ہدایۃ الامۃ علی منہاج القرآن والسنۃ - الجزء الاول

اللہ عزوجل سے خوف و امید کا بیان

فَصْلٌ فِي الْخَوْفِ وَالرَّجَاء مِنَ اللهِ تَعَالَی

{اللہ عزوجل سے خوف و اُمید کا بیان}

اَلْآیَاتُ الْقُرْآنِيَّةُ

1۔ وَلَا تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ بَعْدَ اِصْلَاحِھَا وَادْعُوْهُ خَوْفًا وَّ طَمَعًاط اِنَّ رَحْمَتَ اللهِ قَرِيْبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِيْنَo

(الأعراف،7 : 56)

’’اور زمین میں اس کے سنور جانے (یعنی ملک کا ماحولِ حیات درست ہو جانے) کے بعد فساد انگیزی نہ کرو اور (اس کے عذاب سے) ڈرتے ہوئے اور (اس کی رحمت کی) امید رکھتے ہوئے اس سے دعا کرتے رہا کرو، بے شک اللہ کی رحمت احسان شعار لوگوں (یعنی نیکوکاروں) کے قریب ہوتی ہےo‘‘

2۔ اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِيْنَ اِذَا ذُکِرَ اللهُ وَجِلَتْ قُلُوْبُهُمْ وَ اِذَا تُلِیَتْ عَلَيْهِمْ اٰیٰـتُهٗ زَادَتْهُمْ اِيْمَانًا وَّ عَلٰی رَبِّهِمْ یَتَوَکَّلُوْنَo

(الأنفال، 8 : 2)

’’ایمان والے (تو) صرف وہی لوگ ہیں کہ جب (ان کے سامنے) اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے (تو) ان کے دل (اس کی عظمت و جلال کے تصور سے) خوفزدہ ہو جاتے ہیں اور جب ان پر اس کی آیات تلاوت کی جاتی ہیں تو وہ (کلامِ محبوب کی لذت انگیز اور حلاوت آفریں باتیں) ان کے ایمان میں زیادتی کر دیتی ہیں اور وہ (ہر حال میں) اپنے رب پر توکل (قائم) رکھتے ہیں (اور کسی غیر کی طرف نہیں تکتے)o‘‘

3۔ هُوَ الَّذِيْ یُرِيْکُمُ الْبَرْقَ خَوْفًا وَّ طَمَعًا وَّیُنْشِیئُ السَّحَابَ الثِّقَالَo

(الرعد، 13 : 12)

’’وہی ہے جو تمہیں (کبھی) ڈرانے اور (کبھی) امید دلانے کے لیے بجلی دکھاتا ہے اور (کبھی) بھاری (گھنے) بادلوں کو اٹھاتا ہےo‘‘

4۔ اِنَّ الَّذِيْنَ ھُمْ مِّنْ خَشْیَةِ رَبِّھِمْ مُّشْفِقُوْنَo وَالَّذِيْنَ ھُمْ بِاٰیٰتِ رَبِّھِمْ یُؤْمِنُوْنَo وَالَّذِيْنَ هُمْ بِرَبِّهِمْ لَا یُشْرِکُوْنَo وَالَّذِيْنَ یُؤْتُوْنَ مَآ اٰتَوْا وَّقُلُوْبُهُمْ وَجِلَةٌ اَنَّهُمْ اِلٰی رَبِّهِمْ رٰجِعُوْنَo اُولٰٓـئِکَ یُسٰرِعُوْنَ فِی الْخَيْرٰتِ وَهُمْ لَهَا سٰبِقُوْنَo

(المؤمنون، 23 : 57-61)

’’بے شک جو لوگ اپنے رب کی خشیّت سے مضطرب اور لرزاں رہتے ہیںo اور جو لوگ اپنے رب کی آیتوں پر ایمان رکھتے ہیںoاور جو لوگ اپنے رب کے ساتھ (کسی کو) شریک نہیں ٹھہراتےoاور جو لوگ (اللہ کی راہ میں اتنا کچھ) دیتے ہیں جتنا وہ دے سکتے ہیں اور (اس کے باوجود) ان کے دل خائف رہتے ہیں کہ وہ اپنے رب کی طرف پلٹ کر جانے والے ہیں (کہیں یہ نا مقبول نہ ہو جائے)o یہی لوگ بھلائیوں (کے سمیٹنے میں) جلدی کر رہے ہیں اور وہی اس میں آگے نکل جانے والے ہیںo‘‘

5۔ مَنْ خَشِیَ الرَّحْمٰنَ بِالْغَيْبِ وَجَآءَ بِقَلْبٍ مُّنِيْبِo نِادْخُلُوْھَا بِسَلٰمٍ ط ذٰلِکَ یَوْمُ الْخُلُوْدِo لَھُمْ مَّا یَشَآءُوْنَ فِيْھَا وَلَدَيْنَا مَزِيْدٌo

(ق، 50 : 33۔35)

’’جو (خدائے) رحمان سے بِن دیکھے ڈرتا رہا اور (اللہ کی بارگاہ میں) رجوع واِنابت والا دِل لے کر حاضر ہواo اس میں سلامتی کے ساتھ داخل ہو جائو، یہ ہمیشگی کا دن ہےo اس (جنت) میں ان کے لیے وہ تمام نعمتیں (موجود) ہوں گی جن کی وہ خواہش کریں گے اور ہمارے حضور میں ایک نعمت مزید بھی ہے (یا اور بھی بہت کچھ ہے، سو عاشق مست ہوجائیں گےo‘‘

6۔ وَ لِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ جَنَّـتٰنِo

(الرحمن، 55 : 46)

’’اور جو شخص اپنے رب کے حضور (پیشی کے لیے) کھڑا ہونے سے ڈرتا ہے اُس کے لیے دو جنتیں ہیںo‘‘

7۔ وَاَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ وَنَهَی النَّفْسَ عَنِ الْهَوٰیo فَاِنَّ الْجَنَّةَ هِیَ الْمَاْوٰیo

(النزعٰت، 79 : 40، 41)

’’اور جو شخص اپنے رب کے حضور کھڑا ہونے سے ڈرتا رہا اور اُس نے (اپنے) نفس کو (بری) خواہشات و شہوات سے باز رکھاo تو بے شک جنت ہی (اُس کا) ٹھکانا ہوگاo‘‘

اَلْأَحَادِيْثُ النَّبَوِيَّةُ

1۔ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه قَالَ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ یَقُوْلُ : إِنَّ اللهَ خَلَقَ الرَّحْمَةَ یَوْمَ خَلَقَهَا مِائَةَ رَحْمَةٍ فَأَمْسَکَ عِنْدَهُ تِسْعًا وَتِسْعِيْنَ رَحْمَةً وَأَرْسَلَ فِي خَلْقِهِ کُلِّهِمْ رَحْمَةً وَاحِدَةً فَلَوْ یَعْلَمُ الْکَافِرُ بِکُلِّ الَّذِي عِنْدَ اللهِ مِنَ الرَّحْمَةِ لَمْ یَيْئَسْ مِنَ الْجَنَّةِ وَلَوْ یَعْلَمُ الْمُؤْمِنُ بِکُلِّ الَّذِي عِنْدَ اللهِ مِنَ الْعَذَابِ لَمْ یَأْمَنْ مِنَ النَّارِ۔ مُتَّفَقٌ عَلَیهِ۔

1 : أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب : الرقاق، باب : الرجاء مع الخوف، 5 / 2374، الرقم : 6104، ومسلم، الصحیح، کتاب : التوبۃ، باب : في سعۃ رحمۃ الله تعالی وأنها سبقت غضبه، 4 / 2109، الرقم : 2755، والترمذي في الجامع الکبیر، کتاب، الدعوات، باب : خلق الله مائۃ رحمۃ، 5 / 549، الرقم : 3542۔

’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : جس روز اللہ تعالیٰ نے رحمت کو پیدا فرمایا تو اس کے سو حصے کیے اور ننانوے حصے اپنے پاس رکھ کر ایک حصہ اپنی ساری مخلوق کے لیے بھیج دیا۔ پس اگر کافر بھی یہ جان لے کہ اللہ تعالیٰ کے پاس کتنی رحمت ہے تو وہ بھی جنت سے مایوس نہ ہو اور اگر مومن یہ جان جائے کہ اس کے پاس کتنا عذاب ہے تو جہنم سے وہ بھی بے خوف نہ رہے۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

2۔ عَنْ أَبِي مُوْسَی رضي الله عنه قَالَ : خَسَفَتِ الشَّمْسُ فَقَامَ النَّبِيُّ ﷺ فَزِعًا یَخْشَی أَنْ تَکُوْنَ السَّاعَةُ فَأَتَی الْمَسْجِدَ یُصَلِّي بِأَطْوَلِ قِیَامٍ وَرُکُوْعٍ وَسُجُوْدٍ رَأَيْتُهُ قَطُّ یَفْعَلُهُ وَقَالَ : هَذِهِ الْآیَاتُ الَّتِي یُرْسِلُ اللهُ لَا تَکُوْنُ لِمَوْتِ أَحَدٍ وَلَا لِحَیَاتِهِ وَلَکِنَّ یُخَوِّفُ بِهَا عِبَادَهُ فَإِذَا رَأَيْتُمْ شَيْئًا مِنْ ذٰلِکَ فَافْزَعُوْا إِلَی ذِکْرِهِ وَدُعَائِهِ وَاسْتِغْفَارِهِ۔ مُتَّفَقٌ عَلَیهِ۔

2 : أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب : الکسوف، باب : الذکر في الکسوف، 1 / 360، الرقم : 1010، ومسلم في الصحیح، کتاب : الکسوف، باب : ذکر النداء بصلاۃ الکسوف الصلاۃ جامعۃ، 2 / 628، الرقم : 912، والنسائي في السنن، کتاب الکسوف، باب : الأمر بالاستغفار في الکسوف، 3 / 153، الرقم : 1503، وفي السنن الکبری، 1 / 582، الرقم : 1890۔

’’حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ کے زمانہ میں سورج کو گرہن لگا، آپ ﷺ گھبرا کر اس طرح خوف سے کھڑے ہوئے کہ جیسے قیامت آ گئی ہو۔ آپ ﷺ مسجد میں آئے اور نماز میں سب سے پہلے طویل قیام کیا، طویل رکوع اور طویل سجدہ کیا۔ میں نے اس سے پہلے کبھی آپ کو اس طرح نماز پڑھتے نہیں دیکھا، پھر آپ ﷺ نے فرمایا : یہ اللہ تعالیٰ کی نشانیاں ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ بھیجتا ہے، یہ کسی کی موت اور حیات کی وجہ سے نہیں ہیں، لیکن اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو ڈرانے کے لیے ان نشانیوں کو بھیجتا ہے۔ جب تم اس قسم کی کوئی چیز دیکھو تو اللہ تعالیٰ کے ذکر، اس سے دعا اور استغفار کی پناہ میں آئو۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

3۔ عَنْ أَبِي ھُرَيْرَةَ رضي الله عنه عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ : کَانَ رَجَلٌ یُسْرِفُ عَلَی نَفْسِهِ، فَلَمَّا حَضَرَهُ الْمَوْتُ قَالَ لِبَنِيْهِ : إِذَا أَنَا مُتُّ فَأَحْرِقُوْنِي، ثُمَّ اطْحَنُوْنِي، ثُمَّ ذَرُّوْنِي فِي الرِّيْحِ، فَوَاللهِ، لَئِنْ قَدَرَ عَلَيَّ رَبِّي لَیُعَذِّبَنِيِ عَذَابًا مَا عَذَّبَهُ أَحَدًا، فَلَمَّا مَاتَ فُعِلَ بِهِ ذَلِکَ، فَأَمَرَ اللهُ اْلأَرْضَ فَقَالَ : اجْمَعِي مَا فِيْکِ مِنْهُ، فَفَعَلَتْ، فَإِذَا ھُوَ قَائِمٌ، فَقَالَ : مَا حَمَلَکَ عَلَی مَا صَنَعْتَ؟ قَالَ : یَا رَبِّ، خَشْیَتُکَ، أَوْ قَالَ : مَخَافَتُکَ یَا رَبِّ، فَغَفَرَ لَهُ۔ مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ۔

3 : أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب : الأنبیائ، باب : أَمْ حَسِبْتَ أَنَّ أَصْحَابَ الْکَھْفِ وَالرَّقِيْمِ ، 3 / 1283، الرقم : 3294 ومسلم في الصحیح، کتاب : التوبۃ، باب : في سعۃ رحمۃ الله تعالی، وأنها سبقت غضبه، 4 / 310، الرقم : 2756، والنسائي في السنن، کتاب : الجنائز، باب : أرواح المؤمنین، 4 / 112، الرقم : 2079۔ 2080، وفي السنن الکبری، 1 / 666، الرقم : 2206۔

’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ایک آدمی اپنے اوپر (کثرتِ گناہ کی صورت میں) ظلم و زیادتی کرتا رہا ، جب اس کی موت کا وقت آیاتو اس نے اپنے بیٹوں سے کہا : جب میں فوت ہو جاؤں تو مجھے اچھی طرح جلا دینا، پھر (میرے جلے ہوئے جسم کو) پیس دینا، میری راکھ ہوا میں اُڑا دینا، اللہ کی قسم! اگر میرے ربّ نے مجھے پکڑ لیا تو وہ مجھے ایسا عذاب دے گا کہ اس جیسا عذاب کبھی کسی کو نہ دیا ہوگا۔ جب وہ فوت ہوگیا تو اس کے ساتھ اُسی طرح کیا گیا(جس طرح اُس نے وصیت کی تھی)۔ اللہ تعالیٰ نے زمین کو حکم دیا : اپنے اندر موجود اس کے (بکھرے ہوئے) ذرّات جمع کر دے۔ اس نے ذرّات جمع کر دیئے تو وہ (پورے جسم کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے سامنے) کھڑا ہو گیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : تمہیں اس حرکت پر کس چیز نے آمادہ کیا تھا؟ اس نے عرض کیا : اے میرے رب! تیرے خوف نے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے(قلبی خوف وخشیت کی وجہ سے) بخش دیا۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

4۔ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ : إِنَّ ِللهِ مِائَةَ رَحْمَةٍ أَنْزَلَ مِنْهَا رَحْمَةً وَاحِدَةً بَيْنَ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ وَالْبَهَائِمِ وَالْهَوَامِّ، فَبِهَا یَتَعَاطَفُوْنَ، وَبِهَا یَتَرَاحَمُوْنَ، وَبِهَا تَعْطِفُ الْوَحْشُ عَلَی وَلَدِهَا، وَأَخَّرَ اللهُ تِسْعًا وَتِسْعِيْنَ رَحْمَةً یَرْحَمُ بِهَا عِبَادَهُ یَوْمَ الْقِیَامَةِ۔ رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَابْنُ مَاجَه وَأَحْمَدُ وَأَبُوْ یَعْلَی۔

4 : أخرجه مسلم في الصحیح، کتاب : التوبۃ، باب : في سعۃ رحمۃ الله تعالی وأنها سبقت غضبه، 4 / 2108، الرقم : 2752، وابن ماجه في السنن، کتاب : الزھد، باب : ما یرجی من رحمۃ الله یوم القیامۃ، 2 / 1435، الرقم : 4293، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 434، الرقم : 9607، وأبو یعلی في المسند، 11 / 258، 328، الرقم : 6372، 6445۔

’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ کے پاس سو رحمتیں ہیں اس نے ان میں سے ایک رحمت جن و انس و حیوانات و حشرات الارض میں نازل کی جس سے وہ ایک دوسرے پر شفقت کرتے ہیں اور رحم کرتے ہیں، اسی سے وحشی جانور اپنے بچوں پر رحم کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے ننانوے رحمتیں بچا رکھی ہیں، ان سے قیامت کے دن اپنے بندوں پر رحم فرمائے گا۔‘‘

اس حدیث کو امام مسلم، ابن ماجہ، احمد اور ابویعلی نے روایت کیا ہے۔

5۔ عَنْ أَنَسٍ رضي الله عنه أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ دَخَلَ عَلَی شَابٍّ وَهُوَ فِي الْمَوْتِ۔ فَقَالَ : کَيْفَ تَجِدُکَ؟ قَالَ : وَاللهِ، یَا رَسُوْلَ اللهِ، أَنِّي أَرْجُو اللهَ وَإِنِّي أَخَافُ ذُنُوْبِي۔ فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : لَا یَجْتَمِعَانِ فِي قَلْبِ عَبْدٍ فِي مِثْلِ هَذَا الْمَوْطِنِ إِلَّا أَعْطَاهُ اللهُ مَا یَرْجُو وَآمَنَهُ مِمَّا یَخَافُ۔ رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَابْنُ مَاجَه وَالنَّسَائِيُّ۔

5 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : الجنائز، باب : 11، 3 / 311، الرقم : 983، وابن ماجه في السنن، کتاب الزھد، باب : ذکرالموت والاستعداد له، 2 / 1423، الرقم : 4261، والنسائي في السنن الکبری، 6 / 262، الرقم : 10901، والبیهقي في شعب الإیمان، 2 / 4، الرقم : 1001۔

’’حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ ایک نوجوان کے پاس تشریف لے گئے، وہ قریب الموت تھا، آپ ﷺ نے فرمایا : تم اپنے آپ کو کیسے پاتے ہو؟ عرض کیا : یا رسول اللہ! اللہ تعالیٰ کی قسم، اللہ تعالیٰ (کی رحمت) کی امید بھی ہے اور گناہوں کا خوف بھی۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اس موقع پر جب مومن کے دل میں یہ دونوں باتیں جمع ہوتی ہیں تو اللہ تعالیٰ اسے اس کے مطابق عطا فرماتا ہے جس کی وہ امید کرتا ہے اور جس کا ڈر ہو اس سے امان دیتا ہے۔‘‘

اس حدیث کو امام ترمذی، ابن ماجہ اور نسائی نے روایت کیا ہے۔

6۔ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضي الله عنه قَالَ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ یَقُوْلُ : قَالَ اللهُ تَبَارَکَ وَتَعَالَی : یَا ابْنَ آدَمَ، إِنَّکَ مَا دَعَوْتَنِي وَرَجَوْتَنِي غَفَرْتُ لَکَ عَلَی مَا کَانَ فِيْکَ وَلَا أُبَالِي۔ یَا ابْنَ آدَمَ، لَوْ بَلَغَتْ ذُنُوْبُکَ عَنَانَ السَّمَاءِ ثُمَّ اسْتَغْفَرْتَنِي غَفَرْتُ لَکَ وَلَا أُبَالِي۔ یَا ابْنَ آدَمَ، إِنَّکَ لَوْ أَتَيْتَنِي بِقُرَابِ الْأَرْضِ خَطَایَا ثُمَّ لَقِيْتَنِي لَا تُشْرِکُ بِي شَيْئًا لَأَتَيْتُکَ بِقُرَابِھَا مَغْفِرَةً۔

رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالدَّارِمِيُّ وَأَحْمَدُ وَالطَّبَرَانِيُّ، وَقَالَ أَبُوْ عِيْسَی : هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ۔

6 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : الدعوات، باب : في فضل التوبۃ والاستغفار وما ذکر من رحمۃ الله لعباده، 5 / 548، الرقم : 3540، والدارمي في السنن، 2 / 414، الرقم : 2788، وأحمد بن حنبل في المسند، 5 / 167، الرقم : 21510، 21544، والطبراني عن ابن عباس رضي الله عنھما في المعجم الکبیر، 12 / 19، الرقم : 12346۔

’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے حضور نبی اکرم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : اے ابن آدم! جب تک تو مجھ سے دعا کرتا رہے گا اور امید رکھے گا جو کچھ بھی تو کرتا رہے میں تجھے بخشتا رہوں گا اور مجھے کوئی پروا نہیں۔ اے ابن آدم! اگر تیرے گناہ آسمان کے بادلوں تک پہنچ جائیں پھر بھی تو بخشش مانگے تو میں بخش دوں گا مجھے کوئی پرواہ نہیں۔ اے ابن آدم! اگر تو زمین بھر کے برابر گناہ بھی لے کر میرے پاس آئے پھر مجھے اس حالت میں ملے کہ تو نے میرے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہرایا ہو تو یقینا میں زمین بھر کے برابر تجھے بخشش عطا کروں گا۔‘‘

اس حدیث کو امام ترمذی، دارمی، احمد اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔ اور امام ابو عیسی ترمذی نے فرمایا : یہ حدیث حسن ہے۔

7۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما قَالَ : لَمَّا أَنْزَلَ اللهُ عزوجل عَلَی نَبِيِّهِ ﷺ هَذِهِ الْآیَةَ : {یٰٓـاَيَّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا قُوْٓا اَنْفُسَکُمْ وَاَهْلِيْکُمْ نَارًا وَّقُوْدُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ} [التحریم، 66 : 6] تَـلَاھَا رَسُوْلُ اللهِ ﷺ ذَاتَ یَوْمٍ عَلَی أَصْحَابِهِ فَخَرَّ فَتًی مَغْشِیًا عَلَيْهِ، فَوَضَعَ النَّبيُّ ﷺ یَدَهُ عَلَی فُؤَادِهِ فَإِذَا ھُوَ یَتَحَرَّکُ۔ فَقَالَ رَسُوْلُ الله ﷺ : یَا فَتَی، قُلْ : لَا إِلَهُ إِلَّا اللهُ، فَقَالَھَا فَبَشَّرَهُ بِالْجَنَّةِ۔ فَقَالَ أَصْحَابُهُ : یَا رَسُوْلَ اللهِ، أَ مِنْ بَيْنِنَا قَالَ أَوْ مَا سَمِعْتُمْ قَوْلَهُ تَعَالَی : {ذٰلِکَ لِمَنْ خَافَ مَقَامِيْ وَخَافَ وَعِيْدِ} [إبراهیم، 14 : 14]۔ رَوَاهُ الْحَاکِمُ، وَقَالَ : صَحِيْحُ الْإِسْنَادِ وَالْبَيْهَقِيُّ۔

7 : أخرجه الحاکم في المستدرک، 2 / 382، الرقم : 3338، والبیهقي في شعب الإیمان، 1 / 468، الرقم : 734، والمنذري في الترغیب والترھیب، 4 / 116، 134، الرقم : 5044، 5122، والحکیم الترمذي في نوادر الأصول، 1 / 184۔

’’حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ جب اللہ رب العزت نے اپنے نبی مکرم ﷺ پر یہ آیت نازل فرمائی : {اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں۔} تو حضور نبی اکرم ﷺ نے ایک دن صحابہ میں اس کی تلاوت فرمائی : ایک نوجوان یہ آیت سن کے بے ہوش ہو کر گر پڑا۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے اپنا ہاتھ مبارک اس کے دل پر رکھا تو وہ دھڑک رہا تھا۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اے نوجوان! کہو : ’’لا إلہ إلا اللہ‘‘ اس نے یہ کلمہ پڑھا تو آپ ﷺ نے اسے جنت کی بشارت دی۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا : یا رسول اللہ! کیا وہ ہم میں سے ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا : کیا تم نے اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان نہیں سنا : {یہ (وعدہ) ہر اُس شخص کے لئے ہے جو میرے حضور کھڑا ہونے سے ڈرا اور میرے وعدئہ (عذاب) سے خائف ہوا}۔‘‘

اِس کو حاکم اور بیہقی نے روایت کیا اور امام حاکم نے کہا ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے۔

8۔ عَنْ أَنَسٍ رضي الله عنه : أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ : مَنْ ذَکَرَ اللهَ فَفَاضَتْ عَيْنَاهُ مِنْ خَشْیَةٍ حَتَّی یُصِيْبَ الْأَرْضَ مِنْ دُمُوْعِهِ لَمْ یُعَذَّبْ یَوْمَ الْقِیَامَةِ۔

رَوَاهُ الْحَاکِمُ، وَقَالَ : صَحِيْحُ الْإِسْنَادِ۔ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَالطَّبَرَانِيُّ۔

8 : أخرجه الحاکم في المستدرک، 4 / 289، الرقم : 7668، وابن أبي شیبۃ عن أبي بن کعب في المصنف، 7 / 224، الرقم : 35526، والطبراني في المعجم الأوسط، 2 / 178، الرقم : 1641، و6 / 196، الرقم : 6171۔

’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جس شخص نے اللہ تعالیٰ کا ذکر کیا اور پھر خشیتِ الٰہی کی بناء پر اُس کی آنکھوں سے اس قدر اشک رواں ہوئے کہ وہ زمین تک پہنچ گئے تو اسے روزِ قیامت عذاب نہیں دیا جائے گا۔‘‘ اس حدیث کو امام حاکم، ابن ابی شیبہ اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔

9۔ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه عَنِ النَّبِيِّ ﷺ فِيْمَا یَرْوِي عَنْ رَبِّهِ عزوجل أَنَّهُ قَالَ : وَعِزَّتِي لَا أَجْمَعُ عَلَی عَبْدِي خَوْفَيْنِ وَأَمْنَيْنِ إِذَا خَافَنِي فِي الدُّنْیَا أَمَّنْتُهُ یَوْمَ الْقِیَامَةِ وَإِذَا أَمِنَنِي فِي الدُّنْیَا أَخَفْتُهُ یَوْمَ الْقِیَامَةِ۔ رَوَاهُ ابْنُ حِبَّانَ وَالْبَيْهَقِيُّ۔

9 : أخرجه ابن حبان في الصحیح، 2 / 406، الرقم : 640، والبیهقي في شعب الإیمان، 1 / 483، الرقم : 777، والمنذري في الترغیب والترھیب، 4 / 131، الرقم : 5110، والھیثمي في موارد الظمآن، 1 / 617، الرقم : 2494۔

’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم ﷺ سے ان باتوں میں جو آپ ﷺ نے اللہ تعالیٰ سے روایت کیں، روایت کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : مجھے میری عزت کی قسم ہے! میں اپنے بندے میں دو خوف اور دو امن اکٹھے نہیں کروں گا۔ اگر اس نے دنیا میں مجھ سے خوف رکھا تو میں اسے قیامت کے دن امن دوں گا اور اگر دنیا میں وہ مجھ سے بے خوف رہا تو میں اسے قیامت کے دن خوف سے دوچار کر دوں گا۔‘‘ اس حدیث کو امام ابن حبان اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔

10۔ عَنِ الْعَبَّاسِ ابْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ رضي الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : إِذَا اقْشَعَرَّ جِلْدُ الْعَبْدِ مِنْ خَشْیَةِ اللهِ تَحَاتَّتْ عَنْهُ ذُنُوْبُهُ کَمَا یَتَحَاتُّ عَنِ الشَّجَرَةِ الْیَابِسَةِ وَرَقُھَا۔ رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ۔

وَفِي رِوَایَةٍ : قَالَ : کُنَّا جُلُوْسًا مَعَ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ تَحْتَ شَجَرَةٍ فَھَاجَتِ الرِّيْحُ فَوَقَعَ مَا کَانَ فِيْهَا مِنْ وَرَقٍ أَخْضَرَ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : مَا مَثَلُ ھَذِهِ الشَّجَرَةِ؟ فَقَالَ الْقَوْمُ : اَللهُ وَرَسُوْلُهُ أَعْلَمُ۔ فَقَالَ : مَثَلُ الْمُؤْمِنِ إِذَا اقْشَعَرَّ مِنْ خَشْیَةِ اللهِ عزوجل وَقَعَتْ عَنْهُ ذُنُوْبُهُ وَبَقِیَتْ لَهُ حَسَنَاتُهُ۔ رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ وَأَبُوْیَعْلَی۔

10 : أخرجه البیھقي في شعب الإیمان، 1 / 491، 492، الرقم : 803، 804، وأبو یعلی في المسند، 12 / 60، الرقم : 6703، والمنذري في الترغیب والترھیب، 4 / 117، 134، الرقم : 5047، 5121، والھیثمي في مجمع الزوائد، 10 / 310۔

’’حضرت عباس بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جب اللہ تعالیٰ کے خوف سے کسی بندے کے رونگٹے کھڑے ہوجائیں تو اُس کے گناہ ایسے جھڑ جاتے ہیں جیسے سوکھے درخت کے پتے۔‘‘ اسے امام بیہقی نے روایت کیا ہے۔

ایک اور روایت میں ہے : ’’ہم حضور نبی اکرم ﷺ کے ساتھ ایک درخت کے نیچے بیٹھے تھے کہ اچانک تیز ہوا کا جھونکا آیا جس سے اس درخت کے خشک پتے گر گئے اور سبز پتے باقی رہ گئے۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اس درخت کی مثال کس کی طرح ہے؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا : اللہ اور اس کا رسول ﷺ سب سے بہتر جانتے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا : اس کی مثال اُس مومن کی مانند ہے جس کے خشیتِ الٰہی کے باعث رونگٹے کھڑے ہو گئے تو اس کے گناہ اس سے جھڑ گئے اور اُس کی نیکیاں باقی رہ گئیں۔‘‘ اس حدیث کو امام بیہقی اور ابو یعلی نے روایت کیا ہے۔

11۔ عَنْ أَبِي ذَرٍّ رضي الله عنه أَوْصَانِي خَلِيْلِي ﷺ أَنْ أَخْشَی اللهَ کَأَنِّي أَرَاهُ، فَإِنْ لَمْ أَکُنْ أَرَاهُ فَإِنَّهُ یَرَانِي۔ رَوَاهُ أَبُوْ نُعَيْمٍ۔

11 : أخرجه أبو نعیم في کتاب الأربعین : 39، الرقم : 12، وابن رجب الحنبلي في جامع العلوم والحکم، 1 / 126۔

’’حضرت ابو ذر (غفاری) رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ مجھے میرے حبیب ﷺ نے ہدایت فرمائی کہ میں خشیتِ الٰہی میں ایسا ہو جاؤں گویا میں اسے(یعنی اللہ تعالیٰ کو) دیکھ رہا ہوں، پس اگر میں اسے نہیں دیکھ سکتا تو(کم از کم یہ تصور تو پختہ ہونا چاہیے کہ) وہ یقینا مجھے دیکھ رہا ہے۔‘‘

اس حدیث کو امام ابو نعیم نے روایت کیا ہے۔

12۔ عَنْ مُعَاذٍ رضي الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : لَوْخِفْتُمُ اللهَ حَقَّ خِيْفَتِهِ لَعَلِمْتُمُ الْعِلْمَ الَّذِي لَا جَھْلَ مَعَهُ وَلَوْ عَرَفْتُمُ اللهَ حَقَّ مَعْرِفَتِهِ لَزَالَتْ بِدُعَائِکُمُ الْجِبَالُ۔

رَوَاهُ أَبُوْ نُعَيْمٍ وَالْهِنْدِيُّ وَاللَّفْظُ لَهُ۔

12 : أخرجه أبو نعیم في حلیۃ الأولیاء، 8 / 153، والبیهقي في الزهد الکبیر، 2 / 357، الرقم : 976، والمروزي في تعظیم قدر الصلاۃ، 2 / 808، الرقم : 802، وحسام الدین الهندي في کنز العمال، 3 / 142، الرقم : 5881، والحکیم الترمذي في نوادر الأصول، 3 / 106۔

’’حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اگر تم اللہ تعالیٰ سے اس طرح ڈرو جس طرح اس سے ڈرنے کا حق ہے، تو تم ایسا علم جان لو گے جس کے ساتھ جہالت نام کی کوئی شے نہیں ہے، اور اگر تم اللہ تعالیٰ کو کماحقہ پہچان لو تو تمہاری دعاؤں سے پہاڑ ہل جائیں گے۔‘‘

اس حدیث کو امام ابو نعیم اور ہندی نے روایت کیا ہے۔

اَلْآثَارُ وَالْأَقْوَالُ

1۔ قال أبو بکر رضي الله عنه : والله، لوددت أني کنت هذه الشجرۃ تؤکل وتعضد۔

1 : أخرجه أحمد بن حنبل في الزهد : 167۔

’’حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اللہ کی قسم! میں یہ پسند کرتا ہوں کہ کاش میں ایک درخت ہوتا جسے کھایا جاتا اور کاٹا جاتا۔‘‘

2۔ قال عمر بن الخطاب رضي الله عنه : لو نادی مناد من السماء : أیھا الناس، إنکم داخلون الجنۃ کلکم أجمعون إلا رجلًا واحدًا، لخفت أن أکون ھو، ولو نادی مناد : أیھا الناس، إنکم داخلون النار إلا رجلًا واحدًا لرجوت أن أکون ھو۔

2 : أخرجه أبو نعیم في حلیۃ الأولیاء، 1 / 53، وابن رجب الحنبلي في التخویف من النار، 1 / 15۔

’’حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اگر کوئی منادی آسمان سے یہ نداء دے کہ اے انسانو! تم سب جنت میں جاؤ گے سوائے ایک شخص کے، تو مجھے خوف ہے کہ وہ شخص میرے سوا کوئی نہ ہو گا۔ اور اگر منادی یوں نداء دے کہ اے انسانو! تم سب جہنم میں داخل ہو گئے سوائے ایک شخص کے تو مجھے (خدا سے) امید ہے کہ وہ شخص میں ہوں گا۔‘‘

3۔ قال علي بن أبي طالب رضي الله عنه : إن أخوف ما أخاف علیکم اتباع الهوی، وطول الأمل فأما اتباع الهوی فیضل عن الحق، وأما طول الأمل فینسي الآخرۃ۔

3 : أخرجه الشعراني في الطبقات الکبری : 33۔

’’حضرت علی کرم اللہ وجھہ نے فرمایا : مجھے تم پر جس چیز کا سب سے زیادہ ڈر ہے وہ خواہش کی پیروی اور آرزو کی طوالت ہے۔ خواہش کی پیروی حق سے پھیر دیتی ہے اور آرزوؤں کی طوالت آخرت سے بے خبر کر دیتی ہے۔‘‘

4۔ قیل لعلي رضي الله عنه لم ترقع قمیصک؟ قال : یخشع القلب ویقتدي به المؤمن۔

4 : أخرجه الإمام أحمد بن حنبل في الزهد : 193۔

’’حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کہا گیا کہ آپ اپنی قمیض کو پیوند کیوں لگاتے ہیں؟ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : یہ دل میں خوف پیدا کرتا ہے اور اس کے ذریعے مومن میں اقتداء کا جذبہ پیدا ہوتا (نہ کہ غرور)۔‘‘

5۔ قالت عائشۃ رضي الله عنها : وددت أني کنت نسیا منسیا۔

5 : أخرجه الإمام أحمد بن حنبل في الزهد : 241

’’حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا : کاش میں نسیاً منسیاً (بھولی بسری) ہوتی۔‘‘

6۔ عن المغیرۃ بن حکیم قال : قالت لي فاطمۃ بنت عبد الملک : یا مغیرۃ! قد یکون من الرجال من هو أکثر صلاۃ وصوما من عمر بن عبد العزیز، ولکن لم أر رجلا من الناس قط کان أشد فرقا من ربه من عمر بن عبد العزیز، کان إذا دخل بیته ألقی نفسه في مسجده، فلا یزال یبکي، ویدعو حتی تغلبه عیناه، ثم یستیقظ، فیفعل مثل ذلک لیلته أجمع۔

6 : أخرجه ابن المبارک في الزهد : 266، وابن سعد في الطبقات الکبری، 5 / 367، والبیهقي في شعب الإیمان، 1 / 542، الرقم : 977۔

’’حضرت مغیرہ بن حکیم بیان کرتے ہیں کہ مجھے فاطمہ بنت عبد الملک نے کہا : اے مغیرہ! یقینا بعض لوگ نماز، روزہ میں عمر بن عبد العزیز سے بڑھ کے ہوں گے، لیکن میں نے لوگوں میں سے کوئی بھی شخص حضرت عمر بن عبد العزیز رَحِمَهُ اللہ سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والا نہیں دیکھا۔ جب آپ گھر میں داخل ہوتے تو اپنی جائے نماز پر بیٹھ جاتے اور مسلسل روتے اور مناجات کرتے رہتے یہاں تک کہ نیند آپ پر غالب آجاتی، پھر بیدار ہوتے اور پوری رات اسی حالت میں گزار دیتے۔‘‘

7۔ قال السري السقطي رَحِمَهُ الله : خمسۃ أشیاء لا یسکن في القلب معها غیرها : الخوف من الله وحده، والرجاء من الله وحده، والحب ﷲ وحده، والحیاء من الله وحده، والأنس بالله وحده۔

7 : أخرجه أبو نعیم في حلیۃ الأولیاء، 10 / 124۔ 125۔

’’حضرت سری سقطی رَحِمَهُ اللہ نے فرمایا : پانچ چیزیں تزکیہ قلب کا ذریعہ ہیں : 1۔ خوف الٰہی، 2۔ اللہ سے امید وابستہ رکھنا، 3۔ صرف اللہ سے حیاء رکھنا، 4۔ صرف اللہ سے محبت رکھنا، 5۔ انس باللہ۔‘‘

8۔ قال ابن دینار الجعفي رَحِمَهُ الله : اتق الله في خلواتک، وحافظ علی أوقات صلواتک، وغض طرفک عن لحظاتک، تکن عند الله مقربا في حالاتک۔

8 : أخرجه أبو نعیم في حلیۃ الأولیاء، 10 / 162۔

’’ابن دینار جعفی رَحِمَهُ اللہ نے فرمایا : اپنی خلوتوں میں اللہ کا خوف رکھو، اپنی نمازوں کے اوقات کی حفاظت کرو، بدنظری سے اجتناب کرو، تم اپنے احوال میں اللہ تعالیٰ کے مقرب بن جاؤ گے۔‘‘

9۔ سئل أبو بکر الشبلي رَحِمَهُ الله عن الخوف فقال : أن تخاف أن یسلمک إلیک۔

9 : أخرجه أبو نعیم في حلیۃ الأولیاء، 10 / 358۔

’’شیخ ابو بکر شبلی رَحِمَهُ اللہ سے خوف کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ تو اس چیز سے ڈرے کہ اللہ تعالیٰ تجھے تیرے حال پر چھوڑ دے۔‘‘

10۔ سئل أبو بکر الشبلي عن الرجاء فقال : ترجو ألا یقطع بک دونه۔

10 : أخرجه أبو نعیم في حلیۃ الأولیاء، 10 / 358-359۔

’’شیخ ابو بکر شبلی رَحِمَهُ اللہ سے رجاء کے بابت سوال کیا گیا؟ تو آپ نے فرمایا : کہ تو اس چیز سے ڈرے کہ وہ (اللہ تعالیٰ) تجھے تیرے حال پر چھوڑ دے۔‘‘

11۔ قال ذو النون المصري رَحِمَهُ الله : الناس علی الطریق ما لم یزل عنهم الخوف، فإذا زال عنهم الخوف ضلوا عن الطریق۔

11 : أخرجه القشیري في الرسالۃ : 127۔

’’حضرت ذو النون مصری رَحِمَهُ اللہ نے فرمایا : جب تک لوگوں کے (دلوں سے) خوف زائل نہیں ہوتا وہ درست راستہ پر رہتے ہیں جونہی خوف زائل ہوا بھٹک گئے۔‘‘

12۔ قال ذو النون رَحِمَهُ الله : الخَوْف رقیبُ العملِ، والرجاءُ شَفِیع المِحَنِ۔

12 : أخرجه السُّلمي في طبقات الصّوفیۃ : 24۔

’’حضرت ذو النون مصری رَحِمَهُ اللہ نے فرمایا : خوف عمل کا نگہبان ہے اور امید آزمائشوں میں سہارا ہے۔‘‘

13۔ مرض سفیان الثوري فعرض دلیله علی الطبیب، فقال : هذا رجل قطع الخوف کبده، ثم جاء وجس عرقه، ثم قال : ما علمت أن في الحنیفیۃ مثله۔

13 : أخرجه القشیري في الرسالۃ : 131۔

’’حضرت سفیان ثوری رَحِمَهُ اللہ بیمار پڑے تو ان کا قارورہ (پیشاب) طبیب کو دکھایا گیا۔ طبیب نے کہا کہ خوف نے اس شخص کے جگر کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا ہے۔ اس کے بعد اس نے آ کر آپ کی نبض دیکھی تو کہا : مجھے معلوم نہیں تھا کہ ایسے آدمی مسلمانوں میں پائے جاتے ہیں۔‘‘

14۔ قال حاتم الأصم رَحِمَهُ الله : لکل شيء زینۃ، وزینۃ العبادۃ الخوف، وعلامۃ الخوف قصر الأمل۔

14 : أخرجه القشیري في الرسالۃ : 127۔

’’حضرت حاتم اصم رَحِمَهُ اللہ نے فرمایا : ہر چیز کی زینت ہوتی ہے اور خوف عبادت کی زینت ہے، خوف کی علامت امید کو کم کرنا ہے۔‘‘

15۔ قال أبو عثمان المغربي رَحِمَهُ الله : من حمل نفسه علی الرجاء تعطّل، ومن حمل نفسه علی الخوف قنط ولکن من هذه مرۃ، ومن هذه مرۃ۔

15 : أخرجه القشیري في الرسالۃ : 133۔

’’ابو عثمان مغربی رَحِمَهُ اللہ نے فرمایا : جس نے اپنے نفس کو (صرف) امید پر رکھا۔ اس نے عمل چھوڑ دیا اور جس نے (صرف) خوف پر رکھا وہ مایوس ہو گیا۔ انسان کو کچھ رجاء اور کچھ خوف کے ساتھ ہونا چاہئے۔‘‘

16۔ قال السّري رَحِمَهُ الله : مَن خافَ اللهَ خَافَهُ کلُّ شيئٍ۔

16 : أخرجه السُّلمي في طبقات الصّوفیۃ : 53۔

’’حضرت سری سقطی رَحِمَهُ اللہ نے فرمایا : جو شخص اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے اس سے ہر چیز ڈرتی ہے۔‘‘

17۔ قال أبو حفص رَحِمَهُ الله : الخوف سوط الله یقوّم به الشاردین عن بابه۔

17 : أخرجه القشیري في الرسالۃ : 125۔

’’حضرت ابو حفص رَحِمَهُ اللہ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ کا خوف ایسا کوڑا ہے جس سے اللہ تعالیٰ اپنے در سے بِدکے ہوؤوں کو سیدھا کرتا ہے۔‘‘

18۔ قال بشر الحافي رَحِمَهُ الله : الخوف ملک لا یسکن إِلا في قلب متّقي۔

18 : أخرجه القشیري في الرسالۃ : 127۔

’’حضرت بشر حافی رَحِمَهُ اللہ نے فرمایا : خوف ایک فرشتہ ہے جو صرف متقی کے دل میں رہتا ہے۔‘‘

19۔ قال إبراهیم بن شیبان رَحِمَهُ الله : إذا سکن الخوف في القلب أحرق مواضع الشهوات منه، وطرد رغبۃ الدنیا عنه۔

19 : أخرجه القشیري في الرسالۃ : 128۔

’’حضرت ابراہیم بن شیبان رَحِمَهُ اللہ نے فرمایا : جب خوف دل میں جاگزیں ہو جاتا ہے تو دل کی خواہشات کی جگہ کو جلا دیتا ہے اور دل سے دنیا کی رغبت کو نکال دیتا ہے۔‘‘

20۔ قال الإمام القشیري رَحِمَهُ الله : قیل : خرج عیسی علیه السلام ومعه (إنسان) صالح من صالحي بني إسرائیل، فتبعهما رجل خاطيء مشهور بالفسق فیهم، فقعد منتبذًا عنهما منکسراً فدعا الله سبحانه، وقال : اللّهم اغفرلي، ودعا هذا الصالح، وقال : اللّهم لا تجمع غداً بیني وبین ذلک العاصي، فأوحی الله تعالی إلی عیسی علیه السلام : إني قد استجبت دعاء هما، ورددت ذلک الصالح، وغفرت لذلک المجرم۔

20 : أخرجه القشیري في الرسالۃ : 130۔

’’امام قشیری رَحِمَهُ اللہ بیان کرتے ہیں کہ کہا جاتا ہے کہ ایک دن حضرت عیسیٰ علیہ السلام نکلے۔ ان کے ساتھ بنی اسرائیل کا ایک نیک آدمی بھی تھا۔ ایک شخص جو مشہور بدکار تھا، ان کے پیچھے ہو لیا اور ان سے الگ ہو کر نہایت عاجزی سے بیٹھ گیا اور اللہ تعالیٰ سے اپنی مغفرت کی دعا مانگی۔ اس نیک آدمی نے بھی دعا مانگی اور کہا : خدایا! قیامت کے دن ان گنہگاروں کے ساتھ میرا حشر نہ ہو۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو وحی کی کہ میں نے ان دونوں کی دعا قبول کر لی۔ نیک کو تو میں نے ردّ کر دیا اور مجرم کو معاف کر دیا۔‘‘

21۔ عن الإمام القشیري رَحِمَهُ الله قال : قیل : لیس الخائف الذي یبکي ویمسح عینیه، إنما الخائف من یترک ما یخاف أن یُعذَّب علیه۔

21 : أخرجه القشیري في الرسالۃ : 126۔

’’امام قشیری رَحِمَهُ اللہ بیان کرتے ہیں : مروی ہے کہ خائف اسے نہیں کہتے جو رو رہا ہو اور اپنی آنکھیں پونچھتا اور صاف کرتا ہو بلکہ خائف تو اسے کہیں گے جو ہر اس چیز کو کہ جس پر اسے عذاب کا ڈر ہے، ترک کر دے۔‘‘

Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved