دہشت گردی اور فتنہء خوارج (اردو)

باغیوں کے بارے میں معاصر سلفی علماء کے فتاویٰ

اسلامی ریاست کے خلاف دہشت گردوں کی طرف سے کی جانے والی خون ریزی کو ہر مکتبہ فکر کے علماء نے ہمیشہ رد کیا ہے اور اسے خلافِ شریعت قرار دیاہے۔ دور جدید کے معروف سلفی علماء نے بھی اپنے اپنے فتاويٰ میں مسلم ریاست کے خلاف بغاوت، فتنہ انگیزی اور خوں ریزی کو صحیح احا دیث مبارکہ کی مخالفت قرار دیا ہے۔ انہوں نے واضح طور پر لکھا ہے کہ مسلمانوں کو کافر قرار دینا اور انہیں قتل کرنا یا ظلم و زیادتی کا نشانہ بنانا خوارج کا ہی وطیرہ ہے، اور ایسا کرنے والوں کے لئے وہی حکم ہوگا جو خوارج کے لئے تھا۔

1۔ دہشت گرد دورِ حاضر کے خوارج ہیں - علامہ ناصر الدین البانی کا فتويٰ

عرب دنیا کے نامور سلفی عالم محمد ناصر الدین البانی دہشت گردوں کے بارے میں اپنا موقف یوں بیان کرتے ہیں :

والمقصود أنهم سنّوا في الإسلام سنةً سيئة، وجعلوا الخروج علی حکام المسلمين دينًا علی مرّ الزمان والأيام، رغم تحذير النبي صلی الله عليه وآله وسلم منهم في أحاديث کثيرة، منها قوله صلي الله عليه وآله وسلم : الخوارج کلاب النار. ورغم أنهم لم يروا کفرًا بَوّاحًا منهم، وإنما ما دون ذالک من ظلم وفجور وفسق.

واليوم والتاريخ يعيد نفسه کما يقولون، فقد نبتت نابتة من الشباب المسلم لم يتفقّهوا في الدين إلا قليلا. ورأوا أن الحکام لا يحکمون بما أنزل اﷲ إلا قليلا، فرأوا الخروج عليهم دون أن يستشيروا أهل العلم والفقه والحکمة منهم بل رکبوا رؤوسهم أثاروا فتنًا عمياء وسفکوا الدماء في مصر، وسوريا، والجزائر وقبل ذالک فتنة الحرم المکي فخالفوا بذلک هذا الحديث الصحيح الذي جري عليه عمل المسلمين سلفًا وخلفًا إلا الخوارج.

البانی، سلسلة الأحاديث الصحيحة، المجلد السابع، القسم الثاني : 1240.1243

’’مقصود یہ ہے کہ انہوں نے اسلام میں برے اعمال شروع کیے اور مرورِ زمانہ کے ساتھ ساتھ مسلمان حکمرانوں کے خلاف بغاوت کرنا اپنا دین بنا لیا، باوجود اس کے کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بہت ساری احادیث میں ان دہشت گرد (خوارج) سے متعلق مسلمانوں کو خبردار کیا ہے۔ ان میں سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ حدیثِ مبارکہ بھی ہے کہ خوارج دوزخ کے کتے ہیں۔ اور باوجود اس کے کہ مسلمانوں نے ان سے واضح کفر ظاہر ہوتے ہوئے نہیں دیکھا مگر ان کا ظلم، فجور اور فسق ظاہر و عیاں ہے۔

’’اور جیساکہ کہا جاتا ہے تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے۔ پس ان خوارج سے مسلمان نوجوانوں کی ایک نسل پروان چڑھی ہے جو دین کا بہت کم فہم رکھتے ہیں۔ ان کے خیال میں حکمران اللہ تعاليٰ کے نازل کردہ احکام کے مطابق حکومت نہیں کرتے مگر ان میں سے کچھ (احکام نافذ کرتے ہیں)۔ پس وہ اہل علم، فقہاء اور اصحاب حکمت کے مشورہ کے بغیر مسلم ریاست کے خلاف مسلح بغاوت کرتے ہیں بلکہ وہ ان کے سروں پر سوار ہو گئے اور اندھا دھند فتنہ بپا کیا۔ انہوں نے مصر، شام اور الجزائر میں خون ریزی کی ہے اور اس سے پہلے حرم مکہ میں بھی فتنہ انگیزی کی۔ پس انہوں نے اس صحیح حدیث کی مخالفت کی جس پر سوائے خوارج کے متقدمین اور متاخرین مسلمانوں کا عمل رہا۔‘‘

2۔ مسلمانوں کو کافر قرار دینا خوارج کی علامت ہے - شیخ عبد العزیز بن عبد اﷲ بن باز کا فتويٰ

سعودی عرب کے سابق مفتی اعظم شیخ عبد العزیز بن عبد اﷲ بن باز ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں جو کہ ان کی آفیشل ویب سائٹ www.binbaz.org.sa/mat/1934 پر موجود ہے :

’’جب ان سے سوال کیا گیا کہ یہ کلام اصل میں اہل السنت و الجماعت کے اصولوں میں سے ہے لیکن یہاں پر بڑے افسوس کے ساتھ اہل السنت والجماعت میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو اِس فکر کو پست خیال کرتے ہیں، اور یہ سمجھتے ہیں کہ اس میں ذلت اور خواری ہے۔ یہ بات اس لئے کہی گئی تاکہ وہ نوجوانوں کو دعوت دیں کہ وہ نظام میں تبدیلی کی خاطر تشدد پیدا کریں۔‘‘

اس بات کو رد کرتے ہوئے شیخ عبد العزیز بن باز لکھتے ہیں :

هذا غلط من قائله، وقلة فهم؛ لأنهم ما فهموا السنة ولا عرفوها کما ينبغي، وإنما تحملهم الحماسة والغيرة لإزالة المنکر علی أن يقعوا فيما يخالف الشرع کما وقعت الخوارج، حملهم حب نصر الحق أو الغيرة للحق، حملهم ذالک علی أن وقعوا في الباطل حتی کفروا المسلمين بالمعاصي کما فعلت الخوارج، فالخوارج کفروا بالمعاصي، وخلدوا العصاة في النار.

www.binbaz.org.sa/mat/1934

’’سوال پوچھنے والے کی یہ غلطی اور کم فہمی ہے کیونکہ انہوں نے سنت کو اُس طرح نہ سمجھا اور پہچانا جس طرح اس کی معرفت ضروری تھی۔ مگر ان کے جذبات اور غیرت نے انہیں برائی کے خاتمہ کے لیے غیر شرعی کام کرنے پر آمادہ کیا ہے جیسے کہ خوارج نے کیا تھا۔ حق کے لئے مدد کی محبت اور حق کے لئے غیرت نے انہیں اس پر ابھارا لیکن غیرت اور بغاوت میں عدم تفریق کی غلطی نے انہیں گمراہی اور پستی میں گرا دیا۔ یہاں تک کہ انہوں نے مسلمانوں کو گناہوں کے ارتکاب کی وجہ سے کافر کہا جیسا کہ خوارج نے کہا تھا۔ پس خوارج بھی گناہوں کی بنا پر تکفیر کرتے تھے اور گناہ گار کو دائمی جہنمی قرار دیتے تھے۔‘‘

شیخ عبد العزیز بن باز دین میں شدت اور انتہا پسندی کے برعکس اہل سنت کا مؤقف یوں بیان کرتے ہیں :

والذي عليه أهل السنة . وهو الحق . أن العاصي لا يکفر بمعصيته ما لم يستحلها فإذا زنا لا يکفر، وإذا سرق لا يکفر، وإذ شرب الخمر لا يکفر، ولکن يکون عاصيا ضعيف الإيمان فاسقا تقام عليه الحدود، ولا يکفر بذالک إلا إذا استحل المعصية وقال : إنها حلال. وما قاله الخوارج في هذا باطل، وتکفيرهم للناس باطل؛ ولهذا قال فيهم النبي صلی الله عليه وآله وسلم : إنهم يمرقون من الدين مروق السهم من الرمية، ثم لا يعودون إليه يقاتلون أهل الإسلام ويدعون أهل الأوثان.

www.binbaz.org.sa/mat/1934

’’اور جو (مؤقف) اہل سنت کا ہے وہی حق ہے۔ وہ یہ ہے کہ گناہ گار اپنے گناہوں کی وجہ سے کافر نہیں ہوتا جب تک کہ وہ ان گناہوں اور نافرمانی کے کاموں کو حلال نہ جانے۔ پس جب اس نے زنا کیا تو کافر نہیں ہوا اور جب چوری کی تو کفر کا مرتکب نہیں ہوا اور جب شراب پی تو کفر نہیں کیا بلکہ یہ گناہ گار، کمزور ایمان والا اور فاسق کہلائے گا، اس پر حدود جاری ہوں گی لیکن ان برے اعمال کی وجہ سے اسے کافر قرار نہیں دیا جائے گا جب تک کہ وہ اس گناہ کو حلال نہ جانے اور حلال نہ کہے۔ اس کے بارے میں جو خوارج نے کہا وہ باطل ہے اور ان کا لوگوں کو کافر قرار دینا بھی باطل ہے۔ اسی وجہ سے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے بارے میں فرمایا : ’’یہ دین سے اس طرح نکل جاتے ہیں جیسے تیر شکار سے نکل جاتا ہے۔ پھر وہ دین کی طرف نہیں پلٹتے۔ وہ مسلمانوں کے ساتھ جنگ کریں گے اور بت پرستوں (صریحاً کفار) کو چھوڑ دیں گے۔‘‘

آخر میں شیخ عبد العزیز بن باز نوجوانوں اور دیگر تمام لوگوں کو خوارج کی تقلید سے منع کرتے ہوئے مذہبِ اہل سنت و جماعت پرچلنے کی نصیحت کرتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں :

هذه حال الخوارج بسبب غلوهم وجهلهم وضلالهم، فلا يليق بالشباب ولا غير الشباب أن يقلدوا الخوارج، بل يجب أن يسيروا علی مذهب أهل السنة والجماعة علی مقتضی الأدلة الشرعية، فيقفوا مع النصوص کما جائت، وليس لهم الخروج علی السلطان من أجل معصية أو معاص وقعت منه، بل عليهم المناصحة بالمکاتبة والمشافهة، بالطرق الطيبة الحکيمة، وبالجدال بالتي هي أحسن، حتی ينجحوا، وحتی يقل الشر أو يزول ويکثر الخير.

() www.binbaz.org.sa/mat/1934

’’خوارج کے یہ حالات ان کے (دین میں) غلو اور ان کی جہالت و گمراہی کی وجہ سے ہی ہوئے تھے۔ اس لئے اب ان نوجوانوں اور دیگر تمام لوگوں کے لئے ہرگز مناسب نہیں ہے کہ وہ خوارج کی تقلید کریں۔ بلکہ ضروری ہے کہ وہ شرعی دلائل کے تقاضوں کے مطابق مذہب اہل السنت و الجماعت پر چلیں تاکہ وہ ان نصوص کے ساتھ وہی موقف اختیار کریں جس کے لئے وہ وارد ہوئی ہیں۔ اور ان کے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ حکومت وقت کے خلاف ۔ اس کی نافرمانی یا ان غلطیوں کے سبب جو اس سے سرزد ہوئی ہیں ۔ مسلح بغاوت کریں بلکہ ان کے لئے ضروری ہے کہ وہ اس کو لکھ کر یا زبانی طور پر عمدہ حکمت بھرے طریقے اور احسن انداز سے بحث و مباحثہ کے ذریعے نصیحت کریں تاکہ وہ اس میں کامیاب ہوں، برائی کم ہو یا بالکل ختم ہو جائے اور بھلائی زیادہ ہو جائے۔‘‘

3۔ دور حاضر کے دہشت گرد جاہلوں کا ٹولہ ہے - شیخ صالح الفوزان کا فتويٰ

سعودی عرب کے ہی معروف سلفی مدرس علامہ صالح بن فوزان بن عبد اﷲ الفوزان سے سوال کیا گیا کہ ’’یہاں پر کچھ لوگ کہتے ہیں : اس ملک کی حکومت اور علماء نے جہاد کو معطل کردیا ہے اور یہ عمل اﷲ کے احکام کا انکار ہے۔ سو آپ کی اس بارے میں کیا رائے ہے؟‘‘ اس پر انہوں نے جواب دیا :

هذا کلام جاهل، يدل علی أنه ما عنده بصيرة ولا علم وأنه يکفر الناس، وهذا رأي الخوارج والمعتزلة، نسأل اﷲ العافية، لکن مانسيء الظن بهم نقول هؤلاء جهال يجب عليهم أن يتعلموا قبل أن يتکلموا أما إن کان عندهم علم ويقولون بهذا القول، فهذا رأي الخوارج وأهل الضلال.

فوزان، الجهاد وضوابطة الشرعية : 49

’’یہ جہالت پر مبنی کلام ہے جو ان لوگوں کی عدم بصیرت اور لاعلمی پر دلالت کرتا ہے، اسی وجہ سے وہ (مسلمان) لوگوں کو کافر قرار دیتے ہیں۔ یہ (در حقیقت) خوارج اور معتزلہ کی رائے ہے۔ اﷲ تعاليٰ ان سے عافیت عطا فرمائے لیکن ہم ان کے بارے میں برا گمان نہیں رکھتے بلکہ ہم کہتے ہیں کہ یہ جاہل (اور دین کی حقیقی تعلیمات سے بے بہرہ) لوگ ہیں۔ ان کے لئے ضروری ہے کہ بات کرنے سے پہلے اس کا (مکمل) علم حاصل کریں۔ اور اگر علم ہونے کے باوجود وہ لوگ ایسی بات کہتے ہیں تو یہ خوارج اور گمراہ لوگوں کی رائے ہے۔‘‘

اِسی طرح جب علامہ صالح الفوزان سے پوچھا گیا کہ کیا خوارج کی سوچ اور فکر رکھنے والے لوگ موجودہ زمانے میں بھی پائے جاتے ہیں؟ تو انہوں نے کہا :

سبحان اﷲ، وهذا الموجود، أليس هو فعل الخوارج، وهو تکفير المسلمين، وأشد من ذالک قتل المسلمين والاعتداء عليهم، هذا مذهب الخوارج.

وهو يتکون من ثلاثة أشياء : أولاً : تکفير المسلمين. ثانيًا : الخروج عن طاعة ولي الأمر. ثالثًا : استباحة دماء المسلمين.

هذه من مذهب الخوارج، حتی لو اعتقد بقلبه ولا تکلم ولا عمل شيئًا، صار خارجيًا في عقيدته ورأيه الذي ما أفصح عنه.

فهد الحصين، الفتاوی الشرعية في القضايا العصرية

’’سبحان اﷲ! کیا یہ موجودہ فکر و عمل خوارج کا فعل نہیں ہے؟ مسلمانوں کو کافر قرار دینا اور اس سے بھی شدید تر یہ کہ مسلمانوں کو قتل کرنا اور انہیں ظلم و زیادتی کا نشانہ بنانا، یہ خوارج کا مذہب ہی تو ہے جو ان تین عناصر سے تشکیل پاتا ہے :

  1. مسلمانوں کو کافر قرار دینا
  2. حکومت وقت کے نظم اور اتھارٹی کو مسلح بغاوت کے ذریعے چیلنج کرنا
  3. مسلمانوں کے خون کو جائز و حلال قرار دینا

’’یہ خوارج کا مذہب ہی ہے۔ یہاں تک کہ اگر کوئی اس پر صرف دل سے ہی عقیدہ رکھے اور قول و عمل سے اس کا اظہار نہ بھی کرے تو بھی وہ اپنے اس عقیدہ اور رائے کے اعتبار سے خارجی ہو گیا۔‘‘

4۔ دہشت گردانہ کارروائیاں جہاد نہیں - مفتی نذیر حسین دہلوی کا فتويٰ

ہر ذی شعور اس بات سے آگاہ ہے کہ وطنِ عزیز میں جہاد کے نام پر جو کچھ ہو رہا ہے اس کا اسلا م سے کوئی تعلق نہیں۔ اس حقیقت کو ہر مسلک میں تسلیم کیا گیا ہے۔ بطورِ ثبوت مسلکِ اہلِ حدیث کے مفتی سید نذیر حسین دہلوی کے فتاويٰ نذیریہ سے ایک مثال درج کی جارہی ہے، جس میں اُنہوں نے جہاد سے متعلق ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے جہاد کی شرائط بیان کی ہیں۔(1)

(1) مفتی صاحب کی عبارت من و عن نقل کی گئی ہے لیکن قارئین کی سہولت کے لئے حاشیے میں بعض عبارات کے حوالہ جات اور تراجم شامل کر دیے گئے ہیں۔

مفتی نذیر حسین دہلوی لکھتے ہیں :

’’مگرجہاد کی کئی شرطیں ہیں جب تک وہ نہ پائی جائیں گی جہاد نہ ہوگا۔

اول : یہ کہ مسلمانوں کا کوئی امامِ وقت و سردار ہو۔ دلیل اس کی یہ ہے کہ اﷲ تعاليٰ نے کلام مجید میں ایک نبی کا انبیاء سابقین سے قصہ بیان فرمایا ہے کہ ان کی امت نے کہا کہ ہمارا کوئی سردار اور امامِ وقت ہو تو ہم جہاد کریں۔

اَلَمْ تَرَاِلَی الْمَلَاِ مِنْم بَنِيْ اِسْرَآءِ يْلَ مِنْم بَعْدِ مُوْسٰيم اِذْ قَالُوْا لِنَبِیٍّ لَّهُمُ ابْعَثْ لَنَا مَلِکًا نُّقَاتِلْ فِيْ سَبِيْلِ اﷲِ . . . الاية

البقرة،2 : 246

’’(اے حبیب!) کیا آپ نے بنی اسرائیل کے اس گروہ کو نہیں دیکھا جو موسيٰ (علیہ السلام) کے بعد ہوا، جب انہوں نے اپنے پیغمبر سے کہا کہ ہمارے لیے ایک بادشاہ مقرر کر دیں تاکہ ہم (اس کی قیادت میں) اﷲ کی راہ میں جنگ کریں۔‘‘(ترجمہ از عرفان القرآن)

اِس سے معلوم ہوا کہ جہاد بغیر امام کے نہیں کیونکہ اگر بغیر امام کے جہاد ہوتا تو ان کو یہ کہنے کی حاجت نہ ہوتی۔ کما لا یخفی اور شرائع من قبلنا جب تک اس کی ممانعت ہماری شرع میں نہ ہو، حجت ہے کما لا يخفی علی الماهر بالأصول ، اور حدیث میں آیا ہے کہ امام ڈھال ہے اس کے پیچھے ہو کر لڑنا چاہیے۔ اور اس کے ذریعہ سے بچنا چاہیے۔ عَنِ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ : قَال رَسُولَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : إِنَّمَا الْإِمَامُ جُنَّةٌ يُقَاتَلُ مِنْ وَرَائِهِ وَيُتَّقَی بِهِ. الحديث رواه البخاری و مسلم.

1. بخاری، الصحيح، کتاب الجهاد والسير، باب يقاتل من وراء الإمام ويتقی به، 3 : 1080، رقم : 2797
2. مسلم، الصحيح، کتاب الإمارة، باب الإمام جنة يقاتل من ورائه ويتقی به، 3 : 1471، رقم : 1841

’’بے شک امام تو ڈھال کی طرح ہے کہ اس کے پیچھے لڑتے ہیں اور اس کی پناہ لیتے ہیں۔‘‘

اس سے صراحتاً یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ جہاد امام کے پیچھے ہو کے کرنا چاہیے، بغیر امام کے نہیں۔

دوسری شرط یہ ہے کہ اسباب لڑائی کا مثل مہیا ہوں جس سے کفار کا مقابلہ کیا جاوے۔ فرمایا اللہ تعاليٰ نے : وَاَعِدُّوْا لَهُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّةٍ وَّمِنْ رِّبَاطِ الْخَيْلِ تُرْهِبُوْنَ بِه عَدُوَّ اﷲِ وَعَدُوَّکُمْ وَاٰخَرِيْنَ مِنْ دُوْنِهِمْ.(1) (ترجمہ) اور سامان تیار کرو ان کی لڑائی کے لئے جو کچھ ہو سکے تم سے ہتھیار اور گھوڑے پالنے سے تاکہ اس سے ڈراؤ اﷲ کے دشمن کو اور اپنے دشمنوں کو۔

(1) الأنفال، 8 : 60

قال الامام البغوی فی تفسير هذه الاية الإعداد اتخاذ الشئ بوقت الحاجة من قوة أي من الآلات التی تکون لکم قوة عليهم من الخيل والسلاح، انتهی. يعنی قوت کے معنی ہتھيار اور سامان لڑائی کے ہيں، اور فرمايا اﷲ تعاليٰ نے : يٰاَ يُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا خُذُوْا حِذْرَکُمْ فَانْفِرُوْا ثُبَاتٍ اَوِانْفِرُوْا جَمِيْعًا.(2) (ترجمه)  اے ايمان والو! لو اپنا بچاؤ پکڑو پھر کوچ کرو جدا جدا فوج يا سب اکٹھے۔

(2) النساء،4 : 71

قال الحافظ محی السنة فی تفسيره تحت هذه الاية أی عدتکم وآلاتکم من السلاح، انتهی. یعنی حذر سے مراد آلہ لڑائی کا ہے مثلًا ہتھیاروغیرہ کا مہیا ہونا ضروری ہے، اور حدیثوں سے بھی اس کی تاکید معلوم ہوتی ہے اور ظاہر ہے کہ بے ہتھیار کے کیا کرے گا۔

تیسری شرط یہ ہے کہ مسلمانوں کا کوئی قلعہ یا ملک جائے امن ہو کہ ان کا ماوٰی و ملجا ہو۔ چنانچہ قرآن کے لفظ مِنْ قُوَّة کی تفسیر عکرمہ نے قلعہ کی ہے۔ قال عکرمة : القوة الحصون انتهی ما فی معالم التنزيل للبغوی.  اور حضرت (محمد) صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب تک مدینہ میں ہجرت نہ کی اور مدینہ جائے پناہ نہ ہوا جہاد فرض نہ ہوا، یہ صراحتاً دلالت کرتا ہے کہ جائے امن ہونا بہت ضروری ہے۔

چوتھی شرط یہ ہے کہ مسلمانوں کا لشکر اتنا ہو کہ کفار کے مقابلہ میں مقابلہ کر سکتا ہو یعنی کفار کے لشکر کے آدھے سے کم نہ ہو۔ فرمایا اﷲ تعاليٰ نے : اَلْئٰنَ خَفَّفَ اﷲُ عَنْکُمْ وَعَلِمَ اَنَّ فِيْکُمْ ضَعْفًاط فَاِنْ يَّکُنْ مِّنْکُمْ مِّائَةٌ صَابِرَةٌ يَّغْلِبُوْا مِائَتَيْنِ ج وَاِنْ يَّکُنْ مِّنْکُمْ أَلْفٌ يَّغْلِبُوْا اَلْفَيْنِ بِاِذْنِ اﷲِط وَاﷲُ مَعَ الصّٰبِرِيْنَ(1) (ترجمہ) اب بوجھ ہلکا کیا، اﷲ نے تم سے اور جانا کہ تم میں کمزوری ہے پس اگر ہو تم میں سے سو صابر غالب رہیں گے دوسو پر، اور اگر ہوں تم سے ایک ہزار، غالب ہوں دو ہزار پر حکم سے اﷲ کے، اور اﷲ ساتھ صبر کرنے والوں کے ہے۔ یہ آیت صاف کہتی ہے کہ اپنے سے دگنے سے مقابلہ ہو دگنے سے زیادہ سے نہیں۔ میں جب یہ بات بیان ہو چکی، تو میں کہتا ہوں، اس زمانے میں ان چار شرطوں میں سے کوئی شرط بھی موجود نہیں ہے تو کیونکر جہاد ہو گا۔(2)

(1) الأنفال، 8 : 66

(2) پس معلوم ہوا کہ اگر یہ شرائط پوری نہ ہوں تو جہاد نہیں بلکہ غدر، بغاوت اور فساد ہوگا جس کی قطعاً اجازت نہیں۔ پھر سوال یہ ہے کہ مسلمان ریاست میں کس کے خلاف مسلح اقدام ہو رہا ہے؟

جواب کے آخر میں مفتی نذیر حسین دہلوی نے بطور ثبوت صحیحین کی یہ احادیث بیان کی ہیں :

عن أنس أن رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم قال : لکل غادر لواء يوم القيامة يعرف به. رواه الشيخان.

عن ابن عمر أن رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم قال : أن الغادر ينصب له لواء يوم القيامة فيقال هذه غدرة فلان بن فلان. رواه الشيخان.(1)

(1) مفتی نذير حسين دهلوي، فتاويٰ نذيريه، 3 : 282.285

(1) ’’حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : قتل عام اور فساد انگیزی کرنے والے ہر شخص کے لیے روز قیامت ایک جھنڈا ہوگا جس سے وہ پہچانا جائے گا۔ اس حدیث کو شیخین (امام بخاری و مسلم) نے روایت کیا ہے۔

حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : فساد انگیزی کرنے والے کے لیے روز قیامت ایک جھنڈا نصب کیا جائے گا اور کہا جائے گا کہ یہ فلاں بن فلاں کی فساد انگیزی (کا نشان) ہے۔‘‘

اس حدیث کو شیخین (امام بخاری و مسلم) نے روایت کیا ہے۔

خلاصہ بحث

قرآن وسنت، ائمہ حدیث اور ائمہ عقائد و فقہ کی تصریحات، تشریحات اور فتاويٰ و تحقیقات کی روشنی میں یہ حقیقت واضح ہوئی کہ باغی وہ لوگ ہیں جو مسلم ریاست کے خلاف مسلح جد و جہد کریں اور ان کے پاس قوت و طاقت بھی ہو۔ وہ لوگ ریاست کی اتھارٹی اور نظم کو تسلیم کرنے سے انکار کریں اور کھلے عام اسلحہ لہرا کر ریاست کے خلاف اعلان جنگ کریں۔ اس سے قطع نظر کہ ان کی یہ مسلح جد و جہد اور بغاوت عدل و انصاف پر مبنی حکومت کے خلاف ہے یا فسق و فجور کی حامل حکومت کے خلاف۔ خواہ ان کی جدوجہد کسی امر دین سے متعلق تاویل پر مبنی ہے یا کسی دنیوی غرض کی خاطر، بہرصورت ایسے تمام لوگ باغی اور دہشت گرد ہیں۔ جب تک وہ مسلم ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھائے رکھیں، حکومت ان کے خلاف جنگی اقدام جاری رکھے تاآنکہ وہ ہتھیار پھینک کر ریاست کی حاکمیت کے تابع ہو جائیں اور اپنا دہشت گردانہ طرز عمل مکمل طور پر ختم کر کے پرامن شہری بن جائیں اور اپنے جائز مطالبات پرامن، جمہوری اور قانونی طریقے سے پورے کروانے کے حامی ہو جائیں۔

Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved