Islam awr Khidmat e Insaniyat

باب 2 :خِدْمَۃُ الْبَشَرِیَّۃِ عَبْرَ حُسْنِ التَّعَامُلِ مَعَ النَّاسِ

اَلْبَابُ الثَّانِي

{لوگوں کے ساتھ حسنِ معاملات کے ذریعے خدمتِ انسانیت}

٭ تخریج حامد الازھری صاحب نے چیک کی اس کے بعد فیض اللہ بغدادی صاحب نے ریویو کیا۔ اصلاحات کا اندراج محمد یامین نے کر دیا ہے۔ جنہیں بعد ازاں کمپیوٹر میں اجمل علی مجددی نے چیک کیا۔

٭ حامد الازہری صاحب، اقبال چشتی، کالامی صاحب اور محمد علی صاحب نے باب چیک کیا۔ اصلاحات کے اندراج کے بعد کمپیوٹر میں چیک کر کے حافظ فرحان ثنائی نے باب فائنل کیا۔

٭ ڈاکٹر فیض اللہ بغدادی صاحب اور محمد فاروق رانا نے چیک کیا۔ اصلاحات کے اندراج کے بعد زمان نے کمپیوٹر میں چیک کیا۔ بعد ازاں اجمل صاحب نے کمپیوٹر میں اصلاحات چیک کرکے باب کو فائنل کیا۔

اَلْأُخُوَّۃُ وَالْمَوَدَّۃُ فِي الْمُجْتَمَعِ

{معاشرہ میں باہمی اُخوت و مودّت}

اَلْقُرْآن

(1) وَ اعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰهِ جَمِیْعًا وَّ لَا تَفَرَّقُوْا ۪ وَ اذْكُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ عَلَیْكُمْ اِذْ كُنْتُمْ اَعْدَآءً فَاَلَّفَ بَیْنَ قُلُوْبِكُمْ فَاَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِهٖۤ اِخْوَانًا ۚ وَ كُنْتُمْ عَلٰی شَفَا حُفْرَةٍ مِّنَ النَّارِ فَاَنْقَذَكُمْ مِّنْهَا ؕ كَذٰلِكَ یُبَیِّنُ اللّٰهُ لَكُمْ اٰیٰتِهٖ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُوْنَo

(آل عمران، 3/ 103)

اور تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ مت ڈالو، اور اپنے اوپر اللہ کی اس نعمت کو یاد کرو جب تم (ایک دوسرے کے) دشمن تھے تو اس نے تمہارے دلوں میں الفت پیدا کر دی اور تم اس کی نعمت کے باعث آپس میں بھائی بھائی ہوگئے، اور تم (دوزخ کی) آگ کے گڑھے کے کنارے پر (پہنچ چکے) تھے پھر اس نے تمہیں اس گڑھے سے بچا لیا، یوں ہی اللہ تمہارے لیے اپنی نشانیاں کھول کر بیان فرماتا ہے تاکہ تم ہدایت پا جائوo

(2) فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللّٰهِ لِنْتَ لَهُمْ ۚ وَ لَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِیْظَ الْقَلْبِ لَا نْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِكَ ۪ فَاعْفُ عَنْهُمْ وَ اسْتَغْفِرْ لَهُمْ وَ شَاوِرْهُمْ فِی الْاَمْرِ ۚ فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَی اللّٰهِ ؕ اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ الْمُتَوَكِّلِیْنَo

(آل عمران، 3/ 159)

(اے حبیبِ والا صفات!) پس اللہ کی کیسی رحمت ہے کہ آپ ان کے لیے نرم طبع ہیں اور اگر آپ تُندخُو (اور) سخت دل ہوتے تو لوگ آپ کے گرد سے چھٹ کر بھاگ جاتے، سو آپ ان سے درگزر فرمایا کریں اور ان کے لیے بخشش مانگا کریں اور (اہم) کاموں میں ان سے مشورہ کیا کریں، پھر جب آپ پختہ ارادہ کر لیں تو اللہ پر بھروسہ کیا کریں، بے شک اللہ توکّل والوں سے محبت کرتا ہےo

(3) وَ لَا تَسْتَوِی الْحَسَنَةُ وَ لَا السَّیِّئَةُ ؕ اِدْفَعْ بِالَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُ فَاِذَا الَّذِیْ بَیْنَكَ وَ بَیْنَهٗ عَدَاوَةٌ كَاَنَّهٗ وَلِیٌّ حَمِیْمٌo وَ مَا یُلَقّٰىهَاۤ اِلَّا الَّذِیْنَ صَبَرُوْا ۚ وَ مَا یُلَقّٰىهَاۤ اِلَّا ذُوْ حَظٍّ عَظِیْمٍo

(حم السجدۃ، 41/ 34-35)

اور نیکی اور بدی برابر نہیں ہو سکتی، اور برائی کو بہتر (طریقے) سے دور کیا کرو سو نتیجتاً وہ شخص کہ تمہارے اور جس کے درمیان دشمنی تھی گویا وہ گرم جوش دوست ہو جائے گاo اور یہ (خوبی) صرف اُنہی لوگوں کو عطا کی جاتی ہے جو صبر کرتے ہیں، اور یہ (توفیق) صرف اسی کو حاصل ہوتی ہے جو بڑے نصیب والا ہوتا ہےo

(4) اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَۃٌ فَاَصْلِحُوْا بَیْنَ اَخَوَیْکُمْ وَاتَّقُوا اللهَ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَo

(الحجرات، 49/ 10)

بات یہی ہے کہ (سب) اہلِ ایمان (آپس میں) بھائی ہیں۔ سو تم اپنے دو بھائیوں کے درمیان صلح کرایا کرو، اور اللہ سے ڈرتے رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائےo

اَلْحَدِیْث

85/ 1۔ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضی اللہ عنہم، أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ: الْمُسْلِمُ أَخُو الْمُسْلِمِ، لَا یَظْلِمُہٗ وَلَا یُسْلِمُہٗ۔ مَنْ کَانَ فِي حَاجَۃِ أَخِیْهِ کَانَ اللهُ فِي حَاجَتِہٖ۔ وَمَنْ فَرَّجَ عَنْ مُسْلِمٍ کُرْبَةً فَرَّجَ اللهُ عَنْهُ بِھَا کُرْبَةً مِنْ کُرُبَاتِ یَوْمِ الْقِیَامَۃِ۔ وَمَنْ سَتَرَ مُسْلِمًا سَتَرَهُ اللهُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ۔

مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ۔

85: أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب المظالم، باب لا یظلم المسلم المسلم ولایسلمہ، 2/ 862، الرقم/ 2310، ومسلم في الصحیح، کتاب البر والصلۃ والآداب، باب تحریم الظلم، 4/ 1996، الرقم/ 2580، وأحمد بن حنبل في المسند، 2/ 91، الرقم/ 5646، وأبوداود في السنن، کتاب الأدب، باب المؤاخاۃ، 4/ 273، الرقم/ 4893، والترمذي في السنن، کتاب الحدود، باب ما جاء في الستر علی المسلم، 4/ 34، الرقم/ 1426، والنسائي في السنن الکبری، 4/ 308، الرقم/ 7286، وابن حبان في الصحیح، 2/ 291، الرقم/ 533، والبیہقي في السنن الکبری، 6/ 94، الرقم/ 11292۔

حضرت (عبد اللہ) بن عمر رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے نہ وہ اس پر ظلم کرتا ہے اور نہ اسے ظالم کے حوالے کرتا ہے (یعنی بے یار و مدد گار نہیں چھوڑتا)۔ جو شخص اپنے کسی (مسلمان) بھائی کی حاجت روائی کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی حاجت روائی فرماتا ہے۔ جو شخص کسی مسلمان کی دنیاوی مشکل حل کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی قیامت کی مشکلات میں سے کوئی مشکل حل فرمائے گا۔ اور جو شخص کسی مسلمان کی پردہ پوشی کرتا ہے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی ستر پوشی فرمائے گا۔

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

86/ 2۔ عَنْ أَنَسٍ رضی اللہ عنہ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: لَا یُؤْمِنُ أَحَدُکُمْ حَتّٰی یُحِبَّ لِأَخِیْهِ مَا یُحِبُّ لِنَفْسِہٖ۔

مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ۔

86: أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب الإیمان، باب من الإیمان أن یحبّ لأخیہ ما یحبّ لنفسہ، 1/ 14، الرقم/ 13، ومسلم في الصحیح، کتاب الإیمان، باب الدلیل علی أن من خصال الإیمان أن یحب لأخیہ المسلم ما یحب لنفسہ من الخیر، 1/ 67، الرقم/ 45، والترمذي في السنن، کتاب صفۃ القیامۃ والرقائق والورع، باب: (59)، 4/ 667، الرقم/ 2515، والنسائي في السنن، کتاب الإیمان وشرائعہ، باب علامۃ الإیمان، 8/ 115، الرقم/ 5016، وابن ماجہ في السنن، المقدمۃ، باب في الإیمان، 1/ 26، الرقم/ 66۔

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: تم میں سے کوئی اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک وہ اپنے بھائی کے لیے بھی وہی پسند نہ کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے۔

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

87/ 3۔ عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِیْرٍ رضی اللہ عنہم، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: مَثَلُ الْمُؤْمِنِیْنَ فِي تَوَادِّھِمْ وَتَرَاحُمِھِمْ وَتَعَاطُفِھِمْ مَثَلُ الْجَسَدِ۔ إِذَا اشْتَکٰی مِنْهُ عُضْوٌ تَدَاعٰی لَہٗ سَائِرُ الْجَسَدِ بِالسَّهَرِ وَالْحُمّٰی۔

مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ وََاللَّفْظُ لِمُسْلِمٍ۔

87: أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب الأدب، باب رحمۃ النّاس والبھائم، 5/ 2238، الرقم، 5665، ومسلم في الصحیح، کتاب البر والصلۃ والآداب، باب تراحم المؤمنین وتعاطفھم وتعاضدھم، 4/ 1999، الرقم/ 2586، وأحمد بن حنبل في المسند، 4/ 270، الرقم/ 18398، والبزار في المسند، 8/ 238، الرقم/ 3299۔

حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہم روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مومنین کی مثال باہمی محبت، ایک دوسرے پر رحم کرنے اور شفقت کا مظاہرہ کرنے میں ایک جسم کی طرح ہے۔ چنانچہ جب جسم کے کسی بھی حصے کو تکلیف پہنچتی ہے تو سارا جسم بے خوابی اور بخار میں (مبتلا ہو کر) اس کا شریک ہوتا ہے۔

یہ حدیث متفق علیہ ہے، مذکورہ الفاظ امام مسلم کے ہیں۔

88/ 4۔ عَنْ أَبِي ھُرَیْرَۃَ رضی اللہ عنہ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّ رَجُـلًا زَارَ أَخًا لَـہٗ فِي قَرْیَۃٍ أُخْرٰی۔ فَأَرْصَدَ اللهُ لَـہٗ عَلٰی مَدْرَجَتِہٖ مَلَکاً۔ فَلَمَّا أَتٰی عَلَیْهِ قَالَ: أَیْنَ تُرِیْدُ؟ قَالَ: أُرِیْدُ أَخًا لِي فِي ھٰذِهِ الْقَرْیَۃِ۔ قَالَ: ھَلْ لَکَ عَلَیْهِ مِنْ نِعْمَۃٍ تَرُبُّھَا؟ قَالَ: لَا۔ غَیْرَ أَنِّي أَحْبَبْتُہٗ فِي اللهِ سبحانہ وتعالیٰ۔ قَالَ: فَإِنِّي رَسُوْلُ اللهِ إِلَیْکَ، بِأَنَّ اللهَ قَدْ أَحَبَّکَ کَمَا أَحْبَبْتَہٗ فِیْهِ۔

رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ وَابْنُ حِبَّانَ۔

88: أخرجہ مسلم في الصحیح، کتاب البر والصلۃ والآداب، باب في فضل الحب في اللہ، 4/ 1988، الرقم/ 2567، وأحمد بن حنبل في المسند، 2/ 408، 462، الرقم/ 9280، 9959، وابن حبان في الصحیح، 2/ 331، 337، الرقم/ 572، 576، وأبویعلی في المعجم، 1/ 211، الرقم/ 254، والبیھقي في شعب الإیمان، 6/ 488، الرقم/ 9004، وابن المبارک في الزھد، 1/ 247، الرقم/ 710۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضورنبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ایک شخص اپنے بھائی سے ملنے کے لیے دوسری بستی میں گیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے راستے میں ایک فرشتہ بھیج دیا۔ جب اس شخص کا اس کے پاس سے گزر ہوا تو فرشتے نے پوچھا: کہاں جانے کا ارادہ ہے؟ اس شخص نے کہا: اس بستی میں میرا ایک بھائی ہے اس سے ملنے کا ارادہ ہے۔ فرشتے نے پوچھا: کیا تمہارا اس پر کوئی احسان ہے جس کی ادائیگی مقصود ہے؟ اس نے کہا: اس کے سوا اور کوئی بات نہیں کہ مجھے اس سے صرف اللہ تعالیٰ کے لیے محبت ہے۔ تب اس فرشتے نے کہا: میں تمہارے پاس اللہ تعالیٰ کا پیغام لایا ہوں کہ جس طرح تم اس شخص سے محض اللہ تعالیٰ کے لیے محبت کرتے ہو اللہ تعالیٰ بھی تم سے محبت کرتا ہے۔

اِسے امام مسلم، احمد اور ابن حبان نے روایت کیا ہے۔

89/ 5۔ عَنْ أَبِي ھُرَیْرَۃَ رضی اللہ عنہ، أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ: إِذَا عَادَ الْمُسْلِمُ أَخَاهُ أَوْ زَارَہٗ، قَالَ اللهُ سبحانہ وتعالیٰ: طِبْتَ، وَطَابَ مَمْشَاکَ، وَتَبَوَّأْتَ فِي الْجَنَّۃِ مَنْزِلًا۔

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالتِّرْمِذِيُّ وَابْنُ مَاجَہ۔

89: أخرجہ أحمد بن حنبل في المسند، 2/ 344، الرقم/ 8517، وأیضًا في، 2/ 354، الرقم/ 8636، والترمذي في السنن، کتاب البر والصلۃ، باب ما جاء في زیارۃ الإخوان، 4/ 365، الرقم/ 2008، وابن ماجہ في السنن، کتاب الجنائز، باب ما جاء في ثواب من عاد مریضا، 1/ 464، الرقم/ 1443، وابن حبان في الصحیح، 7/ 228، الرقم/ 2961۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ بے شک رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب کوئی مسلمان اپنے (مسلمان) بھائی کی عیادت کرتا ہے یا (صرف اللہ تعالیٰ کے لیے) اُس کی زیارت کے لیے جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اُس سے فرماتا ہے: تو پاک ہوا، تیرا چلنا بھی پاکیزہ ہوا اور تو نے جنت میں اپنی جگہ بنا لی۔

اِسے امام احمد، ترمذی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔

90/ 6۔ عَنْ أَبِي جُرَيٍّ الْهُجَیْمِيِّ رضی اللہ عنہ، قَالَ: أَتَیْتُ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ فَقُلْتُ: یَا رَسُوْلَ اللهِ، إِنَّا قَوْمٌ مِنْ أَہْلِ الْبَادِیَۃِ۔ فَعَلِّمْنَا شَیْئًا یَنْفَعُنَا اللهُ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی بِہٖ۔ قَالَ: لَا تَحْقِرَنَّ مِنَ الْمَعْرُوْفِ شَیْئًا وَلَوْ أَنْ تُفْرِغَ مِنْ دَلْوِکَ فِي إِنَاءِ الْمُسْتَسْقِي، وَلَوْ أَنْ تُکَلِّمَ أَخَاکَ وَوَجْهُکَ إِلَیْهِ مُنْبَسِطٌ۔

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالنَّسَائِيُّ وَابْنُ حِبَّانَ۔

90: أخرجہ أحمد بن حنبل في المسند، 5/ 63، الرقم/ 20652، والنسائي في السنن الکبری، 5/ 487، الرقم/ 9696، وابن حبان في الصحیح، 2/ 281، الرقم/ 522، وابن الجعد في المسند، 1/ 454، الرقم/ 3100، وذکرہ الھیثمي في موارد الظمآن، 1/ 350، الرقم/ 1450۔

حضرت ابو جُرَی الھُجَیمِی بیان کرتے ہیں کہ وہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: ہم دیہات کے رہنے والے ہیں۔ آپ ہمیں کوئی ایسا عمل سکھائیں جس پر عمل کرنے سے اللہ تعالیٰ ہمیں کثیر اَجر عطا فرمائے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: نیکی کے کسی کام کو بھی حقیر نہ جانو، چاہے وہ اپنے برتن سے کسی پیاسے کے برتن میں پانی ڈالنے کا عمل ہی کیوں نہ ہو اور چاہے وہ عمل یہ ہی کیوں نہ ہو کہ جب تم اپنے بھائی سے بات کرو تو تمہارے چہرے پر اُس کے لیے مسکراہٹ ہو۔

اِسے امام احمد، نسائی اور ابن حبان نے روایت کیا ہے۔

91/ 7۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضی اللہ عنہم، أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ خَطَبَ النَّاسَ فِي حَجَّۃِ الْوَدَاعِ فَقَالَ… إِنَّ کُلَّ مُسْلِمٍ أَخُ الْمُسْلِمِ۔ اَلْمُسْلِمُوْنَ إِخْوَۃٌ۔ وَلَا یَحِلُّ لِامْرِیئٍ مِنْ مَالِ أَخِیْهِ إِلَّا مَا أَعْطَاهُ عَنْ طِیْبِ نَفْسٍ۔ وَلَا تَظْلِمُوْا، وَلَا تَرْجِعُوْا مِنْ بَعْدِي کُفَّارًا، یَضْرِبُ بَعْضُکُمْ رِقَابَ بَعْضٍ۔

رَوَاهُ الْحَاکِمُ۔

91: أخرجہ الحاکم في المستدرک، کتاب العلم، 1/ 171، الرقم/ 318، والبیھقي في الاعتقاد، 1/ 228، وذکرہ الذھبي في تاریخ الإسلام، 2/ 709۔

حضرت (عبد اللہ) بن عباس رضی اللہ عنہم بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر لوگوں سے خطاب کیا اور فرمایا… ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے۔ مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ کسی شخص کے لیے اپنے بھائی کے مال میں تصرف جائز نہیں سوائے اُس کے جو وہ اُسے اپنی خوشی سے عطا کر دے۔ (ایک دوسرے پر) ظلم نہ کرنا اور میرے بعد کفر میں مبتلا نہ ہو جانا کہ تم میں سے بعض دوسروں کی گردنیں کاٹنے لگیں۔

اِسے امام حاکم نے روایت کیا ہے۔

اَلدُّعَاءُ لِـلْإِخْوَانِ بِظَھْرِ الْغَیْبِ

{بھائیوں کی عدم موجودگی میں اُن کے لیے دعاے خیر کرنا}

اَلْقُرْآن

(1) رَبَّنَا اغْفِرْ لِیْ وَلِوَالِدَيَّ وَلِلْمُؤْمِنِیْنَ یَوْمَ یَقُوْمُ الْحِسَابُo

(إبراہیم، 14/ 41)

اے ہمارے رب! مجھے بخش دے اور میرے والدین کو (بخش دے)اور دیگر سب مومنوں کو بھی، جس دن حساب قائم ہوگاo

(2) اَلَّذِیْنَ یَحْمِلُوْنَ الْعَرْشَ وَ مَنْ حَوْلَهٗ یُسَبِّحُوْنَ بِحَمْدِ رَبِّهِمْ وَ یُؤْمِنُوْنَ بِهٖ وَ یَسْتَغْفِرُوْنَ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ۚ رَبَّنَا وَسِعْتَ كُلَّ شَیْءٍ رَّحْمَةً وَّ عِلْمًا فَاغْفِرْ لِلَّذِیْنَ تَابُوْا وَ اتَّبَعُوْا سَبِیْلَكَ وَ قِهِمْ عَذَابَ الْجَحِیْمِo

(غافر، 40/ 7)

جو (فرشتے) عرش کو اٹھائے ہوئے ہیں اور جو اُس کے اِرد گِرد ہیں وہ (سب) اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح کرتے ہیں اور اس پر ایمان رکھتے ہیں اور اہلِ ایمان کے لیے دعائے مغفرت کرتے ہیں (یہ عرض کرتے ہیں کہ) اے ہمارے رب! تو (اپنی) رحمت اور علم سے ہر شے کا احاطہ فرمائے ہوئے ہے، پس اُن لوگوں کو بخش دے جنہوں نے توبہ کی اور تیرے راستہ کی پیروی کی اور انہیں دوزخ کے عذاب سے بچا لےo

(3) وَ الَّذِیْنَ جَآءُوْ مِنْۢ بَعْدِهِمْ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَ لِاِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِیْمَانِ وَ لَا تَجْعَلْ فِیْ قُلُوْبِنَا غِلًّا لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا رَبَّنَاۤ اِنَّكَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ۠o

(الحشر، 59/ 10)

اور وہ لوگ (بھی) جو اُن (مہاجرین و انصار) کے بعد آئے (اور) عرض کرتے ہیں: اے ہمارے رب! ہمیں بخش دے اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی، جو ایمان لانے میں ہم سے آگے بڑھ گئے اور ہمارے دلوں میں ایمان والوں کے لیے کوئی کینہ اور بغض باقی نہ رکھ۔ اے ہمارے رب! بے شک تو بہت شفقت فرمانے والا بہت رحم فرمانے والا ہےo

اَلْحَدِیْث

92/ 8۔ عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ رضی اللہ عنہ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: مَا مِنْ عَبْدٍ مُسْلِمٍ یَدْعُو لِأَخِیْهِ بِظَھْرِ الْغَیْبِ إِلَّا قَالَ الْمَلَکُ: وَلَکَ بِمِثْلٍ۔

رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَابْنُ حِبَّانَ۔

92: أخرجہ مسلم في الصحیح، کتاب الذکر والدعاء والتوبۃ والاستغفار، باب فضل الدعاء للمسلمین بظھر الغیب، 4/ 2094، الرقم/ 2732، وابن حبان في الصحیح، 3/ 268، الرقم/ 989، وابن عساکر في تاریخ مدینۃ دمشق، 25/ 126، وذکرہ النووي في الأذکار، 1/ 319، الرقم/ 1211۔

حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو مسلمان بھی اپنے بھائی کے لیے اُس کی غیر موجودگی میں دعا کرتا ہے تو فرشتہ کہتا ہے: تیرے لیے بھی اِس کی مثل ہو (جس چیز کی دعا تو نے اپنے بھائی کے لیے کی ہے)۔

اِسے امام مسلم اور ابن حبان نے روایت کیا ہے۔

93/ 9۔ وَفِي رِوَایَۃِ أُمِّ الدَّرْدَاءِ رضی اللہ عنہ ا، قَالَتْ: حَدَّثَنِي سَیِّدِي، أَنَّہٗ سَمِعَ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ یَقُوْلُ: مَنْ دَعَا لِأَخِیْهِ بِظَھْرِ الْغَیْبِ، قَالَ الْمَلَکُ الْمُوَکَّلُ بِہٖ: آمِیْنَ وَلَکَ بِمِثْلٍ۔

رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَبُوْ دَاوُدَ۔

93: أخرجہ مسلم في الصحیح، کتاب الذکر والدعاء والتوبۃ والاستغفار، باب فضل الدعاء للمسلمین بظھر الغیب، 4/ 2094، الرقم/ 2732، وأبو داود في السنن، کتاب الصلاۃ، باب الدعاء بظہر الغیب، 2/ 89، الرقم/ 1534، والبیھقي في السنن الکبری، 3/ 353، الرقم/ 6224، والعسقلاني في تلخیص الحبیر، 2/ 95، الرقم/ 714، وابن سرایا في سلاح المؤمن في الدعائ، 1/ 183، الرقم/ 298۔

حضرت اُمّ درداء رضی اللہ عنہ ا بیان کرتی ہیں: میرے آقا نے بیان کیا کہ اُنہوں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: جس شخص نے اپنے بھائی کے لیے اُس کی غیر موجودگی میں دعا کی تو جو فرشتہ اس کے ساتھ مقرر ہے وہ کہتا ہے: آمین! تیرے لیے بھی اس کی مثل ہو۔

اِسے امام مسلم اور ابو داود نے روایت کیا ہے۔

94/ 10۔ وَفِي رِوَایَۃِ أَبِي ھُرَیْرَةَ رضی اللہ عنہ، قَالَ النَّبِيُّ ﷺ: إِذَا دَعَا لِأَخِیْهِ بِظَھْرِ الْغَیْبِ قَالَتِ الْمَلَائِکَۃُ: وَلَکَ بِمِثْلٍ۔

رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ فِي التَّارِیْخِ وَالطَّبَرَانِيُّ فِي الدُّعَاءِ۔

94: أخرجہ البخاري في التاریخ الکبیر، 3/ 88، الرقم/ 307، والطبراني في الدعائ، 1/ 395، الرقم/ 1327، وذکرہ الھندي في کنز العمال، 2/ 47، الرقم/ 3360۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ روایت میں ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جب کوئی مسلمان اپنے بھائی کی غیر موجودگی میں اُس کے لیے دعا کرتا ہے تو فرشتے کہتے ہیں: تمہارے لیے بھی اِسی کی مثل ہے۔

اِسے امام بخاری نے ’التاریخ الکبیر‘ میں اور امام طبرانی نے ’الدعائ‘ میں روایت کیا ہے۔

95/ 11۔ وَفِي رِوَایَۃِ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو رضی اللہ عنہ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: مَا دَعْوَۃٌ أَسْرَعَ إِجَابَةً مِنْ دَعْوَۃِ غَائِبٍ لِغَائِبٍ۔

رَوَاهُ أَبُوْ دَاوُدَ وَالتِّرْمِذِيُّ وَاللَّفْظُ لَہٗ وَابْنُ أَبِي شَیْبَةَ۔

95: أخرجہ أبوداود في السنن، کتاب الصلاۃ، باب الدعاء بظہر الغیب، 2/ 89، الرقم/ 1535، والترمذي في السنن، کتاب البر والصلۃ، باب ما جاء في دعوۃ الأخ لأخیہ بظہر الغیب، 4/ 352، الرقم/ 1980، وابن أبي شیبۃ في المصنف، 6/ 21، الرقم/ 29159، والقضاعي في مسند الشھاب، 2/ 265، الرقم/ 1328، وعبد بن حمید في المسند، 1/ 134، الرقم/ 331۔

حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ روایت میں ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: کوئی دعا اِس قدر جلد قبول نہیں ہوتی جس قدر غائب کی دعا غائب کے حق میں قبول ہوتی ہے۔

اِسے امام ابو داود، ترمذی اور ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔ مذکورہ الفاظ ترمذی کے ہیں۔

96/ 12۔ وَفِي رِوَایَۃِ عِمْرَانَ بْنِ حُصَیْنٍ رضی اللہ عنہ، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: دُعَاءُ الْأَخِ لِأَخِیْهِ بِظَھْرِ الْغَیْبِ لَا یُرَدُّ.

رَوَاهُ الْبَزَّارُ۔

96: أخرجہ البزار في المسند، 9/ 52، الرقم/ 3577، وذکرہ الھیثمي في مجمع الزوائد، 10/ 152، والھندي في کنز العمال، 2/ 43، الرقم/ 3312، والمناوي في التیسیر بشرح الجامع الصغیر، 2/ 6۔

حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: بھائی کی اپنے بھائی کی غیر موجودگی میں اُس کے لیے کی گئی دعا ردّ نہیں ہوتی۔

اِسے امام بزار نے روایت کیا ہے۔

97/ 13۔ وَفِي رِوَایَۃِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضی اللہ عنہم قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: دَعْوَتَانِ، لَیْسَ بَیْنَھُمَا وَبَیْنَ اللهِ سبحانہ وتعالیٰ حِجَابٌ: دَعْوَۃُ الْمَظْلُوْمِ، وَدَعْوَۃُ الْمَرْئِ لِأَخِیْهِ بِظَھْرِ الْغَیْبِ.

رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ۔

97: أخرجہ الطبراني في المجعم الکبیر، 11/ 119، الرقم/ 11232، وأیضًا في الدعائ، 1/ 395، الرقم/ 1330، وذکرہ المنذري في الترغیب والترھیب، 3/ 130، الرقم/ 3373، والھیثمي في مجمع الزوائد، 10/ 152، والھندي فيکنز العمال، 2/ 44، الرقم/ 3317۔

حضرت (عبد اللہ) بن عباس رضی اللہ عنہم روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: دو دعائیں ایسی ہیں جن کے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان کوئی پردہ حائل نہیں ہوتا: (1) مظلوم کی دعا اور (2) آدمی کی اپنے بھائی کے لیے اُس کی غیر موجودگی میں کی جانے والی دعا۔

اِسے امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔

حُسْنُ الْعَھْدِ وَالْوَفَاءُ بِہٖ

{وعدوں کو بطریقِ اَحسن پورا کرنا}

اَلْقُرْآن

(1) یٰٓـاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَوْفُوْا بِالْعُقُوْدِ

(المائدۃ، 5/ 1)

اے ایمان والو! (اپنے) عہد پورے کرو۔

(2) وَ اَوْفُوْا بِعَهْدِ اللّٰهِ اِذَا عٰهَدْتُّمْ وَ لَا تَنْقُضُوا الْاَیْمَانَ بَعْدَ تَوْكِیْدِهَا وَ قَدْ جَعَلْتُمُ اللّٰهَ عَلَیْكُمْ كَفِیْلًا ؕ اِنَّ اللّٰهَ یَعْلَمُ مَا تَفْعَلُوْنَo

(النحل، 16/ 91)

اور تم اللہ کا عہد پورا کر دیا کرو جب تم عہد کرو اور قسموں کو پختہ کر لینے کے بعد انہیں مت توڑا کرو حالاں کہ تم اللہ کو اپنے آپ پر ضامن بنا چکے ہو، بے شک اللہ خوب جانتا ہے جو کچھ تم کرتے ہوo

(3) وَ اَوْفُوْا بِالْعَهْدِ ۚ اِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْـُٔوْلًاo

(الإسراء، 17/ 34)

اور وعدہ پورا کیا کرو، بے شک وعدہ کی ضرور پوچھ گچھ ہو گیo

اَلْحَدِیْث

98/ 14۔ عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو رضی اللہ عنہ، أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: أَرْبَعٌ مَنْ کُنَّ فِیهِ کَانَ مُنَافِقًا خَالِصًا، وَمَنْ کَانَتْ فِیْهِ خَصْلَۃٌ مِنْهُنَّ کَانَتْ فِیْهِ خَصْلَۃٌ مِنَ النِّفَاقِ حَتّٰی یَدَعَھَا: إِذَا اؤْتُمِنَ خَانَ، وَإِذَا حَدَّثَ کَذَبَ، وَإِذَا عَاهَدَ غَدَرَ، وَإذَا خَاصَمَ فَجَرَ۔

مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ۔

98: أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب الإیمان، باب علامۃ المنافق، 1/ 21، الرقم/ 34، ومسلم في الصحیح، کتاب الإیمان، باب بیان خصال المنافق، 1/ 78، الرقم/ 58، وأحمد بن حنبل في المسند، 2/ 189، الرقم/ 6768، وأبو داود في السنن، کتاب السنۃ، باب الدلیل علی زیادۃ الإیمان ونقصانہ، 4/ 221، الرقم/ 4688، والترمذي في السنن، کتاب الإیمان، باب ما جاء في علامۃ المنافق، 5/ 19، الرقم/ 2632، والنسائي في السنن، کتاب الإیمان وشرائعہ، باب علامۃ المنافق، 8/ 116، الرقم/ 5020۔

حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: چار باتیں جس کسی میں ہوں تو وہ خالص منافق ہے اور جس کے اندر ان میں سے کوئی ایک ہو تو اس میں نفاق کی ایک خصلت ہے جب تک وہ اسے چھوڑ نہ دے۔ (وہ چار خصلتیں یہ ہیں:) (1)جب امانت اس کے سپرد کی جائے تو خیانت کرے، (2) جب بات کرے تو جھوٹ بولے، (3) جب وعدہ کرے تو خلاف ورزی کرے اور (4) جب جھگڑے تو بیہودہ گوئی کرے۔

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

99/ 15۔ وَفِي رِوَایَۃٍ عَنْ أَبِي أُسَیْدٍ مَالِکِ بْنِ رَبِیْعَةَ السَّاعِدِيِّ رضی اللہ عنہ، قَالَ: بَیْنَمَا أَنَا جَالِسٌ عِنْدَ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ إِذْ رضی اللہ عنہ مہٗ رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ، فَقَالَ: یَا رَسُوْلَ اللهِ، ھَلْ بَقِيَ عَلَيَّ مِنْ بِرِّ أَبَوَيَّ شَيْئٌ بَعْدَ مَوْتِهِمَا، أَبَرُّھُمَا بِہٖ؟ قَالَ: نَعَمْ، خِصَالٌ أَرْبَعَۃٌ: اَلصَّلَاۃُ عَلَیْهِمَا وَالْاِسْتِغْفَارُ لَھُمَا، وَإِنْفَاذُ عَہْدِهِمَا، وَإِکْرَامُ صَدِیْقِهِمَا، وَصِلَۃُ الرَّحِمِ الَّتِي لَا رَحِمَ لَکَ إِلَّا مِنْ قَبْلِهِمَا، فَالَّذِي بَقِيَ عَلَیْکَ مِنْ بِرِّهِمَا بَعْدَ مَوْتِهِمَا۔

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَأَبُوْ دَاوُدَ وَابْنُ مَاجَہ۔

99: أخرجہ أحمد بن حنبل في المسند، 3/ 497، الرقم/ 16103، وأبوداود في السنن، کتاب الأدب، باب في بر الوالدین، 4/ 336، الرقم/ 5142، وابن ماجہ في السنن، کتاب الأدب، باب صل من کان أبوک یصل، 2/ 1208، الرقم/ 3664، والحاکم في المستدرک علی الصحیحین، 4/ 171، الرقم/ 7260، والطبراني في المعجم الأوسط، 8/ 65، الرقم/ 7976۔

حضرت ابو اُسید مالک بن ربیعہ ساعدی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں: ایک روز ہم رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر تھے کہ انصار کا ایک شخص حاضر ہوا، اُس نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا میرے والدین کی وفات کے بعد بھی نیکی کی کوئی صورت ہے جو میں اُن کے لیے کروں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ہاں! چار صورتیں ہیں: اُن کے لیے دعا کرنا اور ان کے لیے مغفرت طلب کرنا، (اُن کے مرنے کے بعد) اُن کے وعدے پورے کرنا، اُن کے دوستوں کا احترام کرنا اور اُن کے خونی رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک کرنا۔ یہ وہ نیکیاں ہے جو ان کی وفات کے بعد ان کے لیے تمہارے اوپر لازم ہیں۔

اِسے امام احمد، ابو داود اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔

100/ 16۔ وَفِي رِوَایَۃِ سُلَیْمِِِ بْنِ عَامِرٍ، یَقُوْلُ: کَانَ بَیْنَ مُعَاوِیَۃَ رضی اللہ عنہ وَبَیْنَ أَہْلِ الرُّومِ عَھْدٌ، وَکَانَ یَسِیرُ فِي بِلَادِھِمْ حَتّٰی إِذَا انْقَضَی الْعَہْدُ أَغَارَ عَلَیْھِمْ۔ فَإِذَا رَجُلٌ عَلٰی دَابَّۃٍ أَوْ عَلٰی فَرَسٍ وَھُوَ یَقُوْلُ: اَللهُ أَکْبَرُ، وَفَاءٌ لَا غَدْرٌ۔ وَإِذَا ھُوَ عَمْرُو بْنُ عَبَسَۃَ رضی اللہ عنہ ۔ فَسَأَلَہٗ مُعَاوِیَۃُ رضی اللہ عنہ عَنْ ذٰلِکَ، فَقَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ یَقُوْلُ: مَنْ کَانَ بَیْنَہٗ وَبَیْنَ قَوْمٍ عَھْدٌ فَـلَا یَحُلَّنَّ عَھْدًا، وَلَا یَشُدَّنَّہٗ حَتّٰی یَمْضِيَ أَمَدُہٗ أَوْ یَنْبِذَ إِلَیْھِمْ عَلٰی سَوَاءٍ۔ قَالَ: فَرَجَعَ مُعَاوِیَۃُ رضی اللہ عنہ بِالنَّاسِ۔

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَأَبُو دَاوُدَ وَالتِّرْمِذِيُّ وَاللَّفْظُ لَہٗ۔ قَالَ التِّرْمِذِيُّ: ھٰذَا حَدِیْثٌ حَسَنٌ صَحِیحٌ۔

100: أخرجہ أحمد بن حنبل في المسند، 4/ 113، الرقم/ 17066، وأبوداود في السنن، کتاب الجھاد، باب في الإمام یکون بینہ وبین العدو، 3/ 83، الرقم/ 2759، والترمذي في السنن، کتاب السیر، باب ما جاء في الغدر، 4/ 143، الرقم/ 1580۔

سُلیم بن عامر بیان کرتے ہیں: حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اور رومیوں کے درمیان ایک معاہدہ تھا۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ ان کے شہروں کے قریب جاپہنچے تاکہ جب معاہدہ ختم ہو تو ان پر حملہ کر دیں۔ اچانک انہوں نے ایک آدمی کوچوپائے یا گھوڑے پر سوار دیکھا جو کہہ رہا تھا: اللہ اکبر! عہد پورا کرو اور عہد شکنی نہ کرو۔ کیا دیکھتے ہیں کہ یہ شخص عمرو بن عَبسہ رضی اللہ عنہ ہیں۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے ان سے اس قول کے متعلق پوچھا تو انہوں نے بتایا: یہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا تھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: جس کا کسی قوم سے معاہدہ ہو تو وہ اس معاہدہ کو ہرگز نہ توڑے اور نہ ہی ان کو تنگ کرے، جب تک کہ اس کی مدت ختم نہ ہوجائے یا وہ (دوسری قوم کی عہد شکنی کے جواب میں) برابری کے ساتھ اس معاہدہ کو اعلانیہ طور پر منسوخ کر دے (اور انہیں اس سے باقاعدہ آگاہ کر دے)۔ راوی بیان کرتے ہیں: یہ سن کر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ لوگوں کو لے کر واپس لوٹ گئے۔

اِسے امام احمد، ابو داود اور ترمذی نے روایت کیا ہے۔ مذکورہ الفاظ ترمذی کے ہیں اور وہ فرماتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

101/ 17۔ وَفِي رِوَایَۃٍ عَنْ بُرَیْدَۃَ رضی اللہ عنہ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: مَا نَقَضَ قَوْمٌ الْعَھْدَ قَطُّ إِلَّا کَانَ الْقَتْلُ بَیْنَھُمْ، وَلَا ظَهَرَتِ الْفَاحِشَۃُ فِي قَوْمٍ قَطُّ إِلَّا سُلِّطَ عَلَیْهِمُ الْمَوْتُ، وَلَا مَنَعَ قَوْمٌ الزَّکَاۃَ إِلَّا حُبِسَ عَنْهُمُ الْقَطْرُ۔

رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَالْبَیْهَقِيُّ، وَقَالَ الْحَاکِمُ: صَحِیْحٌ عَلٰی شَرْطِ مُسْلِمٍ۔

101: أخرجہ الحاکم في المستدرک، 2/ 136، الرقم: 2577، والبیہقي في السنن الکبری، 3/ 346، الرقم: 6190۔

حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا: جو قوم عہد شکنی کرتی ہے اس میں قتل عام ہو جاتا ہے، جس قوم میں فحاشی ظاہر ہو جائے اس پر موت مسلط کر دی جاتی ہے اور جو قوم زکوٰۃ (صدقات و خیرات) کی ادائیگی بند کر دے تو اس پر بارش روک دی جاتی ہے۔

اِسے امام حاکم اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔ حاکم فرماتے ہیں: یہ حدیث مسلم کی شرط پر صحیح ہے۔

102/ 18۔ عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ أَبِي الْحَمْسَاءِ رضی اللہ عنہ، قَالَ: بَایَعْتُ النَّبِيَّ ﷺ بِبَیْعٍ قَبْلَ أَنْ یُبْعَثَ، وَبَقِیَتْ لَہٗ بَقِیَّۃٌ، فَوَعَدْتُہٗ أَنْ آتِیَہٗ بِھَا فِي مَکَانِہٖ، فَنَسِیْتُ، ثُمَّ ذَکَرْتُ بَعْدَ ثَـلَاثٍ، فَجِئْتُ فَإِذَا ھُوَ فِي مَکَانِہٖ۔ فَقَالَ: یَا فَتًی، لَقَدْ شَقَقْتَ عَلَيَّ۔ أَنَا ھَاهُنَا مُنْذُ ثَـلَاثٍ أَنْتَظِرُکَ۔

رَوَاهُ أَبُوْ دَاوُدَ۔

102: أخرجہ أبو داود في السنن، کتاب الأدب، باب في العدۃ، 4/ 299، الرقم/ 4996۔

حضرت عبد اللہ بن ابی الحمساء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: بعثت سے پہلے میں نے حضور نبی اکرم ﷺ سے کوئی شے خریدی جس کی کچھ قیمت میری طرف باقی رہ گئی تھی۔ میں نے وعدہ کیا کہ (آپ انتظار کیجیے، میں بقیہ رقم) اسی جگہ لا کر دیتا ہوں۔ پھر میں بھول گیا اور مجھے تین دن بعد یاد آیا۔ میں گیا تو آپ ﷺ اُسی جگہ موجود تھے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اے جوان! تم نے مجھے تکلیف دی ہے۔ میں تین دن سے یہیں کھڑا تمہارا انتظار کر رہا ہوں۔ (آپ ﷺ نے اس جملہ کے علاوہ کسی ناراضگی کا اظہار نہ فرمایا۔ )

اِسے امام ابو داود نے روایت کیا ہے۔

سَتْرُ الْعُیُوْبِ وَحِفْظُ الْأَسْرَارِ

{دوسروں کے عیوب کی پردہ پوشی اور رازوں کی حفاظت}

اَلْقُرْآن

(1) لَوْ لَاۤ اِذْ سَمِعْتُمُوْهُ ظَنَّ الْمُؤْمِنُوْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتُ بِاَنْفُسِهِمْ خَیْرًا ۙ وَّ قَالُوْا هٰذَاۤ اِفْكٌ مُّبِیْنٌo

(النور، 24/ 12)

ایسا کیوں نہ ہوا کہ جب تم نے اس (بہتان) کو سنا تھا تو مومن مرد اور مومن عورتیں اپنوں کے بارے میں نیک گمان کر لیتے اور (یہ) کہہ دیتے کہ یہ کھلا (جھوٹ پر مبنی) بہتان ہےo

(2) وَ لَوْ لَاۤ اِذْ سَمِعْتُمُوْهُ قُلْتُمْ مَّا یَكُوْنُ لَنَاۤ اَنْ نَّتَكَلَّمَ بِهٰذَا ۖۗ سُبْحٰنَكَ هٰذَا بُهْتَانٌ عَظِیْمٌo

(النور، 24/ 16)

اور جب تم نے یہ (بہتان) سنا تھا تو تم نے (اسی وقت) یہ کیوں نہ کہہ دیا کہ ہمارے لیے یہ (جائز ہی) نہیں کہ ہم اسے زبان پر لے آئیں (بلکہ تم یہ کہتے کہ اے اللہ!) تو پاک ہے (اس بات سے کہ ایسی عورت کو اپنے حبیب مکرم ﷺ کی محبوب زوجہ بنا دے) یہ بہت بڑا بہتان ہےo

(3) وَ اِذْ اَسَرَّ النَّبِیُّ اِلٰی بَعْضِ اَزْوَاجِهٖ حَدِیْثًا ۚ فَلَمَّا نَبَّاَتْ بِهٖ وَ اَظْهَرَهُ اللّٰهُ عَلَیْهِ عَرَّفَ بَعْضَهٗ وَ اَعْرَضَ عَنْۢ بَعْضٍ ۚ فَلَمَّا نَبَّاَهَا بِهٖ قَالَتْ مَنْ اَنْۢبَاَكَ هٰذَا ؕ قَالَ نَبَّاَنِیَ الْعَلِیْمُ الْخَبِیْرُo

(التحریم، 66/ 3)

اور جب نبی (مکرّم ﷺ) نے اپنی ایک زوجہ سے ایک رازدارانہ بات ارشاد فرمائی، پھر جب وہ اُس (بات) کا ذکر کر بیٹھیں اور اللہ نے نبی(ﷺ) پر اسے ظاہر فرما دیا تو نبی (ﷺ)نے انہیں اس کا کچھ حصّہ جِتا دیا اور کچھ حصّہ (بتانے) سے چشم پوشی فرمائی، پھر جب نبی (ﷺ) نے انہیں اِس کی خبر دے دی (کہ آپ راز افشاء کر بیٹھی ہیں) تو وہ بولیں: آپ کو یہ کِس نے بتا دیا ہے؟ نبی (ﷺ) نے فرمایا کہ مجھے بڑے علم والے بڑی آگاہی والے (رب) نے بتا دیا ہےo

(4) یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اجْتَنِبُوْا كَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّ ؗ اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ وَّ لَا تَجَسَّسُوْا.

(الحجرات، 49/ 12)

اے ایمان والو! زیادہ تر گمانوں سے بچا کرو بے شک بعض گمان (ایسے) گناہ ہوتے ہیں (جن پر اُخروی سزا واجب ہوتی ہے) اور (کسی کے عیبوں اور رازوں کی) جستجو نہ کیا کرو۔

(5) وَیْلٌ لِّکُلِّ ھُمَزَۃٍ لُّمَزَۃِo

(الھمزۃ، 104/ 1)

ہر اس شخص کے لیے ہلاکت ہے جو (روبرو) طعنہ زنی کرنے والا ہے (اور پسِ پشت) عیب جوئی کرنے والا ہےo

اَلْحَدِیْث

103/ 19۔ عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عُمَرَ رضی اللہ عنہم، أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ قَالَ: الْمُسْلِمُ أَخُو الْمُسْلِمِ۔ لَا یَظْلِمُہٗ وَلَا یُسْلِمُہٗ۔ وَمَنْ کَانَ فِي حَاجَۃِ أَخِیْهِ کَانَ اللهُ فِي حَاجَتِہٖ۔ وَمَنْ فَرَّجَ عَنْ مُسْلِمٍ کُرْبَۃً فَرَّجَ اللهُ عَنْهُ کُرْبَۃً مِنْ کُرُبَاتِ یَوْمِ الْقِیَامَۃِ۔ وَمَنْ سَتَرَ مُسْلِمًا سَتَرَهُ اللهُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ۔

مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ.

103: أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب المظالم، باب لا یظلم المسلم المسلم ولا یسلمہ، 2/ 862، الرقم/ 2310، ومسلم في الصحیح، کتاب البر والصلۃ والآداب، باب تحریم الظلم، 4/ 1996، الرقم/ 2580، أبو داود في السنن، کتاب الأدب، باب المؤاخاۃ، 4/ 273، الرقم/ 4893، والترمذي في السنن، کتاب الحدود، باب ما جاء في الستر علی المسلم، 4/ 34، الرقم/ 1426۔

حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے۔ نہ اس پر ظلم کرتا ہے اور نہ اسے ظالم کے حوالے کرتا ہے (یعنی بے یار و مددگار نہیں چھوڑتا)۔ جو اپنے بھائی کی حاجت روائی فرماتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی حاجت روائی فرماتا ہے۔ جو کسی مسلمان کی مصیبت کو دور کرتا ہے، اللہ تعالیٰ قیامت کی مصیبتوں میں سے اس کی ایک مصیبت دور کرے گا۔ اور جس نے کسی مسلمان کی پردہ پوشی کی اللہ تعالیٰ قیامت کے روز اس کی ستر پوشی فرمائے گا۔

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

104/ 20۔ عَنْ أَبِي ھُرَیْرَۃَ رضی اللہ عنہ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: لَا یَسْتُرُ عَبْدٌ عَبْدًا فِي الدُّنْیَا إِلَّا سَتَرَهُ اللهُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ۔

رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ وَالْحَاکِمُ۔

104: أخرجہ مسلم في الصحیح، کتاب البر والصلۃ والآداب، باب بشارۃ من ستر اللہ تعالی عیبہ في الدنیا بأن یسترہ في الآخرۃ، 4/ 2002، الرقم/ 2590، وأحمد بن حنبل في المسند، 2/ 404، الرقم/ 9237، والحاکم في المستدرک، 4/ 425، الرقم/ 8160۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جو شخص دنیا میں کسی کے عیب کا پردہ رکھے، قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس کے عیب کا پردہ رکھے گا۔

اِسے امام مسلم، احمد اور حاکم نے روایت کیا ہے۔

105/ 21۔ عَنْ کَعْبِ بْنِ عَلْقَمَۃَ أَنَّہٗ سَمِعَ أَبَا الْهَیْثَمِ یَذْکُرُ أَنَّہٗ سَمِعَ دُخَیْنًا کَاتِبَ عُقْبَۃَ بْنِ عَامِرٍ، قَالَ: کَانَ لَنَا جِیْرَانٌ یَشْرَبُوْنَ الْخَمْرَ فَنَهَیْتُھُمْ فَلَمْ یَنْتَهُوْا۔ فَقُلْتُ لِعُقْبَۃَ بْنِ عَامِرٍ رضی اللہ عنہ: إِنَّ جِیْرَانَنَا هٰـؤُلَاءِ یَشْرَبُوْنَ الْخَمْرَ وَإِنِّي نَهَیْتُھُمْ فَلَمْ یَنْتَهُوْا، وَأَنَا دَاعٍ لَھُمُ الشُّرَطَ۔ فَقَالَ: دَعْھُمْ۔ ثُمَّ رَجَعْتُ إِلٰی عُقْبَۃَ رضی اللہ عنہ مَرَّۃً أُخْرٰی، فَقُلْتُ: إِنَّ جِیْرَانَنَا قَدْ أَبَوْا أَنْ یَنْتَهُوْا عَنْ شُرْبِ الْخَمْرِ وَأَنَا دَاعٍ لَھُمُ الشُّرَطَ۔ قَالَ: وَیْحَکَ دَعْھُمْ، فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ: مَنْ رَآی عَوْرَۃً فَسَتَرَھَا کَانَ کَمَنْ أَحْیَا مَوْءُوْدَۃً۔

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَأَبُوْ دَاوُدَ وَاللَّفْظُ لَہٗ وَالنَّسَائِيُّ۔

105: أخرجہ أحمد بن حنبل في المسند، 4/ 147، الرقم/ 17370، وأبوداود في السنن، کتاب الأدب، باب في الستر علی المسلم، 4/ 273، الرقم/ 4891-4892، والنسائي في السنن الکبری، 4/ 307، الرقم/ 7281۔

حضرت کعب بن علقمہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے ابو الہیثم کو یہ کہتے ہوئے سنا۔ انہوں نے حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کے کاتب حضرت دخین سے سنا۔ انہوں نے فرمایا: ہمارے ہمسائے شراب پیتے تھے۔ میں نے انہیں منع کیا لیکن وہ باز نہ آئے تو میں نے حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ ہمارے یہ ہمسائے شراب پیتے ہیں۔ میں نے انہیں منع کیا ہے لیکن یہ باز نہیں آتے۔ میں ان کے لیے پولیس بلانے والا ہوں۔ حضرت عقبہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: انہیں (ان کے حال پر) چھوڑ دو۔ پھر میں دوبارہ حضرت عقبہ رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض گزار ہوا کہ ہمارے ہمسایوں نے شراب نوشی ترک کرنے سے انکار کر دیا ہے، لہٰذا میں ان کے لیے پولیس بلانے والا ہوں۔ فرمایا: تم پر افسوس ہے، ان کا خیال چھوڑ دوکیونکہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے: جس نے کسی کا کوئی عیب دیکھا پھر اس پر پردہ ڈال دیا وہ ایسا ہے گویا اس نے زندہ دفن کی ہوئی لڑکی کو دوبارہ زندہ کر دیا۔

اِسے امام احمد، ابو داود اور نسائی نے روایت کیا ہے۔ مذکورہ الفاظ ابو داود کے ہیں۔

106/ 22۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضی اللہ عنہم، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: مَنْ سَتَرَ عَوْرَۃَ أَخِیهِ الْمُسْلِمِ سَتَرَ اللهُ عَوْرَتَہٗ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ، وَمَنْ کَشَفَ عَوْرَۃَ أَخِیْهِ الْمُسْلِمِ کَشَفَ اللهُ عَوْرَتَہٗ حَتّٰی یَفْضَحَہٗ بِھَا فِي بَیْتِہٖ۔

رَوَاهُ ابْنُ مَاجَہ۔

106: أخرجہ ابن ماجہ في السنن، کتاب الحدود، باب الستر علی المؤمن، 2/ 850، الرقم/ 2546۔

حضرت (عبد اللہ) بن عباس رضی اللہ عنہم روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو کسی مسلمان بھائی کی پردہ پوشی کرے گا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی ستر پوشی فرمائے گا۔ جو کسی مسلمان بھائی کے عیب کا پردہ فاش کرے گا اللہ تعالیٰ اس کے عیب کا پردہ فاش کرے گا حتیٰ کہ اسے اس وجہ سے اس کے گھر میں رسوا کر دے گا۔

اِسے امام ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔

مَا رُوِيَ عَنِ الصَّحَابَۃِ وَالسَّلَفِ الصَّالِحِیْنَ

قَالَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ کَرَّمَ اللهُ وَجْهَہٗ: سِرُّکَ أَسِیْرُک، فَإِنْ تَکَلَّمْتَ بِہٖ صِرْتَ أَسِیْرَہٗ.

(1) الماوردي في أدب الدنیا والدین/ 367۔

حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا: تیرا راز تیرا قیدی ہوتا ہے۔ اگر تو نے اسے کو اِفشاء کر دیا تو تُو اس کا قیدی بن گیا۔

قَالَ الْحَسَنُ: إِنَّ مِنَ الْخِیَانَۃِ أَنْ تُحَدِّثَ بِسِرِّ أَخِیْکَ.

(2) ابن أبي الدنیا في الصمت وآداب اللسان، 1/ 214، الرقم/ 404۔

حضرت حسن بصری نے فرمایا: یہ بھی خیانت میں داخل ہے کہ تو اپنے کسی بھائی کا راز اِفشاء کرے۔

اَلْعَفْوُ وَالصَّفْحُ وَالتَّسَامُحُ

{عفو و درگزر اور چشم پوشی}

اَلْقُرْآن

(1) وَدَّ كَثِیْرٌ مِّنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ لَوْ یَرُدُّوْنَكُمْ مِّنْۢ بَعْدِ اِیْمَانِكُمْ كُفَّارًا ۖۚ حَسَدًا مِّنْ عِنْدِ اَنْفُسِهِمْ مِّنْۢ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَهُمُ الْحَقُّ ۚ فَاعْفُوْا وَ اصْفَحُوْا حَتّٰی یَاْتِیَ اللّٰهُ بِاَمْرِهٖ ؕ اِنَّ اللّٰهَ عَلٰی كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌo

(البقرۃ، 2/ 109)

بہت سے اہلِ کتاب کی یہ خواہش ہے تمہارے ایمان لے آنے کے بعد پھر تمہیں کفر کی طرف لوٹا دیں، اس حسد کے باعث جو ان کے دلوں میں ہے اس کے باوجود کہ ان پر حق خوب ظاہر ہو چکا ہے، سو تم درگزر کرتے رہو اور نظرانداز کرتے رہو یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم بھیج دے، بے شک اللہ ہر چیز پر کامل قدرت رکھتا ہےo

(2) خُذِ الْعَفْوَ وَاْمُرْ بِالْعُرْفِ وَاَعْرِضْ عَنِ الْجٰھِلِیْنَo

(الأعراف، 7/ 199)

(اے حبیبِ مکرّم!) آپ درگزر فرمانا اختیار کریں، اور بھلائی کا حکم دیتے رہیں اور جاہلوں سے کنارہ کشی اختیار کرلیںo

(3) وَ مَا خَلَقْنَا السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ وَ مَا بَیْنَهُمَاۤ اِلَّا بِالْحَقِّ ؕ وَ اِنَّ السَّاعَةَ لَاٰتِیَةٌ فَاصْفَحِ الصَّفْحَ الْجَمِیْلَo

(الحجر، 15/ 85)

اور ہم نے آسمانوں اور زمین کو اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان ہے عبث پیدا نہیں کیا، اور یقینا قیامت کی گھڑی آنے والی ہے سو (اے اخلاقِ مجسّم!) آپ بڑے حسن و خوبی کے ساتھ درگزر کرتے رہیےo

(4) وَ جَزٰٓؤُا سَیِّئَةٍ سَیِّئَةٌ مِّثْلُهَا ۚ فَمَنْ عَفَا وَ اَصْلَحَ فَاَجْرُهٗ عَلَی اللّٰهِ ؕ اِنَّهٗ لَا یُحِبُّ الظّٰلِمِیْنَo

(الشوری، 42/ 40)

اور برائی کا بدلہ اسی برائی کی مِثل ہوتا ہے، پھر جِس نے معاف کر دیا اور (معافی کے ذریعہ) اصلاح کی تو اُسکا اجر اللہ کے ذمّہ ہے۔ بے شک وہ ظالموں کو دوست نہیں رکھتاo

اَلْحَدِیْث

107/ 23۔ عَنْ عَبْدِ اللهِ رضی اللہ عنہ، قَالَ: کَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَی النَّبِيِّ ﷺ یَحْکِي نَبِیًّا مِنَ الأنبیاء، ضَرَبَہٗ قَوْمُہٗ فَأَدْمَوْهُ وَھُوَ یَمْسَحُ الدَّمَ عَنْ وَجْهِهٖ، وَیَقُوْلُ: اَللّٰھُمَّ، اغْفِرْ لِقَوْمِي فَإِنَّھُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ۔

مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ۔

107: أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب الأنبیاء، باب حدیث الغار، 3/ 1282، الرقم/ 3290، ومسلم في الصحیح، کتاب الجھاد والسیر، باب غزوۃ أحد، 3/ 1417، الرقم/ 1792، وأحمد بن حنبل في المسند، 1/ 453، الرقم/ 4331، وابن ماجہ في السنن، کتاب الفتن، باب الصبر علی البلائ، 2/ 1335، الرقم/ 4025، وأبو یعلی في المسند، 9/ 131، الرقم/ 5205، والبزار في المسند، 5/ 106- 107، الرقم/ 1686۔

حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ گویا میں حضور نبی اکرم ﷺ کو اُسی حالت میں دیکھ رہا ہوں جبکہ آپ ﷺ انبیاء کرام f میں سے کسی نبی کا ذکر فرما رہے تھے جنہیں اُن کی قوم نے مارتے مارتے لہولہان کر دیا تھا اور وہ اپنے پرُ نور چہرے سے خون صاف کرتے ہوئے فرماتے جاتے تھے: اے اللہ! میری قوم کو بخش دے کیونکہ یہ لوگ (مجھے) نہیں پہچانتے۔

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

108/ 24۔ عَنْ أَبِي ھُرَیْرَۃَ رضی اللہ عنہ أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ: کَانَ الرَّجُلُ یُدَایِنُ النَّاسَ فَکَانَ یَقُوْلُ لِفَتَاهُ: إِذَا أَتَیْتَ مُعْسِرًا فَتَجَاوَزْ عَنْهُ لَعَلَّ اللهَ أَنْ یَتَجَاوَزَ عَنَّا۔ قَالَ: فَلَقِيَ اللهَ فَتَجَاوَزَ عَنْهُ۔

مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ۔

108: أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب الأنبیاء، باب حدیث الغار، 3/ 1283، الرقم/ 3293، ومسلم في الصحیح، کتاب المسافاۃ، باب فضل إنظار المعسر، 3/ 1196، الرقم/ 1562، وأحمد بن حنبل في المسند، 2/ 263، الرقم/ 7569، والنسائي في السنن، کتاب البیوع، باب حسن المعاملۃ والرفق في المطالبۃ، 7/ 318، الرقم/ 4695۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ایک شخص لوگوں کو قرض دیا کرتا تھا۔ اس نے اپنے ملازم سے کہہ رکھا تھا کہ جب تو کسی غریب آدمی سے قرض مانگنے جائے تو درگزر سے کام لینا، شاید اس کے باعث اللہ تعالیٰ ہم سے درگزر فرمائے۔ جب وہ (فوت ہو کر) بارگاہ الٰہی میں حاضر ہوا تو اللہ تعالیٰ نے اس سے درگزر کیا (اور اُسے معاف فرما دیا)۔

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

109/ 25۔ وَفِي رِوَایَۃِ حُذَیْفَۃَ رضی اللہ عنہ قَالَ: أُتِيَ اللهُ بِعَبْدٍ مِنْ عِبَادِہٖ آتَاهُ اللهُ مَالًا، فَقَالَ لَہٗ: مَاذَا عَمِلْتَ فِي الدُّنْیَا؟ -قَالَ: وَلَا یَکْتُمُوْنَ اللهَ حَدِیْثًا- قَالَ: یَا رَبِّ، آتَیْتَنِي مَالَکَ فَکُنْتُ أُبَایِعُ النَّاسَ، وَکَانَ مِنْ خُلُقِي الْجَوَازُ، فَکُنْتُ أَتَیَسَّرُ عَلٰی الْمُوْسِرِ، وَأُنْظِرُ الْمُعْسِرَ۔ فَقَالَ اللهُ تَعَالٰی: أَنَا أَحَقُّ بِذَا مِنْکَ تَجَاوَزُوْا عَنْ عَبْدِي۔

رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ۔

109: أخرجہ مسلم في الصحیح، کتاب المساقاۃ، باب فضل إنظار المعسر، 3/ 1195، الرقم/ 1560، وأحمد بن حنبل في المسند، 4/ 118، الرقم/ 17105۔

ایک روایت میں حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے پاس ایک بندہ لایا گیا جسے اللہ تعالیٰ نے مال عطا فرمایا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اس سے فرمایا: تم نے دنیا میں کیا عمل کیا؟ -راوی نے کہا: لوگ اللہ تعالیٰ سے کوئی بات چھپا نہیں سکتے۔ اُس شخص نے کہا: اے میرے رب! تو نے مجھے مال عطا فرمایا تھا، میں لوگوں سے مالی معاملات کا لین دین کرتا تھا، اور میری عادت درگزر کرنا تھی، میں مال دار پر آسانی کرتا اور تنگ دست کو مہلت دیتا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: میں تجھ سے زیادہ درگزر کرنے کا حق دار ہوں۔ (سو فرشتوں کو حکم دیا:) میرے اس بندے سے درگزر کرو۔

اِسے امام مسلم اور احمد نے ورایت کیا ہے۔

110/ 26۔ وَفِي رِوَایَۃِ أَبِي ھُرَیْرَۃَ رضی اللہ عنہ أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ: إِنَّ اللهَ یُحِبُّ سَمْحَ الْبَیْعِ، سَمْحَ الشِّرَاءِ، سَمْحَ الْقَضَاءِ۔

رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَأَبُوْ یَعْلٰی وَالْحَاکِمُ۔

110: أخرجہ الترمذي في السنن، کتاب البیوع، باب ما جاء في استقراض البعیر، 3/ 609، الرقم/ 1319، وأبو یعلی في المسند، 11/ 112، الرقم/ 6238، والحاکم في المستدرک، 2/ 64، الرقم/ 3338۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ بیچنے میں نرمی کرنے والے، خریدنے میں نرمی کرنے والے اور ادائیگی قرض کے تقاضا میں نرمی کرنے والوں کو محبوب رکھتا ہے۔

اِسے امام ترمذی، ابو یعلی اور حاکم نے روایت کیا ہے۔

111/ 27۔ عَنْ أَبِي ھُرَیْرَۃَ رضی اللہ عنہ، عَنْ رَسُولِ اللهِ ﷺ قَالَ: مَا نَقَصَتْ صَدَقَةٌ مِنْ مَالٍ، وَمَا زَادَ اللهُ عَبْدًا بِعَفْوٍ إِلَّا عِزًّا، وَمَا تَوَاضَعَ أَحَدٌ ِﷲِ إِلَّا رَفَعَهُ اللهُ۔

رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالدَّارِمِيُّ۔

111: أخرجہ مسلم في الصحیح، کتاب البر والصلۃ والآداب، باب استحباب العفو والتواضع، 4/ 2001، الرقم/ 2588، والدارمي في السنن، کتاب الزکاۃ، باب في فضل الصدقۃ، 1/ 486، الرقم/ 1676، وابن خزیمۃ في الصحیح، 4/ 97، الرقم/ 2438، وأبو یعلی في المسند، 11/ 344، الرقم/ 6458۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: صدقہ مال میں کچھ بھی کمی نہیں کرتا، بندے کے معاف کرنے سے اللہ تعالیٰ اس کی عزت ہی بڑھاتا ہے اور جو شخص بھی اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے عاجزی اختیار کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کا درجہ ہی بلند فرماتا ہے۔

اِسے امام مسلم اور دارمی نے روایت کیا ہے۔

112/ 28۔ عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عُمَرَ رضی اللہ عنہم، قَالَ: رضی اللہ عنہ رَجُلٌ إِلَی النَّبِيِّ ﷺ فَقَالَ: یَا رَسُوْلَ اللهِ، کَمْ أَعْفُوْ عَنِ الْخَادِمِ؟ فَصَمَتَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ، ثُمَّ قَالَ: یَا رَسُوْلَ اللهِ، کَمْ أَعْفُوْ عَنِ الْخَادِمِ؟ فَقَالَ: کُلَّ یَوْمٍ سَبْعِیْنَ مَرَّۃً۔

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَأَبُوْ دَاوُدَ وَالتِّرْمِذِيَُّ وَاللَّفْظُ لَہٗ۔ وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: ھٰذَا حَدِیْثٌ حَسَنٌ۔

112: أخرجہ أحمد بن حنبل في المسند، 2/ 111، الرقم/ 5899، وأبوداود في السنن، کتاب الأدب، باب في حق المملوک، 4/ 341، الرقم/ 5164، والترمذي في السنن، کتاب البر والصلۃ، باب ما جاء في العفو عن الخادم، 4/ 336، الرقم/ 1949، وأبو یعلی في المسند، 10/ 133، الرقم/ 5760۔

حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک آدمی حضورنبی اکرم ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہو کر عرض گزار ہوا: یا رسول اللہ! ہم خادم سے کہاں تک درگزر کریں؟ رسول اللہ ﷺ خاموش رہے۔ اُس نے پھر عرض کیا: یا رسول اللہ! ہم خادم سے کہاں تک درگز کریں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ہر روز اُس سے ستر بار درگزر کیا کرو۔

اِسے امام احمد، ابو داود اور ترمذی نے روایت کیا ہے۔ یہ الفاظ ترمذی کے ہیں۔ اور انہوں نیفرمایا: یہ حدیث حسن ہے۔

113/ 29۔ وَفِي رِوَایَۃِ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ رضی اللہ عنہم، أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ قَالَ: تَعَافُّوا الْحُدُوْدَ فِیْمَا بَیْنَکُمْ، فَمَا بَلَغَنِي مِنْ حَدٍّ فَقَدْ وَجَبَ۔

رَوَاهُ أَبُوْ دَاوُدَ وَالنَّسَائِيُّ وَالْحَاکِمُ، وَقَالَ: ھٰذَا حَدِیْثٌ صَحِیْحُ الْإِسْنَادِ۔

113: أخرجہ أبو داود في السنن، کتاب الحدود، باب العفو عن الحدود ما لم تبلغ السلطان، 4/ 133، الرقم/ 4376، والنسائي في السنن، کتاب قطع السارق، باب ما یکون حرزا وما لا یکون، 8/ 70، الرقم/ 4885، والحاکم في المستدرک، 4/ 424، الرقم/ 8156، والبیہقي في السنن الکبری، 8/ 331، الرقم/ 17389۔

حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: حدود کے معاملے کو آپس میں ہی معاف کر دیا کرو۔ اگر بات مجھ تک پہنچ جائے گی تو اس کا جاری کرنا واجب ہوجائے گا (یعنی حاکم تک پہنچ جائے تو معافی اور درگزر کا وقت گزر جاتا ہے)۔

اِسے امام ابو داود، نسائی اور حاکم نے روایت کیا ہے۔ امام حاکم نے فرمایا ہے: اس حدیث کی اسناد صحیح ہیں۔

114/ 30۔ عَنْ سَہْلِ بْنِ مُعَاذِ بْنِ أَنَسٍ عَنْ أَبِیْهِ رضی اللہ عنہ، عَنْ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ أَنَّہٗ قَالَ: أَفْضَلُ الْفَضَائِلِ أَنْ تَصِلَ مَنْ قَطَعَکَ، وَتُعْطِيَ مَنْ مَنَعَکَ، وَتَصْفَحَ عَمَّنْ شَتَمَکَ۔

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالطَّبَرَانِيُّ۔

114: أخرجہ أحمد بن حنبل في المسند، 3/ 438، الرقم/ 15656، والطبراني في المعجم الکبیر، 20/ 188، الرقم/ 413۔

حضرت معاذ بن انس سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: سب سے اعلیٰ فضیلت یہ ہے کہ تو اس شخص سے رشتہ جوڑے جو تجھ سے توڑتا ہے، تو اُسے عطا کرے جو تجھے انکار کرتا ہے اور تو اس سے درگزر کرے جو تجھے گالی دیتا ہے۔

اِسے امام احمد اور ـــطبرانی نے روایت کا ہے۔

115/ 31۔ وَفِي رِوَایَۃِ أَبِي سَعِیْدٍ رضی اللہ عنہ، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: أَحْسِنُوْا إِذَا وُلِّیْتُمْ، وَاعْفُوْا عَمَّا مَلَکْتُمْ۔

رَوَاهُ الْقُضَاعِيُّ۔

115: أخرجہ القضاعي في مسند الشہاب، 1/ 413، الرقم/ 712۔

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب تمہیں والی (حکمران) مقرر کیا جائے تو اپنے قول و فعل سے رعایا کے ساتھ بھلائی کرو اور اپنے زیرِ دست لوگوں سے درگزر کرو۔

اِسے امام قضاعی نے روایت کیا ہے۔

116/ 32۔ عَنْ أَبِي بَکْرٍ رضی اللہ عنہ، قَالَ: بَلَغَنَا أَنَّ اللهَ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی یَأْمُرُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ مُنَادِیًا فَیُنَادِي: أَلَا مَنْ کَانَ لَہٗ عِنْدَ اللهِ سبحانہ وتعالیٰ شَيْئٌ فَلْیَقُمْ، فَیَقُوْمُ أَہْلُ الْعَفْوِ، فَیُکَافِئُهُمُ اللهُ سبحانہ وتعالیٰ بِمَا کَانَ مِنْ عَفْوِھِمْ عَنِ النَّاسِ۔

رَوَاهُ الْمَرْوَزِيُّ۔

116: أخرجہ أبو بکر المروزي فيالمسند، 1/ 73، الرقم/ 21۔

حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ بیان کرتے ہیں: ہمیں یہ بات پہنچی ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ایک منادی کو حکم فرمائے گا، پس وہ یوں اعلان کرے گا: جن کا اللہ تعالیٰ کے ہاں کوئی اجر بچا ہو وہ کھڑے ہوں، اہلِ عفو کھڑے ہوں گے اور اللہ تعالیٰ ان کی طرف سے لوگوں کے ساتھ درگزر کرنے کے بدلے میں ان سے درگزر فرمائے گا۔

اِسے امام مروزی نے روایت کیا ہے۔

مَا رُوِيَ عَنِ الْأَئِمَّۃِ مِنَ السَّلَفِ الصَّالِحِیْنَ

عَنْ عِکْرِمَۃَ، قَالَ: قَالَ اللهُ تَعَالٰی لِیُوْسُفَ: یَا یُوْسُفُ، بِعَفْوِکَ عَنْ إِخْوَتِکَ رَفَعْتُ ذِکْرَکَ فِي الذَّاکِرِیْنَ.

(1) الخرائطي في المنتقی من کتاب مکارم الأخلاق ومعالیہا، 1/ 85، الرقم/ 172۔

حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: اللہ تعالیٰ نے حضرت یوسف علیہ السلام سے فرمایا: اے یوسف! میں نے تیرا ذکر اپنے بھائیوں کو معاف کر دینے کی وجہ سے ذاکرین میںبلند کر دیا ہے۔

عَنِ الْحَسَنِ یَقُوْلُ: إِذَا جَثَتِ الأُمَمُ بَیْنَ یَدَيْ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ، نُوْدُوْا لِیَقُمْ مَنْ أَجْرُہٗ عَلَی اللهِ، فَـلَا یَقُوْمُ إِلَّا مَنْ عَفَا فِي الدُّنْیَا.

(1) أبو نعیم في حلیۃ الأولیاء، 9/ 204۔

امام حسن بصری فرماتے ہیں: جب روز قیامت تمام اُمتیں عاجزی کے ساتھ رب العالمین کے حضور پیش ہوں گی تو کہا جائے گا: جس کا اجر اللہ تعالیٰ کے ذمے ہے وہ کھڑا ہو جائے۔ اس وقت سوائے معاف کرنے والوں کے اور کوئی نہیں اُٹھے گا۔

عَنِ الْحَسَنِ قَالَ: أَفْضَلُ أَخْلَاقِ الْمُؤْمِنِ الْعَفْوُ.

(2) ابن مفلح في الآداب الشرعیۃ، 1/ 101۔

امام حسن بصری نے فرمایا: مومن کا بہترین اخلاق معاف کر دینا ہے۔

اَلْجُوْدُ وَالإِیْثَارُ

{جود و سخا اور ایثار}

اَلْقُرْآن

(1) وَ یَسْـَٔلُوْنَكَ مَا ذَا یُنْفِقُوْنَ ؕ۬ قُلِ الْعَفْوَ.

(البقرۃ، 2/ 219)

اور آپ سے یہ بھی پوچھتے ہیں کہ کیا کچھ خرچ کریں؟ فرما دیں جو ضرورت سے زائد ہے (خرچ کر دو)۔

(2) لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰی تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ ؕ۬ وَ مَا تُنْفِقُوْا مِنْ شَیْءٍ فَاِنَّ اللّٰهَ بِهٖ عَلِیْمٌo

(آل عمران، 3/ 92)

تم ہرگز نیکی کو نہیں پہنچ سکو گے جب تک تم (اللہ کی راہ میں) اپنی محبوب چیزوں میں سے خرچ نہ کرو، اور تم جو کچھ بھی خرچ کرتے ہو بے شک اللہ اسے خوب جاننے والا ہےo

(3) وَ الَّذِیْنَ تَبَوَّؤُ الدَّارَ وَ الْاِیْمَانَ مِنْ قَبْلِهِمْ یُحِبُّوْنَ مَنْ هَاجَرَ اِلَیْهِمْ وَ لَا یَجِدُوْنَ فِیْ صُدُوْرِهِمْ حَاجَةً مِّمَّاۤ اُوْتُوْا وَ یُؤْثِرُوْنَ عَلٰۤی اَنْفُسِهِمْ وَ لَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ ۫ؕ وَ مَنْ یُّوْقَ شُحَّ نَفْسِهٖ فَاُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَۚo

(الحشر، 59/ 9)

(یہ مال اُن انصار کے لیے بھی ہے) جنہوں نے اُن (مہاجرین) سے پہلے ہی شہرِ (مدینہ) اور ایمان کو گھر بنالیا تھا۔ یہ لوگ اُن سے محبت کرتے ہیں جو اِن کی طرف ہجرت کر کے آئے ہیں۔ اور یہ اپنے سینوں میں اُس (مال) کی نسبت کوئی طلب (یا تنگی) نہیں پاتے جو اُن (مہاجرین) کو دیا جاتا ہے اور اپنی جانوں پر انہیں ترجیح دیتے ہیں اگرچہ خود اِنہیں شدید حاجت ہی ہو، اور جو شخص اپنے نفس کے بُخل سے بچالیا گیا پس وہی لوگ ہی با مراد و کامیاب ہیںo

اَلْحَدِیْث

117/ 33۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضی اللہ عنہم، قَالَ: کَانَ رَسُولُ اللهِ ﷺ أَجْوَدَ النَّاسِ، وَکَانَ أَجْوَدُ مَا یَکُوْنُ فِي رَمَضَانَ حِینَ یَلْقَاهُ جِبْرِیْلُ، وَکَانَ یَلْقَاهُ فِي کُلِّ لَیْلَۃٍ مِنْ رَمَضَانَ فَیُدَارِسُهُ الْقُرْآنَ، فَلَرَسُولُ اللهِ ﷺ أَجْوَدُ بِالْخَیْرِ مِنَ الرِّیْحِ الْمُرْسَلَۃِ۔

مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ۔

117: أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب بدء الوحي، باب کیف کان بدء الوحي، 1/ 6، الرقم/ 6، ومسلم في الصحیح، کتاب الفضائل، باب کان النبي ﷺ أجود الناس بالخیر من الریح المرسلۃ، 4/ 1803، الرقم/ 2308، وأحمد بن حنبل في المسند، 1/ 288، الرقم/ 2616، والنسائي في السنن، کتاب الصیام، باب الفضل والجود في شہر رمضان، 4/ 125، الرقم/ 2095۔

حضرت (عبد اللہ) بن عباس رضی اللہ عنہم نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ سب لوگوں سے زیادہ سخی تھے اور رمضان میں جب حضرت جبرائیل علیہ السلام سے ملاقات ہوتی تو آپ ﷺکی سخاوت اور بھی بڑھ جاتی۔ وہ رمضان کی ہر رات میں آپ ﷺ سے ملتے اور آپ ﷺ کے ساتھ قرآن مجید کا دور کرتے۔ پس رسول اللہ ﷺ خیرات کرنے میں تیز ہوا سے بھی زیادہ سخی تھے۔

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

118/ 34۔ وَفِي رِوَایَۃٍ عَنْ جَابِرٍ رضی اللہ عنہ، یَقُولُ: مَا سُئِلَ النَّبِيُّ ﷺ عَنْ شَیْئٍ قَطُّ، فَقَالَ: لَا۔

مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ۔

118: أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب الأدب، باب حسن الخلق والسخاء وما یکرہ من البخل، 5/ 2244، الرقم/ 5687، ومسلم في الصحیح، کتاب الفضائل، باب ما سئل رسول اللہ ﷺ شیئا قط فقال لا، وکثرۃ عطائہ، 4/ 1805، الرقم/ 2311، وأحمد بن حنبل في المسند، 3/ 307، الرقم/ 14333۔

حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہم بیان کرتے ہیں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ رسول اللہ ﷺ سے کسی چیز کا سوال کیا گیا ہو اور آپ ﷺ نے جواب میں ’نہیں‘ فرمایا ہو۔

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

119/ 35۔ وَفِي رِوَایَۃِ أَبِي ھُرَیْرَۃَ رضی اللہ عنہ، قَالَ: رضی اللہ عنہ م رَجُلٌ إِلٰی رَسُولِ اللهِ ﷺ فَقَالَ: إِنِّي مَجْھُوْدٌ۔ فَأَرْسَلَ إِلٰی بَعْضِ نِسَائِہٖ۔ فَقَالَتْ: وَالَّذِي بَعَثَکَ بِالْحَقِّ مَا عِنْدِي إِلَّا مَاءٌ۔ ثُمَّ أَرْسَلَ إِلٰیأُخْرٰی، فَقَالَتْ مِثْلَ ذٰلِکَ حَتّٰی قُلْنَ کُلُّھُنَّ مِثْلَ ذٰلِکَ: لَا، وَالَّذِي بَعَثَکَ بِالْحَقِّ مَا عِنْدِي إِلَّا مَاءٌ۔ فَقَالَ: مَنْ یُضَیِّفُ ھٰذَا اللَّیْلَۃَ رَحِمَهُ اللهُ۔ فَقَامَ رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ، فَقَالَ: أَنَا، یَا رَسُولَ اللهِ۔ فَانْطَلَقَ بِہٖ إِلٰی رَحْلِہٖ، فَقَالَ لِامْرَأَتِہٖ: هَلْ عِنْدَکِ شَيْئٌ؟ قَالَتْ: لَا إِلَّا قُوتُ صِبْیَانِي۔ قَالَ: فَعَلِّلِیْھِمْ بِشَيْئٍ۔ فَإِذَا دَخَلَ ضَیْفُنَا فَأَطْفِیئِ السِّرَاجَ وَأَرِیْهِ أَنَّا نَأْکُلُ۔ فَإِذَا أَھْوٰی لِیَأْکُلَ فَقُوْمِي إِلَی السِّرَاجِ حَتّٰی تُطْفِئِیْهِ۔ قَالَ: فَقَعَدُوا وَأَکَلَ الضَّیْفُ۔ فَلَمَّا أَصْبَحَ غَدَا عَلَی النَّبِيِّ ﷺ فَقَالَ: قَدْ عَجِبَ اللهُ مِنْ صَنِیْعِکُمَا بِضَیْفِکُمَا اللَّیْلَۃَ۔

مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ وَاللَّفْظُ لِمُسْلِمٍ۔

119: أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب التفسیر، باب ویؤثرون علی أنفسہم، 4/ 1854، الرقم/ 4607، ومسلم في الصحیح، کتاب الأشربۃ، باب إکرام الضیف، 3/ 1624، الرقم/ 2054، وأبو یعلی في المسند، 11/ 29، الرقم/ 6168۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ میں فاقہ سے ہوں۔ آپ ﷺ نے اپنی کسی زوجہ محترمہ کی طرف پیغام بھیجا، انہوں نے کہا: اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا، میرے پاس تو پانی کے سوا کچھ نہیں ہے، پھر آپ ﷺ نے دوسری زوجہ محترمہ کے پاس پیغام بھیجا، انہوں نے بھی اسی طرح کہا، حتیٰ کہ سب نے یہی کہا: اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا، میرے پاس پانی کے سوا کچھ نہیں۔ بالآخر آپ ﷺ نے فرمایا: جو شخص آج رات اس کی مہمان نوازی کرے گا، اللہ تعالیٰ اس پر رحم فرمائے گا۔ انصار میں سے ایک شخص نے کھڑے ہو کر عرض کیا: یا رسول اللہ! میں (اس کی مہمان نوازی کروں گا)۔ وہ شخص اسے اپنے گھر لے گیا اور بیوی سے پوچھا: تمہارے پاس (کھانے کی) کوئی چیز ہے؟ بیوی نے کہا: نہیں، صرف بچوں کا کھانا ہے۔ اس نے کہا: بچوں کو کسی چیز سے بہلا دو، جب ہمارا مہمان آئے تو چراغ بجھا دینا اور اس پر یہ ظاہر کرنا کہ ہم کھانا کھا رہے ہیں۔ جب وہ کھانا کھانے لگے تو تم اُٹھ کر چراغ کو بجھا دینا۔ راوی کہتے ہیں کہ پھر وہ سب بیٹھ گئے اور مہمان نے کھانا کھا لیا۔ صبح جب وہ حضور نبی اکرم ﷺ کی بارگاہ میں پہنچا تو آپ ﷺ نے فرمایا: گزشتہ رات مہمان کے ساتھ آپ دونوں کے حسن سلوک کو اللہ تعالیٰ نے بہت ہی پسند فرمایا ہے۔

یہ حدیث متفق علیہ ہے اور مذکورہ الفاظ مسلم کے ہیں۔

120/ 36۔ وَفِي رِوَایَۃٍ أَبِي ھُرَیْرَۃَ رضی اللہ عنہ: أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ قَالَ: قَالَ اللهُ سبحانہ وتعالیٰ: أَنْفِقْ أُنْفِقْ عَلَیْکَ۔ وَقَالَ: یَدُ اللهِ مَلْـأٰی، لَا تَغِیْضُھَا نَفَقَۃٌ، سَحَّاءُ اللَّیْلَ وَالنَّھَارَ۔ وَقَالَ: أَرَأَیْتُمْ مَا أَنْفَقَ مُنْذُ خَلَقَ السَّمَاءَ وَالْأَرْضَ، فَإِنَّہٗ لَمْ یَغِضْ مَا فِي یَدِہٖ، وَکَانَ عَرْشُہٗ عَلَی الْمَاءِ، وَبِیَدِهِ الْمِیزَانُ یَخْفِضُ وَیَرْفَعُ۔

مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ.

120: أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب تفسیر القرآن، باب قولہ: وعرشہ علی المائ، 4/ 1724، الرقم/ 4407، ومسلم في الصحیح، کتاب الزکاۃ، باب الحث علی النفقۃ وتبشیر المنفق بالخلف، 2/ 690، الرقم/ 993، وأحمد بن حنبل في المسند، 2/ 313، 500، الرقم/ 8125، 10507، وابن ماجہ في السنن، المقدمۃ، باب فیما أنکرت الجھمیۃ، 1/ 71، الرقم/ 197۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے ہی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: تو میری راہ میں مال خرچ کر، میں تجھے عطا کروں گا۔ اور فرمایا کہ اللہ کے ہاتھ بھرے ہیں، رات دن خرچ کرنے سے بھی کبھی خالی نہیں ہوتے۔ فرمایا: کیا تم نہیں دیکھتے جب سے اُس نے آسمان اور زمین کو تخلیق فرمایا اُس وقت سے اُس نے کتنے لوگوں کو عطا کیا لیکن اُس کے خزانوں میں کوئی کمی نہیں آئی، اور اُس کا عرش پانی پر تھا اور اُسی کے ہاتھ میں میزان ہے جس کا ایک پلڑا پست اور ایک پلڑا بلند ہوتا ہے۔

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

121/ 37۔ وَفِي رِوَایَةٍ أَبِي ھُرَیْرَۃَ رضی اللہ عنہ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ: قَالَ: السَّخِيُّ قَرِیْبٌ مِنَ اللهِ تَعَالٰی، قَرِیْبٌ مِنَ الْجَنَّۃِ، قَرِیْبٌ مِنَ النَّاسِ، بَعِیْدٌ مِنَ النَّارِ۔ وَالْبَخِیْلُ بَعِیْدٌ مِنَ اللهِ تَعَالٰی، بَعِیْدٌ مِنَ الْجَنَّۃِ، بَعِیْدٌ مِنَ النَّاسِ، قَرِیْبٌ مِنَ النَّارِ۔ وَجَاهِلٌ سَخِيُّ أَحَبُّ إِلَی اللهِ تَعَالٰی مِنْ عَابِدٍ بَخِیْلٍ۔

رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالطَّبَرَانِيُّ.

121: أخرجہ الترمذي في السنن، کتاب البر والصلۃ، باب ما جاء في السخائ، 4/ 342، الرقم/ 1961، والطبراني في المعجم الأوسط، 3/ 27، الرقم/ 2363، والبیھقي في شعب الإیمان، 7/ 428، الرقم/ 10847۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے ہی روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: سخی اللہ تعالیٰ، جنت اور لوگوں کے قریب جبکہ دوزخ سے دور ہوتا ہے۔ بخیل اللہ تعالیٰ، جنت اور لوگوں سے دور جبکہ جہنم کے قریب ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کو جاہل سخی، بخیل عابد سے زیادہ محبوب ہے۔

اِسے امام ترمذی اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔

122/ 38۔ عَنْ أَبِي ھُرَیْرَۃَ رضی اللہ عنہ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: مَنْ تَصَدَّقَ بِعَدْلِ تَمْرَةٍ مِنْ کَسْبٍ طَیِّبٍ وَلَا یَقْبَلُ اللهُ إِلَّا الطَّیِّبَ وَإِنَّ اللهَ یَتَقَبَّلُھَا بِیَمِیْنِہٖ، ثُمَّ یُرَبِّیْھَا لِصَاحِبِہٖ کَمَا یُرَبِّي أَحَدُکُمْ فَلُوَّہٗ، حَتّٰی تَکُوْنَ مِثْلَ الْجَبَلِ۔

مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ۔

122: أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب الزکاۃ، باب الریاء في الصدقۃ، 2/ 511، الرقم/ 1344، ومسلم في الصحیح، کتاب الزکاۃ، باب قبول الصدقۃ من الکسب الطیب، 2/ 702، الرقم/ 1014، وأحمد بن حنبل في المسند، 2/ 419، الرقم/ 9423۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس نے کھجور کے برابر بھی حلال کمائی سے خیرات کی اور اللہ تعالیٰ حلال کمائی ہی سے قبول کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے اپنے داہنے دستِ قدرت میں لیتا ہے۔ پھر خیرات کرنے والے کے لیے اس کی پرورش کرتا ہے جیسے تم میں سے کوئی اپنے بچھڑے کی پرورش کرتا ہے، یہاں تک کہ وہ نیکی پہاڑ کے برابر ہو جاتی ہے۔

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

123/ 39۔ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ أَبِي بَکْرٍ رضی اللہ عنہم قَالَ: إِنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: مَنْ کَانَ عِنْدَہٗ طَعَامُ اثْنَیْنِ فَلْیَذْهَبْ بِثَالِثٍ، وَمَنْ کَانَ عِنْدَہٗ طَعَامُ أَرْبَعَةٍ فَلْیَذْهَبْ بِخَامِسٍ أَوْ سَادِسٍ۔

مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ۔

123: أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب المناقب، باب علامات النبوۃ في الإسلام، 3/ 1312، الرقم/ 3388، ومسلم في الصحیح، کتاب الأشربۃ، باب إکرام الضیف وفضل إیثارہ، 3/ 1627، الرقم/ 3057، وأحمد بن حنبل في المسند، 1/ 198، الرقم/ 1712، والبزار في المسند، 6/ 227، الرقم/ 2263۔

حضرت عبد الرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہم بیان کرتے ہیں کہ بے شک حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جس شخص کے پاس دو نفوس کا کھانا ہے وہ تیسرے کو ساتھ ملا لے اور جس کے پاس چار کا کھانا ہے وہ پانچویں یا چھٹے کو بھی ساتھ ملا لے۔

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

124/ 40۔ عَنْ أَبِي ھُرَیْرَۃَ رضی اللہ عنہ أَنَّہٗ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: طَعَامُ الْاِثْنَیْنِ کَافِي الثَّـلَاثَۃِ، وَطَعَامُ الثَّـلَاثَۃِ کَافِي الْأَرْبَعَۃِ۔

مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ۔

124: أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب الأطعمۃ، باب طعام الواحد یکفي الاثنین، 5/ 2061، الرقم/ 5077، ومسلم في الصحیح، کتاب الأشربۃ، باب فضیلۃ المواساۃ في الطعام القلیل وأن طعام الاثنین یکفي الثلاثۃ ونحو ذلک، 3/ 1630، الرقم/ 2058، وأحمد بن حنبل في المسند، 2/ 407، الرقم/ 9266، والترمذي في السنن، کتاب الأطمعۃ، باب ما جاء في طعام الواحد یکفي الاثنین، 4/ 267، الرقم/ 1820،

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: دو آدمیوں کا کھانا تین کے لیے کافی ہوتا ہے اور تین آدمیوں کا کھانا چار کے لیے کافی ہوتا ہے۔

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

125/ 41۔ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ رضی اللہ عنہ یَقُوْلُ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ یَقُوْلُ: طَعَامُ الْوَاحِدِ یَکْفِي الْاِثْنَیْنِ، وَطَعَامُ الْاِثْنَیْنِ یَکْفِي الْأَرْبَعَۃَ، وَطَعَامُ الْأَرْبَعَۃِ یَکْفِي الثَّمَانِیَۃَ۔

رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ وَالتِّرْمِذِيُّ۔

125: أخرجہ مسلم في الصحیح، کتاب الأشربۃ، باب فضیلۃ المواساۃ في الطعام القلیل وأن طعام الاثنین یکفي الثلاثۃ ونحو ذلک، 3/ 1630، الرقم/ 2059، وأحمد بن حنبل في المسند، 3/ 301، 382، الرقم/ 14260، 15144، والترمذي في السنن، کتاب الأطمعۃ، باب ما جاء في طعام الواحد یکفي الاثنین، 4/ 267، الرقم/ 1820، وابن ماجہ في السنن، کتاب الأطعمۃ، باب طعام الواحد یکفي الاثنین، 2/ 1084، الرقم/ 3254۔

حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: ایک شخص کا کھانا دو کے لیے کافی ہے اور دو کا کھانا چار کے لیے کافی ہے اور چار کا کھانا آٹھ کے لیے کافی ہے۔

اس حدیث کو امام مسلم، احمد بن حنبل اور ترمذی نے روایت کی ہے۔

126/ 42۔ عَنْ أَبِي أُمَامَۃَ رضی اللہ عنہ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: یَا ابْنَ آدَمَ، إِنَّکَ أَنْ تَبْذُلَ الْفَضْلَ خَیْرٌ لَکَ، وَأَنْ تُمْسِکَہٗ شَرٌّ لَکَ، وَلَا تُـلَامُ عَلٰی کَفَافٍ، وَابْدَأْ بِمَنْ تَعُوْلُ، وَالْیَدُ الْعُلْیَا خَیْرٌ مِنَ الْیَدِ السُّفْلٰی۔

رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ وَالتِّرْمِذِيُّ۔

126: أخرجہ مسلم في الصحیح، کتاب الزکاۃ، باب النھي عن المسألۃ، 2/ 718، الرقم/ 1036، وأحمد بن حنبل في المسند، 5/ 262، الرقم/ 22319، والترمذي في السنن، کتاب الزہد، باب: 32، 4/ 573، الرقم/ 2343۔

حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اے ابن آدم! تیرے لیے ضرورت سے زائد چیز کا خرچ کرنا بہتر ہے اور اگر تو اس کو سنبھالے رکھے (اور خرچ نہ کرے) تو یہ تیرے لیے برا ہے، اور ضرورت کے مطابق خرچ کرنے پر تجھے ملامت نہیں ہے۔ (صدقہ و خیرات دیتے وقت) ان سے ابتداء کر جو تیرے زیر پرورش ہیں۔ اوپر والا ہاتھ (دینے والا) نچلے ہاتھ(لینے والے) سے بہتر ہے۔

اس حدیث کو امام مسلم، احمد بن حنبل اور ترمذی نے روایت کی ہے۔

127/ 43۔ عَنْ أَبِي سَعِیْدٍ الْخُدْرِيِّ رضی اللہ عنہ، قَالَ: بَیْنَمَا نَحْنُ فِي سَفَرٍ مَعَ النَّبِيِّ ﷺ إِذْ رضی اللہ عنہ م رَجُلٌ عَلٰی رَاحِلَۃٍ لَہٗ، قَالَ: فَجَعَلَ یَصْرِفُ بَصَرَہٗ یَمِیْنًا وَشِمَالًا، فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: مَنْ کَانَ مَعَہٗ فَضْلُ ظَہْرٍ فَلْیَعُدْ بِہٖ عَلٰی مَنْ لَا ظَھْرَ لَہٗ، وَمَنْ کَانَ لَہٗ فَضْلٌ مِنْ زَادٍ فَلْیَعُدْ بِہٖ عَلٰی مَنْ لَا زَادَ لَہٗ۔

قَالَ: فَذَکَرَ مِنْ أَصْنَافِ الْمَالِ مَا ذَکَرَ، حَتّٰی رَأَیْنَا أَنَّہٗ لَا حَقَّ لِأَحَدٍ مِنَّا فِي فَضْلٍ۔

رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ وَأَبُوْ دَاوُدَ۔

127: أخرجہ مسلم في الصحیح، کتاب اللقطۃ، باب استحباب المواساۃ بفضول المال، 3/ 1354، الرقم/ 1728، وأحمد بن حنبل في المسند، 3/ 34، الرقم/ 11311، وأبو داود في السنن، کتاب الزکاۃ، باب في حقوق المال، 2/ 125، الرقم/ 1663، وابن حبان في الصحیح، 12/ 238، الرقم/ 5419، وأبو یعلی في المسند، 2/ 326، الرقم/ 1064، والبیہقي في السنن الکبری، 4/ 182، الرقم/ 7571۔

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیںکہ ایک دفعہ ہم حضور نبی اکرم ﷺ کے ساتھ سفر میں تھے کہ اچانک ایک شخص اونٹنی پر سوار ہو کر آیا اور دائیں بائیں دیکھنے لگا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس کے پاس زائد سواری ہے، اُس پر لازم ہے کہ وہ اُس شخص کو لوٹا دے جس کے پاس سواری نہیں ہے۔ جس کے پاس ضرورت سے زائد ساز و سامان ہے اُس پر لازم ہے کہ وہ اُس شخص کو لوٹا دے جس کے پاس سامان نہیں ہے۔

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے مختلف اصناف کا ذکر فرمایا حتیٰ کہ ہم یہ سمجھے کہ ہم میں سے کسی کو بھی ضرورت سے زائد اشیاء اپنے پاس رکھنے کا کوئی حق نہیں ہے۔

اِسے امام مسلم، احمد اور ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔

128/ 44۔ وَفِي رِوَایَۃٍ عَنْ أَبِي کَبْشَۃَ الْأَنَّمَارِيِّ رضی اللہ عنہ أَنَّہٗ سَمِعَ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ یَقُوْلُ: ثَـلَاثَۃٌ أُقْسِمُ عَلَیْهِنَّ وَأُحَدِّثُکُمْ حَدِیْثًا، فَاحْفَظُوْهُ۔ قَالَ: مَا نَقَصَ مَالُ عَبْدٍ مِنْ صَدَقَۃٍ، وَلَا ظُلِمَ عَبْدٌ مَظْلَمَۃً فَصَبَرَ عَلَیْھَا إِلَّا زَادَهُ اللهُ عِزًّا، وَلَا فَتَحَ عَبْدٌ بَابَ مَسْأَلَۃٍ إِلَّا فَتَحَ اللهُ عَلَیْهِ بَابَ فَقْرٍ أَوْ کَلِمَۃً نَحْوَھَا، وَأُحَدِّثُکُمْ حَدِیْثًا فَاحْفَظُوْهُ۔ قَالَ: إِنَّمَا الدُّنْیَا لِأَرْبَعَۃِ نَفَرٍ: عَبْدٍ رَزَقَهُ اللهُ مَالًا وَعِلْمًا فَھُوَ یَتَّقِي فِیْهِ رَبَّہٗ، وَیَصِلُ فِیْهِ رَحِمَہٗ، وَیَعْلَمُ لِلّٰهِ فِیْهِ حَقًّا فَھٰذَا بِأَفْضَلِ الْمَنَازِلِ، وَعَبْدٍ رَزَقَهُ اللهُ عِلْمًا وَلَمْ یَرْزُقْهُ مَالًا فَھُوَ صَادِقُ النِّیَّۃِ، یَقُوْلُ: لَوْ أَنَّ لِي مَالًا لَعَمِلْتُ بِعَمَلِ فُـلَانٍ؛ فَھُوَ بِنِیَّتِہٖ فَأَجْرُھُمَا سَوَائٌ۔ وَعَبْدٍ رَزَقَهُ اللهُ مَالًا وَلَمْ یَرْزُقْهُ عِلْمًا فَھُوَ یَخْبِطُ فِي مَالِہٖ بِغَیْرِ عِلْمٍ، لَا یَتَّقِي فِیْهِ رَبَّہٗ وَلَا یَصِلُ فِیْهِ رَحِمَہٗ، وَلَا یَعْلَمُ لِلّٰهِ فِیْهِ حَقًّا، فَھٰذَا بِأَخْبَثِ الْمَنَازِلِ۔ وَعَبْدٍ لَمْ یَرْزُقْهُ اللهُ مَالًا وَلَا عِلْمًا فَھُوَ یَقُوْلُ: لَوْ أَنَّ لِي مَالًا لَعَمِلْتُ فِیْهِ بِعَمَلِ فُـلَانٍ، فَھُوَ نِیَّتُہٗ، فَوِزْرُھُمَا سَوَائٌ۔

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالتِّرْمِذِيُّ وَاللَّفْظُ لَہٗ۔ وَقَالَ: ھٰذَا حَدِیثٌ حَسَنٌ صَحِیحٌ۔

128: أخرجہ أحمد بن حنبل في المسند، 4/ 231، الرقم/ 18060، والترمذي في السنن، کتاب الزھد، باب ما جاء أن الدنیا سجن المؤمن، 4/ 562، الرقم/ 2325۔

حضرت ابو کبشہ انماری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: تین باتوں پر میں قسم کھاتا ہوں لیکن تم سے ایک بات بیان کرتا ہوں، سو اُسے یاد رکھو۔ آپ ﷺ نے فرمایا: صدقہ کرنے سے کسی شخص کا مال کم نہیں ہوتا، مظلوم جب ظلم پر صبر کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی عزت بڑھا دیتا ہے، جب کوئی شخص سوال کا دروازہ کھول دیتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس پر فقر کا دروازہ کھولتا ہے۔ (راوی کہتے ہیں: یہاں آپ ﷺ نے فقر)یا اس جیسا کوئی دوسرا لفظ فرمایا تھا۔ (پھر فرمایا:) میں تم سے ایک (اور) بات بیان کرتا ہوں، اسے بھی یاد رکھو۔ آپ ﷺ نے فرمایا: دنیا، چار طرح کے آدمیوں کے لیے ہے: ایک وہ ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے مال اور علم دیا، پس وہ اپنے رب سے ڈرتے ہوئے پرہیز گاری اختیار کرتا ہے اور (مال کے ذریعے) صلہ رحمی کرتا ہے اور اس (مال) میں اللہ تعالیٰ کے حق کو جانتا ہے۔ یہ شخص سب سے افضل مرتبہ میں ہے۔ دوسرا شخص وہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے علم دیا لیکن مال نہیں دیا۔ یہ سچی نیت رکھتا ہے اورکہتا ہے: اگر میرے پاس مال ہوتا تو میں بھی فلاں کی طرح عمل کرتا۔ پس اس کا مرتبہ اس کی نیت کے مطابق ہے اور ان دونوں کا ثواب ایک جیسا ہے۔ اور ایک آدمی وہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے مال دیا، لیکن علم نہیں دیا، وہ اپنا مال لا علمی کی بنا پر ضائع کرتا ہے، رب سے ڈرتا ہے نہ صلہ رحمی کرتا ہے اور نہ ہی جانتا ہے کہ اس (مال) میں اللہ تعالیٰ کا حق بھی ہے۔ یہ شخص نہایت بری منزل میں ہے۔ چوتھا شخص وہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے نہ تو مال دیا اور نہ ہی علم لیکن وہ کہتا ہے: اگر میرے پاس مال ہوتا تو میں فلاں کے جیسا عمل کرتا۔ یہ بھی اپنی نیت کے مطابق ہے اور ان دونوں کا وبال ایک جیسا ہوگا۔

اِسے امام احمد اور ترمذی نے روایت کیا ہے۔ جب کہ الفاظ ترمذی کے ہیں۔

مَا رُوِيَ عَنِ الصَّحَابَۃِ وَالسَّلَفِ الصَّالِحِیْنَ

قِیْلَ: بَکٰی أَمِیْرُ الْمُؤْمِنِیْنَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ رضی اللہ عنہ یَوْماً، فَقِیْلَ لَہٗ: مَا یُبْکِیْکَ؟ فَقَالَ: لَمْ یَأْتِنِي ضَیْفٌ مُنْذُ سَبْعَۃِ أَیَّامٍ، وَأَخَافُ أَنْ یَکُوْنَ اللهُ تَعَالٰی قَدْ أَھَانَنِي.

ذَکَرَهُ الْقُشَیْرِيُّ فِي الرِّسَالَۃِ۔

(1) القشیري في الرسالۃ، 366۔

مروی ہے کہ ایک روز امیر المؤمنین سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ رو رہے تھے۔ اُن سے اس کا سبب پوچھا گیا تو فرمایا: سات دن سے میرے ہاں کوئی مہمان نہیں آیا، مجھے (اس بات کا) خوف ہے کہ کہیں میں اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں گِر تو نہیں گیا۔

اسے امام قشیری نے ’الرسالۃ‘ میںبیان کیا ہے۔

عَنِ الْحُرِّ بْنِ کَثِیْرٍ الْکِنْدِيِّ عَنْ أَبِیْهِ، قَالَ: خَرَجْتُ مَعَ الْحُسَیْنِ بْنِ عَلِيٍّ رضی اللہ عنہم مِنَ الْمَسْجِدِ أَشِیْعُہٗ حِیْنَ انْتَهَیْنَا إِلٰی بَنِي تَمِیْمٍ وَکَانَ مُتَزَوِّجًا فِیْھِمْ۔ فَلَمَّا انْتَهَیْنَا إِلٰی بَابِہٖ وَقَفَ، قَالَ: ادْخُلْ أَیُّهُا الرَّجُلُ! فَقُلْتُ۔ بَارَکَ اللهُ لَکَ یَا ابْنَ رَسُوْلِ اللهِ، فِي مَنْزِلِکَ وَطَعَامِکَ! فَقَالَ: عَلَيَّ أَنْ لَا نَدَّخِرُکَ وَلَا نُکَلِّفُ لَکَ۔ قَالَ: فَدَخَلْتُ فَدَعَا لِي بِطَعَامٍ، فَأَتَیْتُ بِہٖ فَأَصَبْتُ مِنْهُ، وَدَعَا بِطِیْبٍ فَأَصَبْتُ مِنْهُ، ثُمَّ رَفَعَ مُصَلَّاهُ فَأَخْرَجَ مِنْ تَحْتِہٖ کِیْسًا فِیْهِ دَرَاهِمُ فَدَفَعَہٗ إِلَيَّ۔ فَقَالَ: اسْتَنْفِقْ هٰذِہٖ۔ قَالَ: فَخَرَجْتُ فَعَدَدْتُھَا فَإِذَا هِيَ خَمْسُ مِائَۃِ دِرْهَمٍ.

ذَکَرَهُ أَبُو الشَّیْخِ۔

(2) أبو الشیخ البرجلاني في الکرم والجود وسخاء النفوس/ 51، الرقم/ 49۔

حضرت حُر بن کثیر الکندی اپنے والد سے روایت کرتے ہیں، انہوں نے کہا: میں سیّدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہم کے ساتھ مسجد سے نکلا حتیٰ کہ ہم محلہ بنی تمیم پہنچے۔ اُن کی شادی وہیں ہوئی تھی۔ جب ہم اُن کے دروازے پر پہنچے تو وہ کھڑے ہو گئے اور فرمایا: اے شخص! اندر آ جا۔ میں نے عرض کیا: اے رسول اللہ ﷺ کے شہزادے! اللہ تعالیٰ آپ کو برکت سے نوازے، آپ کے دولت خانے میں آپ کے ساتھ کھانا! تو انھوں نے فرمایا: نہ ہم آپ سے اجتناب کرتے ہیں اور نہ آپ کے لیے بے جا تکلیف کریں گے۔ اس نے کہا: میں اندر گیا تو انہوں نے میرے لیے کھانا منگوایا، میںنے اس میں سے کچھ کھایا۔ پس انہوں نے میرے لیے خوشبو منگوائی۔ میں نے اس میں سے کچھ لگائی۔ پھر انہوں نے اپنے جائے نماز کو اوپر اٹھایا اور اس کے نیچے سے ایک تھیلی نکالی جس میں درہم تھے، وہ مجھے عطا فرما دی اور فرمایا: اس میں سے خرچ کرو۔ راوی کہتے ہیں: پس میں وہاں سے چلا آیا۔ بعد ازاں میں نے وہ درہم شمار کیے تو وہ پانچ سو تھے۔

اسے ابو الشیخ نے بیان کیا ہے۔

عَنِ الْحَسَنِ أَنَّ ابْنَ عُمَرَ رضی اللہ عنہم، کَانَ لَا یَأْکُلُ طَعَامًا إِلَّا وَیُقِیْمُ مَعَہٗ عَلٰی مَائِدَتِہٖ یَتِیْمٌ.

ذَکَرَهُ أَبُو الشَّیْخِ۔

(1) أبو الشیخ البرجلاني في الکرم والجود وسخاء النفوس/ 53، الرقم/ 56۔

امام حسن بصری فرماتے ہیں کہ حضرت (عبد اللہ) بن عمر رضی اللہ عنہم اس وقت تک کھانا تناول نہیں کرتے تھے جب تک ان کے ساتھ دستر خوان پر کوئی یتیم نہ ہوتا۔

اسے ابو الشیخ نے بیان کیا ہے۔

قَالَ عُمَرُ رضی اللہ عنہ: أُہْدِيَ إِلٰی رَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ رَأْسُ شَاۃٍ، فَقَالَ: إِنَّ أَخِي کَانَ أَحْوَجَ مِنِّي إِلَیْهِ، فَبَعَثَ بِہٖ إِلَیْهِ، فَلَمْ یَزَلْ وَاحِدٌ یَبْعَثُ بِہٖ إِلٰی آخَرَ حَتّٰی تَدَاوَلَہٗ سَبْعَةُ أَبْیَاتٍ وَرَجَعَ إِلَی الْأَوَّلِ.

ذَکَرَهُ الْغَزَالِيُّ فِي الإِحْیَاءِ۔

(1) الغزالي في إحیاء علوم الدین، 3/ 258۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ایک صحابی رسول رضی اللہ عنہ کے پاس کسی نے بکری کا سر بطور ہدیہ بھیجا، انہوں نے یہ خیال کر کے کہ میرا فلاں بھائی مجھ سے زیادہ ضرورت مند ہے اسے اس کے پاس بھیج دیا۔ یہی خیال کر کے ہر شخص آگے دوسرے شخص کو بھیجتا رہا حتیٰ کہ وہ ہدیہ سات گھروں کا چکر کاٹ کر واپس پہلے شخص کے پاس پہنچ گیا۔

اسے امام غزالی نے ’احیاء علوم الدین‘ میں بیان کیا ہے۔

قَالَ الْحَسَنُ الْبَصْرِيُّ: بَذْلُ الْمَجْهُوْدِ فِي بَذْلِ الْمَوْجُوْدِ مُنْتَهَی الْجُوْدِ.

ذَکَرَهُ الْغَزَالِيُّ فِي الإِحْیَاءِ۔

(2) إحیاء علوم الدین، 3/ 247۔

اِمام حسن بصری فرماتے ہیں: موجود چیز کو کوشش کر کے (ضرورت مندوں پر) خرچ کر ڈالنا انتہا درجے کی سخاوت ہے۔

اسے امام غزالی نے ’احیاء علوم الدین‘ میں بیان کیا ہے۔

قَالَ مَالِکُ بْنُ دِیْنَارٍ: الْمُؤْمِنُ کَرِیْمٌ فِي کُلِّ حَالَۃٍ۔ لَا یُحِبُّ أَنْ یُؤْذِيَ جَارَہٗ، وَلَا یَفْتَقِرَ أَحَدٌ مِنْ أَقْرِبَائِہٖ۔ قَالَ: ثُمَّ یَبْکِي مَالِکٌ وَیَقُوْلُ: وَھُوَ، وَاللهِ، مَعَ ذٰلِکَ غَنِيُّ الْقَلْبِ، لَا یَمْلِکُ مِنَ الدُّنْیَا شَیْئاً، إِنْ أَزَلَتْهُ عَنْ دِیْنِہٖ لَمْ یَزُلْ، وَإِنْ خَدَعَتْهُ عَنْ مَالِهِ انْخَدَعَ، لَا یَرَی الدُّنْیَا مِنَ الْآخِرَۃِ عِوَضًا، وَلَا یَرَی الْبُخْلَ مِنَ الْجُوْدِ حَظًّا، مُنْکَسِرُ الْقَلْبِ، ذُوْ هُمُوْمٍ وَقَدْ تَفَرَّدَ بِھَا، مُکْتَئِبٌ مَحْزُوْنٌ، لَیْسَ لَہٗ فِي فَرَحِ الدُّنْیَا نَصِیْبٌ۔ إِنْ أَتَاهُ مِنْھَا شَیْئٌ فَرَّقَہٗ، وَإِنْ زُوِيَ عَنْهُ کُلُّ شَیْئٍ فِیْھَا لَمْ یَطْلُبْهُ۔ قَالَ: ثُمَّ یَبْکِي وَیَقُوْلُ: ھٰذَا وَاللهِ الْکَرَمُ، ھٰذَا وَاللهِ الْکَرَمُ.

رَوَاهُ ابْنُ أَبِي الدُّنْیَا۔

(1) ابن أبي الدنیا في مکارم الأخلاق/ 32، الرقم/ 63۔

حضرت مالک بن دینار نے فرمایا: مومن وہ ہے جو ہر حال میں سخی ہو۔ وہ پسند نہیں کرتا کہ اس کے پڑوسی کو تکلیف پہنچے، نہ یہ پسند کرتا ہے کہ اس کے رشتہ داروں میں کوئی محتاج ہو جائے۔ راوی نے کہا: پھر حضرت مالک بن دینار رو پڑے اور فرمانے لگے: خدا کی قسم! جب وہ دنیا میں کسی بھی چیز کا مالک نہیں ہوتا تو اس حال میں بھی دل کا غنی ہوتا ہے۔ اگر دنیا اسے اس کے دین سے ہٹانا چاہے تو وہ نہ ہٹے اور اگر اس کے مال کی وجہ سے اسے دھوکہ دینا چاہے تو وہ دھوکہ کھا جائے۔ وہ کبھی بھی دنیا کو آخرت پر ترجیح نہیں دیتا اور اپنی سخاوت میں بخل کا معمولی حصہ بھی دیکھنا پسند نہیں کرتا۔ شکستہ دل اور فکر مند ہوتا ہے اور وہ دنیا میں یکتا ہوتا ہے۔ رنجیدہ خاطر اور غمگین ہوتا ہے۔ دُنیوی خوشی کی طلب میں اسے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔ اگر دنیا کی کوئی خوشی اسے مل بھی جائے تو اس کا دل اس سے علیحدہ رہتا ہے، اور اگر تمام چیزیں اُس سے چھین لی جائیں تو بھی اسے ان کی طلب نہیں ہوتی۔ راوی نے کہا: وہ دوبارہ رو پڑے اور فرمانے لگے: خدا کی قسم! یہی سخاوت ہے، یہی سخاوت ہے۔

اِسے ابن ابی الدنیا نے روایت کیا ہے۔

عَنْ دَاوُدَ الطَّائِيِّ، قَالَ: کَانَ حَمَّادُ بْنُ أَبِي سُلَیْمَانَ سَخِیًّا عَلَی الطَّعَامِ، جَوَّادًا بِالدَّنَانِیْرِ وَالدَّرَاھِمِ.

رَوَاهُ ابْنُ أَبِي الدُّنْیَا۔

(1) ابن أبي الدنیا في مکارم الأخلاق/ 105، الرقم/ 339۔

حضرت داؤد طائی سے روایت ہے کہ (امام ابو حنیفہ کے شیح) امام حماد بن ابی سلیمان کھانا کھلانے میں بڑے سخی تھے اور درہم و دینار تقسیم کرنے میں نہایت فیاض تھے۔

اِسے ابن ابی الدنیا نے روایت کیا ہے۔

قَالَ الإِمَامُ الْغَزَالِيُّ: اَلسَّخَاءُ خُلُقٌ مِنْ أَخْلَاقِ اللهِ تَعَالٰی، وَالإِیْثَارُ أَعْلٰی دَرَجَاتِ السَّخَاءِ.

(2) الغزالي في إحیاء علوم الدین، 3/ 257۔

امام غزالی نے فرمایا: سخاوت اللہ تعالیٰ کے اخلاق میں سے ایک خُلق ہے اور ایثار (و قربانی) اس کا سب سے اعلیٰ درجہ ہے۔

عِیَادَةُ الْمَرْضٰی

{مریضوں کی عیادت}

129/ 45۔ عَنْ أَبِي ھُرَیْرَۃَ رضی اللہ عنہ، أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ: حَقُّ الْمُسْلِمِ عَلَی الْمُسْلِمِ خَمْسٌ: رَدُّ السَّـلَامِ، وَعِیَادَۃُ الْمَرِیْضِ، وَاتِّبَاعُ الْجَنَائِزِ، وَإِجَابَۃُ الدَّعْوَةِ، وَتَشْمِیْتُ الْعَاطِسِ۔

مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ۔

129: أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب الجنائز، باب الأمر باتباع الجنائز، 1/ 418، الرقم/ 1183، ومسلم في الصحیح، کتاب السلام، باب من حق المسلم للمسلم ردّ السلام، 4/ 1704، الرقم/ 2162، وأحمد بن حنبل في المسند، 2/ 540، الرقم/ 10979، وأبو داود في السنن، کتاب الأدب، باب في العطاس، 4/ 307، الرقم/ 5030، وابن ماجہ في السنن، کتاب الجنائز، باب ما جاء في عیادۃ المریض، 1/ 461، الرقم/ 1435، والنسائي في السنن الکبری، 6/ 64، الرقم/ 10049، وابن حبان في الصحیح، 1/ 476، الرقم/ 241۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر پانچ حق ہیں: (1) سلام کاجواب دینا، (2) بیمار کی عیادت کرنا، (3) اُس کے جنازہ کے ساتھ جانا، (4) اُس کی دعوت قبول کرنا اور (5) چھینک کا جواب دینا۔

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

130/ 46۔ وَفِي رِوَایَۃٍ: عَنْ أَبِي مُوْسَی الْأَشْعَرِيِّ رضی اللہ عنہ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: أَطْعِمُوا الْجَائِعَ، وَعُوْدُوا الْمَرِیْضَ، وَفُکُّوا الْعَانِيَ۔

رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَأَحْمَدُ وَأَبُوْ دَاوُدَ۔

130: أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب الأطعمۃ، باب قول اللہ تعالٰی: {کُلُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا رَزَقْنٰـکُمْ}، 5/ 2055، الرقم/ 5058، وأیضًا في کتاب المرضی، باب وجوب عیادۃ المریض، 5/ 2139، الرقم/ 5325، وأحمد بن حنبل في المسند، 4/ 394، الرقم/ 19535، وأبو داود في السنن، کتاب الجنائز، باب الدعاء للمریض بالشفاء عند العیادۃ، 3/ 187، الرقم/ 3105، وعبد الرزاق في المصنف، 3/ 593، الرقم/ 6763، وابن حبان في الصحیح، 8/ 116، الرقم/ 3324۔

ایک روایت میں حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضورنبی اکرم ﷺ نے فرمایا: بھوکے کو کھانا کھلائو، بیمار کی عیادت کرو اور قیدی کو آزاد کراؤ۔

اِسے امام بخاری، احمد اور ابو داود نے روایت کیا ہے۔

131/ 47۔ وَفِي رِوَایَةِ عَائِشَۃَ رضی اللہ عنہ ا قَالَتْ: کَانَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ إِذَا عَادَ مَرِیْضًا یَضَعُ یَدَہٗ عَلَی الْمَکَانِ الَّذِي یَشْتَکِي الْمَرِیْضُ، (وَفِي رِوَایَۃٍ: مَسَحَ وَجْھَہٗ وَصَدْرَہٗ) ثُمَّ یَقُوْلُ: بِسْمِ اللهِ، لَا بَأْسَ، لَا بَأْسَ، أَذْهِبِ الْبَأْسَ، رَبَّ النَّاسِ، وَاشْفِ أَنْتَ الشَّافِي، لَا شِفَاءَ إِلَّا شِفَاؤُکَ، شِفَاءً لَا یُغَادِرُ سَقَمًا۔

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَأَبُوْ یَعْلٰی بِإِسْنَادٍ حَسَنٍ وَاللَّفْظُ لَہٗ، وَالطَّیَالِسِيُّ۔

131: أخرجہ أحمد بن حنبل في المسند، 6/ 126، الرقم/ 24990، وأبویعلی في المسند، 7/ 436، الرقم/ 4459، والطیالسي في المسند، 1/ 200، الرقم/ 1404، والطبراني في الدعائ/ 336، الرقم/ 1102، وابن السنّي في عمل الیوم واللیلۃ/ 503، الرقم/ 551۔

ایک روایت میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ ا بیان فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب کسی بیمار کی عیادت فرماتے تو اپنا دستِ اقدس اس کی اس جگہ پر رکھتے جہاں بیمار کو شکایت ہوتی۔ (اور ایک روایت میں ہے کہ بیمار کے چہرے اور سینے پر ہاتھ پھیرتے) اور فرماتے: بِسْمِ اللهِ، لَا بَأْسَ، لَا بَأْسَ، أَذْهِبِ الْبَأْسَ، رَبَّ النَّاسِ، وَاشْفِ أَنْتَ الشَّافِي، لَا شِفَاءَ إِلَّا شِفَاؤُکَ، شِفَاءً لَا یُغَادِرُ سَقَمًا} ’اللہ تعالیٰ کے نام سے شروع، کوئی تنگی نہیں، کوئی تنگی نہیں۔ اے لوگوں کے پالنے والے! تکلیف کو دور فرما اور شفاء عطا فرما۔ تو ہی شفاء عطا فرمانے والا ہے، تیری شفاء کے علاوہ کوئی شفاء نہیں، ایسی شفاء عطا فرما جو بیماری کو سرے سے ختم کر دے‘۔

اِسے امام احمد نے، ابو یعلی نے مذکورہ الفاظ میں اسنادِ حسن سے اور طیالسی نے روایت کیا ہے۔

132/ 48۔ وَفِي رِوَایَۃِ أَبِي أُمَامَۃَ رضی اللہ عنہ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: مِنْ تَمَامِ عِیَادَۃِ الْمَرِیْضِ أَنْ یَضَعَ أَحَدُکُمْ یَدَہٗ عَلٰی جَبْهَتِہٖ، أَوْ یَدِہٖ، فَیَسْأَلُہٗ کَیْفَ ھُوَ، وَتَمَامُ تَحِیَّاتِکُمْ بَیْنَکُمُ الْمُصَافَحَۃُ۔

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالتِّرْمِذِيُّ وَالطَّبَرَانِيُّ۔

132: أخرجہ أحمد بن حنبل في المسند، 5/ 259، الرقم/ 22290، والترمذي في السنن، کتاب الاستئذان، باب ما جاء في المصافحۃ، 5/ 76، الرقم/ 2731، والطبراني في المعجم الکبیر، 8/ 211، الرقم/ 7854، والرویاني في المسند، 2/ 287، الرقم/ 1217، والبیھقي في شعب الإیمان، 6/ 472، الرقم/ 8948۔

ایک روایت میں حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: مریض کی بہترین عیادت (کا طریقہ) یہ ہے کہ اُس کی پیشانی یا ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر اس کی خیریت پوچھو، اور تمہارا آپس میں سلام، مصافحہ سے مکمل ہوتا ہے۔

اِسے امام احمد، ترمذی اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔

133/ 49۔ عَنْ أَنَسٍ رضی اللہ عنہ قَالَ: کَانَ غُـلَامٌ یَهُوْدِيٌّ یَخْدُمُ النَّبِيَّ ﷺ فَمَرِضَ، فَأَتَاهُ النَّبِيُّ ﷺ یَعُوْدُہٗ، فَقَعَدَ عِنْدَ رَأْسِہٖ، فَقَالَ لَہٗ: أَسْلِمْ۔ فَنَظَرَ إِلٰی أَبِیْهِ وَھُوَ عِنْدَہٗ، فَقَالَ لَہٗ: أَطِعْ أَبَا الْقَاسِمِ ﷺ۔ فَأَسْلَمَ، فَخَرَجَ النَّبِيُّ ﷺ وَھُوَ یَقُوْلُ: اَلْحَمْدُ ِﷲِ الَّذِي أَنْقَذَہٗ مِنَ النَّارِ۔

رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَأَحْمَدُ وَالنَّسَائِيُّ۔

133: أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب الجنائز، باب إذا أسلم الصبي فمات ہل یصلی علیہ وہل یعرض علی الصبي الإسلام، 1/ 455، الرقم/ 1290، وأیضًا في الأدب المفرد/ 185، الرقم/ 524، وأحمد بن حنبل في المسند، 3/ 227، 280، الرقم/ 13399، 14009، والنسائي في السنن الکبری، 5/ 173، الرقم/ 8588، وأبو یعلی في المسند، 6/ 93، الرقم/ 3350، والبیہقي في السنن الکبری، 3/ 383، الرقم/ 6389۔

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک یہودی لڑکا حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت کیا کرتا تھا۔ وہ بیمار ہوا تو آپ ﷺ اس کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے اور اس کے سر کے پاس بیٹھ کر اُس سے فرمایا: اسلام قبول کرلو۔ اس نے اپنے باپ کی طرف دیکھا جو اُس کے پاس بیٹھا تھا تو اُس کے باپ نے کہا: ابو القاسم ﷺکی اطاعت کرو۔ سو وہ مسلمان ہو گیا (اور پھر اس کی وفات ہوگئی)۔ حضورنبی اکرم ﷺ یہ فرماتے ہوئے باہر تشریف لائے: اللہ تعالیٰ کا شکر ہے جس نے اسے جہنم سے بچا لیا۔

اِسے امام بخاری، احمد اور نسائی نے روایت کیا ہے۔

134/ 50۔ وَفِي رِوَایَۃِ أَبِي دَاوُدَ: اَلْحَمْدُ ِﷲِ الَّذِي أَنْقَذَہٗ بِي مِنَ النَّارِ۔

134: أخرجہ أبوداود في السنن، کتاب الجنائز، باب في عیادۃ الذمي، 3/ 185، الرقم/ 3095۔

امام ابو داؤد کی روایت کے الفاظ ہیں: (آپ ﷺ نے فرمایا:) اللہ تعالیٰ کا شکر ہے جس نے اِسے میرے وسیلہ سے جہنم سے بچا لیا۔

135/ 51۔ عَنْ أَبِي ھُرَیْرَۃَ رضی اللہ عنہ، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: إِنَّ اللهَ ل یَقُوْلُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ: یَا ابْنَ آدَمَ، مَرِضْتُ فَلَمْ تَعُدْنِي۔ قَالَ: یَا رَبِّ، کَیْفَ أَعُوْدُکَ وَأَنْتَ رَبُّ الْعَالَمِیْنَ؟ قَالَ: أَمَا عَلِمْتَ أَنَّ عَبْدِي فُـلَانًا مَرِضَ فَلَمْ تَعُدْهُ؟ أَمَا عَلِمْتَ أَنَّکَ لَوْ عُدْتَہٗ لَوَجَدْتَنِي عِنْدَہٗ؟

رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَابْنُ حِبَّانَ وَالْبُخَارِيُّ فِي الْأَدَبِ۔

135: أخرجہ مسلم في الصحیح، کتاب البر والصلۃ والآداب، باب فضل عیادۃ المریض، 4/ 1990، الرقم/ 2569، وابن حبان في الصحیح، 1/ 503، الرقم/ 269، 3/ 224، الرقم/ 944، والبخاري في الأدب المفرد/ 182، الرقم/ 517، والبیہقي في شعب الإیمان، 6/ 534، الرقم/ 9182، وابن راھویہ في المسند، 1/ 115، الرقم/ 28، والدیلمي في مسند الفردوس، 5/ 235، الرقم/ 8053۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: بے شک قیامت کے دن اللہ تعالیٰ فرمائے گا: اے ابن آدم! میں بیمار ہوا اور تو نے میری عیادت نہ کی۔ بندہ عرض کرے گا: اے پروردگار! میں تیری بیمار پرسی کیسے کرتا جبکہ تو خود تمام جہانوں کا پالنے والا ہے؟ ارشاد ہوگا: کیا تجھے معلوم نہیں کہ میرا فلاں بندہ بیمار ہوا اور تو نے اُس کی عیادت نہیں کی۔ کیا تو نہیں جانتا کہ اگر تو اس کی عیادت کرتا تو مجھے اُس کے پاس موجود پاتا؟

اِسے امام مسلم اور ابن حبان نے اور بخاری نے الأدب المفرد میں روایت کیا ہے۔

136/ 52۔ عَنْ ثَوْبَانَ رضی اللہ عنہ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: إِنَّ الْمُسْلِمَ إِذَا عَادَ أَخَاهُ الْمُسْلِمَ لَمْ یَزَلْ فِي خُرْفَۃِ الْجَنَّۃِ حَتّٰی یَرْجِعَ۔

رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ وَالتِّرْمِذِيُّ۔

136: أخرجہ مسلم في الصحیح، کتاب البر والصلۃ والآداب، باب فضل عیادۃ المریض، 4/ 1989، الرقم/ 2568، وأحمد بن حنبل في المسند، 5/ 283، الرقم/ 22497، والترمذي في السنن، کتاب الجنائز، باب ما جاء في عیادۃ المریض، 3/ 299، الرقم/ 967، وابن أبي شیبۃ في المصنف، 2/ 443، الرقم/ 10832، والطبراني في المعجم الکبیر، 2/ 101، الرقم/ 1446۔

حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: بے شک ایک مسلمان جب اپنے کسی مسلمان بھائی کی عیادت کرتا ہے تو وہاں سے لوٹنے تک مسلسل جنت کے باغ میں رہتا ہے۔

اِسے امام مسلم، احمد اور ترمذی نے روایت کیا ہے۔

137/ 53۔ عَنْ ثَوْبَانَ رضی اللہ عنہ مَوْلٰی رَسُوْلِ اللهِ ﷺ، عَنْ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ قَالَ: مَنْ عَادَ مَرِیْضًا، لَمْ یَزَلْ فِي خُرْفَۃِ الْجَنَّۃِ۔ قِیْلَ: یَا رَسُوْلَ اللهِ، وَمَا خُرْفَۃُ الْجَنَّۃِ؟ قَالَ: جَنَاھَا۔

رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ وَالتِّرْمِذِيُّ۔

137: أخرجہ مسلم في الصحیح، کتاب البر والصلۃ والآداب، باب فضل عیادۃ المریض، 4/ 1989، الرقم/ 2568، وأحمد بن حنبل في المسند، 5/ 277، الرقم/ 22443، والترمذي في السنن، کتاب الجنائز، باب ما جاء في عیادۃ المریض، 3/ 299-300، الرقم/ 967-968، والبخاري في الأدب المفرد، 1/ 184، الرقم/ 521، والطبراني في المعجم الکبیر، 2/ 101، الرقم/ 1445۔

رسول اللہ ﷺ کے آزاد کردہ غلام حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس شخص نے مریض کی عیادت کی وہ ہمیشہ خُرفۂ جنت میں رہے گا۔ عرض کیا گیا: یا رسول اللہ! خُرفۂ جنت سے کیا مراد ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: خُرفہ، جنت کے باغات میں سے ایک باغ کا نام ہے۔

اِسے امام مسلم، احمد اور ترمذی نے روایت کیا ہے۔

138/ 54۔ وَفِي رِوَایَۃِ عَلِيٍّ رضی اللہ عنہ، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: مَا مِنْ رَجُلٍ یَعُوْدُ مَرِیْضًا مُمْسِیًا إِلَّا خَرَجَ مَعَہٗ سَبْعُوْنَ أَلْفَ مَلَکٍ یَسْتَغْفِرُوْنَ لَہٗ حَتّٰی یُصْبِحَ، وَکَانَ لَہٗ خَرِیْفٌ فِي الْجَنَّۃِ۔ وَمَنْ أَتَاهُ مُصْبِحًا خَرَجَ مَعَہٗ سَبْعُوْنَ أَلْفَ مَلَکٍ یَسْتَغْفِرُوْنَ لَہٗ حَتّٰی یُمْسِيَ وَکَانَ لَہٗ خَرِیفٌ فِي الْجَنَّۃِ۔

رَوَاهُ أَبُوْ دَاوُدَ مَرْفُوْعًا وَمَوْقُوْفًا وَالْحَاکِمُ۔ وَقَالَ الْحَاکِمُ: ھٰذَا إِسْنَادٌ صَحِیْحٌ عَلٰی شَرْطِ الشَّیْخَیْنِ۔

138: أخرجہ أبو داود في السنن، کتاب الجنائز، باب في فضل العیادۃ علی وضوء، 3/ 185، الرقم/ 3098-3099، والحاکم في المستدرک، 1/ 492، الرقم/ 1264، وذکرہ المنذري في الترغیب والترھیب، 4/ 164، الرقم/ 5272، والھندي في کنز العمال، 9/ 41، الرقم/ 25146۔

ایک روایت میں حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو شخص بھی شام کے وقت کسی مریض کی عیادت کے لیے نکلتا ہے تو ستر ہزار فرشتے اس کے ساتھ نکلتے ہیں جو صبح تک اُس کے لیے دعائے مغفرت کرتے رہتے ہیں اور جنت میں اُس کے لیے ایک باغ مختص ہو جاتا ہے۔ جو شخص صبح کے وقت کسی مریض کی عیادت کے لیے نکلتا ہے اُس کے ساتھ بھی ستر ہزار فرشتے نکلتے ہیں جو شام تک اس کے لیے دعائے مغفرت کرتے رہتے ہیں اور اس کے لیے بھی جنت میں ایک باغ مخصوص کر دیا جاتا ہے۔

اِسے امام ابو داؤد نے مرفوعاً اور موقوفاً روایت کیا ہے اور امام حاکم نے روایت کرنے کے بعد فرمایا: یہ اِسناد بخاری و مسلم کی شرائط پر صحیح ہے۔

139/ 55۔ وَفِي رِوَایَۃٍ عنْهُ رضی اللہ عنہ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ یَقُوْلُ: مَنْ أَتٰی أَخَاهُ الْمُسْلِمَ عَائِدًا، مَشٰی فِي خِرَافَۃِ الْجَنَّۃِ حَتّٰی یَجْلِسَ، فَإِذَا جَلَسَ غَمَرَتْهُ الرَّحْمَۃُ۔ فَإِنْ کَانَ غُدْوَةً صَلّٰی عَلَیْهِ سَبْعُوْنَ أَلْفَ مَلَکٍ حَتّٰی یُمْسِيَ، وَإِنْ کَانَ مَسَاءً صَلّٰی عَلَیْهِ سَبْعُوْنَ أَلْفَ مَلَکٍ حَتّٰی یُصْبِحَ۔

رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَابْنُ مَاجَہ وَاللَّفْظُ لَہٗ۔ وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: ھٰذَا حَدِیْثٌ حَسَنٌ۔

139: أخرجہ الترمذي في السنن، کتاب الجنائز، باب ما جاء في عیادۃ المریض، 3/ 300، الرقم/ 969، وابن ماجہ في السنن، کتاب الجنائز، باب ما جاء في ثواب من عاد مریضًا، 1/ 463، الرقم/ 1442، والنسائي في السنن الکبری، 4/ 354، الرقم/ 7494، وابن حبان في الصحیح، 7/ 224، الرقم/ 2958، والطبراني في المعجم الأوسط، 7/ 266، الرقم/ 7464۔

ایک اور روایت میں حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: میں نے رسول اللہ ﷺکو یہ فرماتے ہوئے سنا: جب کوئی شخص کسی کی عیادت کے لیے جاتا ہے تو (یہ ایسا مبارک اور مقبول عمل ہے گویا) وہ جنت کے باغ میں چلتا ہے، جب وہ بیٹھتا ہے تو رحمت اُسے ڈھانپ لیتی ہے۔ اگر یہ صبح کا وقت ہو تو ستر ہزار فرشتے شام تک اُس کے لیے بخشش و رحمت کی دعا کرتے رہتے ہیں اور اگر شام کا وقت ہو تو صبح تک ستر ہزار فرشتے اُس کے لیے بخشش و رحمت کی دعا کرتے رہتے ہیں۔

اِسے امام ترمذی نے اور ابن ماجہ نے مذکورہ الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے فرمایا: یہ حدیث حسن ہے۔

140/ 56۔ عَنْ أَبِي سَعِیْدٍ الْخُدْرِيِِّ رضی اللہ عنہ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: عُوْدُوا الْمَرْضٰی، وَاتَّبِعُوا الْجَنَائِزَ، تُذَکِّرُکُمُ الْآخِرَۃَ۔

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَابْنُ حِبَّانَ وَأَبُوْ یَعْلٰی۔

140: أخرجہ أحمد بن حنبل في المسند، 3/ 48، الرقم/ 11463، وابن حبان في الصحیح، 7/ 221، الرقم/ 2955، وأبو یعلی في المسند، 2/ 424، الرقم/ 1222، وذکرہ الھیثمي في موارد الظمآن، 1/ 182، الرقم/ 709۔

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مریضوں کی عیادت کرو اور جنازوں کے ساتھ جاؤ، یہ تمہیں آخرت کی یاد دلائیں گے۔

اِسے امام احمد، ابن حبان اور ابو یعلی نے روایت کیا ہے۔

141/ 57۔ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ رضی اللہ عنہم قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: مَنْ عَادَ مَرِیْضًا لَمْ یَزَلْ یَخُوْضُ فِي الرَّحْمَۃِ حَتّٰی یَرْجِعَ، فَإِذَا جَلَسَ اغْتَمَسَ فِیْھَا۔

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَابْنُ أَبِي شَیْبَۃَ وَابْنُ حِبَّانَ وَالْبُخَارِيُّ فِي الأَدَبِ۔ وَقَالَ الْحَاکِمُ: ھٰذَا حَدِیْثٌ صَحِیْحٌ عَلٰی شَرْطِ مُسْلِمٍ۔ وَقَالَ الْھَیْثَمِيُّ: رِجَالُ أَحْمَدَ رِجَالُ الصَّحِیْحِ۔

141: أخرجہ أحمد بن حنبل في المسند، 3/ 304، الرقم/ 14299، والبخاري في الأدب المفرد/ 184، الرقم/ 522، وابن أبي شیبۃ في المصنف، 2/ 443، الرقم/ 10834، وابن حبان في الصحیح، 7/ 222، الرقم/ 2956، والحاکم في المستدرک، 1/ 501، الرقم/ 1295، وذکرہ المنذري في الترغیب والترھیب، 4/ 166، الرقم/ 5276، والھیثمي في موارد الظمآن، 1/ 182، الرقم/ 711، وأیضًا في مجمع الزوائد، 2/ 297۔

حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہم بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب کوئی شخص مریض کی عیادت کو جاتا ہے تو وہ اُس وقت تک (بحر) رحمت میں غوطہ زن رہتا ہے جب تک وہ عیادت کر کے لوٹ نہ آئے اور جب تک وہ اُس کے پاس بیٹھا رہتا ہے، رحمت اس پر سایہ فگن رہتی ہے۔

اِسے امام احمد، ابن ابی شیبہ اور ابن حبان نے اور بخاری نے الأدب المفرد میں روایت کیا ہے۔ امام حاکم نے فرمایا: یہ حدیث امام مسلم کی شرائط پر صحیح ہے۔ جبکہ امام ہیثمی نے بھی فرمایا: امام احمد کے رجال ’صحیح مسلم‘ کے رجال ہیں۔

142/ 58۔ عَنْ أَنَسٍ رضی اللہ عنہ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ یَقُوْلُ: أَیُّمَا رَجُلٌ یَعُوْدُ مَرِیْضًا فَإِنَّمَا یَخُوْضُ فِي الرَّحْمَۃِ، فَإِذَا قَعَدَ عِنْدَ الْمَرِیضِ غَمَرَتْهُ الرَّحْمَۃُ۔ قَالَ: فَقُلْتُ: یَا رَسُوْلَ اللهِ، ھٰذَا لِلصَّحِیْحِ فِي الَّذِي یَعُوْدُ الْمَرِیْضَ، فَمَا لِلْمَرِیْضِ؟ قَالَ: تُحَطُّ عَنْهُ ذُنُوْبُہٗ۔

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالْبَیْھَقِيُّ۔

142: أخرجہ أحمد بن حنبل في المسند، 3/ 174، الرقم/ 12805، والبیہقي في شعب الإیمان، 6/ 533، الرقم/ 9181، وذکرہ المنذري في الترغیب والترھیب، 4/ 165، الرقم/ 5275۔

حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: جو شخص کسی مریض کی عیادت کرتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت میں مستغرق رہتا ہے۔ جب وہ مریض کے پاس بیٹھ جاتا ہے تو رحمت اُسے اپنی آغوش میں لے لیتی ہے۔ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ثواب تو تندرست آدمی کو مریض کی عیادت کے عوض ملتا ہے، مریض کے لیے کیا ہے؟ آپ ﷺنے فرمایا: (بیماری کے باعث) اُس کے گناہوں کو مٹا دیا جاتا ہے۔

اِسے امام احمد اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔

143/ 59۔ عَنْ أَبِي ھُرَیْرَۃَ رضی اللہ عنہ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: مَنْ عَادَ مَرِیْضًا أَوْ زَارَ أَخًا لَہٗ فِي اللهِ، نَادَاهُ مُنَادٍ: أَنْ طِبْتَ، وَطَابَ مَمْشَاکَ، وَتَبَوَّأْتَ مِنَ الْجَنَّۃِ مَنْزِلًا۔

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالتِّرْمِذِيُّ وَاللَّفْظُ لَہٗ وَابْنُ مَاجَہ، وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: ھٰذَا حَدِیثٌ حَسَنٌ۔

143: أخرجہ أحمد بن حنبل في المسند، 3/ 344، الرقم/ 8517، والترمذي في السنن، کتاب البر والصلۃ، باب ما جاء في زیارۃ الإخوان، 4/ 365، الرقم/ 2008، وابن ماجہ في السنن، کتاب الجنائز، باب ما جاء في ثواب من عاد مریضا، 1/ 464، الرقم/ 1443، والدیلمي في مسند الفردوس، 3/ 490، الرقم/ 5521، والبخاري في الأدب المفرد، 1/ 126، الرقم/ 345۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو شخص کسی مریض کی عیادت کرے یا اللہ کی رضا کی خاطر کسی بھائی سے ملاقات کرے تو ایک ندا دینے والا پکار کر کہتا ہے: تو پاک ہوا، تیرا چلنا بھی پاکیزہ ہوا اور تو نے جنت میں اپنی جگہ بنا لی۔

اِسے امام احمد نے، ترمذی نے مذکورہ الفاظ کے ساتھ اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے فرمایا: یہ حدیث حسن ہے۔

144/ 60۔ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی اللہ عنہ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: مَنْ تَوَضَّأَ فَأَحْسَنَ الْوُضُوْئَ، وَعَادَ أَخَاهُ الْمُسْلِمَ مُحْتَسِبًا، بُوْعِدَ مِنْ جَھَنَّمَ مَسِیْرَۃَ سَبْعِیْنَ خَرِیْفًا۔

رَوَاهُ أَبُوْ دَاوُدَ وَالطَّبَرَانِيُّ۔

144: أخرجہ أبو داود في السنن، کتاب الجنائز، باب فضل في العیادۃ علی الوضوئ، 3/ 185، الرقم/ 3097، والطبراني في المعجم الأوسط، 9/ 169، الرقم/ 9441، وذکرہ المنذري في الترغیب والترھیب، 4/ 164، الرقم/ 5271، والخطیب التبریزي في مشکاۃ المصابیح، 1/ 489، الرقم/ 1552۔

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو شخص اچھی طرح وضو کرے اور پھر ثواب کی نیت سے اپنے مسلمان بھائی کی عیادت کے لیے جائے تو وہ جہنم سے ستر سال دور کر دیا جاتا ہے۔

اِسے امام ابو داؤد اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔

145/ 61۔ عَنْ أَنَسٍ رضی اللہ عنہ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: عُوْدُوا الْمَرْضٰی، وَمُرُوْھُمْ فَلْیَدْعُوْا لَکُمْ، فَإِنَّ دَعْوَۃَ الْمَرِیْضِ مُسْتَجَابَۃٌ، وَذَنْبُہٗ مَغْفُوْرٌ۔

رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَالْبَیْهَقِيُّ۔

145: أخرجہ الطبراني في المعجم الأوسط، 6/ 140، الرقم/ 2027، والبیہقي في شعب الإیمان، 7/ 209، الرقم/ 10028۔

حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: بیماروں کی عیادت کیا کرو اور اُنہیں اپنے لیے دعا کے لیے کہا کرو، مریض کی دعا قبول ہوتی ہے اور اس کے اپنے گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں۔

اِسے امام طبرانی اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔

146/ 62۔ وَفِي رِوَایَۃِ سَعِیْدٍ رضی اللہ عنہ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: أَفْضَلُ الْعِیَادَۃِ سُرْعَۃُ الْقِیَامِ۔

رَوَاهُ ابْنُ أَبِي الدُّنْیَا وَالْبَیْھَقِيُّ۔

146: أخرجہ ابن أبي الدنیا في المرض والکفارات/ 69، الرقم/ 66، والبیھقي في شعب الإیمان، 6/ 542، الرقم/ 9221۔

ایک روایت میں حضرت سعید بن مسیب بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: بہترین عیادت وہ ہے جس میں (مریض کے پاس سے) جلدی اُٹھ جایا جائے (اور دیر تک بیٹھ کر اس کے آرام میں خلل نہ پیدا کیا جائے)

اِسے امام ابن ابی الدنیا اور بیہقی نے روایت کیا۔

مَا رُوِيَ عَنِ الصَّحَابَۃِ وَالسَّلَفِ الصَّالِحِیْنَ

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضی اللہ عنہم قَالَ: عِیَادَۃُ الْمَرِیْضِ مَرَّةً سُنَّۃٌ، فَمَا ازْدَادَتْ فَنَافِلَۃٌ.

رَوَاهُ ابْنُ أَبِي الدُّنْیَا فِي الْمَرَضِ وَالْکَفَّارَاتِ وَالطَّبَرَانِيُّ فِي الْکَبِیْرِ۔

(1) ابن أبي الدنیا في المرض والکفارات/ 80، الرقم/ 81، والطبراني في المعجم الکبیر، 11/ 258، الرقم/ 11669۔

حضرت (عبد اللہ) بن عباس رضی اللہ عنہم فرماتے ہیں: مریض کی ایک دفعہ عیادت کرنا سنت ہے، جو ایک سے زیادہ ہے وہ نفل ہے۔

اِسے امام ابن ابی الدنیا نے ’المرض والکفارات‘ میں اور طبرانی نے ’المعجم الکبیر‘ میں روایت کیا ہے۔

عَنْ أَبِي یَحْیٰی قَالَ: سَمِعْتُ الإِمَامَ طَاوُوْسًا یَقُوْلُ: خَیْرُ الْعِیَادَۃِ أَخَفُّھَا.

رَوَاهُ ابْنُ أَبِي الدُّنْیَا فِي الْمَرَضِ وَالْکَفَّارَاتِ وَالْبَیْھَقِيُّ فِي الشُّعَبِ۔

(2) ابن أبي الدنیا في المرض والکفارات/ 67، الرقم/ 62، والبیھقي في شعب الإیمان، 6/ 543، الرقم/ 9223۔

حضرت ابو یحییٰ بیان کرتے ہیں: میں نے امام طاوس کو فرماتے ہوئے سنا: بہترین عیادت وہ ہے جو تھوڑی دیر کے لیے ہو۔

اِسے امام ابن ابی الدنیا ’المرض والکفارات‘ میں اور بیہقی نے ’شعب الإیمان‘ میں روایت کیا ہے۔

عَنِ الإِمَامِ أَبِي الْعَالِیَۃِ قَالَ: دَخَلَ عَلَیْهِ غَالِبٌ الْقَطَّانُ یَعُوْدُهٗ، فَلَمْ یَلْبَثْ إِلَّا یَسِیْرًا حَتّٰی قَامَ۔ فَقَالَ أَبُو الْعَالِیَۃِ: مَا أَرْفَقَ الْعَرَبَ لَا تُطِیْلُ الْجُلُوْسَ عِنْدَ الْمَرِیْضِ، فَإِنَّ الْمَرِیْضَ قَدْ تَبْدُوْ لَہٗ حَاجَۃٌ فَیَسْتَحْيِ مِنْ جُلَسَائِہٖ.

رَوَاهُ ابْنُ أَبِي الدُّنْیَا فِي الْمَرَضِ وَالْکَفَّارَاتِ وَالْبَیْھَقِيُّ فِي الشُّعَبِ۔

(1) ابن أبي الدنیا في المرض والکفارات/ 68، الرقم/ 65، والبیھقي في شعب الإیمان، 6/ 543، الرقم/ 9224۔

امام ابو العالیہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت غالب قطان اُن کی عیادت کے لیے آئے۔ وہ تھوڑی دیر اُن کے پاس بیٹھے اور پھر جانے کے لیے اُٹھ کھڑے ہوئے، اِس پر حضرت ابو العالیہ نے فرمایا: عرب کتنے نرم مزاج ہیں کہ مریض کے پاس زیادہ دیر نہیں بیٹھتے کہ مریض کو کوئی نہ کوئی حاجت درپیش ہوتی ہے اور وہ عیادت کے لیے بیٹھے لوگوں کی وجہ سے (اپنی وہ حاجت بیان کرنے سے) شرم محسوس کرتا ہے۔

اِسے امام ابن ابی الدنیا نے ’المرض والکفارات‘ میں اور بیہقی نے ’شعب الإیمان‘ میں روایت کیا ہے۔

عَنِ الإِمَامِ الْأَعْمَشِ قَالَ: کُنَّا نَقْعُدُ فِي الْمَجْلِسِ فَإِذَا فَقَدْنَا الرَّجُلَ ثَـلَاثَۃَ أَیَّامٍ سَأَلْنَا عَنْهُ، فَإِنْ کَانَ مَرِیْضًا عُدْنَاهُ.

رَوَاهُ الْبَیْھَقِيُّ فِي الشُّعَبِ وَذَکَرَهُ السَّخَاوِيُّ فِي الْمَقَاصِدِ۔

(1) البیھقي في شعب الإیمان، 6/ 542، الرقم/ 9217، والسخاوي في المقاصد الحسنۃ/ 469۔

امام اعمش بیان کرتے ہیں کہ ہم مجلس میں بیٹھا کرتے تھے، جب ہم کسی شخص کو مجلس سے تین دن سے زیادہ غائب پاتے تو اُس کے بارے میں دریافت کرتے، اگر وہ بیمار ہوتا تو ہم اُس کی عیادت کو جاتے تھے۔

اِسے امام بیہقی نے ’شعب الإیمان‘ میں روایت کیا ہے اور سخاوی نے ’المقاصد الحسنۃ‘ میں بیان کیا ہے۔

عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سُلَیْمٍ قَالَ: سَمِعْتُ الإِمَامَ بَکْرَ بْنَ عَبْدِ اللهِ الْمُزَنِيَّ یَقُوْلُ: الْمَرِیْضُ یُعَادُ، وَالصَّحِیْحُ یُزَارُ.

رَوَاهُ ابْنُ أَبِي الدُّنْیَا فِي الْمَرَضِ وَالْکَفَّارَاتِ۔

(1) ابن أبي الدنیا في المرض والکفارات/ 67، الرقم/ 63۔

محمد بن سلیم بیان کرتے ہیں: میں نے امام بکر بن عبد اللہ مُزنی کو فرماتے ہوئے سنا: مریض کی عیادت کی جاتی ہے اور صحت مند کی زیارت کی جاتی ہے۔

اِسے امام ابن ابی الدنیا نے ’المرض والکفارات‘ میں روایت کیا ہے۔

رِعَایَۃُ حُقُوْقِ الْآخَرِیْنَ

{لوگوں کے حقوق کی پاس داری}

اَلْقُرْآن

(1) وَ لَا تُؤْتُوا السُّفَهَآءَ اَمْوَالَكُمُ الَّتِیْ جَعَلَ اللّٰهُ لَكُمْ قِیٰمًا وَّ ارْزُقُوْهُمْ فِیْهَا وَ اكْسُوْهُمْ وَ قُوْلُوْا لَهُمْ قَوْلًا مَّعْرُوْفًاo

(النساء، 4/ 5)

اور تم بے سمجھوں کو اپنے (یا ان کے) مال سپرد نہ کرو جنہیں اللہ نے تمہاری معیشت کی استواری کا سبب بنایا ہے۔ ہاں انہیں اس میں سے کھلاتے رہو اور پہناتے رہو اور ان سے بھلائی کی بات کیا کروo

(2) یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوْۤا اَمْوَالَكُمْ بَیْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ اِلَّاۤ اَنْ تَكُوْنَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِّنْكُمْ ۫ وَ لَا تَقْتُلُوْۤا اَنْفُسَكُمْ ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِكُمْ رَحِیْمًاo

(النساء، 4/ 29)

اے ایمان والو! تم ایک دوسرے کا مال آپس میں ناحق طریقے سے نہ کھاؤ سوائے اس کے کہ تمہاری باہمی رضا مندی سے کوئی تجارت ہو، اور اپنی جانوں کو مت ہلاک کرو، بے شک اللہ تم پر مہربان ہےo

(3) وَ لَا تَعَاوَنُوْا عَلَی الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ ۪ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ ؕ اِنَّ اللّٰهَ شَدِیْدُ الْعِقَابِo

(المائدۃ، 5/ 2)

اور نیکی اور پرہیزگاری (کے کاموں) پر ایک دوسرے کی مدد کیا کرو اور گناہ اور ظلم (کے کاموں) پر ایک دوسرے کی مدد نہ کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو۔ بے شک اللہ (نافرمانی کرنے والوں کو) سخت سزا دینے والا ہےo

اَلْحَدِیْث

147/ 63۔ عَنْ أَبِي ھُرَیْرَۃَ رضی اللہ عنہ، أَنَّہٗ سَمِعَ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ، قَالَ: لَا یَبُوْلَنَّ أَحَدُکُمْ فِي الْمَاءِ الدَّائِمِ الَّذِي لَا یَجْرِي ثُمَّ یَغْتَسِلُ فِیْهِ۔

مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ۔

147: أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب الوضوئ، باب البول في الماء الدائم، 1/ 94، الرقم/ 236، ومسلم في الصحیح، کتاب الطہارۃ، باب النہي عن البول في الماء الراکد، 1/ 235، الرقم/ 282، وابن ماجہ في السنن، کتاب الطہارۃ وسننہا، باب النہي عن البول في الماء الراکد، 1/ 124، الرقم/ 344۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: تم میں سے کوئی ٹھہرے ہوئے پانی میں ہرگز پیشاب نہ کرے جو بہتا ہوا نہ ہو کہ بعد میں اُسی پانی میں غسل کا ارادہ رکھتا ہو۔

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

148/ 64۔ وَفِي رِوَایَۃِ جَابِرٍ رضی اللہ عنہ، عَنْ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ: أَنَّہٗ نَهٰی أَنْ یُبَالَ فِي الْمَاءِ الرَّاکِدِ۔

رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ وَالنَّسَائِيُّ وَابْنُ مَاجَہ۔

148: أخرجہ مسلم في الصحیح، کتاب الطہارۃ، باب النہي عن البول في الماء الراکد، 1/ 235، الرقم/ (94) 281، وأحمد بن حنبل في المسند، 3/ 350، الرقم/ 14819، والنسائي في السنن، کتاب الطہارۃ، باب النہي عن البول في الماء الراکد، 1/ 34، الرقم/ 35، وابن ماجہ في السنن، کتاب الطہارۃ وسننہا باب النہي عن البول في الماء الراکد، 1/ 124، الرقم/ 343، وابن حبان في الصحیح، 4/ 60، الرقم/ 1250، وأبو عوانۃ في المسند، 1/ 183، الرقم/ 574، وابن أبي شیبۃ في المصنف، 1/ 130، الرقم/ 1500، والطحاوي في شرح معاني الآثار، 1/ 15، الرقم/ 20۔

ایک روایت میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے ٹھہرے ہوئے پانی میں پیشاب کرنے سے منع فرمایا۔

اِسے امام مسلم، احمد، نسائی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔

رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ وَأَبُوْ دَاوُدَ۔ ۔

149: أخرجہ مسلم في الصحیح، کتاب الطہارۃ، باب النہي عن التخلي في الطرق والظلال، 1/ 226، الرقم/ 269، وأحمد بن حنبل في المسند، 2/ 372، الرقم/ 8840، وأبو داود في السنن، کتاب الطہارۃ، باب المواضع التي نہی النبي ﷺ عن البول فیہا، 1/ 7، الرقم/ 25، وابن خزیمۃ في الصحیح، 1/ 37، الرقم/ 67، وابن حبان في الصحیح، ولفظہ: الذي یتخلی في طرق الناس وأفنیتہم، 4/ 262، الرقم/ 1415، وأبو یعلی في المسند، 11/ 369، الرقم/ 6483۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: بہت زیادہ لعنت والے دو کاموں سے بچو۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ م نے عرض کیا: یا رسول اللہ! بہت زیادہ لعنت والے دو کام کون سے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: لوگوں کے راستوں میں اور ان کے سائے (کے مقامات جہاں وہ آرام کرتے ہوں) میں قضاء حاجت کرنا۔

اِسے امام مسلم، احمد اور ابو داود نے روایت کیا ہے۔

150/ 66۔ وَفِي رِوَایَۃِ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ رضی اللہ عنہ، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: اِتَّقُوا الْمَلَاعِنَ الثَّـلَاثَ: الْبَرَازَ فِي الْمَوَارِدِ، وَقَارِعَۃِ الطَّرِیْقِ، وَالظِّلِّ۔

رَوَاهُ أَحْمَدُ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضی اللہ عنہم نَحْوَہٗ وَأَبُوْ دَاوُدَ وَاللَّفْظُ لَہٗ وَابْنُ مَاجَہ وَالْحَاکِمُ وَالطَّبَرَانِيُّ وَالْبَیْهَقِيُّ۔ وَقَالَ الْحَاکِمُ: ھٰذَا حَدِیْثٌ صَحِیْحُ الإِسْنَادِ۔

150: أخرجہ أحمد بن حنبل في المسند، 1/ 299، الرقم/ 2715، وأبوداود في السنن، کتاب الطہارۃ، باب المواضع التي نہی النبي ﷺ عن البول فیہا، 1/ 7، الرقم/ 26، وابن ماجہ في السنن، کتاب الطہارۃ وسننہا، باب النہي عن الخلاء علی قارعۃ الطریق، 1/ 119، الرقم/ 328، والحاکم في المستدرک، 1/ 273، الرقم/ 594، والطبراني في المعجم الکبیر، 20/ 123، الرقم/ 247، والبیہقي في السنن الکبری، 1/ 97، الرقم/ 474، وابن عساکر في تاریخ مدینۃ دمشق، 58/ 424۔

ایک روایت میں حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: لعنت کے تین کاموں سے بچو؛ یعنی گھاٹ، راستوں کے درمیان اور سائے میں قضاے حاجت کرنے سے۔

امام احمد نے حضرت (عبد اللہ) بن عباس رضی اللہ عنہم سے اس جیسی روایت بیان کی ہے۔ جبکہ اس حدیث کو امام ابوداود نے مذکورہ الفاظ میں اور ابن ماجہ، حاکم، طبرانی اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔ امام حاکم نے فرمایا ہے: اِس حدیث کی اسناد صحیح ہے۔

Copyrights © 2025 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved