تخلیق کائنات

قرآن اور نظریۂ اِضافیت

مذکورہ بالا آیاتِ مبارکہ کا سائنسی مطالعہ علمِ کونیات (Cosmology) اور علمِ فلکی طبیعیات (Astrophysics) کے مندرجہ ذیل اُصول تجویز کرتا ہے :

1۔ رَتْق اور فَتْق کے تصوّر کے تحت قرآنِ مجید یہ بتاتا ہے کہ مادّہ اور توانائی اِبتداءً ایک ہی چیز تھے۔ مادّہ سمٹی ہوئی توانائی ہے اور توانائی مادّے کی آزاد شدہ شکل۔ اِسی طرح جگہ اور وقت (Time & Space) کو بھی (ایک دُوسرے سے) جدا کرنا ناممکن ہے، دونوں مسلسل متصل حالت میں پائے جاتے ہیں۔ ربوبیّت کی طاقت اور دباؤ کے عمل سے آسمانوں اور زمین کو تقریباً پھاڑ کر جدا جدا کر دِیا گیا۔ یہ قرآنی راز ’آئن سٹائن‘ کے نظریۂ اِضافیت کے ذرِیعے (بیسویں صدی کے اَوائل میں) منظر عام پر آیا۔

وَ السَّمَآءَ بَنَيْنَاهَا بِأَيْدٍ (کائنات کو طاقت کے ذریعے پیدا کئے جانے) سے حاصل ہونے والا قرآنی تصوّر اِس سائنسی حقیقت کو عیاں کرتا ہے کہ کائنات کی تخلیق سے لے کر اُس کی وُسعت پذیری اور موجودہ حالت تک، ایک ایٹم سے لے کر نظامِ سیارگان اور کہکشاؤں تک ہر چیز کی بقا کا اِنحصار کھنچاؤ اور توانائی کے برقرار رہنے اور توازُن پر مبنی ہے۔

یہ کھنچاؤ ’کشش‘ (مرکز مائل قوّت) اور ’دفع‘ (مرکز گریز قوّت) کی طاقتوں میں ظہور پذیر ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں ’مرکز مائل قوّت‘ اور ’مرکز گریز قوّت‘ میں توازُن ایک ایسے موقع و محل کی نشاندہی کرتا ہے جو نظامِ سیارگان کے وُجود کی ضمانت ہے۔ بجلی میں مخالف بار ایک دُوسرے کو کھینچتی اور موافق بار دفع کرتی ہیں۔ کائنات میں موجود تمام اشیاء کو۔ ۔ ۔ خواہ وہ سورج کے گِرد محوِ گردِش سیارے ہوں یا نیوکلیئس کے گِرد گھومنے والے اِلیکٹران۔ ۔ ۔ کششِ ثقل کے زیرِاثر مرکز میں گرنے اور مُنہدم ہونے سے اُن کی گردِشی قوّت (مرکز گریز قوّت) ہی بچائے ہوئے ہے۔ تاہم کائنات کا تمام توازُن اور نظام ربوبیّت کے پیدا کردہ کھنچاؤ اور توانائی ہی سے منظم ہے۔

3۔ ’آئن سٹائن‘ کے ’خصوصی نظریۂ اِضافیت‘ کے ذرِیعے قرآنِ مجید کے اِس تصوّر۔ ۔ ۔ کہ کائنات کو طاقت (توانائی) کے ذرِیعے پیدا کیا گیا ہے۔ ۔ ۔ کی واضح توثیق میسر آچکی ہے۔ اِس نظریئے کی بنیاد E=mc2 مساوات ہے، یعنی توانائی ایسے مادّے پر مشتمل ہوتی ہے جسے روشنی کی سمتی رفتار (Velocity) کے مربّع کے ساتھ ضرب دی گئی ہو۔ یہ تعلق اِس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ مادّہ توانائی ہی کی ایک شکل ہے اور روشنی کی سمتی رفتار کی مِقدار کے تناظر میں مادّے کے ہر ایٹم کے اندر توانائی کا بے پناہ ذخیرہ موجود ہوتا ہے۔ یہ مساوات سورج اور دُوسرے ستاروں میں توانائی کے ذرائع کی وضاحت کے علاوہ ایٹمی توانائی اور ایٹم بم کی بنیادیں بھی فراہم کرتی ہے۔

آئن سٹائن کی یہ دریافت اِس حقیقت کو عیاں کرتی ہے کہ ایٹم کی ساخت طاقت یعنی توانائی (E=mc2) کے ذریعے وُجود میں لائی گئی ہے۔ یہ (حقیقت) اِن آیاتِ قرآنیہ سے کس قدر ہم آہنگ ہے :

وَ السَّمَآءَ بَنَيْنَاهَا بِأَيْدٍ وَّ إِنَّا لَمُوْسِعُوْنَO

(الذّاريات، 51 : 47)

اور ہم نے کائنات کے سماوِی طبقات کو طاقت (توانائی) کے ذرِیعے پیدا کیا اور ہم ہی اُسے وُسعت پذیر رکھتے ہیںo

وَ خَلَقَ کُلَّ شَئٍْفَقَدَّرَه تَقْدِيْراًO

(الفرقان، 25 : 2)

اور اُسی نے ہر چیز کو پیدا فرمایا ہے پھر اُس (کی بقاء و اِرتقاء کے ہر مرحلہ پر اُس کے خواص، اَفعال اور مدّت اَلغرض ہر چیز) کو ایک مقرّرہ اندازے پر ٹھہرایا ہےo

اِن (آیات) میں ہر شے کی طاقت (توانائی) کے ذریعے تخلیق، اور ہر چیز میں اور مادّے کے ہر ایٹم میں توانائی کے متناسب تسوِیہ کا تصوّر پایا جاتا ہے :

إِنَّا کُلَّ شَئٍ خَلَقْنَاهُ بِقَدَرٍO وَّ مَا أَمْرُنَا إِلاَّ وَاحِدَةٌ کَلَمْحٍ مبِالْبَصَرِO

(القمر، 54 : 49، 50)

ہم نے ہر شے ایک مقرّر اَندازے سے بنائی ہےo اور ہمارا حکم تو یکبارگی ایسے (واقع) ہو جائے گا جیسے آنکھ کا جھپکناo

یہ آیاتِ مبارکہ ظاہر کرتی ہیں کہ تخلیق کا عمل ایک حکم کی تعمیل میں ہونے والا دھماکہ تھا، جس نے عمل درآمد کے لئے ایک سیکنڈ کا بہت تھوڑا عرصہ صرف کیا اور ہر ذرّہ توانائی اور خصوصیات میں مکمل تناسب رکھتا تھا۔

4۔ قرآنِ مجید اِس سائنسی حقیقت کو بے نقاب کرتا ہے کہ کائنات کا تمام سماوِی مواد اِبتداءً گیسوں کے بادلوں کی صورت میں موجود رہا۔ وَھِیَ دُخَانٌ (اور وہ اُس وقت گیس کے بادل تھے) کے اَلفاظ غیرمبہم طور پر دُخانی (گیسی) حالت کی موجودگی تجویز کرتے ہیں۔ تب اُن (گیسی بادلوں) میں متوازن فلکیاتی نظام ترتیب دِیا گیا، جس کے تحت اربوں کہکشاؤں اور اُن کے اِنفرادی نظام حرکت پذیر ہیں۔ تمام کہکشائیں بیک وقت وُسعت پذیر ہیں اور ابھی تک اُن میں کوئی ٹکراؤ یا عدم توازُن (پیدا) نہیں ہوا، جب تک اِذنِ ربوبیّت لاگو رہے گا (ایسا ہی رہے گا) أَتَيْنَا طَائِعِيْنَ (ہم تیری رضامندی سے حکم بجا لاتے ہیں) کے اَلفاظ اِذنِ ربوبیّت کے اِلقاء کی طرف واضح اِشارہ کرتے ہیں۔

أَتَيْنَا طَائِعِيْنَ کے تقاضے

  1. کششی قوّتوں کو کائنات میں کسی قسم کی عدم توازُن کی صورتحال پیدا کئے بغیر بہتر طور پر متناسب انداز میں اپنا کام کرنا چاہیئے۔
  2. فضائی درجۂ حرارت کے لئے ضروری ہے کہ وہ مطلوبہ ماحول کو خراب کئے بغیر متوازن رہے۔
  3. فضائی توازُن کو خلاء میں موجود ضیاء بار توانائیوں کے باوُجود قوانینِ فطرت کی پاسداری کرنی چاہیئے۔

ودِیعت شدہ نظامِ ربوبیّت جو تمام اَجرامِ سماوِی اور کہکشاؤں میں کائناتی توازُن پیدا کرتا ہے، اُسے قرآنِ مجید میں اِن اَلفاظ میں بھی واضح طور پر بیان کیا گیا ہے :

وَ أَوْحٰی فِیْ کُلِّ سَمَآء أَمْرَهَا.

(فصلت، 41 : 12)

اور اُس نے ہر آسمان میں اُس کا (سماوِی) اَمر ودِیعت کر دِیا ہے۔

Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved