کتاب التوحید (جلد دوم)

کلامِ اقبال

عقیدہ توحید و رسالت کی اہمیت اور باہمی تعلق کے متعلق حکیم الامت حضرت علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کے منتخب اشعار

1۔ درجہانِ کیف و کم گردید عقل
پے بہ منزل برد از توحید عقل

2۔ ورنہ ایں بیچارہ را منزل کجاست
کشتیٔ ادراک را ساحل کجاست

3۔ اہلِ حق را رمز توحید ازبر است
در ’’اٰتِی الرَّحْمٰنِ عَبْدًا‘‘ مضمراست

4۔ دیں ازو ‘حکمت ازو ‘آئیں ازو
زور ازو ‘قوت ازو ‘تمکیں ازو

5۔ قدرتِ او برگزیند بندہ را
نوع دیگر آفریند بندہ را

6۔ در رہِ حق تیزتر گردد تگش
گرم تراز برق خوں اندر رگش

7۔ ملتِ بیضا تن و جاں لَا اِلٰہ
سازِ ما را پردہ گرداں لَا اِلٰہ

8۔ لَا اِلٰہ سرمایۂ اسرارِ ما
رشتہ اش شیرازۂ افکارِ ما

9۔ اسود از توحید احمر می شود
خویش فاروقؓ و ابوذرؓ می شود

10۔ رشتۂ ایں قوم مثلِ انجم است
چوں نگہ ہم از نگاہِ ما گم است

11۔ مدعا ئے ‘ما مآلِ ما یکے ست
طرزو اندازِ خیالِ ما یکے ست

12۔ گر خدا داری زغم آزاد شو
از خیالِ بیش و کم آزاد شو

13۔ بیم غیر اللہ عمل را دشمن است
کاروانِ زندگی را رہزن است

14۔ ہرکہ رمزِ مصطفی فہمیدہ است
شرک را در خوف مضمر دیدہ است

15۔ گربہ اللہ الصمد دل بستہٖ
از حدِ اسباب بیروں جستہٖ

16۔ بندۂ حق بندۂ اسباب نیست
زندگانی گردشِ دولاب نیست

ترجمہ:

  1. جذبات و پیمائش کی اس دنیا میں عقل آوارہ پھر رہی تھی، توحید سے اسے منزل کی طرف رہنمائی حاصل ہوئی۔
  2. ورنہ عقل کو منزل کہاں نصیب تھی، فہم کی کشتی کے لئے کوئی ساحل نہیں تھا۔
  3. اہل حق توحید کی رمز کو خوب جانتے ہیں یہی راز‘( آیت) ’’اٰتِی الرَّحْمٰنِ عَبْدًا‘‘ (مریم، 19: 93) میں مضمر ہے۔
  4. دین، حکمت، شریعت سب توحید ہی سے ہیں، اسی سے (افراد و قوم) میں زور، قوت اور ثبات و استحکام پیدا ہوتا ہے۔
  5. توحید کی قدرت بندے کو برگزیدہ بنا دیتی ہے اور اسے نئی نوع میں تبدیل کر دیتی ہے۔
  6. عقیدۂ توحید سے اللہ تعالیٰ کی راہ میں بندے کی تگ و دو تیز ہو جاتی ہے اور اس کی رگوں میں دوڑتا ہوا خون برق سے بھی زیادہ گرم ہو جاتا ہے۔
  7. ملت مسلمہ بدن ہے اور توحید اس کی جان ہے لا إلہ ہمارے ساز کے سارے نغموں میں ہم آہنگی پیدا کرتا ہے۔
  8. لَا إلہ ہمارے (روحانی) اسرار کا سرمایہ ہے اسی سے ہمارے افکار کی شیرازہ بندی ہے۔
  9. توحید کی برکت سے بلالِ حبشی ؓسرخ رنگ والوں کے برابر ہو جاتا ہے اور فاروقؓ و ابوذرؓ کا رشتہ دار شمار ہونے لگتا ہے۔
  10. ملت اسلامیہ کا باہمی تعلق ستاروں کے باہمی تعلق کی مانند ہے اور یہ تعلق نگاہ کی طرح ہماری نگاہ سے گم ہے۔
  11. ہمارا مدعا بھی ایک ہے اور ہمارا مقصد بھی ایک ہے ہماری سوچ بھی ایک ہے اور اس کے اظہار کا طریقہ بھی ایک جیسا ہے۔
  12. اگر تمہارا اللہ پر ایمان ہے تو ہر طرح کے غم اور نفع و نقصان کے خیال سے آزاد ہو جا۔
  13. ( یاد رکھ )غیر اللہ کا خوف عمل کا دشمن اور قافلہ حیات کا رہزن ہے۔
  14. جس کسی نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے راز کو سمجھ لیا وہ او حقیقت کو پا گیا کہ (غیر اللہ کے) خوف میں شرک چھپا ہوا ہے۔
  15. اگر تونے اللہ تعالیٰ کی شانِ استغناء دل سے تسلیم کر لیا ہے توگویا تو اسباب کی حدود کو پھلانگ گیا۔
  16. اللہ تعالیٰ کا بندہ بندئہ اسباب نہیں، اس کے لئے زندگی رہٹ کی گردش نہیں۔


17۔ مسلم استی بے نیاز از غیر شو
اہلِ عالم را سراپا خیر شو

18۔ نقطۂ ادوارِ عالم لا الہ
انتہائے کارِ عالم لا الہ

19۔ زانکہ در تکبیر رازِ بودِ تست
حفظ و نشرِ لا الہ مقصودِ تست

20۔ ما کہ توحید خدارا حجتیم
حافظ رمز کتاب و حکمتیم

21۔ حق تعالیٰ پیکرِ ما آفرید
وز رسالت در تنِ ما جان دمید

22۔ از رسالت درجہاں تکوینِ ما
از رسالت دینِ ما آئینِ ما

23۔ از رسالت صد ہزار ما یک است
جزو ما از جزو ما لا ینفک است

24۔ ما ز حکمِ نسبتِ او ملّتیم
اہلِ عالم را پیامِ رحمتیم

25۔ از میان بحر او خیزیم ما
مثلِ موج ازہم نمیریزیم ما

26۔ دامنش از دست دادن ُمردن است
چوں گل از بادِ خزاں افسردن است

27۔ زندگی قوم ازدمِ او یافت است
ایں سحر از آفتابش تافت است

28۔ فرد از حق‘ ملت از وے زندہ است
از شعاعِ مہرِ او تابندہ است

29۔ دینِ فطرت از نبی آموختیم
در رہِ حق مشعلے افروختیم

30۔ ایں گہر از بحر بے پایانِ اوست
ما کہ یکجا نیم از احسانِ اوست

31۔ پس خدا برما شریعت ختم کرد
بر رسولِ ما رسالت ختم کرد

32۔ قوم را سرمایۂ قوت ازو
تا ابد اسلام را شیرازہ بست

33۔ بایکی ساز ‘ از دوئی بردار رخت
وحدتِ خود را مگرداں لخت لخت

34۔ صدملل از ملّتے انگیختی
برحصارِ خود شبیخوں ریختی

35۔ یک شوو توحید را مشہود کن
غائبش را از عمل موجود کن

ماخوذ از رموزِ بےخودی

  1. اگر تو سچا مسلمان ہے تو غیر اللہ سے بے نیاز ہو جا اور دنیا والوں کے لئے سراپا خیر بن جا۔
  2. جہانوں کی گردش کا مرکز لا الہ ہے اور اس جہان کے کام کی انتہا بھی لا الہ ہے۔
  3. چونکہ تیرے وجود کا راز نعرئہ تکبیر میں پنہاں ہے اس لئے توحید کی حفاظت و اشاعت تیرا مقصود ہے۔
  4. ہم چونکہ اللہ تعالیٰ کی توحید کی حجت ہیں اس لئے کتاب و حکمت کے راز کے نگہبان بھی ہیں۔
  5. اللہ تعالیٰ نے امتِ مسلمہ کا پیکر تخلیق فرمایا اور رسالت سے اس پیکر میں جان پھونکی۔
  6. رسالت ہی سے اس دنیا میں ہمارا وجود قائم ہے رسالت سے ہی ہمارا دین اور ہمارا آئین (شریعت) ہے۔
  7. رسالت ہی سے ہم ہزارہا ہونے کے باوجود ایک ہیں اسی کی بدولت ہمارا ایک جزو دوسرے کا جزو لاینفک (جدا نہ ہونے والا) ہے۔
  8. ہم حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسبت سے ایک ملت ہیں اور دنیا والوں کے لئے رحمت کا پیغام ہیں۔
  9. ہم رسالت کے سمندر سے اٹھے ہیں اور موج کی مانند ہم ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوتے۔
  10. حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دینا موت ہے یہ ایسے ہے جیسے پھول باد خزاں سے مرجھا جائے۔
  11. ملت نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دم سے زندگی پائی ہے ملت کی صبح آپ کے آفتاب سے روشن ہے۔
  12. فرد اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق سے قائم ہے اور ملت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تعلق سے زندہ ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آفتاب کی شعاع سے چمک رہی ہے۔
  13. یہ دین فطرت ہم نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سیکھا ہے اور اس کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی راہ میں مشعلِ ہدایت روشن کی ہے۔
  14. دین فطرت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بحر بے پایان کا موتی ہے ہم جو یک جان ہیں تو یہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہی احسان ہے۔
  15. اللہ تعالیٰ نے شریعت ہم پر ختم کر دی ہے جیسے رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر رسالت ختم کر دی ہے۔
  16. یہی چیز ملت کے لئے سرمایہ قوت اور وحدت ملت کے بھید کی حفاظت کرنے والی ہے۔
  17. توحید کی حقیقت کو اپنالے اور کثرت کو خیرباد کہہ اپنی وحدت کو ٹکڑے ٹکڑے نہ کر۔
  18. تو نے (افتراق کے باعث) ایک ملت سے سینکڑوں ملتیں بنا لی ہیں تو نے اپنے قلعہ پر خود شبخوں مارا ہے اور اسے تباہ و برباد کر دیا ہے۔
  19. (اپنی اور ملت کی بقاء کے لئے) ایک ہو جا اور توحید کا عملی نمونہ پیش کر، نظریہ توحید کو عمل سے وجود میں لا۔

Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved