Huzoor Nabi Akram ﷺ Kay Khasail e Mubaraka

2. وَصْفُ حُسْنِ مَشْیِهِ ﷺ

﴿حضور ﷺ کا خرامِ ناز﴾

حضور نبی اکرم ﷺ جب بھی کسی منزل کی جانب عازمِ سفر ہوتے تو راستے فرطِ مسرت سے جگمگا اٹھتے۔ وہ راستہ جس کی جبیں پرآپ ﷺ اپنے قدم مبارک کی مہر ثبت کر دیتے اپنے مقدر پر نازاں و شاداں ہوتا۔ آپ ﷺ کی پُر تمکنت چال اور دل کش سبک خرامی کو آہوانِ ختن اور اسپانِ تازی بھی رشک کی نگاہوں سے دیکھتے۔آپ ﷺ کا خرامِ ناز گام گام عجز و انکسار کا مظہر ہوتا۔ جب آپ ﷺ چلتے تو محسوس ہوتا کہ آپ ﷺ ڈھلوان سے اُتر رہے ہیں۔آپ ﷺ آہستگی سے چلتے لیکن زمین پرقدم جما کر رکھتے اور متوازن انداز میں صحابہ کرام رضي الله عنهم کی سیادت و قیادت فرماتے۔ آپ ﷺ کی متانتِ رفتار سے صبا ادائے خوش خرامی مستعار لیتی۔ آپ ﷺ جس بھی گلی، بستی، نگر، قریہ اور وادی سے گزرتے جسمِ اطہر سے پھوٹنے والی خوشبو کی لپٹیں فضاؤں کو معطر کر دیتیں۔ گھروں میں بیٹھے لوگوں کو بھی ہوا کے جھونکے یہ دل کشا پیغام دیتے کہ آقا ﷺ کہیں قریب سے گزرے ہیں۔عمومی طور پر جب صحابہ کرام رضي الله عنهم کے ہمراہ کہیں جاتے تو ان کے ہم قدم اور ان کے درمیان رہتے۔ جب کسی خاص مشن اور مقصد کی خاطر کسی بستی کا رخ کرتے تو صحابہ کرام رضي الله عنهم حفاظتی تدبیر اور اقدام کے تحت آپ ﷺ کے آگے ہوتے۔ آپ ﷺ کے عقب سے فرشتے آپ ﷺ کی حفاظت پر من جانب اللہ مامور ہوتے۔سچ تو یہ ہے صحابہ کرام رضي الله عنهمکے لیے آپ ﷺ کے قدموں کی دھول بھی پھول تھی۔

2. كَانَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ إِذَا زَالَ زَالَ قُلْعًا، يَخْطُوْ تَكَفِّىً.

أخرجه الترمذي في الشمـائل الـمحمدية/ 37-38، الرقم/ 8، وابن حبان في الثقات، 2/ 146، والطبراني في الـمعجم الكبير، 22/ 155-156، الرقم/ 414، والبيهقي في شعب الإيمـان، 2/ 154-155، الرقم/ 1430.

رسول اللہ ﷺ جب چلتے تو آپ ﷺ کی رفتار متوازن ہوتی، آپ ﷺ زمین پر مضبوط قدم رکھتے، قدم اُٹھاتے تو ہلکا سا جھکتے تھے۔

3. كَانَ يَمْشِي هَوْنًا، ذَرِيْعَ الْـمِشْيَةِ.

أخرجه الترمذي في الشمـائل الـمحمدية/ 37-38، الرقم/ 8، وابن حبان في الثقات، 2/ 146، والطبراني في الـمعجم الكبير، 22/ 155-156، الرقم/ 414، والبيهقي في شعب الإيمـان، 2/ 154-155، الرقم/ 1430.

آپ ﷺ (زمین پر) آہستگی سے پاؤں مبارک رکھتے اور آپ ﷺ کی چال میں موزوں تیزی ہوتی۔

4. كَانَ إِذَا مَشَى كَأَنَّمَا يَنْحَطُّ مِنْ صَبَبٍ.

أخرجه الترمذي في الشمـائل الـمحمدية/ 37-38، الرقم/ 8، وابن حبان في الثقات، 2/ 146، والطبراني في الـمعجم الكبير، 22/ 155-156، الرقم/ 414، والبيهقي في شعب الإيمـان، 2/ 154-155، الرقم/ 1430.

آپ ﷺ جب چلتے تو (چلنے کے انداز سے) یوں لگتا جیسے بلندی سے (نشیب کی طرف) اُتر رہے ہیں۔

5. وَكَانَ إِذَا مَشَی تَقَلَّعَ كَأَنَّمَا يَمْشِي فِي صَبَبٍ.

أخرجه الترمذي في السنن، كتاب المناقب، باب ما جاء في صفة النّبي ﷺ ، 5/ 599، الرّقم/ 3638، وأيضًا في الشّمائل المحمّدية/ 32-33، الرّقم/ 7، وابن أبي شيبة في المصنف، 6/ 328، الرقم/ 31805، والبيهقي في شعب الإيمان، 2/ 149، الرقم/ 1415.

آپ ﷺ چلتے وقت قوت کے ساتھ چلتے، (یوں محسوس ہوتا)گویا ڈھلوان جگہ میں چل رہے ہوں۔

6. كَانَ يَطَأُ بِقَدَمِهِ جَمِيْعً.

أخرجه البخاري في الأدب المفرد، باب إذا التفت التفت جميعًا/ 395، الرقم/ 1155، وذكره السيوطي في الخصائص الكبری، 1/ 125، والصّالحي في سبل الهدی والرّشاد، 2/ 30.

آپ ﷺ چلتے تو زمین پر قدم مبارک جما کر رکھتے تھے۔

7. وَقَالَ أَبُوْ هُرَيْرَةَ رضي الله عنه: وَمَا رَأَيْتُ أَحَدًا أَسْرَعَ فِي مِشْيَتِهِ مِنْ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ ، كَأَنَّمَا الْأَرْضُ تُطْوَی لَهُ، إِنَّا لَنُجْهِدُ أَنْفُسَنَا وَإِنَّهُ لَغَيْرُ مُكْتَرِثٍ.

أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 2/ 350، 380، الرقم/ 8588، 8930، والترمذي في السنن، كتاب المناقب، باب في صفة النبي ﷺ ، 5/ 604، الرقم/ 3648، وأيضًا في الشمائل المحمدية/ 112، الرقم/ 124، وابن حبان في الصحيح، 14/ 215، الرقم/ 6309، وابن المبارك في المسند، 1/ 16-17، الرقم/ 31، وأيضًا في كتاب الزهد، 1/ 288، الرقم/ 838، وابن سعد في الطبقات الكبری، 1/ 415.

حضرت ابو ہریرہ رضي الله عنه بیان کرتے ہیں: میں نے رسول اللہ ﷺ سے زیادہ تیز رفتار کوئی نہیں دیکھا، (آپ ﷺ کی سُبک خرامی فاصلوں کو سمیٹ دیتی تھی)گویا آپ ﷺ کے لیے زمین لپیٹ دی جاتی تھی۔ ہم (چلتے وقت) خود کو ہلکان کر ڈالتے جبکہ آپ ﷺ (روانی سے) بلا تکلف چلتے رہتے تھے۔

8. كَانَ رَسُوْلُ اللَّهِ ﷺ إِذَا خَرَجَ مَشَى أَصْحَابُهُ أَمَامَهُ، وَتَرَكُوْا ظَهْرَهُ لِلْمَلَائِكَةِ.

أخرجه ابن ماجه في السنن، المقدمة، باب من كره أن يوطأ عقباه، 1/ 90، الرقم/ 246، وابن حبان في الصحيح، 14/ 218، الرقم/ 6312.

رسول اللہ ﷺ جب باہر تشریف لے جاتے تو صحابہ کرام رضي الله عنهم (بطور حفاظت) آپ ﷺ کے آگے چلتے (یعنی escort کرتے)، جب کہ آپ ﷺ کی ذاتِ ستودہ صفات کا عقبی حصہ (تحفظ کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے مامور) فرشتوں کے لیے چھوڑ دیتے تھے۔

Copyrights © 2025 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved