خدمت دین کی اہمیت و فضیلت

آخری زمانہ میں امت محمدی ﷺ کی فضیلت

فَضْلُ آخِرِ الأُمَّةِ الْمُحَمَّدِيَةِ

{آخری زمانے میں اُمتِ محمدی کی فضیلت}

اَلْآيَاتُ الْقُرْآنِيَةُ

(1) وَکَذٰلِکَ جَعَلْنٰـکُمْ اُمَّةً وَّسَطًا لِّتَکُوْنُوْا شُهَدَآءَ عَلَی النَّاسِ وَيَکُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَيْکُمْ شَهِيْدًا ط وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَةَ الَّتِيْ کُنْتَ عَلَيْهَآ اِلَّا لِنَعْلَمَ مَنْ يَتَّبِعُ الرَّسُوْلَ مِمَّنْ يَنْقَلِبُ عَلٰی عَقِبَيْهِ ط وَاِنْ کَانَتْ لَکَبِيْرَةً اِلَّا عَلَی الَّذِيْنَ هَدَی اللهُ ط وَمَا کَانَ اللهُ لِيُضِيْعَ اِيْمَانَکُمْ ط اِنَّ اللهَ بِالنَّاسِ لَرَءوْفٌ رَّحِيْمٌo

(البقرة، 2/ 143)

اور (اے مسلمانو!) اسی طرح ہم نے تمہیں (اعتدال والی) بہتر امت بنایا تاکہ تم لوگوں پر گواہ بنو اور (ہمارا یہ برگزیدہ) رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تم پر گواہ ہو، اور آپ پہلے جس قبلہ پر تھے ہم نے صرف اس لیے مقرر کیا تھا کہ ہم (پرکھ کر) ظاہر کر دیں کہ کون (ہمارے) رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پیروی کرتا ہے (اور) کون اپنے الٹے پاؤں پھر جاتا ہے، اور بے شک یہ (قبلہ کا بدلنا) بڑی بھاری بات تھی مگر ان پر نہیں جنہیں اللہ نے ہدایت (و معرفت) سے نوازا، اور اللہ کی یہ شان نہیں کہ تمہارا ایمان (یونہی) ضائع کردے، بے شک اللہ لوگوں پر بڑی شفقت فرمانے والا مہربان ہے۔

(2) کُنْتُمْ خَيْرَ اُمَّةٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللهِ ط وَلَوْ اٰمَنَ اَهْلُ الْکِتٰبِ لَکَانَ خَيْرًا لَّهُمْ ط مِنْهُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ وَاَکْثَرُهُمُ الْفٰسِقُوْنَo

(آل عمران، 3/ 110)

تم بہترین اُمّت ہو جو سب لوگوں (کی رہنمائی) کے لیے ظاہر کی گئی ہے، تم بھلائی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے منع کرتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو، اور اگر اہلِ کتاب بھی ایمان لے آتے تو یقینا ان کے لیے بہتر ہوتا، ان میں سے کچھ ایمان والے بھی ہیں اور ان میں سے اکثر نافرمان ہیں۔

(3) هُوَ الَّذِيْ بَعَثَ فِی الْاُمِّيّنَ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ يَتْلُوْا عَلَيْهِمْ اٰيٰـتِهِ وَيُزَکِّيْهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَةَ ق وَاِنْ کَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِيْ ضَلٰـلٍ مُّبِيْنٍo وَاٰخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوْا بِهِمْ ط وَهُوَ الْعَزِيْزُ الْحَکِيْمُo ذٰلِکَ فَضْلُ اللهِ يُؤْتِيْهِ مَنْ يَشَآءُ ط وَاللهُ ذُوالْفَضْلِ الْعَظِيْمِo

(الجمعة، 62/ 2-4)

وہی ہے جس نے ان پڑھ لوگوں میں انہی میں سے ایک (با عظمت) رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھیجا وہ اُن پر اُس کی آیتیں پڑھ کر سناتے ہیں۔ اور اُن (کے ظاہر و باطن) کو پاک کرتے ہیں اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتے ہیں بے شک وہ لوگ اِن (کے تشریف لانے) سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے۔ اور اِن میں سے دوسرے لوگوں میں بھی (اِس رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تزکیہ و تعلیم کے لیے بھیجا ہے) جو ابھی اِن لوگوں سے نہیں ملے (جو اس وقت موجود ہیں یعنی اِن کے بعد کے زمانہ میں آئیں گے)، اور وہ بڑا غالب بڑی حکمت والا ہے۔ یہ (یعنی اس رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد اور ان کا فیض و ہدایت) اللہ کا فضل ہے وہ جسے چاہتا ہے اس سے نوازتا ہے، اور اللہ بڑے فضل والا ہے۔

اَلْأَحَادِيْثُ النَّبَوِيَةُ

41. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم : وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ، لَيَأْتِيَنَّ عَلٰی أَحَدِکُمْ يَوْمٌ وَلَا يَرَانِي، ثُمَّ لَأَنْ يَرَانِي أَحَبُّ إِلَيْهِ مِنْ هْلِهِ وَمَالِهِ مَعَهُمْ.

مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ وَاللَّفْظُ لِمُسْلِمٍ.

41: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب المناقب، باب علامات النبوة في الإسلام، 3/ 1315، الرقم/ 3394، ومسلم في الصحيح، کتاب الفضائل، باب فضل النظر إليه صلی الله عليه وآله وسلم وتمنيه، 4/ 1836، الرقم/ 2364، وأحمد بن حنبل في المسند، 2/ 449، 504، الرقم/ 9793، 10558، وابن حبان في الصحيح، 15/ 167، الرقم/ 6765.

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اُس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جان ہے! تم لوگوں پر ایک دن ایسا ضرور آئے گا کہ تم مجھے دیکھ نہیں سکو گے لیکن میرا دیدار کرنا (اس وقت) ہر مومن کے نزدیک اس کے اہل و عیال اور مال سے زیادہ محبوب ہو گا۔

یہ حدیث متفق علیہ ہے اور یہ الفاظ مسلم کے ہیں۔

وَفِي رِوَايَةٍ عَنْهُ: أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: مِنْ أَشَدِّ أُمَّتِي لِي حُبًّا نَاسٌ يَکُوْنُوْنَ بَعْدِي. يَوَدُّ أَحَدُهُمْ لَوْ رَآنِي بِهْلِهِ وَمَالِهِ.

رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ.

(1) أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الجنة وصفة نعيمها وأهلها، باب فيمن يود رؤية النبی صلی الله عليه وآله وسلم بأهله وماله، 4/ 2178، الرقم/ 2832، وأحمد بن حنبل في المسند، 2/ 417، الرقم/ 9388، وابن حبان في الصحيح، 16/ 214، الرقم/ 7231، وابن عبد البر في التمهيد، 20/ 248، والديلمي عن أبي ذر رضي الله عنه في مسند الفردوس، 1/ 202، الرقم/ 809.

ایک اور روایت میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہی بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میری اُمت میں سے میرے ساتھ شدید محبت کرنے والے وہ لوگ ہیں جو میرے بعد آئیں گے۔ ان میں سے ہر ایک کی تمنا یہ ہوگی کہ کاش وہ اپنے سب اہل و عیال اور مال و اسباب کے بدلے میں میری زیارت کر لیں۔

اِس حدیث کو امام مسلم اور احمد نے روایت کیا ہے۔

وَفِي رِوَايَةِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحَضْرَمِيِّ قَالَ: أَخْبَرَنِي مَنْ سَمِعَ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ: إِنَّ مِنْ أُمَّتِي قَوْمًا يُعْطَوْنَ مِثْلَ أُجُوْرِ أَوَّلِهِمْ فَيُنْکِرُوْنَ الْمُنْکَرَ.

رَوَاهُ أَحْمَدُ.

أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 4/ 62، الرقم/ 16643، وأيضًا، 5/ 375، الرقم/ 23229، والهيثمي في مجمع الزوائد، 7/ 261، 271، والمناوي في فيض القدير، 2/ 536، والسيوطي في مفتاح الجنة، 1/ 68.

ایک روایت میں حضرت عبدا لرحمن حضرمی بیان کرتے ہیں: مجھے اس نے خبر دی جس نے حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: بے شک میری اُمت میں ایک قوم ایسی ہے جس کو پہلے لوگوں کے اجر و ثواب کی طرح کا اجر دیا جائے گا۔ وہ برائی سے منع کرنے والے ہوں گے۔

اس حدیث کو امام احمد نے روایت کیا ہے۔

وَفِي رِوَايَةٍ عَنْهُ: قَالَ: حَدَّثَنِي مَنْ سَمِعَ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ: إِنَّهُ سَيَکُوْنُ فِي آخِرِ هَذِهِ الْأُمَّةِ قَوْمٌ لَهُمْ مِثْلُ أَجْرِ أَوَّلِهِمْ. يَأْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَيُقَاتِلُوْنَ هْلَ الْفِتَنِ.

رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ وَذَکَرَهُ السَّيُوْطِيُّ.

أخرجه البيهقي في دلائل النّبوّة، 6/ 513، وذکره السّيوطي في مفتاح الجنة، 1/ 68، والهندي في کنز العمال، 14/ 72، الرقم/ 38240.

ایک اور روایت میں حضرت عبد الرحمن بن علاء حضرمی رضی اللہ عنہ ہی بیان کرتے ہیں: مجھے اُس شخص نے بتایا جس نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: بے شک اس اُمت کے آخر میں ایسے لوگ ہوں گے جن کے لیے اجر اس اُمت کے اولین کے برابر ہو گا۔ وہ نیکی کا حکم دیں گے اور برائی سے روکیں گے اور فتنہ پرور لوگوںسے جہاد کریں گے۔

اِس حدیث کو امام بیہقی نے روایت کیا ہے اور سیوطی نے ذکر کیا ہے۔

وَفِي رِوَايَةِ أَبِي أُمَامَةَ رضي الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: طُوْبٰی لِمَنْ رَآنِي وَآمَنَ بِي، وَطُوْبٰی سَبْعَ مَرَّاتٍ لِمَنْ لَمْ يَرَنِي وَآمَنَ بِي.

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَأَبُو يَعْلٰی وَابْنُ حِبَّانَ.

أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 5/ 257، الرقم/ 22268، وابن حبان في الصحيح، 16/ 216، الرقم/ 7233، ولی عن أنس بن مالک رضي الله عنه في المسند، 6/ 119، الرقم/ 3391، والطيالسي في المسند، 1/ 252، الرقم/ 1845، والطبراني في المعجم الکبير، 8/ 259، الرقم/ 8009، وأيضًا في المعجم الصغير، 2/ 104، الرقم/ 858، والبخاري في التاريخ الکبير، 2/ 27، الرقم/ 1576.

ایک روایت میں حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: خوشخبری اور مبارک باد ہو اس کے لیے جس نے مجھے دیکھا اور مجھ پر ایمان لایا، اور سات بار خوشخبری اور مبارک باد ہو اُس کے لیے جس نے مجھے نہیں دیکھا اور مجھ پر ایمان لایا۔

اس حدیث کو امام احمد، لی اور ابنِ حبان نے روایت کیا ہے۔

وَفِي رِوَايَةِ أَبِي جُمُعَةَ رضي الله عنه قَالَ: تَغَدَّيْنَا مَعَ رَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم وَمَعَنَا أَبُوْ عُبَيْدَةَ بْنُ الْجَرَّاحِ. قَالَ: قَالَ: يَا رَسُوْلَ اللهِ، هَلْ أَحْدٌ خَيْرٌ مِنَّا؟ أَسْلَمْنَا مَعَکَ وَجَاهَدْنَا مَعَکَ. قَالَ: نَعَمْ، قَوْمٌ يَکُوْنُوْنَ مِنْ بَعْدِکُمْ. يُؤْمِنُوْنَ بِي وَلَمْ يَرَوْنِي.

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالدَّارِمِيُّ وَالطَّبَرَانِيُّ. وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ: رِجَالُهُ ثِقَاتٌ.

أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 4/ 106، الرقم/ 17017، والدارمي في السنن، 2/ 398، الرقم/ 2744، ولی في المسند، 3/ 128، الرقم/ 1559، والطبراني في المعجم الکبير، 4/ 22، 23، الرقم/ 3537، 3541، وابن منده في الإيمان، 1/ 372، الرقم/ 210، وذکره الهيثمي في مجمع الزوائد، 10/ 66، والخطيب التبريزي في مشکاة المصابيح، 3/ 1771، الرقم/ 6291.

ایک روایت میں حضرت ابو جمعہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: ہم نے ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ دن کا کھانا کھایا۔ ہمارے ساتھ ابو عبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ بھی تھے۔ اُنہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہم سے بھی کوئی بہتر ہو گا؟ ہم آپ کی معیت میں ایمان لائے، اور آپ ہی کی معیت میں ہم نے جہاد کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہاں، وہ لوگ جو تمہارے بعد آئیں گے، وہ مجھ پر ایمان لائیں گے حالانکہ اُنہوں نے مجھے دیکھا بھی نہیں ہو گا (وہ اِس جہت سے تم سے بھی بہتر ہوں گے)۔

اس حدیث کو امام احمد، دارمی اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔ ہیثمی نے کہا ہے کہ اس کے راوی ثقہ ہیں۔

وَفِي رِوَايَةِ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم : إِنَّ أُنَاسًا مِنْ أُمَّتِي يَأْتُوْنَ بَعْدِي. يَوَدُّ أَحَدُهُمْ لَوِ اشْتَرَی رُؤْيَتِي بِهْلِهِ وَمَالِهِ.

رَوَاهُ الْحَاکِمُ. وَقَالَ الْحَاکِمُ: هٰذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ.

أخرجه الحاکم في المستدرک، 4/ 95، الرقم/ 6991، وذکره الهندي في کنز العمال، 12/ 75، الرقم/ 34493، والمناوي في فيض القدير، 2/ 432، والسيوطي في الخصائص الکبری، 2/ 255.

ایک روایت میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: یقینا میری اُمت میں میرے بعد ایسے لوگ بھی آئیں گے جن میں سے ہر ایک کی خواہش یہ ہوگی کہ وہ اپنے اہل و مال کے بدلے میری زیارت خرید لے (یعنی اپنے اہل و مال کی قربانی دے کر ایک مرتبہ مجھے دیکھ لے)۔

اس حدیث کو امام حاکم نے روایت کیا ہے، اور حاکم نے کہا ہے کہ اس حدیث کی سند صحیح ہے۔

وَفِي رِوَايَةِ عَمَرِو بْنِ شُعَيْبٍ عَنْ أَبِيْهِ عَنْ جَدِّهِ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ: أَيُّ الْخَلْقِ أَعْجَبُ إِلَيْکُمْ إِيْمَاناً؟ قَالُوْا: الْمَلاَئِکَةُ. قَالَ: وَمَا لَهُمْ لَا يُؤْمِنُوْنَ وَهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ! قَالُوْا: فَالنَّبِيُوْنَ. قَالَ: وَمَا لَهُمْ لَا يُؤْمِنُوْنَ وَالْوَحْيُ يَنْزِلُ عَلَيْهِمْ! قَالُوا: فَنَحْنُ. قَالَ: وَمَا لَکُمْ لاَ تُؤْمِنُوْنَ وَأَنَا بَيْنَ أَظْهُرِکُمْ! فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ: إِنَّ أَعْجَبَ الْخَلْقِ إِلَيَّ إِيْمَاناً لَقَوْمٌ يَکُوْنُوْنَ مِنْ بَعْدِي. يَجِدُوْنَ صُحُفاً فِيْهَا کِتَابٌ يُؤْمِنُوْنَ بِمَا فِيْهَ.

رَوَاهُ الْبَزَّارُ وَأَبُوْ يَعْلٰی وَالْحَاکِمُ وَالطَّبَرَانِيُّ وَاللَّفْظُ لَهُ. وَقَالَ الْحَاکِمُ: هٰذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ.

أخرجه البزار في المسند، 1/ 413، الرقم/ 289، ولی عن عمر بن الخطاب رضي الله عنه في المسند، 1/ 147، الرقم/ 160، والحاکم في المستدرک، 4/ 96، الرقم/ 6993، والطبراني في المعجم الکبير، 12/ 87، الرقم/ 12560، وذکره الخطيب التبريزي في مشکاة المصابيح، 3/ 403، الرقم/ 6288.

ایک روایت میں حضرت عمرو بن شعیب رضی اللہ عنہ اپنے والد کے طریق سے اپنے دادا سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین سے) فرمایا: تمہارے نزدیک ایمان کے لحاظ سے کون سی مخلوق سب سے محبوب ترین ہے؟ اُنہوں نے عرض کیا: فرشتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: فرشتے کیوں ایمان نہ لائیں جبکہ وہ ہر وقت اپنے رب کی حضوری میں رہتے ہیں! اُنہوں نے عرض کیا: پھر انبیاء کرام f۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اور انبیاء کرام کیوں ایمان نہ لائیں جبکہ اُن پر وحی نازل ہوتی ہے! اُنہوں نے عرض کیا: تو پھر ہم (ہی ہوں گے)۔ فرمایا: تم ایمان کیوں نہیں لائو گے جب کہ خود میری ذات تم میں جلوہ افروز ہے! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: مخلوق میں میرے نزدیک پسندیدہ ترین ایمان ان لوگوں کا ہے جو میرے بعد پیدا ہوں گے۔ کئی کتابوں کو پائیں گے مگر (صرف میری) کتاب میں جو کچھ لکھا ہو گا (بِن دیکھے) اُس پر ایمان لائیں گے۔

اِس حدیث کو امام بزار، لی، حاکم اور طبرانی نے مذکورہ الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے۔ امام حاکم نے فرمایا: اِس حدیث کی اسناد صحیح ہے۔

Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved