مدحت و نعت مصطفی ﷺ پر منتخب آیات و احادیث

نعت مصطفیٰ ﷺ پڑھنے کی فضیلت کا بیان

بَابٌ فِي فَضْلِ إِنْشَادِ مَدِيْحَةِ النَّبِيِّ صلی الله عليه واله وسلم

{حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی نعت پڑھنے کی فضیلت کا بیان}

14/ 1. عَنْ عَائِشَةَ رضي اﷲ عنها قَالَتْ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم يَقُوْلُ لِحَسَّانَ: إِنَّ رُوْحَ الْقُدُسِ لَا يَزَالُ يُؤَيِّدُکَ مَا نَافَحْتَ عَنِ اﷲِ وَرَسُوْلِهِ، وَقَالَتْ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم، يَقُوْلُ: هَجَاهُمْ حَسَّانُ، فَشَفَی وَاشْتَفَی. قَالَ حَسَّانُ:

هَجَوْتَ مُحَمَّدًا فَأَجَبْتُ عَنْهُ
وَعِنْدَ اﷲِ فِي ذَاکَ الْجَزَاءُ

هَجَوْتَ مُحمَّدًا بَرًّا حَنِيْفً
رَسُوْلَ اﷲِ شِيْمَتُهُ الْوَفَاءُ

فَإِنَّ أَبِي وَ وَالِدَهُ وَعِرْضِي
لِعِرْضِ مُحَمَّدٍ مِنْکُمْ وِقَاءُ

مَتَّفَقٌ عَلَيْهِ وَهَذَا لَفْظُ مُسْلِمٍ.

1: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: المناقب، باب: من أحب أن لا يسب نسبه، 3/ 1299، الرقم: 3338، وفي کتاب: المغازي، باب: حديث الإفک، 4/ 1523، الرقم: 3914، وفي کتاب: الأدب، باب: هجاء المشرکين، 5/ 2278، الرقم: 5798، ومسلم في الصحيح، کتاب: فضائل الصحابة، باب: فضائل حسان بن ثابت ص، 4/ 1934. 1935، الرقم: 2489.2490، وابن حبان في الصحيح، 13/ 103، الرقم: 5787، وأبو يعلی في المسند، 7/ 341، الرقم: 4377، وابن أبي شيبة في المصنف، 5/ 273، الرقم: 26021، والحاکم في المستدرک، 3/ 555، الرقم: 6063، والبيهقي في السنن الکبری، 10/ 238، والطبراني في المعجم الکبير، 4/ 38، الرقم: 3582، والبغوي في شرح السنة، 12/ 377، الرقم: 3408.

’’حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا سے مروی ہے کہ میں نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو یہ فرماتے سنا: (اے حسان) جب تک تم اﷲ اور رسول اﷲ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی طرف سے ان کا دفاع کرتے رہو گے روح القدس (جبرائیل) تمہاری تائید کرتے رہیں گے، نیز حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا نے فرمایا: میں نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے سنا ہے کہ حسان نے کفارِ قریش کی ہجو کرکے مسلمانوں کو شفا دی (یعنی ان کا دل ٹھنڈا کردیا) اور اپنے آپ کو شفا دی (یعنی اپنا دل ٹھنڈا کیا) حضرت حسان نے (کفار کی ہجو میں) کہا:

’’تم نے محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ہجو کی، تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی طرف سے جواب دیا ہے اور اس کی اصل جزا اﷲ ہی کے پاس ہے۔‘‘
’’تم نے محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ہجو کی، جو نیک اور ادیانِ باطلہ سے اعراض کرنے والے ہیں، وہ اﷲ کے (سچے) رسول ہیں اور ان کی خصلت وفا کرنا ہے۔‘‘
’’بلا شبہ میرا باپ، میرے اجداد اور میری عزت (ہمارا سب کچھ)، محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی عزت و ناموس کے دفاع کے لئے تمہارے خلاف ڈھال ہیں۔‘‘

یہ حدیث متفق علیہ ہے، مذکورہ الفاظ مسلم کے ہیں۔

15/ 2. عَنْ عُرْوَةَ رضی الله عنه قَالَ: کَانَتْ عَائِشَةُ رضياﷲ عنها تَکْرَهُ أَنْ يُسَبَّ عِنْدَهَا حَسَّانُ وَتَقُوْلُ: فَإِنَّهُ قَالَ:

فَإِنَّ أَبِي وَوَالِدَهُ وَعِرْضِي
لِعِرْضِ مُحَمَّدٍ مِنْکُمْ وِقَاءُ

مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

2: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: المغازي، باب: حديث الإفک، 4/ 1518، الرقم: 3910، ومسلم في الصحيح، کتاب: التوبة، باب: في حديث الإفک وقبول توبة القاذف، 4/ 2137، الرقم: 2770، والنسائي في السنن الکبری، 5/ 296، الرقم: 8931، وأحمد بن حنبل في المسند، 6/ 197، وأبو يعلی في المسند، 8/ 341، الرقم: 4933، والحاکم في المستدرک، 3/ 555، الرقم: 6060.

’’حضرت عروہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا اس بات کو (سخت) ناپسند فرماتی تھیں کہ ان کے سامنے حضرت حسان رضی اللہ عنہ کو برا بھلا کہا جائے (حضرت حسان بھی ان پر تہمت لگانے والوں میں شامل تھے) فرماتی تھیں (انہیں برا بھلا مت کہو) انہوں نے (حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی شان میں) یہ نعت پڑھی ہے:

’’بلاشبہ میرا باپ، میرے اجداد اور میری عزت (ہمارا سب کچھ)، محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی عزت و ناموس کے دفاع کے لئے تمہارے خلاف ڈھال ہیں۔‘‘

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

16/ 3. عَنْ هِشَامٍ رضی الله عنه عَنْ أَبِيْهِ قَالَ: ذَهَبْتُ أَسُبُّ حَسَّانَ عِنْدَ عَائِشَةَ رضي اﷲ عنها، فَقَالَتْ: لَا تَسُبَّهُ، فَإِنَّهُ کَانَ يُنَافِحُ عَنْ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم .

مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

3: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: المغازي، باب، حديث الإفک، 4/ 1523، الرقم: 3914، وفي کتاب: الأدب، باب: هجاء المشرکين، 5/ 2278، الرقم: 5798، ومسلم في الصحيح، کتاب: فضائل الصحابة، باب: فضائل حسان بن ثابت، 4/ 1933، الرقم: 2487، والبخاري في الأدب المفرد، 1/ 299، الرقم: 863، والحاکم في المستدرک، 3/ 555، الرقم: 6063، وقال: هذا حديث صحيح، والطبراني في المعجم الکبير، 23/ 107، الرقم: 149.

’’حضرت ہشام رضی اللہ عنہ نے اپنے والد (حضرت عروہ بن زبیر رضی اﷲ عنہما) سے راویت کیا کہ انہوں نے فرمایا: میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوا اور حضرت حسان رضی اللہ عنہ کو برا بھلا کہنے لگا (کیونکہ وہ بھی حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا پر تہمت لگانے والوں میں شامل تھے) حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا نے فرمایا: انہیں برا بھلا نہ کہو وہ (اپنی شاعری کے ذریعے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا کفار کے مقابلہ میں دفاع کیا کرتے تھے۔‘‘

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

17/ 4. عَنِ الْبَرَاءِ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه واله وسلم لِحَسَّانَ: اهْجُهُمْ أَوْهَاجِهِمْ وَجِبْرِيْلُ مَعَکَ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

18/ 5. وفي رواية للبخاري: قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم : يَوْمَ قُرَيْظَةَ لِحَسَّانَ بْنِ ثَابِتٍ: اهْجُ الْمُشْرِکِيْنَ، فَإِنَّ جِبْرِيْلَ مَعَکَ.

4-5: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: بدء الخلق، باب: ذکر الملائکة، 3/ 1176، الرقم: 3041، وفي کتاب: المغازي، باب: مرجع النبي صلی الله عليه واله وسلم من الأحزاب ومخرجه إلي بني قريظة، 4/ 1512، الرقم: 3897، وفي کتاب: الأدب، باب: هجاء المشرکين، 5/ 2279، الرقم: 5801، ومسلم في الصحيح، کتاب: فضائل الصحابة، باب: فضائل حسان بن ثابت، 4/ 1933، الرقم: 2486، والنسائي في السنن الکبری، 3/ 493، الرقم: 6024، وأحمد بن حنبل في المسند، 4/ 302، والبيهقي في السنن الکبری، 10/ 237، والطحاوي في شرح معاني الآثار، 4/ 298، والطبراني في المعجم الصغير، 1/ 90، الرقم:119، وفي المعجم الأوسط، 2/ 49، الرقم: 1209، 3/ 268، الرقم: 3108، وفي المعجم الکبير، 4/ 41، الرقم: 3588. 3589، وابن تيمية في الصارم المسلول، 1/ 214.

’’حضرت براء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے حضرت حسان رضی اللہ عنہ سے فرمایا: مشرکین کی ہجو کرو (یعنی ان کی مذمت میں اشعار پڑھو) اور حضرت جبرائیل بھی (اس کام میں) تمہارے ساتھ ہیں۔‘‘

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

’’اور بخاری کی ایک روایت کے الفاظ ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے قریظہ کے روز حضرت حسان بن ثابت سے فرمایا:’’ مشرکین کی ہجو (یعنی مذمت) کرو یقینا جبرائیل بھی (میری ناموس کے دفاع میں) تمہارے ساتھ شریک ہیں۔‘‘

19/ 6. عَنْ أُبَيِّ بْنِ کَعْبٍ رضی الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم قَالَ: إِنَّ مِنَ الشِّعْرِ حِکْمَةً. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَالتِّرْمِذِيُّ وَأَبُوْ دَاوُدَ وَابْنُ مَاجَه.

20/ 7. وفي رواية: عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي اﷲ عنهما قَالَ: جَاءَ أَعْرَابِيٌّ إِلَی النَّبِيِّ صلی الله عليه واله وسلم ، فَجَعَلَ يَتَکَلَّمُ بِکَـلَامٍ، فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم : إِنَّ مِنَ الْبَيَانِ سِحْرًا وَإِنَّ مِنَ الشِّعْرِ حُکْمًا. رَوَاهُ أَبُوْ دَاوُدَ.

6.7: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: الأدب، باب: ما يجوز من الشعر والرجز والحداء وما يکره منه، 5/ 2276، الرقم: 5793، والترمذي في السنن، کتاب: الأدب عن رسول اﷲ صلی الله عليه واله وسلم ، باب: ما جاء إن من الشعر حکمة، 5/ 137، الرقم: 2844، وأبو داود في السنن، کتاب: الأدب، باب: ما جاء في الشعر، 4/ 303، الرقم: 5010. 5011، وابن ماجه في السنن کتاب: الأدب، باب: الشعر، 2/ 1235، الرقم: 3755، والدارمي في السنن، 2/ 383، الرقم: 2704، والشافعي في المسند، 1/ 366، وأحمد بن حنبل في المسند، 3/ 456، الرقم: 15824.

’’حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: کسی شعر میں دانائی بھی ہوتی ہے۔‘‘

اسے امام بخاری ، ترمذی، ابو داؤد اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔

’’اور ایک روایت میں حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا: ایک اعرابی نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہو کر کوئی بات عرض کی تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: بے شک بعض بیانات جادو ہوتے ہیں اور بے شک بعض شعر دانائی والے ہوتے ہیں۔‘‘

اس حدیث کو امام ابو داود نے روایت کیا ہے۔

21/ 8. عَنِ ابْنِ الْمُسَيَبِ رضی الله عنه أَنَّ حَسَّانَ رضی الله عنه قَالَ فِي حَلْقَةٍ فِيْهِمْ أَبُوْ هُرَيْرَةَ رضی الله عنه: أَنْشُدُکَ اﷲَ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ، أَسَمِعْتَ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم يَقُوْلُ: أَجِبْ عَنِّي أَيَدَکَ اﷲُ بِرُوْحِ الْقُدُسِ؟ فَقَالَ: اَللَّهُمَّ، نَعَمْ.

رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ وَعَبْدُ الرَّزَّاقِ وَالطَّبَرَانِيُّ.

22/ 9. وفي رواية: عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه بِمَعْنَاهُ زَادَ فَخَشِيَ أَنْ يَرْمِيَهُ بِرَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم فَأَجَازَهُ وَتَرْکَهُ.

رَوَاهُ أَبُوْ دَاوُدَ وَأَحْمَدُ وَعَبْدُ الرَّزَّاقِ وَالطَّبَرَانِيُّ وَالْبَيْهَقِيُّ.

23/ 10. وفي رواية: أَقْبَلَ حَسَّانُ رضی الله عنه عَلَی أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه فَقَالَ: أَنْشُدُکَ اﷲَ أَتَعْلَمُ أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم قَالَ: يَا حَسَّانُ، أَجِبْ عَنْ رَسُوْلِ اﷲِ، اَللَّهُمَّ أَيِّدْهُ بِرُوْحِ الْقُدُسِ. قَالَ: نَعَمْ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.

8.10:أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب: فضائل الصحابة، باب: فضائل حسان بن ثابت رضی الله عنه، 4/ 1933، الرقم: 2485، وأبو داود في السنن، کتاب: الأدب، باب: ما جاء في الشعر، 4/ 304، الرقم: 5014، وأحمد بن حنبل في المسند، 2/ 269، الرقم: 7632، 5/ 222، الرقم: 21989، وعبد الرزاق في المصنف، 1/ 439، الرقم: 1716، 11/ 267، الرقم: 20510، والطبراني في المعجم الکبير، 4/ 40.41، الرقم: 3584.3586، والبيهقي في السنن الکبری، 2/ 448، الرقم: 4145، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 12/ 384.

’’حضرت ابن مسیّب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت حسان رضی اللہ عنہ نے ایک ایسے حلقہ میں جہاں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بھی موجود تھے، ان سے دریافت کیا: اے ابوہریرہ! میں آپ کو اللہ تعالیٰ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا آپ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: (اے حسان! ) میری طرف سے (کفار و مشرکین کو) جواب دو، اللہ تعالیٰ روح القدس (یعنی حضرت جبرائیل) کے ذریعے تمہاری مدد فرمائے گا؟ تو انہوں نے جواب دیا: ہاں، اللہ کی قسم! میں نے سنا ہے۔‘‘

اس حدیث کو امام مسلم، احمد، عبد الرزاق اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔

’’اور اسی معنی کی ایک اور روایت میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ پس انہیں (یعنی حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو) خدشہ لاحق ہوا کہ یہ (یعنی حضرت حسان رضی اللہ عنہ) انہیں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا حوالہ دے دیں گے۔ اس لئے انہوں نے اجازت دے دی (کیونکہ حضرت حسان رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی موجودگی میں منبر رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر اشعار پڑھا کرتے تھے)۔‘‘

اس روایت کو امام ابو داود، احمد، عبد الرزاق، طبرانی اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔

’’اور ایک روایت میں ہے کہ حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور کہا: میں آپ کو اللہ تعالیٰ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا تھا: اے حسان! اللہ کے رسول کی طرف سے (کفار و مشرکین کی ہجو کا) جواب دو، (اور پھر دعا فرمائی) اے اللہ! روح القدس (جبریل امین) کے ذریعے اس کی مدد فرما۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: جی ہاں۔‘‘

اس حدیث کو امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔

24/ 11. عَنِ ابْنِ الْمُسَيَبِ رضی الله عنه أَنَّ حَسَّانَ رضی الله عنه قَالَ فِي حَلْقَةٍ فِيْهِمْ أَبُوْ هُرَيْرَةَ رضی الله عنه: أَنْشُدُکَ اﷲَ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ، أَسَمِعْتَ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم يَقُوْلُ: أَجِبْ عَنِّي أَيَدَکَ اﷲُ بِرُوْحِ الْقُدُسِ؟ فَقَالَ: اَللَّهُمَّ، نَعَمْ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ وَعَبْدُ الرَّزَّاقِ وَالطَّبَرَانِيُّ.

25/ 12. وفي رواية: عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه بِمَعْنَاهُ زَادَ فَخَشِيَ أَنْ يَرْمِيَهُ بِرَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم فَأَجَازَهُ وَتَرْکَهُ.

رَوَاهُ أَبُوْ دَاوُدَ وَأَحْمَدُ وَعَبْدُ الرَّزَّاقِ وَالطَّبَرَانِيُّ وَالْبَيْهَقِيُّ.

26/ 13. وفي رواية: أَقْبَلَ حَسَّانُ رضی الله عنه عَلَی أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه فَقَالَ: أَنْشُدُکَ اﷲَ أَتَعْلَمُ أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم قَالَ: يَا حَسَّانُ، أَجِبْ عَنْ رَسُوْلِ اﷲِ، اَللَّهُمَّ أَيِّدْهُ بِرُوْحِ الْقُدُسِ. قَالَ: نَعَمْ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.

11.13: أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب: فضائل الصحابة، باب: فضائل حسان بن ثابت رضی الله عنه، 4/ 1933، الرقم: 2485، وأبو داود في السنن، کتاب: الأدب، باب: ما جاء في الشعر، 4/ 304، الرقم: 5014، وأحمد بن حنبل في المسند، 2/ 269، الرقم: 7632، 5/ 222، الرقم: 21989، وعبد الرزاق في المصنف، 1/ 439، الرقم: 1716، 11/ 267، الرقم: 20510، والطبراني في المعجم الکبير، 4/ 40.41، الرقم: 3584.3586، والبيهقي في السنن الکبری، 2/ 448، الرقم: 4145، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 12/ 384.

’’حضرت ابن مسیّب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت حسان رضی اللہ عنہ نے ایک ایسے حلقہ میں جس میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بھی موجود تھے، دریافت کیا: اے ابوہریرہ! میں آپ کو اللہ تعالیٰ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا آپ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: (اے حسان! ) میری طرف سے (کفار و مشرکین کو) جواب دو، اللہ تعالیٰ روح القدس (حضرت جبرائیل) کے ذریعے تمہاری مدد فرمائے گا؟ تو انہوں نے جواب دیا: ہاں، اللہ کی قسم! میں نے سنا ہے۔‘‘

اس حدیث کو امام مسلم، احمد، عبد الرزاق اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔

’’اور اسی معنی کی ایک اور روایت میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ پس انہیں (یعنی حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو) خدشہ لاحق ہوا کہ یہ (یعنی حضرت حسان ص) انہیں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا حوالہ دے دیں گے۔ اس لئے اجازت دے دی (کیونکہ وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی بارگاہ اقدس میں مسجد میں منبر رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر اشعار پڑھا کرتے تھے)؟‘‘

اس روایت کو امام ابو داود، احمد، عبد الرزاق، طبرانی اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔

’’اور ایک روایت میں ہے کہ حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور کہا: میں آپ کو اللہ تعالیٰ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا تھا: اے حسان! اللہ کے رسول کی طرف سے (کفار و مشرکین کی ہجو کا) جواب دو، (اور پھر دعا فرمائی) اے اللہ! روح القدس (جبریل امین ں) کے ذریعے اس کی مدد فرما۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: جی ہاں۔‘‘

اس حدیث کو امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔

27/ 14. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه أَنَّ عُمَرَ رضی الله عنه مَرَّ بِحَسَّانَ رضی الله عنه وَهُوَ يُنْشِدُ الشِّعْرَ فِي الْمَسْجِدِ فَلَحَظَ إِلَيْهِ فَقَالَ: قَدْ کُنْتُ أُنْشِدُ وَفِيْهِ مَنْ هُوَ خَيْرٌ مِنْکَ ثُمَّ الْتَفَتَ إِلَی أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه فَقَالَ: أَنْشُدُکَ اﷲَ أَسَمِعْتَ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم يَقُوْلُ: أَجِبْ عَنِّي اَللَّهُمَّ أَيِّدْهُ بِرُوْحِ الْقُدُسِ قَالَ: اَللَّهُمَّ نَعَمْ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَبُوْ دَاوُدَ وَالنَّسَائِيُّ.

14: أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب: فضائل الصحابة، باب: فضائل حسان بن ثابت، 4/ 1932، الرقم: 2485، وأبو داود في السنن، کتاب: الأدب، باب: ماجاء في الشعر، 4/ 303، الرقم: 5013، والنسائي في السنن، کتاب: المساجد،باب: الرخصة في إنشاد الشعر الحسن في المسجد، 2/ 48، الرقم: 716، وفي السنن الکبری، 1/ 262، الرقم: 795، 6/ 51، الرقم: 9999، وأحمد بن حنبل في المسند، 5/ 222، الرقم: 21986، وابن خزيمة في الصحيح، 2/ 275، الرقم: 1307، وأبو يعلی في المسند، 10/ 290، الرقم: 5885.

’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کے پاس سے گزرے، درآنحالیکہ وہ مسجد میں شعر پڑھ رہے تھے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے گھور کر ان کی طرف دیکھا تو حضرت حسان نے کہا: میں مسجد میں اس وقت بھی شعر پڑھتا تھا جب مسجد میں آپ سے افضل شخص (یعنی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم خود ظاہرًا بھی) موجود تھے، پھر انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی طرف مڑ کر دیکھا (جو کہ وہاں موجود تھے) اور کہا: (اے ابوہریرہ!) میں تمہیں اللہ کی قسم دے کر سوال کرتا ہوں کہ کیا تم نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: (اے حسان!) میری طرف سے (مشرکین کو) جواب دو۔ اے اللہ! اس کی روح القدس (حضرت جبریل) کے ذریعہ سے تائید فرما؟ تو انہوں نے کہا: ہاں اﷲ کی قسم! سنا ہے۔‘‘

اس حدیث کو امام مسلم، ابو داود اور نسائی نے روایت کیا ہے۔

28/ 15. عَنْ عَائِشَةَ رضي اﷲ عنها قَالَتْ: کَانَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم يَضَعُ لِحَسَّانَ مِنْبَرًا فِي الْمَسْجِدِ، يَقُوْمُ عَلَيْهِ قَائِمًا، يُفَاخِرُ عَنْ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم أَوْ قَالَ: يُنَافِحُ عَنْ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم . وَ يَقُوْلُ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم : إِنَّ اﷲَ يُؤَيِّدُ حَسَّانَ بِرُوْحِ الْقُدُسِ مَا يُفَاخِرُ أَوْ يُنَافِحُ عَنْ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم .

رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَأَحْمَدُ وَالْحَاکِمُ. وَقَالَ أَبُوْ عِيْسَی: هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ.

15: أخرجه الترمذي في السنن، کتاب: الأدب عن رسول اﷲ صلی الله عليه واله وسلم ، باب: ما جاء في إنشاد الشعر، 5/ 138، الرقم: 2846، وأحمد بن حنبل في المسند، 6 / 72، الرقم: 24481، والحاکم في المستدرک، 3/ 554. 555، الرقم: 6058.6059، والطحاوي في شرح معاني الاثار، 4/ 298، وأبو يعلی في المسند، 8/ 189، الرقم: 4746، والطبراني في المعجم الکبير، 4/ 37، الرقم: 3580، والخطيب البغدادي في موضح أوهام الجمع والتفريق، 2/ 423، الرقم: 427، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 1/ 123.

’’حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے انہوں نے فرمایا: حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم مسجد نبوی میں حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کے لئے منبر رکھتے تھے جس پر وہ کھڑے ہو کر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی طرف سے (مشرکین کے مقابلہ میں) فخر یا دفاع کرتے تھے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم فرماتے: بے شک اللہ تعالیٰ روح القدس کے ذریعے حسان کی مدد فرماتا رہے گا۔ جب تک وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی طرف سے فخر یا دفاع کرتا رہے گا۔‘‘

اس حدیث کو امام ترمذی، احمد اور حاکم نے روایت کیا ہے۔ امام ابو عیسٰی نے فرمایا کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

29/ 16. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي اﷲ عنهما قَالَ: {وَالشُّعَرَاءُ يَتَّبِعُهُمُ الْغَاوُوْنَ} ]الشعراء، 26:224[ فَنَسَخَ مِنْ ذَلِکَ وَاسْتَثْنَی فَقَالَ: {إِلَّا الَّذِيْنَ آمَنُوْا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَذَکَرُوا اﷲَ کَثِيْرًا} ]الشعراء، 26: 227[. رَوَاهُ أَبُوْ دَاوُدَ وَالْبَيْهَقِيُّ.

16: أخرجه أبو داود في السنن، کتاب: الأدب، باب: ما جاء في الشعر، 4/ 304، الرقم: 5016، والبيهقي في السنن الکبری، 10/ 239، الرقم: 20900، والسيوطي في الدر المنثور، 6/ 335.

’’حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اﷲ عنہما نے اس آیت مبارکہ: ’’اور شاعروں کی پیروی بہکے ہوئے لوگ ہی کرتے ہیں۔‘‘ کی تفسیر میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت کے حکم کو بعد والی آیت میں نسخ فرمایا اور استثناء کیا اور فرمایا: ’’سوائے ان (شعراء) کے جو ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے۔‘‘

اس حدیث کو امام ابو داود اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔

30/ 17. عَنْ کَعْبِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه أَنَّهُ قَالَ لِلنَّبِيِّ صلی الله عليه واله وسلم : إِنَّ اﷲَ قَدْ أَنْزَلَ فِي الشِّعْرِ مَا أَنْزَلَ، فَقَالَ: إِنَّ الْمُؤْمِنَ يُجَاهِدُ بِسَيْفِهِ وَلِسَانِهِ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لَکَأَنَّ مَا تَرْمُوْنَهُمْ بِهِ نَضْحُ النَّبْلِ.

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَابْنُ حِبَّانَ وَالْبَغَوِيُّ وَالْبُخَارِيُّ فِي الْکَبِيْرِ.

17: أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 6/ 387، الرقم: 27218، 3/ 456، وابن حبان في الصحيح، 13/ 102، الرقم: 5786، 11/ 5، الرقم: 4707، والبخاري في التاريخ الکبير، 5/ 304، والطبراني في المعجم الکبير، 19/ 75، الرقم: 151.153، والبيهقي في السنن الکبری، 10/ 239، والبغوي في شرح السنة، 12/ 378، الرقم: 3409، وابن عبد البر في الاستيعاب، 3/ 1325، والمزي في تهذيب الکمال، 24/ 195، والحسيني في البيان والتعريف، 1/ 216، الرقم: 566.

’’حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے عرض کیا: بیشک اﷲ تبارک و تعالیٰ نے شعر کے بارے میں نازل کیا جو نازل کیا تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: بیشک مومن اپنی تلوار اور زبان دونوں کے ساتھ جہاد کرتا ہے اور اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! گویا جو الفاظ تم ان (کفار و مشرکین)کی مذمت میں کہتے ہو وہ (ان کے لئے) بمنزلہ تیر برسانے کے ہیں۔‘‘

اس حدیث کو امام احمد، ابن حبان، بغوی اور بخاری نے ’التاریخ الکبیر‘ میں روایت کیا ہے۔

31/ 18. عَنِ الشَّعْبِيِّ عليه الرحمة قَالَ: ذُکِرَ عِنْدَ عَائِشَةَ رضي اﷲ عنها حَسَّانُ فَقِيْلَ لَهَا: إِنَّهُ قَدْ أَعَانَ عَلَيْکِ وَفَعَلَ وَفَعَلَ، فَقَالَتْ: مَهْـلًا، فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم يَقُوْلُ: إِنَّ اﷲَ يُؤَيِّدُ حَسَّانَ فِي شِعْرِهِ بِرُوْحِ الْقُدُسِ. رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ.

18: أخرجه ابن أبي شيبة في المصنف، 5/ 273، الرقم: 26019، وفي کتاب الأدب، 1/ 357، الرقم: 382.

’’امام شعبی علیہ الرحمہ سے روایت ہے وہ بیان فرماتے ہیں کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا کی خدمت میں حضرت حسان رضی اللہ عنہ کا تذکرہ ہوا کہ وہ (یعنی حضرت حسان ص) سیدہ عائشہ رضی اﷲ عنہا کے خلاف لوگوں کی مدد کرتے تھے تو حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا نے فرمایا کہ (حضرت حسان کے بارے میں کچھ کہنے سے قبل اچھی طرح سے) سوچ لیا کرو کیونکہ میں نے خود حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ شعر گوئی میں اللہ تعالیٰ جبرئیل امین ں کے ذریعہ سے حسان کی مدد فرماتا ہے۔‘‘

اس حدیث کو امام ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔

32/ 19. عَنْ أَبِي الْحَسَنِ الْبَرَّادِ رضی الله عنه قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ الآيَةُ: {وَالشُّعَرَاءُ يَتَّبِعُهُمُ الْغَاوُوْنَ} ]الشعراء، 26: 224[ جَاءَ عَبْدُ اﷲِ بْنُ رَوَاحَةَ وَکَعْبُ بْنُ مَالِکٍ وَحَسَّانُ بْنُ ثَابِتٍ إِلَی رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم وَهُمْ يُبْکُوْنَ فَقَالُوْا: يَا رَسُوْلَ اﷲِ، أَنْزَلَ اﷲُ هَذِهِ الآيَةَ وَهُوَ يَعْلَمُ أَنَّا شُعَرَاءُ فَقَالَ: إِقْرَأُوْا مَا بَعْدَهَا: {إِلَّا الَّذِيْنَ آمَنُوْا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ} ]الشعراء، 26:227[ أَنْتُمْ {وَانْتَصَرُوْا} أَنْتُمْ.

رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَابْنُ أَبِي حَاتِمٍ وَالطَّبَرِيُّ.

19: أخرجه ابن أبي شيبة في المصنف، 5/ 277، الرقم: 26051، وابن أبي حاتم في تفسيره، 9/ 2834.2835، والطبري في جامع البيان، 19/ 129.130، والسيوطي في الدر المنثور، 6/ 334، والعسقلاني في فتح الباری، 10/ 539، والعيني في عمدة القاري، 22/ 181، والعظيم آبادي في عون المعبود، 13/ 244.

’’حضرت حسن براد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا کہ جب قرآن پاک کی یہ آیت نازل ہوئی : ’’اور شاعروں کی پیروی بہکے ہوئے لوگ ہی کرتے ہیں۔‘‘ تو حضرت عبد اللہ بن ابی رواحہ، حضرت کعب بن مالک اور حضرت حسان بن ثابت تینوں حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اس حال میں کہ وہ گریہ کناں تھے اور عرض کرنے لگے: یارسول اللہ! اللہ تعالیٰ نے (شعراء کے بارے میں) یہ آیت نازل فرمائی ہے اور وہ جانتا ہے کہ ہم بھی شاعر ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: اسکے بعد والی آیت پڑھو کہ جس میں اﷲ تعالیٰ نے فرمایا: ’’سوائے ان (شعراء) کے جو ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: اس آیت سے مراد تم لوگ ہو اور پھر (آیت کے اگلے حصہ): ’’اور اپنے اوپر ظلم ہونے کے بعد (ظالموں سے بزبانِ شعر) انتقام لیا۔‘‘ تلاوت کر کے فرمایا: اس سے مراد بھی تم لوگ ہی ہو۔‘‘

اس حدیث کو امام ابن ابی شیبہ، ابن ابی حاتم اور طبری نے روایت کیا ہے۔

33/ 20. عَنْ أَبِي الْحَسَنِ مَوْلَی بَنِي نَوْفَلٍ أَنَّ عَبْدَ اﷲِ بْنَ رَوَاحَةَ وَحَسَّانَ بْنَ ثَابِتٍ رضي اﷲ عنهما أَتَيَا رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم حِيْنَ نَزَلَتْ {طٰسم الشُّعَرَاءُ} يَبْکِيَانِ وَهُوَ يَقْرَأُ عَلَيْهِمْ: {وَالشُّعَرَاءُ يَتَّبِعُهُمُ الْغَاوُوْنَ} حَتَّی بَلَغَ {وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ} قَالَ: أَنْتُمْ {وَذَکَرُوا اﷲَ کَثِيْرًا} قَالَ: أَنْتُمْ {وَانْتَصَرُوْا مِنْ بَعْدِ مَا ظُلِمُوْا} قَالَ: أَنْتُمْ. رَوَاهُ الْحَاکِمُ.

34/ 21. وفي رواية: عَنِ السَّدِّيِّ رضی الله عنه فِي قَوْلِهِ: {إِلَّا الَّذِيْنَ آمَنُوْا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ} قَالَ: نَزَلَتْ فِي عَبْدِ اﷲِ بْنِ رَوَاحَةَ رضی الله عنه وَفِي شُعَرَاءِ الأَنْصَارِ. رَوَاهُ ابْنُ أَبِي حَاتِمٍ کَمَا قَالَ السَّيُوْطِيُّ.

35/ 22. وفي رواية: عَنْ مُجَاهِدٍ فِي قَوْلِهِ: {وَانْتَصَرُوْا مِنْ بَعْدِ مَا ظُلِمُوْا} قَالَ: عَبْدُ اﷲِ بْنُ رَوَاحَةَ رضی الله عنه وَأَصْحَابُهُ. رَوَاهُ الطَّبَرِيُّ.

20-22: أخرجه الحاکم في المستدرک، 3/ 556، الرقم: 6064، والطبري في جامع البيان، 19/ 130، والسيوطي في الدر المنثور، 6/ 334. 336.

’’حضرت ابو الحسن مولی بنی نوفل سے روایت ہے کہ جب یہ آیت (طسم الشعراء) نازل ہوئی حضرت عبد اللہ بن رواحہ اور حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہما حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خدمت اقدس میں اس حال میں حاضر ہوئے کہ وہ زار و قطار رو رہے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم یہ آیت تلاوت فرما رہے تھے: ’’اور شاعروں کی پیروی بہکے ہوئے لوگ ہی کرتے ہیں۔‘‘ یہاں تک کہ جب آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم آیت کے اس حصہ: ’’سوائے ان (شعراء) کے جو ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے۔‘‘ تک پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: تم ان میں سے ہو جن کے لئے اﷲ تعالیٰ نے فرمایا: ’’اور اﷲ کو کثرت سے یاد کرتے رہے (یعنی اﷲ اور رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے مدح خواں بن گئے)۔‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے (آیت کا اگلا حصہ تلاوت) فرمایا: ’’اور اپنے اوپر ظلم ہونے کے بعد (ظالموں سے بزبانِ شعر) انتقام لیا (اور اپنے کلام کے ذریعہ اسلام اور مظلوموں کا نہ صرف دفاع کیا بلکہ ان کا جوش بھی بڑھایا تو یہ شاعری مذموم نہیں)۔‘‘ اور آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ان سے فرمایا: اس آیت سے مراد بھی تم لوگ ہی ہو۔‘‘

اس حدیث کو امام حاکم نے روایت کیا ہے۔

’’ایک اور روایت میں حضرت سدَّی سے مروی ہے کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے فرمان: ’’سوائے اُن (شعراء) کے جو ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے۔‘‘ کے بارے میں فرمایا: یہ آیت حضرت عبد اللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ اور شعرائے انصار کی شان میں اتری ہے۔‘‘

اس حدیث کو امام ابن ابی حاتم نے روایت کیا ہے، جیسا کہ امام سیوطی نے فرمایا۔

’’اور ایک اور روایت میں ہے کہ حضرت مجاہد علیہ الرحمہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان مبارک {اور اپنے اوپر ظلم ہونے کے بعد (ظالموں سے بزبانِ شعر) انتقام لیا (اور اپنے کلام کے ذریعہ اسلام اور مظلوموں کا نہ صرف دفاع کیا بلکہ ان کا حوصلہ بھی بڑھایا تو یہ شاعری مذموم نہیں)} اس سے مراد حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ اور اُن کے اصحاب ہیں۔‘‘

اِسے امام طبری نے روایت کیا ہے۔

36/ 23. عَنْ کَعْبِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم : اهْجُوْا بِالشِّعْرِ، إِنَّ الْمُؤْمِنَ يُجَاهِدُ بِنَفْسِهِ وَمَالِهِ، وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ، کَأَنَّمَا يَنْضَحُوْهُمْ بِالنَّبْلِ. رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالطَّبَرَانِيُّ.

37/ 24. وفي رواية: عَنْ کَعْبِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه واله وسلم قَالَ: وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لکَأَنَّمَا تَنْضَحُوْنَهُمْ بِالنَّبْلِ فِيْمَا تَقُوْلُوْنَ لَهُمْ مِنَ الشِّعْرِ. رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالطَّبَرَانِيُّ وَالْبَيْهَقِيُّ.

23.24: أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 3/ 456، 460، الرقم: 15824، 15834، والطبري في تهذيب الآثار، 2/ 632، الرقم: 932، والطبراني في المعجم الأوسط، 1/ 74، الرقم: 209، وفي المعجم الکبير، 19/ 76، الرقم: 152.153، وفي مسند الشامين، 4/ 245، الرقم: 3196، والبيهقي في السنن الکبری، 10/ 239، الرقم: 20899، والفسوي في المعرفة والتاريخ، 1/ 190.

’’حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: (کفار و مشرکین کی اپنے) اشعار کے ذریعے مذمت کیا کرو، بے شک مومن اپنی جان اور مال (اور زبان) کے ساتھ جہاد کرتا ہے، گویا (مدحت رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر مشتمل) یہ اشعار ان پر تیروں کی طرح برستے ہیں۔‘‘

اس حدیث کو امام احمد اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔

’’اور ایک روایت میں حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں مجھ محمد مصطفی( صلی اللہ علیہ والہ وسلم ) کی جان ہے، گویا تم ان (کفار و مشرکین) پر اپنے کہے ہوئے (نعت مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے) اشعار کی شکل میں تیر برساتے ہو۔‘‘

اس حدیث کو امام احمد، طبرانی اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔

38/ 25. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ: رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم: حَسَنُ الشِّعْرِ کَحَسَنِ الْکَـلَامِ وَقَبِيْحُ الشِّعْرِ کَقَبِيْحِ الْکَـلَامِ.

رَوَاهُ الدَّارُ قُطْنِيُّ وَالدَّيْلَمِيُّ عَنْ عَائِشَةَ رضي اﷲ عنها.

39/ 26. وفي رواية: عَنْ عَائِشَةَ رضي اﷲ عنها أَنَّهَا کَانَتْ تَقُوْلُ: الشِّعْرُ مِنْهُ حَسَنٌ وَمِنْهُ قَبِيْحٌ، خُذْ بِالْحَسَنِ، وَدَعِ الْقَبِيْحَ. وَلَقَدْ رَوَيْتُ مِنْ شِعْرِ کَعْبِ بْنِ مَالِکٍ أَشْعَارًا، مِنْهَا الْقَصِيْدَةُ فِيْهَا أَرْبَعُوْنَ بَيْتًا وَدُوْنَ ذَلِکَ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ فِي الْأَدَبِ وَسَنَدُهُ حَسَنٌ.

25.26: أخرجه الدار قطني في السنن، 4/ 156، الرقم: 5، والبخاري في الأدب المفرد، 1/ 299، الرقم: 866، والديلمي في الفردوس، 2/ 145، الرقم: 2743، والعسقلاني في فتح الباري، 10/ 539، وقال: وسنده حسن.

’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے روایت کیا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: اچھا شعر، اچھے کلام کی طرح، اور برا شعر برے کلام کی طرح ہوتا ہے۔‘‘

اس حدیث کو امام دارقطنی اور دیلمی نے حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا سے روایت کیا ہے۔

’’اور ایک روایت میں سیدہ عائشہ رضی اﷲ عنہا سے مروی ہے آپ فرمایا کرتی تھیں: شعر اچھے بھی ہوتے ہیں اور برے بھی، اچھے شعر لے لو اور برے ترک کر دو۔ میں نے حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کے اشعار روایت کئے ہیں۔ ان میں سے ایک قصیدہ ایسا ہے جس میں چالیس اشعار ہیں اور بعض میں اس سے کم۔‘‘

اس حدیث کو امام بخاری نے ’الادب المفرد‘ میں روایت کیا ہے اور اس کی سند حسن ہے۔

40/ 27. عَنْ جَابِرٍ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم : مَنْ يَحْمِي أَعْرَاضَ الْمُؤْمِنِيْنَ؟ قَالَ کَعْبٌ: أَنَا، قَالَ ابْنُ رَوَاحَةَ: أَنَا، قَالَ: إِنَّکَ لَتُحْسِنُ الشِّعْرَ. قَالَ حَسَّانُ بْنُ ثَابِتٍ رضی الله عنه: أَنَا. إِذْ قَالَ: أُهْجُهُمْ، فَإِنَّهُ سَيُعِيْنَُکَ عَلَيْهِمْ رُوْحُ الْقُدُسِ. رَوَاهُ الطَّحَاوِيُّ.

27: أخرجه الطحاوي فيشرح معاني الآثار، 4/ 297، والعسقلاني في فتح الباري، 7/ 416، والسيوطي في الدر المنثور، 6/ 590.

’’حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: مومنوں کی عزتوں کی حفاظت کون کرے گا؟ حضرت کعب رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: (یا رسول اللہ!)، میں، اور حضرت ابن رواحہ رضی اللہ عنہ نے بھی عرض کیا: (یا رسول اللہ!) میں (حفاظت کروں گا)۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: بے شک تو عمدہ شعر کہنے والا ہے۔ حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: (یا رسول اللہ!) میں (بھی حفاظت کروں گا)۔ تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے انہیں فرمایا: تم مشرکین کی ہجو کرو اور اس کام میں روح القدس (حضرت جبرائیل) تمہاری مدد کرے گا۔‘‘

اس حدیث کو امام طحاوی نے بیان کیا ہے۔

41/ 28. عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم : الشِّعْرُ بِمَنْزِلَةِ الْکَـلَامِ، حَسَنُهُ کَحَسَنِ الْکَـلَامِ وَقَبِيْحُهُ کَقَبِيْحِ الْکَـلَامِ. رَوَاهُ الدَّارُ قُطْنِيُّ وَالشَّافِعِيُّ وَالْبُخَارِيُّ فِي الْأَدَبِ.

وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ: إِسْنَادُهُ حَسَنٌ.

28: أخرجه الدار قطني في السنن، 4/ 156، الرقم: 4، والشافعي في المسند، 1/ 366، والبخاري في الأدب المفرد، 1/ 299، الرقم: 865، والطبراني في المعجم الأوسط، 7/ 350، الرقم: 7696، وإسناده حسن، والبيهقي في السنن الکبری، 5/ 68، الرقم: 8963، والديلمي في مسند الفردوس، 1/ 342، الرقم: 1368، والمقدسي في أحاديث الشعر، 1/ 107، الرقم: 16، والهيثمي في مجمع الزوائد، 8/ 122، والمزي في تهذيب الکمال، 17/ 85.

’’حضرت عبد اﷲ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: شعر بمنزلہ کلام ہوتا ہے، اچھا شعر اچھے کلام کی طرح اور برا شعر برے کلام کی طرح ہے۔‘‘

اس حدیث کو امام دارقطنی، شافعی، اور بخاری نے ’’الادب المفرد‘‘ میں بیان کیا ہے اور امام ہیثمی نے فرمایا کہ اس کی اسناد حسن ہے۔

42/ 29. عَنْ بَرِيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ: أَعَانَ جِبْرِيْلُ حَسَّانَ بْنَ ثَابِتٍ رضی الله عنه عَلَی مَدْحِهِ النَّبِيَّ صلی الله عليه واله وسلم بِسَبْعِيْنَ بَيْتًا.

رَوَاهُ الْفَاکِهِيُّ وَابْنُ عَسَاکِرَ وَالْمِزِّيُّ. وَقَالَ ابْنُ عَسَاکِرَ: هَذَا الإِْسْنَادُ وَهُوَ الصَّحِيْحُ.

29: أخرجه الفاکهي في أخبار مکة، 1/ 306، الرقم: 631، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 12/ 406، والمزي في تهذيب الکمال، 6/ 21، والخزرجي في خلاصة تذهيب تهذيب الکمال، 1/ 75، الرقم: 11، والسيوطي في الدرمنثور، 6/ 337.

’’حضرت بریرہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ حضرت جبرائیل ں نے حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی مدح کے سلسلہ میں ستر اشعار کے ساتھ مدد فرمائی۔‘‘

اس حدیث کو امام فاکہی، ابن عساکر اور مزی نے روایت کیا ہے۔ امام ابن عساکر نے فرمایا کہ اس کی اسناد صحیح ہے۔

43/ 30. عَنْ هِشَامِ بْنِ حَسَّانَ رضی الله عنه أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه واله وسلم قَالَ لَهُ: وَإِيَاکَ يَا سَيِّدَ الشُّعَرَاءِ. رَوَاهُ ابْنُ أَبِي الدُّنْيَا.

30: أخرجه ابن أبي الدنيا في الإشراف في منازل الأشراف، 1/ 244، الرقم: 296، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 28/ 93.

’’حضرت ہشام بن حسان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے (حضرت حسان رضی اللہ عنہ کو مخاطب کرکے فرمایا: اور (سنو!) اے شاعروں کے سردار!‘‘

اس حدیث کو امام ابن ابی دنیا نے روایت کیا ہے۔

44/ 31. عَنْ مَسْرُوْقٍ قَالَ: کُنْتُ عِنْدَ عَائِشَةَ رضي اﷲ عنها فَدَخَلَ حَسَّانُ بْنُ ثَابِتٍ رضی الله عنه فَأَمَرَتْ فَأُلْقِيَ لَهُ وِسَادَةً … الحديث.

رَوَاهُ الطَّبَرِيُّ وَابْنُ کَثِيْرٍ.

45/ 32. وفي رواية: عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيْرِيْنَ أَنَّ عَائِشَةَ رضي اﷲ عنها کَانَتْ تَأْذَنُ لِحَسَّانَ بْنِ ثَابِتٍ رضی الله عنه وَتَدْعُوْ لَهُ بِالْوِسَادَةِ وَتَقُوْلُ: لَا تُؤْذُوْا حَسَّانَ فَإِنَّهُ کَانَ يَنْصُرُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم بِلِسَانِهِ. ذَکَرَهُ السَّيُوْطِيُّ.

31-32: أخرجه الطبري في جامع البيان، 18/ 88، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 3/ 273، والسيوطي في الدر المنثور، 6/ 158.

’’حضرت مسروق سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا کہ میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا کی خدمت میں موجود تھا تو اتنے میں حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ تشریف لائے تو سیدہ عائشہ رضی اﷲ عنہا نے (ان کی تکریم کے لئے) حکم دیا کے اُن کے لئے تکیہ رکھا جائے (حضرت حسان رضی اللہ عنہ چونکہ اشعار کے ذریعے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا دفاع کرتے تھے، اس لئے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا نے انہیں یہ عزت و تکریم بخشی)۔‘‘

اس روایت کو امام طبری اور ابن کثیر نے بیان کیا ہے۔

’’اور ایک دوسری روایت میں امام محمد بن سیرین علیہ الرحمہ سے مروی ہے کہ حضرت حسان رضی اللہ عنہ کو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا گھر میں آنے کی (خصوصی) اجازت دے دیتی تھیں اور ان کے لئے تکیہ لگانے کا اہتمام کرتی تھیں اور تاکیداً فرماتیں کہ انہیں تنگ نہ کیا جائے کیونکہ وہ اپنی زبان سے شان مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے اشعار کہہ کر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی مدد کیا کرتے تھے۔‘‘

اسے امام سیوطی نے ذکر کیا ہے۔

46/ 33. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي اﷲ عنهما {وَالشُّعَرَاءُ} قَالَ: اَلْمُشْرِکُوْنَ مِنْهُمُ الَّذِيْنَ کَانُوْا يَهْجُوْنَ النَّبِيَّ صلی الله عليه واله وسلم {يَتَّبِعُهُمُ الْغَاوُوْنَ} غُوَاةُ الْجِنِّ {فِي کُلِّ وَادٍ يَهِيْمُوْنَ} فِي کُلِّ فَنٍّ مِنَ الْکَـلَامِ، يَأْخُذُوْنَ ثُمَّ اسْتُثْنِيَ فَقَالَ: {إِلَّا الَّذِيْنَ آمَنُوْا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ} يَعْنِي حَسَّانَ بْنَ ثَابِتٍ وَعَبْدَ اﷲِ بْنَ رَوَاحَةَ وَکَعَبَ بْنَ مَالِکٍ ث کَانُوْا يَذُبُّوْنَ عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه واله وسلم وَأَصْحَابِهِ هَجَاءَ الْمُشْرِکِيْنَ. رَوَاهُ ابْنُ أَبِي حَاتِمٍ وَالسَّيُوْطِيُّ.

33: أخرجه ابن أبي حاتم في تفسيره، 9/ 2834، والزيلعي في تخريج الأحاديث والآثار، 2/ 480، والسيوطي في الدر المنثور، 6/ 334.

’’حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ (وَالشُّعَرَاءُ) سے وہ مشرک شاعر مقصود ہیں جو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم رفقائے کار کی مذمت کرنے اور (ہجو کرنے) میں مصروف رہتے تھے، اور آیت مبارکہ - {شاعروں کی پیروی بہکے ہوئے لوگ ہی کرتے ہیں} - سے یہ مراد ہے کہ جن لوگوں کو جنات نے بہکایا ہو ’’اور وہ ہر وادی میں بھٹکتے پھرتے ہوں۔‘‘ اسی طرح وہ اپنی تاویلیں ہر فن اور کلام میں گھڑتے تھے۔ تو اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام پاک میں استثناء کرتے ہوئے فرمایا: ’’سوائے ان (شعرائ) کے جو ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے۔‘‘ اور اِس سے مراد حضرت حسان بن ثابت، حضرت عبد اللہ بن رواحہ، اور حضرت کعب بن مالک ث (و دیگر نعت خواں شامل) ہیں جو کہ مشرکین مکہ کے خلاف حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم اور انکے اصحاب کا دفاع کیا کرتے تھے۔‘‘

اس حدیث کو امام ابن ابی حاتم اور سیوطی نے روایت کیا ہے۔

Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved