234 / 1. عَنْ عَائِشَةَ رضي اللہ عنها قَالَتْ : تُوُفِّيَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم وَمَا فِي بَيْتِي مِنْ شَيئٍ يَأکُلُهُ ذُوْ کَبِدٍ إِلَّا شَطْرُ شَعِيْرٍ فِي رَفٍّ لِي فَأَکَلْتُ مِنْهُ حَتَّی طَالَ عَلَيَّ فَکِلْتُهُ فَفَنِيَ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
1 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : فرض الخمس، باب : نفقة نساء النبي بعده صلی الله عليه وآله وسلم ، 3 / 1129، الرقم : 2930، وفي کتاب : الرقاق، باب فضل الفقر، 5 / 2370، الرقم : 6086، ومسلم في الصحيح، کتاب : الزهد والرقائق، 4 / 2284، الرقم : 2973، وابن ماجه في السنن، کتاب : الأطعمة، باب : خبز الشعير، 2 / 1110، الرقم : 3345، والبيهقي في السنن الکبری، 7 / 47، الرقم : 13094، والنووي في رياض الصالحين، 1 / 139، الرقم : 139، والمنذري في الترغيب والترهيب، 4 / 101، الرقم : 4985، والعيني في عمدة القاري، 11 / 247.
’’حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وصال مبارک ہوا تو اس وقت میرے گھر میں کوئی ایسی چیز موجود نہ تھی جسے کوئی جاندار کھا سکتا مگر (آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چھوڑے ہوئے) کچھ جَو تھے جنہیں میں نے ایک الماری میں ڈال رکھا تھا۔ ایک مدت تک میں ان میں سے ہی سے کھاتی رہی تھی، (لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی برکت سے وہ کبھی ختم نہ ہوئے) لیکن ایک روز میں نے انہیں ماپ لیا تو وہ ختم ہو گئے۔‘‘ یہ حدیث متفق عليہ ہے۔۔۔
235 / 2. عَنْ عَابِسِ بْنِ رَبِيْعَةَ، عَنْ عُمَرَ رضی الله عنه أَنَّهُ جَاءَ إِلَی الْحَجَرِ الْأَسْوَدِ فَقَبَّلَهُ، فَقَالَ : إِنِّي أَعْلَمُ أَنَّکَ حَجَرٌ، لَا تَضُرُّ وَلَا تَنْفَعُ، وَلَوْلَا أَنِّي رَأَيْتُ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم يُقَبِّلُکَ مَا قَبَّلْتُکَ. وفي رواية : قَالَ عُمَرُ : شَيئٌ صَنَعَهُ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم فَلاَ نُحِبُّ أَنْ نَتْرُکَهُ. مُتَّفَقٌ عَلَيْه.
2 : أخرجه البخاری في الصحيح، کتاب : الحج، باب : ما ذُکر فی الحجر الأسود، 2 / 579، الرقم : 1520، 1528، ومسلم في الصحيح، کتاب : الحج، باب : استحباب تقبيل الحجر الأسود في الطواف، 2 / 925، الرقم : 1270، وأبو داود في السنن، کتاب : المناسک، باب : في تقبيل الحجر، 2 / 175، الرقم : 1873، والنسائي في السنن، کتاب : مناسک الحج، باب : کيف يقبل، 5 / 227، الرقم : 2938، وابن ماجه في السنن، باب : استلام الحجر، 2 / 981، الرقم : 2943، ومالک في الموطأ، 1 / 367، الرقم : 818، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 / 16، الرقم : 99، والبزار في المسند، 1 / 949، الرقم : 139، وابن حبان في الصحيح، 4 / 212، الرقم : 2711..
’’حضرت عابس بن ربیعہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ حجرِ اسود کے پاس آئے اور اسے بوسہ دے کر کہا : میں خوب جانتا ہوں کہ تو پتھر ہے نہ تو نقصان پہنچا سکتا ہے اور نہ نفع۔ اگر میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تجھے بوسہ دیتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو میں کبھی تجھے بوسہ نہ دیتا۔ (اور ایک روایت میں ہے کہ) حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : یہ وہ کام ہے جسے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ادا فرمایا ہے پس ہم نہیں چاہتے کہ اسے ترک کر دیں۔‘‘ یہ حدیث متفق عليہ ہے۔۔
236 / 3. عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضي اللہ عنهما أَنَّ عَبْدَ اللهِ بْنَ أبَيٍّ لَمَّا تُوُفِّيَ جَاءَ ابْنُهُ إِلَی النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم فَقَالَ : يَا رَسُوْلَ اللهِ، أَعْطِنِي قَمِيْصَکَ أکَفِّنْهُ فِيْهِ وَصَلِّ عَلَيْهِ وَاسْتَغْفِرْ لَهُ فَأَعْطَاهُ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم قَمِيْصَهُ فَقَالَ : آذِنِّي أصَلِّي عَلَيْهِ فَآذَنَهُ فَلَمَّا أَرَادَ أَنْ يُصَلِّيَ عَلَيْهِ جَذَبَهُ عُمَرُ رضی الله عنه فَقَالَ : أَلَيْسَ اللهُ نَهَاکَ أَنْ تُصَلِّيَ عَلَی الْمُنَافِقِيْنَ فَقَالَ : أَنَا بَيْنَ خِيَرَتَيْنِ قَالَ : {اسْتَغْفِرْ لَهُمْ أَوْ لَا تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ إِنْ تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ سَبْعِيْنَ مَرَّةً فَلَنْ يَغْفِرَ اللهُ لَهُمْ} التوبة، 9 : 80 فَصَلَّی عَلَيْهِ فَنَزَلَتْ : {وَلَا تُصَلِّ عَلَی أَحَدٍ مِنْهُمْ مَاتَ أَبَدًا}. التوبة، 9 : 84. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
3 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : الجنائز، باب : الکفن في القميص الذي يکف أو لا يکف ومن کفن بغير قميص، 1 / 427، الرقم : 1210، وفي کتاب : تفسير القرآن، باب : قوله : استغفر لهم أو لا تستغفر لهم إن تستغفر لهم سبعين مرة، 4 / 1715، الرقم : 4393، ومسلم في الصحيح، کتاب : صفات المنافقين وأحکامهم، 4 / 2141، الرقم : 2774، وفي کتاب : فضائل الصحابة، باب : من فضائل عمر ص، 4 / 1865، الرقم : 2400، والترمذي في السنن، کتاب : تفسير القرآن عن رسول اللہ صلی الله عليه وآله وسلم ، باب : ومن سورة التوبة، 5 / 279، الرقم : 3098، وقال أبو عيسی : هذا حديث حسن صحيح، وأبو داود نحوه في السنن، کتاب : الجنائز، باب : في العبادة، 3 / 184، الرقم : 3094، والنسائي في السنن، کتاب : الجنائز، باب : القميص في الکفن، 4 / 36، الرقم : 1900، وابن ماجه في السنن، کتاب : ما جاء في الجنائز، باب : في الصلاة علی أهل القبلة، 1 / 487، الرقم : 1523، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 18، الرقم : 4680، وابن حبان في الصحيح، 7 / 447، الرقم : 3175.
’’حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ جب (رئیس المنافقین) عبد اللہ بن اُبی فوت ہو گیا تو اس کے بیٹے (حضرت عبد اللہ جو کہ صحابی تھے) حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں عرض گزار ہوئے : یا رسول اللہ! مجھے اپنی قمیص عطا فرمائیے کہ اس سے میں اپنے والد کو کفن دوں اور اس پر نماز پڑھئیے اور اس کے لئے دعائے مغفرت بھی فرمائیں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں اپنی قمیض عطا فرما دی اور فرمایا : (جنازہ کے وقت) مجھے اطلاع کر دینا تاکہ اس پر نماز پڑھوں۔ پس اطلاع دی گئی۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس پر نماز پڑھنے کا ارادہ کیا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو روکا اور عرض گزار ہوئے : (یا رسول اللہ!) اللہ تعالیٰ نے آپ کو منافقین پر نماز پڑھنے سے منع نہیں فرمایا؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مجھے دونوں باتوں کا اختیار دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ’’اگر آپ (اپنی طبعی شفقت اور عفو و درگزر کی عادتِ کریمانہ کے پیشِ نظر) ان کے لیے سترّ مرتبہ بھی بخشش طلب کریں تو بھی اللہ تعالیٰ انہیں ہرگز نہیں بخشے گا۔‘‘ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس پر نماز پڑھی تو وحی نازل ہوئی : ’’اور آپ کبھی بھی ان (منافقوں) میں سے جو کوئی مر جائے اس (کے جنازے) پر نماز نہ پڑھیں۔‘‘ یہ حدیث متفق عليہ ہے۔۔۔
237 / 4. عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ رضی الله عنه قَالَ : جَاءَتِ امْرَأَةٌ إِلَی النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم بِبُرْدَةٍ فَقَالَ سَهْلٌ لِلْقَوْمِ : أَتَدْرُوْنَ مَا الْبُرْدَةُ؟ فَقَالَ الْقَوْمُ : هِيَ الشَّمْلَةُ فَقَالَ سَهْلٌ : هِيَ شَمْلَةٌ مَنْسُوْجَةٌ فِيْهَا حَاشِيَتُهَا فَقَالَتْ : يَا رَسُوْلَ اللهِ، أَکْسُوْکَ هَذِهِ، فَأَخَذَهَا النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم مُحْتَاجًا إِلَيْهَا، فَلَبِسَهَا، فَرَآهَا عَلَيْهِ رَجُلٌ مِنَ الصَّحَابَةِ فَقَالَ : يَا رَسُوْلَ اللهِ، مَا أَحْسَنَ هَذِهِ فَاکْسُنِيْهَا فَقَالَ : نَعَمْ، فَلَمَّا قَامَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم لَامَهُ أَصْحَابُهُ قَالُوْا : مَا أَحْسَنْتَ حِيْنَ رَأَيْتَ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم أَخَذَهَا مُحْتَاجًا إِلَيْهَا ثُمَّ سَأَلْتَهُ إِيَاهَا وَقَدْ عَرَفْتَ أَنَّهُ لَا يُسْأَلُ شَيْئًا فَيَمْنَعَهُ فَقَالَ : رَجَوْتُ بَرَکَتَهَا حِيْنَ لَبِسَهَا النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم لَعَلِّي أکَفَّنُ فِيْهَا. وفي رواية : قَالَ سَهْلٌ : فَکَانَتْ کَفَنَهُ.
رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَالنَّسَائِيُّ وَابْنُ مَاجَه، وَقَالَ الطَّبَرَانِيُّ : قَالَ قُتَيْبَةُ : کَانَ سَعْدُ بْنُ أَبِي وَقَّاصٍ ص...
4 : أخرجه البخاري في الصحيح کتاب : الآداب، باب : حسن الخلق والسخاء وما يکره من البخل، 5 / 2245، الرقم : 5689، وفي کتاب : الجنائز، باب : من استعد الکفن في زمن النبي صلی الله عليه وآله وسلم فلم ينکر عليه، 1 / 429، الرقم : 1218، وفي کتاب : البيوع، باب ذکر النساج، 2 / 737، الرقم : 1987، وفي کتاب : اللباس، باب : البرود والحبرة والشملة، 5 / 2189، الرقم : 5473، والنسائي في السنن، کتاب : الزينة، باب : لبس البرود، 8 / 204، الرقم : 5321، وفي السنن الکبری، 5 / 480، الرقم : 9659، وابن ماجه في السنن، کتاب : اللباس، باب : لباس رسول اللہ صلی الله عليه وآله وسلم ، 2 / 1177، الرقم : 3555، وأحمد بن حنبل في المسند، 5 / 333، الرقم : 22876، وعبد بن حميد في المسند، 1 / 170، الرقم : 462، والطبراني في المعجم الکبير، 6 / 143، 169، 200، الرقم : 5785، 5887، 5997، والبيهقي في السنن الکبری، 3 / 404، الرقم : 6489، وفي شعب الإيمان، 5 / 170، الرقم : 6234، وابن سعد في الطبقات الکبری، 1 / 454، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 4 / 33، والنووي في رياض الصالحين، 1 / 161.
’’حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ایک عورت چادر لے کر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوئی۔ حضرت سہل نے دوسرے حضرات سے کہا : کیا آپ جانتے ہیں کہ یہ چادر کیسی ہے؟ لوگوں نے جواب دیا کہ یہ شملہ ہے۔ حضرت سہل رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ یہ ایسی شملہ ہے جس پر حاشیے بنے ہوئے ہیں۔ وہ عرض گزار ہوئی : یا رسول اللہ! میں اسے آپ کے اوڑھنے کی خاطر لائی ہوں۔ تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وہ قبول فرما لی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس وقت چادر کی ضرورت بھی تھی اور اسے پہننے کا شرف بخشا، جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے ایک شخص نے اسے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جسم اطہر پر دیکھا تو اس نے عرض کیا : یا رسول اللہ! یہ تو بہت اچھی ہے لہٰذا یہ مجھے اوڑھا دیجئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اچھا لو (اور اسے چادر عطا فرما دی)۔ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اٹھ کر تشریف لے گئے تو دوسرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے انہیں ملامت کی اور کہا کہ تم نے اچھا نہیں کیا۔ کیونکہ جب تم نے یہ دیکھ لیا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے قبول فرما لیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس چادر کی ضرورت بھی ہے اس کے باوجود تم نے وہی مانگ لی جبکہ تم یہ جانتے بھی تھے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سوال کیا جائے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انکار نہیں فرماتے۔ اس صحابی نے کہا کہ میں اس سے برکت کا امیدوار ہوں کیونکہ اسے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جسم اطہر سے لگنے کا شرف حاصل ہو گیا ہے لہٰذا میں چاہتا ہوں کہ اسی میں کفن دیا جاؤں۔ اور ایک روایت میں ہے کہ حضرت سہل رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ پھر وہی چادر اس صحابی کا کفن بنی۔‘‘
اس حدیث کو امام بخاری، نسائی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔
’’اور امام طبرانی نے
Copyrights © 2025 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved