حضور نبی اکرم ﷺ سے توسل اور تبرک

حضور ﷺ کی تعلیمات توسل کا بیان

بَابٌ فِي تَعْلِيْمَاتِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم لِلتَّوَسُّلِ

{حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیماتِ توسّل کا بیان}

1 / 1. عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ رضی الله عنه عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم أَنَّ رَجُـلًا قَتَلَ تِسْعَةً وَتِسْعِيْنَ نَفْسًا، فَجَعَلَ يَسْأَلُ : هَلْ لَهُ مِنْ تَوْبَةٍ؟ فَأَتَی رَاهِبًا فَسَأَلَهُ فَقَالَ : لَيْسَتْ لَکَ تَوْبَةٌ. فَقَتَلَ الرَّاهِبَ، ثُمَّ جَعَلَ يَسْأَلُ، ثُمَّ خَرَجَ مِنْ قَرْيَةٍ إِلَی قَرْيَةٍ فِيْهَا قَوْمٌ صَالِحُوْنَ، فَلَمَّا کَانَ فِي بَعْْضِ الطَّرِيْقِ أَدْرَکَهُ الْمَوْتُ، فَنَأَی بِصَدْرِهِ، ثُمَّ مَاتَ فَاخْتَصَمَتْ فِيْهِ مَـلَائِکَةُ الرَّحْمَةِ وَمَـلَائِکَةُ الْعَذَابِ، فَکَانَ إِلَی الْقَرْيَةِ الصَّالِحَةِ أَقْرَبَ مِنْهَا بِشِبْرٍ، فَجُعِلَ مِنْ أَهْلِهَا. وفي رواية زاد : فَأَوْحَی اﷲُ إِلَی هَذِهِ : أَنْ تَبَاعَدِي، وَإِلَی هَذِهِ : أَنْ تَقَرَّبِي. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَبُوْ يَعْلَی.

1 : أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب : التوبة، باب : قبول توبة القاتل وإن کثر قتله، 4 / 2119، الرقم : 2766، وأبو يعلی في المسند، 2 / 305، الرقم : 1033.

’’حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ایک شخص نے ننانوے آدمیوں کو قتل کیا، پھر وہ یہ پوچھتا پھرتا تھا کہ کیا اس کی توبہ قبول ہو سکتی ہے؟ اس نے ایک راہب کے پاس جا کر یہ سوال کیا کہ کیا اس کے لئے توبہ (کی کوئی گنجائش) ہے؟ اس راہب نے کہا : تمہاری توبہ قبول نہیں ہو سکتی۔ یہ سن کر اس (شخص) نے اس راہب کو بھی قتل کر دیا اور اس نے پھر سوال کرنا شروع کیا اور وہ اس بستی سے نکل کر دوسری بستی کی طرف جانے لگا جس میں کچھ نیک لوگ رہتے تھے۔ جب اس نے اس راستہ کا کچھ حصہ طے کیا تھا تو اسے موت نے آ لیا۔ اس نے اپنا سینہ پہلی بستی سے کچھ دور کر لیا (اور اس بستی کی طرف کر دیا)۔ اسی حال میں اسے موت آ گئی۔ پھر رحمت کے فرشتوں اور عذاب کے فرشتوں میں (اس کی روح لے جانے پر) بحث ہوئی۔ وہ ایک بالشت کے برابر نیک آدمیوں کی بستی کے قریب تھا۔ سو اسے نیک لوگوں کی بستی سے لاحق کر دیا گیا۔ ایک اور روایت میں اضافہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے اس (برے لوگوں کی) بستی کو حکم فرمایا : تو (اس کی نعش سے) دور ہو جا اور اس (نیک لوگوں کی) بستی کو حکم فرمایا : تو (اس کی نعش سے) قریب ہو جا۔‘‘

اس حدیث کو امام مسلم اور ابو یعلی نے روایت کیا ہے۔

2 / 2. عَنْ أَسِيْرِ بْنِ جَابِرٍ رضی الله عنه أَنَّ أَهْلَ الْکُوْفَةِ وَفَدُوْا إِلَی عُمَرَ، رضی الله عنه فِيْهِمْ رَجُلٌ مِمَّنْ کَانَ يَسْخَرُ بِأُوَيْسٍ، فَقَالَ عُمَرُ : هَلْ هَهُنَا أَحَدٌ مِنَ الْقَرْنِيِّيْنَ؟ فَجَاءَ ذَلِکَ الرَّجُلُ، فَقَالَ عُمَرُ : إِنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَدْ قَالَ : إِنَّ رَجُـلًا يَأْتِيْکُمْ مِنَ الْيَمَنِ، يُقَالُ لَهُ أُوَيْسٌ، لَا يَدَعُ بِالْيَمَنِ غَيْرَ أُمٍّ لَهُ، قَدْ کَانَ بِهِ بَيَاضٌ، فَدَعَا اﷲَ، فَأَذْهَبَهُ عَنْهُ إِلاَّ مَوضِعَ الدِّيْنَارِ أَوِ الدِّرْهَمِ، فَمَنْ لَقِيَهُ مِنْکُمْ فَلْيَسَتَغْفِرْلَکُمْ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَبُوْ نُعَيْمٍ.

2 : أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب : فضائل الصحابة، باب : من فضائل أويس القرنی، 4 / 1968، الرقم : 2542، وأبو نعيم في حلية الاولياء، 2 / 79، وابن سعد في الطبقات الکبری، 6 / 162، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 3 / 123، والذهبي في ميزان الاعتدال، 1 / 447.

’’حضرت اسیر بن جابر رضی اللہ عنہ نے روایت کیا ہے کہ اہل کوفہ ایک وفد لے کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس گئے۔ وفد میں ایک ایسا آدمی بھی تھا جو حضرت اویس رضی اللہ عنہ سے مذاق کرتا تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا یہاں کوئی قرن کا رہنے والاہے؟ یہ سن کر وہ شخص حاضر ہوا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا کہ تمہارے پاس یمن سے ایک شخص آئے گا اس کا نام اویس رضی اللہ عنہ ہو گا۔ یمن میں اس کی والدہ کے سوا کوئی نہیں ہو گا۔ اسے برص کی بیماری تھی، اس نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی، تو اللہ تعالیٰ نے ایک دینار یا درہم کے برابر سفید داغ کے سوا باقی (برص کے) داغ اس سے دور کر دیئے، تم میں سے جس شخص کی اس سے ملاقات ہو، تو اسے چاہیے کہ وہ اس سے تمہاری مغفرت کی دعا کرائے۔‘‘

اسے امام مسلم اور ابونعیم نے روایت کیا ہے۔

3 / 3. عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : مَنْ خَرَجَ مِنْ بَيْتِهِ إِلَی الصَّـلَاةِ، فَقَالَ : اَللَّهُمَّ، إِنِّي أَسْأَلُـکَ بِحَقِّ السَّائِلِيْنَ عَلَيْکَ، وَأَسْأَلُـکَ بِحَقِّ مَمْشَايَ هَذَا، فَإِنِّي لَمْ أَخْرُجْ أَشَرًا وَلَا بَطَرًا وَلَا رِيَاءً وَلَا سُمْعَةً، وَخَرَجْتُ اتِّقَاءَ سُخْطِکَ، وَابْتِغَاءَ مَرْضَاتِکَ، فَأَسْأَلُـکَ أَنْ تُعِيْذَنِي مِنَ النَّارِ، وَأَنْ تَغْفِرَ لِي ذُنُوْبِي إِنَّهُ لَا يَغْفِرُ الذُّنُوْبَ إِلَّا أَنْتَ، أَقْبَلَ اﷲُ عَلَيْهِ بِوَجْهِهِ وَاسْتَغْفَرَ لَهُ سَبْعُوْنَ أَلْفَ مَلَکٍ.

رَوَاهُ ابْنُ مَاجَه وَأَحْمَدُ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ.

3 : أخرجه ابن ماجه في السنن، کتاب : المساجد والجماعات، باب : المشی إلی الصلاة، 1 / 256، الرقم : 778، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 21، الرقم : 11172، وابن الجعد في المسند، 1 / 299، الرقم : 2031، وابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 25، رقم : 29202، وابن السني في عمل اليوم والليلة، 1 / 30، الرقم : 83، والمنذري في الترغيب والترهيب، 1 / 135، الرقم : 488.

’’حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو شخص نماز کے ارادے سے اپنے گھرسے نکلے اور یہ دعا مانگے :

{اَللَّهُمَّ، إِنِّي أَسْأَلُـکَ بِحَقِّ السَّائِلِيْنَ عَلَيْکَ وَأَسْأَلُـکَ بِحَقِّ مَمْشَايَ هَذَا، فَإِنِّي لَمْ أَخْرُجْ أَشَرًا وَلَا بَطَرًا وَلَا رِيَاءً وَلَا سُمْعَةً وَخَرَجْتُ اتِّقَاءَ سُخْطِکَ وَابْتِغَاءَ مَرْضَاتِکَ، فَأَسْأَلُـکَ أَنْ تُعِيْذَنِي مِنَ النَّارِ وَأَنْ تَغْفِرَ لِي ذُنُوْبِي إِنَّهُ لَا يَغْفِرُ الذُّنُوْبَ إِلَّا أَنْتَ}

 ’’اے اللہ ! میں تجھ سے تیرے سائلین کے وسیلہ سے سوال کرتاہوں اور میں تجھ سے (نماز کی طرف اٹھنے والے) اپنے قدموں کے وسیلہ سے سوال کرتا ہوں۔ بے شک میں نہ کسی برائی کی طرف چلا ہوں نہ تکبر اور غرور سے، نہ دکھاوے اور نہ کسی دنیاوی شہرت کی خاطر نکلا ہوں۔ میں توصرف تیری ناراضگی سے بچنے کے لئے اور تیری رضا کے حصول کے لئے نکلا ہوں۔ سو میں تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ مجھے دوزخ کی آگ سے نجات دے، میرے گناہوں کو بخش دے۔ بے شک تو ہی گناہوں کو بخشنے والا ہے‘‘۔ تو اللہ تعالیٰ اس کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور ستر ہزار فرشتے اس کی مغفرت کی دعا کرتے ہیں۔‘‘

اسے امام ابن ماجہ، احمد اور ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔

4 / 4. عَنْ يَعْلَی بْنِ سِيَابَةَ رضی الله عنه قَالَ : کُنْتُ مَعَ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم فِي مَسِيْرٍ لَهُ، فَأَرَادَ أَنْ يَقْضِيَ حَاجَةً، فَأَمَرَ وَدْيَتَيْنِ فَانْضَمَّتْ إِحْدَاهُمَا إِلَی الْأُخْرَی، ثُمَّ أَمَرَهُمَا فَرَجَعَتَا إِلَی مَنَابَتِهِمَا. وَجَاءَ بَعِيْرٌ فَضَرَبَ بِجِرَانِهِ إِلَی الْأَرْضِ ثُمَّ جَرْجَرَ حَتَّی ابْتَلَّ مَا حَوْلَهُ. فَقَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم : أَتَدْرُوْنَ مَا يَقُوْلُ الْبَعِيْرُ؟ إِنَّهُ يَزْعُمُ أَنَّ صَاحِبَهُ يُرِيْدُ نَحْرَهُ. فَبَعَثَ إِلَيْهِ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم فَقَالَ : أَوَاهِبُهُ أَنْتَ لِي؟ فَقَالَ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، مَا لِي مَالٌ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْهُ. قَالَ : اسْتَوْصِ بِهِ مَعْرُوْفًا. فَقَالَ : لَا جَرَمَ لَا أُکْرِمُ مَالًا لِي کَرَامَتُهُ، يَا رَسُوْلَ اﷲِ. وَأَتَی عَلَی قَبْرٍ يُعَذَّبُ صَاحِبُهُ فَقَالَ : إِنَّهُ يُعَذَّبُ فِي غَيْرِ کَبِيْرٍ. فَأَمَرَ بِجَرِيْدَةٍ، فَوُضِعَتْ عَلَی قَبْرِهِ، فَقَالَ : عَسَی أَنْ يُخَفَّفَ عَنْهُ مَا دَامَتْ رَطْبَةً. رَوَاهُ أَحْمَدَُ وَابْنُ حُمَيْدٍ وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ : إِسْنَادُهُ حَسَنٌ.

4 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 4 / 172، الرقم : 17595، وعبد بن حميد في المسند، 1 / 154، الرقم : 405، والخطيب البغدادي في موضح أوهام الجمع والتفريق، 1 / 272، الرقم : 271 والنووي في رياض الصالحين، 1 / 243، الرقم : 243، والمنذري في الترغيب والترهيب، 3 / 144، 145، الرقم : 3431، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 6.

’’حضرت یعلی بن سیابہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں ایک سفر میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک جگہ قضائے حاجت کا ارادہ فرمایا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کھجور کے دو درختوں کو حکم دیا۔ وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم سے ایک دوسرے سے مل گئے (اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے پردہ بن گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے پیچھے قضائے حاجت فرمائی)۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں دوبارہ حکم دیا تو وہ اپنی اپنی جگہ پر واپس آ گئے۔ پھر ایک اونٹ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں اپنی گردن کو زمین پر رگڑتا ہوا حاضر ہوا۔ وہ اتنا بلبلایا کہ اس کے اردگرد کی جگہ گیلی ہو گئی۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کیا تم جانتے ہو کہ یہ اونٹ کیا کہہ رہا ہے؟ اس کا خیال ہے کہ اس کا مالک اسے ذبح کرنا چاہتا ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کے مالک کی طرف آدمی بھیجا (کہ اسے بلا لائے۔ جب وہ آ گیا تو) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے فرمایا : کیا یہ اونٹ مجھے ہبہ کرتے ہو؟ اس نے عرض کیا : یا رسول اللہ! مجھے اس سے بڑھ کر اپنے مال میں سے کوئی چیز محبوب نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں تم سے اس کے معاملہ میں بھلائی کی توقع رکھتا ہوں۔ اس صحابی نے عرض کیا : یا رسول اللہ! میں اپنے تمام مال سے بڑھ کر اس کا خیال رکھوں گا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا گزر ایک قبر سے ہوا جس کے اندر موجود میت کو عذاب دیا جا رہا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اسے گناہ کبیرہ کی وجہ سے عذاب نہیں دیا جا رہا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک درخت کی ٹہنی طلب فرمائی اور اسے اس قبر پر رکھ دیا اور فرمایا : جب تک یہ ٹہنی خشک نہیں ہو جاتی اسے عذاب میں تخفیف دی جاتی رہے گی۔‘‘

اس حدیث کو امام احمد اور ابن حمید نے روایت کیا ہے۔ امام ہیثمی نے فرمایا کہ اس کی اسناد حسن ہے۔

5 / 5. عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ مَسْعُوْدٍ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : إِذَا انْفَلَتَتْ دَابَّةُ أَحَدِکُمْ بِأَرْضِ فَـلَاةٍ، فَلْيُنَادِ : يَا عِبَادَ اﷲِ، احْبِسُوْا عَلَيَّ، يَا عِبَادَ اﷲِ، احْبِسُوْا عَلَيَّ، فَإِنَّ ِﷲِ فِي الْأَرْضِ حَاضِرًا، سَيَحْبِسُهُ عَلَيْکُمْ. رَوَاهُ أَبُوْ يَعْلَی وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَالطَّبََرَانِيُّ وَاللَّفْظُ لَهُ.

5 : أخرجه ابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 103، الرقم : 29818، وأبو يعلی في المسند، 9 / 177، الرقم : 5269، والطبراني في المعجم الکبير، 10 / 217، الرقم : 10518، 17 / 117، الرقم : 290، وابن السني في عمل اليوم والليلة، 1 / 455، والديلمي في مسند الفردوس، 1 / 330، الرقم : 1311، والهيثمي في مجمع الزوائد، 10 / 132.

’’حضرت عبد اﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جب تم میں سے کسی کی سواری جنگل بیاباں میں گم ہو جائے تو اس (شخص) کو (یہ) پکارنا چاہیے : اے اﷲ تعالیٰ کے بندو! میری سواری پکڑا دو، اے اﷲتعالیٰ کے بندو! میری سواری پکڑا دو. بے شک اﷲ تعالیٰ کے بہت سے (ایسے) بندے اس زمین میں ہوتے ہیں، وہ تمہیں تمہاری سواری پکڑا دیں گے۔‘‘

اس حدیث کو امام ابویعلی، ابن ابی شیبہ اور طبرانی نے مذکورہ الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے۔

6 / 6. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي اﷲ عنهما قَالَ : إِنَّ ِﷲِ عزوجل مَـلَائِکَةً فِي الْأَرْضِ سِوَی الْحَفَظَةِ يَکْتُبُوْنَ مَا يَسْقُطُ مِنْ وَرَقِ الشَّجَرِ، فَإِذَا أَصَابَ أَحَدَکُمْ عُرْجَةٌ فِي الْأَرْضِ، لَا يَقْدِرُ فِيْهَا عَلَی الْأَعْوَانِ فَلْيَصِحْ فَلْيَقُلْ : عِبَادَ اﷲِ، أَغِيْثُوْنَا أَوْ أَعِيْنُوْنَا رَحِمَکُمُ اﷲُ فَإِنَّهُ سَيُعَانُ. وَفِي رِوَايَةِ رَوْحٍ : إِنَّ ِﷲِ مَـلَائِکَةً فِي الْأَرْضِ يُسَمَّوْنَ الْحَفَظَةَ يَکْتُبُوْنَ مَا يَقَعُ فِي الْأَرْضِ مِنْ وَرَقِ الشَّجَرِ، فَمَا أَصَابَ أَحَدًا مِنْکُمْ عُرْجَةٌ أَوِ احْتَاجَ إِلَی عَوْنٍ بِفَـلَاةٍ مِنَ الْأَرْضِ فَلْيَقُلْ : أَعِيْنُوْنَا، عِبَادَ اﷲِ، رَحِمَکُمُ اﷲُ فَإِنَّهُ يُعَانُ إِنْ شَاءَ اﷲُ.

رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَالْبَيْهَقِيُّ وَاللَّفْظُ لَهُ وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ : رِجَالُهُ ثِقَاتٌ.

6 : أخرجه ابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 91، الرقم : 29721، والبيهقي في شعب الإيمان، 6 / 128، الرقم : 7697، 1 / 183، الرقم : 167، والمناوي في فيض القدير، 1 / 307، والهيثمي في مجمع الزوائد، 10 / 132.

’’حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اﷲ عنہما فرماتے ہیں کہ بے شک اللہ تعالیٰ کے بعض فرشتے، انسان کے اعمال لکھنے والے فرشتوں کے علاوہ، ایسے بھی ہیں جو درختوں کے پتوں کے گرنے تک کو لکھتے ہیں، پس تم میں سے جب کوئی کسی جگہ (کسی بھی مشکل میں) جائے، جہاں بظاہر اس کا کوئی مددگار بھی نہ ہو، تو اسے چاہیے کہ وہ پکار کر کہے : اے اللہ کے بندو، اللہ تعالیٰ تم پر رحم فرمائے، ہماری مدد کرو، تو پس اس کی مدد کی جائے گی۔ اور حضرت روح کی روایت میں ہے کہ بے شک زمین پر اللہ تعالیٰ کے بعض فرشتے ایسے ہیں جنہیں حَفَظَۃ (حفاظت کرنے والے) کا نام دیا جاتا ہے، اور جو زمین پر گرنے والے درختوں کے پتوں تک کو لکھتے ہیں، پس جب تم میں سے کوئی کسی جگہ محبوس ہو جائے یا کسی ویران جگہ پر اسے کسی مدد کی ضرورت ہو، تو اسے چاہیے کہ وہ یوں کہے : اے اللہ کے بندو! اللہ تعالیٰ تم پر رحم فرمائے، ہماری مدد کرو، پس اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا تو اس شخص کی (فوراً) مدد کی جائے گی۔‘‘

اس حدیث کو امام ابن ابی شیبہ اور بیہقی نے مذکورہ الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے۔ امام ہیثمی نے فرمایا کہ اس حدیث کے رجال ثقہ ہیں۔

7 / 7. عَنْ أُسَامَةَ بْنِ عُمَيْرٍ رضی الله عنه أَنَّهُ صَلَّی مَعَ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم رَکْعَتَي الْفَجْرِ فَصَلَّی قَرِيْبًا مِنْهُ، فَصَلَّی النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم رَکْعَتَيْنِ خَفِيْفَتَيْنِ، فَسَمِعَهُ يَقُوْلُ : اَللَّهُمَّ، رَبَّ جِبْرِيْلَ وَمِيْکَائِيْلَ وَإِسْرَافِيْلَ وَمُحَمَّدٍ (صلی الله عليه وآله وسلم)، أَعُوْذُ بِکَ مِنَ النَّارِ ثَـلَاثَ مَرَّاتٍ.

رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَأَبُوْ يَعْلَی وَالطَّبَرَانِيُّ، وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ : وَفِيْهِ عِبَادُ بْنُ سَعِيْدٍ قَدْ ذَکَرَهُ ابْنُ حِبَّانَ فِي الثِّقَاتِ.

7 : أخرجه الحاکم في المستدرک، 3 / 721، الرقم : 6610، وأبو يعلی في المسند، 8 / 213، الرقم : 4779، والطبراني في المعجم الکبير، 1 / 195، الرقم : 520، والمقدسي في الأحاديث المختارة، 4 / 205. 206، الرقم : 1422. 1423، وابن سرايا في سلاح المؤمن في الدعاء، 1 / 349، الرقم : 647، والهيثمي في مجمع الزوائد، 2 / 219، والحسيني في البيان والتعريف، 1 / 150، الرقم : 398.

’’حضرت اسامہ بن عمیر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ فجر کی دو رکعت نماز ادا کی اور وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قریب ہی کھڑے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دو رکعتوں میں آہستہ آواز میں قراء ت فرمائی، حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ نے سنا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (نماز سے فارغ ہو کر) یہ دعا مانگ رہے ہیں : ’’اے جبرائیل، میکائیل، اسرافیل اور محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے رب! میں دوزخ سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ تین مرتبہ فرمایا۔‘‘

اس حدیث کو امام حاکم، ابو یعلی اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔ امام ہیثمی نے فرمایا کہ اس کی سند میں عباد بن سعید نامی راوی ہے اسے امام ابن حبان نے الثقات میں ذکر کیا ہے۔

8 / 8. عَنْ عَتَبَةَ بْنِ غَزْوَانَ رضی الله عنه عَنْ نَبِيِّ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : إِذَا أَضَلَّ أَحَدُکُمْ شَيْئًا أَوْ أَرَادَ أَحَدُکُمْ عَوْنًا، وَهُوَ بِأَرْضٍ لَيْسَ بِهَا أَنِيْسٌ فَلْيَقُلْ : يَا عِبَادَ اﷲِ، أَغِيْثُوْنِي، يَا عِبَادَ اﷲِ، أَغِيْثُوْنِي، فَإِنَّ ِﷲِ عِبَادًا لَا نَرَاهُمْ. وَقَدْ جُرِّبَ ذَلِکَ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ، وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ : وَرِجَالُهُ وُثِّقُوْا.

8 : أخرجه الطبرانی في المعجم الکبير، 17 / 117، الرقم : 290، والهيثمي في مجمع الزوائد، 10 / 132، والمناوي في فيض القدير، 1 / 307.

’’حضرت عتبہ بن غزوان رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جب تم میں سے کسی کی کوئی شے گم ہو جائے، یا تم میں سے کوئی مدد چاہے اور وہ ایسی جگہ ہو کہ جہاں اس کا کوئی مدد گار بھی نہ ہو، تو اسے چاہیے کہ یوں پکارے : اے اﷲتعالیٰ کے بندو! میری مدد کرو، اے اﷲتعالیٰ کے بندو! میری مدد کرو، یقینا اﷲ تعالیٰ کے ایسے بھی بندے ہیں جنہیں ہم دیکھ نہیں سکتے (لیکن وہ لوگوں کی مدد کرنے پر مامور ہیں)۔ اور (راوی بیان کرتے ہیں کہ) یہ آزمودہ بات ہے۔‘‘

اسے امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔ امام ہیثمی نے فرمایا کہ اس کے رجال ثقہ ہیں۔

9 / 9. عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضي اﷲ عنهما قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : إِنَّ ِﷲِ خَلْقًا خَلَقَهُمْ لِحَوَائِجِ النَّاسِ، تَفْزَعُ النَّاسُ إِلَيْهِمْ فِي حَوَائِجِهِمْ، أُوْلئِکَ الآمِنُوْنَ مِنْ عَذَابِ اﷲِ.

رَوَاهُ أَبُوْ نُعَيْمٍ وَالطَّبَرَانِيُّ وَالْقُضَاعِيُّ، وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ : وَأَحْمَدُ بْنُ طَارِقٍ الرَّاوِيُّ عَنْهُ لَمْ أَعْرِفْهُ، وَبَقِيَةُ رِجَالِهِ رِجَالُ الصَّحِيْحِ.

9 : أخرجه أبو نعيم في حلية الأولياء، 3 / 225، والطبراني في المعجم الکبير، 12 / 358، الرقم : 13334، والقضاعي في مسند الشهاب، 2 / 117، الرقم : 1007، والنرسي في ثواب قضاء حوائج الإخوان، 1 / 80، الرقم : 42، وإسناده صحيح، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 54 / 5، الرقم : 6559، والمنذري في الترغيب والترهيب، 3 / 262، الرقم : 3966، والهيثمي في مجمع الزوائد، 8 / 192، والمناوي في فيض القدير، 2 / 477.

’’حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بے شک اللہ تعالیٰ کے کچھ خاص بندے ایسے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں مخلوق کی حاجت روائی کے لئے خاص فرمایا ہے۔ لوگ گھبرائے ہوئے اپنی حاجتیں ان کے پاس لے کر آتے ہیں (اور وہ ان کی حاجت روائی کرتے ہیں)۔ اللہ تعالیٰ کے وہ خاص بندے عذابِ الٰہی سے امان میں ہیں۔‘‘

اس حدیث کو امام ابونعیم، طبرانی اور قضاعی نے روایت کیا ہے۔ امام ہیثمی نے فرمایا کہ اس کی سند میں احمد بن طارق راوی کے متعلق ہے میں نہیں جانتا جبکہ باقی تمام رجال صحیح حدیث کے رجال ہیں۔

10 / 10. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه قَالَ : لَمَّا مَاتَتْ فَاطِمَةُ بِنْتُ أَسَدِ بْنِ هَاشِمٍ رضي اﷲ عنها أُمُّ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رضی الله عنه، دَخَلَ عَلَيْهَا رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم وَوَقَفَ عِنْدَ رَأْسِهَا، فَقَالَ : رَحِمَکِ اﷲُ، يَا أُمِّي، کُنْتِ أُمِّي بَعْدَ أُمِّي وَتُشْبِعِيْنِي، وَتَعْرِيْنَ وَتَکْسِيْنِي، وَتَمْنَعِيْنَ نَفْسَکِ طَيِّبًا وَتُطْعِمِيْنِي تُرِيْدِيْنَ بِذَلِکَ وَجْهَ اﷲِ وَالدَّارَ الْآخِرَةَ، ثُمَّ أَمَرَ أَنْ تُغْسَلَ ثَـلَاثًا، فَلَمَّا بَلَغَ الْمَاءُ الَّذِي فِيْهِ الْکَافُوْرُ، سَکَبَهُ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم بِيَدِهِ، ثُمَّ خَلَعَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَمِيْصَهُ، فَأَلْبَسَهَا إِيَاهُ، وَکَفَّنَهَا بِبُرْدٍ فَوْقَهُ، ثُمَّ دَعَا رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم أُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ وَأَبَا أَيُوْبَ الْأَنْصَارِيَّ وَعُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ وَغُـلَامًا أَسْوَدَ يَحْفَرُوْنَ، فَحَفَرُوْا قَبْرَهَا، فَلَمَّا بَلَغُوْا اللَّحْدَ، حَفَرَهُ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم بِيَدِهِ، وَأَخْرَجَ تُرَابَهُ بِيَدِهِ، فَلَمَّا فَرَغَ دَخَلَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم فَاضْطَجَعَ فِيْهِ، ثُمَّ قَالَ : اﷲُ الَّذِي يُحْيِي وَيُمِيْتُ، وَهُوَ حَيٌّ لاَ يَمُوْتُ، اغْفِرْ لِأُمِّي فَاطِمَةَ بِنْتِ أَسَدٍ، وَلَقِّنْهَا حُجَّتَهَا، وَوَسِّعْ عَلَيْهَا مَدْخَلَهَا بِحَقِّ نَبِيِّکَ وَالْأَنْبِيَاءِ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِي، فَإِنَّکَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِيْنَ، وَکَبَّرَ عَلَيْهَا أَرْبَعًا وَأَدْخَلُوْهَا اللَّحْدَ هُوَ وَالْعَبَّاسُ وَأَبُوْبَکْرٍ الصِّدِّيْقُ رضی الله عنهم.

رَوَاهُ أَبُوْ نُعَيْمٍ وَالطَّبَرَانِيُّ وَاللَّفْظُ لَهُ، وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ : وَفِيْهِ رَوْحُ بْنُ صَلَاحٍ وَثَّقَهُ ابْنُ حِبَّانَ وَالْحَاکِمُ وَبَقِيَةُ رِجَالِهِ رِجَالُ الصَّحِيْحِ.

10 : أخرجه أبو نعيم في حلية الأولياء، 3 / 121، والطبراني في المعجم الکبير، 24 / 351، الرقم : 871، وفي المعجم الأوسط، 1 / 67، الرقم : 189، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 257.

’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب حضرت فاطمہ بنت اسد بن ہاشم رضی اﷲ عنہا جو کہ حضرت علی بن ابی طالب کرم اﷲ وجہہ کی والدہ ماجدہ ہیں فوت ہوئیں تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہاں (قبرستان) تشریف لے گئے اور ان کے سرہانے کھڑے ہو گئے اور فرمایا : اﷲ تعالیٰ تجھ پر رحم فرمائے۔ اے میری ماں! تو میری ماں کے بعد میری ماں (کی طرح ہی) تھی اور تو مجھے شکم سیر کرتی تھی اور مجھے کپڑے پہناتی تھی اور میری خاطر خود پھٹے پرانے کپڑے پہن لیتی تھی اور اپنے آپ کو اعلیٰ چیزوں سے محروم رکھتی تھی اور مجھے کھلاتی تھی اور اس سارے عمل سے تو اﷲ تعالیٰ کی رضا اور جنت کی طلب رکھتی تھیں پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تین دفعہ انہیں غسل دینے کا حکم فرمایا۔ پس جب کافور ملا پانی پہنچا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے اسے انڈیلا پھر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا کرتہ مبارک اتارا اور انہیں پہنا دیا اور اس چادر کے ذریعے جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر تھی انہیں کفن پہنایا پھر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت اسامہ بن زید، ابو ایوب انصاری، عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہم اور ایک حبشی غلام کو قبر کھودنے کے لیے فرمایا۔ انہوں نے قبر کھودی اور جب لحد تک پہنچے تو اسے خود حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے دستِ اقدس سے کھودا۔ اور اس کی مٹی اپنے ہاتھوں سے نکالی اور جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لحد کے کھودنے سے فارغ ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے اندر لیٹ گئے پھر فرمایا : اﷲ تعالیٰ وہ ہے جو زندہ کرتا ہے اور مارتا ہے اور وہ زندہ ہے اسے کبھی موت نہیں آنی۔ اے اﷲ! میری والدہ فاطمہ بنت اسد کو بخش دے اور اسے اس کی حجت کی تلقین فرما اور اپنے نبی اور مجھ سے قبل انبیاء کے واسطہ سے اس کی قبر اس پر کشادہ فرما پس بے شک تو سب سے زیادہ رحم فرمانے والا ہے پھر اس پر چار تکبیریں پڑھیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اور حضرت عباس اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے انہیں لحد میں اتارا۔‘‘

اس حدیث کو امام ابونعیم اور طبرانی نے مذکورہ الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے۔ امام ہیثمی نے فرمایا کہ اس کی سند میں روح بن صلاح راوی ہے اسے امام ابن حبان اور حاکم نے ثقہ قرار دیا ہے ۔۔۔ اس کے علاوہ تمام رجال صحیح حدیث کے رجال ہیں۔

Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved