المنہاج السوی من الحدیث النبوی ﷺ

خوارج و مرتدین اور گستاخانِ مصطفیٰ کا بیان

اَلْبَابُ الثَّانِي: حُکْمُ الْخَوَارِجِ وَالْمُرْتَدِّيْنَ وَالْمُتَنَقِّصِيْنَ النَّبِيَّ ﷺ

(خوارج و مرتدین اور گستاخانِ مصطفیٰ کا بیان)

69 / 1. عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ رضي الله عنه يَقُوْلُ: بَعَثَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ رضي الله عنه إِلىٰ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ مِنَ الْيَمَنِ بِذُهَيْبَةٍ فِي أَدِيْمٍ مَقْرُوْظٍ لَمْ تُحَصَّلْ مِنْ تُرَابِهَا. قَالَ: فَقَسَمَهَا بَيْنَ أَرْبَعَةِ نَفَرٍ بَيْنَ عُيَيْنَةَ ابْنِ بَدْرٍ وَأَقْرَعَ بْنِ حَابِسٍ وَزَيْدِ الْخَيْلِ وَالرَّابِعُ إِمَّا عَلْقَمَةُ وَإِمَّا عَامِرُ بْنُ الطُّفَيْلِ، فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِهِ: کُنَّا نَحْنُ أَحَقَّ بِهَذَا مِنْ هَؤُلَاءِ قَالَ: فَبَلَغَ ذَلِکَ النَّبِيَّ ﷺ، فَقَالَ: أَلاَ تَأْمَنُوْنِي وَأَنَا أَمِيْنُ مَنْ فِي السَّمَاءِ يَأْتِيْنِي خَبَرُ السَّمَاءِ صَبَاحًا وَمَسَاءً، قَالَ: فَقَامَ رَجُلٌ غَائِرُ العَيْنَيْنِ، مُشْرِفُ الْوَجْنَتَيْنِ، نَاشِزُ الْجَبْهَةِ، کَثُّ اللِّحْيَةِ، مَحْلُوْقُ الرَّأْسِ، مُشَمَّرُ الإِزَارِ. فَقَالَ: يَارَسُوْلَ اللهِ، اتَّقِ اللهَ، قَالَ: وَيْلَکَ أَوَلَسْتُ أَحَقَّ أَهْلِ الْأَرْضِ أَنْ يَتَّقِيَ اللهَ؟ قَالَ: ثُمَّ وَلَّي الرَّجُلُ، قَالَ خَالِدُ بْنُ الْوَلِيْدِ: يَارَسُوْلَ اللهِ، أَلاَ أَضْرِبُ عُنُقَهُ؟ قَالَ: لاَ، لَعَلَّهُ أَنْ يَکُوْنَ يُصَلِّي. فَقَالَ خَالِدٌ: وَکَمْ مِنْ مُصَلٍّ يَقُوْلُ بِلِسَانِهِ مَا لَيْسَ فِي قَلْبِهِ، قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: إِنِّي لَمْ أُوْمَرْ أَنْ أَنْقُبَ عَنْ قُلُوْبِ النَّاسِ، وَلَا أَشُقَّ بُطُوْنَهُمْ، قَالَ: ثُمَّ نَظَرَ إِلَيْهِ وَهُوَ مُقَفٍّ، فَقَالَ: إِنَّهُ يَخْرُجُ مِنْ ضِئْضِيئِ هَذَا قَوْمٌ يَتْلُوْنَ کِتَابَ اللهِ رَطْبًا لَا يُجَاوِزُ حَنَاجِرَهُمْ يَمْرُقُوْنَ مِنَ الدِّيْنِ کَما يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَةِ. وَأَظُنُّهُ قَالَ: لَئِنْ أَدْرَکْتُهُمْ لَأَقْتُلَنَّهُمْ قَتْلَ ثَمُوْدَ.

مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

الحديث رقم 1: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: المغازي، باب: بعث علي بن أبي طالب وخالد بن الوليد رضي الله عنهما إلي اليمن قبل حجة الوداع، 4 / 1581، الرقم: 4094، ومسلم في الصحيح، کتاب: الزکاة، باب: ذکر الخوارج وصفاتهم، 2 / 742، الرقم: 1064، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 4، الرقم: 11021، وابن خزيمة في الصحيح، 4 / 71، الرقم: 2373، وابن حبان في الصحيح، 1 / 205، الرقم: 25، وأبويعلي في المسند، 2 / 390، الرقم: 1163، وأبونعيم في المسند المستخرج، 3 / 128، الرقم: 2375، وفي حلية الأولياء، 5 / 71، والعسقلاني في فتح الباري، 8 / 68، الرقم: 4094، وفي حاشية ابن القيم، 13 / 16، والسيوطي في الديباج، 3 / 160، الرقم: 1064، وابن تيمية في الصارم المسلول، 1 / 188، 192.

’’حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے یمن سے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں چمڑے کے تھیلے میں بھر کر کچھ سونا بھیجا، جس سے ابھی تک مٹی بھی صاف نہیں کی گئی تھی۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے وہ سونا چار آدمیوں عیینہ بن بدر، اقرع بن حابس، زید بن خیل اور چوتھے علقمہ یا عامر بن طفیل کے درمیان تقسیم فرما دیا۔ اس پر آپ ﷺ کے اصحاب میں سے کسی نے کہا: ان لوگوں سے تو ہم زیادہ حقدار تھے۔ جب یہ بات حضور نبی اکرم ﷺ تک پہنچی تو آپ ﷺ نے فرمایا: کیا تم مجھے امانت دار شمار نہیں کرتے؟ حالانکہ آسمان والوں کے نزدیک تو میں امین ہوں۔ اس کی خبریں تو میرے پاس صبح و شام آتی رہتی ہیں۔ راوی کا بیان ہے کہ پھر ایک آدمی کھڑا ہو گیا جس کی آنکھیں اندر کو دھنسی ہوئیں، رخساروں کی ہڈیاں ابھری ہوئیں، اونچی پیشانی، گھنی داڑھی، سر منڈا ہوا تھا اور وہ اونچا تہبند باندھے ہوئے تھا، وہ کہنے لگا: یا رسول اللہ! خدا سے ڈریں، آپ ﷺ نے فرمایا: تو ہلاک ہو، کیا میں تمام اہلِ زمین سے زیادہ خدا سے ڈرنے کا مستحق نہیں ہوں؟ سو جب وہ آدمی جانے کے لئے مڑا تو حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میں اس کی گردن نہ اڑا دوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ایسا نہ کرو، شاید یہ نمازی ہو، حضرت خالد رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: بہت سے ایسے نمازی بھی تو ہیں کہ جو کچھ ان کی زبان پر ہے وہ دل میں نہیں ہوتا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مجھے یہ حکم نہیں دیا گیا کہ لوگوں کے دلوں میں نقب لگاؤں اور ان کے پیٹ چاک کروں۔ راوی کا بیان ہے کہ وہ پلٹا تو آپ ﷺ نے پھر اس کی جانب دیکھا تو فرمایا: اس کی پشت سے ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو اللہ تعالیٰ کی کتاب کی تلاوت سے زبان تر رکھیں گے، لیکن قرآن ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا۔ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے پار نکل جاتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ آپ ﷺ نے یہ بھی فرمایا تھا کہ اگر میں ان لوگوں کو پاؤں تو قوم ثمود کی طرح انہیں قتل کر دوں۔‘‘

70 / 2. وفي روية مسلم زاد: فَقَامَ إِلَيْهِ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رضي الله عنه، فَقَالَ: يَا رَسُوْلَ اللهِ، أَلاَ أَضْرِبُ عُنُقَهُ؟ قَالَ: لاَ، قَالَ: ثُمَّ أَدْبَرَ فَقَامَ إِلَيْهِ خَالِدٌ سَيْفُ اللهِ. فَقَالَ: يَا رَسُوْلَ اللهِ، أَلاَ أَضْرِبُ عُنُقَهُ؟ قَالَ: لاَ، فَقَالَ: إِنَّهُ سَيَخْرُجُ مِنْ ضِئْضِئِ هَذَا قَوْمٌ، يَتْلُوْنَ کِتَابَ اللهِ لَيِنًا رَطْبًا، (وَقَالَ: قَالَ عَمَّارَةُ: حَسِبْتُهُ) قَالَ: لَئِنْ أَدْرَکْتُهُمْ لَأَقْتُلَنَّهُمْ قَتْلَ ثَمُوْدَ.

الحديث رقم 2: أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب: الزکاة، باب: ذکر الخوارج وصفاتهم، 2 / 743، الرقم: 1064.

’’اور مسلم کي ایک روایت میں اضافہ ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا میں اس (منافق) کی گردن نہ اڑادوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: نہیں، پھر وہ شخص چلا گیا، پھر حضرت خالد سیف اللہ رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہو کر عرض کیا: یا رسول اللہ! میں اس (منافق) کی گردن نہ اڑا دوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: نہیں اس کی نسل سے ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو قرآن بہت ہی اچھا پڑھیں گے (راوی) عمارہ کہتے ہیں کہ میرا خیال ہے آپ ﷺ نے یہ بھی فرمایا: اگر میں ان لوگوں کو پالیتا تو (قومِ) ثمود کی طرح ضرور انہیں قتل کر دیتا۔‘‘

71 / 3. عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ رضي الله عنه قَالَ: بَيْنَا النَّبِيُّ ﷺ يَقْسِمُ ذَاتَ يَوْمٍ قِسْمًا فَقَالَ ذُوالْخُوَيْصَرَةِ رَجُلٌ مِنْ بَنِي تَمِيْمٍ: يَا رَسُوْلَ اللهِ، اعْدِلْ، قَالَ: وَيْلَکَ مَنْ يَعْدِلُ إِذَا لَمْ أَعْدِلْ؟ فَقَالَ عُمَرُ: اِئْذَنْ لِي فَلْأَضْرِبْ عُنُقَهُ، قَالَ: لَا، إِنَّ لَهُ أَصْحَابًا يَحْقِرُ أَحَدُکُمْ صَلَاتَهُ مَعَ صَلَاتِهِمْ، وَ صِيَامَهُ مَعَ صِيَامِهِمْ، يَمْرُقُوْنَ مِنَ الدِّيْنِ کَمُرُوْقِ السَّهْمِ مِنَ الرَّمِيَةِ يَنْظُرُ إِلىٰ نَصْلِهِ فَلَا يُوْجَدُ فِيْهِ شَيئٌ ثُمَّ يَنْظُرُ إِلىٰ رِصَافِهِ فَلَا يُوْجَدُ فِيْهِ شَيئٌ ثُمَّ يَنْظُرُ إِلىٰ نَضِيِهِ فَلَا يُوْجَدُ فِيْهِ شَيئٌ ثُمَّ يَنْظُرُ إِلىٰ قُذَذِهِ فَلَا يُوْجَدُ فِيْهِ شَيئٌ، قَدْ سَبَقَ الْفَرْثَ وَالدَّمَ يَخْرُجُوْنَ عَلىٰ حِيْنَ فُرْقَةٍ مِنَ النَّاسِ آيَتُهُمْ رَجُلٌ إِحْدَي يَدَيْهِ مِثْلُ ثَدْيِ الْمَرْأَةِ أَوْ مِثْلُ الْبَضْعَةِ تَدَرْدَرُ. قَالَ أَبُوْسَعِيْدٍ: أَشْهَدُ لَسَمِعْتُهُ مِنَ النَّبِيِّ ﷺ، وَأَشْهَدُ أَنِّي کُنْتُ مَعَ عَلِيٍّ حِيْنَ قَاتَلَهُمْ فَالْتُمِسَ فِي الْقَتْلَي فَأُتِيَ بِهِ عَلىٰ النَّعْتِ الَّذِي نَعْتَ النَّبِيُّ ﷺ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

الحديث رقم 3: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: الأدب، باب: ماجاء في قول الرجل ويلک، 5 / 2281، الرقم: 5811، وفي کتاب: استتابة المرتدين والمعاندين وقتالهم، باب: من ترک قتال الخوارج للتألف وأن لا ينفر الناس عنه، 6 / 2540، الرقم: 6534، ومسلم في الصحيح، کتاب: الزکاة، باب: ذکر الخوارج وصفاتهم، 2 / 744، الرقم: 1064، والنسائي في السنن الکبري، 5 / 159، الرقم: 8560 - 8561، 6 / 355، الرقم: 11220، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 65، الرقم: 11639، وابن حبان في الصحيح، 15 / 140، الرقم: 6741، والبيهقي في السنن الکبري، 8 / 171، وعبد الرزاق في المصنف، 10 / 146.

’’حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے فرمایا: کہ ایک روز حضور نبی اکرم ﷺ مالِ (غنیمت) تقسیم فرما رہے تھے تو ذوالخویصرہ نامی شخص نے جو کہ بنی تمیم سے تھا کہا: یا رسول اللہ! انصاف کیجئے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: تو ہلاک ہو، اگر میں انصاف نہ کروں تو اور کون انصاف کرے گا؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: (یا رسول اللہ!) مجھے اجازت دیں کہ اس کی گردن اڑا دوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: نہیں، کیونکہ اس کے (ایسے) ساتھی بھی ہیں کہ تم ان کی نمازوں کے مقابلے میں اپنی نمازوں کو حقیر جانو گے اور ان کے روزوں کے مقابلہ میں اپنے روزوں کو حقیر جانو گے۔ وہ دین سے اس طرح نکلے ہوئے ہوں گے جیسے شکار سے تیر نکل جاتا ہے، پھر اس کے پیکان پر کچھ نظر نہیں آتا، اس کے پٹھے پر بھی کچھ نظر نہیں آتا، اس کی لکڑی پر بھی کچھ نظر نہیں آتا اور نہ اس کے پروں پر کچھ نظر آتا ہے، وہ گوبر اور خون کو بھی چھوڑ کر نکل جاتا ہے۔ وہ لوگوں میں فرقہ بندی کے وقت (اسے ہوا دینے کے لئے) نکلیں گے۔ ان کی نشانی یہ ہے کہ ان میں ایک آدمی کا ہاتھ عورت کے پستان یا گوشت کے لوتھڑے کی طرح ہلتا ہو گا۔ حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے یہ حدیث پاک حضور نبی اکرم ﷺ سے سنی ہے اور میں (یہ بھی) گواہی دیتا ہے کہ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھا جب ان (خارجی) لوگوں سے جنگ کی گئی، اس شخص کو مقتولین میں تلاش کیا گیا تو اس وصف کا ایک آدمی مل گیا جو حضور نبی اکرم ﷺ نے بیان فرمایا تھا۔‘‘

72 / 4. عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ رضي الله عنه قَالَ: بَعَثَ عَلِيٌّ رضي الله عنه وَهُوَ بِالْيَمَنِ إِلىٰ النَّبِيِّ ﷺ بِذُهَيْبَةٍ فِي تُرْبَتِهَا فَقَسَمَهَا بَيْنَ الْأَقْرَعِ بْنِ حَابِسٍ الْحَنْظَلِيِّ ثُمَّ أَحَدِ بَنِي مُجَاشِعٍ وَبَيْنَ عُيَيْنَةَ بْنِ بَدْرٍ الْفَزَارِيِّ وَبَيْنَ عَلْقَمَةَ بْنِ عُلَاثَةَ الْعَامِرِيِّ ثُمَّ أَحَدِ بَنِي کِلَابٍ وَبَيْنَ زَيْدِ الْخَيْلِ الطَّائِيِّ ثُمَّ أَحَدِ بَنِي نَبْهَانَ فَتَغَيَظَتْ قُرَيْشٌ وَالْأَنْصَارُ فَقَالُوْا: يُعْطِيْهِ صَنَادِيْدَ أَهْلِ نَجْدٍ وَ يَدَعُنَا، قَالَ: إِنَّمَا أَتَأَلَّفُهُمْ فَأَقْبَلَ رَجُلٌ غَائِرُ الْعَيْنَيْنِ نَاتِئُ الْجَبِيْنِ، کَثُ اللِّحْيَةِ، مُشْرِفُ الْوَجْنَتَيْنِ، مَحْلُوْقُ الرَّأْسِ، فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ، اتَّقِ اللهَ، فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ: فَمَنْ يُطِيْعُ اللهَ إِذَا عَصَيْتُهُ فَيَأْمَنُنِي عَلىٰ أَهْلِ الْأَرْضِ، وَ لَاتَأْمَنُوْنِي؟ فَسَأَلَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ قَتْلَهُ أُرَاهُ خَالِدَ بْنَ الْوَلِيْدِ فَمَنَعَهُ النَّبِيُّ ﷺ (وفي روية أبي نعيم: فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ، اتَّقِ اللهَ، وَاعْدِلْ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: يَأْمَنُنِي أَهْلُ السَّمَاءِ وَلَا تَأْمَنُوْنِي؟ فَقَالَ أَبُوْبَکْرٍ: أَضْرِبُ رَقَبَتَهُ يَا رَسُوْلَ اللهِ؟ قَالَ: نَعَمْ، فَذَهَبَ فَوَجَدَهُ يُصَلِّي، فَجَاءَ النَّبِيَّ ﷺ فَقَالَ: وَجَدْتُهُ يُصَلِّي فَقَالَ آخَرُ: أَنَا أَضْرِبُ رَقَبَتَهُ؟) فَلَمَّا وَلَّي قَالَ النَّبِيُّ ﷺ: إِنَّ مِنْ ضِئْضِئِ هَذَا قَوْمًا يَقْرَءُ وْنَ الْقُرْآنَ لَا يُجَاوِزُ حَنَاجِرَهُمْ يَمْرُقُوْنَ مِنَ الإِسْلاَمِ مُرُوْقَ السَّهْمِ مِنَ الرَّمِيَةِ يَقْتُلُوْنَ أَهْلَ الإِسْلَامِ وَ يَدْعُوْنَ أَهْلَ الْأَوْثَانِ لَئِنْ أَدْرَکْتُهُمْ لَأَقْتُلَنَّهُمْ قَتْلَ عَادٍ.

مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ وَهَذَا لَفْظُ الْبُخَارِيِّ.

الحديث رقم 4: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: التوحيد، باب: قول اللہ تعالي: تعرج الملائکة والروح إليه، 6 / 2702، الرقم: 6995، وفي کتاب: الأنبياء، باب: قول اللہ عزوجل: وأما عاد فأهلکوا بريح صرصر شديدة عاتية، 3 / 1219، الرقم: 3166، ومسلم في الصحيح، کتاب: الزکاة، باب: ذکر الخوارج وصفاتهم، 2 / 741، الرقم: 1064، وأبوداود في السنن، کتاب: السنة، باب: في قتال الخوارج، 4 / 243، الرقم: 4764، والنسائي في السنن، کتاب: تحريم الدم، باب: من شهر سيفه ثم وضعه في الناس، 7 / 118، الرقم: 4101، وفي کتاب: الزکاة، باب: المؤلفة قلوبهم، 5 / 87، الرقم: 2578، وفي السنن الکبري، 6 / 356، الرقم: 11221، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 68، 73، الرقم: 11666، 11713، وعبد الرزاق في المصنف، 10 / 156، وأبونعيم في المسند المستخرج، 3 / 127، الرقم: 2373.

’’حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے یمن سے مٹی میں ملا ہوا تھوڑا سا سونا حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں بھیجا تو آپ ﷺ نے اسے اقرع بن حابس جو بنی مجاشع کا ایک فرد تھا اور عیینہ بن بدر فزاری، علقمہ بن علاثہ عامری، جو بنی کلاب سے تھا اور زید الخیل طائی، جو بنی نبہان سے تھا ان چاروں کے درمیان تقسیم فرما دیا۔ اس پر قریش اور انصار کو ناراضگی ہوئی اور انہوں نے کہا کہ اہلِ نجد کے سرداروں کو مال دیتے ہیں اور ہمیں نظر انداز کرتے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: میں تو ان کی تالیفِ قلب کے لئے کرتا ہوں. اسی اثناء میں ایک شخص آیا جس کی آنکھیں اندر کو دھنسی ہوئیں، پیشانی ابھری ہوئی، داڑھی گھنی، گال پھولے ہوئے اور سرمنڈا ہوا تھا اور اس نے کہا: اے محمد! اللہ سے ڈرو، حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرنے والا کون ہے؟ اگر میں اس کی نافرمانی کرتا ہوں حالانکہ اس نے مجھے زمین والوں پر امین بنایا ہے اور تم مجھے امین نہیں مانتے۔ تو صحابہ میں سے ایک شخص نے اسے قتل کرنے کی اجازت مانگی میرے خیال میں وہ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ تھے تو حضور نبی اکرم ﷺ نے انہیں منع فرما دیا (اور ابو نعیم کی روایت میں ہے کہ ’’اس شخص نے کہا: اے محمد اللہ سے ڈرو اور عدل کرو، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: آسمان والوں کے ہاں میں امانتدار ہوں اور تم مجھے امین نہیں سمجھتے؟ تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میں اس کی گردن کاٹ دوں؟ فرمایا: ہاں، سو وہ گئے تو اسے نماز پڑھتے ہوئے پایا، تو (واپس پلٹ آئے اور) حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا: میں نے اسے نماز پڑھتے پایا (اس لئے قتل نہیں کیا) تو کسی دوسرے صحابی نے عرض کیا: میں اس کی گردن کاٹ دوں؟) جب وہ چلا گیا تو حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اس شخص کی نسل سے ایسی قوم پیدا ہوگی کہ وہ لوگ قرآن پڑھیں گے لیکن ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا، وہ اسلام سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے نکل جاتا ہے، وہ بت پرستوں کو چھوڑ کر مسلمانوں کو قتل کریں گے اگر میں انہیں پاؤں تو قوم عاد کی طرح ضرور انہیں قتل کر دوں۔‘‘

73 / 5. عَنْ عَلِيٍّ رضي الله عنه قَالَ: إِنِّي سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ يَقُوْلُ: سَيَخْرُجُ قَومٌ فِي آخِرِ الزَّمَانِ أَحْدَاثُ الْأَسْنَانِ سُفَهَاءُ الْأَحْلَامِ يَقُوْلُوْنَ مِنْ خَيْرِ قَوْلِ الْبَرِيَةِ، لاَ يُجَاوِزُ إِيْمَانُهُمْ حَنَاجِرَهُمْ، يَمْرُقُوْنَ مِنَ الدِّيْنِ کَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَةِ، فَأَيْنَمَا لَقِيْتُمُوْهُمْ فَاقْتُلُوْهُمْ، فَإِنَّ فِي قَتْلِهِمْ أَجْرًا لِمَنْ قَتَلَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

و أخرجه أبوعيسى الترمذي عن عبد اللہ بن مسعود رضي الله عنه في سننه وقال: وفي الباب عن علي وأبي سعيد وأبي ذرّ رضي الله عنهم وهذا حديث حسن صحيح وقد رُوي في غير هذا الحديث: عَنِ النَّبِيِّ ﷺ حَيْثُ وَصَفَ هَؤُلَاءِ الْقَومَ الَّذِيْنَ يَقرَئُوْنَ الْقُرْآنَ لَا يُجَاوِزُ تَرَاقِيَهُمْ يَمْرُقُوْنَ مِنَ الدِّيْنِ کَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَةِ. إنما هم الخوارج الحروريّة وغيرهم من الخوارج.

الحديث رقم 5: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: استتابة المرتدين والمعاندين وقتالهم، باب: قتل الخوارج والملحدين بعد إقامة الحجة عليهم، 6 / 2539، الرقم: 6531، ومسلم في الصحيح، کتاب: الزکاة، باب: التحريض علي قتل الخوارج، 2 / 746، الرقم: 1066، والترمذي في السنن، کتاب: الفتن عن رسول اللہ ﷺ، باب: في صفة المارقة، 4 / 481، الرقم: 2188، والنسائي في السنن، کتاب: تحريم الدم، باب: من شهر سيفه ثم وضعه في الناس، 7 / 119، الرقم: 4102، وابن ماجه في السنن، المقدمة، باب: في ذکر الخوارج، 1 / 59، الرقم: 168، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 / 81، 113، 131، الرقم: 616، 912، 1086، وابن أبي شيبة في المصنف، 7 / 553، الرقم: 37883، وعبد الرزاق في المصنف، 10 / 157، والبزار في المسند، 2 / 188، الرقم: 568، وأبويعلي في المسند، 1 / 273، الرقم: 324، والبيهقي في السنن الکبري، 8 / 170، والطبراني في المعجم الصغير، 2 / 213، الرقم: 1049، وعبد اللہ بن أحمد في السنة، 2 / 443، الرقم: 914، والطيالسي في المسند، 1 / 24، الرقم: 168.

’’حضرت علی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ عنقریب آخری زمانے میں ایسے لوگ ظاہر ہوں گے یا نکلیں گے جو نوعمر اور عقل سے کورے ہوں گے وہ حضور نبی اکرم ﷺ کی احادیث بیان کریں گے لیکن ایمان ان کے اپنے حلق سے نہیں اترے گا۔ دین سے وہ یوں خارج ہوں گے جیسے تیر شکار سے خارج ہو جاتا ہے پس تم انہیں جہاں کہیں پاؤ تو قتل کر دینا کیونکہ ان کو قتل کرنے والوں کو قیامت کے دن ثواب ملے گا۔‘‘

’’امام ابو عیسیٰ ترمذی نے اپنی سنن میں اس حدیث کو بیان کرنے کے بعد فرمایا: یہ روایت حضرت علی، حضرت ابو سعید اور حضرت ابو ذر رضی اللہ عنھم سے بھی مروی ہے اور یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ اس حدیث کے علاوہ بھی حضور نبی اکرم ﷺ سے روایت کیا گیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جبکہ ایک ایسی قوم ظاہر ہو گی جس میں یہ اوصاف ہوں گے جو قرآن مجید کو تلاوت کرتے ہوں گے لیکن وہ ان کے حلقوں سے نہیں اترے گا وہ لوگ دین سے اس طرح خارج ہوں گے جس طرح تیر شکار سے خارج ہو جاتا ہے۔ بیشک وہ خوارج حروریہ ہوں گے اور اس کے علاوہ خوارج میں سے (دیگر فرقوں پر مشتمل) لوگ ہوں گے۔‘‘

74 / 6. عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ رضي الله عنه قَالَ: بَيْنَا النَّبِيُّ ﷺ يَقْسِمُ، جَاءَ عَبْدُ اللهِ بْنُ ذِي الْخُوَيْصِرَةِ التَّمِيْمِيُّ فَقَالَ: اعْدِلْ يَا رَسُوْلَ اللهِ! قَالَ: وَيْحَکَ، وَمَنْ يَعْدِلُ إِذَا لَمْ أَعْدِلْ. قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ: اِئْذَنْ لِي فَأَضْرِبَ عُنُقَهُ، قَالَ: دَعْهُ، فَإِنَّ لَهُ أَصْحَابًا، يَحْقِرُ أَحَدُکُمْ صَلَاتَهُ مَعَ صَلَاتِهِ وَ صِيَامَهُ مَعَ صِيَامِهِ، يَمْرُقُوْنَ مِنَ الدِّيْنَ کَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَةِ، يُنْظَرُ فِي قُذَذِهِ فَلَا يُوْجَدُ فِيْهِ شَيئٌ‘ ثُمَّ يُنْظَرُ فِي نَصْلِهِ فَلَا يُوْجَدُ فِيْهِ شَيئٌ ثُمٌ يُنْظَرُ فِي رِصَافِهِ فَلَا يُوْجَدُ فِيْهِ شَيئٌ، ثُمَّ يُنْظَرُ فِي نَضِيِهِ فَلَا يُوْجَدُ فِيْهِ شَيئٌ، قَدْ سَبَقَ الفَرْثَ وَالدَّمَ... الحديث. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

الحديث رقم 6: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: استابة المرتدين والمعاندين، باب: مَن ترک قتال الخوارجِ لِلتَّألُّفِ، وَ لِئَلَّا يَنْفِرَ النَّاسُ عَنه، 6 / 2540، الرقم: 6534، 6532، وفي کتاب: المناقب، باب: علاماتِ النُّبُوّةِ في الإِسلامِ، 3 / 1321، الرقم: 3414، وفي کتاب: فضائل القرآن، باب: البکاء عند قراء ة القرآن، 4 / 1928، الرقم: 4771، وفي کتاب: الأدب، باب: ما جاء في قول الرَّجلِ ويْلَکَ، 5 / 2281، الرقم: 5811، ومسلم في الصحيح، کتاب: الزکاة، باب: ذکر الخوارج وصفاتهم، 2 / 744، الرقم: 1064، ونحوه النسائي عن أبي برزة رضي الله عنه في السنن، کتاب: تحريم الدم، باب: من شهر سيفه ثم وضعه في الناس، 7 / 119، الرقم: 4103، وفي السنن الکبري، 6 / 355، الرقم: 11220، وابن ماجه في السنن، المقدمة، باب: في ذکر الخوارج، 1 / 61، الرقم: 172، وابن الجارود في المنتقي، 1 / 272، الرقم: 1083، وابن حبان في الصحيح، 15 / 140، الرقم: 6741، والحاکم عن أبي برزة رضي الله عنه في المستدرک، 2 / 160، الرقم: 2647، وقال: هَذَا حَدِيثٌ صَحِيْحٌ، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 56، الرقم: 11554، 14861، وابن أبي شيبة في المصنف، 7 / 562، الرقم: 37932، وعبد الرزاق في المصنف، 10 / 146، ونحوه البزار عن أبي برزة رضي الله عنه في المسند، 9 / 305، الرقم: 3846، والبيهقي في السنن الکبري، 8 / 171، والطبراني في المعجم الأوسط، 9 / 35، الرقم: 9060، وأبويعلي في المسند، 2 / 298، الرقم: 1022، والبخاري عن جابر رضي الله عنه في الأدب المفرد، 1 / 270، الرقم: 774.

’’حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ مالِ غنیمت تقسیم فرما رہے تھے کہ عبداللہ بن ذی الخویصرہ تمیمی آیا اور کہنے لگا: یارسول اللہ! انصاف سے تقسیم کیجئے (اس کے اس طعن پر) حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: کمبخت اگر میں انصاف نہیں کرتا تو اور کون کرتا ہے؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اجازت عطا فرمائیے میں اس (خبیث منافق) کی گردن اڑا دوں، آپ ﷺ نے فرمایا: رہنے دو اس کے کچھ ساتھی ایسے ہیں (یا ہوں گے) کہ ان کی نمازوں اور ان کے روزوں کے مقابلہ میں تم اپنی نمازوں اور روزوں کو حقیر جانو گے لیکن وہ لوگ دین سے اس طرح خارج ہوں گے جس طرح تیر نشانہ سے پار نکل جاتا ہے۔ (تیر پھینکنے کے بعد) تیر کے پر کو دیکھا جائے گا تو اس میں بھی خون کا کوئی اثر نہ ہوگا۔ تیر کی باڑ کو دیکھا جائے گا تو اس میں بھی خون کا کوئی نشان نہ ہوگا اور تیر (جانور کے) گو بر اور خون سے پار نکل چکا ہوگا۔ (ایسی ہی ان خبیثوں کی مثال ہے کہ دین کے ساتھ ان کا سرے سے کوئی تعلق نہ ہو گا)۔‘‘

75 / 7. عَنْ جَابِرٍ رضي الله عنه يَقُوْلُ: بَصَرَ عَيْنِي وَسَمِعَ أُذُنِي رَسُوْلَ اللهِ ﷺ بِالْجِعْرَانَةِ وَفِي ثَوبِ بِلَالٍ فِضَّةٌ وَرَسُوْلُ اللهِ ﷺ يَقْبِضُهَا لِلنَّاسِ يُعْطِيْهِمْ، فَقَالَ رَجُلٌ: اعْدِلْ، قَالَ: وَيْلَکَ، وَمَنْ يَعْدِلُ إِذَا لَمْ أَکُنْ أَعْدِلُ؟ قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ: يَارَسُوْلَ اللهِ، دَعْنِي أَقْتُلْ هَذَا الْمُنَافِقَ الْخَبِيْثَ؟ فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: مَعَاذَ اللهِ أَنْ يَتَحَدَّثَ النَّاسُ أَنِّي أَقْتُلُ أَصْحَابِي، إِنَّ هَذَا وَأَصْحَابَهُ يَقْرَءُوْنَ الْقُرْآنَ لَا يُجَاوِزُ تَرَاقِيَهُمْ يَمْرُقُوْنَ مِنَ الدِّيْنِ کَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَةِ. رَوَاهُ أَحْمَدُ وَأَبُوْنُعَيْمٍ.

الحديث رقم 7: أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 3 / 354، الرقم: 1461، وأبونعيم في المسند المستخرج، 3 / 127، الرقم: 2372.

’’حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے فرماتے ہیں کہ میری آنکھوں نے دیکھا اور کانوں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا: جعرانہ کے مقام پر حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے کپڑوں (گود) میں چاندی تھی اور حضور نبی اکرم ﷺ اس میں سے مٹھیاں بھر بھر کے لوگوں کو عطا فرما رہے ہیں تو ایک شخص نے کہا: عدل کریں، آپ ﷺ نے فرمایا: تو ہلاک ہو۔ اگر میں بھی عدل نہیں کروں گا تو کون عدل کرے گا؟ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! مجھے اجازت عطا فرمائیں کہ میں اس خبیث منافق کو قتل کردوں؟ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میں لوگوں کے اس قول سے کہ میں اپنے ساتھیوں کو قتل کرنے لگ گیا ہوں اللہ کی پناہ چاہتا ہوں۔ بے شک یہ اور اس کے ساتھی (نہایت شیریں انداز میں) قرآن پڑھیں گے لیکن وہ ان کے حلق سے نہیں اترے گا، وہ دین کے دائرے سے ایسے خارج ہو جائیں گے جیسے تیر شکار سے خارج ہو جاتا ہے۔‘‘

76 / 8. عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ رضي الله عنه عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: يَخْرُجُ نَاسٌ مِنْ قِبَلِ الْمَشْرِقِ وَ يَقْرَءُوْنَ الْقُرْآنَ لَا يُجَاوِزُ تَرَاقِيَهُمْ يَمْرُقُوْنَ مِنَ الدِّيْنِ کَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَةِ، ثُمَّ لَا يَعُوْدُوْنَ فِيْهِ حَتَّى يَعُوْدَ السَّهْمُ إِلىٰ فُوْقِهِ، قِيْلَ: مَا سِيْمَاهُمْ؟ قَالَ: سِيْمَاهُمُ التَّحْلِيْقُ أَوْ قَالَ: التَّسْبِيْدُ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ.

وفي رواية: عَنْ يُسَيْرِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: سَأَلْتُ سَهْلَ بْنَ حُنَيْفٍ رضي الله عنه هَلْ سَمِعْتَ النَّبِيَّ ﷺ يَذْکُرُ الْخَوَارِجَ؟ فَقَالَ: سَمِعْتُهُ وَأَشَارَ بِيَدِهِ نَحْوَ الْمَشْرِقِ قَوْمٌ يَقْرَءُوْنَ الْقُرْآنَ بِأَلْسِنَتِهِمْ لَا يَعْدُوْا تَرَاقِيَهُمْ يَمْرُقُوْنَ مِنَ الدِّيْنِ کَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَةِ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ.

الحديث رقم 8: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: التوحيد، باب: قراءة الفاجر والمنافق وأصواتهم وتلاوتهم لا تجاوز حنا جرهم، 6 / 2748، الرقم: 7123، ومسلم في الصحيح، کتاب: الزکاة، باب: الخوارج شر الخلق والخليفة، 2 / 750، الرقم: 1068، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 64، الرقم: 11632، 3 / 486، وابن أبي شيبة في المصنف، 7 / 563، الرقم: 37397، وأبويعلي في المسند، 2 / 408، الرقم: 1193، والطبراني في المعجم الکبير، 6 / 91، الرقم: 5609، وابن أبي عاصم في السنة، 2 / 490، الرقم: 909، وقال: إسناده صحيح، وأبونعيم في المسند المستخرج، 3 / 135، الرقم: 2390.

’’حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: مشرق کی جانب سے کچھ لوگ نکلیں گے کہ وہ قرآن پاک پڑھیں گے مگر وہ ان کے گلوں سے نیچے نہیں اترے گا۔ وہ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے پار نکل جاتا ہے اور پھر وہ دین میں واپس نہیں آئیں گے جب تک تیر اپنی جگہ پر واپس نہ لوٹ آئے۔ دریافت کیا گیا کہ ان کی نشانی کیا ہے؟ فرمایا: ان کی نشانی سر منڈانا ہے یا فرمایا: سر منڈائے رکھنا ہے۔

اور مسلم کی روایت میں ہے: يُسیر بن عمرو کہتے ہیں کہ میں نے حضرت سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ سے پوچھا: کیا آپ نے حضور نبی اکرم ﷺ سے خوارج کا ذکر سنا ہے؟ انہوں نے فرمایا: ہاں! میں نے سنا ہے اور اپنے ہاتھ سے مشرق کی طرف اشارہ کرکے کہا: وہ (وہاں سے نکلیں گے اور) اپنی زبانوں سے قرآن مجید پڑھیں گے مگر وہ ان کے حلق سے نہیں اترے گا اور دین سے ایسے نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے پار نکل جاتا ہے۔‘‘

77 / 9. عَنْ زَيْدِ بْنِ وَهْبٍ الْجُهْنِيِّ أَنَّهُ کَانَ فِي الْجَيْشِ الَّذِيْنَ کَانُوْا مَعَ عَلِيٍّ رضي الله عنه الَّذِيْنَ سَارُوْا إِلىٰ الْخَوَارِجِ، فَقَالَ عَلِيٌّ رضي الله عنه: أَيَهَا النَّاسُ إِنِّي سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ يَقُوْلُ: يَخْرُجُ قَوْمٌ مِنْ أُمَّتِي يَقْرَءُوْنَ الْقُرْآنَ لَيْسَ قِرائَتُکُمْ إِلىٰ قِرَاءَ تِهِمْ بِشَيءٍ وَلاَ صَلَاتُکُمْ إِلىٰ صَلَاتِهِمْ بِشَيءٍ وَلَا صِيَامُکُمْ إِلىٰ صِيَامِهِمْ بِشَيءٍ يَقْرَئُوْنَ الْقُرْآنَ يَحْسِبُوْنَ أَنَّهُ لَهُمْ، وَهُوَ عَلَيْهِمْ لاَ تُجَاوِزُ صَلَاتُهُمْ تَرَاقِيَهُمْ يَمْرُقُوْنَ مِنَ الإِسْلاَمِ کَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَةِ... الحديث. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَبُوْدَاوُدَ.

الحديث رقم 9: أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب: الزکاة باب: التحريض علي قتل الخوارج، 2 / 748، الرقم: 1066، وأبوداود في السنن، کتاب: السنة، باب: في قتال الخوارج، 4 / 244، الرقم: 4768، والنسائي في السنن الکبري، 5 / 163، الرقم: 8571، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 / 91، الرقم: 706، وعبد الرزاق في المصنف، 10 / 147؛ والبزار في المسند، 2 / 197، الرقم: 581، وابن أبي عاصم في السنة، 2 / 445. 446، والبيهقي في السنن الکبري، 8 / 170.

’’زید بن وہب جہنی بیان کرتے ہیں کہ وہ اس لشکر میں تھے جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ خوارج سے جنگ کے لئے گیا تھا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اے لوگو! میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا کہ آپ ﷺ نے فرمایا: میری امت میں سے ایک قوم ظاہر ہوگی وہ ایسا (خوبصورت) قرآن پڑھیں گے کہ ان کے پڑھنے کے سامنے تمہارے قرآن پڑھنے کی کوئی حیثیت نہ ہوگی، نہ ان کی نمازوں کے سامنے تمہاری نمازوں کی کچھ حیثیت ہوگی اور نہ ہی ان کے روزوں کے سامنے تمہارے روزوں کی کوئی حیثیت ہو گی اور نہ ہی ان کے روزوں کے سامنے تمھارے روزوں کی کوئی حیثیت ہو گی۔ وہ یہ سمجھ کر قرآن پڑھیں گے کہ وہ ان کے لئے مفید ہے لیکن درحقیقت وہ ان کے لئے مضر ہوگا، نماز ان کے گلے کے نیچے سے نہیں اتر سکے گی اور وہ اسلام سے ایسے نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے نکل جاتا ہے۔‘‘

78 / 10. عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ رضي الله عنه أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ ذَکَرَ قَومًا يَکُوْنُوْنَ فِي أُمَّتِهِ يَخْرُجُوْنَ فِي فُرْقَةٍ مِنَ النَّاسِ سِيْمَاهُمُ التَّحَالُقُ، قَالَ: هُمْ شَرُّالْخَلْقِ (أَوْ مِنْ أَشَرِّ الْخَلْقِ) يَقْتُلُهُمْ أَدْنَي الطَّائِفَتَيْنِ إِلىٰ الْحَقِّ، قَالَ: فَضَرَبَ النَّبِيُّ ﷺ لَهُمْ مَثَلًا أَوْ قَالَ قَوْلاً: الرَّجُلُ يَرْمِي الرَّمِيَةَ (أَوْ قَالَ: الْغَرَضَ) فَيَنْظُرُ فِي النَّصْلِ فَلَا يَرَي بَصِيْرَةً وَيَنْظُرُ فِي النَّضِيِّ فَلَا يَرَي بَصِيْرَةً وَيَنْظُرُ فِي الْفُوْقِ فَلَا يَرَي بَصِيْرَةً. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ.

الحديث رقم 10: أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب: الزکاة، باب: ذکر الخوارج وصفاتهم، 2 / 745، الرقم: 1065، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 5، الرقم: 11031، وعبد اللہ بن أحمد في السنة، 2 / 622، الرقم: 1482، وقال: إسناده صحيح.

’’حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک قوم کا ذکر کیا جو آپ ﷺ کی امت میں پیدا ہو گی، اس کا ظہور اس وقت ہوگا جب لوگوں میں فرقہ بندی ہو جائے گی۔ ان کی علامت سر منڈانا ہوگی اور وہ مخلوق میں سب سے بدتر (یا بدترین) ہوں گے اور انہیں دوجماعتوں میں سے وہ جماعت قتل کرے گی جو حق کے زیادہ قریب ہوگی، پھر آپ ﷺ نے ان لوگوں کی ایک مثال بیان فرمائی کہ جب آدمی کسی شکار یا نشانہ کو تیر مارتا ہے تو پر کو دیکھتا ہے اس میں کچھ اثر نہیں ہوتا اور تیر کی لکڑی کو دیکھتا ہے اور وہاں بھی اثر نہیں ہوتا، پھر اس حصہ کو دیکھتا ہے جو تیر انداز کی چٹکی میں ہوتا ہے تو وہاں بھی کچھ اثر نہیں پاتا۔‘‘

79 / 11. عَنْ أَبِي سَلَمَةَ وَعَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ أَنَّهُمَا أَتَيَا أَبَا سَعِيْدٍ الْخُدْرِيَّ رضي الله عنه فَسَأَلَاهُ عَنِ الْحَرُوْرِيَةِ أَ سَمِعْتَ النَّبِيَّ ﷺ ؟ قَالَ: لَا أَدْرِي مَا الْحَرُوْرِيَةُ؟ سَمِعْتُ النَّبِيَّ ﷺ يَقُوْلُ: يَخْرُجُ فِي هَذِهِ الْأُمَّةِ وَ لَمْ يَقُلْ مِنْهَا قَوْمٌ تَحْقِرُوْنَ صَلَاتَکُمْ مَعَ صَلَاتِهِمْ يَقْرَئُوْنَ الْقُرْآنَ لَا يُجَاوِزُ حُلُوْقَهُمْ أَوْ حَنَاجِرَهُمْ يَمْرُقُوْنَ مِنَ الدِّيْنِ مُرُوْقَ السَّهْمِ مِنَ الرَّمِيَةِ.

مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

الحديث رقم 11: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: استتابة المرتدين والمعاندين وقتالهم، باب: قتل الخوارج والملحدين بعد إقامة الحجة عليهم، 6 / 2540، الرقم: 6532، وفي کتاب: فضائل القرآن، باب: إثم من رائي بقرائة القرآن أو تاکل به أو فخر به، 4 / 1928، الرقم: 4771، ومسلم في الصحيح، کتاب: الزکاة، باب: ذکر الخوارج وصفاتهم، 2 / 743، الرقم: 1064، ومالک في الموطأ، کتاب: القرآن، باب: ماجاء في القرآن، 1 / 204، الرقم: 478، والنسائي في السنن الکبري، 3 / 31، الرقم: 8089، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 60، الرقم: 11596، وابن حبان في الصحيح، 15 / 132، الرقم: 6737، والبخاري في خلق أفعال العباد، 1 / 53 وا بن أبي شيبة في المصنف، 7 / 560، الرقم: 37920، وأبويعلي في المسند، 2 / 430، الرقم: 1233.

’’حضرت ابو سلمہ اور حضرت عطاء بن یسار رضی اللہ عنہما دونوں حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: کیا آپ نے رسول اللہ ﷺ سے حروریہ کے بارے میں کچھ سنا ہے؟ تو انہوں نے فرمایا کہ مجھے نہیں معلوم کہ حروریہ کیا ہے؟ ہاں میں نے حضور نبی اکرم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اس امت میں سے کچھ ایسے لوگ نکلیں گے اور یہ نہیں فرمایا کہ ایک ایسی قوم نکلے گی (بلکہ لوگ فرمایا) جن کی نمازوں کے مقابلے میں تم اپنی نمازوں کو حقیر جانو گے، وہ قرآن مجید کی تلاوت کریں گے لیکن یہ (قرآن) ان کے حلق سے نہیں اترے گا یا یہ فرمایا کہ ان کے نرخرے سے نیچے نہیں اترے گا اور وہ دین سے یوں خارج ہو جائیں گے جیسے تیر شکار سے خارج ہو جاتا ہے۔‘‘

80 / 12. عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ وَ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضي الله عنهما عَنْ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ قَالَ: سَيَکُوْنُ فِي أُمَّتِي اخْتِلَافٌ وَفُرْقَةٌ قَوْمٌ يُحْسِنُوْنَ الْقِيْلَ وَ يُسِيْئُوْنَ الْفِعْلَ يَقْرَأُوْنَ الْقُرْآنَ لَا يُجَاوِزُ تَرَاقِيَهُمْ (وفي رواية: يَحْقِرُ أَحَدُکُمْ صَلَاتَهُ مَعَ صَلَاتِهِمْ وَصِيَامَهُ مَعَ صِيَامِهِمْ) يَمْرُقُوْنَ مِنَ الدِّيْنِ مُرُوْقَ السَّهْمِ مِنَ الرَّمِيَةِ لَا يَرْجِعُوْنَ حَتَّى يَرْتَدَّ عَلىٰ فُوْقِهِ هُمْ شَرُّالْخَلْقِ وَالْخَلِيْقَةِ طُوْبَي لِمَنْ قَتَلَهُمْ وَقَتَلُوْهُ يَدْعُوْنَ إِلىٰ کِتَابِ اللهِ وَلَيْسُوْا مِنْهُ فِي شَيءٍ مَنْ قَاتَلَهُمْ کَانَ أَوْلَي بِاللهِ مِنْهُمْ قَالُوْا: يَارَسُوْلَ اللهِ مَا سِيْمَاهُمْ؟ قَالَ: التَّحْلِيْقُ.

وفي رواية: عَنْ أَنَسٍ رضي الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ نَحْوَهُ: سِيْمَاهُمْ التَّحْلِيْقُ وَ التَّسْبِيْدُ. رَوَاهُ أَبُوْدَاوُدَ وَابْنُ مَاجَه مُخْتَصْرًا وَأَحْمَدُ وَالْحَاکِمُ.

الحديث رقم 12: أخرجه أبوداود في السنن، کتاب: السنة، باب: في: قتال الخوارج، 4 / 243، الرقم: 4765، وابن ماجه في السنن، المقدمة، باب: في ذکر الخوارج، 1 / 60، الرقم: 169، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 224، الرقم: 13362، والحاکم في المستدرک، 2 / 161، الرقم: 2649، والبيهقي في السنن الکبري، 8 / 171، والمقدسي في الأحاديث المختارة، 7 / 15، الرقم: 2391 - 2392، وقال: إسناده صحيح، وأبويعلي في المسند، 5 / 426، الرقم: 3117، والطبراني نحوه في المعجم الکبير، 8 / 121، الرقم: 7553، والمروزي في السنة، 1 / 20، الرقم: 52.

’’حضرت ابوسعید خدری اور حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: عنقریب میری امت میں اختلاف اور تفرقہ بازی ہوگی، ایک قوم ایسی ہوگی کہ وہ لوگ گفتار کے اچھے اور کردار کے برے ہوں گے، قرآن پاک پڑھیں گے جو ان کے گلے سے نہیں اترے گا (اور ایک روایت میں ہے کہ تم اپنی نمازوں اور روزوں کو ان کی نمازوں اور روزوں کے مقابلہ میں حقیر سمجھو گے) وہ دین سے ایسے خارج جائیں گے جیسے تیر شکار سے خارج ہو جاتا ہے، اور واپس نہیں آئیں گے جب تک تیر کمان میں واپس نہ آ جائے وہ ساری مخلوق میں سب سے برے ہوں گے، خوشخبری ہو اسے جو انہیں قتل کرے اور جسے وہ قتل کریں۔ وہ اللہ عزوجل کی کتاب کی طرف بلائیں گے لیکن اس کے ساتھ ان کا کوئی تعلق نہیں ہو گا ان کا قاتل ان کی نسبت اللہ تعالیٰ کے زیادہ قریب ہو گا، صحابہ کرام نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ان کی نشانی کیا ہے؟ فرمایا: سر منڈانا۔

ایک اور روایت میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے اسی طرح فرمایا: ان کی نشانی سر منڈانا اور اکثر منڈائے رکھنا ہے۔‘‘

81 / 13. عَنْ شَرِيْکِ بْنِ شِهَابٍ قَالَ: کُنْتُ أَتَمَنَّي أَنْ أَلْقَي رَجُلًا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ أَسْأَلُهُ عَنِ الْخَوَارِجِ، فَلَقِيْتُ أَبَا بَرْزَةَ فِي يَومِ عِيْدٍ فِي نَفَرٍ مِنْ أَصْحَابِهِ فَقُلْتُ لَهُ: هَلْ سَمِعْتَ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ يَذْکُرُ الْخَوَارِجَ؟ فَقَالَ: نَعَمْ، سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ بِأُذُنِي وَرَأَيْتُهُ بِعَيْنِي أُتِيَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ بِمَالٍ فَقَسَمَهُ، فَأَعْطَي مَنْ عَنْ يَمِيْنِهِ وَ مَنْ عَنْ شِمَالِهِ، وَلَمْ يُعْطِ مَنْ وَرَاءَهُ شَيْئًا، فَقَامَ رَجُلٌ مِنْ وَرَائِهِ. فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ، مَا عَدَلْتَ فِي الْقِسْمَةِ، رَجُلٌ أَسْوَدُ مَطْمُوْمُ الشَّعْرِ، عَلَيْهِ ثَوْبَانِ أَبْيَضَانِ (وزاد أحمد: بَيْنَ عَيْنَيْهِ أَثَرُ السُّجُوْدِ)، فَغَضِبَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ غَضَبًا شَدِيْدًا، وَ قَالَ: وَاللهِ، لَا تَجِدُوْنَ بَعْدِي رَجُلًا هُوَ أَعْدَلُ مِنِّي، ثُمَّ قَالَ: يَخْرُجُ فِي آخِرِ الزَّمَانِ قَوْمٌ کَأَنَّ هَذَا مِنْهُمْ (وفي رواية: قَالَ: يَخْرُجُ مِنْ قِبَلِ الْمَشْرِقِ رِجَالٌ کَانَ هَذَا مِنْهُمْ هَدْيُهُمْ هَکَذَا) يَقْرَءُوْنَ الْقُرْآنَ لَا يُجَاوِزُ تَرَاقِيَهُمْ، يَمْرُقُوْنَ مِنَ الإِسْلَامِ کَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَةِ، سِيْمَاهُمُ التَّحْلِيْقُ، لَا يَزَالُوْنَ يَخْرُجُوْنَ حَتَّى يَخْرُجَ آخِرُهُمْ مَعَ الْمَسِيْحِ الدَّجَّالِ، فَإِذَا لَقِيْتُمُوْهُمْ فَاقْتُلُوْهُمْ، هُمْ شَرُّ الْخَلْقِ وَالْخَلِيْقَةِ.

رَوَاهُ النَّسَائِيُّ وَأَحْمَدُ وَالْبَزَّارُ وَالْحَاکِمُ.

وَقَالَ الْحَاکِمُ: هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ. وَرِجَالُهُ رِجَالُ الصَّحِيْحِ کَمَا قَالَ الْهَيْثَمِيُّ.

الحديث رقم 13: أخرجه النسائي في السنن، کتاب: تحريم الدم، باب: من شهر سيفه ثم وضعه في الناس، 7 / 119، الرقم: 4103، وفي السنن الکبري، 2 / 312، الرقم: 3566، وأحمد بن حنبل في المسند، 4 / 421، والبزار في المسند، 9 / 294، 305، الرقم: 3846، والحاکم في المستدرک، 2 / 160، الرقم: 2647، وابن أبي شيبة في المصنف، 7 / 559، الرقم: 37917، وابن أبي عاصم في السنة، 2 / 452، الرقم 927، والطيالسي في المسند، 1 / 124، الرقم: 923، والعسقلاني في فتح الباري، 12 / 292، والقيسراني في تذکرة الحفاظ، 3 / 1101، وابن تيمية في الصارم المسلول، 1 / 188.

’’حضرت شریک بن شہاب نے بیان کیا کہ مجھے اس بات کی شدید خواہش تھی کہ میں حضور نبی اکرم ﷺ کے کسی صحابی سے ملوں اور ان سے خوارج کے متعلق دریافت کروں۔ اتفاقاً میں نے عید کے روز حضرت ابوبرزہ رضی اللہ عنہ کو ان کے کئی دوستوں کے ساتھ دیکھا میں نے ان سے دریافت کیا: کیا آپ نے خارجیوں کے بارے میں حضور نبی اکرم ﷺ سے کچھ سنا ہے؟ آپ نے فرمایا: ہاں، میں نے اپنے کانوں سے سنا اور آنکھوں سے دیکھا کہ حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمتِ اقدس میں کچھ مال پیش کیا گیا اور آپ ﷺ نے اس مال کو ان لوگوں میں تقسیم فرما دیا جو دائیں اور بائیں طرف بیٹھے ہوئے تھے اور جو لوگ پیچھے بیٹھے تھے آپ ﷺ نے انہیں کچھ عنایت نہ فرمایا چنانچہ ان میں سے ایک شخص کھڑا ہوا اور اس نے کہا، اے محمد! آپ نے انصاف سے تقسیم نہیں کی۔ وہ شخص سیاہ رنگ، سر منڈا اور سفید کپڑے پہنے ہوئے تھا (اور امام احمد بن حنبل نے اضافہ کیا کہ اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان (پیشانی پر) سجدوں کا اثر نمایاں تھا)۔ حضور نبی اکرم ﷺ شدید ناراض ہوئے اور فرمایا: خدا کی قسم! تم میرے بعد مجھ سے بڑھ کر کسی شخص کو انصاف کرنے والا نہ پاؤ گے، پھر فرمایا: آخری زمانے میں کچھ لوگ پیدا ہوں گے یہ شخص بھی انہیں لوگوں میں سے ہے (اور ایک روایت میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: مشرق کی طرف سے ایک قوم نکلے گی یہ آدمی بھی ان لوگوں میں سے ہے اور ان کا طور طریقہ بھی یہی ہوگا) وہ قرآن مجید کی تلاوت کریں گے مگر قرآن ان کے حلق سے نیچے نہ اترے گا وہ اسلام سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے نکل جاتا ہے۔ ان کی نشانی یہ ہے کہ وہ سرمنڈے ہوں گے ہمیشہ نکلتے ہی رہیں گے یہاں تک کہ ان کا آخری گروہ دجال کے ساتھ نکلے گا جب تم ان سے ملو تو انہیں قتل کردو۔ وہ تمام مخلوق سے بدترین ہیں۔‘‘

82 / 14. عَنْ أَبِي سَلَمَةَ قَالَ: قُلْتُ لِأَبِي سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ رضي الله عنه: هَلْ سَمِعْتَ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ يَذْکَرُ فِي الْحَرُورِيَةِ شَيْئًا؟ فَقَالَ: سَمِعْتُهُ يَذْکُرُ قَوْمًا يَتَعَبَّدُونَ (وفي رواية أحمد: يَتَعَمَّقُوْنَ فِي الدِّيْنِ) يَحْقِرُ أَحَدُکُمْ صَلَاتَهُ مَعَ صَلَاتِهِمْ وَصَومَهُ مَعَ صَومِهِمْ يَمْرُقُونَ مِنَ الدِّيْنِ کَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَةِ أَخَذَ سَهْمَهُ فَنَظَرَ فِي نَصْلِهِ فَلَمْ يَرَ شَيْئًا، فَنَظَرَ فِي رِصَافِهِ فَلَمْ يَرَ شَيْئًا فَنَظَرَ فِي قِدْحِهِ فَلَمْ يَرَ شَيْئًا، فَنَظَرَ فِي الْقُذَذِ فَتَمَارَي هَلْ يَرَي شَيْئًا أَمْ لَا. رَوَاهُ ابْنُ مَاجَه وَأَحْمَدُ.

الحديث رقم 14: أخرجه ابن ماجه في السنن، المقدمة، باب: في ذکر الخوارج، 1 / 60، الرقم: 169، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 33، الرقم: 11309، وابن أبي شيبة في المصنف، 7 / 557، الرقم: 37909.

’’ابو سلمہ کہتے ہیں میں نے حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا: کیا آپ نے رسول اللہ ﷺ سے حروریہ (یعنی خوارج) کے متعلق کوئی حدیث سنی ہے؟ انہوں نے فرمایا: آپ ﷺ نے ایک قوم کا ذکر فرمایا ہے جو خوب عبادت کرے گی (امام احمد کی ایک روایت میں ہے کہ وہ دین میں انتہائی پختہ نظر آئیں گے) اور (یہاں تک کہ) تم اپنی نمازوں اور روزوں کو ان کی نمازوں اور روزوں کے مقابلہ میں حقیر سمجھوگے۔ وہ دین سے ایسے نکل جائیں گی جیسے تیر شکار سے، کہ آدمی اپنے تیر کو اٹھا کر اس کے پھل کو دیکھے تو اس میں کوئی خون وغیرہ نظر نہ آئے پھر وہ تیر کی لکڑی کو دیکھے اس میں کوئی نشان نہ پائے پھر اس کی نوک کو دیکھے اور کوئی بھی نشان نظر نہ آئے پھر تیر کے پر کو دیکھے اس میں بھی کچھ نظر نہ آئے۔‘‘

83 / 15. عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عُمَرَ رضي الله عنهما قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ يَقُوْلُ وَهُوَ عَلىٰ الْمِنْبَرِ: أَلاَ إِنَّ الْفِتْنَةَ هَاهُنَا يُشِيْرُ إِلىٰ الْمَشْرِقِ مِنْ حَيْثُ يَطْلُعُ قَرْنُ الشَّيْطَانِ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ وَهَذَا لَفْظُ الْبُخَارِيِّ.

الحديث رقم 15: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: المناقب، باب: نسبة اليمن إلي إسماعيل، 3 / 1293، الرقم: 3320، وفي کتاب: بدء الخلق، باب: صفة إبليس وجنوده، 3 / 1195، الرقم: 3105، ومسلم في الصحيح، کتاب: الفتن وأشراط الساعة، باب: الفتنة من المشرق من حيث يطلع قرنا الشيطان، 4 / 2229، الرقم: 2905، ومالک في الموطأ، کتاب: الاستئذان، باب: ما جاء في المشرق، 2 / 975، الرقم: 1757، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 73، الرقم: 5428، وابن حبان في الصحيح، 15 / 25، الرقم: 6649.

’’حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو منبر پر یہ فرماتے ہوئے سنا: خبر دار ہو جاؤ! فتنہ ادھر ہے آپ ﷺ نے مشرق کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: یہیں سے شیطان کا سینگ ظاہر ہوگا۔‘‘

84 / 16. عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضي الله عنهما أَنَّهُ سَمِعَ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ وَهُوَ مُسْتَقْبِلُ الْمَشْرِقِ يَقُوْلُ: أَ لَا إِنَّ الْفِتْنَةَ هَاهُنَا مِنْ حَيْثُ يَطْلُعُ قَرْنُ الشَّيْطَانِ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

الحديث رقم 16: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: الفتن، باب: قول النبي ﷺ: الفتنة من قبل المشرق، 6 / 2598، الرقم: 6680، ومسلم في الصحيح، کتاب: الفتن وأشراط الساعة، باب: الفتنة من المشرق من حيث يطلع قرنا الشيطان، 4 / 2228، الرقم: 2905، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 91، الرقم: 5659، والطبراني في المعجم الأوسط، 1 / 122، الرقم: 387، والمقرئ في السنن الواردة، 1 / 246، الرقم: 43.

’’حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا جب کہ آپ ﷺ مشرق کی جانب چہرہ مبارک کرکے فرما رہے تھے: خبردار ہو جاؤ کہ فتنہ اُدھر ہے جہاں سے شیطان کا سینگ نکلے گا۔‘‘

85 / 17. عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضي الله عنهما قَالَ ذَکَرَ النَّبِيُّ ﷺ: اَللَّهُمَّ بَارِکْ لَنَا فِي شَامِنَا اَللَّهُمَّ بَارِکْ لَنَا فِي يَمَنِنَا قَالُوْا: يَارَسُوْلَ اللهِ، وَفِي نَجْدِنَا؟ قَالَ: اَللَّهُمَّ بَارِکْ لَنَا فِي شَامِنَا اَللَّهُمَّ بَارِکْ لَنَا فِي يَمَنِنَا، قَالُوْا: يَارَسُوْلَ اللهِ، وَفِي نَجْدِنَا فَأَظُنُّهُ قَالَ فِي الثَّالِثَةِ: هُنَاکَ الزَّلَازِلُ وَالْفِتَنُ، وَبِهَا يَطْلُعُ قَرْنُ الشَّيْطَانِ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَالتِّرْمِذِيُّ وَأَحْمْدُ.

وَقَالَ أَبُوْ عِيْسَي: هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ.

الحديث رقم 17: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: الفتن، باب: قول النبي ﷺ: الفتنة من قبل المشرق، 6 / 2598، الرقم: 6681، وفي کتاب: الاستسقاء، باب: ما قيل في الزلازل والآيات، 1 / 351، الرقم: 990، والترمذي في السنن، کتاب: المناقب عن رسول اللہ ﷺ، باب: في فضل الشام واليمن، 5 / 733، الرقم: 3953، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 118، الرقم: 5987، وابن حبان في الصحيح، 16 / 290، الرقم: 7301، والطبراني في المعجم الکبير، 12 / 384، الرقم: 13422، والمقري في السنن الواردة في الفتن، 1 / 251، الرقم: 46، والمنذري في الترغيب والترهيب، 4 / 29، الرقم: 4666.

’’حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے دعا فرمائی: اے اللہ! ہمارے لئے ہمارے شام میں برکت عطا فرما، اے اللہ! ہمیں ہمارے یمن میں برکت عطا فرما، (بعض) لوگوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہمارے نجد میں بھی؟ آپ ﷺ نے (پھر) دعا فرمائی: اے اللہ! ہمارے لئے ہمارے شام میں برکت عطا فرما۔ اے اللہ! ہمارے لئے ہمارے یمن میں برکت عطا فرما۔ (بعض) لوگوں نے (پھر) عرض کیا: یا رسول اللہ! ہمارے نجد میں بھی میرا خیال ہے کہ آپ ﷺ نے تیسری مرتبہ فرمایا: وہاں زلزلے اور فتنے ہوں گے اور شیطان کا سینگ (فتنہ وہابیت و نجدیت) وہیں سے نکلے گا۔‘‘

86 / 18. أخرج البخاري في صحيحه في ترجمة الباب: قَوْلُ اللهِ تَعَالَي: (وَمَا کَانَ اللهُ لِيُضِلَّ قَوْمًا بَعْدَ إِذْ هَدَاهُمْ حَتَّى يُبَيِنَ لَهُمْ مَا يَتَّقُوْنَ) (التوبة، 9: 115) وَ کَانَ ابْنُ عُمَرَ رضي الله عنهما يَرَاهُمْ شِرَارَ خَلْقِ اللهِ، وَقَالَ: إِنَّهُمُ انْطَلَقُوْا إِلىٰ آيَاتٍ نَزَلَتْ فِي الْکُفَّارِ فَجَعَلُوْهَا عَلىٰ الْمُؤْمِنِيْنَ.

وقال العسقلاني في الفتح: وصله الطبري في مسند علي من تهذيب الآثار من طريق بکير بن عبد اللہ بن الأشج: أَنَّهُ سَأَلَ نَافِعًا کَيْفَ کَانَ رَأَي ابْنُ عُمَرَ فِي الْحَرُوْرِيَةِ؟ قَالَ: کَانَ يَرَاهُمْ شِرَارَ خَلْقِ اللهِ، انْطَلَقُوْا إِلىٰ آيَاتِ الْکُفَّارِ فَجَعَلُوْهَا فِي الْمُؤْمِنِيْنَ.

قلت: وسنده صحيح، وقد ثبت في الحديث الصحيح المرفوع عند مسلم من حديث أبي ذر رضي الله عنه في وصف الخوارج: هُمْ شِرَارُ الْخَلْقِ وَالْخَلِيْقَةِ. وعند أحمد بسند جيد عن أنس مرفوعًا مثله.

وعند البزار من طريق الشعبي عَنْ عَاءِشَةَ رضي الله عنها قَالَتْ: ذَکَرَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ الْخَوَارِجَ فَقَالَ: هُمْ شِرَارُ أُمَّتِي يَقْتُلُهُمْ خِيَارُ أُمَّتِي. وسنده حسن.

وعند الطبراني من هذا الوجه مرفوعا: هُمْ شِرَارُ الْخَلْقِ وَالْخَلِيْقَةِ يَقْتُلُهُمْ خَيْرُ الْخَلْقِ وَالْخَلِيْقَةِ. وفي حديث أبي سعيد رضي الله عنه عند أحمد: هُمْ شَرُّ الْبَرِيَةِ.

وفي رواية عبيد اللہ بن أبي رافع عن علي رضي الله عنه عند مسلم: مِنْ أَبْغَضِ خَلْقِ اللهِ إِلَيْهِ.

وفي حديث عبد اللہ بن خباب رضي الله عنه يعني عن أبيه عند الطبراني: شَرُّ قَتْلَي أَظَلَّتْهُمُ السَّمَاءُ وَأَقَلَّتْهُمُ الْأَرْضُ. وفي حديث أبي أمامة رضي الله عنه نحوه.

وعند أحمد وابن أبي شيبة من حديث أبي برزة مرفوعًا في ذکر الخوارج: شَرُّ الْخَلْقِ وَالْخَلِيْقَةِ يَقُولُهَا ثَلَاثًا.

وعند ابن أبي شيبة من طريق عمير بن إسحاق عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه: هُمْ شَرُّ الْخَلْقِ. وهذا مما يؤيد قول من قال بکفرهم.

الحديث رقم 18: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: استتابة المرتدين والمعاندين وقتالهم، باب: (5) قتل الخوارج والملحدين بعد إقامة الحجة عليهم، 6 / 2539، ومسلم في الصحيح، کتاب الزکاة، باب: الخوارج شر الخلق والخليقة، 2 / 750، الرقم: 1067، وفي کتاب: الزکاة، باب: التحريض علي قتل الخوارج، 2 / 749، الرقم: 1066، وأبوداود في السنن، کتاب: السنة، باب: في قتال الخوارج، 4 / 243، الرقم: 4765، والنسائي في السنن، کتاب: تحريم الدم، باب: من شهر سيفه ثم وضعه في الناس، 7 / 119. 120، الرقم: 4103، وابن ماجه في السنة، المقدمة، باب: في ذکر الخوارج، 1 / 60، الرقم: 170، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 15، 224، الرقم: 11133، 13362، 4 / 421، 424

’’امام بخاری نے اپنی صحیح میں باب کے عنوان (ترجمۃ الباب) کے طور پر یہ حدیث روایت کی ہے: اللہ تعالیٰ کا فرمان: ’’اور اللہ کی شان نہیں کہ وہ کسی قوم کو گمراہ کر دے۔ اس کے بعد کہ اس نے انہیں ہدایت سے نواز دیا ہو، یہاں تک کہ وہ ان کے لئے وہ چیزیں واضح فرما دے جن سے انہیں پرہیز کرنا چاہئے۔‘‘ اور عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ان (خوارج) کو اللہ تعالیٰ کی بد ترین مخلوق سمجھتے تھے۔ (کیونکہ) انہوں نے اللہ تعالیٰ کی ان آیات کو لیا جو کفار کے حق میں نازل ہوئی تھیں اور ان کا اطلاق مومنین پر کرنا شروع کر دیا۔‘‘

اور امام عسقلانی ’’فتح الباری‘‘ میں بیان کرتے ہیں کہ امام طبری نے اس حدیث کو تہذیب الآثار سے بکیر بن عبد اللہ بن اشج کے طریق سے مسند علی رضی اللہ عنہ میں شامل کیا ہے کہ ’’انہوں نے نافع سے پوچھا کہ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی حروریہ (خوارج) کے بارے میں کیا رائے تھی؟ تو انہوں نے فرمایا: وہ انہیں اللہ تعالیٰ کی بدترین مخلوق خیال کیا کرتے تھے جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی ان آیات کو لیا جو کفار کے حق میں نازل ہوئیں تھیں اور ان کا اطلاق مومنین پر کیا۔

میں ’’امام عسقلانی‘‘ کہتا ہوں کہ اس حدیث کی سند صحیح ہے اور تحقیق یہ سند حدیث صحیح مرفوع میں امام مسلم کے ہاں ابو ذر غفاری کی خوارج کے وصف والی حدیث میں ثابت ہے اور وہ حدیث یہ ہے کہ ’’وہ خَلق اور خُلق میں بدترین لوگ ہیں‘‘ اور امام احمد بن حنبل کے ہاں بھی اسی کی مثل حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی مرفوع حدیث ہے۔

اور امام بزار کے ہاں شعبی کے طریق سے وہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا: حضور نبی اکرم ﷺ نے خوارج کا ذکر کیا اور فرمایا: ’’وہ میری امت کے بد ترین لوگ ہیں اور انہیں میری امت کے بہترین لوگ قتل کریں گے۔‘‘ اور اس حدیث کی سند حسن ہے۔

اور امام طبرانی کے ہاں اسی طریق سے مرفوع حدیث میں مروی ہے کہ ’’وہ (خوارج) بد ترین خَلق اور خُلق والے ہیں اور ان کو بہترین خَلق اور خُلق والے لوگ قتل کریں گے۔‘‘

اور امام احمد بن حنبل کے ہاں حضرت ابو سعید والی حدیث میں ہے کہ ’’وہ (خوارج) مخلوق میں سے سب سے بدترین لوگ ہیں۔‘‘

اور امام مسلم نے عبیداللہ بن ابی رافع کی روایت میں بیان کیا جو انہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ ’’یہ (خوارج) اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں سے اس کے نزدیک سب سے بدترین لوگ ہیں۔‘‘

اور امام طبرانی کے ہاں عبد اللہ بن خباب والی حدیث میں ہے جو کہ وہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ ’’یہ (خوارج) بدترین مقتول ہیں جن پر آسمان نے سایہ کیا اور زمین نے ان کو اٹھایا۔‘‘ اور ابو امامہ والی حدیث میں بھی یہی الفاظ ہیں۔

اور امام احمد بن حنبل اور ابن ابی شیبہ ابوبرزہ رضی اللہ عنہ کی حدیث کو مرفوعا خوارج کے ذکر میں بیان کرتے کہ ’’وہ (خوارج) بد ترین خَلق اورخُلق والے ہیں۔‘‘ ایسا تین دفعہ فرمایا۔

اور ابن ابی شیبہ کے ہاں عمر بن اسحاق کے طریق سے وہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ ’’وہ (خوارج) بد ترین مخلوق ہیں۔ ’’اور یہ وہ چیز ہے جو اس شخص کے قول کی تائید کرتی ہے جو ان کو کافر قرار دیتا ہے۔‘‘

87 / 19. عَنْ أَبِي غَالِبٍ قَالَ: رَأَي أَبُوْأُمَامَةَ رضي الله عنه رُءُ وْسًا مَنْصُوْبَةً عَلىٰ دَرَجِ مَسْجِدِ دِمَشْقَ، فَقَالَ أَبُوْأُمَامَةَ رضي الله عنه: کِلَابُ النَّارِ شَرُّ قَتْلَي تَحْتَ أَدِيْمِ السَّمَاءِ خَيْرُ قَتْلَي مَنْ قَتَلُوْهُ ثُمَّ قًرَأَ: (يَوْمَ تَبْيَضُّ وُجُوْهٌ وَّتَسْوَدُّ وُجُوْهٌ) إِلىٰ آخِرِ الآيَةِ (آل عمران، 3: 106) قُلْتُ لِأَبِي أُمَامَةَ: أَنْتَ سَمِعْتَهُ مِنْ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ؟ قَالَ: لَوْ لَمْ أَسْمَعْهُ إِلَّا مَرَّةً أَوْ مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا أَوْ أَرْبَعًا حَتَّى عَدَّ سَبْعًا مَا حَدَّثْتُکُمُوْهُ.

رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَأَحْمَدُ وَالْحَاکِمُ.

وَقَالَ أَبُوْعِيْسَي: هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ. وَقَالَ الْحَاکِمُ: هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ.

الحديث رقم 19: أخرجه الترمذي في السنن، کتاب: تفسير القرآن عن رسول اللہ ﷺ، باب: ومن سورة آل عمران، 5 / 226، الرقم: 3000، وأحمد بن حنبل في المسند، 5 / 256، الرقم: 22262، والحاکم في المستدرک، 2 / 163، الرقم: 2655، والبيهقي في السنن الکبري، 8 / 188، والطبراني في مسند الشاميين، 2 / 248، الرقم: 1279، وفي المعجم الکبير، 8 / 271، الرقم: 8044، والمحالي في الأمالي، 1 / 408، الرقم: 478.479، وعبد اللہ بن أحمد في السنة، 2 / 643، الرقم: 1542 - 1546، وقال: إسناده صحيح، وابن تيمية في الصارم المسلول، 1 / 189.

’’ابوغالب نے حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا کہ انہوں نے مسجدِ دمشق کی سیڑھیوں پر (خارجیوں کے) سر نصب کئے ہوئے دیکھے تو فرمایا: (یہ) جہنم کے کتے، آسمان کے نیچے بدترین مخلوق ہیں۔ اور وہ شخص بہترین مقتول ہے جسے انہوں نے قتل کیا۔ پھر آپ نے یہ آیت پڑھی: ’’جس دن کئی چہرے سفید ہوں گے اور کئی چہرے سیاہ ہوں گے۔‘‘ ابوغالب کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابو اُمامہ رضی اللہ عنہ سے عرض کیا: کیا آپ نے یہ رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے؟ انہوں نے فرمایا: اگر میں نے حضور نبی اکرم ﷺ سے ایک، دو، تین، چار یہاں تک کہ سات بار تک گنا، سنا ہوتا تو تم سے بیان نہ کرتا (یعنی ایک دو بار نہیں بلکہ بارہا سنا ہے)۔‘‘

88 / 20. عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضي الله عنهما عَنِ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّهُ کَانَ قَائِمًا عِنْدَ بِابِ عَائِشَةَ رضي الله عنهما فَأَشَارَ بِيَدِهِ نَحْوَ الْمَشْرِقِ فَقَالَ: الْفِتْنَةُ هَاهُنَا حَيْثُ يَطْلُعُ قَرْنُ الشَّيْطَانِ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَأَحْمَدُ وَاللَّفْظُ لَهُ.

الحديث رقم 20: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: الخمس، باب: ما جاء في بيوت أزواج النبي ﷺ وما نسب من البيوت إليهن، 3 / 1130، الرقم: 2937، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 18، الرقم: 4679، والمقرئ في السنن الواردة في الفتن، 1 / 245، الرقم: 42.

’’حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے جبکہ آپ ﷺ بابِ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس کھڑے ہوئے تھے اپنے ہاتھ سے مشرق کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: فتنہ وہاں سے ہوگا جہاں سے شیطان کا سینگ نکلے گا۔‘‘

89 / 21. عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضي الله عنهما أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَامَ عِنْدَ بَابِ حَفْصَةَ فَقَالَ بِيَدِهِ نَحْوَ الْمَشْرِقِ: اَلْفِتْنَةُ هَاهُنَا مِنْ حَيْثُ يَطْلُعُ قَرْنُ الشَّيْطَانِ قَالَهَا مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًَا. رَوَاهُ مُسْلِمٌ.

الحديث رقم 21: أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب: الفتن وأشراط الساعة، باب: الفتنة من حيث يطلع قرنا الشيطان، 4 / 2229، الرقم: 2905.

’’حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے جبکہ آپ ﷺ بابِ حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس کھڑے ہوئے تھے۔ اپنے دستِ اقدس سے مشرق کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: فتنہ وہاں سے ہو گا جہاں سے شیطان کا سینگ نکلے گا آپ ﷺ نے یہ (کلمات) دو یا تین مرتبہ ادا فرمائے۔‘‘

90 / 22. عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضي الله عنهما أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ: اَللَّهُمَّ بَارِکْ لَنَا فِي شَامِنَا وَ يَمَنِنَا مَرَّتَيْنِ فَقَالَ رَجُلٌ: وَ فِي مَشْرِقِنَا يَا رَسُوْلَ اللهِ؟ فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: مِنْ هُنَالِکَ يَطْلُعُ قَرْنُ الشَّيْطَانِ وَلَهَا تِسْعَةُ أَعْشَارِ الشَّرِّ. رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالطَّبَرَانِيُّ.

الحديث رقم 22: أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 2 / 90، الرقم: 5642، والطبراني في المعجم الأوسط، 2 / 249، الرقم: 1889، والروياني في المسند، 2 / 421، الرقم: 1433، والهيثمي في مجمع الزوائد، 10 / 57، وقال: رجال أحمد رجال عبدالرحمن بن عطاء وهو ثقة.

’’حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اے اللہ! ہمارے لئے ہمارے شام میں اور ہمارے یمن میں برکت عطا فرما اور ایسا آپ ﷺ نے دو مرتبہ فرمایا: تو ایک آدمی نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اور ہمارے مشرق میں (بھی برکت ہو) تو حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: وہاں سے تو شیطان کا سینگ نکلے گا اور وہاں دس میں سے نو حصوں (کے برابر) شر ہو گا۔‘‘

91 / 23. عَنْ أَنَسٍ رضي الله عنه قَالَ: ذُکِرَ لِي أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ: وَلَمْ أَسْمَعْهُ مِنْهُ: إِنَّ فِيْکُمْ قَوْمًا يَعْبُدُوْنَ وَيَدْأَبُوْنَ حَتَّى يُعْجَبَ بِهِمُ النَّاسُ وَتُعْجِبَهُمْ نُفُوْسُهُمْ يَمْرُقُونَ مِنَ الدِّيْنِ مُرُوْقَ السَّهْمِ مِنَ الرَّمِيَةِ.

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَرِجَالُهُ رِجَالُ الصَّحِيْحِ.

الحديث رقم 23: أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 3 / 183، الرقم: 12909، والهيثمي في مجمع الزوائد، 6 / 229، وقال: رواه أحمد ورجاله رجال الصحيح.

’’حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ مجھے بتایا گیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے اور میں نے خود یہ آپ ﷺ سے نہیں سنا، آپ ﷺ نے فرمایا: بیشک تم میں ایسے لوگ ہوں گے جو عبادت کریں گے اور اپنی عبادت میں تندہی سے کام لیں گے یہاں تک کہ وہ لوگوں کو بھلے لگیں گے اور وہ خود بھی اپنے آپ (اور اپنی نمازوں) پر اترائیں گے حالانکہ وہ دین سے اس طرح خارج ہوں گے جس طرح کہ تیر شکار سے خارج ہو جاتا ہے۔‘‘

92 / 24. عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ رِبَاحِ الْأَنْصَارِيِّ رضي الله عنه قَالَ: سَمِعْتُ کَعْبًا رضي الله عنه يَقُوْلُ: لِلشَّهِيْدِ نُوْرٌ وَلِمَنْ قَاتَلَ الْحَرُوْرِيَةَ عَشْرَةُ أَنْوَارٍ (وفي رواية ابن أبي شيبة: فَضْلُ ثَمَانِيَةِ أَنْوَارٍ عَلىٰ نُوْرِ الشُّهَدَاءِ) وَکَانَ يَقُوْلُ لِجَهَنَّمَ سَبْعَةُ أَبْوَابٍ ثَلَاثَةٌ مِنْهَا لِلْحَرُوْرِيَةِ. رَوَاهُ عَبْدُ الرَّزَّاقِ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ.

الحديث رقم 24: أخرجه عبد الرزاق في المصنف، 10 / 155، وابن أبي شيبة في المصنف، 7 / 557، الرقم: 37911.

’’حضرت عبداللہ بن رباح انصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت کعب رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا کہ شہید کے لئے ایک نور ہو گا اور اس شخص کے لئے جو حروریہ (خوارج) کے ساتھ قتال کرے گا دس نور ہوں گے (اور ابن ابی شیبہ کی روایت میں ہے: (دیگر) شہداء کے نور کے مقابلہ میں وہ نور آٹھ گنا زیادہ فضیلت رکھتا ہو گا۔) اور آپ یہ بھی فرمایا کرتے تھے کہ جہنم کے سات دروازے ہیں ان میں سے تین حروریہ (خوارج) کے لئے (مختص) ہیں۔

93 / 25. عَنْ حُذَيْفَةَ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: إِنَّ مَا أَتَخَوَّفُ عَلَيْکُمْ رَجُلٌ قَرَأَ الْقُرْآنَ حَتَّى إِذَا رُئِيَتْ بَهْجَتُهُ عَلَيْهِ وَکَانَ رِدْئًا لِلْإِسْلَامِ غَيْرَهُ إِلىٰ مَاشَاءَ اللهُ فَانْسَلَخَ مِنْهُ وَ نَبَذَهُ وَرَاءَ ظُهْرِهِ وَ سَعَي عَلىٰ جَارِهِ بِالسَّيْفِ وَرَمَاهُ بِالشِّرْکِ قَالَ: قُلْتُ: يَا نَبِيَّ اللهِ، أَيُّهُمَا أَوْلَي بِالشِّرْکِ الْمَرْمِيُّ أَمِ الرَّامِي قَالَ: بَلِ الرَّامِي.

رَوَاهُ ابْنُ حِبَّانَ وَالْبَزَّارُ وَالْبُخَارِيُّ فِي الْکَبِيْرِ، إِسْنَادُهُ حَسَنٌ.

الحديث رقم 25: أخرجه ابن حبان في الصحيح، 1 / 282، الرقم: 81، والبزار في المسند، 7 / 220، الرقم: 2793، والبخاري في التاريخ الکبير، 4 / 301، الرقم: 2907، والطبراني عن معاذ بن جبل رضي الله عنه في المعجم الکبير، 20 / 88، الرقم: 169، وفي مسند الشاميين، 2 / 254، الرقم: 1291، وابن أبي عاصم في السنة، 1 / 24، الرقم: 43، والهيثمي في مجمع الزوائد، 1 / 188، وقال: إسناده حسن، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 2 / 266.

’’حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: بیشک مجھے جس چیز کا تم پر خدشہ ہے وہ ایک ایسا آدمی ہے جس نے قرآن پڑھا یہاں تک کہ جب اس پر اس قرآن کا جمال دیکھا گیا اور وہ اس وقت تک جب تک اللہ نے چاہا اسلام کی خاطر دوسروں کی پشت پناہی بھی کرتا تھا۔ پس وہ اس قرآن سے دور ہو گیا اور اس کو اپنی پشت پیچھے پھینک دیا اور اپنے پڑوسی پر تلوار لے کر چڑھ دوڑا اور اس پر شرک کا الزام لگایا، راوی بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے نبی! ان دونوں میں سے کون زیادہ شرک کے قریب تھا شرک کا الزام لگانے والا یا جس پر شرک کا الزام لگایا گیا آپ ﷺ نے فرمایا: شرک کا الزام لگانے والا۔‘‘

94 / 26. عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضي الله عنهما قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللهَ ﷺ عِنْدَ حُجْرَةِ عَائِشَةَ رضي الله عنها يَدْعُوْ: اَللَّهُمَّ بَارِکْ لَنَا فِي مُدِّنَا وَبَارِکْ لَنَا فِي صَاعِنَا وَ بَارِکْ لَنَا فِي شَامِنَا وَ يَمَنِنَا ثُمَّ اسْتَقْبَلَ الْمَشْرِقَ فَقَالَ: مِنْ هَاهُنَا يَخْرُجُ قَرْنُ الشَّيْطَانِ وَالزَّلَازِلُ وَالْفِتَنُ وَمِنْ هَاهُنَا الْفَدَّادُوْنَ.

رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.

الحديث رقم 26: أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 7 / 252، الرقم: 7421، وأبونعيم في المسند المستخرج، 4 / 44، الرقم: 3183.

’’حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم ﷺ کو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ کے حجرہ کے قریب دعا کرتے ہوئے سنا، آپ ﷺ فرما رہے تھے: ’’اے اللہ! ہمارے مد اور ہمارے صاع (مد اور صاع غلہ ماپنے کے دو آلے ہیں) میں برکت ڈال اور ہمارے شام اور یمن میں برکت عطا فرما، پھر آپ ﷺ مشرق رخ ہو گئے اور فرمایا: یہاں سے شیطان کا سینگ نکلے گا اور (یہیں سے) زلزلے اور فتنے ظاہر ہوں گے اور یہیں سے سخت گفتار، تکبر کے ساتھ چلنے والے (لوگ ظاہر) ہوں گے۔‘‘

95 / 27. عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ رضي الله عنهم قَالَ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ يَقُوْلُ: سَيَخْرُجُ أُنَاسٌ مِنْ أُمَّتِي مِنْ قِبَلِ الْمَشْرِقِ يَقْرَءُوْنَ الْقُرْآنَ لَا يُجَاوِزُ تَرَاقِيَهُمْ کُلَّمَا خَرَجَ مِنْهُمْ قَرْنٌ قُطِعَ کُلَّمَا خَرَجَ مِنْهُمْ قَرْنٌ قُطِعَ حَتَّى عَدَّهَا زِيَادَةً عَلىٰ عَشْرَةِ مَرَّاتٍ کُلَّمَا خَرَجَ مِنْهُمْ قَرْنٌ قُطِعَ حَتَّى يَخْرُجُ الدَّجَّالَ فِي بَقِيَتِهِمْ. رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالْحَاکِمُ.

الحديث رقم 27: أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 2 / 198، الرقم: 6871، والحاکم في المستدرک، 4 / 533، الرقم: 8497، وابن حماد في الفتن، 2 / 532، وابن راشد في الجامع، 11 / 377، والآجري في الشريعة، 1 / 113، الرقم: 260، والهيثمي في مجمع الزوائد، 6 / 228.

’’حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنھم روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: میری امت میں مشرق کی جانب سے کچھ ایسے لوگ نکلیں گے جو قرآن پڑھتے ہوں گے لیکن وہ ان کے حلق سے نہیں اترے گا اور ان میں سے جو بھی (شیطان کے) سینگ کی (صورت) میں نکلے گا وہ کاٹ دیا جائے گا۔ ان میں سے جو بھی (شیطان کے) سینگ کی صورت میں نکلے گا کاٹ دیا جائے گا یہاں تک کہ آپ ﷺ نے یوں ہی دس دفعہ سے بھی زیادہ بار دہرایا اور فرمایا: ان میں جو بھی (شیطان کے) سینگ کی صورت میں ظاہر ہو گا کاٹ دیا جائے گا یہاں تک کہ ان ہی کی باقی ماندہ نسل سے دجال نکلے گا۔‘‘

96 / 28. عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو رضي الله عنهما قَالَ: يَأْتِي عَلىٰ النَّاسِ زَمَانٌ يَجْتَمِعُوْنَ وَيُصَلُّوْنَ فِي الْمَسَاجِدِ وَلَيْسَ فِيْهِمْ مُؤْمِنٌ.

رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَالْحَاکِمُ.

وَ قَالَ الْحَاکِمُ: هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ عَلىٰ شَرْطِ الشَّيْخَيْنِ.

الحديث رقم 28: أخرجه ابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 163، الرقم: 30355، 7 / 505، الرقم: 37586، والحاکم في المستدرک، 4 / 489، الرقم: 8365، والديلمي في مسند الفردوس، 5 / 441، الرقم: 8086، وأبو المحاسن في معتصر المختصر، 2 / 266، والفريابي في صفة المنافق، 1 / 80، الرقم: 108.110.

’’حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ وہ مساجد میں جمع ہوں گے اور نمازیں ادا کریں گے لیکن ان میں سے مومن کوئی نہیں ہو گا۔‘‘

97 / 29. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه يَقُوْلُ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: يَخْرُجُ فِي آخِرِ الزَّمَانِ رِجَالٌ يَخْتِلُوْنَ الدُّنْيَا بِالدِّيْنِ يَلْبَسُوْنَ لِلنَّاسِ جُلُوْدَ الضَّأْنِ مِنَ الِلّيْنِ، أَلْسِنَتُهُمْ أَحْلَي مِنَ السُّکْرِ (وفي رواية: أَلْسِنَتُهُمْ أَحْلَي مِنَ الْعَسَلِ) وَقُلُوْبُهُمْ قُلُوْبُ الذِّئَابِ، يَقُوْلُ اللهُ عزوجل: أَبِي يَغْتَرُّوْنَ أَمْ عَلَيَّ يَجْتَرِئُوْنَ؟ فَبِي حَلَفْتُ لَأَبْعَثَنَّ عَلىٰ أُوْلَئِکَ مِنْهُمْ فِتْنَةً تَدَعُ الْحَلِيْمَ مِنْهُمْ حَيْرَانًا. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ.

وَ قَالَ أَبُوْعِيْسَي: هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ.

الحديث رقم 29: أخرجه الترمذي في السنن، کتاب: الزهد عن رسول اللہ ﷺ، باب: (59)، 4 / 604، الرقم: 2404 - 2405، وابن أبي شيبة في المصنف، 7 / 235، الرقم: 35624، والبيهقي في شعب الإيمان، 5 / 362، الرقم: 6956، والطبراني في المعجم الأوسط، 8 / 379، وابن المبارک في الزهد، 1 / 17، الرقم: 50، والديلمي في مسند الفردوس، 5 / 510، الرقم: 8919، والمنذري في الترغيب والترهيب، 1 / 32، الرقم: 41، وابن هناد في الزهد، 2 / 437، الرقم: 860.

’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: آخری زمانہ میں کچھ لوگ پیدا ہوں گے جو دنیا کو دین کے ذریعے حاصل کریں گے، لوگوں کے سامنے بھیڑ کی کھالوں کا نرم لباس پہنیں گے۔ ان کی زبانیں شکر سے زیادہ شیریں ہوں گی (ایک روایت میں ہے کہ شہد سے بھی زیادہ میٹھی ہوں گی) اور ان کے دل بھیڑیوں کے دلوں کی طرح (خونخوار) ہوں گے۔ اللہ عزوجل فرماتا ہے: ’’کیا یہ لوگ مجھے دھوکہ دینا چاہتے ہیں یا مجھ پر دلیری کرتے ہیں؟ (کہ مجھ سے نہیں ڈرتے؟) مجھے اپنی (ذات کی) قسم! جو لوگ ان میں سے ہوں گے۔ میں ضرور ان پر ایسے فتنے بھیجوں گا جو ان میں سے بردبار لوگوں کو بھی حیران کردیں گے۔‘‘

98 / 30. عَنْ أَبِي بَکْرَةَ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: سَيَخْرُجُ قَوْمٌ أَحْدَاثٌ أَحِدَّاءُ أَشِدَّاءُ ذَلِقَةٌ أَلْسِنَتُهُمْ بِالْقُرْآنِ يَقْرَءُوْنَهُ لاَ يُجَاوِزُ تَرَاقِيَهُمْ. فَإِذَا لَقِيْتُمُوْهُمْ فَأَنِيْمُوْهُمْ ثُمَّ إِذَا لَقِيْتُمُوْهُمْ فَاقْتُلُوْهُمْ فَإِنَّهُ يُؤْجَرُ قَاتِلُهُمْ. رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالْحَاکِمُ وَابْنُ أَبِي عَاصِمٍ.

رِجَالُ أَحْمَدُ رِجَالُ الصَّحِيْحِ، وَقَالَ ابْنُ أَبِي عَاصِمٍ: إِسْنَادُهُ صَحِيْحٌ، وَقَالَ الْحَاکِمُ: هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ.

الحديث رقم 30: أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 5 / 36، 44، والحاکم في المستدرک، 2 / 159، الرقم: 2645، وابن أبي عاصم في السنة، 2 / 456، الرقم: 937، وعبد اللہ بن أحمد في السنة، 2 / 637، الرقم: 1519، وقال: إسناده حسن، والبيهقي في السنن الکبري، 8 / 187، والديلمي في مسند الفردوس، 2 / 322، الرقم: 3460، والهيثمي في مجمع الزوائد، 6 / 230، والحارث في المسند، (زوائد الهيثمي)، 2 / 714، الرقم: 704.

’’حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ نے روایت کی کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: عنقریب نو عمر لوگ نکلیں گے جو کہ نہایت تیز طرار اور قرآن کو نہایت فصاحت و بلاغت سے پڑھنے والے ہوں گے وہ قرآن پڑھیں گے لیکن وہ ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا۔ سو جب تم ان سے ملو تو انہیں قتل کر دو پھر جب (ان کا کوئی دوسرا گروہ نکلے اور) تم انہیں ملو تو انہیں بھی قتل کر دو یقیناً ان کے قاتل کو اجر عطا کیا جائے گا۔‘‘

99 / 31. عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رضي الله عنه أَنَّ أَبَابَکْرٍ رضي الله عنه جَاءَ إِلىٰ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ، فَقَالَ: يَارَسُوْلَ اللهِ، إِنِّي مَرَرْتُ بِوَادٍ کَذَا وَکَذَا فَإِذَا رَجُلٌ مُتَخَشِّعٌ، حَسَنُ الْهَيْئَةِ، يُصَلِّي فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ ﷺ: اِذْهَبْ إِلَيْهِ، فَاقْتُلْهُ، قَالَ: فَذَهَبَ إِلَيْهِ أَبُوْبَکْرٍ، فَلَمَّا رَآهُ عَلىٰ تِلْکَ الْحَالِ کَرِهَ أَنْ يَقْتُلَهُ، فَرَجَعَ إِلىٰ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ، قَالَ: فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ لِعُمَرَ: اِذْهَبْ فَاقْتُلْهُ فَذَهَبَ عُمَرُ فَرَآهُ عَلىٰ تِلْکَ الْحَالِ الَّتِي رَآهُ أَبُوْبَکْرٍ قَالَ: فَکَرِهَ أَنْ يَقْتُلَهُ، قَالَ: فَرَجَعَ فَقَالَ: يَارَسُوْلَ اللهِ، إِنِّي رَأَيْتُهُ يُصَلِّي مُتَخَشِّعًا فَکَرِهْتُ أَنْ أَقْتُلَهُ، قَالَ: يَا عَلِيُّ! اِذْهَبْ فَاقْتُلْهُ، قَالَ: فَذَهَبَ عَلِيٌّ، فَلَمْ يَرَهُ فَرَجَعَ عَلِيٌّ، فَقَالَ: يَارَسُوْلَ اللهِ، إِنَّهُ لَمْ يَرَهْ، قَالَ: فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ: إِنَّ هَذَا وَأَصْحَابَهُ يَقْرَءُوْنَ الْقُرْآنَ لاَ يُجَاوِزُ تَرَاقِيَهُمْ، يَمْرُقُوْنَ مِنَ الدِّيْنِ کَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَةِ ثُمَّ لاَ يَعُوْدُوْنَ فِيْهِ حَتَّى يَعُوْدَ السَّّهْمُ فِي فُوْقِهِ فَاقْتُلُوْهُمْ هُمْ شَرُّالْبَرِيَةِ. رَوَاهُ أَحْمَدُ. وَرِجَالُهُ ثِقَاتٌ.

الحديث رقم 31: أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 3 / 15، الرقم: 11133، والهيثمي في مجمع الزوائد، 6 / 225، وقال: رجاله ثقات، والعسقلاني في فتح الباري، 12 / 229، وابن حزم في المحلي، 11 / 104، والشوکاني في نيل الأوطار، 7 / 351.

’’حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہو کر عرض کیا: یارسول اللہ! میں فلاں فلاں وادی سے گزرا تو میں نے ایک نہایت متواضع ظاہراً خوبصورت دکھائی دینے والے شخص کو نماز پڑھتے دیکھا۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے ان سے فرمایا: اس کے پاس جا کر اسے قتل کردو۔ راوی نے کہا کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ اس کی طرف گئے تو انہوں نے جب اسے اس حال میں (نہایت خشوع سے نماز پڑھتے) دیکھا تو اسے قتل کرنا مناسب نہ سمجھا اور حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں (اسے بغیر قتل کئے) لوٹ آئے راوی نے کہا پھر حضور نبی اکرم ﷺ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے فرمایا: جاؤ اسے قتل کرو، حضرت عمر گئے اور انہوں نے بھی اسے اسی حالت میں دیکھا جیسے کہ حضرت ابوبکر نے دیکھا تھا۔ انہوں نے بھی اس کے قتل کو ناپسند کیا۔ بیان کیا کہ وہ بھی لوٹ آئے۔ اور عرض کیا: یارسول اللہ! میں نے اسے نہایت خشوع و خضوع سے نماز پڑھتے دیکھا تو (اس حالت میں) اسے قتل کرنا پسند نہ کیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اے علی! جاؤ اسے قتل کر دو بیان کیا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ تشریف لے گئے، تو انہیں وہ نظر نہ آیا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ لوٹ آئے، پھر عرض کیا: یا رسول اللہ! وہ کہیں دکھائی نہیں دیا۔ بیان کیا کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: یقینا یہ اور اس کے ساتھی قرآن پڑھیں گے لیکن وہ ان کے گلوں سے نیچے نہیں اترے گا، وہ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے نکل جاتا ہے پھر وہ اس میں پلٹ کر نہیں آئیں گے یہاں تک کہ تیر پلٹ کر کمان میں نہ آجائے (یعنی ان کا پلٹ کر دین کی طرف لوٹنا ناممکن ہے) سو تم انہیں (جب بھی پاؤ) قتل کر دو وہ بدترین مخلوق ہیں۔‘‘

100 / 32. عَنْ أَبِي بَکْرَةَ رضي الله عنه أَنَّ نَبِيَّ اللهِ ﷺ مَرَّ بِرَجُلٍ سَاجِدٍ وَهُوَ يَنْطَلِقُ إِلىٰ الصَّلَاةِ فَقَضَي الصَّلَاةَ وَرَجَعَ عَلَيْهِ وَهُوَ سَاجِدٌ فَقَامَ النَّبِيُّ ﷺ، فَقَالَ: مَنْ يَقْتُلُ هَذَا؟ فَقَامَ رَجُلٌ فَحَسَرَ عَنَ يَدَيْهِ فَاخْتَرَطَ سَيْفَهُ وَهَزَّهُ ثُمَّ قَالَ: يَانَبِيَّ اللهِ، بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي، کَيْفَ أَقْتُلُ رَجُلاً سَاجِدًا يَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلاَّ اللهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُوْلُهُ؟ ثُمَّ قَالَ: مَنْ يَقْتُلُ هَذَا؟ فَقَامَ رَجُلٌ، فَقَالَ: أَنَا فَحَسَرَ عَنْ ذِرَاعَيْهِ وَاخْتَرَطَ سَيْفَهُ وَهَزَّهُ حَتَّى أَرْعَدَتْ يَدُهُ، فَقَالَ: يَانَبِيَّ اللهِ، کَيْفَ أَقْتُلُ رَجُلاً سَاجِدًا يَشْهَدُ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُوْلُهُ؟ فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ: وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ، لَوْ قَتَلْتُمُوْهُ لَکَانَ أَوَّلَ فِتْنَةٍ وَآخِرَهَا.

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَابْنُ أَبِي عَاصِمٍ.

إِسْنَادُهُ صَحِيْحٌ وَرِجَالُهُ کُلُّهُمْ ثِقَاتٌ کَمَا قَالَ ابْنُ أَبِي عَاصِمٍ وَالْهَيْثَمِيُّ.

الحديث رقم 32: أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 5 / 42، الرقم: 19536، وابن أبي عاصم في السنة، 2 / 457، الرقم: 938، والهيثمي في مجمع الزوائد، 6 / 225، وقال: رواه أحمد والطبراني ورجال أحمد رجال الصحيح، والحارث في المسند (زوائد الهيثمي) 2 / 713، الرقم: 703، وابن رجب فيجامع العلوم والحکم 1 / 131.

’’حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ ایک شخص کے پاس سے گزرے جو حالت سجدہ میں تھا۔ اور آپ ﷺ نماز کے لئے تشریف لے جا رہے تھے، آپ ﷺ نے نماز ادا کی اور اس کی طرف لوٹے اور وہ اس وقت بھی (حالتِ) سجدہ میں تھا، حضور نبی اکرم ﷺ کھڑے ہوگئے پھر فرمایا: کون اسے قتل کرے گا؟ تو ایک آدمی کھڑا ہوا اس نے اپنے بازو چڑھائے تلوار سونتی اور اسے لہرایا (اس کی طرف دیکھا تو اس کی ظاہری دینی وضع قطع کو دیکھ کر متاثر ہو گیا) پھر عرض کیا: یا نبی اللہ! میرے ماں باپ آپ پر قربان! میں کیسے اس شخص کو قتل کر دوں جو حالتِ سجدہ میں ہے اور گواہی دیتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور بے شک محمد ﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں؟ پھر آپ ﷺ نے فرمایا: کون اسے قتل کرے گا؟ تو ایک شخص کھڑا ہوا، عرض کیا: میں، تو اس نے اپنے بازو چڑھائے اور اپنی تلوار سونتی اور اسے لہرایا (اسے قتل کرنے ہی لگا تھا) کہ اس کے ہاتھ کانپے، عرض کیا: اے اللہ کے نبی! میں کیسے ایسے شخص کو قتل کروں جو حالت سجدہ میں گواہی دیتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور بے شک محمد ﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں؟ تو حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں محمد ﷺ کی جان ہے! اگر تم اسے قتل کر دیتے تو وہ فتنہ کا اول و آخر تھا (یعنی یہ فتنہ خارجیت اسی پر ختم ہوجاتا)۔‘‘

101 / 33. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضي الله عنه قَالَ: کَانَ فِي عَهْدِ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ رَجُلٌ يُعْجِبُنَا تَعَبُّدُهُ وَاجْتِهَادُهُ (وفي رواية: حَتَّى جَعَلَ بَعْضُ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّ لَهُ فَضْلًا عَلَيْهِمْ) قَدْ عَرَّفْنَاهُ لِرَسُوْلِ اللهِ ﷺ بِاسْمِهِ وَ وَصَّفْنَاهُ بِصِفَتِهِ فَبَيْنَمَا نَحْنُ نَذْکُرُهُ إِذْ طَلَعَ الرَّجُلُ قُلْنَا: هُوَ، هَذَا. قَالَ: إِنَّکُمْ لَتُخْبِرُوْنَ عَنْ رَجُلٍ إِنَّ عَلىٰ وَجْهِهِ سُفْعَةً مِنَ الشَّيْطَانِ فَأَقْبَلَ حَتَّى وَقَفَ عَلَيْهِمْ وَ لَمْ يُسَلِّمْ، فَقَالَ لَهُ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: أَنْشُدُکَ بِاللهِ، هَلْ قُلْتَ فِي نَفْسِکَ حِيْنَ وَقَفْتَ عَلىٰ الْمَجْلِسِ مَا فِي الْقَوْمِ أَحَدٌ أَفْضَلُ أَوْ أَخْيَرُ مِنِّي؟ قَالَ: اَللَّهُمَّ نَعَمْ، ثُمَّ دَخَلَ يُصَلِّي (وفي رواية: ثُمَّ انْصَرَفَ فَأَتَي نَاحِيَةً مِنَ الْمَسْجِدِ فَخَطَّ خَطًّا بِرِجْلِهِ ثُمَّ صَفَّ کَعْبَيْهِ فَقَامَ يُصَلِّي) فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: مَنْ يَقْتُلُ الرَّجُلَ؟ فَقَالَ أَبُوْبَکْرٍ: أَنَا فَدَخَلَ عَلَيْهِ فَوَجَدَهُ يُصَلِّي فَقَالَ: سُبْحَانَ اللهِ أَقْتُلُ رَجُلًا يُصَلِّي؟ وَقَدْ نَهَي رَسُوْلُ اللهِ ﷺ عَنْ ضَرْبِ الْمُصَلِّيْنَ فَخَرَجَ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: مَا فَعَلْتَ؟ قَالَ: کَرِهْتُ أَنْ أَقْتُلَهُ وَهُوَ يُصَلِّي وَقَدْ نَهَيْتَ عَنْ ضَرْبِ الْمُصَلِّيْنَ. قَالَ: مَنْ يَقْتُلُ الرَّجُلَ؟ قَالَ عُمَرُ: أَنَا، فَدَخَلَ فَوَجَدَهُ وَاضِعًا وَجْهَهُ، قَالَ عُمَرُ: أَبُوبَکْرٍ أَفْضَلُ مِنِّي، فَخَرَجَ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: مَا فَعَلْتَ؟ قَالَ: وَجَدْتُهُ وَاضِعًا وَجْهَهُﷲِ فَکَرِهْتُ أَنْ أَقْتُلَهُ. قَالَ: مَنْ يَقْتُلُ الرَّجُلَ؟ فَقَالَ عَلِيٌّ: أَنَا، قَالَ: أَنْتَ لَهُ إِنْ أَدْرَکْتَهُ. قَالَ: فَدَخَلَ عَلَيْهِ فَوَجَدَهُ قَدْ خَرَجَ فَرَجَعَ إِلىٰ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ فَقَالَ: مَا فَعَلْتَ؟ قَالَ: وَجَدْتُهُ وَقَدْ خَرَجَ قَالَ: لَوْ قُتِلَ مَا اخْتَلَفَ فِي أُمَّتِي رَجُلَانِ کَانَ أَوَّلُهُمْ وَآخِرُهُمْ. قَالَ مُوْسَي: سَمِعْتُ مُحَمَّدَ بْنَ کَعْبٍ يَقُوْلُ: هُوَ الَّذِي قَتَلَهُ عَلِيٌّ رضي الله عنه ذَا الثَّدْيَةِ.

وفي رواية: فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ: هَذَا أَوَّلُ قَرْنٍ مِنَ الشَّيْطَانِ طَلَعَ فِي أُمَّتِي (أَوْ أَوَّلُ قَرْنٍ طَلَعَ مِنْ أُمَّتِي) أَمَّا إِنَّکُمْ لَوْ قَتَلْتُمُوهُ مَا اخْتَلَفَ مِنْکُمْ رَجُلَانِ، إِنَّ بَنِي إِسْرَائِيْلَ اخْتَلَفُوْا عَلىٰ إِحْدَي أَوِ اثْنَتَيْنِ وَسَبْعِيْنَ فِرْقَةً، وَإِنَّکُمْ سَتَخْتَلِفُوْنَ مِثْلَهُمْ أَوْ أَکْثَرَ، لَيْسَ مِنْهَا صَوَابٌ إِلَّا وَاحِدَةٌ. قِيْلَ: يَا رَسُوْلَ اللهِ، وَمَا هَذِهِ الْوَاحِدَةُ؟ قَالَ: الْجَمَاعَةُ، وَآخِرُهَا فِي النَّارِ.

رَوَاهُ أَبُوْيَعْلَي وَعَبْدُ الرَّزَّاقِ وَأَبُوْنُعَيْمٍ.

وَرِجَالُهُ رِجَالُ الصَّحِيْحِ کَمَا قَالَ الْهَيْثَمِيُّ. وَإِسْنَادُهُ صَحِيْحٌ.

الحديث رقم 33: أخرجه أبويعلي في المسند، 1 / 90، الرقم: 90، 7 / 155، 168، الرقم: 4143، 4127، وعبد الرزاق في المصنف، 10 / 155، الرقم: 18674، وأبونعيم فيحلية الأولياء، 3 / 52، والمروزي في السنة، 1 / 21، الرقم: 53، والمقدسي في الأحاديث المختارة، 17 / 69، الرقم: 2499، والهيثمي في مجمع الزوائد، 6 / 226.

’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے فرمایا کہ حضور نبی اکرم ﷺ کے زمانہ مبارک میں ایک شخص تھا جس کی عبادت گزاری اور مجاہدہ نے ہمیں حیرانگی میں مبتلا کیا ہوا تھا۔ (اور ایک روایت میں یہاں تک ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ کے صحابہ کرام میں سے بعض اسے خود سے بھی افضل گرداننے لگے تھے) ہم نے رسول اللہ ﷺ کے سامنے اس کا نام اور اس کی صفات بیان کرکے اس کا تعارف کرایا۔ ایک دفعہ ہم اس کا ذکر کر رہے تھے کہ وہ شخص آ گیا۔ ہم نے عرض کیا: (یا رسول اللہ!) وہ شخص یہ ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: بیشک تم جس شخص کی خبریں دیتے تھے یقیناً اس کے چہرے پر شیطانی رنگ ہے سو وہ شخص قریب آیا یہاں تک کہ ان کے پاس آ کر کھڑا ہو گیا اور اس نے سلام بھی نہیں کیا۔ تو حضور نبی اکرم ﷺ نے اسے فرمایا: میں تجھے اللہ کی قسم دیتا ہوں (کہ سچ بتانا) جب تو مجلس کے پاس کھڑا تھا تو نے اپنے دل میں یہ نہیں کہا تھا کہ ان لوگوں میں مجھ سے افضل یا مجھ سے زیادہ برگزیدہ شخص کوئی نہیں؟ اس نے کہا: اللہ کی قسم! ہاں (میں نے کہا تھا)۔ پھر وہ (مسجد میں) داخل ہوا نماز پڑھنے لگا۔ (اور ایک روایت میں ہے کہ پھر وہ شخص مڑا مسجد کے صحن میں آیا، نماز کی تیاری کی، ٹانگیں سیدھی کیں اور نماز پڑھنے لگا) تو حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اس شخص کو کون قتل کرے گا؟ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: میں کروں گا سو وہ اس کے پاس گئے تو اسے نماز پڑھتے ہوئے پایا کہنے لگے۔ سبحان اللہ میں نماز پڑھتے شخص کو (کیسے) قتل کروں؟ جبکہ حضور نبی اکرم ﷺ نے نمازیوں کو قتل کرنے سے منع فرمایا ہے تو وہ (اسے قتل کئے بغیر) باہر نکل گئے۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: تو نے کیا کیا ؟ عرض کیا: میں نے اس حالت میں کہ وہ نماز پڑھ رہا تھا اسے قتل کرنا ناپسند کیا جبکہ آپ ﷺ نے نمازیوں کو قتل کرنے سے منع کیا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اس شخص کو کون قتل کرے گا؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: میں کروں گا سو وہ اس کے پاس گئے تو اسے اللہ عزوجل کی بارگاہ میں چہرہ جھکائے دیکھا۔ حضرت عمر نے کہا: حضرت ابوبکر مجھ سے افضل ہیں لہٰذا وہ بھی (اسے قتل کئے بغیر) باہر نکل گئے۔ تو حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: تو نے کیا کیا؟ عرض کیا: میں نے اسے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں سر جھکائے دیکھا تو (اس حالت میں) اسے قتل کرنا نا پسند کیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: کون اس شخص کو قتل کرے گا؟ تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: میں کروں گا، آپ ﷺ نے فرمایا: تم ہی اس کے (قتل کے) لئے ہو اگر تم نے اسے پالیا تو (تم ضرور اسے قتل کر لو گے) راوی نے بیان کیا کہ وہ اندر اس کے پاس گئے تو دیکھا کہ وہ چلا گیا تھا وہ حضور نبی اکرم ﷺ کے پاس لوٹ آئے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: تو نے کیا کیا؟ حضرت علی نے عرض کیا: میں نے دیکھا تو وہ چلا گیا تھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اگر وہ قتل کر دیا جاتا تو میری امت میں دو آدمیوں میں بھی کبھی اختلاف نہ ہوتا وہ (فتنہ میں) ان کا اول و آخر تھا۔ حضرت موسیٰ نے بیان کیا میں نے حضرت محمد بن کعب رضی اللہ عنہ سے سنا: فرماتے ہیں: وہ وہی پستان (کے مشابہ ہاتھ) والا شخص تھا جسے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے قتل کیا تھا۔‘‘

اور ایک روایت میں ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: یہ شیطان کا پہلا سینگ ہے جو میری امت میں ظاہر ہوگا (یا پہلا سینگ ہے جو میری امت میں ظاہر ہوا) جبکہ اگر تم اسے قتل کر دیتے تو تم میں سے دو آدمیوں میں کبھی اختلاف نہ ہوتا۔ بے شک بنی اسرائیل میں اختلاف سے وہ اکتہر یا بہتر فرقوں میں بٹ گئے اور تم عنقریب اتنے ہی یا اس سے بھی زیادہ فرقوں میں بٹ جاؤ گے ان میں سے کوئی راہ راست پر نہیں ہوگا سوائے ایک کے، عرض کیا گیا: یا رسول اللہ! وہ ایک فرقہ کون سا ہوگا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: جماعت (سب سے بڑا گروہ) اس کے علاوہ دوسرے سب آگ میں جائیں گے۔‘‘

102 / 34. عَنْ طَارِقِ بْنِ زِيَادٍ قَالَ: خَرَجْنَا مَعَ عَلِيٍّ رضي الله عنه إِلىٰ الْخَوَارِجِ فَقَتَلَهُمْ، ثُمَّ قَالَ: انْظُرُوْا فَإِنَّ نَبِيَّ اللهِ ﷺ قَالَ: إِنَّهُ سَيَخْرُجُ قَومٌ يَتَکَلَّمُونَ بِالْحَقِّ لاَ يُجَاوِزُ حَلْقَهُمْ، يَخْرُجُوْنَ مِنَ الْحَقِّ کَمَا يَخْرُجُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَةِ... الحديث. رَوَاهُ النَّسَائِيُّ وَأَحْمَدُ.

الحديث رقم 34: أخرجه النسائي في السنن الکبري، 5 / 161، الرقم: 8566، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 / 107، الرقم: 848، وفي فضائل الصحابة، 2 / 714، الرقم: 1224، والخطيب البغدادي في تاريخ بغداد، 14 / 362، الرقم: 7689، والمروزي في تعظيم قدر الصلاة، 1 / 256، الرقم: 247، والمزي في تهذيب الکمال، 13 / 338، الرقم: 2948.

’’حضرت طارق بن زیاد نے بیان کیا کہ ہم حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ خوارج کی طرف (ان سے جنگ کے لیے) نکلے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے انہیں قتل کیا پھر فرمایا: دیکھو بے شک حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: عنقریب ایسے لوگ نکلیں گے کہ حق کی بات کریں گے لیکن وہ ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا وہ حق سے یوں نکل جائیں گے جیسے کہ تیر شکار سے نکل جاتا ہے۔‘‘

103 / 35. عَنْ مِقْسَمٍ أَبِي الْقَاسِمِ مَوْلَي عَبْدِ اللهِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ نَوفَلٍ عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ رضي الله عنهم... فَذَکَرَ الْحَدِيْثَ وَ فِيْهِ: قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: فَإِنَّهُ سَيَکُوْنُ لَهُ شِيَعَةٌ يَتَعَمَّقُوْنَ فِي الدِّيْنِ حَتَّى يَخْرُجُوْا مِنْهُ کَمَا يَخْرُجُ السَّهْمُ مِنَ الرَّّمِيَةِ... وَذَکَرَ تَمَامَ الْحَدِيْثِ. رَوَاهُ أَحْمَدُ وَابْنُ أَبِي عَاصِمٍ.

وَقَالَ ابْنُ أَبِي عَاصِمٍ: إِسْنَادُهُ جَيِدٌ وَرِجَالُهُ کُلُّهُمْ ثِقَاتٌ.

الحديث رقم 35: أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 2 / 219، الرقم: 7038، وابن أبي عاصم في السنة 2 / 453 - 454، الرقم: 929 - 930، وعبد اللہ بن أحمد في السنة، 2 / 631، الرقم: 1504، وابن تيمية في الصارم المسلول، 1 / 237، والعسقلاني في فتح الباري، 12 / 292، والطبري في تاريخ الأمم والملوک، 2 / 176.

’’عبداللہ بن حارث بن نوفل مولی مقسم ابوالقاسم رضی اللہ عنھم نے حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنھم سے روایت کیا کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: عنقریب اس کا ایک گروہ ہو گا جو دین سے (ظاہراً) بہت گہری وابستگی رکھنے والے نظر آئیں گے مگر دین سے یوں نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے نکل جاتا ہے۔ ۔ ۔ پھر مکمل حدیث ذکر کی۔‘‘

104 / 36. عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: سَيَخْرُجُ أَقْوَامٌ مِنْ أُمَّتِي يَشْرَبُوْنَ الْقُرْآنَ کَشُرْبِهِمُ اللَّبَنَ.

رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَرِجَالُهُ ثِقَاتٌ کَمَا قَالَ الْهَيْثَمِيُّ وَالْمَنَاوِيُّ.

الحديث رقم 36: أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 17 / 297، الرقم: 821، والهيثمي في مجمع الزوائد، 6 / 229، والمناوي في فيض القدير، 4 / 118.

’’حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: عنقریب میری امت میں سے ایسے لوگ نکلیں گے جو قرآن کو یوں (غٹ غٹ) پڑھیں گے گویا وہ دودھ پی رہے ہیں۔‘‘

105 / 37. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضي الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ دَخَلَ عَامَ الْفَتْحِ وَعَلىٰ رَأْسِهِ الْمِغْفَرُ فَلَمَّا نَزَعَهُ جَاءَ رَجُلٌ فَقَالَ: إِنَّ ابْنَ خَطَلٍ مُتَعَلِّقٌ بِأَسْتَارِ الْکَعْبَةِ فَقَالَ: اقْتُلُوْهُ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

الحديث رقم 37: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: الحج، باب: دخول الحرم ومکة بغير إحرام، 2 / 655، الرقم: 1749، وفي کتاب: الجهاد والسير، 3 / 1107، الرقم: 2879، وفي کتاب: المغازي، باب: أين رکز النبي ﷺ الرأية يوم الفتح، 4 / 1561، الرقم: 4035، ومسلم في الصحيح، کتاب: الحج، باب: جواز دخول مکة بغير إحرام، 2 / 989، الرقم: 1357، والترمذي في السنن، کتاب: الجهاد عن رسول اللہ ﷺ، باب: ماجاء في المغفر، وقال: هذا حديث حسن صحيح، 4 / 202، الرقم: 1693، وأبوداود في السنن، کتاب: الجهاد، باب: قتل الأسير ولايعرض عليه الإسلام، 3 / 60، الرقم: 2685، والنسائي في السنن، کتاب: مناسک الحج، باب: دخول مکة بغير إحرام، 5 / 200، الرقم: 2867، وفي السنن الکبري، 2 / 382، الرقم: 3850، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 185، 231 - 232، الرقم: 12955، 13437، 13461، 13542، وابن حبان في الصحيح، 9 / 37، الرقم: 3721، والطحاوي في شرح معاني الآثار، 2 / 259، والطبراني في المعجم الأوسط، 9 / 29، الرقم: 9034.

’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ فتح (مکہ) کے سال رسول اللہ ﷺ مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے تو آپ کے سر مبارک پر لوہے کا خود تھا جب آپ ﷺ نے اسے اتارا تو ایک شخص نے آکر عرض کیا: (یا رسول اللہ! آپ کا گستاخ) ابنِ خطل (جان بچانے کے لئے) کعبہ کے پردوں سے لٹکا ہوا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اسے (وہاں بھی) قتل کر دو۔‘‘

106 / 38. عَنْ عُرْوَةَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ رَجُلٍ مِنْ بِلْقِيْنَ: أَنَّ امْرَأَةً کَانَتْ تَسُبُّ النَّبِيَّ ﷺ. فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ: مَنْ يَکْفِيْنِي عَدُوِّي؟ فَخَرَجَ إِلَيْهَا خَالِدُ بْنُ الْوَلِيْدِ رضي الله عنه فَقَتَلَهَا. رَوَاهُ عَبْدُ الرَّزَّاقِ وَالْبَيْهَقِيُّ.

الحديث رقم 38: أخرجه عبد الرزاق في المصنف، 5 / 307، الرقم: 9705، والبيهقي في السنن الکبري، 8 / 202، وابن تيمية في الصارم المسلول، 1 / 140.

’’عروہ بن محمد نے بلقین کے کسی شخص سے روایت کی کہ ایک عورت حضور نبی اکرم ﷺ کو گالیاں دیا کرتی تھی۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: میرے دشمن سے میرا بدلہ کون لے گا؟ تو حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ اس کی طرف گئے اور اسے قتل کر دیا۔‘‘

107 / 39. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما أَنَّ رَجُلًا مِنَ الْمُشْرِکِيْنَ شَتَمَ النَّبِيَّ ﷺ فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ: مَنْ يَکفِيْنِي عَدُوِّي؟ فَقَالَ الزُّبَيْرُ: أَنَا، فَبَارَزَهُ، فَقَتَلَهُ، فَأَعْطَاهُ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ سَلَبَهُ. رَوَاهُ عَبْدُ الرَّزَّاقِ وَأَبُوْنُعَيْمٍ.

الحديث رقم 39: أخرجه عبد الرزاق في المصنف، 5 / 237، 307، الرقم: 9477، 9704، وأبونعيم في حلية الأولياء، 8 / 45، وابن تيمية في الصارم المسلول، 1 / 154.

’’حضرت عبد اللہ بن عباس ر ضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک مشرک شخص نے حضور نبی اکرم ﷺ کو گالیاں دیں۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: کون میرے دشمن سے بدلہ لے گا؟ حضرت زبیر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: میں پھر میدان میں نکل کر اسے قتل کر دیا، حضور نبی اکرم ﷺ نے مقتول کے جسم کا سامان حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کو دے دیا۔‘‘

108 / 40. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: مَنْ بَدَّلَ دِيْنَهُ فَاقْتُلُوْهُ.

رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَالتِّرْمِذِيُّ وَأَبُوْدَاوُدَ وَالنَّسَائِيُّ وَابْنُ مَاجَه وَاللَّفْظُ لَهُمَا.

الحديث رقم 40: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: الجهاد والسير، باب: لا يعذب بعذاب اللہ، 3 / 1098، الرقم: 2854، والترمذي في السنن، کتاب: الحدود عن رسول اللہ ﷺ، باب: ماجاء في المرتد، 4 / 59، الرقم: 1458، وأبوداود في السنن، کتاب: الحدود، باب: الحکم فيمن ارتد، 4 / 126، الرقم: 4351، والنسائي في السنن، کتاب: تحريم الدم، باب: الحکم في المرتد، 7 / 103، الرقم: 4059، وابن ماجه في السنن، کتاب: الحدود، باب: المرتد عن دينه، 2 / 848، الرقم: 2535، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 / 322، الرقم: 2968، وابن حبان في الصحيح، 10 / 327، الرقم: 4475.

’’حضرت ابن عباس رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جو (مسلمان) اپنا دین بدل لے (یعنی اس سے پھر جائے) اسے قتل کر دو۔‘‘

109 / 41. عَنْ عَبْدِالْمَلِکِ عَنْ أَبِي حُرَّةِ أَنَّ عَلِيًا رضي الله عنه لَمَّا بَعَثَ أَبَا مُوْسَيِلإنْفَاذِ الْحَکُوْمَةِ، اجْتَمَعَ الْخَوَارِجُ فِي مَنْزِلِ عَبْدِ اللهِ بْنِ وَهَبِ الرَّاسِبِيِّ مِنْ رُؤُوْسِ الْخَوَارِجٍ، فَخَطَبَهُمْ خُطْبَةً بَلِيْغَةً زَهَدَهُمْ فِي هَذِهِ الدُّنْيَا وَرَغَّبَهُمْ فِي الْآخِرَةِ وَالْجَنَّةِ وَحَثَّهُمْ عَلىٰ الْأَمْرِ بِالْمَعْرُوْفِ وَالنَّهْيِ عَنِ الْمُنْکَرِ ثُمَّ قَالَ: فَاخْرُجُوْا بِنَا إِخْوَانِنَا مِنْ هَذِهِ الْقَرْيَةِ الظَّالِمِ أَهْلُهَا إِلىٰ جَانِبِ هَذَا السَّوَادِ إِلىٰ بَعْضِ کُوَرِ الْجِبَالِ أَوْ بَعْضِ هَذِهِ الْمَدَائِنِ مُنْکَرِيْنَ لِهَذِهِ الْبِدَعٍ الْمُضِلَّةِ... ثُمَّ اجْتَمَعُوْا فِي مَنْزِلِ شُرَيْحِ بْنِ أَوْفَي الْعَبَسِيِّ فَقَالَ ابْنُ وَهَبٍ: اشْخَصُوْا بِنَا إِلىٰ بَلَدَةٍ نَجْتَمِعُ فِيْهَاِلإِنْفَاذِ حُکْمِ اللهِ فَإِنَّکُمْ أَهْلُ الْحَقِّ. رَوَاهُ ابْنُ جَرِيْرٍ وَابْنُ الْأَثِيْرِ وَابْنُ کَثِيْرٍ.

الحديث رقم 41: أخرجه ابن جرير الطبري في تاريخ الأمم والملوک، 3 / 115، وابن الأثير في الکامل، 3 / 213 - 214، وابن کثير في البداية والنهاية، 7 / 285 - 286 وابن الجوزي في المنتظم في تاريخ الملوک والأمم، 5 / 130 - 131.

’’عبدالملک نے ابوحرہ سے روایت بیان کی کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوموسیٰ (اشعری رضی اللہ عنہ) کو (اپنا گورنر بنا کر) نفاذ حکومت کے لئے بھیجا تو خوارج (اپنے سردار) عبداللہ بن وھب راسبی کے گھر میں جمع ہوئے اور اس نے انہیں بلیغ خطبہ دیا جس میں اس نے انہیں اس دنیا سے بے رغبتی اور آخرت اور جنت کی رغبت دلائی اور انہیں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر پر ابھارا پھر کہا: ہمارے لئے ضروری ہے ہم پہاڑوں یا دوسرے شہروں کی طرف نکل جائیں تاکہ ان گمراہ کرنے والی بدعتوں سے ہمارا انکار ثابت ہوجائے۔۔۔ پھر سب شریح بن ابی اوفی عبسی کے گھر جمع ہوئے تو ابن وھب نے کہا: اب کوئی شہر ایسا دیکھنا چاہئے کہ (اسے اپنا مرکز بنا کر) ہم سب اسی میں جمع ہوں اور اللہ تعالیٰ کا حکم جاری کریں کیونکہ اہلِ حق اب تم ہی لوگ ہو۔‘‘

110 / 42. ذکر ابن الأثير في الکامل: خَرَجَ الْأَشْعَثُ بِالْکِتَابِ يَقْرَؤُهُ عَلىٰ النَّاسِ حَتَّى مَرَّ عَلىٰ طَائِفَةٍ مِنْ بَنِي تَمِيْمٍ فِيْهِمْ عُرْوَةُ بْنِ أُدَيَةِ أَخُوْ أَبِي بِلَالٍ فَقَرَأَ عَلَيْهِمْ، فَقَالَ عُرْوَةُ: تَحَکَّمُوْنَ فِي أَمْرِ اللهِ الرِّجَالُ؟ لَا حُکْمَ إِلَّا ِللهِ.

الحديث رقم 42: أخرجه ابن الأثير في الکامل، 3 / 196، وابن الجوزي في المنتظم في تاريخ الملوک والأمم، 5 / 123.

’’امام ابن اثیر نے ’’الکامل‘‘ میں بیان کیا: ’’اشعث بن قیس نے اس عہدنامہ کو (جو حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے درمیان ہوا تھا) لے کر ہر ہر قبیلہ میں لوگوں کو سنانا شروع کیا۔ جب قبیلہ بنی تمیم میں پہنچے تو عروہ بن اُدیہ (خارجی) جو ابوبلال کا بھائی تھا بھی ان میں تھا جب اس نے وہ معاہدہ انہیں سنایا تو عروہ (خارجی) کہنے لگا: اللہ تعالیٰ کے امر میں آدمیوں کو حَکم بناتے ہو؟ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی حُکم نہیں کر سکتا۔‘‘

111 / 43. عَنْ عَلِيٍّ رضي الله عنه أَنَّهُ کَتَبَ إِلىٰ الْخَوَارِجِ بِالنَّهْرِ: بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْمِ، مِنْ عَبْدِ اللهِ عَلِيٍّ أَمِيْرِ الْمُؤْمِنِيْنَ إِلىٰ زَيْدِ بْنِ حُصَينٍ وَ عَبْدِ اللهِ بْنِ وَهَبٍ وَ مَنْ مَعَهُمَا مِنَ النَّاسِ. أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ هَذَيْنِ الرَّجُلَيْنِ اللَّذَيْنِ ارْتَضَيْنَا حَکَمَينِ قَدْ خَالَفَا کِتَابَ اللهِ وَاتَّبَعَا هَوَاهُمَا بِغَيْرِ هُدًي مِنَ اللهِ فَلَمْ يَعْمَلَا بِالسُّنَّةِ وَلَمْ يُنْفَذَا الْقُرْآنَ حُکْمًا فَبَرِيءَ اللهُ مِنْهُمَا وَرَسُوْلُهُ وَالْمُؤْمِنُوْنَ، فَإِذَا بَلَغَکُمْ کِتَابِي هَذَا فَأَقْبِلُوْا إِلَيْنَا فَإِنَّا سَائِرُوْنَ إِلىٰ عَدُوِّنَا وَ عَدُوِّکُمْ وَ نَحْنُ عَلىٰ الْأَمْرِ الْأَوَّلِ الَّذِي کُنَّا عَلَيْهِ.

فَکَتَبُوْا (الخوارج) إِلَيْهِ: أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّکَ لَمْ تَغْضَبْ لِرَبِّکَ وَ إِنَّمَا غَضِبْتَ لِنَفْسِکَ فَإِنْ شَهِدْتَ عَلىٰ نَفْسِکَ بِالْکُفْرِ وَاسْتَقْبَلْتَ التَّوْبَةَ نَظَرْنَا فِيْمَا بِيْنَنَا وَ بَيْنَکَ وَ إِلَّا فَقَدْ نَبَذْنَاکَ عَلىٰ سَوَاءٍ، إِنَّ اللهَ لَا يُحِبُّ الْخَائِنِيْنَ.

فَلَمَّا قَرَأَ کِتَابَهُمْ أَيِسَ مِنْهُمْ وَرَأَي أَنْ يَدَعَهُمْ وَيَمْضِيَ بِالنَّاسِ حَتَّى يَلْقَي أَهْلَ الشَّامِ حَتَّى يَلْقَاهُمْ.

رَوَاهُ ابْنُ جَرِيْرٍ وَابْنُ الْأَثِيْرِ وَابْنُ کَثِيْرٍ.

الحديث رقم 43: أخرجه ابن جرير الطبري في تاريخ الأمم والملوک، 3 / 117، وابن الأثير في الکامل، 3 / 216، وابن کثير في البداية والنهاية، 7 / 287، وابن الجوزي في المنتظم، 5 / 132.

’’حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے خوارج کو نہروان سے خط لکھا: ’’اللہ تعالیٰ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان ہمیشہ رحم فرمانے والا ہے: اللہ تعالیٰ کے بندے امیر المؤمنین علی کی طرف سے زید بن حصین اور عبداللہ بن وھب اور ان کے پیروکاروں کے لئے۔ واضح ہو کہ یہ دو شخص جن کے فیصلہ پر ہم راضی ہوئے تھے انہوں نے کتاب اللہ کے خلاف کیا اور اللہ تعالیٰ کی ہدایت کے بغیر اپنی خواہشات کی پیروی کی۔ جب انہوں نے قرآن و سنت پر عمل نہیں کیا تو اللہ تعالیٰ اور اللہ تعالیٰ کا رسول ﷺ اور سب اہل ایمان ان سے بری ہو گئے۔ تم لوگ اس خط کو دیکھتے ہی ہماری طرف چلے آؤ تاکہ ہم اپنے اور تمہارے دشمن کی طرف نکلیں اور ہم اب بھی اپنی اسی پہلی بات پر ہیں۔

اس خط کے جواب میں انہوں نے (یعنی خوارج نے) حضرت علی رضی اللہ عنہ کو لکھا: ’’واضح ہو کہ اب تمہارا غضب اللہ کے لئے نہیں ہے اس میں نفسانیت شریک ہے اب اگر تم اپنے کفر پر گواہ ہو جاؤ (یعنی کافر ہونے کا اقرار کر لو) اور نئے سرے سے توبہ کرتے ہو تو دیکھا جائے گا ورنہ ہم نے تمہیں دور کر دیا کیونکہ اللہ تعالیٰ خیانت کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا۔‘‘

سو جب حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان کا جوابی خط پڑھا تو ان کے (ہدایت کی طرف لوٹنے سے) مایوس ہوگئے لہٰذا انہیں ان کے حال پر چھوڑنے کا فیصلہ کرکے اپنے لشکر کے ساتھ اہلِ شام سے جا ملے۔‘‘

112 / 44. عَنْ زِيَادِ بْنِ أَبِيْهِ أَنَّ عُرْوَةً بْنَ حُدَيْرٍ (الخارجي) نَجَا بَعْدَ ذَلِکَ مِنْ حَرْبِ النَّهَرْوَانِ وَبَقِيَ إِلىٰ أَيَامِ مُعَاوِيَةَ رضي الله عنه. ثُمَّ أَتَي إِلىٰ زِيَادِ بْنِ أَبِيْهِ وَمَعَهُ مَولَي لَهُ، فَسَأَلَهُ زِيَادُ عَنْ عُثْمَانَ رضي الله عنه، فَقَالَ: کُنْتُ أَوَالِيَ عُثْمَانَ عَلىٰ أَحْوَالِهِ فِي خِلَافَتِهِ سِتَّ سِنِيْنَ. ثُمَّ تَبَرَأْتُ مِنْهُ بِعْدَ ذَلِکَ لِلْأَحْدَاثِ الَّتِي أَحْدَثَهَا، وَشَهِدَ عَلَيْهِ بِالْکُفْرِ. وَسَأَلَهُ عَنْ أَمِيْرِ الْمُؤْمِنِيْنَ عَلِيٍّ رضي الله عنه فَقَالَ: کُنْتُ أَتَوَلَّاهُ إِلىٰ أَنْ حَکَمَ الْحَاکِمِيْنَ، ثُمَّ تَبَرَأْتُ مِنْهُ بَعْدَ ذَلِکَ، وَشَهِدَ عَلَيْهِ بِالْکُفْرِ وَسَأَلَهُ عَنْ مُعَاوِيَةَ رضي الله عنه فَسَبَّهُ سَبًّا قَبِيْحًا... فَأَمَرَ زِيَادُ بِضَرْبِ عُنُقِهِ. رَوَاهُ الشَّهَرَسْتَانِيُّ.

الحديث رقم 44: أخرجه عبدالکريم الشهرستاني في الملل والنحل، 1 / 137.

’’زیاد بن امیہ سے مروی ہے کہ عروہ بن حدیر (خارجی) نہروان کی جنگ سے بچ گیا اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور تک زندہ رہا پھر وہ زیاد بن ابیہ کے پاس لایا گیا اس کے ساتھ اس کا غلام بھی تھا تو زیاد نے اس سے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا حال دریافت کیا؟ اس نے کہا: ابتدا میں چھ سال تک انہیں میں بہت دوست رکھتا تھا پھر جب انہوں نے بدعتیں شروع کیں تو ان سے علیحدہ ہو گیا اس لئے کہ وہ آخر میں (نعوذ باللہ) کافر ہوگئے تھے۔ پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ کا حال پوچھا؟ کہا: وہ بھی اوائل میں اچھے تھے جب حکم بنایا (نعوذ باللہ) کافر ہوگئے۔ اس لئے ان سے بھی علیحدہ ہوگیا۔ پھر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا حال دریافت کیا؟ تو وہ انہیں سخت گالیاں دینے لگا۔۔ ۔ پھر زیاد نے اسکی گردن مارنے کا حکم دے دیا۔‘‘

113 / 45. عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ أَنَّ رَجُلًا وُلِدَ لَهُ غُلَامٌ عَلىٰ عَهْدِ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ فَأَتَي النَّبِيَّ ﷺ فَأَخَذَ بِبَشَرَةِ وَجْهِهِ وَدَعَا لَهُ بِالْبَرَکَةِ قَالَ: فَنَبتَتْ شَعَرَةٌ فِي جَبْهَتِهِ کَهَيْئَةِ الْقَوْسِ وَشَبَّ الْغُلَامُ فَلَمَّا کَانَ زَمَنَ الْخَوَارِجِ أَحَبَّهُمْ فَسَقَطَتِ الشَّعَرَةُ عَنْ جَبْهَتِهِ فَأَخَذَهُ أَبُوْهُ فَقَيَدَهُ وَ حَسَبَهُ مَخَافَةَ أَنْ يَلْحَقَ بِهِمْ قَالَ: فَدَخَلْنَا عَلَيْهِ فَوَعَظْنَاهُ وَقُلْنَا لَهُ فِيْمَا نَقُولُ: أَلَمْ تَرَ أَنَّ بَرَکَةَ دَعْوَةِ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ قَدْ وَقَعَتْ عَنْ جَبْهَتِکَ فَمَا زِلْنَا بِهِ حَتَّى رَجَعَ عَنْ رَأْيِهِمْ فَرَدَّ اللهُ عَلَيْهِ الشَّعَرَةَ بَعْدُ فِي جَبْهَتِهِ وَتَابَ.

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ.

الحديث رقم 45: أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 5 / 456، الرقم: 23856، وابن أبي شيبة في المصنف، 7 / 556، الرقم: 37904، والأصبهاني في دلائل النبوة، 1 / 174، الرقم: 220، والهيثمي في مجمع الزوائد، 6 / 243، 10 / 275، وقال: رواه أحمد والطبراني ورجاله رجال علي ابن زيد وقد وثق، والعسقلاني في الإصابة، 5 / 359، الرقم: 6972.

’’ابو طفیل سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ کے زمانہ میں ایک لڑکا پیدا ہوا وہ حضور نبی اکرم ﷺ کی بارگاہ میں لایا گیا آپ ﷺ نے اسے اس کے چہرے سے پکڑا اور اسے دعا دی اور اس کا یہ اثر ہوا کہ اس کی پیشانی پر خاص طور پر بال اگے جو تمام بالوں سے ممتاز تھے وہ لڑکا جوان ہوا اور خوارج کا زمانہ آیا تو اسے ان سے محبت ہو گئی (یعنی خوارج کا گرویدہ ہو گیا) اسی وقت وہ بال جو دستِ مبارک کا اثر تھے جھڑ گئے اس کے باپ نے جو یہ حال دیکھا اسے قید کر دیا کہ کہیں ان میں مل نہ جائے۔ ابو طفیل کہتے ہیں کہ ہم لوگ اس کے پاس گئے اور اسے وعظ و نصیحت کی اور کہا دیکھو تم جب ان لوگوں کی طرف مائل ہوئے ہو تو رسول اللہ ﷺ کی دعا کی برکت تمہاری پیشانی سے جاتی رہی غرض جب تک اس شخص نے ان کی رائے سے رجوع نہ کیا ہم اس کے پاس سے ہٹے نہیں۔ پھر جب خوارج کی محبت اس کے دل سے نکل گئی تو اللہ تعالیٰ نے دوبارہ اس کی پیشانی میں وہ مبارک بال لوٹا دیئے پھر تو اس نے ان کے عقائد سے سچی توبہ کر لی۔‘‘

114 / 46. عَنْ سَعِيْدِ بْنِ جُهْمَانٍ قَالَ: کَانَتِ الْخَوَارِجُ قَدْ تَدْعُوْنِي حَتَّى کِدْتُ أَنْ أَدْخُلَ فِيْهِمْ، فَرَأَتْ أُخْتُ أَبِي بِلاَلٍ فِي النَّوْمِ أَنَّ أَبَا بِلاَلٍ کَلْبٌ أَهْلَبُ أَسْوَدُ عَيْنَاهُ تَذْرِفَانِ. فَقَالَتْ: بِأَبِي أَنْتَ يَا أَبَا بِلَالٍ مَا شَأْنُکَ أَرَاکَ هَکَذَا؟ وَ کَانَ أَبُوْ بِلاَلٍ مِنْ رُؤُوْسِ الْخَوَارِجِ.

رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَابْنُ أَبِي عَاصِمٍ وَاللَّفْظُ لَهُ إِسْنَادُهُ صَحِيْحٌ.

الحديث رقم 46: أخرجه ابن أبي شيبة في المصنف، 7 / 555، الرقم: 37895، وعبد اللہ بن أحمد في السنة، 2 / 634، الرقم: 1509.

’’سعید بن جہمان سے مروی ہے بیان کیا کہ خوارج مجھے (اپنی طرف) دعوت دیا کرتے تھے (سو اس سے متاثر ہو کر) قریب تھا کہ میں ان کے ساتھ شامل ہو جاتا کہ ابو بلال کی بہن نے خواب میں دیکھا کہ ابو بلال کالے لمبے بالوں والے کتوں کی شکل میں ہے اس کی آنکھیں بہہ رہی تھیں۔ بیان کیا کہ اس نے کہا: اے ابو بلال میرا باپ آپ پر قربان کیا وجہ ہے کہ میں تمہیں اس حال میں دیکھ رہی ہوں؟ اس نے کہا ہم لوگ تمہارے بعد دوزخ کے کتے بنا دیئے گئے ہیں وہ ابو بلال خارجیوں کے سرداروں میں سے تھا۔‘‘

115 / 47. عَنْ أَبِي عُثْمَانَ النَّهْدِيِّ: سَأَلَ رَجُلٌ مِنْ بَنِي يَرْبُوعٍ، أَوْ مِنْ بَنِي تَمِيْمٍ. عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رضي الله عنه عَنِ (الذَّارِيَاتِ وَالْمُرْسَلَاتِ وَالنَّازِعَاتِ). أَوْ عَنْ بَعْضِهِنَّ، فَقَالَ عُمَرُ: ضَعْ عَنْ رَأْسِکَ، فَإِذَا لَهُ وَفْرَةٌ، فَقَالَ عُمَرُ رضي الله عنه: أَمَا وَاللهِ لَوْ رَأَيْتُکَ مَحْلُوقًا لَضَرَبْتُ الَّذِي فِيْهِ عَيْنَاکَ، ثُمَّ قَالَ: ثُمَّ کَتَبَ إِلىٰ أَهْلِ الْبَصْرَةِ أَوْ قَالَ إِلَيْنَا. أَنْ لَا تُجَالِسُوْهُ، قَالَ: فَلَوْ جَاءَ وَ نَحْنُ مِائَةٌ تَفَرَّقْنَا.

رَوَاهُ سَعِيْدُ بْنُ يَحْيَي الْأُمْوِيُّ وَغَيْرُهُ بِإِسْنَادٍ صَحِيْحٍ کَمَا قَالَ ابْنُ تَيْمِيَةَ.

الحديث رقم 47: أخرجه ابن تيمية في الصارم المسلول، 1 / 195.

’’حضرت ابوعثمان نہدی بیان کرتے ہیں کہ قبیلہ بنی یربوع یا بنی تمیم کے ایک آدمی نے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ ’’ الزَّارِيَاتِ وَالْمُرْسَلَاتِ وَالنَّازِعَاتِ ‘‘ کے کیا معنی ہیں؟ یا ان میں سے کسی ایک کے بارے میں پوچھا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اپنے سر سے کپڑا اتارو، جب دیکھا تو اس کے بال کانوں تک لمبے تھے۔ انہوں نے فرمایا: بخدا! اگر میں تمہیں سر منڈا ہوا پاتا تو تمہارا یہ سر اڑا دیتا جس میں تمہاری آنکھیں دھنسی ہوئی ہیں۔ شعبی کہتے ہیں پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اہل بصرہ کے نام خط لکھا یا کہا کہ ہمیں خط لکھا جس میں تحریر کیا کہ ایسے شخص کے پاس نہ بیٹھا کرو۔ راوی کہتا ہے کہ جب وہ آتا، ہماری تعداد ایک سو بھی ہوتی تو بھی ہم الگ الگ ہو جاتے تھے۔‘‘

116 / 48. عَنِ السَّائِبِ بْنِ يَزِيْدَ: قَالَ: فَبَيْنَمَا عُمَرُ رضي الله عنه ذَاتَ يَوْمٍ جَالِسًا يُغَدِّي النّاسَ إِذَا جَاءَ رَجُلٌ عَلَيْهِ ثِيَابٌ وَ عِمَامَةٌ فَتَغَدَّي حَتَّى إِذَا فَرَغَ قَالَ: يَا أَمِيْرَ الْمُؤْمِنِيْنَ، (وَالذَّارِيَاتِ ذَرْوًا فَالْحَامِلَاتِ وِقْرًا) فَقَالَ عُمَرُ رضي الله عنه: أَنْتَ هُوَ فَقَامَ إِلَيْهِ وَ حَسَرَ عَنْ ذِرَاعَيْهِ فَلَمْ يَزَلْ يَجْلِدُهُ حَتَّى سَقَطَتْ عِمَامَتُهُ، فَقَالَ: وَالَّذِي نَفْسُ عُمَرُ بِيَدِهِ، لَوْ وَجَدْتُکَ مَحْلُوْقًا لَضَرَبْتُ رَأْسَکَ. رَوَاهُ اللَّالْکَائِيُّ.

الحديث رقم 48: أخرجه اللالکائي في اعتقاد أهل السنة، 4 / 634، الرقم: 1136، والشوکاني في نيل الأوطار، 1 / 155، والعظيم آبادي في عون المعبود، 11 / 166، وابن قدامة في المغني، 1 / 65، 9 / 8.

حضرت سائب بن یزید نے بیان کیا کہ ایک دن حضرت عمر رضی اللہ عنہ لوگوں کے ساتھ بیٹھے دوپہر کا کھانا کھا رہے تھے اسی اثنا میں ایک شخص آیا اس نے (اعلیٰ قسم کے) کپڑے پہن رکھے تھے اور عمامہ باندھا ہوا تھا تو اس نے بھی دوپہر کا کھانا کھایا جب فارغ ہوا تو کہا: اے امیر المومنین (وَالزَّارِيَاتِ ذَرْوًا فَالْحَامِلَاتِ وِقْرًا) کا کیا معنی ہے؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تو وہی (گستاخِ رسول ﷺ) ہے۔ پھر اس کی طرف بڑھے اور اپنے بازو چڑھا کر اسے اتنے کوڑے مارے یہاں تک کہ اس کا عمامہ گرگیا۔ پھر فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! اگر میں تجھے سر منڈا ہوا پاتا تو تیرا سر کاٹ دیتا۔‘‘

117 / 49. عَنْ أَبِي يَحْيَي قَالَ: سَمِعَ رَجُلًا مِنَ الْخَوَارِجِ وَهُوَ يُصَلِّي صَلَاةَ الْفَجْرِ يَقُوْلُ: (وَلَقَدْ أُوْحِيَ إِلَيْکَ وَإِلىٰ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِکَ لَئِنْ أَشْرَکْتَ لَيَحْبِطَنَّ عَمَلُکَ وَلَتَکُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِيْنَ)، (الزمر، 39: 65)، قَالَ فَتَرَکَ سُوْرَتَهُ الَّتِي کَانَتْ فِيْهَا قَالَ: وَقَرَأَ (فَاصْبِرْ إِنَّ وَعْدَ اللهِ حَقٌّ وَلَا يَسْتَخِفَّنَّکَ الَّذِيْنَ لَا يُوْقِنُوْنَ)، (الروم، 30: 60)

رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ.

الحديث رقم 49: أخرجه ابن أبي شيبة في المصنف، 7 / 554، الرقم: 37891.

’’ابو یحییٰ سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ ایک خارجی نے صبح کی نماز میں یہ آیت پڑھی: ’’اور في الحقیقت آپ کی طرف (یہ) وحی کی گئی ہے اور اُن (پیغمبروں) کی طرف (بھی) جو آپ سے پہلے (مبعوث ہوئے) تھے کہ( اے انسان!) اگر تُو نے شرک کیا تو یقینا تیرا عمل برباد ہو جائے گا اور تُو ضرور نقصان اٹھانے والوں میں سے ہو گا۔‘‘ مزید بیان کیا: پھر اس سورت کو چھوڑ کر اس نے دوسری سورت کی یہ آیت پڑھ ڈالی: ’’پس آپ صبر کیجئے، بیشک اللہ تعالیٰ کا وعدہ سچا ہے، جو لوگ یقین نہیں رکھتے کہیں آپ کو کمزور ہی نہ کر دیں۔‘‘ (خوارج ان آیات قرآنی کو چن چن کر نماز میں پڑھتے تھے جن سے بزعم خویش ان بدبختوں کے معاذ اللہ حضور ﷺ کی تنقیص شان کا کوئی شائبہ پیدا ہوتا تھا۔ (یہ ان کی گستاخانہ سوچ اور بدبختی تھی)۔‘‘

118 / 50. عَنْ أَبِي غَالِبٍ قَالَ: کُنْتُ فِي مَسْجِدِ دِمَشْقٍ فَجَاءُوا بِسَبْعِيْنَ رَأْسًا مِنْ رُؤُوْسِ الْحُرُوْرِيَةِ فَنُصِبَتْ عَلىٰ دُرَجِ الْمَسْجِدِ، فَجَاءَ أَبُوْأُمَامَةَ رضي الله عنه فَنَظَرَ إِلَيْهِمْ فَقَالَ: کِلَابُ جَهَنَّمَ، شَرُّ قَتْلَي قُتِلُوْا تَحْتَ ظِلِّ السَّمَاءِ، وَ مَنْ قُتِلُوْا خَيْرُ قَتْلَي تَحْتَ السَّمَاءِ، وَ بَکَي فَنَظَرَ إِلَيَّ وَقَالَ: يَا أَبَا غَالِبٍ! إِنَّکَ مِنْ بَلَدِ هَؤُلَاءِ؟ قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: أَعَاذَکَ، قَالَ: أَظُنُّهُ قَالَ: اللهُ مِنْهُمْ، قَالَ: تَقْرَأُ آلَ عِمْرَانَ؟ قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: (مِنْهُ آيَاتٌ مُحْکَمَاتٌ هُنَّ أُمُّ الْکِتَابِ وَ أُخَرُ مُتَشَابِهَاتٌ، فَأَمَّا الَّذِيْنَ فِي قُلُوْبِهِمْ زَيْغٌ فَيَتَّبعُوْنَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ ابْتِغَاءَ الْفِتْنَةِ وَابْتِغَاءَ تَأْوِيْلِهِ وَمَا يَعْلَمُ تَأْوِيْلَهُ إِلَّا اللهُ، والرَّاسِخُونَ فِي الْعِلْمِ)، (آل عمران، 3: 7)، قَالَ: (يَوْمَ تَبْيَضُّ وُجُوْهٌ وَّ تَسْوَدُّ وُجُوْهٌ فَأَمَّا الَّذِيْنَ اسْوَدَّتْ وُجُوْهُهُمْ أَکَفَرْتُمْ بَعْدَ إِيْمَانِکُمْ فَذُوْقُوْا الْعَذَابَ بِمَا کُنْتُمْ تَکْفُرُوْنَ) (آل عمران، 3: 106)، قُلْتُ: يَا أَبَا أُمَامَةَ! إِنِّي رَأَيْتُکَ تُهْرِيْقُ عِبْرَتَکَ قَالَ: نَعَمْ، رَحْمَةٌ لَهُمْ إِنَّهُمْ کَانُوْا مِنْ أَهْلِ الإِسْلَامِ، قَالَ: افْتَرَقَتْ بَنُو إِسْرَائِيْلَ عَلىٰ وَاحِدَةٍ وَ سَبْعِيْنَ فِرْقَةً، وَ تَزِيْدُ هَذِهِ الْأُمَّةُ فِرْقِةً وَاحِدَةً، کُلُّهَا فِي النَّارِ إِلَّا السَّوَادَ الْأَعْظَمَ، عَلَيْهِمْ مَا حُمِّلُوا وَعَلَيْکُمْ مَا حُمِّلْتُمْ، وَإِنْ تُطِيْعُوهُ تَهْتَدُوْا، وَمَا عَلىٰ الرَّسُوْلِ إِلَّا الْبَلَاغُ، السَّمْعُ وَالطَّاعَةُ خَيْرٌ مِنْ الْفِرْقَةِ وَالْمَعْصِيَةِ، فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ: يَا أَبَا أُمَامَةَ! أَمِنْ رَأْيِکَ تَقُوْلُ أَمْ شَيئٌ سَمِعْتَهُ مِنْ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ؟ قَالَ: إِنِّي إِذًا لَجَرِيئٌ قَالَ: بَلْ سَمِعْتُهُ مِنْ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ مَرَّةً وَلَا مَرَّتَيْنِ حَتَّى ذَکَرَ سَبْعًا. رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَالْبَيْهَقِيُّ وَالطَّبَرَانِيُّ.

الحديث رقم 50: أخرجه ابن أبي شيبة في المصنف، 7 / 554، الرقم: 37892، والبيهقي في السنن الکبري، 8 / 188، والطبراني في المعجم الکبير، 8 / 267 - 268، الرقم: 8034 - 8035، والحارث في المسند، (زوائد الهيثمي)، 2 / 716، الرقم: 706.

’’ابو غالب سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ میں مسجدِ دِمَشق میں تھا کہ خارجیوں کے ستر سر دمشق میں مسجد کی سیڑھیوں پر نصب کئے گئے حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ نے ان کی طرف دیکھ کر کہا کہ یہ جہنم کے کتے ہیں اور زیر آسمان تمام مقتولوں سے بدتر ہیں اور ان کے ہاتھوں سے جو شہید ہوئے وہ زیرِ آسمان تمام مقتولوں سے بہتر ہیں یہ کہا اور رو پڑے پھر میری طرف دیکھا اور پوچھا: اے ابو غالب: کیا تو اس شہر سے ہے میں نے کہا ہاں۔ انہوں نے کہا اللہ تعالیٰ آپ کو ان سے محفوظ رکھے انہوں نے کہا کیا تم سورہء آل عمران پڑھتے ہو؟ میں نے کہا ہاں۔ پھر یہ آیات: ’’جس میں سے کچھ آیتیں محکم (یعنی ظاہراً بھی صاف اور واضح معنی رکھنے والی) ہیں وہی (احکام) کتاب کی بنیاد ہیں اور دوسری آیات متشابہ (یعنی معنی میں کئی احتمال اور اشتباہ رکھنے والی) ہیں، سو وہ لوگ جن کے دلوں میں کجی ہے اس میں سے صرف متشابہات کی پیروی کرتے ہیں (فقط) فتنہ پروری کی خواہش کے زیر اثر اور اصل مراد کی بجائے من پسند معنی مراد لینے کی غرض سے، اور اس کی اصل مراد کو اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا، اور علم میں کامل پختگی رکھنے والے۔‘‘ اور فرمایا: ’’جس دن کئی چہرے سفید ہوں گے اور کئی چہرے سیاہ ہوں گے، تو جن کے چہرے سیاہ ہو جائیں گے (ان سے کہا جائے گا) کیا تم نے ایمان لانے کے بعد کفر کیا؟ تو جو کفر تم کرتے رہے تھے سو اس کے عذاب (کا مزہ) چکھ لو۔‘‘ میں نے کہا ابو امامہ! میں دیکھتا ہوں کہ آپ رو رہے ہیں؟ انہوں نے کہا ہاں۔ ان لوگوں (خارجیوں پر ترس کھاتے ہوئے کیونکہ یہ (قبل از خروج) اہل اسلام میں سے تھے۔ اور کہا: قوم بنی اسرائیل اکہتر فرقوں میں بٹ گئی تھی اور یہ امت ان سے ایک فرقہ بڑھے گی (یعنی بہتر فرقوں میں بٹ جائے گی) اور سواد اعظم (جو سب سے بڑا طبقہ ہے) اس کو چھوڑ کر باقی سارے جہنم میں جائیں گے۔ وہ اس کے جواب دہ ہیں جو ذمہ داری ان پر ڈالی گئی اور تم اس کے جواب دہ ہو جو ذمہ داری تم پر ڈالی گئی اور اگر تم رسول اکرم ﷺ کی فرمانبرداری کرو گے تو ہدایت پا جاؤ گے اور رسول اکرم ﷺ کے ذمہ تو صرف پہنچا دینا ہی ہے اور غور سے (احکامات کو) سننا اور ان کو بجا لانا تفرقہ اور نافرمانی سے بہتر ہے۔ پس (یہ سن کر) ایک شخص نے کہا: اے ابو امامہ! کیا آپ اپنی طرف سے یہ باتیں کہہ رہے ہو یا ان میں سے کچھ آپ نے حضور نبی اکرم ﷺ سے سنی ہیں؟ انہوں نے فرمایا: (اگر میں اپنی طرف سے کہوں) تب تو میں بہت بڑی جسارت کرنے والا ہوں نہیں بلکہ میں نے (یہ باتیں) ایک یا دو دفعہ نہیں بلکہ سات بار (حضور نبی اکرم ﷺ سے) سنی ہیں۔‘‘

Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved