Mukhtalif Mahinon awr Dinon ky Fazail-o-Barakat

مقدمہ

المُقَدَّمَة

اَللَّهُمَّ لَكَ الْحَمْدُ حَمْدًا كَثِيْرًا دَائِمًا بِدَوَامِكَ، وَلَكَ الْحَمْدُ حَمْدًا بَاقِيًا بِبَقَائِكَ، وَلَكَ الْحَمْدُ حَمْدًا لَا مُنْتَهَى لَهُ دُوْنَ عِلْمِكَ، وَلَكَ الْحَمْدُ حَمْدًا لَا جَزَاءَ لِقَائِلِهِ إِلَّا رِضَاكَ. وَنَسْأَلُكَ اللَّهُمَّ، أَنْ تُصَلِّيَ أَفْضَلَ الصَّلَوَاتِ، وَتُسَلِّمَ أَكْمَلَ التَّسْلِيْمَاتِ، عَلَى مَنْ جَعَلْتَ وُجُوْدَهُ نِعْمَةً، وَرِسَالَتَهُ رَحْمَةً وَفَضَّلْتَهُ عَلَى جَمِيْعِ الْمَخْلُوْقَاتِ، وَشَرَّفْتَ بِهِ عَالَمَ الْأَرْضِ وَالسَّمَوَاتِ، سَيِّدِنَا مُحَمَّدٍ عَبْدِكَ النَّبِيِّ الْأُمِّيِّ، الطَّاهِرِ الزَّكِيِّ، وَارْضَ اللَّهُمَّ، عَنْ آلِهِ بُحُوْرِ النَّدَى، وَلُيُوْثِ الْعِدَى، الَّذِيْنَ طَهَّرْتَهُمْ مِنَ الرِّجْسِ تَطْهِيْرًا، وَأَعْطَيْتَهُمْ فَضْلًا كَبِيْرًا، فَكَانُوْا سَادَةَ الْأُمَّةِ، وَهُدَاةَ الْأَئِمَّةِ. وَأَصْحَابِهِ الَّذِيْنَ نَاصَرُوْهُ وَنَصَرُوْهُ، وَآزَرُوْهُ وَعَزَّرُوْهُ، وَحَفِظُوْا حُرْمَتَهُ، وَبَلَّغُوْا شَرِيْعَتَهُ، فَفَازُوْا بِالْعِزَّةِ فِي الْأُوْلَى وَالسَّعَادَةِ فِي الْآخِرَةِ، ﴿أُوْلَٰٓئِكَ حِزۡبُ اللهِۚ أَلَآ إِنَّ حِزۡبَ اللهِ هُمُ الۡمُفۡلِحُونَ﴾ [المجادلة، 58: 22].

اے الله! ہر طرح کی تعریف تیرے ہی لیے ہے، ہر تعریف جو انتہائی کثرت کے ساتھ ہو اور تیری ذات کے دوام کے ساتھ ہمیشہ رہنے والی ہو، اور ہر تعریف تیرے ہی لیے (خاص) ہے جو تیری ذات کی بقا کے ساتھ باقی رہنے والی ہے، اور تیرے ہی لئے ہر ایسی تعریف ہے جس کی انتہاء صرف تیرے ہی علم میں ہے، اور ہر وہ تعریف بھی تیرے لیے ہی خاص ہے جس کے کرنے والے کی جزاء سوائے تیری رضا کے اور کوئی شے نہیں ہے۔ اور اے الله! ہم تجھ سے سوال کرتے ہیں کہ تو ایسی ہستی پر بہترین درود (بصورت رحمت) اور کامل ترین سلام بھیج جن کے وجود کو تو نے سراپا نعمت اور جن کی رسالت کو تو نے سراسر رحمت بنایا اور جنہیں تو نے تمام مخلوقات پر مطلقاً فضیلت بخشی، اور جن کے واسطے تو نے عالم ارضی اور عالم سماوی کو شرف بخشا، جو ہمارے آقا محمد مصطفی ﷺ اورتیرے بندے اور نبی امی، طاہر و پاکیزہ ہستی ہیں۔ اور اے الله! تو راضی ہو جا آپ ﷺ کی آل سے جو جود و سخا کے سمندر اور دشمنوں کے لیے شیر ہیں، جنہیں تو نے ہر (ظاہری و باطنی) غلاظت سے خوب پاک کر دیا اور تو نے انہیں بڑا فضل و(علم) عطا کیا، وہ اس امت کے سردار اور ائمہ کے رہبر و رہنما تھے۔ اور آپ ﷺ کے اصحاب سے بھی راضی ہو جا جنہوں نے آپ ﷺ کی ہر طرح سے مدد و نصرت کی، اور آپ ﷺ کی حد درجہ طرف داری کی اور تعظیم بجا لائے اور آپ ﷺ کی ناموس کی حفاظت کی، اور آپ ﷺ کی شریعت کی تبلیغ کی، اور اس دنیا میں عزت اور آخرت میں سعادت کے ساتھ کامیاب ہوئے۔ ﴿وہی الله (والوں) کی جماعت ہے، یاد رکھو! بے شک الله (والوں) کی جماعت ہی مراد پانے والی ہے﴾۔

أَمَّا بَعْدُ: فَإِنَّ اللهَ جَلَّتْ قُدْرَتُهُ وَتَعَالَتْ عَظَمَتُهُ، فَاوَتَ بَيْنَ خَلْقِهِ فِي الْمَنَاصِبِ، وَجَعَلَهُمْ طَبَقَاتٍ مُتَبَايِنَةَ الْمَرَاتِبِ، فَمِنْهُمْ رُسُلٌ وَأَنْبِيَاءُ، وَصِدِّيْقُوْنَ وَشُهَدَاءُ، وَعُلَمَاءُ أَفَاضِلُ، وَنُجَبَاءُ أَمَاثِلُ، وَمِنْهُمْ كُفَّارٌ فَجَرَةٌ، وَفُسَّاقٌ خَسَرَةٌ وَجَهَلَةٌ أَغْبِيَاءُ، وَمَلَاحِدَةٌ أَشْقِيَاءُ، لِيَتَمَيَّزَ الشَّقِيُّ مِنَ السَّعِيْدِ، وَالْمُقَرَّبُ مِنَ الْبَعِيْدِ، وَلِيَظْهَرَ عَلَيْهِمْ فَضْلُ اللهِ وَعَدْلُهُ، وَتَنْفُذَ فِيْهِمْ مَشِيْئَتُهُ وَحُكْمُهُ، وَلَوْ شَاء رَبُّكَ لَجَعَلَ النَّاسَ أُمَّةً وَاحِدَةً، لَكِنْ أَرَادَ أَنْ تَتَجَلَّى آثَارُ رُبُوْبِيَّتِهِ، وَيَتَبَيَّنَ لِلْعُقَلَاءِ عَجْزُهُمْ عَنْ فَهْمِ خَفِيِّ حِكْمَتِهِ.

حمد و ثنا کے بعد، بے شک الله تعالیٰ (جس کی قدرت، جلالت اور اس کی عظمت رفعت والی ہے) اس نے اپنی مخلوق کے عہدوں (ذمہ داریوں اور مناصب) میں فرق رکھا ہے، اور انہیں مختلف رتبوں کے حامل طبقات میں تقسیم کیا ہے، ان میں سے بعض رُسل اور انبیاء ہوئے، بعض صدیق و شہداء ہوئے، بعض فاضل علماء ہوئے، بعض معزز نُجباء (صاحبانِ فضل و کرم) ہوئے، اور (انہی لوگوں میں سے) بعض کافر، فاجر؛ فاسق، گھاٹے والے؛ جاہل، غبی؛ اور بدبخت، ملحد ہوئے۔ (اور ایسا اس لیے ہوا) تاکہ بدبخت خوش بخت سے جدا ہو جائے اور قرب والا دوری والے سے منفرد ہوجائے، تاکہ (یوں) ان سب پر الله تعالیٰ کافضل اور عدل ظاہر ہو جائے اور ان سب میں الله تعالیٰ کی مشیت اور اس کے حکم کا نفاذ ہو جائے، اور اگر تمہارا رب چاہتا تو لوگوں کو ایک ہی امت بنا دیتا، لیکن اس نے چاہا کہ اس کی ربوبیت کے آثار نمایاں ہوں اور صاحبان عقل و خرد کے لیے اس کی مخفی حکمت کے فہم سے عاجز ہونا واضح ہو جائے۔

وَكَمَا فَاوَتَ سُبْحَانَهُ بَيْنَ أَنْوَاعِ الْإِنْسَانِ، فَاوَتَ بَيْنَ أَنْوَاعِ الْأَمْكِنَةِ وَالْأَزْمَانِ، فَجَعَلَ لِبَعْضِ الْأَمَاكِنِ فَضْلًا عَلَى غَيْرِهَا فِي الْعِبَادَةِ وَالدُّعَاءِ كَالْمَسْجِدِ الْأَقْصَى، وَالْمَسْجِدِ النَّبَوِيِّ وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ.
وَجَعَلَ بَعْضَ الْأَزْمِنَةِ مَوَاسِمَ لِلْهِبَةِ وَالْعَطَاءِ، وَمِنْ ذَلِكَ بَعْضٌ مِنَ الشُّهُوْرِ وَاللَّيَالِي وَالْأَيَّامِ الَّتِي يَتَجَلَّى اللهُ فِيْهَا عَلَى خَلْقِهِ بِعُمُوْمِ مَغْفِرَتِهِ، وَشُمُوْلِ رَحْمَتِهِ وَعَظِيْمِ الْإِحْسَانِ.

جس طرح الله تعالیٰ نے انسانوں کی انواع میں تفاوت رکھا ہے اسی طرح مختلف مکانوں اور زمانوں کی انواع میں بھی تفاوت رکھا ہے، سو اس نے بعض جگہوں کو بعض دوسری جگہوں پر (وہاں) عبادت اور دعا میں فضیلت دی جیسے مسجد اقصیٰ، مسجد نبوی، مسجد حرام (میں دعا و عبادت کے اجر میں فرق ہے)۔

اسی طرح الله تعالیٰ نے بعض اوقات کو (مخلوق خدا کے حق میں) بخشش اور عطا کے لیے خاص فرمایا، اور انہی خاص زمانوں میں سے بعض مہینے، راتیں اور وہ دن ہیں جن میں الله تبارک و تعالیٰ اپنی مخلوق پر عمومی مغفرت، جامع رحمت اور عظیم انعام و اکرام کی تجلّی فرماتا ہے۔

وَكَذَلِكَ فَضَّلَ اللهُ بَعْضَ الْأَيَّامِ عَلَى بَعْضٍ، فَفَضَّلَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ عَلَى سَائِرِ أَيَّامِ الْأُسْبُوْعِ. وَفَضَّلَ بَعْضَ اللَّيَالِ عَلَى بَعْضٍ؛ فَجَعَلَ لَيْلَةَ الْقَدْرِ خَيْرًا مِنْ أَلْفِ شَهْرٍ، مَنْ حُرِمَهَا فَقَدْ حُرِمَ الْخَيْرَ كُلَّهُ، وَلَا يُحْرَمُ خَيْرَهَا إِلَّا مَحْرُوْمٌ، وَفَضَّلَ بَعْضَ الشُّهُوْرِ عَلَى بَعْضٍ، وَفَضَّلَ رَمَضَانَ عَلَى سَائِرِ الشُّهُوْرِ، وَفَضَّلَ بَعْضَ الزَّرْعِ وَالْفَوَاكِهِ عَلَى بَعْضٍ، فَقَالَ تَعَالَى: ﴿وَفِي الۡأَرۡضِ قِطَعٌ مُّتَجَٰوِرَٰتٌ وَجَنَّٰتٌ مِّنۡ أَعۡنَٰبٍ وَزَرۡعٌ وَنَخِيلٌ صِنۡوَانٌ وَغَيۡرُ صِنۡوَانٍ يُسۡقَىٰ بِمَآءٍ وَٰحِدٍ وَنُفَضِّلُ بَعۡضَهَا عَلَىٰ بَعۡضٍ فِي الۡأُكُلِۚ﴾ [الرعد، 13: 4]. وَفَضَّلَ اللهُ بَعْضَ النَّاسِ عَلَى بَعْضٍ فَقَالَ تَعَالَى: ﴿وَاللَّهُ فَضَّلَ بَعۡضَكُمۡ عَلَىٰ بَعۡضٍ فِي الرِّزۡقِ﴾ [النحل، 16: 71]. وَقَالَ أَيْضًا: ﴿فَضَّلَ اللَّهُ الۡمُجَٰهِدِينَ بِأَمۡوَٰلِهِمۡ وَأَنفُسِهِمۡ عَلَى الۡقَٰعِدِينَ دَرَجَةٗ﴾ [النساء، 4: 95]. وَأُكَرِّرُ أَنَّ الْمُهِمَّ هُنَا هُوَ أَنْ يَرْضَى كُلُّ مَخْلُوْقٍ بِمَا قَسَمَ اللهُ لَهُ مِنْ رِزْقٍ؛ عَمَلاً بِقَوْلِ اللهِ تَعَالَى: ﴿وَلَا تَتَمَنَّوۡاْ مَا فَضَّلَ اللَّهُ بِهِۦ بَعۡضَكُمۡ عَلَىٰ بَعۡضٍ﴾ [النساء، 4: 32]، حَتَّى الْأَنْبِيَاءُ أَنْفُسُهُمْ -وَهُمْ سَادَةُ الْبَشَرِ. فَضَّلَ اللهُ بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ، فَقَالَ تَعَالَى: ﴿تِلۡكَ الرُّسُلُ فَضَّلۡنَا بَعۡضَهُمۡ عَلَىٰ بَعۡضٍ مِّنۡهُم مَّن كَلَّمَ اللَّهُۖ وَرَفَعَ بَعۡضَهُمۡ دَرَجَٰتٍ﴾ [البقرة، 2: 253]. وَفَضَّلَ اللهُ بَعْضَ الْبِلَادِ عَلَى بَعْضٍ؛ فَفَضَّلَ مَكَّةَ الْمُكَرَّمَةَ عَلَى سَائِرِ الْبِلَادِ؛ وَلِهَذَا قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ مُخَاطِبًا مَكَّةَ: وَاللهِ، إِنَّكِ لَخَيْرُ أَرْضِ اللهِ، وَأَحَبُّ أَرْضِ اللهِ إِلَى اللهِ، وَلَوْلَا أَنِّي أُخْرِجْتُ مِنْكِ مَا خَرَجْتُ. وَأَخِيْرًا وَلَيْسَ آخِرًا، فَقَدْ فَضَّلَ اللهُ الآخِرَةَ عَلَى الدُّنْيَا. فَقَالَ تَعَالَى: ﴿بَلۡ تُؤۡثِرُونَ الۡحَيَوٰةَ الدُّنۡيَا. وَالۡأٓخِرَةُ خَيۡرٌ وَأَبۡقَىٰٓ﴾ [الأعلى، 87: 16-17 ]

أخرجه مسلم في الصحيح، كتاب الجمعة، باب فضل يوم الجمعة، 2: 585، الرقم: 854، وأحمد بن حنبل في المسند، 2: 512، الرقم: 10653، والترمذي في السنن، أبواب الوتر، باب ما جاء في فضل يوم الجمعة، 2: 359، الرقم: 388، والنسائي في السنن، كتاب الجمعة، باب ذكر فضل يوم الجمعة، 3: 89، الرقم: 1373.

اسی طرح الله تعالیٰ نے بعض دنوں کو بعض دوسرے دنوں پر فضیلت عطا فرمائی، پس جمعہ کے دن کو ہفتہ کے باقی تمام دنوں پر فضیلت بخشی۔ اور بعض راتوں کو بعض پر فضیلت عطا کی، (جیسے) شبِ قدر کو ہزار مہینوں سے بہتر بنایا جو اس سے محروم رہا وہ ساری کی ساری خیر سے محروم رہا، اور اس کی خیر سے محروم رہنے والا ہی حقیقی محروم ہے، اور (اسی طرح) بعض مہینوں کو بعض پر فضیلت دی، (جیسا کہ) رمضان کو باقی تمام مہینوں پر فضیلت سے نوازا، (اسی طرح) بعض زرعی اجناس اور پھلوں کو بعض پر برتری دی، الله تعالیٰ نے فرمایا: ﴿(اور زمین میں (مختلف قسم کے) قطعات ہیں جو ایک دوسرے کے قریب ہیں اور انگوروں کے باغات ہیں اور کھیتیاں ہیں اور کھجور کے درخت ہیں، جھنڈدار اور بغیر جھنڈ کے، ان (سب) کو ایک ہی پانی سے سیراب کیا جاتا ہے، اور (اس کے باوجود) ہم ذائقہ میں بعض کو بعض پر فضیلت بخشتے ہیں﴾۔ اور (اسی طرح) الله تعالیٰ نے بعض لوگوں کو بعض پر فضیلت دی، الله تعالیٰ نے فرمایا ہے: ﴿اور اللہ نے تم میں سے بعض کو بعض پر رزق (کے درجات) میں فضیلت دی ہے (تاکہ وہ تمہیں حکمِ انفاق کے ذریعے آزمائے)﴾ اور الله تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا: ﴿اللہ نے اپنے مالوں اور اپنی جانوں سے جہاد کرنے والوں کو بیٹھے رہنے والوں پر مرتبہ میں فضیلت بخشی ہے﴾ اور میں یہ بات دہراتا ہوں کہ اس مقام پر جو شے اہم ہے وہ یہ ہے کہ الله تعالیٰ نے ہر مخلوق کے لیے جو رزق کی تقسیم کر رکھی ہے وہ اس پر راضی رہے، الله تعالیٰ کے اس قول پر عمل کرتے ہوئے ﴿اور تم اس چیز کی تمنا نہ کیا کرو جس میں اللہ نے تم میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے﴾ یہاں تک خود انبیاء کرام حالانکہ وہ سردارانِ بشریت ہیں، ان میں سے بعض کو الله تعالیٰ نے بعض پر فضیلت بخشی، پس الله تعالیٰ نے فرمایا: ﴿یہ سب رسول (جو ہم نے مبعوث فرمائے) ہم نے ان میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے، ان میں سے کسی سے الله نے (براہِ راست) کلام فرمایا اور کسی کو درجات میں (سب پر) فوقیت دی (یعنی حضور نبی اکرم ﷺ کو جملہ درجات میں سب پر بلندی عطا فرمائی)﴾ اور(اسی طرح) اللهتعالیٰ نے بعض شہروں کو بعض پر فضیلت دی ہے۔ پس مکہ مکرمہ کو سارے شہروں پر فضیلت عطا کی، اسی لیے رسول الله ﷺ نے مکہ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: اے مکہ! بے شک تو الله تعالیٰ کی زمین میں سے بہترین جگہ ہے، اورالله کی (ساری) زمین میں سے تو مجھے سب سے زیادہ محبوب ہے، اور اگر مجھے تجھ سے ہجرت پر مجبور نہ کیا جاتا تو میں تجھ سے کبھی نہ نکلتا۔ اور آخر میں یہ کہ الله تعالیٰ نے آخرت کو دنیا پر فضیلت دی، پس الله تعالیٰ نے فرمایا: ﴿بلکہ تم (اللہ کی طرف رجوع کرنے کی بجائے) دنیاوی زندگی (کی لذتوں) کو اختیار کرتے ہو، حالاں کہ آخرت (کی لذت و راحت) بہتر اور ہمیشہ باقی رہنے والی ہے﴾۔

فَمِنْ شَأْنِهِ أَنْ يُفَضِّلَ بَعْضَ الْأَيَّامِ عَلَى بَعْضٍ، وَبَعْضَ الشُّهُوْرِ عَلَى بَعْضٍ، وَبَعْضَ السَّاعَاتِ مِنْ لَيْلٍ أَوْ نَهَارٍ عَلَى بَعْضٍ، كَمَا فَضَّلَ جَلَّ جَلَالُهُ بَعْضَ الْأَمَاكِنِ عَلَى بَعْضٍ، وَفَضَّلَ بَعْضَ الْأَزْمَانِ عَلَى بَعْضٍ، فَفَضَّلَ بَيْنَ الشُّهُوْرِ وَمِنْ ذَلِكَ تَفْضِيْلُ شَهْرِ رَمَضَانَ عَلَى سَائِرِ الشُّهُوْرِ، وَفَضَّلَ بَيْنَ اللَّيَالِي، وَأَفْضَلُهَا لَيْلَةُ الْقَدْرِ.

وَأَمَّا الْأَيَّامُ، فَهِيَ عَلَى قِسْمَيْنِ، الْأَوَّلُ: أَيَّامُ الْأُسْبُوْعِ وَأَفْضَلُهَا يَوْمُ الْجُمُعَةِ. فَأَخْرَجَ مُسْلِمٌ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی اللہ عنہ، يَقُوْلُ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: خَيْرُ يَوْمٍ طَلَعَتْ عَلَيْهِ الشَّمْسُ يَوْمُ الْجُمُعَةِ، فِيْهِ خُلِقَ آدَمُ، وَفِيْهِ أُدْخِلَ الْجَنَّةَ، وَفِيْهِ أُخْرِجَ مِنْهَا. وَفِي رِوَايَةٍ أُخْرَى لَهُ: وَلَا تَقُوْمُ السَّاعَةُ إِلَّا فِي يَوْمِ الْجُمُعَةِ.

انظر: مسند أحمد بن حنبل، 3: 430، الرقم: 15587، وسنن ابن ماجه، كتاب إقامة الصلاة والسنة فيها، باب في فضل الجمعة، 1: 344، الرقم: 1084.

وَأَمَّا أَيَّامُ السَّنَةِ، فَقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: يَوْمُ عَرَفَةَ. وَصَوَّبَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنَّ يَوْمَ النَّحْرِ أَفْضَلُ أَيَّامِ السَّنَةِ عِنْدَ اللهِ، وَهُوَ يَوْمُ الْحَجِّ الْأَكْبَرِ. فَأَخْرَجَ أَبُوْ دَاوُدَ عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ قُرْطٍ رضی اللہ عنہ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: أَعْظَمُ الْأَيَّامِ عِنْدَ اللهِ يَوْمُ النَّحْرِ، ثُمَّ يَوْمُ الْنَّفْرِ (أَي: يَوْمُ الثَّانِي عَشَرَ مِنْ ذِي الْحَجَّةِ)(1).

وَكَذَلِكَ فَضَّلَ اللهُ بَيْنَ الْعِبَادَاتِ، فَفَضَّلَ الْمَفْرُوْضَاتِ عَلَى الْمَنْدُوْبَاتِ، لِمَا أَخْرَجَهُ الْبُخَارِيُّ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی اللہ عنہ: وَمَا تَقَرَّبَ إِلَيَّ عَبْدِي بِشَيءٍ أَحَبَّ إِلَيَّ مِمَّا افْتَرَضْتُ عَلَيْهِ، وَمَا يَزَالُ عَبْدِي يَتَقَرَّبُ إِلَيَّ بِالنَّوَافِلِ حَتَّى أُحِبَّهُ(2).

  1. أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 4: 350، الرقم: 19098، والنسائي في السنن الكبرى، 2: 444، الرقم: 4098، وابن حبان في الصحيح، باب العيدين، 7: 51، الرقم: 2811، وابن خزيمة في الصحيح، 4: 273، الرقم: 2866، والطبراني في المجم الأوسط، 3: 44، الرقم: 2421.
  2. أخرجه البخاري في الصحيح، كتاب الرقاق، باب التواضع، 5: 2384، الرقم: 6137، وابن حبان في الصحيح، 2: 58، الرقم: 347، والبيهقي في السنن الكبرى، 10: 219، وأيضًا في كتاب الزهد الكبير، 2: 269، الرقم: 696.

اور (یہ) اس کی شان ہے بعض دنوں کو بعض پر اور بعض مہینوں کو بعض پر، اور دن رات کی بعض گھڑیوں کو بعض پر فضیلت دینا، جیسا کہ اللهجل جلالہ نے بعض جگہوں کو بعض پر، اور بعض زمانوں کو بعض پر فضیلت بخشی، اور بعض مہینوں کو بعض پر فضیلت دی اور اسی میں سے (اس کا) رمضان کے مہینے کو تمام مہینوں پر فوقیت دینا ہے۔ اور (اسی طرح ) اس نے راتوں کے مابین فضیلت قائم فرمائی، سو ان میں سے سب سے افضل (رات) شب قدر ہے۔

اور رہے دن تو وہ دو قسموں میں منقسم ہیں۔ پہلی قسم: ہفتے کے دن ہیں اور ان میں سے افضل جمعہ کا دن ہے۔ پس امام مسلمؒ نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے (مروی) ایک روایت بیان کی ہے، آپ بیان کرتے ہیں: رسول الله ﷺ نے فرمایا: بہترین دن جس پر سورج طلوع ہوا وہ جمعہ کا دن ہے، اسی دن حضرت آدم علیه السلام کو پیدا کیا گیا، اور اسی دن انہیں جنت میں داخل کیا گیا اور اسی دن انہیں جنت سے اتارا گیا۔ اور آپ رضی اللہ عنہ سے ہی (مروی) ایک اور روایت میں ہے: اور قیامت جمعہ کے روز ہی قائم ہو گی۔

اور رہے سال کے دن تو بعض اہل علم نے کہا ہے: (ان میں سے) عرفہ کے دن کو فضیلت حاصل ہے۔ اور بعض اہلِ علم نے (اس قول کو ہی) درست قرار دیا ہے کہ بے شک قربانی کا دن الله تعالیٰ کے ہاں سال کا بہترین دن ہے اور یہ حج اکبر کا دن ہے۔ ابوداود نے حضرت عبد الله بن قرط رضی اللہ عنہ سے انہوں نے حضور نبی اکرم ﷺ سے روایت کی، آپ ﷺ نے فرمایا: بے شک الله تعالیٰ کے ہاں سب سے عظیم دن قربانی کا دن ہے، پھر اس کے بعد ذوالحجہ کا بارہواں دن ہے۔

اسی طرح الله تعالیٰ نے عبادات کے مابین فضیلت قائم فرمائی، پس فرض عبادتوں کو مستحب عبادتوں پر فضیلت دی، جیسا کہ امام بخاری نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے (حدیث قدسی) روایت کی (کہ الله تعالیٰ نے فرمایا ہے:) بندے پر جو عبادات میں نے فرض کی ہیں میرے نزدیک ان (فرائض پر عمل) سے بڑھ کر پسندیدہ کوئی (ایسی) شے نہیں (جس پر عمل سے) میرا بندہ میرے قریب ہوا ہو، اور نفل عبادات کے ذریعے میرا بندہ مسلسل میرا قرب حاصل کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ میں اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہوں۔

فَإِنَّ اللهَ تعالیٰ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ وَيَخْتَارُ، فَقَدْ خَلَقَ الْكَوْنَ كُلَّهُ، عُلَوِيِّهِ وَسُفَلِيِّهِ، ثُمَّ اخْتَارَ مِنْ ذَلِكَ مَا شَاءَ مِنَ الْأَمْكِنَةِ وَالْأَزْمِنَةِ، فَفَضَّلَ بَعْضَهَا عَلَى بَعْضٍ. فَاخْتَارَ مِنَ الْأَزْمِنَةِ شُهُوْرًا وَأَيَّامًا وَسَاعَاتٍ مُعَيَّنَةً، فَضَّلَهَا بِمَزِيْدٍ مِنَ الْفَضَائِلِ، فَمِنَ الشُّهُوْرِ شَهْرُ رَمَضَانَ، وَالشُّهُوْرُ الْأَرْبَعَةُ الْحُرُمُ: ذُوْ الْقَعْدَةِ، وَذُوْ الْحَجَّةِ، وَمُحَرَّمٌ وَرَجَبٌ. وَمِنَ الْأَيَّامِ يَوْمُ عَرَفَةَ، وَيَوْمُ الْجُمُعَةِ، وَمِنَ اللَّيَالِي لَيْلَةُ الْقَدْرِ.

پس بے شک اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے پیدا فرماتا اور (جسے چاہتا ہے اعلیٰ مراتب کے لئے) اختیار(منتخب) فرماتا ہے، بے شک اللہ تعالیٰ نے تمام کائنات کو پیدا فرمایا اس کے بالائی حصے اور زیریں حصے کو، پھر اس نے اس میں سے بعض جگہوں اور بعض زمانوں میں سے جسے چاہا اختیار فرمایا، اور بعض کو بعض پر فضیلت دی۔ پس اس نے زمانوں میں سے بعض معیّن مہینوں، دنوں اور گھڑیوں کو چن لیا، اور انہیں بعض مزید فضائل کے ساتھ برتری و فوقیت عطا کی ہے۔ پس مہینوں میں رمضان کا مہینہ، اور چار حرمت والے مہینے -ذوالقعدہ، ذوالحجہ، محرم اور رجب-(باقی مہینوں سے) اَفضل ہیں۔ اور دنوں میں عرفہ کا دن اور جمعہ کا دن اور راتوں میں سے شب قدر افضل ہے۔

وَمِنَ السَّاعَاتِ: آخَرُ سَاعَةٍ مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ، وَالثُّلُثُ الْأَخِيْرُ مِنَ اللَّيْلِ، وَمَا إِلَى ذَلِكَ مِنَ الْأَزْمِنَةِ الْفَاضِلَةِ. وَاخْتَارَ مِنَ النَّاسِ الْأَنْبِيَاءَ وَالرُّسُلَ، وَمِنَ الرُّسُلِ أُولِي الْعَزْمِ، وَمِنْ أُولِي الْعَزْمِ مُحَمَّدًا ﷺ.

اور گھڑیوں میں جمعہ کے روز کی آخری گھڑی (عصر مغرب کا درمیانی وقت) اور رات کا تیسرا پہر، اور اس کے علاوہ دوسرے فضیلت والے اوقات ہیں۔ اور اس نے لوگوں میں سے انبیاء و رسل کو چنا، اور رسولوں میں سے اولو العزم (کا لقب پانے والے) رسولوں کو چنا اور اولو العزم رسولوں میں سے محمد مصطفی ﷺ کو چنا۔

وَكَمَا فَضَّلَ بَعْضَ الْأَزْمِنَةِ عَلَى بَعْضٍ فَقَدْ فَضَّلَ بَعْضَ الْأَمْكِنَةِ عَلَى بَعْضٍ، وَمِنْ هَذِهِ الْأَمْكِنَةِ الَّتِي فَضَّلَهَا اللهُ عَلَى سَائِرِ الْأَمَاكِنِ: الْمَسَاجِدُ، فَهِيَ أَحَبُّ الْبِقَاعِ إِلَى اللهِ؛ لِمَا جَاءَ فِي الْحَدِيْثِ الَّذِي أَخْرَجَهُ مُسْلِمٌ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی اللہ عنہ أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ: أَحَبُّ الْبِلَادِ إِلَى اللهِ مَسَاجِدُهَا، وَأَبْغَضُ الْبِلَادِ إِلَى اللهِ أَسْوَاقُهَا.

أخرجه مسلم في الصحيح، كتاب المساجد ومواضع الصلاة، باب فضل الجلوس في مصلاه بعد الصبح وفضل المساجد، 1: 464، الرقم: 671، وأحمد بن حنبل في المسند، 5: 353، الرقم: 23035.

جس طرح اس (اللہ رب العزت) نے بعض زمانوں کو بعض پر فضیلت دی، (اسی طرح) اس نے بعض جگہوں کو بعض پر فضیلت دی، اور ان جگہوں میں سےجنہیں اس نے باقی تمام جگہوں پر فضیلت دی (اللہ کی)مساجد ہیں، یہ اللہ تعالیٰ کے ہاں سب سے پسندیدہ جگہیں ہیں۔ جیسا کہ اس حدیث میں وارد ہوا ہے جسے امام مسلم نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے طریق سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: (کرۂ ارض کی) جگہوں میں سے اللہ تعالیٰ کو سب سے پسندیدہ جگہ مساجد ہیں اور اللہ تعالیٰ کے ہاں سب سے ناپسندیدہ جگہ بازار ہیں۔

فَفِي الْمَسَاجِدِ يُعْبَدُ اللهُ وَيُوَحَّدُ، وَيُثْنَى عَلَيْهِ وَيُمَجَّدُ، وَفِيْهَا يُرْكَعُ لَهُ وَيُسْجَدُ، وَفِيْهَا تُقَامُ الصَّلَوَاتُ، وَمَجَالِسُ الْعِلْمِ، فَيَذْكُرُ النَّاسِي، وَيَعْلَمُ الْجَاهِلُ، ولِهَذَا وَغَيْرِهِ كَانَتْ أَحَبَّ الْبِلَادِ إِلَى اللهِ، فَهِيَ الْمَكَانُ الَّذِي يَتَّصِلُ فِيْهِ الْمَخْلُوْقُ بِالْخَالِقِ.

وَمِنْ هَذِهِ الْبِقَاعِ تَخْرُجُ الْعُلَمَاءُ وَالْفُقَهَاءُ، وَالْقَادَةُ وَالْعُظَمَاءُ، وَالْعُبَّادُ وَالزُّهَّادُ، وَفِيْهَا رُفِعَتِ الْأَيْدِي لِرَبِّ الْأَرْضِ وَالسَّمَاءِ، وَعُفِرَتِ الْجِبَاهُ لِذِي الْعِزَّةِ وَالْكِبْرِيَاءِ؛ فَهِيَ بِذَلِكَ أَحَبُّ الْبِقَاعِ إِلَى اللهِ.

مساجد میں اللہ تعالیٰ کی عبادت کی جاتی ہے،اس کی توحید کا پرچار کیا جاتا ہے، اس کی حمد و ثنا اور بزرگی بیان کی جاتی ہے، وہاں اسے رکوع اور سجود کیا جاتا ہے، اور ان میں نمازیں پڑھی جاتی ہیں اور مجالسِ علم کا قیام و اِنصرام کیا جاتا ہے، پس بھولا ہوا یاد کرتا ہے اور جاہل علم حاصل کرتا ہے، ان اور دیگر اسباب(وامورِ خیر) کی وجہ سے مساجد اللہ تعالیٰ کی پسندیدہ جگہیں ہیں، اور یہی وہ جگہ ہے جہاں مخلوق اپنے خالق کے ساتھ اپنا رابطہ قائم و استوارکرتی ہے۔

اور یہی مساجد وہ جگہیں ہیں جہاں سے علماء، فقہاء، قائدین اور عظیم شخصیات، عبادت گزار اور زاہدین نکلتے ہیں، اور انہی جگہوں میں زمین و آسمان کے رب کے سامنے دعا کے لیے ہاتھ بلند کیے جاتے ہیں، اور عزت و کبریائی والے رب کے سامنے پیشانیاں رگڑی جاتی ہیں (سجدہ ریز ہوا جاتا ہے)، بناء بریں یہ پارہ ہاے زمین اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ محبوب اور پسندیدہ ہیں۔

فَالْمَسَاجِدُ كُلُّهَا أَحَبُّ الْبِقَاعِ إِلَى اللهِ، وَلَكِنْ ثَمَّةَ ثَلَاثَةُ مَسَاجِدَ لَهَا مَزِيْدٌ مِنَ الْمَزَايَا: اَلْمَسْجِدُ الْحَرَامُ، وَمَسْجِدُ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ، وَالْمَسْجِدُ الْأَقْصَى. فَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ‏ رضی اللہ عنہ، أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ: صَلَاةٌ فِي مَسْجِدِي هَذَا أَفْضَلُ مِنْ أَلْفِ صَلَاةٍ فِيْمَا سِوَاهُ إِلَّا الْمَسْجِدَ ‏الْحَرَامَ(1)، وَرُوِيَ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ‏ رضی اللہ عنہ، أَنَّ الصَّلَاةَ فِي الْمَسْجِدِ النَّبَوِيِّ بِخَمْسِيْنَ أَلْفَ صَلَاةٍ، وَصَلَاةٌ فِي الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ بِمِائَةِ أَلْفِ صَلَاةٍ. وَقَدْ رُوِيَ فِي بَيْتِ الْمَقْدِسِ التَّفْضِيْلُ بِخَمْسِيْنَ أَلْفَ صَلَاةٍ(2).

  1. أخرجه البخاري في الصحيح، أبواب التطوع، باب فضل الصلاة في مسجد مكة والمدينة، 1: 398، الرقم: 1133، ومسلم في الصحيح، كتاب الحج، باب فضل الصلاة بمسجدي ‏مكة والمدينة، 2: 1012-1013، الرقم: 1394.
  2. أخرجه ابن ماجه في السنن، كتاب إقامة الصلاة والسنة فيها، باب ما جاء في الصلاة في ‏المسجد الجامع، 1: 453، الرقم: 1413، والطبراني في المعجم الأوسط، 7: 112، الرقم: 7008.

یوں تو ساری مساجد ہی اللہ تعالیٰ کی سب سے زیادہ پسندیدہ جگہیں ہیں، لیکن تین مساجد ایسی ہیں جو عام مساجد سے زیادہ خصوصیات کی حامل ہیں: مسجد حرام، مسجدِ نبوی اور مسجد اقصیٰ۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے: میری اس مسجد میں ایک نماز اس کے علاوہ باقی مساجد میں (پڑھی جانے والی) ہزار نمازوں سے افضل ہے سوائے مسجد حرام کے۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث مبارک میں ہے کہ مسجد نبوی میں ایک نماز کا اجر پچاس ہزار نمازوں کے برابر ہے، مسجد حرام میں (پڑھی جانے والی) ایک نماز (اس کے علاوہ باقی مساجد میں پڑھی جانے والی) ایک لاکھ نمازوں کے برابر ہے اور بیت المقدس میں ایک نماز کی فضیلت اس کے علاوہ باقی مساجد میں (پڑھی جانے والی) پچاس ہزار نمازوں سے بڑھ کر بیان کی گئی ہے۔

وَيُضَافُ إِلَى كَذَلِكَ مَسْجِدُ قُبَاءَ فِي أَنَّ الصَّلَاةَ فِيْهِ لَهَا مَزِيَّةٌ عَنْ بَقِيَّةِ الْمَسَاجِدِ، فَعَنْ سَهْلِ بْنِ حُنَيْفٍ رضی اللہ عنہ، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: مَنْ تَطَهَّرَ فِي بَيْتِهِ، ثُمَّ أَتَى مَسْجِدَ قُبَاءَ فَصَلَّى فِيْهِ صَلَاةً، کَانَ لَهُ کَأَجْرِ عُمْرَةٍ.

أخرجه ابن ماجه في السنن، كتاب إقامة الصلاة والسنة فيها، باب ما جاء في الصلاة في ‏مسجد قباء، 1: 453، الرقم: 1412.

اور اس (فضیلت والی مساجد میں) مسجد قبا کو بھی شامل کیا جاتا ہے کہ اس میں (پڑھی جانے والی) ایک نماز کو بقیہ مساجد میں پڑھی جانے والی نمازوں پر نمایاں مقام حاصل ہے۔ پس حضرت سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا: جس نے اپنے گھر میں خوب طہارت حاصل کی پھر مسجد قبا میں آیا اور اس میں ایک نماز پڑھی تو اس کے لیے ایک عمرہ کا ثواب ہے۔

وَکَمَا أَنَّ ثَوَابَ الْأَعْمَالِ الصَّالِحَةِ فِي هَذِهِ الْأَزْمِنَةِ وَالْأَمْکِنَةِ يُضَاعَفُ فَکَذَلِكَ الْأَعْمَالُ السَّيِّئَةُ يُضَاعَفُ وِزْرُهَا، کَمَا يُشِيْرُ إِلَى ذَلِكَ الْحَافِظُ ابْنُ کَثِيْرٍ عِنْدَ تَفْسِيْرِهِ لِقَوْلِهِ تَعَالَى: ﴿فَلَا تَظۡلِمُواْ فِيهِنَّ أَنفُسَكُمۡ﴾ [التوبة، 9: 36]، فَيَقُوْلُ: أَيْ فِي هَذِهِ الْأَشْهُرِ الْمُحَرَّمَةِ؛ لِأَنَّهَا آکَدُ وَأَبْلَغُ فِي الْإِثْمِ مِنْ غَيْرِهَا، کَمَا أَنَّ الْمَعَاصِيَ، فِي الْبَلَدِ الْحَرَامِ تُضَاعَفُ، وَکَذَلِكَ الشَّهْرُ الْحَرَامُ تُغْلَظُ فِيْهِ الْآثَامُ.

فَالْحَذَرَ مِنَ الذُّنُوْبِ فِي أَيِّ مَکَانٍ وَفِي أَيِّ زَمَانٍ وَخَاصَّةً فِي الْأَزْمِنَةِ وَالْأَمْکِنَةِ الْفَاضِلَةِ، فَإِنَّ الْعُقُوْبَةَ وَالْوِزْرَ أَشَدُّ وَأَعْظَمُ.

اور جس طرح نیک اعمال کا ثواب ان اوقات اور ان جگہوں میں (کئی گنا) بڑھ جاتا ہے اسی طرح برے اعمال کا گناہ بھی ان جگہوں پر بہت بڑھ جاتا ہے، جیسا کہ اس کی طرف ابن کثیر نے الله تعالیٰ کے اس قول (سو تم ان مہینوں میں (اَز خود جنگ و قتال میں ملوث ہو کر) اپنی جانوں پر ظلم نہ کرنا) کی تفسیر کرتے ہوئے اشارہ فرمایا، آپؒ فرماتے ہیں: یعنی ان حرمت والے مہینوں میں اپنی جانوں پر ظلم نہ کرو، کیونکہ ان میں گناہ ان کے علاوہ دوسرے مہینوں میں گناہ سے کئی گنا بڑھ جاتا ہے، جیسا کہ بلدحرام (مکہ مکرمہ) میں گناہوں کا وبال کئی گنا بڑھ جاتا ہے۔ اسی طرح حرمت والے مہینے میں گناہوں کی سختی میں اضافہ ہو جاتا ہے۔

لہذا کسی بھی جگہ اور کسی بھی وقت گناہوں سے بچنا چاہیے خاص طور پر فضیلت والے اوقات اور فضیلت والی جگہوں میں، پس بے شک (ان میں) عقوبت اور وبال شدید تر اور عظیم تر (ہو جاتا) ہے۔

وَقَدْ ثَبَتَ فِي ‹‹صَحِيْحِ مُسْلِمٍ›› عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ رضی اللہ عنہ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ يَقُوْلُ: «إِنَّ فِي اللَّيْلِ لَسَاعَةً لَا يُوَافِقُهَا رَجُلٌ مُسْلِمٌ يَسْأَلُ اللهَ خَيْرًا مِنْ أَمْرِ الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ إِلَّا أَعْطَاهُ إِيَّاهُ، وَذَلِكَ فِي کُلِّ لَيْلَةٍ»(1). عَسَى أَنْ تَشْمَلَ الْمُتَعَبِّدَ فِيْهَا عِنَايَةٌ مِنَ اللهِ تَمْحُوْ أَوْزَارَهُ وَذُنُوْبَهُ، وَتُفَرِّجُ کُرُوْبَهُ، وَتَسْتُرُ عُيُوْبَهُ.

فَفِي ‹‹مُسْنَدِ الشِّهَابِ›› وَغَيْرِهِ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رضی اللہ عنہ، عَنِ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ، قَالَ: اُطْلُبُوا الْخَيْرَ دَهْرَکُمْ وَتَعَرَّضُوْا لِنَفَحَاتِ رَحْمَةِ اللهِ تعالیٰ، فَإِنَّ ِﷲِ نَفَحَاتٍ مِنْ رَحْمَتِهِ يُصِيْبُ بِهَا مَنْ يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ، وَاسْأَلُوا اللهَ أَنْ يَسْتُرَ عَوْرَاتِکُمْ وَيُؤَمِّنَ رَوْعَاتِکُمْ(2).

  1. أخرجه مسلم في الصحيح، كتاب صلاة المسافرين وقصرها، باب في الليل ساعة مستجاب فيها الدعاء، 1: 521، الرقم: 757.
  2. أخرجه القضاعي في مسند الشهاب، 1: 407، الرقم: 701، وابن أبي شيبة في المصنف عن أبي الدرداء رضی اللہ عنہ، 7: 111، الرقم: 34594، والطبراني في المعجم الكبير، 1: 250، الرقم: 720.

’صحیح مسلم‘ میں حضرت جابر بن عبد الله رضی اللہ عنہ سے یہ روایت ثابت ہے، آپ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول الله ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: بے شک رات میں ایک گھڑی ایسی آتی ہے کہ جو بھی مسلمان اس گھڑی کو پا لیتا ہے اس حال میں کہ وہ اس میں الله تعالیٰ سے دنیا و آخرت میں سے کسی کا سوال کرے تو الله تعالیٰ اسے ضرور بالضرور وہ عطا فرما دیتا ہے۔ اور ایسا ہر رات میں ہوتا ہے۔ عین ممکن ہے کہ اس گھڑی میں اللہ تعالیٰ کی خاص عنایت کسی عبادت گزار کے شامل حال ہو جائے جو اس کی خطاؤں اور لغزشوں کو مٹا دے، اسے تکالیف سے چھٹکارا دِلا دے اور اس کے عیوب پر پردہ ڈال دے۔

’مسند الشہاب‘ وغیرہ میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتے ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا: ہر وقت الله تعالیٰ سے خیر طلب کرتے رہا کرو اور اپنے رب کی رحمت کے(خنک اور مشک بار) جھونکوں کو تلاش کرتے رہا کرو۔ بے شک تمہارے رب کی رحمت کے ( یہ وہ )جھونکے ہیں جنہیں وہ اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے انہیں اِن (جھونکوں) سے فیض یاب (ہونے کی توفیق اَرزاں) کرتا ہے۔ سو الله تعالیٰ سے(اس امر کا) سوال کرتے رہا کرو کہ وہ تمہارے عیوب پر پردہ ڈالے رکھے اور تمہیں پریشانیوں سے محفوظ رکھے۔

فَهَذَا جُزْءٌ کَتَبَهُ شَيْخُ الْإِسْلَامِ الدُّكْتُوْرُ مُحَمَّد طَاهِرُ الْقَادِرِيُّ فِي فَضْلِ هَذِهِ الْأَزْمِنَةِ، وَمِنَ اللهِ نَطْلُبُ التَّوْفِيْقَ وَالْإِعَانَةَ، وَنَسْأَلُهُ الْهِدَايَةَ لِأَقْوَمِ طَرِيْقٍ مَعَ الْاِسْتِقَامَةِ، وَنَسْأَلُ اللهَ تَعَالَى أَنْ يَنْفَعَ بِهِ کُلَّ قَارِيءٍ مِنْ خَيْرِهِ بِفَضْلِهِ وَکَرَمِهِ، وَأَنَّهُ جَوَّادٌ کَرِيْمٌ.

پس یہ کتاب شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے ان (خاص زمانی و مکانی) گھڑیوں کی فضیلت کے بیان میں تحریر کیا ہے۔ ہم الله تعالیٰ ہی سے توفیق اور مدد کے طلب گار ہیں اور ہم اسی سے اِستقامت کے ساتھ صراطِ مستقیم پر چلنے کا سوال کرتے ہیں۔ ہم اللہ (رب العزت کی بارگاہ) میں (یہ بھی) دعا کرتے ہیں کہ وہ اس (کتاب میں موجود فضائل) کی خیر سے اس (کتاب) کے ہر قاری کو اپنے خاص فضل و کرم سے نفع باہم پہنچائے۔ بے شک وہ جود و سخا کا مالک ہے۔

مركز فريد الملة
للبحوث الإسلامية
21-8-1443ﻫ

Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved