دہشت گردی اور فتنہء خوارج (اردو)

فاسق حکومت کے خلاف قتال کی شرعی حیثیت

1۔ کفر صریح کے بغیر حکومت کے خلاف بغاوت کی ممانعت

یہ بات شرعی اعتبار سے واضح ہے کہ مسلمان حکومت کے خلاف، خواہ وہ فاسق ہی ہو، قتال اور مسلح جد و جہد جائز نہیں ہے جب تک وہ صراحتاً کفر کا اعلان نہ کرے یا ان حکمرانوں کے کافر ہوجانے پر صریح اور قطعی طور پر اجماع امت نہ ہو جائے یا وہ حلال کو حرام اور حرام کو حلال نہ کریں۔ مزید یہ کہ وہ حکماً اقامت صلاۃ سے روکیں اور معصیت پر اکسائیں۔ اسے حدیث مبارکہ میں کفرِبواح کہا گیا ہے، جیسا کہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی درج ذیل متفق علیہ حدیث مبارکہ سے ثابت ہوتا ہے :

حضرت جنادہ بن ابی امیہ سے روایت ہے :

دَخَلْنَا عَلَی عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ وَهُوَ مَرِيضٌ، قُلْنَا : أَصْلَحَکَ اﷲُ، حَدِّثْ بِحَدِيثٍ يَنْفَعُکَ اﷲُ بِهِ سَمِعْتَهُ مِنَ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم. قَالَ : دَعَانَا النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم فَبَايَعْنَاهُ. فَقَالَ : فِيْمَا أَخَذَ عَلَيْنَا أَنْ بَايَعَنَا عَلَی السَّمْعِ وَالطَّاعَةِ فِي مَنْشَطِنَا وَمَکْرَهِنَا وَعُسْرِنَا وَيُسْرِنَا وَأَثَرَةً عَلَيْنَا، وَأَنْ لَا نُنَازِعَ الْأَمْرَ أَهْلَهُ إِلَّا أَنْ تَرَوْا کُفْرًا بَوَاحًا عِنْدَکُمْ مِنَ اﷲِ فِيْهِ بُرْهَانٌ.

1. بخاري، الصحيح، کتاب الفتن، باب قول النبي صلی الله عليه وآله وسلم : سترون بعدي أمورا تنکرونها، 6 : 2588، رقم : 6647
2. مسلم، الصحيح، کتاب الإمارة، باب وجوب طاعة الأمراء في غير معصية وتحريمها في المعصية، 3 : 1470، رقم : 1709

’’ہم حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے جبکہ وہ بیمار تھے۔ ہم نے عرض کیا کہ اللہ تعاليٰ آپ کو صحت عطا فرمائے، ہم سے کوئی ایسی حدیث بیان فرمائیے جس کے ذریعے اللہ تعاليٰ آپ کو نفع دے اور وہ آپ نے خود حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنی ہو۔ انہوں نے فرمایا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں بلایا تو ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بیعت کی۔ چنانچہ بیعت لیتے وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہم سے اقرار لیا کہ آپ کا حکم مانیں گے اور اطاعت کریں گے، خوشی اور غمی میں، تنگی و کشادگی میں، خواہ ہمارے اوپر کسی کو بھی ترجیح دی جائے، اور اس بات پر کہ جس کو حکمرانی کا حق دیا گیا اس کے حقِ حکومت یعنی اتھارٹی کے خلاف خروج نہیں کریں گے سوائے اس صورت کے کہ اس کا کفرِ صریح واضح ہو جائے اور (اس معاملہ) میں تمہارے پاس اﷲ تعاليٰ کی طرف سے (مقرر کردہ) واضح اور قطعی دلیل ہو۔‘‘

کفر بواح کی تشریح میں محدّثین نے لکھا ہے کہ وہ اتنا واضح اور صریح ہو کہ اس کی تاویل کی گنجائش بھی نہ رہے۔

1۔ حافظ ابنِ حجر عسقلانی نے کفراً بوّاحًا کے بیان میں لکھا ہے :

ووقع عند الطبراني من رواية أحمد بن صالح عن ابن وهب فی هذا الحديث : ’’کفرًا صرّاحًا.‘‘

ابن حجر عسقلانی، فتح الباری، 13 : 8

’’احمد بن صالح کے طریق سے ابن وہب کی روایت کردہ امام طبرانی کی ایک اور حدیث میں کفرًا صراحًا (صریح کفر) کے الفاظ وارِد ہوئے ہیں۔‘‘

2۔ حافظ ابنِ حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ نے ہی ’’عِنْدَکُمْ مِنَ اﷲِ فِيْهِ بُرْهَانٌ‘‘  کی شرح یوں بیان کی ہے :

ومقتضه أنه لا يجوز الخروج عليهم ما دام فعلهم يحتمل التأويل.

ابن حجر عسقلانی، فتح الباری، 13 : 11

’’اس فرمان رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تقاضا ہے کہ حکومت وقت کے خلاف اس وقت تک خروج جائز نہیں ہے جب تک کہ ان کے عمل میں تاویل کی گنجائش رہے۔‘‘

یعنی خروج اس وقت جائز ہوگا جب حکومت کے کفر پر ایسا برہانِقاطع موجود ہو کہ اس باب میں کسی تاویل کی بھی گنجائش نہ رہے۔

3۔ حافظ ابن حجر نے مزید صراحت فرمائی ہے کہ :

قال ابن بطال : في الحديث حجة في ترک الخروج علی السلطان ولو جار.

ابن حجر عسقلانی، فتح الباری، 13 : 7

’’ابن بطال نے کہا : اس حدیث میں حکومت کے خلاف مسلح بغاوت کی ممانعت پر حجت پائی جاتی ہے خواہ وہ حکومت خود غیر منصفانہ ہی ہو۔‘‘

گویا حکومت کے غیر منصفانہ عمل و کردار کے باوجود مسلح بغاوت کی اجازت نہیں ہے۔ البتہ دیگر پرامن آئینی، جمہوری اور قانونی طریقوں سے اس کے خلاف نہ صرف آواز بلند کرنا جائز ہے بلکہ ہر ممکن کوشش اور جد و جہد بھی جائز اور واجب ہے۔

4۔ امام بدر الدین العینی ’’برہان‘‘ کی شرح میں لکھتے ہیں :

قوله : ’’برهان‘‘ أي : نص آية أو خبر صحيح لا يحتمل التأويل.

بدر الدين العينی، عمدة القاری، 16 : 33

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان ’’برھان (واضح دلیل)‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ نصِ آیت یا خبرِ صحیح کی بناء پر اس میں کسی تاویل کا احتمال نہ رہے۔‘‘

5۔ یہی موقف امام قسطلانی رحمۃ اللہ علیہ نے ’’ارشاد الساری‘‘ میں اختیار کیا ہے.

قسطلانی، إرشاد الساری، 15 : 9

6۔ مسالۃ الخروج علی ائمۃ الجور کے تحت علامہ شبیر احمد عثمانی بھی ’’فتح الملہم‘‘ میں یہی موقف بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

وبهذا الحديث استدل جمهور العلماء علی أنه لا يجوز الخروج علی السلطان الجائر أو الفاسق إلا أن يظهر منه کفر صريح.

عثمانی، فتح الملهم، 3 : 184

’’اس حدیث سے جمہور علماء نے استدلال کیا ہے کہ ظالم یا فاسق مسلمان حکومت کے خلاف بھی مسلح جدوجہد جائز نہیں تا آنکہ اس سے صریح کفر ظاہر ہو۔‘‘

2۔ مسلمانوں پر ہتھیار اٹھانا کفریہ عمل ہے

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہاں تک ارشاد فرمایا ہے کہ مسلمان پر ہتھیار اٹھانے والا امت مسلمہ میں سے ہی نہیں ہے۔ صحیح بخاری و صحیح مسلم میں حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

مَنْ حَمَلَ عَلَيْنَا السِّلَاحَ فَلَيْسَ مِنَّا.

1. بخاري، الصحيح، کتاب الفتن، باب قول النبی صلی الله عليه وآله وسلم : من حمل علينا السلاح فليس منا، 6 : 2591، رقم : 6659
2. مسلم، الصحيح، کتاب الإيمان، باب قول النبي صلی الله عليه وآله وسلم : من حمل علينا السلاح فليس منا، 1 : 98، رقم : 98
3. أحمد بن حنبل، المسند، 2 : 3، رقم : 4467
4. ترمذي، السنن، کتاب الحدود، باب ما جاء فيمن شهر السلاح، 4 : 59، رقم : 1459، (عن أبي موسی)
5. نسائي، السنن، کتاب تحريم الدم، باب من شهر سيفه ثم وضعه في الناس، 7 : 117، رقم : 4100
6. ابن ماجه، السنن، کتاب الحدود، باب من شهر السلاح، 2 : 860، رقم : 2575

’’جس شخص نے ہم مسلمانوں پر ہتھیار اٹھایا وہ ہم میں سے نہیں (یعنی ہماری اُمت سے خارج ہے)۔‘‘

درج بالا تفصیل سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ مسلم ریاست کے خلاف مسلح جدوجہد، بغاوت اور مسلمانوں پر ہتھیار اٹھانے کی اسلام میں نہ صرف یہ کہ قطعاً اجازت نہیں بلکہ ایسے اقدامات کی نوعیت کفریہ ہے۔ یہ عمل بغاوت، محاربت، جنگجوئی اور دہشت گردی کے زمرے میں آتا ہے۔ اسے اسلام نے فتنہ اور فساد فی الارض قرار دیا ہے۔ اس سے کبھی خیر نصیب نہیں ہوتی، یہ خانہ جنگی کا سبب بنتا ہے۔ لہٰذا دہشت گردی و بغاوت، اور اس کے برعکس ظلم و ناانصافی کے خلاف پر امن جدوجہد میں فرق ملحوظ رہنا چاہیے۔ اگر اس فرق و امتیاز پر گہری نظر رہے تو پھر احکام شریعت اور فقہی تصریحات و تشریحات سے کوئی مغالطہ پیدا نہیں ہوگا۔(1)

(1) مسلمانوں پر ہتھیار اٹھانے کی ممانعت کے موضوع پر تفصیلی دلائل باب دوم میں مذکور ہیں۔

3۔ فاسق حکومت تبدیل کرنے کا شرعی اور آئینی راستہ (ایک مغالطے کا ازالہ)

اگر اسلامی ریاست کے حکمران فاسق و فاجر اور ظالم و مستبد ہوں تو ایسی صورت میں بھی حکومت کے خلاف مسلح کارروائی کی اجازت نہیں۔ یہاں یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے معاذ اللہ فاسق یا ظالم حکومت کے خلاف مسلح بغاوت کو ممنوع قرار دے کر اسے اپنے ظلم و جبر، معصیت اور نا انصافی جاری رکھنے کا لائسنس نہیں دے دیا۔ ایسا کوئی مغالطہ یا بدگمانی ہرگز ذہنوں میں نہیں آنی چاہیے۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلام نے کسی بھی حکومت کی خراب اور غیر شرعی پالیسیوں، فاسقانہ طرزِ عمل اور غیر عادلانہ طریق کار کے خلاف ہر ممکن آواز بلند کرنے، حکومت پر تنقید کرنے اور اس کی اصلاح کے لیے دباؤ بڑھانے کی نہ صرف اجازت دی ہے بلکہ حکم دیا ہے۔ یہاں تک کہ اس کے لیے نصیحت قبول نہ کرنے اور اِصلاح پذیر نہ ہونے کی صورت میں اسے بدلنے کی اجازت بھی دی ہے۔ تاہم تبدیلی اقتدار کی جدوجہد کو خون خرابے سے بچانے کا حکم دیا ہے۔ ظالم و جابر حکمرانوں کے خلاف اعلائِ کلمہ حق کو جہاد قرار دینے کا مفہوم یہی ہے۔ مگر کلمہ حق کہنے یا برائی کو ہاتھ سے روکنے کی آڑ میں ہتھیار اُٹھا کر لوگوں کا قتل عام کسی صورت میں جائز عمل نہیں بن سکتا۔

1۔ مسند احمد بن حنبل، ترمذی، ابوداؤد، نسائی، ابن ماجہ اور دیگر کتب حدیث میں حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

ان أفضل الجهاد کلمة حق عند سلطان جائر.

1. احمد بن حنبل، المسند، 3 : 19، رقم : 11159
2. ترمذي، السنن، کتاب الفتن، باب ما جاء أفضل الجهاد کلمة عدل عند سلطان جائر، 4 : 471، رقم : 2174
3. ابوداؤد، السنن، کتاب الملاحم، باب الأمر و النهی، 4 : 124، رقم : 4324
4. نسائی، السنن، کتاب البيعة، باب من تکلم بالحق عند امام جائر، 7 : 161، رقم : 1209
5. ابن ماجه، السنن، کتاب الفتن، باب الأمر بالمعروف والنهی عن المنکر، 2 : 1329، رقم : 4011

’’سب سے بڑا جہاد ظالم بادشاہ کے سامنے کلمہ حق بلند کرنا ہے۔‘‘

یہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے تحت فریضۂ دین ہے، اس سے قطعاً منع نہیں کیا گیا۔ بلکہ ایسا نہ کرنے والوں کو ظالم اور مجرم گردانا گیا ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ اسلام نے اس تمام جد و جہد کے لیے فقط آئینی، قانونی، شرعی اور جمہوری طریقے اپنانے کا حکم دیا ہے اور یہ پابندی عائد کی ہے کہ پوری جد و جہد پرامن رہے۔ احادیث صحیحہ میں جس امر کی ممانعت وارد ہوئی ہے وہ صرف قتال، مسلح بغاوت اور دہشت گردی ہے۔ اپنی بات منوانے کے لیے ہتھیار اٹھانا، خون خرابہ کرنا، دہشت گردی کا ارتکاب کرنا، ملک کے بعض حصوں پر قبضہ کر کے جنگ اور قتل عام کرنا کلیتاً ممنوع بلکہ حرام اور کفریہ افعال ہیں۔ قتال اور فتنہ انگیزی سے امت میں انتشار اور انارکی (anarchy) پیدا ہوتی ہے، نتیجتاً بیرونی طاقتوں کو ایسی مسلم ریاستوں میں در اندازی کا موقع مل جاتا ہے۔ اس لئے شریعت نے بہر صورت بغاوت کو روکنے کا حکم دیا ہے۔

مندرجہ بالا وضاحت کو ذہن نشین رکھتے ہوئے اس بارے میں مزید ارشادات نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ملاحظہ ہوں :

2۔ امّ المؤمنین حضرت امّ سلمہ رضی اﷲ عنہا بیان کرتی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

إِنَّهُ يُسْتَعْمَلُ عَلَيْکُمْ أُمَرَاءُ، فَتَعْرِفُوْنَ وَتُنْکِرُوْنَ، فَمَنْ کَرِهَ فَقَدْ بَرِيءَ، وَمَنْ أَنْکَرَ فَقَدْ سَلِمَ، وَلَکِنْ مَنْ رَضِيَ وَتَابَعَ. قَالُوْا : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، أَلَا نُقَاتِلُهُمْ؟ قَالَ : لَا مَا صَلَّوْا. أَي مَنْ کَرِهَ بِقَلْبِهِ وَأَنْکَرَ بِقَلْبِهِ.

1. مسلم، الصحيح، کتاب الإمارة، باب وجوب الإنکار علی الأمراء فيما يخالف الشرع، 3 : 1481، رقم : 1854
2. أبو عوانة، المسند، 4 : 417، 418، رقم : 7162

’’تم پر ایسے امیر مقرر کیے جائیں گے جن میں تم اچھائیاں بھی دیکھو گے اور برائیاں بھی۔ سو جو ان کے بُرے کام کو ناپسند کرے وہ ذمہ داری سے تو بَری ہو جائے گا مگر جو اس کو مسترد کر دے گا وہ سلامت رہے گا، البتہ جو شخص ان کو پسند کرے گا اور ان کی اتباع کرے گا (وہ سلامت نہیں رہے گا اور بَری بھی نہیں ہو گا)۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا : یا رسول اللہ! کیا ہم ان سے قتال (یعنی جنگ) نہ کریں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : نہیں، جب تک وہ نماز پڑھتے ہیں (یعنی مسلمان ہیں تم اس وقت تک ان سے قتال نہیں کر سکتے)۔ برا جاننے سے قلبی طور پر ان سے نفرت کرنا اور مسترد کرنے سے کلیتاً مسترد کر دینا مراد ہے۔‘‘

قاضی عیاض ’’إکمال المعلم‘‘ میں اس حدیث کی شرح کرتے ہو ئے فرماتے ہیں :

وقوله : أفلا نقاتلهم؟ قال : ’’لا، ما صلوا‘‘ علی ما تقدم من منع الخروج علی الأئمة، والقيام عليهم ما داموا علی کلمة الإسلام، ولم يظهروا کفراً بينا، وهو الإشارة هاهنا : ’’ما صلوا‘‘، أي ما کان لهم حکم أهل القبلة والصلاة، ولم يرتدوا و يبدلوا الدين ويدعوا إلی غيره. والإشارة أيضًا بقوله : ’’عبدًا حبشيًا يقودکم بکتاب اﷲ، أي بالإسلام وحکم کتاب اﷲ وإن جار.

قاضی عياض، إکمال المعلم بفوائد مسلم، 6 : 264، 265

’’صحابی کا قول کہ أفلا نقاتلهم؟ (کیا ہم ان سے قتال نہ کریں؟) اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان ۔ لا، ما صلوا (نہیں، جب تک وہ نماز پڑھتے ہیں)، جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے۔ میں حکومتِ وقت کے خلاف مسلح بغاوت سے اُس وقت تک رکے رہنے کا حکم ہے جب تک وہ کلمہ اسلام پر ہوں اور واضح طور پر کفر کو ظاہر نہ کریں۔ یہی اشارہ یہاں ’’ما صلوا‘‘ میں پنہاں ہے یعنی جب تک ان کے لئے اہل قبلہ اور اہل نماز ہونے کا حکم باقی ہے اور جب تک وہ مرتد نہیں ہوئے اور انہوں نے دین کو نہیں بدلا اور دین سے ہٹ کر کوئی دعوت نہیں دی۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس فرمان سے بھی یہی اشارہ ملتا ہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’بے شک کوئی حبشی غلام ہی کتاب اللہ کے ساتھ تمہاری قیادت کرے‘‘ یعنی اسلام کے ساتھ اور کتاب اﷲ کے حکم کے ساتھ، اگرچہ وہ ظالم ہی ہو (تب بھی تمہیں اُس کے خلاف بغاوت کی اجازت نہیں)۔‘‘

قاضی عیاض آگے چل کر مزید وضاحت کرتے ہیں :

وقوله صلی الله عليه وآله وسلم : ’’ولکن من رضي وتابع‘‘ معناه : ولکن الإثم والعقوبة علی من رضي وتابع، وفيه دليل علی أن من عجز عن إزالة المنکر، لا يأثم بمجرد السکوت، بل إنما يأثم بالرضی به، أو بأن لا يکرهه بقلبه، أو بالمتابعة عليه.

وأما قوله : أفلا نقاتلهم؟ قال : ’’لا ما صلوا‘‘ ففيه معنی ما سبق، أنه لا يجوز الخروج علی الخلفاء بمجرد الظلم أو الفسق ما لم يغيروا شيئاً من قواعد الإسلام.

قاضی عياض، إکمال المعلم بفوائد مسلم، 6 : 264

’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان ولکن من رضي و تابع کا معنی ہے کہ ’’گناہ اور سزا اس پر ہے جو ان کے غلط کاموں سے راضی ہوا اور اُس نے ان کی غلط کاریوں کی پیروی کی‘‘ اور اس میںدلیل اس چیز پر ہے کہ جو شخص برا ئی کو ختم کرنے سے عاجز آگیا، وہ محض خاموشی سے گنہگار نہیں ہو گا، بلکہ اس برائی پر راضی ہونے سے گنہگار ہو گا یا اس کو دل میں برا نہ جاننے سے یا اس کی پیروی کرنے سے قصوروار ٹھرے گا۔

’’اور صحابی کے قول أفلا نقاتلهم (کیا ہم ان سے قتال نہ کریں)؟ کے جواب میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان لا، ما صلوا (نہیں، جب تک وہ نماز پڑھتے ہیں) کا وہی معنی ہے جو پہلے گزر چکاہے کہ جب تک حکومتِ وقت اسلام کے اساسی قواعد میں سے کوئی چیز تبدیل نہ کر دے فقط اس کے فسق اور ظلم کی وجہ سے اُس کے خلاف مسلح بغاوت جائز نہیں ہے۔‘‘

3۔ حضرت عوف بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

خِيَارُ أَئِمَّتِکُمْ الَّذِيْنَ تُحِبُّوْنَهُمْ وَيُحِبُّوْنَکُمْ، وَيُصَلُّوْنَ عَلَيْکُمْ وَتُصَلُّوْنَ عَلَيْهِمْ، وَشِرَارُ أَئِمَّتِکُمْ الَّذِينَ تُبْغِضُونَهُمْ وَيُبْغِضُوْنَکُمْ، وَتَلْعَنُوْنَهُمْ وَيَلْعَنُوْنَکُمْ. قِيْلَ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، أَفَلَا نُنَابِذُهُمْ بِالسَّيْفِ؟ فَقَالَ : لَا مَا أَقَامُوْا فِيْکُمُ الصَّلَاةَ، وَإِذَا رَأَيْتُمْ مِنْ وُلَاتِکُمْ شَيْئًا تَکْرَهُوْنَهُ فَاکْرَهُوْا عَمَلَهُ، وَلَا تَنْزِعُوْا يَدًا مِنْ طَاعَةٍ.

1. مسلم، الصحيح، کتاب الإمارة، باب خيار الأئمة وشرارهم، 3 : 1481، رقم : 1855
2. ابن حبان، الصحيح، 10 : 449، رقم : 4589

’’تمہارے بہترین حکمران وہ ہیں جن سے تم محبت کرو اور وہ تم سے محبت کریں، تم ان کے لئے دعاے خیر کرو اور وہ تمہارے لئے دعاے خیر کریں اور تمہارے بدترین حکمران وہ ہیں جن سے تم بغض رکھو اور وہ تم سے بغض رکھیں، تم ان پر لعنت کرو اور وہ تم پر لعنت کریں۔ عرض کیا گیا : یا رسول اللہ! کیا ہم ان کو اسلحہ اور تلوار (یعنی بندوق) کے زور سے معزول نہ کردیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : نہیں! جب تک کہ وہ تم میں نماز قائم کرتے رہیں (یعنی جب تک وہ مسلمان رہیں تم ایسا نہیں کر سکتے)، اور جب تم اپنے حکمرانوں کی کوئی برائی دیکھو تو ان کے اس عمل کو برا جانو مگر نظمِ ریاست اور قانون کی پابندی سے ہاتھ مت کھینچو۔‘‘

محدّثینِ کرام نے اس کی شرح میں لکھا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان ’’تم ان کی اتھارٹی سے ہاتھ مت کھینچو‘‘ سے مراد یہ ہے کہ جب تک وہ تمہیں معصیت کا حکم نہ دیں۔ اس میں فاسق حکومت وقت کے خلاف مسلح بغاوت کی ممانعت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان ’’جب تک وہ تم میں نماز قائم کرتے رہیں‘‘ میں ان کے مسلمان ہونے کو اقامت نماز کے کنایہ میں بیان کیا گیا ہے۔ جس سے مراد یہ ہے کہ جب تک وہ مسلمان رہیں۔ اس کا معنی یہ نہیں کہ وہ پابندی کے ساتھ پنجگانہ نماز پڑھنے والے ہوں، متقی یا پرہیزگار ہوں۔ اس سے یہ مراد نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پہلے ہی انہیں ’’شِرَارُ أَئِمَّتِکُمْ‘‘ یعنی بدترین حکمران قرار دے چکے ہیں۔ صاف ظاہر ہے جب مسلمان ان سے نفرت کریں گے وہ مسلمانوں کو برا سمجھیں گے اور اپنے مظالم، ناانصافیوں اور بداعمالیوں کے باعث بدترین حکمران کہلائیں گے تو ان سے یہ توقع تو نہیں ہوسکتی کہ وہ کاملاً پابند صوم و صلاۃ ہوں گے۔ اگر ایسا ہوتا تو انہیں ’’بدترین حکمرانوں کا لقب‘‘ ہی نہ دیا جاتا۔ اس کے باوجود فرمایا کہ جب تک وہ تمہارے سامنے نماز ادا کرتے رہیں۔ اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ برائے نام سہی مگر مسلمان رہیں تو ان کے خلاف مسلح بغاوت نہیں کی جائے گی۔

امام قرطبی نے صحیح مسلم کی شرح ’’المفهم لما أشکل من تلخيص کتاب مسلم‘‘ میں اس معنی کی تصریح ان الفاظ میں کی ہے :

کما عبر عن المصلين بالمسلمين، کما قال صلی الله عليه وآله وسلم : نُهيتُ عن قتل المصلين(1) أي المسلمين.(2)

(1) 1. أبو يعلی ، المسند،1 : 90، رقم : 90
2. هيثمی، مجمع الزوائد، کتاب أهل البغي، 6 : 227

(2) قرطبي، المفهم، 4 : 66

’’جیسا کہ (حدیث میں) نمازیوں سے مراد مسلمان لئے گئے ہیں، مثلاً آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مجھے نمازیوں یعنی مسلمانوں کو قتل کرنے سے منع کیا گیا ہے۔‘‘

سو اسی شرعی معنی کا اطلاق یہاں بھی ہوگا۔

4۔ امام ترمذی نے یہ فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی سند صحیح کے ساتھ حضرت ام سلمہ رضی اﷲ عنہا سے روایت کیا ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

إِنَّهُ سَيَکُونُ عَلَيْکُمْ أَئِمَّةٌ تَعْرِفُونَ وَتُنْکِرُونَ، فَمَنْ أَنْکَرَ فَقَدْ بَرِيءَ، وَمَنْ کَرِهَ فَقَدْ سَلِمَ، وَلَکِنْ مَنْ رَضِيَ وَتَابَعَ. فَقِيلَ : يَا رَسُولَ اﷲِ، أَفَلَا نُقَاتِلُهُمْ؟ قَالَ : لَا مَا صَلُّوا.

ترمذی، السنن، کتاب الفتن، باب : (78)، 4 : 529، رقم : 2265

’’عنقریب تم پر ایسے حکمران مسلط ہوں گے جن سے تم نیکی بھی سرزد ہوتے دیکھوگے اور برائی بھی۔ پس جس نے ان کی برائی کو برا کہا وہ اپنی ذمہ داری سے عہدہ برآ ہوگیا اور جس نے برا سمجھا وہ سلامتی پاگیا؛ لیکن جو ان پر دل سے راضی ہوا اور معصیت میں ان کی اتباع کی وہ ہلاک ہوا۔ عرض کیا گیا : یا رسول اللہ! کیا ہم ان سے جنگ نہ کریں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’نہیں‘‘ جب تک وہ نماز پڑھتے ہیں (یعنی برائے نام بھی مسلمان ہیں، تم ان سے مسلح جنگ نہیں کرسکتے)۔‘‘

اِس حدیث کی شرح میں علامہ عبد الرحمن مبارک پوری بھی یہی معنی لکھتے ہیں :

’’أفلا نقاتلهم؟ قال : لا‘‘ أی : لا تقاتلوهم ما صلُّوا. إنّما منع عن مقاتلتهم ما داموا يقيمون الصلٰوة، التی هی عنوان الإسلام حذراً مِنْ هيج الفتن وإختلاف الکلمة.

مبارکپوری، تحفة الأحوذی، 6 : 138

’’صحابی کا سوال کہ ’’کیا ہم ان کے خلاف قتال نہ کریں؟‘‘ اور جواب میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ ارشاد فرمانا کہ ’’نہیں (یعنی ان کے خلاف تم جنگ نہ کرو) جب تک وہ نماز پڑھتے رہیں۔‘‘ یقیناً ان کے ساتھ جنگ سے روک دیا گیا جب تک وہ نماز پڑھتے رہیں جو کہ دین اسلام کی پہچان ہے۔ ان کے خلاف جنگ نہ کرنے کا حکم امت میں فتنہ بھڑک اٹھنے اور دین میں اختلاف پیدا ہونے کے خدشہ کے پیش نظر ارشاد فرمایا گیا ہے۔‘‘

مراد یہ ہے کہ مسلمانوں کے درمیان قتل و غارت اور خون خرابہ کے فتنہ سے بچنے کے لئے حکمرانوں کی بد اعمالیوں پر بھی صبر و ضبط کرکے پرامن طریقہ سے آئینی اور جمہوری جد و جہد کی اجازت دی گئی ہے، مسلح جنگ یا قتال کی نہیں۔

5۔ اسی مضمون پر مبنی حدیث کو سنن ابی داؤد میں حضرت ضبہ بن محصن کے طریق سے حضرت اُمّ سلمہ رضی اﷲ عنہا سے روایت کیا گیا ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

سَتَکُوْنُ عَلَيْکُمْ أَئِمَّةٌ تَعْرِفُوْنَ مِنْهُمْ وَتُنْکِرُوْنَ، فَمَنْ أَنْکَرَ، قَالَ أَبُوْ دَاوُدَ : قَالَ هِشَامٌ : بِلِسَانِهِ، فَقَدْ بَرِيءَ، وَمَنْ کَرِهَ بِقَلْبِهِ فَقَدْ سَلِمَ، وَلَکِنْ مَنْ رَضِيَ وَتَابَعَ. فَقِيْلَ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، أَفَلَا نَقْتُلُهُمْ؟ قَالَ ابْنُ دَاوُدَ : أَفَلَا نُقَاتِلُهُمْ؟ قَالَ : لَا، مَا صَلَّوْا.

 أبو داؤد، السنن، کتاب السنة، باب فی قتال الخوارج، 4 : 242، رقم : 4760

’’عنقریب تمہارے اوپر ایسے حکمران آئیں گے جو اچھے کام بھی کریں گے اور برے بھی۔ امام ابو داؤد بیان کرتے ہیں کہ ہشام نے کہا : پس جس نے اپنی زبان سے ناپسندیدگی کا اظہار کیا وہ بری الذمہ ہو گیا۔ جس نے دل میں برا جانا وہ بھی بچ گیا لیکن جو راضی ہوا (اور ان کے برے کاموں کی تائید یا پیروی کی) وہ برباد ہوا۔ عرض کیا گیا : یا رسول اﷲ! کیا ہم انہیں قتل کر دیں؟ ابن داؤد کے الفاظ ہیں : کیا ہم ان سے جنگ کریں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : نہیں، جب تک وہ نماز پڑھتے ہیں (یعنی جب تک وہ مسلمان ہیں ان سے جنگ نہیں کی جا سکتی)۔‘‘

درج بالا احادیث نبوی اور ان کی شروحات میں بطورِ خاص دو چیزوں کی وضاحت ہو رہی ہے : پہلی یہ کہ مسلمان حکمرانوں کے فسق و فجور اور دینی مداہنت کے خلاف فتنہ و فساد اور خون ریزی کے خدشے کے باعث جہاں مسلح بغاوت کی ممانعت ہے وہاں ایسی حکومتوں کو راہِ راست پر لانے کے دیگر پرامن طریقے موجود ہیں جنہیں بروئے کار لانا چاہیے۔

دوسری اہم بات یہ ہے کہ جب تک حکمران کفر بواح یعنی صریح اور قطعی کفر کے مرتکب نہ ہوں ان کے خلاف مسلح بغاوت درست نہیں ہوگی اور اگر ان حالات میں کسی نے شریعت اور احکام اسلام کے نفاذ کا نام لے کر بھی مسلح بغاوت کر دی تو اسے بھی طاقت کے ذریعے ختم کرنا ضروری ہو جاتا ہے۔

Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved