Islam awr Khidmat e Insaniyat

باب 1 :حُرْمَةُ الْبَشَرِيَّةِ وَخِدْمَتُھَا

اَلْبَابُ الأَوَّلُ

حرمت و خدمت انسانیت

٭ تخریج حامد الازھری صاحب نے چیک کی اس کے بعد فیض اللہ بغدادی صاحب نے ریویو کیا۔ اصلاحات کا اندراج محمد یامین نے کر دیا ہے۔ جنہیں بعد ازاں کمپیوٹر میں اجمل علی مجددی نے چیک کیا۔

٭ حامد الازہری صاحب، اقبال چشتی، کالامی صاحب اور محمد علی صاحب نے باب چیک کیا۔ اصلاحات کے اندراج کے بعد ازاں کمپیوٹر میں چیک کر کے حافظ فرحان ثنائی نے باب فائنل کیا۔

٭ ڈاکٹر فیض اللہ بغدادی صاحب اور محمد فاروق رانا نے چیک کیا۔ محمد یامین صاحب نے اصلاحات کا اندراج کیا، جن کی توثیق محمد فاروق رانا نے کمپیوٹر میں چیک کرکے کی۔ بعد ازاں اجمل صاحب نے کمپیوٹر میں اصلاحات چیک کرکے باب کو فائنل کیا۔

حُرْمةُ دَمِ الإِنْسَانِ وَمَالِہٖ وَعِرْضِہٖ

{اِنسان کے جان و مال اور عزت و آبرو کی حرمت}

اَلْقُرْآن

وَلَا تَاْکُلُوْآ اَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ وَتُدْلُوْا بِھَآ اِلَی الْحُکَّامِ لِتَاْکُلُوْا فَرِیْقًا مِّنْ اَمْوَالِ النَّاسِ بِالْاِثْمِ وَاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ

(البقرۃ، 2/ 188)

اور تم ایک دوسرے کے مال آپس میں ناحق نہ کھایا کرو اور نہ مال کو (بطورِ رشوت) حاکموں تک پہنچایا کرو کہ یوں لوگوں کے مال کا کچھ حصہ تم (بھی) ناجائز طریقے سے کھا سکو حالانکہ تمہارے علم میں ہو (کہ یہ گناہ ہے)o

لَا تَقۡتُلُوۡۤا اَنۡفُسَکُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰهَ کَانَ بِکُمۡ رَحِیۡمًاo وَ مَنْ يَّفْعَلْ ذٰلِكَ عُدْوَانًا وَّ ظُلْمًا فَسَوْفَ نُصْلِیْهِ نَارًا ؕ وَ كَانَ ذٰلِكَ عَلَی اللّٰهِ یَسِیْرًاo

(النساء، 4/ 29-30)

اور اپنی جانوں کو مت ہلاک کرو، بے شک اللہ تم پر مہربان ہےo اور جو کوئی تعدِّی اور ظلم سے ایسا کرے گا تو ہم عنقریب اسے (دوزخ کی) آگ میں ڈال دیں گے، اور یہ اللہ پر بالکل آسان ہےo

وَ مَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ اَنْ يَّقْتُلَ مُؤْمِنًا اِلَّا خَطَـًٔا ۚ وَ مَنْ قَتَلَ مُؤْمِنًا خَطَـًٔا فَتَحْرِیْرُ رَقَبَةٍ مُّؤْمِنَةٍ وَّ دِیَةٌ مُّسَلَّمَةٌ اِلٰۤی اَهْلِهٖۤ اِلَّاۤ اَنْ يَّصَّدَّقُوْا ؕ فَاِنْ كَانَ مِنْ قَوْمٍ عَدُوٍّ لَّكُمْ وَ هُوَ مُؤْمِنٌ فَتَحْرِیْرُ رَقَبَةٍ مُّؤْمِنَةٍ ؕ وَ اِنْ كَانَ مِنْ قَوْمٍۭ بَیْنَكُمْ وَ بَیْنَهُمْ مِّیْثَاقٌ فَدِیَةٌ مُّسَلَّمَةٌ اِلٰۤی اَهْلِهٖ وَ تَحْرِیْرُ رَقَبَةٍ مُّؤْمِنَةٍ ۚ فَمَنْ لَّمْ یَجِدْ فَصِیَامُ شَهْرَیْنِ مُتَتَابِعَیْنِ ؗ تَوْبَةً مِّنَ اللّٰهِ ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ عَلِیْمًا حَكِیْمًاo وَ مَنْ يَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهٗ جَهَنَّمُ خٰلِدًا فِیْهَا وَ غَضِبَ اللّٰهُ عَلَیْهِ وَ لَعَنَهٗ وَ اَعَدَّ لَهٗ عَذَابًا عَظِیْمًاo

(النساء، 4/ 92-93)

اور کسی مسلمان کے لیے (جائز) نہیں کہ وہ کسی مسلمان کو قتل کر دے مگر غلطی سے، اور جس نے کسی مسلمان کو نادانستہ قتل کر دیا تو (اس پر) ایک مسلمان غلام (یا باندی) کا آزاد کرنا اور خون بہا (کا ادا کرنا) جو مقتول کے گھر والوں کے سپرد کیا جائے (لازم ہے) مگر یہ کہ وہ معاف کر دیں، پھر اگر وہ (مقتول) تمہاری دشمن قوم سے ہو اور وہ مومن (بھی) ہو تو (صرف) ایک مسلمان غلام (یا باندی) کا آزاد کرنا (ہی لازم) ہے اور اگر وہ (مقتول) اس قوم میں سے ہو کہ تمہارے اور ان کے درمیان (صلح کا) معاہدہ ہے تو خون بہا (بھی) جو اس کے گھر والوں کے سپرد کیا جائے اور ایک مسلمان غلام (یا باندی) کا آزاد کرنا (بھی لازم) ہے۔ پھر جس شخص کو (غلام یا باندی) میسر نہ ہو تو (اس پر) پے در پے دو مہینے کے روزے (لازم) ہیں۔ اللہ کی طرف سے (یہ اس کی) توبہ ہے، اور اللہ خوب جاننے والا بڑی حکمت والا ہےo اور جو شخص کسی مسلمان کو قصداً قتل کرے تو اسکی سزا دوزخ ہے کہ مدتوں اس میں رہے گا اور اس پر اللہ غضبناک ہوگا اور اس پر لعنت کرے گا اور اس نے اس کے لیے زبردست عذاب تیار کر رکھا ہے۔

مَنْ قَتَلَ نَفْسًۢا بِغَیْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِی الْاَرْضِ فَكَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعًا ؕ وَ مَنْ اَحْیَاهَا فَكَاَنَّمَاۤ اَحْیَا النَّاسَ جَمِیْعًا ؕ

(المائدۃ، 5/ 32)

جس نے کسی شخص کو بغیر قصاص کے یا زمین میں فساد انگیزی (کی سزا) کے بغیر (ناحق) قتل کر دیا تو گویا اس نے (معاشرے کے) تمام لوگوں کو قتل کر ڈالا اور جس نے اسے (ناحق مرنے سے بچا کر) زندہ رکھا تو گویا اس نے (معاشرے کے) تمام لوگوں کو زندہ رکھا (یعنی اس نے حیاتِ انسانی کا اجتماعی نظام بچا لیا)۔

قَالَ الْإِمَامُ الْمَاتُرِیْدِيُّ فِي کِتَابِہٖ ’تَأْوِیْلَاتُ أَہْلِ السُّنَّةِ‘: مَنِ اسْتَحَلَّ قَتْلَ نَفْسٍ حَرَّمَ اللهُ قَتْلَھَا بِغَیْرِ حَقٍّ، فَکَأَنَّمَا اسْتَحَلَّ قَتْلَ النَّاسِ جَمِیْعًا، لِأَنَّہٗٗ یَکْفُرُ بِاسْتِحْلَالِہٖ قَتْلَ نَفْسٍ مُحَرَّمٍ قَتْلُھَا، فَکَانَ کَاسْتِحْلَالِ قَتْلِ النَّاسِ جَمِیْعًا، لِأَنَّ مَنْ کَفَرَ بِآیَۃٍ مِنْ کِتَابِ ﷲِ یَصِیْرُ کَافِرًا بِالْکُلِّ…

وَتَحْتَمِلُ الآیَةُ وَجْھًا آخَرَ، وَھُوَ مَا قِیْلَ: إِنَّہٗ یَجِبُ عَلَیْهِ مِنَ الْقَتْلِ مِثْلُ مَا أَنَّہٗ لَوْ قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعًا.

وَوَجْہٌ آخَرُ: أَنَّہٗ یَلْزَمُ النَّاسَ جَمِیْعًا دَفْعُ ذٰلِکَ عَنْ نَفْسِہٖ وَمَعُوْنَتُہٗ لَہٗ، فَإِذَا قَتَلَھَا أَوْ سَعٰی عَلَیْھَا بِالْفَسَادِ، فَکَأَنَّمَا سَعٰی بِذٰلِکَ عَلَی النَّاسِ کَافَّۃً… وَھٰذَا یَدُلُّ أَنَّ الْآیَۃَ نَزَلَتْ بِالْحُکْمِ فِي أَہْلِ الْکُفْرِ وَأَہْلِ الْإِسْلَامِ جَمِیْعًا، إِذَا سَعَوْا فِي الْأَرْضِ بِالْفَسَادِ

ابومنصور الماتُریدي في تأویلات أھل السنۃ، 3/ 501

امام ابو منصور الماتریدی اپنی کتاب تأویلات أہل السنۃ میں بیان کرتے ہیں: جس نے کسی ایسی جان کا قتل حلال جانا جس کا ناحق قتل کرنا اللہ تعالیٰ نے حرام کر رکھا ہے تو گویا اس نے تمام لوگوں کے قتل کو حلال جانا، کیونکہ ایسی جان جس کا قتل حرام ہے، وہ شخص اس کے قتل کو حلال سمجھ کر کفر کا مرتکب ہوا ہے، وہ ایسے ہی ہے جیسے اس نے تمام لوگوں کے قتل کو حلال جانا، کیونکہ جو شخص کتاب اللہ کی ایک آیت کا انکار کرتا ہے وہ پوری کتاب کا انکار کرنے والا ہے۔۔۔

یہ آیت ایک اور توجیہ کی بھی حامل ہے اور وہ یہ کہ کہا گیا ہے کہ کسی جان کے قتل کو حلال جاننے والے پر تمام لوگوں کے قتل کا گناہ لازم آئے گا (کیونکہ عالم انسانیت کے ایک فرد کو قتل کرکے گویا اس نے پوری انسانیت پر حملہ کیا ہے)۔

ایک توجیہ یہ بھی ہے کہ تمام لوگوں پر لازم ہے کہ اجتماعی کوشش کے ساتھ اس جان کو قتل سے بچائیں اور اس کی مدد کریں۔ پس جب وہ اس کو قتل کر کے فساد بپا کرنے کی کوشش کرے گا تو گویا وہ پوری انسانیت پر فساد بپا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔۔۔ اور یہ چیز دلالت کرتی ہے کہ یہ آیت اس حکم کے ساتھ تمام اَہلِ کفر اور اَہلِ اسلام کے لیے نازل ہوئی ہے جبکہ وہ فساد فی الارض کے لیے سرگرداں ہوں۔

قَالَ أَبُوْ حَفْصٍ الْحَنْبَلِيُّ فِي تَفْسِیْرِہٖ ’اَللُّبَابُ فِي عُلُوْمِ الْکِتَابِ‘:

1۔ قَالَ مُجَاهِدٌ: مَنْ قَتَلَ نَفْسًا مُحَرَّمَۃً یَصْلَی النَّارَ بِقَتْلِھَا، کَمَا یَصْلَاھَا لَوْ قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعًا۔

2۔ وَقَالَ قَتَادَةُ: أَعْظَمَ اللهُ أَجْرَھَا وَعَظَّمَ وِزْرَھَا، مَعْنَاهُ: مَنِ اسْتَحَلَّ قَتْلَ مُسْلِمٍ بِغَیْرِ حَقِّہٖ، فَکَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعًا۔

3۔ وَقَالَ الْحَسَنُ: {فَکَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعًا}، یَعْنِي: أَنَّہٗ یَجِبُ عَلَیْهِ مِنَ الْقِصَاصِ بِقَتْلِھَا، مِثْلُ الَّذِي یَجِبُ عَلَیْهِ لَوْ قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعًا۔

قَوْلُہٗ تَعَالٰی: {اِنَّمَا جَزٰٓؤُا الَّذِیْنَ یُحَارِبُوْنَ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ وَ یَسْعَوْنَ فِی الْاَرْضِ فَسَادًا اَنْ یُّقَتَّلُوْۤا اَوْ یُصَلَّبُوْۤا اَوْ تُقَطَّعَ اَیْدِیْهِمْ وَ اَرْجُلُهُمْ مِّنْ خِلَافٍ اَوْ یُنْفَوْا مِنَ الْاَرْضِ ؕ ذٰلِكَ لَهُمْ خِزْیٌ فِی الدُّنْیَا وَ لَهُمْ فِی الْاٰخِرَةِ عَذَابٌ عَظِیْمٌۙo اِلَّا الَّذِیْنَ تَابُوْا مِنْ قَبْلِ اَنْ تَقْدِرُوْا عَلَیْهِمْ ۚ فَاعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۠o}

(المائدۃ، 5/ 33-34)

وَقَوْلُہٗ: {یُحَارِبُوْنَ اللهَ}، أَي: یُحَارِبُوْنَ أَوْلِیَائَہٗ کَذَا قَدَّرَهُ الْجُمْھُوْرُ۔

وَقَالَ الزَّمَخْشَرِيُّ: ’یُحَارِبُوْنَ رَسُوْلَ ﷲِ، وَمُحَارَبَةُ الْمُسْلِمِیْنَ فِي حُکْمِ مُحَارَبَتِہٖ‘۔

نَزَلَتْ ھٰذِهِ الآیَةُ فِي قُطَّاعِ الطَّرِیْقِ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ (وَھٰذَا قَوْلُ أَکْثَرِ الْفُقَھَاءِ)۔

إِنَّ قَوْلَہٗ تَعَالٰی: {الَّذِیْنَ یُحَارِبُوْنَ اللهَ وَرَسُوْلَہٗ وَیَسْعَوْنَ فِی الْاَرْضِ فَسَادًا} یَتَنَاوَلُ کُلَّ مَنْ یُوْصَفُ بِھٰذِہٖ سَوَاءٌ کَانَ مُسْلِمًا أَوْ کَافِرًا، وَلَا یُقَالُ: الآیَةُ نَزَلَتْ فِي الْکُفَّارِ، لِأَنَّ الْعِبْرَۃَ بِعُمُوْمِ اللَّفْظِ لَا خُصُوْصِ السَّبَبِ، فَإِنْ قِیْلَ: الْمُحَارِبُوْنَ ھُمُ الَّذِیْنَ یَجْتَمِعُوْنَ وَلَھُمْ مَنَعَۃٌ، وَیَقْصِدُوْنَ الْمُسْلِمِیْنَ فِي أَرْوَاحِھِمْ وَدِمَائِھِمْ، وَاتَّفَقُوْا عَلٰی أَنَّ ھٰذِهِ الصِّفَۃَ إِذَا حَصَلَتْ ِفي الصَّحْرَاءِ کَانُوْا قُطَّاعَ الطَّرِیْقِ، وَأَمَّا إِنْ حَصَلَتْ فِي الْأَمْصَارِ۔ فَقَالَ الْأَوْزَاعِيُّ وَمَالِکٌ وَاللَّیْثُ بْنُ سَعْدٍ وَالشَّافِعِيُّ: ھُمْ أَیْضًا قُطَّاعُ الطَّرِیْقِ، ھٰذَا الْحَدُّ عَلَیْھِمْ، قَالُوْا: وَإِنَّھُمْ فِي الْمُدُنِ یَکُوْنُوْنَ أَعْظَمَ ذَنْـبًا.

ذکرہ أبو حفص الحنبلي في اللباب في علوم الکتاب، 7/ 301۔

امام ابو حفص حنبلی اپنی تفسیر ’اللباب في علوم الکتاب‘ میں بیان کرتے ہیں:

1۔ حضرت مجاہد نے فرمایا: جس شخص نے ایک جان کو بھی نا حق قتل کیا تو وہ اس قتل کے سبب دوزخ میں جائے گا، جیسا کہ وہ تب دوزخ میں جاتا اگر وہ ساری انسانیت کو قتل کر دیتا (یعنی اس کا عذابِ دوزخ ایسا ہوگا جیسے اس نے پوری انسانیت کو قتل کردیا ہو)۔

2۔ حضرت قتادہ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے اس (انسانی جان کو بچانے) کا اجر عظیم کر دیا ہے اور اس کو قتل کرنے کے جرم و گناہ کو بھی زیادہ بڑا اور سنگین قرار دیا ہے یعنی جو شخص ناحق کسی مسلمان کے قتل کو حلال سمجھتا ہے گویا وہ تمام لوگوں کو قتل کرتا ہے۔

3۔ امام حسن بصری نے {فَکَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعًا} کی تفسیر میں فرمایا کہ (جس نے ناحق ایک جان کو قتل کیا) اس پر اس کے قتل کا قصاص واجب ہوگا، اس شخص کی مثل جس پر تمام انسانیت کو قتل کرنے کا قصاص واجب ہو۔ ارشاد باری تعالی ہے: {بے شک جو لوگ اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کرتے ہیں اور زمین میں فساد انگیزی کرتے پھرتے ہیں (یعنی مسلمانوں میں خونریز رہزنی اور ڈاکہ زنی وغیرہ کے مرتکب ہوتے ہیں) ان کی سزا یہی ہے کہ وہ قتل کیے جائیں یا پھانسی دیے جائیں یا ان کے ہاتھ اور ان کے پاؤں مخالف سمتوں سے کاٹے جائیں یا (وطن کی) زمین (میں چلنے پھرنے) سے دور (یعنی ملک بدر یاقید) کر دیے جائیں۔ یہ (تو) ان کے لیے دنیا میں رسوائی ہے اور ان کے لیے آخرت میں (بھی) بڑا عذاب ہےo مگر جن لوگوں نے، قبل اس کے کہ تم ان پر قابو پا جاؤ، توبہ کرلی سو جان لو کہ اللہ بہت بخشنے والا نہایت مہربان ہےo}

اللہ تعالیٰ کے فرمان {یُحَارِبُونَ اللهَ} سے مراد ہے: یُحَارِبُوْنَ أَوْلِیَائہ (وہ اللہ تعالیٰ کے اولیاء سے جنگ کرتے ہیں)۔ یہی معنٰی جمہور نے بیان کیے ہیں۔

علامہ زمخشری نے کہا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے رسول ﷺ سے جنگ کرتے ہیں؛ اور مسلمانوں سے جنگ کرنا دراصل حضور نبی اکرم ﷺ ہی سے جنگ کے حکم میں ہے۔

یہ آیت - {اِنَّمَا جَزٰٓؤُا الَّذِیْنَ یُحَارِبُوْنَ اللهَ} - مسلمان راہزنوں کے بارے میں اتری ہے، اور یہ اکثر فقہاء کا قول ہے۔

اللہ تعالیٰ کے اس فرمان میں ہر وہ شخص شامل ہے جو ان (بری) صفات کا حامل ہو خواہ وہ مسلم ہو یا کافر۔ یہ نہیں کہا جائے گا کہ یہ آیت کفار کے حق میں نازل ہوئی کیونکہ اعتبار لفظ کے عموم کا ہوگا نہ سبب کے خاص ہونے کا۔ اور اگر کہا جائے کہ محاربون وہ ہیں جو مجتمع ہوتے ہیں اور ان کے پاس طاقت و قوت بھی ہوتی ہے اور وہ مسلمانوں کی جانوں کا قصد کرتے ہیں تو فقہاء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اگر یہ وصف صحراء (والوں) میں پایا جائے تو ایسے لوگ راہزن کہلائیں گے، لیکن اگر (دہشت گردی و قتل و غارت گری کا) یہ عمل شہر والوں میں پایا جائے تو امام اوزاعی، مالک، لیث بن سعد اور شافعی کا قول ہے کہ وہ بھی (قاتل ہونے کے علاوہ) راہزن اور ڈاکو ہیں، ان پر بھی یہی حد نافذ ہوگی۔ انہوں نے کہا ہے: چونکہ وہ شہروں میں مقیم ہیں اس لئے ان کا گناہ (اہل صحراء کے مقابلے میں) بڑا تصور ہو گا۔

وَ كَتَبْنَا عَلَیْهِمْ فِیْهَاۤ اَنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِ ۙ وَ الْعَیْنَ بِالْعَیْنِ وَ الْاَنْفَ بِالْاَنْفِ وَ الْاُذُنَ بِالْاُذُنِ وَ السِّنَّ بِالسِّنِّ ۙ وَ الْجُرُوْحَ قِصَاصٌ ؕ فَمَنْ تَصَدَّقَ بِهٖ فَهُوَ كَفَّارَةٌ لَّهٗ ؕ وَ مَنْ لَّمْ یَحْكُمْ بِمَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ فَاُولٰٓىِٕكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَo

(المائدۃ، 5/ 45)

اور ہم نے اس (تورات) میں ان پر فرض کردیا تھا کہ جان کے بدلے جان اور آنکھ کے عوض آنکھ اور ناک کے بدلے ناک اور کان کے عوض کان اور دانت کے بدلے دانت اور زخموں میں (بھی) بدلہ ہے، تو جو شخص اس (قصاص) کو صدقہ (یعنی معاف) کر دے تو یہ اس (کے گناہوں) کے لیے کفارہ ہوگا، اور جو شخص اللہ کے نازل کردہ حکم کے مطابق فیصلہ (و حکومت) نہ کرے سو وہی لوگ ظالم ہیںo

وَ لَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰهُ اِلَّا بِالْحَقِّ ؕ وَ مَنْ قُتِلَ مَظْلُوْمًا فَقَدْ جَعَلْنَا لِوَلِیِّهٖ سُلْطٰنًا فَلَا یُسْرِفْ فِّی الْقَتْلِ ؕ اِنَّهٗ كَانَ مَنْصُوْرًاo

(الإسراء، 17/ 33)

اور تم کسی جان کو قتل مت کرنا جسے (قتل کرنا) اللہ نے حرام قرار دیا ہے سوائے اِس کے کہ (اس کا قتل کرنا شریعت کی رُو سے عدالت کے حکم کے مطابق) حق ہو، اور جو شخص ظلماً قتل کر دیا گیا تو بے شک ہم نے اس کے وارث کے لیے (قانونی ضابطے کے مطابق قصاص کا) حق مقرر کر دیا ہے سو وہ بھی (قصاص کے طور پر بدلہ کے) قتل میں حد سے تجاوز نہ کرے، بے شک وہ (اللہ کی طرف سے) مدد یافتہ ہے (سو اس کی قانونی مدد و حمایت کی ذِمّے داری حکومت پر ہوگی)o

وَ الَّذِیْنَ لَا یَدْعُوْنَ مَعَ اللّٰهِ اِلٰهًا اٰخَرَ وَ لَا یَقْتُلُوْنَ النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰهُ اِلَّا بِالْحَقِّ وَ لَا یَزْنُوْنَ ۚ وَ مَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِكَ یَلْقَ اَثَامًاۙo

(الفرقان، 25/ 68)

اور (یہ) وہ لوگ ہیں جو اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کی پوجا نہیں کرتے اور نہ (ہی) کسی ایسی جان کو قتل کرتے ہیں جسے بغیرِ حق مارنا اللہ نے حرام فرمایا ہے اور نہ (ہی) بدکاری کرتے ہیں اور جو شخص یہ کام کرے گا وہ سزائے گناہ پائے گاo

اِنَّ الَّذِیْنَ فَتَنُوا الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ ثُمَّ لَمْ یَتُوْبُوْا فَلَهُمْ عَذَابُ جَهَنَّمَ وَ لَهُمْ عَذَابُ الْحَرِیْقِؕo

(البروج، 85/ 10)

بے شک جن لوگوں نے مومن مردوں اور مومن عورتوں کو اذیت دی پھر توبہ (بھی) نہ کی تو ان کے لیے عذابِ جہنم ہے اور ان کے لیے (بالخصوص) آگ میں جلنے کا عذاب ہےo

قَالَ بَعْضُ الْمُفَسِّرِیْنَ فِي تَفْسِیْرِ ھٰذِهِ الآیَۃِ، بِأَنَّ مَعْنٰی {فَتَنُوا الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ} تَحْرِیْقُھُمْ بِالنَّارِ. وَبِھٰذَا الْمَعْنٰی یَصِیْرُ الَّذِیْنَ یَقُوْمُوْنَ بِتَحْرِیْقِ الْمُوَاطِنِیْنَ الْأَبْرِیَاءِ بِعَمَلِیَاتٍ انْتِحَارِیَّۃٍ وَتَفْجِیْرِ الْقَنَابِلِ، وَالْبَارُوْدِ مُسْتَحِقِّیْنَ لِعَذَابِ جَھَنَّمَ.

اس آیت کی تفسیر میں بعض مفسرین نے فرمایا: یہاں فتنے میں مبتلا کرنے سے آگ میں جلانا بھی مراد لیا گیا ہے۔ اس معنٰی کی رُو سے خود کش حملوں، بم دھماکوں اور بارود سے عامۃ الناس کو خاکستر کر دینے والے فتنہ پرور لوگ عذابِ جہنم کے مستحق ہیں۔

قَالَ الرَّازِيُّ فِي التَّفْسِیْرِ الْکَبِیْرِ: وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ وَمُقَاتِلٌ: {فَتَنُوا الْمُؤْمِنِیْنَ} حَرَّقُوْھُمْ بِالنَّارِ.

أَنَّ کِلَا الْعَذَابَیْنِ یَحْصُلَانِ فِي الآخِرَۃِ إِلَّا أَنَّ عَذَابَ جَھَنَّمَ وَھُوَ الْعَذَابُ الْحَاصِلُ بِسَبَبِ کُفْرِھِمْ، وَعَذَابُ الْحَرِیْقِ ھُوَ الْعَذَابُ الزَّائِدُ عَلٰی عَذَابِ الْکُفْرِ بِسَبَبِ أَنَّھُمْ أَحْرَقُوْا الْمُؤْمِنِیْنَ۔

کُلُّ مَنْ فَعَلَ ذٰلِکَ وَھٰذَا أَوْلٰی لِأَنَّ اللَّفْظََ عَامٌّ وَالْحُکْمَ عَامٌّ، فَالتَّخْصِیْصُ تَرْکٌ لِلظَّاھِرِ مِنْ غَیْرِ دَلِیْلٍ.

الرازي في التفسیر الکبیر، 31/ 111.

امام رازی ’التفسیر الکبیر‘ میں لکھتے ہیں: حضرت (عبد اللہ) بن عباس اور مقاتل نے فرمایا: فَتَنُوا الْمُؤْمِنِیْنَ کا مطلب ہے: (ان فتنہ پروروں نے) انہیں (یعنی مومنین کو) آگ سے جلا ڈالا۔

بے شک دونوں عذاب (عذابِ جہنم اور عذاب حریق) آخرت میں واقع ہوں گے، مگر فرق یہ ہے کہ عذابِ جہنم ان کے کفر کے سبب ہوگا، اور عذابِ حریق عذابِ کفر پر وہ زائد عذاب ہے جو انہیں مسلمانوں کو جلانے کے سبب ملے گا۔

جو بھی مسلمانوں کو اذیت ناک تکلیف میں مبتلا کرے (خواہ ایسا کرنے والا اَصلاً مسلمان ہو یا غیر مسلم، اس کے لیے عذابِ جہنم ہے)۔ یہ معنٰی زیادہ مناسب ہیں کیونکہ لفظ عام ہے اور اس کا حکم بھی عام ہے۔ اگر حکم خاص کیا جائے تو یہ بغیر دلیل کے عام کو خاص کرنا ہوگا۔

قَالَ السُّیُوطِيُّ فِي الدُّرِّ الْمَنْثُوْرِ: وَأَخْرَجَ عَبْدُ بْنُ حُمَیْدٍ وَابْنُ الْمُنْذِرِ، عَنْ قَتَادَۃَ {اِنَّ الَّذِیْنَ فَتَنُوا الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ} قَالَ: حَرَّقُوْا.

السیوطي في الدر المنثور، 8/ 466.

امام سیوطی ’الدر المنثور‘ میں لکھتے ہیں: عبد بن حمید اور ابن منذر حضرت قتادہ سے روایت کرتے ہیں کہ {اِنَّ الَّذِیْنَ فَتَنُوا الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ} کے معنٰی ’آگ سے جلا کر ہلاک کر دینا‘ کے ہیں۔

وَقَالَ أَیْضًا: {اِنَّ الَّذِیْنَ فَتَنُوا الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ} بِالْإِحْرَاقِ {ثُمَّ لَمْ یَتُوْبُوْا فَلَھُمْ عَذَابُ جَھَنَّمَ} بِکُفْرِھِمْ {وَلَھُمْ عَذَابُ الْحَرِیْق} أَیْ عَذَابُ إِحْرَاقِھِمُ الْمُؤْمِنِیْنَ فِي الآخِرَةِ.

(2) السیوطي في تفسیر الجلالین/ 801.

امام سیوطی ہی ’تفسیر جلالین‘ میں لکھتے ہیں: یعنی وہ لوگ جنہوں نے مومن مرد و زن کو آگ میں جلا کر اذیت میں مبتلا کیا، پھر توبہ بھی نہ کی تو ان کے لیے ان کے کفر کی وجہ سے مومنین کو جلانے کی پاداش میں عذابِ حریق (جلائے جانے کا عذاب) ہوگا۔

وَالإِمَامُ الْقُرْطُبِيُّ وَأَبُوْ حَفْصٍ الْحَنْبَلِيُّ أَیْضًا رَوَیَا ھٰذَا الْمَعْنٰی فِي تَفْسِیْرِهِمَا.

القرطبي في الجامع لأحکام القرآن، 19/ 295، وأبو حفص الحنبلي في اللباب في علوم الکتاب، 20/ 253.

امام قرطبی اور ابو حفص الحنبلی نے بھی اپنی تفاسیر میں اس آیت مبارکہ کا یہی مفہوم بیان کیا ہے۔

اَلْحَدِیْث

1/ 1. عَنْ عَبْدِ ﷲِ بْنِ عَمْرٍو رضی اللہ عنہ، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ ﷲِ ﷺ: اَلْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُوْنَ مِنْ لِسَانِہٖ وَیَدِہٖ.

مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ.

1: أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب الإیمان، باب المسلم من سَلِمَ المسلمون من لسانہ ویدہ، 1/ 13، الرقم/ 10، ومسلم في الصحیح، کتاب الإیمان، باب بیان تفاضل الإسلام وأيّ أُمورہ أفضل، 1/ 65، الرقم/ 41، وأحمد بن حنبل في المسند، 2/ 163، الرقم/ 6515، وأبوداود في السنن، کتاب الجہاد، باب في الہجرۃ ہل انقطعت، 3/ 4، الرقم/ 2481، والنسائي في السنن، کتاب الإیمان وشرائعہ، باب صفۃ المسلم، 8/ 105، الرقم/ 4996.

حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ ہوں۔

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

2/ 2. وَفِي رِوَایَةِ أَبِي مُوْسٰی رضی اللہ عنہ، قَالَ: قَالُوْا: یَا رَسُوْلَ ﷲِ، أَيُّ الْإِسْلَامِ أَفْضَلُ؟ قَالَ: مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُوْنَ مِنْ لِسَانِہٖ وَیَدِہٖ.

مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ.

2: أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب الإیمان، باب أي الإسلام أفضل، 1/ 13، الرقم/ 11، ومسلم في الصحیح، کتاب الإیمان، باب بیان تفاضل الإسلام وأي أمورہ أفضل، 1/ 66، الرقم/ 42، وأحمد بن حنبل عن جابر رضی اللہ عنہ في مسندہٖ، 3/ 372، الرقم/ 15037، والنسائي في السنن، کتاب الإیمان وشرائعہ، باب أي الإسلام أفضل، 8/ 106، الرقم/ 4999.

ایک روایت میں حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: لوگ حضور نبی اکرم ﷺ کی بارگاہ میں عرض گزار ہوئے: یا رسول اللہ! کون سا اسلام افضل ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: (بہترین اسلام اس شخص کا ہے) جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

3/ 3. وَفِي رِوَایَۃِ عَبْدِ ﷲِ بْنِ عَمْرٍو رضی اللہ عنہ قَالَ: إِنَّ رَجُـلًا سَأَلَ النَّبِيَّ ﷺ: أَيُّ الْمُسْلِمِیْنَ خَیْرٌ؟ قَالَ: مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُوْنَ مِنْ لِسَانِہٖ وَیَدِہٖ.

مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ.

3: أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب الرقاق، باب الانتھاء عن المعاصي، 5/ 2379، الرقم/ 6119، ومسلم في الصحیح، کتاب الإیمان، باب بیان تفاضل الإسلام ونصف أمورہ أفضل، 1/ 65، الرقم/ 40.

حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے حضور نبی اکرم ﷺ سے عرض کیا: مسلمانوں میں سے کون بہترین ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: (وہ مسلمان بہترین ہے) جس کی زبان اور ہاتھ سے (دوسرے تمام) مسلمان محفوظ رہیں۔

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

4/ 4. عَنْ أَبِي هُرَیْرَۃَ رضی اللہ عنہ، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ ﷲِ ﷺ: اَلْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُوْنَ مِنْ لِسَانِہٖ وَیَدِہٖ، وَالْمُؤْمِنُ مَنْ أَمِنَهُ النَّاسُ عَلٰی دِمَائِھِمْ وَأَمْوَالِھِمْ.

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالتِّرْمِذِيُّ وَاللَّفْظُ لَہٗ وَالنَّسَائِيُّ. وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: ھٰذَا حَدِیْثٌ حَسَنٌ صَحِیْحٌ.

4: أخرجہ أحمد بن حنبل في المسند، 2/ 379، الرقم/ 8918، والترمذي في السنن، کتاب الإیمان، باب ما جاء في أن المسلم من سلم المسلمون من لسانہ ویدہ، 5/ 17، الرقم/ 2627، والنسائي في السنن، کتاب الإیمان وشرائعہ، باب صفۃ المؤمن، 8/ 104، الرقم/ 4995، وابن حبان في الصحیح، 1/ 406، الرقم/ 180.

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے (دوسرے) مسلمان محفوظ رہیں، اور مومن وہ ہے کہ جس کے پاس لوگ اپنے خون (یعنی جان) اور مال محفوظ سمجھیں۔

اِسے امام احمد نے، ترمذی نے مذکورہ الفاظ کے ساتھ اور نسائی نے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے فرمایا: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

5/ 5. وَفِي رِوَایَۃِ فَضَالَۃَ بْنِ عُبَیْدٍ رضی اللہ عنہ، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ ﷲِ ﷺ فِي حَجَّۃِ الْوَدَاعِ: أَلَا أُخْبِرُکُمْ بِالْمُؤْمِنِ؟ مَنْ أَمِنَهُ النَّاسُ عَلٰی أَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِھِمْ، وَالْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ النَّاسُ مِنْ لِسَانِہٖ وَیَدِہٖ، وَالْمُجَاهِدُ مَنْ جَاھَدَ نَفْسَہٗ فِي طَاعَۃِ ﷲِ، وَالْمُھَاجِرُ مَنْ هَجَرَ الْخَطَایَا وَالذُّنُوْبَ.

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالْحَاکِمُ وَابْنُ حِبَّانَ وَابْنُ الْمُبَارَکِ.

5: أخرجہ أحمد بن حنبل في المسند، 6/ 21، الرقم/ 24004، والحاکم في المستدرک، 1/ 54، الرقم/ 24، وابن حبان في الصحیح، 11/ 203، 204، الرقم/ 4862، وابن المبارک في المسند، 1/ 16، الرقم/ 29، والطبراني في المعجم الکبیر، 18/ 309، الرقم/ 796، والبیھقي في شعب الإیمان، 7/ 499، الرقم/ 11123.

ایک روایت میں حضرت فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر فرمایا: کیا میں تمہیں نہ بتاؤں کے مومن کون ہے؟ (تو سنو!) مومن وہ ہے جس سے (دوسرے) لوگوں کے جان و مال محفوظ ہوں، مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے انسان محفوظ رہیں، مجاہد وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں اپنے نفس (کی خواہشات) کے خلاف جہاد کرے، اور مہاجر وہ ہے جو خطاؤں اور گناہوں سے کنارہ کشی اختیار کرے۔

اِسے امام احمد، حاکم، ابن حبان اور ابن المبارک نے روایت کیا ہے۔

6/ 6. وَفِي رِوَایَۃِ ابْنِ عُمَرَ رضی اللہ عنہما، قَالَ: أَتٰی رَجُلٌ رَسُوْلَ ﷲِ ﷺ، قَالَ: فَمَنِ الْمُؤْمِنُ؟ قَالَ ﷺ: مَنِ ائْتَمَنَهُ النَّاسُ عَلٰی أَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِھمْ.

رَوَاهُ ابْنُ مَاجَہ وَذَکَرَهُ ابْنُ مَنْظُوْرٍ.

6: أخرجہ ابن ماجہ في السنن، کتاب الفتن، باب حرمۃ دم المؤمن ومالہ، 2/ 1298، الرقم/ 3934، وذکرہ ابن منظور في لسان العرب، 13/ 24.

ایک روایت میں حضرت (عبد اللہ) بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض گزار ہوا: مومن کون ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: مومن وہ ہے جس کو لوگ اپنے اَموال اور جانوں کا محافظ سمجھیں (یعنی اس کے ہاتھ سے نہ کسی کے مال کو نقصان پہنچے نہ کسی کی جان کو گزند)۔

اِسے ابن ماجہ نے روایت کیا ہے اور ابن منظور افریقی نے بیان کیا ہے۔

7-8/ 7. عَنْ أَبِي بَکْرَۃَ رضی اللہ عنہ، قَالَ: خَطَبَنَا النَّبِيُّ ﷺ یَوْمَ النَّحْرِ، قَالَ: أَتَدْرُونَ أَيُّ یَوْمٍ ھٰذَا؟ قُلْنَا: اللهُ وَرَسُولُہٗ أَعْلَمُ. فَسَکَتَ حَتّٰی ظَنَنَّا أَنَّہٗ سَیُسَمِّیهِ بِغَیْرِ اسْمِہٖ. قَالَ: أَلَیْسَ یَوْمَ النَّحْرِ؟ قُلْنَا: بَلٰی. قَالَ: أَيُّ شَہْرٍ ھٰذَا؟ قُلْنَا: اللهُ وَرَسُولُہٗ أَعْلَمُ. فَسَکَتَ حَتّٰی ظَنَنَّا أَنَّہٗ سَیُسَمِّیهِ بِغَیْرِ اسْمِہٖ. فَقَالَ: أَلَیْسَ ذُو الْحَجَّۃِ؟ قُلْنَا: بَلٰی. قَالَ: أَيُّ بَلَدٍ ھٰذَا؟ قُلْنَا: اللهُ وَرَسُولُہٗ أَعْلَمُ. فَسَکَتَ حَتّٰی ظَنَنَّا أَنَّہٗ سَیُسَمِّیهِ بِغَیْرِ اسْمِہٖ. قَالَ: أَلَیْسَتْ بِالْبَلْدَۃِ الْحَرَامِ؟ قُلْنَا: بَلٰی. قَالَ: فَإِنَّ دِمَاءَ کُمْ وَأَمْوَالَکُمْ عَلَیْکُمْ حَرَامٌ کَحُرْمَۃِ یَوْمِکُمْ ھٰذَا فِي شَہْرِکُمْ ھٰذَا فِي بَلَدِکُمْ ھٰذَا إِلٰی یَوْمِ تَلْقَوْنَ رَبَّکُمْ. أَلَا! هَلْ بَلَّغْتُ؟ قَالُوا: نَعَمْ. قَالَ: اللّٰهُمَّ اشْهَدْ، فَلْیُبَلِّغِ الشَّاهِدُ الْغَائِبَ، فَرُبَّ مُبَلَّغٍ أَوْعٰی مِنْ سَامِعٍ؛ فَلَا تَرْجِعُوا بَعْدِي کُفَّارًا یَضْرِبُ بَعْضُکُمْ رِقَابَ بَعْضٍ.

مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ.

7: أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب الحج، باب الخطبۃ أیام منی، 2/ 620، الرقم/ 1654، وأیضًا في کتاب العلم، باب قول النبي ﷺ: رب مبلغ أوعی من سامع، 1/ 37، الرقم/ 67، ومسلم في الصحیح، کتاب القسامۃ والمحاربین والقصاص والدیات، باب تغلیظ تحریم الدماء والأعراض والأموال، 3/ 1305-1306، الرقم/ 1679.

حضرت ابو بکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت بیان کرتے ہیں: حضور نبی اکرم ﷺ نے ہمیں یوم النحر کو خطبہ دیتے ہوئے فرمایا: کیا تم جانتے ہو یہ کون سا دن ہے؟ ہم عرض گزار ہوئے کہ اللہ اور اس کا رسول ﷺ بہتر جانتے ہیں۔ آپ خاموش رہے اور ہم سمجھے کہ شاید اس کا کوئی اور نام لیںگے۔ فرمایا: کیا یہ یوم النحر نہیں ہے؟ ہم عرض گزار ہوئے: کیوں نہیں۔ پھر فرمایا کہ یہ کون سا مہینہ ہے؟ ہم عرض گزار ہوئے کہ اللہ بہتر جانتا ہے اور اس کا رسول ﷺ۔ آپ ﷺ خاموش رہے تو ہم سمجھے کہ شاید اس کا کوئی اور نام لیں گے۔ فرمایا کہ کیا یہ ذو الحجہ نہیں ہے؟ ہم عرض گزار ہوئے: ضرور۔ فرمایا کہ یہ کون سا شہر ہے؟ ہم عرض گزار ہوئے کہ اللہ بہتر جانے اور اُس کا رسول ﷺ۔ آپ ﷺ خاموش رہے تو ہم سمجھے کہ شاید اس کا کوئی اور نام لیں گے۔ فرمایا کہ کیا یہ حرمت والا شہر نہیں ہے؟ ہم عرض گزار ہوئے: ضرور۔ فرمایا: بے شک تمہارے خون اور تمہارے مال اور تمہاری عزتیں تم پر اِسی طرح حرام ہیں جیسے تمہارے اِس دن کی حرمت تمہارے اِس مہینے میں اور تمہارے اِس شہر میں (مقرر کی گئی) ہے اُس دن تک جب تم اپنے رب سے ملو گے۔ سنو! کیا میں نے تم تک (اپنے رب کا) پیغام پہنچا دیا ہے؟ لوگ عرض گزار ہوئے: جی ہاں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اے اللہ! گواہ رہنا۔ اب چاہیے کہ (تم میں سے ہر) موجود شخص اِسے غائب تک پہنچا دے کیونکہ کتنے ہی لوگ ایسے ہیں کہ جن تک بات پہنچائی جائے تو وہ سننے والے سے زیادہ یاد رکھتے ہیں۔ (اور سنو!) میرے بعد ایک دوسرے کو قتل کر کے کافر نہ ہو جانا۔

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

(8) وَفِي رِوَایَۃٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضی اللہ عنہما، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ ﷺ: لَا تَرْتَدُّوْا بَعْدِي کُفَّارًا یَضْرِبُ بَعْضُکُمْ رِقَابَ بَعْضٍ.

رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ.

8: أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب الفتن، باب قول النبي ﷺ: لا ترجعوا بعدي کفارا یضرب بعضکم رقاب بعض، 6/ 2594، الرقم/ 6668، والطبراني في المعجم الأوسط، 4/ 269، الرقم/ 4166.

ایک روایت میں حضرت (عبد اللہ) بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: تم میرے بعد ایک دوسرے کو قتل کرنے کے سبب کفر کی طرف نہ لوٹ جانا.

اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔

9/ 8. عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضی اللہ عنہما، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ ﷺ بِمِنًی: أَتَدْرُونَ أَيُّ یَوْمٍ ھٰذَا؟ قَالُوا: اللهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ. فَقَالَ: فَإِنَّ ھٰذَا یَوْمٌ حَرَامٌ. أَفَتَدْرُونَ أَيُّ بَلَدٍ ھٰذَا؟ قَالُوا: اللهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ. قَالَ: بَلَدٌ حَرَامٌ. أَفَتَدْرُونَ أَيُّ شَہْرٍ ھٰذَا؟ قَالُوا: اللهُ وَرَسُولُہٗ أَعْلَمُ. قَالَ: شَہْرٌ حَرَامٌ. قَالَ: فَإِنَّ اللهَ حَرَّمَ عَلَیْکُمْ دِمَاءَ کُمْ وَأَمْوَالَکُمْ وَأَعْرَاضَکُمْ کَحُرْمَۃِ یَوْمِکُمْ ھٰذَا فِي شَہْرِکُمْ ھٰذَا فِي بَلَدِکُمْ ھٰذَا.

رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ.

9: أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب الحج، باب الخطبۃ أیام منی، 2/ 620، الرقم/ 1655، وأیضا في کتاب الأدب، باب قول اللہ تعالٰی: {یٰٓاَیُّھَا الَّذِيْنَ آمَنُوْا لَا یَسْخَرْ قَوْمٌ مِّنْ قَوْمٍ}، 5/ 2247، الرقم/ 5696.

حضرت (عبد اللہ) بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے منٰی میں فرمایا: کیا تم جانتے ہو کہ آج کون سا دن ہے؟ صحابہ کرام l عرض گزار ہوئے کہ اللہ بہتر جانتا ہے اور اُس کا رسول ﷺ۔ آپ ﷺ نے فرمایا: یہ حُرمت والا دن ہے۔ کیا تم جانتے ہو کہ یہ کون سا شہر ہے؟ صحابہ کرام l عرض گزار ہوئے کہ اللہ اور اُس کا رسول ﷺ بہتر جانتے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ حرمت والا شہر ہے۔ کیا تم جانتے ہو کہ یہ کون سا مہینہ ہے؟ صحابہ کرام l نے عرض کیا کہ اللہ بہتر جانے اور اُس کا رسول ﷺ۔ آپ ﷺ نے فرمایا: حُرمت والا مہینہ ہے۔ پھر اِرشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ نے تم پر تمہارے خون، مال اور عزتیں اُسی طرح حرام کی ہیں جیسے اِس دن کی حرمت تمہارے اس مہینے میں اور تمہارے اِس شہر کے اندر ہے۔

اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔

10/ 9. عَنْ عَمْرِو بْنِ الْأَحْوَصِ، أَنَّہٗ شَهِدَ حَجَّۃَ الْوَدَاعِ مَعَ رَسُولِ ﷲِ ﷺ فَحَمِدَ اللهَ وَأَثْنٰی عَلَيْهِ، وَذَکَّرَ وَوَعَظَ، ثُمَّ قَالَ: أَيُّ یَوْمٍ أَحْرَمُ، أَيُّ یَوْمٍ أَحْرَمُ، أَيُّ یَوْمٍ أَحْرَمُ؟ قَالَ: فَقَالَ النَّاسُ: یَوْمُ الْحَجِّ الْأَکْبَرِ، یَا رَسُولَ ﷲِ. قَالَ: فَإِنَّ دِمَائَکُمْ وَأَمْوَالَکُمْ وَأَعْرَاضَکُمْ عَلَيْکُمْ حَرَامٌ، کَحُرْمَۃِ یَوْمِکُمْ ھٰذَا، فِي بَلَدِکُمْ ھٰذَا، فِي شَہْرِکُمْ ھٰذَا. أَلَا، لَا یَجْنِي جَانٍ إِلَّا عَلٰی نَفْسِہٖ، وَلَا یَجْنِي وَالِدٌ عَلٰی وَلَدِہٖ وَلَا وَلَدٌ عَلٰی وَالِدِہٖ. أَلَا، إِنَّ الْمُسْلِمَ أَخُو الْمُسْلِمِ، فَلَيْسَ یَحِلُّ لِمُسْلِمٍ مِنْ أَخِیهِ شَيْئٌ إِلَّا مَا أَحَلَّ مِنْ نَفْسِہٖ. أَلَا، وَإِنَّ کُلَّ رِبًا فِي الْجَاهِلِیَّۃِ مَوْضُوعٌ. لَکُمْ رُئُوْسُ أَمْوَالِکُمْ. لَا تَظْلِمُونَ وَلَا تُظْلَمُونَ غَيْرَ رِبَا الْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ فَإِنَّہٗ مَوْضُوعٌ کُلُّہٗ. أَلَا، وَإِنَّ کُلَّ دَمٍ کَانَ فِي الْجَاهِلِيَّۃِ مَوْضُوعٌ، وَأَوَّلُ دَمٍ وُضِعَ مِنْ دِمَائِ الْجَاهِلِيَّۃِ دَمُ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ؛ کَانَ مُسْتَرْضَعًا فِي بَنِي لَيْثٍ، فَقَتَلَتْهُ هُذَیْلٌ.

أَلَا، وَاسْتَوْصُوْا بِالنِّسَائِ خَیْرًا، فَإِنَّمَا هُنَّ عَوَانٍ عِنْدَکُمْ..... أَلَا، إِنَّ لَکُمْ عَلٰی نِسَائِکُمْ حَقًّا وَلِنِسَائِکُمْ عَلَیْکُمْ حَقًّا؛ فَأَمَّا حَقُّکُمْ عَلٰی نِسَائِکُمْ، فَـلَا یُوطِئْنَ فُرُشَکُمْ مَنْ تَکْرَهُونَ، وَلَا یَأْذَنَّ فِي بُیُوتِکُمْ لِمَنْ تَکْرَهُوْنَ. أَلَا، وَإِنَّ حَقَّهُنَّ عَلَیْکُمْ، أَنْ تُحْسِنُوْا إِلَیْهِنَّ فِي کِسْوَتِهِنَّ وَطَعَامِهِنَّ.

رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وقَالَ: ھٰذَا حَدِیثٌ حَسَنٌ صَحِیحٌ وَقَدْ رَوَاهُ أَبُو الْأَحْوَصِ عَنْ شَبِیبِ بْنِ غَرْقَدَۃَ.

10: أخرجہ الترمذي في السنن، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ التوبۃ، 5/ 273، الرقم/ 3087.

ایک روایت میں حضرت عمرو بن الاحوص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حجۃ الوداع کے موقع پر رسول اللہ ﷺ نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کے بعد وعظ و نصیحت فرمائی اور پوچھا: سب سے زیادہ عزت و حرمت والا دن کون سا ہے؟ سب سے زیادہ عزت و حرمت والا دن کون سا ہے؟ سب سے زیادہ عزت و حرمت والا دن کون سا ہے؟ راوی کہتے ہیں: لوگوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! حج اکبر کا دن۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: بے شک تمہارے خون، تمہارے مال اور تمہاری عزت و آبرو تم پر اسی طرح حرام ہیں جیسے تمہارے اس دن کی حرمت تمہارے اس مہینے میں اور تمہارے اس شہر میں (مقرر کی گئی) ہے۔ ہر جرم کرنے والا اپنا ہی نقصان کرتا ہے، کوئی باپ بیٹے کے جرم کا اور کوئی بیٹا باپ کے جرم کا ذمہ دار نہیں ہے۔ آگاہ ہوجاؤ! مسلمان، مسلمان کا بھائی ہے، کسی مسلمان کے لیے اس کے بھائی کی کوئی چیز حلال نہیں جب تک کہ وہ خود نہ حلال قرار دے۔ سنو! جاہلیت کا ہر سود باطل ہے، تمہارے لیے صرف اَصلِ زَر جائز ہے؛ نہ تم ظلم کرو اور نہ تم پر ظلم کیا جائے، البتہ عباس بن عبد المطلب کا سارا سود (مع اَصلِ زر) باطل کر دیا گیا ہے۔ آگاہ ہوجاؤ! جاہلیت کا ہر خون ساقط ہے اور سب سے پہلے حارث بن عبد المطلب کا خون ساقط کر دیا گیا ہے۔ یہ بنو لیث میں دودھ پیتے تھے تو ہذیل نے انہیں قتل کردیا تھا۔

خبردار! میں تمہیں عورتوں کے بارے میں بھلائی کا حکم دیتا ہوں، وہ تمہاری مددگار ہیں۔۔۔ سنو! تمہاری عورتوں کے ذمہ تمہارے حقوق ہیں اور تمہارے ذمہ اُن کے کچھ حقوق ہیں۔ عورتوں کے ذمہ تمہارا حق یہ ہے کہ ان لوگوں کو تمہارے بستر پامال کرنے کی اجازت نہ دیں جنہیں تم ناپسند کرتے ہو، اورتمہارے ناپسندیدہ شخص کو گھر میں نہ آنے دیں۔ اور تمہارے ذمہ ان کا یہ حق ہے کہ انہیں اچھا لباس اور اچھا کھانا (یعنی اچھی بود و باش) مہیا کرو۔

اِسے امام ترمذی نے روایت کرتے ہوئے کہا ہے: یہ حدیث حسن صحیح ہے اور ابو الاحوص نے اسے شبیب بن غرقدہ سے روایت کیا ہے۔

11/ 10۔ عَنْ عَبْدِ ﷲِ بْنِ عُمَرَ رضی اللہ عنہما إِنَّ مِنْ وَرَطَاتِ الْأُمُوْرِ الَّتِي لَا مَخْرَجَ لِمَنْ أَوْقَعَ نَفْسَہٗ فِیْھَا، سَفْکَ الدَّمِ الْحَرَامِ بِغَیْرِ حِلِّہٖ.

رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَالْبَیْهَقِيُّ.

11: أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب الدیات، باب ومن قتل مؤمنا متعمدًا فجزاؤہ جہنم، 6/ 2517، الرقم/ 6470، والبیہقي في السنن الکبری، 8/ 21، رقم/ 15637.

حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ہلاک کرنے والے ان اُمور میں سے کہ جن میں کسی شخص کیخود کو پھنسا دینے کے بعد نکلنے کی کوئی سبیل نہ ہو، ایک ’بغیر کسی جواز کے حرمت والا خون بہانا‘ بھی ہے۔

اِسے امام بخاری اور امام بیہقی نے روایت کیا ہے۔

12/ 11. وَفِي رِوَایَۃٍ أَیْضًا عَنْ عَبْدِ ﷲِ بْنِ عُمَرَ رضی اللہ عنہما، قَالَ: رَأَیْتُ رَسُوْلَ ﷲِ ﷺ یَطُوْفُ بِالْکَعْبَۃِ، وَیَقُوْلُ: مَا أَطْیَبَکِ وَأَطْیَبَ رِیْحَکِ، مَا أَعْظَمَکِ وَأَعْظَمَ حُرْمَتَکِ، وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِہٖ، لَحُرْمَةُ الْمُؤْمِنِ أَعْظَمُ عِنْدَ ﷲِ حُرْمَۃً مِنْکِ مَالِہٖ وَدَمِہٖ، وَأَنْ نَظُنَّ بِہٖ إِلَّا خَیْرًا.

رَوَاهُ ابْنُ مَاجَہ وَالطَّبَرَانِيُّ.

12: أخرجہ ابن ماجہ في السنن، کتاب الفتن، باب حرمۃ دم المؤمن ومالہ، 2/ 1297، الرقم/ 3932، والطبراني في مسند الشامیین، 2/ 396، الرقم/ 1568، وذکرہ المنذري في الترغیب والترھیب، 3/ 201، الرقم/ 3679.

ایک اور روایت میں حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے: میں نے رسول اللہ ﷺ کو خانہ کعبہ کا طواف کرتے دیکھا۔ آپ ﷺ فرما رہے تھے: (اے کعبہ!) تو کتنا پاکیزہ ہے اور تیری فضا کتنی خوشگوار ہے! تو کتنا عظیم المرتبت ہے اور تیری حرمت بھی کتنی عظیم ہے! (مگر) قسم ہے اُس ذات کی جس کے قبضۂ قدرت میں محمد (ﷺ) کی جان ہے! مومن کے جان و مال کی حرمت اللہ کے نزدیک تیری حرمت سے زیادہ ہے اور ہمیں مومن کے بارے میں نیک گمان ہی رکھنا چاہیے۔

اِسے امام ابن ماجہ اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔

قَالَ نَافِعٌ: نَظَرَ ابْنُ عُمَرَرضی اللہ عنہما یَوْمًا إِلَی الْبَیْتِ أَوْ إِلَی الْکَعْبَۃِ فَقَالَ: مَا أَعْظَمَکِ وَأَعْظَمَ حُرْمَتَکِ، وَالْمُؤْمِنُ أَعْظَمُ حُرْمَۃً عِنْدَ ﷲِ مِنْکِ.

رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ.

(1) أخرجہ الترمذي في السنن، کتاب البر والصلۃ، باب ما جاء في تعظیم المؤمن، 4/ 378، الرقم/ 2032.

حضرت نافع فرماتے ہیں: حضرت (عبد اللہ) بن عمر رضی اللہ عنہما نے ایک دن بیت اللہ یا کعبہ شریف کی طرف دیکھا اور فرمایا: تو کس قدر باعظمت ہے اور تیری عزت کتنی عظیم ہے، لیکن مومن کی عزت اللہ تعالیٰ کے نزدیک تیری عزت سے بھی زیادہ ہے۔

اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔

13-14/ 12. عَنْ أَبِي هُرَیْرَۃَ رضی اللہ عنہ فِي رِوَایَۃٍ طَوِیْلَۃٍ، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ ﷲِ ﷺ: کُلُّ الْمُسْلِمِ عَلَی الْمُسْلِمِ حَرَامٌ دَمُہٗ وَمَالُہٗ وَعِرْضُہٗ.

رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ.

13: أخرجہ مسلم في الصحیح، کتاب البر والصلۃ والآداب، باب تحریم ظلم المسلم وخذلہ واحتقارہ ودمہ وعرضہ ومالہ، 4/ 1986، الرقم/ 2564، وأحمد بن حنبل في المسند، 2/ 277، الرقم/ 7713، وعبد بن حمید في المسند، 1/ 420، الرقم/ 1442، والبیہقي في السنن الکبری، 6/ 92، الرقم/ 11276، وأیضًا في شعب الإیمان، 5/ 280، الرقم/ 6660، والدیلمي في مسند الفردوس، 2/ 470، الرقم/ 4002، وذکرہ ابن رجب الحنبلي في جامع العلوم والحکم، 1/ 326، والعسقلاني في فتح الباري، 10/ 483.

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ایک طویل روایت میں بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ایک مسلمان پر دوسرے مسلمان کا خون، اُس کا مال اور اُس کی عزت و آبرو (کو پامال کرنا) حرام ہے۔

اِسے امام مسلم اور احمد نے روایت کیا ہے۔

(14) وَفِي رِوَایَۃٍ عَنْهُ رضی اللہ عنہ، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ ﷲِ ﷺ: کُلُّ الْمُسْلِمِ عَلَی الْمُسْلِمِ حَرَامٌ عِرْضُہٗ وَمَالُہٗ وَدَمُہٗ، التَّقْوٰی ھَاهُنَا، بِحَسْبِ امْرِیئٍ مِنَ الشَّرِّ أَنْ یَحْتَقِرَ أَخَاهُ الْمُسْلِمَ.

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالتِّرْمِذِيُّ وَاللَّفْظُ لَہٗ.

14: أخرجہ أحمد بن حنبل في المسند، 4/ 168، الرقم/ 17570، والترمذي في السنن، کتاب البر والصلۃ، باب ما جاء في شفقۃ المسلم علی المسلم، 4/ 325، الرقم/ 1927، وذکرہ ابن رجب الحنبلي في جامع العلوم والحکم، 1/ 326، والنووي في الأذکار/ 268، الرقم/ 1038، وأیضًا في ریاض الصالحین/ 60، الرقم/ 234.

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے ہی مروی ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ہر مسلمان پر دوسرے مسلمان کی عزت (کی پامالی)، اُس کا مال اور اُس کا خون حرام ہے۔ (آپ ﷺ نے قلبِ اَطہر کی طرف اشارہ کر کے فرمایا:) تقویٰ یہاں ہے، کسی مسلمان کے بُرا ہونے کے لیے اتنی برائی ہی کافی ہے کہ وہ اپنے کسی مسلمان بھائی کو حقیر سمجھے۔

اِسے امام احمد نے اور ترمذی نے مذکورہ الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے۔

15/ 13. عَنِ الْمِقْدَادِ بْنِ الْأَسْوَدِ رضی اللہ عنہ أَنَّهٗ قَالَ لِرَسُوْلِ ﷲِ ﷺ: أَرَأَیْتَ إِنْ لَقِیتُ رَجُلًا مِنَ الْکُفَّارِ، فَقَاتَلَنِي، فَضَرَبَ إِحْدٰی یَدَيَّ بِالسَّیْفِ، فَقَطَعَھَا، ثُمَّ لَاذَ مِنِّي بِشَجَرَۃٍ، فَقَالَ: أَسْلَمْتُ لِلّٰهِ، أَفَأَقْتُلُهٗ، یَا رَسُوْلَ ﷲِ، بَعْدَ أَنْ قَالَھَا؟ قَالَ رَسُوْلُ ﷲِ ﷺ: لَا تَقْتُلْهُ. قَالَ: فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ ﷲِ، إِنَّہٗ قَدْ قَطَعَ یَدِي، ثُمَّ قَالَ ذٰلِکَ بَعْدَ أَنْ قَطَعَھَا، أَفَأَقْتُلُہٗ؟ قَالَ رَسُوْلُ ﷲِ ﷺ: لَا تَقْتُلْهُ. فَإِنْ قَتَلْتَہٗ فَإِنَّہٗ بِمَنْزِلَتِکَ قَبْلَ أَنْ تَقْتُلَہٗ، وَإِنَّکَ بِمَنْزِلَتِہٖ قَبْلَ أَنْ یَقُوْلَ کَلِمَتَهُ الَّتِي قَالَ.

مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ.

15: أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب المغازي، باب شہود الملائکۃ بدراً، 4/ 1474، الرقم/ 3794، ومسلم في الصحیح، کتاب الإیمان، باب تحریم قتل الکافر بعد أن قال لا إلہ إلا اللہ، 1/ 95، الرقم/ 95، وأبو داود في السنن، کتاب الجھاد، باب علی ما یقاتل المشرکون، 3/ 45، الرقم/ 2644.

حضرت مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اُنہوں نے رسول اللہ سے پوچھا: یہ فرمائیے کہ اگر (میدانِ جنگ میں)کسی کافر سے میرا مقابلہ ہو اور وہ میرا ہاتھ کاٹ ڈالے، بعد ازاں جب وہ میرے حملہ کی زد میں آئے تو ایک درخت کی پناہ میں آکر کہہ دے: أَسْلَمْتُ لِلّٰهِ (میں اللہ کے لیے مسلمان ہو گیا)، تو کیا میں اس شخص کو اس کے (کلمہ پڑھنے کے) بعد قتل کر سکتا ہوں؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تم اس کو قتل نہیں کر سکتے۔ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اس نے میرا ہاتھ کاٹنے کے بعد کلمہ پڑھا ہے تو کیا میں اس کو قتل نہیں کر سکتا؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تم اس کو قتل نہیں کر سکتے، اگر تم نے اس کو قتل کر دیا تو وہ اُس درجہ پر ہوگا جس پر تم اُسے قتل کرنے سے پہلے تھے (یعنی حق پر) اور تم اُس درجہ پر ہوگے جس درجہ پر وہ کلمہ پڑھنے سے پہلے تھا (یعنی کفر پر)۔

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

16/ 14. وَفِي رِوَایَۃِ أُسَامَۃَ بْنِ زَیْدٍ رضی اللہ عنہما قَالَ: بَعَثَنَا رَسُوْلُ ﷲِ ﷺ إِلَی الْحُرَقَۃِ مِنْ جُھَیْنَۃَ، فَصَبَّحْنَا الْقَوْمَ، فَھَزَمْنَاھُمْ، وَلَحِقْتُ أَنَا وَرَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ رَجُـلًا مِنْھُمْ، فَلَمَّا غَشِیْنَاهُ قَالَ: لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ. فَکَفَّ عَنْهُ الْأَنْصَارِيُّ، وَطَعَنْتُہٗ بِرُمْحِي حَتّٰی قَتَلْتُہٗ. قَالَ: فَلَمَّا قَدِمْنَا، بَلَغَ ذٰلِکَ النَّبِيَّ ﷺ فَقَالَ لِي: یَا أُسَامَۃُ، أَقَتَلْتَہٗ بَعْدَ مَا قَالَ لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ؟ قَالَ: قُلْتُ: یَا رَسُوْلَ ﷲِ، إِنَّمَا کَانَ مُتَعَوِّذًا. قَالَ: فَقَالَ: أَقَتَلْتَہٗ بَعْدَ مَا قَالَ لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ؟ قَالَ: فَمَا زَالَ یُکَرِّرُھَا عَلَيَّ حَتّٰی تَمَنَّیْتُ أَنِّي لَمْ أَکُنْ أَسْلَمْتُ قَبْلَ ذٰلِکَ الْیَوْمِ.

مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ.

16: أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب المغازي، باب بعث النّبيِّ ﷺ أسامۃ بن زید إلی الحرقات من جھینۃ، 4/ 1555، الرقم/ 4021، وأیضًا في کتاب الدیات، باب قول اللہ تعالی: ومن أحیاھا، 6/ 2519، الرقم/ 6478، ومسلم في الصحیح، کتاب الإیمان، باب تحریم قتل الکافر بعد أن قال: لَا إِلہ إلا اللہ، 1/ 97، الرقم/ 94-97، وابن حبان في الصحیح، 11/ 56، الرقم/ 4751.

ایک روایت میں حضرت اُسامہ بن زید رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے ہمیں جہاد کے لیے مقام حرقہ کی طرف روانہ کیا جو قبیلہ جہینہ کی ایک شاخ ہے۔ ہم صبح وہاں پہنچ گئے اور (شدید لڑائی کے بعد) انہیں شکست دے دی۔ میں نے ایک انصاری صحابی سے مل کر اس قبیلہ کے ایک شخص کو گھیر لیا، جب ہم اس پر غالب آگئے تو اس نے کہا: لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ۔ انصاری تو (اس کی زبان سے) کلمہ سن کر الگ ہو گیا لیکن میں نے نیزہ مار کر اسے ہلاک کر ڈالا۔ جب ہم واپس آئے تو حضور نبی اکرم ﷺ کو بھی اس واقعہ کی خبر ہو چکی تھی۔ آپ ﷺ نے مجھے فرمایا: اے اسامہ! تم نے اسے کلمہ پڑھنے کے باوجود قتل کردیا؟ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اُس نے جان بچانے کے لیے کلمہ پڑھا تھا۔ آپ ﷺ نے پھر فرمایا: تم نے اُسے کلمہ پڑھنے کے باوجود قتل کر دیا؟ حضور ﷺ بار بار یہ کلمات دہرا رہے تھے اور میں افسوس کر رہا تھا کہ کاش آج سے پہلے میں اِسلام نہ لایا ہوتا۔

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

17/ 15۔ عَنْ أَبِي مُوْسٰی رضی اللہ عنہ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: إِذَا مَرَّ أَحَدُکُمْ فِي مَسْجِدِنَا أَوْ فِي سُوْقِنَا وَمَعَہٗ نَبْلٌ، فَلْیُمْسِکْ عَلٰی نِصَالِھَا، أَوْ قَالَ: فَلْیَقْبِضْ بِکَفِّہٖ، أَنْ یُصِیْبَ أَحَدًا مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ مِنْھَا شَيئٌ۔

مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ۔

17: أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب الفتن، باب قول النبي ﷺ: من حمل علینا السلاح فلیس منا، 6/ 2592، الرقم/ 6664، ومسلم في الصحیح، کتاب البر والصلۃ والآداب، باب أمر من مر بسلاح في مسجد أو سوق أو غیرھا من المواضع الجامعۃ للناس أن یمسک بنصالھا، 4/ 2019، الرقم/ 2615، وأبو داود في السنن، کتاب الجھاد، باب في النبل یدخل بہ المسجد، 3/ 31، الرقم/ 2587، وابن ماجہ في السنن، کتاب الأدب، باب من کان معہ سھام فلیأخذ بنصالھا، 2/ 1241، الرقم/ 3778، وابن خزیمۃ في الصحیح، 2/ 280، الرقم/ 1318، وأبو یعلی في المسند، 13/ 276، الرقم/ 7291۔

حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ، حضور نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی ہماری مسجد یا ہمارے بازار سے گزرے اور اُس کے پاس تیر ہو تو اُس کے پھل کو سنبھال لے، یا یہ فرمایا کہ اسے اپنی ہتھیلی سے پکڑ لے تاکہ کسی بھی مسلمان کو اُس سے کوئی تکلیف نہ پہنچنے پائے۔

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

18/ 16۔ وَفِي رِوَایَۃٍ:عَنْ أَبِي هُرَیْرَۃَ رضی اللہ عنہ، قَالَ: قَالَ أَبُو الْقَاسِمِ ﷺ: مَنْ أَشَارَ إِلٰی أَخِیْهِ بِحَدِیْدَۃٍ، فَإِنَّ الْمَلَائِکَۃَ تَلْعَنُہٗ حَتّٰی یَدَعَہٗ، وَإِنْ کَانَ أَخَاهُ لِأَبِیْهِ وَأُمِّہٖ۔

رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالتِّرْمِذِيُّ۔

18: أخرجہ مسلم في الصحیح، کتاب البر والصلۃ والآداب، باب النھي عن إشارۃ بالسلاح، 4/ 2020، رقم/ 2616، والترمذي في السنن، کتاب الفتن، باب ما جاء في إشارۃ المسلم إلی أخیہ بالسلاح، 4/ 463، الرقم/ 2162، والحاکم في المستدرک علی الصحیحین، 2/ 171، الرقم/ 2669، وابن حبان في الصحیح، 13/ 272، الرقم/ 5944، والبیھقي في السنن الکبری، 8/ 23، الرقم/ 15649۔

ایک روایت میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابو القاسم ﷺ نے فرمایا: جو شخص اپنے بھائی کی طرف ہتھیار سے اشارہ کرتا ہے فرشتے اس پر اس وقت تک لعنت کرتے ہیں جب تک وہ اس اشارہ کو ترک نہیں کرتا، خواہ وہ اس کا حقیقی بھائی (ہی کیوں نہ) ہو۔

اسے امام مسلم اور ترمذی نے روایت کیا ہے۔

19/ 17۔ وَفِي رِوَایَۃٍ عَنْهُ رضی اللہ عنہ، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ ﷲِ ﷺ: لَا یُشِیْرُ أَحَدُکُمْ إِلٰی أَخِیْهِ بِالسِّلَاحِ، فَإِنَّہٗ لَا یَدْرِي أَحَدُکُمْ، لَعَلَّ الشَّیْطَانَ یَنْزِعُ فِي یَدِہٖ، فَیَقَعُ فِي حُفْرَۃٍ مِنَ النَّارِ۔

رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالْحَاکِمُ۔

19: أخرجہ مسلم في الصحیح، کتاب البر والصلۃ والآداب، باب النھي عن إشارۃ بالسلاح، 4/ 2020، الرقم/ 2617، والحاکم في المستدرک علی الصحیحین، 3/ 587، الرقم/ 6176، والبیھقي في السنن الکبری، 8/ 23، الرقم/ 2617۔

ایک روایت میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تم میں سے کوئی شخص اپنے بھائی کی طرف ہتھیار سے اشارہ نہ کرے، تم میں سے کوئی نہیں جانتا کہ شاید شیطان اس کے ہاتھ کو ڈگمگا دے اور وہ (قتلِ ناحق کے نتیجے میں) جہنم کے گڑھے میں جا گرے۔

اسے امام مسلم اور حاکم نے روایت کیا ہے۔

20/ 18۔ وَفِي رِوَایَۃٍ: عَنْ جَابِرٍ رضی اللہ عنہ، قَالَ: نَهٰی رَسُوْلُ ﷲِ ﷺ أَنْ یُتَعَاطَی السَّیْفُ مَسْلُولًا۔

رَوَاهُ أَبُو دَاوُدَ وَالتِّرْمِذِيُّ وَاللَّفْظُ لَہٗ۔

20: أخرجہ أبو داود في السنن، کتاب الجہاد، باب ما جاء في النہي أن یتعاطی السیف مسلولا، 3/ 31، الرقم/ 2588، والترمذي في السنن، کتاب الفتن، باب ما جاء في النھي عن تعاطي السیف مسلولا، 4/ 464، الرقم/ 2163، والحاکم في المستدرک علی الصحیحین، 4/ 322، الرقم/ 7785، وابن حبان في الصحیح، 13/ 275، الرقم/ 5946۔

ایک روایت میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ بیان کرتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے ننگی تلوار لینے دینے سے بھی منع فرمایا ہے۔

اسے امام ابو داود اور ترمذی نے روایت کیا ہے اور مذکورہ الفاظ ترمذی کے ہیں۔

21-22/ 19۔ عَنْ أَبِي سَعِیْدٍ الْخُدْرِيِّ وَأَبِي هُرَیْرَۃَ رضی اللہ عنہما، یَذْکُرَانِ عَنْ رَسُوْلِ ﷲِ ﷺ، قَالَ: لَوْ أَنَّ أَہْلَ السَّمَائِ وَأَہْلَ الْأَرْضِ اشْتَرَکُوْا فِي دَمِ مُؤْمِنٍ لَأَکَبَّهُمُ اللهُ فِي النَّارِ۔

رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالرَّبِیْعُ وَالدَّیْلَمِيُّ۔

21: أخرجہ الترمذي في السنن، کتاب الدیات، باب الحکم في الدمائ، 4/ 17، الرقم/ 1398، والربیع في المسند، 1/ 292، الرقم/ 757، والدیلمي في مسند الفردوس، 3/ 361، الرقم/ 5089۔

حضرت ابو سعید خدری اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہما دونوں سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اگر تمام آسمانوں و زمین والے کسی ایک مومن کے قتل میں شریک ہو جائیں تب بھی یقینا اللہ تعالیٰ ان سب کو جہنم میں جھونک دے گا۔

اسے امام ترمذی، ربیع اور دیلمی نے روایت کیا ہے۔

(22) وَفِي رِوَایَۃٍ: عَنْ أَبِي هُرَیْرَۃَ رضی اللہ عنہ، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ ﷲِ ﷺ: مَنْ أَعَانَ عَلٰی قَتْلِ مُؤْمِنٍ بِشَطْرِ کَلِمَۃٍ، لَقِيَ اللهَ مَکْتُوْبٌ بَیْنَ عَیْنَیْهِ: آیِسٌ مِنْ رَحْمَۃِ ﷲِ۔

رَوَاهُ ابْنُ مَاجَہ وَالْبَیْهَقِيُّ۔

22: أخرجہ ابن ماجہ في السنن، کتاب الدیات، باب التغلیظ في قتل مسلم ظلمًا، 2/ 874، الرقم/ 2620، والربیع في المسند، 1/ 368، الرقم/ 960، والبیہقي في السنن الکبری، 8/ 22، الرقم/ 15646۔

ایک روایت میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس شخص نے چند کلمات کے ذریعہ بھی کسی مومن کے قتل میں کسی کی مدد کی، تو وہ اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملے گا کہ اس کی آنکھوں کے درمیان پیشانی پر لکھا ہوگا: آیِسٌ مِنْ رَحْمَۃِ ﷲِ (اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس شخص)۔

اسے امام ابن ماجہ اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔

23-24/ 20۔ عَنْ عَبْدِ ﷲِ بْنِ عَمْرٍو رضی اللہ عنہما، أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: لَزَوَالُ الدُّنْیَا أَھْوَنُ عَلَی ﷲِ مِنْ قَتْلِ رَجُلٍ مُسْلِمٍ۔

رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالنَّسَائِيُّ وَابْنُ مَاجَہ۔

23: أخرجہ الترمذي في السنن، کتاب الدیات، باب ما جاء في تشدید قتل المؤمن، 4/ 16، الرقم/ 1395، والنسائي في السنن، کتاب تحریم الدم، باب تعظیم الدم، 7/ 82، الرقم/ 3987، وابن ماجہ في السنن، کتاب الدیات، باب التغلیظ في قتل مسلم ظلما، 2/ 874، الرقم/ 2619، والبیھقي في السنن الکبری، 8/ 22، الرقم/ 15648۔

حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے نزدیک ایک مسلمان شخص کے قتل سے پوری دنیا کا ناپید (اور تباہ) ہو جانا ہلکا (واقعہ) ہے۔

اِسے امام ترمذی، نسائی، ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔

(24) وَفِي رِوَایَۃِ بُرَیْدَۃَ رضی اللہ عنہ، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ ﷲِ ﷺ: قَتْلُ الْمُؤْمِنِ أَعْظَمُ عِنْدَ ﷲِ مِنْ زَوَالِ الدُّنْیَا۔

رَوَاهُ النَّسَائِيُّ وَالطَّبَرَانِيُّ۔

24: أخرجہ النسائي في السنن، کتاب تحریم الدم، باب تعظیم الدم، 7/ 82-83، الرقم/ 3988-3990، والطبراني في المعجم الصغیر، 1/ 355، الرقم/ 594، والبیھقي في السنن الکبری، 8/ 22، الرقم/ 15647۔

ایک روایت میں حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مومن کو قتل کرنا اللہ تعالیٰ کے نزدیک تمام دنیا کے برباد ہونے سے بڑا (گناہ) ہے۔

اِسے امام نسائی اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔

25/ 21۔ عَنْ هِشَامِ بْنِ حَکِیْمٍ رضی اللہ عنہ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ ﷲِ ﷺ یَقُوْلُ: إِنَّ اللهَ یُعَذِّبُ الَّذِینَ یُعَذِّبُوْنَ النَّاسَ فِي الدُّنْیَا۔

رَوَاهُ مُسْلِمٌ۔

25: أخرجہ مسلم في الصحیح، کتاب البر والصلۃ والآداب، باب الوعید الشدید لمن عذب الناس بغیر حق،4/ 2018، الرقم/ 2613۔

حضرت ہشام بن حکیم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: بے شک اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو عذاب دے گا جو دنیا میں لوگوں کو اذیت و تکلیف دیتے ہیں۔

اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔

26/ 22۔ عَنْ عُبَادَۃَ بْنِ الصَّامِتِ رضی اللہ عنہ أَنَّہٗ سَمِعَہٗ یُحَدِّثُ عَنْ رَسُوْلِ ﷲِ ﷺ أَنَّہٗ قَالَ: مَنْ قَتَلَ مُؤْمِنًا فَاعْتَبَطَ بِقَتْلِہٖ، لَمْ یَقْبَلِ اللهُ مِنْهُ صَرْفًا وَلَا عَدْلًا۔

رَوَاهُ أَبُو دَاوُدَ وَالطَّبَرَانِيُّ۔

26: أخرجہ أبو داود في السنن، کتاب الفتن والملاحم، باب تعظیم قتل المؤمن، 4/ 103، الرقم/ 4270، والطبراني في مسند الشامیین، 2/ 266، الرقم/ 1311، وذکرہ المنذري في الترغیب والترھیب، 3/ 203، الرقم/ 3691، والعسقلاني في الدرایۃ، 2/ 259، والشوکاني في نیل الأوطار، 7/ 197۔

حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ بیان کرتے ہوئے سنا: جس شخص نے کسی مومن کو ظلم سے ناحق قتل کیا تو اللہ تعالیٰ اس کی کوئی نفلی اور فرض عبادت قبول نہیں فرمائے گا۔

اسے امام ابو داود اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔

27/ 23۔ عَنْ عَبْدِ ﷲِ بْنِ عَمْروٍ رضی اللہ عنہ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: مَنْ قَتَلَ مُعَاهَدًا لَمْ یَرِحْ رَائِحَۃَ الْجَنَّۃِ، وَإِنَّ رِیْحَھَا تُوْجَدُ مِنْ مَسِیْرَۃِ أَرْبَعِیْنَ عَامًا۔

رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَابْنُ مَاجَہ وَالْبَزَّارُ۔

27: أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب الجزیۃ، باب إثم من قتل معاھدا بغیر جرم، 3/ 1155، الرقم/ 2995، وأیضاً في کتاب الدیات، باب إثم من قتل نفسا بغیر جرم،6/ 2533، الرقم/ 6516، وابن ماجہ في السنن، کتاب الدیات، باب من قتل معاھدا، 2/ 896، الرقم/ 2686، والبزارفي المسند، 6/ 368، الرقم/ 2383۔

حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جس نے کسی معاہد(غیر مسلم شہری) کو قتل کیا تو وہ جنت کی خوشبو بھی نہیں سونگھے گا، حالانکہ جنت کی خوشبو چالیس برس کی مسافت تک محسوس ہوتی ہے۔

اِسے امام بخاری، ابن ماجہ اور بزار نے روایت کیا ہے۔

قَالَ الْکَاشَمِیْرِيُّ فِي شَرْحِ ھٰذَا الْحَدِیْثِ: قَوْلُہٗ ﷺ: ’مَنْ قَتَل مُعَاھَدًا لَمْ یَرِحْ رَائِحَۃَ الْجَنَّۃِ‘ وَمُخُّ الْحَدِیْثِ: إِنَّکَ أَیُّھَا الْمُخَاطَبُ، قَدْ عَلِمْتَ مَا فِي قَتْلِ الْمُسْلِمِ مِنَ الْإِثْمِ، فَإِنَّ شَنَاعَتَہٗ بَلَغَتْ مَبْلَغَ الْکُفْرِ، حَیْثُ أَوْجَبَ التَّخْلِیْدَ۔ أَمَّا قَتْلُ مُعَاھَدٍ، فَأَیْضًا لَیْسَ بِھَیِّنٍ، فَإِنَّ قَاتِلَهٗ أَیْضًا لَا یَجِدُ رَائِحَۃَ الْجَنَّۃِ.

(1) أنور شاہ الکاشمیري في فیض الباري علی صحیح البخاري، 4/ 288۔

علامہ انور شاہ کاشمیری اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں: آپ ﷺ کا فرمان ہے: ’جس نے کسی غیر مسلم شہری کو قتل کیا وہ جنت کی خوشبو بھی نہیں سونگھے گا۔‘ اے مخاطب! حدیث کا لبِ لباب تجھے قتلِ مسلم کے گناہ کی سنگینی بتا رہا ہے کہ اس کی قباحت کفر تک پہنچا دیتی ہے جو جہنم میں ہمیشگی کا باعث بنتا ہے؛ جب کہ غیر مسلم شہری کو قتل کرنا بھی کوئی معمولی گناہ نہیں ہے۔ یقینا اس کا قاتل بھی جنت کی خوشبو تک نہیں پاسکے گا (جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ جہنم میں ڈالا جائے گا)۔

28-29/ 24۔ وَفِي رِوَایۃٍ عَنْ عَبْدِ ﷲِ بْنِ عَمْرٍو رضی اللہ عنہ، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ ﷲِ ﷺ: مَنْ قَتَلَ قَتِیْـلًا مِنْ أَہْلِ الذِّمَّۃِ لَمْ یَجِدْ رِیْحَ الْجَنَّۃِ، وَإِنَّ رِیْحَھَا لَیُوْجَدُ مِنْ مَسِیْرَۃِ أَرْبَعِیْنَ عَامًا۔

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالنَّسَائِيُّ وَاللَّفْظُ لَهٗ: وَالْبَزَّارُ وَالْحَاکِمُ وَابْنُ الْجَارُوْدِ وَالْبَیْهَقِيُّ۔ وَقَالَ الْحَاکِمُ: ھٰذَا حَدِیْثٌ صَحِیْحٌ۔

28: أخرجہ أحمد بن حنبل في المسند، 2/ 186، الرقم/ 6745، والنسائي في السنن، کتاب القسامۃ، باب تعظیم قتل المعاھد، 8/ 25، الرقم/ 4750، وأیضًا في السنن الکبری، 4/ 221، الرقم/ 6952، والبزار في المسند، 6/ 361، الرقم/ 2373، والحاکم في المستدرک علی الصحیحین، 2/ 137، الرقم/ 2580، وابن الجارود في المنتقٰی، 1/ 212، الرقم/ 834، والبیھقي في السنن الکبری، 8/ 133، الرقم/ 16260، وذکرہ المنذري في الترغیب والترھیب، 3/ 204، الرقم/ 3693۔

حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو شخص کسی ذِمی (غیر مسلم شہری) کو قتل کرے گا وہ جنت کی خوشبو تک نہیں پائے گا حالانکہ جنت کی خوشبو چالیس برس کی مسافت سے محسوس کی جا سکتی ہے۔

اِسے امام احمد، نسائی، بزار، ابن الجارود، حاکم اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔ مذکورہ الفاظ نسائی کے ہیں۔ امام حاکم نے فرمایا ہے: یہ حدیث صحیح ہے۔

(29) وَفِي رِوَایۃِ الْقَاسِمِ بْنِ مُخَیْمِرَۃَ عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ، أَنَّ رَسُوْلَ ﷲِ ﷺ قَالَ: مَنْ قَتَلَ رَجُـلًا مِنْ أَہْلِ الذِّمَّۃِ لَمْ یَجِدْ رِیْحَ الْجَنَّۃِ وَإِنَّ رِیْحَھَا لَیُوْجَدُ مِنْ مَسِیْرَۃِ سَبْعِیْنَ عَامًا۔

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالنَّسَائِيُّ وَاللَّفْظُ لَہٗ۔

29: أخرجہ أحمد بن حنبل في المسند، 4/ 237، 5/ 369، الرقم/ 18097، 23177، والنسائي في السنن، کتاب القسامۃ، باب تعظیم قتل المعاھد، 8/ 25، الرقم/ 4749، وأیضًا في السنن الکبری، 4/ 221، الرقم/ 6951، وذکرہ المنذري في الترغیب والترھیب، 3/ 204، الرقم/ 3695۔

قاسم بن مُخَیْمِرَہ سے مروی ہے کہ اُنہوں نے حضور نبی اکرم ﷺ کے ایک صحابی سے سنا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس نے کسی ذمی (غیر مسلم شہری) کو قتل کیا وہ جنت کی خوشبو تک نہیں پائے گا، حالانکہ جنت کی خوشبو ستر برس کی مسافت سے بھی محسوس کی جا سکتی ہے۔

اِسے امام احمد بن حنبل نے اور نسائی نے مذکورہ الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے۔

30/ 25۔ وَفِي رِوَایَۃِ أَبِي بَکْرَۃَ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ ﷺ: مَنْ قَتَلَ نَفْسًا مُعَاهَدَۃً بِغَیْرِ حِلِّھَا، فَحَرَامٌ عَلَیْهِ الْجَنَّۃُ أَنْ يَّشُمَّ رِیْحَھَا، وَإِنَّ رِیْحَھَا لَیُوْجَدُ مِنْ مَسِیْرَۃِ مِئَۃِ عَامٍ۔

رَوَاهُ النَّسَائِيُّ وَابْنُ حِبَّانَ وَعَبْدُ الرَّزَّاقِ وَالْبَزَّارُ وَالطَّبَرَانِيَُّ۔

30: أخرجہ النسائي في السنن، کتاب القسامۃ، باب تعظیم قتل المعاہد، 8/ 25، الرقم/ 4748، وأیضاً في السنن الکبریٰ، 4/ 221، الرقم/ 6950، وابن حبان في الصحیح، 16/ 391، الرقم/ 8382، وعبد الرزاق في المصنف، 10/ 102، الرقم/ 18521، والبزار في المسند، 9/ 138، الرقم/ 3696، والطبراني في المعجم الأوسط، 1/ 207، الرقم/ 663۔

حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جس نے کسی معاہد (غیر مسلم شہری) کو ناجائز طور پر قتل کیا تو اس پر جنت کی خوشبو تک سونگھنا حرام ہو گا حالانکہ اس کی خوشبو سو سال کی مسافت پر بھی موجود ہوگی۔

اِسے امام نسائی، ابن حبان، عبد الرزاق، بزار اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔

31/ 26۔ وَفِي رِوَایَۃٍ عَنْهُ رضی اللہ عنہ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ ﷲِ ﷺ یَقُوْلُ: مَنْ قَتَلَ نَفْسًا مُعَاهَدَۃً بِغَیْرِحَقِّھَا، حَرَّمَ اللهُ عَلَیْهِ الْجَنَّۃَ أَنْ يَّشُمَّ رِیْحَھَا، وَرِیْحُھَا یُوْجَدُ مِنْ مَسِیْرَۃِ خَمْسِمِائَۃِ عَامٍ۔

رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَابْنُ أَبِي شَیْبَۃَ۔

31: أخرجہ الحاکم في المستدرک علی الصحیحین، 1/ 105، الرقم/ 134، وابن أبي شیبۃ في المصنف، 5/ 457، الرقم/ 27944۔

حضرت ابو بکرہ رضی اللہ عنہ ہی سے مروی ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: جس نے کسی معاہد کو ناحق قتل کیا، اللہ تعالیٰ نے اس پر جنت کی خوشبو تک سونگھنا حرام فرما دیا ہے، حالانکہ اس کی خوشبو پانچ سو سال کی مسافت پر بھی موجود ہوگی۔

اِسے امام حاکم اور ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔

32/ 27۔ وَفِي رِوَایَۃٍ عَنْهُ رضی اللہ عنہ، أَنَّ رَسُوْلَ ﷲِ ﷺ قَالَ: مَنْ قَتَلَ نَفْسًا مُعَاهَدَۃً بِغَیْرِحَقِّھَا لَمْ یَجِدْ رَائِحَۃَ الْجَنَّۃِ، وَإِنَّ رَائِحَتَھَا تُوْجَدُ مِنْ مَسِیْرَۃِ خَمْسِمِائَۃِ عَامٍ۔

رَوَاهُ الْحَاکِمُ، وَقَالَ: ھٰذَا حَدِیْثٌ صَحِیْحٌ عَلٰی شَرْطِ مُسْلِمٍ۔

32: أخرجہ الحاکم في المستدرک علی الصحیحین، 1/ 105، الرقم/ 133۔

حضرت ابو بکرہ رضی اللہ عنہ ایک اور روایت میں بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس نے کسی معاہد کو ناحق قتل کیا وہ جنت کی خوشبو تک نہیں پا سکے گا، حالانکہ اس کی خوشبو پانچ سو سال کی مسافت پر بھی پائی جائے گی۔

اِسے امام حاکم نے روایت کیا ہے اور کہا ہے: یہ حدیث امام مسلم کی شرائط پر صحیح ہے۔

33/ 28۔ عَنْ خَالِدِ بْنِ الْوَلِیدِ رضی اللہ عنہ، قَالَ: غَزَوْنَا مَعَ رَسُولِ ﷲِ ﷺ غَزْوَۃَ خَیْبَرَ، فَأَسْرَعَ النَّاسُ فِي حَظَائِرِ یَهُودَ، فَأَمَرَنِي أَنْ أُنَادِيَ: الصَّلَاۃُ... ثُمَّ قَالَ: أَیُّھَا النَّاسُ، إِنَّکُمْ قَدْ أَسْرَعْتُمْ فِي حَظَائِرِ یَهُوْدَ۔ أَلَا! لَا تَحِلُّ أَمْوَالُ الْمُعَاهَدِینَ إِلَّا بِحَقِّھَا۔

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَأَبُوْ دَاوُدَ وَالشَّیْبَانِيُّ وَابْنُ زَنْجَوَیْهِ۔

33: أخرجہ أحمد بن حنبل في المسند، 4/ 89، الرقم/ 16862، وأبوداود في السنن، کتاب الأطعمۃ، باب النھي عن أکل السباع، 3/ 356، الرقم/ 3806، والشیباني في الآحاد والمثاني، 2/ 29، الرقم/ 703، وابن زنجویہ، فيکتاب الأموال: 379، الرقم/ 618۔

حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم حضور نبی اکرم ﷺ کے ساتھ غزوۂ خیبر میں موجود تھے۔ لوگ (مجاہدین) جلدی میں یہود کے (جانوروں کے) باڑوں میں گھس گئے۔ آپ ﷺ نے مجھے نماز کے لیے اذان دینے کا حکم فرمایا۔۔۔ نماز کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا: اے لوگو! تم جلدی میں یہود کے (جانوروں کے) باڑوں میں گھس گئے ہو۔ خبردار! سوائے حق کے غیر مسلم شہریوں کے اموال سے لینا حلال نہیں۔

اِسے امام احمد، ابو داود، شیبانی اور ابن زنجویہ نے روایت کیا ہے۔

34-35/ 29۔ وَفِي رِوَایَۃٍ عَنْهُ رضی اللہ عنہ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ: أَلَا! وَإِنِّيْ أُحَرِّمُ عَلَیْکُمْ أَمْوَالَ الْمُعَاهِدِیْنَ بِغَیْرِ حَقِّھَا۔

رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ۔

34: أخرجہ الطبراني في المعجم الکبیر، 4/ 111، الرقم/ 3828، وابن زنجویہ في کتاب الأموال/ 380، الرقم/ 619۔

حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے حضور نبی اکرم ﷺ سے (یہ حدیث ان الفاظ کے ساتھ بھی) روایت کی ہے: خبردار! میں تم پر غیر مسلم اقلیتوں کے اَموال پر ناحق قبضہ کرنا حرام کرتا ہوں۔

اِسے امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔

(35) وََفِي رِوَایَۃٍ عَنْهُ رضی اللہ عنہ: حَرَّمَ رَسُوْلُ ﷲِ ﷺ یَوْمَ خَیْبَرَ أَمْوَالَ الْمُعَاهَدِیْنَ۔

رَوَاهُ الدَّارَقُطْنِيُّ۔

35: أخرجہ الدارقطني في السنن، 4/ 287، الرقم/ 63۔

اور ان (یعنی حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ) سے مروی ایک روایت میں ہے: رسول اللہ ﷺ نے غزوہ خیبر کے موقع پر غیر مسلم شہریوں کے اموال پر قبضہ کرنے کو حرام قرار دے دیا۔

اِسے امام دارقطنی نے روایت کیا ہے۔

36/ 30۔ عَنْ عَاصِمٍ یَعْنِي ابْنَ کُلَیْبٍ عَنْ أَبِیهِ عَنْ رَجُلٍ مِنَ الْأَنْصَارِ، قَالَ: خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ ﷲِ ﷺ فِي سَفَرٍ، فَأَصَابَ النَّاسَ حَاجَۃٌ شَدِیدَۃٌ وَجَہْدٌ، وَأَصَابُوا غَنَمًا، فَانْتَهَبُوھَا، فَإِنَّ قُدُورَنَا لَتَغْلِي إِذْ جَاءَ رَسُولُ ﷲِ ﷺ یَمْشِي عَلٰی قَوْسِہٖ، فَأَکْفَأَ قُدُورَنَا بِقَوْسِہٖ، ثُمَّ جَعَلَ یُرَمِّلُ اللَّحْمَ بِالتُّرَابِ، ثُمَّ قَالَ: إِنَّ النُّہْبَۃَ لَیْسَتْ بِأَحَلَّ مِنَ الْمَیْتَۃِ أَوْ إِنَّ الْمَیْتَۃَ لَیْسَتْ بِأَحَلَّ مِنَ النُّہْبَۃِ۔

رَوَاهُ أَبُوْ دَاوُدَ وَالْبَیْهَقِيُّ۔

36: أخرجہ أبو داود في السنن، کتاب الجھاد، باب في النھيِ عن النھبی إِذا کان في الطعامِ قلّۃ في أرض العدو، 3/ 66، الرقم/ 2705، والبیھقي في السنن الکبریٰٰ، 9/ 61، الرقم/ 17789۔

عاصم بن کُلیب نے اپنے والد ماجد سے روایت کی ہے کہ ایک انصاری صحابی نے بیان کیا: ہم ایک سفر میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نکلے تو لوگوں کو کھانے پینے کی اشیاء کے حوالے سے بڑی ضرورت اور دقت کاسامنا کرنا پڑا۔ انہیں (کچھ) بکریاں ملیں تو انہوں نے (بلا اجازت) حاصل کر لیں (اور ذبح کر کے پکانے لگے)۔ ہماری ہانڈیوں میں ابال آہی رہا تھا کہ کمان سے ٹیک لگاتے ہوئے رسول اللہ ﷺ تشریف لے آئے، اور اپنی کمان سے ہماری ہانڈیوں کو الٹنا شروع کر دیا اور گوشت کو مٹی میں ملانا شروع کر دیا۔ پھر فرمایا کہ لوٹ کا مال مردار سے زیادہ حلال نہیں - یا (فرمایا:) - مردار، لوٹ کے مال سے زیادہ حلال نہیں ہے۔

اِسے امام ابو داود اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔

37/ 31۔ وَفِي رِوَایَۃِ الْعِرْبَاضِ بْنِ سَارِیَۃَ السُّلَمِيِّ قَالَ: نَزَلْنَا مَعَ النَّبِيِّ ﷺ خَیْبَرَ وَمَعَهٗ مَنْ مَعَهٗ مِنْ أَصْحَابِہٖ، وَکَانَ صَاحِبُ خَیْبَرَ رَجُلًا مَارِدًا مُنْکَرًا، فَأَقْبَلَ إِلَی النَّبِيِّ ﷺ فَقَالَ: یَا مُحَمَّدُ، أَلَکُمْ أَنْ تَذْبَحُوْا حُمُرَنَا، وَتَأْکُلُوْا ثَمَرَنَا وَتَضْرِبُوْا نِسَاءَ نَا، فَغَضِبَ یَعْنِي النَّبِيَّ ﷺ وَقَالَ: یَا ابْنَ عَوْفٍ، ارْکَبْ فَرَسَکَ۔ ثُمَّ نَادِ: أَلَا، إِنَّ الْجَنَّۃَ لَا تَحِلُّ إِلَّا لِمُؤْمِنٍ، وَأَنِ اجْتَمِعُوْا لِلصَّلَاۃِ۔ قَالَ: فَاجْتَمَعُوْا، ثُمَّ صَلّٰی بِھِمُ النَّبِيُّ ﷺ، ثُمَّ قَامَ، فَقَالَ: أَیَحْسَبُ أَحَدُکُمْ مُتَّکِئًا عَلٰی أَرِیْکَتِہٖ قَدْ یَظُنُّ أَنَّ اللهَ لَمْ یُحَرِّمْ شَیْئًا إِلَّا مَا فِي ھٰذَا الْقُرْآنِ؟ أَلَا وَإِنِّي، وَﷲِ، قَدْ وَعَظْتُ وَأَمَرْتُ وَنَهَیْتُ عَنْ أَشْیَائَ إِنَّھَا لَمِثْلُ الْقُرْآنِ أَوْ أَکْثَرُ۔ وَإِنَّ اللهَ سبحانہ وتعالیٰ لَمْ یُحِلَّ لَکُمْ أَنْ تَدْخُلُوْا بُیُوتَ أَہْلِ الْکِتَابِ إِلَّا بِإِذْنٍ، وَلَا ضَرْبَ نِسَائِهِمْ، وَلَا أَکْلَ ثِمَارِهِمْ۔

رَوَاهُ أَبُوْ دَاوُدَ وَالْبَیْهَقِيُّ۔

37: أخرجہ أبو داود في السنن، کتاب الخراج والإمارۃ والفيئ، باب في تعشیر أھل الذمۃ إذا اختلفوا بالتجارات، 3/ 170، الرقم/ 3050، والبیھقي في السنن الکبریٰٰ، 9/ 204، الرقم/ 18508، وابن عبد البر في التمھید، 1/ 149۔

ایک روایت میں حضرت عرباض بن ساریہ السلمی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ہے کہ ہم حضور نبی اکرم ﷺ کے ساتھ خیبر کے مقام پر اترے اور کتنے ہی صحابہ کرام آپ کے ساتھ تھے۔ خیبر کا سردار ایک مغرور، سرکش اور چالاک آدمی تھا۔ اس نے حضور نبی اکرم ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوکر کہا: اے محمد! کیا آپ کے لیے مناسب ہے کہ آپ ہمارے گدھوں کو ذبح کریں، ہمارے پھلوں کو کھائیں اور ہماری عورتوں کو پیٹیں؟ حضور نبی اکرم ﷺ ناراض ہوئے اور فرمایا: اے ابن عوف! اپنے گھوڑے پر سوار ہو کر یہ منادی کردو کہ جنت حلال نہیں ہے مگر ایمان والے کے لیے اور نماز کے لئے جمع ہو جاؤ۔ راوی کا بیان ہے کہ لوگ جمع ہوگئے تو آپ ﷺ نے انہیں نماز پڑھائی، پھر آپ کھڑے ہوئے اور فرمایا: کیا تم میں سے کوئی اپنی مَسند پر ٹیک لگا کر یہ سمجھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کوئی چیز حرام قرار نہیں دی مگر وہی جس کا ذکر قرآن مجید میں ہے۔ آگاہ ہوجاؤ، خدا کی قسم! میں نے نصیحت کرتے ہوئے، حکم دیتے ہوئے اور بعض چیزوں سے منع کرتے ہوئے جو کہا ہے وہ بھی (حجیت کے اعتبار سے) قرآن کریم کی طرح ہے، بلکہ (تفصیل و تشریح کے اعتبار سے تعداد میں) وہ قرآن سے بھی زیادہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے یہ جائز نہیں رکھا کہ اہلِ کتاب کی اجازت کے بغیر ان کے گھروں میں داخل ہوجاؤ۔ نیز ان کی عورتوں کو پیٹنا اور ان کے پھلوں کو کھانا بھی تمہارے لیے حلال نہیں۔

اِسے امام ابو داود اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔

مَا رُوِيَ عَنِ الصَّحَابَۃِ وَالسَّلَفِ الصَّالِحِیْنَ

عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیْدٍ، قَالَ:حُدِّثْتُ، أَنَّ أَبَا بَکْرٍ بَعَثَ جُیُوْشًا إِلَی الشَّامِ، فَخَرَجَ یَتْبَعُ یَزِیْدَ بْنَ أَبِي سُفْیَانَ، فَقَالَ: إِنِّي أُوْصِیْکَ بِعَشْرٍ: لَا تَقْتُلَنَّ صَبِیًّا، وَلَا امْرَأَۃً، وَلَا کَبِیْرًا هَرِمًا، وَلَا تَقْطَعَنَّ شَجَرًا مُثْمِرًا، وَلَا تُخَرِّبَنَّ عَامِرًا، لَا تَعْقِرَنَّ شَاۃً وَلَا بَعِیْرًا إِلَّا لِمَأْکَلَۃٍ، وَلَا تُغْرِقَنَّ نَخْلًا، وَلَا تُحْرِقَنَّہٗ، وَلَا تَغْلُلْ، وَلَا تَجْبُنْ.

رَوَاهُ مَالِکٌ وَابْنُ أَبِي شَیْبَۃَ وَاللَّفْظُ لَہٗ۔

(1) أخرجہ مالک في الموطأ، 2/ 447، الرقم/ 965، وابن أبي شیبۃ في المصنف، 6/ 483، الرقم/ 33121۔

یحییٰ بن سعید بیان کرتے ہیں: مجھے بتایا گیا کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے شام کی طرف لشکر روانہ کیے تو آپ یزید بن ابی سفیان کے پیچھے تشریف لے گئے اور فرمایا: میں تجھے دس چیزوں کی وصیت کرتا ہوں: کسی بچے، عورت اور ضیعف العمرشخص کو ہرگز قتل نہ کرنا، کبھی کسی پھل دار درخت کو نہ کاٹنا اور نہ ہی کبھی کسی آباد علاقے کو ویران کرنا، کھانے کے علاوہ کبھی بھی کسی بکری اور اونٹ کو ذبح نہ کرنا، کبھی کسی کھجور کے درخت کو (کاٹ کر) نہ ڈبونا اور نہ ہی جلانا، نہ کبھی خیانت کرنا اور نہ ہی بزدلی دکھانا۔

اسے امام مالک نے اور ابن ابی شیبہ نے مذکورہ الفاظ سے روایت کیا ہے۔

وَفِي رِوَایَۃِ سَعِیْدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، أَنَّ أَبَا بَکْرٍ رضی اللہ عنہ لَمَّا بَعَثَ الْجُنُوْدَ نَحْوَ الشَّامِ، یَزِیْدَ بْنَ أَبِي سُفْیَانَ وَعَمْرَو بْنَ الْعَاصِ وَشُرَحْبِیْلَ بْنَ حَسَنَۃَ قَالَ… ثُمَّ جَعَلَ یُوْصِیْهِمْ، فَقَالَ: … وَلَا تُفْسِدُوْا فِي الْأَرْضِ، وَلَا تَعْصَوْا مَا تُؤْمَرُوْنَ… وَلَا تُغْرِقُنَّ نَخْـلًا وَلَا تُحْرِقُنَّھَا، وَلَا تَعْقِرُوْا بَهِیْمَۃً وَلَا شَجَرَۃً تُثْمِرُ، وَلَا تَہْدِمُوْا بِیْعَۃً، وَلَا تَقْتُلُوا الْوِلْدَانَ وَلَا الشُّیُوْخَ وَلَا النِسَاءَ۔ وَسَتَجِدُوْنَ أَقْوَامًا حَبَسُوْا أَنْفُسَهُمْ فِي الصَّوَامِعِ، فَدَعُوْهُمْ، وَمَا حَبَسُوْا أَنْفُسَهُمْ لَہٗ.

رَوَاهُ مَالِکٌ وَعَبْدُ الرَّزَّاقِ وَالْبَیْهَقِيُّ وَاللَّفْظُ لَہٗ۔

(1) أخرجہ البیھقی في السنن الکبریٰ، 9/ 85، ومالک في الموطأ، 2/ 448، الرقم/ 966، وعبد الرزاق في المصنف، 5/ 199، وذکرہ ابن قدامہ في المغني، 8/ 451-452، 477، والھندي في کنز العمال، 1/ 296۔

وَفِي رِوَایَۃٍ زَادَ الْھِنْدِيُّ: وَلَا مَرِیْضًا وَلَا رَاهِبًا.

(2) الھندي في کنز العمال،4/ 474، الرقم/ 11409۔

ایک روایت میں حضرت سعید بن مسیب نے بیان کیا ہے کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے یزید بن ابی سفیان، عمرو بن العاص اور شرحبیل بن حسنہ l کی زیر نگرانی شام کی طرف افواج بھیجیں تو انہیں خصوصی ہدایات فرمائیں: ’خبردار! زمین میں فساد نہ مچانا اور جو احکامات تمہیں دیے گئے ہیں ان کی خلاف ورزی نہ کرنا۔۔۔ کبھی بھی کسی کھجور کے درخت کو (کاٹ کر) نہ ڈبونا اور نہ ہی جلانا، چوپایوں کو ہلاک نہ کرنا اور نہ ہی پھلدار درختوں کو کاٹنا، کسی عبادت گاہ کو مت گرانا اور نہ ہی بچوں، بوڑھوں اور عورتوں کو قتل کرنا۔ تمہیں بہت سے ایسے لوگ ملیں گے جنہوں نے گرجا گھروں میں اپنے آپ کو محبوس کر رکھا ہوگا، انہیں چھوڑ دینا اور جس (مقصد) کے لئے انہوں نے اپنے آپ کو محبوس کر رکھا ہے (انہیں اسی حال پر چھوڑ دینا)‘۔

اسے امام مالک اور عبد الرزاق نے جب کہ بیہقی نے مذکورہ الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے۔

ایک روایت میں حسام الدین الہندی نے ان الفاظ کا اضافہ کیا ہے: نہ کسی مریض کو اور نہ کسی راہب کو (قتل کرنا)۔

وَفِي رِوَایَۃِ ابْنِ عُمَرَ رضی اللہ عنہما قَالَ أَبُوْ بَکْرٍ الصِّدِّیْقُ لِیَزِیْدَ بْنِ أَبِي سُفْیَانَ: وَلَا تَھْدِمُوْا بِیْعَۃً … وَلَا تَقْتُلُوْا شَیْخًا کَبِیْرًا، وَلَا صَبِیًّا وَلَا صَغِیْرًا وَلَا امْرَأَۃً.

ذَکَرَهُ الْھِنْدِيُّ۔

(1) الہندی في کنز العمال، 4/ 475، الرقم/ 11411۔

ایک روایت میں حضرت (عبد اللہ) بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے یزید بن اَبی سفیان سے کہا: عیسائیوں کی عبادت گاہوں کو منہدم نہ کرنا۔۔۔ نہ بوڑھوں کو، نہ بچوں کو، نہ چھوٹوں کو اور نہ ہی عورتوں کو قتل کرنا۔

اسے حسام الدین الہندی نے بیان کیا ہے۔

قَالَ الْأَوْزَاعِيُّ: وَنَهٰی أَبُو بَکْرٍ الصِّدِّیْقُ أَنْ یَقْطَعَ شَجَرًا مُثْمِرًا أَوْ یُخَرِّبَ عَامِرًا، وَعَمِلَ بِذٰلِکَ الْمُسْلِمُونَ بَعْدَہٗ.

رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ۔

(2) أخرجہ الترمذي في السنن، کتاب السیر، باب في التحریق والتخریب، 4/ 122، الرقم/ 1552۔

امام اوزاعی بیان کرتے ہیں: حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے (دورانِ جنگ) پھل دار درخت کاٹنے یا عمارت کو تباہ کرنے سے منع فرمایا اور آپ کے بعد بھی مسلمان اسی پر عمل پیرا رہے۔

اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔

وَفِي رِوَایَۃٍ: کَتَبَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رضی اللہ عنہ إِلٰی أَبِي عُبَیْدَۃَ ابْنِ الْجَرَّاحِرضی اللہ عنہ، وَقَالَ: وَامْنَعِ الْمُسْلِمِیْنَ مِنْ ظُلْمِھِمْ وَالْإِضْرَارِ بِھِمْ وَأَکْلِ أَمْوَالِھِمْ إِلَّا بِحِلِّھَا.

(1) أبو یوسف في کتاب الخراج/ 141۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے (شام کے گورنر) حضرت ابو عبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ کو جو فرمان لکھا اس میں دیگر احکام کے علاوہ یہ حکم بھی درج تھا: (تم بحیثیت گورنر) مسلمانوں کو غیر مسلم شہریوں پر ظلم کرنے، انہیں ضرر پہنچانے اور ناجائز طریقہ سے ان کے مال کھانے سے سختی کے ساتھ منع کرو۔

وَفِي رِوَایَۃٍ، قَالَ عَلِيٌّ رضی اللہ عنہ: إِنَّمَا بَذَلُوْا الْجِزْیَۃَ لِتَکُوْنَ دِمَاؤُهُمْ کَدِمَائِنَا وَأَمْوَالُهُمْ کَأَمْوَالِنَا.

ذَکَرَهُ ابْنُ قُدَامَۃَ۔

(2) ابن قدامۃ في المغني، 9/ 181، والزیلعي في نصب الرایۃ، 3/ 381۔

ایک روایت میں سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: بے شک یہ غیر مسلم شہری اس لیے سالانہ زرِ حفاظت دیتے ہیں کہ ان کے مال ہمارے مال کی طرح اور ان کے خون ہمارے خون کی طرح محفوظ ہو جائیں۔

اسے امام ابن قدامہ نے بیان کیا ہے۔

قَالَ الإِمَامُ النَّوَوِيُّ الشَّافِعِيُّ فِي شَرْحِہٖ: فَإِنَّ مَالَ الذِّمِّيِّ وَالْمُعَاهَدِ وَالْمُرْتَدِّ فِي ھٰذَا کَمَالِ الْمُسْلِمِ.

(3) النووی في شرح الصحیح لمسلم، 12/ 7۔

امام نووی الشافعی ’شرح صحیح مسلم‘ میں فرماتے ہیں: یقینا غیر مسلم شہری، معاہد اور مرتد کا مال بھی اس اعتبار سے مسلمان کے مال ہی کی طرح (قابلِ حفاظت) ہے۔

قَالَ الإِْمَامُ ابْنُ قُدَامَۃَ الْحَنْبَلِيُّ: فَإِنَّ الْمُسْلِمَ یُقْطَعُ بِسَرِقَۃِ مَالِہٖ.

(1) ابن قدامۃ في المغني، 9/ 112۔

امام ابن قدامہ الحنبلی فرماتے ہیں: بے شک مسلمان پر بھی غیر مسلم کا مال چوری کرنے پر حد جاری کی جائے گی۔

قَالَ الإِمَامُ أَبُوْ مُحَمَّدِ ابْنُ حَزْمٍ الظَّاهِرِيُّ: لَا خِلَافَ فِي أَنَّ الْمُسْلِمَ یُقْطَعُ إِنْ سَرَقَ مِنْ مَّالِ الذِّمِّيِّ وَالْمُسْتَأْمِنِ.

(2) ابن حزم في المحلی، 10/ 351۔

امام ابو محمد بن حزم الظاہری فرماتے ہیں: اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ غیر مسلم شہری اور پناہ گزین کا مال چوری کرنے پر بھی مسلمان پر حد جاری کی جائے گی۔

قَالَ الإِمَامُ ابْنُ رُشْدٍ الْمَالِکِيُّ: فَإِنَّهُمُ اعْتَمَدُوْا عَلٰی إِجْمَاعِ الْمُسْلِمِیْنَ، أَنَّ یَدَ الْمُسْلِمِ تُقْطَعُ إِذَا سَرَقَ مِنْ مَالِ الذِّمِّيِّ.

(3) ابن رشد المالکي في بدایۃ المجتھد، 2/ 299۔

امام ابن رشد المالکی فرماتے ہیں: اس پر اجماع ہے کہ اگر کوئی مسلمان کسی غیر مسلم شہری کا مال چرائے تو مسلمان کا ہاتھ کاٹا جائے گا۔

وَقَالَ الإِمَامُ الْحَصْکَفِيُّ الْحَنَفِيُّ: وَیَضْمَنُ الْمُسْلِمُ قِیْمَۃَ خَمْرِہٖ وَخِنْزِیْرِہٖ إِذَا أَتْلَفَہٗ.

(1) الحصکفي في الدر المختار، 2/ 223، وابن عابدین الشامي في رد المحتار، 3/ 273۔

امام الحصکفی الحنفی فرماتے ہیں: غیر مسلم شہری کی شراب اور اس کے خنزیر کو تلف کرنے کی صورت میں مسلمان اس کی قیمت بطور تاوان ادا کرے گا۔

وَذَکَرَ الْقُرَافِيُّ الْمَالِکِيُّ: وَکَذٰلِکَ حَکَی ابْنُ حَزْمٍ فِي ’مَرَاتِبِ الإِجْمَاعِ‘ لَہٗ: أَنَّ مَنْ کَانَ فِي الذِّمَّۃِ وَجَاءَ أَہْلُ الْحَرْبِ إِلٰی بِلَادِنَا یَقْصِدُوْنَہٗ، وَجَبَ عَلَیْنَا أَنْ نَخْرُجَ لِقِتِالِهِمْ بِالْکُرَاعِ وَالسِّلَاحِ، وَنَمُوْتُ دُوْنَ ذٰلِکَ.

(1) القرافي في الفروق، 3/ 29۔

امام قرافی المالکی بیان کرتے ہیں: علامہ ابن حزم نے اپنی کتاب ’مراتب الاجماع‘ میں بیان کیا ہے: بے شک جو لوگ ذِمی (یعنی غیر مسلم شہری) ہوں اور جنگجو ہماری ریاستوں میں اُن کا قصد کرکے آئیں تو ہماری اسلامی ریاست پر لازم ہے کہ ہم اسلحہ اور لشکر کے ساتھ غیر مسلم شہریوں کی حفاظت کے لیے جنگ کریں خواہ (حملہ آوروں کے ساتھ لڑتے لڑتے ہمارے کئی سپاہی) جان ہی کیوں نہ دے بیٹھیں۔

وَذَکَرَ الْقُرَافِيُّ الْمَالِکِيُّ أَیْضًا: إِنَّ عَقْدَ الذِّمَّۃِ لَمَّا کَانَ عَقْدًا عَظِیْمًا، فَیُوْجِبُ عَلَیْنَا حُقُوْقًا لَهُمْ مِنْھَا مَا حَکَی ابْنُ حَزْمٍ فِي ’مَرَاتِبِ الْإِجْمَاعِ‘۔ وَنَجْعَلُهُمْ فِي جَوَارِنَا وَفِي حَقِّ رَبِّنَا وَفِي ذِمَّۃِ ﷲِ تَعَالٰی وَذِمَّۃِ رَسُوْلِ ﷲِ ﷺ وَذِمَّۃِ دِیْنِ الْإِسْلَامِ۔

وَالَّذِيْ إِجْمَاعُ الأُمَّۃِ عَلَیْهِ أَنَّ مَنْ کَانَ فِي الذِّمَّۃِ وَجَاءَ أَہْلُ الْحَرْبِ إِلٰی بِلَادِنَا یَقْصِدُوْنَہٗ، وَجَبَ عَلَیْنَا أَنْ نَّخْرُجَ لِقِتَالِهِمْ بِالْکُرَاعِ وَالسِّلَاحِ، وَنَمُوْتُ دُوْنَ ذٰلِکَ صَوْنًا لِمَنْ ھُوَ فِي ذِمَّۃِ ﷲِ تَعَالٰی وَذِمَّۃِ رَسُوْلِہٖ ﷺ۔ فَإِنَّ تَسْلِیْمَہٗ دُوْنَ ذٰلِکَ إِہْمَالٌ لِعَقْدِ الذِّمَّۃِ۔

وَمِنْھَا أَنَّ مَنِ اعْتَدٰی عَلَیْهِمْ وَلَو بِکَلِمَۃِ سُوْءٍ أَوْ غِیْبَةٍ فِي عِرْضِ أَحَدِهِمْ أَوْ نَوْعٍ مِنْ أَنْوَاعِ الْأَذِيَّۃِ أَوْ أَعَانَ عَلٰی ذٰلِکَ، فَقَدْ ضَيَّعَ ذِمَّۃَ ﷲِ تَعَالٰی وَذِمَّۃَ رَسُوْلِہٖ ﷺ.

(1) القرافي في الفروق، 3/ 29۔

امام قرافی المالکی نے یہ بھی بیان کیا ہے: ذِمیوں یعنی غیر مسلموں کے ساتھ ہونے والا معاہدۂ شہریت ایک عظیم عقد ہے جو ہم پر کچھ حقوق لاگو کرتا ہے۔ ان میں سے بعض حقوق وہ ہیں جو علامہ ابن حزم نے اپنی ’مراتب الاجماع‘ میں بیان کیے ہیں۔ اِسی لیے ہم غیر مسلم شہریوں کو اپنے جوار میں اپنے رب کی طرف سے لازم کردہ حقوق، اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ ﷺ اور دین اسلام کے ذمہ کرم میں پناہ دیتے ہیں۔

اِس پر اُمت کا اِجماع ہے کہ بے شک جو لوگ ذِمی (یعنی غیر مسلم شہری) ہوں اور جنگ جو ہماری ریاستی سرحدوں میں اُن کا قصد کرکے آئیں تو ہماری اسلامی ریاست پر لازم ہے کہ ہم لشکر اور اسلحہ کے ساتھ لیس ہوکر غیر مسلم شہریوں کی حفاظت کے لیے جنگ کریں خواہ ان کی حفاظت کرتے ہوئے (حملہ آوروں کے ساتھ لڑتے لڑتے ہمارے کئی سپاہی) اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھیں کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ اور رسول مکرم ﷺ کے ذمہ کرم میں ہیں اور انہیں دفاعی قتال کیے بغیر حملہ آور جنگجوؤں کے حوالے کردینا اُس معاہدۂ شہریت سے لاپرواہی اور غفلت کا موجب ہوگا۔

غیر مسلم شہریوں کے حقوق میں سے ایک یہ بھی ہے کہ جو شخص ان ذِمیوں پر سرکشی کرے خواہ ایک برے اور ناگوار کلمہ کے ذریعے یا ان میں سے کسی کی عزت کو عیب دار کرتے ہوئے یا کسی بھی طرح کی اذیت دے کر یا اُن کے خلاف کسی کی اِعانت و مدد کرتے ہوئے تو وہ شخص اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول مکرم ﷺ کے ذمہ کرم کو ضائع کربیٹھے گا۔

تَکْرِیْمُ الإِنْسَانِ

{انسان کی عزت و تکریم}

اَلْقُرْآن

(1) وَلَقَدْ کَرَّمْنَا بَنِیٓ اٰدَمَ وَحَمَلْنٰـھُمْ فِیْ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنٰـھُمْ مِّنَ الطَّیِّبٰتِ وَفَضَّلْنٰـھُمْ عَلٰی کَثِیْرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِیْلاًo

(الإسراء، 17/ 70)

اور بے شک ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی اور ہم نے ان کو خشکی اور تری (یعنی شہروں اور صحراؤں اور سمندروں اور دریاؤں) میں (مختلف سواریوں پر) سوار کیا اور ہم نے انہیں پاکیزہ چیزوں سے رزق عطا کیا اور ہم نے انہیں اکثر مخلوقات پر جنہیں ہم نے پیدا کیا ہے فضیلت دے کر برتر بنا دیاo

(2) مِنْ اَجْلِ ذٰلِكَ ؔۛۚ كَتَبْنَا عَلٰی بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اَنَّهٗ مَنْ قَتَلَ نَفْسًۢا بِغَیْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِی الْاَرْضِ فَكَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعًا ؕ وَ مَنْ اَحْیَاهَا فَكَاَنَّمَاۤ اَحْیَا النَّاسَ جَمِیْعًا ؕ وَ لَقَدْ جَآءَتْهُمْ رُسُلُنَا بِالْبَیِّنٰتِ ؗ ثُمَّ اِنَّ كَثِیْرًا مِّنْهُمْ بَعْدَ ذٰلِكَ فِی الْاَرْضِ لَمُسْرِفُوْنَ.

(المائدۃ، 5/ 32)

اسی وجہ سے ہم نے بنی اسرائیل پر (نازل کی گئی تورات میں یہ حکم) لکھ دیا (تھا) کہ جس نے کسی شخص کو بغیر قصاص کے یا زمین میں فساد انگیزی (کی سزا) کے بغیر (ناحق) قتل کر دیا تو گویا اس نے (معاشرے کے) تمام لوگوں کو قتل کر ڈالا اور جس نے اسے (ناحق مرنے سے بچا کر) زندہ رکھا تو گویا اس نے (معاشرے کے) تمام لوگوں کو زندہ رکھا (یعنی اس نے حیاتِ انسانی کا اجتماعی نظام بچا لیا)، اور بے شک ان کے پاس ہمارے رسول واضح نشانیاں لے کر آئے پھر (بھی) اس کے بعد ان میں سے اکثر لوگ یقینا زمین میں حد سے تجاوز کرنے والے ہیںo

(3) قُلْ تَعَالَوْا اَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّكُمْ عَلَیْكُمْ اَلَّا تُشْرِكُوْا بِهٖ شَیْـًٔا وَّ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا ۚ وَ لَا تَقْتُلُوْۤا اَوْلَادَكُمْ مِّنْ اِمْلَاقٍ ؕ نَحْنُ نَرْزُقُكُمْ وَ يَّاهُمْ ۚ وَ لَا تَقْرَبُوا الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَ مَا بَطَنَ ۚ وَ لَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰهُ اِلَّا بِالْحَقِّ ؕ ذٰلِكُمْ وَصّٰىكُمْ بِهٖ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُوْنَo

(الأنعام، 6/ 151)

فرما دیجیے: آؤ میں وہ چیزیں پڑھ کر سنا دوں جو تمہارے رب نے تم پر حرام کی ہیں (وہ) یہ کہ تم اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہراؤ اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو اور مفلسی کے باعث اپنی اولاد کو قتل مت کرو۔ ہم ہی تمہیں رزق دیتے ہیں اور انہیں بھی (دیں گے) اور بے حیائی کے کاموں کے قریب نہ جاؤ (خواہ) وہ ظاہر ہوں اور (خواہ) وہ پوشیدہ ہوں اور اس جان کو قتل نہ کرو جسے (قتل کرنا) اللہ نے حرام کیا ہے بجز حقِ (شرعی) کے (یعنی قانون کے مطابق ذاتی دفاع کی خاطر اور فتنہ و فساد اور دہشت گردی کے خلاف لڑتے ہوئے)، یہی وہ (اُمور) ہیں جن کا اس نے تمہیں تاکیدی حکم دیا ہے تاکہ تم عقل سے کام لوo

(4) وَ اِذَا حُیِّیْتُمْ بِتَحِيَّةٍ فَحَیُّوْا بِاَحْسَنَ مِنْهَاۤ اَوْ رُدُّوْهَا ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلٰی كُلِّ شَیْءٍ حَسِیْبًاo

(النساء 4/ 86)

اور جب (کسی لفظ) سلام کے ذریعے تمہاری تکریم کی جائے تو تم (جواب میں) اس سے بہتر (لفظ کے ساتھ) سلام پیش کیا کرو یا (کم از کم) وہی (الفاظ جواب میں) لوٹا دیا کرو، بے شک اللہ ہر چیز پر حساب لینے والا ہےo

(5) فَاَمَّا الْاِنْسَانُ اِذَا مَا ابْتَلٰهُ رَبُّہٗ فَاَکْرَمَہٗ وَنَعَّمَہٗ فَیَقُوْلُ رَبِّیْٓ اَکْرَمَنِo وَاَمَّـآ اِذَا مَا ابْتَلٰهُ فَقَدَرَ عَلَیْهِ رِزْقَہٗ فَیَقُوْلُ رَبِّیْٓ اَھَانَنِo کَلَّا بَلْ لَّا تُکْرِمُوْنَ الْیَتِیْمَo وَلَا تَحٰٓضُّوْنَ عَلٰی طَعَامِ الْمِسْکِیْنِo وَتَاْکُلُوْنَ التُّرَاثَ اَکْلًا لَّمًّاo وَّ تُحِبُّوْنَ الْمَالَ حُبًّا جَمًّاo

(الفجر، 89/ 15-20)

مگر انسان (ایسا ہے) کہ جب اس کا رب اسے (راحت و آسائش دے کر) آزماتا ہے اور اسے عزت سے نوازتا ہے اور اسے نعمتیں بخشتا ہے تو وہ کہتا ہے: میرے رب نے مجھ پر کرم فرمایاo لیکن جب وہ اسے (تکلیف و مصیبت دے کر) آزماتا ہے اور اس پر اس کا رزق تنگ کرتا ہے تو وہ کہتا ہے: میرے رب نے مجھے ذلیل کر دیاo یہ بات نہیں بلکہ (حقیقت یہ ہے کہ عزت اور مال و دولت کے ملنے پر) تم یتیموں کی قدر و اِکرام نہیں کرتےo اور نہ ہی تم مسکینوں (یعنی غریبوں اور محتاجوں) کو کھانا کھلانے کی (معاشرے میں) ایک دوسرے کو ترغیب دیتے ہوo اور وراثت کا سارا مال سمیٹ کر (خود ہی) کھا جاتے ہو (اس میں سے افلاس زدہ لوگوں کا حق نہیں نکالتے)o اور تم مال و دولت سے حد درجہ محبت رکھتے ہوo

(6) وَالتِّیْنِ وَالزَّیْتُوْنِo وَطُوْرِ سِیْنِیْنَo وَھٰذَا الْبَلَدِ الْاَمِیْنِo لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْٓ اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍo

(التین، 95/ 1-4)

انجیر کی قَسم اور زیتون کی قَسمo اور سینا کے (پہاڑ) طور کی قَسمo اور اس امن والے شہر (مکہ) کی قَسمo بے شک ہم نے انسان کو بہترین (اعتدال اور توازن والی) ساخت میں پیدا فرمایا ہےo

اَلْحَدِیْث

38/ 32۔ عَنْ الْمَعْرُوْرِ بْنِ سُوَیْدٍ، قَالَ: لَقِیْتُ أَبَا ذَرٍّ رضی اللہ عنہ بِالرَّبَذَۃِ، وَعَلَیْهِ حُلَّۃٌ۔ وَعَلٰی غُـلَامِہٖ حُلَّۃٌ، فَسَأَلْتُہٗ عَنْ ذٰلِکَ، فَقَالَ: إِنِّي سَابَبْتُ رَجُلًا فَعَيَّرْتُہٗ بِأُمِّہٖ، فَقَالَ لِيَ النَّبِيُّ ﷺ: یَا أَبَا ذَرٍّ، أَعَيَّرْتَہٗ بِأُمِّہٖ؟ إِنَّکَ امْرُؤٌ فِیْکَ جَاهِلِيَّۃٌ۔ إِخْوَانُکُمْ خَوَلُکُمْ، جَعَلَھُمُ اللهُ تَحْتَ أَیْدِیْکُمْ۔ فَمَنْ کَانَ أَخُوْهُ تَحْتَ یَدِہٖ، فَلْیُطْعِمْهُ مِمَّا یَأْکُلُ، وَلْیُلْبِسْهُ مِمَّا یَلْبَسُ، وَلَا تُکَلِّفُوْهُمْ مَا یَغْلِبُهُمْ۔ فَإِنْ کَلَّفْتُمُوْھُمْ فَأَعِیْنُوْھُمْ۔

مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ۔

38: أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب الإیمان، باب المعاصي من أمر الجاہلیۃ ولا یکفر صاحبہا بارتکابہا إلا بالشرک لقول النبي ﷺ: إنک امرؤ فیک جاہلیۃ، 1/ 20، الرقم/ 30، ومسلم في الصحیح، کتاب الأیمان، باب إطعام المملوک مما یأکل وإلباسہ مما یلبس ولا یکلفہ ما یغلبہ، 3/ 1283، الرقم/ 1661، وأحمد بن حنبل في المسند، 5/ 161، الرقم/ 21469۔

معرور بیان کرتے ہیں: رَبذہ کے مقام پر میری حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے ملاقات ہوئی جب کہ انہوں نے اور ان کے غلام نے ایک جیسے کپڑے زیب تن کیے ہوئے تھے۔ میں نے اس کی وجہ پوچھی تو فرمایا: میں نے ایک آدمی کو گالی دی اور اُسے اس کی ماں کا طعنہ دیا۔ پس حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اے ابو ذر! تم اُسے اس کی ماں کا طعنہ دیتے ہو، تمہارے اندر جاہلیت کا اثر باقی ہے۔ تمہارے غلام بھی تمہارے بھائی ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے تمہارے ماتحت کیا ہے۔ پس جس کا بھائی اس کے ماتحت ہو تو وہ اسے وہی کھلائے جو وہ خود کھاتا ہو اور اسے وہی پہنائے جو وہ خود پہنتا ہو۔ انہیں ایسے کام کی تکلیف نہ دو جو ان پر غالب آجائے اور اگر کوئی ایسا کام ان کے ذمے لگاؤ تو خود بھی ان کی مدد کرو۔

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

39/ 33۔ عَنْ شِھَابِ بْنِ عَبَّادٍ، أَنَّہٗ سَمِعَ بَعْضَ وَفْدِ عَبْدِ الْقَیْسِ وَهُمْ یَقُولُونَ: قَدِمْنَا عَلٰی رَسُولِ ﷲِ ﷺ فَاشْتَدَّ فَرَحُهُمْ بِنَا۔ فَلَمَّا انْتَهَیْنَا إِلَی الْقَوْمِ أَوْسَعُوا لَنَا، فَقَعَدْنَا۔ فَرَحَّبَ بِنَا النَّبِيُّ ﷺ، وَدَعَا لَنَا، ثُمَّ نَظَرَ إِلَیْنَا، فَقَالَ: مَنْ سَیِّدُکُمْ وَزَعِیمُکُمْ؟ فَأَشَرْنَا بِأَجْمَعِنَا إِلَی الْمُنْذِرِ بْنِ عَائِذٍ، فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ: أَھٰذَا الْأَشَجُّ؟ وَکَانَ أَوَّلَ یَوْمٍ وُضِعَ عَلَیْهِ ھٰذَا الْاِسْمُ بِضَرْبَةٍ لِوَجْهِہٖ بِحَافِرِ حِمَارٍ۔ قُلْنَا: نَعَمْ، یَا رَسُولَ ﷲِ۔ فَتَخَلَّفَ بَعْدَ الْقَوْمِ، فَعَقَلَ رَوَاحِلَهُمْ، وَضَمَّ مَتَاعَهُمْ، ثُمَّ أَخْرَجَ عَیْبَتَہٗ، فَأَلْقٰی عَنْهُ ثِیَابَ السَّفَرِ، وَلَبِسَ مِنْ صَالِحِ ثِیَابِہٖ، ثُمَّ أَقْبَلَ إِلَی النَّبِيِّ ﷺ وَقَدْ بَسَطَ النَّبِيُّ ﷺ رِجْلَہٗ وَاتَّکَأَ، فَلَمَّا دَنَا مِنْهُ الْأَشَجُّ أَوْسَعَ الْقَوْمُ لَہٗ، وَقَالُوا: ھَاهُنَا، یَا أَشَجُّ۔ فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ وَاسْتَوٰی قَاعِدًا وَقَبَضَ رِجْلَہٗ: ھَاهُنَا، یَا أَشَجُّ۔ فَقَعَدَ عَنْ یَمِیْنِ النَّبِيِّ ﷺ فَرَحَّبَ بِہٖ، وَأَلْطَفَہٗ وَسَأَلَہٗ عَنْ بِلَادِہٖ، وَسَمّٰی لَہٗ قَرْیَۃً قَرْیَۃً الصَّفَا وَالْمُشَقَّرَ وَغَیْرَ ذٰلِکَ مِنْ قُرٰی هَجَرَ۔ فَقَالَ: بِأَبِي وَأُمِّي، یَا رَسُولَ ﷲِ، لَأَنْتَ أَعْلَمُ بِأَسْمَائِ قُرَانَا مِنَّا۔ فَقَالَ: إِنِّي قَدْ وَطِئْتُ بِلَادَکُمْ وَفُسِحَ لِي فِیھَا۔

قَالَ: ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَی الْأَنْصَارِ فَقَالَ: یَا مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ، أَکْرِمُوا إِخْوَانَکُمْ، فَإِنَّهُمْ أَشْبَاهُکُمْ فِي الإِسْلَامِ، أَشْبَهُ شَیْئًا بِکُمْ أَشْعَارًا وَأَبْشَارًا۔ أَسْلَمُوْا طَائِعِیْنَ غَیْرَ مُکْرَهِیْنَ وَلَا مَوْتُوْرِیْنَ إِذْ أَبٰی قَوْمٌ أَنْ یُسْلِمُوا حَتّٰی قُتِلُوا۔

قَالَ: فَلَمَّا أَنْ أَصْبَحُوْا، قَالَ: کَیْفَ رَأَیْتُمْ کَرَامَۃَ إِخْوَانِکُمْ لَکُمْ وَضِیَافَتَهُمْ يَّاکُمْ؟ قَالُوْا: خَیْرَ إِخْوَانٍ أَلَانُوْا فِرَاشَنَا وَأَطَابُوْا مَطْعَمَنَا وَبَاتُوْا وَأَصْبَحُوْا یُعَلِّمُوْنَا کِتَابَ رَبِّنَا تَبَارَکَ وَتَعَالٰی وَسُنَّۃَ نَبِیِّنَا ﷺ، فَأَعْجَبَتِ النَّبِيَّ ﷺ وَفَرِحَ بِھَا۔

رَوَاهُ أَحْمَدُ، وَقَالَ الْمُنْذِرِيُّ: إِسْنَادُہٗ صَحِیْحٌ۔

39: أخرجہ أحمد بن حنبل في المسند، 3/ 432، الرقم: 15597، وذکرہ المنذري في الترغیب والترہیب، 3/ 253، الرقم: 3917۔

حضرت شہاب بن عباد کہتے ہیں کہ انہوں نے عبد القیس کے وفد کے کچھ لوگوں کو یہ بیان کرتے ہوئے سنا: ہم لوگ جب رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو لوگوں کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ ہی نہ تھا، جب ہم اُن لوگوں کے پاس گئے تو انہوں نے ہمارے لیے جگہ کشادہ کر دی، ہم لوگ وہاں جا کر بیٹھ گئے۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے ہمیں خوش آمدید کہا، ہمیں دعائیں دیں اور ہماری طرف دیکھ کر فرمایا: تمہارا سردار کون ہے؟ ہم سب نے منذر بن عائذ کی طرف اشارہ کر دیا۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: کیا یہی اَشج (زخمی) ہیں؟ اصل میں ان کے چہرے پر گدھے کے کھر کی چوٹ کا نشان تھا، یہ پہلا دن تھا جب ان کا یہ نام پڑا۔ ہم نے عرض کیا: جی یا رسول اللہ! اس کے بعد کچھ لوگ جو پیچھے رہ گئے تھے، انہوں نے اپنی سواریوں کو باندھا، سامان سمیٹا، پراگندگی کو دور کیا، سفر کے کپڑے اتار کر عمدہ کپڑے زیب تن کیے اور پھر حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوگئے۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے اپنے مبارک پاؤں بچھا کر پیچھے ٹیک لگائی ہوئی تھی۔ جب اَشج قریب پہنچے تو لوگوں نے ان کے لیے جگہ کشادہ کی اور کہا: اے اشج! یہاں تشریف لائیے۔ حضور نبی اکرم ﷺ بھی متوجہ ہو کر بیٹھ گئے، پاؤں مبارک سمیٹ لیے اور فرمایا: اَشج! یہاں آؤ۔ چنانچہ وہ حضور نبی اکرم ﷺ کی دائیں جانب جا کر بیٹھ گئے۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے انہیں خوش آمدید کہا اور ان کے ساتھ لطف و کرم سے پیش آئے اور ان کے شہروں کے متعلق دریافت فرمایا اور ایک ایک بستی جیسے صف، مشقر وغیرہ اور اس کے علاوہ علاقہ ہجر کی بستیوں کے نام لیے۔ انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں! آپ کو تو ہماری بستیوں کے نام ہم سے بھی زیادہ اچھی طرح معلوم ہیں۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: میں تمہارے علاقے میں گیا ہوں اور وہاں میرے ساتھ حسنِ سلوک کیا گیا۔

پھر حضور نبی اکرم ﷺ نے انصار کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا: اے گروہ انصار! اپنے بھائیوں کا اکرام کرو کہ یہ اسلام میں تمہارے مشابہ ہیں، (رب سے) ملاقات اور (اس سے) خوش خبریاں پانے میں تمہارے سب سے زیادہ مشابہ ہیں۔ اس وقت یہ لوگ اپنی رغبت سے بلا کسی جبر و اکراہ یا ظلم کے اسلام لائے ہیں جبکہ دوسرے لوگوں نے اسلام (کا پیغامِ اَمن و سلامتی) قبول کرنے سے انکار کر دیا اور (اسلام کے خلاف برسر پیکار ہوئے۔ نتیجتاً جنگوں میں) قتل ہوگئے۔

اگلے دن حضور نبی اکرم ﷺ نے ان سے پوچھا کہ تم نے اپنے بھائیوں کا اکرام اور میزبانی کا طریقہ کیسا پایا؟ انہوں نے جواب دیا کہ یہ لوگ بہترین بھائی ثابت ہوئے ہیں، انہوں نے ہمیں نرم گرم بستر مہیا کیے، بہترین کھانا کھلایا اور صبح و شام اپنے رب کی کتاب اور اپنے نبی ﷺ کی سنت سکھاتے رہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ کو ان کی عزت افزائی پسند آئی اور یہ سن کر آپ خوش ہوئے۔

اِس حدیث کو امام احمد نے روایت کیا ہے۔ امام منذری نے فرمایا: اِس حدیث کی اِسناد صحیح ہے۔

40/ 34۔ عَنْ عَبْدِ ﷲِ بْنِ عَمْرٍو رضی اللہ عنہ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: مَنْ قَتَلَ مُعَاهَدًا لَمْ یَرَحْ رَائِحَۃَ الْجَنَّۃِ، وَإِنَّ رِیْحَھَا تُوْجَدُ مِنْ مَسِیْرَۃِ أَرْبَعِیْنَ عَامًا۔

رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَابْنُ مَاجَہ۔

40: أخرجہ البخاري في الصحیح، أبواب الجزیۃ والموادعۃ، باب إثم من قتل معاہدا بغیر جرم، 3/ 1155، الرقم/ 2995، وابن ماجہ في السنن، کتاب الدیات، باب من قتل معاہدا، 2/ 896، الرقم/ 2686، والبزار في المسند، 6/ 368، الرقم/ 2383۔

حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جس نے کسی معاہد (غیر مسلم شہری) کو قتل کیا وہ جنت کی خوشبو بھی نہیں سونگھے گا حالانکہ اس کی خوشبو چالیس برس کی مسافت تک محسوس ہوتی ہے۔

اِسے امام بخاری اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔

41/ 35۔ وَفِي رِوَایَۃٍ عَنْ أَبِي بَکْرَۃَ رضی اللہ عنہ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ ﷲِ ﷺ: مَنْ قَتَلَ مُعَاهَدًا فِي غَیْرِ کُنْهِہٖ حَرَّمَ اللهُ عَلَیْهِ الْجَنَّۃَ۔

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَأَبُوْدَاوُدَ۔

41: أخرجہ أحمد بن حنبل في المسند، 5/ 36، 38، الرقم/ 20393، 20419، وأبوداود في السنن، کتاب الجہاد، باب في الوفاء للمعاہد وحرمۃ ذمتہ، 3/ 83، الرقم/ 2760، والنسائي في السنن، کتاب القسامۃ، باب تعظیم قتل المعاہد، 8/ 24، الرقم/ 4747، والدارمي في السنن، کتاب السیر، باب في النہي عن قتل المعاہد، 2/ 308، الرقم/ 2504، والبزار في المسند، 9/ 129، الرقم/ 3679۔

حضرت ابو بکرہ رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس نے کسی معاہد (غیر مسلم شہری) کو بغیر کسی وجہ کے قتل کر دیا، اللہ تعالیٰ نے اس پر جنت حرام فرما دی ہے۔

42/ 36۔ عَنْ عُرْوَۃَ بْنِ الزُّبَیْرِ أَنَّ هِشَامَ بْنَ حَکِیمٍ وَجَدَ رَجُلًا وَھُوَ عَلٰی حِمْصَ، یُشَمِّسُ نَاسًا مِنَ النَّبْطِ فِي أَدَائِ الْجِزْیَۃِ۔ فَقَالَ: مَا ھٰذَا؟ إِنِّي سَمِعْتُ رَسُوْلَ ﷲِ ﷺ یَقُوْلُ: إِنَّ اللهَ یُعَذِّبُ الَّذِیْنَ یُعَذِّبُوْنَ النَّاسَ فِي الدُّنْیَا۔

رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ۔

42: أخرجہ مسلم في الصحیح، کتاب البر والصلۃ والآداب، 4/ 2018، الرقم/ 2613، وأحمد بن حنبل في المسند، 3/ 404، الرقم/ 15372، وأبو داود في السنن، کتاب الخراج والإمارۃ والفئ، باب في أخذ الجزیۃ من المجوس، 3/ 169، الرقم/ 3045۔

حضرت عروہ بن زبیر سے روایت ہے کہ حضرت ہشام بن حکیم نے دیکھا کہ حمص کے حاکم نے کچھ نبطیوں کو ادائے جزیہ کے لیے دھوپ میں کھڑا کر رکھا ہے۔ انہوں نے پوچھا کہ یہ کیا ہے؟ میں نے رسول اللہ ﷺکو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو عذاب دے گا جو دنیا میں لوگوں کو عذاب دیتے ہیں۔

اِسے امام مسلم اور احمد نے روایت کیا ہے۔

43/ 37۔ عَنْ سَمُرَۃَ بْنِ جُنْدُبٍ رضی اللہ عنہ، قَالَ: کَانَ نَبِيُّ ﷲِ یَحُثُّنَا عَلَی الصَّدَقَۃِ وَیَنْھَانَا عَنِ الْمُثْلَۃِ۔

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَأَبُوْ دَاوُدَ وَاللَّفْظُ لَہٗ۔

43: أخرجہ أحمد بن حنبل في المسند، 4/ 444، الرقم/ 20010، وأبوداود في السنن، کتاب الجہاد، باب في النہي عن المثلۃ، 3/ 53، الرقم/ 2667، وعبد الرزاق في المصنف، 8/ 436، الرقم/ 15819۔

حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ نے ایک روایت میں فرمایا: رسول اللہ ﷺ ہمیں صدقہ کرنے کی ترغیب دیتے تھے اور مثلہ کرنے (یعنی مردہ انسان کے اعضا کاٹنے اور اس کی حرمت کو پامال کرنے) سے منع فرماتے تھے۔

اِسے امام احمد بن حنبل اور ابوداؤد نے روایت کیا ہے۔ مذکورہ الفاظ ابو داؤد کے ہیں۔

44/ 38۔ وَفِي رِوَایَةٍ، عَنْ عَائِشَۃَ رضی اللہ عنہا، قَالَتْ: قَالَ رَسُوْلُ ﷲِ ﷺ: إِنَّ کَسْرَ عَظْمِ الْمُؤْمِنِ مَیْتًا مِثْلُ کَسْرِہٖ حَیًّا۔

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَأَبُوْدَاوُدَ۔

44: أخرجہ أحمد في المسند، 6/ 58، الرقم/ 24353، وأبو داود في السنن، کتاب الجنائز، باب في الحفار یجد العظم ہل یتنکب ذلک المکان، 3/ 212، الرقم/ 3207، وابن ماجہ في السنن، کتاب الجنائز، باب في النہي عن کسر عظام المیت، 1/ 516، الرقم/ 1616، ومالک في الموطأ، کتاب الجنائز، باب ما جاء في الاختفائ، 1/ 238، الرقم/ 563، وعبد الرزاق في المصنف، 3/ 444، الرقم/ 6256-6257۔

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی بیان کردہ روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: بے شک کسی فوت شدہ مؤمن کی ہڈی توڑنا (اپنی حرمت کے اعتبار سے) زندہ مومن کی ہڈی توڑنے کے برابر ہے۔

اِسے امام احمد بن حنبل اور ابو داود نے روایت کیا ہے۔

مَا رُوِيَ عَنِ الصَّحَابَۃِ وَالسَّلَفِ الصَّالِحِیْنَ

عَنْ أَبِي هُرَیْرَۃَرضی اللہ عنہ قَالَ: الْمُؤْمِنُ أَکْرَمُ عَلٰی ﷲِ مِنَ الْمَلَائِکَۃِ.

رَوَاهُ الْبَیْهَقِيُّ۔

(1) أخرجہ البیہقي في شعب الإیمان، 1/ 174، الرقم/ 152۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اللہ تعالی کی بارگاہ میں فرشتوں کی نسبت بندئہ مومن کی تکریم زیادہ ہے۔

اسے امام بیہقی نے روایت کیا ہے۔

قَالَ جَعْفَرٌ: لِلْمُقَرَّبِ مِنَ ﷲِ ثَـلَاثُ عَلَامَاتٍ: إِذَا أَفَادَهُ اللهُ عِلْمًا رَزَقَهُ الْعَمَلَ بِہٖ، وَإِذَا وَفَّقَہٗ لِلْعَمَلِ بِہٖ أَعْطَاهُ الإِخْلَاصَ فِي عَمَلِہٖ، وَإِذَا أَقَامَہٗ لِصُحْبَۃِ الْمُسْلِمِیْنَ رَزَقَہٗ فِي قَلْبِہٖ حُرْمَۃً لَهُمْ، وَلْیُعْلَمْ أَنَّ حُرْمَۃَ الْمُؤْمِنِ مِنْ حُرْمَۃِ ﷲِ تَعَالٰی.

رَوَاهُ أَبُوْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ السُّلَمِيُّ۔

(1) أخرجہ أبو عبد الرحمن السلمي في تفسیرہ، 1/ 429۔

امام جعفر نے فرمایا: اللہ تعالیٰ سے قرب رکھنے والے کی تین علامات ہیں: جب اللہ تعالیٰ اسے علم سے نوازتا ہے تو اسے اس پرعمل کی توفیق بھی دیتا ہے، اور جب اسے اس پر عمل کی توفیق دیتا ہے تو اسے اس کے عمل میں اخلاص سے بھی نوازتا ہے، اور جب اسے مسلمانوں کے ساتھ معاشرت کے لیے کھڑا کرتا ہے تواس کے دل میں مسلمانوں کی حرمت بھی عطا کرتا ہے اور جاننا چاہیے کہ بے شک مومن کی حرمت اللہ تعالیٰ کی حرمت میں سے ہے۔

اسے امام ابو عبدالرحمن سلمی نے روایت کیا ہے۔

عَنْ قَتَادَۃَ، قَالَ: وَﷲِ، لَقَدْ عَظَّمَ اللهُ حُرْمَۃَ الْمُؤْمِنِ حَتّٰی یُقَالَ: أَنْ لَا تَظُنَّ بِأَخِیْکَ إِلَّا خَیْرًا۔

رَوَاهُ ابْنُ حَيَّانَ۔

(2) أخرجہ جعفر بن حیان في التوبیخ والتنبیہ، 1/ 74۔

حضرت قتادہ بیان کرتے ہیں: اللہ کی قسم! اللہ تعالیٰ نے مومن کی حرمت کو عظیم بنایا ہے۔ اِسی لیے کہا جاتا ہے کہ اپنے بھائی کے بارے میں اچھا گمان ہی رکھو۔

اسے ابن حیان نے روایت کیا ہے۔

قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ الْفَضْلِ: حُرْمَۃُ الْمُؤْمِنِ أَفْضَلُ الْحُرُمَاتِ وَتَعْظِیْمُہٗ أَجَلُّ الطَّاعَاتِ.

رَوَاهُ أَبُوْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ السُّلَمِيُّ۔

(1) أخرجہ أبو عبد الرحمن السلمي في تفسیرہ، 1/ 271۔

محمد بن فضل نے فرمایاہے: مومن کی حرمت سب حرمتوں سے افضل ہے اور اس کی تعظیم سب اطاعتوں سے زیادہ رتبہ والی ہے۔

اسے امام عبدالرحمن سلمی نے روایت کیا ہے۔

قَالَ ابْنُ حَجَرٍ الْعَسْقَلَانِيُّ: إِنَّ حُرْمَۃَ الْمُؤْمِنِ بَعْدَ مَوْتِہٖ بَاقِیَۃٌ کَمَا کَانَتْ فِي حَیَاتِہٖ.

(2) العسقلاني في فتح الباري بشرح صحیح البخاري، کتاب النکاح، باب کثرۃ النساء، 9/ 113۔

حافظ ابن حجر عسقلانی بیان کرتے ہیں کہ مومن کی حرمت اس کی موت کے بعد ایسے ہی باقی رہتی ہے جیسے اس کی زندگی میں تھی۔

اَلتَّعَاوُنُ عَلَی الْبِرِّ وَالْخَیْرِ

{نیکی اور بھلائی کے کاموں میں لوگوں سے تعاون}

اَلْقُرْآن

(1) وَ لَا یَجْرِمَنَّكُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ اَنْ صَدُّوْكُمْ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اَنْ تَعْتَدُوْا ۘ وَ تَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّ وَ التَّقْوٰی ۪ وَ لَا تَعَاوَنُوْا عَلَی الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ ۪ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ ؕ اِنَّ اللّٰهَ شَدِیْدُ الْعِقَابِo

(المائدۃ، 5/ 2)

اور تمہیں کسی قوم کی (یہ) دشمنی کہ انہوں نے تم کو مسجد حرام (یعنی خانہ کعبہ کی حاضری) سے روکا تھا اس بات پر ہرگز نہ ابھارے کہ تم (ان کے ساتھ) زیادتی کرو اور نیکی اور پرہیزگاری (کے کاموں) پر ایک دوسرے کی مدد کیا کرو اور گناہ اور ظلم (کے کاموں) پر ایک دوسرے کی مدد نہ کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو۔ بے شک اللہ (نافرمانی کرنے والوں کو) سخت سزا دینے والا ہےo

(2) وَ الْمُؤْمِنُوْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتُ بَعْضُهُمْ اَوْلِیَآءُ بَعْضٍ ۘ یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَ یُؤْتُوْنَ الزَّكٰوةَ وَ یُطِیْعُوْنَ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ ؕ اُولٰٓىِٕكَ سَیَرْحَمُهُمُ اللّٰهُ ؕ اِنَّ اللّٰهَ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌo

(التوبۃ، 9/ 71)

اور اہلِ ایمان مرد اور اہلِ ایمان عورتیں ایک دوسرے کے رفیق و مددگار ہیں۔ وہ اچھی باتوں کا حکم دیتے ہیں اور بری باتوں سے روکتے ہیں اور نماز قائم رکھتے ہیں اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) کی اطاعت بجا لاتے ہیں، ان ہی لوگوں پر اللہ عنقریب رحم فرمائے گا، بے شک اللہ بڑا غالب بڑی حکمت والا ہےo

(3) فَـلَا اقْتَحَمَ الْعَقَبَۃَo وَمَآ اَدْرٰکَ مَا الْعَقَبَۃُo فَکُّ رَقَبَۃٍo اَوْ اِطْعٰمٌ فِیْ یَوْمٍ ذِیْ مَسْغَبَةٍo يَّتِیْمًا ذَا مَقْرَبَۃٍo اَوْ مِسْکِیْنًا ذَا مَتْرَبَۃٍo ثُمَّ کَانَ مِنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ وَتَوَاصَوْا بِالْمَرْحَمَۃِo اُولٰٓـئِکَ اَصْحٰبُ الْمَیْمَنَۃِo

(البلد، 90/ 11-18)

وہ تو (دینِ حق اور عملِ خیر کی) دشوار گزار گھاٹی میں داخل ہی نہیں ہواo اور آپ کیا سمجھے ہیں کہ وہ (دینِ حق کے مجاہدہ کی) گھاٹی کیا ہےo وہ (غلامی و محکومی کی زندگی سے) کسی گردن کا آزاد کرانا ہےo یا بھوک والے دن (یعنی قحط و اَفلاس کے دور میں غریبوں اور محروم المعیشت لوگوں کو) کھانا کھلانا ہے (یعنی ان کے معاشی تعطل اور ابتلاء کو ختم کرنے کی جدوجہد کرنا ہے)o قرابت دار یتیم کوo یا شدید غربت کے مارے ہوئے محتاج کو جو محض خاک نشین (اور بے گھر) ہےo پھر (شرط یہ ہے کہ ایسی جدّو جہد کرنے والا) وہ شخص ان لوگوں میں سے ہو جو ایمان لائے ہیں اور ایک دوسرے کو صبر و تحمل کی نصیحت کرتے ہیں اور باہم رحمت و شفقت کی تاکید کرتے ہیںo یہی لوگ دائیں طرف والے (یعنی اہلِ سعادت و مغفرت) ہیںo

(4) اَرَءَیْتَ الَّذِیْ یُکَذِّبُ بِالدِّیْنِo فَذٰلِکَ الَّذِیْ یَدُعُّ الْیَتِیْمَo وَلَا یَحُضُّ عَلٰی طَعَامِ الْمِسْکِیْنِo فَوَیْلٌ لِّلْمُصَلِّیْنَo الَّذِیْنَ ھُمْ عَنْ صَلَاتِھِمْ سَاھُوْنَo الَّذِیْنَ ھُمْ یُرَآءُوْنَo وَ یَمْنَعُوْنَ الْمَاعُوْنَo

(الماعون، 107/ 1-7)

کیا آپ نے اس شخص کو دیکھا جو دین کو جھٹلاتا ہے؟o تو یہ وہ شخص ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے (یعنی یتیموں کی حاجات کو رد کرتا اور انہیں حق سے محروم رکھتا ہے)o اور محتاج کو کھانا کھلانے کی ترغیب نہیں دیتا (یعنی معاشرے سے غریبوں اور محتاجوں کے معاشی اِستحصال کے خاتمے کی کوشش نہیں کرتا)o پس افسوس (اور خرابی) ہے ان نمازیوں کے لیےo جو اپنی نماز (کی روح) سے بے خبر ہیں (یعنی انہیں محض حقوق اللہ یاد ہیں حقوق العباد بھلا بیٹھے ہیں)o وہ لوگ (عبادت میں) دکھلاوا کرتے ہیں (کیوں کہ وہ خالق کی رسمی بندگی بجا لاتے ہیں اور پسی ہوئی مخلوق سے بے پرواہی برت رہے ہیں)o اور وہ برتنے کی معمولی سی چیز بھی مانگے نہیں دیتےo

اَلْحَدِیْث

45/ 39۔ عَنْ أَبِي هُرَیْرَۃَ رضی اللہ عنہ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: مَنْ نَفَّسَ عَنْ مُؤْمِنٍ کُرْبَۃً مِنْ کُرَبِ الدُّنْیَا، نَفَّسَ اللهُ عَنْهُ کُرْبَۃً مِنْ کُرَبِ یَوْمِ الْقِیَامَۃِ، وَمَنْ یَسَّرَ عَلٰی مُعْسِرٍ یَسَّرَ اللهُ عَلَیْهِ فِي الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ، وَمَنْ سَتَرَ مُسْلِمًا سَتَرَهُ اللهُ فِي الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ، وَاللهُ فِي عَوْنِ الْعَبْدِ مَا کَانَ الْعَبْدُ فِي عَوْنِ أَخِیْهِ۔

رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ وَأَبُوْ دَاوُدَ وَالتِّرْمِذِيُّ۔

45: أخرجہ مسلم في الصحیح، کتاب الذکر والدعاء والاستغفار، باب فضل الاجتماع علی تلاوۃ القرآن، 4/ 2074، الرقم/ 2699، وأحمد بن حنبل في المسند، 2/ 252، الرقم/ 7421، وأبو داود في السنن، کتاب الأدب، باب في المعونۃ للمسلم، 4/ 287، الرقم/ 4946، والترمذي في السنن، کتاب الحدود، باب ما جاء في الستر علی المسلم، 4/ 34، الرقم/ 1425، 1930، 2945، وابن ماجہ في السنن، المقدمۃ، باب فضل العلماء والحث علی طلب العلم، 1/ 82، الرقم/ 225۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جو شخص کسی مسلمان کی کوئی دنیاوی تکلیف دور کرے گا، اللہ تعالیٰ اس کی قیامت کے دن کی مشکلات میں سے کوئی مشکل حل کرے گا۔ جو شخص دنیا میں کسی تنگ دست کے لیے آسانی پیدا کرے گا، اللہ تعالیٰ دنیا اور آخرت میں اس کے لیے آسانی پیدا فرمائے گا، اور جو شخص دنیا میں کسی مسلمان کی پردہ پوشی کرے گا، اللہ تعالیٰ دنیا اور آخرت میں اس کی پردہ پوشی فرمائے گا۔ اللہ تعالیٰ (اس وقت تک) اپنے بندے کی مدد کرتا رہتا ہے۔ جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد میں لگا رہتا ہے۔

اِسے امام مسلم، احمد اور ترمذی نے روایت کیا ہے۔

46/ 40۔ عَنْ أَبِي مُوْسٰی رضی اللہ عنہ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ ﷺ: إِنَّ الْأَشْعَرِیِّیْنَ إِذَا أَرْمَلُوا فِي الْغَزْوِ أَوْ قَلَّ طَعَامُ عِیَالِهِمْ بِالْمَدِیْنَۃِ، جَمَعُوْا مَا کَانَ عِنْدَهُمْ فِي ثَوْبٍ وَاحِدٍ، ثُمَّ اقْتَسَمُوْهُ فِي إِنَائٍ وَاحِدٍ بِالسَّوِيَّۃِ، فَهُمْ مِنِّي وَأَنَا مِنْهُمْ۔

مُتَّفَقٌ عَلَیهِ۔

46: أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب الشرکۃ، باب الشرکۃ في الطعام والنھد والعروض وکیف قسمۃ، 2/ 880، الرقم/ 2354، ومسلم في الصحیح، کتاب فضائل الصحابۃ، باب من فضائل الأشعریین، 4/ 1944، الرقم/ 2500، والنسائي في السنن الکبری، 5/ 247، الرقم/ 8798، وأبو یعلی في المسند، 13/ 293، الرقم/ 7309، والبیہقي في السنن الکبری، 10/ 132، والرقم/ 20223۔

حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جب جنگ میں قبیلہ اشعر کے لوگ بہت تنگ دست ہو جاتے ہیں یا مدینہ میں اُن کے اہل و عیال کے لیے کھانے پینے کی تنگی ہو جاتی ہے تو اُن کے پاس جو کچھ ہوتا ہے وہ اُسے ایک چادر میں جمع کر لیتے ہیں اور پھر وہ ایک برتن کے ذریعے اُس کھانے کو سب میں برابر تقسیم کر دیتے ہیں۔ ایسے لوگ (اس باہمی تعاون کے باعث) مجھ سے ہیں اور میں اُن سے ہوں۔

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

47/ 41۔ عَنْ أَبِي مُوْسَی الْأَشْعَرِيِّ رضی اللہ عنہ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: عَلٰی کُلِّ مُسْلِمٍ صَدَقَۃٌ۔ فَقَالُوْا: یَا نَبِيَّ ﷲِ، فَمَنْ لَمْ یَجِدْ؟ قَالَ: یَعْمَلُ بِیَدِہٖ فَیَنْفَعُ نَفْسَہٗ وَیَتَصَدَّقُ۔ قَالُوْا: فَإِنْ لَمْ یَجِدْ؟ قَالَ: یُعِیْنُ ذَا الْحَاجَۃِ الْمَلْھُوْفَ۔ قَالُوْا: فَإِنْ لَمْ یَجِدْ؟ قَالَ: فَلْیَعْمَلْ بِالْمَعْرُوْفِ وَلْیُمْسِکْ عَنِ الشَّرِّ، فَإِنَّھَا لَہٗ صَدَقَۃٌ۔

مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ۔

47: أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب الزکاۃ، باب علی کل مسلم صدقۃ، 2/ 524، الرقم/ 1376، ومسلم في الصحیح، کتاب الزکاۃ، باب بیان أن اسم الصدقۃ یقع علی کل نوع من المعروف، 2/ 699، الرقم/ 1008، وأحمد بن حنبل في المسند، 4/ 395، الرقم/ 19549، والنسائي في السنن، کتاب الزکاۃ، باب صدقۃ العبد، 5/ 64، الرقم/ 2538، والدارمي في السنن، 2/ 399، الرقم/ 2747۔

حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ہر مسلمان پر صدقہ دینا لازم ہے۔ لوگ عرض گزار ہوئے: یا نبی اللہ! جس میں طاقت نہ ہو؟ آپ ﷺ نے فرمایا: وہ اپنے ہاتھ سے کام کرے، خود بھی نفع حاصل کرے اور صدقہ بھی دے۔ انہوں نے عرض کیا: اگر یہ بھی نہ کرسکے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: پھر مظلوم حاجت مند کی مدد کرے۔ انہوں نے عرض کیا: اگر یہ بھی نہ کرسکے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: نیکی کے کام کرے اور برے کاموں سے رُکا رہے، اُس کے لیے یہی صدقہ ہے۔

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

48/ 42۔ وَفِي رِوَایَۃِ سُلَیْمَانَ عَنْ أَبِیْهِ، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ ﷲِ ﷺ: اَلدَّالُّ عَلَی الْخَیْرِ کَفَاعِلِہٖ، وَاللهُ تَعَالٰی یُحِبُّ إِغَاثَۃَ اللَّھْفَانِ۔

رَوَاهُ أَبُوْ حَنِیْفَۃَ وَأَبُوْ یَعْلٰی۔

48: أخرجہ أبو نعیم في مسند أبي حنیفۃ/ 151، وأبو یعلی عن أنس بن مالک في المسند، 7/ 275، الرقم/ 4296، وتمام الرازي في الفوائد، 2/ 65، الرقم/ 1157، والصیداوي في معجم الشیوخ/ 184، وذکرہ العسقلاني في المطالب العالیۃ، 5/ 709، الرقم/ 981، وأیضًا في فتح الباري، 11/ 12۔

ایک روایت میں حضرت سلیمان اپنے والد سے روایت بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: نیکی کے کام کی طرف رہنمائی کرنے والا بھی اس نیکی کو سر انجام دینے والے کی طرح ہے۔ اور اللہ تعالیٰ مصیبت زدہ کی مدد کرنے کو پسند فرماتا ہے۔

اِسے امام ابو حنیفہ اور ابو یعلی نے روایت کیا ہے۔

49/ 43۔ وَفِي رِوَایَۃِ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی اللہ عنہ، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ ﷲِ ﷺ: مَنْ أَغَاثَ مَلْهُوْفًا، کَتَبَ اللهُ لَہٗ ثَـلَاثَۃً وَسَبْعِیْنَ حَسَنَۃً، وَاحِدَۃٌ مِنْھُنَّ یُصْلِحُ اللهُ بِھَا لَہٗ أَمْرَ دُنْیَاهُ وَآخِرَتِہٖ، وَاثْنَتَیْنِ وَسَبْعِیْنَ مِنَ الدَّرَجَاتِ۔

رَوَاهُ أَبُوْ یَعْلٰی وَالْبَیْھَقِيُّ وَابْنُ أَبِي الدُّنْیَا۔

49: أخرجہ أبو یعلی في المسند، 7/ 255، الرقم/ 4266، والبیھقي في شعب الإیمان، 6/ 120، الرقم/ 7670، وابن أبي الدنیا في قضاء الحوائج/ 41، الرقم/ 29، وابن عساکر في تاریخ مدینۃ دمشق، 19/ 138۔

ایک روایت میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو کسی مصیبت زدہ کی مدد کرے، اللہ تعالیٰ اُس کے نامۂ اعمال میں تہتر (73) نیکیاں لکھ دیتا ہے۔ اُن میں سے ایک کے بدلے اللہ تعالیٰ اُس کی دنیا و آخرت کے تمام اُمور کو سنوار دیتا ہے جب کہ بقیہ بہتر (72) نیکیوں کے بدلے میں اُس کے درجات بلند فرما دیتا ہے۔

اِسے امام ابو یعلی، بیہقی اور ابن ابی الدنیا نے روایت کیا ہے۔

50/ 44۔ عَنْ أَبِي سَعِیْدٍ الْخُدْرِيِّ رضی اللہ عنہ قَالَ: بَیْنَمَا نَحْنُ فِي سَفَرٍ مَعَ النَّبِيِّ ﷺ إِذْ جَاءَ رَجُلٌ عَلٰی رَاحِلَۃٍ لَهٗ۔ قَالَ: فَجَعَلَ یَصْرِفُ بَصَرَهٗ یَمِیْنًا وَشِمَالًا، فَقَالَ رَسُوْلُ ﷲِ ﷺ: مَنْ کَانَ مَعَہٗ فَضْلُ ظَھْرٍ فَلْیَعُدْ بِہٖ عَلٰی مَنْ لَا ظَہْرَ لَہٗ، وَمَنْ کَانَ لَہٗ فَضْلٌ مِنْ زَادٍ فَلْیَعُدْ بِہٖ عَلٰی مَنْ لَا زَادَ لَہٗ۔

قَالَ: فَذَکَرَ مِنْ أَصْنَافِ الْمَالِ مَا ذَکَرَ، حَتّٰی رَأَیْنَا أَنَّہٗ لَا حَقَّ لِأَحَدٍ مِنَّا فِي فَضْلٍ۔

رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ وَأَبُوْ دَاوُدَ۔

50: أخرجہ مسلم في الصحیح، کتاب اللقطۃ، باب استحباب المواساۃ بفضول المال، 3/ 1354، الرقم/ 1728، وأحمد بن حنبل في المسند، 3/ 34، الرقم/ 11311، وأبو داود في السنن، کتاب الزکاۃ، باب في حقوق المال، 2/ 125، الرقم/ 1663، وابن حبان في الصحیح، 12/ 238، الرقم/ 5419، وأبو یعلی في المسند، 2/ 326، الرقم/ 1064، والبیہقي في السنن الکبری، 4/ 182، الرقم/ 7571۔

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیںکہ ایک دفعہ ہم حضور نبی اکرم ﷺ کے ساتھ سفر میں تھے کہ ایک شخص اونٹنی پر سوار ہو کر آیا اور دائیں بائیں تکنے لگا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس کے پاس زائد سواری ہے، اُس پر لازم ہے کہ وہ اُس شخص کو لوٹا دے جس کے پاس سواری نہیں ہے۔ جس کے پاس زائد ساز و سامان ہے اُس پر لازم ہے کہ وہ اُس شخص کو لوٹا دے جس کے پاس سامان نہیں ہے۔

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے مختلف اَصناف کا ذکر فرمایا حتیٰ کہ ہم یہ سمجھے کہ ہم میں سے کسی کو بھی ضرورت سے زائد اشیاء اپنے پاس رکھنے کا کوئی حق نہیں ہے۔

اِسے امام مسلم، احمد اور ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔

51/ 45۔ وَفِي رِوَایَۃِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ أَبِي بَکْرٍ رضی اللہ عنہما أَنَّ أَصْحَابَ الصُّفَّۃِ کَانُوْا أُنَاسًا فُقَرَاءَ، وَأَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: مَنْ کَانَ عِنْدَہٗ طَعَامُ اثْنَیْنِ فَلْیَذْهَبْ بِثَالِثٍ، وَإِنْ أَرْبَعٌ فَخَامِسٌ أَوْ سَادِسٌ، وَأَنَّ أَبَا بَکْرٍ جَاءَ بِثَـلَاثَۃٍ فَانْطَلَقَ النَّبِيُّ ﷺ بِعَشَرَۃٍ۔

مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ۔

51: أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب مواقیت الصلاۃ، باب السَّّمَرِ مَعَ الضَّیفِ وَالأھلِ، 1/ 216، الرقم/ 577، وأیضًا في کتاب المناقب، باب علامات النبوۃ في الإسلام، 3/ 1312، الرقم/ 3388، وأیضًا في کتاب الأدب، باب ما یُکرہ من الغضب والجزع عند الضیف، 5/ 2274، الرقم/ 5789، وأیضًا في کتاب الأدب، باب قول الضیف لصاحبہ: لاَ آکُلُ حَتّٰی تَأکُلَ، 5/ 2274، الرقم/ 5790، ومسلم في الصحیح، کتاب الأشربۃ، باب إکرام الضیف وفضل إیثارہ، 3/ 1627، الرقم/ 2057، وأحمد بن حنبل في المسند، 1/ 197-198، الرقم/ 1702، 1712، والبزار في المسند، 6/ 227، الرقم/ 2263، وأبو عوانۃ في المسند، 5/ 204، الرقم/ 8398۔

حضرت عبد الرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ اَصحابِ صفہ درویش آدمی تھے، لہٰذا حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جس شخص کے پاس دو نفوس کا کھانا ہے وہ تیسرے کو ساتھ ملا لے اور جس کے پاس چار کا کھانا ہے وہ پانچویں یا چھٹے کو ساتھ ملا لے۔ لہٰذا حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ تین حضرات کو اپنے ساتھ لے گئے جب کہ حضور نبی اکرم ﷺ دس افراد کو ساتھ لے کر گئے۔

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

52/ 46۔ وَفِي رِوَایَۃِ نُبَیْشَۃَ رضی اللہ عنہ قَالَ: قَالَ رَسُولُ ﷲِ ﷺ: إِنَّا کُنَّا نَهَیْنَاکُمْ عَنْ لُحُوْمِھَا أَنْ تَأْکُلُوْھَا فَوْقَ ثَـلَاثٍ لِکَيْ تَسَعَکُمْ۔ فَقَدْ جَاءَ اللهُ بِالسَّعَۃِ، فَکُلُوْا وَادَّخِرُوْا وَاتَّجِرُوْا۔ أَلَا! وَإِنَّ هٰذِهِ الْأَيَّامَ أَيَّامُ أَکْلٍ وَشُرْبٍ وَذِکْرِ ﷲِ سبحانہ وتعالیٰ۔

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَأَبُوْ دَاوُدَ وَاللَّفْظُ لَہٗ وَالدَّارِمِيُّ۔

52: أخرجہ أحمد بن حنبل في المسند، 5/ 75، الرقم/ 20742، وأبوداود في السنن، کتاب الضحایا،، باب في حبس لحوم الأضاحي، 3/ 100، الرقم/ 2813، والدارمي في السنن، 2/ 108، الرقم/ 1958، والبیھقي في السنن الکبری، 9/ 292، الرقم/ 19001۔

حضرت نبیشہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: بے شک میں نے تمہیں قربانیوں کا گوشت تین دن سے زیادہ ( جمع کر کے رکھنے اور) کھانے سے منع کیا تھا تاکہ زیادہ سے زیادہ آدمیوں تک پہنچ جائے۔ اب اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو فراخی عطا فرما دی ہے، لہٰذا اب کھاؤ، جمع کرو اور ثواب کماؤ۔ آگاہ رہو کہ (عید الاضحی اور تشریق کے) یہ دن کھانے پینے اور ذکرِ الٰہی کے اَیام ہیں۔

اِسے امام احمد، ابو داود اور دارمی نے روایت کیا ہے۔ مذکورہ الفاظ ابو داود کے ہیں۔

53/ 47۔ وَفِي رِوَایَۃِ عَبْدِ ﷲِ بْنِ عُمَرَ رضی اللہ عنہما أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رضی اللہ عنہ قَالَ عَامَ الرَّمَادَۃِ وَکَانَتْ سَنَۃً شَدِیْدَۃً مُلِمَّۃً بَعْدَ مَا اجْتَهَدَ عُمَرُ فِي إِمْدَادِ الْأَعْرَابِ بِالإِبِلِ وَالْقَمْحِ وَالزَّیْتِ مِنَ الْأَرْیَافِ کُلِّھَا، حَتّٰی بَلَّحَتِ الْأَرْیَافُ کُلُّھَا مِمَّا جَهَدَھَا ذٰلِکَ۔ فَقَامَ عُمَرُ یَدْعُوْ، فَقَالَ: اَللّٰهُمَّ، اجْعَلْ رِزْقَهُمْ عَلٰی رُؤُوْسِ الْجِبَالِ۔ فَاسْتَجَابَ اللهُ لَہٗ وَلِلْمُسْلِمِیْنَ۔ فَقَالَ حِیْنَ نَزَلَ بِهِ الْغَیْثُ: اَلْحَمْدُ ِﷲِ، فَوَﷲِ، لَوْ أَنَّ اللهَ لَمْ یُفَرِّجْھَا مَا تَرَکْتُ أَھْلَ بَیْتٍ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ لَھُمْ سَعَۃٌ إِلَّا أَدْخَلْتُ مَعَھُمْ أَعْدَادَھُمْ مِنَ الْفُقَرَاءِ۔ فَلَمْ یَکُنِ اثْنَانِ یَھْلِکَانِ مِنَ الطَّعَامِ عَلٰی مَا یُقِیْمُ وَاحِدًا۔

رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ فِي الْأَدَبِ۔

53: أخرجہ البخاري في الأدب المفرد/ 198، الرقم/ 562، والنمیري في أخبار المدینۃ/ 392، الرقم/ 1238، والتمیمي في الجرح والتعدیل، 1/ 192۔

حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے قحط والے سال اور یہ سال بہت سخت اور مصیبت والا تھا، بعد اس کے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے دیہاتیوں سے اونٹ، گندم، تیل لے کر بدوؤں کی مدد کی، یہاں تک کہ تمام دیہاتی اس وجہ سے تھک ہار گئے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ اُٹھے اور یہ دعا مانگی: اے اللہ! ان کا رزق پہاڑوں کی چوٹیوں پر رکھ دے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے اور مسلمانوں کے حق میں ان کی دعا قبول فرمائی اور جب بارش نازل ہوئی تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں، خدا کی قسم! اگر مالی تنگی کا یہ دور ختم نہ ہوتا تو میں مسلمانوں کا کوئی ایک گھر بھی ایسا نہ چھوڑتا جس میں کھانا موجود ہو مگر یہ کہ اس کے افراد کو گن کر اتنے ہی ضرورت مندوں کو حکماً اس میں داخل کر دیتا (تاکہ وہ ان کے کھانوں میں شریک ہوں) کیونکہ ایک شخص کا کھانا دو کو ہلاک ہونے سے بچا لیتا ہے۔

اِسے امام بخاری نے ’الادب المفرد‘ میں روایت کیا ہے۔

مَا رُوِيَ عَنِ الْأَئِمَّۃِ مِنَ السَّلَفِ الصَّالِحِیْنَ

عَنِ الإِْمَامِ عَطَاءِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ، قَالَ: تَعَاهَدُوْا إِخْوَانَکُمْ بَعْدَ ثَـلَاثٍ۔ فَإِنْ کَانُوْا مَرْضٰی فَعُوْدُوْهُمْ، وَإِنْ کَانُوْا مَشَاغِیْلَ فَأَعِیْنُوْهُمْ، وَإِنْ کَانُوْا نَسُوْا فَذَکِّرُوْهُمْ.

رَوَاهُ أَبُوْ نُعَیْمٍ فِي الْحِلْیَۃِ۔

(1) أبو نعیم في حلیۃ الأولیاء، 5/ 198، والغزالي في إحیاء علوم الدین، 2/ 176۔

امام عطاء بن ابی رباح بیان کرتے ہیں کہ اپنے بھائیوں کی تین دن بعد ہمیشہ خبر گیری کیا کرو، اگر وہ بیمار ہوں تو اُن کی عیادت کرو، اگر وہ کسی کام میں مشغول ہوں تو اُن کی مدد کرو، اور اگر وہ (کوئی ضروری کام) بھول گئے ہوں تو اُنہیں یاد دلاؤ۔

اِسے امام ابو نعیم نے ’حلیۃ الأولیاء‘ میں روایت کیا ہے۔

عَنِ الإِْمَامِ أَبِي حَمْزَۃَ الشَّیْبَانِيِّ أَنَّہٗ سُئِلَ عَنِ الإِْخْوَانِ فِي ﷲِ سبحانہ وتعالیٰ: مَنْ هُمْ؟ قَالَ: هُمُ الْعَامِلُوْنَ بِطَاعَۃِ ﷲِ سبحانہ وتعالیٰ، اَلْمُتَعَاوِنُوْنَ عَلٰی أَمْرِ ﷲِ سبحانہ وتعالیٰ وَإِنْ تَفَرَّقَتْ دُوْرُهُمْ وَأَبْدَانُهُمْ.

رَوَاهُ ابْنُ أَبِي الدُّنْیَا فِي الإِخْوَانِ وَذَکَرَهُ ابْنُ قُدَامَۃَ فِي الْمُتَحَابِّیْنَ۔

(2) ابن أبي الدنیا في الإخوان/ 99، الرقم/ 49، وابن قدامۃ في المتحابین في اللہ/ 78، الرقم/ 104۔

امام ابو حمزہ شیبانی سے اللہ کی خاطر اُخوت رکھنے والوں کے بارے میں پوچھا گیا کہ وہ کون لوگ ہیں؟ اُنہوں نے فرمایا: وہ اللہ تعالیٰ کے اطاعت گزار بندے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے اَحکام پر عمل کرنے میں (اپنے بھائیوں کے) مدد گار ہیں، اگرچہ اُن کے گھر اور جسم ایک دوسرے سے دور ہی کیوں نہ ہوں۔

اِسے امام ابن ابی الدنیا نے ’الإخوان‘ میں روایت کیا ہے اور ابن قدامہ نے ’المتحابین في اللہ‘ میں بیان کیا ہے۔

قَالَ الإِمَامُ الْمَاوَرْدِيُّ: قَالَ بَعْضُ الْحُکَمَاءِ: مَنْ جَادَ لَکَ بِمَوَدَّتِہٖ، فَقَدْ جَعَلَکَ عَدِیْلَ نَفْسِہٖ۔ فَأَوَّلُ حُقُوْقِهِ اعْتِقَادُ مَوَدَّتِہٖ، ثُمَّ إِیْنَاسُہٗ بِالِْانْبِسَاطِ إِلَیْهِ فِي غَیْرِ مُحَرَّمٍ، ثُمَّ نُصْحُہٗ فِي السِّرِّ وَالْعَلَانِیَۃِ، ثُمَّ تَخْفِیْفُ الْأَثْقَالِ عَنْهُ، ثُمَّ مُعَاوَنَتُہٗ فِیْمَا یَنُوْبُہٗ مِنْ حَادِثَۃٍ، أَوْ یَنَالُہٗ مِنْ نَکْبَۃٍ۔ فَإِنَّ مُرَاقَبَتَہٗ فِي الظَّاهِرِ نِفَاقٌ، وَتَرْکَہٗ فِي الشِّدَّۃِ لُؤْمٌ.

(1) الماوردي في أدب الدنیا والدین/ 216۔

امام ماوردی فرماتے ہیں کہ بعض حکماء نے فرمایا: جو آپ کے ساتھ محبت و مودّت سے پیش آیا اُس نے آپ کو اپنا ہم نشین بنا لیا۔ اُس کا پہلا حق اُس کے اخلاص و محبت پر یقین کرنا ہے، پھر جائز اُمور میں اُسے دل کی وسعت اور کشادگی کے ساتھ اپنا اُنس و محبت مہیا کرنا ہے، پھر اُسے پوشیدہ اور اعلانیہ ہر حال میں نصیحت کرنا ہے، پھر اُس سے ہر قسم کے بوجھ کو دور کرنا ہے، پھر اُس سے مشکل یا مصیبت کو دور کرنے کے لیے اُس کی ہر ممکن مدد کرنا ہے، بے شک ظاہر میں اُس کی نگرانی کرنا منافقت ہے اور مشکل میں اُسے تنہا چھوڑ دینا (اور اس کی نگہبانی نہ کرنا) کم ظرفی ہے۔

قَضَاءُ حَوَائِجِ النَّاسِ

{لوگوں کی حاجت روائی}

اَلْقُرْآن

(1) وَ لَمَّا وَرَدَ مَآءَ مَدْیَنَ وَجَدَ عَلَیْهِ اُمَّةً مِّنَ النَّاسِ یَسْقُوْنَ ؗ۬ وَ وَجَدَ مِنْ دُوْنِهِمُ امْرَاَتَیْنِ تَذُوْدٰنِ ۚ قَالَ مَا خَطْبُكُمَا ؕ قَالَتَا لَا نَسْقِیْ حَتّٰی یُصْدِرَ الرِّعَآءُ ٚ وَ اَبُوْنَا شَیْخٌ كَبِیْرٌo فَسَقٰی لَھُمَا ثُمَّ تَوَلّٰی اِلَی الظِّلِّ فَقَالَ رَبِّ اِنِّیْ لِمَآ اَنْزَلْتَ اِلَيَّ مِنْ خَیْرٍ فَقِیْرٌo

(القصص، 28/ 23-24)

اور جب وہ مَدْیَن کے پانی (کے کنویں) پر پہنچے تو انہوں نے اس پر لوگوں کا ایک ہجوم پایا جو (اپنے جانوروں کو) پانی پلا رہے تھے اور ان سے الگ ایک جانب دو عورتیں دیکھیں جو (اپنی بکریوں کو) روکے ہوئے تھیں(موسیٰ e نے) فرمایا تم دونوں اس حال میں کیوں (کھڑی) ہو ؟ دونوں بولیں کہ ہم (اپنی بکریوں کو) پانی نہیں پلاسکتیں یہانتک کہ چرواہے (اپنے مویشیوں کو) واپس لے جائیں اور ہمارے والد عمر رسیدہ بزرگ ہیںo سو انہوں نے دونوں (کے ریوڑ)کو پانی پلا دیا پھر سایہ کی طرف پلٹ گئے اور عرض کیا: اے رب! میں ہر اس بھلائی کا جو تو میری طرف اُتارے محتاج ہوںo

(2) وَ فِیْٓ اَمْوَالِھِمْ حَقٌ لِّلسَّآئِلِ وَالْمَحْرُوْمِo

(الذاریات، 51/ 19)

اور اُن کے اموال میں سائل اور محروم (سب حاجت مندوں) کا حق مقرر تھاo

(3) مَاۤ اَفَآءَ اللّٰهُ عَلٰی رَسُوْلِهٖ مِنْ اَهْلِ الْقُرٰی فَلِلّٰهِ وَ لِلرَّسُوْلِ وَ لِذِی الْقُرْبٰی وَ الْیَتٰمٰی وَ الْمَسٰكِیْنِ وَ ابْنِ السَّبِیْلِ ۙ كَیْ لَا یَكُوْنَ دُوْلَةًۢ بَیْنَ الْاَغْنِیَآءِ مِنْكُمْ ؕ وَ مَاۤ اٰتٰىكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْهُ ۗ وَ مَا نَهٰىكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوْا ۚ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ ؕ اِنَّ اللّٰهَ شَدِیْدُ الْعِقَابِۘo لِلْفُقَرَآءِ الْمُهٰجِرِیْنَ الَّذِیْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِیَارِهِمْ وَ اَمْوَالِهِمْ یَبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللّٰهِ وَ رِضْوَانًا وَّ یَنْصُرُوْنَ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ ؕ اُولٰٓىِٕكَ هُمُ الصّٰدِقُوْنَۚo وَ الَّذِیْنَ تَبَوَّؤُ الدَّارَ وَ الْاِیْمَانَ مِنْ قَبْلِهِمْ یُحِبُّوْنَ مَنْ هَاجَرَ اِلَیْهِمْ وَ لَا یَجِدُوْنَ فِیْ صُدُوْرِهِمْ حَاجَةً مِّمَّاۤ اُوْتُوْا وَ یُؤْثِرُوْنَ عَلٰۤی اَنْفُسِهِمْ وَ لَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ ۫ؕ وَ مَنْ یُّوْقَ شُحَّ نَفْسِهٖ فَاُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَۚo

(الحشر، 59/ 7-9)

جو (اَموالِ فَے) اللہ نے (قُرَیظہ، نَضِیر، فِدَک، خَیبر، عُرَینہ سمیت دیگر بغیر جنگ کے مفتوحہ) بستیوں والوں سے (نکال کر) اپنے رسول (ﷺ) پر لوٹائے ہیں وہ اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) کے لیے ہیں اور (رسول ﷺ کے) قرابت داروں (یعنی بنو ہاشم اور بنو عبدالمطّلب) کے لیے اور (معاشرے کے عام) یتیموں اور محتاجوں اور مسافروں کے لیے ہیں (یہ نظامِ تقسیم اس لیے ہے) تاکہ (سارا مال صرف) تمہارے مالداروں کے درمیان ہی نہ گردش کرتا رہے (بلکہ معاشرے کے تمام طبقات میں گردش کرے) اور جو کچھ رسول (ﷺ) تمہیں عطا فرمائیں سو اُسے لے لیا کرو اور جس سے تمہیں منع فرمائیں سو (اُس سے) رُک جایا کرو، اور اللہ سے ڈرتے رہو (یعنی رسول ﷺ کی تقسیم و عطا پر کبھی زبانِ طعن نہ کھولو)، بے شک اللہ سخت عذاب دینے والا ہےo (مذکورہ بالا مالِ فَے) نادار مہاجرین کے لیے (بھی) ہے جو اپنے گھروں اور اپنے اموال (اور جائیدادوں) سے باہر نکال دیے گئے ہیں، وہ اللہ کا فضل اور اس کی رضاء و خوشنودی چاہتے ہیں اور (اپنے مال و وطن کی قربانی سے) اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) کی مدد کرتے ہیں، یہی لوگ ہی سچے مؤمن ہیںo (یہ مال اُن انصار کے لیے بھی ہے) جنہوں نے اُن (مہاجرین) سے پہلے ہی شہرِ (مدینہ) اور ایمان کو گھر بنالیا تھا۔ یہ لوگ اُن سے محبت کرتے ہیں جو اِن کی طرف ہجرت کر کے آئے ہیں۔ اور یہ اپنے سینوں میں اُس (مال) کی نسبت کوئی طلب (یا تنگی) نہیں پاتے جو اُن (مہاجرین) کو دیا جاتا ہے اور اپنی جانوں پر انہیں ترجیح دیتے ہیں اگرچہ خود اِنہیں شدید حاجت ہی ہو، اور جو شخص اپنے نفس کے بُخل سے بچالیا گیا پس وہی لوگ ہی با مراد و کامیاب ہیںo

اَلْحَدِیْث

54/ 48۔ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضی اللہ عنھما، أَنَّ رَسُوْلَ ﷲِ ﷺ قَالَ: الْمُسْلِمُ أَخُو الْمُسْلِمِ لَا یَظْلِمُہٗ وَلَا یُسْلِمُہٗ۔ مَنْ کَانَ فِي حَاجَۃِ أَخِیْهِ کَانَ اللهُ فِي حَاجَتِہٖ۔ وَمَنْ فَرَّجَ عَنْ مُسْلِمٍ کُرْبَۃً فَرَّجَ اللهُ عَنْهُ بِھَا کُرْبَۃً مِنْ کُرُبَاتِ یَوْمِ الْقِیَامَۃِ۔ وَمَنْ سَتَرَ مُسْلِمًا سَتَرَهُ اللهُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ۔

مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ۔

54: أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب المظالم، باب لا یظلم المسلم المسلم ولا یسلمہ، 2/ 862، الرقم/ 2310، ومسلم في الصحیح، کتاب البر والصلۃ والآداب، باب تحریم الظلم، 4/ 1996، الرقم/ 2580، وأحمد بن حنبل في المسند، 2/ 91، الرقم/ 46، وأبوداود في السنن، کتاب الأدب، باب المؤاخاۃ، 4/ 273، الرقم/ 4893، والترمذي في السنن، کتاب الحدود، باب ما جاء في الستر علی المسلم، 4/ 34، الرقم/ 1426، والنسائي في السنن الکبری، 4/ 308، الرقم/ 7286، وابن حبان في الصحیح، 2/ 291، الرقم/ 533۔

حضرت (عبد اللہ) بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے، نہ وہ اس پر ظلم کرتا ہے اور نہ اسے ظالم کے حوالے کرتا ہے (یعنی بے یار و مددگار نہیں چھوڑتا)۔ جو شخص اپنے کسی (مسلمان) بھائی کی حاجت روائی کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی حاجت روائی فرماتا ہے۔ جو شخص کسی مسلمان کی دنیاوی مشکل حل کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی قیامت کی مشکلات میں سے کوئی مشکل حل فرمائے گا اور جو شخص کسی مسلمان کی پردہ پوشی کرتا ہے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی ستر پوشی فرمائے گا۔

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

55/ 49۔ وَفِي رِوَایَۃٍ: عَنْ زَیْدِ بْنِ ثَابِتٍ رضی اللہ عنہ عَنْ رَسُوْلِ ﷲِ ﷺ قَالَ: لَا یَزَالُ اللهُ فِي حَاجَۃِ الْعَبْدِ مَا دَامَ فِي حَاجَۃِ أَخِیْهِ۔

رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَرِجَالُہٗ ثِقَاتٌ۔

55: أخرجہ الطبراني في المعجم الکبیر، 5/ 118، الرقم/ 4802، وذکرہ الھیثمي في مجمع الزوائد، 8/ 193، والعسقلاني في المطالب العالیۃ، 5/ 715۔

ایک روایت میں حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ اس وقت تک اپنے بندے کی حاجت روائی کرتا رہتا ہے جب تک بندہ اپنے (مسلمان) بھائی کی حاجت روائی میں (مصروف) رہتا ہے۔

اِسے امام طبرانی نے روایت کیا ہے اور اُن کے رجال ثقہ ہیں۔

56/ 50۔ وَفِي رِوَایَۃٍ: عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ رضی اللہ عنہ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: مَنْ رَدَّ عَنْ عِرْضِ أَخِیْهِ، رَدَّ اللهُ عَنْ وَجْهِهِ النَّارَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ۔

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالتِّرْمِذِيُّ، وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: وَفِي الْبَابِ عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ یَزِیْدَ رضی اللہ عنہا، وَھٰذَا حَدِیْثٌ حَسَنٌ۔

56: أخرجہ أحمد بن حنبل في المسند، 6/ 450، الرقم/ 27583، والترمذي في السنن، کتاب البر والصلۃ، باب ما جاء في الذب عن عرض المسلم، 4/ 327، الرقم/ 1931، والبیھقي في السنن الکبری، 8/ 168، الرقم/ 16461۔

ایک روایت میں حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جو شخص اپنے بھائی کی عزت کو بچائے گا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اُس کے چہرے کو آگ سے بچائے گا۔

اِسے امام احمد اور ترمذی نے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے فرمایا: اِس باب میں حضرت اسماء بنت یزید رضی اللہ عنہا سے بھی روایت مذکور ہے اور یہ حدیث حسن ہے۔

57/ 51۔ عَنْ أَنَسٍ رضی اللہ عنہ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ ﷲِ ﷺ: مَنْ مَشٰی إِلٰی حَاجَۃِ أَخِیْهِ الْمُسْلِمِ کَتَبَ اللهُ لَہٗ بِکُلِّ خُطْوَۃٍ یَخْطُوْھَا حَسَنَۃً إِلٰی أَنْ یَرْجِعَ مِنْ حَیْثُ فَارَقَہٗ، فَإِنْ قُضِیَتْ حَاجَتُہٗ خَرَجَ مِنْ ذُنُوْبِہٖ کَیَوْمِ وَلَدَتْهُ أُمُّہٗ، وَإِنْ ھَلَکَ فِیْمَا بَیْنَ ذٰلِکَ دَخَلَ الْجَنَّۃَ بِغَیْرِ حِسَابٍ۔

رَوَاهُ أَبُوْ یَعْلٰی۔

57: أخرجہ أبو یعلی في المسند، 5/ 175، الرقم/ 2789، وذکرہ ابن حجر العسقلاني في المطالب العالیۃ، 5/ 703، الرقم/ 978، والھیثمي في مجمع الزوائد، 8/ 190۔

حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو شخص اپنے مسلمان بھائی کے کام کے لیے جاتا ہے (یعنی اپنی جان کی پروا کیے بغیر دوڑ دھوپ کرتا ہے، مارچ کرتا ہے اور اَن تھک جد و جہد کرتا ہے تو) اللہ تعالیٰ اس کی واپسی تک اس کے ہر قدم کے بدلے ایک نیکی لکھ دیتا ہے یہاں تک کہ وہ اُس کے پاس واپس نہ لوٹ آئے۔ اگر اُس کے ہاتھوں اُس کا کام مکمل ہو جائے تو وہ اپنے گناہوں سے ایسے نکل جاتا ہے جیسے ماں کے پیٹ سے نکلنے کے دن تھا۔ اور اگر اس (جد و جہد اور march کے) دوران ہی وہ فوت ہو جائے تو بلا حساب جنت میں جائے گا۔

اِسے امام ابو یعلی نے روایت کیا ہے۔

58/ 52۔ عَنْ عَائِشَۃَ رضی اللہ عنھا قَالَتْ: قَالَ رَسُوْلُ ﷲِ ﷺ: مَنْ کَانَ وَصْلَۃً لِأَخِیْهِ الْمُسْلِمِ إِلٰی ذِي سُلْطَانٍ فِي مَبْلَغِ بِرٍّ أَوْ تَیْسِیْرِ عَسِیْرٍ، أَجَازَهُ اللهُ عَلٰی الصِّرَاطِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ عِنْدَ دَحْضِ الْأَقْدَامِ۔

رَوَاهُ ابْنُ حِبَّانَ وَالطَّبَرَانِيُّ۔

58: أخرجہ ابن حبان في الصحیح، 2/ 287، الرقم/ 530، والطبراني في مسند الشامیین، 1/ 307، الرقم/ 537، والقضاعي في مسند الشھاب، 1/ 316، الرقم/ 532، والبیھقي في السنن الکبری، 8/ 167، الرقم/ 16457، وذکرہ الھیثمي في موارد الظمآن، 1/ 505، الرقم/ 2069۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو شخص اپنے مسلمان بھائی کو کسی اچھے کام کے لیے حاکم تک پہنچائے یا اُس کی کوئی مشکل آسان کرنے کا وسیلہ بنے (یعنی لوگوں کے دکھ درد اور آلام و مصائب کا مداوا کرنے کے لیے فرماں روا کے سامنے مطالبات رکھے اور عامۃ الناس کے حقوق کی بحالی کے لیے جہد مسلسل کرے)، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن قدموں کے پھسلنے کے وقت اسے (پل) صراط سے محفوظ طریقے سے گزرنے کی توفیق و ہمت عطا فرمائے گا۔

اِسے امام ابن حبان اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔

59/ 53۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضی اللہ عنہما، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: مَنْ مَشٰی فِي حَاجَۃِ أَخِیْهِ کَانَ خَیْرًا لَہٗ مِنِ اعْتِکَافِ عَشْرِ سِنِیْنَ، وَمَنِ اعْتَکَفَ یَوْماً ابْتِغَائَ وَجْهِ ﷲِ جَعَلَ اللهُ بَیْنَہٗ وَبَیْنَ النَّارِ ثَـلَاثَۃَ خَنَادِقَ: کُلُّ خَنْدَقٍ أَبْعَدُ مِمَّا بَیْنَ الْخَافِقَیْنِ۔

رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ، وَقَالَ الْھَیْثَمِيُّ: إِسْنَادُہٗ جَیِّدٌ۔

59: أخرجہ الطبراني في المعجم الأوسط، 7/ 221، الرقم/ 7326، والبیہقي في شعب الإیمان، 3/ 424، الرقم/ 3965، وذکرہ المنذري في الترغیب والترھیب، 3/ 263، الرقم/ 3971، والھیثمي في مجمع الزوائد، 8/ 192۔

حضرت (عبد اللہ) بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جو شخص کسی (مسلمان) بھائی کے کام کے لیے چل کر گیا (یعنی مخلوقِ خدا کے حقوق کی بحالی کے لیے جلسہ و جلوس نکالا، mﷺrch کیا، دھرنا دیا اور حد درجہ مصائب و تکالیف برداشت کیں) تو یہ اس کے لیے دس سال تک اعتکاف کرنے سے بہتر ہے۔ اور جس نے اللہ کی رضا کے لیے ایک دن کا اعتکاف کیا تو اللہ تعالیٰ اُس بندے اور دوزخ کے درمیان تین خندقوں کا فاصلہ قائم فرما دیتا ہے، جن میں ہر خندق کا (دوسری سے) فاصلہ مشرق و مغرب کی درمیانی مسافت سے بھی زیادہ ہوتا ہے۔

اِسے امام طبرانی نے روایت کیا ہے، جب کہ ہیثمی نے کہا ہے: اس کی سند جید ہے۔

60/ 54۔ عَنْ عَبْدِ ﷲِ بْنِ عُمَرَ رضی اللہ عنھما، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ ﷲِ ﷺ: إِنَّ ِﷲِ خَلْقًا خَلَقَهُمْ لِحَوَائِجِ النَّاسِ۔ یَفْزَعُ النَّاسُ إِلَیْهِمْ فِي حَوَائِجِهِمْ۔ أُوْلٰئِکَ الْآمِنُوْنَ مِنْ عَذَابِ ﷲِ۔

رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَالْقُضَاعِيُّ۔

60: أخرجہ الطبراني في المعجم الکبیر، 12/ 358، الرقم/ 13334، والقضاعي في مسند الشھاب، 2/ 117، الرقم/ 1007-1008، وذکرہ المنذري في الترغیب والترھیب، 3/ 262، الرقم/ 3966، وقال: رواہ أبو الشیخ ابن حبان في کتاب الثواب وابن أبي الدنیا في کتاب اصطناع المعروف، والہیثمي في مجمع الزوائد، 8/ 192۔

حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کی ایک ایسی مخلوق بھی ہے جسے اس نے لوگوں کی حاجت روائی کے لیے پیدا فرمایا ہے۔ بندگانِ خدا اپنی حاجات (کی تکمیل کے لیے) حالتِ پریشانی میں اِن کے پاس آتے ہیں اور یہ (وہ لوگ ہیں جو) اللہ تعالیٰ کے عذاب سے محفوظ رہیں گے۔

اِسے امام طبرانی اور قضاعی نے روایت کیا ہے۔

61/ 55۔ وَفِي رِوَایَۃِ عَبْدِ ﷲِ بْنِ عُمَرَ رضی اللہ عنہما، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ ﷲِ ﷺ: إِنَّ ِﷲِ أَقْوَامًا اخْتَصَّهُمْ بِالنِّعَمِ لِمَنَافِعِ الْعِبَادِ، یُقِرُّهُمْ فِیْھَا مَا بَذَلُوْھَا، فَإِذَا مَنَعُوْھَا نَزَعَھَا عَنْهُمْ، فَحَوَّلَھَا إِلٰی غَیْرِهِمْ۔

رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَالْبَیْهَقِيُّ وَاللَّفْظُ لَہٗ۔

61: أخرجہ الطبراني في المعجم الأوسط، 5/ 228، الرقم/ 5162، والبیہقي في شعب الإیمان، 6/ 117، الرقم/ 7662۔

ایک روایت میں حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے کچھ بندے ایسے ہیں جنہیں اس نے خصوصی نعمتوں سے نواز رکھا ہے کیونکہ وہ اس کے بندوں کو فائدہ پہنچاتے رہتے ہیں۔ جب تک وہ ان کے کام آتے رہتے ہیں اللہ تعالیٰ وہ انعامات ان پر قائم رکھتا ہے اور جب وہ اس سے رُک جاتے ہیں تو وہ بھی اپنے انعامات ان سے واپس لے لیتا ہے اور انہیں ایسے لوگوں کی طرف منتقل کر دیتا ہے (جو اُس کی مخلوق کے لیے نفع بخش ہوتے ہیں)۔

اِسے امام طبرانی نے اور بیہقی نے مذکورہ الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے۔

62/ 56۔ وَفِي رِوَایَۃِ عَبْدِ ﷲِ بْنِ عَمْرٍو رضی اللہ عنہما، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ ﷲِ ﷺ: إِنَّ ِﷲِ عِنْدَ أَقْوَامٍ نِعَمًا، یُقِرُّھَا عِنْدَهُمْ مَا کَانُوا فِي حَوَائِجِ الْمُسْلِمِیْنَ مَا لَمْ یَمَلُّوْهُمْ، فَإِذَا مَلُّوْهُمْ نَقَلَھَا إِلٰی غَیْرِهِمْ۔

رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ۔

62: أخرجہ الطبراني في المعجم الأوسط، 8/ 186، الرقم/ 8350، وذکرہ الہیثمي في مجمع الزوائد، 8/ 192۔

ایک روایت میں حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کچھ لوگوں پر اللہ تعالیٰ کے انعامات ہیں اور وہ اُنہیں اس وقت تک ان پر برقرار رکھتا ہے جب تک وہ مسلمانوں کے کام آتے رہتے ہیں اور ان سے اُکتاتے نہیں۔ جب وہ اُن سے اُکتا جائیں تو اللہ تعالیٰ انہیں دوسروں کی طرف منتقل کر دیتا ہے (جو دوسروں کی حاجت روائی کرتے ہیں)۔

اِسے امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔

63/ 57۔ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ رضی اللہ عنہما، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: إِنَّ مِنْ وَاجِبِ الْمَغْفِرَۃِ إِدْخَالَکَ السُّرُوْرَ عَلٰی أَخِیْکَ الْمُسْلِمِ۔

رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَالْقُضَاعِيُّ۔

63: أخرجہ الطبراني في المعجم الأوسط، 8/ 153، الرقم/ 8245، وأیضًا في المعجم الکبیر، 3/ 85، الرقم/ 2738، والقضاعي في مسند الشھاب، 2/ 179، الرقم/ 1139، وأبو نعیم في حلیۃ الأولیائ، 7/ 90، وذکرہ المنذري في الترغیب والترھیب، 3/ 265، الرقم/ 3981۔

حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: تمہارا کسی مسلمان بھائی کے لیے خوشی کا موقع فراہم کرنا تمہیں مغفرت کا مستحق بنانے والے کاموں میں سے ہے۔

اِسے امام طبرانی اور قضاعی نے روایت کیا ہے۔

64/ 58۔ عَنْ عَائِشَۃَ رضی اللہ عنہا قَالَتْ: قَالَ رَسُوْلُ ﷲِ ﷺ: مَنْ أَدْخَلَ عَلٰی أَھْلِ بَیْتٍ مِنَ الْمُسْلِمِینَ سُرُوْرًا لَمْ یَرْضَ اللهُ لَہٗ ثَوَابًا دُوْنَ الْجَنَّۃِ۔

رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ۔

64: أخرجہ الطبراني في المعجم الأوسط، 7/ 289، الرقم/ 7519، وأیضًا في المعجم الصغیر، 2/ 132، الرقم/ 910، وذکرہ الھیثمي في مجمع الزوائد، 8/ 193، والمنذري في الترغیب والترھیب، 3/ 265، الرقم/ 3984۔

ایک روایت میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو شخص (رضاے اِلٰہی کے حصول کے لیے) کسی مسلمان گھرانے کو خوش کرتا ہے (یعنی ان کے حقوق کے لیے کوشش کرتا ہے، مصائب و آلام سے گزرتا ہے اور انتہائی جد و جہد کرتا رہتا ہے)، اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت سے کم کوئی اَجر پسند نہیں فرماتا۔

اِسے امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔

65/ 59۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضی اللہ عنہما، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ ﷲِ ﷺ: إِنَّ أَحَبَّ الْأَعْمَالِ إِلَی ﷲِ بَعْدَ الْفَرَائِضِ إِدْخَالُ السُّرُوْرِ عَلَی الْمُسْلِمِ۔

رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ۔

65: أخرجہ الطبراني في المعجم الکبیر، 11/ 71، الرقم/ 11079، وأیضًا في المعجم الأوسط، 8/ 45، الرقم/ 7911، وذکرہ الھیثمي في مجمع الزوائد، 8/ 193، والمنذري في الترغیب والترھیب، 3/ 265، الرقم/ 3983۔

ایک روایت میں حضرت (عبد اللہ) بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے نزدیک فرائض کے بعد سب سے افضل کام (اُس کی رضا کے لیے) کسی مسلمان کو خوش کرنا ہے (یعنی اُس کی مصیبتیں دور کرنا اور اُسے آرام و سکون پہنچانا)۔

اِسے امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔

66/ 60۔ وَفِي رِوَایَۃِ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ أَبِیْهِ عَنْ جَدِّہٖ رَفَعَہٗ، قَالَ: مَا مِنْ مُؤْمِنٍ أَدْخَلَ سُرُوْرًا إِلَّا خَلَقَ اللهُ مِنْ ذٰلِکَ السُّرُوْرِ مَلَکًا، یَعْبُدُ اللهَ وَیُمَجِّدُہٗ وَیُوَحِّدُہٗ۔ فَإِذَا صَارَ الْمُؤْمِنُ فِي لَحْدِہٖ، أَتَاهُ السُّرُوْرُ الَّذِي أَدْخَلَہٗ عَلَیْهِ فَیَقُوْلُ لَہٗ: أَمَا تَعْرِفُنِي؟ فَیَقُوْلُ لَہٗ: مَنْ أَنْتَ؟ فَیَقُوْلُ: أَنَا السُّرُوْرُ الَّذِي أَدْخَلْتَنِي عَلٰی فُـلَانٍ۔ أَنَا الْیَوْمُ أُوْنِسُ وَحْشَتَکَ، وَأُلَقِّنُکَ حُجَّتَکَ، وَأُثَبِّتُکَ بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ، وَأَشْهَدُ بِکَ مَشْهَدَ الْقِیَامَۃِ، وَأَشْفَعُ لَکَ مِنْ رَبِّکَ وَأُرِیْکَ مَنْزِلَتَکَ مِنَ الْجَنَّۃِ۔

رَوَاهُ ابْنُ أَبِي الدُّنْیَا۔

66: أخرجہ ابن أبي الدنیا في قضاء الحوائج/ 97، الرقم/ 115، وذکرہ الھندي في کنز العمال، 6/ 184، الرقم/ 16409۔

ایک روایت میں حضرت جعفر بن محمد بواسطہ اپنے والد اپنے دادا سے مرفوعاً روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب کوئی مومن (اللہ اور اُس کے رسول ﷺ کی خوش نودی کے لیے) کسی انسان کو خوش کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اُس خوشی سے ایک فرشتہ تخلیق فرما دیتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتا ہے، اُس کی بڑائی بیان کرتا ہے اور اُس کی توحید کا اظہار کرتا ہے۔ جب وہ مومن اپنی قبر میں پہنچ جاتا ہے تو وہ مسرت (بصورتِ فرشتہ) اُس کے پاس آتی ہے جو اُس نے کسی انسان کو پہنچائی تھی اور اُسے کہتی ہے: کیا تو مجھے جانتا ہے؟ وہ اُسے پوچھتا ہے: تم کون ہو؟ وہ فرشتہ کہتا ہے: میں وہ مسرت ہوں جو تم نے فلاں شخص کو پہنچائی تھی۔ آج میں تمہاری وحشت دور کروں گا، تمہیں تمہاری حجت تلقین کروں گا، قولِ ثابت کے ساتھ تمہیں ثابت قدم رکھوں گا، قیامت میں تمہاری گواہی دوں گا، تمہارے رب کی بارگاہ میں تمہاری سفارش کروں گا اور تمہیں جنت میں تمہارا مقام دکھاؤں گا۔

اِسے امام ابن ابی الدنیا نے روایت کیا ہے۔

67/ 61۔ عَنْ عَبْدِ ﷲِ بْنِ عُمَرَ رضی اللہ عنہما أَنَّ رَجُـلًا جَاءَ إِلَی النَّبِيِّ ﷺ فَقَالَ: یَا رَسُوْلَ ﷲِ، أَيُّ النَّاسِ أَحَبُّ إِلَی ﷲِ، أَيُّ الْأَعْمَالِ أَحَبُّ إِلَی ﷲِ؟ فَقَالَ رَسُوْلُ ﷲِ ﷺ: أَحَبُّ النَّاسِ إِلَی ﷲِ تَعَالٰی أَنْفَعُھُمْ لِلنَّاسِ، وَأَحَبُّ الْأَعْمَالِ إِلَی ﷲِ تَعَالٰی سُرُوْرٌ تُدْخِلُہٗ عَلٰی مُسْلِمٍ، أَوْ تَکْشِفُ عَنْهُ کُرْبَۃً، أَوْ تَقْضِي عَنْهُ دَیْنًا، أَوْ تَطْرُدُ عَنْهُ جُوْعًا، وَلَأَنْ أَمْشِيَ مَعَ أَخٍ فِي حَاجَۃٍ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ أَعْتَکِفَ فِي ھٰذَا الْمَسْجِدِ یَعْنِي مَسْجِدَ الْمَدِیْنَۃِ شَھْرًا، وَمَنْ کَفَّ غَضَبَہٗ سَتَرَ اللهُ عَوْرَتَہٗ، وَمَنْ کَظَمَ غَیْظَہٗ وَلَوْ شَائَ أَنْ یُمْضِیَہٗ أَمْضَاهُ مَـلَأَ اللهُ قَلْبَہٗ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ۔ وَمَنْ مَشٰی مَعَ أَخِیْهِ فِي حَاجَۃٍ حَتّٰی یَتَھَيَّأَ لَہٗ أَثْبَتَ اللهُ قَدَمَہٗ یَوْمَ تَزُوْلُ الْأَقْدَامُ۔

رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ۔

67: أخرجہ الطبراني في المعجم الکبیر، 12/ 453، الرقم/ 13646، وأیضًا في المعجم الأوسط، 6/ 139، الرقم/ 6026، وذکرہ المنذري في الترغیب والترھیب، 3/ 265، الرقم/ 3985، والھیثمي في مجمع الزوائد، 8/ 191۔

حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اورعرض کیا: یا رسول اللہ! لوگوں میں سے اللہ تعالیٰ کے ہاں سب سے پسندیدہ شخص کون ہے اور اَعمال میں سے سب سے پسندیدہ عمل کون سا ہے؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے ہاں سب سے پسندیدہ شخص وہ ہے جو لوگوں کے لیے زیادہ نفع بخش ہے اور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں پسندیدہ ترین عمل تمہارا کسی مسلمان کو خوش کرنا، اس کی تکلیف دور کرنا یا اُس کا قرضہ ادا کرنا یا اُس کی بھوک کو مٹانا ہے۔ ایک مسلمان بھائی کی حاجت روائی کے لیے اُس کے ساتھ جانا مجھے اِس مسجد (یعنی مسجد نبوی) میں ایک مہینہ اعتکاف کرنے سے زیادہ پسند ہے۔ جس نے اپنے غصے کو روکا اللہ تعالیٰ اُس کی عزت کی حفاظت فرمائے گا، جو شخص طاقت ہونے کے باوجود غصہ پی جائے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اُس کا دل (خوشی و مسرت سے) باغ باغ کر دے گا اور جو شخص اپنے (مسلمان) بھائی کے کام کی خاطر اُس کے ساتھ چل کر جائے حتیٰ کہ اُسے پورا کر دے تو اللہ تعالیٰ اُس دن اُس کے قدم مضبوط رکھے گا جس دن (یعنی روزِ قیامت کو) قدم (پل صراط سے) پھسل رہے ہوں گے۔

اِسے امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔

68/ 62۔ وَفِي رِوَایَۃِ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی اللہ عنہ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ ﷲِ ﷺ: مَنْ قَضٰی لِأَخِیْهِ الْمُسْلِمِ حَاجَۃً کَانَ بِمَنْزِلَۃِ مَنْ خَدَمَ اللهَ عُمْرَہٗ۔

رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَالْبُخَارِيُّ فِي التَّارِیْخِ۔

68: أخرجہ الطبراني في مسند الشامیین، 3/ 196، الرقم/ 2068، والبخاري في التاریخ الکبیر، 8/ 43، الرقم/ 2089، والخطیب البغدادي في تاریخ بغداد، 3/ 114، الرقم/ 1124۔

ایک روایت میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس نے اپنے مسلمان بھائی کی حاجت روائی کی گویا اُس نے اللہ تعالیٰ کی خدمت میں اپنی پوری زندگی صرف کردی (یعنی پوری زندگی اللہ تعالیٰ کے دین کی خدمت و نصرت میں لگا دی)۔

اِسے امام طبرانی نے اور بخاری نے ’التاریخ الکبیر‘ میں روایت کیا ہے۔

69/ 63۔ وَفِي رِوَایَۃٍ عَنْهُ رضی اللہ عنہ، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ ﷲِ ﷺ: مَنْ أَلْطَفَ مُؤْمِنًا أَوْ قَامَ لَہٗ بِحَاجَۃٍ مِنْ حَوَائِجِ الدُّنْیَا وَالآخِرَۃِ، صَغُرَ ذَاکَ أَوْ کَبُرَ، کَانَ حَقًّا عَلٰی ﷲِ أَنْ یُخْدِمَہٗ خَادِمًا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ۔

رَوَاهُ ابْنُ أَبِي الدُّنْیَا۔

69: أخرجہ ابن أبي الدنیا في قضاء الحوائج/ 54، الرقم/ 46۔

ایک اور روایت میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس نے اپنے مسلمان بھائی پر شفقت کی یا اُس کی کوئی دُنیاوی یا اُخروی حاجت پوری کی - خواہ چھوٹی تھی یا بڑی - اللہ تعالیٰ کے ذمۂ کرم پر ہے کہ اُسے روزِ قیامت ایک خادمِ خاص عطا فرمائے۔

اِسے امام ابن ابی الدنیا نے روایت کیا ہے۔

مَا رُوِيَ عَنِ الْأَئِمَّۃِ مِنَ السَّلَفِ الصَّالِحِیْنَ

عَنِ الإِمَامِ مَالِکِ بْنِ دِیْنَارٍ، قَالَ: بَعَثَ الْحَسَنُ مُحَمَّدَ بْنَ نُوْحٍ وَحُمَیْدَ الطَّوِیْلَ فِي حَاجَۃٍ لِأَخِیْهِ، فَقَالَ: مُرُوْا ثَابِتَ الْبُنَانِيَّ فَأَشْخَصُوْا بِہٖ مَعَکُمْ۔ فَقَالَ لَهُمْ ثَابِتٌ: إِنِّي مُعْتَکِفٌ۔ فَرَجَعَ حُمَیْدٌ إِلَی الْحَسَنِ فَأَخْبَرَہٗ بِالَّذِي قَالَ ثَابِتٌ۔ فَقَالَ لَهُ: ارْجِعْ إِلَیْهِ فَقُلْ لَہٗ: یَا عَمِیْشُ، أَمَا تَعْلَمُ أَنَّ مَشْیَکَ فِي حَاجَۃِ أَخِیْکَ خَیْرٌ لَکَ مِنْ حَجَّۃٍ بَعْدَ حَجَّۃٍ؟

رَوَاهُ ابْنُ أَبِي الدُّنْیَا فِي قَضَاءِ الْحَوَائِجِ وَذَکَرَهُ ابْنُ رَجَبٍ فِي الْجَامِعِ۔

(1) ابن أبي الدنیا في قضاء الحوائج/ 89، الرقم/ 103، وابن رجب الحنبلي في جامع العلوم والحکم، 1/ 341۔

امام مالک بن دینار سے روایت ہے کہ امام حسن بصری نے محمد بن نُوْح اور حُمیَد الطویل کو کسی مسلمان بھائی کی حاجت روائی کے لیے بھیجا اور اُنہیں فرمایا کہ ثابت بنانی کے پاس جاؤ اور اُسے بھی اپنے ساتھ شامل کر لو۔ حضرت ثابت نے اُنہیں (جواباً) کہا: میں (نفلی) اعتکاف میں ہوں۔ حضرت حُمید، امام حسن بصری کے پاس واپس آئے اور اُنہیں حضرت ثابت کے جواب سے مطلع فرمایا۔ امام حسن بصری نے فرمایا: اُس کے پاس واپس جاؤ اور اُسے کہو: اے عمیش! کیا تم نہیں جانتے کہ کسی بھائی کی حاجت روائی کے لیے تمہارا چل کر جانا (یعنی جد و جہد کرنا، جلسہ و ریلی اور مارچ میں شرکت کرنا)، تمہارے لیے یکے بعد دیگرے مسلسل حج کرنے سے بہتر ہے (اور تم اعتکاف کی بات کر رہے ہو)؟

اِسے امام ابن ابی الدنیا نے ’قضاء الحوائج‘ میں اور ابن رجب حنبلی نے ’جامع العلوم والحکم‘ میں روایت کیا ہے۔

عَنِ الدَّاوَرْدِيِّ قَالَ: قِیْلَ لِمُعَاوِیَۃَ بْنِ عَبْدِ ﷲِ بْنِ جَعْفَرٍ: مَا بَلَغَ مِنْ کَرَمِ عَبْدِ ﷲِ بْنِ جَعْفَرٍ؟ قَالَ: کَانَ لَیْسَ لَہٗ مَالٌ دُوْنَ النَّاسِ۔ ھُوَ وَالنَّاسُ فِي مَالِہٖ شُرَکَاءُ۔ مَنْ سَأَلَہٗ شَیْئًا أَعْطَاهُ، وَمَنِ اسْتَمْنَحَہٗ شَیْئًا مَنَحَہٗ يَّاهُ، لَا یَرٰی أَنَّہٗ یَفْتَقِرُ فَیَقْتَصِرُ، وَلَا یَرٰی أَنَّہٗ یَحْتَاجُ فَیَدَّخِرُ.

رَوَاهُ ابْنُ أَبِي الدُّنْیَا فِي قَضَاءِ الْحَوَائِجِ۔

(2) ابن أبي الدنیا في قضاء الحوائج/ 60، الرقم/ 59۔

حضرت داوردی بیان کرتے ہیں کہ حضرت معاویہ بن عبد اللہ بن جعفر سے پوچھا گیا: عبد اللہ بن جعفر کی سخاوت کا کیا عالم تھا؟ آپ نے فرمایا: اُن کا کوئی مال لوگوں سے پوشیدہ نہ تھا۔ گویا لوگ اُن کے مال میں شریک تھے۔ جو کوئی اُن سے کسی چیز کا سوال کرتا وہ عطا کر دیتے، طلب گار کی ہر طلب پوری کر دیتے، فقر کے ڈر سے کبھی بخل نہیں کرتے تھے اور نہ ہی محتاجی کے ڈر سے ذخیرہ اندوزی کرتے تھے۔

اِسے امام ابن ابی الدنیا نے ’قضاء الحوائج‘ میں روایت کیا ہے۔

عَنِ الإِمَامِ أَسْمَاءَ بْنِ خَارِجَۃَ (ھُوَ التَّابِعِيُّ وَسَمِعَ عَنْ عَلِيٍّ رضی اللہ عنہ وَعَبْدِ ﷲِ بْنِ مَسْعُوْدٍ رضی اللہ عنہ وَغَیْرِھِمَا) قَالَ: مَا شَتَمْتُ أَحَدًا قَطُّ وَلَا رَدَدْتُ سَائِلًا قَطُّ.

رَوَاهُ ابْنُ أَبِي الدُّنْیَا فِي قَضَاءِ الْحَوَائِجِ۔

(1) ابن أبي الدنیا في قضاء الحوائج/ 61، الرقم/ 61۔

حضرت اسماء بن خارجہ (جو کہ جلیل القدر تابعی تھے اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے شاگرد تھے) بیان کرتے ہیں: میں نے کبھی کسی کو گالی نہیں دی اور نہ ہی کسی حاجت مند کو خالی ہاتھ لوٹایا ہے۔

اِسے امام ابن ابی الدنیا نے ’قضاء الحوائج‘ میں روایت کیا ہے۔

عَنِ الإِمَامِ مُحَمَّدِ بْنِ وَاسِعٍ: مَا رَدَدْتُ أَحَدًا عَنْ حَاجَۃٍ أَقْدِرُ عَلٰی قَضَائِھَا وَلَوْ کَانَ فِیْھَا ذَھَابُ مَالِي.

رَوَاهُ ابْنُ أَبِي الدُّنْیَا فِي قَضَاءِ الْحَوَائِجِ۔

(2) ابن أبي الدنیا في قضاء الحوائج/ 64، الرقم/ 67۔

امام محمد بن واسع بیان کرتے ہیں کہ جس شخص کی حاجت روائی پر میں قادر ہوں اُسے میں نے کبھی خالی ہاتھ واپس نہیں لوٹایا، چاہے اُس کی حاجت روائی میں میرا سارا مال ہی کیوں نہ خرچ ہو جائے۔

اِسے امام ابن ابی الدنیا نے ’قضاء الحوائج‘ میں روایت کیا ہے۔

قَالَ الإِمَامُ أَبُوْ جَعْفَرِ بْنُ صُہْبَانَ: کَانَ یُقَالُ: أَوَّلُ الْمَوَدَّۃِ: طَلَاقَةُ الْوَجْهِ، وَالثَّانِیَةُ: التَّوَدُّدُ، وَالثَّالِثَةُ: قَضَاءُ حَوَائِجِ النَّاسِ.

رَوَاهُ ابْنُ أَبِي الدُّنْیَا فِي الإِخْوَانِ۔

(1) ابن أبي الدنیا في الإخوان/ 191، الرقم/ 138۔

امام ابو جعفر بن صہبان بیان کرتے ہیں: (سلف صالحین کے زمانے میں) یہ کہا جاتا تھا: مودت کی پہلی نشانی خندہ روئی (یعنی مسکراتے چہرے سے ملنا) ہے، دوسری نشانی (اللہ کی مخلوق سے) محبت و الفت ہے اور تیسری نشانی لوگوں کی حاجات کو پورا کرنا ہے۔

اِسے امام ابن ابی الدنیا نے ’الإخوان‘ میں روایت کیا ہے۔

إِطْعَامُ الطَّعَامِ

{کھانا کھلانا}

اَلْقُرْآن

(1) لَا یُؤَاخِذُكُمُ اللّٰهُ بِاللَّغْوِ فِیْۤ اَیْمَانِكُمْ وَ لٰكِنْ یُّؤَاخِذُكُمْ بِمَا عَقَّدْتُّمُ الْاَیْمَانَ ۚ فَكَفَّارَتُهٗۤ اِطْعَامُ عَشَرَةِ مَسٰكِیْنَ مِنْ اَوْسَطِ مَا تُطْعِمُوْنَ اَهْلِیْكُمْ اَوْ كِسْوَتُهُمْ اَوْ تَحْرِیْرُ رَقَبَةٍ ؕ فَمَنْ لَّمْ یَجِدْ فَصِیَامُ ثَلٰثَةِ يَّامٍ ؕ ذٰلِكَ كَفَّارَةُ اَیْمَانِكُمْ اِذَا حَلَفْتُمْ ؕ وَ احْفَظُوْۤا اَیْمَانَكُمْ ؕ كَذٰلِكَ یُبَیِّنُ اللّٰهُ لَكُمْ اٰیٰتِهٖ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَo

(المائدۃ، 5/ 89)

اللہ تمہاری بے مقصد (اور غیر سنجیدہ) قَسموں میں تمہاری گرفت نہیں فرماتا لیکن تمہاری ان (سنجیدہ) قسموں پر گرفت فرماتا ہے جنہیں تم (ارادی طور پر) مضبوط کر لو، (اگر تم ایسی قَسم کو توڑ ڈالو) تو اس کا کفّارہ دس مسکینوں کو اوسط (درجہ کا) کھانا کھلانا ہے جو تم اپنے گھر والوں کو کھلاتے ہو یا (اسی طرح) ان (مسکینوں) کو کپڑے دینا ہے یا ایک گردن (یعنی غلام یا باندی کو) آزاد کرنا ہے، پھر جسے (یہ سب کچھ) میسّر نہ ہو تو تین دن روزہ رکھنا ہے۔ یہ تمہاری قسموں کا کفّارہ ہے جب تم کھا لو (اور پھر توڑ بیٹھو) اور اپنی قسموں کی حفاظت کیا کرو، اسی طرح اللہ تمہارے لیے اپنی آیتیں خوب واضح فرماتا ہے تاکہ تم (اس کے احکام کی اطاعت کر کے) شکر گزار بن جائوo

(2) وَالْبُدْنَ جَعَلْنٰـھَا لَکُمْ مِّنْ شَعَآئِرِ ﷲِ لَکُمْ فِیْھَا خَیْرٌ فَاذْکُرُوا اسْمَ ﷲِ عَلَیْھَا صَوَآفَّج فَاِذَا وَجَبَتْ جُنُوْبُھَا فَکُلُوْا مِنْھَا وَاَطْعِمُوا الْقَانِعَ وَالْمُعْتَرَّط کَذٰلِکَ سَخَّرْنٰـھَا لَکُمْ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَo

(الحج، 22/ 36)

اور قربانی کے بڑے جانوروں (یعنی اونٹ اور گائے وغیرہ) کو ہم نے تمہارے لیے اللہ کی نشانیوں میں سے بنا دیا ہے ان میں تمہارے لیے بھلائی ہے پس تم (انہیں) قطار میں کھڑا کرکے (نیزہ مار کر نحر کے وقت) ان پر اللہ کا نام لو، پھر جب وہ اپنے پہلو کے بل گر جائیں تو تم خود (بھی) اس میں سے کھاؤ اور قناعت سے بیٹھے رہنے والوں کو اور سوال کرنے والے (محتاجوں) کو (بھی) کھلاؤ۔ اس طرح ہم نے انہیں تمہارے تابع کر دیا ہے تاکہ تم شکر بجا لاؤo

(3) فَمَنْ لَّمْ یَجِدْ فَصِیَامُ شَهْرَیْنِ مُتَتَابِعَیْنِ مِنْ قَبْلِ اَنْ يَّتَمَآسَّا ۚ فَمَنْ لَّمْ یَسْتَطِعْ فَاِطْعَامُ سِتِّیْنَ مِسْكِیْنًا ؕ ذٰلِكَ لِتُؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ ؕ وَ تِلْكَ حُدُوْدُ اللّٰهِ ؕ وَ لِلْكٰفِرِیْنَ عَذَابٌ اَلِیْمٌo

(المجادلۃ، 58/ 4)

پھر جسے (غلام یا باندی) میسّر نہ ہو تو دو ماہ متواتر روزے رکھنا (لازم ہے) قبل اِس کے کہ وہ ایک دوسرے کو مَس کریں، پھر جو شخص اِس کی (بھی) طاقت نہ رکھے تو ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانا (لازم ہے)، یہ اِس لیے کہ تم اللہ اور اُس کے رسول (ﷺ) پر ایمان رکھو۔ اور یہ اللہ کی (مقرر کردہ) حدود ہیں، اور کافروں کے لیے دردناک عذاب ہےo

(4) وَیُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰی حُبِّہٖ مِسْکِیْنًا وَّیَتِیْمًا وَّاَسِیْرًاo اِنَّمَا نُطْعِمُکُمْ لِوَجْهِ ﷲِ لَا نُرِیْدُ مِنْکُمْ جَزَآءً وَّلَا شُکُوْرًاo

(الدھر، 76/ 8-9)

اور (اپنا) کھانا اللہ کی محبت میں (خود اس کی طلب و حاجت ہونے کے باوُجود اِیثاراً) محتاج کو اوریتیم کو اور قیدی کو کھلا دیتے ہیںo (اور کہتے ہیں کہ) ہم تو محض اللہ کی رضا کے لیے تمہیں کھلا رہے ہیں، نہ تم سے کسی بدلہ کے خواست گار ہیں اور نہ شکرگزاری کے (خواہش مند) ہیںo

(5) فَـلَا اقْتَحَمَ الْعَقَبَۃَo وَمَآ اَدْرٰ کَ مَا الْعَقَبَةُo فَکُّ رَقَبَۃٍo اَوْ اِطْعٰـمٌ فِیْ یَوْمٍ ذِیْ مَسْغَبَۃٍo يَّتِیْمًا ذَا مَقْرَبَۃٍo اَوْ مِسْکِیْنًا ذَا مَتْرَبَۃٍo

(البلد، 90/ 11-16)

وہ تو (دینِ حق اور عملِ خیر کی) دشوار گزار گھاٹی میں داخل ہی نہیں ہواo اور آپ کیا سمجھے ہیں کہ وہ (دینِ حق کے مجاہدہ کی) گھاٹی کیا ہےo وہ (غلامی و محکومی کی زندگی سے) کسی گردن کا آزاد کرانا ہےo یا بھوک والے دن (یعنی قحط و اَفلاس کے دور میں غریبوں اور محروم المعیشت لوگوں کو) کھانا کھلانا ہے (یعنی ان کے معاشی تعطل اور ابتلاء کو ختم کرنے کی جدوجہد کرنا ہے)o قرابت دار یتیم کوo یا شدید غربت کے مارے ہوئے محتاج کو جو محض خاک نشین (اور بے گھر) ہےo

اَلْحَدِیْث

70/ 64۔ عَنْ عَبْدِ ﷲِ بْنِ عَمْرٍو رضی اللہ عنہما، أَنَّ رَجُلًا سَأَلَ النَّبِيَّ ﷺ: أَيُّ الْإِسْلَامِ خَیْرٌ؟ قَالَ: تُطْعِمُ الطَّعَامَ، وَتَقْرَأُ السَّلَامَ عَلٰی مَنْ عَرَفْتَ وَمَنْ لَمْ تَعْرِفْ۔

مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ۔

70: أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب الإیمان، باب إطعام الطعام من الإسلام، 1/ 13، الرقم/ 12، ومسلم في الصحیح، کتاب الإیمان، باب بیان تفاضل الإسلام ونصف أمورہ أفضل، 1/ 65، الرقم/ 39، وأبو داود في السنن، کتاب الأدب، باب في إفشاء السلام، 4/ 350، الرقم/ 5194، والنسائي في السنن، کتاب الإیمان وشرائعہ، باب أي الإسلام خیر، 6/ 107، الرقم/ 5000، وابن ماجہ في السنن، کتاب الأطعمۃ، 2/ 1083، الرقم/ 3253، وابن حبان في الصحیح، 2/ 258، الرقم/ 505۔

حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے حضور نبی اکرم ﷺ سے عرض کیا: اسلام کا کون سا عمل بہتر ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: تم کھانا کھلاؤ اور ہر ایک کو سلام کرو خواہ تم اسے جانتے ہو یا نہ جانتے ہو۔

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

71/ 65۔ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی اللہ عنہ قَالَ: قَالَ رَسُولُ ﷲِ ﷺ: مَا مِنْ مُسْلِمٍ یَغْرِسُ غَرْسًا أَوْ یَزْرَعُ زَرْعًا، فَیَأْکُلُ مِنْهُ طَیْرٌ، أَوْ إِنْسَانٌ، أَوْ بَهِیمَۃٌ، إِلَّا کَانَ لَہٗ بِہٖ صَدَقَۃٌ۔

مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ۔

71: أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب المزارعۃ، باب فضل الزرع والغرس إذا أکل منہ، 2/ 817، الرقم/ 2195، ومسلم في الصحیح، کتاب المساقاۃ، باب فضل الغرس والزرع، 3/ 1189، الرقم/ 1553۔

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو بھی مسلمان کوئی پودا اُگاتا ہے یا کھیتی باڑی کرتا ہے اور اس میں سے پرندے، انسان یا مویشی کھاتے ہیں تو وہ اس کے حق میں صدقہ شمار ہوتا ہے۔

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

72/ 66۔ عَنْ جَابِرٍ رضی اللہ عنہ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ ﷲِ ﷺ: مَا مِنْ مُسْلِمٍ یَغْرِسُ غَرْسًا إِلَّا کَانَ مَا أُکِلَ مِنْهُ لَہٗ صَدَقَۃً، وَمَا سُرِقَ مِنْهُ لَہٗ صَدَقَۃٌ، وَمَا أَکَلَ السَّبُعُ مِنْهُ فَھُوَ لَہٗ صَدَقَۃٌ، وَمَا أَکَلَتِ الطَّیْرُ فَھُوَ لَہٗ صَدَقَۃٌ، وَلَا یَرْزَؤُہٗ أَحَدٌ إِلَّا کَانَ لَہٗ صَدَقَۃٌ۔

وَفِي رِوَایَۃٍ قَالَ: کَانَ لَہٗ صَدَقَۃً إِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ۔

رَوَاهُ مُسْلِمٌ۔

72: أخرجہ مسلم في الصحیح، کتاب المساقاۃ، باب فضل الغرس والزرع، 3/ 1188، الرقم/ 1552۔

حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو مسلمان کوئی پودا اُگاتا ہے تو اس میں سے جو کچھ کھایا جائے وہ اس کی طرف سے صدقہ ہوتا ہے، جو کچھ اس سے چوری ہو وہ بھی اس کی طرف سے صدقہ ہوتا ہے، اور اس میں سے جو درندے کھائیں وہ بھی اس کے لیے صدقہ ہوتا ہے، اور جو کچھ پرندے کھائیں وہ بھی اس کے لیے صدقہ ہوتا ہے۔ سو اس طرح جس شخص کا مال جتنا بھی کم ہوگا یا کھایا جائے گا وہ اس کا صدقہ شمار ہوگا (کیونکہ اس سے انسانوں، جانوروں اور پرندوں کو فائدہ پہنچا ہے)۔

اور ایک روایت میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: وہ قیامت کے دن تک اس کے لیے صدقہ ہو گا۔

اِسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔

73/ 67۔ عَنْ عَبْدِ ﷲِ بْنِ عَمْرٍو رضی اللہ عنہما، قَالَ: قَالَ رَسُولُ ﷲِ ﷺ: اعْبُدُوا الرَّحْمٰنَ، وَأَطْعِمُوا الطَّعَامَ، وَأَفْشُوا السَّلَامَ، تَدْخُلُوا الْجَنَّۃَ بِسَلَامٍ۔

رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ، وَقَالَ: ھٰذَا حَدِیْثٌ حَسَنٌ صَحِیْحٌ۔

73: أخرجہ الترمذي في السنن، کتاب الأطعمۃ، باب ما جاء في فضل إطعام الطعام، 4/ 287، الرقم/ 1855، وعبد بن حمید في المسند، 1/ 139، الرقم/ 355۔

حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ربِّ رحمن کی عبادت کرو، (مخلوقِ خدا کو) کھانا کھلائو اور سلام کرنے کو رواج دو، تم سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہو جائو گے۔

اسے امام ترمذی نے روایت کرتے ہوئے کہا: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

إِکْسَاءُ الْفَقِیْرِ

{فقیر کو لباس پہنانا}

اَلْقُرْآن

لَا یُؤَاخِذُكُمُ اللّٰهُ بِاللَّغْوِ فِیْۤ اَیْمَانِكُمْ وَ لٰكِنْ یُّؤَاخِذُكُمْ بِمَا عَقَّدْتُّمُ الْاَیْمَانَ ۚ فَكَفَّارَتُهٗۤ اِطْعَامُ عَشَرَةِ مَسٰكِیْنَ مِنْ اَوْسَطِ مَا تُطْعِمُوْنَ اَهْلِیْكُمْ اَوْ كِسْوَتُهُمْ اَوْ تَحْرِیْرُ رَقَبَةٍ ؕ فَمَنْ لَّمْ یَجِدْ فَصِیَامُ ثَلٰثَةِ ايَّامٍ ؕ ذٰلِكَ كَفَّارَةُ اَیْمَانِكُمْ اِذَا حَلَفْتُمْ ؕ وَ احْفَظُوْۤا اَیْمَانَكُمْ ؕ كَذٰلِكَ یُبَیِّنُ اللّٰهُ لَكُمْ اٰیٰتِهٖ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَo

(المائدۃ، 5/ 89)

اللہ تمہاری بے مقصد (اور غیر سنجیدہ) قَسموں میں تمہاری گرفت نہیں فرماتا لیکن تمہاری ان (سنجیدہ) قسموں پر گرفت فرماتا ہے جنہیں تم (ارادی طور پر) مضبوط کر لو، (اگر تم ایسی قَسم کو توڑ ڈالو) تو اس کا کفّارہ دس مسکینوں کو اوسط (درجہ کا) کھانا کھلانا ہے جو تم اپنے گھر والوں کو کھلاتے ہو یا (اسی طرح) ان (مسکینوں) کو کپڑے دینا ہے یا ایک گردن (یعنی غلام یا باندی کو) آزاد کرنا ہے، پھر جسے (یہ سب کچھ) میسّر نہ ہو تو تین دن روزہ رکھنا ہے۔ یہ تمہاری قسموں کا کفّارہ ہے جب تم کھا لو (اور پھر توڑ بیٹھو) اور اپنی قسموں کی حفاظت کیا کرو، اسی طرح اللہ تمہارے لیے اپنی آیتیں خوب واضح فرماتا ہے تاکہ تم (اس کے احکام کی اطاعت کر کے) شکر گزار بن جائوo

اَلْحَدِیْث

74/ 68۔ عَنْ أَبِي سَعِیْدٍ الْخُدْرِيِّ رضی اللہ عنہ، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ ﷲِ ﷺ: أَیُّمَا مُؤْمِنٍ أَطْعَمَ مُؤْمِنًا عَلٰی جُوْعٍ، أَطْعَمَهُ اللهُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ مِنْ ثِمَارِ الْجَنَّۃِ، وَأَیُّمَا مُؤْمِنٍ سَقٰی مُؤْمِنًا عَلٰی ظَمَأٍ، سَقَاهُ اللهُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ مِنَ الرَّحِیْقِ الْمَخْتُوْمِ، وَأَیُّمَا مُؤْمِنٍ کَسَا مُؤْمِنًا عَلٰی عُرْيٍ، کَسَاهُ اللهُ مِنْ خُضْرِ الْجَنَّۃِ۔

رَوَاهُ أَبُوْ دَاوٗدَ وَالتِّرْمِذِيُّ وَاللَّفْظُ لَہٗ۔

74: أخرجہ أبو داود في السنن، کتاب الزکاۃ، باب في فضل سقي المائ، 2/ 130، الرقم/ 1682، والترمذي في السنن، کتاب صفۃ القیامۃ والرقائق والورع، باب 8، 4/ 633، الرقم/ 2449۔

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو مومن کسی دوسرے مومن کو بھوک کی حالت میں کھانا کھلائے گا، اللہ تعالیٰ اسے قیامت کے دن جنت کے پھلوں میں سے کھلائے گا۔ جو مومن کسی دوسرے مومن کو پیاس کی حالت میں پانی پلائے گا، اللہ تعالیٰ اسے قیامت کے دن رحیق مختوم (سر بہ مہر شرابِ طہور) پلائے گا، اور جو مومن کسی بے لباس مومن کو لباس پہنائے گا تو اللہ تعالیٰ اسے جنت کا سبز لباس پہنائے گا۔

اِسے امام ابوداؤد اور ترمذی نے روایت کیا ہے، مذکورہ الفاظ ترمذی کے ہیں۔

75/ 69۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضی اللہ عنہما، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ ﷲِ ﷺ یَقُوْلُ: مَا مِنْ مُسْلِمٍ کَسَا مُسْلِمًا ثَوْبًا إِلَّا کَانَ فِي حِفْظٍ مِنَ ﷲِ مَا دَامَ مِنْهُ عَلَیْهِ خِرْقَۃٌ۔

رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالطَّبَرَانِيُّ۔

75: أخرجہ الترمذي في السنن، کتاب صفۃ القیامۃ، باب 41، 4/ 651، الرقم/ 2484، والطبراني في المعجم الکبیر، 12/ 97، الرقم/ 12591۔

حضرت (عبد اللہ) بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: جو مسلمان کسی مسلمان کو لباس پہنائے گا، وہ اس وقت تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے حفاظت میں رہے گا جب تک پہننے والے پر اس کپڑے کا ایک ٹکڑا بھی باقی رہا۔

اِسے امام ترمذی اور طبرانی نے روایت کیاہے۔

76/ 70۔ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رضی اللہ عنہ قَالَ: سُئِلَ رَسُوْلُ ﷲِ ﷺ: أَيُّ الْأَعْمَالِ أَفْضَلُ؟ قَالَ: إِدْخَالَُکَ السُّرُوْرَ عَلٰی مُؤْمِنٍ أَشْبَعْتَ جَوْعَتَہٗ، أَوْ کَسَوْتَ عُرْیَہٗ أَوْ قَضَیْتَ لَـہٗ حَاجَۃً۔

رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ۔

76: أخرجہ الطبراني في المعجم الأوسط، 5/ 202، الرقم/ 5081۔

حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا گیا: اعمال میں سے کون سا عمل سب سے افضل ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: (سب سے افضل کام) تیرا کسی مومن کو خوشی مہیا کرنا ہے۔ (وہ اِس طرح کہ) تو (کھانا کھلا کر) اُس کی بھوک کو مٹا دے یا اس کے (افلاس کی وجہ سے) ننگے بدن کو لباس پہنا کر ڈھانپ دے یا تو اس کی کوئی (اور) ضرورت پوری کر دے۔

اس کو امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔

اَلتَّیْسِیْرُ عَلَی الْمُعْسِرِ وَالْوَضْعُ عَنْهُ

{تنگ دست کے لیے آسانی پیدا کرنا اور اُس کا قرض معاف کر دینا}

اَلْقُرْآن

وَ اِنْ كَانَ ذُوْ عُسْرَةٍ فَنَظِرَةٌ اِلٰی مَیْسَرَةٍ ؕ وَ اَنْ تَصَدَّقُوْا خَیْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَo

(البقرۃ، 2/ 280)

اور اگر قرضدار تنگدست ہو تو خوشحالی تک مہلت دی جانی چاہیے، اور تمہارا (قرض کو) معاف کر دینا تمہارے لیے بہتر ہے اگر تمہیں معلوم ہو (کہ غریب کی دلجوئی اللہ کی نگاہ میں کیا مقام رکھتی ہے)o

اَلْحَدِیْث

77/ 71۔ عَنْ حُذَیْفَۃَ رضی اللہ عنہ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ ﷲِ ﷺ: تَلَقَّتِ الْمَلَائِکَةُ رُوْحَ رَجُلٍ مِمَّنْ کَانَ قَبْلَکُمْ۔ فَقَالُوْا: أَعَمِلْتَ مِنَ الْخَیْرِ شَیْئًا؟ قَالَ: لَا۔ قَالُوْا: تَذَکَّرْ۔ قَالَ: کُنْتُ أُدَایِنُ النَّاسَ فَآمُرُ فِتْیَانِي: أَنْ یُنْظِرُوْا الْمُعْسِرَ وَیَتَجَوَّزُوْا عَنِ الْمُوْسِرِ۔ قَالَ: قَالَ اللهُ سبحانہ وتعالیٰ: تَجَوَّزُوْا عَنْهُ۔

مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ وَاللَّفْظُ لِمُسْلِمٍ۔

77: أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب البیوع، باب من أنظر موسرا، 2/ 731، الرقم/ 1971، ومسلم في الصحیح، کتاب المساقاۃ، باب فضل إنظار المعسر، 3/ 1194، الرقم/ 1560۔

حصرت حذیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تم سے پہلی اُمتوں کا واقعہ ہے کہ فرشتوں نے ایک شخص کی روح قبض کی۔ پھر انہوں نے (اس سے) پوچھا: کیا تم نے کوئی نیک کام کیا ہے؟ اس نے کہا: نہیں۔ فرشتوں نے کہا: یاد کرو۔ اس نے کہا: میں لوگوں کو قرض دیتا تھا اور اپنے خادموں سے کہتا تھا کہ وہ تنگ دست کو مہلت دیں اور مالدار سے درگزر کریں۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے (فرشتوں سے) فرمایا: تم (بھی) اس سے درگزر کرو۔

یہ حدیث متفق علیہ ہے اور مذکورہ الفاظ مسلم کے ہیں۔

78/ 72۔ عَنْ أَبِي هُرَیْرَۃَ رضی اللہ عنہ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ ﷲِ ﷺ: مَنْ نَفَّسَ عَنْ مُؤْمِنٍ کُرْبَۃً مِنْ کُرَبِ الدُّنْیَا، نَفَّسَ اللهُ عَنْهُ کُرْبَۃً مِنْ کُرَبِ یَوْمِ الْقِیَامَۃِ؛ وَمَنْ یَسَّرَ عَلٰی مُعْسِرٍ، یَسَّرَ اللهُ عَلَیْهِ فِي الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ؛ وَمَنْ سَتَرَ مُسْلِمًا، سَتَرَهُ اللهُ فِي الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ؛ وَاللهُ فِي عَوْنِ الْعَبْدِ مَا کَانَ الْعَبْدُ فِي عَوْنِ أَخِیْهِ۔

رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ وَأَبُو دَاوٗدَ وَالتِّرْمِذِيُّ۔

78: أخرجہ مسلم في الصحیح، کتاب الذکر والدعاء والتوبۃ والاستغفار، باب فضل الاجتماع علی تلاوۃ القرآن وعلی الذکر، 4/ 2074، الرقم/ 2699، وأحمد بن حنبل في المسند، 2/ 252، الرقم/ 7421، وأبوداود في السنن، کتاب الأدب، باب في المعونۃ للمسلم، 4/ 287، الرقم/ 4946، والترمذي في السنن، کتاب القراء ات، باب ما جاء أن القرآن أنزل علی سبعۃ أحرف، 5/ 195، الرقم/ 2945، وابن ماجہ في السنن، المقدمۃ، باب فضل العلماء والحث علی طلب العلم، 1/ 82، الرقم/ 225۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس شخص نے کسی مسلمان کی دنیاوی مشکلات میں سے کوئی مشکل دور کی تو اللہ تعالیٰ اس کی قیامت کی مشکلات میں سے ایک مشکل دور کر دے گا، اور جس شخص نے کسی تنگ دست پر آسانی کی اللہ تعالیٰ اس پر دنیا اور آخرت میں آسانی فرمائے گا، اور جس نے کسی مسلمان کی پردہ پوشی کی اللہ تعالیٰ اس کی دنیا اور آخرت میں پردہ پوشی فرمائے گا اور جب تک کوئی بندہ اپنے بھائی کی مدد کرنے میں مصروف رہتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی مدد فرماتا رہتا ہے۔

اِسے امام مسلم، احمد، ابو داؤد اور ترمذی نے روایت کیا ہے۔

79/ 73۔ عَنْ أَبِي هُرَیْرَۃَ رضی اللہ عنہ، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ ﷲِ ﷺ: مَنْ أَنْظَرَ مُعْسِرًا أَوْ وَضَعَ لَہٗ، أَظَلَّهُ اللهُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ تَحْتَ ظِلِّ عَرْشِہٖ یَوْمَ لَا ظِلَّ إِلَّا ظِلُّہٗ۔

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالتِّرْمِذِيُّ وَاللَّفْظُ لَہٗ۔

79: أخرجہ أحمد بن حنبل في المسند، 2/ 359، الرقم/ 8696، والترمذي في السنن، کتاب البیوع، باب ما جاء في أنظار المعسر والرفق بہ، 3/ 599، الرقم/ 1306، والقضاعي في مسند الشھاب، 1/ 281، الرقم/ 459۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس نے کسی تنگ دست کو مہلت دی یا اس کا قرض معاف کر دیا، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اسے اپنے عرش کے سائے میں رکھے گا جبکہ اُس دن اُس کی رحمت کے سائے کے سوا کوئی سایہ نہ ہو گا۔

اِسے امام احمد نے اور ترمذی نے مذکورہ الفاظ سے روایت کیا ہے۔

80/ 74۔ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضی اللہ عنہما قَالَ: قَالَ رَسُولُ ﷲِ ﷺ: مَنْ أَرَادَ أَنْ تُسْتَجَابَ دَعْوَتُہٗ وَأَنْ تُکْشَفَ کُرْبَتُہٗ فَلْیُفَرِّجْ عَنْ مُعْسِرٍ۔

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَعَبْدُ بْنُ حُمَیْدٍ۔

80: أخرجہ أحمد بن حنبل في المسند، 2/ 23، الرقم/ 4749، وعبد بن حمید في المسند، 1/ 262، الرقم/ 826۔

حضرت (عبد اللہ) بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو آدمی چاہتا ہے کہ اس کی دعا قبول کی جائے اور اس کی مشکل دور کی جائے تو اسے چاہیے کہ وہ تنگ دست (یا مقروض) کے لیے آسانی پیدا کرے۔

اِسے امام احمد اور عبد بن حمید نے روایت کیا ہے۔

81/ 75۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضی اللہ عنہما قَالَ: خَرَجَ رَسُولُ ﷲِ ﷺ إِلَی الْمَسْجِدِ، وَھُوَ یَقُوْلُ بِیَدِہٖ هٰکَذَا - فَأَوْمَأَ أَبُو عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بِیَدِہٖ إِلَی الْأَرْضِ - مَنْ أَنْظَرَ مُعْسِرًا أَوْ وَضَعَ لَہٗ، وَقَاهُ اللهُ مِنْ فَیْحِ جَھَنَّمَ۔

رَوَاهُ أَحْمَدُ۔

81: أخرجہ أحمد بن حنبل في المسند، 1/ 327، الرقم/ 3017۔

حضرت (عبد اللہ) بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ مسجد کی طرف نکلے اور آپ ﷺ اس طرح اشارہ کرتے ہوئے فرما رہے تھے۔ ابو عبد الرحمن نے بھی اپنے ہاتھ کے ساتھ زمین کی طرف اشارہ کیا۔ جو شخص تنگ دست کو مہلت دے یا اسے معاف کر دے، اللہ تعالیٰ اسے دوزخ کی تیز لُو سے بچائے گا۔

اِسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔

82/ 76۔ عَنْ أَبِي الْیَسَرِ رضی اللہ عنہ صَاحِبِ النَّبِيِّ ﷺ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ ﷲِ ﷺ: مَنْ أَحَبَّ أَنْ یُظِلَّهُ اللهُ فِي ظِلِّہٖ، فَلْیُنْظِرْ مُعْسِرًا أَوْ لِیَضَعْ لَہٗ۔

رَوَاهُ ابْنُ مَاجَہ وَالطَّبَرَانِيُّ۔

82: ابن ماجہ في السنن، کتاب الصدقۃ، باب إنظار المعسر، 2/ 808، الرقم/ 2419، والطبراني في المعجم الکبیر، 19/ 167، الرقم/ 376، والبیہقي في السنن الکبریٰ، 6/ 27، الرقم/ 10917۔

صحابیِ رسول حضرت ابو الیَسر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو شخص یہ پسند کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ (روزِ قیامت) اسے اپنے سائے میں لے، تو اسے چاہیے کہ وہ تنگ دست کو مہلت دے یا اس کا قرض معاف کر دے۔

اِسے امام ابن ماجہ اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔

83/ 77۔ عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ رضی اللہ عنہ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: مَا مِنْ مُسْلِمٍ یُقْرِضُ مُسْلِمًا قَرْضًا مَرَّتَیْنِ إِلَّا کَانَ کَصَدَقَتِھَا مَرَّۃً۔

رَوَاهُ ابْنُ مَاجَہ۔

83: أخرجہ ابن ماجہ في السنن، کتاب الصدقات، باب القرض، 2/ 812، الرقم/ 2430۔

حضرت (عبد اللہ) بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جو مسلمان کسی دوسرے مسلمان کو دو مرتبہ قرض دے دے تو گویا اس کا ایک مرتبہ صدقہ کرنا شمار ہوگیا۔

اِسے امام ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔

84/ 78۔ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی اللہ عنہ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ ﷲِ ﷺ: رَأَیْتُ لَیْلَۃً أُسْرِيَ بِي عَلٰی بَابِ الْجَنَّۃِ مَکْتُوبًا: اَلصَّدَقَةُ بِعَشْرِ أَمْثَالِھَا، وَالْقَرْضُ بِثَمَانِیَۃَ عَشَرَ۔ فَقُلْتُ: یَا جِبْرِیلُ، مَا بَالُ الْقَرْضِ أَفْضَلُ مِنَ الصَّدَقَۃِ؟ قَالَ: لِأَنَّ السَّائِلَ یَسْأَلُ وَعِنْدَہٗ، وَالْمُسْتَقْرِضُ لَا یَسْتَقْرِضُ إِلَّا مِنْ حَاجَۃٍ۔

رَوَاهُ ابْنُ مَاجَہ وَالطَّبَرَانِيُّ۔

84: أخرجہ ابن ماجہ في السنن، کتاب الصدقات، باب القرض، 2/ 812، الرقم/ 2431، والطبراني في المعجم الأوسط، 7/ 16، الرقم/ 6719۔

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: (معراج کی) جس رات مجھے سیر کرائی گئی میں نے جنت کے دروازے پر لکھا ہوا دیکھا: صدقے کا ثواب دس گنا اور قرض کا ثواب اٹھارہ گنا ہے۔ میں نے پوچھا: اے جبریل! قرض دینا صدقہ سے افضل کیوں ہے؟ جبرائیل نے کہا: اس کی وجہ یہ ہے کہ (بعض اوقات) بھیک مانگنے والے کے پاس کچھ نہ کچھ ہوتا ہے پھر بھی وہ بھیک مانگ لیتا ہے (اور یہ کہ اُسے معلوم ہے کہ بھیک واپس نہیں کی جاتی) جبکہ قرض مانگنے والا بغیر حاجت کے قرض نہیں مانگتا (اور اُسے معلوم ہوتا ہے کہ یہ قرض واپس بھی کرنا ہے)۔

اِسے امام ابن ماجہ اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔

Copyrights © 2025 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved