اربعین: اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی فضیلت

الاحادیث النبویۃ

1. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه : أَنَّ رَسُولَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : قَالَ اللهُ عزوجل : أَنْفِقْ أُنْفِقْ عَلَيْکَ. وَقَالَ : يَدُ اللهِ مَلْاٰی لَا تَغِيضُهَا نَفَقَةٌ، سَحَّاءُ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ. وَقَالَ : أَرَأَيْتُمْ مَا أَنْفَقَ مُنْذُ خَلَقَ السَّمَاءَ وَالْأَرْضَ فَإِنَّهُ لَمْ يَغِضْ مَا فِي يَدِهِ، وَکَانَ عَرْشُهُ عَلَی الْمَاءِ، وَبِيَدِهِ الْمِيزَانُ يَخْفِضُ وَيَرْفَعُ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

1 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب تفسير القرآن، باب قوله : وعرشه علی الماء، 4 / 1724، الرقم : 4407، ومسلم في الصحيح، کتاب الزکاة، باب الحث علی النفقة وتبشيرالمنفق بالخلف، 2 / 690، الرقم : 993، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 313، 500، الرقم : 8125، 10507، وابن ماجه في السنن، المقدمة، باب فيما أنکرت الجهيمة، 1 / 71، الرقم : 197.

’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : تو میری راہ میں مال خرچ کر میں تجھے مال دوں گا۔ اور فرمایا کہ اللہ کے ہاتھ بھرے ہوئے ہیں، رات دن خرچ کرنے سے بھی خالی نہیں ہوتے۔ فرمایا کہ کیا تم نہیں دیکھتے جب سے آسمان اور زمین کی پیدائش ہوئی اُس وقت سے کتنا اُس نے لوگوں کو دیا لیکن اُس کے خزانوں میں کوئی کمی نہیں آئی اور اُس وقت اُس کا عرش پانی پر تھا اور اُسی کے ہاتھ میں میزان ہے جو پست (یعنی جس کا ایک پلڑا پست) اور (ایک پلڑا) بلند ہوتا ہے۔‘‘

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

2. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه : أَنَّ رَسُولَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : قَالَ اللهُ : أَنْفِقْ يَا ابْنَ آدَمَ، أُنْفِقْ عَلَيْکَ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

2 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب النفقات، باب فضل النققة علی الأهل، 5 / 2047، الرقم : 5037، ومسلم في الصحيح، کتاب الزکوة، باب الحث علی النفقة وتبشير المنفق بالخلف، 2 / 690، الرقم : 993، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 242، الرقم : 7296، وابن ماجه في السنن، کتاب الکفارات، باب النهي عن النذر، 1 / 686، الرقم : 2123.

’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے راویت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : اے ابن آدم! تو (مخلوق خدا پر) خرچ کر (تو) میں تیرے اوپر خرچ کروں گا۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

قَالَ الْمُلَّا عَلِيُّ الْقَارِي : وَالْمَعْنٰی : أَنْفِقِ الْأَمْوَالَ الْفَانِيَةَ فِي الدُّنْيَا لِتُدْرِکَ الْأَحْوَالَ الْعَالِيَةَ فِي الْعُقْبٰی، وَقِيْلَ : مَعْنَاهُ أَعْطِ النَّاسَ مَا رَزَقْتُکَ حَتّٰی أَنْ أَرْزُقَکَ أَيْ فِي الدُّنْيَا وَالْعُقْبٰی، إِشَارَةٌ إِلٰی قَوْلِهِ تَعَالٰی : ﴿وَمَآ اَنْفَقْتُمْ مِّنْ شَيْئٍ فَهُوَ يُخْلِفُهُ﴾ [سبأ، 34 : 39

الملا علي القاري، مرقاة المفاتيح، 4 / 318، الرقم : 1862.

’’ملا علی القاری فرماتے ہیں : حدیث مبارکہ کا معنی یہ ہے کہ فنا ہونے والے اموال کو دنیا میں خرچ کرو تاکہ آخرت میں اعلیٰ درجہ کے احوال پا سکو۔ اور کہا گیا ہے کہ اس کا معنی یہ ہے کہ تم لوگوں کو میرے دیے ہوئے رزق میں سے دے دو تاکہ میں تجھے دنیا اور آخرت میں رزق عطا کروں۔ اس میں اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کی طرف اشارہ ہے : اور تم (اللہ کی راہ میں) جو کچھ بھی خرچ کرو گے تو وہ اس کے بدلہ میں اور دے گا۔‘‘

3. عَنْ أَسْمَاءَ رضی الله عنها ، أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : أَنْفِقِي، وَلَا تُحْصِي فَيُحْصِيَ اللهُ عَلَيْکِ، وَلَا تُوعِي فَيُوْعِيَ اللهُ عَلَيْکِ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

3 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الهبة وفضلها، باب هبة المرأة بغير زوجها وعتقها إذا کان لها زوج فهو جائز إذا لم تکن سفيهة فإذا کانت سفيهة لم يجز قال اللہ تعالی : ولا تؤتوا السفهاء أموالکم، 2 / 915، الرقم : 2451، ومسلم في الصحيح، کتاب الزکوة، باب الحث في الإنفاق وکرامة الإحصاء، 2 / 713، الرقم : 1029، وأحمد بن حنبل في المسند، 6 / 345، الرقم : 26967.

’’حضرت اسماء رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : خرچ کرو اور گن کر نہ دو ورنہ اللہ تعالیٰ بھی تمہیں گن کر دے گا، اور ہاتھ نہ روکو ورنہ اللہ تعالیٰ بھی تم سے اپنا ہاتھ روک لے گا۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

4. عَنْ زَيْدِ بْنِ وَهْبٍ، قَالَ : قَالَ أَبُو ذَرٍّ : کُنْتُ أَمْشِي مَعَ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم فِي حَرَّةِ الْمَدِينَةِ، فَاسْتَقْبَلَنَا أُحُدٌ، فَقَالَ : يَا أَبَا ذَرٍّ، قُلْتُ : لَبَّيْکَ يَا رَسُولَ اللهِ، قَالَ : مَا يَسُرُّنِي أَنَّ عِنْدِي مِثْلَ أُحُدٍ هٰذَا ذَهَبًا، تَمْضِي عَلَيَّ ثَالِثَةٌ وَعِنْدِي مِنْهُ دِينَارٌ، إِلَّا شَيْئًا أَرْصُدُهُ لِدَيْنٍ، إِلَّا أَنْ أَقُوْلَ بِهِ فِي عِبَادِ اللهِ هٰکَذَا وَهٰکَذَا وَهٰکَذَا، عَنْ يَمِينِهِ وَعَنْ شِمَالِهِ وَمِنْ خَلْفِهِ. ثُمَّ مَشٰی ثُمَّ قَالَ : إِنَّ الْأَکْثَرِينَ هُمُ الْأَقَلُّوْنَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، إِلَّا مَنْ قَالَ هٰکَذَا وَهٰکَذَا وَهٰکَذَا، عَنْ يَمِينِهِ وَعَنْ شِمَالِهِ وَمِنْ خَلْفِهِ. وَقَلِيلٌ مَا هُمْ. ثُمَّ قَالَ لِي : مَکَانَکَ لَا تَبْرَحْ حَتّٰی آتِيَکَ. ثُمَّ انْطَلَقَ فِي سَوَادِ اللَّيْلِ حَتّٰی تَوَارٰی، فَسَمِعْتُ صَوْتًا قَدِ ارْتَفَعَ، فَتَخَوَّفْتُ أَنْ يَکُونَ قَدْ عَرَضَ لِلنَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم ، فَأَرَدْتُ أَنْ آتِيَهُ فَذَکَرْتُ قَوْلَهُ لِي : لَا تَبْرَحْ حَتّٰی آتِيَکَ. فَلَمْ أَبْرَحْ حَتّٰی أَتَانِي، قُلْتُ : يَا رَسُوْلَ اللهِ، لَقَدْ سَمِعْتُ صَوْتًا تَخَوَّفْتُ، فَذَکَرْتُ لَهُ، فَقَالَ : وَهَلْ سَمِعْتَهُ؟ قُلْتُ : نَعَمْ. قَالَ : ذَاکَ جِبْرِيلُ، أَتَانِي، فَقَالَ : مَنْ مَاتَ مِنْ أُمَّتِکَ لَا يُشْرِکُ بِاللهِ شَيْئًا، دَخَلَ الْجَنَّةَ. قُلْتُ : وَإِنْ زَنٰی، وَإِنْ سَرَقَ؟ قَالَ : وَإِنْ زَنٰی، وَإِنْ سَرَقَ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

4 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الرقاق، باب قول النبی صلی الله عليه وآله وسلم : ما يسرني أن عندي مثل أحد هذا ذهبا، 5 / 2367، الرقم : 6079، ومسلم في الصحيح، کتاب الزکاة، باب الترغيب في الصدقة، 2 / 687، الرقم : 94.

’’زید بن وہب کا بیان ہے کہ حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ مدینہ منورہ کی پتھریلی زمین پر چل رہا تھا اور ہمارے سامنے اُحد پہاڑ تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے ابو ذر! میں عرض گزار ہوا : یا رسول اللہ! میں حاضر ہوں۔ فرمایا کہ مجھے اس بات کی کوئی خوشی نہیں کہ میرے پاس اُحد پہاڑ کے برابر سونا ہو اور تیسری رات مجھ پر اس حال میں گزرے کہ اُس میں سے ایک دینار بھی میرے پاس بچا رہے، سوائے اس کے جو قرض ادا کرنے کے لیے رکھ چھوڑوں، مگر میں یہ چاہتا ہوں کہ اللہ کے بندوں میں وہ مال تقسیم کر دوں یعنی اپنے دائیں بائیں اور پیچھے دیتا رہوں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چلتے رہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : زیادہ مال والے قیامت کے روز مفلس (کم نیکیوں والے) ہوں گے مگر جو ایسے، ایسے اور ایسے یعنی دائیں بائیں اور پیچھے سے خرچ کریں، لیکن ایسے لوگ کم ہیں۔ پھر مجھ سے فرمایا کہ اپنی جگہ پر رہنا یہاں تک کہ میں تمہارے پاس واپس آؤں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رات کی تاریکی میں تشریف لے گئے یہاں تک کہ میری نظروں سے اوجھل ہو گئے۔ پھر میں نے اونچی آواز سنی۔ مجھے خدشہ ہوا کہ کہیں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کوئی حادثہ پیش نہ آ گیا ہو۔ یہ سوچ کر میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس جانے کا ارادہ کیا لیکن مجھے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد گرامی یاد آ گیا کہ میرے آنے تک اپنی جگہ نہ چھوڑنا۔ چنانچہ میں نے اپنی جگہ نہ چھوڑی یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے پاس تشریف لائے۔ میں عرض گزار ہوا : یا رسول اللہ! میں نے ایک آواز سنی تو خوفزدہ ہو گیا لیکن مجھے حضور کا ارشاد عالی یاد آ گیا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کیا تم نے آواز سنی؟ میں عرض گزار ہوا : ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : وہ جبرائیل تھے، میرے پاس آئے اور کہا : آپ کی امت میں سے جو شخص اس حال میں فوت ہو جائے کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتا ہو وہ (بالآخر) جنت میں جائے گا۔ میں نے کہا : خواہ اس نے زنا کیا اور چوری کی ہو؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : (ہاں) خواہ اس نے زنا کیا ہو اور چوری کی ہو۔‘‘

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

قَالَ الْعَسْقَلَانِيُّ : وَالْمُرَادُ بِالْکَرَاهَةِ الْإِنْفَاقُ فِي خَاصَّةِ نَفْسِهِ لَا فِي سَبِيْلِ اللهِ فَهُوَ مَحْبُوْبٌ. قَوْلُهُ : إِلَّا أَنْ أَقُولَ بِهِ فِي عِبَادِ اللہ، هُوَ اسْتِثْنَاءٌ بَعْدَ اسْتِثْنَاءٍ فَيُفِيْدُ الْإِِثْبَاتَ، فَيُؤْخَذُ مِنْهُ أَنَّ نَفْيَ مُحَبَّةِ الْمَالِ مُقَيَّدَةٌ بِعَدَمِ الْإِنْفَاقِ فَيْلَزَمُ مَحَبَّةَ وُجُوْدِهِ مَعَ الْإِنْفَاقِ، فَمَا دَامَ الْإِنْفَاقُ مُسْتَمِرَّا لَا يُکْرَهُ وُجُوْدُ الْمَالِ، وَإِذَا انْتَفَی الْإِنْفَاقُ ثَبَتَتْ کَرَاهِيَّةُ وُجُوْدُ الْمَالِ، وَلَا يَلْزَمُ مِنْ ذٰلِکَ کَرَاهِيَّةُ حُصُوْلِ شَيئٍ آخَرَ، وَلَوْ کَانَ قَدْرَ أَحَدٍ أَوْ أَکْثَرَ مَعَ اسْتِمْرَارِ الْإِنْفَاقِ.

العسقلاني، فتح الباري، 11 / 265.

وَقَالَ فِي مَقَامٍ آخِرَ : وَفِي حَدِيْثِ الْبَابِ مِنَ الْفَوَائِدِ : أَدَبُ أَبِي ذَرِّ مَعَ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم وَتَرَقُّبُهُ أَحْوَالَهُ وَشَفَقَتَهُ عَلَيْهِ حَتّٰی لَا يَدْخُلَ عَلَيْهِ أَدْنٰی شَيئٍ مِمَّا يَتَأَذّٰی بِهِ، وَفِيْهِ حُسْنِ الْأَدَبِ مَعَ الْأَکَابِرِ وَأَنَّ الصَّغِيْرَ إِذَا رَأَی الْکَبِيْرَ مُنْفِرَدًا لَا يَتَسَوَّرُ عَلَيْهِ وَلَا يَجْلِسُ مَعَهُ وَلَا يُلَازِمُهُ إِلَّا بِإِذْنٍ مِنْهُ، وَهَذَا بِخِلَافِ مَا إِذَا کَانَ فِي مَجْمَعٍ کَالْمَسْجِدِ وَالسُّوْقِ، فَيَکُوْنُ جُلُوْسُهُ مَعَهُ بِحَسْبِ مَا يَلِيْقُ.

() العسقلاني، فتح الباري، 11 / 268.

’’حافظ عسقلانی کہتے ہیں! اور مال کو ناپسند کرنے سے مراد ہے کہ صرف اپنی ذات پر خرچ کیا جائے نہ کہ راہِ خدا میں۔ کیونکہ راہِ خدا میں خرچ کرنا تو محبوب عمل ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ ارشاد ’سوائے اس کے کہ میں اسے اللہ کے بندوں میں تقسیم کر دوں‘، ایک استثناء کے بعد دوسرا استثناء ہے جو اثبات کا فائدہ دے رہا ہے۔ اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ مال کی محبت کی نفی عدمِ اِنفاق کے ساتھ مقید ہے، پس اِنفاق کے ہوتے ہوئے تو مال کی موجودگی کی محبت لازم آتی ہے۔ جب تک عملِ انفاق جاری رہے گا مال کا وجود ناپسندیدہ نہیں ہو گا اور جب عملِ انفاق منقطع ہو جائے گا تو مال کے موجود ہونے کی کراہت ثابت ہو جائے گی۔ تاہم اس سے کسی دوسری شے کا حصول ناپسندیدہ نہیں قرار پاتا اگرچہ اُحد پہاڑ کے برابر یا اس سے زیادہ بھی ہو جبکہ انفاق کا عمل مسلسل جاری ہے۔

’’حافظ عسقلانی ایک اور مقام پر اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں : اور حدیث الباب سے کچھ فوائد اخذ ہوتے ہیں : ان میں سے ایک حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ کا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ انتہائی ادب و تکریم کا تعلق اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احوال کو غور سے دیکھتے رہنا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں اس طرح متفکر ہونا کہ کوئی معمولی سی شے بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر داخل نہ ہو سکے جس سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تکلیف پہنچے کا امکان ہو، اور اس میں اکابرین کے ساتھ حسنِ ادب کا سبق بھی ہے، یہ کہ کوئی بھی چھوٹا شخص جب بزرگ کو تنہائی میں دیکھے تو اس سے اونچا بیٹھے نہ اس کے برابر بیٹھے اور نہ اس کے ساتھ چلے مگر یہ کہ وہ ان سے اجازت لے۔ یہ بات اور ہے کہ اگر وہ کسی مجمع میں، مسجد میں یا بازار میں ہوں تو وہ اپنی حیثیت کے مطابق ان کے ساتھ بیٹھے۔‘‘

5. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه ، قَالَ رَسُولُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم : لَوْ کَانَ لِي مِثْلُ أُحُدٍ ذَهَبًا، لَسَرَّنِي أَنْ لَا تَمُرَّ عَلَيَّ ثَلَاثُ لَيَالٍ وَعِنْدِي مِنْهُ شَيْئٌ، إِلَّا شَيْئًا أَرْصُدُهُ لِدَيْنٍ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

5 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الرقاق، باب قول النبي ما يسرني أن عندي مثل أحد هذا ذهبا، 5 / 2368، الرقم : 80.6، ومسلم في الصحيح، کتاب الزکاة، باب الترغيب في الصدقة، 2 / 687، الرقم : 991، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 349، الرقم : 8579.

’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اگر میرے پاس اُحد پہاڑ کے برابر بھی سونا ہوتا تو مجھے یہ بات بہت پسند ہے کہ تین راتیں مجھ پر اس حال میں نہ گزریں کہ اس مال میں سے کچھ بھی میرے پاس موجود ہو (یعنی سب کچھ بانٹ دوں) مگر صرف اتنا باقی رکھ لوں جس سے (اپنے ذمہ واجب الادا) قرض ادا کر سکوں۔‘‘یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

قَالَ الْعَيْنِيُّ : وَفِي هَذَا الْحَدِيْثِ إِشَارَةٌ إِلٰی أَنَّ الْمُؤْمِنَ لَا يَنْبَغِي لَهُ أَنْ يَتَمَنّٰی کَثْرَةَ الْمَالِ إِلاَّ بِشَرْطِ أَنْ يُسَلِّطَهُ اللهَ تَعَالٰی عَلٰی إِنْفَاقِهِ فِي طَاعَتِهِ اقْتِدَاءً بِالشَّارِعِ فِي ذٰلِکَ، وَفِيْهِ أَنَّ الْمُبَادَرَةَ إِلَی الطَّاعَةِ مَطْلُوْبَةٌ، وَفِيْهِ أَنَّهُ صلی الله عليه وآله وسلم کَانَ يَکُوْنُ عَلَيْهِ دَيْنٌ لِکَثْرَةِ مُوَاسَاتِهِ بِقُوْتِهِ وَقُوْتِ عِيَالِهِ وَإِيْثَارِهِ عَلٰی نَفْسِهِ أَهْلَ الْحَاجَةِ، وَفِيْهِ الرِّضَا بِالْقَلِيْلِ وَالصَّبْرِ عَلَی خُشُوْنَةِ الْعَيْشِ.

العيني، عمدة القاري،23 / 54.

’’علامہ عینی کہتے ہیں : اس حدیث مبارکہ میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ کسی مومن کے لئے مناسب نہیں کہ وہ کثرتِ مال کی تمنا کرے مگر اس شرط کے ساتھ کہ اللہ تعالیٰ اسے اس مال کو اپنی اطاعت اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اقتداء میں انفاق کی توفیق مرحمت فرمائے۔ اور اس سے یہ امر بھی اخذ ہوتا ہے کہ اطاعت و فرماں برداری کے کاموں میں جلدی کرنا بھی مطلوب و مقصود ہے اور اس میں یہ بھی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مقروض تھے اس لئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے اور اپنے اہل و عیال کے حصے کی خوراک کے ذریعے بھی حاجت مندوں کے ساتھ بہت زیادہ ہمدردی فرماتے تھے اور اپنی ذات پر ضرورت مندوں کو ترجیح دیتے تھے۔ ا س حدیث سے قلیل شے پر راضی رہنا اور زندگی کی تلخیوں پر صبر کرنا بھی ثابت ہوتا ہے۔‘‘

6. عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْکَةَ : أَنَّ عُقْبَةَ بْنَ الْحَارِثِ رضی الله عنه حَدَّثَهُ قَالَ : صَلّٰی بِنَا النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم الْعَصْرَ، فَأَسْرَعَ ثُمَّ دَخَلَ الْبَيْتَ، فَلَمْ يَلْبَثْ أَنْ خَرَجَ، فَقُلْتُ، أَوْ قِيلَ لَهُ، فَقَالَ : کُنْتُ خَلَّفْتُ فِي الْبَيْتِ تِبْرًا مِنَ الصَّدَقَةِ، فَکَرِهْتُ أَنْ أُبَيِّتَهُ فَقَسَمْتُهُ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ.

6 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الزکاة، باب من أحب تعجيل الصدقة من يومها، 2 / 519، الرقم : 1363.

’’ابن ابی ملیکہ سے روایت ہے کہ حضرت عقبہ بن حارث رضی اللہ عنہ نے بیان کیا : حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں نماز عصر پڑھائی اور پھر جلدی سے کاشانۂ اقدس میں داخل ہو گئے۔ تھوڑی دیر میں واپس تشریف لائے تو میں نے عرض کیا، یا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے گزارش کی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں گھر میں صدقے کا سونا چھوڑ آیا تھا۔ مجھے نا پسند ہوا کہ اس کے ہوتے ہوئے رات گزاروں، پس میں نے اسے تقسیم کر دیا۔‘‘ اس حدیث کو امام بخاری نے روایت کیا ہے۔

قَالَ الْعَسْقَلَانِيُّ : قَالَ ابْنُ بَطَّالٍ : فِيْهِ أَنَّ الْخَيْرَ يَنْبَغِي أَنْ يُبَادَرَ بِهِ، فَإِنَّ الآفَاتِ تَعْرِضُ وَالْمَوَانِعُ تَمْنَعُ، وَالْمَوْتُ لَا يُؤْمَنُ.

العسقلاني، فتح الباري،3 / 299.

’’امام عسقلانی نے فرمایا : ابن بطال نے کہا : ا س حدیث مبارکہ سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ نیکی کرنے میں جلدی کرنی چاہیے کیونکہ بلائیں پیش آتی ہیں اور اس طرح کی رکاوٹیں انہیں ٹال دیتی ہیں، مگر موت سے کوئی امان نہیں ہے۔‘‘

7. عَنْ عُقْبَةَ بْنِ الْحَارِثِ رضی الله عنه قَالَ : صَلَّيْتُ مَعَ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم الْعَصْرَ، فَلَمَّا سَلَّمَ قَامَ سَرِيْعًا دَخَلَ عَلٰی بَعْضِ نِسَائِهِ، ثُمَّ خَرَجَ، وَرَأی مَا فِي وُجُوهِ الْقَوْمِ مِنْ تَعَجُّبِهِمْ لِسُرْعَتِهِ، فَقَالَ : ذَکَرْتُ وَأَنَا فِي الصَّلَاةِ تِبْرًا عِنْدَنَا، فَکَرِهْتُ أَنْ يُمْسِيَ، أَوْ يَبِيْتَ عِنْدَنَا، فَأَمَرْتُ بِقِسْمَتِهِ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَأَحْمَدُ.

7 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الجمعة، باب يفکر الرجل الشئ في الصلاة، 1 / 408، الرقم : 1163، وأحمد بن حنبل في المسند، الرقم : 16196، وفي 4 / 384، الرقم : 19445.

’’حضرت عقبہ بن حارث رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ نماز عصر پڑھی۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سلام پھیرا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جلدی سے کھڑے ہو گئے اور اپنی کسی زوجۂ مطہرہ کے پاس تشریف لے گئے۔ پھر واپس تشریف لائے اور لوگوں کے چہروں پر عجلت کے باعث حیرانگی کے اثرات دیکھ کر فرمایا : مجھے دورانِ نماز سونے کا ایک ٹکڑا یاد آ گیا جو ہمارے پاس تھا۔ تو میں نے ناپسند کیا کہ وہ ہمارے پاس شام کرے یا رات گزارے، لہٰذا میں نے اسے تقسیم کرنے کا حکم دے دیا ہے۔‘‘

اس حدیث کو امام بخاری اور احمد بن حنبل نے روایت کیا ہے۔

8. عَنْ عُقْبَةَ رضی الله عنه قَالَ : صَلَّيْتُ وَرَاءَ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم بِالْمَدِينَةِ الْعَصْرَ، فَسَلَّمَ، ثُمَّ قَامَ مُسْرِعًا، فَتَخَطّٰی رِقَابَ النَّاسِ إِلٰی بَعْضِ حُجَرِ نِسَائِهِ، فَفَزِعَ النَّاسُ مِنْ سُرْعَتِهِ، فَخَرَجَ عَلَيْهِمْ، فَرَأی أَنَّهُمْ عَجِبُوا مِنْ سُرْعَتِهِ، فَقَالَ : ذَکَرْتُ شَيْئًا مِنْ تِبْرٍ عِنْدَنَا. فَکَرِهْتُ أَنْ يَحْبِسَنِي، فَأَمَرْتُ بِقِسْمَتِهِ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَالنَّسَائِيُّ.

8 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب صفة الصلاة، باب من صلی بالناس فذکر حاجة فتخطاهم، 1 / 291، الرقم : 813، والنسائي في السنن، کتاب السهو، باب الرخصة للإمام في تخطي رقاب الناس، 3 / 84، الرقم : 1365.

’’حضرت عقبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا : میں نے مدینہ منورہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اقتداء میں نماز عصر پڑھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سلام پھیرا تو جلدی سے کھڑے ہوئے اور لوگوں کی گردنیں عبور کرتے ہوئے اپنی کسی زوجۂ مطہرہ کے حجرے کی طرف تشریف لے گئے۔ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عجلت سے گھبرا گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے پاس واپس تشریف لائے تو دیکھا کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عجلت پر حیران ہیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مجھے سونے کی ایک شے یاد آ گئی جو ہمارے پاس تھی۔ تو میں نے پسند نہ کیا کہ وہ شے مجھے اپنی طرف روکے (یعنی متوجہ کیے) رکھے۔ پس میں نے (پہلے) اسے تقسیم کر دینے کا حکم دیا۔‘‘

اس حدیث کو امام بخاری اور نسائی نے روایت کیا ہے۔

9. عَنْ أَبِي ذَرٍّ رضی الله عنه قَالَ : انْتَهَيْتُ إِلَی النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم وَهُوَ جَالِسٌ فِي ظِلِّ الْکَعْبَةِ. فَلَمَّا رَآنِي قَالَ : هُمُ الْأَخْسَرُوْنَ وَرَبِّ الْکَعْبَةِ. قَالَ : فَجِئْتُ حَتّٰی جَلَسْتُ، فَلَمْ أَتَقَارَّ أَنْ قُمْتُ، فَقُلْتُ : يَا رَسُولَ اللهِ، فِدَاکَ أَبِي وَأُمِّي، مَنْ هُمْ؟ قَالَ : هُمُ الْأَکْثَرُوْنَ أَمْوَالًا، إِلَّا مَنْ قَالَ هٰکَذَا وَهٰکَذَا وَهٰکَذَا. مِنْ بَيْنَ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ وَعَنْ يَمِينِهِ وَعَنْ شِمَالِهِ. وَقَلِيْلٌ مَا هُمْ. مُتَّفَقُ عَلَيْهِ وَاللَّفْظُ لِمُسْلِمٍ.

9 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الأيمان والنذور، باب کيف کانت يمين النبي صلی الله عليه وآله وسلم ، 6 / 2447، الرقم : 6262، ومسلم في الصحيح، کتاب الزکاة، باب تغليظ العقوبة من لا يؤدي الزکاة، 2 / 686، الرقم : 990، وأحمد بن حنبل في المسند، 5 / 152، الرقم : 21389، والترمذي في السنن، کتاب الزکاة، باب ما جاء عن رسول اللہ صلی الله عليه وآله وسلم في منع الزکاة من التشديد، 3 / 12، الرقم : 617، والنسائي في السنن، کتاب الزکاة، باب التغليظ في حبس الزکاة، 5 / 10، الرقم : 2440.

’’حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں اُس وقت حاضر ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کعبہ کے سائے میں تشریف فرما تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے دیکھ کر فرمایا : ربِ کعبہ کی قسم! وہ لوگ خسارے میں ہیں۔ میں آ کر بیٹھ گیا، پھر بے چینی سے کھڑا ہو گیا اور عرض کیا : یا رسول اللہ! آپ پر میرے ماں باپ فدا ہوں، وہ کون لوگ ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : وہ کثیر مال والے لوگ ہیں سوائے ان کے جو اِدھر اُدھر آگے پیچھے دائیں بائیں خرچ کرتے ہیں لیکن ایسے (سرمایہ دار) بہت کم ہیں۔‘‘یہ حدیث متفق علیہ ہے اور مذکورہ الفاظ مسلم کے ہیں۔

10. عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم : مَا مِنْکُمْ مِنْ أَحَدٍ إِلَّا سَيُکَلِّمُهُ رَبُّهُ لَيْسَ بَيْنَهُ وَبَيْنَهُ تَرْجُمَانٌ، فَيَنْظُرُ أَيْمَنَ مِنْهُ فَلَا يَرَی إِلَّا مَا قَدَّمَ مِنْ عَمَلِهِ، وَيَنْظُرُ أَشْأَمَ مِنْهُ فَلَا يَرٰی إِلَّا مَا قَدَّمَ، وَيَنْظُرُ بَيْنَ يَدَيْهِ فَلَا يَرٰی إِلَّا النَّارَ تِلْقَاءَ وَجْهِهِ، فَاتَّقُوا النَّارَ وَلَوْ بِشِقِّ تَمْرَةٍ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

10 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب التوحيد، باب کلام الرب يوم القيامة مع الأنبياء وغيرهم، 6 / 2729، الرقم : 7074، ومسلم في الصحيح، کتاب الزکاة، باب الحث علی الصدقة ولو بشق تمرة، 2 / 703، الرقم : 1016، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 / 388، الرقم : 3679، والترمذي في السنن، کتاب الزهد، باب ما جاء أن فقراء المهاجرين يدخلون الجنة قبل أغْنيائهم، 4 / 577، الرقم : 2352، والنسائي في السنن، کتاب الزکوة، باب القليل في الصدقة، 5 / 74، الرقم : 2552، وابن ماجه في السنن، کتاب المقدمة، باب : فيما أنکرت الجهيمة، 1 / 66، الرقم : 185.

’’حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم میں سے ہر کوئی عنقریب اس حال میں اپنے رب سے کلام کرے گا کہ رب کے اور اس کے درمیان کوئی ترجمان نہیں ہو گا۔ پس جب وہ دائیں جانب دیکھے گا تو کچھ نہیں دیکھے گا مگر وہی عمل جو اس نے آگے بھیجا ہو گا، پھر جب وہ بائیں جانب دیکھے گا تو کچھ نہیں دیکھے گا مگر صرف وہی عمل جو اس نے آگے بھیجا ہوگا، اور جب سامنے نظر کرے گا تو کچھ نہیں دیکھے گا مگر جہنم جو اس کے سامنے ہو گی۔ پس جہنم سے بچو اگرچہ کھجور کا ایک ٹکڑا ہی خیرات کرنے سے ممکن ہو۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

11. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم : مَنْ تَصَدَّقَ بِعَدْلِ تَمْرَةٍ مِنْ کَسْبٍ طَيِّبٍ، وَلَا يَقْبَلُ اللهُ إِلَّا الطَّيِّبَ، وَإِنَّ اللهَ يَتَقَبَّلُهَا بِيَمِينِهِ، ثُمَّ يُرَبِّيْهَا لِصَاحِبِهَا، کَمَا يُرَبِّي أَحَدُکُمْ فَلُوَّهُ، حَتّٰی تَکُونَ مِثْلَ الْجَبَلِ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

11 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الزکاة، باب لا يقبل اللہ الصدقة من غلول ولا يقبل إلا من کسب طيب، 2 / 511، الرقم : 1344، وفي، 6 : 2702، الرقم : 6993، ومسلم في الصحيح، کتاب الزکاة، باب قبول الصدقة من الکسب الطيب وتربيتها، 2 / 702، الرقم : 1014، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 331، 381، الرقم : 8363، 8948، والترمذي في السنن، کتاب الزکاة، باب ما جاء في فضل الصدقة، 3 / 69، الرقم : 661، والنسائي في السنن، کتاب الزکاة، باب الصدقة من غلول، 5 / 57، الرقم : 2525، وابن ماجه في السنن، کتاب الزکوة، باب ما جاء في فضل الصدقة، 1 / 590، الرقم : 1842، ومالک في المؤطأ، کتاب الصدقة، باب الترغيب في الصدقة، 20 / 995، الرقم : 1806.

’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جس نے ایک کھجور کے برابر بھی حلال کمائی سے خیرات کی ۔ اور اللہ تعالیٰ قبول نہیں فرماتا مگر حلال کمائی سے ۔ تو اللہ تعالیٰ اسے اپنے داہنے دستِ قدرت سے قبول فرماتا ہے۔ پھر خیرات کرنے والے کے لیے اس کی پرورش کرتا ہے جیسے تم میں سے کوئی اپنے بچھڑے کی پرورش کرتا ہے، یہاں تک کہ وہ نیکی پہاڑ کے برابر ہو جائے گی۔‘‘

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

12. عَنْ عَبْدِ اللهِ رضی الله عنهما، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم : لِيَتَّقِ أَحَدُکُمْ وَجْهَهُ النَّارَ، وَلَوْ بِشِقِّ تَمْرَةٍ. رَوَاهُ أَحْمَدُ.

12 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 1 / 388، الرقم : 3679، والهيثمي في مجمع الزوائد، باب ما جاء في القبلة، 3 / 105.

’’حضرت عبد اللہ (بن مسعود) رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم میں سے ہر شخص کو چاہئے کہ وہ اپنے چہرے کو جہنم کی آگ سے بچائے اگرچہ کھجور کا ایک ٹکڑا ہی خیرات کرنے سے ہو۔‘‘

اس حدیث کو امام احمد نے روایت کیاہے۔

13. عَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ قَيْسٍ، قَالَتْ : سَأَلْتُ، أَوْ سُئِلَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم عَنِ الزَّکَاةِ فَقَالً : إِنَّ فِي الْمَالِ لَحَقًّا سِوَی الزَّکَاةِ. ثُمَّ تَلَا هٰذِهِ الْآيَةَ الَّتِي فِي الْبَقَرَةِ : ﴿لَيْسَ الْبِرَّ أَنْ تُوَلُّوْا وُجُوْهَکُمْ﴾ [البقره، 2 : 177] رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَابْنُ مَاجَه.

13 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب الزکاة، باب ما جاء أن في المال حقًّا سوی الزکاة، 3 / 48، الرقم : 659، وابن ماجه في السنن، کتاب الزکاة، باب ما أدی زکاته ليس بکنز، 1 / 570، الرقم : 1789، والطبراني في المعجم الکبير، 24 / 403، الرقم : 979، والدارمي في السنن، کتاب الزکاة، باب ما يجب في مال سوی الزکاة، 1 / 471، الرقم : 1637، والدارقطني في السنن، کتاب الزکاة، باب تعجيل الصدقه قبل الحول، 2 / 125، الرقم : 11، والديلمي في مسند الفردوس، 3 / 139، الرقم : 4372.

’’حضرت فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : میں نے یا کسی اور نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے زکوٰۃ کے متعلق پوچھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مال میں زکوٰۃ کے علاوہ بھی حق ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سورۂ بقرہ کی آیت ۔ (نیکی صرف یہی نہیں کہ تم اپنے منہ مشرق اور مغرب کی طرف پھیر لو۔۔۔) تلاوت فرمائی۔‘‘

اس حدیث کو امام ترمذی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔

قَالَ الْمُلَّا عَلِيُّ الْقَارِي : وَذٰلِکَ مِثْلُ أَنْ لَا يَحْرُمَ السَّائِلَ وَالْمُسْتَقْرِضَ وَأَنْ لَا يَمْنَعَ مَتَاعَ بَيْتِهِ مِنَ الْمُسْتَعِيْرِ کَالْقِدْرِ وَالْقَصْعَةِ وَغَيْرِهِمَا وَلَا يَمْنَعُ أَحَداً الْمَاءَ وَالْمِلْحَ وَالنَّارَ. کَذَا ذَکَرَهُ الطِّيْبِيُّ وَغَيْرُهُ. وَالظَّاهِرُ أَنَّ الْمُرَادَ بِالْحَقِّ مَا ذَکَرَهُ فِي الْآيَةِ الْمُسْتَشْهَدِ بِهَا غَيْرَ الزَّکَاةِ مِنْ صِلَةِ الرَّحِمِ وَالْإِحْسَانِ إِلَی الْيَتِيْمِ وَالْمَسْکِيْنِ وَالْمُسَافِرِ وَالسَّائِلِ وَتَخْلِيْصِ رِقَابِ الْمَمْلُوْکِ بِالْعِتْقِ وَنَحْوِهِ.

الملا علي القاري، مرقاة المفاتيح،4 / 355.

’’ملا علی قاری کہتے ہیں : اور یہ مثال ہے کہ سائل اور قرض مانگنے والے کو محروم نہ رکھا جائے اور یہ کہ گھریلو استعمال کی چیزیں جیسے دیگچی، پیالہ وغیرہ مانگنے والے سے نہ روکی جائیں اور نہ کسی سے پانی، نمک اور آگ کو منع کرے، اسی طرح طیبی وغیرہ نے بیان کیا ہے۔ اور ظاہر ہے کہ حق سے مراد آیت کریمہ میں بیان کردہ زکوٰۃ کے علاوہ دیگر امور ہیں جیسے صلہ رحمی، یتیم، مسکین، مسافر اور مانگنے والے کے ساتھ اچھا برتاؤ اور غلام کی آزادی وغیرہ کے لئے تگ و دَو کرنا۔‘‘

14. عَنْ حَارِثَةَ بْنِ وَهْبٍ رضی الله عنه قَالَ : سَمِعْتُ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ : تَصَدَّقُوْا فَإِنَّهُ يَأْتِي عَلَيْکُمْ زَمَانٌ، يَمْشِي الرَّجُلُ بِصَدَقَتِهِ فَلَا يَجِدُ مَنْ يَقْبَلُهَا، يَقُوْلُ الرَّجُلُ : لَوْ جِئْتَ بِهَا بِالْأَمْسِ لَقَبِلْتُهَا، فَأَمَّا الْيَوْمَ فَلَا حَاجَةَ لِي بِهَا. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

14 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الزکاة، باب الصدقة قبل الرد، 2 / 512، الرقم : 1345، ومسلم في الصحيح، کتاب الزکاة، باب الترغيب في الصدقة قبل أن لا يوجد من يقبلها، 2 / 700، الرقم : 1011، وأحمد بن حنبل في المسند، 4 / 306، الرقم : 18748.

’’حضرت حارثہ بن وہب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا : خیرات کیا کرو کیونکہ تمہارے اوپر ایک ایسا زمانہ آنے والا ہے کہ آدمی اپنا صدقہ لیے پھرتا رہے گا لیکن اسے قبول کرنے والا کوئی نہیں ملے گا۔ آدمی کہے گا کہ اگر آپ کل آتے تو میں لے لیتا جب کہ آج تو مجھے اس کی ضرورت نہیں رہی۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

15. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ : جَاءَ رَجُلٌ إِلَی النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم فَقَالَ : يَا رَسُولَ اللهِ، أَيُّ الصَّدَقَةِ أَعْظَمُ أَجْرًا؟ قَالَ : أَنْ تَصَدَّقَ وَأَنْتَ صَحِيحٌ شَحِيحٌ، تَخْشَی الْفَقْرَ وَتَأمُلُ الْغِنٰی. وَلَا تُمْهِلُ حَتّٰی إِذَا بَلَغَتِ الْحُلْقُوْمَ. قُلْتَ : لِفُلَانٍ کَذَا وَلِفُلَانٍ کَذَا، وَقَدْ کَانَ لِفُلَانٍ.

مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

15 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الزکاة، باب أي الصدقة أفضل وصدقة الشجيح الصحيح، 2 / 515، الرقم : 1353، ومسلم في الصحيح، کتاب الزکاة، باب بيان أن أفضل الصدقة الصحيح الشجيح، 2 / 716، الرقم : 1032، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 231، الرقم : 7159، والنسائي في السنن، کتاب الوصايا، باب الکراهية في تأخير الوصية، 6 / 237، الرقم : 3611.

’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان فرمایا : ایک آدمی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہو کر عرض گزار ہوا : یا رسول اللہ! کون سا صدقہ ثواب کے لحاظ سے بڑا ہے؟ فرمایا : جب تم صدقہ اس حال میں دو کہ تندرست ہو، مال کی ضرورت ہو اور تنگ دستی سے خائف ہو اور مال داری کا اشتیاق ہو۔ اتنی دیر نہ کرو کہ جان گلے میں آپھنسے اور تب تو کہے کہ اتنا مال فلاں کے لیے اور اتنا فلاں کے لیے ہے حالانکہ اب تو وہ (تیرے کہے بغیر) فلاں کا ہو ہی چکا ہے۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

قَالَ الْعَسْقَلَانِيُّ : وَذٰلِکَ أَنَّ کَثِيْرًا مِنَ الْأَغْنِيَاءِ يَشِحُّ بِإِخْرَاجِ مَا عِنْدَهُ مَا دَامَ فِي عَافِيَةٍ، فَيَأمَلُ الْبَقَاءَ وَيَخْشَی الْفَقْرَ، فَمَنْ خَالَفَ شَيْطَانَهُ وَقَهَرَ نَفْسَهُ إِيْثَارًا لِثَوْابِ الآخِرَةِ فَازَ، وَمَنْ بَخِلَ بِذٰلِکَ لَمْ يَأمَنِ الْجَوْرَ فِي الْوَصِيَّةِ، وَإِنْ سَلِمَ لَمْ يَأمَنْ تَأخِيْرَ تَنَجُّزِ مَا أَوْصٰی بِهِ أَوْ تَرْکَهُ أَوْ غَيْرَ ذٰلِکَ مِنَ الآفَاتِ وَلَا سِيَّمَا إِنْ خَلَفَ وَارِثًا غَيْرَ مُوَفَّقٍ، فَيُبَذِّرُهُ فِي أَسْرَعِ وَقْتٍ وَيَبْقٰی وَبَالُهُ عَلَی الَّذِيْ جَمَعَهُ. وَاللهُ الْمُسْتَعَانُ.

العسقلاني، فتح الباري، 11 / 271.

’’حافظ عسقلانی (اس حدیث پر تبصرہ کرتے ہوئے) کہتے ہیں : اور یہ اس لئے کہ بہت سے مالدار لوگ جب تک تندرست ہوتے ہیں اپنے مال میں سے خرچ کرنے میں بخل کرتے ہیں، وہ زندگی کی اُمید رکھتے ہوئے فقر سے ڈرتے ہیں، پس جس نے اپنے شیطان کی مخالفت کی اور اپنے نفس کو آخرت میں ثواب کے حصول کے لئے قربانی پر مجبور کیا وہ کامیاب ہوا۔ اور جس نے اس معاملہ میں بخل کیا وہ اپنی وصیت میں ظلم سے محفوظ نہ رہا اور اگر تندرست ہو گیا تو وہ وصیت کے مکمل ہونے یا اس کے ترک کرنے وغیرہ سے محفوظ نہ رہا، اس کے علاوہ دیگر آفات سے محفوظ نہ رہا اور یہ بات بھی ہے کہ اگر وارث نا خلف ہو تو وہ جلدی خرچ کر دے گا اور اس کا وبال جمع کرنے والے پر ہوگا۔ اور اللہ ہی حقیقی مستعان ہے۔‘‘

قَالَ الْعَيْنِيُّ : وَحَاصِلُ الْمَعْنٰی : أَفْضَلُ الصَّدَقَةِ أَنْ تَتَصَدَّقَ حَالَ حَيَاتِکَ وَصِحَّتِکَ مَعَ احْتِيَاجِکَ إِلَيْهِ وَاخْتِصَاصِکَ بِهِ، لَا فِي حَالِ سُقْمِکَ وَسِيَاقِ مَوْتِکَ، لِأَنَّ الْمَالَ حِيْنَئِذٍ خَرَجَ عَنْکَ وَتَعَلَّقَ بِغَيْرِکَ.

العيني، عمدة القاري، 8 / 280.

’’امام عینی نے کہا : اس حدیث مبارکہ کا مطلب یہ ہے کہ بہترین صدقہ یہ ہے کہ تو صدقہ اُس وقت کرے جب زندہ اور صحت مند ہو باوجود اس کے کہ تمہیں اس مال کی سخت حاجت اور ضرورت بھی ہو؛ نہ کہ صدقہ بیماری میں اور موت کے قریب ہو کیونکہ تب تو مال تیرے اختیار سے نکل گیا اور تیرے علاوہ دوسروں کے ساتھ متعلق ہو گیا ہے۔‘‘

16. عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رضی الله عنه، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : لَأَنْ يَتَصَدَّقَ الْمَرْءُ فِي حَيَاتِهِ بِدِرْهَمٍ خَيْرٌ لَهُ مِنْ أَنْ يَتَصَدَّقَ بِمِائَةِ دِرْهَمٍ عِنْدَ مَوْتِهِ. رَوَاهُ أَبُوْدَاودَ وَابْنُ حِبَّانَ.

16 : أخرجه أبوداود في السنن، کتاب الوصايا، باب ما جاء في کراهية الإضرار في الوصية، 3 / 113، الرقم : 2866، وابن حبان في الصحيح، باب صدقة التطوع، ذکر الاستحباب للمرء أن يتصدق في حياته بما قدر عليه من ماله، 8 / 125، الرقم : 3334.

’’حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اگر آدمی ایک درہم اپنی زندگی میں صدقہ کرے تو یہ بہتر ہے بہ نسبت اس کے کہ وہ سو درہم اپنی موت کے وقت خیرات کرے۔‘‘

اس حدیث کو امام ابوداود اور ابن حبان نے روایت کیا ہے۔

17. عَنْ عَبْدِ اللهِ رضی الله عنه ، قَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم : أَيُکُمْ مَالُ وَارِثِهِ أَحَبُّ إِلَيْهِ مِنْ مَالِهِ؟ قَالُوا : يَا رَسُولَ اللهِ، مَا مِنَّا أَحَدٌ إِلَّا مَالُهُ أَحَبُّ إِلَيْهِ. قَالَ : فَإِنَّ مَالَهُ مَا قَدَّمَ، وَمَالُ وَارِثِهِ مَا أَخَّرَ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَأَحْمَدُ وَالنَّسَائِيُّ.

17 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الرقاق، باب ما قدم من ماله فهو له، 5 / 2366، الرقم : 6077، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 / 382، الرقم : 3626، والنسائي في السنن، کتاب الوصايا، باب الکراهية في تأخير الوصية، 6 / 237، الرقم : 3612.

’’حضرت عبد اللہ (بن مسعود) رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم میں سے کون ایسا ہے جس کو اپنے وارث کا مال اپنے مال سے زیادہ پیارا ہو؟ لوگ عرض گزار ہوئے : یا رسول اللہ! ہم میں سے تو ہر کسی کو اپنا مال ہی سب سے زیادہ پیارا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : یقینا ہر شخص کا اپنا مال صرف وہ ہے جسے اس نے (خرچ کر کے) آگے بھیج دیا اور اس کے وارث کا مال وہ ہے جو اس نے پیچھے چھوڑا۔‘‘ اس حدیث کو امام بخاری، احمد اور نسائی نے روایت کیا ہے۔

18. عَنْ أَنَسٍ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم : أَلأَخِلَّاءُ ثَلَاثَةٌ : فَإمَّا خَلِيْلٌ فَيَقُوْلُ : لَکَ مَا أَعْطَيْتَ، وَمَا أَمْسَکْتَ فَلَيْسَ لَکَ، فَذَالِکَ مَالُکَ. وَأَمَّا خَلِيْلٌ فَيَقُوْلُ : أَنَا مَعَکَ حَتّٰی تَأْتِيَ بَابَ الْمَلِکِ ثُمَّ أَرْجِعُ وَأَتْرُکُکَ فَذٰلِکَ أَهْلُکَ وَعَشِيْرَتُکَ يَشِيْعُوْنَکَ حَتّٰی تَأْتِيَ قَبْرَکَ. ثُمَّ يَرْجِعُوْنَ فَلْيَتْرُکُوْنَکَ. فَأَمَّا خَلِيْلٌ، فَيَقُولُ : أَنَا مَعَکَ حَيْثُ دَخَلْتَ وَحَيْثُ خَرَجْتَ فَذٰلِکَ عَمَلُکَ. فَيَقُولُ : وَاللهِ، لَقَدْ کُنْتَ مِنْ أَهْوَنِ الثَّلَاثَةِ عَلَيَّ.

رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَالطَّبَرَانِيُّ، وَقَالَ الْحَاکِمُ : صَحِيْحٌ عَلٰی شَرْطِ الشَّيْخَيْنِ.

18 : أخرجه الحاکم في المستدرک، کتاب الإيمان، 1 / 145، الرقم : 248، وابن حبان في الصحيح، 7 / 374، الرقم : 3108، والطبراني في المعجم الأوسط، 3 / 72، الرقم : 2518، والطيالسي في المسند، 1 / 269، الرقم : 2013، والبيهقي في شعب الإيمان، 3 / 210، الرقم : 3340.

’’حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : دوست تین قسم کے ہوتے ہیں : ایک دوست وہ ہے جو کہتا ہے : جو تو نے کسی کو عطا کیا وہ تیرا ہے اور جو تو نے روکے رکھا وہ تیرا نہیں۔ یہ (دوست) تیرا مال ہے۔ اور دوسرا دوست وہ ہے جو کہتا ہے کہ میں اس وقت تک تیرے ساتھ ہوں، یہاں تک کہ تو بادشاہ کے دروازے پر پہنچ جائے، پھر میں وہاں سے واپس لوٹ جاؤں گا اور تجھے چھوڑ جاؤں گا۔ ایسے دوست تیرے گھر والے اور رشتہ دار ہیں جو قبر تک تیرا ساتھ دیتے ہیں پھر تجھے تنہا چھوڑ دیتے ہیں۔ اور تیسرا دوست وہ ہے جو کہتا ہے کہ میں ہر جگہ تیرے ساتھ ہوں، جہاں تو داخل ہو یا جہاں سے باہر نکلے۔ یہ (دوست) تیرا عمل ہے۔ پس بندہ کہتا ہے : اللہ کی قسم! تُو تو میرے نزدیک ان تمام قسم کے دوستوں میں سب سے زیادہ حقیر تھا۔‘‘

اس حدیث کو امام حاکم اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔

19. عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ وَعَنْ بِلَالٍ رضی الله عنهما قَالَ : قَالَ لِي رَسُولُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم : يَا بِلَالُ، مُتْ فَقِيْرًا وَلَا تَمُتْ غَنِيًّا. قُلْتُ : وَکَيْفَ لِي بِذَاکَ؟ قَالَ : مَا رُزِقْتَ فَلَا تَخْبَأْ وَمَا سُئِلْتَ فَلَا تَمْنَعْ. فَقُلْتُ : يَا رَسُولَ اللهِ، کَيْفَ لِي بِذَالِکَ؟ قَالَ : هُوَ ذَاکَ أَوِ النَّارُ.

رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَالْحَاکِمُ وَقَالَ : صَحِيْحُ الإِسْنَادِ.

19 : أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 1 / 341، الرقم : 1021، والحاکم في المستدرک، 4 / 352، الرقم : 7887.

’’حضرت ابو سعید خدری اور حضرت بلال رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے بلال! تجھے موت فقیری کی حالت میں آئے، دولت مندی کی حالت میں نہ آئے۔ میں نے عرض کیا : یہ میرے لئے کیسے ممکن ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو تجھے رزق ملے اسے چھپا کر نہ رکھ اور جو تجھ سے مانگا جائے اسے اپنے پاس روک کے نہ رکھنا۔ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ! یہ میرے لئے کیسے ممکن ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : یہی بات ہے یا پھر دوزخ۔‘‘

اس حدیث کوامام طبرانی اور حاکم نے روایت کیا ہے۔ امام حاکم فرماتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح الاسناد ہے۔

20. عَنْ قَيْسِ بْنِ سَلْعٍ الأَنْصَارِيِّ رضی الله عنه، أَنَّ إِخْوَتَهُ شَکَوْهُ إِلٰی رَسُولِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم فَقَالُوا : إِنَّهُ يُبَذِّرُ مَالَهُ وَيَنْبَسِطُ فِيْهِ، فَقَالَ لَهُ رَسُوْلُ اللہ صلی الله عليه وآله وسلم : يَا قَيْسُ مَا شَأْنُ إِخْوَتِکَ يَشْکُونَکَ؟ يَزْعَمُوْنَ أَنَّکَ تُبَذِّرُ مَالَکَ وَتَنْبَسِطُ فِيْهِ؟ قُلْتُ : يَا رَسُولَ اللهِ، إنِّي آخُذُ نَصِيْبِي مِنَ التَّمْرَةِ فَأُنْفِقُهُ فِي سَبِيْلِ اللهِ وَعَلٰی مَنْ صَحِبَنِي، قَالَ : فَضَرَبَ رَسُولُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم صَدْرَهُ، فَقَالَ : أَنْفِقْ يُنْفِقِ اللهُ عَلَيْکَ. ثَلَاثَ مَرَّاتٍ. فَلَمَّا کَانَ بَعْدَ ذٰلِکَ خَرَجْتُ فِي سَبِيلِ اللهِ وَمَعِيَ رَاحِلَةٌ، وَقَالَ : أَنَا أَکْثَرُ أَهْلِ بَيْتِي الْيَومَ وَأَيْسَرُهُ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.

20 : أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 8 / 246، الرقم : 247، الرقم : 8536.

’’حضرت قیس بن سلع انصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اس کے بھائیوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے اس کی شکایت کی، انہوں نے کہا : یہ اپنا مال فضول خرچ کر دیتا ہے اور اس میں خوش رہتا ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے استفسار کیا : قیس! کیا بات ہے؟ تیرے بھائی تیرے بارے میں شکایت کرتے ہیں، ان کا خیال ہے کہ تو فضول خرچی کرتا ہے اور اس میں خوشی محسوس کرتا ہے؟ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ! میں پیداوار میں سے اپنا حصہ لے لیتا ہوں اور اسے اللہ تعالیٰ کے راستے میں اور اپنے دوستوں پر خرچ کر دیتا ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے سینے پر ہاتھ مار کر فرمایا : تو خرچ کرتا رہ، اللہ تعالیٰ تجھ پر خرچ کرتا رہے گا۔ یہ بات آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تین مرتبہ ارشاد فرمائی۔ اس کے بعد جب میں اللہ تعالیٰ کے راستے میں نکلا تو حالت یہ تھی کہ میرے پاس ایک سواری تھی اور آج میں اپنے خاندان میں سب سے زیادہ مال و دولت والا اور خوش حال ہوں۔‘‘ اس حدیث کو امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔

21. عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عُمَرَ رضی الله عنهما أَنَّ رَسُولَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : وَهُوَ عَلَی الْمِنْبَرِ، وَذَکَرَ الصَّدَقَةَ وَالتَّعَفُّفَ وَالْمَسْأَلَةَ : اَلْيَدُ الْعُلْيَا خَيْرٌ مِنَ الْيَدِ السُّفْلٰی، فَالْيَدُ الْعُلْيَا هِيَ الْمُنْفِقَةُ، وَالسُّفْلٰی هِيَ السَّائِلَةُ.

مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

21 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الزکاة، باب لا صدقة إلاعن ظهر غنی ومن تصدق وهو محتاج، 2 / 519، الرقم : 1362، ومسلم في الصحيح، کتاب الزکاة، باب بيان أن اليد العليا خير من اليد السفلی، 2 / 717، الرقم : 1033، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 67، الرقم : 5344، و 2 / 98، الرقم : 5728، و 2 / 122، الرقم : 6039، وأبوداود في السنن، کتاب الزکاة، باب في الاستعفاف، 2 / 122، الرقم : 1648، والنسائي في السنن، کتاب الزکاة، باب اليد السفلی، 5 / 61، الرقم : 2533، ومالک في الموطأ، کتاب الصدقة، باب ما جاء في التعفف، 2 / 998، الرقم : 1813.

’’حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔ جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منبر پر جلوہ افروز تھے۔ نے صدقہ کرنے، سوال سے بچنے اور سوال کرنے کے متعلق فرمایا : اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے؛ اوپر والا ہاتھ خرچ کرنے والا ہے اور نیچے والا سوال کرنے والا ہے۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

22. عَنْ حَکِيْمِ بْنِ حِزَامٍ رضی الله عنه، قَالَ : سَأَلْتُ رَسُولَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم فَأَعْطَانِي، ثُمَّ سَأَلْتُهُ فَأَعْطَانِي، ثُمَّ سَأَلْتُهُ فَأَعْطَانِي، ثُمَّ قَالَ : يَا حَکِيمُ، إِنَّ هٰذَا الْمَالَ خَضِرَةٌ حُلْوَةٌ، فَمَنْ أَخَذَهُ بِسَخَاوَةِ نَفْسٍ بُورِکَ لَهُ فِيهِ، وَمَنْ أَخَذَهُ بِإِشْرَافِ نَفْسٍ لَمْ يُبَارَکْ لَهُ فِيهِ، وَکَانَ کَالَّذِي يَأْکُلُ وَلَا يَشْبَعُ، اَلْيَدُ الْعُلْيَا خَيْرٌ مِنَ الْيَدِ السُّفْلٰی. قَالَ حَکِيْمٌ : فَقُلْتُ : يَا رَسُوْلَ اللهِ، وَالَّذِي بَعَثَکَ بِالْحَقِّ لَا أَرْزَأُ أَحَدًا بَعْدَکَ شَيْئًا حَتّٰی أُفَارِقَ الدُّنْيَا. فَکَانَ أَبُو بَکْرٍ رضی الله عنه يَدْعُو حَکِيمًا إِلَی الْعَطَاءِ فَيَأْبٰی أَنْ يَقْبَلَهُ مِنْهُ، ثُمَّ إِنَّ عُمَرَ رضی الله عنه دَعَاهُ لِيُعْطِيَهُ فَأَبٰی أَنْ يَقْبَلَ مِنْهُ شَيْئًا، فَقَالَ عُمَرُ : إِنِّي أُشْهِدُکُمْ يَا مَعْشَرَ الْمُسْلِمِينَ، عَلٰی حَکِيْمٍ، أَنِّي أَعْرِضُ عَلَيْهِ حَقَّهُ مِنْ هٰذَا الْفَيْئِ، فَيَأْبٰی أَنْ يَأْخُذَهُ. فَلَمْ يَرْزَأْ حَکِيْمٌ أَحَدًا مِنَ النَّاسِ بَعْدَ رَسُولِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم حَتّٰی تُوُفِّيَ.

رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَأَحَمَدُ.

22 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الزکاة، باب الاستعفاف عن المسألة، 2 / 535، الرقم : 1403، ومسلم في الصحيح، کتاب الزکاة، باب بيان أن اليد العليا خير من اليد السفلی، 2 / 717، الرقم : 1034، 1035 وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 435، الرقم : 15612، والترمذي في السنن، کتاب صفة القيامة والرقاق والورع، باب منه، 4 / 641، الرقم : 2463، والنسائي في السنن، کتاب الزکاة، باب اليد العليا، 5 / 60، الرقم : 2531، وأيضاً في باب أي الصدقة أفضل، 5 / 69، الرقم : 2543.

’’حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ نے فرمایا : میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے مال عطا فرمایا۔ پھر سوال کیا تو پھر عطا فرمایا۔ پھر سوال کیا تو پھر عطا فرمایا۔ پھر فرمایا : اے حکیم! یہ مال سرسبز اور شیریں ہے، جو اسے نفس کی لاتعلقی سے لیتا ہے تو اس میں اسے برکت دی جاتی ہے اور جو اسے دلی لالچ سے لیتا ہے اس میں اسے برکت نہیں دی جاتی اور وہ اس شخص کی طرح ہو جاتا ہے جو کھاتا ہے مگر سیر نہیں ہوتا۔ اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے۔ حضرت حکیم رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ انہوں نے عرض کیا : یا رسول اللہ! قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا، میں آپ کے بعد کسی سے کوئی چیز قبول نہیں کروں گا یہاں تک کہ دنیا کو خیرباد کہہ جاؤں۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ حضرت حکیم رضی اللہ عنہ کو مال دینے کے لیے جب بھی بلاتے تو وہ انکار کر دیتے۔ پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں مال دینے کے لئے بلایا تو انہوں نے آپ سے بھی کوئی چیز قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اے گروہِ مسلمین! میں آپ کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ میں اس مال فَے سے حضرت حکیم رضی اللہ عنہ کو ان کا حق دے رہا ہوں لیکن انہوں نے لینے سے انکار کر دیا ہے۔ حضرت حکیم رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد کسی سے بھی مال لینا قبول نہیں کیا یہاں تک کہ وفات پا گئے۔‘‘

اس حدیث کو امام بخاری اور احمد نے روایت کیا ہے۔

23. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم : أَفْضَلُ الصَّدَقَةِ مَا تَرَکَ غِنًی، وَالْيَدُ الْعُلْيَا خَيْرٌ مِنَ الْيَدِ السُّفْلٰی، وَابْدَأْ بِمَنْ تَعُولُ، تَقُولُ الْمَرْأَةُ : إِمَّا أَنْ تُطْعِمَنِي وَإِمَّا أَنْ تُطَلِّقَنِي، وَيَقُولُ الْعَبْدُ : أَطْعِمْنِي وَاسْتَعْمِلْنِي، وَيَقُولُ الاِبْنُ : أَطْعِمْنِي، إِلٰی مَنْ تَدَعُنِي. فَقَالُوا : يَا أَبَا هُرَيْرَةَ، سَمِعْتَ هٰذَا مِنْ رَسُولِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم؟ قَالَ : لَا، هٰذَا مِنْ کِيْسِ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَأَحْمَدُ وَالنَّسَائِيُّ.

23 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب النفقات، باب وجوب النفقة علی الأهل والعيال، 5 / 2048، الرقم : 5040، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 527، الرقم : 10830، والنسائي في السنن، کتاب الزکاة، باب الصدقة عن ظهر غنی، 5 / 62، الرقم : 2534۔

’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : سب سے افضل صدقہ وہ ہے جس کے بعد غنا قائم رہے اور اوپر (دینے ) والا ہاتھ نیچے (لینے) والے ہاتھ سے بہتر ہے اور ابتداء اُن سے کرو جو تمہارے زیرکفالت ہیں، یہ نہ ہو کہ بیوی بھی کہے کہ مجھے کھانا دو ورنہ طلاق دے دو، غلام کہے کہ مجھے کھانا دو اور مجھ سے کام لو اور بیٹا کہے کہ مجھے کھانا دو، مجھے کس کے سہارے چھوڑ رہے ہو؟ لوگوں نے دریافت کیا : اے ابوہریرہ! کیا یہ بات آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے خود سنی ہے؟ جواب دیا کہ نہیں، یہ ابو ہریرہ کی ذہانت میں سے ہے۔‘‘

اس حدیث کو امام بخاری،احمد بن حنبل اور نسائی نے روایت کیا ہے۔

24. عَنْ أَبِي أُمَامَةَ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم : يَا ابْنَ آدَمَ، إِنَّکَ أَنْ تَبْذُلَ الْفَضْلَ خَيْرٌ لَکَ، وَأَنْ تُمْسِکَهُ شَرٌّ لَکَ. وَلَا تُلاَمُ عَلٰی کَفَافٍ، وَابْدَأْ بِمَنْ تَعُوْلُ. وَالْيَدُ الْعُلْيَا خَيْرٌ مِنَ الْيَدِ السُّفْلٰی.

رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ.

24 : أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الزکاة، باب بيان أن اليد العليا خير من اليد السفلی، 2 / 718، الرقم : 1036، وأحمد بن حنبل في المسند، 5 / 262، الرقم : 22319، والترمذي في السنن، کتاب الشهادات، باب منه (32)، 4 / 573، الرقم : 2343.

’’حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے ابن آدم! تیرے لیے ضرورت سے زائد چیز کا خرچ کرنا بہتر ہے اور (ضرورت سے زائد اپنے پاس) روکے رکھنا تیرے لئے برا ہے، لیکن بقدرِ ضرورت (اپنے پاس) رکھنے پر تجھے کچھ ملامت نہیں۔ اور پہلے ان پر خرچ کرو جو تمہارے زیر کفالت ہیں، اور اُوپر والا ہاتھ (یعنی دینے والا ہاتھ) نیچے والے ہاتھ (یعنی لینے والے ہاتھ) سے بہتر ہے۔‘‘ اس حدیث کو امام مسلم اور احمد نے روایت کیا ہے۔

25. عَنْ حَکِيْمِ بْنِ حِزَامٍ رضی الله عنه قَالَ : يَا رَسُولَ اللهِ، أَرَأَيْتَ أَشْيَاءَ، کُنْتُ أَتَحَنَّثُ بِهَا فِي الْجَاهِلِيَّةِ، مِنْ صَدَقَةٍ، أَوْ عَتَاقَةٍ، وَصِلَةِ رَحِمٍ، فَهَلْ فِيْهَا مِنْ أَجْرٍ؟ فَقَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم : أَسْلَمْتَ عَلٰی مَا سَلَفَ مِنْ خَيْرٍ.

مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

25 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الزکاة، باب من تصدق في الشرک ثم أسلم، 2 / 521، الرقم : 1369، ومسلم في الصحيح، کتاب الإيمان، باب بيان حکم عمل الکافر اذا أسلم بعده، 1 / 114، الرقم : 123.

’’حضرت حکیم بن حِزام رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے عرض کیا : یارسول اللہ! میں نے دور جاہلیت میں جو نیکیاں کیں یعنی صدقہ دیا، غلام آزاد کیے اور صلہ رحمی کی تو کیا مجھے اُن کا ثواب ملے گا؟ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اپنی پہلی نیکیوں کی وجہ ہی سے تو تمہیں دولتِ اسلام نصیب ہوئی ہے۔‘‘

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

26. عَنْ عَبْدِ اللهِ ابْنِ عُمَرَ رضی الله عنهما قَالَ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ : لَا حَسَدَ إِلاَّ عَلَی اثْنَتَيْنِ : رَجُلٌ آتَاهُ اللهُ الْکِتَابَ وَقَامَ بِهِ آنَاءَ اللَّيْلِ، وَرَجُلٌ أَعْطَاهُ اللهُ مَالًا فَهُوَ يَتَصَدَّقُ بِهِ آنَاءَ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

26 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب فضائل القرآن، باب اغْتِبَاطِ صَاحِبِ القرآنِ، 4 / 1919، الرقم : 4737، وفي کتاب التمني، باب تَمَنِّي القُرآنِ وَالعِلْمِ، 6 / 2643، الرقم : 6805، ومسلم في الصحيح، کتاب صلاة المسافرين وقصرها، باب فضل من يقوم بالقرآن ويعلمه وفضل من تعلم حکمة من فقه أو غيره فعمل بها وعلمها، 1 / 558.559، الرقم : 815، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 8، الرقم : 4550، 4924، 5618، 6403، والترمذي في السنن، کتاب البر والصلة، باب ما جاء في الحسد، 4 / 330، الرقم : 1936، وابن ماجه في السنن، کتاب الزهد، باب الحسد، 2 / 408، الرقم : 4209.

’’حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے، وہ بیان کرتے ہیں : میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا : حسد (یعنی رشک) صرف دو آدمیوں پر کرنا چاہئے : ایک وہ شخص جسے اللہ تعالیٰ نے قرآنِ پاک عطا کیا اور وہ رات کو نماز میں اس کی تلاوت کرے، دوسرا وہ شخص ہے جسے اللہ تعالیٰ نے مال و دولت سے نوازا تو وہ اسے رات کی گھڑیوں اور دن کے مختلف حصوں میں (راہِ خدا میں) خرچ کرتا رہا۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

27. عَنْ عَائِشَةَ رضی الله عنها قَالَتْ : قَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم : إِذَا أَطْعَمَتِ الْمَرْأَةُ مِنْ بَيْتِ زَوْجِهَا، غَيْرَ مُفْسِدَةٍ، لَهَا أَجْرُهَا، وَلَهُ مِثْلُهُ، وَلِلْخَازِنِ مِثْلُ ذٰلِکَ، لَهُ بِمَا اکْتَسَبَ وَلَهَا بِمَا أَنْفَقَتْ.

رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَأَحْمَدُ وَابْنُ مَاجَه.

27 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الزکاة، باب أجر المرأة إذا تصدقت أو أطعمت من بيت زوجها غير مفسدة، 2 / 522، الرقم : 1372، وأحمد بن حنبل في المسند، 6 / 44، الرقم : 24217، وابن ماجه في السنن، کتاب التجارات، باب ما للمرأة من مال زوجها، 2 / 769، الرقم : 2294.

’’حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جب عورت کسی خرابی کے بغیر اپنے خاوند کے گھر سے (کسی کو) کھانا کھلائے تو اسے ثواب ملے گا اور اُتنا ہی خاوند کو اور اسی کے برابر خزانچی کو (بھی اجر ملے گا)۔ خاوند کو اس لیے کہ اس نے کمایا اور عورت کو اس لیے کہ اس نے خرچ کیا۔‘‘

اس حدیث کو امام بخاری، احمد بن حنبل اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔

28. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه، عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : إِذَا أَنْفَقَتِ الْمَرْأَةُ مِنْ کَسْبِ زَوْجِهَا، عَنْ غَيْرِ أَمْرِهِ، فَلَهَا نِصْفُ أَجْرِهِ.

رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَأَبُوْدَاودَ.

28 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب البيوع، باب قول اللہ تعالی : أنفقوا من طيبات ما کسبتم، 2 / 728، الرقم : 1960، وأبوداود في السنن، کتاب الزکاة، باب المرآة تتصدق من بيت زوجها، 2 / 131، الرقم : 1687.

’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جب عورت اپنے خاوند کی کمائی میں سے اس کی اجازت کے بغیر خرچ کرے تو اُس کے لیے خاوند کی نسبت آدھا ثواب ہے۔‘‘

اس حدیث کو امام بخاری اور ابوداؤد نے روایت کیا ہے۔

29. عَنْ عَائِشَةَ رضی الله عنها، أَنَّ بَعْضَ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم قُلْنَ لِلنَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم : أَيُنَا أَسْرَعُ بِکَ لُحُوقًا؟ قَالَ : أَطْوَلُکُنَّ يَدًا. فَأَخَذُوا قَصَبَة يَذْرَعُونَهَا، فَکَانَتْ سَوْدَةُ أَطْوَلَهُنَّ يَدًا، فَعَلِمْنَا بَعْدُ أَنَّمَا کَانَتْ طُوْلَ يَدِهَا الصَّدَقَةُ، وَکَانَتْ أَسْرَعَنَا لُحُوقًا بِهِ، وَکَانَتْ تُحِبُّ الصَّدَقَةَ.

رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَأَحْمَدُ وَالنَّسَائِيُّ.

29 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الزکاة، باب أي الصدقة أفضل وصدقة الشحيح الصحيح، 2 / 515، الرقم : 1354، وأحمد بن حنبل في المسند، 6 / 121، الرقم : 24943، والنسائي في السنن، کتاب الزکاة، باب فضل الصدقة، 5 / 67، الرقم : 2541.

’’حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعض ازواج مطہرات نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا : ہم میں سے کون سب سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ملے گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جس کے ہاتھ سب سے لمبے ہیں۔ انہوں نے چھڑی لے کر انہیں ناپا تو ان میں حضرت سودہ رضی اللہ عنہا کے ہاتھ سب سے لمبے تھے۔ بعد میں ہمیں معلوم ہوا کہ لمبے ہاتھوں سے مراد زیادہ صدقہ وخیرات کرنا تھا اور ہم میں سب سے پہلے وہی (حضرت زینب بنت حجش) حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ملنے والی تھیں کیونکہ وہ صدقہ کرنا بہت پسند کرتی تھیں۔‘‘

اس حدیث کو امام بخاری، احمد اور نسائی نے روایت کیا ہے۔

30. عَنْ أَبِي أُمَامَةَ الْبَاهِلِيِّ رضی الله عنه، قَالَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم فِي خُطْبَتِهِ عَامَ حَجَّةِ الْوَدَاعِ يَقُوْلُ : لَا تُنْفِقُ امْرَأَةٌ شَيْئًا مِنْ بَيْتِ زَوْجِهَا إِلَّا بِإِذْنِ زَوْجِهَا، قِيلَ : يَا رَسُولَ اللهِ، وَلَا الطَّعَامُ؟ قَالَ : ذَاکَ أَفْضَلُ أَمْوَالِنَا.

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَأَبُوْ دَاودَ وَالتِّرْمِذِيُّ وَاللَّفْظُ لَهُ. وقَالَ التِّرْمِذِيُّ : وَفِي الْبَابِ عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ، وَأَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَکْرٍ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَعَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو وَعَائِشَةَ رضی الله عنها، وَحَدِيثُ أَبِي أُمَامَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ.

30 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 5 / 267، الرقم : 22348، وأبوداود في السنن، کتاب الإجارة، باب في تضمين العارية، 3 / 296، الرقم : 6565، والترمذي في السنن، کتاب الزکاة، باب في نفقة المرأة من بيت زوجها، 3 / 57، الرقم : 670، وابن ماجه في السنن، کتاب التجارات، باب ما للمرأة من مال زوجها، 2 / 770، الرقم : 2295، والدارقطني في السنن، کتاب البيوع، 3 / 40، الرقم : 166، والطبراني في المعجم الکبير، 8 / 135، الرقم : 7615، وابن أبي شيبة في المصنف، 4 / 456، الرقم : 22085، وعبد الرزاق في المصنف، 4 / 148، الرقم : 7277.

’’حضرت ابو امامہ باہلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں : میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حجۃ الوداع کے موقع پر خطبہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا : کوئی عورت خاوند کے گھر سے اس کی اجازت کے بغیر کچھ خرچ نہ کرے۔ عرض کیا گیا : یا رسول اللہ! کھانا بھی نہیں دے سکتی؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : یہ ہمارے افضل مالوں میں سے ہے۔‘‘

اس حدیث کو امام احمد بن حنبل، ابوداود اور ترمذی نے مذکورہ الفاظ سے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے کہا : اس باب میں حضرت سعد بن ابی وقاص، اسماء بنت ابی بکر، ابوہریرہ، عبداللہ بن عمرو اور عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے بھی روایات منقول ہیں : امام ترمذی فرماتے ہیں ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث حسن ہے۔

قَالَ الْعَيْنِيُّ : فَإِنْ قُلْتَ : أَحَادِيْثُ هَذَا الْبَابِ جَاءَتْ مُخْتَلِفَةً فَمِنْهَا مَا يَدُلُّ عَلٰی مَنْعِ الْمَرْأَةِ أَنْ تُنْفِقَ مِنْ بَيْتِ زَوْجِهَا إِلاَّ بِإِذْنِهِ وَهُوَ حَدِيْثُ أَبِي أُمَامَةَ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ.... وَمِنْهَا مَا يَدُلُّ عَلٰی الْإِبَاحَةِ بِحُصُوْلِ الْأَجْرِ لَهَا فِي ذٰلِکَ وَهُوَ حَدِيْثُ عَائِشَةَ الْمَذْکُوْرِ. وَمِنْهَا مَا قُيِّدَ فِيْهِ التَّرْغِيْبُ فِي الْإِنْفَاقِ بِکُوْنِهِ بِطِيْبِ نَفْسٍ مِنْهُ وَبِکَوْنِهَا غَيْرَ مُفْسِدَةٍ وَهُوَ حَدِيْثُ عَائِشَةَ أَيْضًا. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ مِنْ حَدِيْثِ مَسْرُوْقٍ عَنْهَا.... وَمِنْهَا مَا هُوَ مُقَيَّدٌ بِکَوْنِهَا غَيْرَ مُفْسِدَةٍ وَإِنْ کَانَ مِنْ غَيْرِ أَمْرِهِ وَهُوَ حَدِيْثُ أَبِي هُرَيْرَةَ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ مِنْ حَدِيْثِ هُمَامِ بْنِ مُنَبِّه عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ.... وَمِنْهَا مَا قُيِّدَ اَلْحُکْمُ فِيْهِ بِکَوْنِهِ رَطْبًا وَهُوَ حَدِيْثُ سَعْدِ ابْنِ أَبِي وَقَّاصٍ. رَوَاهُ أَبُوْدَاوُدَ مِنْ رِوَايَةِ زِيَادِ بْنِ جُبَيْرِ عَنْ سَعْدٍ....

قُلْتُ : کَيْفِيَّةُ الْجَمْعِ بَيْنَهُمَا أَنَّ ذٰلِکَ يَخْتَلِفُ بِاخْتِلَافِ عَادَاتِ الْبِلَادِ وَبِاخْتِلَافِ حَالِ الزَّوْجِ مِنْ مُسَامَحَتِهِ وَرِضَاهُ بِذٰلِکَ أَوْ کَرَاهَتِهِ لِذٰلِکَ، وَبِاخْتِلَافِ الْحَالِ فِي الشَّيئِ الْمُنْفَقِ بَيْنَ أَنْ يَکُوْنَ شَيْئًا يَسِيْرًا يُتَسَامَحُ بِهِ وَبَيْنَ أَنْ يَکُوْنَ لَهُ خَطْرٌ فِي نَفْسِ الزَّوْجِ يَبْخَلُ بِمِثْلِهِ وَبَيْنَ أَنْ يَکُوْنَ ذٰلِکَ رَطْبًا يَخْشٰی فَسَادَهُ إِنْ تَأَخَّرَ وَبَيْنَ أَنْ يَکُوْنُ يَدَّخِرُ وَلَا يَخْشٰی عَلَيْهِ الْفَسَادَ. هَذَا إِشْبَاعًا لِلْکَلَامِ وَالنَّفْيُ فِيْهِ لِلْکَمَالِ لَا لِلْحَقِيْقَةِ.

العينی، عمدة القاري، 8 / 292.

’’امام عینی فرماتے ہیں : اگر تو کہے کہ اس باب میں احادیث کا اختلاف ہے۔ (تو جان لے کہ) ان میں ایک حدیث ایسی ہے جو بیوی کو اپنے خاوند کے گھر سے خرچ کرنے سے روکتی ہیں سوائے اس کی اجازت کے، اور وہ امام ترمذی کی حضرت ابو امامہ سے روایت کردہ حدیث ہے۔۔۔۔ اور ان میں سے ایک حدیث ایسی ہے جو اس خاتون کے لئے اجر و ثواب کے حصول کی اباحت پر دلالت کرتی ہیں اور وہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی حدیث مبارکہ ہے جو گزشہ صفحات میں بیان ہوئی۔۔۔۔ اور ان میں سے ایک حدیث ایسی ہے جس میں ’’اپنی خوشی سے‘‘ اور ’’غیر مفسدہ‘‘ (فساد نہ پھیلانے والی) ہونے کی قید لگا کر انفاق کی ترغیب دی گئی ہے اور وہ حدیث بھی حضرت مسروق کے واسطہ سے ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے۔۔۔۔ اور ان میں سے ایک حدیث جو مقید ہے عورت کے ’’غیر مفسدہ‘‘ (فساد نہ پھیلانے والی) ہونے کے ساتھ، خواہ عورت کا انفاق خاوند کی اجازت کے بغیر ہی کیوں نہ ہو، اور وہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے جسے امام مسلم نے ہمام بن منبہ کی سند سے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔۔۔۔ اور ان میں سے ایک حدیث وہ ہے جن میں صرف ’’رطب‘‘ تازہ کھجور کا صدقہ کرنے کی اجازت ہے اور وہ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے جسے ابوداؤد نے زیاد بن جبیر کی سند سے حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے راویت کیا ہے۔۔۔۔

میں کہتا ہوں : ان تمام روایات میں تطبیق کی صورت یہ ہے کہ یہ عمل مختلف علاقوں کی عادات اور شوہروں کے مختلف مزاج کی مناسبت سے مختلف ہیں۔ آیا وہ اسے پسند کرتا ہے یا ناپسند، اور اسی طرح خرچ کی جانے والی اشیاء کی حالت کا اعتبار ہو گا کہ وہ خرچ کی جانے والی چیز معمولی ہے کہ خاوند اسے نظرانداز کرتا ہے یا یہ کہ وہ اسے خرچ کرنے میں بخل سے کام لیتا ہے اور یہ کہ وہ تازہ پھل ہے جسے اگر رکھ لیا جائے تو اس کے خراب ہونے کا خدشہ ہے یا یہ کہ ذخیرہ کر کے رکھنے میں اس کے خراب ہونے کا اندیشہ نہیں۔ یہ اس کلام کی مکمل تحقیق ہے اور اس میں نفی کمال کے لئے ہے نہ کہ حقیقت کے لئے۔

31. عَنْ عَائِشَةَ رضی الله عنها، عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم أَنَّهُ قَالَ : إِذَا تَصَدَّقَتِ الْمَرْأَةُ مِنْ بَيْتِ زَوْجِهَا، کَانَ لَهَا بِهِ أَجْرٌ، وَلِلزَّوْجِ مِثْلُ ذٰلِکَ، وَلِلْخَازِنِ مِثْلُ ذٰلِکَ، وَلَا يَنْقُصُ کُلُّ وَاحِدٍ مِنْهُمْ مِنْ أَجْرِ صَاحِبِهِ شَيْئًا لَهُ بِمَا کَسَبَ وَلَهَا بِمَا أَنْفَقَتْ.

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالتِّرْمِذِيُّ وَاللَّفْظُ لَهُ، وقَالَ التِّرْمِذِيُّ : هٰذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ.

31 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 6 / 99، الرقم : 24724، والترمذي في السنن، کتاب الزکاة، باب في نفقة المرأة من بيت زوجها، 3 / 58، الرقم : 671، والنسائي في السنن، کتاب الزکاة، باب صدقة المرأة من بيت زوجها، 5 / 65، الرقم : 2539، والبيهقي في السنن، 5 / 379، الرقم : 9196.

’’حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جب کوئی عورت اپنے خاوند کے گھر سے صدقہ دے تو اس کے لیے بھی اجر ہے اور شوہر کے لیے بھی اس کی مثل اجر ہے، خزانچی کے لیے بھی اس کے برابر اجر ہے اور کسی ایک کا ثواب دوسرے کے ثواب میں کمی نہیں کرے گا۔ شوہر کے لیے کمانے کا اور عورت کے لیے خرچ کرنے کا ثواب ہے۔‘‘

اس حدیث کو امام احمد اور ترمذی نے مذکورہ الفاظ سے روایت کیا ہے۔ اور امام ترمذی نے کہا ہے : یہ حدیث حسن ہے۔

32. عَنْ أَبِي مُوسٰی رضی الله عنه عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : اَلْخَازِنُ الْمُسْلِمُ الْأَمِينُ الَّذِي يُنْفِذُ وَرُبَّمَا قَالَ : يُعْطِي مَا أُمِرَ بِهِ، کَامِلًا مُوَفَّرًا، طَيِّبٌ بِهِ نَفْسُهُ، فَيَدْفَعُهُ إِلَی الَّذِي أُمِرَ لَهُ بِهِ، أَحَدُ الْمُتَصَدِّقَيْنِ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

32 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الزکاة، باب أجر الخادم إذا تصدق بأمر صاحبهِ غير مفسد، 2 / 521، الرقم : 1371، وفي کتاب الإجارة، باب استجار الرجل الصالح، 2 / 789، الرقم : 2141، وفي کتاب الوکالة، باب وکالة الأمين في الخزانة ونحوها، 2 / 815، الرقم : 2194، ومسلم في الصحيح، کتاب الزکاة، باب أجر الخازن الأمين والمرأة إذا تصدقت من بيت مفسدة بإذنه الصريح أو العرفي، 2 / 710، الرقم : 1023، وأحمد بن حنبل في المسند، 4 / 384، 404، 409، الرقم : 19530، 19640، 19682، وأبو داود في السنن، کتاب الزکاة، باب أجر الخازن، 2 / 130، الرقم : 1684، والنسائي في السنن، کتاب الزکاة، باب أجر الخازن إذا تصدق بإذن مولاه، 5 / 79، الرقم : 2560.

’’حضرت ابو موسیٰ (اشعری) رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مسلمان امین خازن جو امانت کے ساتھ مالک کے حکم کی تعمیل کرتا ہے اور کبھی فرمایا : جو اسے حکم دیا جاتا ہے اس کے مطابق دلی رضامندی سے دے دیتا ہے اور جس کے لیے اسے حکم دیا گیا ہے، مال اس کے سپرد کر دیتا ہے تو وہ بھی خیرات کرنے والوں میں سے ایک ہے۔‘‘یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

33. عَنْ عُمَيْرٍ رضی الله عنه مَوْلٰی أَبِي اللَّحْمِ، قَالَ : کُنْتُ مَمْلُوکًا، فَسَأَلْتُ رَسُولَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم : أَتَصَدَّقُ مِنْ مَالِ مَوَالِيَّ بِشَيْئٍ؟ قَالَ : نَعَمْ. وَالْأَجْرُ بَيْنَکُمَا نِصْفَانِ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَابْنُ حِبَّانَ.

33 : أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الزکاة، باب ما أنفق العبد من مال مولاه، 2 / 711، الرقم : 1025، وابن حبان في الصحيح، 8 / 147، الرقم : 3360.

’’ابو لحم کے غلام حضرت عمیر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : جب میں غلام تھا تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا : کیا میں اپنے مالکوں کے اَموال میں سے کچھ صدقہ و خیرات کر سکتا ہوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہاں! اور تم دونوں کو آدھا آدھا اجر ملے گا۔‘‘ اس حدیث کو امام مسلم اور ابن حبان نے روایت کیا ہے۔

34. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُولُ : مَثَلُ الْبَخِيلِ وَالْمُنْفِقِ، کَمَثَلِ رَجُلَيْنِ، عَلَيْهِمَا جُبَّتَانِ مِنْ حَدِيدٍ، مِنْ ثُدِيِّهِمَا إِلٰی تَرَاقِيهِمَا : فَأَمَّا الْمُنْفِقُ، فَلَا يُنْفِقُ إِلَّا سَبَغَتْ، أَوْ وَفَرَتْ عَلٰی جِلْدِهِ، حَتّٰی تُخْفِيَ بَنَانَهُ، وَتَعْفُوَ أَثَرَهُ. وَأَمَّا الْبَخِيلُ : فَلَا يُرِيدُ أَنْ يُنْفِقَ شَيْئًا إِلَّا لَزِقَتْ کُلُّ حَلْقَةٍ مَکَانَهَا، فَهُوَ يُوَسِّعُهَا وَلَا تَتَّسِعُ.

مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

34 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الزکاة، باب مثل المتصدق البخيل، 2 / 523، الرقم : 1375، ومسلم في الصحيح، کتاب الزکاة، باب مثل المنفق والبخيل، 2 / 708، الرقم : 1021.

’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا : بخیل اور مال خرچ کرنے والے کی مثال ان دو آدمیوں جیسی ہے جن (کے جسموں) پر چھاتی سے حلق تک لوہے کے جبے (زرہیں) ہوں، خرچ کرنے والا جب مال خرچ کرتا ہے تو جبہ وسیع ہو کر اس کے جسم پر پھیل جاتا ہے، یہاں تک کہ اس کی انگلیوں اور نشانیوں کو بھی چھپا لیتا ہے اور بخیل جب کچھ خرچ کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو ہر حلقہ اپنی جگہ سے چمٹ جاتا ہے۔ وہ اسے کھولنا چاہتا ہے لیکن کھول نہیں سکتا۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

35. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ : ضَرَبَ رَسُولُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم مَثَلَ الْبَخِيلِ وَالْمُتَصَدِّقِ کَمَثَلِ رَجُلَيْنِ عَلَيْهِمَا جُبَّتَانِ مِنْ حَدِيدٍ، قَدِ اضْطُرَّتْ أَيْدِيْهِمَا إِلٰی ثُدِيِّهِمَا وَتَرَاقِيهِمَا، فَجَعَلَ الْمُتَصَدِّقُ کُلَّمَا تَصَدَّقَ بِصَدَقَةٍ انْبَسَطَتْ عَنْهُ، حَتّٰی تَغْشٰی أَنَامِلَهُ وَتَعْفُوَ أَثَرَهُ، وَجَعَلَ الْبَخِيلُ کُلَّمَا هَمَّ بِصَدَقَةٍ قَلَصَتْ، وَأَخَذَتْ کُلُّ حَلْقَةٍ بِمَکَانِهَا.

قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ : فَأَنَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُولُ بِإِصْبَعِهِ هٰکَذَا فِي جَيْبِهِ، فَلَوْ رَأَيْتَهُ يُوَسِّعُهَا وَلَا تَتَوَسَّعُ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ.

35 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب اللباس باب جيب القميص من عند الصدر وغيره، 5 / 2185، الرقم : 5461.

’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بخیل اور خیرات کرنے والے کی مثال ان دو آدمیوں جیسی بیان فرمائی جن کے اوپر لوہے کی زرہیں ہوں اور ان کے دونوں ہاتھ سینے کے ساتھ گلے سے لگے ہوئے ہوں۔ پس خرچ کرنے والا آدمی جب خیرات کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو زِرہ اتنی ڈھیلی ہو جاتی ہے کہ اس کی انگلیوں کے پوروں کو ڈھانپ لیتی ہے اس کے نشانات کو مٹا دیتی ہے اور بخیل جب خیرات کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو اس کی زرہ کا ہر حلقہ اپنی جگہ سخت ہو جاتا ہے۔

’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنی انگشت ہائے مبارک اپنے گریبان میں ڈال کر بتاتے ہوئے دیکھا کہ اگر تم دیکھو کہ وہ اپنی انگلیوں کو کشادہ کرنا چاہتا مگر وہ کھلتی نہیں ہیں۔‘‘

اس حدیث کو امام بخاری نے روایت کیا ہے۔

36. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه، أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : مَا مِنْ يَوْمٍ يُصْبِحُ الْعِبَادُ فِيهِ، إِلَّا مَلَکَانِ يَنْزِلَانِ، فَيَقُولُ أَحَدُهُمَا : اَللّٰهُمَّ أَعْطِ مُنْفِقًا خَلَفًا، وَيَقُولُ الْآخَرُ : اَللّٰهُمَّ أَعْطِ مُمْسِکًا تَلَفًا. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

36 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الزکاة، باب قول اللہ تعالی : فأما من أعطی واتقی وصدّق بالحسنی فسنيسره لليسری، 2 / 522، الرقم : 1374، ومسلم في الصحيح، کتاب الزکاة، باب في المنفق والممسک، 2 / 770، الرقم : 1010.

’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کوئی دن ایسا نہیں جس میں لوگ صبح کریں مگر دو فرشتے نازل ہوتے ہیں۔ ان میں سے ایک کہتا ہے : اے اللہ! (اپنی راہ میں) مال خرچ کرنے والے کو (اس مال کا) نعم البدل عطا فرما۔ دوسرا کہتا ہے : اے اللہ! مال کو روک کر رکھنے والے (بخیل) کو (مال کی) بربادی عطا فرما۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

37. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم : إِنَّ مَلَکًا بِبَابٍ مِنْ أَبْوَابِ الْجَنَّةِ يَقُولُ : مَنْ يُقْرِضِ الْيَوْمَ يُجْزَ غَدًا. وَمَلَکًا بِبَابٍ آخرَ يَقُولُ : اَللَّهُمَّ أَعْطِ مُنْفِقًا خَلَفًا وَأَعْطِ مُمْسِکًا تَلَفًا.

رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَابْنُ حِبَّانَ..

37 : أخرجه ابن حبان في الصحيح، کتاب الزکاة، باب صدقة التطوع، ذکر دعا الملک للمنفق بالخلف وللممسک بالتلف، 8 / 124، الرقم : 3333، والطبراني في المعجم الأوسط، 8 / 380، الرقم : 8935.

’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جنت کے دروازوں میں سے ایک دروازے پر ایک فرشتہ (بیٹھا) کہتا رہتا ہے : جو آج قرض دے گا کل اسے اس کی جزا دی جائے گی، اور دوسرا فرشتہ دوسرے دروازے پر (بیٹھا) کہتا رہتا ہے : اے اللہ! خرچ کرنے والے کو اس کا نعم البدل عطا فرما اور مال کو روک کر رکھنے والے (بخیل) کو (مال کی) بربادی عطا فرما۔‘‘

اس حدیث کو امام طبرانی اور ابن حبان نے روایت کیا ہے۔۔

38. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم، قَالَ : اَلسَّخِيُّ قَرِيْبٌ مِنْ اللهِ، قَرِيْبٌ مِنَ الْجَنَّةِ، قَرِيْبٌ مِنَ النَّاسِ، بَعِيْدٌ مِنَ النَّارِ. وَالْبَخِيْلُ بَعِيْدٌ مِنَ اللهِ، بَعِيْدٌ مِنَ الْجَنَّةِ، بَعِيْدٌ مِنَ النَّاسِ، قَرِيْبٌ مِنَ النَّارِ. وَلَجَاهِلٌ سَخِيٌّ أَحَبُّ إِلَی اللهِ عزوجل مِنْ عَابِدٍ بَخِيلٍ.

رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالْبَيْهَقِيُّ..

38 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب البر والصلة، باب ما جاء في السخاء، 4 / 342، الرقم : 1961، والبيهقي في شعب الإيمان، 7 / 428، الرقم : 10847، 10848، والطبراني في المعجم الأوسط، 3 / 27، الرقم : 2363 (عن عائشة رضی الله عنها).

’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : سخی اللہ تعالیٰ سے قریب، جنت سے قریب اور لوگوں سے قریب اور جہنم سے دور ہوتا ہے۔ بخیل اللہ تعالیٰ سے دور، جنت سے دور، لوگوں سے دور اور جہنم کے قریب ہوتا ہے۔ وہ جاہل شخص جو سخی ہو وہ اللہ کی بارگاہ میں بخیل عبادت گذار سے زیادہ پسندیدہ ہے۔‘‘ اس حدیث کو امام ترمذی اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔

39. عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم : خَصْلَتَانِ لَا تَجْتَمِعَانِ فِي مُؤْمِنٍ. اَلْبُخْلُ، وَسُوءُ الْخُلُقِ.

رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَأَبُوْ يَعْلٰی..

39 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب البر والصلة، باب ما جاء في البخل، 4 / 343، الرقم : 1962، وأبو يعلی في المسند، 2 / 490، الرقم : 328، والطيالسي في المسند، 1 / 293، الرقم : 2208، والبيهقي في شعب الإيمان، 7 / 423، الرقم : 10830.

’’حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کسی مومن میں یہ دو عادتیں جمع نہیں ہو سکتیں : بخل اور بداخلاقی۔‘‘

اس حدیث کو امام ترمذی اور ابو یعلی نے روایت کیا ہے۔

40. عَنْ أَبِي بَکْرٍ الصِّدِّيقِ رضی الله عنه، عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ خِبٌّ، وَلَا مَنَّانٌ، وَلَا بَخِيلٌ.

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالتِّرْمِذِيُّ وَاللَّفْظُ لَهُ، وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ : هٰذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌُ..

40 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 1 / 7، الرقم : 32، والترمذي في السنن، کتاب البر والصلة، باب ما جاء في البخيل، 4 / 343، الرقم : 1963، وأبو يعلی في المسند، 1 / 95، الرقم : 95.

’’حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مکار، احسان جتانے والا اور بخیل جنت میں داخل نہیں ہوں گے۔‘‘

اس حدیث کو امام احمد اور ترمذی نے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے کہا ہے : یہ حدیث حسن غریب ہے۔۔

41. عَنِ الْحَسَنِ بْنِ أَبِي الْحَسَنِ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم : فِيْمَا يَرْوِي عَنْ رَبِّهِ عزوجل أَنَّهُ يَقُولُ : يَا ابْنَ آدَمَ، أَوْدِعْ مِنْ کَنْزِکَ عِنْدِي، وَلَا حَرَقَ وَلَا غَرَقَ وَلَا سَرَقَ أَوْتِيْکَهُ أَحْوَجَ مَا تَکُونُ إِلَيْهِ.

رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ فِي الشُّعَبِ، وَقَالَ : هٰذَا مُرْسَلٌ.

41 : أخرجه البيهقي في شعب الإيمان، 3 / 221، الرقم : 2342، والهندي في کنز العمال، 6 / 151، الرقم : 16021، والسيوطي في الدر المنثور، 1 / 748.

’’حضرت حسن بن ابی الحسن رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا : اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : اے ابن آدم! اپنے خزانے میں سے کچھ نکال کر میرے پاس ودیعت کر۔ وہ نہ جلے گا، نہ ڈوبے گا اور نہ چوری ہو گا، جب تجھے اس کی سخت ضرورت ہو گی تو میں تجھے یہ واپس لوٹا دوں گا۔‘‘

اس حدیث کو امام بیہقی نے روایت کیا ہے اور کہا : یہ حدیث مرسل ہے۔

Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved