(المائدة،5/ 12)
اگر تم نے نماز قائم رکھی اور تم زکوٰۃ دیتے رہے اور میرے رسولوں پر (ہمیشہ) ایمان لاتے رہے اور ان (کے پیغمبرانہ مشن) کی مدد کرتے رہے اور اﷲ کو (اس کے دین کی حمایت و نصرت میں مال خرچ کرکے) قرضِ حسن دیتے رہے تو میں تم سے تمہارے گناہوں کو ضرور مٹا دوں گا، اور تمہیں یقینا ایسی جنتوں میں داخل کر دوںگا جن کے نیچے نہریں جاری ہیں۔
(الأنفال، 8/ 3-4)
(یہ) وہ لوگ ہیں جو نماز قائم رکھتے ہیں اور جو کچھ ہم نے انہیں عطا کیا ہے اس میں سے خرچ کرتے رہتے ہیںo (حقیقت میں) یہی لوگ سچے مومن ہیں، ان کے لیے ان کے رب کی بارگاہ میں (بڑے) درجات ہیں اور مغفرت اور بلند درجہ رزق ہے۔
(هود، 11/ 114)
اور آپ دن کے دونوں کناروں میں اور رات کے کچھ حصوں میں نماز قائم کیجیے۔ بے شک نیکیاں برائیوں کو مٹا دیتی ہیں۔ یہ نصیحت قبول کرنے والوں کے لیے نصیحت ہے۔
رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ وَالتِّرْمِذِيُّ وَابْنُ ماجه وَابْنُ حِبَّانَ وَالْحَاکِمُ.
أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الطهارة، باب الصلوات الخمس والجمعة إلی الجمعة ورمضان إلی رمضان مکفرات لما بينهن ما اجتنبت الکبائر، 1/ 209، الرقم/ 233، وأحمد بن حنبل في المسند، 2/ 359، الرقم/ 8700، والترمذي في السنن، کتاب الطهارة، باب ما جاء في فضل الصلوات الخمس، 1/ 418، الرقم/ 214، وابن ماجه في السنن، کتاب الطهارة وسننها، باب تحت کل شعرة جنابة، 1/ 196، الرقم/ 598، وابن حبان في الصحيح، 5/ 24، الرقم/ 1733، والحاکم في المستدرک، 1/ 207، الرقم/ 412.
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: پانچوں نمازیں، جمعہ اگلے جمعہ تک اور رمضان اگلے رمضان تک، سب درمیانی عرصہ کے گناہوں کا کفارہ بن جاتے ہیں بشرطیکہ انسان اس دوران کبیرہ گناہوں سے بچا رہے۔
اس حدیث کو امام مسلم، احمد، ترمذی، ابن ماجه، ابن حبان اور حاکم نے روایت کیا ہے۔
وَعَنْه رضی الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: أَرَأَيْتُمْ لَوْ أَنَّ نَهْرًا بِبَابِ أَحَدِکُمْ يَغْتَسِلُ مِنْهُ کُلَّ يَومٍ خَمْسَ مَرَّاتٍ، هَلْ يَبْقٰی مِنْ دَرَنِهِ شَيئٌ؟ قَالُوْا: لَا يَبْقٰی مِنْ دَرَنِهِ شَيئٌ. قَالَ: فَذٰلِکَ مَثَلُ الصَّلَوَاتِ الْخَمْسِ. يَمْحُو اﷲُ بِهِنَّ الْخَطَايَا.
مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ وَاللَّفْظُ لِمُسْلِمٍ.
أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب مواقيت الصلاة، باب الصلوات الخمس کفارة، 1/ 197، الرقم/ 505، ومسلم في الصحيح، کتاب الساجد، باب المشي إلی الصلاة تُمْحَی به الخطايا وتُرْفَعُ بِهِ الدرجات، 1/ 462، الرقم/ 667، وأحمد بن حنبل في المسند، 1/ 71، الرقم/ 518، 2/ 379، الرقم/ 8911، والترمذي في السنن، کتاب الأمثال، باب مثل الصلوات الخمس، 5/ 151، الرقم/ 2868، والنسائي في السنن، کتاب الصلاة، باب فضل الصلوات الخمس، 1/ 230، الرقم/ 462، وابن ماجه في السنن، کتاب إقامة الصلاة والسنة فيها، باب ما جاء في أن الصلاة کفارة، 1/ 447، الرقم/ 1397.
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہی سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: بتاؤ! اگر تم میں سے کسی کے دروازے پر ایک دریا ہو جس میں وہ ہر روز پانچ مرتبہ غسل کرے تو کیا اس (کے بدن) پر کچھ میل باقی رہے گا؟ صحابہ کرام نے عرض کیا: اس (کے بدن) پر بالکل میل باقی نہیں رہے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: پانچ نمازوں کی مثال بھی ایسی ہے، اللہ تعالیٰ ان کے سبب (بندے کے سارے) گناہ مٹا دیتا ہے۔
یہ حدیث متفق علیہ ہے جب کہ الفاظ مسلم کے ہیں۔
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالدَّارِمِيُّ وَالطَّبَرَانِيُّ وَالْبَزَّارُ.
أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 5/ 437، الرقم/ 23758، والدارمي في السنن، 1/ 197، الرقم/ 719، والطبراني في المعجم الکبير، 6/ 257، الرقم/ 6151، والبزار في المسند، 6/ 476، الرقم/ 2508.
حضرت ابو عثمان رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ وہ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کے ساتھ ایک درخت کے نیچے (بیٹھے) تھے کہ انہوں نے اس درخت کی ایک خشک ٹہنی پکڑی اور اسے (اس قدر) ہلایا کہ اس کے (تمام) پتے جَھڑ گئے۔ پھر کہنے لگے: اے ابو عثمان! تم مجھ سے نہیں پوچھو گے کہ میں ایسا کیوں کر رہا ہوں؟ میں نے کہا: آپ ایسا کیوں کر رہے ہیں؟ وہ فرمانے لگے: میرے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایسا ہی کیا،میں ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ درخت کے نیچے کھڑا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسی طرح اس کی ایک خشک ٹہنی پکڑی اور اسے ہلایا، یہاں تک کہ اس کے تمام پتے جَھڑ گئے۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے سلمان! تم مجھ سے پوچھو گے نہیں کہ میں ایسا کیوں کر رہا ہوں؟ میں نے عرض کیا: آپ ایسا کیوں کر رہے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرمانے لگے: ایک مسلمان جب اچھی طرح وضو کرکے پانچ نمازیں ادا کرتا ہے تو اس کے گناہ ایسے جھڑ جاتے ہیں جیسے یہ پتے جھڑ رہے ہیں۔ اور اﷲتعالیٰ نے فرمایا: {وَاَقِمِ الصَّلٰوةَ طَرَفَیِ النَّهَارِ وَزُلَفًا مِّنَ الَّيْلِ ط اِنَّ الْحَسَنٰتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّاٰتِ ط ذٰلِکَ ذِکْرٰی لِلذّٰکِرِيْنَo} ’اور آپ دن کے دونوںکناروں میں اور رات کے کچھ حصوں میں نماز قائم کیجیے۔ بے شک نیکیاں برائیوں کو مٹا دیتی ہیں۔ یہ نصیحت قبول کرنے والوں کے لیے نصیحت ہے‘۔
اس حدیث کو امام احمد، دارمی، طبرانی اور بزار نے روایت کیا ہے۔
رَوَاهُ أَحْمَدُ، وَقَالَ الْمُنْذِرِيُّ: إِسْنَادُهُ حَسَنٌ.
أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 5/ 179، الرقم/ 21596، وذکره المنذري في الترغيب والترهيب، 1/ 151، الرقم/ 560.
حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک مرتبہ موسم سرما میں جب (درختوں سے) پتے جَھڑ رہے تھے باہر تشریف لائے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک درخت کی دو شاخوں کو پکڑ لیا۔ ابوذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: شاخ سے پتے جَھڑنے لگے۔ راوی کہتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے ابوذر! میں نے عرض کیا: لبیک یا رسول اﷲ! حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: مسلمان بندہ جب نماز پڑھتا ہے اور اُس سے اس کا مقصود صرف اﷲ تعالیٰ کی رضا ہوتا ہے تو اس کے گناہ اسی طرح جھڑجاتے ہیں جس طرح یہ پتے درخت سے جھڑ رہے ہیں۔
اس حدیث کو امام احمد نے روایت کیا ہے۔ امام منذری نے فرمایا ہے: اس کی اسناد حسن ہے۔
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَابْنُ حُمَيْدٍ وَالْبَزَّارُ.
أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 1/ 61، الرقم/ 403، وعبد بن حميد في المسند، 1/ 49، الرقم/ 59، والبزار في المسند، 2/ 83، الرقم/ 435، والحسيني في البيان والتعريف، 1/ 209، الرقم/ 542.
حضرت حمران بن اَبان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہم حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر تھے تو آپ رضی اللہ عنہ نے پانی طلب کیا اور پھر وضو کیا۔ جب آپ وضو سے فارغ ہوئے تو مسکرائے اور پوچھا کہ کیا تم جانتے ہو کہ میں کس وجہ سے مسکرایا ہوں؟ تو پھر آپ رضی اللہ عنہ نے خود ہی فرمایا: ایک مرتبہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وضو فرمایا جس طرح میں نے و ضو کیا ہے اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تبسم فرمایا اور پوچھا: کیا تم جانتے ہو کہ میں کس وجہ سے مسکرایا ہوں؟ تو ہم نے عرض کیا: اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی بہتر جانتے ہیں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جب بندہ بڑے اہتمام کے ساتھ وضو مکمل کرتا ہے اور پھر نماز پڑھتا ہے اور نماز کو بھی بڑے اہتمام کے ساتھ مکمل کرتا ہے تو وہ نماز سے فارغ ہوتے وقت اس طرح گناہوں سے پاک ہو جاتا ہے جیسے وہ اپنی ماں کے بطن سے (گناہوں سے پاک) پیدا ہوا تھا۔
اس حدیث کو امام احمد، ابن حمید اور بزار نے روایت کیا ہے۔
رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَالْبَيْهَقِيُّ وَذَکرَهُ الْخَطِيْبُ الْبَغْدَادِيُّ وَالْمُنْذِرِيُّ.
أخرجه الطبراني في المعجم الصغير، 2/ 272، الرقم/ 1153، وأيضا في المعجم الکبير، 6/ 250، الرقم/ 6125، والبيهقي في شعب الإيمان، 3/ 145، الرقم/ 3144، وذکره الخطيب البغدادي في تاريخ بغداد، 14/ 313، الرقم/ 7634، وذکره المنذري في الترغيب والترهيب، 1/ 145، الرقم/ 533، والهيثمي في مجمع الزوائد، 1/ 300.
حضرت ابو عثمان النہدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: بیشک مسلمان نماز پڑھنے لگتا ہے تو اس کے گناہ اس کے سر پر دھرے ہوتے ہیں، پھر جب بھی وہ سجدہ کرتا ہے تو اس کے گناہ اس سے جھڑتے چلے جاتے ہیں اور جب وہ نماز سے فارغ ہوتا ہے تو اس کی حالت ایسی ہو جاتی ہے کہ اس کے تمام گناہ جھڑ چکے ہوتے ہیں۔
اس حدیث کو امام طبرانی، بیہقی، خطیب بغدادی نے روایت کیا ہے اور امام منذری نے ذکر کیا ہے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved