سلسلہ تعلیمات اسلام 1: تعلیمات اسلام

ایمانیات

1۔ اسلام کا تصورِ دین

دنیا میں اس وقت جتنے نظام اور فلسفہ ہائے زندگی موجود ہیں ان میں سے کوئی بھی اس قابل نہیں کہ اسے دین کہا جاسکے کیونکہ دین فقط اس نظام کو کہا جاسکتا ہے جو ہر اعتبار سے کامل اور مکمل ہو اور وہ انسانی زندگی کے ہر شعبے کی ضروریات کو پورا کرسکے اور اس میں انفرادی سطح سے لے کر اجتماعی اور بین الاقوامی زندگی کے ہر گوشے کے بارے میں رہنمائی کا سامان موجود ہو۔ دین کہلانے کے لائق وہی نظام ہے جو بیک وقت دنیا اور آخرت پر محیط ہو اور وہ ہر قسم کے نقص اور عیب سے پاک ہو۔ وہ نظام جس میں یہ شان نہ پائی جائے اسے آپ مذہب، فلسفہ، نظریہ اور تھیوری تو قرار دے سکتے ہیں مگر اسے دین نہیں کہہ سکتے۔ کیونکہ

دین خالقِ کائنات کے نزدیک فقط اسلام اور صرف اسلام ہی ہے اور یہی نظام اس قابل ہے کہ اسے دین کا نام دیا جاسکتا ہے۔

جیسا کہ اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:

اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللهِ الْاِسْلَام.

(آل عمران، 3: 19)

بیشک اللہ کے نزدیک فقط اسلام ہی ہے۔

یہ آیت آپ نے بارہا پڑھی اور سنی ہوگی۔ اس حوالے سے جو تصور ابھرتا ہے وہ اسلام کے ایک کامل اور مکمل دین ہونے کا ہے۔

قرآن مجید نے دین کے لفظ کو آخرت کے لئے بھی استعمال کیا ہے اور دنیوی نظام کے لئے بھی، جس کا مطلب یہ ہے کہ لفظ دین، دنیا اور آخرت دونوں نظاموں پر حاوی ہے۔ یہ ایک گمراہ کن تصور ہے کہ دین کا تعلق صرف آخرت سنوارنے سے ہے دنیا سنوارنے سے نہیں۔ یہ غلط فہمی دور کرلینی چاہئے۔ یہ دو الگ چیزیںنہیں، دین کے دو حصے ہیں، ایک کا نام دنیا ہے اور دوسرے کا نام آخرت ہے۔ دین کل ہے اور دنیا و آخرت اس کے دو اجزاء ہیں اس لئے ’’دین اور دنیا‘‘ کہنا بجائے خود ایک بہت بڑا مغالطہ ہے۔ لہذا جس شخص نے دین کو فقط دنیا پر حاوی قرار دیا اس نے دین کے ایک باز و کو کاٹ کر الگ رکھ دیا اور جس نے دین کو فقط آخرت سمجھا اس نے بھی دین کے ایک بازو کو جدا کردیا۔

حضورﷺ نے ہمیں دین کا جو تصور عطا کیا ہے اس کی روسے جہاں مسجد کے اندر کی زندگی دین ہے وہیں مسجد سے باہر کی زندگی بھی دین ہے۔ اگر ایک طرف نماز ‘ روزہ‘ حج اور زکوٰۃ جیسے ارکان دین کا حصہ ہیں تو دوسری طرف ناپ تول‘ لین دین‘ تجارت‘ کاروبار‘ معاشیات اور سیاست سبھی دین کا حصہ ہیں، ان کے درمیان کوئی فرق اور امتیاز روا نہیں رکھا جاسکتا۔ جو شخص ایسی تفریق کرے گا اسے جاہل اور اسلام کے تصورِ دین سے بے بہرہ قرار دیا جائے گا۔

دین کا حقیقی تصور کیا ہے؟ اس کی وضاحت بخاری شریف کی اس حدیث سے ہوجاتی ہے جس میں حضو ر نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ’’جہاد کی نیت سے پالے گئے گھوڑے کی لید صاف کرنا بھی عبادت میں شمار ہوتا ہے‘‘ یہ ہے دین کا وہ تصور جو ہمیں ہمارے آقا ومو لا علیہ الصلوٰۃ والسلام نے دیا ہے اور ایک ہم ہیں کہ محض وعظ و نصیحت ‘ نماز‘ روزہ اور اللہ اللہ کرنے کو دین قرار دینے پر تلے ہوئے ہیں اور تمام دنیاوی معاملات ‘ مشاغل اور معمولات کو دین کے دائرے سے خارج تصور کرتے ہیں۔ یاد رہے کہ یہ دین کا صحیح تصور ہرگز نہیں۔ اگر انسان رزقِ حلال کمانے کی نیت سے دیانتداری کے ساتھ محنت کرتا ہے تو اس کا ایک ایک لمحہ عبادت ہے اور اس کا درجہ نفلی عبادت سے بڑھ کر ہے۔

سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے بارے میں کتابوں میں لکھا ہے کہ اگر کسی شخص کو فرض نماز کے بعد مسجد میں نفلی عبادت میں مشغول دیکھتے تو پکڑ کر باہر نکال دیتے اور اسے تنبیہ کرتے ہوئے فرماتے کہ اللہ نے تجھ پر مخلوق کے بھی کچھ حقوق عائد کئے ہیں اور تجھے عائلی‘ خانگی‘ سماجی اور معاشرتی کاروباری ذمہ داریاں بھی ادا کرنی ہیں۔ حقوق اللہ کی ادائیگی میں حقوق العباد سے فرار ہر گز ہرگز دین نہیں بلکہ رہبانیت ہے جس کی اسلام نے سختی سے مذمت کی ہے۔

قرآن نے جہاں نظامِ آخرت کو دین کہا ہے وہیں دنیاوی معاملات کو بھی دین قرار دیا ہے ہم نماز کے اندر سورۃ فاتحہ میں ’’مالک یوم الدین‘‘ کہہ کر اللہ کے یومِ آخرت کے نظامِ جزا و سزا کا مالک ہونے کا اقرار کرتے ہیں۔ مختصر یہ کہ حکومت و سلطنت کا دنیوی نظام بھی دین کے دائرے میں شامل ہے اور آخرت کا سارا نظام بھی دین ہی کا حصہ ہے۔ گویا دین دنیا و آخرت کے دونوں جہانوں پر یکساں طور پر حاوی ہے اور دونوں کی بہتری اور اصلاح کا تقاضا کرتا ہے۔

اس لئے اسلام کو دین قرار دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے اس کے مکمل ہونے کا اعلان ان لفظوں میں کیا ہے۔

اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَ رَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا.

(المائدہ: 5: 3)

آج کے دن میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کردیا اپنی نعمت تمام کردی اور تمہارے لئے اسلام بطور دین منتخب کرلیا۔

2۔ دین ہر شعبۂ زندگی پر محیط ہے

زندگی کا کوئی بھی گوشہ اور رخ جس کا تعلق چاہے فردسے ہو، اجتماعی، معاشرتی، قومی اور بین الاقوامی زندگی سے ہو یا تجارت، لین، دین، امن، جنگ اور صلح کے معاملات سے، کسی حال میں اسلام کے دائرہ کار سے باہر نہیں۔ نجی سطح سے لے کر بین الاقوامی سطح تک پوری زندگی ایک اکائی ہے اور دین اس پر اس طرح حاوی ہے کہ اس کے کسی جزو کو کل سے جدا کرنا ممکن نہیں ہے۔ کوئی لمحہ زندگی کے شب و روز کا ایسا نہیں جس کا دین سے براہ راست تعلق نہ ہو۔ لیکن کتنا بڑا المیہ ہے کہ ہم مارکیٹ میں کاروبار کرتے وقت، شادی بیاہ اور دوسری دنیاوی رسموں کو ادا کرتے ہوئے اور مسجد سے باہر گزرنے والی پوری زندگی میں دین سے بے گانہ اور لاتعلق ہو جاتے ہیں اور ہمیں مطلق خیال نہیں آتا کہ شریعت میں اس کے بارے میں مفصل احکام موجود ہیں جن کا ہمیں ذرہ بھر پاس نہیں۔

اس ضمن میں حضور اکرمﷺ کا مندرجہ ذیل ارشاد پیش نظر رہے۔ آپ نے فرمایا:

لا یومن احدکم حتی یکون ھواہ تبعا لما جئت بہ.

(شرح السنۃ، 1: 213، کتاب الایمان، رقم حدیث: 104)
( مشکوۃ المصابیح، 30)

تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ اسکی خواہشات اس (شریعت) کے تابع نہ ہو جائیں جو میں لے کر آیا ہوں-

اس حدیث مبارکہ کی رو سے کوئی شخص اس وقت تک حقیقی ایمان کا دعوی نہیں کرسکتا جب تک وہ اپنی تمام خواہشات کو ترک کرکے مکمل طور پر دین کو اختیار نہ کرلے۔ ہمیں بتایا کیا جا رہا ہے کہ تمہارے اندر اس وقت تک ایمان پختہ اور راسخ ہو ہی نہیں سکتا جب تک تمہاری خواہشیں، تمہاری آرزوئیں، تمہارے ارادے اور تمہاری پوری کی پوری زندگی دین کے قالب میں نہ ڈھل جائے اب یہ کتنا بڑا تضاد ہے کہ ہم مسلمان کہلاتے ہیں اور ایماندار ہونے کے بڑے بڑے دعوے بھی کرتے ہیں لیکن دنیا بھر میں ذلیل و رسوا بھی ہو رہے ہیں۔ کبھی ہم نے سوچا کہ کفر کے مقابلے میں ہمیں ہر محاذ پر شکست اور ہزیمت کاسامنا کیوں ہے؟ اگر ہم خود اپنا احتساب کریں اوراپنے اعمال پر تنقیدی نظر ڈالیں تو یہ حقیقت ہم پر منکشف ہو جائے گی کہ ہم اپنے کھوکھلے کردار اور بدباطنی کی وجہ سے عملًا اسلامی تعلیمات کا مذاق اڑانے کا موجب بن رہے ہیں۔ قول و فعل کے تضاد اور اسلامی تعلیم سے دوری کی بناء پر ہم عملی طور پر عالمِ کفر کی اعانت اور مدد کر رہے ہیں۔ عالم کفر کا تو خیرکام ہی اسلام دشمنی ہے۔ لیکن منافقت اور تضاد پر مبنی اپنے اعمال کے باعث ہم اسلام کو کفر سے کہیں زیادہ نقصان پہنچا رہے ہیں۔ ہمارا حال یہ ہے کہ ایک قدم اسلام کی طرف بڑھتا ہے تو دوسرا کفر کی طرف ؎

ایمان ہمیں کھینچے ہے تو روکے ہے ہمیں کفر

اس صورت حال کو بدلنے کے لئے ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے اعمال کا مسلسل محاسبہ کرتے رہیں اور صرف اسلام کا نام لینے پر ہی اکتفا نہ کریں بلکہ قرآن و سنت کے اتباع میں وہ حقیقی ایماندار نہ زندگی بسر کریں جس کا مکمل نمونہ سیرتِ نبوی ﷺ کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔

اس سلسلے میں ایک تاریخی واقعہ کا حوالہ دینا خالی از فائدہ نہ ہوگا۔ سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے سامنے کسی شخص کا مقدمہ پیش کیا گیا، آپ نے عدالت میں موجود لوگوں سے اس مقدمے کے بارے میں گواہی طلب کی، ایک صحابی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں ا سکا گواہ ہوں۔ آپ نے پھر استفسار فرمایا کہ کوئی ہے جو یہ گواہی دے کہ اس کی شہادت قابلِ قبول ہے۔ ایک اور صحابی رضی اللہ عنہ اٹھا اور یوں گویا ہوا کہ حضرت میں اسے جانتا ہوں۔ آپ نے وضاحت طلب کی تو اس نے کہا کہ وہ مسجد میں پانچ وقت حاضر ہوتا ہے اور نماز کبھی قضا نہیں کرتا۔ اس لئے میں گواہی دیتا ہوں کہ اس کی شہادت قبول کرلی جائے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ سن کر اس سے سوال کیا کہ کیا کبھی تمہیں اسکے پڑوس میں رہنے کا اتفاق ہوا؟ کبھی دنیاوی معاملات میں اس سے سابقہ پڑا؟ یا کبھی اس کے ساتھ اکٹھا سفر کرنے کا موقعہ ملا؟ اس نے ہر بات کا نفی میں جواب دیا تو آپ نے فرمایا کہ تم نے اس کی زندگی کا صرف ایک پہلو دیکھا ہے جو اس کے مسجد میں جانے اور نماز روزے تک محدود ہے، تمہیں اس کی باقی زندگی کے بارے میں جو مسجد سے باہر گزرتی ہے کوئی خبر نہیں کہ وہ عملاً بھی مسلمان ہے یا نہیں۔ اس سے یہ معلوم ہوا کہ مسلمان کی پہچان صرف، نماز، روزہ اور ظاہری عبادات کے حوالے سے نہیں بلکہ اسکی پوری معاشرتی زندگی کے حوالے سے ہوتی ہے۔

حضوراکرمﷺ نے ایک مسلمان کی تعریف یوں بیان فرمائی ہے کہ مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔ اگر کوئی مسلمانی کے اس معیار پر پورا نہیں ترتا تو اسے یہ جان لینا چاہیے کہ وہ برائے نام مسلمان ہے اور ابھی ایمان نے اس کے باطن میں سرایت نہیں کیا۔

3۔ ایمان کے تین آداب

آدابِ ایمان کوبڑی حکمت کے ساتھ قرآن حکیم نے یوں بیان کیا ہے۔

یٰٓـاَ اَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اٰمِنُوْا بِاللّٰہِ وَ رَسُوْلِہٖ وَ الْکِتَابِ الَّذِیْ نَزَّلَ عَلٰی رَسُوْلِہٖ.

(النسائ، 4: 136)

اے ایمان والو! اللہ اور اسکے رسول ﷺ پر ایمان لاؤ۔ اور اس کتاب پر (ایما ن لاؤ) جو اسنے اپنے رسول پر نازل فرمائی ہے۔

ایمان کے تین آداب کیا ہیں جن کو بجا لانا ایک مومن کے لئے ضروری قرار دیا گیا ہے، ہم ان کا مختصر طور پر جائزہ کریں گے تاکہ یہ پتہ چل سکے کہ ایمان کیا ہے اور کیا نہیں؟

پہلا ادب

ایمان کا پہلا ادب یہ ہے کہ دائرہ اسلام میں داخل ہونے کے بعد زندگی کو ایک مکمل اکائی اور ایسا کل سمجھا جائے جس کے اجزاء ایک دوسرے سے جدا نہیں۔ ایمان کے زبانی اقرار اور دلی تصدیق کے بعد مومن کے لئے لازم ہے کہ وہ اپنی زندگی کے احوال پر اسلام کو اس طرح حاوی کرلے کہ زندگی کا کوئی گوشہ ایسا نہ رہ جائے جس پر کفر کی پرچھائیاں پڑی رہیں۔ اسلام میں داخل ہونے کے بعد ایسا ہرگز نہیں ہونا چاہیے کہ اس کا ایک حصہ ایمان اور دوسرا حصہ کفر سے عبارت ہو۔ یہ صورتحال ایمان اور کفر کا ملغوبہ ہوگی جسے قرآن کی زبان میں منافقت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔

دوسرا ادب

ایمان کا دوسرا ادب اس بات کاتقاضا کرتاہے کہ ہم بھولے سے بھی ان چیزوں کے قریب نہ جائیں جن پر قرآن اور پیغمبرِ اسلام نے پابندی لگا دی ہے۔ یہ وہ چیزیں ہیں جنہیں شریعت نے واضح طور پر حرام قرار دیا ہے۔

تیسرا ادب

ایمان کا تیسرا ادب اس بات کا کھوج لگانا ہے، کہ وہ کون سا اسلام ہے جس کو پوری زندگی پر حاوی اور نافذ کرنے کا حکم دیا جا رہا ہے؟ کیا وہ اسلام انسانی عمل اور فہم و تدبر کا وضع کردہ ہے جس کے معیار ذاتی پسند اور ناپسند کے تحت ہمیشہ بدلتے رہتے ہیں؟

درحقیقت انسانی عقل اور فہم و بصیرت ناقص اورحد درجہ محدود ہے۔ لہذا وہ اسلام جس کا خاکہ کسی انسان نے بنایا ہو، نا قابل قبول ہے اور صرف وہی اسلام قبول کئے جانے کے لائق ہے جو پوری انسانیت کومصطفیٰ ﷺ کی چوکھٹ سے ملا ہے۔ اس کی عملی شکل اور خدوخال نبی اکرمﷺ کی حیاتِ طیبہ اور سیرتِ پاک کے آئینے میں جھلکتے نظر آتے ہیں۔ پس ایمان کا حتمی اور دائمی معیار یہ ہوا کہ ہر وہ بات جو ہمیں حضور ﷺ کی حیاتِ طیبہ اور سیرتِ پاک سے نظر آئے اسے بغیر حیل و حجت کے ایمان سمجھ کر تسلیم کر لیا جائے اور جو بات سنت سے ٹکراتی ہو اسے کفر جان کر رد کر دیا جائے۔ کفر و ایمان کے رد و قبول کے اس معیار کو عملی زندگی میں اپنا لینا ہی تیسرے ادبِ ایمان کی بنیادی شرط ہے۔

زندگی کو مکمل طور پر اسلام میں داخل کرنے کے بارے میں باری تعالی یوں ارشاد فرماتے ہیں۔

یٰٓـاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَآفَّۃً.

(البقرۃ، 2: 208)

اے ایمان والو! پورے پورے اسلام میں داخل ہو جاؤ۔

اس آیۂ کریمہ میں مکمل اسلام میں داخل ہونے کا حکم دیا گیا ہے۔ جس سے یہ مراد ہے کہ ایمان اور کفر کی جو حدود متعین کی گئی ہیں ان کے اندر رہتے ہوئے پوری زندگی میں ایمان یوں جاری و ساری ہو کہ کوئی لمحہ ایسا نہ گزرے جس پر کفر اور منافقت کی چھاپ نمایاں ہو۔

وہ کیفیت جو اسلام اور کفر کے ملاپ سے پیدا ہو کھلی منافقت ہے اور یہ اسلام کے ساتھ مذاق کے مترادف ہے۔ کفر اور ایمان دو متضاد چیزیں ہیں، ان کے درمیان رواداری اور مصالحت کا کوئی تصور خدا کو منظور نہیں کیونکہ یہ منافقت ہے جس کی مذمت قرآن و حدیث میں بڑے زور دار اور سخت الفاظ میں کی گئی ہے۔ جس کی تشریح اقبال کے اس شعر سے بخوبی ہو جاتی ہے۔

باطل دوئی پسند ہے حق لا شریک ہے
شرکت میانۂ حق و باطل نہ کر قبول

ہمیں ایمان کے آداب اور تقاضوں کو سمجھ کر اس کیفیت سے باہر آ جانا چاہئے جو بیک وقت ایمان اور کفر دونوں کو اپنے دامن میں سموئے ہوئے ہے۔

4۔ ایمان کے تین درجے

قرآن و حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ حقیقی ایمان یقینِ کامل اور محبتِ کامل کے مجموعے کا نام ہے۔ مزید گہرائی میں جائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ایمان جس کی بنیاد یقین ہے اس کے تین درجے ہیں:

  1. علم
  2. عرفان
  3. ایقان

1۔ ایمان کا پہلا درجہ اصطلاحاً ایمان بالغیب یا علم (جاننا) کہلاتا ہے اس کا ذکر قرآنِ کریم میں یوں آیا ہے:

اَلَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ.

(البقرہ، 2: 3)

وہ لوگ جو بن دیکھے ایمان لاتے ہیں

جو لوگ بن دیکھے ایمان لاتے ہیں، وہ ایمان محض اس بنا پر لاتے ہیں کہ ان تک یہ بات اس ہستی کے ذریعے پہنچی ہے جس نے حقیقت کو بے نقاب دیکھا ہے۔ لہٰذا ایمان کا اولین تقاضا یہ ہوا کہ بن دیکھے خدا کو صرف اور صرف اس بنا پرمان لیا جائے کہ مومن تک اس ہستی کا علم اس مخبرِ صادق کے واسطے سے پہنچا ہے جس نے خود خدا کی ذات والا صفات کا مشاہدہ کیا ہے۔ ایسے میں ایمان بالغیب سے انکار کی کسے مجال ہوسکتی ہے اور خدا تعالیٰ کی ذات کو بغیر دیکھے، رسول کریم ﷺ کے کہے پر مان لینا ہی ایمان ہے لیکن اس کے برعکس حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم نے یہ مطالبہ کیا تھا کہ:

لَنْ نُّوْمِنَ لَکَ حَتّٰی نَرَی اللّٰهَ جَھْرَۃً.

(البقرہ، 2: 55)

جب تک ہم اپنی آنکھوں سے خدا کو نہ دیکھ لیں۔ آپ پر ایمان نہیں لائیں گے۔

یہ ایک طرح سے ایمان بالغیب کا انکار تھا اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جب ان کو مشاہدے کے تجربے سے گزارا گیا تو وہ نور کی ایک تجلی (یا حق کی ایک آواز) کو بھی برداشت نہ کرسکے اور کوہ طور پر خدا تعالیٰ کو دیکھنے کے ارادے سے جانے والے ستر کے ستر افراد موت کا شکار ہوگئے۔

2۔ اس کے بعد ایمان کا دوسرا درجہ آتا ہے جسے ’’عرفان‘‘ کہا جاتا ہے، یعنی جس حقیقت کو بن دیکھے مانا جارہا ہے، اس حقیقت کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کرنا اور اس کی بنیاد پر اس ہستی پر اپنا یقین پختہ کرنا۔ یقین کے اس درجے کا ذکر قرآن کریم میں یوں آتا ہے۔

وَفِیْٓ اَنْفُسِکُمْ اَفَلاَ تُبْصِرُوْنَ.

(الذلاریات، 51: 21)

اور خود تمہارے نفوس میں (بہت سی نشانیاں ہیں) کیا تم نہیں دیکھتے۔

اے خدا کے بندو، خدا تعالیٰ کی قدرت، اس کے بے اندازہ انعامات اور کمالات پر ایمان لانے والو! سوچنے سمجھنے اور غور و فکر کرکے صحیح نتائج پر پہنچنا سب کچھ تمہارے اندر پوشیدہ ہے، خدا تعالیٰ کی قدرت کے تمام حقائق اور ان کی علامات تمہارے اپنے نفس میں موجود ہیں۔ ذرا اپنے اندر جھانک کر تو دیکھو۔ اپنی بشریت کے تاریک پردوں کو اٹھا کر حقیقت کو سمجھنے کی کوشش تو کرو۔ پھر دیکھو، کس طرح یہ حقیقتیں تمہارے من سے جھلکتی نظر آتی ہیں۔ اسی طرح ایک دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

سَنُرِیْھِمْ اٰیَاتِنَا فِیْ الْاَفَاقِ وَ فِیْٓ اَنْفُسِھِمْ حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَھُمْ اَنَّهُ الْحَقُّ.

(حم السجدہ، 41: 53)

ہم ان کو عنقریب اطراف (عالم) میں بھی اور خود ان کی ذات میں بھی نشانیاں دکھائیں گے۔ یہاں تک کہ ان پر ظاہر ہو جائے گاکہ وہی حق ہے۔

3۔ ایقان ایمان کا تیسرا درجہ ہے جس کو واضح کرنے کے لئے قرآن نے متعدد واقعات پیش کئے گئے ہیں جن میں سے ایک حضرت عزیر علیہ السلام کا واقعہ بھی ہے، جب وہ ایک بستی کے قریب سے گزرے جو مدتوں سے اجڑ چکی تھی (اس بستی کے متعلق زیادہ تر مفسرین کا خیال ہے کہ وہ بیت المقدس (یروشلم) کا شہر تھا۔ مگر قرآن مجید میں فقط کسی بستی کے نام سے اس کا ذکر کیا گیا ہے) اس اجڑی ہوئی بستی کو دیکھ کر ان کے دل میں یہ خیال گزرا کہ:

اَنّٰی یُحْیِیْ ھٰذِہٖ اللّٰهُ بَعْدَ مَوْتِھَا.

(البقرہ، 2: 259)

خدا اس کے باشندوں کو (یا خود اس بستی کو) مرنے کے بعد کیونکر زندہ کرے گا۔

حضرت عزیر علیہ السلام (معاذ اللہ) اللہ تعالیٰ کے احیاء موتی کی قدرت سے انکار نہیں کر رہے تھے، بلکہ دراصل ان کے دل میں ویران شہر دیکھ کر یہ خیال پیدا ہوا کہ یہ بستیاں جو خاک میں مل چکی ہیں، کاش مجھے اپنی آنکھوں سے ان کا آباد اور زندہ ہونا دیکھایا جائے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے انہیںان تمام مراحل سے گزار دیا جس کا ذکر۔ قرآن حکیم کی اس آیۂ کریمہ میں کیا گیا۔

فَاَمَاتَهُ اللّٰهُ مِائَۃَ عَامٍ ثُمَّ بَعَثَہْ قَالَ کَمْ لَبِثْتَ ط قَالَ لَبِثْتُ یَوْمًا اَوْ بَعْضَ یَوْمٍ ط قَالَ بَلْ لَّبِثْتَ مِائَۃَ عَامٍ.

(البقرہ، 2: 259)

خدا نے ان کی روح قبض کر لی اور سو برس تک حالتِ موت میں رکھا۔ پھر ان کو جلا اٹھایا اور پوچھا کتنا عرصہ ٹھہرے ہو انہوں نے جواب دیا، ایک دن یا اس سے بھی کم فرمایا نہیں بلکہ سو برس تک ٹھہرے رہے ہو۔

5۔ حدیثِ جبریل علیہ السلام

اسلام اور ایمان میں اصطلاحی فرق کو سمجھنے کے لئے حدیثِ جبریل کا مطالعہ انتہائی ضروری ہے۔ حدیثِ جبریل ذخیرۂ حدیث کی مشہور ترین روایت ہے جسے قریب قریب تمام محدثین نے نقل کیا اور اس کے راوی خلیفہ دوم سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ ہیں۔ وہ فرماتے ہیں کہ ایک روز ہم حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر تھے تو ایک ایسا شخص آیا جس کو ہم نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا، مگر اس پر سفر کا بھی کوئی نشان نہ تھا۔ اس کے بال بہت کالے اور کپڑے دودھ کی طرح سفید تھے۔ وہ حضور کے سامنے دوزانو ہو کر بیٹھ گیا اور آپ سے سوال کرنے لگا:

یا محمد اخبرنی عن الاسلام قال الاسلام ان تشھد ان لا الہ الا اللہ و ان محمدأ رسول اللہ و تقیم الصلوۃ و توتی الزکوۃ و تصوم رمضان و تحج البیت ان استطعت الیہ سبیلا قال فعجبنا لہ یسألہ و یصدقہ قال فاخبرنی عن الایمان قال ان تؤمن باللہ و ملئکتہ وکتبہ و رسلہ والیوم الاخر و تؤمن بالقدر خیرہ و شرہ قال صدقت قال فاخبرنی عن لاحسان قال ان تعبد اللہ کانک تراہ فان لم تکن تراہ فانہ یراک قال فاخبرنی عن الساعۃ قال ما المسئول عنھا باعلم من السائل قال فاخبرنی عن اماراتھا قال ان تلد الامۃ ربتھا و ان تری الحفاۃ العراۃ العالۃ رعاء الشآء یتطاولون فی البنیان قال ثم الطلق فلبثت ملیا ثم قال لی یا عمر رضی اللہ عنہ اتدری من السائل قلت اللہ و رسولہ اعلم قال فانہ جبریل اتاکم یعلمکم دینکم.

(صحیح مسلم، 1: 27، کتاب الایمان، رقم حدیث: 1)
(صحیح البخاری، 1: 12، کتاب الایمان، رقم حدیث: 50)

اے محمد ﷺ! مجھے اسلام کی بابت بتائیے فرمایا: اسلام یہ ہے کہ تو اس بات کی گواہی دے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور حضرت محمد اللہ کے رسول ہیں اورنماز قائم کرے، زکوۃ ادا کرے، رمضان المبارک کے روزے رکھے اللہ طاقت و وسعت دے تو بیت اللہ کا حج بھی کرے۔ اس پر اس اجنبی شخص نے کہا کہ آپ نے سچ فرمایا ہے۔ ہمیں تعجب ہوا کہ خود سوال بھی پوچھتا ہے اور پھر تصدیق بھی کرتا ہے۔ پھر اس نے کہا: مجھے ایمان کے متعلق کچھ بتائیے۔ آپ نے فرمایا: ایمان یہ ہے کہ تم اللہ اور اسکے فرشتوں اور اسکی کتابوںاور یومِ آخرت کو حق جانو اور ہر خیر و شر کی تقدیر پر ایمان رکھو، یہ سن کر اس شخص نے کہا آپﷺ نے سچ فرمایا اس کے بعد اس نے عرض کیا۔ مجھے بتلائیے کہ احسان کیا ہے؟ آپ نے فرمایا احسان یہ ہے کہ اللہ کی عبادت و بندگی تم اس طرح کرو گویا تم اس کو دیکھ رہے ہو، اگر تم اس کو نہیں دیکھتے تو وہ تو تمہیں دیکھتا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اس کے بعد وہ شخص چلاگیا، تھوڑی دیر بعد حضورﷺ نے مجھ سے فرمایا۔ اے عمر رضی اللہ عنہ کیا تمہیں علم ہے کہ وہ سوال کرنے والا کون تھا میں نے عرض کیا اللہ اور اس کا رسولﷺ ہی بہتر جانتے ہیں، آپ نے فرمایا وہ جبریل تھے، تمہاری اس مجلس میں اس لئے آئے تھے کہ تم لوگوں کو تمہارا دین سکھائیں۔

اس حدیث سے یہ اچھی طرح ثابت ہے کہ دین کی تین بنیادی ضرورتیں ہیں: پہلی ضرورت ایمان ہے، جس کا تعلق بنیادی طور پر انسان کے عقائد سے ہے، دوسری ضرورت اسلام ہے، جو بنیای طور پر انسان کے اعمال سے تعلق رکھتا ہے، تیسری ضرورت احسان ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ انسان کے ظاہر و باطن جب یکساں ہو جاتے ہیں اور اس کے عقائد و اعمال کے روحانی اثرات اس کے باطن کو منور کرنے لگتے ہیں تواسے ایسی کیفیت نصیب ہو جاتی ہے کہ اس کے سامنے سے دنیا کے مادی پردے اٹھالئے جاتے ہیں، اور بندہ کو نورِ مطلق اور اس کی تجلیات کا مشاہدہ ہونے لگتا ہے یا یوں کہے کہ ذات حق ا س کی طرف متوجہ ہو کر اس کے حال پر لطف و مہربانی کی وہ نگاہ ڈالتی ہے کہ اسے دنیا و ما فیہا کی ہرخواہش و آرزو سے بے نیاز کر دیتی ہے۔ اس سے ایک یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ نہ تنہا ارکان اسلام کی پابندی سے کوئی شخص مسلمان ہوسکتا ہے، اور نہ محض عقائد کی اصلاح سے کوئی شخص اپنی منزل کو پاسکتا ہے۔ اگر اسلام اور ایمان دونوں کے تقاضوں کی تکمیل کی جائے، جیسا کہ کرنے کا حق ہے، تبھی انسان صحیح مسلمان اور مومن کہلانے کا حق دار ہوتا ہے۔ جب ایمان و اسلام کے تقاضوں کو پورا کرنے میں اخلاص اپنے کمال کو پہنچتا ہے تو اس منزل کو ’’احسان‘‘ کہتے ہیں۔

6۔ ایمان، اسلام اور احسان

ایمان کا موضوع عقائد ہیں اور اسلام کا موضوع مسلمانوں کے اعمال و افعال ہیں، جن کے علم کو اصطلاحاً’’ علم الفقہ‘‘ کہتے ہیں۔ اسی طرح احسان کا موضوع ایمان کی باطنی و روحانی کیفیات کا حصول ہے، اس سے بحث کرنے والے علم کو’’ علم الطریقت‘‘ یا ’’علم التصوف‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ سب علوم ایک ہی سرچشمہ اور ایک ہی مرکز و محور سے تعلق رکھتے ہیں اور ان میں سے ہر ایک دوسرے کے بغیر ادھورا ہے، چنانچہ ایمان کے بغیر اسلام نا تمام ہے اور بغیراسلام ایمان کی تکمیل نا ممکن ہے، جب کہ احسان کے بغیر ایمان اور اسلام دونوں ناقص رہ جاتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں کوئی شخص نہ اسلام کی محض ظاہری تعلیمات پر عمل کرکے بحیثیت مومن درجۂ کمال کو پہنچ سکتا ہے اور نہ محض باطنی اور روحانی لذات کا طالب بن کر۔ حق تو یہ ہے کہ ایک طرف ایمان کے تقاضے پورے ہوتے رہیں اور دوسری طرف اسلام کے بنیادی اصولوں پر بھی عمل میں سستی اور کوتاہی واقع نہ ہونے پائے بلکہ ایمان واسلام کی دونوں قوتوں کے ساتھ روحانی کمال کی منزل ’’احسان‘‘ کو حاصل کیا جائے۔

امام مالک علیہ الرحمۃ ان دونوں راستوں کو یکجا کرنے کی اہمیت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:

من تفقہ و لم یتصوف فقد تفسق ومن تصوف ولم یتفقہ فقد تزندق ومن جمع بینھما فقد تحقق.

مرقاۃ المصابیح، 1: 313۔

جس شخص نے فقہ یعنی محض ظاہر اسلام کو تھام لیا اور تصوف و روحانیت کو چھوڑ دیا وہ بلاشبہ فاسق و فاجر ہوا۔ اور جس نے فقہ کے تقاضوں کو نظرانداز کر دیا، مگر طریقت و تصوف کو اپنائے رکھا، ایسا شخص بھی بلاشبہ زندیق ہوا۔ حق اور کمالِ مطلوب کو وہی پہنچ سکتا ہے جس نے دونوں کو جمع کیا (یعنی اس کے ایک ہاتھ میں راہ شریعت کا چراغ ہو اور دوسرے میںطریقت و روحانیت کا۔ وہ ظاہر شریعت یعنی فقہ سے ظاہری دنیا میں اورباطنِ شریعت یعنی طریقت سے باطنی دنیا میں اجالا کر رہا ہو۔)

اسی تصور کو شیخ ابو طالب ؒ مکیؒ کچھ یوں بیان کرتے ہیں:

ھما علمان اصلیان لا یستغنی احدھما عن الاخر بمنزلۃ الاسلام والایمان مر تبط کل منھا بالاخرکا لجسم والقلب لا ینفک احد من صاحبہ.

مرقاۃ المصابیح، 1: 313۔

(شریعت و طریقت یعنی فقہ اور تصوف) دو حقیقی علم ہیں ان میں سے کوئی ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوسکتا انکی مثال اسلام اور ایمان کے باہمی تعلق کی ہے جیسے وہ ایک دوسرے سے جسم اور دل کے تعلق کی طرح مربوط ہیں اور ان میں سے کوئی ایک بھی دوسرے سے علیحدہ نہیں ہوسکتا۔

ایمان، اسلام اور احسان ہی دین حق کے اجزاء ہیں اور انہی کے یکجا جمع ہونے سے اسلامی تعلیمات مکمل ہوتی ہیں۔

’’اسلام‘‘ کا مادہ اشتقاق س، ل، م ’’سلم‘‘ ہے۔ اس کے لغوی معنی بچنے، محفوظ رہنے، مصالحت اور امن و سلامتی پانے کے ہیں۔ حدیث شریف میں اس لغوی معنی کے لحاظ سے ارشاد ہے:

المسلم من سلم المسلمون من لسانہ و یدہ.

صحیح البخاری، 1: 6، کتاب الایمان، رقم حدیث: 10۔ 11

مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور جس کی زبان سے دوسرے مسلمانوں (کے مال اور عزتیں) محفوظ ہیں۔

لفظ اسلام کے لغت میں چار مفہوم ہیں:

1۔ پہلا مفہوم خود امن و سکون پانا اور دوسروں کو امن و سلامتی مہیا کرنا۔

2۔ دوسرا مفہوم ماننا، جھکنا، خود سپردگی اور اطاعت اختیار کرنا۔

3۔ اسلام کا تیسرا مفہوم صلح اور آشتی کا پایا جانا۔ صلح کے لئے سَلْمٌ یا سِلْمٌ کا لفظ بھی استعمال ہوتا ہے۔

4۔ لفظ اسلام میں پائے جانے والے چوتھے مفہوم پر بہت کم توجہ دی گئی ہے۔ عربی میں اونچے درخت کو ’’سلام‘‘ کہا جاتا ہے اور سیڑھی کو سُلّم کہتے ہیں۔ درخت اور سیڑھی اپنی اونچائی کی وجہ سے لوگوں کی دسترس سے باہر ہوتے ہیں۔ لہٰذا اس اعتبار سے اسلام کے لفظ میں بلندی اور عظمت کا مفہوم شامل ہے۔ ظاہر ہے اسلام سے زیادہ عظمت کسی اور مذہب کے حصے میں نہیں آئی۔

7۔ لفظ اسلام کے لغوی معانی

پہلا معنی: لغت کے اعتبار سے لفظ اسلام چار معنوں پر مشتمل ہے۔ اسلام کا پہلا لغوی معنی خودامن و سکون پانا، دوسرے افراد کو امن و سلامتی دینا اور کسی چیز کی حفاظت کرنا ہے۔ اس اعتبار سے اسلام کا معنی لازم بھی ہے اور متعدی بھی۔ گویا اس کے مفہوم میں خود امن مہیا کرنا بھی شامل ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے:

یَّھْدِیْ بِہِ اللّٰهُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَہٗ سُبُلَ السَّلٰمِ.

(المائدہ، 5: 16)

اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے ایسے لوگوں کو جو رضائے حق کے طالب ہوں سلامتی کی راہیں بتلاتے ہیں۔

دوسرا معنی: اسلام کا دوسرا مفہوم ماننا، تسلیم کرنا، جھکنا اور خود سپردگی و اطاعت اختیار کرنا ہے۔ اس معنی میں لفظ اسلام قرآن و حدیث میں کثرت سے استعمال ہوا ہے۔ سورہ البقرہ میں ارشاد ہوتا ہے:

اِذْ قَالَ لَہٗ رَبُّہٗٓ اَسْلِمْ قَالَ اَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعَالَمِیْنَO

(البقرہ، 2: 131)

جب ان سے ان کے پروردگار نے فرمایا: اطاعت اختیار کرو۔ انہوں نے عرض کیا کہ میں نے جہانوں کے رب کی اطاعت اختیار کی۔

نیز فرمایا:

وَمَنْ اَحْسَنُ دِیْنًا مِّمَّنْ اَسْلَمَ وَجْھَہٗ لِلّٰہِ وَ ھُوَ مُحْسِنٌ.

(النسائ، 4: 125)

اور اس سے اچھا دین کس کا ہو گا جو اپنا چہرہ اپنے رب کی طرف جھکا دے اور وہ مخلص بھی ہو۔

اس تصور کے تحت اسلام کا معنی یہ ہے کہ مسلمان اپنے آپ کو مکمل طور پر اللہ کے سپرد کر دے اور اس میں یہ عزم پایا جائے کہ بیشک جان چلی جائے، لیکن زبان یادل پر حرفِ انکار نہ آنے پائے۔ علامہ اقبال ؒ نے اسی کیفیت کو یوں بیان کیا ہے:

بے خطر کود پڑا آتشِ نمرود میں عشق
عقل ہے محو تماشائے لبِ بام ابھی

تیسرا معنی: لفظ اسلام کا تیسرا مفہوم صلح و آشتی کا پایا جانا ہے صلح کے لئے سَلْمٌ یا سِلْمٌ کا لفظ بھی استعمال ہوتا ہے۔ ارشاد خداوندی ہے:

فَـلَا تَھِنُوْا وَ تَدْعُوْٓا اِلَی السَّلْمِ وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ.

(محمد، 47: 35)

تم ہمت نہ ہارو (ثابت قدم رہو) اور باطل کو صلح کو طرف مت بلاؤ پھر تم ہی غالب رہو گے۔

دوسری جگہ ارشاد فرمایا:

یٰـٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَآفَّۃً.

(البقرۃ، 2: 208)

اے اہلِ ایمان: پورے کے پورے اسلام (یعنی سلامتی) میں داخل ہو جاؤ۔

چوتھا معنی: جیسا کہ سابقہ درس میں ذکر ہوا اسلام کے لفظ میں پائے جانے والے چوتھے مفہوم کی طرف اہلِ علم نے بہت کم توجہ کی ہے، بلند و بالا درخت کو عربی زبان میں ’’سلام‘‘ کہا جاتا ہے اور سیڑھی کو سُلَّم کہتے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ درخت اور سیڑھی اپنی اونچائی کی وجہ سے لوگوں کی دسترس سے باہر ہوتے ہیں۔ لہٰذا اس مادۂ اشتقاق کی رو سے ’اسلام‘ کے لفظ میں بلندی اور عظمت کا مفہوم شامل ہے۔ ظاہر ہے اسلام سے زیادہ دنیا میں عظمت و رفعت کسی اور مذہب کے حصہ میں نہیں آئی ہے اور یہ اس کی عظمت ہی کی دلیل ہے کہ یہ ہر ایک بدخواہ کی دسترس سے باہر ہے۔

8۔ اسلام کا اصطلاحی مفہوم

اسلام میں امن و سلامتی کا مفہوم دو لحاظ سے شامل ہے:

(الف) لازم
(ب) متعدی

لفظِ اسلام اپنے معنی لازم کے اعتبار سے ’’امن و عافیت کو پالینے اور ہر قسم کے خوف و خطر سے محفوظ ہو جانے‘‘ سے عبارت ہے۔ لہذا مسلم وہ شخص ہے جو اسلام کے باعث دنیا اور آخرت میں امن و عافیت پالے اور ہر خوف و غم سے محفوظ ہو جائے۔ کیونکہ اسلام اپنے پیروکاروں کے مصائب و مشکلات سے حفاظت کی ذمہ داری قبول کرتا ہے۔ اس لئے امن و عافیت کا یہ مفہوم دینِ اسلام کے تمام پہلوئوں اورعلمی و عملی گوشوں میں پوری طرح جاری و ساری ہے۔ اس لئے اسلام ہی حقیقت میں راہِ فلاح و نجات ہے۔

متعدی معنیٰ کے اعتبار سے اسلام دوسروں کو امن و سلامتی اور حفاظت و عافیت مہیا کرنے کی تلقین کرتا ہے۔ اس لحاظ سے مسلم وہ شخص ہے جو دوسروں کے لئے باعثِ امن و عافیت ہو، اس کے ذریعے دوسرے لوگوں کو سلامتی اور حفاظت کا احساس میسر آئے جیسا کہ حضورﷺ نے ارشاد فرمایا:

المسلم من سلم المسلمون من لسانہ ویدہ.

(صحیح البخاری، 1: 6، کتاب الایمان، رقم حدیث: 10۔ 11)

مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمانوں کے جان و مال اور عزت و آبرو محفوظ ہوں۔

الدین النصیحۃ قلنا لمن قال ﷲ ولکتابہ و لرسولہ ولا ئمۃ المسلمین وعامتھم.

صحیح مسلم، 1: 54، کتاب الایمان، رقم حدیث: 95

دین وفاداری اور خیر خواہی کا نام ہے۔ (صحابہ رضی اللہ عنہم فرماتے ہیں کہ) ہم نے عرض کیا یارسول اللہﷺ یہ خیر خواہی اور وفاداری کس کے لئے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ، اس کے رسول، اس کی کتاب، مسلمانوں کے حکام اور عوام کیلئے۔

قرآنِ حکیم میں یہ امر واضح کیا گیا کہ جب تک دنیائے انسانیت کفر اور ظالمانہ تسلط کے خاتمے کے ذریعے امن و عافیت کا گہوارہ نہ بنی اس وقت تک ’’دین کی تکمیل‘‘ کا اعلان نہیں کیا گیا۔ کیونکہ تکمیلِ اسلام کا اعلان دنیا کو امن و سلامتی مہیا کرنے کی ضمانت دیئے بغیر ممکن نہ تھا۔ اس لئے ارشاد فرمایا گیا:

اَلْیَوْمَ یَئِسَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ دِیْنِکُمْ فَلَا تَخْشَوْھُمْ وَاخْشَوْنِ ط اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْناً.

(المائدہ، 5: 3)

آج کے دن کافر تمہارے دین (کی تکمیل) سے مایوس ہو گئے، پس تم ان سے نہ ڈرو، مجھ سے ڈرو۔ آج کے دن میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لئے اسلام کو بطور ابدی دین کے منتخب کر لیا۔

اور اہل ایمان کی تعریف کرتے ہوئے بار بار یہ ارشاد فرمایا:

فَلَا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَ.

(البقرہ، 2: 38)

پس نہ تو کوئی خوف ہو گا ان پر اور نہ ایسے لوگ غمگین ہوں گے۔

قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کے خاص بندوں کی شان کا تذکرہ بھی ان الفاظ میں فرمایا گیا ہے:

اَلَآ اِنَّ اَوْلِیَآء اللّٰہِ لَا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلاَھُمْ یَحْزَنُوْنَ.

(یونس، 0 1: 62)

یاد رکھو اللہ کے دوستوں پر نہ تو کوئی اندیشہ ہوتا ہے اور نہ غم والم۔

اسی بنا پر جب اہلِ اسلام نے نبی اکرمﷺ کی زیرِ قیادت مکہ معظمہ کو فتح کیا، تو اس وقت آپﷺ نے کفارو مشرکین کو عام معافی کی نوید سناتے ہوئے اور انہیں جان کی امان اور پناہ دیتے ہوئے یہ اعلان فرمایا:

’’جو کوئی اسلام قبول کرے گا یا بیت اللہ شریف میں داخل ہو گا یا ابوسفیان کے گھر میں داخل ہو جائے گا یا اپنے ہی گھر کا دروازہ بند کرکے بیٹھا رہے گا، وہ امن و عافیت میں ہو گا۔

(سنن ترمذی، وسنن نسائی، مشکوٰۃ المصابیح، 1: 23‘ حدیث29)

ابوسفیان کے گھر کو ’’خانۂ امن‘‘ بنا دینے کا پس منظر یہ تھا کہ ابوسفیان نے اسلام قبول کر لیا تھا اور یوں اس نے خود بھی امن و عافیت کی دولت پالی تھی اور دوسروں کے لئے بھی اپنی ذات اور اپنے گھر کو دارالامان اور حفاظت کا مرکز بنا لیا تھا۔

9۔ اسلام کے مفہوم کا مثبت پہلو

اس کا مطلب ہے دوسروں پر زیادتی نہ کرنا، ان کے لئے کسی پریشانی اور مصیبت کا سبب نہ بنناگویا مسلمان وہ شخص ہے جو دوسروں کے لئے سراسرآسودگی، نفع بخشی، راحت اور امن و عافیت کا ذریعہ ثابت ہو۔ اس کا جینا، مرنا، اس کی سوچ، فکر، الغرض اس کی ہر چیز دوسروں کے لئے سکون واطمینان کا سبب ہو جائے۔ اسی بناء پر نبی کریمﷺ نے فرمایا ’’جو شخص اپنے کسی مسلمان بھائی کی ضرورت کو پورا کرنے میں مصروف ہوتاہے، خدا تعالیٰ اسکی حاجت براری میں مصروف ہو جاتا ہے اور جو کوئی اپنے کسی مسلمان بھائی کی تنگی دور کرے، خدا تعالیٰ قیامت کی سختیوں میں سے ایک سختی اس سے دور کردے گا اور جو کوئی مسلمان کے عیوب کی پردہ پوشی کرے گا، خدا تعالیٰ قیامت کے روز اس کے عیوب کی پردہ پوشی فرمائے گا۔

نیز فرمایا’’بخدا کوئی بندہ اس وقت تک صاحبِ ایمان نہیں، جب تک وہ دوسروں کے لئے وہی چیز پسند نہ کرے جو اپنے لئے پسند کرتا ہے۔

آپ ﷺ نے ایک اور مقام پر ارشاد فرمایاکہ ’’جو شخص کسی مسلمان بھائی کی غیر حاضری میں اس کے گوشت کی حفاظت کرتا ہے (دوسروں کو غیبت کرنے سے منع کرتا ہے)، تو خدا تعالیٰ اسے جہنم سے آزادی بخشتا ہے۔

ایک اور حدیث پاک میں ہے’’جو مسلمان بھی اپنے کسی مسلمان بھائی کی ایسے موقع پر مدد کرتا ہے جبکہ اس کی عزت و حرمت کو نقصان پہنچایا جارہا ہو تو خداتعالیٰ اس کی ان گھڑیوں میں امداد فرماتا ہے جب اسے مدد کی ضرورت ہو۔ (ابوداؤد‘ مشکوٰۃ)

ان تمام ارشاداتِ نبوی سے یہ بات اچھی طرح ثابت ہو جاتی ہے کہ اسلام صلح و محبت کا دین ہے نہ کہ جبر اور جنگ کا۔

احادیث میں تو یہاں تک تاکید ملتی ہے کہ اگر کوئی کافر تلوار سر پر لٹکتی دیکھ کر بھی دعوتِ اسلام قبول کر ے یعنی کلمۂ طیبہ پڑھ لے تو اس کے قتل سے ہاتھ روک لینا ضروری ہے۔ ایک مرتبہ ایک صحابی اسلام کے دشمن کوقتل کرنے ہی والے تھے کہ اس نے کلمۂ طیبہ پڑھ لیا، مگر صحابی نے اس کے کلمہ کی پروا نہ کی اور اسے قتل کر دیا، آنحضرتﷺ کو پتہ چلا تو آپﷺ نے سخت الفاظ میں اس قتل پر پوچھ گچھ کی اور اس صحابی ص کے اس قول پر کہ اس نے محض جان بچانے کے لئے کلمہ پڑھا تھا۔ آپﷺ نے ارشاد فرمایا: کیا تونے اس کا دل چیر کر دیکھ لیا تھا۔ (ابوداؤد) اور پھر اس مقتول کے ورثاء کو پوری دیت ادا کرنے کاحکم دیا۔

واضح رہے کہ اسلام جس صلح کی تعلیم دیتا ہے، اس کا مفہوم یہ ہے کہ کبھی بھی حق اور باطل، سچ اور جھوٹ کا فرق ختم نہ ہونے پائے اور ہر حال میں حق کو حق اور باطل کو باطل سمجھا جائے۔ لیکن ہمارے ہاں صلح کا تصور یہ ہے کہ برائی کو برائی سمجھتے اور باطل کو باطل جانتے ہوئے بھی اس کے ساتھ تعاون کا سلسلہ جاری رکھا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ ہم صلح پسند ہیں، اس لئے ہر شخص کو خوش رکھنا چاہتے ہیں، اور ہر شخص کی ناراضگی سے بچنا چاہتے ہیں۔ ہمیں خوف آتا ہے کہ دنیا کیا کہے گی؟ جھوٹے کو جھوٹا اور سیاہ کار کو سیاہ کار اس لئے نہیں کہتے کہ اپنے اندر اس کی ناراضگی مول لینے کا حوصلہ نہیں پاتے۔ حالانکہ ہم دعائے قنوت میں ہر شب خداتعالیٰ سے اس عہد کی تجدید کرتے ہیں: وَنَخْلَعُ وَنَتْرُکُ مَنْ یَّفْجُرُک۔ (اور ہم اس سے تعلق منقطع کر لیتے ہیں جو تیری نافرمانی کرے۔)

اور قرآن میں ارشاد ہے:

وَلَوْلَا دَفْعُ اللّٰہِ النَّاسَ بَعْضَھُمْ بِبَعْضٍ لَّھُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِیَعٌ وَّصَلَوَاتٌ وَّمَسَاجِدُ یُذْکَرُفِیْھَا اسْمُ اللّٰہِ کَثِیْراً.

(الحج، 22: 40)

اور اگر خدا لوگوں کو ایک دوسرے سے نہ ہٹاتا رہتا تو (راہبوں کے) صومعے اور (عیسائیوں کے) گرجے اور (یہودیوں کے) عبادت خانے اور (مسلمانوں کی ) مسجدیں جن میں خدا کا بہت ذکر کیا جاتا ہے، ویران ہو چکی ہوتیں۔

مزید ارشاد فرمایا:

وَقَاتِلُوْھُمْ حَتّٰی لَا تَکُوْنَ فِتْنَۃٌ وَّیَکُوْنَ الدِّیْنُ لِلّٰہِ، فَاِنِ انْتَھَوْا فَـلَا عُدْوَانَ اِلَّا عَلَی الظّٰلِمِیْنَ.

(البقرۃ، 2: 193)

اور ان سے اس وقت تک لڑتے رہو جب تک فساد نابود نہ ہو جائے اور (ملک میں) خدا ہی کا دین ہو جائے اور اگر وہ (فساد سے ) باز آجائیں تو ظالموں کے سوا کسی پر زیادتی نہیں (کرنی چاہیے)

اس آیتِ کریمہ میں قرآنِ حکیم دو اصول بیان کر رہا ہے: اگر کسی معاشرے میں ظلم و ستم ڈھایا جارہا ہو تو اس ظلم کو روکنے اور معاشرے میں امن و امان کی صورتِ حال پیدا کرنے کے لئے لازمی ہے کہ ظلم کے خلاف (تادیبی و انسدادی) کارروائی عمل میں لائی جائے اور اگر معاشرہ ہر فتنے اور شر سے پاک و صاف ہو جائے تو خود بھی امن سے رہا جائے اور دوسروں کو بھی امن سے رہنے دیا جائے۔

10۔ ایمان باللہ کا مفہوم اور اس کے تقاضے

حدیثِ جبریل جس کا ذکر ہم پہلے بھی کر چکے ہیں۔ اس میں حضور سرور کائنات ﷺ نے جن چیزوں پر ایمان لانے کو ضروری قرار دیا ان میں سے پہلی چیز اللہ پر ایمان ہے۔

ایمان زبان سے اقرار کرنے اور دل سے تصدیق کرنے کا نام ہے (اقرار باللسان و تصدیق بالقلب) اس اعتبار سے ایمان باللہ کامفہوم یہ ہوگا کہ بندہ اللہ تعالیٰ کے واحد ہٗ لاشریک، خالق و مالک ہونے، پروردگار اور حاجت روا ہونے کو زبان سے مانے اور دل کی گہرائیوں سے اس کی تصدیق بھی کرے۔ اس اقرار و تصدیق کو جمع کرنے کانام ایمان باللہ ہے۔

اگر محض زبان سے ہی اللہ کے اللہ ہونے کا اقرار واظہار کافی ہوتا تو ایمان کی یہ شرط ماننی کافروں کو اتنی مشکل نہ ہوتی۔ اصل بات یہ ہے کہ اقرارکے ساتھ ساتھ ایمان باللہ کے کچھ تقاضے اور بھی ہیں جن کو پورا کرنے سے ایمان کی تصدیق عملاً ہو جاتی ہے۔ اگر ان تقاضوں کو ٹھیک ٹھیک پورا کیا جائے تو ایمان مکمل ہوتاہے اور ان کو نظر انداز کر دیا جائے تو ایمان مکمل نہیں ہوسکتا۔

ایمان باللہ کے تقاضوں کو ہم بنیادی طور پر تین قسموں میں تقسیم کرسکتے ہیں۔

O محبتِ الٰہی

O اطاعتِ الٰہی

O توکل علی اللہ

محبتِ الٰہی کے بارے میں ارشاد خدا وندی ہے۔

وَالَّذِیْنَ آمَنُوْآ اَشَدُّ حُبًّالِّلّٰہِ.

(البقرہ، 2: 165)

اور اہل ایمان اللہ سے شدید محبت کرتے ہیں۔

دوسرے لفظوں میں خدا تعالیٰ پر ایمان لانے کی علامت یہ ہے کہ اہلِ ایمان کے دلوں میں خدا کی ذات سے بے پناہ محبت اور دلی تعلق پیدا ہو جائے۔ گویا اس کا مطلب یہ ہے کہ بندۂ مومن اللہ کے سوا کسی اور کی محبت اپنے دل میں نہیں سمو سکتا، کیونکہ جس دل میں خدا تعالیٰ کی محبت سما جاتی ہے، اس دل میں کسی اور کیلئے محبت والا تعلق پیدا ہی نہیں ہو سکتا۔ بیوی بچوں، بہن بھائیوں، رشتہ داروں اور دوستوں کی محبتیں اس عظیم محبت کے تابع ہو جاتی ہیں۔ یہ محبت جس محبت کو باقی رکھنا چاہتی ہے، وہ باقی رہتی ہے اور جس کو ختم کرناچاہتی ہے وہ ختم ہو جاتی ہے۔ یہ ہی حقیقی اور سچی محبت ہے (جس کو صوفیاء کرام عشقِ حقیقی کہتے ہیں) اور جس کے بارے میں حضور اکرم ﷺ کا ارشاد ہے۔

مَنْ اَحَبَّ لِلّٰہِ وَ اَبْغَضَ لِلّٰہِ وَاَعْطٰی لِلّٰہِ وَ مَنَعَ لِلّٰہِ فَقَدِ اسْتَکْمَلَ الْاِیْمَانَ.

سنن ابوداؤد، 2: 295، کتاب السنہ، رقم حدیث: 4681

جس نے اللہ کے لئے (دوسروں سے) محبت اور دشمنی رکھی، اور اللہ کے لئے کسی کو دیا یا نہ دیا تو اس نے اپنے ایمان کو کامل کر لیا۔

اللہ سے محبت ہی دراصل وہ مرکز ہے جس کے گرد سب محبتیں ہاتھ باندھے کھڑی ہوتی ہیں۔ اگر یہ کیفیت پیدا کر لی جائے توایمان کامل ہوگا۔ اسی لئے قرآن حکیم میں سرورِ کائنات ﷺ سے خطاب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا گیا:

وَ اذْکُرِاسْمَ رَبِّکَ وَ تَبَتَّلْ اِلَیْہِ تَبْتِیْلاً ط

(المزمل، 73: 8)

اپنے پرور دگار کے نام کا ذکر کرو اور ہر طرف سے کٹ کر صرف اسی کے ہو رہو۔

جب حضور ﷺ کی رب سے محبت اپنی انتہائی بلندیوں کو چھونے لگی تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اب آپ سب کو یہ سنا دیں۔

قُلْ اِنَّ صَلٰوتِیْ وَ نُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَO

(الانعام، 6: 162)

میرا جینا اور میرا مرنا سب کچھ خدائے رب العالمین کے لئے ہے۔

اس آیت کا معنی یہ ہے کہ محض اوقات مقررہ پر مخصوص عبادات کرنے ہی سے حقِ بندگی اور حقِ محبت ادا نہیں ہوتا بلکہ حق تویہ ہے کہ انسان زندگی اور موت کو مکمل طور پر اللہ کے تابع کر دے اور پھر یوں کہے کہ میرا جینا اور مرنا سب کچھ خدا رب العالمین کیلئے ہے۔

یہ محبت وبندگی کا سب سے اونچا مقام ہے کہ انسان کی نگاہ میں اپنی شخصیت اور اپنی ذات بھی ہیچ ہو جائے اور اس کے دل اور دماغ میں صرف ایک ہی ذات، ایک ہی شخصیت اور ایک ہی محبوب کی محبت و عقیدت باقی رہ جائے۔ اسی وجہ سے عارف لوگوں کا کہنا ہے کہ عشق ایسی آگ ہے جو دل سے محبوب کے سوا سب کچھ جلا دیتی ہے۔

11۔ ایمان باللہ کا مفہوم اور اس کے تقاضے

ایمان کی شرطوں میں پہلی شرط کے بارے میں رسول اکرم ﷺ کا فرمان ہے کہ: انسان کو جس چیز سے محبت ہوتی ہے وہ اس کا ذکر بڑی کثرت سے کرتا ہے۔ قرآن مجید میں خدا کے بندوں کی شان میں کہا گیا ہے:

وَالَّذِیْنَ یَبِیْتُوْنَ لِرَبِّھِمْ سُجَّدًا وَّ قِیَامًاO

(الفرقان، 25: 64)

اور وہ جو اپنے پروردگار کے حضور (انتہائی عجز و نیاز سے) سجود و قیام میں راتیں بسر کر دیتے ہیں۔

یہ تو محبت کا دعوی کرنے کے بعد اس کی پہلی شرط کو پورا کرنے والوں کا ذکر تھا اس کے برعکس کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو محبتِ خداوندی کا دعوی تو کرتے ہیں لیکن غفلت کی نیند سوئے رہتے ہیں۔ ان کی بابت سرور کائنات ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ وہ شخص اپنے دعوائے محبت میں جھوٹا ہے، جو زبان سے محبت کا دعویٰ تو کرتا ہے مگر رات کو خواب غفلت میں پڑا رہتا ہے۔

محبت خدا وندی کی دوسری شرط یہ ہے کہ اگر انسان پر دنیا میں رہتے ہوئے کوئی آزمائش یا پریشانی آجائے تو وہ اس آزمائش کو مصیبت نہ سمجھے بلکہ اسے اپنے محبوب کی عطا جان کرنہ صرف اسے قبول کرے بلکہ اس دکھ اور پریشانی میں راحت اور لذت بھی محسوس کرے۔ قرآن کریم میں حضرت ایوب علیہ السلام کا واقعہ متعدد بار بیان ہوا ہے کہ وہ انتہائی سخت جسمانی تکلیف میں مبتلا ہونے کے باوجود کبھی شکایت کا لفظ زبان پر نہ لاتے تھے۔ مفسرین فرماتے ہیں کہ تقریباً بارہ سال وہ اس بیماری میں مبتلا رہے، ان کی بیوی انہیں یہ کہتیں کہ آپ خدا تعالیٰ سے دعا کیوں نہیں مانگتے کہ وہ آپ کی تکلیف دور کر دے۔ وہ جواب دیتے کہ زندگی بھر رب کی نعمتیں میرے شاملِ حال رہی ہیں، اب اگر اس کی طرف سے یہ تھوڑی سی تکلیف آگئی ہے تو مجھے بے صبری کا اظہار کرتے ہوئے شرم آتی ہے۔ بارہ سال کے بعد اہلیہ نے زیادہ ہی مجبور کیا تو ہاتھ اٹھا کر فقط یہ فرمایا:

اَنِّیْ مَسَّنِیَ الضُّرُّ وَاَنْتَ اَرْحَمُ الرَّاحِمِیْنَ ط

(الا نبیاء، 21: 83)

(اے میرے پرورداگر ) مجھے اذیت ہو رہی ہے اور تو سب سے بڑھ کر رحم کرنے ولا ہے۔

ایمانِ باللہ کی تیسری شرط یہ ہے کہ جب دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت سما جاتی ہے تو انسان کے دل کا ہر اس چیز سے رشتہ ٹوٹ جاتا ہے جو محبت الٰہی سے دوری کا سبب بنتی ہو۔ اسی بنا پر ارشاد خداوندی ہے۔

وَ تَبَتَّلْ اِلَیْہِ تَبْتِیْلًا.

(المزمل، 73: 8)

اور سب سے کٹ کر اسی کے ہو رہو

اس آیتِ مبارکہ کے دو معانی ہیں: ایک معنی یہ کہ اے انسان تو خدا سے یوں محبت کر کہ تیرا دل دنیا کی ہر محبت سے بے پروا ہو جائے، جبکہ دوسرا معنی یہ ہے کہ تیرے دل میں خدا تعالیٰ سے محبت کا تعلق کچھ اس طرح مضبوط ہو کہ دنیا کی ہر وہ چیز جوتجھے خدا سے دور لے جانے والی ہو تو اس سے دور ہو جائے۔ اس اعتبار سے وہ شخص بلا شبہ جھوٹا ہے جو خدا کی محبت کا دعوی بھی کرتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ مال و دولت کی محبت میں بھی گرفتار ہے۔

محبتِ الٰہی کا حقیقی تصور سمجھنے کے لئے اطاعتِ الٰہی کا محبت الٰہی سے جو تعلق ہے اسے جاننا نہایت ضروری ہے، کہ کس طرح سے محبتِ الٰہی انسانی زندگی پر اثر ڈالتی ہے اور بندہ کس طرح محبت الٰہی کی شرائط پر پورا اتر سکتا ہے۔ یاد رہے کہ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ انسان ہر وقت خدا تعالیٰ ہی کو یاد کرتا رہے اور سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر یادِ الٰہی میں ہی مصروف رہے، اپنے کاروبار کو بھول جائے، اپنی معاشرتی، تعلیمی، سماجی اور دوسری ذمہ داریاں بھول جائے۔ محبت اور اطاعت کا آپس میں جو تعلق ہے اس کے بارے میں یاد رہے کہ ایمان باللہ ہم سے جس محبت کا تقاضا کرتا ہے، وہ ہرگز ایسی محبت نہیں، جو انسان کو دنیوی زندگی کے فرائض ادا کرنے سے غافل کر دے۔ یہ محبت کوئی ایسا جذبہ بھی پیدا نہیں کرتی، جس سے انسان معاشی، معاشرتی اور عائلی ذمہ داریوں کو نبھانے سے غافل ہو جائے۔ اس کے برعکس اسلام کی تعلیم تو یہ ہے کہ انسان عائلی، معاشی، معاشرتی اور مذہبی ذمہ داریاں جس قدر دیانت داری اور نیک نیتی کے ساتھ اور احکام الٰہی کے مطابق انجام دے گاوہ ہی اللہ کی اطاعت شمار ہوں گی۔

اس لئے ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰهُ.

(آل عمران، 3: 31)

اے پیغمبر(ﷺ) فرما دیجئے، اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری اتباع کرو، پھر اللہ تمہیں اپنا محبوب بنا لے گا۔

بلا شبہ سچی اور بے غرض محبت اسی کو کہا جاتا ہے کہ آدمی ہر حال میں اس کام کو کر گزرے جس کے کرنے کا محبوب ِ حقیقی نے حکم دیا ہے اور اس کام سے رک جائے جس سے اس نے منع کیا ہے۔

12۔ تعلق باللہ اور اس کی اہمیت

یہ سوال بالعموم ذہن میں ابھرتا ہے کہ تعلق باللہ کیا ہے اورایک مسلمان کی زندگی میں اس کا کیا مقام ہے؟ اس کا جواب سادہ لفظوں میں یہ ہے کہ تعلق باللہ، اللہ کی ذات سے خاص وابستگی، نسبت، بندگی کی سچائی اور اس محبت کے والہانہ پن کا نام ہے جو بندہ ہونے کے ناتے ہر مسلمان کے دل میں اپنے خالق اور معبودِ حقیقی کے لئے ہونا چاہیے۔ واضح رہے کہ یہ تعلق بندگی ہی ہے جس کی وجہ سے انسان کو اشرف المخلوقات کہا گیا ہے۔ یہ نسبت جس قدر محکم اور پختہ ہوگی اس طرح اس کا مقام و مرتبہ عوام کی نگاہ میں بلند سے بلند تر ہوتا چلا جائے گا۔ دوسرے لفظوں میں انسان کا افضل و برتر ہونااس کی نسبتِ بندگی کے استحکام پر منحصر ہے۔

آج اس کے مادہ پرستانہ دور کے شور و شر میں یہ تعلقِ بندگی بجائے مضبوط ہونے کے کمزور پڑ گیا ہے۔ تعلقِ بندگی کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لئے ہم اس کے تین پہلوؤں یعنی (1) تعلق باللہ کی ضرورت (2) تعلق باللہ کمزور پڑنے کے اسباب اور (3) تعلق باللہ کی بحالی کیسے ممکن ہے؟ کا اختصار کے ساتھ جائزہ لیں گے۔

(1) تعلق باللہ کی ضرورت کیا ہے؟ اس حوالے سے انسان کو چاہیے کہ وہ اپنے پیدا کرنے والے مالک کے حضور سراپا نیاز بن کر رہے اور اس کے حکم کے آگے چوں نہ کرے کہ یہی بندگی کا تقاضا ہے جس کی حقیقت کو قرآن مجید نے بڑے واضح انداز میں یوں بیان فرمایا ہے۔

وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنَO

(الذاریاتٗ، 51: 56)

اور میں نے جن اور انسانوں کو پیدا ہی عبادت کے لئے کیا ہے (تاکہ ان کا بنیادی تعلق بہر حال اللہ ہی سے رہے)

زندگی کا بہر حال یہی مقصد ہے اور اس مقصد کو بجا لانے میں انسان کا اپنا فائدہ ہے۔ امتِ مسلمہ کو بالخصوص اس آیت مبارکہ کے ذریعے یہ نصیحت کی گئی ہے کہ وہ اللہ سے اپنے اس تعلق کو اپنی نگاہوں سے اوجھل نہ ہونے دے اور کبھی اس مقصد سے غافل نہ ہونے پائے۔

اللہ کی بندگی کا تقاضا یہ ہے کہ انسان اپنے دل کو اس کی یاد سے آباد رکھے اور تمام فانی محبتوں، چاہتوں اور نفسانی خواہشوں کے بتوں کو اپنے دل سے باہر نکال کر اس کی ذات کو اپنی محبتوں اور چاہتوں کا مرکز بنا لے۔ انسان کو یہ فرمانِ الٰہی ہمیشہ اپنے پیش نظر رکھنا چاہیے۔

زُیِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّهَوٰتِ مِنَ النِّسَآءِ وَ الۡبَنِیۡنَ وَ الۡقَنَاطِیۡرِ الۡمُقَنۡطَرَۃِ مِنَ الذَّهَبِ وَ الۡفِضَّۃِ وَ الۡخَیۡلِ الۡمُسَوَّمَۃِ وَ الۡاَنۡعَامِ وَ الۡحَرۡثِ.

(آل عمران، 3: 41)

لوگوں کے لئے ان خواہشات کی محبت (خوب) آراستہ کر دی گئی ہے۔ (جن میں) عورتوں اور اولاد اور سونے اور چاندی کے جمع کئے ہوئے خزانے اور نشان کئے ہوئے خوبصورت گھوڑے اور مویشی اور کھیتی (شامل ہیں)

اس آیت کریمہ میں وہ چیزیں گنوائی گئی ہیں جو نفس کو بہت مرغوب ہیں، ان میں زن، زر اور زمین کو خصوصی اہمیت حاصل ہے اور مال کے ساتھ اس کی محبت ضرورت سے کچھ زیادہ ہی ہے جیسا کہ ایک اور مقام پر ارشاد ہوا۔

وَّ تُحِبُّوْنَ الْمَالَ حُبًّا جَمًّاO

(الفجر، 89: 20)

اور تم مال و دولت سے حد درجہ محبت رکھتے ہو۔

قرآن مجید نے مادی نفسانی محبتوں کو ایک حد میں رکھنے کے ضمن میں ایک معیار مقرر کیا ہے جس کو اس آیۂ کریمہ میں اس طرح بیان کیا گیا ہے۔

قُلْ اِنْ کَانَ اٰبَآؤُکُمْ وَاَبْنَآؤُکُمْ وَاِخْوَانَکُمْ وَاَزْوَاجُکُمْ وعَشِیْرَتکُمْ وَاَمْوَالُ نِاقَتَرفْتُمُوْھَا وَتِجارَۃٌ تَخْشَوْنَ کَسَادَھَا وَمَسٰکِنُ تَرْضَوْنَھَا اَحَبَّ اَلِیْکُمْ مِّنَ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ وَجھَادٍ فِیْ سَبِیْلِہٖ فَتَربّصُوْا حتیّٰ یَاْتِیَ اللّٰہ بِاَمْرِہٖ ط

(التوبہ، 9: 24)

(اے نبی مکرمﷺ) آپ فرما دیں اگر تمہارے باپ (دادا) اور تمہارے بیٹے (بیٹیاں) اور تمہارے بھائی (بہنیں) اور تمہاری بیویاں اور تمہارے (دیگر) رشتہ دار اور تمہارے اموال جو تم نے (محنت سے) کمائے اور تجارت و کاروبار جس کے نقصان سے تم ڈرتے رہتے ہو اور وہ مکانات جنہیں تم پسند کرتے ہو تمہارے نزدیک اللہ اور اس کے رسول ﷺ اور اس کی راہ میں جہاد سے زیادہ محبوب ہیں تو پھر انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم (عذاب) لے آئے۔

قرآن نے اللہ کے ساتھ حقیقی تعلقِ محبت کو یقینی بنانے کے لئے یہ لازمی قرار دیا ہے کہ انسان غیراللہ کی محبتوں کو دبانے کے لئے شعوری کوشش کرتا رہے۔ اگر وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ اپنی محبت کے دعویٰ میں سچا ہے تو اس پر پورا اترنے کے لئے اسے عملی ثبوت فراہم کرنا ہوگا، محض زبانی جمع خرچ سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ یہاں ایک واقعے کا تذکرہ خالی از فائدہ نہ ہوگا:

معرکۂ بدر میں خونی رشتوں کے مقابلے میں ایمان اور محبتِ الٰہی کی فوقیت اچھی طرح کر سامنے آئی۔ جنگ کے خاتمے کے بعد حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بیٹے نے جو مسلمانوں کے ساتھ مقابلے میں لشکر کفار میں تھا اپنے والد گرامی کوبتایا: ابا جان جنگ میں کئی ایسے موقعے آئے جب آپ میری تلوار کی زد میں تھے لیکن والد سمجھ کر میں نے آپ کو چھوڑ دیا، اس پر جناب سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ بیٹا اگر تم ایک بار بھی میری زد میں آتے تو کبھی محبت پدری سے مغلوب ہو کر تمہاری جاں بخشی نہ کرتا اس لئے کہ تم اس وقت دشمنانِ خدا کی طرف سے لڑ رہے تھے۔ اس سے پتہ چلا کہ ایمانی رشتہ سب دنیاوی رشتوں پر حاوی ہے۔ اور عملی زندگی میں ایسا ہونا بھی چاہیے۔

13۔ تعلق باللہ اور اس کی اہمیت

اب ہم دوسرے پہلو یعنی تعلق باللہ کمزور پڑنے کے اسباب کا ذکر کریں گے۔ یوں تو بہت سے اسباب ہیں جو بندے اور اس کے خالق کے تعلق کو کمزور کرنے کا باعث بنتے ہیں، مگر ذرا گہرائی میں جاکر دیکھیں تو دو سبب ایسے ہیں جو اس ضمن میں مرکزی حیثیت جبکہ ان کے مقابلے میں باقی اسباب ثانوی اہمیت رکھتے ہیں۔ وہ دو اسباب یہ ہیں:

(1) تقویٰ کی کمی
(2) ہوا و ہوس کی حکمرانی

(ا) تقویٰ اللہ تعالیٰ کے خوف اور ہر قدم پر اس سے ڈرنے کا نام ہے۔ اگر اللہ کا ڈر دل میں موج زن ہو تو بندہ جرم اور خطا کرنے سے پہلے سو بار سوچتا ہے اور اسے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی قائم کی ہوئی حدود پھلانگنے کی جرأت نہیں ہوتی۔ محاسبے کا خوف اسے برائی سے روکے رکھتا ہے۔ لیکن افسوس آج ہم حالات کا جائزہ لیتے ہیں، تو واقعات کے پسِ منظر میں ایک ایسا معاشرہ دکھائی دیتا ہے، جو تقویٰ کے نور سے محروم ہو گیا ہے۔ موجودہ صورتِ حال ایسا نقشہ پیش کرتی ہے کہ نہ ملکی قوانین کا کوئی احترام باقی ہے اور نہ ہی شرعی ضابطے اور قانون کے تقدس کا کسی کو کوئی پاس ہے۔ موجودہ مادیتِ زدہ ماحول میں انسان کا ضمیر سسک سسک کر مر رہا ہے۔ اخلاقی بندھن اتنے کمزور ہو گئے ہیں کہ زمانے کی آنکھ میں نہ حیا باقی ہے نہ احساسِ جرم سے کوئی پیشانی ندامت کے پسینے سے تر ہوتی ہے۔ حرام و حلال کی تمیز اٹھ گئی ہے۔ کاروانِ ملت کی بے بسی اور بے چارگی علامہ اقبالؒ کے اس شعر کی یاد دلاتی ہے:

وائے ناکامی متاعِ کاروان جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا

تمدن اور ثقافت کی آزادی کی نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ادب تہذیب اور کلچر کے نام پر فحاشی، عریانی اور بے راہروی کو فروغ دیا جارہا ہے۔ بے حیائی اور بے حمیتی کے جن نے بوتل سے نکل کر وہ تباہی مچائی ہے کہ ہر طرف دہشت گردی، قتل و غارتگری، اغوا، دھونس، دھاندلی، غبن، خیانت اور نفرت و عداوت کا بازار گرم ہے۔ کرپشن اور بدعنوانی کے کینسر نے ہر ادارے کو مفلوج اور نیم جان کر دیا ہے۔ خود کشی اور خود سوزی کی وارداتیں آئے دن اخبارات کی سرخیوں کا عنوان بنتی ہیں، لوگوں کی ایک کثیر تعداد خطِ غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہی ہے، تقویٰ کے نہ ہونے سے انسان نے خون پینے والے بھیڑے کا روپ دھار لیا ہے اور ’’اسفل السافلین‘‘ کی صورت میں وہ ’’ڈریکولا‘‘ بن گیا ہے، جسے خلافِ انسانیت ذلیل ترین حرکت کرتے ہوئے بھی کوئی شرم اورعار محسوس نہیں ہوتی۔

یہ گھمبیر صورتِ حال جس کی کچھ جھلکیاں اوپردکھائی گئی ہیں، اس سبب سے پیدا ہوئی ہے کہ لباسِ تقویٰ کی دھجیاں فضائے آسمانی میں بکھیر دی گئی ہیں، جس کے نتیجے میں انسان کا تعلقِ بندگی اپنے مولاکے ساتھ کٹ کر رہ گیا ہے اور اس کا اپنے خالق و مالک کے ساتھ وہ رشتہ نہیں رہا جو اس کا بندہ ہونے کے ناتے ہونا چاہیے تھا۔

(2) اللہ سے بندے کے تعلقِ بندگی کے کمزور ہونے کا ایک اور اہم سبب ہوس کی حکمرانی ہے۔ آج بدقسمتی سے زندگی کے ہر شعبے میں ہوس نے اپنے پنجے گاڑ رکھے ہیں، جس نے انسان کو خود غرض، مطلب پرست، دھوکہ باز، لالچی، فاسق و فاجر، متکبر اور حرص و ہوا کا بندہ بنا کررکھ دیاہے۔ معاشرے میں اخلاقی قدریں بری طرح پامال ہو رہی ہیں۔ لوٹ مار، ذخیرہ اندوزی، رہ زنی، بددیانتی، نوسربازی، ملاوٹ اور ناپ تول میں کمی جیسی بیماریاں اور خرابیاں عام ہیں، جو سب ہوس کی پیداکردہ ہیں۔ ہوس نے انسانی رشتوں کا تقدس مجروح کر دیا ہے، دلوں سے محبت، مروت اور اخلاص چھین لیا ہے اور خود غرضی، ابن الوقتی کے شعلوں کو ہوا دے کر انسانیت کے خرمن کو راکھ کا ڈھیر بنادیا ہے۔

ہوس کی یوں تو ان گنت شکلیں ہیں مگر ہوسِ زر اور ہوسِ اقتدارنے وہ گل کھلائے ہیں کہ تہذیب و انسانیت سر پیٹتے دکھائی دیتے ہیں۔ بے وفائی، دغا بازی اور بے ضمیری انسانی مزاج میں اس حد تک سرایت کر چکی ہے کہ ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے اور آگے نکلنے کی دوڑ میں انسان اخلاقیات کے سب سبق بھول چکا ہے۔ دور حاضر کا بڑا المیہ یہ ہے کہ اپنے مدِمقابل کو نیچا دکھانے کے لئے نہ صرف ہر غیر اخلاقی اور غیر انسانی حربہ اختیار کیا جاتا ہے بلکہ پوری کوشش کی جاتی ہے کہ حقدار کو اس کا حق نہ ملنے پائے چاہے وہ کتنا ہی باصلاحیت اور قابلیت سے مالا مال کیوں نہ ہو۔

یہ بات اب پوری دنیا کو معلوم ہے کہ ہمارے حکمران نام نہاد جمہوریت کی آڑ میں زیادہ سے زیادہ آمرانہ اختیارات اپنی ذات میں جمع کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں اور اپنے اقتدار کی کرسی کو مضبوط کرنے کے لئے ہر ادارے کو تباہ کرنے سے ذرہ برابر نہیں ہچکچاتے۔ پاکستان کی گذشتہ پچاس سالہ تاریخ مارشل لائوں اور نیم جمہوری حکومتوں سے عبارت ہے۔ جو بھی تختِ اقتدار پر بیٹھا اسے فوج نے ہی اقتدار و اختیار کی مسند سے ہٹایا۔ اس کا سبب وہی ہے جس کی نشاں دہی اقبالؒ نے اپنے اس شعر میں کی تھی۔

ہوئی دین و ملت میں جس دم جدائی
ہوس کی امیری ہوس کی وزیری

ماضی و حال کے ہر حکمران طبقہ کے امراء و وزراء خواہ ان کا تعلق جمہوری، نیم جمہوری اور فوجی حکومتوں میں کسی سے ہو، ہوا و ہوس کے غلام تھے۔ انہوں نے بجائے عوام کی خدمت کے ملک اور قوم کو دل کھول کر لوٹا اور ملکی معیشت کو اپنے اللوں تللوں سے کھوکھلا کرکے رکھ دیا۔ آج پاکستانی قوم غیر ملکی قرضوں کے بوجھ تلے چیخم پکار کر رہی ہے اور اس کا کوئی پرسانِ حال نہیں۔ ہر پیدا ہونے والابچہ تقریباً قرضے کی زنجیروں میں جھکڑا ہوا ہے۔ یہ بُرے دن ہمیں اس ملک گیر ہوس نے دکھلائے ہیں۔ جس نے ہماری قومی عزت و آبرو کو غیروں کے ہاتھ گروی کر رکھا ہے اور ہمارے لئے عزت اور غیرت سے زندہ رہنے کے تمام دروازے بند کر دیئے گئے ہیں۔

14۔ تعلق باللہ اور اس کی اہمیت

اب ہم تیسرے پہلو کا ذکر کریں گے کہ تعلق باللہ کو کیسے بحال کیا جائے۔ اس سے پہلے ہم اس بات کا ذکر کر چکے ہیں کہ آج کا دورِ زوال اپنی اس انتہا کو پہنچ چکا ہے کہ بندے کا اللہ سے تعلق بالکل کٹ کر رہ گیا ہے۔ یا پھر اتنا کمزور پڑ گیا ہے کہ اعتقادی، اخلاقی، روحانی، سماجی اور معاشرتی خرابیوں نے بری طرح انسان کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ یہانتک کہ اللہ تعالیٰ سے اس کا تعلق محض واجبی اور رسمی سا رہ گیا ہے۔

اس تعلق کو بحال کرنے کا اولین تقاضا یہ ہے کہ اسے محض ’’قال‘‘ تک نہ رہنے دیا جائے بلکہ اسے ’’حال‘‘ میں بدل دیا جائے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس تعلق کی بحالی کے کیا تقاضے ہیں؟ اس کاجواب یہ ہے کہ تعلقِ باللہ کو درج ذیل پانچ تقاضوں کو پورا کرکے بحال کیا جاسکتا ہے۔ وہ پانچ تقاضے اس طرح ہیں (1) ذکرِ الٰہی (2) محبِت الٰہی (3) خشیتِ الہٰی (4) اطاعتِ الٰہی (5)عبادتِ الٰہی، یہاں ہم پہلے تقاضے کو ذرا تفصیل سے بیان کریں گے۔

یہ ایک مسلمہ قاعدہ ہے کہ جس شئے سے محبت ہو اس سے ایک ایسا تعلق پیدا ہوجاتا ہے کہ اٹھتے بیٹھتے اور آتے جاتے ہر بہانے اسے یاد کیا جاتا ہے۔ اس محبت میں جس قدر شدت ہو گی اس قدر اس میں والہانہ پن آجائے گا۔ پھر اگر محبوب صاحبِ حسن و جمال اور عظمت و قدرت والا ہو تو اس کا ذکر بھی کثرت کے ساتھ اہلِ محبت کے حلقوں میں کیا جائے گا۔ یہ تو محبوب مجازی کی بات تھی، جس کی داستانوں کے کردار، لیلیٰ مجنوں، ہیر رانجھا اور شیریں فرہاد کے روپ میں محبت کی سنگلاح اور پرخار وادیوںمیں ہوش و حواس سے بیگانہ، پائوں میں آبلے اور سرپر خاک اوڑھے نظر آئے۔ لیکن جب محبوبِ حقیقی کی یاد کسی کے دل میں گھر کر جائے تو اس بندے کی دیوانگی اور جوش و خروش کا عالم کیا ہو گا اس کا محض تصور ہی کیا جاسکتا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ جس طالبِ حق کو شرابِ عشقِ الہٰی کا ایک گھونٹ میسر آجائے اس کی نظر میں دنیا جہان کی ساری نعمتیں اور لذتیں ہیچ ہو جاتی ہیں۔ دنیا کی بڑی سے بڑی چیز اس کے لئے کوئی اہمیت نہیں رکھتی اور وہ محبوبِ حقیقی کے ایک اشارے پر اپنی جان بھی یہ کہتے ہوئے قربان کر دیتا ہے۔

جان دی، دی ہوئی اسی کی تھی
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا

قرآنِ حکیم نے اہلِ ایمان کی اللہ سے محبت کی بنیادی شرط بیان کرتے ہوئے یوں ارشاد فرمایا ہے:

وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اَشَدُّ حُبّاً لِّلّٰہِ ط

(البقرہ، 2: 165)

اور جو لوگ ایمان والے ہیں وہ (ہر ایک سے بڑھ کر) اللہ سے بہت ہی زیادہ محبت کرتے ہیں۔

اس ارشادِ ربانی میں مومن ہونے کے لئے اللہ کے ساتھ شدید محبت کو ضروری قرار دیا گیا ہے۔ اگر ایسا نہ ہو تو بندہ ایمان کی حلاوت اور لذت سے محروم رہتا ہے۔

تصوف اور طریقت کی دنیا میں ذکرِ الٰہی کا مقام بہت اونچا ہے۔ قلب و باطن کی صفائی کے لئے اہل اللہ ذکر الٰہی پر بہت زیادہ زور دیتے ہیں۔ بلاشبہ ذکرِ الٰہی دلوں کے زنگ کو دور کرنے کے لئے ریگ مار کا کام دیتا ہے۔ اس کی تصدیق خود سرکارِ دوعالمﷺ کے اس ارشادِ مبارک سے ہوتی ہے۔

لکل شئی صقالۃ وصقالۃ القلوب ذکر الله.

مشکوۃ المصابیح، 199، کتاب الدعوات

ہر چیز کو چمکانے کے لئے صیقل کی ضرورت ہوتی ہے اور دلوں کو صیقل کرنے کے لئے اللہ کا ذکر ہے۔

اس پر صحیح بخاری کی ایک حدیث مبارکہ بھی ہے، جس میںآپﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جب کوئی شخص اللہ کا ذکر کرتا ہے تو شیطان جو اس کے دل پر بیٹھا ہوتا ہے پرے ہٹ جاتا ہے۔ اس ارشادِ نبویﷺ سے واضح ہے کہ شیطانی اثرات سے صرف وہی لوگ محفوظ رہتے ہیں جو کثرت سے ذکرِ الٰہی کو اپنا معمول بنالیتے ہیں اور جو ذکرِ الہٰی سے غفلت برتتے ہیں، وہ اس سعادت سے محروم رہتے ہیں اور ان کے دل پر شیاطین اپنا قبضہ جمالیتے ہیں۔ قرآنِ حکیم میں جابجا اورکثرت سے ذکر کی تلقین فرمائی گئی ہے۔ درجِ ذیل قرآنی ارشادات اس پر شاہد ہیں۔

1۔ اَلَّذِیْنَ یَذْکُرُوْنَ اللهَ قِیٰمًا وَّ قُعُوْدًا وَّ عَلٰی جُنُوْبِھِمْ وَ یَتَفَکَّرُوْنَ فِیْ خَلْقِ السّٰمٰوَاتِ وَالْاَرْضِ.

(آل عمران، 3: 191)

یہ وہ لوگ ہیں جو (سراپا نیاز بن کر) کھڑے اور سراپا ادب بن کر )بیٹھے اور (ہجر میں تڑپتے ہوئے) اپنی کروٹوں پر (بھی) اللہ کو یاد کرتے رہتے ہیں اور آسمانوں اور زمین کی تخلیق (میں کارفرما اس کی عظمت اور حسن کے جلوئوں )میں فکر کرتے رہتے ہیں۔

2۔ وَاذْکُرْ رَّبَّکَ کَثِیرًا وَّسَبّحْ بِالْعَشِّیِ وَالْاِبْکَار.

(آل عمران، 3: 41)

اور اپنے رب کو کثرت سے یاد کرو اور شام اور صبح اس کی تسبیح کرتے رہو۔

اوپر والی آیت میں حضرت زکریا ں پراللہ کے کرم کی یہ نشانی بتائی گئی ہے کہ وہ تین دن اشاروں کے سوا کوئی بات نہ کہہ سکیں گے اور اس اضطراری حالت میں انہیں یہ تلقین کی گئی کہ وہ کثرت سے اپنے رب کا ذکر کرتے رہیں۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ جب انسان اضطراب و بے تابی کی حالت سے دوچار ہو تو کثرت کے ساتھ ذکرِ الٰہی اس کے لئے تسکین اور اطمینان کا موجب بن جاتا ہے جیسا کہ ارشاد فرمایا گیا:

اَلَا بِذِکْرِ اللّٰہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُO

(الرعد، 13: 28)

جان لو کہ اللہ ہی کے ذکر سے دلوں کو اطمینان نصیب ہوتا ہے۔

بیشک ذکرِ الٰہی دل کی غذا ہے اور اس سے سکون و اطمینان پیدا ہوتا ہے۔ اگر بندہ ذکرِ الٰہی کو اپنا وظیفہ بنالے تو اس سے اس کا اضطرابِ قلب دور ہو جاتا ہے اور اللہ کے ساتھ ایک تعلق پیدا ہو جاتا ہے جسے صرف وہی سمجھ سکتے ہیں جنہیں ذکرِ الٰہی کی لذت اور چاشنی نصیب ہو جائے۔ ایسے خدا مست لوگ ہر وقت اللہ کے ذکر سے سرشار رہتے ہیں اور ان پر ہر وقت ایک کیف کا عالم طاری رہتا ہے۔

15۔ ایمان بالرسالت (رسالت پر ایمان)

اسلام کا تصورِ رسالت

اسلام نے دیگر مذاہب کے برعکس ’’رسالت‘‘ کا ایک ٹھوس اور جامع تصور پیش کیا، جس نے نہ تو رسالت کو بڑھا کر خدا یا خدا کی اولاد کے درجے پر پہنچایا اور نہ گھٹا کر عام انسانوں کے برابر قرار دیا۔ دینِ مبین نے رسالت و نبوت کا ایسا جامع، کامل اوربے مثل نظریہ پیش کیا جس میں نورِ حق کی صداقت اور چمک دمک واضح طور پر دکھائی دیتی ہے۔

قرآنِ حکیم ہمیں بتاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دنیا کے ہر خطے اور نسل انسانی کے ہر طبقے کی طرف، اپنے رسول اور پیغمبر بھیجے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَاِنْ مِّنْ اُمَّۃٍ اِلَّا خَلَافِیْھَا نَذِیْرٌ.

(فاطر، 35: 24)

اور کوئی امت نہیں مگر اس میں کوئی نہ کوئی آگاہ کرنے والا ضرور گزر چکا ہے۔

قرآن کریم کی یہ آیت رسالت کے عام ہونے کو بیان کرتی ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ کرہ ارض کا ہر وہ خطہ جہاں چند انسانوںنے ملکر کوئی معاشرہ تشکیل دیا ہے، کسی دور میں اللہ کی طرف سے آنے والے انبیاء کے فیضان سے خالی نہیں رہا۔

بالآخر قیامت تک کے تمام ادوار کے لئے خاتم الانبیاء سرورِ کون و مکان، فخرِ موجودات ﷺ کو مبعوث کر دیا گیا۔ اور وہ دنیا کے سب سے عظیم انقلاب اور سب سے بڑے دین کے بانی قرار پائے۔ ارشادِ خداوندی ہے:

تَبَارَکَ الَّذِیْ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلٰی عَبْدِہٖ لِیَکُوْنَ لِلْعٰلَمِیْنَ نَذِیْراًO

(الفرقان، 25: 1)

وہ (خدائے عزوجل) بہت ہی بابرکت ہے جس نے اپنے برگزیرہ بندے پر قرآن نازل کیا تاکہ وہ اہلِ عالم کو ڈر سنائے۔

خدا تعالیٰ نے آپ کے دامن کو عالمین کی ہدایت کے سامان کے ساتھ ساتھ تمام جہانوں کی رحمتوں سے بھی بھردیا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے:

وَمَآ اَرْسَلْنَاکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعَالَمِیْنَO

(الانبیائ، 21: 107)

اور (اے محبوب) ہم نے آپ کو تمام عالمین کے لئے رحمت (بنا کر) بھیجا ہے۔

اب جس طرح تمام جہانوں کا پروردگار ایک ہی ہے:

اسی طرح کل کائنات ایک نبی و رسول خاتم النبین ﷺ کے پرچمِ رحمت تلے جمع کر دی گئی۔ اور یوں توحیدِ باری کے ساتھ ساتھ توحید و رسالت کا تصور بھی اپنے کمال کو پہنچ گیا۔

اب ہم دیکھتے ہیں کہ نظامِ رسالت و نبوت کی ضرورت و اہمیت کیا ہے؟ اس مسئلے کے چار پہلو ہیں۔

1۔ انسان کا مقصد تخلیق اور ضرورتِ رسالت

2۔ نسل انسانی کی جوابدہی کا تصور اور ضرورتِ رسالت

3۔ انسانی علم کی کم مائیگی اور ضرورتِ رسالت

4۔ انسانی علم کی تکمیل اور ضرورتِ رسالت

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا خدا نے انسان تک اس کا مقصدِ تخلیق پہنچانے کاکوئی انتظام بھی کیا یا نہیں؟ عقل اس بات کو نہیں مانتی کہ انسان کا کوئی مقصد تخلیق تو ہو مگر اسے اس کے مقصد حیات سے آگاہ کرنے کاکوئی بندوبست نہ کیا گیا ہو۔ اس سے تو (معاذ اللہ) خدا کی ذات والا صفات پرالزام آتا ہے کہ اس نے اتنی وسیع وعریض کائنات پیدا تو کر دی مگرانسان کو یہ بتانے کا کوئی انتظام نہیں فرمایا کہ اس کا اس کائنات میں اور خود اس کائنات کااس کے دل و دماغ میں مقام اور درجہ کیا ہونا چاہیے؟ آیا انسان کائنات اور اس کے موجودات کی خدمت و پرستش کے لئے ہے یا کائنات خود اس کی خدمت و اطاعت کے لئے ہے؟ اور یہ کہ یہاں اسے کیسے شب و روز گزر اوقات کرنی ہے؟ کس کا حکم ماننا ہے؟ کس کانہیں ماننا ؟ اس مضمون کو سورۃ الانعام میں کس خوبی سے بیان کر دیا گیا ہے۔ ارشادِ ربانی ہے:

وَمَا قَدَرُوا اللهَ حَقَّ قَدْرِہٖ اِذْ قَالُوْا مَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ عَلٰی بَشَرٍ مِّنْ شَیْئٍ ط

(الانعام، 6: 91)

اور ان لوگوں نے خدا کی قدر شناسی کا حق ادانہ کیا۔ جب انہوں نے یہ کہہ دیا کہ خدا نے کسی انسان پر وحی (اور کتاب وغیرہ) کچھ بھی نازل نہیں کیا۔

گویا یہ کہہ دینا کہ خدا نے اس دنیا کی مادی و جسمانی ضروریات کی تکمیل تو کی ہے مگر روحانی و باطنی ضروریات کو تشنہ چھوڑ دیا ہے، اس طرح تو نہ صرف ذاتِ خداوندی کی سخت ناقدری اور ناشکری ہو گی۔ بلکہ مقام و احکامات الہیہ سے ناآشنائی بھی ہوگی۔

16۔ ایمان بالرِسالت کے تقاضے

ایمان بالرسالت کے دودرجے ہیں:

1۔ اصل ایمان…یہ ایمان کی وہ بنیاد ہے جو نبی اکرم ﷺ کی نبوت و رسالت کا زبان سے اقرار کرنے اور دل سے تصدیق کرنے کے ذریعے پختہ ہوتی ہے۔

2۔ کمالِ ایمان…یہ ایمان کامل ہی ہے جو بعض شرائط اور تقاضے صحیح طور پر بجا لانے کے بعد حاصل ہوتا ہے۔ اس کے چار تقاضے اس طرح ہیں:

(1) محبتِ رسول

(2) تعظیمِ رسول

(3) نصرتِ رسول

(4) اطاعتِ رسول

جہاں تک اصل اور کمالِ ایمان کا تعلق ہے۔ دونوں ایک جیسے ہیں۔ جیسا کہ حضرت ابوامامہ اور حضرت معاذ بن انس ص سے مروی حدیث نبویﷺ میں ارشاد ہے:

مَنْ اَحَبَّ لِلّٰہِ وَ اَبْغَضَ لِلّٰہِ وَاَعْطٰی لِلّٰہِ وَ مَنَعَ لِلّٰہِ فَقَدِ اسْتَکْمَلَ الْاِیْمَانَ.

سنن ابوداؤد، 2: 295، کتاب السنۃ، رقم حدیث: 4681

جس نے اللہ کے لئے کسی سے محبت کی اور اللہ ہی کیلئے کسی سے بغض رکھا اور اللہ ہی کے لئے دیا اور اللہ ہی کے لئے روکا پس اس نے ایمان مکمل کر لیا۔

ان شرائط پر پورا نہ اترنے کے باوجودبندے کا اللہ پر ایمان رکھنا اصلاً ثابت ہے مگر وہ ناقص رہ جاتا ہے۔ جہاں تک ایمان بالرسالت میں اصلِ ایمان اور کمالِ ایمان کی حدود کا تعلق ہے، اس میں اس کی حیثیت کا تعین ضروری ہے۔ اوپر بیان کئے گئے چار تقاضوں میں سے پہلے دو (محبت اور تعظیم) اصلِ ایمان کا حصہ ہیں۔ جبکہ بقیہ دو (اطاعت اور نصرت) کمالِ ایمان کا۔

اگر نبی اکرمﷺ کی ذات اقدس کے ساتھ سرے سے محبت ہی نہ ہو اور نہ دل میں آپﷺ کی تعظیم کا کوئی جذبہ ہی موجود ہو بلکہ قلبی و باطنی سطح پر ایک طرح کی لا تعلقی ہو تو ایسی صورت حال ایمان کی نفی کو ظاہر کرتی ہے۔

اسکے برعکس اگر محبتِ رسولﷺ اور تعظیم رسولﷺ کے عناصر انسان کی طبعیت میں پائے جائیں، مگر بدقسمتی سے اطاعت اور نصرت کی توفیق نہ ہو تو پھر ایمان اصلاً تو ثابت ہو گا مگر ناقص رہ جائے گا۔ اس کا کمال اطاعت اور نصرت کے بغیر ممکن نہیں۔ ہاں محبت اور تعظیم کے دو درجے ہیں:

(1) محض محبت و تعظیم
(2) شدید محبت و تعظیم

اگر حضورﷺ کی ذات سے محض اس قدر محبت اور تعظیم کا تعلق ہو کہ انسان کا دل آپ کی یاد سے کچھ مانوس ہو، آپ کے ذکر سے کچھ لذت اور سکون پائے اور اس کے اندر ادنیٰ سے ادنیٰ درجے کی گستاخی و بے ادبی کا بھی شائبہ نہ ہو تو وہ صاحب ایمان تصور کیا جائے گا اور اگر یہی محبت و تعظیم اس کے قلب و باطن میں زور پکڑ جائے اور اتنی شدت اختیار کر جائے کہ نہ تو کسی مخلوق کی محبت واقعۃً آپ کی محبت کا مقابلہ کر سکے اور نہ کسی کی تعظیم اس درجے کو پہنچے تو پھر اس ایمان کوایمانِ کامل تصور کیا جائے گا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

قُلْ اِنْ کَانَ اٰبَآء کُمْ وَ اَبْنَآءُ کُمْ وَاِخْوَانُکُمْ وَاَزْوَاجُکُمْ وَعَشِیْرَتُکُمْ وَاَمْوَالُ نِاقْتَرَفْتُمُوْھَا وَتِجَارَۃٌ تَخْشَونَ کَسَادَھَا وَ مَسَاکِنُ تَرْضَوْنَھَآ اَحَبَّ اِلَیْکُمْ مِّنَ اللهِ وَرَسُوْلِہٖ وَجِھَادٍ فِیْ سَبِیْلِہٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰی یَاْتِیَ اللّٰهُ بِاَمْرِہٖ ط وَاللهَ لَا یَھْدِی اْلقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَO

(التوبہ، 9: 24)

فرما دیجئے ! اگر تمہارے باپ، دادا اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری عورتیں اور تمہارا کنبہ اور تمہارے اموال جو تم کماتے ہو، اور تمہارا کاروبار جس کے نقصان کا تمہیں اندیشہ لگا رہتا ہے، اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول اور اس کی راہ میںجہاد سے زیادہ محبوب ہیں تو پھر انتظار کرو اس وقت کا جب اللہ اپنا حکم (عذاب) نازل کرے۔ بیشک اللہ ایسے سرکشوں کو ہدایت نہیں دیتا۔

اس آیتِ کریمہ میں اللہ اور اس کے رسولﷺ کی محبت کو دنیااور اس میں پائے جانے والی ساری کی ساری محبتوں سے بڑھ کر قرار دیا گیا ہے اور اسے ہی علامت ایمان و ہدایت کہا گیا ہے۔ نبی اکرمﷺ خود ارشاد فرماتے ہیں۔

لا یومن احدکم حتی اکون احب الیہ من والدہ وولدہ والناس اجمعین.

(صحیح مسلم، 1: 49، کتاب الایمان، رقم حدیث: 70 )

تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک ایمان دار نہیں ہو سکتا۔ جب تک مجھے اپنی جان سے بھی بڑھ کر محبوب نہ رکھے۔

چونکہ محبتِ رسول ﷺ ایمان بالرسالت کی بنیاد تھی اس لئے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نبی اکرم ﷺ کے دست اقدس پر ’’محبت‘‘ کی بیعت کرتے تھے۔ جیسا کہ حضرت صفوان بن قدامہ رضی اللہ عنہ نے حضور علیہ السلام کی بارگاہ میں عرض کیا:

یارسول اللہ ﷺ ناولنی یدک ابایعک فناولنی یدہ فقلت: یارسول اللہ ﷺ انی احبک قال: المرء مع من احب.

(الشفاء، 2: 16)

یا رسول اللہ ﷺ اپنا دست اقدس میرے آگے کیجئے۔ میں آپ کی بیعت کرنا چاہتا ہوں۔ آپ نے اپنا دست اقدس میرے آگے بڑھایا۔ میں نے بیعت کرتے ہوئے عرض کیا: یا رسول اللہ ﷺ مجھے آپ سے محبت ہے۔ حضور علیہ السلام نے فرمایا: آدمی کا حشر اسی کے ساتھ ہو گا جس سے اسے محبت ہوگی۔

17۔ ایمان بالآخرت اور قرآن حکیم

قرآن حکیم نے آخرت پر ایمان لانے کے سلسلے میں جو دلائل دئیے ہیں ان کو ہم تین بنیادی حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں۔

1۔ زندگی کے ارتقاء کا قرآنی تصور اور تصورِ آخرت

2۔ نظامِ کائنات کی بقاء اور تصورِ آخرت

3۔ مکافاتِ عمل اور تصورِ آخرت

ان تین بنیادی نکات کی مختصر تفصیل ہم باری باری اس طرح بیان کریں گے۔

1۔ قرآن نے ایمان بالآخرت اور انسانی زندگی کے ارتقاء کے حوالے سے ایک مخصوص نظریہ پیش کیا ہے جس میں اس کے آغاز کا ذکر ان الفاظ میں کیا گیا ہے:

ھَلْ اَتٰی عَلَی الْاِنْسَانِ حِیْنٌ مِّنَ الدَّھْرِ لَمْ یَکُنْ شَیْئًا مَّذْکُوْرًاO

(الدھر، 76: 1)

بیشک انسان پر زمانے میں ایک وقت ایسا بھی گزر چکا ہے کہ وہ کوئی قابلِ ذکر چیز نہ تھا۔

گویا انسانی زندگی کی ابتداء ایسی حالت میں ہوئی کہ وہ کچھ بھی نہیں تھا، یعنی عدم سے ظہور میں آنے سے پہلے انسان نام کی کوئی چیز وجود میں نہیں تھی بلکہ خود کائنات کا نام و نشان تک نہ تھا۔

پھر اللہ کی مشیت نے چاہا تو حرف ’’کُن‘‘ سے یہ کائنات وجود میں آگئی اور حالتِ عدم سے حیات و موت کے سلسلے کا آغاز ہو گیا۔

یہاں سوال یہ ہے کہ جب کچھ بھی موجود نہ تھا اور ہر چیز عدم کے پردے میں تھی تو پھر عدم کی حالت میں یہ حکم کیسے دیا گیا اورکس کو دیا گیا کہ ’’ہو جا‘‘ کیونکہ ہر حکم کے لئے حکم دینے والے کے ساتھ حکم دیا جانے والا (محکوم علیہ) کا ہونا ضروری ہے، جسے مخاطب کہا جاتا ہے۔ سائنس کے پاس اس سوال کا جواب نہیں کہ کائنات میں کوئی ایسا وقت بھی آیا ہو گا جب خدا کی ذات کے سوا اور کوئی چیز موجود نہ تھی۔

ارشادِ باری تعالیٰ:

اِنَّمَآ اَمْرُہٓٗ اِذَا اَرَادَ شَیْئًا اَنْ یَّقُوْلَ لَہٗ کُنْ فَیَکُوْنO

(یٰسین، 36: 82)

اس کی شان یہ ہے کہ جب وہ کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو اسے فرما دیتا ہے کہ ہو جا اور وہ ہو جاتی ہے۔

اوپر ذکر کی گئی آیت میں اس سوال کا جواب موجود ہے۔ اس آیتِ کریمہ میں ’’اَرَادَ‘‘ کے بعد لفظ ’’شئی‘‘ آیا ہے اور شئی کا معنی ہے وہ چیز جس کا ارادہ کیا گیا۔ یہ بات ذہن میں رہے کہ ارادہ ایک ذہنی عمل ہے، جبکہ اللہ تعالیٰ جسم، جسمانی عمل، ذہن اور ذہنی عمل وغیرہ سے پاک ہے۔ محض بات سمجھانے کے لئے یوں سمجھیں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا اور کچھ موجود نہ تھا، مگر اس کے علم میںکائنات اور اس میں پیدا کی جانے والی ہر شئے کا نقشہ موجود تھا۔ اللہ تعالیٰ کے علم میں یہ بات تھی کہ اسے کیا چیز پیدا کرنی ہے اور کس شکل و صورت میں پیدا کرنی ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اپنے علم میں موجود تخلیق کے اس خاکے کو خارجی وجود دینا چاہا تو وہ ذہنی شئی قرار دیا گیا اور اسے یہ حکم دیا گیا کہ’’ ہو جا‘‘ بس وہ خاکۂ عالمِ خارج میں شکل اور صورت اختیار کر گیا۔ اسی توجہ الٰہی کا نام ’’امرِکُن ‘‘ ہے۔

بہر حال خالقِ کائنات نے مختلف مخلوقات کے وجودِ علمی کو اپنے خاص توجہ کا مرکز بنایا تو اسے دو صفتیں (1) صفتِ استمرار اور (2) صفتِ منظوریت عطا کر دیں۔ صفتِ استمرار کا مفہوم یہ ہے کہ اس شئی کے علمی وجود کو ظاہری وجود میں شکل پذیر کرکے اسے باقی رہنے کی قوت بخش دی۔ جبکہ صفتِ منظوریت کا مفہوم یہ ہے کہ اگر کوئی اس چیز کو دیکھنا چاہے تو اسے دیکھ سکے۔ یعنی وہ وجودِ عالمِ خارج میں قائم بھی رہے اور دیکھنے والے کو دکھائی بھی دے۔

یہ ایک طویل بحث ہے، مختصراً حقیقت یہ ہے کہ وہ وجود جو وحدتِ الٰہی کا مظہر تھا اور جس سے تخلیق کائنات کا آغاز ہوا اور جو پہلے باری تعالیٰ کے ارادۂ تخلیق کا پرتو قرار پایا ’’نورِ محمدیﷺ ‘‘تھا جس کا ذکر حدیث ِ پاک میںموجود ہے۔ حضور ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے میرا نور پیدا کیا، یہاں سے کائنات کا آغاز ہوا، اور یہ عمل رفتہ رفتہ جاری رہا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے ’’اَمرِکُن‘‘ سے عالمِ طبعی کو پیدا کیا، جس میں لوح و قلم، عرش، کرسی سمیت لاکھوں کروڑوں اشیاء شامل ہیں۔ پھر عالمِ نباتات اور عالمِ حیوانات وجود میں آئے۔ یہ سب کچھ پہلے سے طے شدہ اور مرتب کردہ منصوبے کے تحت ہوا اور یہ ایک سوچی سمجھی سکیم تھی۔ محض بے مقصد اور جامد عمل نہ تھا، جیسا کہ بعض مادہ پرست ذہن کائنات کے اس ارتقاء کو محض اتفاقیہ حادثہ قرار دیتے ہیں۔

خالقِ موجودات نے اپنی تخلیقی صفات کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک طرف آسمانی مخلوق یعنی فرشتوں کو پیدا کیا تو دوسری طرف قسم قسم کی حیواناتی زندگی کے ساتھ لطیفِ قسم کی جناتی زندگی کو مکمل کیا اور پھر دنیائے حیوانات کو خود شعوری اور خود آگہی کی صفت عطا کرکے اپنے درجۂ کمال تک پہنچا دیا تو تخلیق کے آخری مرحلے میں حضرت انسان کو وجود میں لایا گیا۔ انسان خدا تعالیٰ کی تخلیق کا شاہکار قرار پایا۔ وہ صحیح معنوں میں اللہ تعالیٰ کی صناعی اور خلاقیت کا سب سے مکمل نمونہ تھا۔ جس کی بناء پر اسے دنیائے بحر و بر کا حکمران بنا دیا گیا۔

انسانی زندگی دوسری اشیاء کی زندگیوں سے ارتقاء کے اعتبار سے مختلف ہے۔ اس کی مرحلہ وار زندگی میں موت و حیات کے کئی ادوار میں سے گزارا گیا۔ اس سلسلے میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

قُلْ سِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ فَانْظُرُوْا کَیْفَ بَدَاَ الْخَلْقَ ثُمَّ اللهُ یُنْشِیُٔ النَّشْاَۃَ الْاٰخِرَۃَ ط اِنَّ اللهَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌO

(العنکبوت، 29: 20)

آپ فرما دیجئے کہ زمین کی سیر کرو اور دیکھو کہ اللہ تعالیٰ نے کس طرح آفرینش کی ابتدا کی پھر وہی اللہ چیزوں کو دوبارہ زندگی عطا کرے گا، یقینا اللہ ہر شئے پر قادر ہے۔

18۔ ایمان بالآخرت اور قرآن حکیم

ہم مرحلہ وار حیات کا ذکر کر رہے تھے جس کا حوالہ قرآن کی مندرجہ بالا آیت میں دیا گیا ہے۔ انسانی زندگی میں کبھی حیات کا مرحلہ آیا اور کبھی موت کا لیکن نہ حیاتِ انسان کی آخری منزل تھی اور نہ موت۔ اس مرحلے کے اختتام پر پھر ایک موت آنے والی ہے۔ جس کے بعد کی زندگی کو عالمِ برزخ کہا جاتا ہے۔ اس عالمِ برزخ کا اختتام جس زندگی پر ہو گا اسے حیاتِ آخرت کے نام سے بیان کیا جاتا ہے۔ قرآن حکیم نے ان مختلف مراحل کے بارے میں ایک جگہ یوں ارشاد فرمایا ہے:

فَانْظُرْ اِلٰیٓ اٰثَارِ رَحْمَتِ اللهِ کَیْفَ یُحْیِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِھَا اِنَّ ذَالِکَ لَمُحْیِ الْمَوتٰی وَھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌO

(الروم، 30: 50)

پس اللہ تعالیٰ کی رحمت کے آثار دیکھئے وہ کس طرح زمین کو مردہ ہو جانے کے بعد زندگی بخشتا ہے۔ یقیناً وہ ضرور مردوں کو بھی زندگی عطا کرنے والا ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔

اسی تصور کو ایک جگہ یوں واضح کیا گیا ہے:

وَاللهُ الَّذِیْ اَرْسَلَ الرِّیٰحَ فَتُثِیْرُ سَحَابًا فَسُقْنٰهُ اِلٰی بَلَدٍ مَّیِّتٍ فَاَحْیَیْنَا بِہِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِھَا کَذلِکَ النُّشُوْرُO

(فاطر، 35: 9)

اور وہ اللہ ہی ہے جس نے بھیجیں ہوائیں پھر وہ ہوائیں بادل ابھارتی ہیں پھر ہم اسے کسی مردہ شہر کی طرف رواں کرتے ہیں پھر اس مردہ زمین کو موت کے بعد بارش کے ذریعے زندہ کر دیتے ہیں۔

بس ایسا ہی قیامت کے دن جی اُٹھنا ہو گا۔

اس طرح شروع ہونے والا حیاتِ انسانی کا دور انسان کے سفر ارتقاء کا نقطۂ کمال ہے۔ جس کی طرف قرآن حکیم نے گذشتہ آیت میں اشارہ فرمایاہے۔

اسی طرح حیاتِ برزخی کے اختتام پر حیاتِ انسانی کا ایک اور دور شروع ہو گا جو حیاتِ انسانی کے سفرِ ارتقاء کا نقطہ کمال ہو گا۔ قرآن حکیم سے ایک مقام پر تصورِ آخرت کا استدلال اس طرح کیاگیا ہے:

اَفَحَسِبْتُمْ اَنَّمَا خَلَقْنٰکُمْ عَبَثًا وَّ اَنَّکُمْ اِلَیْنَالَا تُرْجَعُوْنَO

(المومنون، 23: 115)

کیا تم یہ خیال کرتے ہو کہ ہم نے تم کو بیکار پیدا کیا ہے اور یہ کہ تم ہماری طرف لوٹ کر نہیں آئو گے۔

قرآن مجید نے نظامِ کائنات کی بقاء پر جو ادوار گزرے ہیں۔ اس پر تصورِ آخرت کے استدلال کی عمارت کھڑی کی ہے۔

وہ یوں کہ قدرت نے اس زمین کو نہ جانے کتنے اربوں سال بعد جلتے ہوئے سورج کے دائرے سے خارج کیا اور پھر کروڑوں سال اسے ٹھنڈا ہونے میں لگے۔ اس کے بعد جب اس کی سطح پرزندگی کے آثار پیدا ہوئے تو ابتداء میںجمادات، نباتات پھر حیوانات اور سب سے آخر میں یہاں انسانیِ حیات کو پیدا کیا۔ پھر انسانی زندگی کو اعلیٰ مراتب او ر اقدارِ حیات سے روشناس کرنے کے لئے نبیوں اور رسولوں کو الہامِ غیبی کے ساتھ مبعوث کیا گیا اور روحانیِ مدد بھی بہم پہنچائی جاتی رہی۔

قرآن حکیم میں توجہ طلب نکتہ یہ ہے کہ ا س پوری کائنات کو مسخر کرکے انسان کے تابع کر دیا گیا جیسا کہ ارشاد ہوا:

وَسَخَّرَلَکُمْ مَّا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا مِّنْهُ.

(الجاثیہ، 45: 13)

اور جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے۔ سب کو اس نے تمہارے تابع کر دیا۔

جب یہ سارا نظامِ کائنات اور اس کی ایک ایک شئے انسان کے تابعِ فرمان کر دی گئی تو بھلا یہ کیسے ممکن تھا کہ کائنات کی عمر تو کروڑہا برس پر مشتمل ہو، مگر خود انسان کو اوسطاً ساٹھ ستر برس کی عمر دے کر یوں ختم کر دیا جائے کہ وہ گویا اس کائنات میں آیا ہی نہ تھا اور پھر یہ کہ پوری کائنات تو اس کی خدمت اور تصرف کے لئے ہو اور وہ بغیر حساب و کتاب کے یوں ہی چھوڑ دیا جائے۔

اَیَحْسَبُ الْاِنْسَانُ اَنْ یُّتْرَکَ سُدًیO

(القیامہ، 75: 36)

کیا انسان یہ گمان کرتا ہے کہ یونہی چھوڑ دیا جائے گا۔

عقلِ سلیم اس بات کو تسلیم نہیں کرتی کہ پوری کائنات کی نعمتوں سے فائدہ اٹھانے کے بعد انسان کو بغیر پوچھ گچھ کے ختم کر دیا جائے اور کوئی اس سے جواب طلبی نہ کرے۔ اگر یہ بات مان لی جائے تو نظامِ حیات کا فلسفہ اور حکمت کیا باقی رہ جاتی ہے ؟ قرآن کریم نے ایک مقام پر خود کائنات کی قسم کھا کرتصورِ آخرت کو اس طرح اجاگر کیا ہے:

فَوَرَبِّ السَّمَآءِ وَالْاَرْضِ اِنَّہٗ لَحَقٌّ مِّثْلَ مَآ اَنَّکُمْ تَنْطِقُوْنَO

(الذاریات، 51: 23)

آسمانوں اور زمین کے پروردگار کی قسم! روزِ قیامت اور آخرت کا آنااسی طرح قابل یقین، یعنی برحق ہے، جس طرح تم بات کرتے ہو۔

19۔ ایمان بالآخرت اور قرآن ِ حکیم

پہلے دو دروس میں بیان کردہ بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ اتنی بڑی وسیع و عریض کائنات اور اس کے جامع نظام کا ایک ایک وجود صرف اور صرف انسان کے لئے پیدا کیا گیا اور اسی کے لئے باقی ہے، تو اس بات پر کیسے یقین آسکتا ہے کہ انسان کے فنا ہونے یعنی موت کے بعد اس کی زندگی کا کوئی پہلو باقی نہ رہے گا۔ یہ بات ناقابلِ یقین ہے کہ ساری کائنات تو اس کی خاطر باقی رہے اور وہ جو مقصودِ کائنات ہے اسے بغیر کسی نتیجہ خیز انجام کے ختم کر دیا جائے۔ اب ہم عقیدۂ آخرت کی تیسری بنیاد یعنی مکافاتِ عمل کی طرف آتے ہیں۔

مکافات کا سادہ لفظوں میں مطلب یہ ہے کہ آپ ٹھنڈا پانی پئیں گے تو لازماً اس کی ٹھنڈک محسوس کریں گے، آگ میں ہاتھ ڈالیں گے تو ممکن نہیں کہ اس کی تپش اور سوزش محسوس نہ ہو، اس طرح دودھ کی تاثیر طاقت اور توانائی دینا ہے، یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ آپ دودھ پئیں مگر اس کے پینے سے آپ کے جسم میں طاقت اور توانائی نہ آئے۔ اسی طرح زہر کی تاثیر ہلاک کرنا ہے، ۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ آپ زہر کھائیں مگر اس کے باوجود ہلاکت و نقصان سے محفوظ رہیں۔ یہ سارے عمل فطرت کے نظامِ مکافات کا حصہ ہیں اور ہر جگہ ایک ہی قانون کار فرما ہے۔ ہر کام اپنے اندر کوئی نہ کوئی تاثیر رکھتا ہے۔ جب بھی وہ کام کیا جائے گا۔ اس کی ذہنی تاثیر اور نتیجہ ضرور برآمد ہو گا۔ جو قدرت نے اس کی سرشست میں داخل کر دیا ہے۔ قانونِ مکافات دنیا کے نظام کو باقی رکھنے میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ اگر یہ خواص اور افعال کے اندر یہ تاثیریں نہ رکھی جاتیں تو نظامِ کائنات کب کا درہم برہم ہو چکا ہوتا۔ جو کرو گے سو بھرو گے ‘‘۔ ایک ایسی سچائی ہے، جس پر ہر کوئی یقین رکھتا ہے۔ ایک کسان اپنے کھیت میں گیہوں کاشت کرکے بجا طور پر یہ امید لگائے بیٹھا ہوتا ہے کہ اس سے اسے گیہوں کی پیداوار حاصل ہو گی۔ اگر کوئی شخص اسے یہ باور کرانے کی کوشش کرے کہ اس کھیت سے جو کی فصل حاصل ہو گی تو وہ اس شخص کو پاگل قرار دے گا۔ یہ اس لئے کہ اسے قدرت کے نظامِ مکافات پر اچھی طرح یقین ہے اور وہ وثوق سے جانتا ہے کہ گیہوں سے گیہوں اور جو سے جو ہی پیدا ہوتا ہے۔

لہٰذا جس طرح دنیا کی ہر چیز ایک لگے بندھے نظام کے تحت ایک فطری تاثیر رکھتی ہے اسی طرح انسان کا ہر عمل اچھا ہو تو اچھی اور برا ہو تو بری تاثیر رکھتا ہے۔ قرآن حکیم نے اس نظامِ مکافات کی عملی صورت یوں بیان کی ہے:

اَمْ حَسِبَ الَّذِیْنَ اجْتَرَحُوا لسَیِّاٰتِ اَنْ نَّجْعَلَھُمْ کَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُو الصّٰلِحٰتِ سَوَآء مَّحْیَاھُمْ وَ مَمَاتُھُمْ سَآءَ مَا یَحْکُمُوْنَO

(الجاثیہ، 45: 21)

جو لوگ برے کام کرتے ہیں وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ ہم انہیں ان لوگوں جیسا کر دیں گے جو ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے، اور کیا ان کا یہ گمان ہے کہ ان کی زندگی اور موت دونوں یکساں ہو جائیں گی۔ کیا برا حکم لگاتے ہیں۔

اس آیت سے یہ بات کھول کر بیان کر دی گئی کہ یہ ناممکن ہے کہ نیکی کرنے والوں اور برائی کرنے والوں کا انجام ایک جیسا ہو۔ دنیا کی عدالتوں سے توعین ممکن ہے کوئی ظالم اپنے اثر و رسوخ، سرمایہ و دولت، ذاتی تعلقات اور سفارش کی بناء پر سزا پانے سے بچ جائے اور وہ عدالت کا فیصلہ غلط طور پر اپنے حق میں کروانے میں کامیاب ہو جائے، اس طرح یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کسی مظلوم کی داد رسی نہ ہو اور قانون کی نظر میں ظالم و مظلوم، گناہگار و نیکو کار اور اطاعت گزار و نافرمان یکساں نظر آئیںمگرآخرت میںایسا ہونا ناممکن ہے۔ اگر بفرض محال اس دنیا کے بعد کوئی اور دنیا نہ ہو اور یہاں کی عدالتوں سے ماوراء کوئی اور عدالت نہ ہو اور ظالم و مظلوم دونوں مرکر مٹی ہو جائیں اور ان کا کوئی اخروی حساب وکتاب نہ ہو تو پھر کہا جاسکتا ہے کہ قدرت کے نظام میں کوئی قانون ِ مکافات کار فرمانہیں۔ مگر قرآن کہتا ہے کہ یہ بات مشیتِ خداوندی اورقدرت کے نظام ِ عدل دونوں کے سراسر خلاف ہے۔ اگر دنیا میں ظالم اپنے برے انجام سے بچ بھی جائے اور مظلوم کو انصاف نہ مل سکے تو اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ ہمیشہ ظالم و مظلوم کے ساتھ ایک جیسا معاملہ رہے گا، اور ان کے درمیان یکسانیت رہے گی، کیونکہ اس زندگی کے ختم ہو جانے کے بعد اخروی دنیا میں ایک ایسی عدالت لگنے والی ہے جہاں کوئی مجرم اپنے جرم کی سزا پائے بغیر نہ رہے گا اور کسی نیکو کار کی بھلائی جزا پائے بغیر نہ رہے گی۔

لہٰذا قرآن بار بار خبردار کرتا ہے کہ موت انسانی زندگی کی انتہاء نہیں بلکہ یہ اگلی آنے والی زندگی کا دروازہ ہے۔ موت سے ایک زندگی کا سلسلہ ختم ہو جاتا ہے تو دوسری زندگی کا باب کُھل جاتا ہے۔

قرآنِ حکیم کے ارشادات نے ہمیں یہ بھی بتایا ہے کہ جس طرح اچھے اور بُرے لوگ یکساں نہیں، اس طرح انسان کی موت و حیات بھی یکساں نہیں ہو سکتی۔ اگر موت محض فنا ہو جانا ہوتا تو اس صورت میں وہ ہر ایک کے لئے یکساں ہوتی۔ لہذا موت میں وہ کونسا پہلو ہے جو نیک و بد کے انجام کے فرق کو قائم رکھتا ہے ؟ یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ وہ پہلو جس میں دونوں کی موت ایک دوسرے سے جدا اور ممتاز رہتی ہے حیاتِ بعدالموت ہے۔ نیک شخص کی موت یقینا بدکار کی موت سے مختلف ہو گی، کیونکہ یہ موت دونوں صورتوں میں آئندہ زندگی کا پیش خیمہ ہے اور دونوں کی آئندہ زندگی بھی ایک دوسرے سے مختلف ہو گی۔ اگر یہ خیال درست ہو کہ موت مکمل فنا کانام ہے تو پھر قرآن کریم کے ارشاد کے مطابق اچھے اور برے لوگوں کی موتیں یکساں نہیں ہو سکتیں۔ لیکن قرآن ان دونوں کے درمیان جو تمیز پیدا کر رہا ہے وہ تبھی درست ہو سکتی ہے اگر یہ مانا جائے کہ مرنے کے بعدانسان فنا نہیں ہوتا بلکہ وہ زندگی کے اگلے مرحلے میں داخل ہو جاتا ہے جس کا نام آخرت ہے۔

20۔ ایمان بالآخرت اور اس کی حقیقت

ایمان کے پانچ بنیادی ارکان میں سے تیسرا اہم رکن ایمان بالآخرت (آخرت پر ایمان) کا عقیدہ ہے۔ قرآن کریم میں ایمان بالآخرۃ کے مختلف پہلوئوں پر روشنی ڈالی گئی ہے اور اس انسانی زندگی پر اس عقیدے کے جو اثرات پڑتے ہیں، انہیں واضح کیا گیا ہے۔

سب سے پہلے اس تصور کو اجاگر کرنے کیلئے قرآنِ حکیم ایمان بالا ٓخرت کی حقیقت کو یوں واضح کرتا ہے:

کَیْفَ تَکْفُرُوْنَ بِاللّٰہِ وَ کُنْتُمْ اَمْوَاتاً وفَاَحْیَاکُمْ ثُمَّ یُمِیتُکُمْ ثُمَّ یُحْیِیْکُمْ ثُمَّ اِلیْہِ تُرْجَعُونِO

(البقرہ، 2: 28)

(کافرو) تم خدا کا کیونکر انکار کر سکتے ہو، حالانکہ تم بے جان تھے تو اس نے تمہیں جان بخشی۔ پھر وہی تم کو مارتا ہے، پھر وہی تم کو زندہ کرے گا۔ پھر اسی کی طرف تم لوٹائے جائو گے۔

اس آیۂ مبارکہ کی یہ باتیں قابل غور ہیں:

1۔ کُنْتُمْ اَمْوَاتاً (تم مردہ تھے) مردہ ہونے کا ظاہری معنی یہ ہے کہ کوئی چیز موجود ہو کرمر جائے، مگر اس مقام پر انسانی زندگی کے وجود میں آنے سے پہلے کی حالت کو تشبیہاً موت قرار دیا جارہا ہے۔ 2۔ فَاَحْیَاکُمْ (پھر اس نے تم کو زندہ کر دیا) اس سے مراد یہ ہے کہ انسان کو نہ ہونے کی پہلی حالت سے نکال کر موجودہ حالت میں پہنچادیا۔ 3۔ ثُمَّ یُمِیتُکُمْ (پھروہ تمہیں دوبارہ مارے گا) اگرچہ یہ زندگی جو دوسری موت کے بعد انسان کو دی جائے گی، پہلی زندگی سے بالکل مختلف ہو گی، مگر یہ بھی انسان کی آخری قرار گاہ نہ بننے پائے گی۔ 5۔ ثُمَّ اِلیْہِ تُرْجَعُونِ (پھر تم اسی کی طرف لوٹائے جائو گے) یعنی اس دوسری زندگی کے بعد انسان کو پھر دربارِ خدا وندی میں حاضر کر دیا جائے گا۔ یہاں یہ بات ذہن میں رہے کہ قرآن کریم شروع میںدو موتوں کا ذکر کرتا ہے۔ ان میں سے ایک تو انسان کے سفرِ زندگی (شروع کرنے) سے پہلے کی حالت ہے جبکہ دوسری موت سے مراد وہ حقیقی موت ہے جس کا نظارہ ہم اپنی روزمرہ کی زندگی میں آئے دن کرتے رہتے ہیں۔ پھر جس طرح انسان پر دو موتیں وارد ہوتی ہیں، اسی طرح مرحلہ وار انسان کو دو زندگیوں سے بھی واسطہ پڑتا ہے۔ ان میں سے پہلی زندگی تو واضح ہے کہ اس سے مراد عالمِ شہادت کی موجودہ زندگی ہے۔ یہ روشنی، اندھیرے، ہونے اور نہ ہونے کی زندگی ہے۔ مگر دوسری زندگی سے مراد قیامت کی زندگی نہیں، بلکہ عالمِ برزخ یعنی مرنے سے لے کر قیامت تک کی زندگی ہے جس کے دوران منکر نکیر کے سوال و جواب ہوتے ہیں اور انسان عذابِ قبر سے دوچار ہوتا ہے یا رحمتِ خداوندی کا حقدار بنتا ہے۔ اس زندگی کا نام’’ برزخ ‘‘ ہے جبکہ اُخروی زندگی کا آغاز اس وقت سے ہو گا جب اس زندگی اور اس مادی کائنات کو مکمل طور پر فنا کر دیا جائے گا۔ پھر سیدنا آدم علیٰ نبینا و علیہ الصلوٰۃ والسلام سے لے کر قیامت کے واقع ہونے تک جتنے بھی انسان اس دنیا میں آئے ہوں گے، ان سب کو میدان حشر میں جمع کیا جائے گا اور ان کے سامنے عدالت الٰہیہ میں ان کے اعمال ناموںکا حساب و کتاب لیا جائے گا۔ جس کے نتیجے میں یا تو وہ ابدی جنت کے مستحق ہوں گے یا جہنم کے سزا وار ٹھہرائے جائیں گے۔ یہ آخری مرحلہ تین حصوں کا مجموعہ ہے۔ جو مختصراً اس طرح ہے

1۔ مرنے کے بعد میت کو قبر میں دفن کر دیا جاتا ہے پھر وقت آنے پر تمام انسانوں کو ان کی قبروں سے نئی زندگی کے ساتھ اٹھایا جائے گا۔ اس مرحلے کو بعث بعد الموت کہتے ہیں:

2۔ دوسرے مرحلے میں قیامت کے دن اٹھنے کے بعد ہر شخص کو اس بات کا کامل شعور ہو گا کہ میں وہی شخص ہوں جو دنیوی زندگی میں فلاں اچھائی یا برائی کا مرتکب ہواتھا۔ اس طرح اسے اپنی گزشتہ اور موجودہ شخصیت کے ایک ہونے کا پوری طرح احساس ہو گا۔ یعنی شعوری طور پر وہ یہ جانتا ہوگا کہ دنیا کی ندگی گزار کر وہ اس عالمِ آخرت میں پہنچا ہے۔

3۔ انسان نے جو کچھ دنیا میں کیا ہو گا، اس کے لئے وہ جوابدہ ہو گا، اور اس کے مطابق جزا و سزا کا مستحق قرار دیا جائے گا۔ یہ ایمان بالآخرت کا تیسرا جزو ہے۔ ان تینوں اجزاء پر مکمل ایمان رکھنے کا نام ’’ایمان بالآخرت‘‘ ہے جو دنیاوی زندگی سے اخروی زندگی میں داخل ہونے کے ان تین مرحلوں سے عبارت ہے۔ جب تک کوئی مسلمان اس عقیدے کواپنے ایمان کا حصہ نہ بنالے اس کا ایمان مکمل نہیں ہوسکتا۔

21۔ ایمان بالآخرت اور اس کی حقیقت

جیسا کہ ہم اوپر بیان کر آئے ہیں۔ موت کے بعد دوبارہ اٹھایا جاناایمان بالآخرت کا پہلا جزو ہے۔ تصورِ آخرت کے اس اہم جزو کا قرآن کریم میں متعدد مقامات پر ذکر کیا گیا ہے:

1۔ یَوْمَ یَبْعَثُھُمُ اللّٰهُ جَمِیْعًا.

(المجادلہ، 58: 6)

وہ دن جب خدا ان سب کو جلا اٹھائے گا۔

2۔ اِنْ کُلُّ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ اِلَّآ آتِٰی الرَّحْمٰنِ عَبْدًاO لَقَدْ اَحْصٰھُمْ وَ عَدَّھُمْ عَدًّاO

(مریم، 19: 93۔ 94)

جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے، سب کے سب خدا کے روبرو بندے ہو کر آئیں گے۔ اس نے سب کو گھیر رکھا ہے اور ایک ایک کو شمار کر رکھا ہے۔

3۔ یٰٓا اَیُّھَا النَّاسُ اِنْ کُنْتُمْ فِیْ رَیْبٍ مِّنَ الْبَعْثِ فَاِنَّا خَلَقْنٰکُمْ مِّنْ تُرَابٍ.

(الحج، 22: 5)

اگر تم کو مرنے کے بعد جی اٹھنے میں شک ہے تو جان لو کہ ہم نے پہلے بھی مٹی جیسی بے جان شے سے تم کو پیدا کیا ہے۔

اس کے بعد قرآن جو بیان کرتا ہے اس کا مطلب ہے کہ ہر شخص کو اپنی ذات اور نفس کی پوری پوری پہچان ہوگی۔ اس سلسلے میں ارشاد ہے:

ثُمَّ یُبَنِّئُھُمْ بِمَا عَمِلُوْا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ.

(المجادلہ، 58: 7)

پھر جو جو کام یہ کرتے رہے ہیں، قیامت کے دن وہ ایک ایک ان کو بتائے گا۔

اس کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہیں نہ صرف زندہ کرے گا بلکہ تمام انسانوں کو اس سے جو وہ دنیاوی زندگی میں کرتے رہے ہیں آگاہ بھی کرے گا یعنی۔ انہیں بتایا جائے گا کہ انہوں نے کیا کمایا، کیا پایا اور کیا کھویا؟ یہ بھی بتایا جائے گا کہ ہرفردنے یہ برائی کی ہے اور یہ اچھائی۔ اسطرح ان کی سابقہ زندگیوں میں صادر ہونے والی ہر اچھائی اور برائی کا احساس پیدا کر دیا جائے گا۔ کیونکہ اگر دوبارہ زندگی کے بعد کسی فرد میں اپنی گزشتہ زندگی کا احساس نہ ہو، تو پھر جزا اور سزا کا کوئی معنی نہیں رہ جاتا۔ اس لئے جزا اور سزا کا کوئی مفہوم ہونے کے لئے یہ ضروری ہے کہ اس فرد کے ذہن میںاس احساس کو بیدار کر دیا جائے جس کے نتیجے میں وہ جانتا ہو کہ میں نے ہی اپنی گزشتہ زندگی میں یہ جرم کیا تھا اور آج اسی کا یہ بدلہ دیا جا رہا ہے۔ یہ سب کچھ اس لئے ممکن ہوگا کہ ہرشخص خود کو پہچان رہا ہوگا۔ اس بارے میں قرآن نے جو فرمایا ملاحظہ فرمائیے۔

1۔ ھُنَالِکَ تَبْلُوْا کُلُّ نَفْسٍ مَّآ اَسْلَفَتْ.

(یونس، 10: 30)

وہاں ہر نفس اپنے ان اعمال کو خود جانچ لے گا جو وہ پہلے کر چکا ہے۔

نیز فرمایا:

2۔ یَوْمَ تَجِدُ کُلُّ نَفْسٍ مَّا عَمِلَتْ مِنْ خَیْرٍ مُّحْضَرًا مُّحْضَرًا وَّ مَا عَمِلَتْ مِنْ سُوْٓء.

(آل عمران، 3: 30)

وہ دن جب ہر نفس ہر اس نیکی کو جو اس نے کی ہے اور اس برائی کو جو وہ کر چکا ہے، اپنے سامنے موجود پائے گا۔

3۔ یَّوْمَ تَشْھَدُ عَلَیْھِمْ اَلْسِنَتُھُمْ وَ اَیْدِیْھِمْ وَ اَرْجُلُھُمْ بِمَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَO

(النور، 24: 24)

اس دن ان پر خود ان کی زبانیں اور ان کے اپنے ہاتھ اور پاؤں ان اعمال کی گواہی دیں گے، جو وہ کرتے تھے۔

4۔ حَتّٰی اِذَا مَا جَآوُھَا شَھِدَ عَلَیْھِمْ سَمْعُھُمْ وَ اَبْصَارُھُمْ وَ جَلُوْدُھُمْ بِمَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ O وَ قَالُوْا لِجُلُوْدِہِمْ لِمَ شَھِدْتُّمْ عَلَیْنَا قَالُوْا اَنْطَقَنَا اللّٰهُ الَّذِیْ... الایۃ

(حمٓ السجدہ، 41: 20۔ 21)

حتی کہ جب وہ وہاں پہنچیں گے تو ان پر ان کے کان، ان کی آنکھیں اور ان کی کھالیں ان اعمال کی گواہی دیں گی وہ جو وہ دنیا میں کرتے تھے۔ پھر وہ اپنی کھالوں سے کہیں گے کہ تم نے ہمارے خلاف گواہی کیوں دی ہے وہ جواب دیں گی کہ ہم کو اس اللہ نے گویائی عطا کی ہے جس نے ہر چیز کو بولنے کا ملکہ عطا فرمایا۔

مذکورہ بالا آیات میں اللہ تعالیٰ نے کھول کھول کر ان احوال سے انسان کو باخبر کر دیا ہے جو اسے اخروی زندگی میں پیش آئیں گے۔ یہ سب کچھ جان لینے کے بعد ایمان بالآخرت میں اسے کوئی عذر نہیں ہونا چاہیے۔

22۔ ایمان بالآخرت اور اس کی حقیقت

ہم بیان کر رہے تھے جزا و سزا کا تصور اور اس کا احساس انسان کے ذہن میں اس وقت بیدار ہو گا جب گزشتہ زندگی اور اس کی تمام کار گزاری آئینے کی طرح اس کے سامنے ہوگی اوراسی لئے اسے احساس اور شعور کے ساتھ خدا کے سامنے حاضر کیا جائے گا تاکہ وہاں اس کے گناہوں کی سزا اور نیکیوں کی جزا دی جائے گی۔ قرآن مجیدنے اس تصور کی وضاحت کرتے ارشاد فرمایا:

1۔ وَ ِانَّمَا تُوَفَّونَ اُجُوْرَکُمْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ.

(آل عمران، 3: 185)

بیشک تمہیں قیامت کے دن اپنی اس زندگی کے اعمال کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا۔

2۔ ثُمَّ تُوَفّٰی کُلُّ نَفْسٍ مَّا کَسَبَتْ وَ ھُمْ لَا یُظْلَمُوْنَO

(آل عمران، 3: 161)

پھر ہر شخص کو اس کے عمل کاپورا بدلہ دیا جائے گا اور ان پر ظلم نہ کیاجائے گا۔

یہاں ان الجھنوںکا ذکر بھی ضر وری ہے، جو بعض لوگوں کے ذہنوں میں حشر کے دن اور موت کے بعداٹھائے جانے سے متعلق پائی جاتی ہیں۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ ہر شخص کو مرنے کے بعد زمین میں دفن ہونا نصیب نہیں ہوتا، مثلا ًکچھ لوگ ہوائی جہاز میں سفر کر رہے ہوتے ہیں۔ جہاز کو آگ لگ جاتی ہے اور افراد جل کر ختم ہو جاتے ہیں، بلکہ ان کے ذرات بھی ہوا میں منتشر ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح سمندر میں ایک شخص سفر کر رہا ہوتا ہے، دوران سفر ہی اس کو موت آجاتی ہے اور لوگ اس کو کفن پہنا کر نماز، جنازہ ادا کرنے کے بعد اٹھا کر سمندر میں پھینک دیتے ہیں، جہاں اسے مچھلیاں کھا جاتی ہیں۔ مچھلیوں کو شکاری پکڑ لاتے ہیں اور کھا جاتے ہیں۔ اور پھر وہ کھانے والے بھی مر جاتے ہیں۔ اسی طرح قبر میں مردے کو دفنانے کی صورت میں بھی یہ بات مسلم ہے کہ کچھ ہی برسوں میں مٹی انسانی جسم کو مکمل طور پر کھا جاتی ہے۔ اب وہاں نہ جسم ہے اور نہ جسم کے ذرات۔ سوال یہ ہے کہ ان حالات میں عالمِ برزخ اور عالمِ آخرت میں اس کے ساتھ کیا ہوگا؟ کیسے اٹھایا اور زندہ کیا جائے گا؟ اور کیسے رب ذوالجلال کی عدالت میں حساب و کتاب کے لئے پیش کیا جائے گا؟ اسی نوعیت کے اعتراضات پچھلی امتوں کے کفار و مشرکین اپنے دور کے انبیاء سے کرتے تھے اور اہل عرب حضور اقدس سے بھی کیا کرتے تھے جن کا ذکر قرآن مجید میںہے:

1۔ وَ قَالُوْٓا ءاِذَا کُنَّا عِظَامًا وَّ رُفَاتًاء اِنَّا لَمَبْعُوْثُوْنَ خَلْقًا جَدِیْدًاO

(بنی اسرائیل، 17: 49)

اور انہی نے کہا کہ جب گل سڑکر ہماری صرف ہڈیاں رہ جائی گی اور ہم ریزہ ریزہ ہو جائیں گے تو کیا ہم از سر نو پیدا کرکے اٹھائے جائیں گے۔

2۔ ءاِذَا مِتْنَا وَکُنَّا تُرَابًا ذَالِکَ رَجْعٌ بَعِیْدٌO

(ق، 50: 3)

کیا جب ہم مر کر مٹی بن جائیں گے تو پھر جی اٹھیں گے۔ زندی کی یہ واپسی بعید از عقل ہے۔

وَ قَالُوْٓا ءاِذَا اضَلَلْنَا فِی الْاَرْضِ ءَاِنَّالَفِیْ خَلْقٍ جَدِیْدٍ.

(السجدہ، 32: 10)

اور انہوں نے کہا جب ہم زمین میں گم ہو جائیں گے تو ہمیں پھر نئے سرے سے پیدا کیا جائے گا۔

3۔ وَ قَالُوْا مَا ھِیَ اِلَّا حَیٰوتُنَا الدُّنْیَا نَمُوْتُ وَ نَحْیَا وَمَا یُھْلِکُنَآ اِلَّا الدَّھْرَ.

(الجاثیہ، 45: 24)

اور انہوں نے کہا کہ ہمیں دنیوی زندگی ہی کا سامنا کرنا ہے، کسی اور کا نہیں۔ ہم اس میں مرتے بھی ہیں اور جیتے بھی ہیں۔ اور ہماری موت کا باعث بھی صرف وقت اور زمانے کا طبعی نظام ہے۔

یاد رہے کہ موت کے بعد اٹھائے جانے کے لئے یہ ضروری نہیں کہ بعینہ اسی بدن اور جسم کو دوبارہ انہیں ذرات اور خلیوں کے ساتھ زندہ کیا جائے جس سے اس کا دنیوی وجود بنایا گیا تھا۔ انسان کے موجودہ جسم کے ذرات اور خلیے سات سال کے اندر مکمل طور پر تبدیل ہو جاتے ہیں۔ اس مدت میں پر انے خلیے اندر ہی اندر پگھل کر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتے ہیں، جب کہ ان کی جگہ نئے خلیے اور نئے سیل لے لیتے ہیں۔ اس طرح ایک انسان کی زندگی میں کئی مرتبہ (مثلاً ستر سال کی عمر میں کم از کم 10 مرتبہ) یہ عمل دہرایا جاتا ہے۔ اس اعتبار سے ہر سال کے بعد اس کے پرانے جسم کی جگہ مکمل طور پر نیا جسم لے لیتا ہے۔ اگر دنیوی زندگی میں انسانی جسم کے بنیادی ذرات کے بار بار تبدیل ہوتے رہنے کے باوجود اس کی شخصیت وہی رہتی ہے توکیا وجہ ہے کہ آخرت میں اس انسان کاڈھانچہ وجود میں نہ آسکے؟ اس کی وجہ فقط انسان کا ’’شعورِ عینیت‘‘ ہے جس نے اسے اپنے نفس کے ادراک اور اپنی ذات کی شناخت پر قائم رکھا اور اس کے ظاہری بدن میں وسیع تر توڑ پھوڑ کے باوجود اس کی شخصیت بھی سلامت رہی۔

لہذا ثابت ہوا کہ انسان کی شخصیت حقیقت میں مادی ذرات کے اجتماع کا نام نہیں، بلکہ انسان کی شخصیت حقیقت میں اس شعور کا نتیجہ ہے، جو بدنی ذرات کے مکمل طور پر بدل جانے کے باوجود اسے برقرار رکھتا ہے۔ اس کی مثال اس طرح ہے۔ فرض کیجئے آپ نہایت پرسکون کمرے میں چار پائی پر لیٹے ہوئے ہیں۔ آپ کو نیند آجاتی ہے اور آپ خواب میں دیکھتے ہیں کہ آپ نے کوئی جرم کیا ہے جس کی وجہ سے پولیس آپ کا تعاقب کر رہی ہے اور وہ بالآخر آپ کو پکڑنے میں کامیاب ہو جاتی ہے۔ پھر عدالت سے آپ کو کوڑوں کی سزا سنائی جا رہی ہے۔ آپ کو کوڑے لگائے بھی جا رہے ہیںاور جیسے ہی کوڑا آپ کے جسم پر پڑتا ہے، آپ چیخنا چاہتے ہیں مگر آواز گلے میں اٹک کر رہ جاتی ہے۔ جب زیادہ تکلیف ہوتی ہے تو ایک زور دار چیخ بلند ہوتی ہے اور آپ کی آنکھ کھل جاتی ہے۔ آپ دیکھتے ہیں کہ آپ بالکل ٹھیک ٹھاک ہیں۔ نہ آپ نے کوئی جرم کیا، نہ پولیس نے آپ کو پکڑا اور نہ سزا دی ہے۔ لیکن جسم پر لرزے کی کیفیت طاری ہے اور نہ صرف رونگٹے کھڑے ہیں، بلکہ چیخ بھی فی الواقع آپ کے منہ سے نکل گئی ہے۔

23 ایمان بالآخرت اور اس کی حقیقت

ہم انسان کے حالتِ خواب کے مشاہدے کا ذکر کر رہے تھے۔ بالکل ایسا ہی معاملہ اس شخص کے ساتھ ہوگا جسے قبر میں دفن کیا جاتا ہے۔ اس کے جسم کے مادی ذرات کو بلاشبہ مٹی کھا گئی، اس کی ہڈیوں کو زمین نے ختم کر دیا اور اس کے جسمانی ذرات اور خلیوں میں سے کچھ نہ بچا، لیکن اس شخص کی روح تو باقی ہوتی ہے جو نہ فنا ہوتی ہے اور نہ اسے مٹی نگل سکتی ہے۔ گویا انسانی زندگی کا شعور اس کے جسم کی وجہ سے نہیں، اس کی روح کی وجہ سے باقی رہتا ہے۔

لہذا انسانی جسم کے گل سڑ جانے کے باوجود اس کی حقیقی شخصیت، ذاتی شعور اور اس کا احساس اپنی جگہ موجود رہتا ہے۔ اور عالمِ برزخ میں اس کے بدن پر سزا و جزا کا جو عمل ہوتا ہے، وہ اس کے ظاہری جسم اور مادی خلیوں پر نہیں بلکہ اس کی حقیقت اور اصلی شخصیت پر ہوتا ہے جو روح کی وجہ سے مثالی جسم کی صورت میں موجود رہتی ہے۔ اسی طرح اگر جسم آگ میں جل کر راکھ ہو گیا ہو یا سمندر میں ختم ہو گیا ہو، تب بھی اصل شخصیت باقی رہتی ہے جو جزا و سزا کے لئے کافی ہے۔

لہٰذا قبر میں لٹایا گیا مادی جسم خواہ وہ آگ میں جل کر فنا ہوا ہو یا سمندر میں غرق ہوگیا ہو، یا جنگل کے شیروں اور چیتوں کے پیٹ میں چلاگیا ہو، اس کی اصلی اور حقیقی شخصیت ختم نہیں ہوتی بلکہ وہ جوں کی توں رہتی ہے۔ اس لئے کہ انسانی روح اور اس کا باطنی وجود اپنی جگہ درست، صحیح و سالم اور ہر نقصان سے محفوظ ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ موت کے بعد زندگی کا تعلق جسم کے خاکی ذرات کے ساتھ نہیں بلکہ اس کی باطنی اور روحانی شخصیت کے ساتھ برقرار رہتا ہے۔

ہم اس استدلال سے یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ انسان کا شعور ہی اس کے حشرونشر کے عقیدے کی بنیاد ہے۔ اگر یہ موجود نہ ہو تو سزا جزا کا پورا نظام بیکار اور ایمان بالآخرت کی پوری عمارت دھڑام سے نیچے گر جاتی ہے۔ یہ بات صرف اخروی زندگی تک ہی محدود نہیں، خود ہماری موجودہ زندگی بھی اسی ’’احساس‘‘ کی محتاج ہے۔

اگر کسی شخص کو ایسا انجکشن لگا دیا جائے، جس سے اس میں موجود شعور اور احساس ذات اس طرح ختم ہو جائے کہ اس میں غمی یا خوشی کو محسوس کرنے کی قوت ہی ختم ہو کر رہ جائے تو اب آپ چاہے تو اس جسم کے حصوں کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیں، اس پر چھریوں سے وار کریں لیکن اس پر چیر پھاڑ کا اس شخص پرکوئی اثر نہیں ہوگا۔ کبھی آپ نے سوچا، ایسا کیوں ہوتا ہے کہ کاٹنے کے باوجود جسم کو اذیت محسوس نہ ہو؟ اس کی وجہ فقط یہ ہوتی ہے کہ انسانی جسم تو قائم رہتا ہے، مگر اس میں وہ شعور باقی نہیں جس سے تکلیف کا احساس پیدا ہوتا ہے۔

انسانی زندگی حقیقت میں اس احساس اور شعور ہی کا نتیجہ ہے جس نے اس کے اندر تمام کیفیات کو زندہ رکھا ہے۔ چنانچہ قرآنِ حکیم میں یہ امر واضح کر دیا گیا کہ قیامت کے روز انسانی جسم کے اسی احساس کو بیدار کیا جائے گا۔

ارشاد ہوتا ہے:

فَیُنَبِّئُھُمْ بِمَا عَمِلُوْا.

(النور، 24: 64)

پس وہ تم کو اچھی طرح آگاہ کر دے گا کہ تم کیا کام کرتے رہے ہو۔

یہ الفاظ اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ قیامت کے روز اٹھائے جانے کا عمل جسم کے ساتھ نہیں بلکہ روح اور اس شعور کے ساتھ ہوگا جس سے انسان اپنے گذشتہ کئے اعمال کو بھی دیکھ رہا ہوگا اور اس کی جزا و سزا کی فرحت و تکلیف بھی محسوس کر رہا ہوگا۔

حقیقت یہ ہے کہ خدا کی ذات شعورِ عینیت کے ساتھ ساتھ انسان کو قبر میں اسی جسم کے ساتھ اٹھانے پر بھی قادر ہے جس جسم پر موت وارد ہوئی تھی۔ خواہ اس کا ایک ذرہ بھی ظاہرا باقی نہ رہا ہو۔ پھر بھی قیامت کے دن باری تعالی کی اسی قدرت کو سرِعام دکھایا جائے گا۔ قرآن حکیم اس بات کو یوں واضح کرتا ہے:

اِنْ کُنْتُمْ فِیْ رَیْبٍ مِّنَ الْبَعْثِ فَاِنَّا خَلَقْنٰکُمْ مِّنْ تُرَابٍ.

(الحج، 22: 5)

اگر تمہیں مرنے کے بعدجی اٹھنے میں شک ہے تو تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ ہم نے پہلے بھی تمہیں مٹی سے پیدا کیا ہے۔

لہذا جو ذات انسان کی پہلی تخلیق مٹی سے کرسکتی ہے، وہ اس کی نشاۃ ثانیہ مٹی یا کسی اور چیز سے کیوں نہیں کرسکتی؟

24۔ ایمان بالقدر

ایمانیات کے سلسلے کا ایک اہم موضوع ’’ایمان بالقدر‘‘ ہے جو اجزائے ایمان کا آخری مگر انتہائی ضروری جزو ہے، لیکن عجیب اتفاق ہے کہ اسی مسئلہ کی نسبت لوگوں کے ذہنوں میں طرح طرح کے شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں، نبی اکرمﷺ نے اس موضوع پر کرید کرید کر گفتگو سے منع فرمایا ہے۔ آپﷺ کا ارشاد ہے کہ شیطان تم میں کسی ایک کے پاس آتا ہے اور پوچھتا ہے کہ تجھے کس نے پیدا کیا؟ فلاں چیز کو کس نے پیدا کیا؟ یہاں تک وہ پوچھتا ہے کہ خدا کو کس نے پیدا کیا، آپ ﷺ نے فرمایا کہ بس یہاں رک جاؤ، شیطان کے شر سے خدا کی پناہ مانگو اور اس سے آگے نہ سوچو۔ مقصد یہ تھا کہ لوگ اس پیچیدہ اور نازک مسئلے میں الجھ کر اپنی عاقبت نہ خراب کر بیٹھیں، لہٰذا اس موضوع پر بحث و تکرار میں حد سے آگے بڑھنے کا نتیجہ گمراہی ہی ہو سکتا ہے۔

اس سلسلے میں قرآن کریم میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

وَاللّٰهُ خَلَقَکُمْ وَمَا تَعْمَلُوْنَO

(الصفت، 37: 96)

حالانکہ تم کو اور تمہارے اعمال کو خدا نے ہی پیدا کیا ہے۔

اس آیت میں انسان اور اس کے اعمال دونوں کی تخلیق کو خداوند تعالیٰ کی طرف منسوب کیا گیا ہے، مگر یادرہے کہ لفظ ’’تخلیق‘‘ اور ’’کسب‘‘ کے معانی اور مقاصد مختلف اور جداجدا ہیں۔ کسب کے معنی کرنے یا کمانے کے ہیں۔ جبکہ خلق اور تخلیق کے معنی کوئی چیز پیدا کرنے اور وجود میں لانے کے ہیں۔ انسان اپنے افعال کا مکتسب (یعنی کمانے اور کرنے والا) ہے، مگر انسان کا خالق اللہ تبارک و تعالیٰ ہے۔ انسان اور اسکی تمام تر اشیاء و اعمال مخلوق محض ہیں، جبکہ خداوندتعالیٰ دنیا کی ہر چیز کے خالق ہیں۔ اس طرح اس کائنات میں فقط دو تصورات رہ جاتے ہیں، اول خداوند تعالیٰ کے خالق ہونے کا تصور اور دوم انسان اور اس کے جملہ افعال کے مخلوق ہونے کا تصورِ نتیجتاً خالق ہر فعل میں خالق ہے اور مخلوق اپنی ہر صفت میں مخلوق یہی ہے۔

خدا اور اس کی ذات و صفات کے سوا چونکہ کائنات کی ہر ادنی و اعلیٰ چیز مخلوق ہے، اس لئے کائنات اور اس میں وقوع پذیر ہونے والے اعمال و افعال بھی مخلوق ہیں، جن کے مخلوق ہونے کے ناتے، تخلیق تو باری تعالیٰ نے کی ہے، مگر کسب و ارتکاب انسان اپنی رضا و رغبت سے کرتا ہے۔ اس لئے اب اس سوال کے جواب میں کہ انسان کی اپنے افعال سے کیا نسبت ہو گی یہاں پر قرآن کریم یہ واضح کرتا ہے کہ انسان اپنے افعال کا خالق نہیں، بلکہ ان کا کرنے والا یعنی مکتسب و مرتکب ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:

بَلٰی مَنْ کَسَبَ سَیِّئَۃً وَّاَحَاطَتْ بِہٖ خَطِٓیْئَتُہٗ فَاُوْلٰٓئِکَ اَصْحٰبُ النَّارِهُمْ فِیْھَا خٰلِدُوْنَO

(البقرہ، 2: 81)

ہاں جو برے کام کرے اور اس کے گناہ ہر طرف سے اس کو گھیر لیں تو ایسے لوگ دوزخ میں جانے والے ہیں اور وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔

قرآنِ کریم یہ حقیقت پوری طرح واضح کر دیتا ہے کہ اگرچہ ہر انسانی عمل تخلیق کے اعتبار سے تو مخلوقِ خدا ہے، لیکن اس کا ہر فعل انسان کا اپنا کسب ہے اور کسب چونکہ آزادانہ ہے اس لئے وہی اپنے عمل کے انجام کا ذمہ دار ہے کیونکہ، جزا و سزا کا تعلق کسبِ اعمال سے ہے نہ کہ خلق اعمال سے۔ اسی بناء پر سورۃ الملک میں انسانی تخلیق کا مقصد واضح کرتے ہوئے ارشاد فرمایا گیا:

اَلَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیٰوۃَ لِیَبْلُوَکُمْ اَیُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلًاO

(الملک، 67: 2)

اس نے موت اور زندگی کو پیدا کیا، تاکہ تمہاری آزمائش کرے کہ تم میں سے کون اچھے عمل کرتا ہے۔

موت و حیات بھی اپنی تخلیق کے اعتبار سے خدا تعالیٰ کی مخلوق ہیں، مگر اپنے واقع ہونے کی مناسبت سے، ان کا وجود کسی نہ کسی سبب کانتیجہ ہے۔ زندگی، اعمال کے ارتکاب کا سبب بنتی ہے اور موت عالمِ آخرت میں ان کے نتائج کے مشاہدے کا گویا دنیا میں موت و حیات کی تخلیق کی غرض و غایت ا سلئے ہے کہ یہ دیکھا جاسکے کہ کون اچھے اعمال اپناتا ہے اور کون برے۔ اسی تصور کو قرآنِ کریم دوسری جگہ اس طرح واضح کرتا ہے:

وَمَآ اَصَابَکُمْ مِّنْ مُّصِیْبَۃٍ فَبِمَا کَسَبَتْ اَیْدِیْکُمْ.

(الشوریٰ، 42: 30)

اور جو مصبیت تم پر نازل ہوتی ہے سو وہ تمہارے اعمال ہی کا نتیجہ ہوتی ہے۔

لہٰذا اگر انسان کو کوئی بھی نعمت ملتی ہے تو اس میں خدا تعالیٰ کا لطف و کرم شامل ہوتا ہے، مگر مصیبت واقع ہونے میں انسان کی اپنی غلطیوں کا عمل دخل ہوتا ہے۔ اگرچہ ہر اچھائی اور برائی کا پیدا کرنے والا اللہ ہی ہے لیکن بندگی کا ادب جس کی تعلیم انسان کو دی گئی ہے یہی ہے کہ وہ اپنے اعمال کو نیک بنانے کی کوشش کرتا رہے۔ لیکن وہ یہ جان لے کہ اسے اس راہ میں جن مشکلات اور آزمائشوں سے گزرنا پڑتا ہے وہ اس کے اپنے اعمال کا نتیجہ ہیں۔

25۔ ایمان بالقدر

یہ ایک نہایت نازک اور حساس معاملہ ہے تاہم اس کو ہم آسان ترین کرکے پیش کرنے کی کوشش کریں گے، ایمان بالقدر کے باب میں یہ حقیقت بالکل واضح ہے کہ انسان نہ تو کلیتاً ایسا مختار ہے کہ اس پر کوئی روک ٹوک ہی نہ ہو اور نہ ایسا مجبور کہ وہ خود کو ہر ذمہ داری سے بری قرار دے سکے۔ انسان کی حقیقی حیثیت دونوں کے بین بین ہے جو ایک معتدل کیفیت کی مظہر ہے۔ حقیقت میں اسے اختیار اور ارادے کی مکمل آزادی ہے لیکن اس کی یہ آزادی ایک حد تک ہے۔

سیدنا حضرت علی ص سے کسی نے مسلۂ جبر و قدر کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے سوال کرنے والے سے فرمایا کہ اپنی ایک ٹانگ اوپر اٹھائو، اس نے اٹھالی، پھر فرمایا کہ اب دوسری بھی اٹھائو، اس نے عرض کیا: یہ تو ناممکن ہے، فرمایا کہ پہلی حد انسان کے اختیار کی تھی اور دوسری حد اس کی مجبوری کی ہے یعنی اس کا اپنا توازن اسے اختیار کی ایک خاص حد سے آگے گزرنے کی اجازت نہیں دیتا۔

اس تصور کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ پہلے ان مراحل کو سمجھا جائے جن سے گزر کر کوئی عمل تکمیل پذیر ہوتا ہے۔

سب سے پہلے انسان کے دل میں کسی کام کو کرنے یا نہ کرنے سے متعلق ایک کشمکش پیدا ہوتی ہے یعنی اس کا فرض اور اس کی آرزو بیک وقت اس کے سامنے آتے ہیں اور پھر وہ اس احساس سے دوچار ہوتا ہے کہ وہ یہ کام کرے یا نہ کرے۔

یہاں یہ امر پیشِ نظر رہے کہ یہ احساس صرف شعوری اور اختیاری اعمال سے متعلق ہوتا ہے۔ جو اعمال غیر شعوری اور غیر اختیاری طور پر صادر ہوتے ہیں اور جنہیں اضطراری اعمال کہا جاتا ہے، ان کا ان مراحل سے کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی ایسے افعال پر گرفت ہوتی ہے۔ عملاً اس کی مثال یوں سمجھئے کہ اگر کوئی شخص آپ کی آنکھ میں سوئی چبھونا چاہے اور اس کے خوف سے آپ کی پلکیں اضطراری طور پر بند ہو جائیں تو یہ ایک اضطراری فعل ہے اور ایسا فعل قابلِ مواخذہ نہیں، لیکن اگر یہی پلکیں بدنیتی سے کسی کو بری نظر سے دیکھنے کے فعلِ ناحق کے لئے حرکت کریں، تو یہ اختیاری اور ارادی فعل ہو گا اور اس پر گرفت ہو گی۔ حرکت ایک ہی ہے مگر ارادے اور نیت نے اسے کیا سے کیا بنا دیا۔

سب سے پہلے ذہن میں ایک کشمکش سی پیدا ہوتی ہے۔ مثلاً کسی کا مال دیکھ کر اسے ناجائز طور پر ہتھیانے کی خواہش پیدا ہوئی اور دوسری طرف خدا کے حکمِ نہی کا بھی خیال آگیا۔ ابتدائی سوچ کے اس مرحلے کو’’کشمکش کا مرحلہ‘‘ کہا جاتا ہے۔

اس کے بعد غوروخوض کا مرحلہ شروع ہوجاتا ہے، ذہن دونوں چیزوں کے ممکنہ نتائج یعنی فوائد و نقصانات کا جائزہ لیتا ہے، وہ خدائی حکم پر بھی نظر ڈالتا ہے اور دنیوی منافع پر بھی۔ اس طرح فعل کا ذہنی وجود کشمکش کے ابتدائی مرحلے سے گزر کر غوروخوض کے مرحلے میں داخل ہو جاتا ہے۔ کشمکش اور غوروخوض کے دونوں مرحلوں پر انسانی ذہن کسی کی مجبوری اور پابندی کا شکار نہیں ہوتا۔ یہ دونوں عمل ذہن اور شعور کی سطح پر آزادانہ طریقے سے واقع ہوتے ہیں۔

اس کے بعد اگلا مرحلہ ذہنی فیصلے کا ہوتا ہے۔ یہاں پہنچ کر انسان دو راستوں میں سے ایک کا انتخاب کرتا ہے اور پوری سوچ بچار کے بعد اسے یہ فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ وہ اچھائی اپنائے یا برائی کو، صحیح راستے پر گامزن ہو یا غلط پر اور فرض کی پیروی کرے یا خواہشِ نفس کی، اسی ذہنی فیصلے کو ’’ نیت‘‘ بھی کہتے ہیں۔ اب جہاں تک انسان اپنے ذہنی عمل سے گزرتا ہے، آپ ٹھنڈے دل سے سوچ کر بتائیے کہ کیا ان تینوں مرحلوں میں کس نے انسان کو مجبور کیا؟ کیا اس پرخواہش کو اختیار کرنے یا فرض پورا کرنے کے درمیان غوروخوض پر کسی طرف سے خارجی دبائو پڑا؟ ہرگز نہیں۔ آپ نے مسئلے کے ہر پہلو کو اچھی طرح سے دیکھا اور پرکھا، بے شک ایک کشمکش اور ذہنی تصادم کے مرحلے سے گزر کر سوچ بچار کے نتیجے میں ذہنی فیصلے کے مرحلے تک پہنچنے کے عمل میں انسان مکمل طور پر آزاد ہے۔

اس کے بعد عزم وارادے کا مرحلہ آتا ہے۔ جہاں پہنچ کر آپ اپنے ذہنی فیصلے یعنی نیت کو واقعہ بنانے اور اسے عملی جامہ پہنانے کے لئے ذہنی طور پر کمرباندھ لیتے ہیں، یہاں نیت اور ارادے میں فرق پیش نظر رہے کہ نیت، ذہنی سطح پر کسی چیز کو منتخب کرنے اور ارادہ اس نیت کی تکمیل پر ذہن کے کمربستہ ہوجانے کانام ہے۔ گویا ارادہ، نیت کے انتخاب سے جنم لیتا ہے، نیت مقدم ہوتی ہے اور ارادہ موخر، لہٰذا ارادہ ہمیشہ نیت کے تابع ہوتا ہے۔ ایمان بالقدر پر طویل بخت ذہنی انتشار کا باعث بنے گی بس اتنا جان لینا ہی کافی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بعض معاملوں میں انسان کو مجبور اور بعض میں مختار بنایا ہے اور وہی اچھی اور بری تقدیر کا خالق ہے۔

26۔ قضا و قدر (تقدیر) اور انسانی زندگی

اب ہم قضا و قدر یعنی تقدیر کے بارے چند بنیادی باتیں اپنے قارئین کو بتانا چاہیں گے کہ ’’قدر‘‘ کا لفظی معنی اندازہ کرنا، وزن کرنا، طے کرنا، اور مقرر کرنا ہے، چنانچہ اس سلسلے میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَکُلَّ شَیْئٍ اَحْصَیْنٰهُ فِیْٓ اِمَامٍ مُّبِیْنٍO

(یٰسین، 36: 12)

اور ہر چیز کو ہم نے کتابِ روشن یعنی لوحِ محفوظ میں لکھ رکھا ہے۔

دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا:

بَلْ ھُوَ قُرْاٰنٌ مَّجِیْدٌO فِیْ لَوْحٍ مَّحْفُوْظٍO

(البروج، 85: 21۔ 22)

(یہ کتاب ہزل و بطلان نہیں) بلکہ یہ قرآن عظیم الشان ہے، لوحِ محفوظ میں لکھا ہوا۔

اس طرح اور بھی بہت سی قرآنی آیات ہیں جن سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ کائنات اوربنی نوع انسان کے احوال و کوائف کا علم خدا تعالیٰ کے پاس موجود ہے، جسے اس نے ’’ام الکتاب‘‘ یا ’’لوحِ محفوظ‘‘ میں حفاظت سے لکھا ہوا ہے اور ’’کل شئی‘‘ کا مفہوم یہ ہے کہ کائنات کا کوئی ادنیٰ سے ادنیٰ ذرہ بھی ایسا نہیں جس کا علم اسے نہ ہو۔

بہت سی احادیث میں بھی اس مسئلے پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ مسلم شریف میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ سرورِ کائنات ﷺ نے فرمایا:

کتب اللہ المقادیر الخلائق قبل ان یخلق السموات والارض بخمسین الف سنہ قال و عرشہ علی الماء.

(صحیح مسلم، 2: 335، کتاب القدر رقم: 2653)

اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان پیدا کرنے سے پچاس ہزار سال قبل مخلوقات کی تقدیریں لکھ دی تھیں، جبکہ اس کا عرش پانی پر تھا۔

افسوس کا مقام یہ ہے کہ اس قسم کی آیات اور احادیث کا جو مفہوم عوام میں پایا جاتا ہے، وہ قرآن و حدیث سے بالکل الٹ ہے۔ عوام کے بعض حلقوں نے ان روایات سے یہ مرادلے لیا ہے کہ مسئلہ تقدیر کا مفہوم انسانوں کی بے بسی اور مکمل مجبوری ہے۔ عوام کے خیال میں تقدیر کے ذریعے خدا تعالیٰ نے اپنے بندوں کو مجبور کر دیا ہے، اور وہ ایک قدم بھی ادھر سے ادھر نہیں ہو سکتے۔ حالانکہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔

خدا وند تعالیٰ نے اس دنیا میں انسان کے لئے اچھائی اور برائی تخلیق کرکے اسے اس میں سے کسی ایک کو اپنے لئے چن لینے کا اختیار یعنی قدرت عطا فرمائی ہے۔ وہ چاہے تو نیکی کو اختیار کرے اور چاہے تو بدی کو اپنالے۔ چنانچہ سورہ البلد میں ہے:

اَلَم نَجْعَلْ لَّہٗ عَیْنَیْنِO وَلِسَانًا وَّ شَفَتَیْنِO وَھَدَیْنَاهُ النَّجْدَیْنِO

(البلد، 90: 8 تا 10)

بھلا ہم نے اس کو دو آنکھیں نہیں دیں، اور زبان اور دو ہونٹ (نہیں دیے) (یہ چیزیں بھی دیں) اور اس کو (خیر و شر) دونوں کے راستے بھی دکھا دیئے۔

دوسرے لفظوں میں خدا وندکریم نے جس قدر ظاہری اور باطنی صلاحیتیںانسان کو عطا فرمائی ہیں، ان سب کا ایک واضح مقصد یہ ہے کہ اگر وہ چاہے تو اپنی صلاحیتوں کو راہِ خیر میں صرف کرکے کمال کے مرتبہ کو پہنچ جائے اور چاہے تو اپنی ان قوتوں کو بدی کے بیج بونے اور اس کی فصل کاٹنے کے لئے وقف کر دے۔ اللہ تعالیٰ نے ایک دوسرے مقام پر فرمایا:

لَآ اِکْرَاهَ فِی الدِّیْنِ قَدْ تَّبَیَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَیِّ.

(البقرہ، 2: 256)

دین اسلام میں زبردستی نہیں ہے، ہدایت صاف طور پر ظاہر اور گمراہی سے الگ ہو چکی ہے۔

مزید وضاحت کرتے ہوئے اس سلسلے میں سرورِ کائناتﷺ کی پیغمبرانہ ذمہ داری کے بارے میں ارشاد ہوا:

مَاعَلَی الرَّسُوْلِ اِلَّاالْبَلَاغُ.

(المائدہ، 5: 99)

پیغمبرﷺ کے ذمے بس خدا کا پیغام پہنچا دینا ہے۔

انبیاء کرام علیھم السلام بھی اپنی قوموں کو نصیحت کرنے کے بعد فرماتے تھے:

وَمَا عَلَیْنَآ اِلَّا اْلبَلٰغُ الْمُبِیْنُO

(یٰسین، 32: 17)

اور ہمارے ذمے تو صاف صاف پہنچا دینا ہے اور بس۔

اوپر بیان کردہ آیات کا مقصد یہ ہے کہ پیغمبروں کی ذمہ داری صرف اتنی تھی کہ وہ اپنی اپنی امتوں تک اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچا دیں اب خدائی حکم کے پہنچنے کے بعد یہ کام متعلقہ افراد کا ہے کہ وہ چاہیں تو انبیاء کی باتوں پر کان دھرتے ہیں یا نہیں دوسرے لفظوں میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو یہ اختیار دیا ہے کہ وہ نیکی اور بدی میں سے جس کو چاہیں اپنا لیں۔

27۔ قضا و قدر (تقدیر) اور انسانی زندگی

تقدیر کے باب میں نیکی اور بدی کا تصور واضح کرتے ہوئے رسولِ اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ:

جب کوئی نیک کام کرتا ہے تو اس کے دل پر نور کا ایک نقطہ ثبت ہو جاتا ہے اور اگر وہ نیکیاں کرتا چلا جائے تو اس کا دل نور علی النور بن جاتا ہے۔ پھر اس کی نیکی کا اثر اس کے چہرے پر بھی ظاہر ہونے لگتا ہے۔ ا سکے برعکس اگر کوئی شخص برائی کرتا ہے اور اس پر خدا کے سامنے نادم ہو کر توبہ نہیں کرتا تو اس کے دل پر ایک سیاہ نقطہ لگا دیا جاتا ہے۔ اب اگر وہ شخص توبہ کر لے تو یہ نقطہ مٹادیا جاتا ہے۔ توبہ نہ کرے بلکہ دوسرا گناہ کر لے، پھر تیسرا اور اسی طرح گناہ پر گناہ کرتا چلا جائے تو ہر گناہ کے بدلے اس کے دل پر ایک ایک نقطہ بڑھا دیا جاتا ہے۔ یہ سلسلہ جاری رہتا ہے، یہاں تک اس کے دل کی دنیا سیاہ بادلوں کی طرح تاریک ہو جاتی ہے اور اس میں قبولِ حق کی کوئی صلاحیت باقی نہیں رہتی۔

اصولِ قضا کے تحت یہ سب کچھ ہوتا اور بار بار دہرایا جاتا ہے، مگر قانونِ قدر کے تحت نافرمان بندوں کو قبولِ حق کے اختیار کے ساتھ ساتھ خدا تعالیٰ کی طرف سے حق کی دعوت کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ ان کے کانوں اور آنکھوں کے بند دریچوں کو کھولنے اور ان کے دلوں اور ذہنوں کو نیکی کی طرف مائل کرنے کی کوشش جاری رکھی جاتی ہے، ان پر توبہ و استغفار کے دروازے بھی کھلے رکھے جاتے ہیں اوریہ سب کچھ حکمِ قدر کے تحت ہمیشہ سے جاری رہا ہے اور جاری رہے گا۔

عملی زندگی میں اس کی مثال اس طرح سمجھی جاسکتی ہے کہ کوئی شخص بے احتیاطی کرکے اور خراب اور ناقص غذائیں کھا کر اپنا معدہ مکمل طور پر خراب کر لے اور جب جسمانی کمزوری اور ضعف حد سے بڑھنے لگے تو اپنی بیماری کا صحیح طریقے سے علاج کرنے کے بجائے ثقیل، مرغن اور قوت بخش غذائوں کا استعمال شروع کر دے تو نیتجہ کیا ہو گا؟ ظاہر ہے کہ ایسی طاقت ور غذائیں اس شخص کو مزید بیمارکردیں گی۔ اس کی وجہ یہ نہیں کہ خوراک میں کچھ کمی ہے، بلکہ اصل بات یہ ہے کہ اس کے معدے میں اسے قبول کرنے کی صلاحیت ہی باقی نہیں رہی۔

اسی طرح ایک شخص برائی کی زندگی اختیار کرتا ہے۔ پھر اس راستے پر بڑھتا ہی چلا جاتا ہے۔ اب اگر دل کے بیمار اور مردہ ہوجانے کی وجہ سے اس میں قبولِ حق کی صلاحیت نہیں رہی اور اس پر کسی اعلیٰ سے اعلیٰ نصیحت کا بھی اثر نہیں ہوتا تو اس میں کسی دوسرے کا کوئی قصور نہیں اور نہ ہی اس کا یہ کہنا صحیح ہے کہ ’’میرا مقدر ہی خراب تھا‘‘۔ اسے چاہیے کہ وہ پہلے اپنے باطن کی اصلاح کرے، جہاں سے اصل بگاڑ اور فساد شروع ہوا ہے اور جس بگاڑ کے ہوتے ہوئے اس پر تمام وعظ و نصیحت بے اثر ہو جاتی ہے۔

قضا و قدرکے یہ دونوںپہلو ایک دوسرے کے ساتھ جُڑے ہوئے ہیں۔ ان میں ’’ قدر‘‘ کا تعلق بندے کے اختیار اور فعل سے ہے جبکہ ’’قضا‘‘ کا تعلق خداوند تعالیٰ کے حکم کے نفاذ سے ہے۔ ان میں ترتیب یہ ہے کہ قدر ہمیشہ پہلے اور قضا بعد میں ہوتی ہے۔

ارود میں’’قدر‘‘ کا لفظ اندازے کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے۔ مثلاً ہم یہ کہتے ہیں کہ ’’یہ چیز اس قدر کافی ہے‘‘ یا ہم یہ کہتے ہیں کہ یہ بات ’’اس قدر درست ہے اور اس قدر غلط‘‘ پس قدر سے مراد اردو میں ایک خاص اندازہ اور مقدار ہوتی ہے جبکہ قضا کا مفہوم فیصلہ کرنا ہے۔

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بعض لوگوں کو کسی حادثے یا واقعے کا اس کے ہونے سے پہلے کیسے پتا چل جاتا ہے، انہیں کیسے معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ واقعہ پیش آنے والا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ کائنات کے خالق نے جو نظام پیدا کیا ہے اس میں ہر پیش آنے والے واقعے کا کوئی نہ کوئی سبب یا علت رکھی ہے، اس کو وہ لوگ جو کائنات کا مطالعہ کرتے رہتے ہیں کسی نہ کسی حد تک جان لیتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ان واقعات کی ٹھیک ٹھیک گھڑیوں تک کا جان لینا ممکن ہو جاتا ہے۔ اس طرح کی تمام پیشین گوئیاں اس کے تحت آتی ہیں اور لوگ واقعات کے وقوع سے پہلے محض علت اور سبب جان کر ان کا کھوج لگا لیتے ہیں۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ موسمیات کے ماہرین آئندہ آنے والے موسمی حالات کا سراغ لگا لیتے ہیں۔

اس سے پتا چلا کہ مستقبل کے حالات و واقعات ہر ایک کے لئے مخفی نہیں۔ کوئی آنکھ ایسی بھی ہوتی ہے جس کے سامنے ہر واقعہ اپنی پوری تفصیل کے ساتھ ظاہر کر دیا جاتا ہے۔ وہ ذات جس کے سامنے کائنات کا ماضی، حال اور مستقبل کھلی کتاب کی طرح ہے خود باری تعالیٰ ہے، وہ جسے چاہے ایک حد تک آنے والے کسی واقعے سے باخبر کر دیتا ہے اس کا اختیار اس کے سوا اور کسی کو نہیں کیونکہ وہی علیم اور خبیر بھی ہے اور قادر مطلق بھی۔

28۔ قضاء و قدر (تقدیر) اور انسانی زندگی

قضا و قدر کے موضوع پر علماء نے طویل بحث کی ہے مگر مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ نے اس موضوع پر دو بڑی نفیس حکایات پیش کی ہیں۔ آپ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ ایک چور کو شاہی پیادے پکڑ کر کوتوال کے پاس لائے اور بتایا کہ ’’اس شخص کو ہم نے چوری کرتے ہوئے موقع پر گرفتار کیا ہے۔ کوتوال نے چور سے پوچھا کیا تو نے چوری کی ہے؟ اس نے جواب دیا ’’ہاں‘‘ لیکن میں نے جو کچھ کیا خدا کے حکم سے کیا۔ تو جانتا ہے کہ کائنات ایک ذرہ بھی خدا کے حکم سے باہر نہیں ہے۔ یہ سن کر کوتوال نے پیادوں سے کہا کہ ’’اسے درخت سے الٹا لٹکا کر اتنا مارو کہ کھانا پینا سب بھول جائے۔ یہ حکم سن کر چور نے گڑ گڑانا اور رونا شروع کر دیا تو کوتوال نے کہا: اب کیوں روتا ہے؟ یہ کام بھی میں خدا کے حکم ہی سے کر رہا ہوں۔

دوسری حکایت کچھ اس طرح ہے کہ ایک شخص بغیر کسی اجازت کے باغ میں گھسا اور درخت پر چڑھ کر پھل توڑنے لگا۔ اتنے میں باغ کا مالک ادھر آنکلا اور اس شخص کو پھل توڑتے دیکھ کر بولا: ’’ارے او بے حیا! یہ کیا حرکت ہے؟‘‘ پھل توڑنے والے نے جواب دیا: ’’اگر اللہ کا بندہ اللہ کی پیدا کئے ہوئے پھل توڑ کر کھائے تو اس میں بے حیائی کی کون سی بات ہے؟ خدائے بے نیاز کی نعمتوں پر سانپ بن کر بیٹھنے والا تو کون ہوتا ہے؟‘‘ یہ سن کر باغ کے مالک نے اپنے نوکر سے کہا: ذرا مضبوط رسی اور کوڑا لے آؤ تاکہ میں اللہ کے اس بندے کو جواب دوں۔ غلام دوڑا دوڑا گیا اور دونوں چیزیں لا کر پیش کر دیں۔ بعد ازاںباغ کے مالک نے چور کو اسی درخت سے باندھا اور اس کی پیٹھ پر کوڑے برسانے شروع کر دیئے۔ چور نے کہا: ارے بھائی کچھ تو خدا کا خوف کرو کیا مجھے مار ڈالنے کا ارادہ ہے۔ تو اس نے جواب دیا: ’’ چیخو مت! اللہ کی پیدا کی ہوئی لکڑی سے اللہ کا ایک بندہ اللہ کے دوسرے بندے کو مار رہا ہے۔ ‘‘ آخر اس چور نے اپنے عقیدے سے توبہ کی اور زبانِ حال سے اس بات کا اقرار کیا کہ بے شک انسان کو قوتِ اختیار حاصل ہے۔ خواہ وہ اچھائی کرے یا برائی۔

اللہ تعالیٰ نے اپنی نسبت ارشاد فرمایا:

وَعِنْدَہٗ مَفَاتِحُ الْغَیْبِ لَا یَعْلَمُھَآ اِلَّا ھُوَ.

(الانعام، 6: 59)

اور اسی کے پاس غیب کی کنجیاں ہیں۔ جن کو اس کے سوا کوئی نہیں جانتا۔

’’الغیب‘‘ چھپی ہوئی حقیقتوں کو کہتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ کائنات کے مخفی امور کا علم خدا کے پاس ہے۔ تعالیٰ کی ذات کائنات بننے سے پہلے موجود تھی۔ اس نے انسانوں اور کائنات کو پیدا کیا، پھر انسانوں کو اپنے عمل کا مکمل اختیار عطا فرما دیا، انسانوں نے اپنے اس اختیار کو بروئے کار لاتے ہوئے مختلف اچھے اور برے کام کیے، کسی نے قتل کیا، کسی نے لوٹ مار مچائی، کسی نے بھلائی کی، کسی نے عدل و انصاف کے تقاضے پورے کئے۔ لڑائیاں لڑیں، ملک فتح کئے، زمین کو سنوارا، شہرآباد کئے، چھوٹی بڑی بستیاں آباد کیں۔ ان اعمال کے مختلف نتائج پیدا ہوئے۔ اللہ وند تعالیٰ چونکہ ’’مفاتیح الغیب‘‘ کا مالک ہے، اس لئے انسانوں کو متوقع آزادی دیے جانے کے جو نتائج وقوع پذیرہونے تھے، وہ اسے پہلے سے معلوم تھے۔ لیکن غور طلب بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا یہ علم کسی شخص کو اچھے یا برے کام پر مجبور نہیں کرتا۔

سورہ الرعد میں ارشاد فرمایا:

یَمْحُواللّٰهُ مَا یَشَآء وَیُثْبِتُ وَعِنْدَہٓٗ اُمُّ الْکِتَابO

(الرعد، 13: 39)

خدا جس کو چاہتا ہے مٹا دیتا ہے اور (جس کو چاہتا ہے ) قائم رکھتا ہے اور لوح محفوظ اسی کے قبضہ قدرت میں ہے۔

ام الکتاب سے مراد’’لوحِ محفوظ‘‘ ہے۔ جہاںوہ تمام کام جو ہو چکے یا ہونے والے ہیں ان کے احوال کا اندراج ہوتا ہے، جو علم ِالہٰی کا دوسرا نام ہے۔ لہٰذا اس آیۂ مبارکہ میں اعلان کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے اندازے میں تبدیلی کرتا رہتا ہے اور موقع بہ موقع اس میں ردوبدل کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ گویا انسان خود کو بدل لے یا بدلنا چاہے تو اللہ تعالیٰ اس کی خاطر اپنے اندازے اور اپنی مقررہ کردہ تقدیر میں تبدیلی فرما دیتا ہے۔

تقدیر قطعاً ایسے مسئلے کا نام نہیں جس میں تبدیلی نہ ہوسکے۔ وہ تو محض انسانی اچھائی یا برائی کا ایسا علم ہے، جس میں موقع و محل کی نسبت سے تبدیلی ممکن ہے، بشرطیکہ انسان اس تبدیلی پر مائل ہو۔

حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے زمانے میں ملک شام میں طاعون کی وبا پھیلی اور اس زمانے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی شام گئے ہوئے تھے۔ وباء کی وجہ سے انہوں نے وہاں سے نکلنے میں جلدی سے کی۔ حضرت ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

اتفر من قضاء اللہ.

کیا آپ اللہ کی قضا سے بھاگتے ہیں؟

حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کا جو جواب دیا وہ تقدیر کے مسئلے کی تمام گتھیاں سلجھا دیتا ہے۔ آپ نے فرمایا:

افر من قضاء اللہ الی قدر اللہ.

میں اللہ کی قضا سے اس کی قدر کی طرف بھاگتا ہوں۔

مطلب یہ ہے کہ قضا تو فیصلے کا صرف اعلان ہے۔ اگر طاعون جیسا مہلک مرض کسی علاقے میں وبا کی صورت میں پھیل جائے اور میں کسی دوسرے علاقے میں پہنچ کر اس مرض سے بچ جاؤں تو میرا بچ جانا یقیناً خدا کی تقدیر یعنی علم میں ہو گا۔

29۔ ملائکہ (فرشتوں) پر ایمان

عام انسان ملائکہ کو ان کی اصل صورت میں نہیں دیکھ سکتے۔ کیونکہ انسانی آنکھ صرف کثیف اور مادی اجسام ہی کو دیکھ سکتی ہے، غیر مادی اور لطیف اشیاء کو نہیں۔ مگر وہ عرفاء کا ملین جنہوں نے تزکیۂ نفس اور تصفیۂ باطن کے ذریعے اپنی باطنی آنکھ روشن کر لی ہوتی ہے اور ان کی آنکھ سے مادی پردے اٹھ چکے ہوتے ہیں، وہ نہ صرف ملائکہ کو دیکھ سکتے ہیں بلکہ انہیں ان سے ملاقات اور اکتسابِ فیض کا شرف بھی حاصل ہوتا ہے۔

فرشتوں کے نہ دیکھے جانے کے باعث بعض کم علم لوگوں نے ان کے خارجی وجود ہی کا انکار کر دیا ہے اور چونکہ قرآنِ مجید میں کئی مقامات پر فرشتوں کا ذکر آیا ہے، اس لئے ان آیاتِ قرآنی کی تاویل کرتے ہوئے وہ فرشتوں کو غیر محسوس مجرّد قوتوں، نیک انسانی روحوں یا صفات باری تعالیٰ سے تعبیر کرتے ہیں۔ یہ سب تصورات گمراہی پر مبنی ہیں اور گمراہ ذہنوں اختراع کی پیداوار ہیں۔

قرآن مجید کی بیسیوں آیات اور احادیثِ نبوی سے فرشتوں کے جس تصور کی تائید ہوتی ہے وہ وہی ہے جس کو جمہور اہلِ اسلام شروع سے آج تک مانتے چلے آرہی ہیں۔ فرشتے انسانی روحیں، قوتیں یا صفات الٰہیہ ہرگز نہیں بلکہ انسانوں اور جنوں سے الگ زمین و آسمان پر رہنے والی ایک مستقل نوع کی لطیف مخلوق ہیں۔ انہیں باری تعالیٰ نے اپنے خصوصی امور کی انجام دہی اور احکام کی بجا آوری کے لئے مقرر کر رکھا ہے۔ گویا یہ ذاتِ حق کے وہ کارکن ہیں جن سے پیدائشی طورپر نافرمانی اور گناہ صادر ہوہی نہیں ہوسکتا۔ ان میں اپنی تخلیق کے اعتبار سے ہی شروفساد اور فتنہ و ظلم کی طاقت اور صلاحیت ہی نہیں، اس لئے روزِقیامت ان سے جواب دہی اور کسی قسم کا حساب کتاب نہیں ہو گا۔ بعض جاہلوں نے انہیں غلطی سے خدا کی بیٹیاں تصور کیا، بعض نے ان کے کام کی نوعیت کے پیش نظر انہیں خدائی میں شریک بنا دیا جب کہ بعض نے ان کی پرستش بھی کی۔ قرآن مجید نے کئی مقامات پر ان تمام تصورات کو باطل قرار دیا، جو وہ فرشتوں کے بارے میں رکھتے ہیں اسی بیان میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَجَعَلُوا الْمَلٰٓئِکَۃَ الَّذِیْنَ همْ عِبَادَ الرَّحْمٰنِ اِنَاثًا.

(الزخرف، 43: 19)

اور انہوں نے ان فرشتوں کو جو اللہ تعالیٰ کے بندے ہیں، اس کی بیٹیاں بنا دیا۔

اور ان کی حقیقت کے بارے میں یوں وضاحت کی گئی ہے:

بَلْ عِبَادٌ مُّکْرَمُوْنَO

(الانبیاء، 21: 26)

بلکہ وہ فرشتے خدا کے معزز بندے ہیں۔

قرآنِ حکیم نے فرشتوں کا صبح و شام کا وظیفہ یہ بیان کیا ہے:

1۔ یُسَبِّحُوْنَ الَّیْلَ وَالنَّھَارَ لَا یَفْتُرُوْنَO

(الانبیاء، 21: 20)

فرشتے دن رات خدا کی تسبیح کرتے رہتے ہیں اور ہرگز نہیں تھکتے۔

2۔ وَتَرَی الْمَلٰٓئِکَۃَ حَآفِّیْنَ مِنْ حَوْلِ الْعَرْشِ یُسَبِّحُوْنَ بِحَمْدِ رَبِّھِمْ.

(الزمر، 39: 75)

اور تم فرشتوں کو عرش کے اردگرد اپنے پروردگار کی حمد کے ساتھ پاکی بیان کرتے دیکھو گے۔

اسی طرح ارشاد فرمایا گیا:

لَا یَسْبِقُوْنَہٗ بِالْقَوْلِ وَھُمْ بِاَمْرِہٖ یَعْمَلُوْنَO

(الانبیاء، 21: 27)

فرشتے خدا سے بات کرنے میں پیش قدمی نہیں کرتے اور وہ اس کے ہر حکم کی تعمیل کرتے رہتے ہیں۔

یعنی فرشتوں سے کام لینا اللہ تعالی کی مشیت اور ارادے پر منحصر ہے اور جہاں باری تعالیٰ چاہتا ہے ان کے ذریعے اپنے مقبول بندوں اور دوستوں کی مدد بھی کرتا ہے۔ جیسا کہ جنگِ بدر میں فرشتوں نے مسلح ہو کر مجاہدینِ اسلام کی مدد کی۔

ارشادِ قرآنی ہے:

یُمْدِدْکُمْ رَبُّکُمْ بِخَمْسَۃِ اٰلٰفٍ مِّنَ الْمَلٰٓئِکَۃِ مُسَوِّمِیْنَO

(آل عمران، 3: 125)

تمہارا رب پانچ ہزار نشان زدہ فرشتوں کے ذریعے تمہاری مدد کرے گا۔

ان تمام آیات کے مطالعہ سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ فرشتوں کو بحیثیت مخلوق باقاعدہ وجود اور تشخص حاصل ہے۔ وہ مستقل ہستیاں ہیں، مجرد قوتیں یا نظام عالم کے اسباب نہیں ہیں جیسا کہ بعض بے خبر اور نادان پسند لوگوں کا خیال ہے جنہوں نے بلا جواز انہیں سائنسی تحقیق کا موضوع بنا لیا ہے۔

30 تمام آسمانی کتابوں اور صحیفوں پر ایمان ضروری ہے

اسلام نے کسی خاص نبی کی کتاب پر ایمان لانے کی بجائے تمام انبیاء علیھم السلام پر نازل کی گئی کتابوں اور صحیفوں پر ایمان لانے کو ضروری قرار دیا ہے، ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

قُوْلُوْۤا اٰمَنَّا بِاللّٰهِ وَ مَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْنَا وَ مَاۤ اُنْزِلَ اِلٰۤی اِبْرٰهٖمَ وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِسْحٰقَ وَ یَعْقُوْبَ وَ الْاَسْبَاطِ وَ مَاۤ اُوْتِیَ مُوْسٰی وَ عِیْسٰی وَ مَاۤ اُوْتِیَ النَّبِیُّوْنَ مِنْ رَّبِّهِمْ ۚ لَا نُفَرِّقُ بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْهُمْ ۖؗ وَ نَحْنُ لَهٗ مُسْلِمُوْنَ۝۱۳۶

(البقرہ، 2: 136)

مسلمانو! کہو کہ ہم خدا پر ایمان لائے اور جو (کتاب) ہم پر اتری، اس پر اور جو صحیفے ابراہیم، اسماعیل، اسحاق، یعقوب (علیھم السلام) اور ان کی اولاد پر نازل ہوئے، ان پر اور جو کتابیں موسیٰ اور عیسیٰ (علیھم السلام) کو عطا ہوئیں ان پر، اور جو دیگر پیغمبروں کو ان کے پروردگار کی طرف سے ملیں، ان سب پر ایمان لائے۔ ہم ان پیغمبروں میں سے کسی پر ایمان لانے میں کچھ فرق نہیں کرتے اور ہم اسی خدائے واحد کے فرمانبردار ہیں۔

یہاں قرآن مجید نے دو ٹوک الفاظ میں اس حقیقت کو واضح کر دیا ہے کہ آدم علیہ السلام سے لے کرحضور سرورِ کائنات ﷺ کی بعثت مبارکہ تک جتنے بھی انبیاء کرام علیھم السلام تشریف لائے اور اللہ تعالیٰ نے ان سب کی طرف بذریعہ وحی اپنے پیغامات بھیجے ہیں، ان پر ایمان لانا از حد ضروری ہے، ان میں سے بعض کو کتابوں اور بعض کو صحیفوں کی صورت میں نازل کیا کچھ۔ ان میں سے بعض مشہور ہیں اور ان کے نام قرآن مجید میں بھی لئے گئے ہیں، جب کہ بعض غیر معروف ہیں اور ان کے نام بھی مذکور نہیں۔ مگر ان میں سے ہر ایک کتاب اور صحیفے پر ایمان رکھنا ضروری ہے اور یہ بھی ضروری ہے کہ نفسِ وحی میں ذرہ برابر بھی فرق نہ کیا جائے۔

اس آیت سے ایک اور اہم اصول کا پتا چلتا ہے۔ کہ اللہ تعالیٰ نے کتابی ہدایت بغیر کسی امتیاز کے ہر ایک نبی پر نازل کی ہے۔ البتہ معروف اصطلاح میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ ہر نبی صاحب کتاب نہیں تھا، کیونکہ انبیاء علیھم السلام کی تعداد تو ایک لاکھ چوبیس ہزار یا کم و بیش ہے۔

انبیاء علھیم السلام میں سے چند نفوس ایسے ہیں، جن پر کتاب یا صحیفہ نازل ہوا۔ امام بیہقی رضی اللہ عنہ نے حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ سے روایت کیا ہے کہ ’’کہ اللہ تعالیٰ نے کل ایک سو چار(104) کتابیں نازل فرمائی ہیں‘‘۔ (الاتقان، 2: 126)

اسی بناء پر نبی اور رسول میں یہ فرق کیا گیا ہے کہ نبی تو ہر وہ پیغمبر ہے جسے شرفِ نبوت سے سرفراز کیا گیا ہو، جب کہ رسول اسے کہتے ہیں کہ جسے نبوت کے بعد منصب رسالت پر بھی سرفراز کیا گیا ہو اور اسے کسی مخصوص قوم کی طرف دعوت و تبلیغ کا باقاعدہ پیغام اور پروگرام دے کر بھیجا گیا ہو۔ اس لحاظ سے ہر رسول نبی تو ہوتا ہے، لیکن ہر نبی، رسول نہیں ہوتا۔ لہذا انبیاء کی تعداد بہت زیادہ ہے مگر رسولوں کی کم۔

اگرچہ بہت سے رسولوں کو صحائف عطا کئے گئے مگر جن کو باقاعدہ کتابیں عطا کی گئیں، ان کی تعداد چار ہے۔ ان میں ایک حضرت موسیٰ علیہ السلام ہیں جنہیں تورات دی گئی۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد حضرت داؤد علیہ السلام کو منصب نبوت پر فائز کرکے ان پر آسمانی کتاب زبور نازل کی گئی۔

اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر انجیل نازل فرمائی گئی جس کے بارے میں ارشاد ہوتا ہے:

وَاٰتَیْنَاهُ الْاِنْجِیْلَ فِیہِ ھُدًی وَّنُوْرٌ وَّمُصَدِّقًالِّمَا بَیْنَ یَدَیْہِ مِنَ التَّوَرٰۃِ وَھُدًی وَّمَوْعِظَۃً لِّلْمُتَّقِیْنO وَلِیَحْکُمْ اَھْلُ الْاِنْجِیْلِ بِمَآ اَنزَلَ اللّٰهُ فِیہِ وَمَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَنزَلَ اللّٰهُ فَاُوْلٰئِکَ ھُمُ الْفٰسِقُوْن۔

(المائدہ، 5: 46، 47)

اور ہم نے ان (حضرت عیسیٰ) کو انجیل عنایت کی جس میں ہدایت اور نور ہے۔ وہ تورات کی، جو اس سے پہلی (کتاب) ہے، تصدیق کرتی ہے اور ہدایت نصیب ہے پرہیز گاروں کے لئے اور انجیل والوں کو چاہیے کہ جو احکام خدا نے اس میں نازل فرمائے ہیں اس کے مطابق حکم دیا کریں اور جو خدا کے نازل کردہ احکام کے مطابق حکومت نہیں کرتے، وہ لوگ نافرمان (فاسق) ہیں۔

سب سے آخری نبی اور رسول جناب سرورِ کائنات ﷺ ہیں، جنہیں صحیفۂ انقلاب قرآن مجید عطا کیا گیا۔ اب جس طرح تمام انبیاء کرام میں سے منصب ِرسالت پر فائز ہونے والے ’’تمام رسول‘‘ برگزیدہ ہیں اور رسولوں میں سے یہ چار صاحبِ کتاب ہستیاں عظیم المرتبہ ہیں اور ان چاروں رسولوں میں حضور فخرِ موجوداتﷺ کی ذات اقدس مرتبے اور درجے کے اعتبار سے سب سے افضل اور بلند ہے، بالکل اسی طرح تمام انبیاء پر نازل شدہ صحائف میں سے چار کتب سب سے افضل ہیں اور ان چاروں کتابوں میں قرآن مجید کا مقام سب سے بلند و برتر ہے۔ جس کے بارے میں اعلان کیا گیا کہ:

وَاِنَّہٗ لَفِیْ زُبُرِ الْاَوَّلِیْنَ.

(الشعرائ، 26: 196)

اور اس کا ذکر پہلے تمام پیغمبروں کی کتابوں اور صحیفوں میں موجود ہے۔

31 ایمان اور اِستقامت

خدائے ذوالجلال پر ایمان لانے کے بعد زندگی کی ہر آزمائش اورامتحان میں سے اس طرح ثابت قدمی کے ساتھ گزر جانا کہ پاؤں ڈگمگانے نہ پائیں، استقامت کہلاتا ہے۔ اور یہی ایمان کا اعلیٰ وارفع درجہ ہے۔

ارشادِ ربانی ہے:

اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا تَتَنَزَّلُ عَلَیْھِمُ المَلَآئِکَۃُ اَلَّا تَخَافُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَاَبْشِرُوْا بِالْجَنَّۃِ الَّتِیْ کُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَO نَحْنُ اُولِیَآء کُمْ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَ فِی الْاٰخِرَۃِ، وَلَکُمْ فِیْھَا مَا تَشْتَھِیْ اَنْفُسُکُمْ وَلَکُمْ فِیْھَا مَا تَدَّعُوْنَO نُزُلاً مِّنْ غَفُوْرٍ رَّحِیْمO

(حمٰ سجدہ، 41: 30 تا 32)

بے شک وہ لوگ جنہوں نے کہا ہمارا پروردگار اللہ تعالیٰ ہے پھر وہ اس قول پر پختگی سے قائم رہے۔ ان پر فرشتے اترتے ہیں، اور انہیں کہتے ہیں کہ نہ ڈرو اور نہ غم کرو، تمہیں جنت کی بشارت ہو جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے۔ ہم دنیا کی زندگی میں بھی تمہارے دوست ہیں اور آخرت میں بھی۔ تمہارے لئے اس میں ہر وہ چیز ہے جو تمہارا جی چاہے اور تمہارے لئے اس میں ہر وہ چیز ہے جو تم مانگو گے یہ میزبانی ہے بہت بخشنے والے ہمیشہ رحم فرمانے والے کی طرف سے۔

اوپر بیان کی گئی آیاتِ مقدسہ کے الفاظ ہمیں غور و فکر کی دعوت دے رہے ہیں اور بات اللہ کو رب کہنے سے شروع کی جارہی ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ زبان سے اللہ کے رب ہونے کے اقرار اور دل کی گہرائیوں سے اس پر مہرِ تصدیق ثبت کرنے کے بعد ضروری ہے کہ اس کی ربوبیت پر ایمان میں ثابت قدمی کا عملی مظاہرہ کیا جائے۔ اللہ کو رب ماننا اپنے اندر تین معانی رکھتا ہے۔ جس کی وضاحت سورۂ عصر میں کچھ یوں موجود ہے۔

وَالْعَصْرِ اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِیْ خُسْرٍیعنی زمانے کی قسم ہے جو انسان کے احوال و معاملات پر گواہ ہے۔ انسان اپنے آپ کو چاہے جتنا چھپانے کی کوشش کرے مگر زمانے کی آنکھ سے کوئی شے پوشیدہ نہیں ہے۔ زمانے کی قسم کھا کر فرمایا کہ انسان اپنے عمل، اپنی کوتاہ بینی اور عاقبت نا اندیشی کے باعث مسلسل نقصان اور خسارے میں جارہا ہے۔ ’’الا الذین اٰمنوا‘‘ سوائے ان لوگوں کے جنہوں نے زبان سے ایمان کا اقرار اور دل سے اس کی تصدیق کی، ’’وعملوا الصلٰحت‘‘ اور صرف زبان سے اقرار اور دل سے تصدیق کو ہی کافی نہ جانا بلکہ ایمان کی عملی شہادت اللہ کے احکام کی اطاعت کے ذریعے دی اور عملی زندگی میں برائیوں کو ترک کرکے نیک کام کئے، یعنی وہ عملِ صالح پرہیزگاری اور تقویٰ کو اپنی زندگی کا مقصد بنا کر اوامر و نواہی کی پابندی کرتے رہے۔ ’’ وتواصوابالحق‘‘ اورپھر اعمالِ صالحہ پر ہی قناعت نہ کی بلکہ معاشرے میں زندگی بسر کرتے ہوئے حق کا ساتھ دیا اور جب کبھی حق و باطل میں تصادم اور آویزش کا مرحلہ آیا تو ہمیشہ حق کی عملی معاونت کی اور باطل کے خلاف محاذ آرا ہو گئے۔ گھریلو زندگی میں کاروبار اور تجارتی معاملات میں بھی غرضیکہ ہر دنیاوی مصروفیت میں اللہ کے ہر حکم کو مقدم جانا، خوشی، غمی، تنگی ترشی، فراخی و وسعت اور ازدواجی زندگی، معاشرتی، اقتصادی اور معاشتی زندگی، ثقافتی، مذہبی، سیاسی اور تمدنی زندگی کے دوران حق کا جو معیار قائم کر لیا اس کو ہر وقت پیشِ نظر رکھا۔ اور زندگی کے کسی موڑ پر اس سے کبھی انحراف نہ کیا یہاں تک کہ کاروبار اور تجارت میں مادی منفعت پر خدا اور رسول کی رضا کو ترجیح دی اور لین دین کرتے وقت بھی یہی بات مدنظر رکھی، دوسروں کے ساتھ دوستی اور دشمنی کے معاملات میں بھی ان کی زندگی ’’الحب للہ و البغض للہ‘‘ کا عملی نمونہ بنی رہی۔ یعنی وہ اللہ کے لئے ہی محبت، دوستی اور دشمنی کرتے رہے۔ ’’وتواصوا بالصبر‘‘ جب آزمائش ومصیبت کی گھڑیاں آتی ہیں صبر سے کام لیتے ہیں، آہ بکاء نہیں کرتے بلکہ نہایت تحمل اور بردباری سے ہر مشکل اور کٹھن مرحلے کا خندہ پیشانی سے سامنا کرتے ہیں اور ان کے ثابت اور پکے قدم کبھی نہیں ڈگمگاتے۔

اگر ایک لمحہ کے لئے بھی اللہ کے ان صالح اور برگزیدہ بندوں کے ساتھ اپنا مقابلہ کریں اور جائزہ لیں تو ہم پر یہ حقیقت کھل جائے گی کہ ذرا سے فائدے اور مصلحت کی خاطر اللہ کے احکام کو ٹھکرا کر گزر جانا ہمارا شیوہ بن گیا ہے۔ نفسانی خواہشات اور دنیاوی مفادات کے سامنے ہم خدا اور رسول کی خوشنودی کو نظر انداز کر دیتے ہیں اور ہمارا حال تویہ ہے کہ اگر ایک راہ خدا کی طرف جاتی ہے اور دوسری رسم و رواج کی طرف تو ہم دوسری راہ اختیار کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔

خلاصۂ کلام یہ ہے کہ اسلام اپنے ماننے والوں سے اتباع اور اطاعت کا وہ اعلیٰ معیار چاہتا ہے کہ اسلام میں داخل ہونے کے بعد انسان اپنی گردن کو اللہ اور رسول ﷺ کے آگے اس طرح جھکا دے کہ اس کے قدم زندگی کے کسی موڑ پر صراطِ مستقیم سے ڈگمانے نہ پائیں۔

32 استقامت کی جانچ اور پرکھ کے لئے پانچ قرآنی اصول

قرآن مجید نے ایمان لانے کے بعد استقامت یعنی ایمان پر ثابت قدم رہنے پر بہت زور دیا ہے۔

ارشادِ ربانی ہے:

وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیْئٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ وَ نَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَالْاَنْفُسِ وَالثَّمَرٰتِ وَ بَشِّرِ الصّٰبِرِیْنَO

(البقرہ، 2: 155)

اور ہم تمہیں کچھ ضرور آزمائیں گے کچھ خوف اور بھوک سے اور تمہاری مالوں اور جانوں اور پھلوں میں کمی کرنے سے اور صبر کرنے والوں کو خوشخبری سنائیے۔

غور سے دیکھا جائے تو ایمان اور آزمائش دونوں کا چولی دامن کا ساتھ ہے، دوسرے لفظوں میں ایمان اور امتحان لازم و ملزوم ہیں۔ یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ کوئی ایمان میں داخل ہو اور اس کے ایمان کو آزمائش سے پرکھا نہ جائے۔ اس آیہ کریمہ میں آزمائش کی پانچ قسموں کا ذکر کیا گیا ہے جو ایمان کی استقامت ہی کو پرکھنے کے لئے ہیں۔

1۔ خوف: خوف زندگی کے ساتھ سائے کی طرح پیچھے لگا ہوا ہے اور اس کی مختلف صورتیں ہیں، کبھی جان جانے کا خوف، یعنی ہر وقت ہلاکت کا دھڑکا لگا رہنا، کبھی مال و دولت چھن جانے کا خوف اور کبھی یہ ڈر کہ اولاد ہاتھوں سے نکل جائے گی، یا ان کے مستقبل کا کیا بنے گا؟ ہماری عزت و آبرو کیسے محفوظ رہے گی؟ اس طرح کے واہمے اور اندیشے رات دن پیچھا کرتے رہتے ہیں مگر اس حالت میں بھی دیکھنا یہ ہے کہ خدا کے ساتھ ہمارا تعلق اور لگا ئوکیسا ہے اور ہم اپنے رب کو کس طرح مانتے ہیں؟ ایسی ہر حالت میں اگر ہمارا تعلق اللہ کے ساتھ قائم و دائم رہا تو ہم بحمد اللہ اس امتحان میں پورے اتریںگے، اور یہ امتحان زندگی کے آخری سانس تک درپیش رہے گا۔

2۔ بھوک: بھوک، غربت اور افلاس سے ہمیں دو چار کیا جائے گا۔ اور باوجود محنت مشقت کے تم فقر و فاقہ کی زندگی پر مجبور کئے جائیں گے، یہ اس لئے نہیں کہ معاذ اللہ خدا کو تمہاری ضروریات کا علم نہیں یا اسے تم سے کوئی عداوت ہے بلکہ اس کا مقصدصرف ہمیں آزمانا ہے کہ ہم اس حال میں بھی اللہ کے ساتھ اپنا تعلق اور ناطہ کس طرح قائم رکھتے ہیں؟

3۔ مال و دولت اور دنیاوی نعمتوں سے محرومی: آزمائش و امتحان کے طور پرہمیں مال و دولت، مادی آسائشوں اور نعمتوں سے نواز کر اس سے محروم کر دیا جائے گا۔ مقصود اس سے یہ آزمانا ہوگاکہ خوشحالی اور محرومی دونوں حالتوں میں ہماری ایمان کی کیفیت کیا رہتی ہے؟کہیںایسا تو نہیں کہ مال و دولت چھن جانے کے بعد ہم خدا کی ربوبیت کا انکار کرکے غیر اللہ کی طرف رجوع کرنے لگیں ہو اور اس کی ہستی سے اپنا تعلق ہی توڑ لیں۔

4۔ ہلاکت اور جانی نقصان: کبھی جانیں ضائع ہونے اور اموات واقع ہونے کی صورت میں ہمیں آزمائش و امتحان میں ڈالا جائے گا۔ کیا موت سامنے دیکھ کر زندگی کی تمنا کرتے ہو یا اپنے خالق و مولا سے ملاقات کی آرزو رکھتے ہو ؟

5۔ نعمتِ اولاد سے محرومی: اور آخری آزمائش جس سے ہمارا امتحان لیا جائے گا وہ یہ کہ کبھی ہمیں اولاد دے کر آزمایا جائے گا، کبھی اولاد سے نواز کر اسے واپس لے لیا جائے گا۔ کبھی بیٹیاں دیں گے اور بیٹے عطا نہیں کریں گے اور کبھی بیٹیوں سے محروم رکھ کر بیٹے ہی عطا کئے جائیں گے۔

جب بندہ استقامت کے بلند مقام پر فائز ہو جاتا ہے اور نعمت ہو یا نہ ہو دونوں صورتوں میں صبر و شکر اور ذکر کو اپنا وظیفہ بنا لیتا ہے تو اس پر اللہ تعالی کی نوازشات کی بارش ہونے لگتی ہے۔ پھر فرشتوں کوحکم ہوتا ہے کہ میرے اس شکرگزار بندے پر نازل ہو جاؤ جس نے مصیبت اور خوشی، مال و دولت کی فراوانی اور محرومی ہر حال میں مجھے یاد رکھا اور میری یاد اور شکر کے دامن کو اپنے ہاتھ سے جانے نہ دیا۔ پھر اذنِ الہٰی سے فرشتے دنیا میں اترتے ہیں اور خوش خبری کی ندائیں دیتے ہوئے اس اللہ کے محبوب و مقرب بندے کو اپنی امان میں لے لیتے ہیں۔ اس مقام پر دنیا و آخرت کے سارے خوف اس سے اٹھالئے جاتے ہیں اور انہیں جنت کی خوشخبری سے نوازا جاتا ہے۔ پھر اللہ تعالے اپنے مقبول بندوں کو ’’ولاتحزنوا‘‘ کہہ کر خطاب کرتا ہے۔

33۔ استقامتِ ایمان پر ایک حکایت

اللہ تعالیٰ ایمان پر استقامت کے نتیجے میں اپنے بندوں پر اپنی رحمتیں اور برکتیں کس طرح نچھاور کرتا ہے اس کی ایک مثال ایک واقعہ کے حوالے سے درج کی جا ری ہے جسے امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے نقل کیا ہے۔

ملک شام میں تین صالح نوجوان بھائی رہتے تھے۔ اور ان دنوں مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان جنگ ہو رہی تھی۔ اسے دیکھ کر ان کے دل میں جہاد کا شوق پیدا ہوا اور وہ اسلامی لشکر سے جاملے۔ روم کی سرحد پر عیسائیوں کی بہت بڑی فوج مسلمانوں پر حملہ آور ہونے کے لئے تلی بیٹھی تھی۔ رات کے وقت جنگ شروع ہوئی تو یہ تینوں نوجوان دیوانہ وار جہاد میں مصروف ہوگئے۔ جنگ ختم ہوگئی لیکن یہ جانباز جو اللہ کی راہ میں جان قربان کرنے کا ارادہ لے کر گھر سے نکلے تھے، دشمن کے ہتھے چڑھ گئے۔ عیسائی انہیں گرفتار کرکے اپنے بادشاہ کے پاس لے گئے اس نے کہا کہ ان کی جان بخشی کی صرف ایک ہی صورت ہے کہ وہ اسلام ترک کرکے عیسائی مذہب اختیار کرلیں ورنہ انہیں ابلتے تیل کے کڑاہوں میں پھینک دیا جائے گا۔ وہ کہنے لگے کہ تو جو چاہیے کرلے ہمیں ایک لمحہ بھی اسلام چھوڑنا گوارا نہیں، کیونکہ شہادت کی موت ہماری نظر میں حسنِ مطلق کے جلوؤں کے مشاہدے کی گھڑی ہے۔

بادشاہ کے حکم سے بڑے بھائی کو جلتی آگ پر تپتے ہوئے تیل کے کڑاہے میں ڈال دیا گیا۔ اس نوجوان نے یا محمداہ ﷺ کہہ کر موت کو قبول کیا اور شہادت سے پہلے اپنے دونوں بھائیوں کو تلقین کی کہ دیکھنا کہیں تمہارے قدم لڑکھڑانے نہ پائیں، تمہارے اور میرے درمیان چند لمحات کا وقفہ ہے، میں جنت کے دروازے پر تمہارا انتظار کروں گا۔ تھوڑی دیر بعد دوسرے بھائی کو بھی تیل میں پھینک دیا گیا، تیسرے سے کہا گیا کہ دیکھ لو اگر تم نے ہماری بات نہ مانی تو تمہارا بھی یہی حشر ہونے والا ہے۔ اب بھی وقت ہے عیسائیت قبول کر لو۔ وہ کہنے لگا: ظالمو تم باتوں میں خواہ مخواہ وقت ضائع کر رہے ہو۔ مجھے بھی جیسے چاہو موت کی نذر کردو۔ وہ تیسرے بھائی کو بھی جلتے تیل میں جھونکنے والے ہی تھے کہ بادشاہ کے وزیر نے درخواست کی کہ مجھے چالیس دن کی مہلت دو میں اس عرصہ کے دوران اسے عیسائی بنانے میں کامیاب ہو جاؤں گا۔ بادشاہ نے وہ نوجوان اس کے حوالے کرتے ہوئے کہا کہ اگر تم اس مقصد میں کامیاب ہوگئے تو میں تمہیں اپنا وزیراعظم بنانے کا وعدہ کرتا ہوں۔ وزیر اس جوان کو ہمراہ لے کر اپنے محل پہنچا۔ رات اس نے اپنی حسین و جمیل بیٹی کو اپنے پاس بلایا اور کہنے لگا کہ بیٹی اس مسلمان نوجوان کو عیسائی بنانے کا مشن تیرے سپرد کر رہا ہوں۔ صرف چالیس دن کی مہلت میں یہ کام سر انجام دینا ہے۔ کہنے لگی: ’’ابا جان یہ مہلت تو بہت زیادہ ہے میں تو تھوڑے ہی عرصے میں اس کو رام کر لوں گی۔‘‘

وہ حسینہ بہترین لباس زیب تن کرکے آرائش و زیبائش حسن کے ساتھ ناز و ادا دکھلاتی ہوئی اس کمرہ میں داخل ہوئی جہاں وہ نوجوان رکھا گیا تھا، اس نے دیکھا کہ وہ نوجوان سجدے کی حالت میں رب کے حضور گڑگڑا رہا ہے اور اس نے آنکھ اٹھا کر بھی اس کی طرف نہ دیکھا۔ وہ حسینہ ساری رات اس کا سر سجدے سے نہ اٹھا سکی۔ دوسری رات بھی وہ اس کو اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کرتی رہی لیکن اس کی پلکیں ایک بار بھی اس کی جانب نہ اٹھیں۔ تیسرے دن وہ شام ہوتے ہی اس کے قریب آگئی اور اسے یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ وہ ابھی حالت نماز میں داخل نہیں ہوا تھا، لیکن اسے دیکھتے ہی اس نوجوان نے نماز کی نیت کر لی۔ اس طرح چالیس دن گزر گئے، مہلت اور بڑھا دی گئی لیکن اسی راتیں بیت جانے کے بعد بھی اس جوان کی حالت میں کوئی کمی واقع نہ ہوئی۔ وہی استغراق، محویت اور تڑپنے پھڑکنے کی کیفیت برقرار رہی۔ آخر جب وہ حسین دوشیزہ اس کو اپنی طرف مائل نہ کر سکی تو وہ جو شکار کرنے آئی تھی خود شکار ہوگئی۔ بے اختیار اس کے قدموں پر گرگئی اور کہنے لگی ’’تجھے تیرے رب کی قسم جس کی محبت میں تو روز و شب اسیر ہے مجھے بھی کلمہ پڑھا کر مسلمان بنا دے‘‘۔ جوان نے بغیر اس کی طرف نگاہ اٹھائے اسے کلمہ پڑھا دیا۔ مسلمان ہونے کے بعد اس شہزادی نے اپنے غلام سے کہہ کر دو گھوڑے منگوائے اور رات کے پچھلے پہر محل سے نکل پڑے اور سلطنتِ روم کی حدود سے باہر جانے کے لئے ایک جنگل کا رخ کرلیا۔ آگے آگے وہ جوان اور پیچھے وہ نو مسلم دوشیزہ، دونوں عیسائیوں کی زد سے بچ نکلنے کے لئے سرپٹ گھوڑے دوڑاتے جار ہے تھے کہ اچانک انہیں گھوڑوں کے ٹاپوں کی آوازیں سنائی دیں۔ شہزادی کا دل دہل گیا اور وہ گھوڑا روکتے ہوئے کہنے لگی: جوان! معلوم ہوتا ہے انہیں ہمارے فرار کی خبر ہوگئی ہے۔ اس نے کہا: گھبراؤ نہیں۔ اتنے میں وہ گھوڑ سوار قریب آگئے۔ نوجوان نے تلوار سونت کر کہا: اگر تم میں کوئی دشمن ہے تو اس کا سر اسی تلوار سے قلم کر دیا جائے گا۔

جب وہ انتہائی قریب آ گئے تو انہیں سفید لباس میں ملبوس فوج نظر آئی جس کے آگے دو نقاب پوش گھڑ سوار تھے، جب انہوں نے اپنا نقاب پلٹا تو وہ دونوں اس جوان کے شہید بھائی نکلے، وہ دونوں گھوڑے سے اترے اور چھوٹے بھائی سے بغل گیر ہوگئے۔ اس نے استفسار کیا: بھائی جان آپ دونوں تو میرے سامنے شہید ہوگئے تھے آپ یہاں کیسے؟ انہوں نے کہا کہ ہم دونوں جنت کے دروازے پر تمہارے منتظر تھے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میرے پیارے جوانو! آج تمہارا بھائی امتحان میں کامیاب و سرخرو ہو کر کافروں کے حلقے سے بچ کر نکلا آرہا ہے۔ تم دونوں فرشتوں اور شہیدوں کی روحوں کے جلوس میں جاؤ ان کا استقبال کرو اور ان دونوں کا نکاح کرادو اور انہیں میری غلامی میں آجانے کا مژدہ سنادو۔ چنانچہ ہم سب یہاں اس مقصد کے لئے تمہارے پاس آئے ہیں۔

34 ختمِ نبوت اور مرزا غلام احمد قادیانی

قرآن مجید میں نبی اکرمﷺ کے خاتم النبین ہونے کا اعلان یوں فرمایا گیا:

مَا کَانَ مُحَمَّدٌ اَبَآ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِکُمْ وَلَکِنْ رَّسُوْلَ اللهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیِّیْنَ وَ کَانَ اللهُ بِکُلِّ شَیْئٍ عَلِیْمًاO

(الاحزاب، 33: 40)

محمد(ﷺ) تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں، ہاں اللہ کے رُسول اور سلسلۂ انبیاء کو ختم کرنے والے ہیں اور اللہ ہر چیز کو جاننے والا ہے۔

اس ارشادِ ربانی میں لفظ خاتم کا جو معنی بیان ہوا ہے، حضور ﷺ کی متعدد اور متواتر احادیث سے وہی معنی و مفہوم متعین ہوتا ہے اور اجماعِ اُمت کا بغیر کسی شک و شبہ کے اُسی پر اتفاق ہے۔

حضور خاتم الانبیاء ﷺ نے اپنی کئی احادیث مبارکہ میں اس بات کو واضح فرمایا ہے کہ ’’خاتم النبیین‘‘ کا معنی آخری نبی ہی ہے، چنانچہ بہت سی احادیث متصل سند کے ساتھ ختم ِ نبوت کے اُسی تصور کو اُجاگر کرتی ہیں۔ اس سلسلے میں چند روایات درج کی جاتی ہیں، جو اس موضوع پر قولِ فصیل کا درجہ رکھتی ہیں۔

1۔ قال کانت بنو اسرائیل تسوسھم الانبیآء کلما ھلک نَبِیٌّ خلفہ‘ نبی وانہ لَا نبی بعدی وسیکون خلفاء.

(صحیح البخاری، 1: 491، کتاب الانبیائ، رقم حدیث: 328)

نبی اکرمﷺ نے فرمایا بنی اسرائیل کی راہنمائی انبیاء کرتے تھے، جب ایک نبی فوت ہوتا تودوسرا نبی اُس کا جانشین ہوتا، خبردار میرے بعد کوئی نبی نہیں خلفاء ہوں گے۔

2۔ قال ان مثلی ومثل الانبیاء من قبلی کمثل رجل بنٰی بَیْتًا فاحسنہ واجملہ الا موضع لبنۃ من زاویۃ فجعل الناس یطوفون بہ یتعجبون لہ و یقولون ھلا وضعت ھذہ اللبنہ فانا اللبنۃ وانا خاتم النبیین.

(صحیح البخاری، 1: 501، کتاب المناقب، رقم حدیث: 3342)

نبی اکرمﷺ نے فرمایا کہ مجھ سے پہلے انبیاء کی مثال ایک ایسے شخص کی طرح ہے، جس نے ایک گھر تعمیر کیا اور اُسے بہت خوبصورت اور عمدہ بنادیا، لیکن ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ رہنے دی۔ لوگ اس گھر کے گرد چکر لگاتے اور اس پر خوشی کا اظہار کرتے اور کہتے یہ خشت کیوں نہیں لگائی گئی؟ پس میں ہی یہ خشت ہوں اور میں ہی آخری نبی ہوں۔

3۔ قال رسول اللہ ﷺ ان الرسالۃَ والنبوۃ قد انقطعت فلا رسول بعدی ولا نبی.

(جامع الترمذی، 2: 51، ابواب الرؤیا، رقم حدیث: 2272)

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، بے شک رسالت اور نبوت ختم ہو چکی ہیں، اس لئے میرے بعد کوئی رسول ہو گا اور نہ کوئی نبی۔

4۔ قال رسول اللہ ﷺ لا نبوۃ بعدی الا المبشرات قیل وما المبشرات یا رسول اللہ قال الرؤیا الحسنۃ او قال الرؤیا الصالحۃ.

(مسند احمد بن حنبل، 5: 454)

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، میرے بعد کوئی نبوت نہیں مگر مبشرات ہیں۔ عرض کیا گیا یارسول اللہ مبشرات کیا ہیں؟ فرمایا اچھے خواب یا فرمایا نیک خواب۔

5۔ قال النبیﷺ لوکان بعدی نبی لکان عمر بن الخطاب.

(جامع الترمذی، 2: 209، ابواب المناقب، رقم حدیث: 3686)

ارشاد فرمایا نبیﷺ نے کہ اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو وہ عمر بن خطاب ہوتا۔

6۔ قال رسول اللہ ﷺ لِعَلِیًّ انت منی بمنزلۃ هارون من موسیٰ الا اَنّہ لا نبی بعدی.

(جامع الترمذی، 2: 214، ابواب المناقب، رقم حدیث: 3730)

نبی اکرمﷺ نے حضرت علی سے ارشاد فرمایا، تم میرے لیے ایسے ہو جیسے ہارون، موسیٰ کے لئے تھے، البتہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔

7۔ قال رسول اللہ ﷺ لا نبی بعدی ولا اُمّۃ بعد اُمّتِی.

(بیہقی، جلد5، ص197)

نبی اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا: میرے بعد کوئی نبی نہیں اور میری اُمت کے بعد کوئی اُمت نہیں۔

لانبی بعدی ولا امۃ بعدکم.

(کنزالعمال، رقم: 43638)

میرے بعد کوئی نبی نہیں اور تمہارے بعد کوئی امت نہیں۔

8۔ بأبی انت اُمِّی (یا رسول اللہ) لقد انقطع بموتک مالم ینقطع بموت غیرک مِن النبوۃ.

مروی ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضور ﷺ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: یارسول اللہ ! میرے ماں باپ آپ پر قُربان ہوں،

والابناء واخبار السّماء.

(نہج البلاغۃ، 2: 255)

آپ کی موت نے وہ چیز ختم کر دی جو آپ کے سوا کسی دوسرے کی موت سے ختم نہ ہوئی یعنی نبوت، غیبی خبریں اور آسمان کی وحی۔

9۔ عن ابی جعفر و ابی عبداللہ رضي اللہ عنهم لقد ختم اللہ بکتا بکم الکتب وختم بینکم الانبیاء.

(اُصول کانی جلد1، ص163)(طبع نولکشور)

ابوجعفر اور ابوعبداللہ رضی اللہ عنہم نے کہا۔ تحقیق اللہ نے تمہاری کتاب پر الہامی کتابوں کو ختم کر دیا اور تمہارے نبی حضرت محمد پر سلسلہ نبوت کو ختم کر دیا۔

35۔ ختمِ نبوت اور مرزا غلام احمد قادیانی

اسی طرح تمام مشہور اور معتبر مفسرین کرام نے مذکورہ آیت کی شرح میں ’’خاتم‘‘ کے معنی آخری نبی یعنی سلسلۂ نبوت کو ختم کرنے والے ہی کے لئے ہیں۔ ہم یہاں چند اہم تفسیروں کا حوالہ دے رہے ہیں۔

1۔ علامہ ابن جریرطبری (224۔ 310ھ) اپنی مشہور تفسیر طبری جلد 22 صفحہ 12 پر زیرِ بحث آیت کی تشریح یوں کرتے ہیں:

’’اس نے نبوت ختم کر دی اور اس پر مہر لگا دی۔ اب یہ دروازہ قیامت تک کسی کے لئے نہیں کُھلے گا۔‘‘

2۔ علامہ ابن خرم اندلسی (384۔ 456ھ) فرماتے ہیں:

’’بلاشبہ حضرت محمد ﷺ کے بعد نزولِ وحی کا سلسلہ ختم ہو گیا اس لئے کہ وحی کا نزول صرف نبی پر ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا ہے کہ محمد ﷺ تم مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں بلکہ وہ اللہ کے رسول اور آخری نبی ہیں۔‘‘ (المحلیٰ، 1: 26)

3۔ علامہ زمخشری (467۔ 538ھ) فرماتے ہی:

’’اگر آپ یہ سوال کریں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام قیامت سے پہلے آخری زمانے میں دوبارہ نازل ہوں گے تو پھر رسول اللہ ﷺ آخری نبی کیسے ہوئے؟ اس کے جواب میں مجھے یہ کہنا ہے کہ رسول اللہ ﷺ اس معنی میں آخری نبی ہیں کہ آپ کے بعد کوئی اور نبی کی حیثیت سے مبعوث نہ ہو گا، رہا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا معاملہ تو وہ ان انبیاء میں سے جنہیں حضورﷺ سے پہلے نبوت سے سرفراز کیا گیا۔ وہ جب دوبارہ آئیں گے تو حضورﷺ کی شریعت کے پیرو ہوں گے اور اسی قبلے کی طرف رُخ کرکے نمازیں ادا کریںگے، جس طرف اُمت کے دوسرے افراد اکرتے ہیں۔‘‘ (الکشاف، 2: 215)

4۔ امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ (911ھ) اپنی مشہور کتاب ’’جلالین‘‘ کے صفحہ 768 پر لکھتے ہیں: ’’اللہ تعالیٰ ہر چیز کی خبر رکھتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ حضرت محمد ﷺ کے بعد کوئی نبی نہ ہو گا اور جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام نازل ہوں گے تو وہ آپﷺ ہی کی شریعت کے پیروکار ہوں گے۔

اس طرح اور بہت سے علمائے تفسیر نے جن میں امام فخر الدین رازی رحمۃ اللہ علیہ، علامہ شہرستانی رحمۃ اللہ علیہ، علامہ بیضاوی رحمۃ اللہ علیہ، علامہ حافظ الدین نسفی رحمۃ اللہ علیہ، علامہ علائو الدین بغدادی رحمۃ اللہ علیہ، علامہ ابنِ کثیر رحمۃ اللہ علیہ اور علامہ شیخ اسماعیل حقی رحمۃ اللہ علیہ کے اسمائے گرامی قابلِ ذکر ہیں ان سب نے خاتم النبیین کے اسی معنی کی توثیق کی ہے اور یہی اہلِ سُنت کا عقیدہ بھی ہے کہ حضرت محمد ﷺ کے بعد اور کوئی نبی نہیں ہو گا۔ اس پر تمام اُمت کا اجماع ہے کہ اب جو شخص کہے کہ نبی ﷺ کے بعد بھی کوئی نبی ہے وہ کافر قرار دیا جائے گا، کیونکہ اس نے ایمان کے ایک بنیادی جُز کا انکار کیا۔

مرزا غلام احمد قادیانی نے اپنی کتابوں میں مختلف مقامات پر اپنے الہامات بیان کرتے ہوئے اپنی مختلف حیثیتوں کا جو ذکر کیا ہے وہ اُن کی ذہنی پراگندگی کو ظاہر کرتی ہیں اور وہ اتنے مضحکہ خیز ہیں کہ اُنہیں پڑھ کر ہوش و حواس رکھنے والا انسان سوچ میں پڑ جاتا ہے کہ یہ کیا بات ہوئی؟ وہ بیک وقت کبھی عیسیٰ علیہ السلام و موسیٰ علیہ السلام بنتے ہیں، کبھی آدم علیہ السلام و نوح علیہ السلام اور کبھی ابراہیم علیہ السلام و محمد ﷺ ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ کہیں خدا کی بیوی یا بیٹا بن جاتے ہیں۔ کبھی انہیں حیض کی شکایت ہوجاتی ہے۔ کبھی حضرت مریم علیہا السلام کی صورت اختیار کرلیتے ہیں اور کبھی ابنِ مریم علیہ السلام کی۔ یہ سب کچھ کیا ہے؟ ایک عام شخص بھی اس قدر ذہنی و دماغی انتشار کا شکار نہیں ہو سکتا چہ جائیکہ ایک نبی۔

مرزا غلام احمد تضادات کا مجموعہ تھے۔ جب وہ صراطِ مستقیم سے بھٹک کر گمراہی کی دلدل میں دھنس گئے تو نبوت کے دعوے کرتے ہوئے بے سروپا اور بے تکی باتوں پر اُتر آئے۔ یہ ماننا پڑتا ہے کہ وہ مراق اور مالیخولیا جیسی خطرناک ذہنی بیماریوں کے مریض تھے۔

آخر میں ہم اس عجیب و غریب قادیانی ’’نبی‘‘ کی ایک تحریر کا حوالہ دے رہے ہیں۔ وہ یہ کہتے ہیں کہ

’’اس وحیِ الٰہی میں خدا نے میرا نام رُسل رکھا، کیونکہ جیسا براہین احمدیہ میں لکھا گیا ہے۔ خُدا تعالیٰ نے مجھے تمام انبیاء کا مظہر ٹھہرایا ہے اور تمام کے تمام میری طرف منسوب کئے ہیں۔ میں آدم علیہ السلام ہوں، میں شیث علیہ السلام ہوں، میں نوح علیہ السلام ہوں، میں ابراہیم علیہ السلام ہوں، میں اسحق علیہ السلام ہوں، میں اسمٰعیل علیہ السلام ہوں، یعقوب علیہ السلام ہوں، یوسف علیہ السلام ہوں، عیسٰی علیہ السلام ہوں، داؤد علیہ السلام ہوں اور آنحضرت (ﷺ) کے نام کا مظہراتم ہوں، یعنی ظلی طور پر محمد اور احمد ہوں۔‘‘

(حاشیہ حقیقت الوحی، ص 72، مصنف غلا م احمد قادیانی، مطبوعہ ربوہ، 1950)

مرزا غلام احمد قادیانی نے پہلے مجدّد ہونے کا دعویٰ کیا، پھر مہدی، مثیل مسیح اور مسیح موعود کا اور پھر خود کو نبوت کے اعلیٰ درجے پر فائز کر لیا، اور بالآخر تمام حدیں پار کرتے ہوئے خود کو (نعوذ باللہ) ظلی اور بروزی طور پر نبی ہونے کا دعویٰ کر دیا اور حضور سیدّ الانبیاء ﷺ کی ہمسری تک ہی محدود نہ رہے بلکہ بعض مقامات پر تو حضورﷺ سے بھی خود کو افضل قرار دے دیا۔

{بانیٔ تحریک منہاج القرآن پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے قادیانی ٹولے کے سربراہ مرزا طاہر احمد کے مباہلہ کے چیلنج کے جواب میں مینارِ پاکستان کے زیرِ سایہ منعقد ہونے والی کانفرنس میں مرزا طاہر احمد اور جملہ جماعتِ احمدیہ کے زعماء کو للکارا کہ وہ لاکھوں فرزندانِ توحید کی موجودگی میں حق و باطل کے معرکے کا سامنا کرے مگر قادیانی جماعت کے امام کو اپنے پیش رؤوں کی طرح اہلِ حق کے سامنے آنے کی جرأت نہ ہوئی اور وہ لفظ مباہلہ کی غلط تعبیرات کے ذریعے یہ تاثر دینے لگا کہ مباہلہ کے لئے فریقین کا آمنے سامنے ہونا کوئی ضروری نہیں}

Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved