تعلیم اور تعلم کی فضیلت و تکریم

علم حاصل کرنا نفل نماز سے بہتر ہے

طَلَبُ الْعِلْمِ أَفْضَلُ مِنَ صَـلَاةِ النَّافِلَةِ

{علم حاصل کرنا نفل نماز سے بہتر ہے}

  1. عَنْ أَبِي ذَرٍّ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ لِي رَسُوْلُ اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم: يَا أَبَا ذَرٍّ، لَأَنْ تَغْدُوَ فَتَعَلَّمَ آيَةً مِنْ کِتَابِ اﷲِ خَيْرٌ لَکَ مِنْ أَنْ تُصَلِّيَ مِاءَةَ رَکْعَةٍ، وَلَأَنْ تَغْدُوَ فَتَعَلَّمَ بَابًا مِنَ الْعِلْمِ عُمِلَ بِهِ أَوْ لَمْ يُعْمَلْ خَيْرٌ مِنْ أَنْ تُصَلِّيَ أَلْفَ رَکْعَةٍ.

رَوَاهُ ابْنُ مَاجَه. وَقَالَ الْمُنْذَرِيُّ: إِسْنَادُهُ حَسَنٌ.

أخرجه ابن ماجه في السنن، المقدمة، باب فضل من تعلم القرآن وعلمه، 1/ 79، الرقم/ 219، والديلمي في مسند الفردوس، 5/ 338، الرقم/ 8362، وذکره المنذري في الترغيب والترهيب، 1/ 54، الرقم/ 116، وأيضاً في 2/ 232، الرقم/ 2214، والکناني في مصباح الزجاجة، 1/ 29، الرقم/ 78.

حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے ارشاد فرمایا: اے ابو ذر! تم اس حال میں صبح کرو، کہ تم (رات بھر جاگ کر) اللہ تعاليٰ کی کتاب میں سے ایک آیت سیکھ لو تو یہ تمہارے لئے سو رکعات نفل پڑھنے سے بہتر ہے۔ تم اس حال میں صبح کرو، کہ (اس دوران) تم علم کا ایک باب سیکھ لو چاہے اس پر عمل کیا گیا ہو یا نہ کیا گیا ہو تو یہ تمہارے لئے ایک ہزار رکعت نوافل ادا کرنے سے بہتر ہے۔

اسے امام ابن ماجہ نے روایت کیا ہے اور امام منذری نے فرمایا ہے: اس کی سند حسن ہے۔

وَفِي رِوَايَةِ عَبْدِ اﷲِ بْنِ عَمْرٍو رضی الله عنهما قَالَ: خَرَجَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم ذَاتَ يَوْمٍ مِنْ بَعْضِ حُجَرِهِ فَدَخَلَ الْمَسْجِدَ. فَإِذَا هُوَ بِحَلْقَتَيْنِ: إِحْدَاهُمَا يَقْرَأُوْنَ الْقُرْآنَ وَيَدْعُوْنَ اﷲَ وَالْأُخْرٰی يَتَعَلَّمُونَ وَيُعَلِّمُوْنَ. فَقَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم: کُلٌّ عَلَی خَيْرٍ. هٰؤلَاءِ يَقْرَؤنَ الْقُرْآنَ وَيَدْعُوْنَ اﷲَ. فَإِنْ شَاءَ أَعْطَاهُمْ وَإِنْ شَاءَ مَنَعَهُمْ. وَهَؤلَاءِ يَتَعَلَّمُوْنَ وَيُعَلِّمُوْنَ. وَإِنَّمَا بُعِثْتُ مُعَلِّمًا. فَجَلَسَ مَعَهُمْ.

رَوَاهُ ابْنُ مَاجَه.

أخرجه ابن ماجه في السنن، المقدمة، باب فضل العلماء والحث علی طلب العلم، 1/ 83، الرقم/ 229، والدارمي في السنن، 1/ 111، الرقم/ 349، والطيالسی في المسند، 1/ 298، الرقم/ 2251، والبيهقي في المدخل إلی السنن الکبری، 1/ 306، الرقم/ 462، وابن المبارک في الزهد، 1/ 488، الرقم/ 1388.

ایک روایت میں حضرت عبد اﷲ بن عمرو رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: ایک روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے ایک حجرہ مبارک سے باہر تشریف لائے اور مسجد میں داخل ہوئے۔ وہاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (صحابہ l کے ) دو حلقے دیکھے۔ ایک حلقہ کے لوگ قرآن کی تلاوت کر رہے تھے اور اللہ سے دعا مانگ رہے تھے اور دوسرے حلقہ کے لوگ تعلیم و تعلم میں مصروف تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: یہ دونوں نیکی کا کام سر انجام دے رہے ہیں۔ اس حلقہ والے قرآن پڑھ رہے ہیں اور اللہ تعاليٰ سے دعا کر رہے ہیں۔ وہ اگر چاہے تو انہیں عطا فرما دے اور اگر چاہے تو عطا نہ فرمائے۔ دوسرے حلقہ والے لوگ تعلیم و تعلم میں مشغول ہیں۔ اور میں معلم بنا کر ہی مبعوث کیا گیا ہوں۔ (یہ فرما کر) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان (تعلیم و تعلم والے اصحاب) کے ساتھ تشریف فرما ہوگئے۔

اسے امام ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔

وَفِي رِوَايَةِ أَبِي ذَرٍّ وَأَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنهما قَالَا: بَابٌ مِنَ الْعِلْمِ يَتَعَلَّمُهُ أَحَبُّ إِلََيْنَا مِنْ أَلْفِ رَکْعَةٍ تَطَوُّّعٍ.... وَقَالَا: قَالَ رَسُولُ اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم: إِذَا جَاءَ الْمَوتُ طَالِبَ الْعِلْمِ وَهُوَ عَلَی تِلْکَ الْحَالِ مَاتَ شَهِيْدًا.

رَوَاهُ ابْنُ عَبْدِ الْبَرِّ.

أخرجه ابن عبد البر في جامع بيان العلم وفضله، 1/ 25، وابن عساکر في تاريخ دمشق ، 67/ 367، وذکره المنذري في الترغيب والترھيب، 1/ 54، الرقم/ 115، والهيثمي في مجمع الزوائد، 1/ 124.

ایک دوسری روایت میں حضرت ابو ذر اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: کسی آدمی کا علم کا ایک باب سیکھنا ہمارے نزدیک ایک ہزار رکعت نوافل پڑھنے سے زیادہ محبوب ہے۔… (حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اور حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ) دونوں بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جب طالب علم کو موت آئے اور وہ اسی (حصول علم میں مصروفیت کی) حالت میں ہو تو اس کی موت شہید کی موت ہے۔

اسے امام ابن عبد البر نے روایت کیاہے۔

وَفِي رِوَايَةٍ عَنْهُمَا رضی الله عنهما قَالَا: لَأَنْ أَعْلَمَ بَابًا مِنَ الْعِلْمِ فِي أَمْرٍ وَنَهْیٍ أَحَبُّ إِلَيَ مِنْ سَبْعِينَ غَزْوَةً فِی سَبِيلِ اﷲِ عَزَّ وَجَلَّ.

رَوَاهُ الْخَطِيْبُ.

أخرجه الخطيب البغدادي في الفقيه والمتفقه، 1/ 102، وابن القيم في مفتاح دار السعادة، 1/ 118.

ایک روایت میںحضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: اوامر و نواہی کے علم کا ایک باب سیکھنا مجھے اللہ تعاليٰ کی راہ میں لڑے گئے ستر غزوات سے زیادہ پسندیدہ ہے۔

اِسے خطیب بغدادی نے روایت کیا ہے۔

  1. عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم: تَعَلَّمُوا الْعِلْمَ، فَإِنَّ تَعَلُّمَهُ ِﷲِ خَشْيَةٌ، وَطَلَبَهُ عِبَادَةٌ، وَمُذَاکَرَتَهُ تَسْبِيْحٌ، وَالْبَحْثَ عَنْهُ جِهَادٌ، وَتَعْلِيْمَهُ لِمَنْ لَا يَعْلَمُهُ صَدَقَةٌ، وَبَذْلَهُ لِأَهْلِهِ قُرْبَةٌ، لِأَنَّهُ مَعَالِمُ الْحَلَالِ وَالْحَرَامِ.

رَوَاهُ ابْنُ عَبْدِ الْبَرِّ وَالدَّيْلَمِيُّ.

أخرجه ابن عبد البر في جامع بيان العلم وفضله، 1/ 115، الرقم/ 202، والديلمي في مسند الفردوس، 2/ 41، الرقم/ 2237، وذکره المنذري في الترغيب والترھيب، 1/ 52، الرقم/ 107، وابن رجب الحنبلي في جامع العلوم والحکم، 1/ 235، والحاجي خليفة في کشف الظنون، 1/ 18.

حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: علم حاصل کرو، کیونکہ اللہ تعاليٰ کی رضا کے لئے علم سیکھنا خوف اِلٰہی پیدا کرتا ہے، اور اس کا طلب کرنا عبادت ہے، اور اس کا مذاکرہ تسبیح ہے اور اس کی جستجو میںلگے رہنا جہاد ہے۔ بے علم کو علم سکھانا صدقہ ہے اور جو اس کا اہل ہو اس پر خرچ کرنا (اللہ کی) قربت کا باعث ہے، کیونکہ حلال و حرام کا فہم حاصل کرنے کے لیے علم نشانِ راہ ہے۔

اسے امام ابن عبد البر اور دیلمی نے روایت کیا ہے۔

وَفِي رِوَايَةِ أَنَسٍ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم: خَيْرُ دِيْنِکُمُ السُّنَنُ وَخَيْرُ الْعِبَادَةِ الْفِقْهُ.

رَوَاهُ الدَّيْلَمِيُّ.

أخرجه الديلمي في مسند الفردوس، 2/ 175، الرقم/ 2876.

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تمہارے دین کا بہترین حصہ سنن ہیں اور بہترین عبادت فقہ (دین کی سمجھ بوجھ حاصل کرنا) ہے۔

اسے امام دیلمی نے روایت کیا ہے۔

مَا رُوِيَ عَنِ الأَئِمَّةِ مِنَ السَّلَفِ الصَّالِحِيْنَ

عَنِ الْحَسَنِ، قَالَ: لَأَنْ أَتَعَلَّمَ بَابًا مِنَ الْعِلْمِ، فَأُعَلِّمُهُ مُسْلِمًا أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ تَکُوْنَ لِي الدُّنْيَا کُلُّهَا، أَجْعَلُهَا فِي سَبِيْلِ اﷲِ تَعَالٰی.

رَوَاهُ الْخَطِيْبُ.

أخرجه الخطيب البغدادي في الفقيه والمتفقه، 1/ 102.

حضرت حسن بصری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: میں علم کا کوئی باب پہلے خود سیکھوں اور پھر دیگر مسلمانوں کو سکھاؤں، یہ مجھے اس سے زیادہ پسندیدہ ہے کہ میرے پاس پوری دنیا (کا مال و اَسباب) ہو اور میں اُسے اللہ تعاليٰ کی راہ میں خرچ کروں۔

اِسے خطیب بغدادی نے روایت کیا ہے۔

عَنْ قَتَادَةَ رضی الله عنه، قَالَ: بَابٌ مِنَ الْعِلْمِ يَحْفَظُهُ الرَّجُلُ لِصَـلَاحِ نَفْسِهِ وَصَلَاحِ مَنْ بَعْدَهُ أَفْضَلُ مِنْ عِبَادَةِ حَوْلٍ.

رَوَاهُ ابْنُ الْجَعْدِ وَأَبُو نُعَيْمٍ.

أخرجه ابن الجعد في المسند، 1/ 163، الرقم/ 1047، وأبونعيم في حلية الأولياء، 2/ 341، وذکره الذهبي في سير أعلام النبلاء، 5/ 275، وابن جوزي في صفوة الصفوة، 3/ 259.

حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: علم کا ایک باب، جسے آدمی اپنے نفس کی اِصلاح اوراپنے بعد آنے والے لوگوں کی اِصلاح کے لئے یاد کرلے، ایک سال کی عبادت سے افضل ہے۔

اس کو ابن جعد اور ابونعیم نے روایت کیا ہے۔

عَنْ إِبْرَاهِيْمُ بْنُ هَانِيئٍ، قَالَ: قُلْتُ: لِأَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ: أَيُّ شَيْئٍ أَحَبُّ إِلَيْکَ، أَجْلِسُ بِاللَّيْلِ أَنْسَخُ، أَوْ أُصَلِّي تَطَوُّعًا؟ قَالَ: إِذَا کُنْتَ تَنْسَخُ، فَأَنْتَ تَعَلَّمُ بِهِ أَمْرَ دِيْنِکَ، فَهُوَ أَحَبُّ إِلَيَّ.

رَوَاهُ الْخَطِيْبُ.

أخرجه الخطيب البغدادي في الفقيه والمتفقه، 1/ 104.

حضرت ابراہیم بن ہانی بیان کرتے ہیں: میں نے امام احمد بن حنبل سے عرض کیا: آپ کو ان دونوں میں کون سی شے زیادہ محبوب ہے: رات بھر بیٹھ کر علم کی کتابت کرنا یا نفل نماز ادا کرنا؟ اُنہوں نے کہا: اگر تُو (علم کی کوئی بات) لکھتا ہے تو اس کے ذریعے اپنے دین کی کوئی بات سیکھتا ہے، لهٰذا مجھے یہ اَمر زیادہ محبوب ہے۔

اسے خطیب بغدادی نے بیان کیا ہے۔

وَفِي رِوَايَةِ الرَّبِيْعِ يَقُوْلُ: سَمِعْتُ الشَّافِعِيَّ يَقُوْلُ: طَلَبُ الْعِلْمِ أَفْضَلُ مِنَ صَـلَاةِ النَّافِلَةِ.

رَوَاهُ الشَّافِعِيٌّ.

(1) أخرجه الشافعي في المسند، 1/ 249، والديلمي في مسند الفردوس، 2/ 438، الرقم/ 3910، وأبو نعيم في حلية الأولياء، 9/ 119، والبيهقي في المدخل إلی السنن الکبری، 1/ 310، الرقم/ 474، والبغوي في شرح السنة، 1/ 280.

حضرت ربیع سے مروی ہے، وہ بیان کرتے ہیں: میں نے حضرت امام شافعی کو فرماتے ہوئے سنا: علم حاصل کرنا نفلی نماز سے افضل ہے۔

اسے امام شافعی نے روایت کیا۔

کَانَ الإِمَامُ الشَّافِعِيُّ يَقُوْلُ: طَلَبُ الْعِلْمِ أَفْضَلُ مِنْ صَلَاةِ النَّافِلَةِ، وَکَانَ يَقُوْلُ: مَنْ أَرَادَ الآخِرَةَ فَعَلَيْهِ بِالإِخْلَاصِ فِي الْعِلْمِ.

الشعراني، الطبقات الکبری/ 77.

امام شافعی فرمایا کرتے تھے کہ علم حاصل کرنا نفلی نماز سے افضل ہے۔ آپ (یہ بھی) فرمایا کرتے: جو آخرت کی بہتری (بھلائی) کا ارادہ رکھتا ہے اس کے لیے لازم ہے کہ وہ اخلاص کے ساتھ علم حاصل کرے۔

کَانَ الإِمَامُ سُفْيَانُ بْنُ سَعِيْدٍ الثَّوْرِيُّ يَقُوْلُ: لَيْسَ عَمَلٌ بَعْدَ الْفَرَاءِضِ أَفْضَلُ مِنْ طَلَبِ الْعِلْمِ.

رَوَاهُ أَبُوْ نُعَيْمٍ.

أخرجه أبو نعيم في حلية الأولياء، 6/ 363.

امام سفیان ثوری فرمایا کرتے تھے: فرائض کی ادائیگی کے بعد علم حاصل کرنے سے افضل کوئی عمل نہیں۔

اِسے امام ابو نعیم نے بیان کیا ہے۔

کَانَ الإِمَامُ سُفْيَانُ بْنُ سَعِيْدٍ الثَّوْرِيُّ يَقُوْلُ: إِنَّمَا يُطْلَبُ الْعِلْمُ لِيُتَّقٰی بِهِ اﷲُ تَعَالَی فَمِنْ ثَمَّ فُضِّلَ عَلَی غَيْرِهِ، وَلَوْ لَا ذٰلِکَ کَانَ کِسَاءِرِ الْأَشْيَاءِ.

ذَکَرَهُ الشَّعْرَانِيُّ فِي الطَّبَقَاتِ.

الشعراني، الطبقات الکبری/ 74.

امام سفیان ثوری فرمایا کرتے تھے: علم صرف اس لئے حاصل کیا جاتا ہے تاکہ اﷲ تعاليٰ کی نافرمانی سے بچا جائے۔ اسی لئے اسے دوسری چیزوں پر فضیلت دی گئی اور اگر ایسا نہ ہوتا تو پھر (حصولِ علم بھی) عام چیزوں کی طرح قرار پاتا۔

اسے امام شعرانی نے ’الطبقات الکبريٰ‘ میں بیان کیا ہے۔

Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved