Kitab al-Tawhid (Jild Awwal)

باب 7 :توحید فی التحریم اور شرک فی التحریم

  1. توحید فی التحریمات - شرک فی التحریمات
  2. توحید فی النذور - شرک فی النذور
  3. توحید فی الحلف - شرک فی الحلف

گزشتہ صفحات میں ہم نے توحید کی تین اقسام توحید فی ا لاُلوہیت، توحید فی الربوبیت اور توحید فی الاسماء والصفات پر سیر حاصل بحث کی، ذیل میں ہم توحید کی چوتھی قسم توحید فی التحریم کو بیان کریں گے۔

توحید فی التحریم کا مفہوم

اللہ تبارک و تعالیٰ نے بعض مقامات، بعض مہینوں اور قربانی کے جانوروں کو اپنی نشانیاں اور حرمت والا قرار دیا، انہیں اپنے لیے مختص کر کے بندوں پر ان کے ادب و احترام اور حرمت و تعظیم کو واجب کر دیا۔ شرعاً ان نشانیوں کو شعائر اللہ کہا جاتا ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کے مبارک نام پر اٹھائی گئی قسم کا ادب و احترام اور اس کے عطا کردہ احکامات کی حلت و حرمت کا لحاظ رکھنا اور ان امور کو اللہ تعالیٰ کے لئے باعثِ حرمت و تعظیم جاننا توحید فی التحریم ہے۔

توحید فی التحریم کی اقسام

توحید فی التحریم کی مندرجہ ذیل تین اقسام ہیں:

  1. توحید فی التحریمات
  2. توحید فی النذور
  3. توحید فی الحلف

آئندہ صفحات میں مندرجہ بالا اقسام پر تفصیلی بحث کی جائے گی۔

فصل اوّل: توحید فی التحریمات اورشرک فی التحریمات

حرمتِ تحریمات کا وجوب

توحید فی التحریمات کا بیان قرآن مجید میں متعدد مقامات پر آیا ہے چند آیات درج ذیل ہیں۔

1۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

جَعَلَ اللّهُ الْكَعْبَةَ الْبَيْتَ الْحَرَامَ قِيَامًا لِّلنَّاسِ وَالشَّهْرَ الْحَرَامَ وَالْهَدْيَ وَالْقَلاَئِدَ ذَلِكَ لِتَعْلَمُواْ أَنَّ اللّهَ يَعْلَمُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ وَأَنَّ اللّهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌo

’’اللہ نے عزت (و ادب) والے گھر کعبہ کو لوگوں کے (دینی و دنیوی امور میں) قیام (امن) کا باعث بنا دیا ہے اور حرمت والے مہینے کو اور کعبہ کی قربانی کو اور گلے میں علامتی پٹے والے جانوروں کو بھی (جو حرمِ مکہ میں لائے گئے ہوں سب کو اسی نسبت سے عزت و احترام عطا کر دیا گیا ہے)، یہ اس لئے کہ تمہیں علم ہو جائے کہ جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے اللہ خوب جانتا ہے اور اللہ ہر چیز سے بہت واقف ہے۔‘‘

المائدۃ، 5: 97

اس آیتِ کریمہ میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے کعبۃ اللہ، شہورِ مقدسہ اور قربانی کے جانوروں کے ادب و احترام کو بیان فرمایا۔

2۔ سورہِ بقرۃ میں صفا و مروہ کی پہاڑیوں کو اللہ رب العزت نے اپنی نشانیاں قرار دیتے ہوئے فرمایا:

إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِن شَعَآئِرِ اللّهِ

’’بے شک صفا اور مروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں۔‘‘

البقرۃ، 2: 158

3۔ سورۃ التوبۃ میں حرمت والے مہینوں کا ذکر فرمایا:

 إِنَّ عِدَّةَ الشُّهُورِ عِندَ اللّهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِي كِتَابِ اللّهِ يَوْمَ خَلَقَ السَّمَاوَات وَالأَرْضَ مِنْهَا أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ

’’بیشک اللہ کے نزدیک مہینوں کی گنتی اللہ کی کتاب (یعنی نوشتہِ قدرت) میں بارہ مہینے (لکھی) ہے جس دن سے اس نے آسمانوں اور زمین (کے نظام) کو پیدا فرمایا تھا ان میں سے چار مہینے (رجب، ذو القعدہ، ذو الحجہ اور محرم) حرمت والے ہیں۔‘‘

التوبۃ، 9: 36

4۔ ان مہینوں کا ادب و احترام اور حرمت یوں بیان فرمائی:

 يَسْأَلُونَكَ عَنِ الشَّهْرِ الْحَرَامِ قِتَالٍ فِيهِ قُلْ قِتَالٌ فِيهِ كَبِيرٌ

’’لوگ آپ سے حرمت والے مہینے میں جنگ کا حکم دریافت کرتے ہیں، فرمادیں: اس میں جنگ بڑا گناہ ہے۔‘‘

البقرۃ، 2: 217

5۔ سورہِ حج میں قربانی کے جانوروں کو اپنی نشانیاں قرار دیتے ہوئے فرمایا:

وَالْبُدْنَ جَعَلْنَاهَا لَكُم مِّن شَعَائِرِ اللَّهِ لَكُمْ فِيهَا خَيْرٌ

’’اور قربانی کے بڑے جانوروں (یعنی اونٹ اور گائے وغیرہ) کو ہم نے تمہارے لئے اللہ کی نشانیوں میں سے بنا دیا ہے ان میں تمہارے لئے بھلائی ہے۔‘‘

الحج، 22: 36

پس مذکورہ بالا قرآنی آیات سے یہ امر مترشح ہوا کہ اللہ ل کی تحریمات کا ادب و احترام اور تعظیم و تکریم بجا لانا واجب ہے۔ ان کی بے حرمتی اور اہانت کفر ہے۔

6۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ لاَ تُحِلُّواْ شَعَآئِرَ اللّهِ وَلاَ الشَّهْرَ الْحَرَامَ وَلاَ الْهَدْيَ وَلاَ الْقَلآئِدَ وَلاَ آمِّينَ الْبَيْتَ الْحَرَامَ يَبْتَغُونَ فَضْلاً مِّن رَّبِّهِمْ وَرِضْوَانًا.

’’اے ایمان والو! اللہ کی نشانیوں کی بے حرمتی نہ کرو اور نہ حرمت (و ادب) والے مہینے کی (یعنی ذوالقعدہ، ذوالحجہ، محرم اور رجب میں سے کسی ماہ کی) اور نہ حرمِ کعبہ کو بھیجے ہوئے قربانی کے جانورو علیہ السلام کی اور نہ مکہ لائے جانے والے ان جانوروں کی جن کے گلے میں علامتی پٹے ہوں اور نہ حرمت والے گھر (یعنی خانہ کعبہ) کا قصد کر کے آنے والوں (کے جان و مال اورعزت و آبرو) کی (بے حرمتی کرو کیوںکہ یہ وہ لوگ ہیں) جو اپنے رب کا فضل اور رضا تلاش کر رہے ہیں۔‘‘

المائدۃ، 5: 2

اس آیتِ کریمہ میں مندرجہ ذیل تین تحریمات گنوائی گئی ہیں جن کی حرمت واجب ہے:

  1. حرمِ کعبہ کی حرمت
  2. چار مقدّس مہینوں کی حرمت
  3. قربانی کے جانوروں کی حرمت

7۔ اسی طرح قرآن حکیم میں شعائر اللہ کی تعظیم و توقیر کو دلوں کے تقویٰ سے تعبیر کیا گیا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:

ذَلِكَ وَمَن يُعَظِّمْ شَعَائِرَ اللَّهِ فَإِنَّهَا مِن تَقْوَى الْقُلُوبِo

’’ یہی (حکم) ہے اور جو شخص اللہ کی نشانیوں کی تعظیم کرتا ہے (یعنی ان جانداروں، یادگاروں، مقامات،احکام اور مناسک وغیرہ کی تعظیم جو اللہ یا اللہ والوں کے ساتھ کسی اچھی نسبت یا تعلق کی وجہ سے جانے پہچانے جاتے ہیں) تو یہ (تعظیم) دلوں کے تقویٰ میں سے ہے (یہ تعظیم وہی لوگ بجا لاتے ہیں جن کے دلوں کو تقویٰ نصیب ہو گیا ہو)۔‘‘

الحج، 22: 32

اگر کوئی شخص کسی اور مقام، جگہ اور کسی جانور کی حرمت حرمین شریفین، قربانی کے جانوروں اور شعائر اللہ کی حرمت سے مماثل جانے اور ان سے اسی تعظیم کی نسبت وابستہ کرے مثلاً حرمِ مکہ کی طرح کسی اور مقام پر طواف یا عبادت کو حرم میں عبادت کے مماثل جانے، اسی طرح مسجد نبوی شریف میں ریاض الجنۃ جیسی فضیلت و تحریم کسی اور جگہ کے لئے ثابت کرے تو وہ شرک فی التحریم کا مرتکب ہو گا۔

مکہ کو ابراہیم علیہ السلام نے اور مدینہ کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حرم بنایا

صحیح احادیثِ مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ مکہّ مکرّمہ کو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حرم بنایا پس اس کی حرمت واجب ہو گئی جس کوپامال کرنا شرک قرار پایا اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے تشریعی اختیارات بروئے کار لاتے ہوئے اپنی مبارک جائے سکونت مدینہ منورہ کو حرم بنا دیا۔ حضرت عبداللہ بن عاصم راوی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

إنَّ إِبْرَاهِيْمَ حَرَّمَ مَکَّةَ وَدَعَا ِلأَهْلِهَا. وَإنِّي حَرَّمْتُ الْمَدِيْنَةَ کَمَا حَرَّمَ إِبْرَاهِيْمُ مَکَّةَ.

’’حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مکہّ کو حرم بنایا تھا اور اہلِ مکہّ کے لئے دعا کی تھی، اور بلاشبہ مدینہ کو میں حرم بناتا ہوں جس طرح مکہّ کو حضرت ابراہیم ( علیہ السلام ) نے حرم بنایا تھا۔‘‘

مسلم، الصحیح، کتاب الحج، باب فضل المدینۃ، 2: 1991، رقم: 1360

پس مدینہ منورہ کی تحریم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تشریعی اختیار کی بدولت ہے، حرمِ مکہ کی طرح حرم مدینہ کی حدود میں بھی کسی قسم کی زیادتی کی اجازت نہیں۔ مثلاً یہ کہ وہاں کوئی بھی جنگ و قتال نہیں کر سکتا، درخت نہیں کاٹ سکتا۔ یہ سب تحریمات صرف حرمین شریفین کے لئے ہیں۔ اب اگر کوئی اس طرح کسی اور شہر اور جگہ کو حرم بنا کر حرمین شریفین کی طرح اس کیلئے حرمت و تعظیم کے قواعد وضع کرے تو یہ بھی شرک فی التحریم ہو گا۔

شرک فی التحریم

وہ تحریمات جو اللہ تعالیٰ جل مجدہ کی ذاتِ وحدہ لاشریک کے لئے خاص ہیں وہ یا ان سے مماثل تحریمات کو غیر خدا کے لئے ثابت کرنا شرک فی التحریم ہے۔ اس کا ذکر قرآن میں کفار و مشرکین کے حوالے سے ہوا ہے جو اپنے کھیتوںاور مویشیوں کو اپنے بتوں لات و منات، ھبل و عزیٰ اور دیگر طواغیت کے نام مختص کر کے ان کا استعمال اپنے اوپر حرام کر لیتے تھے۔ قرآنِ حکیم نے ان کے اس مشرکانہ عمل پر ان کو سخت وعید سنائی کیونکہ تحریمات شعائر اللہ ہیں جن کا ادب و احترام اور تعظیم صرف اللہ تعالیٰ کے لئے خاص ہوتی ہے۔

شرک فی التحریم کی تین صورتیں ہیں:

  1. شرک فی التحریمات
  2. شرک فی النذور
  3. شرک فی الحلف

قرآنِ حکیم میں کفار کے باطل طرزِ عمل کا ذکر یوں فرمایا گیا ہے:

وَقَالُواْ هَـذِهِ أَنْعَامٌ وَحَرْثٌ حِجْرٌ لاَّ يَطْعَمُهَا إِلاَّ مَن نَّشَاءُ بِزَعْمِهِمْ وَأَنْعَامٌ حُرِّمَتْ ظُهُورُهَا وَأَنْعَامٌ لاَّ يَذْكُرُونَ اسْمَ اللّهِ عَلَيْهَا افْتِرَاءً عَلَيْهِ سَيَجْزِيهِم بِمَا كَانُواْ يَفْتَرُونَo

’’اور اپنے خیالِ (باطل) سے (یہ بھی) کہتے ہیں کہ یہ (مخصوص) مویشی اور کھیتی ممنو ع ہے، اسے کوئی نہیں کھا سکتا سوائے اس کے جسے ہم چاہیں اور (یہ کہ بعض) چوپائے ایسے ہیں جن کی پیٹھ (پر سواری) کو حرام کیا گیا ہے اور (بعض) مویشی ایسے ہیں کہ جن پر (ذبح کے وقت) یہ لوگ اللہ کا نام نہیں لیتے (یہ سب) اللہ پر بہتان باندھنا ہے، عنقریب وہ انہیں (اس بات کی) سزا دے گا جو وہ بہتان باندھتے تھے۔‘‘

الانعام، 6: 138

کسی چیز کو حلال و حرام ٹھہرانا خالصتاً اللہ رب العزت اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حق تھا، اللہ تعالیٰ کی طرف سے کفار و مشرکین کو حرمت و حلت کا کوئی حکم نہیں تھا مگر کفار و مشرکین اپنے بتوں اور طواغیت کے نام پر مویشی اور کھیتی کو مختص کر کے خیالِ باطل سے کہتے تھے کہ ان کا استعمال حرام ہے، سوائے اس شخص کے جسے وہ چاہتے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو متنبہّ کیا کہ تمہاری یہ سب تحریمات بے بنیاد اور بغیر دلیل و حجت ہیں۔ اسی لئے انہیں واضح فرما دیا کہ ان کا حلال و حرام ٹھہرانے کا یہ عمل اور ان کی یہ خود ساختہ تحریمات اللہ رب العزت پر بہتان باندھنے کے مترادف ہیں اور ایسے نافرمانوں کو اللہ تعالیٰ عنقریب سزا دینے والا ہے۔ انہوں نے بزعمِ خویش ان مختص کیے گئے جانوروں پر سواری کو حرام قرار دیا تھا جبکہ بعض جانوروں پر بوقتِ ذبح وہ اللہ تعالیٰ کا نام لینے کی بجائے اپنے بتوں (لات، منات اور عزیٰ) کا نام لینے جیسے قبیح شرک میں بھی مبتلا تھے۔

اسی طرح کفار و مشرکین اپنے تئیں جانوروں کے پیٹ میں بچے کو مَردوں کیلئے حلال جبکہ عورتوں کیلئے حرام جانتے اور مُردار ہونے کی صورت میں سب کے سب بلاامتیاز اس کے کھانے میں شریک ہو جاتے۔ ان کی اس روش کو بھی قرآن نے اپنے الفاظ میں بیان کیا ہے:

وَقَالُواْ مَا فِي بُطُونِ هَـذِهِ الْأَنْعَامِ خَالِصَةٌ لِّذُكُورِنَا وَمُحَرَّمٌ عَلَى أَزْوَاجِنَا وَإِن يَكُن مَّيْتَةً فَهُمْ فِيهِ شُرَكَاءَ سَيَجْزِيهِمْ وَصْفَهُمْ إِنَّهُ حِكِيمٌ عَلِيمٌo

’’اور (یہ بھی) کہتے ہیں کہ جو (بچہ) ان چوپایوں کے پیٹ میں ہے وہ ہمارے مردوں کے لئے مخصوص ہے اور ہماری عورتوں پر حرام کر دیا گیا ہے اور اگر وہ (بچہ) مرا ہوا (پیدا) ہو تو وہ (مرد اور عورتیں) سب اس میں شریک ہوتے ہیں، عنقریب وہ انہیں ان کی (من گھڑت) باتوں کی سزا دے گا، بیشک وہ بڑی حکمت والا خوب جاننے والا ہے۔‘‘

الانعام، 6: 139

یہ سب ایسی تحریمات ہیں جو خالصتاً اللہ رب العزت کا حق ہے مگر کفار و مشرکین نے اس حق کو اپنے معبودانِ باطلہ کی طرف منسوب کر دیا تھا، پس اِن کا یہ عمل شرک ٹھہرا۔

شعائر اللہ کی حرمت کا قرآنی مفہوم

اہلِ ایمان کو صراحۃً شعائر اللہ کی بے حرمتی سے منع کیا گیا ہے، اس تحریم سے یہ حرمت ان صورتوں میں واجب کر دی گئی مثلاً یہ کہ

  1. وہاں شکار نہیں کھیلا جا سکتا۔
  2. جنگ نہیں کی جا سکتی۔
  3. اسی طرح حرمت والے مہینوں (ذوالقعدہ، ذوالحجہ، محرم، رجب) کی بے حرمتی اور بے ادبی ممنوع قرار پائی۔
  4. قربانی کے جانوروں (جن کے گلے میں نشانی کے طور پر پٹے باندھے ہوئے ہوں) کی بے حرمتی سے منع کردیا گیا۔

اب اگر کوئی شخص کسی اور جگہ یا کسی اور مقام کی حرمت و تعظیم حرمین کی طرح کرے یا دیگر جانوروں کی حرمت و تعظیم بھی شعائر اللہ سمجھ کر کرے، اور ان کی بے حرمتی کو حرام جانے تو ایسا عقیدہ رکھنا شرک فی التحریم شمار ہو گا جس کے مرتکب کفار و مشرکین ہوئے تھے۔

سورۃ المائدۃ میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

مَا جَعَلَ اللّهُ مِن بَحِيرَةٍ وَلاَ سَآئِبَةٍ وَلاَ وَصِيلَةٍ وَلاَ حَامٍ وَلَـكِنَّ الَّذِينَ كَفَرُواْ يَفْتَرُونَ عَلَى اللّهِ الْكَذِبَ وَأَكْثَرُهُمْ لاَ يَعْقِلُونَo

’’اللہ نے نہ تو بحیرہ کو (امرِ شرعی) مقرر کیا ہے، اور نہ سائبہ کو اور نہ وصیلہ کو اور نہ حام کو، لیکن کافر لوگ اللہ پر جھوٹا بہتان باندھتے ہیں، اور ان میں سے اکثر عقل نہیں رکھتے۔‘‘

المائدۃ، 5: 103

اس آیت میں کفار و مشرکین کی اپنی طرف سے مقرر کردہ غیر شرعی امور کی وضاحت کی گئی ہے، جس کی تفصیل درج ذیل ہے:

1۔ بحیرہ

یہ وہ اونٹنی تھی جس کا دودھ دوہنا مشرکین بتوں کے نام منسوب کر کے دوسروں کو اس کے تمتع سے منع کر دیتے لہٰذا کوئی اس کا دودھ حاصل نہیں کر سکتا تھا۔ یا اس سے مراد وہ اونٹنی ہوتی جو پانچ بچے دے اور جب آخری بچہ ہوتا تو اس کا کان چھید دیتے اور بتوں کے نام پر آزاد چھوڑ دیتے۔ اس سے دودھ، گوشت یا کام لینا حرام سمجھتے۔

2۔ سائبہ

یہ بتوں کے نام موسوم وہ اونٹنی تھی جس کو وہ اپنے بتوں کے نام پر کھلا چھوڑ دیتے اور اس پر باربرداری کو حرام سمجھتے۔

3۔ وصیلہ

جو اونٹنی پہلی بار بچہ اور بچی دونوں دے۔ دوسری بار بچی دے تو اس کو بھی اپنے بتوں کے لئے مخصوص کر دیتے بشرطیکہ درمیان میں بچہ نہ ہو۔

4۔ حام

یہ وہ اونٹ ہے جس سے دس عدد اونٹنیاں بچے جنم دیں جب وہ یہ مقرر کردہ تعداد حاصل کر لیتا تو اسے اپنے بتوں کے نام پر آزاد کر دیتے اور اس کو باربرداری سے مستثنیٰ کر دیتے۔

غرض کفار و مشرکین خودساختہ حرمت قائم کر کے ان جانوروں سے ہر قسم کا فائدہ اٹھانا ازخود اپنے اوپر حرام کر لیتے اس طرح انہوں نے وہ تقدس جو خالصتاً اللہ تعالیٰ کے لئے تھا اور اللہ ہی کا حق تھا اسے اصنام و اوثان کی طرف منسوب کر کے شرک فی التحریم کا ارتکاب کیا۔

احترامات اور تحریمات میں فرق

جیسا کہ اوپر وضاحت ہو چکی ہے کہ توحید فی التحریم صرف اللہ تعالیٰ کی ذات کیلئے خاص ہے۔ ان تحریماتِ الٰہیہ کو غیر کیلئے ثابت کرنا شرک ہے۔ مثلاً کفار و مشرکین کی یہ عادت تھی کہ وہ اپنی کھیتیوں اور مویشیوں کو اپنے بتوں کے نام پر مختص کرکے حرام کر دیتے تھے او ریہ عقیدہ رکھتے تھے کہ اب انہیں ان کے علاوہ کوئی اور کھا نہیں سکتا اور نہ ان پر کوئی سواری کر سکتا ہے۔ اب اگر کوئی شخص ایسے جانور مختص کرے، ان کا احترام بجا لائے اور ان کی بے حرمتی کو ازخود حرام جانے تو ایسا عقیدہ شرک ہو گا لیکن انبیاء و اولیاء کے ساتھ منسوب اشیاء کا احترام کرنا تحریم نہ ہو گا۔ احترام الگ چیز ہے اور تحریم جدا۔ ان دونوں کو خلط ملط کرنا درست نہیں ہے کیونکہ انبیاء و اولیاء سے منسوب ایام و اماکن کی تعظیم و تکریم بجا لانا نصوص قطعیہ سے ثابت ہے چند ایک دلائل ملاحظہ کیجئے:

1۔ یومِ تخلیقِ آدم علیہ السلام کا احترام

اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں جہاں اپنے محبوب اور برگزیدہ بندوں کی تعظیم کی تعلیم دینے کے لئے ان کی ولادت کا ذکر فرمایا ہے وہیں سب سے پہلا ذکر ابو البشر سیدنا آدم علیہ السلام کی پیدائش کا کیا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلاَئِكَةِ إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً

’’اور (وہ وقت یاد کریں) جب آپ کے رب نے فرشتوں سے فرمایا کہ میں زمین میں اپنا نائب بنانے والا ہوں۔‘‘

البقرۃ، 2: 30

قرآن مجید میں متعدد مقامات پر حضرت آدم علیہ السلام کا ذکر تفصیل کے ساتھ آیا ہے اور صرف تخلیق کا ذکر ہی نہیں بلکہ ان کی حیاتِ طیبہ کے کئی پہلوؤں کا ذکر موجود ہے جیسے جنت میں ان کے رہن سہن، تخلیقِ آدم علیہ السلام پر فرشتوں کی چہ مگوئیاں، شیطان رجیم کا اعتراض اور پیکرِ آدم کو سجدہ نہ کرنے کا تذکرہ۔ انسانی تخلیق سے متعلق جتنی آیاتِ مبارکہ ہیں ان کے اولین مصداق سیدنا آدم علیہ السلام ہیں جن کے احوال کو تفصیل سے قرآن مجید کی زینت بنایا گیا ہے اور یہ سارا تذکرہ ان کی عظمت اور ادب و احترام پر دلالت کرتا ہے۔

2۔ یومِ نجاتِ نوح علیہ السلام کا احترام

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب یہود سے یوم عاشورہ کا روزہ رکھنے کے بارے میں دریافت کیاتو انہوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور بنی اسرائیل کی نجات اور قومِ نوح اور فرعون کے غرق ہونے کا بیان کرکے کہا:

وَهَذَا يَوْمُ اسْتَوَتْ فِيْهِ السَّفِيْنَةُ عَلَی الْجُوْدِیِّ فَصَامَهُ نُوْحٌ وَ مُوْسَی شُکْرًا ِﷲِ تَعَالٰی. فَقَالَ النَّبِيُ صلی الله عليه وآله وسلم: أَنَا أَحَقُّ بِمُوْسَی وَ أَحَقُّ بِصَوْمِ هَذَا الْيَوْمِ فَأَمَرَ أَصْحَابَهُ بِالصَّوْمِ.

’’اور اس دن جودی پہاڑ پر کشتی ٹھہری تو نوح اور موسیٰ علیھما السلام نے اللہ تعالیٰ کا شکر اداکرتے ہوئے روزہ رکھا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میں موسیٰ کا زیادہ حق دار ہوں اور میں اس دن روزہ رکھنے کا بھی زیادہ حق دار ہوں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے صحابہ کو روزہ رکھنے کا حکم دیا۔‘‘

احمد بن حنبل، المسند، 2: 359، رقم: 8702
عسقلانی، فتح الباری، 4: 247

3۔ یومِ غلافِ کعبہ کا احترام

دورِ جاہلیت میں قریش یومِ عاشوراء کا روزہ رکھتے اور اس دن کو عید کے طور پر مناتے تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اس دن بیت اللہ پر پہلی دفعہ غلاف چڑھایا گیا تھا جس کے سبب وہ اس دن کا اکرام و احترام کرتے ہوئے روزہ رکھتے۔ ہجرت سے قبل حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی اس دن روزہ رکھا۔ بعد میں یوم عاشوراء کے روزہ کی فرضیت کا حکم منسوخ ہو گیا۔ ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا سے روایت ہے:

کَانُوْا يَصُوْمُوْنَ عَاشُوْرَاءَ قَبْلَ أَنْ يُفْرَضَ رَمَضَانُ وَکَانَ يَوْمًا تُسْتَرُ فِيْهِ الْکَعْبَةُ، فَلَمَّا فَرَضَ اللہُ رَمَضَانَ، قَالَ رَسُوْلُ اللہِ صلی الله عليه وآله وسلم: مَنْ شَاءَ أَنْ يَصُوْمَهُ فَلْيَصُمْهُ وَمَنْ شَاءَ أَنْ يَتْرُکَهُ فَلْيَتْرُکْهُ.

’’رمضان کے روزے فرض ہونے سے قبل وہ (یعنی اہلِ مکہ) یومِ عاشوراء کا روزہ رکھتے تھے اوراس دن کعبہ کو غلاف چڑھایا جاتا تھا۔ پھر جب اللہ تعالیٰ نے رمضان کے روزے فرض کر دیئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے جو اس دن روزہ رکھنا چاہے تو وہ روزہ رکھ لے اور جو ترک کرنا چاہے تو وہ تر ک کر دے۔‘‘

بخاری، الصحیح، کتاب الحج، باب قول اللہ: جعل اللہ الکعبۃ البیت الحرام، 2: 578، رقم: 1515
طبرانی، المعجم الأَوسط، 7: 278، رقم: 7495
بیہقی، السنن الکبری، 5: 159، رقم 9513

یومِ عاشوراء کا روزہ رکھنے سے مقصود دراصل غلافِ کعبہ کا احترام تھا۔

4۔ یومِ ولادتِ یحییٰ علیہ السلام کا احترام

اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآن مجید میں حضرت یحییٰ علیہ السلام کی ولادت کو بھی تفصیل سے بیان فرمایا ہے جب ان کے والد گرامی اور اللہ کے نبی حضرت زکریا علیہ السلام نے حضرت مریم علیھا السلام کی پرورش کے دوران میں توسل مکانی کیا اور حجرہِ مریم علیھا السلام میں کھڑے دعا کی اس کو بیان کرتے ہوئے اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:

هُنَالِكَ دَعَا زَكَرِيَّا رَبَّهُ قَالَ رَبِّ هَبْ لِي مِن لَّدُنْكَ ذُرِّيَّةً طَيِّبَةً إِنَّكَ سَمِيعُ الدُّعَاءِo فَنَادَتْهُ الْمَلآئِكَةُ وَهُوَ قَائِمٌ يُصَلِّي فِي الْمِحْرَابِ أَنَّ اللّهَ يُبَشِّرُكَ بِيَحْيَـى مُصَدِّقًا بِكَلِمَةٍ مِّنَ اللّهِ وَسَيِّدًا وَحَصُورًا وَنَبِيًّا مِّنَ الصَّالِحِينَo قَالَ رَبِّ أَنَّى يَكُونُ لِي غُلاَمٌ وَقَدْ بَلَغَنِيَ الْكِبَرُ وَامْرَأَتِي عَاقِرٌ قَالَ كَذَلِكَ اللّهُ يَفْعَلُ مَا يَشَاءُo قَالَ رَبِّ اجْعَل لِّي آيَةً قَالَ آيَتُكَ أَلاَّ تُكَلِّمَ النَّاسَ ثَلاَثَةَ أَيَّامٍ إِلاَّ رَمْزًا وَاذْكُر رَّبَّكَ كَثِيرًا وَسَبِّحْ بِالْعَشِيِّ وَالْإِبْكَارِo

’’اسی جگہ زکریا( علیہ السلام ) نے اپنے رب سے دعا کی، عرض کیا: میرے مولا! مجھے اپنی جناب سے پاکیزہ اولاد عطا فرما، بے شک تو ہی دعا کا سننے والا ہے۔ ابھی وہ حجرے میں کھڑے نماز ہی پڑھ رہے تھے (یا دعا ہی کر رہے تھے کہ) انہیں فرشتوں نے آواز دی: بے شک اللہ آپ کو (فرزند) یحییٰ( علیہ السلام ) کی بشارت دیتا ہے جو کلمۃ اللہ (یعنی عیسیٰ علیہ السلام ) کی تصدیق کرنے والا ہوگا اور سردار ہوگا اور عورتوں (کی رغبت) سے بہت محفوظ ہو گا اور (ہمارے) خاص نیکوکار بندوں میں سے نبی ہو گا۔ (زکریا علیہ السلام نے) عرض کیا: اے میرے رب! میرے ہاں لڑکا کیسے ہو گا؟ درآنحالیکہ مجھے بڑھاپا پہنچ چکا ہے اور میری بیوی (بھی) بانجھ ہے، فرمایا: اسی طرح اللہ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ عرض کیا: اے میرے رب! میرے لئے کوئی نشانی مقرر فرما؟ فرمایا تمہارے لئے نشانی یہ ہے کہ تم تین دن تک لوگوں سے سوائے اشارے کے بات نہیں کر سکو گے، اور اپنے رب کو کثرت سے یاد کرو اور شام اور صبح اس کی تسبیح کرتے رہو۔‘‘

آل عمران، 3: 38۔41

واضح ہو کہ ابھی حضرت یحییٰ علیہ السلام کی ولادت نہیں ہوئی صرف دعا قبول ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے قبل از ولادت ان کے بعض فضائل کا ذکر کیا۔

5۔ ولادتِ موسیٰ علیہ السلام کا احترام

سیدنا موسیٰ علیہ السلام وہ جلیل القدر نبی ہیں جنہوں نے فرعون جیسے ظالم، جابر اور سرکش شخص کو جو زمین پر خدائی کا دعویدار بنا بیٹھا تھا للکارا۔ اللہ رب العزت نے آپںکی بعثت کے ذریعہ قومِ بنی اسرائیل کو فرعون کے ظلم و ستم سے نجات دی، فرعون کو غرق کرکے ہمیشہ کیلئے نشانِ عبرت بنادیا۔ سیدنا موسیٰں کی پیدائش سے قبل فرعون نے قوم بنی اسرائیل پر طرح طرح کے مظالم ڈھائے۔ جب اسے نجومیوں نے بتایا کہ بنی اسرائیل میں کسی ایسے بچے کی پیدائش ہونے والی ہے جس کے ذریعہ بنی اسرائیل تمہاری محکومی سے نجات پا لے گی تو اس نے ان پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑنے شروع کردیئے، لڑکوں کو ذبح کروا دیتا اور لڑکیوں کو زندہ چھوڑ دیتا۔ اس پس منظر میں سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی پیدائش ہوئی جسے اللہ رب العزت نے بڑی تفصیل کے ساتھ قرآن کریم کا موضوع بنایا، حضرت موسیٰں کی ولادت کا ذکر قرآن مجید کے متعدد مقامات پر تفصیل کے ساتھ بیان ہوا ہے۔ ’’سورہ القصص‘‘ کا آغاز ہی قصہِ موسیٰ و فرعون سے ہوا ہے جو کہ 50 آیات مبارکہ پر مشتمل ہے۔

پہلی 14 آیاتِ کریمہ میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی پیدائش سے پہلے کے حالات، ان کی پیدائش، پھر دودھ پلائے جانے کا بیان، ان کے بامرِ الٰہی صندوق میں ڈالے جانے، فرعون کے محل کے ساتھ دریا کی لہروں کے دوش پر بہتے ہوئے صندوق کے وہاں پہنچنے کا بیان، پھر فرعون کے محل میں پرورش پانے اور رضاعت کے لئے ان کی والدہ کی طرف لوٹائے جانے اور جوانی اور بعثت یعنی ایک ایک چیز کو بیان کیا ہے۔ یہی ولادتِ موسیٰں کا احترام ہے جو اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے۔

6۔ ولادتِ مریم علیھا السلام کا احترام

اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں حضرت مریم علیھا السلام کی ولادت کو بھی بیان کیا ہے جو اگرچہ پیغمبر نہیں لیکن ایک برگزیدہ پیغمبر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی والدہ ماجدہ اور ایک پاکباز ولیہِ کاملہ ہیں۔ ان کی ولادت بیان کرتے ہوئے اللہ تبارک و تعالیٰ نے سب سے پہلے بعض انبیاء علیھم السلام اور ان کی نسل کی فضیلت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:

 إِنَّ اللّهَ اصْطَفَى آدَمَ وَنُوحًا وَآلَ إِبْرَاهِيمَ وَآلَ عِمْرَانَ عَلَى الْعَالَمِينَo ذُرِّيَّةً بَعْضُهَا مِن بَعْضٍ وَاللّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌo

’’بیشک اللہ نے آدم (علیہ السلام) کو اور نوح (علیہ السلام) کو اور آل ابراہیم کو اور آل عمران کو سب جہان والوں پر (بزرگی میں) منتخب فرما لیا۔ یہ ایک ہی نسل ہے ان میں سے بعض بعض کی اولاد ہیں اور اللہ خوب سننے والا خوب جاننے والا ہے۔‘‘

آل عمران، 3: 33۔34

یہ تمہید تھی جس سے آگے حضرت مریم علیھا السلام کی ولادت کا بیان ہو رہا ہے۔ اب کوئی کہنے والا کہہ سکتا ہے کہ قرآن نے گذشتہ واقعہ بیان کیا ہے تو آپ اس کو ادب و احترام کے زمرے میں کیوں شامل کر رہے ہیں؟ ایسا ذہن رکھنے والے لوگوں کو جان لینا چاہیے کہ یہ اندازِ بیان اللہ تعالیٰ نے فقط اپنے خاص بندوں کے مقام ومرتبہ کو اجاگر کرنے کی غرض سے اپنایا ہے جس سے ان بندوں کا ادب واحترام لوگوں کے ذہنوں میں بٹھانا مقصود ہوتا ہے۔

7۔ یومِ ولادتِ عیسیٰں کا احترام

سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی والدہ محترمہ حضرت مریم علیھا السلام جو اللہ رب العزت کی پاکباز ولیہ تھیں۔ ان کے ذکر کے بعد ان کے فرزند اللہ کے برگزیدہ نبی حضرت عیسیٰں کا ذکر بھی اللہ تبارک و تعالیٰ نے بیان فرمایا۔ سورہِ مریم کا ایک مکمل رکوع ذکرِ عیسیٰ علیہ السلام پر مشتمل ہے جس میں ان کی ولادت سے قبل ان کی والدہ محترمہ کو بیٹے کی خوشخبری دیئے جانے سمیت تفصیلی واقعہ کا بیان قرآن مجید میں مذکور ہے جو ان کے یومِ ولادت کے احترام کو آشکار کرتا ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حوالے سے قرآن مجید کلام کی نسبت ان کے یومِ ولادت کی طرف کر کے فرماتا ہے:

وَ السَّلٰمُ عَلَيَ يَوْمَ وُلِدْتُّ وَ يَوْمَ اَمُوْتُ وَ يَوْمَ اُبْعَثُ حَيًّا

’’اور مجھ پر سلام ہو میرے میلاد کے دن، اور میری وفات کے دن، اور جس دن میں زندہ اٹھایا جاؤں گا۔‘‘

مریم، 19: 33

8۔ مولدِ عیسیٰ علیہ السلام ہونے کے سبب بیتِ لحم کا احترام

حضرت انس بن مالکص سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا سفرِ معراج بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ جبرائیل علیہ السلام نے بیت اللحم کے مقام پر مجھ سے کہا:

أَنْزِلْ فَصَلِّ، فَنَزَلْتُ فَصَلَّيْتُ، فَقَالَ: أَتَدْرِيْ أَيْنَ صَلَيَتَ؟ صَلَيَتَ بَيْتَ لَحْمٍ حَيْثُ وُلِدَ عِيْسَي عليه السلام.

’’آپ (براق سے) اترئیے اور نماز پڑھیے تو میں نے اتر کر نماز ادا کی، پس اس نے کہا: آپ جانتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کہاں نماز ادا کی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیت اللحم میں نماز ادا کی ہے جہاں عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش ہوئی تھی۔‘‘

 نسائی، السنن، کتاب الصلاۃ، باب فرض الصلاۃ، 1: 222، رقم: 450
 طبرانی، مسند الشامیین، 1: 194، رقم: 341
 ابن کثیر، تفسیر القرآن العظیم، 3: 7

9۔ یومِ نزولِ مائدۃ کا احترام

حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے جب اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اپنی امت کیلئے مائدہ کی نعمت طلب کی تو یوں دعا مانگی:

اللَّهُمَّ رَبَّنَا أَنزِلْ عَلَيْنَا مَآئِدَةً مِّنَ السَّمَاءِ تَكُونُ لَنَا عِيداً لِّأَوَّلِنَا وَآخِرِنَا وَآيَةً مِّنكَ وَارْزُقْنَا وَأَنتَ خَيْرُ الرَّازِقِينَo

’’اے اللہ! اے ہمارے رب! ہم پر آسمان سے خوانِ (نعمت) نازل فرما دے کہ (اس کے اترنے کا دن) ہمارے لئے عید ہوجائے، ہمار ے اگلوں کے لئے (بھی) اور ہمارے پچھلوں کے لئے (بھی)، اور (وہ خوان) تیری طرف سے نشانی ہو، اور ہمیں رزق عطا کر! اور تو سب سے بہتر رزق دینے والا ہے۔‘‘

المائدۃ، 5: 114

قرآنِ حکیم کی اس آیت میں اللہ تعالیٰ کے نبیں کی زبان سے یہ تصور واضح ہوا کہ جس دن اللہ تعالیٰ کی نعمت اترے اس دن کی تعظیم بجا لائی جائے اور اس کا احترام کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کا شکرانہ ادا کیا جائے۔

10۔ یومِ ولادتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا احترام

انبیاء علیہ السلام کی ولادت کے واقعات کا ذکر، ان کے کمالات و برکات اور ان پر رب کریم کی عنایات کا ذکر سنتِ الٰہیہ ہے اور ان کا بار بار دہرانا قرآن کا منشاء ہے۔ اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں اپنے نبیوں کی ولادت کا ذکر فرما کر ان کی شان کو اجاگر کیا۔ دیگر انبیاء کی طرح حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کا تذکرہ بھی قرآن مجید میں موجود ہے۔

مطالعہِ قرآن سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اللہ رب العزت نے امام الانبیاء رحمت عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پہلے جتنے بھی انبیاء علیھم السلام کا ذکر کیا وہ فقط ذکرِ ولادت تھا مگر جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر کیا تو اس شانِ امتیاز کے ساتھ کیا کہ سورۃ البلد کی ابتدائی تین آیات میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کی نسبت سے نہ صرف آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شہرِ ولادت بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آباو اجداد اور خود آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قسم کھائی۔

11۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے یومِ میلاد کے احترام کی تخصیص فرمائی

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے عمل سے امت کو اپنے یومِ میلاد کے احترام کی تعلیم دی جیسا کہ حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پیر کے دن روزہ رکھنے کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

فِيْهِ وُلِدْتُ وَ فِيْهِ اُنْزِلَ عَلَيَ.

’’اسی روز میری ولادت ہوئی، اسی روز میری بعثت ہوئی اور اسی روز میرے اوپر قرآن نازل کیا گیا۔ ‘‘

مسلم، الصحیح، کتاب الصیام، باب استحباب صیام ثلاثۃ أَیام من کل شہر، 2: 819، رقم: 1162

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کا شکر بجالاتے ہوئے ولادت کی خوشی میں بکرے ذبح کئے اور ضیافت کا اہتمام فرمایا۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:

اَنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم عَقَّ عَنْ نَفْسِهِ بَعْدَ مَا بُعِثَ نَبِيًّا.

’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بعد از بعثت اپنا عقیقہ کیا۔‘‘

مقدسی، الاحادیث المختارۃ، 5: 205، رقم: 1832
طبرانی، المعجم الاوسط، 1: 298، رقم: 994
رویانی، المسند، 2: 386، رقم: 1371

ایک دوسری روایت میں حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:

أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم عَقَّ عَنْ نَفْسِهِ بَعْدَ النُّبُوَّةِ.

’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اعلانِ نبوت کے بعد اپنا عقیقہ کیا۔‘‘

بیہقی، السنن الکبری، 9: 300، رقم: 43
عسقلانی، فتح الباری، 9: 595

محدثینِ کرام نے اس امر کی تصریح کی ہے کہ یہاں عقیقہ مراد نہیں کیونکہ وہ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دادا عبدالمطلب نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادتِ باسعادت کے ساتویں روز کر دیا تھا۔ لہٰذا اس سے مراد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اپنی ولادت پر اظہارِ شکرِ باری تعالیٰ ہے۔

12. ’’اَلْيَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِيْنَکُمْ‘‘ کے یومِ نزول کا احترام

1۔ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:

اَنَّ رَجُـلًا مِّنَ الْيَهُوْدِ قَالَ لَهُ: يَا اَمِيْرَ الْمُؤْمِنِيْنَ! آيَهٌ فِی کِتَابِکُمْ تَقْرَؤُوْنَهَا لَوْ عَلَيْنَا مَعْشَرَ الْيَهُوْدِ نَزَلَتْ لَاتَّخَذْنَا ذَلِکَ الْيَوْمَ عِيْدًا، قَالَ: أَيُ آيَةٍ؟ قَالَ: {اَلْيَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِيْنَکُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَيْکُمْ نِعْمَتِيْ وَ رَضِيْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِيْنًا}.

قَالَ عُمَرُ: قَدْ عَرَفْنَا ذَلِکَ الْيَوْمَ وَالْمَکَانَ الَّذِيْ نَزَلَتْ فِيْهِ عَلَی النَّبِیِّ صلی الله عليه وآله وسلم وَهُوَ قَائِمٌ بِعَرَفَةَ يَوْمَ جُمُعَةٍ.

’’ایک یہودی نے ان سے کہا: یا امیرالمومنین! آپ اپنی کتاب میں ایک ایسی آیت پڑھتے ہیں اگر وہ ہم یعنی قوم یہود پر اترتی تو ہم اس دن کو عید بنا لیتے، آپ نے فرمایا، کون سی آیت؟ اس نے کہا: {اَلْيَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِيْنَکُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَيْکُمْ نِعْمَتِيْ وَ رَضِيْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِيْنًا} [المائدۃ، 5: 3] (آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لئے اسلام کو (بطورِ) دین(یعنی مکمل نظامِ حیات کی حیثیت سے) پسند کر لیا۔)

 بخاری، الصحیح، کتاب الإیمان، باب زیادۃ الإیمان ونقصانہ، 1: 25، رقم: 45
اس حدیث کو امام بخاری نے اپنی الصحیح، کتاب المغازی (رقم: 4145)، کتاب تفسیر القرآن (رقم: 4330) اور کتاب الاعتصام (رقم: 6840) میں بھی بیان کیا ہے۔
مسلم، الصحیح،کتاب التفسیر، 4: 2313، رقم: 3017
ترمذی، الجامع الصحیح، کتاب تفسیر القرآن، باب من سورۃ المائدۃ، 5: 250، رقم: 3043

حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ہم اس دن اور جگہ کو پہچانتے ہیں جس میں یہ آیت حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل ہوئی اس حالت میں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عرفات کے مقام پر جمعہ کے دن قیام فرما تھے۔‘‘

حدیث مذکور میں قابلِ غور نکتہ یہ ہے کہ یہودی کا سوال یہ تھا اگر یہ آیت ہم پر اترتی تو ہم اس دن کو عید کے طور پر مناتے، تم کیوں نہیں مناتے ؟یہاں جواب بھی اسی نوعیت کا ہونا چاہیے تھا مگر حضرت عمرص نے اس کے جواب میں نزول کا دن اور مقام بیان فرما دیا کہ ہم اس دن اور جگہ کو پہچانتے ہیں جہاں یہ آیت نازل ہوئی، وہ میدان عرفات یعنی یوم الحج اور یوم الجمعہ تھا۔ ظاہراً جواب کی سوال سے مطابقت نہیں ہے۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا جواب سوال کے عین مطابق ہے۔ آپ نے ’عرفہ اور یوم الجمعہ‘ کے الفا ظ سے ہی اس کا مکمل جواب دے دیا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے اشارۃً بتا دیا کہ یہ یومِ حج اور یومِ جمعہ ہمارے ہاں دونوں عید کے دن ہیں، یوم الحج سالانہ عیداور جمعۃ المبارک ہفتہ وار عید۔ اس لیے یہودی اس جواب سے مطمئن ہوگیا اور دوبارہ سوال نہ کیا۔

یہ سب احترامات ہیں، تحریمات نہیں

مذکورہ بالا احترامات کی صورتیں جو قرآن حکیم سے بیان کی گئی ہیں ان کا ادب و احترام بجا لانا حکمِ شریعت ہے۔ پس یومِ تخلیقِ آدم علیہ السلام کا احترام ہو یا یومِ نجات نوح علیہ السلام ، یومِ غلافِ کعبہ کا احترام ہو یا یومِ ولادتِ عیسیٰ و مریم علیہما السلام کی تعظیم، اسی طرح یومِ فتحِ موسوی علیہ السلام اور یومِ ولادتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا احترام ہو یا یومِ آيت اَکْمَلْتُ وغیرہم کا۔ یہ سب احترامات کی صورتیں ہیں، تحریمات نہیں کیونکہ تحریمات اللہ تعالیٰ کے لئے خاص ہیں جیسے شعائر اللہ صفا و مروہ اور قربانی کے جانور وغیرہ، ان کی حرمت صرف اللہ تعالیٰ کے لئے مختص ہے۔

فصل دوم: توحید فی النّذوراورشرک فی النّذور

توحید فی النّذور کا مفہوم

نذر و نیاز کے بارے میں درست اور صحیح عقیدہ یہ ہے کہ یہ خالصتاً اللہ تعالیٰ کا حق ہے اور صرف اسی کے لئے جائز ہے۔ عرف عام میں اولیاء اللہ کے لئے نذر کا لفظ استعمال کئے جانے پر اعتراض کیا جاتا ہے کہ یہ ناجائز ہے۔ اس حوالے سے یہ ذہن نشین کر لیا جائے کہ اس سے مراد ان کے نام پر ہدیہ اور تحفہ پیش کرناہے جو کہ عبادت نہیں۔ بعض لوگ نذور اور ایصالِ ثواب کو آپس میں خلط ملط کرتے ہیں اور پھر ایصالِ ثواب کے جائز طریقوں کو بھی شرک اور ناجائز کہنے لگتے ہیں یہ تصور درست نہیں۔ ایصال ثواب ثابت شدہ شرعی طریقہ ہے کوئی چیز محض کسی بزرگ کی طرف منسوب کرنے سے حرام نہیں ہوتی جسے بعض لوگ غلط فہمی کی بنا پر ’’مَا اُهِلَّ بِهِ لِغَيْرِ اللہِ‘‘سے تعبیر ر کے اس کا غلط اطلاق دوسری چیزوں پر کرتے ہیں۔ اِھلال کا معنی ’’منسوب کرنا‘‘ کسی طرح بھی ثابت نہیں (اسکی تفصیلات اس آیت کے ذیل میں آگے الگ باب میں آ رہی ہے)۔ شرعی نذر اللہ تعالیٰ کیلئے خاص ہے اور یہ شاملِ عبادت ہوتی ہے جبکہ اس کی نسبت اہل اللہ کی طرف کر دی جاتی ہے آپ منت مان کر کھانا پکائیں یاکچھ اور کریں وہ اللہ تعالیٰ ہی کی نذر ہو گی جبکہ اس کا ایصالِ ثواب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ یا کسی اور بزرگ کی طرف منسوب کرنا امرِ جائز ہے۔ یہ عمل شرک تب ہو گا جب یہ کسی غیر کی خوشنودی کے لئے نذر مانی جائے۔

شرک فی النذور

نذر صدقہ کے معنی میں استعمال ہوتی ہے اس میں عبادت، نیاز مندی، جھکنے اور غایتِ تعظیم کے معانی پائے جاتے ہیں۔ نذر کے بارے میں درست عقیدہ یہی ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا حق ہے اور صرف اسی کے لئے ماننا جائز ہے۔ اس لئے نذر شرعی نہ تو کسی رسول اور نبی کے لئے جائز ہے اور نہ ہی اولیاء و صلحاء کے لئے۔ یہاں یہ بات ذہن نشین رہنی چاہئے کہ انبیاء و اولیاء کے لئے جو نذر کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے وہ مجازی معنی میں ہوتا ہے حقیقی معنی میں نہیں۔ ان کے لئے جب نذر کا لفظ بولا جاتا ہے تو اس سے مراد نذر عرفی بمعنی ہدیہ، نذرانہ اور ایصالِ ثواب ہے جو انبیائ، اولیاء اور عام مسلمانوں کے لئے ہے اور یہ بہترین ہدیہ ہے۔ جس طرح قربانی، عبادت اور دعا، خالصۃً اللہ تعالیٰ کے لئے ہوتی ہے اسی طرح ہم نذر اللہ رب العزت کی رضا و خوشنودی کے لئے مانتے ہیں جب کہ اس کا فائدہ اطعام الطعام اور صدقہ و خیرات کی صورت میں غریب، مسکین، محتاج، مفلس، یتیم اور بے سہارا افراد کو پہنچاتے ہیں۔ قربانی کی حقیقت کے بارے قرآن میں ارشاد فرمایا گیا:

 لَن يَنَالَ اللَّهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَلَكِن يَنَالُهُ التَّقْوَى مِنكُمْ

’’ہرگز نہ (تو) اللہ کو ان (قربانیوں) کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ ان کا خون مگر اسے تمہاری طرف سے تقویٰ پہنچتا ہے۔‘‘

(1) الحج، 22: 37

قربانی کے اندر تقویٰ اور اخلاص کی نیت مضمر ہوتی ہے اور وہی اس کی روح ہے جبکہ گوشت سے ناداروں اور غریبوں کو فائدہ پہنچایا جاتا ہے۔ یہ طے شدہ امر ہے کہ نذر خالصتاً اللہ تعالیٰ کے لئے ہے مگر اس کے ذریعے ثواب انبیاء علیھم السلام اور اولیائے کرام کو پہنچایا جاتا ہے۔

یہاں یہ بات ملحوظِ خاطر رکھنا ضروری ہے کہ اہلِ علم جب نذر کا لفظ استعمال کریں تو بہتر ہے کہ وہ اسے حقیقی معنی میں استعمال کریں۔ اگر وہ اس کو مجازی یا عرفی معنی میں استعمال کرنا چاہیں تو پھر درست عقیدے کی وضاحت بھی کر دیں تاکہ عوام میں کسی قسم کا مغالطہ اور عقیدے کا بگاڑ بوجہِ جہالت پیدا نہ ہونے پائے۔

خیرات و صدقات اور عملِ صالح کی نذر ماننا شرک نہیں

کوئی عملِ صالح بطورِ نذر مانا جا سکتا ہے۔ حدیثِ مبارکہ میں ہے کہ جب ایک مرتبہ حسنین کریمین رضی اللہ عنھما علیل ہوئے تو ان کے لئے بطورِ نذر روزے رکھے گئے اور حقداروں کو کھانا کھلایا گیا۔

(1) رازی، التفسیر الکبیر، 30: 244

یہ بات مدنظر رکھنی چاہیے کہ ہر عملِ صالح دوگونہ تعلق کا حامل ہے:

ایک تعلق اللہ تعالیٰ کے ساتھ جس میں اس عمل کی نیت اور اس کے متعلق عقیدے کا اللہ تعالیٰ کے لئے خاص ہونا ہے۔

اس عمل کا دوسرا تعلق مخلوق کے ساتھ ہے مثلاً مزاراتِ اولیاء پر اظہارِ تعظیم کے لئے چادر چڑھانا جو شعائر اللہ ہونے کے باعث تعظیماً جائز عمل ہے۔ صاحبِ مزار کے ساتھ یہ تعلق اس امر کا مظہر ہے کہ اس عمل سے اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی کا حصول مقصود ہے کہ اللہ والوں کے مزارات کی تعظیم شعائر اللہ سمجھ کر حکمِ الٰہی کی تعمیل میں کی جاتی ہے۔

لہٰذا اگر کوئی گیارہویں شریف کی نذر مانتا ہے کہ میرا فلاں کام ہو گیا تو سیدنا حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی گیارہویں دوں گا تو جان لیجئے کہ یہ صدقہ و خیرات ہی کی ایک صورت ہے۔ اس میں نیت کے ساتھ دعا ہو گی کہ مولیٰ کریم تیری رضا کے لئے یہ کھانا پکانا، قرآن پڑھنا پڑھانا تیرے حضور پیش کیا جاتا ہے اسے اپنی بارگاہ میں قبول فرما اور اس عمل سے جو ثواب ملے اسے میں جملہ انبیاء علیہم السلام اور اولیاء کرام بشمول شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ کی ارواح کو بالخصوص پیش کرتا ہوں۔ پس اس دعا کے ساتھ ایصالِ ثواب کرنا شرک نہیں۔

اس پر مزید بحث ’’وَمَا اُهِلَّ بِهِ لِغَيْرِ اللہِ‘‘ کے ضمن میں الگ باب میں ملاحظہ کیجئے۔

نذر میں شرک کا وقوع کب ہوتا ہے؟

نذر میں شرک تب ہو گا جب اس کا حق باری تعالیٰ کے علاوہ کسی اور کے لئے ثابت کیا جائے جیسا کہ کفار و مشرکین اپنے بتوں اور معبودانِ باطلہ کے لئے اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں اپنے کھیتوں اور فصلوں کی پیداوار کا حصہ اسی طرح مقرر کرتے تھے جیسے اللہ تعالیٰ نے ہمارے اموال اور فصلوں میں زکوٰۃ و عشر کے حصے مقررفرمانے کاحکم دیاہے۔

قرآن حکیم میں ارشاد ہے:

وَجَعَلُواْ لِلّهِ مِمِّا ذَرَأَ مِنَ الْحَرْثِ وَالْأَنْعَامِ نَصِيبًا فَقَالُواْ هَـذَا لِلّهِ بِزَعْمِهِمْ وَهَـذَا لِشُرَكَآئِنَا فَمَا كَانَ لِشُرَكَآئِهِمْ فَلاَ يَصِلُ إِلَى اللّهِ وَمَا كَانَ لِلّهِ فَهُوَ يَصِلُ إِلَى شُرَكَآئِهِمْ سَاءَ مَا يَحْكُمُونَo

’’انہوں نے اللہ کے لئے انہی (چیزوں) میں سے ایک حصہ مقرر کر لیا ہے جنہیں اس نے کھیتی اور مویشیوں میں سے پیدا فرمایا ہے پھر اپنے گمانِ (باطل) سے کہتے ہیں کہ یہ (حصہ) اللہ کے لئے ہے اور یہ ہمارے (خودساختہ) شریکوں کے لئے ہے۔ پھر جو (حصہ) ان کے شریکوں کے لئے ہے سو وہ اللہ تک نہیں پہنچتا اور جو (حصہ) اللہ کے لئے ہے تو وہ ان کے شریکوں تک پہنچ جاتا ہے (وہ) کیا ہی برا فیصلہ کر رہے ہیں۔‘‘

(1) الانعام، 6: 136

یاد رہے کہ مشرکین کا یہ عمل (شرک فی النذر) بتوں اور اپنے جھوٹے خدائوں کے لئے ہوتا تھا لیکن اگر یہی عمل بتوں کی بجائے کسی بزرگ ہستی کے لئے اسی عقیدے کے ساتھ روا رکھا جائے تبھی یہ عمل شرک ہو گا ورنہ نہیں بلکہ اس کے برعکس جب نذر اللہ کی مانی جائے مگر اس کا ثواب انبیائعلیھم السلام اور اولیائے کرام کو پہنچایا جائے تویہ ہرگز شرک نہیں کیونکہ اس سے مقصود اللہ رب العزت کی بخشش و عطا کا حصول ہے وہ اپنے بندوں پر انتہائی شفیق و مہربان ہے اس کے عفو و کرم کا دروازہ کبھی بند نہیں ہوتا اور وہ اپنی مخلوق کے لئے رحیم و کریم ہے۔ ربِّ کائنات تو معمولی سے معمولی قربانی کو بھی رائیگاں نہیں جانے دیتا۔ ایک دانہ کے بدلے میں سات سو دانے عطا فرماتا ہے۔ جب ایک عمل اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی نذر کرکے اس کا ثواب کسی کو پہنچایا جائے تو وہ ایصالِ ثواب کرنے والے کو بھی عطا کرے گا اور اسے بھی۔ یہی وجہ ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے احادیثِ مبارکہ میں جابجا ایصالِ ثواب کی تلقین فرمائی۔

نیک عمل کا کسی کے نام انتساب

کوئی نیک عمل کر کے کسی کی روح کو ایصالِ ثواب کرنا یا اس کے نام سے منسوب کرنا یہ از روئے شرع جائز اور باعثِ ثواب عمل ہے۔ نذر و نیاز، صدقہ و خیرات اعمال خیر میں سے ہیں اور یہ خالصتاً اللہ کیلئے ہوتے ہیں مگر جس بزرگ، شیخ، دوست یا عزیز کیلئے ایصال ثواب کیا جائے اس کے نام منسوب کیے جاتے ہیں جو از روئے شرع جائز اور درست ہے۔

1۔ حدیث مبارکہ میں ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت سعد رضی اللہ عنہ کو ان کی ماں کی طرف سے صدقہ کے لیے کنواں کھدوانے کو کہا۔ حدیث مبارکہ کے الفاظ اس طرح ہیں:

عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَادَةَ رضی الله عنه أنَّه قَالَ: يَا رَسُوْلَ اللہِ! اِنَّ اُمَّ سَعْدٍ مَاتَتْ فَأيُ الصَّدَقَةِ أفْضَلُ؟ قَالَ: الْمَائُ، قَالَ: فَحَفَرَ بِئْرًا وَقَالَ: هٰذِه لِاُمِّ سَعْدٍ.

’’حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم امِ سعد کا انتقال ہو گیا ہے، (ان کے ایصال ثواب کے لئے) کون سا صدقہ افضل ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: پانی (پلانا) تو انہوں نے ایک کنواں کھدوا دیا اور کہا: یہ ام سعد کا کنواں ہے۔‘‘

  1. ابو داود، السنن، کتاب الزکاۃ، باب فی فضل سقی المائ، 2: 130، رقم: 1681

  2. نسائی، السنن، کتاب الوصایا، باب ذکر الاختلاف علی سفیان، 6: 254۔255، رقم: (3662۔3666)

  3. ابن ماجۃ، السنن، کتاب الأدب، باب فضل صدقۃ المائ، 2: 1214، رقم: 3684

  4. احمد بن حنبل، المسند، 5: 284، رقم: 22512

2۔ اسی طرح سیدنا حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے حوالے سے مروی ہے کہ انہوں نے بصرہ کی ایک بستی اُبُلَّہ سے آئے ہوئے حاجیوں سے فرمایا تھا کہ تم میں سے کوئی شخص مسجد عَشَّار میں دو یا چار رکعت نفل نماز پڑھ کر میری طرف منسوب کرے۔ روایت کے الفاظ یہ ہیں:

عَنْ اِبْرَاهِيْمَ بْنِ صَالِحِ بْنِ دِرْهَمٍ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبِيْ يَقُوْلُ: انْطَلَقْنَا حَاجِّيْنَ فَاِذَا رَجُلٌ فَقَالَ لَنَا اِلَی جَنْبِکُمْ قَرْيَةٌ يُقَالُ لَهَا الأُبُلَّةُ؟ فَقُلْنَا: نَعَمْ. قَالَ مَنْ يَضْمَنُ لِيْ مِنکُمْ اَن يُصَلِّيَ لِيْ فِي مَسْجِدِ الْعَشَّارِ رَکْعَتَيْنِ أَوْ اَرْبَعًا وَ يَقُوْلُ هَذِهِ لِأبِيْ هُرَيْرَةَ: سَمِعْتُ خَلِيْلِيْ أَبَا الْقَاسِمِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ: إِنَّ اللہَ يَبْعَثُ مِنْ مَسْجِدِ الْعَشَّارِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ شُهْدَاءَ لَا يَقُومُ مَعَ شُهَدَاءِ بَدْرٍ غَيْرُهُم.

’’ابراہیم بن صالح بن درھم کا بیان ہے کہ میرے والد محترم نے فرمایا: ہم حج کرنے حرم کعبہ گئے تو ایک آدمی نے ہم سے دریافت کیا: کیا تمہارے علاقے میں ’’اُبُلّۃ‘‘ نام کی کوئی بستی ہے؟ ہم نے جواب دیا: ہاں۔ اُس نے کہا: تم میں سے کون ہے جو مجھے اس بات کی ضمانت دیتا ہے کہ وہ ’’مسجد عشار‘‘ میں میرے لئے دو یا چار رکعتیں پڑھے اور کہے: ان رکعتوں کا ثواب ابوہریرہ کے لئے ہے۔ میں نے اپنے خلیل ابو القاسم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن مسجد عشار سے ایسے شھیدوں کو اٹھائے گا کہ شہدائے بدر کے سوا کوئی ان کے ساتھ کھڑا نہ ہوگا۔‘‘

  1.  ابوداؤد، السنن، کتاب الملاحم، باب فی ذکر البصرۃ، 4: 113، رقم: 4308

  2.  بیہقی، شعب الإیمان، 3: 479، رقم: 4115

ان روایات سے دو باتوں کا واضح ثبوت فراہم ہوا:

1۔ غیر کے ایصالِ ثواب کیلئے صدقہ و خیرات اور نفل نماز جائز ہے۔

2۔ کسی نیک عمل کو برائے ایصال ثواب غیر کی طرف منسوب کرنا جائز ہے۔

مزید تفصیل کے لئے ہماری کتاب ’’ایصالِ ثواب کی شرعی حیثیت‘‘ کا مطالعہ مفید رہے گا۔

مطلقًا تقرب الی الغیر شرک نہیں ہے

یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ کفر و شرک کا مدار عبادت کے اعتقاد پر ہے۔ اس کے بغیر عقیدۃً و عملاً شرک واقع نہیں ہو سکتا اگر عملِ ذبح فی نفسہ تقرّب الی الغیر کی نیت سے ہو تو یہ عبادت بن جائے گا اور داخلِ شرک ہو گا۔ اس اعتقاد کی نہ اجازت ہے اور نہ کوئی کلمہ گو مسلمان اس عقیدے کا حامل ہے۔

ائمہ حدیث و تفسیر کی آراء سے بھی یہی بات ثابت ہوتی ہے کہ ذبیحہ کی حرمت کا بنیادی سبب اُس تقرّب کو قرار دیا گیا ہے جو تقرّب بذریعہ عبادت ہو جبکہ مطلق تقرب الی الغیر شرک نہیں۔ اگر مطلقاً تقرّب الی الغیر کو شرک کہا جائے تو پھر تمام ذوی القربیٰ اللہ تعالیٰ کے شریک قرار پاتے ہیں۔ ان کو ذوی القربیٰ اِسی لئے کہا گیا ہے کہ ان سے قرابت کا تعلق ہوتا ہے اور ہر شخص کو اس قرابت کے برقرار رکھنے کاحکم ہے۔ مطلق تقرّب الی الغیرکو شرک سمجھ لیا جائے تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایسے تمام احکام باطل اور ساقط قرار پائیں گے جن میں مودت فی القربیٰ کے لئے ترغیبات وارد ہوئی ہیں نیز وہ آیات جن میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اقرباء سے محبت و مودت کا حکم موجود ہے مثلاً ارشادِ ربانی ہے:

 قُل لَّا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبَى

’’فرما دیجئے: میں اِس (تبلیغِ رسالت) پر تم سے کوئی اُجرت نہیں مانگتا مگر (اپنی اور اللہ کی) قرابت و قربت سے محبت (چاہتا ہوں)۔‘‘

(1) الشوریٰ، 42: 23

اِس لئے ماننا پڑے گا کہ مطلقاً تقرّب الی الغیر شرک نہیں بلکہ ایسا تقرب شرک ہے جو بطور عبادت ہو۔ یہی وجہ ہے کہ فقہائے اُمت نے مسلمانوں سے متعلق ایسے معاملات میں بدگمانی سے منع کیا ہے، صاحبِ در المختار فرماتے ہیں:

إنا لا نسئ الظنَّ بالمسلم أنه يتقرب إلی الآدمی بهذا النحر.

’’ہم کسی مسلمان کے بارے میں ہرگز یہ بدگمانی نہیں کرتے کہ وہ اِس فعل ذبح کے ذریعہ کسی شخص کا تقرب (بطورِ عبادت) چاہتا ہے۔‘‘

(1) حصکفی، الدرالمختار، 6: 310

علامہ ابنِ عابدین الشامی رحمۃ اللہ علیہ نے علامہ حصکفی کی اسی عبارت (أنه يتقرب الی الآدمی) کی شرح کرتے ہوئے تقرب کو بطور عبادت تصریحاً کفر بیان کیا ہے:

أی علی وجه العبادة لأنه المکفر وهذا بعيد من حال المسلم.

’’یعنی (کسی بھی انسان کا تقرب جو) بطور عبادت ہو (وہ کفر ہوتا ہے) کیونکہ وہ کفر کا ارتکاب کرتا ہے اور یہ مسلمان کے حال سے بہت بعید ہے۔‘‘

ابن عابدین، ردالمحتار علی الدر المختار، 6: 310

یہ بات ذہن نشین رہے کہ جو لوگ مطلقاً تقرب الی اللہ کے لئے وسیلہ اور ذریعہ کی بھی نفی ثابت کرتے ہیں وہ درست نہیں کیونکہ کفار اپنے ان بتوں کو فقط ’’ تقرب الی اللہ‘‘ کا ذریعہ نہیں مانتے تھے بلکہ ان کے آگے سربسجود ہوتے ، انہیں معبود سمجھ کر ان کی پوجا بھی کرتے اور ان کے لئے جانوروں کا نذرانہ بھی عبادت کی نیت سے پیش کرتے جیسا کہ آیت ِکریمہ کے الفاظ مَا نَعْبُدُهُمْ إِلَّا لِيُقَرِّبُونَا إِلَى اللَّهِ زُلْفَى ’’ہم اُن کی پرستش صرف اس لئے کرتے ہیں کہ وہ ہمیں اللہ کا مقرّب بنا دیں۔‘‘ (3) الزمر، 39: 3 سے عیاں ہے۔

اس کے برعکس کوئی ادنیٰ مؤمن بھی انبیاء اور اولیاء کو معبود سمجھتے ہوئے انہیں وسیلہ اور ذریعہ نہیں بناتا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ادنیٰ ترین غلام بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عبد اور عابد ہونے کا عقیدہ رکھتا ہے نہ کے معبود ہونے کا۔ یہی وہ بنیادی عقیدہ ہے جو ایک مؤمن و کافر، توحید پرست و بت پرست اور موحد و مشرک کے درمیان واضح حدِ فاصل قائم کرتا ہے۔ اسی نکتہِ آغاز سے سے دو راہیں نکلتی ہیں ایک صراط الی اللہ اور دخول فی الجنۃ کا باعث بنتی ہے اور دوسری طریق الی الشیطان اور دخول فی النار کا سبب قرار پاتی ہے۔ان دو بالکل ہی مختلف راہوں پر چلنے والوں کو ایک ہی راہ کا مسافر سمجھنا ہرگزدرست نہیں۔کفار کے اس خود ساختہ تصور اور باطل نظریے کا قرآن نے بطلان فرمادیاہے کہ اگر وہ اصنام و اوثان کو محض سفارشی سمجھتے ہوتے اور اللہ تعالیٰ کے ہاں صرف قربت و نزدیکی کا ذریعہ گردانتے تو پھر معبودِ حقیقی پر اپنے بتوں کو ترجیح نہ دیتے اور نہ اپنے بتوں کی گالی کا بدلہ (معاذ اللہ) اللہ تعالیٰ کی ارفع و اعلیٰ شان میں دشنام طرازی سے لیتے اگر کفار و مشرکین کو اللہ تعالیٰ سے اتنا ہی لگاؤ اور پیار تھا تو بندوں کو اللہ تعالیٰ کی عبادت سے منع کیوں کرتے تھے؟ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

أَرَأَيْتَ الَّذِي يَنْهَىo عَبْدًا إِذَا صَلَّىo

’’کیا آپ نے اس شخص کو دیکھا جو منع کرتا ہے۔ (اللہ کے) بندے کو جب وہ نماز پڑھتا ہے۔‘‘

(1) العلق،96: 9۔10

اسی طرح اگر کفار و مشرکین اللہ تعالیٰ ہی کو مستقل مؤثر و مدبر اور متصرفِ حقیقی سمجھتے تھے تو انہوں نے یہ کیوںکہا؟

وَمَا يُهْلِكُنَا إِلَّا الدَّهْرُ

’’اور ہمیں زمانے کے (حالات و واقعات کے) سوا کوئی ہلاک نہیں کرتا۔‘‘

(2) الجاثیۃ، 45: 24

لہٰذا ’’مَا نَعْبُدُهُمْ إِلَّا لِيُقَرِّبُونَا إِلَى اللَّهِ زُلْفَى‘‘ کی بنیاد پر جمہور امت پر شرک کا فتوی صادر کرنا جہالت اور زیادتی ہے۔ ان آیات میں یہ بتلایا گیا ہے کہ کفار و مشرکین اپنے بتوں کو معبود سمجھتے تھے، ان کے لئے عبادت کی نیت سے نذر پیش کرتے تھے۔ چونکہ وہ یہ جانتے تھے کہ مسلمانوں کا یہ عقیدہ ہے کہ انبیاء و رسل ہدایت کا وسیلہ و واسطہ اور ذریعہ ہیں اور روزِ قیامت شفیع ہوں گے لہٰذا جب ہم اپنے معبودوں کے لئے شفیع اور قرب جیسے الفاظ استعمال کریں گے تو شاید مسلمان ان کے بارے میں نرم گوشہ اختیار کریں۔ پس قرآن حکیم نے واضح طور پر بتا دیا کہ ایک جائز دلیل کو بنیاد بنا کر کسی بت کو قربت کا ذریعہ سمجھتے ہوئے اُس کی پوجا پاٹ شروع کر دینا ہرگز جائز نہیں ہے۔ کفار کا یہ عمل صراحتًا شرک ہے۔ ان کی اس روشِ بد کا قیاس، ایمان والوں کی انبیاء و اولیاء سے پاکیزہ عقیدت و محبت اور انہیں اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں سفارش، شفاعت یا استعانت کا ذریعہ بنانے پر نہیں کیا جا سکتا لہٰذا ایک مؤمن اور کافر کے درمیان اس بنیادی فرق کو اس کے صحیح تناظر میں سمجھنا چاہیے تاکہ ایمان و کفر اور توحید و شرک کے درمیان تمیز اور فاصلہ قائم رہے۔

ذبیحہ کے ذریعے ایصالِ ثواب کا تصور

ہمارے ہاں جو جانور بھی ذبح کئے جاتے ہیں خواہ وہ صدقات و خیرات کی غرض سے ہوں، ولیمہ و عقیقہ کی غرض سے یا عام دعوت و اطعام کی غرض سے، شادی اور اجتماع کا موقع ہو یا عید، عرس اور میلاد کا، کبھی بھی عملِ ذبح جسے اہراق الدم یعنی خون بہانے کا عمل کہتے ہیں تقرّب الی الغیر کی نیت سے نہیں کیا جاتا۔ عملِ ذبح ہمیشہ خالصۃً لِوَجْہِ اللہ یعنی اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے اور عبادۃً ِﷲ یعنی اللہ کی عبادت کے لئے ہوتا ہے اور باسم اللہ یعنی اللہ کے نام پر ہوتا ہے یہی عملِ ذبح اور اھلال کہلاتا ہے اور یہی عبادت بنتا ہے، اس میں کسی غیر کو شریک کر لیں یا اسے غیر کے تقرب کے لئے مخصوص کر دیں تو شرک ہو جائے گا۔ اگراس میں توحید اور خالصیت برقرار رہی تو قبل ازاں یا بعد ازاں اس کا مقصد و مصرف جو بھی تھا وہ شرک نہیں بن سکتا۔ مثلًا کسی نے جانور اپنی شادی اور ولیمہ کے لئے خریدے تھے، کسی نے احباب اور اقارب کی دعوت اور مہمانداری کے لئے، کسی نے اپنے بیٹے کے عقیقہ کے لئے، کسی نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے طعامِ میلاد کے لئے اور کسی نے اولیاء و صالحین کے ختم اور عرس کے لئے تو ان میں سے کوئی سبب بھی مانعِ توحید اور باعثِ شرک نہیں ہے۔ جس نے بھی اطعامِ طعام یعنی کھانا کھلانے میں اعتقاد سنتِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا رکھا، اسے بھی ثواب حاصل ہو گا اور جس نے صدقہ و خیرات کا رکھا اسے بھی ثواب حاصل ہوگا، اب یہ اس کی مرضی ہے چاہے ثواب اپنے لئے رکھے یا اولیاء و صالحین کے لئے ہدیہ و تحفہ کر دے یا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد کے لئے اس ثواب کے ہدیہ و تحفہ کرنے کو ایصالِ ثواب کہتے ہیں۔

ایصالِ ثواب کی دعا اور درخواست بھی اللہ تعالیٰ ہی سے کی جاتی ہے۔ کہ ’’یااللہ ِاس کا ثواب فلاں بزرگ کی روح کو میری طرف سے ہدیۃً عطا فرما دے‘‘۔ اس لئے اس میں شرک کا شائبہ پیدا کرنا سوائے لا علمی اور جہالت کے کچھ نہیں ہے کیونکہ یہ عمل کثرت کے ساتھ احادیثِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ثابت ہے۔ ایصالِ ثواب میں نہ کسی غیر کی عبادت کا شائبہ و امکان ہے، نہ غیر کے لئے ذبحِ مطلق ہے، نہ ذبحِ تقرب ہے اور نہ ذبحِ تعظیم۔ ہاں اگر ایصالِ ثواب میں آرزوئے قرب ہو تو اس میں شرعاً کوئی ممانعت نہیں ہے۔ کیونکہ مطلقاً صالحین کی محبت، اُن کا قرب و صحبت اور ان کی زیارت و مجالست، یہ سب کچھ شریعت میں نہ صرف مطلوب اور مستحسن ہے بلکہ احادیثِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں انکا صریح حکم اور فضیلت وارد ہوئی ہے۔

جانور کی جان کا نذرانہ بھی اللہ تعالیٰ کے لئے ہوتا ہے

بعض لوگ اِس باب میں ایک اور مغالطہ پیدا کرتے ہیں کہ ذبح سے مقصود غیر اللہ کو گوشت پہنچانا نہیں ہوتا بلکہ غیر اللہ کو جانور کی جان پیش کرنا ہوتی ہے۔ ایسا کرنا عہدِ جاہلیت کے ساتھ مشابہ ہے کیونکہ کفار و مشرکین بھی اسی طرح بتوں کو جانوروں کی رُوح بھینٹ چڑھاتے تھے، چونکہ مسلمانوں کا ایصالِ ثواب بھی اِسی کے مشابہ ہے لہٰذا یہ شرک ہے؟ یہ ایک لغو اور بے حقیقت اعتراض ہے اور صریحاً غلط فہمی ہے۔

1۔ اس لغو سوال کا جواب شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ یوں دیتے ہیں:

وکنہ ایں مسئلہ آنست کہ جان را برائے غیر جان آفرین نثار کردن درست نیست۔ و ماکولات و مشروبات ودیگر اموال را نیز اگرچہ از راہِ تقرب لِغیر اللہ دادن حرام و شرک است اما ثواب آں چیزہا را کہ عائد بر دہندہ مے شود از آن غیر ساختن جائز است۔ زیرا کہ ایشان را مے رسد کہ ثواب عمل خود را بغیر بخشند چنانچہ مے رسد کہ مالِ خود را بغیر خود بدہد و جانِ جانور مملوک آدمی نیست تا او را بکسے تواند بخشید۔ و نیز دادن مال ازیں جہت مستوجب ثواب است کہ آدمیان بوئے منتفع مے شوند، وچوں مردہ ہا بعد از مفارقت ازیں جہاں قابل انتفاع بعین مال نماندہ اند طریقِ نفع رسانیدن آنہا در شرع چنین قرار یافت کہ ثواب اموال را بمتسحقان برسانند بآنہا عائد سازند۔ و جانِ جانور اصلاً قابلِ انتفاع نیست در زندگی پس از مردگی نیز قابل انتفاع نباشد۔ آرے اضحیہ از طرف مردہ کردن در حدیث صحیح آمدہ است لیکن معینش ہمیں است کہ دادن جان برائے خدا و ثوابے کہ دارد بآں مردہ بخشیدہ شود نہ آنکہ ذبح برائے مردہ کردہ آید۔

’’اِس مسئلہ کی اصل حقیقت اور روح یہ ہے کہ جان اللہ تعالیٰ کے سوا کسی غیر کے لئے قربان کرنا درست نہیں ہے۔ کھانے پینے کی اشیاء اور دوسرے اموال کی نذر بھی اگرچہ تقربًا غیر اللہ کے لئے کرنا حرام اور شرک ہے لیکن اِن اشیاء کے دینے پرثواب غیر اللہ کو ارسال کیا جا سکتا ہے۔ جس طرح کہ کسی شخص کے ذاتی عمل کا ثواب بغیر بخشے دوسروں کو نہیں ملتا، اسی طرح ذاتی مال میں سے کسی کو دیئے بغیر کوئی کسی کا مال نہیں پا سکتا تو جانور کی جان کا مالک تو اِنسان بھی نہیں ہے وہ اسے کسی دوسرے کو کیسے دے سکتا ہے؟ نیز مال اس نیت سے دینا کہ لوگ اِس سے نفع حاصل کریں باعثِ ثواب ہوتا ہے اور جب فوت شدہ لوگ مال سے نفع حاصل نہیں کر سکتے تو شریعت نے اُس مال کا ثواب ارسال کرنے کا طریقہ اور ذریعہ مقرر کیا ہے تاکہ مرحومین اُس مال سے نفع حاصل کریں۔ جانور کی جان دینے سے کسی شخص کو حقیقۃً جب حیاتِ دُنیوی میں کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوتا تو مرنے کے بعد کسی شخص کو جانور کی جان دینے سے کیا فائدہ حاصل ہوگا۔ تاہم فوت شدہ لوگوں کی طرف سے قربانی کرنا صحیح حدیث سے ثابت ہے۔ لیکن اِس کا مطلب یہی ہے کہ جان اللہ جل جلالہ کے لئے دی جائے اور اُس عمل کا ثواب فوت شدہ لوگوں کو پہنچایا جائے۔ نہ یہ کہ ذبح اس فوت شدہ شخص کے لئے کیا جائے۔‘‘

(1) شاہ عبد العزیز، فتاویٰ عزیزی،1: 56

مذکورہ بالا فتویٰ سے یہ بات عیاں ہوئی کہ مقربین و صالحین کو ثواب پہنچانے کی غرض سے جو جانور نامزد اور مشہور کئے جاتے ہیں عقلاً، نقلاً و شرعاً حلال ہیں اور یہی صحیح عقیدہ ہے۔ اِس کے علاوہ جو کچھ ہے وہ باطل ہے۔

2۔ نذر اور ایصالِ ثواب کے باہمی تعلق کو شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ مزید واضح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

ونذر اولیاء کہ برائے قضاء حوائج معمول و مرسوم است۔ اکثر فقہاء بحقیقت آں پے نبردہ اند و آنرا بر نذر خدا قیاس کردہ حکم مردود برآوردہ اند کہ اگر نذر بالاستقلال برائے آں ولی است باطل و اگر برائے خدا است و ذکر ولی برائے بیان مصرف است صحیح است۔ لیکن حقیقت ایں نذر آنست کہ اہداء ثواب اطعام و انفاق و بذل مال بروح میت کہ امریست مسنون و از روئے احادیث صحیحہ ثابت است۔ مثل ما ورد فی الصحیحین من حال اُم سعد و غیرہا دریں نظر مستلزم مے شود۔ پس حاصل ایں نذر آنست کہ آں نسبت مثلاً: اہدا ثواب ہذا القدر الی روح فلان۔ و ذکر ولی برائے تعین عمل منذور است نہ برائے مصرف و مصرف ایں نذر نزد ایشاں متوسلان آں ولی میباشد از اقارب و خدمہ۔ وہم طریقان وامثال ذالک۔ وہمین است مقصود نذر کنندگان بلا شبہ و حکمہ: انہ صحیح یجب الوفاء بہ لانہ قربۃ معتبرۃ فی الشرع۔ آرے اگر آں ولی را حلالِ مشکلات بالاستقلال یا شفیع غالب اعتقاد مے کنند ایں عقیدہ او منجر شرک وفساد مے گردد۔ و لیکن ایں عقیدہ چیز دیگر است و نذر چیزے دیگر۔

’’اولیاء اللہ و صالحین کے لئے جو نذر عوام میں مشہور و معروف اور معمول بہ ہے اکثر فقہاء اُس کی اصل حقیقت کو نہیں سمجھ سکے اور اُنہوں نے اس کو نذرِ باری تعالیٰ پر قیاس کرتے ہوئے کہا کہ اگر یہ نذر بالاستقلال اُس ولی کے لئے ہو تو باطل ہے اور اگر نذر اللہ تعالیٰ کے لئے ہو اور اللہ تعالیٰ کے ولی کا ذکر برائے مصرف کے ہو تو جائز ہے۔ لیکن اِس نذر کی اصل حقیقت یہ ہے کہ کھانے اور مال خرچ کرنے کے ثواب کا میت کو تحفہ بھیجنا سنتِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے اور احادیثِ صحیحہ سے ثابت ہے جیسا کہ صحیح البخاری اور صحیح مسلم میں حضرت اُمِ سعد رضی اللہ عنہ وغیرھا کے حوالے سے حدیث بیان ہوئی ہے، اس نذر میں بھی اِسی ثواب کا پہنچانا مستلزم ہے۔ لہٰذا اِس نذر کا حاصل و خلاصہ یہ ہے کہ اس میں یوں نسبت کرتے ہوئے کہا جاتا ہے: میں اِس مقدار کے ثواب کو فلاں رُوح کو ہدیہ کرتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ کے ولی کا ذکر نذر کے عمل کو متعین کرنے کے لئے ہوتا ہے نہ کہ برائے مصرف، کیونکہ اُس ولی اللہ کے متوسلین کے نزدیک اس نذر کا مصرف اس کے اقارب و خدام وغیرہ ہوتے ہیں۔ لوگ دونوں طریقوں پر ہیں اور اس کی مثالیں موجود ہیں۔ بلاشبہ نذر ماننے والوں کا یہی مقصود ہوتا ہے اور اِس نذر کا حکم یہ ہے کہ یہ نذر صحیح ہے اور اِس نذر کو پورا کرنا واجب ہے کیونکہ یہ شریعت میں معتبر قربت کی حیثیت ہے۔ البتہ اس ولی کے حقیقی مشکل کشا کا اعتقاد کرنا یا شفیع غالب کا اعتقاد کرنا غلط ہے اور یہ عقیدہ شرک و فساد کی طرف لے جاتا ہے۔ لیکن یہ عقیدہ رکھنا اور چیز ہے جبکہ نذر اور چیز ہے۔‘‘

(1) شاہ عبد العزیز، فتاویٰ عزیزی،1: 121۔122

شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کے اِس فتویٰ سے صلحاء و اولیاء کے نام کئے گئے جانوروں کی حرمت کی مندرجہ ذیل وجوہ عیاں ہوئیں:

  1. نذر ماننے والا صلحاء و اولیاء کی نذر بقصدِ عبادت کرے تب حرام یا شرک ہو گا ورنہ نہیں۔
  2. جانوروں کی جانوں اور رُوحوں کو اولیاء اللہ کی بھینٹ چڑھانے کی نیت سے کیا جائے تو شرک ہو گا ورنہ نہیں۔
  3. نذر ماننے والا صلحاء و اولیاء اللہ کے لئے مستقل بالذات متصرف یا نافع و ضار ہونے کا عقیدہ رکھتے ہوئے ذبح کرے تو شرک ہو گا ورنہ نہیں۔

یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ کوئی بھی صحیح العقیدہ شخص بزرگانِ دین کے ایصالِ ثواب کے لئے نذر مانے ہوئے جانوروں کے ذبح میں مذکورہ بالا تینوں نیتوں یا عقیدوں میں سے کسی ایک کا بھی قصد نہیں کرتا بلکہ صرف اور صرف ایصالِ ثواب کی خاطر جانوروں کو انبیاء و اولیاء اور صالحین و مرحومین کے لئے منسوب کیا جاتا ہے۔ حقیقتاً اور عبادۃً نذر اللہ تعالیٰ ہی کی ہوتی ہے مگر اِس کا ثواب اولیاء اللہ کو پہنچایا جاتا ہے۔ اِس صورت میں نذر یوں مانی جاتی ہے۔

’’یا الٰہی اگر میرا فلاں کام ہو گیا تو میں نذر مانتا ہوں کہ فلاں جانور تیری رضا کے لئے ذبح کروں گا اور اِس نذر کا ثواب فلاں بزرگ کی رُوح کو پیش کروں گا۔‘‘ ایسی نذر ماننا شرعاً ہر اعتبار سے جائز ہے اور اِس کے جواز میں کسی محدث، فقیہ اور مفسر کا کوئی اختلاف نہیں ہے۔

لفظِ ’’نذر‘‘ کی تین جہات

حقیقت یہ ہے کہ لفظِ ’’نذر‘‘ کے استعمال کے تین معنی اور تین جہات ہیں:

1۔ ایک بطور عبادت و خیرات یہ خالصۃً اللہ تعالیٰ کے لئے ہے، اس معنی میں نذر اور نیاز کبھی بھی غیر کی طرف منسوب نہیں کی جاتی۔

2۔ دوسری بطور ایصالِ ثواب یہ اولیاء و صالحین اور مرحومین کے لئے ہوتی ہے اس معنی میں نذر اللہ تعالیٰ کے لئے ہو ہی نہیںسکتی یہ مخلوق اور مرحومین ہی کا حق ہے اللہ تعالیٰ کے لئے اثبات سراسر ناجائز بلکہ کفر ہے۔

3۔ تیسری بطور اطعامِ طعام اسے لنگر یا کھانا کہا جاسکتا ہے۔ یہ مہمانوں کے لئے ہے یا شرکاء و حاضرین اور فقراء و مساکین کے لئے۔ یہ کھانا فی نفسہ نہ تو اللہ تعالیٰ کو جاتا ہے اور نہ مرحومین کو۔ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں نیتِ عبادت و تقرب اور بندگی و عاجزی بربنائے تقویٰ کی جاتی ہے، اولیاء و صالحین اور مرحومین کو ہدیہِ ثواب جاتا ہے اور موجود و زندہ افراد کھانے سے مستفید ہوتے ہیں۔

نذر کے ہر معنی کی نسبت اور جہت بھی جدا ہے اور مصرف بھی جدا ہے لہٰذا اس فرق کو سمجھے بغیر جن علماء نے اس پر فتوی زنی کی ہے انہوں نے ناجائز طور پر خلطِ مبحث میں مسلمانوں کو اُلجھایا ہے اور امت میں انتشارِ فکری کا باعث بنے ہیں۔

نذر کو اولیاء کرام کی طرف مجازاً منسوب کرنا جائز ہے

نذر کو اولیاء کرام کی طرف ظاہراً اور مجازاً منسوب کرنا جائز ہے، اِس سلسلہ میں شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کے بذاتِ خود نقل کردہ دو واقعات درج ذیل ہیں۔

1۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ اپنے والد گرامی شاہ عبدالرحیم محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کی کرامات کے باب میں لکھتے ہیں:

حضرت ایشاں میفرمودند فرہاد بیگ را مشکلے پیش آمد۔ نذر کرد بار خدایا اگر ایں مشکل برآمد ایں قدر مبلغ حضرت ایشاں ہدیہ برم، آن مشکل مندفع شود، وآں نذر از خاطر او رفت۔ بعد چندے اسپ او بیمار شد و نزدیک ہلاک رسید۔ بر سبب ایں امر مشرف شدم بدست یکے از خادمان گفتہ فرستادم کہ ایں بیماری بسبب عدم وفائِ نذر است۔ اگر اسپ خود مے خواہی نذرے را کہ در فلاں محلہ التزام نمودہِ۔ بفرست وے نادم شد وآں نذر فرستاد، ہماں ساعت اسپ او شفا یافت۔

’’حضرت شاہ عبدالرحیم رحمۃ اللہ علیہ بیان فرماتے ہیں کہ فرہاد بیگ کو کوئی مشکل پیش آئی۔ اس نے نذر مانی کہ اے بارِ الٰہ! اگر یہ مشکل حل ہوگئی تو میں اِس قدر ہدیہ حضرت شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے حضور پیش کروں گا۔ چنانچہ وہ مشکل حل ہوگئی مگر وہ نذر پوری کرنا بھول گیا۔ اِس کے کچھ عرصہ بعد اُس کا گھوڑا بیمار ہوگیا اور ہلاکت کے قریب آپہنچا۔ میں اِس بیماری اور ہلاکت کے سبب پر آگاہ ہوا تو ایک خادم کے ذریعہ پیغام بھیجا کہ یہ بیماری نذر پوری نہ کرنے کے باعث ہے۔ اگر گھوڑے کی خیریت چاہتے ہو تو فلاں نذر جسے فلاں مقام پر مانا تھا پوری کرو۔ وہ اپنے اِس فعل پر شرمندہ ہوا اور نذر ارسال کی، اُسی وقت اُس کا گھوڑا شفایاب ہوگیا۔‘‘

(1) شاہ ولی اللہ، انفاس العارفین: 53

اِس واقعہ سے یہ امر مترشح ہوا کہ مطلقاً کسی سے نفع و ضرر پہنچنے کا عقیدہ رکھنا یا محبۃً اور تعظیماً کسی کا قرب حاصل کرنے کی آرزو رکھنا شرک نہیں ہے اور نہ ہی مطلقاً تقرب لِغیر اللہ موجبِ شرک ہے۔ ساتھ ہی اس واقعہ سے یہ بھی پتہ چلا کہ اولیاء اور صلحاء کی طرف نذر کو مجازًا منسوب کیا جا سکتا ہے۔

2۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ اپنے والدِ گرامی حضرت شاہ عبدالرحیم محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کے حالات میں ایک اور مقام پر لکھتے ہیں:

درقصبہ ڈاسنہ بزیارت مخدوم اللہ دیا رفتہ بودند، شب ہنگام بود در آں محل فرمودند: مخدوم ضیافت ما میکند چیزے خوردہ دید توقف کردند تا آنکہ اثر مردم منـقطع شد، و ملال بر یاراں غالب آمد۔ آنگاہ زنے بیاید طبق برنج و شیرینی بر سر و گفت نذر کردہ بودم کہ اگر زوج من بیاید ہماں ساعت ایں طعام پختہ با نشینندگان درگاہِ مخدوم اللہ دیا رسانم۔ دریں وقت آمد ایفائے نذر کردم۔

’’(میرے والد حضرت شاہ عبدالرحیم محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ ) قصبہ ڈاسنہ میں مخدوم اللہ دیا کی زیارت کو گئے۔ رات کے وقت اُس مقام پر انہوں نے کہا کہ مخدوم صاحب ہماری دعوت کرتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ کچھ کھا کر جانا۔ (پھر حضرت صاحب رحمۃ اللہ علیہ بیٹھ گئے) یہاں تک کہ آدمیوں کی آمد و رفت ختم ہوگئی۔ احباب اُکتا گئے۔ اُس وقت ایک عورت اپنے سر پر چاول اور شیرینی کا تھال لئے ہوئے آئی اور کہا کہ میں نے نذر مانی تھی کہ جس وقت میرا شوہر آئے گا مخدوم اللہ دیا کی خانقاہ میں بیٹھنے والوں کو کھانا پہنچائوں گی، وہ اِسی وقت آیا ہے لہٰذا میں نے اپنی نذر پوری کر دی ہے۔‘‘

(1) شاہ ولی اللہ، انفاس العارفین: 44

شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے درج بالا دونوں واقعات نقل کر کے اِس امر کی تصریح کی ہے کہ نذر باوجود اس کے کہ تقرّب الی اللہ کے لئے ہوتی ہے مگر اسے اولیاء کرام کی طرف ظاہراً اور مجازاً بغیر عبادت کی نیت کئے منسوب کرنا جائز ہے۔

جمہور مسلمین اور کفار و مشرکین کا اعتقاد ایک جیسا نہیں

ایسے امور کہ جن کا اللہ تعالیٰ سے کوئی دوستی و محبت اور ولایت و تقرب والا علاقہ اور تعلق ہی نہ ہو توان پر انبیاء عظام اور اولیاء کرام کا قیاس کرنا سخت نادانی ہے۔

علامہ ملا علی قاری کفار و مشرکین اور مؤمنین کے درمیان اِس توسُّل و تقرّب میں فرق بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

لا يظن بأرباب العقول ولو کانوا کفارًا أن يعتقدوا أن الحجر ينفع و يضر بالذات. و إنما کانوا يعظمون الأحجار أو يعبدونها معللين بأن هؤلائِ شفعاء نا عند اللہ و مقربونا إلی اللہ زلفی. فهم کانوا يمسحونها و يقبّلونها تسببا للنفع.

وإنما الفرق بيننا و بينهم: أنهم کانوا يفعلون الأشياء من تلقاء أنفسهم ما أنزل اللہ بها من سلطان بخلاف المسلمين. فإنهم يصلون إلی الکعبة بناء علی ما أمر اللہ ويقبّلون الحجر بناء علی متابعة رسول اللہ صلی الله عليه وآله وسلم. وإلا فلا فرق فی حد الذات ولا نظرا العارف بالموجودات بين بيت و بيت ولا بين حجر و حجر. فسبحن من عظم ما شآء من مخلوقاته. من الأفراد الإنسانية لرسول اللہ صلی الله عليه وآله وسلم ، و الحيوانية کناقة اللہ، و الجمادية کبيت اللہ، والمکانية کحرم اللہ، و الزمانية ليلة القدر و ساعة الجمعة. و خلق خواص الأشياء فی مکتوباته و جعل التفاوت و التمايز بين أجزاء أرضه و سماواته.

’’اربابِ عقل و دانش اگرچہ کفار ہی کیوں نہ ہوں ان کے بارے میں یہ گمان نہیں کیا جاسکتا کہ وہ یہ عقیدہ رکھیں کہ پتھر بذاتِ خود نفع و نقصان دیتا ہے۔ مشرکین ان پتھروں اور بتوں کو تعظیم کرتے تھے اور ان کی عبادت کرتے تھے تو صرف اس علت کے پیشِ نظر کہ یہ اللہ رب العزت کے ہاں ہمارے شفیع ہیں اور ہمیں اللہ تعالیٰ کے قریب تر کرنے والے ہیں۔ پس وہ ان کو نفع حاصل کرنے کے اسباب و ذرائع سمجھتے ہوئے ہاتھ لگاتے اور بوسے دیتے تھے۔

(1) ملا علی قاری، مرقاة المفاتیح، 5: 325

ہمارے اور کفار و مشرکین کے درمیان یہ فرق ہے کہ وہ ان اشیاء کو اپنی طرف سے کرتے تھے۔ ان کے لیے اللہ تعالیٰ نے کوئی دلیل و حجت نازل نہیں فرمائی۔ اِس کے برعکس اہلِ ایمان (بذات خود کسی چیز کو معبود و مسجود بناتے ہیں اور نہ مستحقِ عزت و تکریم سمجھتے ہیں بلکہ وہ) کعبۃ اللہ کی طرف نماز میں رخ کرتے ہیں تو حکم الٰہی کی بناء پر اور حجرِ اسود کو بوسہ دیتے ہیں تو متابعتِ رسولِ محتشم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بناء پر۔ بصورتِ دیگر فی نفسہ بھی اور موجودات کے ساتھ صحیح عرفان رکھنے والے کی نظر میں بھی ایک مکان کا دوسرے مکان کے ساتھ اور ایک پتھر کا دوسرے پتھر کے ساتھ کوئی فرق اور امتیاز نہیں ہے۔ پس پاک ہے وہ ذات جس نے اپنی مخلوقات میں سے جس کو چاہا عزت و عظمت و بزرگی عطا فرمائی۔ افرادِ انسانی میں سے جیسے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اور افرادِ حیوانی میں سے جیسے ناقۃ اللہ (یعنی حضرت صالح علیہ السلام کی اونٹنی کو) اور افرادِ جمادات میں سے کعبۃ اللہ کو اور مکانات کے افراد میں سے حرم اللہ کو اور زمانہ کے اجزاء میں سے جیسے لیلۃ القدر اور ساعۃ جمعہ۔ اور اس نے اپنے مکتوبات میں خواصِ اشیاء کو تخلیق فرمایا اور زمینوں اور آسمانوں کے اجزاء میں باہمی تفاوت اور فرق و امتیاز پیدا کیا۔‘‘

اِس عبارت سے یہ حقیقت عیاں ہوئی کہ کفار و مشرکین اپنے طور پر خود بخود اصنام و احجار کو قرب کا ذریعہ سمجھتے تھے اور بذاتِ خود ان کو سفارشی اور شفیع اعتقاد کرتے تھے اور پھر ان کی عبادت بھی کرتے تھے جبکہ اہلِ ایمان ماسوا اللہ کی عبادت کو نہ صرف حرام بلکہ کفر و شرک سمجھتے ہیں اور اپنے طور پر بھی کسی کو سفارشی و شفیع اور واسطہ و وسیلہ نہیں قرار دیتے جب تک کہ اللہ رب العزت و رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے کوئی سند اور دلیل و حجت موجود نہ ہو۔ اِس لئے جمہور مسلمین اور کفار و مشرکین کو ایک جیسا سمجھنا سراسر جہالت و گمراہی ہے۔ صحیح عقیدہ یہ ہے کہ جن ذواتِ مقدسہ کو خالقِ کائنات نے منصبِ شفاعت و سفارش عطا فرمایا ہے انہیں شفیع و واسطہ نہ ماننا کفر ہے اور جنہیں اللہ تعالیٰ نے نہیں بنایا انہیں اپنے طور پر بلا دلیل شرعی شفیع فرض کر لینا حرام اور پھر اِن کی پوجا پاٹ کرنا کفر ہے۔

  1. قرآن حکیم میں شفاعت بالجبر اور شفاعت بالقہر کی نفی کی گئی ہے۔
  2. قرآن حکیم میں شفاعت بالاذن کا اثبات کیا گیا ہے۔
  3. اللہ تعالیٰ نے انبیاء و رسل عظام علیہم السلام کی شفاعت بالدعاء و الالتجاء کی نفی نہیںفرمائی بلکہ جبر و قہر اور زبردستی پر مبنی شفاعت کی نفی فرمائی ہے۔

کفار و مشرکین اپنے معبودانِ باطلہ کے بارے میں بزعمِ خویش یہ دعویٰ کرتے تھے کہ وہ اپنی من مانی کاروائی کرا لیں گے اور (معاذ اللہ) اللہ تعالیٰ ان کے سامنے مجبور ہو کر ان کی بات مان لے گا۔ کفار و مشرکین شفاعت کے حصول کا ذریعہ عبادت کو قرار دیتے ہیں جب کہ اہلِ اسلام اس کو کفر گردانتے ہیں۔اصنام و اوثان کو نہ سلام کرنا جائز ہے نہ ان کا ادب و احترام جائز ہے اور نہ ان کی اتباع و اطاعت چہ جائیکہ عبادت کی جائے۔ جب کہ انبیاء و اولیاء کاادب و احترام اور تعظیم و تکریم لازم، ان کی اتباع و اطاعت لازم۔ ان کی تعظیم و توقیر اور اتباع و اطاعت اللہ تعالیٰ کے ہاں قربت و وصل کا معتبر، معتمد، مستند اور مقبول ذریعہ ہونے کے ساتھ ایمان کی کامل ضمانت بھی ہے۔

اہلِ ایمان اور کفار و مشرکین کے اعتقاد و اعمال میں فرق

قرآن و حدیث کی روشنی میں واضح ہوتا ہے کہ اہلِ ایمان کے عقیدہ صحیحہ اور کفار و مشرکین کے باطل اعتقاد میں واضح فرق ہے پس جو لوگ اپنی کم علمی اور کج فہمی کی وجہ سے اہلِ اسلام کے صالح اعمال و اعتقاد کو کفار و مشرکین کے باطل اعتقاد پر قیاس کر کے فتویٰ صادر کرتے ہیں وہ خود سخت گمراہی کے مرتکب ہیں۔ اہلِ ایمان اور کفار و مشرکین کے اعتقاد و اعمال میں واضح اور بیّن فرق مندرجہ ذیل ہے:

1۔ کفار و مشرکین اصنام و اوثان اور صور و تماثیل کے بارے میں ایسے اختیارات و تصرفات مانتے تھے جو نہ ان کو اللہ عزوجل نے عطا فرمائے اور نہ ہی وہ بت اس اہل تھے۔

2۔ کفار و مشرکین نے اپنے بتوں میں الوھیتِ خداوندی کا اقرار کیا حالانکہ انہیں ’’الوھیت‘‘ خداوندی عطا ہو ہی نہیں سکتی اور نہ ہی وہ قدرت خداوندی کے عطاء و ایجاد کے لائق ہے۔ ماسویٰ اللہ کو شریک تسلیم کرنا اور الہٰ بنانا ممتنعات میں ہے اور وہ متعلقاتِ قدرت میں سے نہیں ہیں۔

3۔ کفار و مشرکین نے اپنے معبودانِ باطلہ کو دنیوی وزراء، امراء اور گورنروں پر قیاس کیا جو اپنے دائرہ کار میں خود بخود متصرف و مدبر ہوتے ہیں اور حاکم اعلیٰ ان کے تصرفات اور تدبیرات میں رکاوٹ نہیں بنتا جب کہ اللہ عزوجل ہر ہر امر میں خود مؤثر حقیقی اور مدبر حقیقی ہے مثلاً ملک الموت قبض روحوں میں سبب اور واسطہ ہے خالقِ موت خود اللہ عزوجل ہے۔ ہدایتِ خلائق میں انبیاء و اولیاء سبب اور واسطہ ہیں مؤثر حقیقی اللہ عزوجل ہے۔

4۔ کفار و مشرکین نے اللہ جل شانہ کو تدبیرِ کائنات میں ان معبودانِ باطلہ کا محتاج سمجھا اور اکیلے و تنہا تدبیر و تصرف میں قاصر جانا۔

5۔ کفارو مشرکین نے بزعمِ خویش باطل تدبیر و تصرف کی وجہ سے بتوں کو لائقِ عبادت سمجھا حالانکہ عبادت کمالاتِ ذاتیہ کی متقاضی ہے۔ عطائی کمالات، اتباع و اطاعت کا دار و مدار ہو سکتے ہیں لیکن عبادت کا کسی بھی درجے میں تصور نہیں کیا جا سکتا۔

6۔ کفار و مشرکین نے اپنے معبودانِ باطلہ کو الوھیتِ خداوندی کا درجہ دے دیا اور اللہ تعالیٰ کے مبعوث کیے گئے انبیاء و رسل عظام علیہم السلام کو رسول و نبی ماننے کے لئے تیار نہ ہوئے بلکہ ان کی ایذاء رسانی اور توہین و تحقیر میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔

7۔ کفار نے انبیاء و رسل عظام علیہم السلام کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی ہدایت اور تحلیل و تحریم میں ان کی اتباع و اطاعت کی بجائے مخالفینِ اسلام رؤسا کی اطاعت اور اقتداء کو ترجیح دے کر انبیاء و رسلِ عظام کو (معاذ اللہ) قتل تک کیا۔

بحمدہ تعالیٰ اہلِ ایمان ان تمام کفریات اور شرکیہ عادات و رذائل سے محفوظ و مامون ہیں۔ اس لئے کسی بھی صورت ایک کلمہ گو مسلمان ومؤمن کو ایک کافر ومشرک کے ساتھ ملاتے ہوئے ہرگز ایک جیسا قرار نہیں دیا جا سکتا۔ جو بھی ان دلائلِ قاطعہ کے ہونے کے باوجود ایسا کرتا ہے وہ درحقیقت اپنی ذہنی خباثت اور بدبختی و شقاوت کا ثبوت فراہم کرتا ہے۔

فصل سوم: توحید فی الحلف اورشرک فی الحلف

توحید فی الحلف کا معنی و مفہوم

توحید فی التحریم کی تیسری قسم توحید فی الحلف ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ شرعی حلف صرف اللہ تعالیٰ کے نام پر اٹھایا جاسکتا ہے۔ غیر اللہ کے نام پر نہیں۔ شرعی حلف سے مراد اللہ تبارک و تعالیٰ کے نام پر مستقبل میں کسی امر کے کرنے یا نہ کرنے کی قسم اٹھانا ہے جس کو توڑنے کی صورت میں کفارہ لازم ہوجاتا ہے۔ یہاں یہ بات بھی واضح رہے کہ حضورں کا حلف غیر اللہ کا حلف تصور نہیں ہو گا اسی طرح قرآن مجیدپر اللہ تعالیٰ کا حلف ہو سکتا ہے کیونکہ یہ کلامِ الٰہی ہے۔ اس کے برعکس اگر کوئی شخص کسی اور کے نام کا حلف اٹھائے اور یہ عقیدہ رکھے کہ اس کی حرمت اور حیثیت اسی طرح ہے جس طرح اللہ تعالیٰ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حلف کی ہوتی ہے تو یہ عقیدہ رکھنا درست نہیں ہو گا۔ زمانہ جاہلیت میں کفار و مشرکین اللہ تعالیٰ کے سوا کثرت سے اپنے آباؤ اجداد اور معبودانِ باطلہ لات و عزیٰ وغیرہ کی قسم کھایا کرتے تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسلام میں دورِ جاہلیت کی اس چیز کی سخت ممانعت فرمائی۔ حضرت عبداللہ بن عمرص بیان کرتے ہیں:

سَمِعْتُ عُمَر، يَقُوْلُ: قَالَ لِيْ رَسُوْلُ اللہِ صلی الله عليه وآله وسلم: اِنَّ اللہَ يَنْهَاکُمْ أنْ تَحْلِفُوْا بِاٰبـَائِکُمْ. قَالَ عُمَرُ: فَوَاللہِ! مَا حَلَفْتُ بِهَا مُنْذُ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم ذَاکِرًا وَلَا اٰثِرًا.

’’میں نے حضرت عمرص کو فرماتے ہوئے سنا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: اللہ تعالیٰ تمہیں آباؤ اجداد کی قسم اٹھانے سے منع فرماتا ہے۔ حضرت عمرص کا بیان ہے کہ اللہ رب العزت کی قسم! جب سے میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یہ سنا ہے کبھی بھی قصداً یا سہواً ایسی قسم نہیں کھائی۔‘‘

  1.  بخاری، الصحیح، کتاب الأیمان والنذور، باب لا تحلفوا بآبائکم، 6: 2449، رقم: 6271

  2. مسلم، الصحیح، کتاب الأیمان، باب النھی عن الحلف بغیر اللہ، 3: 1266، رقم: 1646

  3. نسائی، کتاب الأیمان والنذور، باب الحلف بالآبائ، 7: 4، رقم: 3767

صحیح مسلم اور سنن ابنِ ماجہ کی ایک اور روایت میں حضرت عبدالرحمن بن سمرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

لَا تَحْلِفُوْا بِالطَّوَاغِي وَلَا بِابٰائِکُمْ.

’’نہ تم بتوں کی قسم کھاؤ اور نہ اپنے آبائو اجداد کی۔‘‘

  1. مسلم، الصحیح، کتاب الأیمان، باب من حلف باللات والعزیٰ فلیقل لا إلٰہ إلا اللہ، 3: 1268، رقم: 1648

  2. ابن ماجہ، السنن، کتاب الکفارات، باب النھی أن یحلف بغیر اللہ، رقم: 2095

. شرک فی الحلف

اللہ تبارک و تعالیٰ کی ذا ت ہی اس لائق ہے کہ اس کے نام کی قسم کھائی جائے اصنام اورمعبودانِ باطلہ کی قسم اٹھانا شرک فی الحلف ہے جو اپنے پرستاروں سمیت دوزخ میں پھینک دیئے جائیں گے ان کے نام کی قسم اٹھانا اتنا بڑا گناہ ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کی تلافی کیلئے دوبارہ کلمہ پڑھنے کی تلقین فرمائی۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

مَنْ حَلَفَ فَقَالَ فِي حَلِفِهِ بِاللَّاتِ وَالْعُزَّی فَلْيَقُلْ لَا إِلٰهَ إِلَّا اللہُ.

’’جس نے قسم کھائی اور اپنی قسم میں لات و عزیٰ کہا تو اسے چاہیے کہ وہ لَا الٰہ الَّا اللہُ کہے۔‘‘

  1. بخاری، الصحیح، کتاب الأیمان والنذور، باب لا یحلف باللات والعزٰی ولا بالطواغیت، 6: 2450، رقم: 6274

  2. مسلم، الصحیح، کتاب الأیمان، باب من حلف باللات والعزیٰ فلیقل لا إلہ إلا اللہ، 3: 1267، رقم: 1647

  3. ترمذی، السنن، کتاب النذور والأیمان عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، باب ما جاء فی کراھیۃ الحلف بغیر ملۃ الإسلام، 4: 116، رقم: 1545

پس معلوم ہوا کہ اعتقاداً غیر اللہ کے نام پر قسم کی حرمت کو اللہ تعالیٰ کی قسم کے مانند جاننا شرک ہے لیکن اگر کوئی شخص بوجہ جہالت یا سہواً کسی اور کی قسم اٹھائے تو اسے چاہیے کہ توبہ استغفار کرے اللہ تعالیٰ اس کے اس گناہ کی تلافی فرما دے گا چونکہ غیر اللہ کا حلف شرعی حلف نہیں اس لئے اس پر کفارہ لازم نہیں آتا۔

قرآن اور تعظیمی قسمیں

قرآن حکیم میں جہاں بعض اشیاء اور بعض اماکن وغیرہ کی قسمیں کھائی گئیں اسی طرح اللہ تعالیٰ نے قرآن میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیاتِ مقدسہ اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جسمِ اطہر کے بعض اعضاء کی بھی قسمیں کھائیں ہیں، یہ قسمیں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت و فضیلت بیان کرنے کے لئے کھائی گئیں۔ ذیل میں ایسی آیات کا ترتیب وار ذکر کیا جاتا ہے۔

1۔ نورِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قسم

اللہ رب العزت نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو روشن ستارہ کہہ کر قسم اٹھائی ہے۔ ارشاد ہوتاہے:

وَالنَّجْمِ اِذَا هَوٰیo

’’قَسم ہے روشن ستارے (محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی جب وہ (چشمِ زدن میں شبِ معراج اوپر جا کر) نیچے اترے۔‘‘

(1) النجم، 53: 1

یہاں النجم سے مراد حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نورانی ذات ہے۔

علامہ قرطبی نے امام جعفر الصادق سے النجم کا یہی مطلب بیان کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

عن جعفر بن محمد بن علی بن الحسين رضی الله عنه: وَالنَّجْمِ: يعنی محمدا صلی الله عليه وآله وسلم (اِذَا هَوٰی)، إذا نزل من السماء ليلة المعراج.

’’حضرت امام جعفر الصادق سے مروی ہے کہ النجم سے مراد سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اِذَا ھَوٰی کا مطلب ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شبِ معراج آسمان سے نیچے تشریف لائے۔‘‘

(1) قرطبی، الجامع لاحکام القرآن، 17: 83

علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی امام جعفر الصادق کا درج ذیل قول نقل کیا ہے:

و قال جعفر الصادق رضی الله عنه: ’’النجم‘‘ هو النبي صلی الله عليه وآله وسلم ، و هويه: نزوله من السماء ليلة المعراج.

’’النجم سے ذاتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ھوی سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا معراج سے واپس تشریف لانا مراد ہے۔‘‘

(2) آلوسی، روح المعانی، 27: 45

2۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قلبِ اطہر کی قسم

معروف مفسر امام عبدالرحمن السلمی نے النجم سے مراد حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا قلبِ اطہر لیا ہے، وہ لکھتے ہیں:

عن جعفر بن محمد فی قوله: {وَالنَّجْمِ اِذَا هَوٰی} (وَالنَّجْمِ) قلب محمد صلی الله عليه وآله وسلم.

’’حضرت امام جعفر صادق، اللہ تعالیٰ کے ارشاد {وَالنَّجْمِ اِذَا ھَوٰی} کی تفسیر بیان کرتے ہیں کہ النجم سے مراد قلبِ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔‘‘

(3) ابوعبدالرحمن السلمی، حقائق التفسیر، 2: 283

3۔ ذاتِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قسم

1۔ سورۃ الطارق میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

 وَالسَّمَاءِ وَالطَّارِقِo وَمَا أَدْرَاكَ مَا الطَّارِقُo النَّجْمُ الثَّاقِبُo

’’آسمان (کی فضائے بسیط اور خلائے عظیم) کی قَسم اور رات کو (نظر)آنے والے کی قَسم۔ اور آپ کو کیا معلوم کہ رات کو (نظر) آنے والا کیا ہے۔ (اس سے مراد) ہر وہ آسمانی کرّہ ہے (خواہ وہ ستارہ ہو یا سیارہ یا اَجرامِ سماوی کا کوئی اور کرّہ) جو چمک کر (فضا کو) روشن کر دیتا ہے۔‘‘

(1) الطارق، 86: 1۔3

قاضی عیاض مالکی رحمۃ اللہ علیہ نے ’’الشفاء‘‘ میں ’’النجم الثاقب‘‘ سے مراد ذاتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی لی ہے، جس نے سراجاً منیرًا کی شان کے ساتھ آسمانِ رسالت پر چمک کر ظلمت بھری کائنات کو نورِ ایمان سے روشن کر دیا ہے۔

2۔ سورۃ الفجر میں ارشاد ہوتا ہے:

وَالْفَجْرِo

’’اس صبح کی قَسم (جس سے ظلمتِ شب چھٹ گئی)۔‘‘

(2) الفجر، 89: 1

اس سے مراد سیدنا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ گرامی بھی ہے جن کی بعثت سے کفر و شرک اور جہالت کی شبِ ظلمت کا خاتمہ ہوا اور صبحِ ایمان پھوٹی۔ اس آیتِ مبارکہ کی تفسیر میں امام ابنِ عطا فرماتے ہیں:

الفجر محمد صلی الله عليه وآله وسلم لأن منه تفجر الإيمان.

’’الفجر سے مراد محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں کیوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہی ایمان کے چشمے پھوٹتے ہیں۔‘‘

(3) الشفاء، 1: 22

قرآن مختلف انداز میں کبھی تمثیل و تشبیہہ سے کبھی رمز و اشارہ سے کبھی کنایہ و مجاز سے اور کبھی صراحت و وضاحت سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسنِ سراپا اور نورِ مجسم کا ذکر کرتا ہے تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شخصی عظمت کا پہلو خوب اجاگر ہو۔

4۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیاتِ طیبہ کی قسم

قرآن مجید میں خالقِ کائنات نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عمرِ مبارک کی قسم بھی کھائی ہے۔ ارشادِ ربانی ہے:

لَعَمْرُكَ إِنَّهُمْ لَفِي سَكْرَتِهِمْ يَعْمَهُونَo

’’(اے حبیبِ مکرّم!) آپ کی عمرِ مبارک کی قَسم، بیشک یہ لوگ (بھی قومِ لوط کی طرح) اپنی بدمستی میں سرگرداں پھر رہے ہیں۔‘‘

(1) الحجر، 15: 72

تمام مفسرین کا اس پر اتفاق ہے کہ رفعتِ ذکر اور شرفِ رفیع کے پیشِ نظر اللہ رب العزت نے اس آیتِ مبارکہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پوری زندگی کی قسم کھائی ہے۔

5۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آباء و اجداد کی قسم

اللہ تعالیٰ کو اپنے محبوب سے اس قدر محبت ہے کہ ہر وہ چیز جسے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نسبت ہو جاتی ہے وہ بھی اللہ تعالیٰ کے ہاں قدر و منزلت کے باعث لائقِ قسم ہو جاتی ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے:

وَوَالِدٍ وَّمَا وَلَدَo

’’(اے حبیبِ مکرّم! آپ کے) والد (آدم یا ابراہیم علیہما السلام) کی قَسم اور (ان کی) قَسم جن کی ولادت ہوئی۔‘‘

(2) البلد، 90: 3

یہاں والد کے لفظ کا اطلاق حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ سے لے کر حضرت ابراہیمں اور حضرت آدم ں تک آپ کے آباؤ اجداد میں سے کسی بھی پاک صلب پر کیا جاسکتا ہے، جس میں نورِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم متمکن رہا۔ آیتِ کریمہ میں والد کے نام کا ذکر نہ کرنے میں یہ حکمت مضمر ہے کہ ہر والد کی نسبت مولود سے ہوتی ہے۔ جب تک اولاد نہ ہو والدیت متحقق نہیں ہوتی اس لئے قرآن مجید نے والد کے ذکر کے فوراً بعد ’’وَمَا وَلَدَ‘‘ کہہ کر اس عظیم المرتبت مولود کی قسم کھائی ہے جس کا تقدّس اس کے آباؤ اجداد کے لئے ایسے شرف و اعزاز کا باعث بنا کہ خود پروردگارِ عالم ان کی بھی قسم کھا رہا ہے۔ اس قسم میں والد کا عموم اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ فیضانِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسبت سے حضرت آدم ں سے لے کر حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ تک سب آباء لائق قسم ہوگئے ہیں۔

6۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مبارک جائے سکونت کی قسم

خدائے ذوالجلال نے قرآن مجید میں اس شہر کی بھی قسم کھائی ہے جس کی خاک کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک پاؤں کے تلووں کو چھونے کا شرف حاصل ہوا، ارشاد ہوتا ہے:

لَا أُقْسِمُ بِهَذَا الْبَلَدِo وَأَنتَ حِلٌّ بِهَذَا الْبَلَدِo

’’میں اس شہر (مکہ) کی قَسم کھاتا ہوں۔ (اے حبیبِ مکرّم!) اس لئے کہ آپ اس شہر میں تشریف فرما ہیں۔‘‘

(1) البلد، 90: 1۔2

دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا:

وَهٰذَا الْبَلَدِ الْاَمِيْنِo

’’اور اس امن والے شہر (مکہ) کی قَسم۔‘‘

(2) التین، 95: 3

7۔ چہرہِ انور اور گیسوئے عنبریں کی قسم

اللہ تعالیٰ نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اعضاء مبارکہ یعنی چہرہِ انور اور گیسوئے مبارک تک کی قسمیں اٹھائی ہیں۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

وَالضُّحٰیo وَالَّليْلِ اِذَا سَجٰیo

’’(اے حبیبِ مکرّم!) قَسم ہے چاشت (کی طرح آپ کے چہرہِ انور) کی (جس کی تابانی نے تاریک روحوں کو روشن کر دیا)۔ (اے حبیبِ مکرّم!) قَسم ہے سیاہ رات کی (طرح آپ کی زلفِ عنبریں کی) جب وہ (آپ کے رُخ زیبا یا شانوں پر) چھا جائے۔‘‘

(1) الضحیٰ، 93: 1۔2

یہاں تشبیہ کے پیرائے میں چاشت کی طرح چمکتے ہوئے چہرہ زیبا کا ذکر وَالضُّحٰی کہہ کر اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر شانوں کو سیاہ رات کی طرح چھائی ہوئی زلفوں کا ذکر وَالَّيْلِ کہہ کر قسم اٹھائی ہے۔

8۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل شدہ کتاب کی قسم

اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذکر یعنی قرآن حکیم کی قسم کھاتے ہوئے ارشاد فرمایا:

حمo وَالْكِتَابِ الْمُبِينِo

’’حا میم (حقیقی معنی اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی بہتر جانتے ہیں)۔ اس روشن کتاب کی قسم۔‘‘

(2) الدخان، 44: 1۔2

دوسرے مقام پر فرمایا:

ق وَالْقُرْآنِ الْمَجِيدِo

ق (حقیقی معنی اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی بہتر جانتے ہیں)۔ قسم ہے قرآنِ مجید کی۔‘‘

(1) ق، 50: 1

قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ ’’الشفاء‘‘ میں آیتِ مذکورہ سے پہلے حرف ’’ق‘‘ کی شرح و تفسیر بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ یہاں ’’ق‘‘ سے مراد حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا قلبِ اطہر ہے جس پر قرآن نازل ہوا اور جو اپنی قوت و استقامت کے اعتبار سے بھی زیادہ مستحکم تھا جب یہ بارِ امانت پہاڑوں اور سمندروںنے اٹھانے سے انکار کر دیا تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا قلبِ انور ہی تھا جسے بارگاہِ صمدیّت سے اس قدر قوت و طاقت عطا ہوئی تھی کہ تئیس سالہ مبارک حینِ حیات اس پر قرآن اتارا جاتا رہا لیکن کوئی بوجھ محسوس نہ ہوا بلکہ اس قرآن کی بدولت اسے بے پایاں قوت اور طمانیت کا خزینہ بنادیا گیا۔ علامہ اسماعیل حقی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:

قال إبن عطا: أقسم بقوة قلبِ حبيبه حيث تحمل الخطاب والمشاهدة و لم يوثر ذلک فيه لعلو حاله.

’’ابن عطا فرماتے ہیں: اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دل کی قوت کی قسم کھائی ہے جو عین حق کا مشاہدہ اور شرف تکلف حاصل کرنے کے باوجود غشی وغیرہ سے محفوظ رہا۔‘‘

(2) اسماعیل حقی، روح البیان، 9: 100

حلفِ تعظیمی جائز ہے

اللہ تعالیٰ نے خود اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خاطر قسم کھائی۔ جب اللہ تعالیٰ خود قسم کھانے میں عار نہیں فرماتا تو وہ ہمیں کیسے منع کر سکتا ہے۔ اللہ رب العزت نے جب اپنی ذات کی قسم کھائی تو اپنے رب ہونے کی نسبت اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف کی، ارشاد فرمایا:

فَـلَا وَرَبِّکَ لَا يُؤمِنُوْنَ حَتّٰی يُحَکِّمُوْکَ فِيْمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ.

’’پس (اے حبیب) آپ کے رب کی قسم یہ لوگ مسلمان نہیں ہو سکتے یہاں تک کہ وہ اپنے درمیان واقع ہونے والے ہر اختلاف میں آپ کو حاکم بنا لیں۔‘‘

(1) النساء، 4: 65

1۔ لوح و قلم کی قسم

قرآن مجید میں لوح وقلم کی قسم کھاتے ہوئے اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:

ن وَالْقَلَمِ وَمَا يَسْطُرُوْنَo مَآ اَنْتَ بِنِعْمَةِ رَبِّکَ بِمَجْنُوْنٍo

’’نون(حقیقی معنی اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی بہتر جانتے ہیں) قلم کی قسم اور اُس (مضمون) کی قَسم جو (فرشتے) لکھتے ہیں۔ (اے حبیبِ مکرّم!) آپ اپنے رب کے فضل سے (ہرگز) دیوانے نہیں ہیں۔‘‘

(2) القلم، 68: 1۔2

اس طرح قسم اٹھانا، حلف فی الاکرام، حلف فی التعظیم، حلف فی المحبت کی ایک قِسم ہے جو جائز ہے۔

2۔ مبارک راتوں کی قسم

اللہ تعالیٰ نے سورۃ الفجر میں ارشاد فرمایا:

وَلَيَالٍ عَشْرٍo وَّالشَّفْعِ وَالْوَتْرِo وَالَّيْلِ اِذَا يَسْرِo هَلْ فِيْ ذٰلِکَ قَسَمٌ لِّذِيْ حِجْرٍo

’’اور دس (مبارک) راتوں کی قَسم۔ اور جفت کی قَسم اور طاق کی قَسم۔ اور رات کی قسم جب گزر چلے (مراد ہر شب ہے یا بطورِ خاص شبِ مزدلفہ یا شبِ قدر)۔ بیشک ان میں عقلمند کے لئے بڑی قسم ہے۔‘‘

(3) الفجر، 89: 2۔5

مذکورہ آیات مبارکہ میں وَلَيَالٍ عَشْرٍ سے مراد ماہِ رمضان کے آخری عشرہ کی راتیں یا پہلے عشرہ محرّم کی راتیں ہیں یا اوّل عشرہ ذی الحجہ کی راتیں ہیں جو برکات و درجات سے معمور ہیں۔ جبکہ وَالشَّفْعِ سے مراد سال بھر کی عام جفت راتیں ہیں اور وَتْر سے مراد سال بھر کی برکت والی طاق راتیں ہیں، مثلاً شبِ معراج، شبِ برات اور شبِ قدر وغیرہ جو پے درپے رجب، شعبان اور رمضان میں آتی ہیں۔

3۔ جہاد کے گھوڑوں کی قسم

اللہ تعالیٰ نے غازیانِ اسلام کے گھوڑوں اور پتھروں پر دوڑتے ہوئے ان کی ٹاپوں سے پیدا ہونے والی چنگاڑیوں کی قسم اٹھاتے ہوئے ارشاد فرمایا:

وَالْعٰدِيٰتِ ضَبْحًاo فَالْمُوْرِيٰتِ قَدْحًاo فَالْمُغِيْرٰتِ صُبْحًاo

’’(میدانِ جہاد میں) تیز دوڑنے والے گھوڑوں کی قَسم جو ہانپتے ہیں۔ پھر جو پتھروں پر سم مار کر چنگاریاں نکالتے ہیں۔ پھر جو صبح ہوتے ہی (دشمن پر) اچانک حملہ کر ڈالتے ہیں۔‘‘

(1) العادیات، 100: 1۔3

دیگر قرآنی قسمیں

مطالعہِ قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ رب العزت نے مختلف ذاتوں اور اشیاء کی قسمیں اٹھائیں۔ قرآن حکیم کی متعدد آیات اس پر شاہد ہیں مثلاً:

اللہ تعالیٰ نے روزِ قیامت کی قسم اٹھائی،

القیامۃ، 75: 1، البروج، 85: 2۔3،

نفسِ لوّامہ کی قسم اٹھائی،

القیامۃ، 75: 2،

ہواؤں کی قسم اٹھائی،

المرسلت، 77: 1۔5،

ملائکہ مقربین کی قسم اٹھائی،

النزعت، 79: 1۔5،

آسمانی کرّوں کی قسم کھائی،

التکویر، 81: 15،16، البروج، 85: 1، الطارق، 86: 1،

زمین کی قسم اٹھائی،

الشمس، 91: 6،

سورج کی قسم اٹھائی،

الشمس، 91: 1،

چاند کی قسم اٹھائی،

الشمس، 91: 2،

دن کی قسم اٹھائی،

الشمس، 91: 3، الیل، 92: 2،

رات کی قسم اٹھائی،

الشمس، 91: 4، الیل، 92: 1، التکویر، 81: 17،

صبح کی قسم اٹھائی،

التکویر، 81: 18،

زمانہ کی قسم اٹھائی،

العصر، 103: 1،

ثمرات بہشت کی قسم اٹھائی،

التین،95: 1،

پہاڑوں کی قسم اٹھائی

التین، 95: 2۔

Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved