سلسلہ تعلیمات اسلام 5: طہارت اور نماز (فضائل و مسائل)

اذان

سوال نمبر 74: مسجد میں داخل ہوتے اور باہر آتے وقت کیا دعا پڑھنی چاہیے؟

جواب: مسجد میں داخل ہوتے وقت پہلے دایاں پاؤں اندر رکھنا چاہیے۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: تم میں سے جو کوئی مسجد میں داخل ہو تو یہ کہے:

اَللَّهُمَّ! افْتَحْ لِیْ أَبْوَابَ رَحْمَتِکَ.

’’اللہ! میرے لیے اپنی رحمت کے دروازے کھول دے۔‘‘

مسجد سے باہر آتے وقت پہلے بایاں پاؤں باہر رکھے اور یہ دعا پڑھے:

اَللَّهُمَّ! إِنِّی أَسْأَلُکَ مِنْ فَضْلِکَ.

مسلم، الصحیح، کتاب صلاۃ المسافرین و قصرھا، باب ما یقول اذا دخل المسجد، 1: 494، رقم: 713

’’اے اللہ! میں تجھ سے تیرے فضل کا سوال کرتا ہوں۔‘‘

سوال نمبر 75: اذان دینے کی فضلیت کیا ہے؟

جواب: اذان شعائرِ دین میں سے ہے۔ اذان کا احترام، اذان سے محبت ہر مومن کاایمانی تقاضا ہے۔ اذان دینے کی فضیلت حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے مروی حضور نبی اکرم ﷺ کی اس حدیثِ مبارکہ سے ثابت ہے:

الْمُؤَذِّنُوْنَ أَطْوَلُ النَّاسِ أَعْنَاقًا یَوْمَ الْقِیَامَةِ.

مسلم، الصحیح، کتاب الصلاۃ ، باب فضل الأذان وَھرب الشیطان عند سماعہ، 1: 290، رقم: 387

’’قیامت کے دن جب مؤذن اٹھیں گے تو ان کی گردنیں سب سے بلند ہوں گی۔‘‘

مذکورہ بالا حدیث کی روشنی میں درج ذیل نکات اخذ ہوتے ہیں:

  1. قیامت کے دن مؤذنوں کی گردنیں سب سے لمبی ہوں گی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مؤذن میدانِ حشر میں سب سے ممتاز اور منفرد نظر آئیں گے۔
  2. دوسرا مطلب یہ ہے کہ ان کو ثواب زیادہ ملے گا۔ یہ ایک فطری بات ہے کہ انہیں کثیر ثواب کو دیکھنے کا اشتیاق ہو گا اور جس شخص کو کسی چیز کے دیکھنے کا اشتیاق ہو وہ گردن اٹھا اٹھا کر دیکھتا ہے اس لیے ان کی گردنیں لمبی ہوں گی۔
  3. تیسرا مطلب یہ ہے کہ انہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت کی زیادہ امید ہوگی اور جس شخص کو کسی چیز کی امید ہوتی ہے وہ گردن اٹھا اٹھا کر امید بھری نظروں سے دیکھتا ہے۔
  4. چوتھا مطلب یہ ہے کہ مؤذن اپنے اعمال پر نادم اور شرمسار نہیں ہوں گے کیونکہ جو نادم اور شرمسار ہوں اس کی گردن جھکی ہوئی ہوتی ہے جبکہ ان کی گردنیں بلند ہوں گی۔
  5. پانچواں مطلب یہ ہے کہ میدانِ حشر میں جب تمام لوگ گرمی سے پسینہ میں شرابور ہوں گے، مؤذنوں کو کوئی پریشانی نہ ہو گی تبھی تو ان کی گردنیں بلند ہوں گی۔
  6. چھٹا مطلب یہ ہے کہ مؤذن کی اذان سن کر لوگ مساجد میں نماز پڑھنے جاتے ہیں، تو نمازی تابع اور مؤذن متبوع ہوا، اور متبوع چونکہ سردار ہوتا ہے اس لیے قیامت کے دن اس کی گردن بلند ہو گی تاکہ اس کا سر نمایاں نظر آئے۔
  7. ساتواں مطلب یہ ہے کہ گردن لمبی ہونے سے مؤذن کے اعمال کی کثرت کی طرف اشارہ ہے۔ یہ کثرت اس وجہ سے ہے کہ مؤذن کی اذان سن کر جس قدر لوگ نماز پڑھنے آئیں گے ان تمام کے اعمال کا ثواب مؤذن کے نامہ اعمال میں لکھا جائے گا اگرچہ نمازیوں کے اپنے اپنے ثواب میں کمی نہیں ہوگی۔

نووی، شرح صحیح مسلم، 1: 1098

سوال نمبر 76: اذان کے کلمات اور ان کی ادائیگی کا طریقہ کیا ہے؟

جواب: اذان کے کلمات اور ان کی ادائیگی کا طریقہ یہ ہے کہ مؤذن مسجد میں اونچی جگہ قبلہ رخ کھڑے ہو کر کانوں میں انگلیاں ڈال کر یا کانوں پر ہاتھ رکھ کر اللهُ اَکْبَرُ اللهُ اَکْبَر کہے، پھر ذرا ٹھہر کر اللهُ اَکْبَرُ اللهُ اَکْبَر کہے۔ پھر دو دفعہ اَشْھَدُ اَنْ لاَّ اِلٰـہَ اِلاَّ اللہ کہے، پھر دو دفعہ اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللہ کہے، پھر دائیں طرف منہ پھیر کر دو بار حَیَّ عَلَی الصَّلٰوۃ کہے، پھر بائیں طرف منہ کر کے دو بار حَیَّ عَلَی الْفَـلَاح کہے، پھر قبلہ رُو منہ کرلے اور اللهُ اَکْبَرُ اللهُ اَکْبَر کہے پھر ایک بار لَا اِلٰہَ الاَّ اللهُ کہے۔

فجر کی اذان میں حَیَّ عَلَی الْفَـلَاح کے بعد دو مرتبہ اَلصَّلَاۃُ خَیْرٌ مِّنَ النَّوْمِ کہے۔

سوال نمبر 77: مؤذن میں کن صفات کا ہونا ضروری ہے؟

جواب: مؤذن میں درج ذیل صفات کا ہونا ضروری ہے:

مرد ہو، عاقل ہو، نیک ہو، نمازوں کے اوقات کو پہچانتا ہو، باعزت ہو، لوگوں کو تنبیہہ کر سکتا ہو یعنی لوگوں میں اس کا اتنا وقار ہو کہ لوگ اس کی سخت باتیں سن سکیں، پابندی سے اذان کہتا ہو، رضائے الٰہی اور حصولِ ثواب کی خاطر اذان دیتا ہو۔

سوال نمبر 78: مؤذن اذان دے رہا ہو تو اذان سننے والے کے لیے کیا حکم ہے؟

جواب: مرد ہو یا عورت جو کوئی بھی اذان سنے تو اسے اذان کا جواب دینے کا حکم ہے۔ سننے والا بھی وہی الفاظ کہے جو مؤذن کہتا ہے۔

حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

إِذَا سَمِعْتُمُ النِّدَاءَ، فَقُوْلُوْا مِثْلَ مَا یَقُوْلُ الْمُؤَذِّنُ.

بخاری، الصحیح، کتاب الاذان، باب ما یقول اذا سمع المنادی، 1:221، رقم: 586

’’جب تم اذان سنو، تو اُسی طرح کہو جس طرح مؤذن کہہ رہا ہو۔‘‘

لیکن جب مؤذن حَیَّ عَلَی الصَّلٰوۃ اور حَیَّ عَلَی الْفَـلَاح کہے تو سننے والے کو یہی الفاظ نہیں بلکہ لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ اِلَّا بِاللهِ کہنا چاہیے جیسا کہ حدیث مبارکہ سے ثابت ہے:

قَالَ یَحیی: وَحَدَّثَنِي بَعْضُ إِخْوَانِنَا: أَنَّهُ قَالَ: لَمَّا قَالَ حَيَّ عَلَی الصَّلاةِ، قَالَ: لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ اِلاَّ بِاللهِ، وَقَالَ: هٰکَذَا سَمِعْنَا نَبِیَّکُمْ ﷺ یَقُوْلُ.

بخاری، الصحیح، کتاب الأذان، باب ما یقول اذا سمع المنادي، 1:222، رقم: 588

’’حضرت یحییٰ کا بیان ہے کہ مجھ سے میرے بعض بھائیوں نے بیان کیا کہ مؤذن نے جب حَیَّ عَلَی الصَّلٰوۃ کہا تو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ اِلَّا بِاللهِ پڑھا اور کہا: میں نے تمہارے نبی ﷺ کو اسی طرح کہتے ہوئے سنا ہے۔‘‘

اسی طرح فجر کی اذان میں جب مؤذن اَلصَّلٰوۃُ خَیْرٌ مِّنَ النَّوْمِ کہے تو سامع کو قَدْ صَدَقْتَ وَبَرَرْتَ کہنا چاہیے۔

سوال نمبر 79: اذان سننے کے بعد کون سی دعا پڑھنی چاہیے؟

جواب: اذان سننے کے بعد پہلے درود شریف پڑھے اور پھر یہ دعا پڑھے:

اَللّٰهُمَّ رَبَّ ھٰذِهِ الدَّعْوَةِ التَّامَةِ وَالصَّلَاةِ الْقَائِمَةِ آتِ مُحَمَّدا نِالْوَسِیْلَةَ وَالْفَضِیْلَةَ وَالدَّرَجَةَ الرَّفِیْعَةَ وَابْعَثْهُ مَقَامًا مَّحْمُودَ نِالَّذِيْ وَعَدْتَّهُ وَارْزُقْنَا شَفَاعَتَهُ یَوْمَ الْقِیَامَةِ ط اِنَّکَ لَا تُخْلِفُ الْمِیْعَادَ.

’’اے اللہ! اس دعوت کامل اور اس کے نتیجے میں قائم ہونے والی نماز کے رب! تو محمد ﷺ کو وسیلہ اور فضیلت اور بلند درجہ عطا فرما اور ان کو اس مقام محمود پر فائز فرما جس کا تو نے ان سے وعدہ فرمایا ہے، اور ہمیں روزِ قیامت ان کی شفاعت سے بہرہ مند فرما۔ بے شک تو اپنے وعدہ کے خلاف نہیں کرتا۔‘‘

سوال نمبر 80: اذان اور اقامت کے دوران انگوٹھے چومنا کیسا ہے؟

جواب: حضور نبی اکرم ﷺ کے اسم مبارک کے ذکر پر انگوٹھے یا انگشتانِ شہادت چوم کر آنکھوں پر رکھنا نہ صرف جائز بلکہ مستحب عمل ہے۔ یہ عمل خلیفہ رسول سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی سنت ہے۔ امام سخاویؒ ’المقاصد الحسنۃ (1: 384، رقم: 1021)‘ میں فرماتے ہیں:

’’مؤذن سے اذان میں اَشْہَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللهِ سن کر انگشتانِ شہادت کے پورے جانبِ باطن سے چوم کر آنکھوں پر ملنا اور یہ پڑھنا چاہیے: اَشْہَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ، رَضِیْتُ بِاللهِ رَبًّا وَبِالاِسْلَامِ دِیْنًا وَبِمُحَمَّدٍ نَبِیًّا (میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ﷺ ہیں، اور میں اللہ کے رب ہونے پر، اِسلام کے دین ہونے پر اور محمد ﷺ کے نبی ہونے پر راضی ہوں۔‘‘

دیلمی نے اس حدیث کو الفردوس بماثور الخطاب میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ جب انہوں نے مؤذن کو اَشْہَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللهِ کہتے ہوئے سنا تو یہ دعا پڑھی، اور دونوں انگشتانِ شہادت کے پوروں کو چوم کر آنکھوں سے ملا۔ یہ دیکھ کر حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

’’جس نے میرے پیارے دوست کی طرح عمل کیا، اس پر میری شفاعت حلال ہوگئی۔‘‘

ملا علی قاریؒ اس حدیث پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں: اگر یہ عمل حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے ثابت ہے تو اس پر عمل کرنا کافی ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ کا فرمان ہے: ’’تم پر میرے بعد میری سنت اور سنتِ خلفائے راشدین لازم ہے۔‘‘

عجلونی، کشف الخفائ، 2: 270، رقم: 2296

ائمہ فقہاء بھی اذان میں حضور نبی اکرم ﷺ کا اسم مبارک سن کر انگوٹھے چومنے کو مستحب قرار دیتے ہیں۔

علامہ ابن عابدین شامیؒ اپنے مشہور و معروف فتاویٰ رد المحتار علی الدر المختار میں فرماتے ہیں:

’’مستحب ہے کہ اذان کی پہلی شہادت سننے پر صَلَّی اللهُ عَلَیْکَ یَارَسُوْلَ اللهِ اور دوسری شہادت سننے پر قُرَّۃُ عَیْنِی بِکَ یَارَسُوْلَ اللهِ کہا جائے، اور پھر اپنے دونوں انگوٹھوں کے ناخن چوم کر اپنی آنکھوں پر رکھ کر کہو: اَللّٰهُمَّ مَتِّعْنِیْ بِالسَّمْعِ وَالْبَصَرِ کیونکہ بے شک حضور نبی کرم ﷺ ایساکرنے والے کو اپنے پیچھے جنت میں لے جائیں گے۔‘‘

ابن عابدین شامی، رد المحتار، 1: 398

علامہ طحطاوی حنفیؒ رقم طراز ہیں:

’’قہستانی نے کنز العباد سے نقل کیا ہے کہ بے شک جب اذان میں پہلی بار اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللهِ سنے تو اس کے جواب میں صَلَّی اللهُ عَلَیْکَ یَارَسُوْلَ اللهِ کہے اور دوسری بارسنے تو دونوں انگوٹھوں کے ناخن چومتے ہوئے یہ کہے: قُرَّۃُ عَیْنِی بِکَ یَارَسُوْلَ اللهِ، اَللّٰهُمَّ مَتِّعْنِی بِالسَّمْعِ وَالْبَصَرِ۔ ایسا کرنا مستحب ہے اور بے شک حضور نبی اکرم ﷺ ایسا کرنے والے کو جنت میں اپنے ساتھ لے جائیں گے۔‘‘

طحطاوی، حاشیہ علی مراقی الفلاح شرح نور الایضاح، 1: 138

علامہ عبد الحئی لکھنویؒ لکھتے ہیں:

’’جاننا چاہیے کہ اذان میں پہلی شہادت سن کر صَلَّی اللهُ عَلَیْکَ یَارَسُوْلَ اللهِ اور دوسری شہادت سن کر قُرَّۃُ عَیْنِیْ بِکَ یَارَسُولَ اللهِ اور پھر دونوں انگوٹھوں کے ناخن آنکھوں پر رکھ کر اَللّٰهُمَّ مَتِّعْنِیْ بِالسَّمْعِ وَالْبَصَرِ کہنا مستحب ہے۔ پس حضور نبی اکرم ﷺ اس شخض کو جنت میں لے جائیں گے۔ ایسا ہی کنز العباد میں ہے۔‘‘

عبد الحی لکھنوی، مجموعہ فتاوی، 1: 189

سوال نمبر 81: اذان اور اقامت کے کلمات میں کیا فرق ہے؟

جواب: کلماتِ اقامت مثلِ اذان کے ہیں ماسوائے اس فرق کے کہ اقامت میں حَیَّ عَلَی الْفَلاَح کے بعد قَدْ قَامَتِ الصَّلٰوۃُ کے الفاظ دو بار کہیں اور یہ کہتے ہوئے آواز کچھ اونچی ہو مگر اتنی نہیں جتنی اذان میں ہوتی ہے بلکہ اتنی ہو کہ سب حاضرین تک پہنچ جائے۔ اقامت کے کلمات جلدی ادا کریں۔ درمیان میں سکتہ نہ کریں، کانوں پر ہاتھ رکھیں نہ انگلیاں ڈالیں۔ صبح کی نماز کی اقامت میں الصَّلٰوۃ خَیْرٌ مِّنَ النَّوْمِ کا اضافہ نہ کرے۔ اقامت مسجد کے اندر کہی جائے، نمازی مسجد میںصفیں بنا کر بیٹھیں اور جب مکبر حَیَّ عَلَی الصَّلٰوةِ کہے تو امام اور سب نمازی کھڑے ہوں۔ پہلے کھڑے ہو کر انتظار کرنا خلافِ سنت ہے۔

سوال نمبر 82: اذان اور اقامت کے درمیان کتنا دورانیہ ہونا چاہئے؟

جواب: اذان کہتے ہی اقامت کہہ دینا مکروہ ہے۔ مؤذن کے لیے سنت یہ ہے کہ اذان اور اقامت کے درمیان افضل وقت کا لحاظ رکھتے ہوئے اتنی دیر ٹھہر جائے کہ جو لوگ پابندی سے مسجد میں نماز پڑھتے ہیں وہ آجائیں مگر اتنا انتظار بھی نہ کیا جاے کہ وقت کراہت آجائے۔ مغرب کی نماز میں اقامت کے لیے دیر نہیں کرنا چاہیے بلکہ اذان اور اقامت کا درمیانی وقفہ بہت مختصر ہونا چاہیے یعنی اتنا ہو کہ اس دوران تین آیات پڑھی جا سکیں۔

سوال نمبر 83: کیا شرع کی رُو سے نومولود کے کانوں میں اذان دینا جائز ہے؟

جواب: جی ہاں! شرع کی رُو سے نومُولودکے کانوں میں اذان دینا جائز اور مسنون عمل ہے۔ حدیثِ مبارکہ میں ہے:

’’حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے حضور نبی اکرم ﷺ کو حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہما کے کان میں نماز جیسی اذان کہتے ہوئے سنا ہے۔‘‘

ابوداود، السنن، کتاب الأدب، باب فی الصبی یولد فیؤذن فی أذنہ، 4: 328، رقم: 5105

بچوں کو اِسلامی تعلیمات سے شناسا کرنے اور اُنہیں اِسلامی آدابِ زندگی سکھانا ماں باپ کا فرض اَوّلین ہے۔ بچے کے کان میں اذان کہنے کا مقصد بھی یہی ہے کہ ایک تو بچے کے کان میں سب سے پہلے ذکر اِلٰہی کی آواز پہنچتی ہے، دوسرا اذان سے شیطان بھاگتا ہے اور بچہ شیطان کے شر سے محفوظ رہتا ہے۔ گویا جب نومولود اذان کی صورت میں عشق اِلٰہی کا ترانہ سنتا ہے تو پیدائش کے وقت سے ہی اس آفاقی حکم سے مانوس ہوجاتا ہے جو زندگیوں میں انقلاب لانے کے لئے بھیجا گیا۔

بچے کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اِقامت کہی جاتی ہے۔ اِس کا ایک فائدہ یہ ہوتا ہے کہ یہ اذان نہ صرف بچے بلکہ اس کی ماں کے لیے بھی برکت کا باعث بنتی ہے۔

امام حسین رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

’’جس کے ہاں بچے کی ولادت ہو تو وہ اس کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اِقامت کہے، اس کی برکت سے بچے کی ماں کو کوئی چیز نقصان نہ پہنچا سکے گی۔‘‘

ابو یعلی، المسند، 12: 150، رقم: 6780

Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved