَوَاھُ التِّرْمِذِيُّ، وَأَحْمَدُ، وَالدَّارِمِيُّ۔

4 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : تفسیر القرآن، باب : ومن سورۃ رضی الله عنه، 5 / 366، الرقم : 3233، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 / 368، الرقم : 3484، وأیضاً، 5 / 233، الرقم : 22162، والدارمي في السنن، 2 / 170، الرقم : 2149، وأبو یعلی في المسند، 4 / 475، الرقم : 2608، والطبراني في المعجم الأوسط، 5 / 342، الرقم : 5496، وفي مسند الشامیین، 1 / 340، الرقم : 597۔

’’حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : آج رات میرا پروردگار میرے پاس نہایت اچھی صورت میں آیا۔ راوی فرماتے ہیں : میرا خیال ہے آپ ﷺ نے فرمایا : خواب میں آیا اور پوچھا : اے محمد (ﷺ)! جانتے ہو، مقربین فرشتے کس بات میں جھگڑ رہے ہیں؟ میں نے عرض کیا : میں نہیں جانتا۔ حضور نبی اکرم ﷺ فرماتے ہیں : پھر اللہ تعالیٰ نے اپنا دستِ قدرت میرے دونوں کاندھوں کے درمیان رکھا جس کی ٹھنڈک میں نے اپنے سینے میں پائی اور میں نے زمین و آسمان میں جو کچھ ہے سب جان لیا۔ اللہ تعالیٰ نے پھر پوچھا : اے محمد (ﷺ)! جانتے ہو، بلند و بالا فرشتے کس بات میں جھگڑتے ہیں؟ میں نے عرض کیا : ہاں رب جانتا ہوں کفارات کے بارے میں جھگڑ رہے ہیں اور کفارات یہ ہیں، نماز کے بعد مسجد میں ٹھہرنا۔ مساجد کی طرف پیدل چل کر جانا اور مشقت کے وقت کامل وضو کرنا۔ جس نے ایسا کیا وہ بھلائی کے ساتھ زندہ رہا اور اسے بھلائی پر ہی موت آئی وہ گناہوں سے ایسے پاک ہو گا جیسے پیدائش کے وقت تھا۔‘‘

اس حدیث کو امام ترمذی، دارمی اور احمد نے روایت کیا ہے۔

5۔ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : مَنْ صَلَّی الْغَدَاةَ فِي جَمَاعَةٍ، ثُمَّ قَعَدَ یَذْکُرُ اللهَ حَتَّی تَطْلُعَ الشَّمْسُ، ثُمَّ صَلَّی رَکْعَتَيْنِ : کَانَتْ لَهُ کَأَجْرِ حَجَّةٍ وَعُمْرَةٍ، قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : تَامَّةٍ تَامَّةٍ تَامَّةٍ۔

رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالطَّبَرَانِيُّ وَالْبَيْهَقِيُّ، وَقَالَ أَبُوْ عِيْسَی : ھَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ۔

5 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : الجمعۃ، باب : ذکر ما یستحب من الجلوس في المسجد بعد صلاۃ الصبح حتی تطلع الشمس، 2 / 481، الرقم : 586، والطبراني في مسند الشامیین، 2 / 42، الرقم : 885، والبیهقي في شعب الإیمان، 7 / 138، الرقم : 9762۔

’’حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جو شخص صبح کی نماز با جماعت پڑھ کر طلوعِ آفتاب تک بیٹھا، اللہ کا ذکر کرتا رہا، پھر دو رکعت نماز (اشراق) ادا کی اس کے لیے کامل (و مقبول) حج اور عمرہ کا ثواب ہے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے لفظ تامۃ ’’ کامل‘‘ تین مرتبہ فرمایا۔‘‘

اس حدیث کو امام ترمذی ، طبرانی اور بیہقی نے روایت کیا ہے ۔ امام ترمذی نے کہا ہے کہ یہ حدیث حسن ہے۔

6۔ عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : إِذَا رَأَيْتُمُ الرَّجُلَ یَعْتَادُ الْمَسْجِدَ، فَاشْهَدُوْا لَهُ بِالْإِيْمَانِ۔ قَالَ اللهُ تَعَالَی : {إِنَّمَا یَعْمُرُ مَسَاجِدَ اللهِ مَنْ آمَنَ بِاللهِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ} [التوبۃ، 9، 18]۔

رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَقَالَ : حَدِيْثٌ حَسَنٌ وَابْنُ مَاجَه وَابْنُ خُزَيْمَةَ وَابْنُ حِبَّانَ وَالْحَاکِمُ وَقَالَ : صَحِيْحُ الإِسْنَادِ

6 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : تفسیر القرآن، باب : ومن سورۃ التوبۃ، 5 / 277، الرقم : 3093، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 68، الرقم : 11669، والدارمي في السنن، 1 / 302، الرقم : 1223، وابن حبان في الصحیح، 5 / 6، الرقم : 1721، والحاکم في المستدرک، 1 / 332، الرقم : 770۔

’’حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اکرم ﷺ نے فرمایا : جب کسی شخص کو دیکھو کہ اسے مسجد میں آنے جانے کی عادت ہے تو اس کے ایمان کی گواہی دو۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : {اللہ کی مسجدیں صرف وہی آباد کر سکتا ہے جو اللہ پر اور یومِ آخرت پر ایمان لایا}۔

اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے اور فرمایا ہے کہ یہ حدیث حسن ہے، اس کے علاوہ اس حدیث کو امام ابن ماجہ، ابن خزیمہ اور ابن حبان اور حاکم نے روایت کیا، اور امام حاکم نے فرمایا : یہ حدیث صحیح الاسناد ہے۔

7۔ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ : مَا تَوَطَّنَ رَجُلٌ مُسْلِمٌ الْمَسَاجِدَ لِلصَّلَاةِ وَالذِّکْرِ، إِلَّا تَبَشْبَشَ اللهُ لَهُ کَمَا یَتَبَشْبَشُ أَهْلُ الْغَائِبِ بِغَائِبِهِمْ، إِذَا قَدِمَ عَلَيْهِمْ۔ رَوَاهُ ابْنُ مَاجَه وَابْنُ حِبَّانَ وَالْحَاکِمُ وَقَالَ : صَحِيْحٌ عَلَی شَرْطِ الْبُخَارِيِّ وَمُسْلِمٍ۔

7 : أخرجه ابن ماجه في السنن، کتاب : المساجد والجماعات، باب : لزوم المساجد وانتظار الصلاۃ، 1 / 262، الرقم : 800، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 453، الرقم : 9840، وابن حبان في الصحیح، 4 / 484، الرقم : 1607، والحاکم في المستدرک، 1 / 332، الرقم : 771، وابن جعد في المسند، 1 / 415، الرقم : 2838۔

’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : جب تک بندہ مسجد میں رہ کر خدا کا ذکر کرتا رہتا ہے اللہ تعالیٰ اس سے رضامندی کا اظہار فرماتا رہتا ہے جیسا کہ جب کوئی غائب(واپس گھر) آتا ہے تو اس کے گھر والے اس سے خوش ہوتے ہیں۔‘‘

اس حدیث کو امام ابن ماجہ، ابن حبان اور حاکم نے روایت کیا ہے، اور امام حاکم نے فرمایا کہ یہ حدیث بخاری و مسلم کی شرط پر صحیح ہے۔

8۔ عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ : صَلَّيْنَا مَعَ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ الْمَغْرِبَ۔ فَرَجَعَ مَنْ رَجَعَ۔ وَعَقَّبَ مَنْ عَقَّبَ۔ فَجَائَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ مُسْرِعًا، قَدْ حَفَزَهُ النَّفَسُ، وَقَدْ حَسَرَ عَنْ رُکْبَتَيْهِ، فَقَالَ : أَبْشِرُوْا۔ هَذَا رَبُّکُمْ قَدْ فَتَحَ بَابًا مِنْ أَبْوَابِ السَّمَاءِ۔ یُبَاهِي بِکُمُ الْمَلَائِکَةَ یَقُوْلُ : انْظُرُوْا إِلَی عِبَادِي قَدْ قَضَوْا فَرِيْضَةً وَهُمْ یَنْتَظِرُوْنَ أُخْرَی۔ رَوَاهُ ابْنُ مَاجَه وَأَحْمَدُ۔

8 : أخرجه ابن ماجه في السنن، کتاب : المساجد والجماعات، باب : لزوم المساجد وانتظار الصلاۃ، 1 / 262، الرقم : 801، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 186، الرقم : 6750، والبزار في المسند، 6 / 357، الرقم : 2365، وأبو نعیم في حلیۃ الأولیاء، 6 / 54۔

’’حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ نے فرمایا : میں نے حضور نبی اکرم ﷺ کے ساتھ مغرب کی نماز پڑھی جو بیٹھنے والے حضرات تھے وہ بیٹھ گئے اور جو جانے والے تھے چلے گئے۔ حضور نبی اکرم ﷺ اس تیزی سے تشریف لائے کہ آپ کا سانس پھولا ہوا تھا۔ اپنے گھٹنوں کے سہارے بیٹھ کر فرمایا : تم خوش ہو جائو کہ تمہارے رب نے آسمان کا ایک دروازہ کھولا ہے اور تمہارا ذکر فرشتوں سے فخریہ فرما رہا ہے کہ میرے بندوں کی جانب دیکھو، ایک فریضہ پورا کر کے دوسرے فریضہ کا انتظار کر رہے ہیں۔‘‘

اس حدیث کو امام ابن ماجہ اور احمد نے روایت کیا ہے۔

9۔ عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ رضی الله عنه قَالَ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ یَقُوْلُ : اَلْمَسْجِدُ بَيْتُ کُلِّ تَقِيٍّ، وَ قَدْ ضَمَّنَ اللهُ عزوجل لِمَنْ کَانَ الْمَسَاجِدُ بُیُوْتَهُ الرَّوْحَ وَالرَّحْمَةَ وَالْجَوَازَ عَلَی الصِّرَاطِ۔ رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَالْبَزَّارُ، وَقَالَ : إِسْنَادُهُ حَسَنٌ۔

9 : أخرجه الطبراني في المعجم الکبیر، 6 / 254، الرقم : 6143، وعبد الرزاق في المصنف، 11 / 97، الرقم : 20029، والبزار في المسند، 6 / 506، الرقم : 2546، والقضاعي في مسند الشهاب، 1 / 77، الرقم : 72، والدیلمي في مسند الفردوس، 4 / 217، الرقم : 6655، والبیهقي في شعب الإیمان، 3 / 84، الرقم : 950۔

’’حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے حضور نبی اکرم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : مسجد ہر متقی کا گھر ہے اور جو شخص مسجد کو اپنا گھر بنائے، اللہ تعالیٰ اسے رحمت اور مہربانی کے باعث پل صراط سے گزار کر اپنی رضامندی اور پھر جنت تک پہنچنے کی ضمانت دیتے ہیں۔‘‘

اس حدیث کو امام طبرانی اور بزار نے روایت کیا ہے نیز بزار نے کہا ہے کہ اس کی سند حسن ہے۔

10۔ عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : مَنْ أَلِفَ الْمَسْجِدَ أَلِفَهُ اللهُ۔

رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ۔

10 : أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 6 / 269، الرقم : 6383، والمنذري في الترغیب والترهیب، 1 / 137، الرقم : 498۔

’’حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص مسجد سے پیار کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس سے پیار کرتا ہے۔‘‘ اس حدیث کو امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔

اَلْآثَارُ وَالْأَقْوَالُ

1۔ قال الإمام مالک رحمه الله : مثل المنافقین في المسجد کمثل العصافیر في القفص إذا فتح باب القفص طارت العصافیر۔

1 : أخرجه الشعراني في الطبقات الکبری : 80۔

’’امام مالک بن انس رَحِمَهُ اللہ نے فرمایا : مسجد میں منافقوں کی حالت چڑیوں کی طرح ہے جو کہ پنجرے میں ہوں جب دروازہ کھلا تو اڑ گئیں۔‘‘

2۔ قال محمد بن علي رحمه الله : صلاحُ خمسۃ أصناف في خمسۃ مواطن : صلاح الصِّبیان في الکُتَّاب، وصلاحُ القُطَّاع في السجن، وصلاح النِّساء في البیوت، وصلاحُ الفِتْیان في العلم، وصلاحُ الکُهول في المساجد۔

2 : أخرجه السّلمي في طبقات الصّوفیۃ : 219۔

’’محمد بن علی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا : پانچ طرح کے لوگوں کی اصلاح پانچ مقامات پر ہوتی ہے۔ بچوں کی اصلاح مدرسہ میں، ڈاکوؤں کی جیل میں، عورتوں کی اصلاح گھروں میں، جوانوں کی علم میں اور بوڑھوں کی اصلاح مساجد میں ہوتی ہے۔‘‘

3۔ قال سهیل بن حسان الکلبي رَحِمَهُ الله : إن الله لیعطي العبد ما دام جالسا في المسجد بحضر الفرس السریع ملء کشحه في الجنۃ، وتصلي علیه الملائکۃ، ویکتب له في الرباط الأکبر۔

3 : أخرجه ابن المبارک في کتاب الزهد : 147۔

’’حضرت سہیل بن حسان کلبی رَحِمَهُ اللہ بیان کرتے ہیں کہ بے شک اللہ تعالیٰ بندہ کو جتنی دیر وہ مسجد میں بیٹھتا ہے اتنی دیر جنت میں تیز رفتار موٹے تازے گھوڑے کی دوڑ کے برابر جگہ عطا فرماتا ہے، اور فرشتے اس کے لئے رحمت کی دعا کرتے ہیں اور اس کے لئے جنت میں ایک بہت بڑی قیام گاہ لکھ دی جاتی ہے۔‘‘

4۔ عن داود بن صالح رحمه الله قال : قال لي أبو سلمۃ بن عبد الرحمن رحمه الله : یا ابن أخي، هل تدري في أي شيء أنزلت هذه الآیۃ : {یٰٓـاَیُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اصْبِرُوْا وَصَابِرُوْا وَرَابِطُوْا} [آل عمران، 3 : 200] قال : قلت : لا، قال : إنه لم یکن، یا ابن أخي، علی عهد رسول الله ﷺ غزو یرابط فیه، ولکنه انتظار الصلاۃ خلف الصلاۃ۔ رواه الحاکم وابن المبارک واللفظ له۔

4 : أخرجه الحاکم في المستدرک، 2 / 329، الرقم : 3177، وابن المبارک في الزهد : 147، والبیهقي في شعب الإیمان، 3 / 70، الرقم : 2897، والطبري في جامع البیان في تفسیر القرآن، 4 / 221، وابن کثیر في تفسیر القرآن العظیم، 1 / 445، والسیوطي في الدر المنثور، 2 / 416۔

’’حضرت داود بن صالح رَحِمَهُ اللہ فرماتے ہیں کہ مجھے ابو سلمہ بن عبد الرحمن رَحِمَهُ اللہ نے فرمایا : اے میرے بھتیجے! کیا تو جانتا ہے کہ یہ آیت {اے ایمان والو! صبر کرو اور ثابت قدمی میں (دشمن سے بھی) زیادہ محنت کرو اور (جہاد کے لیے) خوب مستعد رہو} کس چیز کے بارے میں اتری ہے؟ وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے کہا : نہیں۔ آپ نے فرمایا : اے میرے بھیتجے! بے شک حضور نبی اکرم ﷺ کے زمانہ مبارک میں کوئی ایسا غزوہ نہیں تھا کہ جس میں سرحد پر مقیم رہا جائے، بلکہ رباط سے یہاں مراد ایک نماز کے بعد دوسری نماز کا انتظار ہے۔‘‘

Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved