حبیبِ خدا، اَحمد مجتبیٰ، محمد مصطفی، سید الانبیاء، اَخطب الخطباء، فخرِ موجودات اور باعثِ تخلیقِ کائنات ﷺ کی حیات طیبہ کو قرآنِ رفیع المرتبت نے اُسوۂ حسنہ قرار دیا ہے۔ آپ ﷺ کی شخصیت مجسمِ محامد، سراپا محاسن اور پیکرِ شمائل و خصائل ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ
لا یمکن الثناء كما كان حقه
بعد اَز خدا بزرگ توئی قصهٔ مختصر
حضور نبی اکرم ﷺ نے حکمِ اِلٰہی سے جب صفا کی پہاڑی پر کھڑے ہو کر قریشِ مکہ کے تمام شعوب و قبائل کو دینِ اِسلام اور دینِ حق کی طرف دعوت دینے کے لیے پکارا تو وہ آپ ﷺ کی آواز سنتے ہی جمع ہو گئے۔ اِس موقع پر آپ ﷺ نے ان سے جو دعوتی گفتگو کی، اس کا مقصد یہ تھا کہ مکہ کے تمام قبائلی سرداروں اور لوگوں سے اِس اَمر کی تصدیق و توثیق کرا لی جائے کہ انہوں نے مجھے 40 سالہ زندگی میں اَفعال و اَعمال، کردار و گفتار اور عادات و صفات میں کیسا پایا۔ سب نے بالاتفاق اور بیک زبان اِس اَمر کی توثیق و تصدیق کرتے ہوئے اِقرار و اِعلان کیا کہ ’آپ صادق القول اور وعد الامین ہیں‘۔ آپ ﷺ نے اس کے بعد فرمایا کہ اگر تم اِس بات کا اِعلانیہ اِقرار کرتے ہو تو آؤ میں تمہیں کامیابی و کامرانی اور فوز و فلاح کا ایک مختصر ترین مگر جامع پیغام دیتا ہوں۔ یہ سنتے ہی سب کی مستفسرانہ نگاہیں آپ ﷺ کے رُوئے انور پر مرکوز ہو گئیں اور سماعتیں اس پیغام کو سننے کے لیے بے قرار و بے تاب دکھائی دیں۔ تب آپ ﷺ نے اپنا رُوئے سخن ہر ایک کی طرف کرتے ہوئے 6 الفاظ پر مشتمل ایک جملہ کہا: قُوْلُوْا لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ تُفْلِحُوْا (تم سب مل کر اِس اَمر کا اِقرار کرو اور شہادتِ حق دو کہ تم میں سے جو کوئی لا الہ الا اللہ کہہ دے گا، وہ فلاح اور کامیابی سے ہم کنار ہوگا)۔
أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 3/ 492، الرقم/ 16066، وابن حبان في الصحیح، 14/ 518، الرقم/ 6562
سیکڑوں بتوں کی پوجا کرنے والے قبیلوں کے سردار اور ان کے حوالی و موالی یہ سنتے ہی آگ بگولہ اور آتش زیر پا ہو گئے۔ ہوتے بھی کیوں ناں؟ وہ تو مٹی، پتھر، لوہے اور پیتل سے بنے ہوئے لات و عزیٰ کو اِلٰہ ماننے کے ساتھ ساتھ اپنے قبائلی سرداروں کو بھی اپنا پالنہار، اَرضی خدا اور مجازی اِلٰہ تصور کرتے تھے۔ حضور نبی اکرم ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے اتنے معجزات عطا فرمائے ہیں کہ اُن کا شمار ممکن نہیں۔ آسماں پر اُتنے ستارے، سورج میں اتنی کرنیں، بادلوں میں اتنے قطرے، دریاؤں میں اتنی لہریں، سمندروں میں اتنی مچھلیاں، پہاڑوں میں اتنے کنکر، صحراؤں میں اتنے ذرے، جنگلوں میں اتنے درخت، درختوں کے وجود پر اتنی شاخیں، شاخوں پر اتنے پتے، پتوں پر اُتنے ریشے، باغوں میں اتنے پودے، پودوں کی ڈالیوں پر اتنے پھول، پھولوں میں اتنی پنکھڑیاں، صبا کے دامن میں اتنے جھونکے اور کائنات کی بےکراں وسعتوں میں اتنے سیارے نہیں پائے جاتے، جتنے معجزات رب کائنات نے محبوب کائنات ﷺ کو ودیعت فرمائے ہیں۔ آپ ﷺ کا پیدا ہونا، سانس لینا، ہمکنا، چھونا، آنا، جانا، چلنا، پھرنا، اٹھنا، بیٹھنا، کھانا، پینا، سونا، جاگنا، سستانا، ملنا جلنا، قیام کرنا، سوار ہونا، سفر کرنا، تجارت کرنا، دعوت دینا، تبلیغ کرنا اور گفت گو کرنا غرضیکہ آپ ﷺ کا ہر ہر عمل ایک زندہ و جاوید، دائمی و سرمدی اور جاودانی و لاثانی معجزہ ہے۔
فرش میں تیرے ہمہمے، عرش میں تیرے زمزے
بھیج رہی ہے کائنات تجھ پر سلام اور صلوٰۃ
رب العالمین نے رحمۃ للعالمین ﷺ کی ذات معجز صفات کو جن بے کراں اَلطاف و عنایات اور بے پایاں نوازشات و اِنعامات سے آراستہ کیا ہے، اُن میں اَہم ترین آپ ﷺ کا جوامع الکلم ہونا تھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’أُوْتِيْتُ جَوَامِعَ الْكَلِمِ‘‘ یعنی ’مجھے جامع کلمات عطا کیے گئے ہیں‘۔
(أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 2/ 250، الرقم/ 7397)
صفا کی پہاڑی سے دیا جانے والا لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ کا پیغام بھی اِنہی جوامع الکلم میں سے ایک ہے۔ گویا آپ ﷺ نے اِعلانِ نبوت کا آغاز ہی لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ کے جامع اور مختصر کلمہ سے کیا۔ جو کلمہ جتنا جامع اور مختصر ہوگا اُس کے اِبلاغ کا دائرہ اُفق در اُفق اُتنا ہی وسیع ہوگا۔ یہ حقیقت بھی پیشِ نظر رہے کہ جو کلمہ جامع ہوگا، وہ بلیغ بھی ہوگا، فصیح بھی ہوگا اور طیب بھی۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’مجھے 6 چیزوں کے ذریعے دوسرے انبیاء پر فضیلت دی گئی ہے: (1) مجھے جامع کلمات عطا ہوئے، (2) دشمنوں کے دل میں میرا رعب ڈالنے کے ذریعے مجھے فتح و نصرت عطا فرمائی گئی، (3) مالِ غنیمت میرے لیے حلال ہوا، (4) ساری زمین کو میرے لیے سجدہ گاہ اور پاک قرار دیا گیا، (5) ساری مخلوق کے لیے مجھے نبی بنا کر بھیجا گیا، اور (6) نبوت و رسالت کا سلسلہ مجھ پر ختم کیا گیا۔‘‘
أخرجه مسلم في الصحیح، كتاب المساجد ومواضع الصلاة، 1/ 371، الرقم/ 523، والترمذي في السنن، كتاب السیر، باب ما جاء فی الغنیمة، 4/ 123، الرقم/ 1553، وابن حبان في الصحیح، 6/ 87، الرقم/ 2313، 14/ 311، الرقم/ 6401، 6403، وأبو یعلی في المسند، 11/ 377، الرقم/ 6491، والطبراني في المعجم الأوسط، 2/ 12، الرقم/ 506، وأبوعوانة في المسند، 1/ 330، الرقم/ 1169، والبیهقي في السنن الكبری، 2/ 433، الرقم/ 4063
نبی مکرم، حضور معظم، رسول محتشم، آئینِ اِنسانیت کے مؤسسِ اَعظم اور اَنبیاء و رُسل کے قائدِ اَعظم ﷺ نے 23 سالہ دعوت و تبلیغ کے نورانی عمل کے دوران اپنوں، بیگانوں، ساتھیوں، دشمنوں، ماننے والوں اور نہ ماننے والوں سے جو بھی اور جتنی بھی گفتگو کی، وہ آپ ﷺ کے اَفصح العرب ہونے کے ساتھ ساتھ آپ ﷺ کے اَفصح الناس ہونے پر بھی دلالت کرتی ہے۔ فصاحت ایسی صفتِ کلام ہے، جس میں سلاست و شستگی، خوش بیانی اور شگفتہ کلامی بدرجہ اَتم موجود ہو۔ فصاحت کی حامل ایسی گفت گو اور ادا کیے گئے جملے کو بھی کہتے ہیں جس میں کسی بھی لحاظ سے غلطی کا اِحتمال اور شائبہ نہ ہو۔ جہاں فصاحت ہوگی وہاں بلاغت بھی ہوگی۔ گویا آقاءِ کائنات ﷺ کے فرمودات فصاحت و بلاغت کا مجموعہ، گلدستہ اور مرقع ہیں۔ فصیح و بلیغ جملہ اُسے ہی تسلیم کیا جاتا ہے جس میں لفظوں کا استعمال بر محل ہو اور ان میں ثقیل، درشت، غیر مانوس اور خلافِ محاورہ الفاظ اور نامانوس اِصطلاحات و تراکیب نہ ہوں۔ نیز ماہرینِ لسانیات اور علماءِ ادب کے نزدیک ’ان میں تنافر نہ ہو، الفاظ اَدقّ نہ ہوں اور قواعدِ صرفی کے خلاف نہ ہوں‘۔ فصاحت کا تعلق لفظ کے حسن و خوبی سے ہے اور یہ بلاغت معنوی حسن و خوبی کی آئینہ داری کرتی ہے۔ بلاغت باقاعدہ ایک فن ہے جو تین شاخوں: علمِ معانی، علمِ بیان اور علمِ بدیع پر مشتمل ہے۔ جس کی بدولت گفت گو دلکش اور مقتضاءِ حال بنتی ہے۔ اِختصار بھی فصاحت و بلاغت کی ایک بڑی خوبی اور حسن ہے۔ طول طویل، وسیع و عریض اور پھیلے ہوئے مفہوم کو مختصر اور جامع الفاظ میں بیان کرنا اور قلیل ترین الفاظ میں کثیر المعانی مطالب و مفاہیم کو پیش کردینا ہی فصاحت ہے۔ اِسی لیے زبان و ادب کے ماہرین اِختصار کو فصاحت کی جان اور روح قرار دیتے ہیں۔ اِیجاز بھی فصاحت کا ایک لازمہ ہے یعنی گفت گو میں طوالت سے پرہیز اور کفایتِ لفظی سے کام لینا۔ اِسی لیے اِیجاز کو اِعجاز سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
عربوں کے ہاں فصاحت اِس قدر عام تھی کہ شوہر گھر میں داخل ہوا اور بیوی سے پوچھا: ہنڈیا کہاں تک تیار ہوئی ہے؟۔۔۔ بیوی نے بلا توقف جواب دیا: خطیب خطبے کے لیے کھڑا ہوگیا ہے۔۔۔ یہ تو عام عربوں کی قادر الکلامی کا عالم تھا۔ اس کا اَفصح الناس، اَفصح العرب و العجم اور صاحب التاج و المعراج و القلم ﷺ سے تقابل بھی سوئے ادب کے زُمرہ میں آتا ہے۔ بتانا یہ مقصود ہے کہ زبان و بیان کی نفاستیں، نزاکتیں اور لطافتیں عربوں کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ عرب اپنے علاوہ دنیا بھر میں کسی بھی دیگر زبان بولنے والے کو عجمی (گونگا) تصور کرتے تھے۔ یہ تو طے ہے کہ عربی زبان دنیا کی امیر، زرخیز اور وسیع ترین زبان ہے۔ عربی کو اِس لحاظ سے بھی فضیلت حاصل ہے کہ یہ حضور خاتم النبیین ﷺ کی زبان ہے، یہ کتاب مبین قرآن کی زبان ہے اور جنتیوں کی زبان ہے۔ ان عربوں کو جو اپنی زبان دانی اور فصاحت و بلاغت پر ہمیشہ نازاں اور متفخر رہے، سب سے پہلے حضور نبی اکرم ﷺ کی وساطت سے قرآن مجید نے انہیں چیلنج کیا:
وَإِن كُنتُمۡ فِي رَيۡبٖ مِّمَّا نَزَّلۡنَا عَلَىٰ عَبۡدِنَا فَأۡتُواْ بِسُورَةٖ مِّن مِّثۡلِهِۦ وَٱدۡعُواْ شُهَدَآءَكُم مِّن دُونِ ٱللَّهِ إِن كُنتُمۡ صَٰدِقِينَ. فَإِن لَّمۡ تَفۡعَلُواْ وَلَن تَفۡعَلُواْ فَٱتَّقُواْ ٱلنَّارَ ٱلَّتِي وَقُودُهَا ٱلنَّاسُ وَٱلۡحِجَارَةُۖ أُعِدَّتۡ لِلۡكَٰفِرِينَ.
(البقرة، 2/ 23-24)
اور اگر تم اس (کلام) کے بارے میں شک میں مبتلا ہو جو ہم نے اپنے (برگزیدہ) بندے پر نازل کیا ہے تو اس جیسی کوئی ایک سورت ہی بنا لاؤ، اور (اس کام کے لیے بے شک) اللہ کے سوا اپنے (سب) حمائتیوں کو بلا لو اگر تم (اپنے شک اور انکار میں) سچے ہو۔ پھر اگر تم ایسا نہ کر سکو اور ہرگز نہ کر سکو گے تو اس آگ سے بچو جس کا ایندھن آدمی (یعنی کافر) اور پتھر (یعنی ان کے بت) ہیں، جو کافروں کے لیے تیار کی گئی ہے۔
سورۂ بنی اسرائیل میں یہ چیلنج دوبارہ دیا جاتا ہے۔ اب یہ چیلنج صرف اِنسانوں ہی کے لیے نہیں بلکہ جنات کے لیے بھی تھا۔ ارشاد فرمایا:
قُل لَّئِنِ ٱجۡتَمَعَتِ ٱلۡإِنسُ وَٱلۡجِنُّ عَلَىٰٓ أَن يَأۡتُواْ بِمِثۡلِ هَٰذَا ٱلۡقُرۡءَانِ لَا يَأۡتُونَ بِمِثۡلِهِۦ وَلَوۡ كَانَ بَعۡضُهُمۡ لِبَعۡضٖ ظَهِيرٗا.
(بنی إسرائیل، 17/ 88)
فرما دیجیے: اگر تمام انسان اور جنّات اس بات پر جمع ہو جائیں کہ وہ اس قرآن کے مثل (کوئی دوسرا کلام بنا) لائیں گے تو (بھی) وہ اس کی مثل نہیں لاسکتے اگرچہ وہ ایک دوسرے کے مددگار بن جائیں۔
سورۃ الجن کی یہ آیات بھی ملاحظہ کیجیے:
قُلۡ أُوحِيَ إِلَيَّ أَنَّهُ ٱسۡتَمَعَ نَفَرٞ مِّنَ ٱلۡجِنِّ فَقَالُوٓاْ إِنَّا سَمِعۡنَا قُرۡءَانًا عَجَبٗا. يَهۡدِيٓ إِلَى ٱلرُّشۡدِ فََٔامَنَّا بِهِۦۖ وَلَن نُّشۡرِكَ بِرَبِّنَآ أَحَدٗا.
(الجن، 72/ 1-2)
آپ فرما دیں: میری طرف وحی کی گئی ہے کہ جنات کی ایک جماعت نے (میری تلاوت کو) غور سے سنا، تو (جا کر اپنی قوم سے) کہنے لگے: بے شک ہم نے ایک عجیب قرآن سنا ہے۔ جو ہدایت کی راہ دکھاتا ہے، سو ہم اس پر ایمان لے آئے ہیں، اور اپنے رب کے ساتھ کسی کو ہرگز شریک نہیں ٹھہرائیں گے۔
جس ہستی کے قلبِ اَطہر پر قرآن کا نزول ہوا، یہ کیسے ممکن ہے کہ اس کی زبانِ فصاحت ترجمان سے ادا ہونے والے کسی قول یا کلمہ کا جواب عرب کے شعراء، خطباء، اُدباء اور فصحا لا سکتے! آپ ﷺ کے مقدس ہونٹوں سے ادا ہونے والا ہر جملہ جہاں فصاحت و بلاغت کی معراج پر ہوتا، بھلے وہ کتنا ہی مختصر کیوں نہ ہوتا، ہمیشہ کامل المفہوم ہوتا۔ ماہرین کے نزدیک مختصر ترین الفاظ میں جامع اِبلاغ رکھنے والی گفت گو ہی اَحسن ترین گفت گو ہے۔ گفت گو کو عربی میں کلام بھی کہتے ہیں۔ نبی مکرم ﷺ چونکہ سید الانبیاء والمرسلین ہیں، اس لیے آپ ﷺ کے دہن مبارک سے نکلنے والا ہر مختصر ترین جملہ بھی سید الکلام ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ کے بارے میں قرآن مجید کی سورۃ النجم میں واضح کیا گیا ہے:
وَمَا يَنطِقُ عَنِ ٱلۡهَوَىٰٓ. إِنۡ هُوَ إِلَّا وَحۡيٞ يُوحَىٰ.
(النجم، 53/ 2-3)
اور وہ (اپنی) خواہش سے کلام نہیں کرتے۔ اُن کا ارشاد سَراسَر وحی ہوتا ہے جو انہیں کی جاتی ہے۔
مولانا ظفرعلی خان نے اِس آیت مبارکہ کا کیا خوب ترجمہ کیا ہے:
خدا نے اُس کو اپنے حسن کے سانچے میں ڈھالا ہے
چھنا ہے اس کا پرتَو نورِ صبحِ اَوّلیں ہو کر
نہ نکلی کوئی بات اُس کی زباں سے تا دمِ آخر
نہ نکلی ہو جو زیبِ نطقِ جبریلؑ امیں ہو کر
ایک اور مقام پر فرماتے ہیں:
وہ شمع اُجالا جس نے کیا چالیس برس تک غاروں میں
اِک روز جھلکنے والی تھی سب دنیا کے درباروں میں
جو فلسفیوں سے کُھل نہ سکا اور نکتہ وروں سے حل نہ ہوا
وہ راز اِک کملی والے نے بتلا دیا چند اِشاروں میں
وہ جنس نہیں اِیمان جسے لے آئیں دکانِ فلسفہ سے
ڈھونڈے سے ملے گی عاقل کو یہ قرآں کے سیپاروں میں
حضور نبی اکرم ﷺ کو صبحِ اَلست سے شامِ قیامت تک جنم لینے والے تمام انسانوں کو دی جانے والی تمام اَہلیتوں اور صلاحیتوں کی معراج، کمال، عروج اور اَوج عطا کیا گیا۔ یہ تو ایک مسلّمہ صداقت ہے کہ اس کائنات میں صرف اور صرف انسان ہی افضل المخلوقات ہے۔ یہ تمام مخلوقات سے اِس لیے اَفضل و اَعلیٰ ہے کہ اِسے قوتِ بیان عطا کی گئی ہے۔ یہ واحد صلاحیت ہے جو انسان کو دیگر مخلوقات سے ممتاز و منفرد بناتی ہے۔ اِسی لیے سورۃ الرحمن کی پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ کی صفتِ رحمانیت کا بیان ہے۔ اللہ کی صفات میں سے یہ صفت سب صفات پر غالب ہے۔ دوسری آیہ کریمہ بتاتی ہے کہ اس اعلیٰ ترین صفت رکھنے والی اللہ کی ذات کا سب سے بڑا احسان یہ ہے کہ اس نے قرآن سکھلایا۔ کون نہیں جانتا کہ قرآنِ عالی شان تمام اُلوہی اور آسمانی صحائف و کتب میں اَرفع مقام رکھتا ہے؟ تیسری آیۂ کریمہ میں بتایا کہ اس رب رحمان نے انسان کو پیدا کیا۔ انسان تمام مخلوقات میں اعلیٰ ترین مخلوق ہے۔ چوتھی آیت واضح کرتی ہے کہ اس اعلیٰ و افضل ترین مخلوق کو جو سب سے اَعلیٰ اَہلیت اور اَرفع قابلیت عطا کی، وہ قوتِ بیان ہے۔ گویا قوتِ بیان وہ نعمت ہے جو حضرتِ انسان کو ربِِ رحمن کی طرف سے ملنے والی تمام اَہلیتوں اور قابلیتوں میں سے چوٹی کی نعمت ہے۔ باقی قابلیتیں اور اَہلیتیں تو دیگر مخلوقات میں بھی پائی جاتی ہیں۔ وہ سانس لیتی ہیں، کھاتی ہیں، پیتی ہیں، سوتی ہیں، جاگتی ہیں، شہوانی جذبات کی تسکین کرتی ہیں، تیرتی ہیں، غوطہ لگاتی ہیں، رینگتی ہیں، چلتی ہیں، دوڑتی ہیں، اچھلتی ہیں، کودتی ہیں، زقند بھرتی ہیں، اُڑتی ہیں، جھپٹتی ہیں، لڑتی ہیں، جھگڑتی ہیں، غصے میں آتی ہیں، پیار کرتی ہیں، نفرت کرتی ہیں، اداس ہوتی ہیں اور خوش بھی ہوتی ہیں لیکن وہ اپنے ان تمام اَعمال و اَفعال اور حرکات و سکنات کو زبان نہیں دے سکتیں کہ وہ ربِ رحمن کی عظیم نعمت قوتِ بیان اور طاقتِ گویائی سے محروم ہیں۔ اِس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ وہ بولتے نہیں۔ وہ بولتے ہیں لیکن ان کے بولنے کو کبھی بولنے سے تعبیر نہیں کیا گیا۔ عام انسانوں کے لیے ان کی آوازیں آج تک ناقابلِ فہم ہیں۔ یہ اَہلیت، صلاحیت، اِستعداد اور قابلیت صرف اور صرف حضرتِ انسان کو عطا کی گئی ہے۔ وہ اپنے جذبات و محسوسات کا اِظہار کرسکتا ہے، اپنی کیفیات و واردات کو بیان کرسکتا ہے، وہ اپنے درد و کرب اور خوشی و مسرت کے لیے الفاظ کا چناؤ کرسکتا ہے، وہ اپنے مافی الضمیرکو ہونٹوں تک لاسکتا ہے اور اسے جامع اور قابلِ فہم انداز میں پیش بھی کرسکتا ہے۔ ماہرین اِس اَمر پر متفق ہیں کہ اِنسانی دماغ کی ساخت تمام دیگر مخلوقات کے مقابلے میں اِس لحاظ سے مختلف ہے کہ اِس کا سب سے بڑا حصہ مرکزِ تکلم (speech centre) ہے۔ لیکن محض بولنا، بیان دینا، گفت گو کرنا، تقریر کرنا اور خطاب کرلینا ہی کافی نہیں ہوتا۔ اِنسانی زبان سے ادا ہونے والے ہر بول، گفت گو، بیان، تقریر اور خطاب کو اِنسانی معاشرے اہمیت نہیں دیتے تا وقت یہ کہ ان کے اظہار کے لیے عمدہ، نفیس، دلنشیں اور جامع ترین الفاظ کا چناؤ نہ کیا گیا ہو۔
حضور نبی اکرم ﷺ جب کسی محفل، مجلس اور اِجتماع کے شرکاء سے خطاب فرماتے تو سب کو یکساں محبت اور توجہ عطا فرماتے۔ اپنے سامعین میں سے کسی کے ساتھ کوئی امتیازی رویہ نہ برتتے۔ اَنصار و مہاجر، غلام و آقا، قریش و غیر قریش، امیر و غریب اور کالے گورے آپ ﷺ کے دَربارِ دُربار میں یکساں اِکرام و اِعزاز پاتے۔ سب ایک ہی قطار میں کھڑے ہوتے۔ ایک ہی چٹائی پر بیٹھتے۔ ایک ہی میدان میں جہاں جگہ مل جاتی سراپا گوش ہوکر مؤدبانہ انداز میں فروکش ہوجاتے۔ کسی کے لیے کوئی خاص جگہ مختص نہ تھی۔ بعد میں آنے والے کسی فرد کو اِس اَمر کی اجازت نہ ہوتی کہ وہ پہلے سے موجود صحابہ کے کاندھوں کو پھلانگتے ہوئے اگلی صفوں میں بیٹھ سکے۔ وہ بوریا نشین جنہیں مالکِ عرش بریں سے براہِ راست ہم کلامی کا شرف حاصل تھا، جب آپ ﷺ مجلس میں رونق افروز ہوتے اور آپ کا روئے سخن صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی طرف ہوتا تو آپ ﷺ کی توجہ مساویانہ، انداز مشفقانہ، آواز حلیمانہ، الفاظ حکیمانہ، لہجہ خلیقانہ اور جملے فصیحانہ اور بلیغانہ ہوتے۔ اس رحمت و رافت اور مؤدت و موانست کا اعجاز تھا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آپ ﷺ کی مجلس میں یوں مؤدّبانہ ہمہ تن گوش ہو کر بیٹھتے کہ ہر کہ و مہ محسوس کرتا کہ آپ ﷺ اُسی سے مخاطب ہیں۔ وہ اپنی سماعتوں کے دامن اور قلب و نظر کے سفینے میں حکمت و بصیرت، ذکاوت و ذہانت اور دین و دانش کے انمول اور نادر و نایاب موتیوں کو سمیٹتے چلے جاتے۔
آپ ﷺ کی آوازمبارک میں لاثانی وقار اور عدیم المثال خطیبانہ دبدبہ اور فصیحانہ طنطنہ تھا۔ ہوتا بھی کیوں ناں کہ آپ ﷺ اَفصح العرب اور اَفصح الناس تھے۔ آپ ﷺ کے لہجے میں دلوں میں اترجانے اور روحوں میں سما جانے والی دل کشی تھی۔ آپ ﷺ نے جب منیٰ میں خطبہ حجۃ الوداع دیا تو دور و نزدیک موجود ایک لاکھ سے زائد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اسے ایسے سنا گویا آپ ﷺ ان میں سے ہر ایک سے مخاطب ہوں۔ ایک ایک لفظ ان کی سماعتوں میں سے ہوتا ہوا ان کے اَذہان و قلوب کی اَلواح پر مرتسم ہو گیا۔ یہ آپ ﷺ کی آواز کی دل نشینی اور دل پذیری تھی کہ آپ ﷺ کا ہر قول صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دلوں کی انگشتریوں میں نگینوں کی طرح جڑجاتا۔ وہ آپ ﷺ کے فرمودات و ملفوظات کو ایک لفظ کی تقدیم و تاخیر کے بغیر آنے والی نسلوں کو منتقل کرتے رہے۔
کتاب ہٰذا میں قارئین کے عمدہ روحانی ذوق کے لیے منتخب جوامع الکلم کا گلدستہ پیش کیا جا رہا ہے۔ اِس کاوش کا مقصد دلوں میں حبِ رسالت مآب ﷺ کو راسخ کرنا اور مادّی تصورِ حیات کے اِس دور میں اپنی روحوں کو حضور نبی اکرم ﷺ کی تعلیمات کے ذریعے روشن کرنا ہے۔
Copyrights © 2025 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved