حضور ﷺ کا شرف نبوت اور اولیت خلقت

حضور ﷺ کے اَوّل الخَلق، سراپا نور اور حسین تر ہونے کا بیان

بَابٌ فِي کَوْنِہِ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم اَوَّلَ الْخَـلَائِقِ وَاَنْوَرَہَا وَاَحْسَنَہَا خِلْقَۃً
{حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اَوّل الخلق، سراپا نور اور حسین تر ہونے کا بیان}

1 / 1. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي اﷲ عنهما قَالَ : کَانَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ فِي صَـلَاتِهِ أَوْ فِي سُجُوْدِهِ : اَللَّهُمَّ، اجْعَلْ فِي قَلْبِي نُوْرًا وَفِي سَمْعِي نُوْرًا وَفِي بَصَرِي نُوْرًا وَعَنْ يَمِيْنِي نُوْرًا وَعَنْ شِمَالِي نُوْرًا وَأَمَامِي نُوْرًا وَخَلْفِي نُوْرًا وَفَوْقِي نُوْرًا وَتَحْتِي نُوْرًا وَاجْعَلْ لِي نُوْرًا أَوْ قَالَ : وَاجْعَلْنِي نُوْرًا. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ وَهَذَا لَفْظُ مُسْلِمٍ.

وفي رواية : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : اَللَّهُمَّ، اجْعَلْ فِي قَلْبِي نُوْرًا وَفِي لِسَانِي نُوْرًا وَفِي سَمْعِي نُوْرًا وَفِي بَصَرِي نُوْرًا وَمِنْ فَوْقِي نُوْرًا وَمِنْ تَحْتِي نُوْرًا وَعَنْ يَمِيْنِي نُوْرًا وَعَنْ شِمَالِي نُوْرًا وَمِنْ بَيْنِ يَدَيَّ نُوْرًا وَمِنْ خَلْفِي نُوْرًا وَاجْعَلْ فِي نَفْسِي نُوْرًا وَأَعْظِمْ لِي نُوْرًا.

رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالتِّرْمِذِيُّ وَالنَّسَائيُّ.

وفي رواية عنه : قَالَ : اَللَّهُمَّ، اجْعَلْ لِي نُوْرًا فِي قَلْبِي وَنُوْرًا فِي قَبْرِي وَنُوْرًا مِنْ بَيْنِ يَدَيَّ وَنُوْرًا مِنْ خَلْفِي وَنُوْرًا عَنْ يَمِيْنِي وَنُوْرًا عَنْ شِمَالِي وَنُوْرًا مِنْ فَوْقِي وَنُوْرًا مِنْ تَحْتِي وَنُوْرًا فِي سَمْعِي وَنُوْرًا فِي بَصَرِي وَنُوْرًا فِي شَعْرِي وَنُوْرًا فِي بَشَرِي وَنُوْرًا فِي لَحْمِي وَنُوْرًا فِي دَمِي وَنُوْرًا فِي عِظَامِي. اَللَّهُمَّ، أَعْظِمْ لِي نُوْرًا وَأَعْطِنِي نُوْرًا وَاجْعَلْ لِي نُوْرًا… رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَمُسْلِمٌ وَالتِّرْمِذِيُّ وَاللَّفْظُ لَهُ.

1 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : الدعوات، باب : الدعاء إذا انتبه بالليل، 5 / 2327، الرقم : 5957، ومسلم في الصحيح، کتاب : صلاة المسافرين وقصرها، باب : الدعاء في صلاة الليل وقيامه، 1 / 525، 528.529، الرقم : 763، والترمذي في السنن، کتاب : الدعوات عن رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم، باب : (30) منه، 5 / 482، الرقم : 3419، والنسائي في السنن، کتاب : التطبيق، باب : الدعاء في السجود، 2 / 218، الرقم : 1121، وفي السنن الکبری، 1 / 161، 237، الرقم : 397، 708، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 / 284، 343، الرقم : 2567، 3194، وابن حبان في الصحيح، 6 / 362، الرقم : 2636، وعبد الرزاق في المصنف، 2 / 403، الرقم : 3862، وأبو يعلی في المسند، 4 / 420، الرقم : 2545، والطبراني في المعجم الکبير، 11 / 420، الرقم : 12191، وفي المعجم الأوسط، 1 / 17، الرقم : 38، وفي کتاب الدعاء، 1 / 243، الرقم : 761، وابن أبي الدنيا في التهجد وقيام الليل، إسناده صحيح، 1 / 421، الرقم : 385، وابن إسحاق في شعار أصحاب الحديث، 1 / 60، الرقم : 79، وابن همام في سلاح المؤمن في الدعاء 1 / 346، الرقم : 642.

’’حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز اور سجدہ میں یہ دعا مانگتے تھے : اے اللہ! میرے دل میں نور کر دے، میرے کانوں میں نور کر دے، میرے دائیں نور کر دے، میرے بائیں نور کر دے، میرے آگے نور کر دے، میرے پیچھے نور کر دے، میرے اوپر نور کر دے، میرے نیچے نور کر دے، میرے لئے نور کر دے یا فرمایا مجھے (سر تا پا) نور بنا دے۔‘‘

یہ حديث متفق علیہ ہے، مذکورہ الفاظ مسلم کے ہیں۔

’’ایک اور روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے اللہ! میرے دل میں نور کر دے، میری آنکھوں میں نور کر دے، میرے اوپر نور کر دے، میرے نیچے نور کر دے، میرے دائیں نور کر دے، میرے بائیں نور کر دے، میرے سامنے نور کر دے، میرے پیچھے نور کر دے اور میرے اندر نور کر دے اور میرے لئے نور کو عظیم کر دے۔‘‘

اسے امام مسلم، ترمذی اور نسائی نے روایت کیا ہے۔

’’اے اللہ! میرے دل میں نور کر دے، میری قبر میں، میرے آگے، پیچھے، دائیں، بائیں، اوپر اور نیچے، نور ہی نور پھیلا دے۔ اے اللہ! میرے کانوں، میری آنکھوں، میرے بالوں، میرے چہرے، میرے گوشت، میرے خون اور میری ہڈیوں میں نور ہی نور بھر دے۔ اے اللہ! میرے لئے نور کو عظیم فرما۔ مجھے نور عطا فرما اور میرے لئے نور بنا دے۔‘‘

اس حديث کو امام بخاری، مسلم اور ترمذی نے روایت کیا ہے اور الفاظ بھی انہی کے ہیں۔

2 / 2. عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اﷲِ رضي اﷲ عنهما قَالَ : قُلْتُ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي، أَخْبِرْنِي عَنْ أَوَّلِ شَيءٍ خَلَقَهُ اﷲُ تَعَالَی قَبْلَ الْأَشْيَاءِ؟ قَالَ : يَا جَابِرُ، إِنَّ اﷲَ تَعَالَی قَدْ خَلَقَ قَبْلَ الْأَشْيَاءِ نُوْرَ نَبِيِّکَ مِنْ نُوْرِهِ، فَجَعَلَ ذَلِکَ النُّوْرَ يَدُوْرُ بِالْقُدْرَةِ حَيْثُ شَاءَ اﷲُ تَعَالَی، وَلَمْ يَکُنْ فِي ذَلِکَ الْوَقْتِ لَوْحٌ وَلَا قَلَمٌ، وَلَا جَنَّةٌ وَلَا نَارٌ، وَلَا مَلَکٌ وَلَا سَمَاءٌ، وَلَا أَرْضٌ وَلَا شَمْسٌ وَلَا قَمَرٌ، وَلَا جِنِّيٌّ، وَلَا إِنْسِيٌّ، فَلَمَّا أَرَادَ اﷲُ تَعَالَی أَنْ يَخْلُقَ الْخَلْقَ قَسَمَ ذَلِکَ النُّوْرَ أَرْبَعَةَ أَجْزَاءٍ : فَخَلَقَ مِنَ الْجُزْءِ الْأَوَّلِ الْقَلَمَ، وَمِنَ الثَّانِي : اللَّوْحَ وَمِنَ الثَّالِثِ : الْعَرْشَ، ثُمَّ قَسَمَ الْجُزْءَ الرَّابِعَ أَرْبَعَةَ أَجْزَاءٍ فَخَلَقَ مِنَ الْأَوَّلِ : حَمَلَةَ الْعَرْشِ، وَمِنَ الثَّانِيِّ : الْکُرْسِيَّ وَمِنَ الثَّالِثِ : بَاقِيَ الْمَلَائِکَةِ، ثُمَّ قَسَمَ الْجُزْءَ الرَّابِعَ أَرْبَعَةَ أَجْزَاءٍ، فَخَلَقَ مِنَ الْأَوَّلِ : السَّمَوَاتِ، وَمِنَ الثَّانِي : الْأَرْضِيْنَ وَمِنَ الثَّالِثِ : اَلْجَنَّةَ وَالنَّارَ … الحديث. رَوَاهُ عَبْدُ الرَّزَّاقِ.

2 : أخرجه عبد الرزاق في المصنف (الجزء المفقود من الجزء الأول من المصنف)، 1 / 63، الرقم : 63، والقسطلاني في المواهب اللدنية، 1 / 71، وقال : أخرجه عبد الرزاق بسنده، والزرقاني في شرح المواهب اللدنية، 1 / 89.91، والعجلوني في کشف الخفاء، 1 / 311، الرقم : 827، وقال : رواه عبد الرزاق بسنده عن جابر بن عبد اﷲ رضي اﷲ عنهما، والعيدروسي في تاريخ النور السافر، 1 / 8، وقال : رواه عبد الرزاق بسنده، والحلبي في السيرة، 1 / 50، وأشرف علي التهانوي في نشر الطيب، 1 / 13.

’’حضرت جابر بن عبد اﷲ رضی اﷲ عنہما سے مروی ہے انہوں نے فرمایا کہ میں نے بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں عرض کیا : یا رسول اﷲ! میرے ماں باپ آپ پر قربان! مجھے بتائیں کہ اﷲ تعالیٰ نے سب سے پہلے کس شے کو پیدا کیا؟ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے جابر! بے شک اﷲ تعالیٰ نے تمام مخلوق (کو پیدا کرنے) سے پہلے تمہارے نبی (محمد مصطفی) کا نور اپنے نور (کے فیض ) سے پیدا فرمایا، یہ نور اللہ تعالیٰ کی مشیت سے جہاں اس نے چاہا سير کرتا رہا۔ اس وقت نہ لوح تھی نہ قلم، نہ جنت تھی نہ دوزخ، نہ (کوئی) فرشتہ تھا نہ آسمان تھا نہ زمین، نہ سورج تھا نہ چاند، نہ جن تھے اور نہ انسان، جب اﷲ تعالیٰ نے ارادہ فرمایا کہ مخلوق کو پیدا کرے تو اس نے اس نور کو چار حصوں میں تقسیم کر دیا۔ پہلے حصہ سے قلم بنایا، دوسرے حصہ سے لوح اور تیسرے حصہ سے عرش بنایا۔ پھر چوتھے حصہ کو (مزید) چار حصوں میں تقسیم کیا تو پہلے حصہ سے عرش اٹھانے والے فرشتے بنائے اور دوسرے حصہ سے کرسی اور تیسرے حصہ سے باقی فرشتے پیدا کئے۔ پھر چوتھے حصہ کو مزید چار حصوں میں تقسیم کیا تو پہلے حصہ سے آسمان بنائے، دوسرے حصہ سے زمین اور تیسرے حصہ سے جنت اور دوزخ بنائی۔ ۔۔ آگے طویل حديث بیان ہوئی ہے۔‘‘

اسے امام عبد الرزاق نے روایت کیا ہے۔

3 / 3. عَنْ کَعْبِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه يُحَدِّثُ حِيْنَ تَخَلَّفَ عَنْ تَبُوْکَ قَالَ : فَلَمَّا سَلَّمْتُ عَلَی رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم وَهُوَ يَبْرُقُ وَجْهُهُ مِنَ السُّرُوْرِ وَکَانَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم إِذَا سُرَّ اسْتَنَارَ وَجْهُهُ حَتَّی کَأَنَّهُ قِطْعَةُ قَمَرٍ وَکُنَّا نَعْرِفُ ذَلِکَ مِنْهُ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ وَهَذَا لَفْظُ الْبُخَارِيِّ.

3 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : المناقب، باب : صفة النبي صلی الله عليه وآله وسلم، 3 / 1305، الرقم : 3363، وفي کتاب : المغازي، باب : حديث کعب بن مالک رضی الله عنه، 4 / 1607، الرقم : 4156، ومسلم في الصحيح، کتاب : التوبة، باب : حديث توبة کعب بن مالک وصاحبيه، 4 / 2127، الرقم : 2769، والنسائي في السنن الکبری، 6 / 359، الرقم : 11232، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 458، الرقم : 15827، والحاکم في المستدرک، 2 / 661، الرقم : 4193، وقال : هذا حديث صحيح.

’’حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب وہ غزوہ تبوک سے پیچھے رہ گئے تھے۔ انہوں نے بیان فرمایا، (توبہ قبول ہونے کے بعد) جب میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہو کر سلام عرض کیا تو آپ کا چہرئہ انور خوشی سے جگمگا رہا تھا اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب بھی مسرور ہوتے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرہ مبارک یوں نور بار ہو جاتا تھا جیسے وہ چاند کا ٹکڑا ہے۔ ہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرہ انور ہی سے اس بات کا اندازہ کر لیا کرتے تھے۔‘‘ یہ حديث متفق علیہ ہے اور مذکورہ الفاظ امام بخاری کے ہیں۔

4 / 4. عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ قَالَ : سُئلَ الْبَرَاءُ أَکَانَ وَجْهُ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم مِثْلَ السَّيْفِ؟ قَالَ : لَا بَلْ مِثْلَ الْقَمَرِ.

رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَالتِّرْمِذِيُّ وَالدَّارِمِيُّ وَأَحْمَدُ.

وَقَالَ أَبُوْ عِيْسَی : هَذَا حَدِيْثُ حَسَنٌ.

4 : أخرجه البخاری فی الصحيح، کتاب : المناقب، باب : صفة النبي صلی الله عليه وآله وسلم، 3 / 1304، الرقم : 3359، والترمذي في السنن، کتاب : المناقب عن رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم، باب : ما جاء في صفة النبي صلی الله عليه وآله وسلم، 5 / 598، الرقم : 3636، والدارمي في السنن، 1 / 45، الرقم : 64، وأحمد بن حنبل في المسند، 4 / 281، الرقم : 18501، وابن حبان في الصحيح، 14 / 198، الرقم : 6287، والطبراني في المعجم الکبير، 2 / 224، الرقم : 1926، وابن الجعد في المسند، 1 / 375، الرقم : 2572، والترمذي في الشمائل المحمدية، 1 / 39، الرقم : 11، والبخاري في التاريخ الکبير، 1 / 10، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 3 / 290، وابن سعد في الطبقات الکبری، 1 / 417.

’’حضرت براء رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ کیا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرہ انور تلوار کی طرح چمک دار تھا؟ انہوں نے فرمایا : نہیں بلکہ چاند کی طرح روشن تھا۔‘‘

اس حديث کو امام بخاری، ترمذی، دارمی اور احمد نے روایت کیا ہے اور امام ابو عیسیٰ نے فرمایا کہ یہ حديث حسن ہے۔

5 / 5. عَنْ عَائِشَةَ رضي اﷲ عنها أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم دَخَلَ عَلَيْهَا مَسْرُوْرًا تَبْرُقُ أَسَارِيْرُ وَجْهِهِ …الحديث. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

5 : أخرجه البحاري فی الصحيح، کتاب : المناقب، باب : صفة النبي صلی الله عليه وآله وسلم، 3 / 1304، الرقم : 3362، وفي کتاب : الفرائض، باب : القائف، 6 / 2486، الرقم : 6388، ومسلم فی الصحيح، کتاب الرضاع، باب : العمل بإلحاق القائف الولد، 2 / 1081، الرقم : 1459، والترمذي في السنن، کتاب : الولاء والهبة عن رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم، باب : ما جاء في القافة، 4 / 440، الرقم : 2129، وأبوداود في السنن، کتاب : الطلاق، باب : في القافة، 2 / 280، الرقم : 131، والنسائي في السنن، کتاب : الطلاق، باب : القافة، 6 / 184، الرقم : 3493، وفي السنن الکبری، 3 / 381، الرقم : 5687، والدارقطني في السنن، 4 / 240، الرقم : 131، وأحمد بن حنبل فی المسند، 6 / 82، الرقم : 24570.

’’حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک روز حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے پاس ایسی مسرت ریز حالت میں تشریف فرما ہوئے کہ چہرہ مبارک (نور سے) جگمگا رہا تھا۔‘‘ یہ حديث متفق علیہ ہے۔

6 / 6. عَنِ الْبَرَاءِ رضی الله عنه يَقُوْلُ : کَانَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم أَحْسَنَ النَّاسِ وَجْهًا وَأَحْسَنَهُ خَلْقًا لَيْسَ بِالطَّوِيْلِ الْبَائِنِ وَلَا بِالْقَصِيْرِ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

6 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : المناقب، باب : صفة النبي صلی الله عليه وآله وسلم، 3 / 1303، الرقم : 3356، ومسلم في الصحيح، کتاب : الفضائل، باب : في صفة النبي صلی الله عليه وآله وسلم وأنه أحسن الناس وجها، 4 / 1819، الرقم : 2337، وابن حبان في الصحيح، 14 / 196، الرقم : 6285.

’’حضرت براء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بلحاظ صورت اور خِلقت بھی سب سے زیادہ حسین تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بہت زیادہ دراز قد تھے اور نہ بہت زیادہ پست قد۔‘‘ یہ حديث متفق علیہ ہے۔

7 / 7. عَنْ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ رضي اﷲ عنهما قَالَ : کَانَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم مَرْبُوْعًا بَعِيْدَ مَا بَيْنَ الْمَنْکِبَيْنِ لَهُ شَعَرٌ يَبْلُغُ شَحْمَةَ أُذُنِهِ رَأَيْتُهُ فِي حُلَّةٍ حَمْرَاءَ لَمْ أَرَ شَيْئًا قَطُّ أَحْسَنَ مِنْهُ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

7 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : المناقب، باب : صفة النبي صلی الله عليه وآله وسلم ، 3 / 1303، الرقم : 3358، ومسلم في الصحيح، کتاب : الفضائل، باب : في صفة النبي صلی الله عليه وآله وسلم وأنّه کان أحسن الناس وجها، 4 / 1818، الرقم : 2337، وأبوداود في السنن، کتاب : اللباس، باب : في الرخصة في ذلک، 4 / 54، الرقم : 4072، وأحمد بن حنبل في المسند، 4 / 281، الرقم : 18496، وأبو يعلی في المسند، 3 / 262، الرقم : 1714، والطيالسي في المسند، 1 / 98، الرقم : 721، والترمذي في الشمائل المحمدية، 1 / 30، الرقم : 3.

’’حضرت براء بن عازب رضی اﷲ عنہما فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میانہ قد تھے۔ دونوں کندھوں کے درمیان کافی فاصلہ تھا۔ گیسوئے مبارک کانوں کی لو تک پہنچتے تھے۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سرخ جبے میں ملبوس دیکھا ہے اور ہرگز کسی کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حسین و جمیل نہیں دیکھا۔‘‘ یہ حديث متفق علیہ ہے۔

8 / 8. عَنِ الْبَرَاءِ رضی الله عنه قَالَ : مَا رَأَيْتُ مِنْ ذِي لِمَّةٍ أَحْسَنَ فِي حُلَّةٍ حَمْرَاءَ مِنْ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم شَعْرُهُ يَضْرِبُ مَنْکِبَيْهِ بَعِيْدَ مَا بَيْنَ الْمَنْکِبَيْنِ لَيْسَ بِالطَّوِيْلِ وَلاَ بِالْقَصِيْرِ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ وَهَذَا لَفْظُ مُسْلِمٍ.

وفي رواية عنه : يَقُوْلُ : مَا رَأَيْتُ أَحَدًا مِنْ خَلْقِ اﷲِ أَحْسَنَ فِي حُلَّةٍ حَمْرَاءَ مِنْ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم . رَوَاهُ أَحْمَدُ.

8 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : اللباس، باب : الجعد، 5 / 2211، الرقم : 5561، ومسلم في الصحيح، کتاب : الفضائل، باب : في صفة النبي صلی الله عليه وآله وسلم وأنه کان أحسن الناس وجها، 4 / 1818، الرقم : 2337، وأبوداود في السنن، کتاب : الترجل، باب : ما جاء في الشعر، 4 / 81، الرقم : 4183، والنسائي في السنن، کتاب : الزينة، باب : اتخاذ الشعر، 8 / 133، الرقم : 5062، وفي کتاب : أيضًا، باب : اتخاذ الجمة، 8 / 183، الرقم : 5233، وأحمد بن حنبل في المسند، 4 / 290، 295، 300، الرقم : 18581، 18636، 18688، وفي السنن الکبری، 5 / 412، الرقم : 9325.9328، والترمذي في الشمائل المحمدية، 1 / 73، الرقم : 65، وابن سعد في الطبقات الکبری، 1 / 428.

’’حضرت براء رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے کسی دراز گیسوؤں والے شخص کو سرخ پوشاک پہنے ہوئے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے زیادہ حسین نہیں دیکھا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بال مبارک کندھوں تک تھے اور دونوں کندھوں کے درمیان زیادہ فاصلہ تھا، اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا قد مبارک نہ بہت لمبا تھا اور نہ بہت چھوٹا (یعنی میانہ قد تھے)۔ ‘‘

یہ حديث متفق علیہ ہے اور مذکورہ الفاظ مسلم کے ہیں۔

اور ان ہی سے مروی ایک روایت میں ہے کہ فرمایا : میں نے اﷲ تعالیٰ کی مخلوق میں سے کسی کو سرخ پوشاک میں ملبوس حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بڑھ کر حسین نہیں دیکھا۔

اس حديث کو امام احمد نے روایت کیا ہے۔

9 / 9. عَنْ أَنَسٍ رضی الله عنه قَالَ : کَانَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم أَزْهَرَ اللَّوْنِ کَأَنَّ عَرَقَهُ اللُّؤْلُؤُ إِذَا مَشَی تَکَفَّأَ وَلَا مَسِسْتُ دِيْبَاجَةً وَلَا حَرِيْرَةً أَلْيَنَ مِنْ کَفِّ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم وَلَا شَمَمْتُ مِسْکَةً وَلَا عَنْبَرَةً أَطْيَبَ مِنْ رَائِحَةِ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم . مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ وَهَذَا لَفْظُ مُسْلِمٍ.

10 / 10. و في رواية عنه للبخاري : قَالَ : وَلَا مَسِسْتُ خَزَّةً وَلَا حَرِيْرَةً أَلْيَنَ مِنْ کَفِّ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم وَلَا شَمَمْتُ مِسْکَةً وَلَا عَبِيْرَةً أَطْيَبَ رَاءِحَةً مِنْ رَائِحَةِ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم .

9 / 10 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : الصوم، باب ما يذکر من صوم النبي وإفطاره صلی الله عليه وآله وسلم ، 2 / 696، الرقم : 1872، وفي کتاب : المناقب، باب : صفة النبي صلی الله عليه وآله وسلم، 3 / 1306، الرقم : 3368، ومسلم في الصحيح، کتاب : الفضائل، باب : طيب رائحة النبي ولين مسه والتبرک بمسحه، 4 / 1814. 1815، الرقم : 2330، والترمذی في السنن، کتاب : البر والصلة عن رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم، باب : ما جاء في خلق النبي صلی الله عليه وآله وسلم، 4 / 368، الرقم : 2015، وقال أبو عيسی : هذا حديث حسن صحيح، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 107، 200، 227.228، 270، الرقم : 12067، 13096، 13398، 13405، 13878، وابن حبان في الصحيح، 14 / 211، الرقم : 6303، وابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 315، الرقم : 31718، وأبويعلی في المسند، 6 / 405، 463، الرقم : 3761.3762، 3866.

’’حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جسم اقدس کی جیسی خوشبو تھی ایسی خوشبو مشک میں تھی نہ عنبر میں، نہ ہی کسی اور چیز میں، اور میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جسم سے زیادہ ملائم دیباج کو پایا نہ حریر کو، (یہ ریشم کی اعلیٰ اقسام ہیں)۔‘‘ یہ حديث متفق علیہ ہے اور مذکورہ الفاظ مسلم کے ہیں۔

اور بخاری کی ایک روایت میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے ہی مروی ہے کہ فرمایا : اور میں نے کسی دیباج یا ریشم کو مَس نہیں کیا جو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہتھیلی سے زیادہ نرم ہو اور نہ مشک وغیرہ کی خوشبو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشبو سے بڑھ کر تھی۔‘‘

11 / 11. عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ رضی الله عنه يَقُوْلُ : کَانَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَدْ شَمِطَ مُقَدَّمُ رَأْسِهِ وَلِحْيَتِهِ وَکَانَ إِذَا ادَّهَنَ لَمْ يَتَبَيَنْ وَإِذَا شَعِثَ رَأْسُهُ تَبَيَنَ وَکَانَ کَثِيْرَ شَعْرِ اللِّحْيَةِ فَقَالَ رَجُلٌ : وَجْهُهُ مِثْلُ السَّيْفِ؟ قَالَ : لَا بَلْ مِثْلَ الشَّمْسِ وَالْقَمَرِ وَکَانَ مُسْتَدِيْرًا وَرَأَيْتُ الْخَاتَمَ عِنْدَ کَتِفِهِ مِثْلَ بَيْضَةِ الْحَمَامَةِ يُشْبِهُ جَسَدَهُ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ.

11 : أخرجه مسلم فی الصحيح، کتاب : الفضائل، باب : شيبه صلی الله عليه وآله وسلم، 4 / 1823، الرقم : 2344، وأحمد بن حنبل فی المسند، 5 / 104، الرقم : 21036، وابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 328، الرقم : 31808، وابن حبان في الصحيح، 14 / 206، الرقم : 6297، وأبو يعلی في المسند، 13 / 451، الرقم : 7456، والبيهقي في شعب الإيمان، 2 / 151، الرقم : 1419، والنميري في أخبار المدينة، 1 / 324، الرقم : 987، والفسوي في المعرفة والتاريخ، 3 / 302.

’’حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سر مبارک کے اگلے بال اور داڑھی مبارک کے سامنے والے بال سفید ہو گئے، جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تیل لگاتے تو وہ سفیدی معلوم نہیں ہوتی تھی، اور جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بال مبارک بکھرے ہوئے ہوتے تو سفیدی معلوم ہوتی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی داڑھی مبارک بہت گھنی تھی، ایک شخص نے پوچھا کہ کیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرہ تلوار کی طرح تھا، انہوں نے فرمایا : نہیں بلکہ سورج اور چاند کی طرح تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرئہ مبارک گول تھا، اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کندھے کے پاس کبوتر کے انڈے کے برابر مہر نبوت دیکھی جس کا رنگ جسم کے رنگ کے مشابہ تھا۔‘‘

اس حديث کو امام مسلم، احمد اور ابن ابی شيبہ نے روایت کیا ہے۔

12 / 12. عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رضی الله عنه قَالَ : ضَحِکَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم وَکَانَ مِنْ أَحْسَنَ النَّاسِ ثَغْرًا.

رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَابْنُ حِبَّانَ وَاللَّفْظُ لَهُ وَأَبُوْ يَعْلَی وَالْبَزَّارُ.

12 : أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب : الطلاق، باب : في الإيلاء واعتزال النساء وتخييرهن، 2 / 1107، الرقم : 1479، وابن حبان في الصحيح، 14 / 200، الرقم : 6290، 9 / 498، الرقم : 4188، وأبو يعلی في المسند، 1 / 152، الرقم : 164، والبزار في المسند، 1 / 304، الرقم : 195، وأبو عوانة في المسند، 3 / 165، الرقم : 4572، وابن عبد البر في الاستيعاب، 4 / 1516.

’’حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسکرائے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمام لوگوں سے بڑھ کر خوبصورت دہن والے تھے۔‘‘

اس حديث کو امام مسلم، ابن حبان، ابويعلی اور بزار نے روایت کیا ہے، مذکورہ الفاظ ابن حبان کے ہیں۔

13 / 13. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ : مَا رَأَيْتُ شَيْئًا أَحْسَنَ مِنْ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم کَأَنَّ الشَّمْسَ تَجْرِي فِي وَجْهِهِ وَمَا رَأَيْتُ أَحَدًا أَسْرَعَ فِي مِشْيَتِهِ مِنْ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم کَأَنَّمَا الْأَرْضُ تُطْوَی لَهُ إِنَّا لَنُجْهِدُ أَنْفُسَنَا وَإِنَّهُ لَغَيْرُ مُکْتَرِثٍ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَأَحْمَدُ.

13 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : المناقب عن رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم، باب : في صفة النبي صلی الله عليه وآله وسلم، 5 / 604، الرقم : 3648، وفي الشمائل المحمدية، 1/ 112، الرقم : 124، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 350، 380، الرقم : 8588، 8930، وابن حبان في الصحيح، 14 / 215، الرقم : 6309، وابن المبارک في المسند، 1 / 17، الرقم : 31، وفي کتاب الزهد، 1 / 288، الرقم : 838، وابن سعد في الطبقات الکبری، 1 / 379، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 3 / 267.

’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے زیادہ حسین کوئی چیز نہیں دیکھی، گویا کہ چہرہ انور میں سورج گردش پذیر ہے اور میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے زیادہ تیز رفتار بھی کوئی نہیں دیکھا گویا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے زمین لپیٹ دی جاتی تھی، ہم (چلتے وقت) اپنی جانوں کو مشقت میں ڈالتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بلا تکلف چلتے تھے۔‘‘ اس حديث کو امام ترمذی اور احمد نے روایت کیا ہے۔

14 / 14. عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ رضی الله عنه قَالَ : کَانَ فِي سَاقَي رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم حُمُوْشَةٌ وَکَانَ لَا يَضْحَکُ إِلَّا تَبَسُّمًا وَکُنْتُ إِذَا نَظَرْتُ إِلَيْهِ قُلْتُ أَکْحَلُ الْعَيْنَيْنِ وَلَيْسَ بِأَکْحَلَ.

رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَأَحْمَدُ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَالْحَاکِمُ.
وَقَالَ أَبُوْ عِيْسَی : هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ.
وَقَالَ الْحَاکِمُ : هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ.

14 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب، المناقب عن رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم ، باب : في صفة النبي صلی الله عليه وآله وسلم، 5 / 603، الرقم : 3645، وأحمد بن حنبل في المسند، 5 / 97، الرقم : 20955، وابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 328، الرقم : 31806، والحاکم في المستدرک،2 / 662، الرقم : 4196، وأبو يعلی في المسند، 13 / 453، الرقم : 7458، والطبراني المعجم الکبير، 2 / 244، الرقم : 2024، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 3 / 292، والذهبي في سير أعلام النبلاء، 11 / 256، والفسوي في المعرفة والتاريخ، 3 / 306.

’’حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پنڈلیاں مبارک پتلی تھیں، ہنسی صرف مسکراہٹ ہوتی تھی اور جب میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف دیکھتا تو کہتا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آنکھوں میں سرمہ لگا ہوا ہے حالانکہ سرمہ لگا ہوا نہ ہوتا تھا (یعنی چشمانِ مقدس ہی اسقدر سرمگیں تھیں)۔‘‘

اس حديث کو امام ترمذی، احمد، ابن ابی شيبہ اور حاکم نے روایت کیا ہے اور امام ابو عیسیٰ نے فرمایا کہ یہ حديث حسن صحيح ہے۔

15 / 15. عَنْ عَلِيٍّ عليه السلام قَالَ : لَمْ يَکُنْ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم بِالطَّوِيْلِ وَلَا بِالْقَصِيْرِ، شَثْنَ الْکَفَّيْنِ وَالْقَدَمَيْنِ، ضَخْمَ الرَّأْسِ، ضَخْمَ الْکَرَادِيْسِ، طَوِيْلَ الْمَسْرُبَةِ إِذَا مَشَی تَکَفَّأَ تَکَفُّؤًا کَأَنَّمَا انْحَطَّ مِنْ صَبَبٍ لَمْ أَرَ قَبْلَهُ وَلَا بَعْدَهُ مِثْلَهُ.

رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَأَحْمَدُ وَالْحَاکِمُ وَالْبُخَارِيُّ فِي الْکَبِيْرِ.
وَقَالَ أَبُوْ عِيْسَی : هَذَا حَدَيْثٌ حَسَنٌ.
وَقَالَ الْحَاکِمُ : هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ.

15 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : المناقب عن رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم، باب : ما جاء في صفة النبي صلی الله عليه وآله وسلم، 5 / 598، الرقم : 3637، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 / 96، 127، الرقم : 746، 1053، والحاکم في المستدرک، 2 / 662، الرقم : 4194، وأبو يعلی في المسند، 1 / 304، الرقم : 370، والبزار في المسند، 2 / 18، الرقم : 474، والطيالسي في المسند، 1 / 24، الرقم : 171، والبيهقي في شعب الإيمان،2 / 149، الرقم : 1414، والبخاري في التاريخ الکبير، 1 / 8، وابن سعد في الطبقات الکبری، 1 / 410، وابن عبد البر في الاستذکار، 8 / 332، والمقدسي في الأحاديث المختارة، 2 / 368، الرقم : 751، 754.

’’حضرت علی علیہ السلام سے روایت ہے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نہ تو بہت دراز قد تھے اور نہ ہی پست قد، ہتھیلیاں اور قدم مبارک پُرگوشت تھے، سر مبارک بڑا، ہڈیوں کے جوڑ بڑے تھے، سینے اور ناف مبارک کے درمیان بالوں کی لمبی سی (باریک) لکیر تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چلتے تو آگے کی طرف جھکاو ہوتا گویا کہ بلندی سے اتر رہے ہوں۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پہلے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جیسا کوئی حسین نہیں دیکھا۔‘‘

اس حديث کو امام ترمذی، احمد، حاکم اور بخاری نے ’’التاريخ الکبير’’ میں روایت کیا ہے اور امام ابوعیسی نے فرمایا کہ یہ حديث حسن ہے اور امام حاکم نے بھی فرمایا کہ اس حديث کی سند صحيح ہے۔

16 / 16. عَنْ إِبْرَاهِيْمَ بْنِ مُحَمَّدٍ مِنْ وَلَدِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رضی الله عنه قَالَ : کَانَ عَلِيٌّ رضی الله عنه إِذَا وَصَفَ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : لَمْ يَکُنْ بِالطَّوِيْلِ الْمُمَّغِطِ وَلَا بِالْقَصِيْرِ الْمُتَرَدِّدِ وَکَانَ رَبْعَةً مِنْ الْقَوْمِ وَلَمْ يَکُنْ بِالْجَعْدِ الْقَطَطِ وَلَا بِالسَّبِطِ کَانَ جَعْدًا رَجِـلًا وَلَمْ يَکُنْ بِالْمُطَهَمِ وَلَا بِالْمُکَلْثَمِ وَکَانَ فِي الْوَجْهِ تَدْوِيْرٌ أَبْيَضُ مُشْرَبٌ أَدْعَجُ الْعَيْنَيْنِ أَهْدَبُ الْأَشْفَارِ جَلِيْلُ الْمُشَاشِ وَالْکَتَدِ أَجْرَدُ ذُوْ مَسْرُبَةٍ شَثْنُ الْکَفَّيْنِ وَالْقَدَمَيْنِ إِذَا مَشَی تَقَلَّعَ کَأَنَّمَا يَمْشِي فِي صَبَبٍ وَإِذَا الْتَفَتَ الْتَفَتَ مَعًا بَيْنَ کَتِفَيْهِ خَاتَمُ النُّبُوَّةِ وَهُوَ خَاتَمُ النَّبِيِّيْنَ أَجْوَدُ النَّاسِ کَفًّا وَأَشْرَحُهُمْ صَدْرًا وَأَصْدَقُ النَّاسِ لَهْجَةً وَأَلْيَنُهُمْ عَرِيْکَةً وَأَکْرَمُهُمْ عِشْرَةً مَنْ رَآهُ بَدِيْهَةً هَابَهُ وَمَنْ خَالَطَهُ مَعْرِفَةً أَحَبَّهُ يَقُوْلُ : نَاعِتُهُ لَمْ أَرَ قَبْلَهُ وَلَا بَعْدَهُ مِثْلَهُ.

رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ.
وَقَالَ أَبُوْ عِيْسَی : هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ.

16 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : المناقب عن رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم، باب : ما جاء في صفة النبي صلی الله عليه وآله وسلم، 5 / 599، الرقم : 3638، وفي الشمائل المحمدية، 1 / 32، الرقم : 7، وابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 328، الرقم : 31805، والبيهقي في شعب الإيمان، 2 / 149، الرقم : 1415، وابن سعد في الطبقات الکبری، 1 / 411، والنميری في أخبار المدينة، 1 / 319، الرقم : 968، وابن عبد البر في الاستذکار، 8 / 331، وفي التمهيد، 3 / 29، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 3 / 261، وابن الجوزي في صفوة الصفوة، 1 / 153، والفسوي في المعرفة والتاريخ، 3 / 303.

’’حضرت ابراہیم بن محمد جو حضرت علی ابن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی اولاد سے ہیں کہ فرماتے ہیں حضرت علی رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حلیہ مبارک بیان کرتے ہوئے فرماتے : آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نہ تو بہت دراز قد تھے اور نہ ہی بہت پست قد تھے، بلکہ درمیانہ قد تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بال مبارک نہ تو بالکل گھنگھریالے تھے اور نہ ہی بالکل سیدھے بلکہ کچھ گھنگھریالے تھے۔ چہرہ مبارک نہ تو بالکل پُر گوشت تھا اور نہ ہی مکمل طور پر گول تھا بلکہ کچھ گولائی تھی۔ رنگ مبارک سرخی مائل سفید تھا۔ آنکھیں سیاہ، پلکیں دراز، جوڑوں کی ہڈیاں موٹی تھیں، مونڈھوں کے سرے اور درمیان کی جگہ بھی پُر گوشت تھی۔ بدن مبارک پر معمول سے زیادہ بال نہ تھے، سینہ مبارک سے ناف مبارک تک بالوں کی لکیر تھی۔ ہتھیلیاں مبارک اور دونوں پائوں مبارک پُرگوشت تھے۔ چلتے وقت قوت کے ساتھ چلتے گویا کہ ڈھلوان جگہ میں چل رہے ہوں۔ کسی طرف متوجہ ہوتے تو نظر بھر کر توجہ فرماتے۔ دونوں کندھوں کے درمیان مہر نبوت تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خاتم النبیین تھے، سب سے زیادہ سخی دل اور سب سے زیادہ سچ بولنے والے تھے، سب سے زیادہ نرم طبیعت اور سب سے زیادہ شریف گھرانے والے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اچانک دیکھنے والا مرعوب ہو جاتا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ معاشرت رکھنے والا مانوس ہو کر فدا ہو جایا کرتا۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جیسا حسین نہ آپ سے پہلے دیکھا (سنا) اور نہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد دیکھا (سنا)۔‘‘

اس حديث کو امام ترمذی اور ابن ابی شيبہ نے روایت کیا ہے اور امام ابو عیسیٰ نے فرمایا کہ یہ حديث حسن ہے۔

17 / 17. عَنِ الْبَرَاءِ رضی الله عنه قَال : رَأَيْتُ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم وَعَلَيْهِ حُلَّةٌ حَمْرَاءُ مُتَرَجِّـلًا لَمْ أَرَ قَبْلَهُ وَلاَ بَعْدَهُ أَحَدًا هُوَ أَجْمَلُ مِنْهُ.

رَوَاهُ النَّسَائيُّ وَأَبُوْ يَعْلَی.

17 : أخرجه النسائي في السنن، کتاب : الزينة، باب : لبس الحلل، 8 / 203، الرقم : 5314، وفي السنن الکبری، 5 / 476، الرقم : 9639، وأبو يعلی في المسند، 3 / 253، الرقم : 1699، وابن الجعد في المسند، 1 / 312، الرقم : 2111، والجرجاني في تاريخ جرجان، 1 / 514، الرقم : 1059، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 3 / 289، 43 / 112.

’’حضرت براء رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کی درآنحالیکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سرخ پوشاک زیبِ تن کیے ہوئے تھے اور زلفوں میں مانگ نکالے ہوئے تھے، میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پہلے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد کسی کو نہیں دیکھا جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے زیادہ خوبصورت ہو۔‘‘

اس حديث کو امام نسائی اور ابو يعلی نے روایت کیا ہے۔

18 / 18. عَنْ إِبْرَاهِيْمَ قَالَ : کَانَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يُعْرَفُ بِاللَّيْلِ بِرِيْحِ الطِّيْبِ. رَوَاهُ الدَّارِمِيُّ.

18 : أخرجه الدارمي في السنن، باب : في حسن النبي صلی الله عليه وآله وسلم، 451، الرقم : 65.

’’حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رات کے وقت (راہ میں اپنے بدن اقدس کی) پاکیزہ خوشبو سے پہچانے جاتے تھے۔‘‘

اس حديث کو امام دارمی نے روایت کیا ہے۔

19 / 19. عَنْ جَابِرٍ رضی الله عنه أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم لَمْ يَسْلُکْ طَرِيْقًا أَوْ لاَ يَسْلُکُ طَرِيْقًا فَيَتْبَعُهُ أَحَدٌ إِلاَّ عَرَفَ أَنَّهُ قَدْ سَلَکَهُ مِنْ طِيْبِ عَرَقِهِ أَوْ قَالَ : مِنْ رِيْحِ عَرَقِهِ صلی الله عليه وآله وسلم . رَوَاهُ الدَّارِمِيُّ.

19 : أخرجه الدارمي في السنن، باب : في حسن النبي صلی الله عليه وآله وسلم، 1 / 45، الرقم : 66.

’’حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی بھی راستے پر نہیں چلے یا کسی راستے پر نہیں چلتے تھے جس میں کوئی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیروی کرتا مگر یہ کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پسینہ مبارک کی خوشبو سے پہچان لیتا کہ آپ اس راستے پر چلے ہیں۔ یا کہا : آپِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پسینہ مبارک کی مہک سے پہچان لیتا۔‘‘

اس حديث کو امام دارمی نے روایت کیاہے۔

20 / 20. عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَمَّارِ بْنِ يَاسِرٍ رضی الله عنهم قَالَ : قُلْتُ لِلرُّبَيِّعِ بِنْتِ مُعَوِّذِ بْنِ عَفْرَائَ : صِفِي لَنَا رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم ؟ فَقَالَتْ : يَا بُنَيَّ، لَوْ رَأَيْتَهُ رَأَيْتَ الشَّمْسَ طَالِعَةً. رَوَاهُ الدَّارِمِيُّ وَالطَّبَرَانِيُّ وَالْبَيْهَقِيُّ.

20 : أخرجه الدارمي في السنن، باب : فی حسن النبي صلی الله عليه وآله وسلم، 1 / 44، الرقم : 60، والطبراني في المعجم الکبير، 24 / 274، الرقم : 696، والبيهقي في شعب الإيمان، 2 / 151، الرقم : 1420، والشيباني في الآحاد والمثاني، 6 / 116، الرقم : 3335، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 3 / 313.

’’حضرت ابو عبیدہ بن محمد بن عمار بن یاسر رضی اللہ عنہم بیان فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ربیع بنت معوذ بن عفراء رضی اﷲ عنہما سے کہا کہ ہمارے سامنے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اوصاف مبارکہ بیان کریں، تو انہوں نے فرمایا : اے میرے بیٹے! اگر تم انہیں دیکھتے (تو ایسے ہی تھا گویا) تم نے اپنی پوری آب و تاب سے چمکتا سورج دیکھ لیا ہے۔‘‘

اس حديث کو امام دارمی، طبرانی اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔

21 / 21. عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ الْجُهَنِيِّ رضی الله عنه قَالَ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ : فذکر الحديث إلی أن قال : حَتَّی آتِيَ رَبِّي فَيُشَفِّعَنِي وَيَجْعَلَ لِي نُوْرًا مِنْ شَعْرِ رَأْسِي إِلَی ظُفْرِ قَدَمِي…الحديث.

رَوَاهُ الدَّارِمِيُّ وَالطَّبَرَانِيُّ وَابْنُ الْمُبَارَکِ.

21 : أخرجه الدارمي في السنن، کتاب : الرقاق، 2 / 421، الرقم : 2804، والطبراني في المعجم الکبير، 17 / 320، الرقم : 887، وابن المبارک في المسند، 1 / 64، الرقم : 102، وفي کتاب الزهد، 1 / 111، الرقم : 374، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 7 / 453، والهيثمي في مجمع الزوائد، 10 / 376، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 2 / 530، والسيوطي في الدر المنثور، 5 / 18.

’’حضرت عقبہ بن عامر جہنی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا : پھر انہوں (حضرت عقبہ بن عامر) نے پوری حديث ذکر کی یہاں تک کہ بیان کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : یہاں تک کہ میں اپنے رب تعالیٰ کے پاس آؤں گا تو وہ میری شفاعت قبول فرمائے گا اور میرے سر کے بالوں سے لے کر میرے پاوں کے ناخنوں تک مجھے (سراپا) نور بنا دے گا (یعنی اس وقت میری نورانیت کو ہر ایک پر عیاں فرما دے گا)۔۔۔ الحديث۔‘‘

اس حديث کو امام دارمی، طبرانی اور ابن مبارک نے روایت کیا ہے۔

22 / 22. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي اﷲ عنهما قَالَ : کَانَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم أَفْلَجَ الثَّنِيَتَيْنِ إِذَا تَکَلَّمَ رُئِيَ کَالنُّوْرِ يَخْرُجُ مِنْ بَيْنِ ثَنَايَاهُ.

رَوَاهُ الدَّارِمِيُّ وَالطَّبَرَانِيُّ.

22 : أخرجه الدارمي في السنن : باب : في حسن النبي صلی الله عليه وآله وسلم، 1 / 44، الرقم : 58، والطبراني في المعجم الأوسط، 1 / 235، الرقم : 767، والفسوي في المعرفة والتاريخ، 3 / 306، والذهبي في سير أعلام النبلاء، 10 / 691.

’’حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اﷲ عنہما بیان فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے والے دندان مبارک قدرے کشادہ تھے اور جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کلام فرماتے تو یوں دکھتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے والے دندان مبارک سے نور کی کرنیں پھوٹ پھوٹ کر نکل رہی ہیں۔‘‘ اس حديث کو امام دارمی اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔

23 / 23. عَنْ عِرْبَاضِ بْنِ سَارِيَةَ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : إِنِّي عَبْدُ اﷲِ لَخَاتَمُ النَّبِيِّيْنَ وَإِنَّ آدَمَ عليه السلام لَمُنْجَدِلٌ فِي طِيْنَتِهِ وَسَأُنَبِّئُکُمْ بِأَوَّلِ ذَلِکَ دَعْوَةُ أَبِي إِبْرَاهِيْمَ وَبِشَارَةُ عِيْسَی بِي وَرُؤْيَا أُمِّي الَّتِي رَأَتْ وَکَذَلِکَ أُمَّهَاتُ النَّبِيِّيْنَ تَرَيْنَ. رَوَاهُ أَحْمَدُ.

وفي رواية عنه : قَالَ : إِنِّي عَبْدُ اﷲِ وَخَاتَمُ النَّبِيِّيْنَ فذکر مثله وزاد فيه : إِنَّ أُمَّ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم رَأَتْ حِيْنَ وَضَعَتْهُ نُوْرًا أَضَاءَتْ مِنُهُ قُصُوْرُ الشَّامِ. رَوَاهُ أَحْمَدُ وَابْنُ حِبَّانَ وَالْحَاکِمُ وَالْبُخَارِيُّ فِي الْکَبِيْرِ.

23 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 4 / 127، 128، الرقم : 16770، 16712، وابن حبان في الصحيح، 14 / 313، الرقم : 6404، والحاکم في المستدرک، 2 / 656، الرقم : 4175، والطبراني في المعجم الکبير، 18 / 252،253، الرقم : 629، 630، والبيهقي في شعب الإيمان، 2 / 134، الرقم : 1385، وابن أبي عاصم في السنة، 1 / 179، الرقم : 409، والبخاري في التاريخ الکبير، 6 / 68، الرقم : 1736.

‘‘’’حضرت عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں اﷲ تعالیٰ کا بندہ ہوں اور اس کے ہاں اس وقت سے خاتم النبیین (آخری نبی) لکھا جا چکا تھا جب کہ آدم علیہ السلام ابھی خمیر سے پہلے مٹی میں تھے اور میں تمہیں اس کی تاویل بتاتا ہوں کہ میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا (کا نتیجہ) ہوں اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بشارت ہوں اور اپنی والدہ ماجدہ کا وہ خواب ہوں جو انہوں نے دیکھا اور انبیاء کرام کی مائیں اسی طرح کے خواب دیکھتی ہیں۔‘‘’’

اس حديث کو امام احمد نے روایت کیا ہے اور انہی سے مروی ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’میں اﷲ تعالیٰ کا بندہ اور خاتم النبیین ہوں۔۔۔ پس سابقہ حديث کی طرح حديث ذکر کی اور اس میں یہ اضافہ کیا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی والدہ ماجدہ نے جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جنم دیا تو انہوں نے ایک نور (اپنے بدن سے نکلتے ہوئے) دیکھا جس سے شام کے محلات روشن ہو گئے۔‘‘

اس حديث کو امام احمد، ابن حبان، حاکم اور امام بخاری نے ’’التاريخ الکبير’’ میں روایت کیا ہے۔

24 / 24. عَنِ الْعِرْبَاضِ بْنِ سَارِيَةَ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم: إِنِّي عِنْدَ اﷲِ فِي أُمِّ الْکِتَابِ لَخَاتَمُ النَّبِيِّيْنَ، وَإِنَّ آدَمَ لَمُنْجَدِلٌ فِي طِيْنَتِهِ، وَسَأُحَدِّثُکُمْ تَأْوِيْلَ ذَلِکَ: دَعْوَةُ أَبِي إِبْرَاهِيْمَ، دَعَا: {وَابْعَثْ فِيْهِمْ رَسُوْلًا مِنْهُمْ} [البقرة، 2 : 129]، وَبِشَارَةُ عِيْسَی بْنِ مَرْيَمَ قَوْلُهُ : {وَمُبَشِّرًام بِرَسُوْلٍ يَأْتِي مِنْم بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ} الصف، [61 : 6]. وَرُؤْيَا أُمِّي رَأَتْ فِي مَنَامِهَا أَنَّهَا وَضَعَتْ نُوْرًا أَضَاءَ تْ مِنْهُ قُصُوْرُ الشَّامِ. رَوَاهُ ابْنُ حِبَّانَ وَالطَّبَرَانِيَُّ وَأَبُوْ نُعَيْمٍ وَالْحَاکِمُ وَابْنُ سَعْدٍ.

24 : أخرجه ابن حبان فی الصحيح، 14 / 312، الرقم : 6404، والطبرانی في المعجم الکبير، 18 / 253، الرقم : 631، وأبو نعيم في حلية الأولياء، 6 / 40، وفي دلائل النبوة، 1 / 17، والحاکم في المستدرک، 2 / 656، الرقم : 4174، وابن سعد في الطبقات الکبری، 1 / 149، والعسقلاني في فتح الباري، 6 / 583، والطبري في جامع البيان، 6 / 583، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 1 / 185، وفي البداية والنهاية، 2 / 321، والهيثمي في موارد الظمآن، 1 / 512، الرقم : 2093، وفي مجمع الزوائد، 8 / 223، وقال : واحد أسانيد أحمد رجاله رجال الصحيح غير سعيد بن سويد وقد وثّقه ابن حبان.

’’حضرت عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بے شک میں اللہ تعالیٰ کے ہاں لوحِ محفوظ میں اس وقت بھی خاتم الانبیاء تھا جبکہ حضرت آدم علیہ السلام ابھی اپنی مٹی میں گندھے ہوئے تھے۔ میں تمہیں ان کی تاویل بتاتا ہوں کہ جب میرے جدِ امجد حضرت ابراہیم علیہ السلام نے دعا کی : ’’اے ہمارے رب! ان میں، انہی میں سے (وہ آخری اور برگزیدہ) رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) مبعوث فرما۔‘‘ اور حضرت عیسی بن مریم علیہ السلام کی بشارت کے بارے میں بھی جبکہ انہوں نے کہا : ’’اور اُس رسولِ (معظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی (آمد آمد کی) بشارت سنانے والا ہوں جو میرے بعد تشریف لا رہے ہیں جن کا نام (آسمانوں میں اس وقت) احمد ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) ہے۔‘‘ اور میری والدہ محترمہ کے خواب کے بارے میں جبکہ انہوں نے میری ولادت کے وقت دیکھا کہ انہوں نے ایک ایسے نور کو جنم دیا جس سے شام کے محلات تک روشن ہو گئے۔‘‘

اس حديث کو امام ابن حبان، طبرانی، ابونعیم، حاکم اور ابن سعد نے روایت کیا ہے۔

25 / 25. عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ عليهما السلام قَالَ : سَأَلْتُ خَالِي هِنْدَ بْنَ أَبِي هَالَةَ التَّمِيْمِيَّ رضی الله عنه وَکَانَ وَصَّافًا عَنْ حُلْيَةِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم وَأَنَا أَشْتَهِي أَنْ يَصِفَ لِي مِنْهَا شَيْئًا أَتَعَلَّقُ بِهِ فَقَالَ : کَانَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم فَخْمًا مُفَخَّمًا يَتَـلَأْلَأُ وَجْهُهُ تَـلَأْلُؤَ الْقَمَرِ لَيْلَةَ الْبَدْرِ… أَقْنَی الْعِرْنِيْنِ لَهُ نُوْرٌ يَعْلُوْهُ يَحْسِبُهُ مَنْ لَمْ يَتَأَمَّلْهُ أَشَمَّ… أَنْوَرُ الْمُتَجَرِّدِ… الحديث.

رَوَاهُ ابْنُ حِبَّانَ وَالطَّبَرَانِيُّ وَالْبَيْهَقِيُّ وَابْنُ عَسَاکِرَ وَالتِّرْمِذِيُّ فِي الشَّمَائِلِ.

25 : أخرجه ابن حبان في الثقات، 2 / 145.146، والطبراني في المعجم الکبير، 22 / 155.156، الرقم : 414، وفي أحاديث الطوال، 1 / 245، والبيهقي في شعب الإيمان، 2 / 154.155، الرقم : 1430، والترمذي في الشمائل المحمدية، 1 / 37، الرقم : 8، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 3 / 277، 338، 344، 348، وابن سعد في الطبقات الکبری، 1 / 422، والهيثمي في مجمع الزوائد، 8 / 273، وابن سفيان الفسوي في المعرفة والتاريخ، 3 / 303، وابن الجوزي في صفوة الصفوة، 1 / 163.

’’حضرت حسن بن علی عليہما السلام بیان کرتے ہیں کہ میں نے اپنے خالو حضرت ہند بن ابی ہالہ تمیمی رضی اللہ عنہ سے پوچھا اور وہ (سب سے بہتر) حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حلیہ مبارک کو بیان فرمانے والے تھے اور مجھے یہ خواہش تھی کہ وہ میرے لئے (حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حلیہ مبارک سے) کوئی ایسی شے بیان کریں جس سے میرا بھی تعلق ہو (یعنی بظاہر میرا کوئی وصف بھی آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصف مبارک سے مشابہت رکھتا ہو) پس انہوں نے کہا : حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بلند رتبہ اور عالی شان تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرہ انور چودھویں کے چاند کے چمکنے کی طرح چمکتا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بینی مبارک کی نوک بلند تھی اور اس پر نور جھلکتا رہتا تھا جو اچھی طرح غور سے نہ دیکھتا وہ سمجھتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بینی مبارک بلند ہے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جسمِ اقدس کے وہ اعضا جہاں کپڑا نہیں ہوتا، بھی روشن اور منور تھے (جبکہ عام لوگوں کے یہ اعضا گرد و غبار اور دھوپ کے باعث سیاہی مائل ہو جاتے ہیں)۔‘‘

اسے امام ابن حبان، طبرانی، بیہقی، ابن عساکر اور ترمذی نے ’’الشمائل المحمدیہ‘‘ میں روایت کیا ہے۔

26 / 26. عَنْ يُوْسُفَ بْنِ مَازِنٍ أَنَّ رَجُـلًا سَأَلَ عَلِيًّا رضی الله عنه فَقَالَ : يَا أَمِيْرَ الْمُؤْمِنِيْنَ، انْعَتْ لَنَا رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم صِفْهُ لَنَا؟ فَقَالَ : کَانَ لَيْسَ بَالذَّاهِبِ طُوْلًا وَفَوْقَ الرَّبْعَةِ إِذَا جَاءَ مَعَ الْقَوْمِ غَمَرَهُمْ أَبْيَضَ شَدِيْدَ الْوَضَحِ ضَخْمَ الْهَامَةِ أَغَرَّ أَبْلَجَ هَدِبَ الْأَشْفَارِ شَثْنَ الْکَفَّيْنِ وَالْقَدَمَيْنِ إِذَا مَشَی يَتَقَلَّعُ کَأَنَّمَا يَنْحَدِرُ فِي صَبَبٍ کَأَنَّ الْعَرَقَ فِي وَجْهِهِ اللُّؤْلُؤُ لَمْ أَرَ قَبْلَهُ وَلَا بَعْدَهُ مِثْلَهُ بِأَبِي وَأُمِّي صلی الله عليه وآله وسلم . رَوَاهُ أَحْمَدُ وَابْنُ سَعْدٍ.

26 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 1 / 151، الرقم : 1299، وابن سعد في الطبقات الکبری، 1 / 411.412، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 3 / 261، والنميري في أخبار المدينة، 1 / 319، الرقم : 967، والهيثمي في مجمع الزوائد، 8 / 272.

’’حضرت یوسف بن مازن سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا : اے امیر المؤمنین! ہمارے لیے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حلیہ مبارک بیان فرمائیے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بہت زیادہ دراز قد تھے نہ ہی کوتاہ قد۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کچھ لوگوں کے ساتھ ہوتے تو ان سب میں نمایاں ہوتے، نہایت سفید اور روشن رنگ والے تھے، قدرے بھارے بھرکم سر مبارک والے، گورے مکھڑے والے، دراز پلکوں والے، ہاتھوں اور پاؤں مبارک کی انگلیاں سخت تھیں، جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چلتے تو قوت سے پاؤں اٹھاتے گویا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بلندی سے پست زمین کی طرف اتر رہے ہوں، پسینہ مبارک قطرے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرہ انور پر موتیوں کی طرح جھلکتے، میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پہلے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جیسا حسین کوئی نہیں دیکھا، میرے ماں باپ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر قربان ہوں۔‘‘ اس حديث کو امام احمد اور ابن سعد نے روایت کیا ہے۔

27 / 27. عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ رضی الله عنه قَالَ : رَأَيْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم فِي لَيْلَةِ أَضْحِيَانَ وَعَلَيْهِ حُلَّةٌ حَمْرَاءُ فَجَعَلْتُ أَنْظُرُ إِلَيْهِ وَإِلَی الْقَمَرِ. قَالَ : فَلَهُوَ کَانَ أَحْسَنَ فِي عَيْنِي مِنَ الْقَمَرِ.

وفي رواية : فَلَهُوَ أَجْمَلُ عِنْدِي مِنَ الْقَمَرِ.
رَوَاهُ الدَّارِمِيُّ وَالنَّسَائِيُّ وَالْحَاکِمُ وَالطَّبَرَانِيُّ وَالْبَيْهَقِيُّ وَالتِّرْمِذِيُّ فِي الشَّمَائِلِ.
وَقَالَ الْحَاکِمُ : هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِْسْنَادِ.

27 : أخرجه الدارمي في السنن، 1 / 44، الرقم : 57، والنسائي في السنن الکبری، 5 / 476، الرقم : 9640، والحاکم في المستدرک، 4 / 207، الرقم : 7383، والطبراني في المعجم الکبير، 2 / 206، الرقم : 1842، والبيهقي في شعب الإيمان، 2 / 150، الرقم : 1417، والترمذي في الشمائل المحمدية، 1 / 39، الرقم : 10، وابن عبد البر في الاستيعاب، 1 / 224، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 3 / 296.

’’حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک چاندنی رات میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کی درآنحالیکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سرخ پوشاک مبارک زیبِ تن کئے ہوئے تھے، میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور چاند کی طرف دیکھنا شروع کیا، پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میری نظروں میں چاند سے بھی حسین تر تھے۔

اور ایک راویت میں ہے کہ میرے نزدیک آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چاند سے جمیل تر تھے۔‘‘

اس حديث کو امام دارمی، نسائی، حاکم،طبرانی، بیہقی اور ترمذی نے ’’الشمائل’’ میں روایت کیا ہے نیز امام حاکم نے فرمایا کہ اس حديث کی سند صحيح ہے۔

28 / 28. عَنِ الزُّهْرِيِّ قَالَ : سُئِلَ أَبُوْ هُرَيْرَةَ رضی الله عنه عَنْ صِفَةِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : أَحْسَنُ الصِّفَةِ وَأَجْمَلُهَا کَانَ رَبْعَةً إِلَی الطُّوْلِ مَا هُوَ بَعِيْدٌ مَا بَيْنِ الْمَنْکِبَيْنِ، أَسِيْلَ الْجَبِيْنِ، شَدِيْدَ سَوَادِ الشَّعَرِ، أَکْحَلَ الْعَيْنِ، أَهْدَبَ إِذَا وَطِيئَ بِقَدُوْمِهِ وَطِيئَ بِکُلِّهَا لَيْسَ لَهَا أَخْمَصُ إِذَا وَضَعَ رِدَائَهُ عَنْ مَنْکِبَيْهِ فَکَأَنَّهُ سَبِيْکُةُ فِضَّةٍ وَإِذَا ضَحِکَ کَادَ يَتَـلَأْ لَأُ فِي الْجُدَرِ لَمْ أَرَ قَبْلَهُ وَلَا بَعْدَهُ مِثْلَهُ صلی الله عليه وآله وسلم . رَوَاهُ عَبْدُ الرَّزَّاقِ.

وفي رواية : وَکَانَ صلی الله عليه وآله وسلم أَجْلَی الْجَبِيْنِ إِذَا طَلَعَ جَبِيْنُهُ مِنْ بَيْنِ الشَّعْرِ إِذَا طَلَعَ فِي فَلْقِ الصُّبْحِ أَوْ عِنْدَ طِفْلِ اللَّيْلِ أَوْ طَلَعَ بِوَجْهِهِ عَلَی النَّاسِ تَراءُ وْا جَبِيْنَهُ کَأَنُّهُ ضَوْءُ السِّرَاجِ الْمُتَوَقِّدِ قَدْ يَتَلأَ لَأُ.

رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ وَابْنُ عَسَاکِرُ.

28 : أخرجه عبد الرزاق في المصنف، 11 / 259، الرقم : 20490، والبيهقي في دلائل النبوة، 1 / 302، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 3 / 270،259.

’’امام زہری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حلیہ مبارک کے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا : آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نہایت ہی حسین و جمیل حلیہ والے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مائل بہ طول درمیانہ قد تھے، سینہ مبارک کشادہ، کشادہ جبیں، نہایت سیاہ بال، سرمئی چشمانِ مقدس والے، دراز پلکوں والے تھے، جب اپنا پاؤں مبارک زمین پر رکھتے تو پورا رکھتے، پاؤں مبارک چپٹے تھے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی چادر مبارک اپنے مبارک کندھوں سے اُتارتے تو یوں محسوس ہوتا گویا چاندی میں ڈھلے ہوئے ہوں اور جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسکراتے تو قریب ہوتا کہ آپ کا نور دیواروں میں جھلکنے لگے۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پہلے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد بھی کسی کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مثل نہیں دیکھا۔‘‘ اس حديث کو امام عبد الرزاق نے بیان کیا ہے۔

اور ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم روشن جبین تھے، جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیشانی مبارک بالوں کے بیچ میں سے نمودار ہوتی، اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پو پھوٹنے کے وقت، یا اندھیرا چھانے کے وقت لوگوں کی طرف تشریف لاتے، تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیشانی مبارک کو یوں دیکھتے گویا وہ ایک جلتا ہوا روشن چراغ ہے۔‘‘

اس حديث کو امام بیہقی اور ابن عساکر نے روایت کیا ہے۔

29 / 29. عَنْ مُوْسَی بْنِ عُقْبَةَ رضی الله عنه قَالَ : أَنْشَدَ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم کَعْبُ بْنُ زُهَيْرٍ ’’بَانَتْ سُعَادُ’’ فِي مَسْجِدِهِ بِالْمَدِيْنَةِ فَلَمَّا بَلَغَ قَوْلَهُ :

إِنَّ الرَّسُوْلَ لَنُوْرٌ يُسْتَضَاءُ بِهِ
وَصَارِمٌ مِنْ سُيُوْفِ اﷲِ مَسْلُوْلُ

أَشَارَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم بِکُمِّهِ إِلَی الْخَلْقِ لَيَسْمَعُوْا مِنْهُ … الحديث. رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَالْبَيْهَقِيُّ وَالطَّبَرَانِيُّ.

وفي رواية : عَنْ سَعِيْدِ بْنِ الْمُسَيَبِ رضی الله عنه قَالَ : لَمَّا انْتَهَی خَبَرُ قَتْلِ ابْنِ خَطْلٍ إِلَی کَعْبِ بْنِ زُهَيْرِ بْنِ أَبِي سَلْمَی وَکَانَ بَلَغَهُ أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم أَوْعَدَهُ بِمَا أَوْعَدَهُ ابْنَ خَطْلٍ فَقِيْلَ لِکَعْبٍ إِنْ لَمْ تُدْرِکْ نَفْسَکَ قُتِلْتَ، فَقَدِمَ الْمَدِيْنَةَ فَسَأَلَ عَنْ أَرَقِّ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم فَدُلَّ عَلَی أَبِي بَکْرٍ رضی الله عنه وَأَخْبَرَهُ خَبَرَهُ فَمَشَی أَبُوْ بَکْرٍ وَکَعْبٌ عَلَی إِثْرِهِ حَتَّی صَارَ بَيْنَ يَدَي رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم فَقَالَ يَعْنِي أَبَا بَکْرٍ : اَلرَّجُلُ يُبَایِعُکَ فَمَدَّ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم يَدَهَ فَمَدَّ کَعْبٌ يَدَهُ فَبَايَعَهُ وَسَفَرَ عَنْ وَجْهِهِ فَأَنْشَدَهُ :

نُبِّئْتُ أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ أَوْعَدَنِي
وَالْعَفْوُ عِنْدَ رَسُوْلِ اﷲِ مَأْمُوْلُ

إِنَّ الرَّسُوْلَ لَنُوْرٌ يُسْتَضَاءُ بِهِ
مُهَنَّدٌ مِنْ سُيُوْفِ اﷲِ مَسْلُوْلُ

فَکَسَاهُ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم بُرْدَةً لَهُ فَاشْتَرَاهَا مُعَاوِيَةُ رضی الله عنه مِنْ وَلَدِهِ بِمَالٍ فَهِيَ الَّتِي تَلْبَسُهَا الْخُلَفَائُ فِي الْأَعْيَادِ.

رَوَاهُ ابْنُ قَانِعٍ وَالْعَسْقَـلَانِيُّ وَابْنُ کَثِيْرٍ فِي الْبَدَايَةِ، وَقَالَ : قُلْتُ : وَرَدَ فِي بَعْضِ الرِّوَايَاتِ أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم أَعْطَی بُرْدَتَهُ حِيْنَ أَنْشَدَهُ الْقَصِيْدَةَ … وَهَکَذَا الْحَافِظُ أَبُوالْحَسَنِ ابْنُ اْلأَثِيْرِ فِي الْغَابَةِ قَالَ هِيَ الْبُرْدَةُ الَّتِي عِنْدَ الْخُلَفَاءِ، قُلْتُ : وَهَذَا مِنَ الْأُمُوْرِ الْمَشْهُوْرَةِ جِدًّا.

29 : أخرجه الحاکم في المستدرک، 3 / 670. 673، الرقم : 6477. 6479، والبيهقي في السنن الکبری، 10 / 243، الرقم : 77، والطبراني في المعجم الکبير، 19 / 177.178، الرقم : 403، وابن قانع في معجم الصحابة، 2 / 381، والعسقلاني في الإصابة، 5 / 594، وابن هشام في السيرة النبوية، 5 / 191، والکلاعي في الاکتفاء، 2 / 268، وابن کثير في البداية والنهاية (السيرة)، 4 / 373.

’’حضرت موسیٰ بن عقبہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت کعب بن زہیر رضی اللہ عنہ نے اپنے مشہور قصیدے ’’بانت سعاد’’ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مسجد نبوی میں مدح کی اور جب اپنے اس شعر پر پہنچا :

’’بیشک (یہ) رسولِ مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہ نور ہیں جس سے روشنی حاصل کی جاتی ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (کفر و ظلمت کے علمبرداروں کے خلاف) اللہ تعالیٰ کی تیز دھار تلواروں میں سے ایک عظیم تیغِ آبدار ہیں۔‘‘

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے دستِ اقدس سے لوگوں کی طرف اشارہ کیا کہ وہ انہیں (یعنی کعب بن زہیر) کو (غور سے) سنیں۔‘‘

اسے امام حاکم، بیہقی اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔

اور حضرت سعید بن مسیب رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ جب حضرت کعب بن زہیر رضی اللہ عنہ کے پاس (قبول اسلام سے قبل،گستاخِ رسول) ابن خطل کے قتل کی خبر پہنچی اور اسے یہ خبر بھی پہنچ چکی تھی کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے بھی وہی دھمکی دی ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ابن خطل کو دی تھی تو کعب سے کہا گیا کہ اگر تو بھی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہجو سے باز نہیں آئے گا تو قتل کر دیا جائے گا تو اس نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سب سے زیادہ نرم دل صحابی کے بارے میں معلومات کیں، تو اسے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بارے میں بتایا گیا، وہ ان کے پاس گیا اور انہیں اپنی (ندامت و توبہ کی) ساری بات بتا دی، پس حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت کعب بن زہیر رضی اللہ عنہ چپکے سے چلے (تاکہ کوئی صحابی راستے میں ہی اسے پہچان کر قتل نہ کر دے) یہاں تک کہ وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے پہنچ گئے، حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : (یا رسول اﷲ!) یہ ایک آدمی ہے جو آپ کی بیعت کرنا چاہتا ہے سو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا دستِ اقدس آگے بڑھایا تو حضرت کعب بن زہیر نے اپنا ہاتھ آگے بڑھا کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیعت کر لی پھر اپنے چہرے سے نقاب ہٹا لیا اور اپنا وہ قصیدہ پڑھا جس میں ہے :

’’مجھے خبر دی گئی کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے دھمکی دی ہے اور رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاں عفو و درگزر کی (زیادہ) امید کی جاتی ہے۔‘‘

اور اسی قصیدہ میں ہے :

’’بیشک (یہ) رسولِ مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہ نور ہیں جس سے روشنی حاصل کی جاتی ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (کفروظلمت کے علمبرداروں کے خلاف) اللہ تعالیٰ کی تیز دھار تلواروں میں سے ایک عظیم تیغِ آبدار ہیں۔‘‘

پس حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (خوش ہو کر) اسے اپنی چادر پہنائی جسے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے اس کی اولاد سے مال کے بدلہ میں خرید لیا اور یہی وہ چادر ہے جسے (بعد میں) خلفاء عیدوں (اور اہم تہواروں کے موقع) پر پہنا کرتے تھے۔‘‘

اس حديث کو امام ابن قانع اور امام عسقلانی نے روایت کیا ہے اور امام ابن کثير نے ’’البدایہ’’ میں روایت کرنے کے بعد فرمایا ہے کہ میں کہتا ہوں کہ بعض روایات میں آیا ہے کہ ’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی چادر مبارک ان کو اس وقت عطا فرمائی جب انہوں نے اپنے قصیدے کے ذریعے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدح فرمائی۔۔۔ اور اسی طرح حافظ ابو الحسن ابن الاثیر نے ’’اسد الغابہ’’ میں بیان کیا ہے کہ یہ وہی چادر ہے جو خلفا کے پاس رہی اور یہ بہت ہی مشہور واقعہ ہے۔‘‘

30 / 30. عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : لَمَّا أَذْنَبَ آدَمُ عليه السلام الذَّنْبَ الَّذِي أَذْنَبَهُ رَفَعَ رَأْسَهُ إِلَی الْعَرْشِ فَقَالَ : أَسَأَلُکَ بِحَقِّ مُحَمَّدٍ صلی الله عليه وآله وسلم إِلَّا غَفَرْتَ لِي فَأَوْحَی اﷲُ إِلَيْهِ : وَمَا مُحَمَّدٌ؟ وَمَنْ مُحَمَّدٌ؟ فَقَالَ : تَبَارَکَ اسْمُکَ، لَمَّا خَلَقْتَنِي رَفَعْتُ رَأْسِي إِلَی عَرْشِکَ فَرَأَيْتُ فِيْهِ مَکْتُوْبًا : لَا إِلَهَ إِلَّا اﷲُ، مُحَمَّدٌ رَسُوْلُ اﷲِ، فَعَلِمْتُ أَنَّهُ لَيْسَ أَحَدٌ أَعْظَمَ عِنْدَکَ قَدْرًا مِمَّنْ جَعَلْتَ اسْمَهُ مَعَ اسْمِکَ، فَأَوْحَی اﷲُ ل إِلَيْهِ : يَا آدَمُ، إِنَّهُ آخِرُ النَّبِيِّيْنَ مِنْ ذُرِّيَتِکَ، وَإِنَّ أُمَّتَهُ آخِرُ الْأُمَمِ مِنْ ذُرِّيَتِکَ، وَلَوْلَاهُ يَا آدَمُ مَا خَلَقْتُکَ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.

30 : أخرجه الطبراني في المعجم الصغير، 2 / 182، الرقم : 992، وفي المعجم الأوسط، 6 / 313، الرقم : 6502، والهيثمي في مجمع الزوائد، 8 / 253، والسيوطي في جامع الأحاديث، 11 / 94.

’’حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جب حضرت آدم علیہ السلام سے لغزش سرزد ہوئی تو انہوں نے اپنا سر آسمان کی طرف اٹھایا اور عرض گزار ہوئے : (یا اﷲ!) میں (تیرے محبوب) محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلہ سے تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ تو مجھے معاف فرما دے تو اللہ تعالیٰ نے وحی نازل فرمائی۔ یہ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کون ہیں؟ پس حضرت آدم علیہ السلام نے عرض کیا : (اے مولا!) تیرا نام پاک ہے جب تو نے مجھے پیدا کیا تو میں نے اپنا سر تیرے عرش کی طرف اٹھایا، وہاں میں نے ’’لا اله الا الله محمد رسول الله‘‘ لکھا ہوا دیکھا لہٰذا میں جان گیا کہ یہ ضرور کوئی بڑی ہستی ہے جس کا نام تو نے اپنے نام کے ساتھ ملایا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے وحی نازل فرمائی : ’’اے آدم! وہ (محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) تیری نسل میں سے آخری نبی ہیں اور ان کی امت بھی تیری نسل کی آخری امت ہو گی اور اگر وہ نہ ہوتے تو میں تجھے بھی پیدا نہ کرتا۔‘‘

اسے امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔

31 / 31. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي اﷲ عنهما قَالَ : أَوْحَی اﷲُ إِلَی عِيْسَي، يَا عِيْسَی آمِنْ بِمُحَمَّدٍ وَأْمُرْ مَنْ أَدْرَکَهُ مِنْ أُمَّتِکَ أَنْ يُؤْمِنُوْا بِهِ فَلَوْلَا مُحَمَّدٌ مَا خَلَقْتُ آدَمَ وَلَوْلَا مُحَمَّدٌ مَا خَلَقْتُ الْجَنَّةَ وَلَا النَّارَ. وَلَقَدْ خَلَقْتُ الْعَرْشَ عَلَی الْمَاءِ فَاضْطَرَبَ فَکَتَبْتُ عَلَيْهِ لَا إِلَهَ إِلَّا اﷲُ مُحَمَّدٌ رَسُوْلُ اﷲِ فَسَکَنَ. رَوَاهُ الْحَاکِمُ.

وَقَالَ الْحَاکِمُ : هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ وَوَافَقَهُ الذَّهَبِيُّ.

31 : أخرجه الحاکم في المستدرک، 2 / 671، الرقم : 4227، والخلال في السنة، 1 / 261، الرقم : 316، والذهبي في ميزان الاعتدال، 5 / 299، الرقم : 6336، والعسقلاني في لسان الميزان، 4 / 354، الرقم : 1040، وابن حيان في طبقات المحدثين بأصبهان، 3 / 287.

’’حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر وحی نازل فرمائی : اے عیسیٰ! محمد ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) پر ایمان لے آؤ اور اپنی امت کو بھی حکم دو کہ جو بھی ان کا زمانہ پائے تو (ضرور) ان پر ایمان لائے (جان لو!) اگر محمد مصطفی ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نہ ہوتے تو میں آدم (علیہ السلام) کو بھی پیدا نہ کرتا۔ اور اگر محمد مصطفی ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نہ ہوتے تو میں نہ جنت پیدا کرتا اور نہ دوزخ، جب میں نے پانی پر عرش بنایا تو اس میں لرزش پیدا ہو گئی، لہٰذا میں نے اس پر لَا إِلَهَ إِلَّا اﷲُ مُحَمَّدٌ رَسُوْلُ اﷲِ لکھ دیا تو وہ ٹھہر گیا۔‘‘

اسے امام حاکم نے روایت کیا ہے نیز فرمایا کہ یہ حديث صحيح الاسناد ہے اور امام ذہبی نے ان کی تائید کی ہے۔

32 / 32. عَنْ عَائشَةَ رضي اﷲ عنها قَالَتْ : کُنْتُ قَاعِدَةً أَغْزِلُ وَالنَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم يَخْصِفُ نَعْلَهُ فَجَعَلَ جَبِيْنُهُ يَعْرَقُ وَجَعَلَ عَرَقُهُ يَتَوَلَّدُ نُوْرًا فَبُهِتُّ فَنَظَرَ إِلَيَّ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم فَقَالَ : مَا لَکِ يَا عَائِشَةُ، بُهِتِّ؟ قُلْتُ : جَعَلَ جَبِيْنُکَ يَعْرَقُ وَجَعَلَ عَرَقُکَ يَتَوَلَّدُ نُوْرًا. وَلَوْ رَآکَ أَبُوْ کَبِيْرٍ الْهُذْلِيُّ لَعَلِمَ أَنَّکَ أَحَقُّ بِشِعْرِهِ قَالَ : وَمَا يَقُوْلُ يَا عَائِشَةُ، أَبُوْ کَبِيْرٍ الْهُذْلِيُّ؟ فَقَالَتْ يَقُوْلُ :

وَمُبَرَّءٍ منِْ کُلِّ غُبَّرِ حَيْضَةٍ
وَفَسَادِ مُرْضِعَةٍ وَدَاءِ مُغْيَلِ

فَإِذَا نَظَرَتَ إِلَی أَسِرَّةِ وَجْهِهِ
بَرِقَتْ کَبَرْقِ الْعَارِضِ الْمُتَهَلَّلِ

قَالَتْ : فَقَامَ إِلَيَّ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم وَقَبَّلَ بَيْنَ عَيْنَيَّ وَقَالَ : جَزَاکِ اﷲُ يَا عَائِشَةُ عَنِّي خَيْرًا مَا سُرِرْتِ مِنِّي کَسَرُوْرِي مِنْکِ.

رَوَاهُ أَبُوْ نُعَيْمٍ وَالْبَيْهَقِيُّ وَالْخَطِيْبُ وَابْنُ عَسَاکِرُ.

32 : أخرجه أبو نعیم في حلية الأولياء، 2 / 46، والبيهقي في السنن الکبری، 7 / 422، الرقم : 15204، والخطيب البغدادي في تاريخ بغداد، 13 / 252.253، الرقم : 7210، وابن عساکر فی تاريخ مدينة دمشق، 3 / 307.308، 59 / 424، والمزي في تهذيب الکمال، 28 / 319، وقال : قال أبو علي صالح بن محمد البغدادي : حسن عندي، والسيوطي في الخصائص الکبری، 1 / 76، والمناوي في فيض القدير، 5 / 72.

’’حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ میں بیٹھی سوت کات رہی تھی اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے نعلین مبارک گانٹھ رہے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیشانی مبارک سے پسینہ بہنے لگا اور اس پسینہ مبارک سے نور پیدا ہونے لگا، میں اس (حسین) منظر میں مستغرق ہو گئی، تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میری طرف دیکھا اور فرمایا : اے عائشہ! تمہیں کیا ہوا ہے کہ تم مبہوت سی ہو گئی ہو۔ میں نے عرض کیا : (یا رسول اﷲ!) آپ کی پیشانی مبارک سے پسینہ ٹپکنے لگا اور وہ پسینہ نور پیدا کرنے لگا اور اگر ابو کبیر ہذلی (عرب کا مشہور شاعر) اس وقت آپ کو دیکھ لیتا تو یقینا وہ جان لیتا کہ آپ اس کے شعر کے زیادہ حقدار ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے عائشہ! ابو کبیر ہذلی کیا کہتا ہے؟ سیدہ عائشہ صدیقہ رضي اﷲ عنہا نے عرض کیا : وہ کہتا ہے :

’’میرا ممدوح حیض و نفاس اور ولادت و رضاعت ہر ایک قسم کی آلودگیوں سے پاک ہے، جب تو اس کے چہرے کے منور نقوش کو دیکھے تو تجھے محسوس ہو، گویا ’’عارضِ تاباں’’ ہے جو دہک رہا ہے۔‘‘

سیدہ عائشہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ یہ سن کر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میری طرف تشریف لائے اور میرے ماتھے پر بوسہ دیا اور فرمایا : اے عائشہ! اللہ تعالیٰ تجھے جزائے خیر عطا فرمائے اتنا تم بھی مسرور نہیں ہوگی، جس قدر یہ شعر سن کر ہم تم سے ہوئے ہیں۔‘‘

اسے امام ابو نعیم، بیہقی، خطيب بغدادی اور ابن عساکر نے روایت کیا ہے۔

33 / 33. عَنْ خُرَيْمِ بْنِ أَوْسِ بْنِ حَارِثَةَ بْنِ لَامٍ رضی الله عنه قَالَ : کُنَّا عِنْدَ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم فَقَالَ لَهُ الْعَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ رضي اﷲ عنهما : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، إِنِّي أُرِيْدُ أَنْ أَمْدَحَکَ؟ فَقَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم : هَاتِ لَا يَفْضُضِ اﷲُ فَاکَ فَأَنْشَأَ الْعَبَّاسُ رضی الله عنه يَقُوْلُ :

وَأَنْتَ لَمَّا وُلِدْتَ أَشْرَقَتِ
الْأَرْضُ وَضَاءَتْ بِنُوْرِکَ الْأُفُقُ

فَنَحْنُ فِي الضِّيَاءِ وَفِي
النُّوْرِ وَسُبُلُ الرَّشَادِ نَخْتَرِقُ

رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَالْحَاکِمُ وَأَبُوْنُعَيْمٍ.

33 : أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 4 / 213، الرقم : 4167، والحاکم في المستدرک، 3 / 369، الرقم : 5417، وأبو نعیم في حلية الأولياء، 1 / 364، والذهبي في سير أعلام النبلاء، 2 / 102، وابن الجوزي في صفوة الصفوة، 1 / 53، وابن عبد البر في الاستيعاب، 2 / 447، الرقم : 664، والعسقلاني في الإصابة، 2 / 274، الرقم : 2247، والهيثمي في مجمع الزوائد، 8 / 217، والخطابي في إصلاح غلط المحدثين، 1 / 101، الرقم : 57، وابن قدامة في المغني، 10 / 176، والسيوطي في الخصائص الکبری، 1 / 66، وابن کثير في البداية والنهاية (السيرة)، 2 / 258، والقرطبي في الجامع لأحکام القرآن، 13 / 146، والحلبي في السيرة، 1 / 92.

’’حضرت خریم بن اوس بن حارثہ بن لام رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خدمتِ اقدس میں موجود تھے، حضرت عباس بن عبد المطلب رضی اﷲ عنہما نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا : یا رسول اﷲ! میں آپ کی مدح و نعت پڑھنا چاہتا ہوں تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : لاؤ مجھے سناؤ اﷲ تعالیٰ تمہارے دانت صحيح و سالم رکھے (یعنی تم اسی طرح کا عمدہ کلام پڑھتے رہو) تو حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے یہ پڑھنا شروع کیا :

اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہ ذات ہیں کہ جب آپ کی ولادت ہوئی تو ساری زمین چمک اٹھی اور آپ کے نور سے اُفقِ عالم روشن ہو گیا پس ہم ہیں اور ہدایت کے راستے ہیں اور ہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عطا کردہ روشنی اور آپ ہی کے نور میں ان (ہدایت کی راہوں) پر گامزن ہیں۔‘‘

اس حديث کو امام طبرانی، حاکم اور ابو نعیم نے روایت کیا ہے۔

34 / 34. عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ عَنْ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم، أَنَّهُمْ قَالُوْا : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، أَخْبِرْنَا عَنْ نَفْسِکَ؟ قَالَ : نَعَمْ، أَنَا، دَعْوَةُ إِبْرَاهِيْمَ، وَبَشَّرَ بِي عِيْسَی بْنُ مَرْيَمَ، وَرَأَتْ أُمِّي حِيْنَ وَضَعَتْنِي خَرَجَ مِنْهَا نُوْرٌ أَضَاءَ تْ لَهُ قُصُوْرُ الشَّامِ.

رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَابْنُ سَعْدٍ وَالْبَيْهَقِيُّ وَابْنُ عَسَاکِرَ.
وَقَالَ الْحَاکِمُ : هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِْسْنَادِ، وَأَقَرَّهُ الذَّهَبِيُّ.

34 : أخرجه الحاکم في المستدرک، 2 / 656، الرقم : 4174، وابن سعد في الطبقات الکبری، 1 / 150، والبيهقي في دلائل النبوة، 1 / 83، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 1 / 170، 3 / 393، والقرطبي في الجامع لأحکام القرآن، 2 / 131، والطبري في جامع البيان، 1 / 556، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 4 / 361، والسمرقندي في تفسيره، 3 / 421، والطبري في تاريخ الأمم والملوک، 1 / 458، وابن إسحاق في السيرة النبوية، 1 / 28، وابن هشام في السيرة النبوية، 1 / 302، والحلبي في السيرة الحلبية، 1 / 77.

’’حضرت خالد بن معدان، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے روایت کرتے ہیں کہ صحابہ کرام نے عرض کیا : یا رسول اﷲ! ہمیں اپنی ذات کی (حقیقت ) کے بارے میں بتائیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہاں، میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا ہوں اور حضرت عیسیٰ بن مریم علیہ السلام نے میری ہی بشارت دی تھی اور میری ولادت کے وقت میری والدہ محترمہ نے اپنے بدن سے ایسا نور نکلتے ہوئے دیکھا جس سے ان پر شام کے محلات تک روشن ہو گئے تھے۔‘‘

اس حديث کو امام حاکم، ابن سعد، بیہقی اور ابن عساکر نے روایت کیا ہے اور امام حاکم نے فرمایا کہ اس حديث کی سند صحيح ہے اور امام ذہبی نے ان کی تائید کی ہے۔

35 / 35. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : نَزَلَ آدَمُ بِالْهِنْدِ وَاسْتَوْحَشَ فَنَزَلَ جِبْرِيْلُ فَنَادَی بِالْأَذَانِ : اﷲُ أَکْبَرُ، اﷲُ أَکْبَرُ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اﷲُ مَرَّتَيْنِ، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلُ اﷲِ مَرَّتَيْنِ، قَالَ آدَمُ : مَنْ مُحَمَّدٌ؟ قَالَ : آخِرُ وَلَدِکَ مِنَ الْأَنْبِيَاءِ.

رَوَاهُ أَبُوْنُعَيْمٍ وَابْنُ عَسَاکِرَ وَالدَّيْلَمِيُّ.

35 : أخرجه أبو نعيم في حلية الأولياء، 5 / 107، والديلمي في مسند الفردوس، 4 / 271، الرقم : 6798، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 7 / 437.

’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : حضرت آدمں ہند میں نازل ہوئے اور (نازل ہونے کے بعد) انہوں نے وحشت (و تنہائی) محسوس کی تو (ان کی وحشت دور کرنے کے لئے) جبرائیل علیہ السلام نازل ہوئے اور اذان دی : ’’اﷲُ أَکْبَرُ، اﷲُ أَکْبَرُ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اﷲُ‘‘ دو مرتبہ پڑھا، ’’أَشْهَدُ أَنَّ مُحْمَدًا رَسُوْلُ اﷲِ‘‘ دو مرتبہ پڑھا تو حضرت آدم علیہ السلام نے دریافت کیا : (اے جبریل!) محمد ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کون ہیں؟ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے کہا : یہ آپ کی اولاد میں سے آخری نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔‘‘ اس حديث کو امام ابو نعیم، ابن عساکر اور دیلمی نے روایت کیا ہے۔

36 / 36. عَنْ أَنَسٍ رضی الله عنه قَالَ : لَمَّا جَاءَ جِبْرِيْلُ بِالْبُرَاقِ إِلَی رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : فَکَأَنَّمَا صَرَّتْ أُذُنَيْهَا، فَقَالَ لَهَا جِبْرِيْلُ عليه السلام : مَهْ يَا بُرَاقُ، وَاﷲِ، إِنْ رَکِبَکِ مِثْلُهُ، فَسَارَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم … ثُمَّ لَقِيَهُ خَلْقٌ مِنَ الْخَلْقِ فَقَالَ : اَلسَّـلَامُ عَلَيْکَ يَا أَوَّلُ، اَلسَّـلَامُ عَلَيْکَ يَا آخِرُ، وَالسَّـلَامُ عَلَيْکَ يَا حَاشِرُ. فَقَالَ لَهُ جِبْرِيْلُ : أُرْدُدْ السَّـلَامَ يَا مُحَمَّدُ، قَالَ : فَرَدَّ السَّـلَامَ، ثُمَّ لَقِيَهُ الثَّانِي فَقَالَ لَهُ مِثْلَ مَقَالَةِ الْأَوَّلِ، ثُمَّ لَقِيَهُ الثَّالِثُ فَقَالَ لَهُ مِثْلَ مَقَالَةِ الْأُوْلَيَيْنِ حَتَّی انْتَهَی إِلَی بَيْتِ الْمَقْدِسِ… الحديث. رَوَاهُ الضِّيَائُ الْمَقْدَسِيُّ وَابْنُ عَسَاکِرَ وَالطَّبَرِيُّ.

36 : أخرجه المقدسي في الأحاديث المختارة، 6 / 259، الرقم : 2277، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 3 / 502، 1 / 258، والطبري في جامع البيان، 15 / 6، والسيوطي في الدر المنثور، 5 / 189، وفي الخصائص الکبری، 1 / 258.

’’حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب جبرائیل امین علیہ السلام براق لے کر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو اس (براق) نے اپنے کان بجائے، پس جبرائیل امین علیہ السلام نے اسے فرمایا : خاموش ہو جا اے براق! اﷲ کی قسم! ان کی مثل (آج تک) کوئی تجھ پر سوار نہیں ہوا۔ پس حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سفر معراج پر چلے۔۔۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کچھ لوگ ملے اورعرض کیا : اے اول (الخلق) آپ پر سلامتی ہو، اے آخری نبی آپ پر سلامتی ہو، اے حاشر! آپ پر سلامتی ہو۔ پس جبرائیل امین علیہ السلام نے آپ سے عرض کیا : اے محمد! ان کے سلام کا جواب دیجئے، راوی بیان کرتے ہیں کہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سلام کا جواب مرحمت فرمایا پھر کچھ اور لوگ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ملے اور انہوں نے بھی پہلے لوگوں کی طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سلام کیا۔ پھر کچھ اور لوگ ملے اور انہوں نے بھی پہلے دو گروہوں کی طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سلام کیا یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیت المقدس پہنچ گئے۔۔۔ الحديث۔‘‘

اس حديث کو امام ضیاء مقدسی، ابن عساکر اور طبری نے روایت کیا ہے۔

37 / 37. عَنِ عَائِشَةَ رضي اﷲ عنها قَالَتْ : کَانَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم أَحْسَنَ النَّاسِ وَجْهًا وَأَنْوَرَهُمْ لَوْنًا لَمْ يَصِفْهُ وَاصِفٌ قَطُّ بَلَغَتْنَا صِفَتُهُ إِلَّا شَبَّهَ وَجْهَهُ کَالْقَمَرِ لَيْلَةَ الْبَدْرِ وَلَقَدْ کَانَ يَقُوْلُ مَنْ کَانَ مِنْهُمْ يَقُوْلُ لَرُبَّمَا نَظَرْنَا إِلَی الْقَمَرِ لَيْلَةَ الْبَدْرِ فَيَقُوْلُ : هُوَ أَحْسَنُ فِي أَعْيُـنِنَا مِنَ الْقَمَرِ، أَزْهَرُ اللَّوْنِ نَيِّرُ الْوَجْهِ يَتَـلَأْلَأُ تَـلَأْلُؤَ الْقَمَرِ لَيْلَةَ الْبَدْرِ… الحديث. رَوَاهُ ابْنُ عَسَاکِرَ.

37 : أخرجه ابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 3 / 358، والزرقاني علی المواهب، 4 / 225.

’’حضرت عائشہ صدیقہ رضي اﷲ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمام لوگوں سے بڑھ کر خوبصورت چہرے والے تھے اور رنگ مبارک کے اعتبار سے بھی سب سے زیادہ نورانی تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کسی نے بھی وصف بیان نہیں کیا جو ہم تک پہنچا ہے مگر اس نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرہ انور کو چودھویں کے چاند کے ساتھ تشبیہ دی ہے اور ان میں سے کہنے والا کہتا تھا کہ شاید ہم نے چودہویں رات کا چاند دیکھا اور کہا : حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہماری نظروں میں چودہویں کے چاند سے بھی بڑھ کر خوبصورت ہیں، جگمگاتی رنگت والے، نورانی مکھڑے والے ہیں جو ایسے چمکتا ہے جیسے چودہویں رات کا چاند چمکتا ہے۔۔۔ الحديث۔‘‘ اس حديث کو امام ابن عساکر نے روایت کیا ہے۔

38 / 38. عَنْ عَاءِشَةَ رضي اﷲ عنها قَالَتْ : اِسْتَعَرْتُ مِنْ حَفْصَةَ بِنْتِ رَوَاحَةَ إِبْرَةً کُنْتُ أُخَيِّطُ بِهَا ثَوْبَ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم فَسَقَطَتْ عَنِّيَ الإِبْرَةُ فَطَلَبْتُهَا فَلَمْ أَقْدِرْ عَلَيْهَا فَدَخَلَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم فَتَبَيَنَتِ الإِْبْرَةُ مِنْ شُعَاعِ نُوْرِ وَجْهِهِ صلی الله عليه وآله وسلم . رَوَاهُ الْأَصْبَهَانِيُّ وَابْنُ عَسَاکِرَ.

38 : أخرجه الأصبهاني في دلائل النبوة، 1 / 113، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 3 / 310، والسيوطی في الخصائص الکبری، 1 / 63.

’’حضرت عائشہ صدیقہ رضي اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے حضرت حفصہ بنت رواحہ رضی اﷲ عنہا سے ایک سوئی ادھار لی ہوئی تھی، میں اس کے ذریعے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا لباس مبارک سی رہی تھی، پس وہ سوئی مجھ سے گر گئی، میں نے اسے تلاش کیا مگر اسے ڈھونڈ نہ سکی، اچانک حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حجرہ میں داخل ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرے انور کے نور کی شعاع سے وہ سوئی واضح ہو گئی۔‘‘

اس حديث کو امام اصبہانی اور ابن عساکر نے روایت کیا ہے۔

39 / 39. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : لَمَّا خَلَقَ اﷲُ آدَمَ خَبَّرَ ِلآدَمَ عليه السلام بَنِيْهِ فَجَعَلَ يَرَی فَضَائِلَ بَعْضِهِمْ عَلَی بَعْضٍ قَالَ : فَرَآنِي نُوْرًا سَاطِعًا فِي أَسْفَلِهِمْ فَقَالَ : يَا رَبِّ، مَنْ هَذَا؟ قَالَ : هَذَا ابْنُکَ أَحْمَدُ هُوَ الأَْوَّلُ وَالآخِرُ وَهُوَ أَوَّلُ شَافِعٍ.

رَوَاهُ ابْنُ أَبِي عَاصِمٍ وَالْبَيْهَقِيُّ وَاللَّفْظُ لَهُ وَابْنُ عَسَاکِرَ کَمَا قَالَ السَّيُوْطِيُّ. وَإِسْنَادُهُ حَسَنٌ.

وفي رواية : عَنْ عَلِيٍّ عليه السلام أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : کُنْتُ نُوْرًا بَيْنَ يَدَي رَبِّي قَبْلَ خَلْقِ آدَمَ عليه السلام بِأَرْبَعَةَ عَشَرَ أَلْفَ عَامٍ.

رَوَاهُ أَحْمَدُ نَحْوَهُ فِي الْفَضَائِلِ وَابْنُ عَسَاکِرَ وَالدَّيْلَمِيُّ وَالْعَجْلُوْنِيُّ وَاللَّفْظُ لَهُ.

39 : أخرجه ابن أبي عاصم في الأوائل 1 / 61، الرقم : 5، وأحمد بن حنبل في فضائل الصحابة عن سلمان، 2 / 662، الرقم : 1130، والبيهقي في دلائل النبوة، 5 / 483، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 42 / 67، والديلمي في مسند الفردوس، 3 / 283، الرقم : 4851، والعسقلاني في لسان الميزان، 2 / 229، والعجلوني في کشف الخفاء، 1 / 312، 2 / 170، والذهبي في ميزان الاعتدال، 2 / 258، والسيوطي في الخصائص الکبری، 1 / 39.

’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جب اﷲ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا فرمایا تو انہیں ان کے بیٹوں کی خبر دی۔ پس آدم علیہ السلام ان میں سے بعض کی بعض پر فضیلت دیکھنے لگے۔ پس انہوں نے مجھے سب سے نیچے ایک چمکتے ہوئے نور کی شکل میں دیکھا (یعنی باعتبار بعثت سب سے آخر میں دیکھا) اور عرض کیا : اے میرے اﷲ! یہ کون ہے؟ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا : یہ تیرا بیٹا احمد ہے جو کہ اول بھی ہے اور آخر بھی اور (روزِ قیامت) سب سے پہلے شفاعت کرنے والا بھی یہی ہے۔‘‘

اس حديث کو امام ابن ابی عاصم، بیہقی نے مذکورہ الفاظ کے ساتھ اور ابن عساکر نے روایت کیا ہے جیسا کہ امام سیوطی نے فرمایا اور اس کی اسناد حسن ہے۔

’’اور ایک روایت میں حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں اﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں حضرت آدم علیہ السلام کی خلقت سے چودہ ہزار سال پہلے بھی نور تھا۔‘‘

اس سے ملتی جلتی حديث امام احمد بن حنبل نے فضائل صحابہ میں اور ابن عساکر، دیلمی اور عجلونی نے مذکورہ الفاظ کے ساتھ روایت کی ہے۔

40 / 40. عَنْ ذَکْوَانَ رضی الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم لَمْ يَکُنْ يُرَی لَهُ ظِلٌّ فِي شَمْسٍ وَلَا قَمَرٍ.

رَوَاهُ الْحَکِيْمُ التِّرْمِذِيُّ کَمَا قَالَ السَّيُوْطِيُّ وَقَالَ : قَالَ ابْنُ سَبْعٍ : مِنْ خَصَاءِصِهِ صلی الله عليه وآله وسلم أَنَّ ظِلَّهُ کَانَ لَا يَقَعُ عَلَی الأَرْضِ وَأَنَّهُ کَانَ نُوْرًا فَکَانَ إِذَا مَشَی فِي الشَّمْسِ أَوِ الْقَمَرِ لَا يُنْظَرُ لَهُ ظِلُّ.

وفي رواية : أَنَّهُ صلی الله عليه وآله وسلم کَانَ لَا ظِلَّ لِشَخْصِهِ فِي شَمْسٍ وَلَا قَمَرٍ، ِلأَنَّهُ صلی الله عليه وآله وسلم کَانَ نُوْرًا. رَوَاهُ الْقَاضِي عِيَاضٌ.

40 : أخرجه القاضي عياض في الشفا، فصل في الآيات التي ظهرت عند مولده صلی الله عليه وآله وسلم، 1 / 462، وابن الجوزي في الوفاء، الباب التاسع والعشرون في ذکر حسنه صلی الله عليه وآله وسلم، 2 / 47، والسيوطي في الخصائص الکبری، باب : الآية في أنه صلی الله عليه وآله وسلم لم يکن يری له ظل، 1 / 116.

’’حضرت ذکوان رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سایہ مبارک سورج اور چاند کی روشنی میں نہیں دیکھا جاتا تھا۔‘‘

اس حديث کو حکیم ترمذی نے روایت کیا ہے۔ جیسا کہ امام سیوطی نے فرمایا ہے اور فرمایا : ’’امام ابن سبع فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خصائص میں سے یہ بھی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سایہ مبارک زمین پر نہ پڑتا تھا اور یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نور تھے اور جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سورج یا چاند کی روشنی میں چلتے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سایہ دکھائی نہ دیتا تھا۔

اور ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات مبارک کا سایہ سورج کی روشنی میں تھا نہ چاند کی روشنی میں کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سراپا نور تھے۔‘‘

اسے قاضی عیاض نے روایت کیا ہے۔

41 / 41. عَنْ أَبِي يَزِيْدَ الْمَدِيْنِيِّ قَالَ : نُبِّئْتُ أَنَّ عَبْدَ اﷲِ أَبَا رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم أَتَی امْرَأَةً مِنْ خَثْعَمَ فَرَأَتِ النُّوْرَ بَيْنَ عَيْنَيْهِ نُوْرًا سَاطِعًا إِلَی السَّمَاءِ، فَقَالَتْ : هَلْ لَکَ فِيَّ؟ قَالَ : نَعَمْ حَتَّی أَرْمِيَ الْجَمْرَةَ، فَانْطَلَقَ فَرَمَی الْجَمْرَةَ، ثُمَّ أَتَی امْرَأَتَهُ آمِنَةَ بِنْتَ وَهْبٍ، ثُمَّ ذَکَرَ، يَعْنِي الْخَثْعَمِيَةَ، فَأَتَاهَا، فَقَالَتْ : هَلْ أَتَيْتَ امْرَأَةً بَعْدِي؟ قَالَ : نَعَمْ، امْرَأَتِي آمِنَةَ بِنْتَ وَهْبٍ، قَالَتْ : فَـلَا حَاجَةَ لِي فِيْکَ، إِنَّکَ مَرَرْتَ وَبَيْنَ عَيْنَيْکَ نُوْرٌ سَاطِعٌ إِلَی السَّمَاءِ، فَلَمَّا وَقَعْتَ عَلَيْهَا ذَهَبَ، فَأَخْبِرْهَا أَنَّهَا قَدْ حَمَلَتْ خَيْرَ أَهْلِ الْأَرْضِ.

رَوَاهُ ابْنُ سَعْدٍ وَأَبُوْنُعَيْمٍ وَالْبَيْهَقِيُّ وَابْنُ عَسَاکِرَ.

41 : أخرجه ابن سعد في الطبقات الکبری، 1 / 97، وأبو نعيم في دلائل النبوة، 1 / 90، والبيهقي في دلائل النبوة، 1 / 102، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 3 / 228، والسيوطي في الخصائص الکبری، 1 / 70، وابن الجوزي في صفوة الصفوة، 1 / 50.

’’حضرت ابو یزید المدینی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ مجھے بتایا گیا کہ بیشک حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے والد گرامی حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ قبیلہ خثعم کی ایک عورت کے پاس آئے تو اس نے ان کی دونوں آنکھوں کے درمیان (یعنی پیشانی پر) آسمان تک پھیلا ہوا ایک نور دیکھا۔ تواس نے آپ سے کہا : کیا آپ کو میرے ساتھ (نکاح کرنے میں) دلچسپی ہے؟ آپ نے فرمایا : ہاں، لیکن پہلے مقام جمرہ پر کنکریاں مارنے سے فارغ ہو جاؤں۔ سو وہ تشریف لے گئے اور مقام جمرہ پر کنکریاں ماریں۔ پھر آپ اپنی زوجہ حضرت آمنہ بنت وہب رضی اﷲ عنہا کے پاس تشریف لے گئے پھر آپ کو وہ قبیلہ خثعم کی عورت یاد آئی۔ تو آپ اس کے پاس تشریف لے گئے تو اس نے کہا : کیا آپ میرے (پاس سے جانے کے) بعد کسی عورت سے ملے ہیں؟ انہوں نے فرمایا : ہاں، میں اپنی بیوی آمنہ بنت وہب سے ملا ہوں تو اس نے کہا : اب مجھے آپ سے کوئی حاجت (و دلچسپی) نہیں۔ جب آپ گزرے تھے تو آپ کی پیشانی پر آسمان تک بلند ایک نور تھا۔ جب آپ اپنی بیوی سے ملے (یعنی صحبت کی) تو وہ نور (اس کی طرف) منتقل ہو گیا۔ سو اسے بتا دیں کہ اس نے تمام اہلِ زمین سے افضل ہستی کو (اپنے بطنِ اقدس میں) اٹھایا ہوا ہے۔‘‘

اس حديث کو امام ابن سعد، ابونعیم، بیہقی اور ابن عساکر نے روایت کیا ہے۔

42 / 42. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي اﷲ عنهما أَنَّ قُرَيْشًا کَانَتْ نُوْرًا بَيْنَ يَدَيِ اﷲِ تَعَالَی قَبْلَ أَنْ يَخْلُقَ الْخَلْقَ بِأَلْفَي عَامٍ يُسَبِّحُ ذَلِکَ النُّوْرُ وَتُسَبِّحُ الْمَلَائِکَةُ بِتَسْبِيْحِهِ، فَلَمَّا خَلَقَ اﷲُ آدَمَ عليه السلام. أَلْقَی ذَلِکَ النُّوْرَ فِي صُلْبِهِ. قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : فَأَهْبَطَنِيَ اﷲُ إِلَی الْأَرْضِ فِي صُلْبِ آدَمَ عليه السلام. وَجَعَلَنِي فِي صَُلْبِ نُوحٍ عليه السلام، وَقُذَِفَ بِي فِي صُلْبِ إِبْرَاهِيْمَ عليه السلام ثُمَّ لَمْ يَزَلِ اﷲُ يَنْقُلُنِي مِنَ الْأَصْلَابِ الْکَرِيْمَةِ إِلَی الْأَرْحَامِ الطَّاهِرَةِ حَتَّی أَخْرَجَنِي مِنْ بَيْنِ أَبَوَيَّ لَمْ يَلْتَقِيَا عَلَی سِفَاحٍ قَطُّ.

رَوَاهُ أَبُوْسَعْدٍ وَالسَّيُوْطِيُّ.

42 : أخرجه أبو سعد النيشابوري في شرف المصطفی صلی الله عليه وآله وسلم، 1 / 304، الرقم : 78، والسيوطي في الدر المنثور، 4 / 298 وفي الخصائص الکبری، 1 / 66، والحلبي في السيرة، 1 / 42.

’’حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے مروی ہے کہ بے شک مخلوقات کی پیدائش سے دو ہزار سال قبل قبیلہ قریش اللہ تعالیٰ کے سامنے ایک نور (کی شکل میں) تھا۔ یہ نور (اللہ تعالیٰ کی) تسبیح بیان کرتا، اور فرشتے بھی اس کی تسبیح بیان کرتے، سو جب اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو پیدا فرمایا تو اس نور کو ان کی پشت میں منتقل کر دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : پھر اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کی پشت میں مجھے زمین پر اتار دیا۔ اور مجھے حضرت نوح علیہ السلام کی پشت میں ڈالا گیا پھر اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ مجھے مکرم پشتوں سے پاکیزہ رحموں میں منتقل کیا، یہاں تک کہ مجھے اپنے والدین سے پیدا فرمایا۔ وہ دونوں بدکاری پر کبھی بھی نہیں ملے۔‘‘

اس حديث کو امام ابوسعد اور سیوطی نے روایت کیا ہے۔

43 / 43. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم فِي قَوْلِهِ تَعَالَی : {وَ إِذْ أَخَذْنَا مِنَ النَّبِيِّيْنَ مِيْثَاقَهُمْ} [الأحزاب، 33 : 7]، قَالَ : کُنْتُ أَوَّلَ النَّبِيِّيْنَ (وفي رواية : أَوَّلَ النَّاسِ) فِي الْخَلْقِ وَآخِرَهُمْ فِي الْبَعْثِ فَبَدَأَ بِي قَبْلَهُمْ.

رَوَاهُ ابْنُ سَعْدٍ وَالدَّيْلَمِيُّ وَالسَّيُوْطِيُّ.

43 : أخرجه ابن سعد في الطبقات الکبری، 1 / 149، والدیلمي في مسند الفردوس، 3 / 282، الرقم : 4850، 4 / 411، الرقم : 7195، والسيوطي في الخصائص الکبری، 1 / 7، وقال : رواه ابن أبي حاتم وأبو نعيم، والذهبي في ميزان الاعتدال، 3 / 191، والمبارکفوري في تحفة الأحوذي، 10 / 56، والمناوي في فيض القدير، 5 / 53، وابن کثير في البداية والنهاية، 2 / 307، والقرطبي في الجامع لأحکام القرآن، 7 / 155، 14 / 127، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 3 / 470، والبغوي في معالم التنزيل، 3 / 508، والسيوطي في الدر المنثور، 6 / 570.

’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اﷲ تعالیٰ کے اس فرمان : ’’(اے حبیب! یاد کیجئے) جب ہم نے انبیاء سے ان (کی تبلیغِ رسالت) کا عہد لیا۔‘‘ کی تفسير میں روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں مخلوق میں (اور ایک روایت کے مطابق تمام انسانوں میں) پیدائش کے لحاظ سے سب سے پہلا اور بعثت کے لحاظ سے سب سے آخری نبی ہوں سو ان سب سے پہلے (نبوت) کی ابتدا مجھ سے ہی کی گئی۔‘‘

اس حديث کو امام ابن سعد، دیلمی اور سیوطی نے روایت کیا ہے۔

44 / 44. عَنْ کَعْبٍ الْأَحْبَارِ رضی الله عنه قَالَ : أَي بُنَيَّ، فَکُلَّمَا ذَکَرْتَ اﷲَ فَاذْکُرْ إِلَی جَنْبِهِ اسْمَ مُحَمَّدٍ صلی الله عليه وآله وسلم، فَإِنِّي رَأَيْتُ اسْمَهُ مَکْتُوْبًا عَلَی سَاقِ الْعَرْشِ، وَأَنَا بَيْنَ الرُّوْحِ وَالطِّيْنِ، کَمَا أَنِّي طُفْتُ السَّمَاوَاتِ فَلَمْ أَرَ فِي السَّمَاوَاتِ مَوْضِعًا إِلَّا رَأَيْتُ اسْمَ مُحَمَّدٍ صلی الله عليه وآله وسلم مَکْتُوْبًا عَلَيْهِ وَأَنَّ رَبِّي أَسْکَنَنِيَ الْجَنَّةَ، فَلَمْ أَرَ فِي الْجَنَّةِ قَصْرًا وَلَا غُرْفَةً إِلَّا اسْمَ مُحَمَّدٍ صلی الله عليه وآله وسلم مَکْتُوْبًا عَلَيْهِ، وَلَقَدْ رَأَيْتُ اسْمَ مُحَمَّدٍ صلی الله عليه وآله وسلم مَکْتُوْبًا عَلَی نُحُوْرِ الْعِيْنِ، وَعَلَی وَرَقِ قَصَبِ آجَامِ الْجَنَّةِ، وَعَلَی وَرَقِ شَجَرَةِ طُوْبَی، وَعَلَی وَرَقِ سِدْرَةِ الْمُنْتَهَی، وَعَلَی أَطْرَافِ الْحُجُبِ، وَبَيْنَ أَعْيُنِ الْمَـلَائِکَةِ فَأَکْثِرْ ذِکْرَهُ، فَإِنَّ الْمَـلَائِکَةَ تَذْکُرُهُ فِي کُلِّ سَاعَاتِهَا.

رَوَاهُ ابْنُ عَسَاکِرَ وَالسَّيُوْطِيُّ.

44 : أخرجه ابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 23 / 281، والسيوطي في الخصائص الکبری، 1 / 12.

’’حضرت کعب احبار رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت آدم علیہ السلام نے فرمایا : اے میرے بیٹے، تو جب کبھی اللہ تعالیٰ کا ذکر کرے تو اس کے ساتھ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام کا بھی ذکر کیا کرو، پس بے شک میں نے ان کا نام عرش کے پایوں پر لکھا ہوا پایا، درآنحالیکہ میں روح اور مٹی کے درمیانی مرحلہ میں تھا، جیسا کہ میں نے تمام آسمانوں کا طواف کیا اور کوئی جگہ ان آسمانوں میں ایسی نہ پائی جس میں، میں نے اسم محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لکھا ہوا نہ دیکھا ہو، بے شک میں نے حور عین کے گلوں پر، جنت کے محلات کے بانسوں کے پتوں پر، طوبی درخت کے پتوں پر، سدرۃ المنتھی کے پتوں پر، (جنت کے) دربانوں کی آنکھوں پر، اور فرشتوں کی آنکھوں کے درمیان اسم محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لکھا ہوا دیکھا، پس تم کثرت سے ان کا ذکر کیا کرو، بے شک ملائکہ (بھی) ہر گھڑی انہیں یاد کرتے رہتے ہیں۔‘‘

اس حديث کو امام ابن عساکر اور سیوطی نے روایت کیا ہے۔

45 / 45. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي اﷲ عنهما قَالَ : سَأَلْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم، قُلْتُ : فِدَاکَ أَبِي وَأُمِّي، أَيْنَ کُنْتَ وَآدَمُ فِي الْجَنَّةِ؟ قَالَ : فَتَبَسَّمَ حَتَّی بَدَتْ ثَنَايَاهُ (وفي رواية : نَوَاجِذُهُ) ثُمَّ قَالَ : کُنْتُ فِي صُلْبِهِ وَ رُکِبَ بِي السَّفِيْنَةَ فِي صُلْبِ أَبِي نُوْحٍ، وَقُذِفَ بِي فِي صُلْبِ إِبْرَاهِيْمَ، لَمْ يَلْتَقِ أَبَوَايَ قَطُّ عَلَی سِفَاحٍ، لَمْ يَزَلِ اﷲُ تَعَالَی يَنْقُلُنِي مِنْ الْأَصْلَابِ الْحَسَنَةِ إِلَی الْأَرْحَامِ الطَّاهِرَةِ، صِفَتِي مَهْدِيٌّ لَا يَتَشَعَّبُ شَعْبَانِ إِلَّا کُنْتُ فِي خَيْرِهِمَا قَدْ أَخَذَ اﷲُ تَبَارَکَ وَتَعَالَی بِالنُّبُوَّةِ مِيْثَاقِي، وَبِالإِسْلَامِ عَهْدِي. وَبُشِّرَ فِي التَّوْرَاةِ وَالإِنْجِيْلِ ذِکْرِي. وَبَيَنَ کُلُّ نَبِيٍّ صِفَتِي. تُشْرِقُ الْأَرْضُ بِنُوْرِيِ. وَالْغَمَامُ لِوَجْهِي. وَعَلَّمَنِي کِتَابَهُ وَرَوَی بِي سَحَابَهُ، وَشَقَّ لِي اسْمًا مِنْ أَسْمَائِهِ : فَذُو الْعَرْشِ مَحْمُوْدٌ وَأَنَا مُحَمَّدٌ، وَوَعَدَنِي يُحِبُّوْنِي بِالْحَوْضِ وَالْکَوْثَرِ، وَأَنْ يَجْعَلَنِي أَوَّلَ شَافِعٍ، وَأَوَّلَ مُشَفَّعٍ، ثُمَّ أَخْرَجَنِي مِنْ خَيْرِ قَرْنٍ لِأُمَّتِي، وَهُمُ الْحَمَّادُوْنَ يَأْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ. رَوَاهُ ابْنُ عَسَاکِرَ وَابْنُ کَثِيْرٍ وَالسَّيُوْطِيُّ.

45 : أخرجه ابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 3 / 408، وابن کثير في البداية والنهاية، 2 / 258،والسيوطي في الدر المنثور، 6 / 332، والمناوي في فيض القدير، 3 / 437.

’’حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما روایت کرتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا : (یا رسول اﷲ!) میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں آپ اس وقت کہاں تھے جب حضرت آدم علیہ السلام جنت میں تھے؟ وہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تبسم کناں ہوئے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دندانِ مبارک نظر آنے لگے پھر فرمایا : میں ان (یعنی حضرت آدم علیہ السلام) کی پشت میں تھا اور اپنے باپ حضرت نوح علیہ السلام کی پشت میں مجھے کشتی پر سوار کیا گیا اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کی پشت میں (میرا نور) ڈالا گیا۔ میرے والدین (آباء و اجداد) کبھی بھی بغیر نکاح کے نہیں ملے۔ اﷲ تعالیٰ مجھے ہمیشہ پاک صلبوں سے پاک رحموں میں منتقل فرماتا رہا۔ تورات و انجیل میں میرے ذکر کی خوشخبری سنائی گئی۔ ہر نبی نے میری صفات بیان کیں۔ میرے نور کی وجہ سے صبح روشن ہوئی اور بادل میری وجہ سے سایہ فگن ہیں اور اﷲ تعالیٰ نے مجھے اپنے اسماء حسنیٰ میں سے نام عطا کیا سو وہ عرش والا محمود ہے اور میں محمد ہوں اور (اﷲ تعالیٰ نے) حوض کوثر کا میرے لئے وعدہ فرمایا اور یہ کہ مجھے سب سے پہلے شفاعت کرنے والا بنایا اور میں ہی وہ پہلا شخص ہوں گا جس کی شفاعت قبول کی جائے گی۔ پھر یہ کہ اﷲ تعالیٰ نے مجھے اپنی امت کے بہترین زمانے میں پیدا فرمایا، میری امت کے لوگ اﷲ کی ثناء بیان کرنے والے ہیں۔ وہ نیکی کا حکم اور بدی سے روکنے والے ہیں۔‘‘

اس حديث کو امام ابن عساکر، ابن کثير اور سیوطی نے روایت کیا ہے۔

46 / 46. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم سُئِلَ عَنْ قَوْلِهِ تَعَالَی : {وَإِذْ أَخَذْنَا مِنَ النَّبِيِّيْنَ مِيْثَاقَهُمْ وَمِنْکَ وَمِنْ نُوْحٍ … الخ} [الأحزاب، 33 : 7]، قَالَ : کُنْتُ أَوَّّلَهُمْ فِي الْخَلْقِ وَآخِرَهُمْ فِي الْبَعْثِ وَقَالَ مُجَاهِدٌ: هَذَا فِي ظَهْرِ آدَمَ عليه السلام. رَوَاهُ الْقُرْطَبِيُّ وَالطَّبَرِيُّ وَالْبَغْوِيُّ.

46 : أخرجه القرطبي في الجامع الأحکام القرآن، 14 / 127، والطبري في جامع البيان، 21 / 126، والبغوي في معالم التنزيل، 3 / 508، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 3 / 470، والسيوطي في الدر المنثور، 6 / 570، والشوکاني في فتح القدير، 4 / 267، والآلوسي في روح المعاني، 21 / 154.

’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس آیہ کریمہ کے بارے میں پوچھا گیا : ’’اور (اے حبیب! یاد کیجئے) جب ہم نے انبیاء سے اُن (کی تبلیغِ رسالت) کا عہد لیا اور (خصوصًا) آپ سے اور نوح سے۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں ان سب میں خلقت کے لحاظ سے پہلا اور بعثت کے لحاظ سے آخری نبی ہوں۔‘‘

امام مجاہد نے فرمایا : آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ( اس وقت بھی نبی تھے) جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت آدم علیہ السلام کی پشت میں تھے۔‘‘

اس حديث کو امام قرطبی، طبری اور بغوی نے روایت کیا ہے۔

47 / 47. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : لَمَّا خَلَقَ اﷲُ آدَمَ أَرَاهُ بَنِيْهِ، فَجَعَلَ يَرَی فَضَاءِلَ بَعْضِهِمْ عَلَی بَعْضٍ، فَرَأَی نُوْرًا سَاطِعًا فِي أَسْفَلِهِمْ، فَقَالَ : يَا رَبِّ، مَنْ هَذَا؟ قَالَ : هَذَا ابْنُکَ أَحْمَدُ وَهُوَ أَوَّلُ وَهُوَ آخِرُ وَهُوَ أَوَّلُ شَافِعٍ.

رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ وَابْنُ عَسَاکِرَ کَمَا قَالَ السَّيُوْطِيُّ.

47 : أخرجه السيوطي في الخصائص الکبری، 1 / 67.

’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب اﷲ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا فرمایا تو انہیں ان کی اولاد دکھائی انہوں نے ان میں سے بعض کی بعض پر فضیلت دیکھی، پھر انہوں نے ان کے نیچے ایک نور پھیلا ہوا دیکھا تو عرض کیا : اے میرے رب! یہ کون ہیں؟ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا : یہ تیرا (قابلِ فخر) بیٹا احمد ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) ہے۔ یہ (خلقت میں) سب سے پہلے ہیں اور (بعثت میں) سب سے آخری ہوں گے اور یہی سب سے پہلے شفاعت کرنے والے ہوں گے۔‘‘

اس حديث کو امام سیوطی کے بقول امام بیہقی اور ابن عساکر نے روایت کیا ہے۔

Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved