ڈاکٹر طاہرالقادری کا پاکستان کیسا ہو گا؟

ابتدائیہ ۔ ڈاکٹر طاہرالقادری کا پاکستان کیسا ہو گا

ابتدائیہ

بحمدہ تعالیٰ پاکستان عوامی تحریک کی کال پر آج پاکستان بھر کے ساٹھ شہروں میں بیک وقت منعقد ہونے والے اِحتجاجی مظاہروں میں کارکنوں کے ساتھ اِنقلاب کے طلب گار لاکھوں عوام کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر اُمڈ آیا ہے۔ اِس پر میں پوری قوم کو صمیم قلب سے مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ 11 مئی کے عظیم تاریخی اِحتجاج کے موقع پر اپنے عظیم ہم وطن بھائیوں، بہنوں، ماؤں، بزرگوں، بیٹوں، بیٹیوں، وکلائ، تاجر، کسان، مزدور، محنت کش، طلبہ اور سوسائٹی کے تمام مظلوم اور متوسط سفید پوش طبقات جو گزشتہ 65 سال سے ظلم و جبر کی چکی میں پس رہے ہیں اور طویل مدت سے ان کی آنکھیں قائد اعظم کا پاکستان دیکھنے کے لیے پتھرا گئی ہیں، میں انہیں خوش خبری سنانا چاہتا ہوں کہ جو پاکستان قائد اعظم دینا چاہتے تھے اور جس کے لیے 1947ء میں بے حساب قربانیاں دی گئیں، آج اس پاکستان کی اَز سرنو تعمیر کا وقت قریب آگیا ہے۔ 11 مئی 2014ء کا دن عوام کے پُراَمن جمہوری اِنقلاب کے سفر میں یومِ اِقامت ہے۔ آج کے دن میں دیکھنا چاہتا تھا کہ عوام اس اِنقلاب کے لیے کتنے تیار ہیں اور کس قدر عزم، جوش اور مصمم ارادے کے ساتھ باہر نکلنے کے لیے بے تاب ہیں۔ اس کے بعد اِن شاء اللہ تعالیٰ فائنل کال ہوگی اور عوامی و جمہوری اور پُراَمن اِنقلاب کی یہ تحریک اپنے آخری مرحلے میں داخل ہوگی، جس میں اِقتدار جابر، ظالم اور کرپٹ سیاسی ٹولے سے لے کر عوام کو منتقل کردیا جائے گا اور ظلم و ناانصافی اور اَفلاس و بھوک کا خاتمہ ہوگا۔

پاکستان میں اِنسانی وسائل کی کمی ہے اور نہ مالی وسائل کا فقدان۔ مگر چونکہ ان پر چند خاندانوں کا قبضہ ہے اور وہ وسائل کروڑوں غریب عوام تک نہیں پہنچ رہے، اس کی وجہ سے بچے اور نادار خاندان غربت کی آگ میں جل رہے ہیں، بیمار علاج کو ترس رہے ہیں اور ضروری خوارک کی عدمِ دستیابی کی وجہ سے ماؤں کی گودیں بچوں سے محروم ہورہی ہیں۔

اِس موقع پر یہ بھی واضح کردوں کہ ہم پر اعتراض کیا جاتا تھا کہ ہماری call پر عوام نہیں نکلیں گے، بعض لوگ مدرسوں اور اسکولوں کے بچوں کی بات کرتے تھے۔ میں انہیں دعوت دیتا ہوں کہ آج وہ غیر جانب دارانہ طور پر ملک کے ساٹھ شہروں کا منظر دیکھیں۔ یہ مدرسوں اور اسکولوں کے بچے نہیں بلکہ عوام ہیں؛ متوسط اور سفید پوش طبقات ہیں۔ اس میں تاجر اور کسان اتحاد کے لوگ بھی ہیں، اساتذہ و وکلاء اور علماء بھی ہیں، سول سوسائٹی کے نمائندگان بھی ہیں اور ملازمین اور طلبہ و عوام بھی ہیں۔ اگر حکومت کو یقین ہے کہ وہ حقیقی طور پر جمہوری نمائندہ ہے اور عوام کی طاقت ان کے ساتھ ہے تو اس بزدلی اور بوکھلاہٹ کا مظاہرہ کیوں کیا گیا؟ پورے پنجاب میں بسوں کے اڈے کیوں seal کر دیے گئے؟ بسوں کے مالکان سے لائسنس کیوں لے لیے گئے؟ پٹرول پمپ کیوں بند کرا دیے گئے؟ اگر عوام آپ کے ساتھ ہیں تو 36 گھنٹے پہلے پوری ٹرانسپورٹ کیوں بند کروا دی؟ جمہوریت کا تقاضا یہ تھا کہ کھلا میدان دے کر عوام کو خود فیصلہ کرنے دیتے کہ میری کال پر کروڑوں عوام نکلتے ہیں یا نہیں، اور عوام کو اختیار دیا جاتا کہ اگرمیں کینیڈا سے کال دے رہا ہوں تو عوام میری کال مسترد کردیں۔ لیکن جب عوام کو اس سے کوئی غرض نہیں اور وہ ہماری کال پر نکلتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ عوام کو اِنقلاب چاہیے۔ اور جب میں اِنقلاب کی کال دوں گا تو میں عوام کے اندر موجود ہوں گا کیونکہ مجھے پاکستا ن پہنچنے میں صرف 13 گھنٹے لگتے ہیں۔ میں خود اس اِنقلاب کے ریلے کی قیادت کروں گا اور اُس لمحے تک عوام کے اندر رہوں گا جب تک ظلم و جبر، تشدد، اِستحصال اور بے ایمانی پر قائم شدہ اِقتدار کے ایوان مسمار کرکے اِقتدار عوام کی جھولی میں منتقل نہیں کردیا جاتا۔ ان کا یہ بزدلانہ رویہ سفر اِنقلا ب میں عوام کی پہلی فتح ہے اور انہوں نے اپنے اِس رویے سے اپنی شکست کو تسلیم کر لیا ہے۔

کیا تحریکِ اِنقلاب سے جمہوریت کو کوئی خطرہ لاحق ہے؟

اِس موقع پر status quo کی قوتوں اور اِنقلاب دشمن طاقتوں کی طرف سے لگائے گئے اِس اِلزام اور اِعتراض کا جواب بھی دینا چاہتا ہوں کہ ہم کسی جمہوریت کو derail نہیں کررہے۔ ہمارا نقطہ نظر بالکل عیاں اور categorical ہے کہ اس ملک میں جمہوریت کا وجود ہی نہیں ہے۔ اِنقلاب کے ذریعے ہم کسی بھی نظام کو ختم نہیں کررہے کیونکہ اس ملک میں نظام نام کی کوئی شے نہیں پائی جاتی۔

٭ جمہوریت تو اُس نظام کو کہتے ہیں جس میں good governance ہو، شفافیت ہو اور اداروں میں خود احتسابی ہو۔

٭ جمہوریت اُسے کہتے ہیں جہاں کرپشن کے خلاف اور اُس کے خاتمے کے لیے سیاسی (political)، انتظامی (administrative)، قانونی (legal) اور اداراتی (institutional) اِقدامات کیے جاتے ہوں۔

٭ جمہوریت اُسے کہتے ہیں جہاں کرپشن کو قانونی طور پر ختم کیا جاتا ہو اور کرپٹ لوگوں کو منطقی انجام تک پہنچایا جائے۔

٭ جمہوریت اُسے کہتے ہیں جہاں لوگوں کے ووٹ کا تقدس ہو اور ان کے مینڈیٹ کی حفاظت کی جاتی ہو۔

٭ جمہوریت اُسے کہتے ہیں جہاں پورا انتخابی سسٹم آزادانہ، منصفانہ اور دیانت دارانہ ہو۔

٭ جمہوریت اُسے کہتے ہیں جہاں تمام طبقات کو برابر نمائندگی کا حق میسر آئے۔

٭ جمہوریت اُسے کہتے ہیں جہاں قانون سازی کے ذریعے اداروں کومضبوط کیا جائے اور ایک خود کار mechanism وضع کیا جائے جو احتساب بھی کرے اور ہر شخص کو انصاف بھی فراہم کرے۔

٭ جمہوریت اُسے کہتے ہیں جہاں کروڑوں عوام کے طبقات میں پائی جانے والی عدمِ مساوات ختم کرکے غربت کا خاتمہ کیا جائے۔

٭ جمہوریت اور نظام اُسے کہتے ہیں جس میں ہر غریب کے منہ میں لقمہ جائے، اُسے گھر ملے، اِنصاف ملے اور علاج معالجہ کی بنیادی سہولیات میسر آئیں۔

حرام خوری اور کرپشن پر مک مکا کو جمہوریت اور نظام نہیں کہتے۔

اُس نظام کو ہرگز جمہوریت نہیں کہتے جس میں کروڑوں لوگ کھانے کے لیے ترسیں؛ ان کے پاس رہنے کے لیے اپنا گھر نہ ہو، بچوں کو تعلیم کے مواقع میسر نہ ہوں، ان کے پاس روزگار نہ ہو اور وہ اپنے آپ کو بھیڑ بکریوں سے بھی بدتر اور کمزور جانور سمجھتے ہوں۔ ایسی سوسائٹی میں کبھی جمہوریت نام کی شے نہیں پنپ سکتی۔ لہٰذا حقیقی جمہوریت کے لیے ہمیں کلچر اور نظام تبدیل کرنا ہوگا۔

تبدیلی پارلیمنٹ کے ذریعے کیوں ممکن نہیں؟

اب میں بعض لوگوں کی طرف سے اٹھائے جانے والے اِس سوال کا جواب دینا چاہتا ہوں کہ یہ اِنقلابی تحریک کیوں بپا کی گئی ہے؟ تبدیلی پارلیمنٹ کے ذریعے کیوں نہیں لائی جاسکتی؟ ملک میں رائج پارلیمانی، جمہوری یا اِنتخابی نظام کے ذریعے ہم کیوں تبدیلی نہیں لاتے؟ ہر چند کہ اِنقلاب کی یہ تحریک اَصل جمہوریّت کے اِحیاء اور نفاذ کے لیے ہے، تاہم اِس کے اَسباب سے آگاہی ضروری ہے۔

(1) پارلیمنٹ کی تشکیل خلافِ آئین ہے

اِس پارلیمنٹ اور نظام کے ذریعے تبدیلی ممکن ہی نہیں کیونکہ اِس کی تشکیل آئین کے آرٹیکل 213 کے سیکشن 2a کی خلاف ورزی میں ہوئی ہے۔ یہ پارلیمنٹ آئین کے آرٹیکل 218 کے خلاف وجود میں آئی ہے۔ آئین کے آرٹیکل 218 کا سیکشن 3 بیان کرتا ہے کہ ’یہ الیکشن کمیشن کا فرض ہے کہ وہ پورے الیکشن کے نظام کو کلیتاً دیانت داری، امانت داری، اِنصاف اور قانون کے مطابق کرے اور ہر قسم کی کرپشن کا خاتمہ کرے‘۔

لہٰذا دھاندلی پر قائم ہونے والی اِس پارلیمنٹ سے خیر کی کوئی توقع نہیں کی جاسکتی۔ موجودہ حکومت اور یہ نظام خلافِ آئین ہے۔ آئینِ پاکستان کی رُو سے اِس حکومت اور نظام کا خاتمہ واجب ہوچکا ہے۔

(2) آرٹیکل 62، 63 کی خلاف ورزی

آئین کے آرٹیکل نمبر 62 اور 63 میں categorically کہہ دیا گیا ہے کہ کوئی قرض خور پارلیمنٹ کا ممبر بن سکتا ہے نہ کوئی ٹیکس چور۔ جب کہ نصف پارلیمنٹ قرض خوروں اور ٹیکس چوروں سے بھری پڑی ہے۔ اِس میں کرپٹ لوگوں کا راج ہے۔ اِس پارلیمنٹ کا وجود میں آنا صریحاً آئینِ پاکستان کے خلاف بغاوت ہے۔ لہٰذا جوپارلیمنٹ آئین توڑ کر بنی ہو اُسے کبھی پارلیمنٹ نہیں کہتے اور نہ اسے جمہوریت کہتے ہیں۔

(3) اِستحصال کے خاتمے میں ناکامی

آرٹیکل نمبر 3 کی رُو سے ریاست کی ذمہ داری ہوگی کہ ہر قسم کی exploitation ختم کرے تاکہ ہر شخص کو اُس کی صلاحیت، تعلیم اور قابلیت کے مطابق روزگار میسر ہو اور ہر شخص کو اس کے کام کے مطابق معاوضہ دیا جائے۔

یہاں ایک سوال ہے کہ آئین کے آرٹیکل 3 اور 4 جو شرائط عائد کرتے ہیں کہ ریاست کی فلاں فلاں ذمہ داریاں ہیں، کیا ان آرٹیکلز پر عمل درآمد ہورہا ہے؟

ہر شخص کہے گا: ’نہیں‘۔

(4) فرد کے تحفظ میں ناکامی

آئین کا آرٹیکل 9 کہتاہے کہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ ہر شخص کی جان کی حفاظت کی جائے گی۔

16 اپریل 2014ء کو ساؤتھ کوریا میں ایک جہاز کے ڈوبنے سے تین سو جانیں تلف ہوئیں جس پر وزیر اعظم نے اِستعفیٰ دے دیا۔ اسے نظام اور جمہوریت کہتے ہیں جب کہ اِس ملک میں پچاس ہزار جانیں تلف ہو چکی ہیں۔ کس نے استعفیٰ دیا ہے؟ جب ریاست لوگوں کے جان و مال کی حفاظت نہیں کرسکتی تو اسے اقتدار میں رہنے کا کوئی حق نہیں۔

(5) Child labour کے خاتمے میں ناکامی

آئین کے آرٹیکل 11 کی کلاز 3 کے تحت 14 سال سے کم عمر کے بچے کو فیکٹری میں کوئی job کرنے کی اجازت نہیں۔

اِس کے برعکس پاکستان کے حالات دیکھیے۔ جولائی 2012ء اور جنوری 2014ء میں UN کی طرف سے جاری کردہ رپورٹس میں declare کیا گیا ہے کہ پاکستان میں ایک کروڑ سے زائد بچے پڑھائی کی بجائے مزدوری کرنے پر مجبور ہیں۔ کیا اِن نام نہاد جمہوری حکومتوں یا عوام کے جھوٹے نمائندوں نے ایسی کوئی پالیسی بنائی؟ کیا اِس ایک سال میں کوئی قدم اٹھایا گیا جس سے ایک کروڑ سے زائد اُن بچوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا جاسکے جو 14 سال سے کم عمر ہیں اور مزدوری کرنے پر مجبور ہیں؟ یہ آئین کے آرٹیکل 11 کی کھلی خلاف ورزی ہے۔

(6) مفت تعلیم کی فراہمی میں ناکامی

آرٹیکل 25A کہتا ہے کہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ پانچ سے سولہ سال کی عمر کے ہر بچے کو مفت تعلیم فراہم کرے۔ پھر آرٹیکل 37 کا سیکشن b کہتا ہے کہ لازمی اور مفت تعلیم دی جائے۔

اِنتہائی افسوس ناک اَمر ہے کہ UN کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق سب سے کم تعلیم یافتہ دس ممالک میں پاکستان کا دوسرا نمبر ہے، جب کہ اتھیوپیا اور کینیا جیسے ممالک پاکستان سے بہتر حالت میں ہیں۔

عوام کے حقوق سے تعلق رکھنے والے آئین کے یہ آرٹیکلز واجب النفاذ ہیں اور ریاست کی ذمہ داری اور فرض ہے کہ وہ اِن پر عمل پیرا ہو۔ جو حکومت انہیں پورا نہیں کررہی وہ کس لحاظ سے آئینی حکومت ہے اور اُسے کس بنیاد پر اِقتدار میں رہنے کا حق ہے؟

(7) سماجی مساوات کے فروغ اور پسماندگی کے خاتمے میں ناکامی

آرٹیکل نمبر 37 میں کہا گیا ہے کہ ایسے انتظامات کیے جائیں گے کہ ہر شخص کو special care ملے اور تعلیم و معیشت میں پسماندہ علاقے کے لوگوں کو ترقی ملے۔

لیکن افسوس کہ 65 سال میں پسماندگی جوں کی توں ہے اور اس کا خاتمہ کسی کی ترجیحات میں ہی نہیں ہے۔

(8) سستے اور فوری اِنصاف کی فراہمی میں ناکامی

آرٹیکل 37 کی کلاز d میں ہے کہ ملک میں سستا اور فوری انصاف ہوگا۔ یہاں غریب آدمی لاکھوں روپے کی فیس کے بغیر عدالتوں میں اپنا حق نہیں لے سکتا اور نہ صریح ظلم کے خلاف انصاف کے لیے قانون کا دروازہ کھٹکھٹا سکتا ہے۔

اِنصاف کی فراہمی میں تاخیر ہی جرائم کی اَفزائش کا سبب بنتی ہے۔ موجودہ حکومت کے پہلے سال میں صرف پنجاب میں 2,576 عورتوں کے ساتھ درندگی اور سفاکی کرنے کے کیس رجسٹر ہوئے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ صوبہ پنجاب میں ہر تین گھنٹے میں ایک عورت کی عزت لوٹی جارہی ہے۔ ہر چند گھنٹوں میں کئی لوگ قتل ہورہے ہیں۔ ملک میں ٹارگٹ کلنگ، دہشت گردی اور بم دھماکے ہورہے ہیں جب کہ حکمران صرف لوٹ مار میں مصروف ہیں۔

(9) بچوں اور عورتوں کے لیے خصوصی اِقدامات میں ناکامی

آرٹیکل 37 کی کلاز e کہتی ہے کہ ایسے حالات پیدا کیے جائیں کہ بچوں اور عورتوں سے ایسے پیشوں میں کام نہ لیا جائے جو ان کی عمر اور جنس کے خلاف ہوں۔

یہ شقیں 1973ء کے آئین میں رکھی گئی تھیں، آج 42 سال گزر چکے ہیں۔ اس عرصے میں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی دونوں نے تین تین بار ملک میں حکومت کی ہے؛ لیکن آئین کی یہ شقیں جو عوام کے روزگار اور بچوں کی تعلیم کو واجب کرتی ہیں، جو بچوں کو مجبوراً روزگار کے لیے مزدوری سے روکتی ہیں، ان تمام شقوں کو پامال کیا جاتا رہا ہے۔ کیا ایسے لوگوں کو آئین کے مطابق اِقتدار پر بیٹھنے اور اپنے ڈھونگ اور فریب کو نظام کا نام دینے کا حق ہے؟

(10) لوگوں کا معیارِ زندگی بہتر بنانے میں ناکامی

آئینِ پاکستان کہتا ہے کہ لوگوں کا معیارِ زندگی بہتر بنایا جائے اور مساوی طریقے سے وسائل تقسیم کیے جائیں۔ جب کہ یہاں مائیں اپنے بچوں سمیت خود کشیاں کر رہی ہیں، بیٹیوں کی عزت بیچ کر گھر کے خرچ چل رہے ہیں، گردے اور انسانی اعضا بیچے جارہے ہیں۔ کم وسائل والا شخص اپنا گھر چلانے کے لیے حرام کمانے پر مجبور ہے۔

٭ آئینِ پاکستان کے آرٹیکل نمبر 38 کی کلاز a میں ہے کہ دولت اور وسائل کے ارتکاز کو ختم کیا جائے گا اور انہیں عوام کے اندر منصفانہ طریقے سے تقسیم کیاجائے گا۔

آپ ایک طرف حکمرانوں کے محل دیکھیں اور ان کے پڑوس میں اصل پاکستانیوں کی جھگیاں بھی دیکھ لیں۔ ایک طرف وڈیروں، جاگیرداروں اور اِستحصالی طبقات کی رہائشوں کے معیارات دیکھ لیں اور دوسری طرف زیریں پنجاب، اندرون سندھ، اندرون بلوچستان اور خیبر پختونخواہ میں غربت اور محرومی کی آگ میں جلنے والے پنجابیوں، سندھیوں، بلوچوں اور پختونوں کا حال بھی دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ دونوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔

٭ پھر آرٹیکل 38 کی کلاز d کہتی ہے کہ پانچ چیزیں عوام کو مہیا کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے اور اس پر واجب ہے کہ جو شہری وسائل نہیں رکھتے انہیں روٹی، کپڑا، مکان، اور تعلیم و علاج کی سہولیات فراہم کی جائیں۔

کیا ہر شخص کو روزگار مل رہا ہے؟ کیا ہر شخص کو تعلیم مل رہی ہے؟ کیا ہر شخص کو عزت کے ساتھ علاج کی سہولیات مل رہی ہیں؟ کیا ہر شخص کو انصاف مل رہا ہے؟ کیا ہر ایک کو گھر مل چکا ہے؟ کچھ بھی نہیں مل رہا ہے۔

آپ پچھلی حکومت کے پانچ سالہ دور کا بھی جائزہ لیں اور موجودہ حکومت کے گیارہ مہینے بھی دیکھیں تو یہ حقیقت واضح ہوگی کہ حکمرانوں کی ساری توجہ پوری دنیا میں اپنی business empires پر مرکوز ہے اور بیس کروڑ عوام ان کے کسی ایجنڈے میں جگہ ہی نہیں رکھتے۔

٭ پھر آرٹیکل 38 کی کلاز e میں ہے کہ غیر منصفانہ تقسیم کے باعث لوگوں کے معیارِ زندگی میں پیدا ہونے والے بہت زیادہ فرق کو ختم کیا جائے گا۔

اے پاکستانی قوم! ہم اِس پورے نظام کے خلاف آئینی جنگ لڑرہے ہیں۔ آئینِ پاکستان کے آرٹیکل 9 سے لے کر 40 تک کل 32 آرٹیکلز ہیں جو پاکستان کے بیس کروڑ عوام کو حقوق دیتے ہیں۔ ہمارا احتجاج یہ ہے کہ ان 32 آرٹیکلز میں سے ایک بھی نافذ نہیں کیا گیا ہے۔ ہمارا اِحتجاج یہ ہے کہ جمہوریت، وسائل، اِقتدار، طاقت اور خوش حالی کو صرف چند خاندانوں تک محدود رکھا گیا ہے اور اسے نیچے ضلعوں، تحصیلوں، یونین کونسلوں اور قصبوں کی سطح پر نہیں لے جایا گیا۔ لوگوں کے گھروں تک آسودگی و خوش حالی نہیں پہنچائی گئی۔ ہمارا اِحتجا ج یہ ہے کہ عملاً آئین کو معطل کرکے اِن سارے اُصولوں کی دھجیاں بکھیری جارہی ہیں۔ یہ حکومت اور نظام، آئین کی صریح خلاف ورزی پر قائم ہے۔ جو سیاسی جماعتیں اور کارکنان ابھی تک اِس پارلیمنٹ کو پارلیمنٹ سمجھتے ہیں اور اِن حکومتوں کو آئینی و جمہوری سمجھتے ہیں، میری اِن گزارشات کے بعد اُنہیں حقیقت تسلیم کرلینی چاہیے۔

آج لاکھوں پاکستانی احتجاج میں گھروں سے نکل آئے ہیں اور کروڑوں گھروں میں بیٹھ کے دیکھ سن رہے ہیں۔ میرا پوری قوم سے سوال ہے کہ اللہ کو حاضر و ناظر جان کر بتائیں کہ کیا حکومت نے ایک قدم بھی مثبت سمت میں بڑھایا ہے؟ گزشتہ 42 یا 65 سال میں لوگوں کے درمیان وسائل اور معیارِ زندگی کے فرق کو کم کیا جاسکا ہے؟ یہ حکمران ہرگز ایسا نہیں کریں گے کیونکہ سیاست ان کی تجارت ہے اور اقتدار ان کا کمائی کا ذریعہ ہے۔ یہ حکمران اپنی نسلیں پالیں گے اور غریبوں کی نسلوں کو ماریں گے۔ لہٰذا اس غریب کُش نظام کے خلاف غریب عوام کو ہی اٹھنا ہوگا اور آئینِ پاکستان نے آپ پر یہ واجب کردیا ہے۔

(11) دفاعی اِداروں کی عزت اور وقار پر حملے

آئین، ریاست اور پاکستان کی سلامتی کی ضامن پاک فوج اور اندرون و بیرونِ ملک دشمنوں پر نگاہ رکھنے والے ادارے آئی ایس آئی پر بھی حملے کیے گئے اور ملکی دفاع و سلامتی کے ضامن ادارے کو بھی نہیں چھوڑا گیا۔ PEMRA کی کارروائی کے نام پر فوج کو دھوکہ دیا جارہا ہے۔ باقی غریب اور کمزور اِداروں کا کیا حال ہوگا؟ یہ انہیں ذلیل و رُسوا کرکے اپنے ایجنڈے کے مطابق پاکستان کے دفاع کو کمزور بنانا چاہتے ہیں تاکہ ان کے راستے کی آخری رکاوٹ بھی ان کے مذموم ایجنڈے کی تکمیل میں حائل نہ رہے۔

لیکن عوامِ پاکستان ہرگز ایسا نہیں ہونے دیں گے کیونکہ یہ سارے اِقدامات آئینِ پاکستان، جمہوریت اور قانون کے خلاف ہیں۔ عوامِ پاکستان آئین و قانون کی بالادستی منوا کر اُس پر عمل درآمد کروائیں گے۔ (اِن شاء اﷲ تعالیٰ)

یہاں ہماری گفتگو کا پہلا حصہ مکمل ہوا کہ یہ تحریکِ اِنقلاب کیوں بپا کی جا رہی ہے؟ اِس وقت یہ تحریک اِنتخابات کے لیے نہیں ہے بلکہ انتخابی نظام کی درستگی اور شفافیت کے لیے ہے۔ ہم انتخابات ضرور کرائیں گے مگر نظام کی اِصلاح اور حقیقی جمہوری اَقدار کے قیام کے بعد۔

Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved