٭ تخریج حامد الازھری صاحب نے چیک کی اس کے بعد فیض اللہ بغدادی صاحب نے ریویو کیا۔ اصلاحات کا اندراج کر دیا گیا۔ جنہیں بعد ازاں کمپیوٹر میں اجمل علی مجددی نے چیک کیا۔
٭ حامد الازہری صاحب، اقبال چشتی، کالامی صاحب اور محمد علی صاحب نے باب چیک کیا۔ اصلاحات کے اندراج کے بعد کمپیوٹر میں چیک کر کے حافظ فرحان ثنائی نے باب فائنل کیا۔
٭ ڈاکٹر فیض اللہ بغدادی صاحب اور محمد فاروق رانا نے چیک کیا۔ اصلاحات کے اندراج کے بعد زمان نے کمپیوٹر میں چیک کیا۔ بعد ازاں اجمل صاحب نے کمپیوٹر میں اصلاحات چیک کرکے باب کو فائنل کیا۔
(1) وَ اَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتُوا الزَّكٰوةَ ؕ وَ مَا تُقَدِّمُوْا لِاَنْفُسِكُمْ مِّنْ خَیْرٍ تَجِدُوْهُ عِنْدَ اللّٰهِ ؕ اِنَّ اللّٰهَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌo
(البقرۃ، 2/ 110)
اور نماز قائم (کیا) کرو اور زکوٰۃ دیتے رہا کرو، اور تم اپنے لیے جو نیکی بھی آگے بھیجو گے اسے اللہ کے حضور پا لو گے، جو کچھ تم کر رہے ہو یقینا اللہ اسے دیکھ رہا ہےo
(2) مَنْ ذَا الَّذِیْ یُقْرِضُ اللّٰهَ قَرْضًا حَسَنًا فَیُضٰعِفَهٗ لَهٗۤ اَضْعَافًا كَثِیْرَةً ؕ وَ اللّٰهُ یَقْبِضُ وَ یَبْصُۜطُ ۪ وَ اِلَیْهِ تُرْجَعُوْنَo
(البقرۃ، 2/ 245)
کون ہے جو اللہ کو قرض حسنہ دے پھر وہ اس کے لیے اسے کئی گنا بڑھا دے گا، اور اللہ ہی (تمہارے رزق میں) تنگی اور کشادگی کرتا ہے، اور تم اسی کی طرف لوٹائے جاؤگےo
(3) لَیْسَ الْبِرَّ اَنْ تُوَلُّوْا وُجُوْهَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَ الْمَغْرِبِ وَ لٰكِنَّ الْبِرَّ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ الْمَلٰٓىِٕكَةِ وَ الْكِتٰبِ وَ النَّبِیّٖنَ ۚ وَ اٰتَی الْمَالَ عَلٰی حُبِّهٖ ذَوِی الْقُرْبٰی وَ الْیَتٰمٰی وَ الْمَسٰكِیْنَ وَ ابْنَ السَّبِیْلِ ۙ وَ السَّآىِٕلِیْنَ وَ فِی الرِّقَابِ ۚ وَ اَقَامَ الصَّلٰوةَ وَ اٰتَی الزَّكٰوةَ ۚ وَ الْمُوْفُوْنَ بِعَهْدِهِمْ اِذَا عٰهَدُوْا ۚ وَ الصّٰبِرِیْنَ فِی الْبَاْسَآءِ وَ الضَّرَّآءِ وَ حِیْنَ الْبَاْسِ ؕ اُولٰٓىِٕكَ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا ؕ وَ اُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْمُتَّقُوْنَo
(البقرۃ، 2/ 177)
نیکی صرف یہی نہیں کہ تم اپنے منہ مشرق اور مغرب کی طرف پھیر لو بلکہ اصل نیکی تو یہ ہے کہ کوئی شخص اللہ پر اور قیامت کے دن پر اور فرشتوں پر اور (اللہ کی) کتاب پر اور پیغمبروں پر ایمان لائے، اور اللہ کی محبت میں (اپنا) مال قرابت داروں پر اور یتیموں پر اور محتاجوں پر اور مسافروں پر اور مانگنے والوں پر اور (غلاموں کی) گردنوں (کو آزاد کرانے) میں خرچ کرے، اور نماز قائم کرے اور زکوٰۃ دے اور جب کوئی وعدہ کریں تو اپنا وعدہ پورا کرنے والے ہوں، اور سختی (تنگدستی) میں اور مصیبت (بیماری) میں اور جنگ کی شدّت (جہاد) کے وقت صبر کرنے والے ہوں، یہی لوگ سچے ہیں اور یہی پرہیز گار ہیںo
(4) یَمْحَقُ اللّٰهُ الرِّبٰوا وَ یُرْبِی الصَّدَقٰتِ ؕ وَ اللّٰهُ لَا یُحِبُّ كُلَّ كَفَّارٍ اَثِیْمٍo
(البقرۃ، 2/ 276)
اور اللہ سود کو مٹاتا ہے (یعنی سودی مال سے برکت کو ختم کرتا ہے) اور صدقات کو بڑھاتا ہے (یعنی صدقہ کے ذریعے مال کی برکت کو زیادہ کرتا ہے)، اور اللہ کسی بھی ناسپاس نافرمان کو پسند نہیں کرتاo
(5) وَ لَقَدْ اَخَذَ اللّٰهُ مِیْثَاقَ بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ ۚ وَ بَعَثْنَا مِنْهُمُ اثْنَیْ عَشَرَ نَقِیْبًا ؕ وَ قَالَ اللّٰهُ اِنِّیْ مَعَكُمْ ؕ لَىِٕنْ اَقَمْتُمُ الصَّلٰوةَ وَ اٰتَیْتُمُ الزَّكٰوةَ وَ اٰمَنْتُمْ بِرُسُلِیْ وَ عَزَّرْتُمُوْهُمْ وَ اَقْرَضْتُمُ اللّٰهَ قَرْضًا حَسَنًا لَّاُكَفِّرَنَّ عَنْكُمْ سَیِّاٰتِكُمْ وَ لَاُدْخِلَنَّكُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ ۚ فَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذٰلِكَ مِنْكُمْ فَقَدْ ضَلَّ سَوَآءَ السَّبِیْلِo
(المائدۃ، 5/ 12)
اور بے شک اللہ نے بنی اسرائیل سے پختہ عہد لیا اور (اس کی تعمیل، تنفیذ اور نگہبانی کے لیے) ہم نے ان میں بارہ سردار مقرر کیے، اور اللہ نے (بنی اسرائیل سے) فرمایا کہ میں تمہارے ساتھ ہوں (یعنی میری خصوصی مدد و نصرت تمہارے ساتھ رہے گی)، اگر تم نے نماز قائم رکھی اور تم زکوٰۃ دیتے رہے اور میرے رسولوں پر (ہمیشہ) ایمان لاتے رہے اور ان (کے پیغمبرانہ مشن) کی مدد کرتے رہے اور اللہ کو (اس کے دین کی حمایت و نصرت میں مال خرچ کرکے) قرض حسن دیتے رہے تو میں تم سے تمہارے گناہوں کو ضرور مٹا دوں گا اور تمہیں یقینا ایسی جنتوں میں داخل کر دوںگا جن کے نیچے نہریں جاری ہیں۔ پھر اس کے بعد تم میں سے جس نے (بھی) کفر (یعنی عہد سے انحراف) کیا تو بے شک وہ سیدھی راہ سے بھٹک گیاo
(6) قُلْ اِنَّ رَبِّیْ یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ یَّشَآءُ مِنْ عِبَادِهٖ وَ یَقْدِرُ لَهٗ ؕ وَ مَاۤ اَنْفَقْتُمْ مِّنْ شَیْءٍ فَهُوَ یُخْلِفُهٗ ۚ وَ هُوَ خَیْرُ الرّٰزِقِیْنَo
(سبا، 34/ 39)
فرما دیجیے: بے شک میرا رب اپنے بندوں میں سے جس کے لیے چاہتا ہے رِزق کشادہ فرما دیتا ہے اور جس کے لیے (چاہتا ہے) تنگ کر دیتا ہے، اور تم (اللہ کی راہ میں) جو کچھ بھی خرچ کرو گے تو وہ اس کے بدلہ میں اور دے گا اور وہ سب سے بہتر رِزق دینے والا ہےo
(7) اِنَّ الْمُصَّدِّقِیْنَ وَ الْمُصَّدِّقٰتِ وَ اَقْرَضُوا اللّٰهَ قَرْضًا حَسَنًا یُّضٰعَفُ لَهُمْ وَ لَهُمْ اَجْرٌ كَرِیْمٌo
(الحدید، 57/ 18)
بے شک صدقہ و خیرات دینے والے مرد اور صدقہ و خیرات دینے والی عورتیں اور جنہوں نے اللہ کو قرضِ حسنہ کے طور پر قرض دیا ان کے لیے (صدقہ و قرضہ کا اجر) کئی گنا بڑھا دیا جائے گا اور اُن کے لیے بڑی عزت والا ثواب ہو گاo
(8) اَرَئَیْتَ الَّذِیْ یُکَذِّبُ بِالدِّیْنِo فَذٰلِکَ الَّذِیْ یَدُعُّ الْیَتِیْمَo وَلَا یَحُضُّ عَلٰی طَعَامِ الْمِسْکِیْنِo فَوَیْلٌ لِّلْمُصَلِّیْنَo الَّذِیْنَ ھُمْ عَنْ صَلَاتِھِمْ سَاھُوْنَo الَّذِیْنَ ھُمْ یُرَآءُوْنَo وَیَمْنَعُوْنَ الْمَاعُوْنَo
(الماعون، 107/ 1-7)
کیا آپ نے اس شخص کو دیکھا جو دین کو جھٹلاتا ہے؟o تو یہ وہ شخص ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے (یعنی یتیموں کی حاجات کو رد کرتا اور انہیں حق سے محروم رکھتا ہے)o اور محتاج کو کھانا کھلانے کی ترغیب نہیں دیتا (یعنی معاشرے سے غریبوں اور محتاجوں کے معاشی اِستحصال کے خاتمے کی کوشش نہیں کرتا)o پس افسوس (اور خرابی) ہے ان نمازیوں کے لیےo جو اپنی نماز (کی روح) سے بے خبر ہیں (یعنی انہیں محض حقوق اللہ یاد ہیں حقوق العباد بھلا بیٹھے ہیں)o وہ لوگ (عبادت میں) دکھلاوا کرتے ہیں (کیوں کہ وہ خالق کی رسمی بندگی بجا لاتے ہیں اور پسی ہوئی مخلوق سے بے پرواہی برت رہے ہیں)o اور وہ برتنے کی معمولی سی چیز بھی مانگے نہیں دیتےo
151/ 1۔ عَنْ أَبِي مُوْسَی الأَشْعَرِيِّ رضی اللہ عنہ قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ ﷺ: عَلٰی کُلِّ مُسْلِمٍ صَدَقَۃٌ۔ قَالُوا: فَإِنْ لَمْ یَجِدْ؟ قَالَ: فَیَعْمَلُ بِیَدَیْهِ فَیَنْفَعُ نَفْسَہٗ وَیَتَصَدَّقُ۔ قَالُوا: فَإِنْ لَمْ یَسْتَطِعْ أَوْ لَمْ یَفْعَلْ؟ قَالَ: فَیُعِینُ ذَا الْحَاجَۃِ الْمَلْھُوفَ۔ قَالُوْا: فَإِنْ لَمْ یَفْعَلْ؟ قَالَ: فَلْیَأْمُرْ بِالْخَیْرِ، أَوْ قَالَ: بِالْمَعْرُوفِ۔ قَالَ: فَإِنْ لَمْ یَفْعَلْ؟ قَالَ: فَیُمْسِکُ عَنِ الشَّرِّ، فَإِنَّہٗ لَہٗ صَدَقَۃٌ۔
مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ۔
151: أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب الأدب، باب کل معروف صدقۃ، 5/ 2241، الرقم/ 5676، ومسلم في الصحیح، کتاب الزکاۃ، باب بیان أن اسم الصدقۃ یقع علی کل من المعروف، 2/ 699، الرقم/ 1008، وأحمد بن حنبل في المسند، 4/ 395، الرقم/ 19549، والنسائي في السنن، کتاب الزکاۃ، باب صدقۃ العبد، 5/ 64، الرقم/ 2538۔
حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ہر مسلمان پر صدقہ لازم ہے۔ لوگ عرض گزار ہوئے: اگر وہ کچھ نہ پائے (جسے صدقہ کرسکے تو)؟ آپ ﷺ نے فرمایا: اپنے ہاتھوں سے کام کرے، جس سے اپنی ذات کو فائدہ پہنچائے اور صدقہ بھی کرے۔ لوگوں نے عرض کیا: اگر وہ اس کی طاقت بھی نہ رکھے یا ایسا نہ کر سکے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ضرورت مند محتاج کی مدد کرے۔ لوگ عرض گزار ہوئے: اگر وہ ایسا نہ کر سکے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: اسے چاہیے کہ خیر کا حکم کرے یا فرمایا کہ نیکی کا حکم دے۔ لوگوں نے پھر عرض کیا: اگر یہ بھی نہ کر سکے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا: وہ خود برائی سے رُکا رہے، اس کے لیے یہی صدقہ ہے۔
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
152/ 2۔ عَنْ أَبِي ھُرَیْرَۃَ رضی اللہ عنہ أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ قَالَ: قَالَ رَجُلٌ: لَأَتَصَدَّقَنَّ بِصَدَقَۃٍ۔ فَخَرَجَ بِصَدَقَتِہٖ، فَوَضَعَھَا فِي یَدِ سَارِقٍ۔ فَأَصْبَحُوْا یَتَحَدَّثُونَ: تُصُدِّقَ عَلٰی سَارِقٍ۔ فَقَالَ: اَللّٰھُمَّ، لَکَ الْحَمْدُ، لَأَتَصَدَّقَنَّ بِصَدَقَۃٍ۔ فَخَرَجَ بِصَدَقَتِہٖ، فَوَضَعَھَا فِي یَدَي زَانِیَۃٍ۔ فَأَصْبَحُوا یَتَحَدَّثُوْنَ: تُصُدِّقَ اللَّیْلَۃَ عَلٰی زَانِیَۃٍ۔ فَقَالَ: اَللّٰھُمَّ، لَکَ الْحَمْدُ، عَلٰی زَانِیَۃٍ! لَأَتَصَدَّقَنَّ بِصَدَقَۃٍ۔ فَخَرَجَ بِصَدَقَتِہٖ، فَوَضَعَھَا فِي یَدَيْ غَنِيٍّ۔ فَأَصْبَحُوْا یَتَحَدَّثُوْنَ: تُصُدِّقَ عَلٰی غَنِيٍّ۔ فَقَالَ: اَللّٰھُمَّ، لَکَ الْحَمْدُ، عَلٰی سَارِقٍ وَعَلٰی زَانِیَۃٍ وَعَلٰی غَنِيٍّ۔ فَأُتِيَ، فَقِیْلَ لَہٗ: أَمَّا صَدَقَتُکَ عَلٰی سَارِقٍ: فَلَعَلَّہٗ أَنْ یَسْتَعِفَّ عَنْ سَرِقَتِہٖ، وَأَمَّا الزَّانِیَۃُ: فَلَعَلَّھَا أَنْ تَسْتَعِفَّ عَنْ زِنَاھَا، وَأَمَّا الْغَنِيُّ: فَلَعَلَّہٗ یَعْتَبِرُ، فَیُنْفِقُ مِمَّا أَعْطَاهُ اللهُ۔
مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ۔
152: أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب الزکاۃ، باب إذا تصدق علی غني وھو لا یعلم، 2/ 516، الرقم/ 1355، ومسلم في الصحیح، کتاب الزکاۃ، باب ثواب أجر المتصدق وإن وقعت الصدقۃ في أہلہا، 2/ 709، الرقم/ 1022، والنسائي في السنن، کتاب الزکاۃ، باب إذا أعطاہا غنیا وہو لا یشعر، 5/ 55، الرقم/ 2523۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ایک آدمی نے کہا کہ میں ضرور صدقہ کروں گا۔ چنانچہ وہ صدقہ کرنے کی غرض سے (رات کو) اپنا مال لے کر نکلا اور (لا علمی میں) ایک چور کو صدقہ دے دیا۔ صبح لوگ باتیں کرنے لگے کہ چور پر صدقہ کیا گیا ہے۔ وہ عرض گزار ہوا: اے اللہ! سب تعریفیں تیرے لیے ہیں، میں دوبارہ صدقہ دوں گا۔ وہ صدقہ لے کر نکلا اور (لا علمی میں) بدکار عورت کو دے دیا۔ صبح کے وقت لوگ باتیں کرنے لگے کہ آج رات بدکار عورت پر صدقہ کیا گیا ہے۔ اس نے کہا: اے اللہ! سب تعریفیں تیرے لیے ہیں۔ (میں نے) بدکار عورت پر صدقہ کر دیا۔ میں ضرور دوبارہ صدقہ دوں گا۔ وہ صدقہ لے کر نکلا تو اسے اِس مرتبہ( لا علمی میں) ایک مالدار کے ہاتھوں میں رکھ دیا۔ صبح کے وقت لوگ باتیں کرنے لگے کہ غنی پر صدقہ کیا گیا ہے۔ اس نے کہا: اے اللہ! سب تعریفیں تیرے لیے ہیں، (افسوس کہ میں لا علمی میں) چور، بدکار عورت اور غنی پر صدقہ کر بیٹھا! (خواب میں) اس کے پاس (ایک فرشتہ) لایا گیا اور اس سے کہا گیا: تم نے چور کو صدقہ دیا، شاید وہ اس کے باعث چوری سے رک جائے، رہی بدکار عورت، شاید وہ بدکاری سے باز آجائے، مال دار شاید عبرت حاصل کرلے اور اللہ تعالیٰ نے اسے جو مال دیا ہے وہ بھی اس میں سے خرچ کرنے لگے۔
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
153/ 3۔ عَنْ أَبِي ھُرَیْرَۃَ رضی اللہ عنہ، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: کُلُّ سُلَامٰی مِنَ النَّاسِ عَلَیْهِ صَدَقَۃٌ کُلَّ یَوْمٍ تَطْلُعُ فِیهِ الشَّمْسُ، یَعْدِلُ بَیْنَ النَّاسِ صَدَقَۃٌ۔
رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ۔
153: أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب الصلح، باب فضل الإصلاح بین الناس والعدل بینہم، 2/ 964، الرقم/ 12560۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ہر روز جس میں سورج طلوع ہوتا ہے لوگوں کے لیے اپنے ہر جوڑ کا صدقہ دینا ضروری ہے، جو شخص لوگوں کے درمیان عدل کرتا ہے، اس کا یہ عمل بھی صدقہ شمار ہوتا ہے۔
اِسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔
154/ 4۔ عَنْ أَبِي ھُرَیْرَۃَ رضی اللہ عنہ، عَنْ رَسُولِ اللهِ ﷺ قَالَ: مَا نَقَصَتْ صَدَقَۃٌ مِنْ مَالٍ، وَمَا زَادَ اللهُ عَبْدًا بِعَفْوٍ إِلَّا عِزًّا، وَمَا تَوَاضَعَ أَحَدٌ ِﷲِ إِلَّا رَفَعَهُ اللهُ۔
رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالدَّارِمِيُّ۔
154: أخرجہ مسلم في الصحیح، کتاب البر والصلۃ والآداب، باب استحباب العفو والتواضع، 4/ 2001، الرقم/ 2588، والدارمي في السنن، کتاب الزکاۃ، باب في فضل الصدقۃ، 1/ 486، الرقم/ 1676، وابن خزیمۃ في الصحیح، 4/ 97، الرقم/ 2438، وأبویعلی في المسند، 11/ 344، الرقم/ 6458۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: صدقہ مال میں کچھ کمی نہیں کرتا، اللہ تعالیٰ بندے کے معاف کرنے سے اس کی عزت ہی بڑھاتا ہے اور جو بھی اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے عاجزی اختیار کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کو بلندی عطا فرماتا ہے۔
اِسے امام مسلم اور دارمی نے روایت کیا ہے۔
155/ 5۔ عَنْ أَبِي أَیُّوبَ رضی اللہ عنہ، أَنَّ رَجُـلًا قَالَ لِلنَّبِيِّ ﷺ: أَخْبِرْنِي بِعَمَلٍ یُدْخِلُنِيَ الْجَنَّۃَ۔ قَالَ: مَا لَـہٗ مَا لَـہٗ؟ وَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ: أَرَبٌ مَا لَہٗ، تَعْبُدُ اللهَ وَلَا تُشْرِکُ بِہٖ شَیْئًا، وَتُقِیْمُ الصَّلَاۃَ، وَتُؤْتِي الزَّکَاۃَ، وَتَصِلُ الرَّحِمَ۔
مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ۔
155: أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب الزکاۃ، باب وجوب الزکاۃ، 2/ 505، الرقم/ 1332، وأیضًا في کتاب الأدب، باب فضل صِلۃِ الرَّحمِ، 5/ 2231، الرقم/ 5637، ومسلم في الصحیح، کتاب الإیمان، باب الإیمان الذي یدخل بہ الجنۃ، وأن من تمسک بما أمر بہ دخل الجنۃ، 1/ 42، الرقم/ 13، وأحمد بن حنبل في المسند، 5/ 418، الرقم/ 23596، والنسائي في السنن الکبری، 3/ 445، الرقم/ 5880۔
حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص نے حضور نبی اکرم ﷺ سے عرض کیا: مجھے ایسا عمل بتائیے جو مجھے جنت میں لے جائے۔ (اس شخص کو آگے بڑھتے اور حضور نبی اکرم ﷺ سے مخاطب ہوتے دیکھ کر) لوگوں نے کہا: اسے کیا ہوا ہے؟ اسے کیا ہوا (یعنی یہ شخص کیا چاہتا ہے)؟ اس پر حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اسے کچھ نہیں ہوا (بلکہ یہ تو ایک نہایت اہم بات پوچھ رہا ہے، اے شخص سنو!) اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائو، نماز قائم کرو، زکوٰۃ ادا کرو (یعنی اپنے مال میں سے حقِ واجب نکالو اور اسے غربائ، ضعفائ، محرومین اور اُمورِ خیر پر خرچ کرو)، اور خونی رشتے قائم رکھو۔
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
156/ 6۔ عَنْ أَبِي ھُرَیْرَۃَ رضی اللہ عنہ أَنَّ أَعْرَابِیًّا أَتَی النَّبِيَّ ﷺ فَقالَ: دُلَّنِي عَلٰی عَمَلٍ إِذَا عَمِلْتُہٗ دَخَلْتُ الْجَنَّۃَ۔ قَالَ: تَعْبُدُ اللهَ لَا تُشْرِکُ بِہٖ شَیْئًا، وَتُقِیمُ الصَّلَاۃَ الْمَکْتُوبَۃَ، وَتُؤَدِّي الزَّکَاۃَ الْمَفْرُوْضَۃَ، وَتَصُوْمُ رَمَضَانَ۔ قَالَ: وَالَّذي نَفْسِي بِیَدِہٖ، لَا أَزِیدُ عَلٰی ھٰذَا۔ فَلَمَّا وَلّٰی، قَالَ النَّبِيُّ ﷺ: مَنْ سَرَّہٗ أَنْ یَنْظُرَ إِلٰی رَجُلٍ مِنْ أَہْلِ الْجَنَّۃِ، فَلْیَنْظُرْ إِلٰی ھٰذَا۔
مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ۔
156: أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب الزکاۃ، باب وجوب الزکاۃ، 2/ 506، الرقم/ 1333، ومسلم في الصحیح، کتاب الإیمان، باب بیان الإیمان الذي یدخل بہ الجنۃ وأن تمسک بما أمر بہ دخل الجنۃ، 1/ 44، الرقم/ 14، وابن خزیمۃ في الصحیح، 4/ 12، وأبو عوانۃ في المسند، 1/ 17، الرقم/ 4۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں ایک دیہاتی حاضر ہوا اور عرض کیا: (یا رسول اللہ!) میری راہنمائی کسی ایسے عمل کی طرف فرمائیں جسے انجام دینے سے جنت میں داخل ہو جاؤں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کی عبادت (اس طرح) کرو (کہ اس میں) کسی کو اس کا شریک نہ بناؤ۔ فرض نماز قائم کرو، فرض زکوٰۃ ادا کرو اور رمضان کے روزے رکھو۔ اس اعرابی نے کہا: اس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے! میں ان اَحکام پر کوئی اضافہ نہیں کروں گا۔ (چنانچہ) جب وہ شخص واپس جانے کے لیے مڑا تو آپ ﷺ نے فرمایا: جسے اہلِ جنت میں سے کسی کو دیکھنا پسند ہو، وہ اس شخص کو دیکھ لے۔
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
157/ 7۔ عَنْ أَبِي أُمَامَۃَ رضی اللہ عنہ یَقُوْلُ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ یَخْطُبُ فِي حَجَّۃِ الْوَدَاعِ، فَقَالَ: اتَّقُوا اللهَ رَبَّکُمْ وَصَلُّوْا خَمْسَکُمْ وَصُوْمُوْا شَہْرَکُمْ وَأَدُّوْا زَکَاۃَ أَمْوَالِکُمْ وَأَطِیْعُوْا ذَا أَمْْرِکُمْ؛ تَدْخُلُوْا جَنَّۃَ رَبِّکُمْ۔
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالتِّرْمِذِيُّ وَاللَّفْظُ لَہٗ وَابْنُ حِبَّانَ وَابْنُ خُزَیْمَۃَ فِي تَرْجَمَۃِ الْبَابِ۔ وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: ھٰذَا حَدِیْثٌ حَسَنٌ صَحِیْحٌ۔ وَقَالَ الْحَاکِمُ: ھٰذَا حَدِیْثٌ صَحِیْحٌ عَلٰی شَرْطِ مُسْلِمٍ، وََسَائِرُ رُوَاتِہٖ مُتَّفَقٌ عَلَیْھِمْ۔
157: أخرجہ أحمد بن حنبل في المسند، 5/ 251، الرقم/ 22215، والترمذي في السنن، کتاب الجمعۃ، باب منہ (434)، 2/ 516، الرقم/ 616، وابن خزیمۃ في الصحیح، 4/ 12، وابن حبان في الصحیح، 10/ 426، الرقم/ 4563، والحاکم في المستدرک، 1/ 52، 547، الرقم/ 19، 1436، والدارقطني في السنن، 456، الرقم/ 2733، والطبراني في المعجم الکبیر، 8/ 115، الرقم/ 7535، وأیضًا في مسند الشامیین، 2/ 16، الرقم/ 834، وابن أبي عاصم في السنۃ، 2/ 505، الرقم/ 1061۔
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: میں نے رسول اللہ ﷺ کو حجۃ الوداع کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے سنا: اپنے رب سے ڈرو، اپنی پانچوں نمازیں ادا کرتے رہو، اپنے (رمضان کے) مہینے میں روزے رکھا کرو، اپنے اَموال کی زکوٰۃ دیا کرو (یعنی اپنے مال میں سے حق واجب نکالو اور اسے غربائ، ضعفائ، محرومین اور اُمورِ خیر پر خرچ کرو) اور اپنے حاکم کی اطاعت کرو۔ (اس کے صلے میں) تم اپنے پروردگار کی جنت میں داخل ہو جاؤ گے۔
اِسے امام احمد، ترمذی اور ابن حبان نے اور ابن خزیمہ نے ترجمۃ الباب میں روایت کیا ہے۔ مذکورہ الفاظ ترمذی کے ہیں۔ امام ترمذی نے فرمایا: یہ حدیث حسن صحیح ہے اور امام حاکم نے فرمایا ہے: یہ حدیث مسلم کی شرائط پر صحیح ہے اور اس کے تمام راوی متفق علیہ (صحیح) ہیں۔
158/ 8۔ وَفِي رِوَایَۃٍ عَنْهُ رضی اللہ عنہ: یَقُوْلُ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ یَقُوْلُ: أَیُّھَا النَّاسُ، إِنَّہٗ لَا نَبِيَّ بَعْدِي وَلَا أُمَّۃَ بَعْدَکُمْ۔ أَ لَا! فَاعْبُدُوْا رَبَّکُمْ، وَصَلُّوْا خَمْسَکُمْ، وَصُوْمُوْا شَھْرَکُمْ، وَأَدُّوْا زَکَاۃَ أَمْوَالِکُمْ طَیِّبَۃً بِھَا أَنْفُسُکُمْ، وَأَطِیْعُوْا وُلَاۃَ أَمْرِکُمْ، تَدْخُلُوْا جَنَّۃَ رَبِّکُمْ۔
رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَابْنُ أَبِي عَاصِمٍ۔
158: أخرجہ الطبراني في المعجم الکبیر، 8/ 115، الرقم/ 7535، وأیضًا في مسند الشامیین، 2/ 16، الرقم/ 834، وابن أبي عاصم في السنۃ، 2/ 505، الرقم/ 1061۔
ایک اور روایت میں حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: اے لوگو! جان لو کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں اور نہ ہی تمہارے بعد کوئی اور اُمت ہے۔ خبردار! اپنے رب کی عبادت کرو، اپنی پانچ نمازیں ادا کرو، اپنے ماهِ (رمضان) کے روزے رکھو، دلی رضا مندی کے ساتھ اپنے اَموال کی زکوٰۃ ادا کرو (یعنی اپنے مال میں سے حقِ واجب نکالو اور اسے غربائ، ضعفائ، محرومین اور اُمورِ خیر پر خرچ کرو)، اور اپنے (عادل) حکمرانوں کی اطاعت کرو۔ (اس کے صلے میں) تم اپنے رب کی جنت میں داخل ہو جائو گے۔
اِسے امام طبرانی اور ابن ابی عاصم نے روایت کیا ہے۔
(1) اِنْ تُبْدُوا الصَّدَقٰتِ فَنِعِمَّا هِیَ ۚ وَ اِنْ تُخْفُوْهَا وَ تُؤْتُوْهَا الْفُقَرَآءَ فَهُوَ خَیْرٌ لَّكُمْ ؕ وَ یُكَفِّرُ عَنْكُمْ مِّنْ سَیِّاٰتِكُمْ ؕ وَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌo
(البقرۃ، 2/ 271)
اگر تم خیرات ظاہر کر کے دو تو یہ بھی اچھا ہے (اس سے دوسروں کو ترغیب ہو گی) اور اگر تم انہیں مخفی رکھو اور وہ محتاجوں کو پہنچا دو تو یہ تمہارے لیے (اور) بہتر ہے، اور اللہ (اس خیرات کی وجہ سے) تمہارے کچھ گناہوں کو تم سے دور فرما دے گا اور اللہ تمہارے اعمال سے باخبر ہےo
(2) اَلَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَهُمْ بِالَّیْلِ وَ النَّهَارِ سِرًّا وَّ عَلَانِیَةً فَلَهُمْ اَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ ۚ وَ لَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَؔo
(البقرۃ، 2/ 274)
جو لوگ (اللہ کی راہ میں) شب و روز اپنے مال پوشیدہ اور ظاہر خرچ کرتے ہیں تو ان کے لیے ان کے رب کے پاس ان کا اجر ہے اور (روزِ قیامت) ان پر نہ کوئی خوف ہو گا اور نہ وہ رنجیدہ ہوں گےo
159/ 9۔ عَنْ أَبِي ھُرَیْرَۃَ رضی اللہ عنہ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: سَبْعَۃٌ یُظِلُّهُمُ اللهُ فِي ظِلِّہٖ، یَوْمَ لَا ظِلَّ إِلَّا ظِلُّہٗ: الْإِمَامُ الْعَادِلُ وَشَابٌّ نَشَأَ فِي عِبَادَۃِ رَبِّہٖ، وَرَجُلٌ قَلْبُہٗ مُعَلَّقٌ فِي الْمَسَاجِدِ، وَرَجُلَانِ تَحَابَّا فِي اللهِ اجْتَمَعَا عَلَیْهِ وَتَفَرَّقَا عَلَیْهِ، وَرَجُلٌ طَلَبَتْهُ امْرَأَۃٌ ذَاتُ مَنْصِبٍ وَجَمَالٍ فَقَالَ: إِنِّي أَخَافُ اللهَ، وَرَجُلٌ تَصَدَّقَ أَخْفٰی حَتّٰی لَا تَعْلَمَ شِمَالُہٗ مَا تُنْفِقُ یَمِیْنُہٗ، وَرَجُلٌ ذَکَرَ اللهَ خَالِیًا فَفَاضَتْ عَیْنَاهُ۔
مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ۔
159: أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب الجماعۃ والإمامۃ، باب من جلس في المسجد ینتطر الصلاۃ وفضل المساجد، 1/ 234، الرقم/ 629، ومسلم في الصحیح، کتاب الزکاۃ، باب فضل إخفاء الصدقۃ، 2/ 715، الرقم/ 1031، وأحمد بن حنبل في المسند، 2/ 439، الرقم/ 9663، والترمذي في السنن، کتاب الزہد، باب ما جاء في الحب في اللہ، 4/ 598، الرقم/ 2391، والنسائي في السنن، کتاب آداب القضاۃ، باب الإمام العادل، 8/ 222، الرقم/ 5380، ومالک في الموطأ، کتاب الشعر، باب ما جاء في المتحابین في اللہ، 2/ 952، الرقم/ 1709۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: سات آدمی ایسے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ اس روز اپنے سایہ رحمت میں جگہ دے گا جس روز اس کے سایہ رحمت کے سوا کوئی سایہ نہ ہو گا: عادل حاکم، وہ نوجوان جو اپنے رب کی عبادت میں پروان چڑھا، وہ آدمی جس کا دل مساجد سے وابستہ رہتا ہے، وہ دو آدمی جو اللہ تعالیٰ کی خاطر ایک دوسرے سے محبت کریں، اسی محبتِ الٰہی کی خاطر دونوں اکٹھے ہوں اور اسی کی خاطر جدا ہوں، وہ آدمی جس کو حیثیت اور جمال والی عورت (برائی کی) دعوت دے، مگر وہ یہ کہہ (کرانکار کر) دے کہ میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہوں، اور وہ آدمی جو چھپا کر خیرات کرے یہاں تک کہ اس کے بائیں ہاتھ کو بھی معلوم نہ ہو کہ دایاں ہاتھ کیا خرچ کرتا ہے، اور وہ آدمی جو خلوت میں اللہ تعالیٰ کا ذکر کرے تو (خوفِ الٰہی سے) اس کی آنکھیں بہنے لگیں۔
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
160/ 10۔ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی اللہ عنہ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: لَمَّا خَلَقَ اللهُ الْأَرْضَ جَعَلَتْ تَمِیْدُ، فَخَلَقَ الْجِبَالَ، فَعَادَ بِھَا عَلَیْھَا فَاسْتَقَرَّتْ۔ فَعَجِبَتِ الْمَلَائِکَۃُ مِنْ شِدَّۃِ الْجِبَالِ۔ قَالُوْا: یَا رَبِّ، هَلْ مِنْ خَلْقِکَ شَيْئٌ أَشَدُّ مِنَ الْجِبَالِ؟ قَالَ: نَعَمْ! الْحَدِیدُ۔ قَالُوْا: یَا رَبِّ، فَھَلْ مِنْ خَلْقِکَ شَيْئٌ أَشَدُّ مِنَ الْحَدِیدِ؟ قَالَ: نَعَمْ! النَّارُ۔ فَقَالُوْا: یَا رَبِّ، فَھَلْ مِنْ خَلْقِکَ شَيْئٌ أَشَدُّ مِنَ النَّارِ؟ قَالَ: نَعَمْ! الْمَاءُ۔ قَالُوْا: یَا رَبِّ، فَھَلْ مِنْ خَلْقِکَ شَيْئٌ أَشَدُّ مِنَ الْمَاءِ؟ قَالَ: نَعَمْ! الرِّیْحُ۔ قَالُوْا: یَا رَبِّ، فَھَلْ مِنْ خَلْقِکَ شَيْئٌ أَشَدُّ مِنَ الرِّیحِ؟ قَالَ: نَعَمْ! ابْنُ آدَمَ تَصَدَّقَ بِصَدَقَۃٍ بِیَمِیْنِہٖ یُخْفِیْھَا مِنْ شِمَالِہٖ۔
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالتِّرْمِذِيُّ وَاللَّفْظُ لَہٗ۔
160: أخرجہ أحمد بن حنبل في المسند، 3/ 124، الرقم/ 12275، والترمذي في السنن، کتاب تفسیر القرآن، باب (95)، 5/ 454 الرقم/ 3369، وعبد بن حمید في المسند، 1/ 365، الرقم/ 1215، والدیلمي في مسند الفردوس، 3/ 423، الرقم/ 5298۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جب اللہ تعالیٰ نے زمین پیدا فرمائی تو وہ ہلنے لگی۔ اس نے پہاڑ پیدا کرکے انہیں زمین پر رکھ دیا تو وہ ٹھہر گئی۔ فرشتوں کو پہاڑوں کی شدت اور قوت پر تعجب ہوا۔ انہوں نے عرض کیا: اے پروردگار! کیا تیری مخلوق میں پہاڑوں سے بھی طاقتور کوئی چیز ہے؟ فرمایا: ہاں! لوہا ہے۔ انہوں نے عرض کیا: یا رب! کیا تیری مخلوق میں لوہے سے بھی زیادہ طاقت والی کوئی چیز ہے؟ فرمایا: ہاں! آگ ہے۔ انہوں نے پھر پوچھا: اے پروردگار! کیا تیری مخلوق میں آگ سے بھی زیادہ طاقت والی کوئی چیز ہے؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ہاں! پانی ہے۔ پھر عرض کیا: اے رب! کیا تیری مخلوق میں پانی سے بھی زیادہ طاقتور کوئی چیز ہے؟ فرمایا: ہاں! ہوا ہے۔ پوچھا: کیا ہوا سے بھی زیادہ طاقت ور کوئی مخلوق ہے؟ فرمایا: ہاں! وہ انسان جو دائیں ہاتھ سے صدقہ دیتا ہے اور اسے اپنے بائیں ہاتھ سے بھی پوشیدہ رکھتا ہے۔
اِسے امام احمد بن حنبل اور ترمذی نے روایت کیا ہے۔ مذکورہ الفاظ ترمذی کے ہیں۔
161/ 11۔ عَنْ أَبِي أُمَامَۃَ رضی اللہ عنہ، أَنَّ أَبِي ذَرٍّ رضی اللہ عنہ قَالَ: قُلْتُ: یَا نَبِيَّ اللهِ، أَرَأَیْتَ الصَّدَقَۃَ مَاذَا هِيَ۔ قَالَ: أَضْعَافٌ مُضَاعَفَۃٌ، وَعِنْدَ اللهِ الْمَزِیدُ۔ قَالَ: قُلْتُ: یَا نَبِيَّ اللهِ، فَأَيُّ الصَّدَقَۃِ أَفْضَلُ؟ قَالَ: سِرٌّ إِلٰی فَقِیْرٍ، وَجُھْدٌ مِنْ مُقِلٍّ۔
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالطَّبَرَانِيُّ۔
161: أخرجہ أحمد بن حنبل في المسند، 5/ 265، الرقم/ 242، والطبراني في المعجم الکبیر، 8/ 217، الرقم/ 7871، وأیضًا فیہ، 8/ 226، الرقم/ 7891۔
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے عرض کیا: یا نبی اللہ! صدقے کی حقیقت کے بارے میں کچھ ارشاد فرمائیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: (یہ مال و دولت کو) کئی گنا بڑھا دیتا ہے اور (اس کا) اللہ تعالیٰ کے ہاں اور بھی زیادہ (اجر و ثواب) ہے۔ راوی کہتے ہیں: میں نے عرض کیا: یا نبی اللہ! کون سا صدقہ افضل ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: کسی تنگ دست کو خفیہ صدقہ دینا اور مفلوک الحال آدمی کا اپنے خون پسینے کی کمائی میں سے صدقہ نکالنا۔
اِسے امام احمدبن حنبل اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔
162/ 12۔ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ رضی اللہ عنہم، قَالَ: خَطَبَنَا رَسُوْلُ اللهِ ﷺ، فَقَالَ: یَا أَیُّھَا النَّاسُ، تُوبُوْا إِلَی اللهِ قَبْلَ أَنْ تَمُوْتُوْا، وَبَادِرُوْا بِالْأَعْمَالِ الصَّالِحَۃِ قَبْلَ أَنْ تُشْغَلُوْا، وَصِلُوا الَّذِي بَیْنَکُمْ وَبَیْنَ رَبِّکُمْ بِکَثْرَۃِ ذِکْرِکُمْ لَہٗ وَکَثْرَۃِ الصَّدَقَۃِ فِي السِّرِّ وَالْعَلَانِیَۃِ، تُرْزَقُوْا، وَتُنْصَرُوْا، وَتُجْبَرُوْا۔
رَوَاهُ ابْنُ مَاجَہ۔
162: أخرجہ ابن ماجہ في السنن، کتاب إقامۃ الصلاۃ، باب في فرض الجمعۃ، 1/ 343، الرقم/ 1081۔
حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہم سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: اے لوگو! مرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں توبہ کر لو۔ اس سے قبل کہ تم (کسی طبعی و جسمانی عارضہ کے باعث) غفلت کا شکار ہو جائو اعمالِ صالحہ کرنے میں جلدی کر لو۔ تم کثرت سے اللہ تعالیٰ کا ذکر کر کے اور ظاہر اور پوشیدہ بکثرت صدقہ دے کر اپنے اور اپنے رب کے درمیان تعلق جوڑ لو۔ اِس کے بدلے تمہیں مزید رزق دیا جائے گا، تمہاری مدد کی جائے گی اور تمہیں سربلند اور طاقت ور کیا جائے گا۔
اِسے امام ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔
(1) مَثَلُ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَهُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ اَنْۢبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِیْ كُلِّ سُنْۢبُلَةٍ مِّائَةُ حَبَّةٍ ؕ وَ اللّٰهُ یُضٰعِفُ لِمَنْ یَّشَآءُ ؕ وَ اللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌo اَلَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَهُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ ثُمَّ لَا یُتْبِعُوْنَ مَاۤ اَنْفَقُوْا مَنًّا وَّ لَاۤ اَذًی ۙ لَّهُمْ اَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ ۚ وَ لَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَo
(البقرۃ، 2/ 261-262)
جو لوگ اللہ کی راہ میں اپنے مال خرچ کرتے ہیں ان کی مثال (اس) دانے کی سی ہے جس سے سات بالیاں اگیں (اور پھر) ہر بالی میں سو دانے ہوں (یعنی سات سو گنا اجر پاتے ہیں) اور اللہ جس کے لیے چاہتا ہے (اس سے بھی) اضافہ فرما دیتا ہے، اور اللہ بڑی وسعت والا خوب جاننے والا ہےo جو لوگ اللہ کی راہ میں اپنے مال خرچ کرتے ہیں پھر اپنے خرچ کیے ہوئے کے پیچھے نہ احسان جتلاتے ہیں اور نہ اذیت دیتے ہیں ان کے لیے ان کے رب کے پاس ان کا اجر ہے اور (روزِ قیامت) ان پر نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گےo
(2) یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَنْفِقُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا كَسَبْتُمْ وَ مِمَّاۤ اَخْرَجْنَا لَكُمْ مِّنَ الْاَرْضِ ۪ وَ لَا تَیَمَّمُوا الْخَبِیْثَ مِنْهُ تُنْفِقُوْنَ وَ لَسْتُمْ بِاٰخِذِیْهِ اِلَّاۤ اَنْ تُغْمِضُوْا فِیْهِ ؕ وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ غَنِیٌّ حَمِیْدٌo
(البقرۃ، 2/ 267)
اے ایمان والو! ان پاکیزہ کمائیوں میں سے اور اس میں سے جو ہم نے تمہارے لیے زمین سے نکالا ہے (اللہ کی راہ میں) خرچ کیا کرو اور اس میں سے گندے مال کو (اللہ کی راہ میں) خرچ کرنے کا ارادہ مت کرو کہ (اگر وہی تمہیں دیا جائے تو) تم خود اسے ہرگز نہ لو سوائے اس کے کہ تم اس میں چشم پوشی کر لو، اور جان لو کہ بے شک اللہ بے نیاز لائقِ ہر حمد ہےo
(3) وَ مَا تُنْفِقُوْا مِنْ خَیْرٍ فَلِاَنْفُسِكُمْ ؕ وَ مَا تُنْفِقُوْنَ اِلَّا ابْتِغَآءَ وَجْهِ اللّٰهِ ؕ وَ مَا تُنْفِقُوْا مِنْ خَیْرٍ یُّوَفَّ اِلَیْكُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تُظْلَمُوْنَo لِلْفُقَرَآءِ الَّذِیْنَ اُحْصِرُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ لَا یَسْتَطِیْعُوْنَ ضَرْبًا فِی الْاَرْضِ ؗ یَحْسَبُهُمُ الْجَاهِلُ اَغْنِیَآءَ مِنَ التَّعَفُّفِ ۚ تَعْرِفُهُمْ بِسِیْمٰىهُمْ ۚ لَا یَسْـَٔلُوْنَ النَّاسَ اِلْحَافًا ؕ وَ مَا تُنْفِقُوْا مِنْ خَیْرٍ فَاِنَّ اللّٰهَ بِهٖ عَلِیْمٌ۠o اَلَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَهُمْ بِالَّیْلِ وَ النَّهَارِ سِرًّا وَّ عَلَانِیَةً فَلَهُمْ اَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ ۚ وَ لَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَؔo
(البقرۃ، 2/ 272-274)
اور تم جو مال بھی خرچ کرو سو وہ تمہارے اپنے فائدے میں ہے اور اللہ کی رضاجوئی کے سوا تمہارا خرچ کرنا مناسب ہی نہیں ہے، اور تم جو مال بھی خرچ کرو گے (اس کا اجر) تمہیں پورا پورا دیا جائے گا اور تم پر کوئی ظلم نہیں کیا جائے گاo (خیرات) ان فقراء کا حق ہے جو اللہ کی راہ میں (کسبِ معاش سے) روک دیے گئے ہیں وہ (امورِ دین میں ہمہ وقت مشغول رہنے کے باعث) زمین میں چل پھر بھی نہیں سکتے ان کے (زُھداً) طمع سے باز رہنے کے باعث نادان (جو ان کے حال سے بے خبر ہے) انہیں مالدار سمجھے ہوئے ہے، تم انہیں ان کی صورت سے پہچان لو گے، وہ لوگوں سے بالکل سوال ہی نہیں کرتے کہ کہیں (مخلوق کے سامنے) گڑگڑانا نہ پڑے، اور تم جو مال بھی خرچ کرو تو بے شک اللہ اسے خوب جانتا ہےo جو لوگ (اللہ کی راہ میں) شب و روز اپنے مال پوشیدہ اور ظاہر خرچ کرتے ہیں تو ان کے لیے ان کے رب کے پاس ان کا اجر ہے اور (روزِ قیامت) ان پر نہ کوئی خوف ہو گا اور نہ وہ رنجیدہ ہوں گےo
(4) وَ الَّذِیْنَ صَبَرُوا ابْتِغَآءَ وَجْهِ رَبِّهِمْ وَ اَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَ اَنْفَقُوْا مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ سِرًّا وَّ عَلَانِیَةً وَّ یَدْرَءُوْنَ بِالْحَسَنَةِ السَّیِّئَةَ اُولٰٓىِٕكَ لَهُمْ عُقْبَی الدَّارِۙo جَنّٰتُ عَدْنٍ یَّدْخُلُوْنَهَا وَ مَنْ صَلَحَ مِنْ اٰبَآىِٕهِمْ وَ اَزْوَاجِهِمْ وَ ذُرِّیّٰتِهِمْ وَ الْمَلٰٓىِٕكَةُ یَدْخُلُوْنَ عَلَیْهِمْ مِّنْ كُلِّ بَابٍۚo سَـلٰـمٌ عَلَیْکُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَی الدَّارِo
(الرعد، 13/ 22-24)
اور جو لوگ اپنے رب کی رضاجوئی کے لیے صبر کرتے ہیں اور نماز قائم رکھتے ہیں اور جو رزق ہم نے انہیں دیا ہے اس میں سے پوشیدہ اور اعلانیہ (دونوں طرح) خرچ کرتے ہیں اور نیکی کے ذریعہ برائی کو دور کرتے رہتے ہیں یہی وہ لوگ ہیں جن کے لیے آخرت کا (حسین) گھر ہےo (جہاں) سدا بہار باغات ہیں ان میں وہ لوگ داخل ہوں گے اور ان کے آباء و اجداد اور ان کی بیویوں اور ان کی اولاد میں سے جو بھی نیکوکار ہو گا اور فرشتے ان کے پاس (جنت کے) ہر دروازے سے آئیں گےo (انہیںخوش آمدید کہتے اور مبارک باد دیتے ہوئے کہیں گے) تم پر سلامتی ہو تمہارے صبر کرنے کے صلہ میں، پس (اب دیکھو) آخرت کا گھر کیا خوب ہے۔
(5) وَ مَاۤ اَنْفَقْتُمْ مِّنْ شَیْءٍ فَهُوَ یُخْلِفُهٗ ۚ وَ هُوَ خَیْرُ الرّٰزِقِیْنَo
(سبا، 34/ 39)
اور تم (اللہ کی راہ میں) جو کچھ بھی خرچ کرو گے تو وہ اس کے بدلہ میں اور دے گا اور وہ سب سے بہتر رِزق دینے والا ہےo
(6) اِنَّ الَّذِیْنَ یَتْلُوْنَ کِتٰبَ اللهِ وَ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَ اَنْفَقُوْا مِمَّا رَزَقْنٰـھُمْ سِرًّا وَّ عَلَانِیَۃً یَّرْجُوْنَ تِجَارَۃً لَّنْ تَبُوْرَo لِیُوَفِّیَهُمْ اُجُوْرَهُمْ وَ یَزِیْدَهُمْ مِّنْ فَضْلِهٖ ؕ اِنَّهٗ غَفُوْرٌ شَكُوْرٌo
(فاطر، 35/ 29-30)
بے شک جو لوگ اللہ کی کتاب کی تلاوت کرتے ہیں اور نماز قائم رکھتے ہیں اور جو کچھ ہم نے انہیں عطا کیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں، پوشیدہ بھی اور ظاہر بھی، وہ ایسی (اُخروی) تجارت کے امیدوار ہیں جو کبھی خسارے میں نہیں ہو گیo تاکہ اللہ ان کا اجر انہیں پورا پورا عطا فرمائے اور اپنے فضل سے انہیں مزید نوازے، بے شک اللہ بڑا بخشنے والا، بڑا ہی شکر قبول فرمانے والا ہےo
163/ 13۔ عَنْ أَبِي ھُرَیْرَۃَ رضی اللہ عنہ: أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ قَالَ: قَالَ اللهُ سبحانہ وتعالیٰ: أَنْفِقْ أُنْفِقْ عَلَیْکَ۔ وَقَالَ: یَدُ اللهِ مَلْآی، لَا تَغِیْضُھَا نَفَقَۃٌ سَحَّاءُ اللَّیْلَ وَالنَّھَارَ۔ وَقَالَ: أَرَأَیْتُمْ مَا أَنْفَقَ مُنْذُ خَلَقَ السَّمَاءَ وَالْأَرْضَ فَإِنَّہٗ لَمْ یَغِضْ مَا فِي یَدِہٖ، وَکَانَ عَرْشُہٗ عَلَی الْمَاءِ، وَبِیَدِهِ الْمِیزَانُ یَخْفِضُ وَیَرْفَعُ۔
مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ۔
163: أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب تفسیر القرآن، باب قولہ: وعرشہ علی المائ، 4/ 1724، الرقم/ 4407، ومسلم في الصحیح، کتاب الزکاۃ، باب الحث علی النفقۃ وتبشیر المنفق بالخلف، 2/ 690، الرقم/ 993، وأحمد بن حنبل في المسند، 2/ 313، 500، الرقم/ 8125، 10507، وابن ماجہ في السنن، المقدمۃ، باب فیما أنکرت الجھمیۃ، 1/ 71، الرقم/ 197۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: تو میری راہ میں مال خرچ کر میں تجھے مال عطا کروں گا، اور فرمایا اللہ تعالیٰ کے ہاتھ بھرے ہوئے ہیں، رات دن خرچ کرنے سے بھی خالی نہیں ہوتے۔ اور آپ ﷺ نے فرمایا: کیا تم نہیں دیکھتے جب سے اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کی تخلیق فرمائی ہے، اس وقت سے اس نے لوگوں کو کتنا عطا کیا لیکن پھر بھی اُس کے خزانوں میں کوئی کمی نہیں آئی۔ اُس کا عرش اُس وقتپانی پر تھا اور اُسی کے ہاتھ میں میزان ہے جو پست (یعنی جس کا ایک پلڑا پست) اور (ایک پلڑا) بلند ہوتا رہتا ہے۔
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
164/ 14۔ عَنْ أَبِي ھُرَیْرَۃَ رضی اللہ عنہ: أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ قَالَ: قَالَ اللهُ: أَنْفِقْ، یَا ابْنَ آدَمَ، أُنْفِقْ عَلَیْکَ۔
مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ۔
164: أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب النفقات، باب فضل النفقۃ علی الأھل، 5/ 2047، الرقم/ 5037، ومسلم في الصحیح، کتاب الزکاۃ، باب الحث علی النفقۃ وتبشیر المنفق بالخلف، 2/ 690، الرقم/ 993، وأحمد بن حنبل في المسند، 2/ 242، الرقم/ 7296، وابن ماجہ في السنن، کتاب الکفارات، باب النھي عن النذر، 1/ 686، الرقم/ 2123۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے راویت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: اے ابن آدم! تو (مخلوقِ خدا پر) خرچ کر، میں تجھ پر خرچ کروں گا۔
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
قَالَ الْمُلَّا عَلِيٌّ الْقَارِيُّ: وَالْمَعْنٰی: أَنْفِقِ الْأَمْوَالَ الْفَانِیَۃَ فِي الدُّنْیَا لِتُدْرِکَ الْأَحْوَالَ الْعَالِیَۃَ فِي الْعُقْبٰی۔ وَقِیْلَ: مَعْنَاهُ أَعْطِ النَّاسَ مَا رَزَقْتُکَ حَتّٰی أَنْ أَرْزُقَکَ أَيْ فِي الدُّنْیَا وَالْعُقْبٰی، إِشَارَۃٌ إِلٰی قَوْلِہٖ تَعَالٰی: {وَمَآ اَنْفَقْتُمْ مِّنْ شَیْئٍ فَھُوَ یُخْلِفُہٗ} [سبا، 34/ 39]
(1) الملا علي القاري في مرقاۃ المفاتیح، کتاب الزکاۃ، باب الإنفاق وکراھیۃ الإمساک، 4/ 318، الرقم/ 1862۔
ملا علی القاری فرماتے ہیں: حدیث مبارکہ کا معنی یہ ہے کہ فنا ہونے والے اَموال کو دنیا میں خرچ کرو تاکہ تم آخرت میں اعلیٰ درجہ کے اَحوال پا سکو۔ کہا گیا ہے کہ اس کا معنٰی یہ ہے: تم لوگوں کو میرے عطا کیے ہوئے رزق میں سے دو تاکہ میں تجھے دنیا اور آخرت میں عطا کروں۔ اس میں اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کی طرف اشارہ ہے: {وَمَآ اَنْفَقْتُمْ مِّنْ شَیْئٍ فَھُوَ یُخْلِفُہٗ} ’اور تم(اللہ کی راہ میں) جو کچھ بھی خرچ کرو گے تو وہ اس کے بدلہ میں اور دے گا‘۔
165/ 15۔ عَنْ أَسْمَاءَ، أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ: أَنْفِقِي، وَلَا تُحْصِي فَیُحْصِيَ اللهُ عَلَیْکِ، وَلَا تُوْعِي فَیُوْعِيَ اللهُ عَلَیْکِ۔
مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ۔
165: أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب الھبۃ وفضلھا، باب ھبۃ المرأۃ بغیر زوجھا وعتقھا إذا کان لھا زوج فہو جائز إذا لم تکن سفیہۃ، فإذا کانت سفیہۃ لم یجز قال اللہ تعالی: ولا تؤتوا السفہاء أموالکم، 2/ 915، الرقم/ 2451، ومسلم في الصحیح، کتاب الزکوۃ، باب الحث في الإنفاق وکرامۃ الإحصائ، 2/ 713، الرقم/ 1029، وأحمد بن حنبل في المسند، 6/ 345، الرقم/ 26967۔
حضرت اسماء سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: (کھلا) خرچ کرو اور گن کر نہ دو ورنہ اللہ تعالیٰ بھی تمہیں گن کر دے گا، اور ہاتھ نہ روکو ورنہ اللہ تعالیٰ بھی تم سے اپنا ہاتھ روک لے گا۔
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
166/ 16۔ عَنْ زَیْدِ بْنِ وَہْبٍ، قَالَ: قَالَ أَبُوْ ذَرٍّ: کُنْتُ أَمْشِي مَعَ النَّبِيِّ ﷺ فِي حَرَّۃِ الْمَدِینَۃِ، فَاسْتَقْبَلَنَا أُحُدٌ، فَقَالَ: یَا أَبَا ذَرٍّ۔ قُلْتُ: لَبَّیْکَ، یَا رَسُولَ اللهِ۔ قَالَ: مَا یَسُرُّنِي أَنَّ عِنْدِي مِثْلَ أُحُدٍ ھٰذَا ذَهَبًا، تَمْضِي عَلَيَّ ثَالِثَۃٌ وَعِنْدِي مِنْهُ دِینَارٌ، إِلَّا شَیْئًا أَرْصُدُہٗ لِدَیْنٍ، إِلَّا أَنْ أَقُوْلَ بِہٖ فِي عِبَادِ اللهِ ہٰکَذَا وَہٰکَذَا وَہٰکَذَا، عَنْ یَمِینِہٖ وَعَنْ شِمَالِہٖ وَمِنْ خَلْفِہٖ۔
مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ۔
166: أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب الرقاق، باب قول النبي ﷺ: ما یسرني أن عندي مثل أحد ہذا ذہبا، 5/ 2367، الرقم/ 6079، ومسلم في الصحیح، کتاب الزکاۃ، باب الترغیب في الصدقۃ، 2/ 687، الرقم/ 94۔
زید بن وہب کا بیان ہے کہ حضرت ابو ذر غفّاری رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں حضور نبی اکرم ﷺ کے ساتھ مدینہ منورہ کی پتھریلی زمین پرچل رہا تھا تو ہمارے سامنے اُحد پہاڑ آگیا، (اسے دیکھ کر) آپ ﷺ نے فرمایا: اے ابو ذر! میں عرض گزار ہوا: یا رسول اللہ! میں حاضر ہوں۔ فرمایا کہ مجھے اس بات کی کوئی خوشی نہیں کہ میرے پاس اس اُحد پہاڑ کے برابر سونا ہو اور تیسری رات مجھ پر اس حال میں گزرے کہ اُس میں سے ایک دینار بھی میرے پاس بچا رہے، سوائے اس کے جو قرض ادا کرنے کے لیے رکھ چھوڑوں، مگر میں یہ چاہتا ہوں کہ وہ مال اللہ کے بندوں میں اس طرح، اس طرح اور اس طرح (تقسیم کر دوں)۔ (یہ آپ s نے) اپنے دائیں، بائیں اور پیچھے (والوں) کی طرف (عطا کرنے کا اشارہ کرتے ہوئے فرمایا۔ )
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
167/ 17۔ عَنْ أَبِي ھُرَیْرَۃَ رضی اللہ عنہ، قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: لَوْ کَانَ لِي مِثْلُ أُحُدٍ ذَهَبًا، لَسَرَّنِي أَنْ لَا تَمُرَّ عَلَيَّ ثَـلَاثُ لَیَالٍ وَعِنْدِي مِنْهُ شَيْئٌ، إِلَّا شَیْئًا أَرْصُدُہٗ لِدَیْنٍ۔
مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ۔
167: أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب الرقاق، باب قول النبي ﷺ: ما یسرني أن عندي مثل أحد ہذا ذہبا، 5/ 2368، الرقم/ 80۔ 6، ومسلم في الصحیح، کتاب الزکاۃ، باب الترغیب في الصدقۃ، 2/ 687، الرقم/ 991، وأحمد بن حنبل في المسند، 2/ 349، الرقم/ 8579۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اگر میرے پاس اُحد پہاڑ کے برابر بھی سونا ہوتا تو مجھے یہ بات بہت پسند ہے کہ تین راتیں بھی مجھ پر اس حال میں نہ گزریں کہ اس مال میں سے کچھ میرے پاس موجود ہو (یعنی سب کچھ بانٹ دوں) مگر صرف اتنا باقی رکھ لوں جس سے (اپنے ذمہ واجب الادا) قرض ادا کر سکوں۔
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
168/ 18۔ عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَیْکَۃَ: أَنَّ عُقْبَۃَ بْنَ الْحَارِثِ رضی اللہ عنہ حَدَّثَہٗ قَالَ: صَلّٰی بِنَا النَّبِيُّ ﷺ الْعَصْرَ، فَأَسْرَعَ ثُمَّ دَخَلَ الْبَیْتَ، فَلَمْ یَلْبَثْ أَنْ خَرَجَ، فَقُلْتُ، أَوْ قِیلَ لَہٗ، فَقَالَ: کُنْتُ خَلَّفْتُ فِي الْبَیْتِ تِبْرًا مِنَ الصَّدَقَۃِ، فَکَرِھْتُ أَنْ أُبَیِّتَہٗ فَقَسَمْتُہٗ۔
رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ۔
168: أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب الزکاۃ، باب من أحب تعجیل الصدقۃ من یومہا، 2/ 519، الرقم/ 1363۔
ابن ابی ملیکہ سے روایت ہے کہ حضرت عقبہ بن حارث رضی اللہ عنہ نے ان سے بیان کیا: حضور نبی اکرم ﷺ نے ہمیں نماز عصر پڑھائی اور پھر جلدی سے کاشانۂ اقدس میں داخل ہو گئے۔ تھوڑی ہی دیر بعد واپس تشریف لائے تو میں نے عرض کیا، یا آپ ﷺ سے گزارش کی گئی تو آپ ﷺ نے فرمایا: میں گھر میں صدقے کا سونا چھوڑ آیا تھا۔ میں نے اسے رات اپنے پاس رکھنا پسند نہیں کیا اور تقسیم کر دیا۔
اِسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔
169/ 19۔ عَنْ عُقْبَۃَ بْنِ الْحَارِثِ رضی اللہ عنہ قَالَ: صَلَّیْتُ مَعَ النَّبِيِّ ﷺ الْعَصْرَ، فَلَمَّا سَلَّمَ قَامَ سَرِیْعًا، دَخَلَ عَلٰی بَعْضِ نِسَائِہٖ، ثُمَّ خَرَجَ، وَرَأٰی مَا فِي وُجُوهِ الْقَوْمِ مِنْ تَعَجُّبِھِمْ لِسُرْعَتِہٖ۔ فَقَالَ: ذَکَرْتُ وَأَنَا فِي الصَّلَاۃِ تِبْرًا عِنْدَنَا، فَکَرِھْتُ أَنْ یُمْسِيَ، أَوْ یَبِیْتَ عِنْدَنَا، فَأَمَرْتُ بِقِسْمَتِہٖ۔
رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَأَحْمَدُ وَالنَّسَائِيُّ۔
169: أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب الجمعۃ، باب یفکر الرجل الشيء في الصلاۃ، 1/ 408، الرقم/ 1163، وأحمد بن حنبل في المسند، 4/ 7، الرقم/ 16196، والنسائي في السنن، باب الرخصۃ، للإمام في تخطي رقاب الناس، 3/ 84، الرقم/ 1365۔
حضرت عقبہ بن حارث رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: میں نے حضور نبی اکرم ﷺ کے ہمراہ نماز عصر پڑھی۔ جب آپ ﷺ نے سلام پھیرا تو آپ ﷺ جلدی سے کھڑے ہو گئے اور اپنی کسی زوجۂ مطہرہ کے ہاں تشریف لے گئے۔ پھر واپس تشریف لائے اور آپ ﷺ نے اپنی سرعت کے باعث لوگوں کے چہروں پر حیرانی کے اثرات دیکھ کر فرمایا: مجھے دورانِ نماز سونے کا ایک ٹکڑا یاد آگیا جو ہمارے پاس تھا۔ سو میں نے ناپسند کیا کہ وہ رات ہمارے پاس پڑا رہے، لہٰذا میں نے اسے تقسیم کرنے کا حکم دے دیا ہے۔
اِسے امام بخاری، احمد اور نسائی نے روایت کیا ہے۔
(1) اَلَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَهُمْ بِالَّیْلِ وَ النَّهَارِ سِرًّا وَّ عَلَانِیَةً فَلَهُمْ اَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ ۚ وَ لَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَؔo
(البقرۃ، 2/ 274)
جو لوگ (اللہ کی راہ میں) شب و روز اپنے مال پوشیدہ اور ظاہر خرچ کرتے ہیں تو ان کے لیے ان کے رب کے پاس ان کا اجر ہے اور (روزِ قیامت) ان پر نہ کوئی خوف ہو گا اور نہ وہ رنجیدہ ہوں گےo
(2) وَ لَقَدْ اَخَذَ اللّٰهُ مِیْثَاقَ بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ ۚ وَ بَعَثْنَا مِنْهُمُ اثْنَیْ عَشَرَ نَقِیْبًا ؕ وَ قَالَ اللّٰهُ اِنِّیْ مَعَكُمْ ؕ لَىِٕنْ اَقَمْتُمُ الصَّلٰوةَ وَ اٰتَیْتُمُ الزَّكٰوةَ وَ اٰمَنْتُمْ بِرُسُلِیْ وَ عَزَّرْتُمُوْهُمْ وَ اَقْرَضْتُمُ اللّٰهَ قَرْضًا حَسَنًا لَّاُكَفِّرَنَّ عَنْكُمْ سَیِّاٰتِكُمْ وَ لَاُدْخِلَنَّكُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ ۚ فَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذٰلِكَ مِنْكُمْ فَقَدْ ضَلَّ سَوَآءَ السَّبِیْلِo
(المائدۃ، 5/ 12)
اور بے شک اللہ نے بنی اسرائیل سے پختہ عہد لیا اور (اس کی تعمیل، تنفیذ اور نگہبانی کے لیے) ہم نے ان میں بارہ سردار مقرر کیے، اور اللہ نے (بنی اسرائیل سے) فرمایا کہ میں تمہارے ساتھ ہوں (یعنی میری خصوصی مدد و نصرت تمہارے ساتھ رہے گی)، اگر تم نے نماز قائم رکھی اور تم زکوٰۃ دیتے رہے اور میرے رسولوں پر (ہمیشہ) ایمان لاتے رہے اور ان (کے پیغمبرانہ مشن) کی مدد کرتے رہے اور اللہ کو (اس کے دین کی حمایت و نصرت میں مال خرچ کرکے) قرض حسن دیتے رہے تو میں تم سے تمہارے گناہوں کو ضرور مٹا دوں گا اور تمہیں یقینا ایسی جنتوں میں داخل کر دوںگا جن کے نیچے نہریں جاری ہیں۔ پھر اس کے بعد تم میں سے جس نے (بھی) کفر (یعنی عہد سے انحراف) کیا تو بے شک وہ سیدھی راہ سے بھٹک گیاo
(3) وَ مِنَ الْاَعْرَابِ مَنْ یُّؤْمِنُ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ یَتَّخِذُ مَا یُنْفِقُ قُرُبٰتٍ عِنْدَ اللّٰهِ وَ صَلَوٰتِ الرَّسُوْلِ ؕ اَلَاۤ اِنَّهَا قُرْبَةٌ لَّهُمْ ؕ سَیُدْخِلُهُمُ اللّٰهُ فِیْ رَحْمَتِهٖ ؕ اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۠o
(التوبۃ، 9/ 99)
اور بادیہ نشینوں میں (ہی) وہ شخص (بھی) ہے جو اللہ پر اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتا ہے اور جو کچھ (راهِ خدا میں) خرچ کرتاہے اسے اللہ کے حضور تقرب اور رسول (ﷺ) کی (رحمت بھری) دعائیں لینے کا ذریعہ سمجھتا ہے، سن لو! بے شک وہ ان کے لیے باعث قربِ الٰہی ہے، جلد ہی اللہ انہیں اپنی رحمت میں داخل فرما دے گا۔ بے شک اللہ بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہےo
170/ 20۔ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی اللہ عنہ، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: إِنَّ الصَّدَقَۃَ لَتُطْفِیئُ غَضَبَ الرَّبِّ، وَتَدْفَعُ عَنْ مِیْتَۃِ السُّوْءِ۔
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَابْنُ حِبَّانَ۔ وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: ھٰذَا حَدِیْثٌ حَسَنٌ غَرِیْبٌ مِنْ ھٰذَا الْوَجْهِ۔
170: أخرجہ الترمذي في السنن، کتاب الزکاۃ، باب ما جاء في فضل الصَّدَقَۃِ، 3/ 52، الرقم/ 664، وابن حبان في الصحیح، 8/ 103، الرقم/ 3309، والبیھقي في شعب الإیمان، 3/ 213، الرقم/ 3351، والمقدسي في الأحادیث المختارۃ، 5/ 218، الرقم/ 1897، وذکرہ الھیثمي في موارد الظمآن، 1/ 209، الرقم/ 816، وابن رجب الحنبلي في جامع العلوم والحکم، 1/ 272۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: بے شک صدقہ اللہ تعالیٰ کے غضب کو ٹھنڈا کرتا ہے اور بری موت سے بچاتا ہے۔
اِسے امام ترمذی اور ابن حبان نے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی فرماتے ہیں: یہ حدیث اس سند کے ساتھ حسن غریب ہے۔
171/ 21۔ عَنْ کَثِیْرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ الْمُزَنِيِّ عَنْ أَبِیْهِ عَنْ جَدِّہٖ، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: إِنَّ صَدَقَۃَ الْمُسْلِمِ تَزِیْدُ فِي الْعُمْرِ، وَتَمْنَعُ مِیْتَۃَ السُّوءِ، وَیُذْھِبُ اللهُ بِھَا الْکِبْرَ وَالْفَخْرَ۔
رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ۔
171: أخرجہ الطبراني في المعجم الکبیر، 17/ 22، الرقم/ 31۔
کثیر بن عبد اللہ المُزَنی اپنے والد کے واسطہ سے اپنے دادا (حضرت عمرو بن عوف رضی اللہ عنہ ) سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مسلمان کا صدقہ عمر میں اضافہ کرتا ہے، بری موت کو روکتا ہے اور اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے تکبر اور فخر کو ختم کر دیتا ہے۔
اِسے امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔
172/ 22۔ عَنْ مَیْمُونَۃَ بِنْتِ سَعْدٍ : أَنَّھَا قَالَتْ: یَا رَسُولَ اللهِ، أَفْتِنَا عَنِ الصَّدَقَۃِ۔ فَقَالَ: إِنَّھَا حَاجِبٌ مِنَ النَّارِ، لِمَنْ أَحْسَنَھَا یَبْتَغِي بِھَا وَجْهَ اللهِ سبحانہ وتعالیٰ۔
رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ۔
172: أخرجہ الطبراني في المعجم الکبیر، 25/ 35، الرقم/ 62۔
حضرت میمونہ بنتِ سعد سے مروی ہے کہ انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ ہمیں صدقہ کے متعلق بتائیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: جو شخص ثواب کی نیت سے اللہ تعالیٰ کی رضاجوئی کے لیے صدقہ کرتا ہے تو یہ اس کے لیے نارِ جہنم سے رکاوٹ ہے۔
اِسے امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔
173/ 23۔ عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِیْجٍ رضی اللہ عنہ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: اَلصَّدَقَۃُ تَسُدُّ سَبْعِیْنَ بَابًا مِنَ السُّوْءِ۔
رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ۔
173: أخرجہ الطبراني في المعجم الکبیر، 4/ 274، الرقم/ 4402۔
حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: صدقہ برائی کے ستر دروازے بند کر دیتا ہے۔
اِسے امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔
174/ 24۔ عَنْ عُقْبَۃَ رضی اللہ عنہ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: إِنَّ الصَّدَقَۃَ لَتُطْفِیُٔ عَنْ أَھْلِھَا حَرَّ الْقُبُوْرِ، وَإِنَّمَا یَسْتَظِلُّ الْمُؤْمِنُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ فِي ظِلِّ صَدَقَتِہٖ۔
رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ۔
174: أخرجہ الطبراني في المعجم الکبیر، 17/ 286، الرقم/ 788۔
حضرت عقبہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: صدقہ، اپنے دینے والے کی قبر سے گرمی کو ختم کرتا ہے اور مومن قیامت کے دن اپنے صدقہ کے سائے تلے ہو گا۔
اِسے امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔
175/ 25۔ عَنْ أَبِي ھُرَیْرَۃَ رضی اللہ عنہ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ، أَنَّـہٗ قَالَ: خَیْرُ الصَّدَقَۃِ مَا کَانَ عَلٰی ظَھْرِ غِنیً، وَابْدَأْ بِمَنْ تَعُوْلُ۔
رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَأَبُو دَاوٗدَ وَالنَّسَائِيُّ۔
175: أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب النفقات، باب وجوب النفقۃ علی الأھل والعیال، 5/ 2048، الرقم/ 5041، وأبوداود في السنن، کتاب الزکاۃ، باب الرجل یخرج من مالہ، 2/ 129، الرقم/ 1676، والنسائي في السنن، کتاب الزکاۃ، باب أي الصدقۃ أفضل، 5/ 69، الرقم/ 2544۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: بہترین صدقہ وہ ہے جس کے بعد خوشحالی قائم رہے (یعنی دوسروں کو دے کر خود تہی دامن نہ ہو جاؤ) اور ان سے شروع کرو جن کی کفالت تمہارے ذمے ہے۔
اِسے امام بخاری، ابو داؤد اور نسائی نے روایت کیا ہے۔
176/ 26۔ عَنْ أَبِي ھُرَیْرَۃَ رضی اللہ عنہ، أَنَّـہٗ قَالَ: یَا رَسُوْلَ اللهِ، أَيُّ الصَّدَقَۃِ أَفْضَلُ؟ قَالَ: جُھْدُ الْمُقِلِّ۔ وَابْدَأْ بِمَنْ تَعُوْلُ۔
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَأَبُوْدَاوٗدَ۔
176: أخرجہ أحمد بن حنبل في المسند، 2/ 358، الرقم/ 8687، وأبوداود في السنن، کتاب الزکاۃ، باب في الرخصۃ في ذلک، 2/ 129، الرقم/ 1677، والحاکم في المستدرک، 1/ 574، الرقم/ 1509، وابن حبان في الصحیح، 8/ 134، الرقم/ 3346، وابن خزیمۃ في الصحیح، 4/ 102، الرقم/ 2451۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کون سا صدقہ سب سے افضل ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: تنگ دست کے خون پسینے کی کمائی کا صدقہ اور اس سے شروع کرو جس کی کفالت تمہارے ذمے ہے۔
اِسے امام احمد بن حنبل اور ابوداؤد نے روایت کیا ہے۔
177/ 27۔ عَنْ أَبِي ھُرَیْرَۃَ رضی اللہ عنہ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: دِیْنَارٌ أَنْفَقْتَہٗ فِي سَبِیْلِ اللهِ، وَدِیْنَارٌ أَنْفَقْتَہٗ فِي رَقَبَۃٍ، وَدِیْنَارٌ تَصَدَّقْتَ بِہٖ عَلٰی مِسْکِیْنٍ، وَدِینَارٌ أَنْفَقْتَہٗ عَلٰی أَھْلِکَ، أَعْظَمُھَا أَجْرًا الَّذِي أَنْفَقْتَہٗ عَلٰی أَھْلِکَ۔
رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ۔
177: أخرجہ مسلم في الصحیح، کتاب الزکاۃ، باب فضل النفقۃ علی العیال والمملوک وإثم من ضیعھم أو حبس نفقتھم عنھم، 2/ 692، الرقم/ 995، وأحمد بن حنبل في المسند، 2/ 476، الرقم/ 10177، والطبراني في المعجم الأوسط، 9/ 39، الرقم/ 9079، والدیلمي في مسند الفردوس، 2/ 222، الرقم/ 3079۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ایک دینار وہ ہے جسے تم نے اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کیا، ایک دینار وہ ہے جسے تم نے غلام کی آزادی کے لیے خرچ کیا، ایک دینار وہ ہے جسے تم نے مسکین پر صدقہ کیا اور ایک دینار وہ ہے جسے تم نے اپنے اہل خانہ پر خرچ کیا؛ ان میں سب سے زیادہ اَجر والا (دینار) وہ ہے جسے تم نے اپنے اہلِ خانہ پر خرچ کیا۔
اِسے امام مسلم اور احمد نے روایت کیا ہے۔
178/ 28۔ عَنْ أَبِي ھُرَیْرَۃَ رضی اللہ عنہ قَالَ: أَمَرَ النَّبِيُّ ﷺ بِالصَّدَقَۃِ، فَقَالَ رَجُلٌ: یَا رَسُوْلَ اللهِ، عِنْدِي دِیْنَارٌ۔ قَالَ: فَقَالَ: تَصَدَّقْ بِہٖ عَلٰی نَفْسِکَ۔ قَالَ: عِنْدِي آخَرُ۔ قَالَ: تَصَدَّقْ بِہٖ عَلٰی وَلَدِکَ۔ قَالَ: عِنْدِي آخَرُ۔ قَالَ: تَصَدَّقْ بِہٖ عَلٰی زَوْجَتِکَ، أَوْ زَوْجِکَ۔ قَالَ: عِنْدِي آخَرُ۔ قَالَ: تَصَدَّقْ عَلٰی خَادِمِکَ، قَالَ: عِنْدِي آخَرُ۔ قَالَ: أَنْتَ أَبْصَرُ۔
رَوَاهُ أَبُوْ دَاوٗدَ وَالنَّسَائِيُّ۔ وَقَالَ الْحَاکِمُ: ھٰذَا حَدِیْثٌ صَحِیْحٌ۔
178: أخرجہ أبو داود في السنن، کتاب الزکاۃ، باب في صلۃ الرحم، 2/ 132، الرقم/ 1691، والنسائي في السنن، کتاب الزکاۃ، باب تفسیر لک، 5/ 62، الرقم/ 2535، والشافعي في المسند، 1/ 266، وأیضًا في السنن المأثورۃ، 1/ 393، الرقم/ 549، والحاکم في المستدرک، 1/ 585، الرقم/ 1514، وابن حبان في الصحیح، 8/ 126، الرقم/ 3337، والبخاري في الأدب المفرد، 1/ 78، الرقم/ 197، والطبراني في المعجم الأوسط، 8/ 237، الرقم/ 8508، والبیھقي في السنن الکبریٰ، 7/ 466۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے صدقہ کرنے کا حکم فرمایا تو ایک شخص نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میرے پاس ایک دینار ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اسے اپنے اوپر خرچ کر لو۔ اس نے عرض کیا: میرے پاس ایک اور بھی ہے۔ فرمایا: اسے اپنی اولاد پر خرچ کر لو۔ عرض کیا: میرے پاس ایک اور بھی ہے۔ فرمایا: اسے اپنی بیوی پر خرچ کر لو۔ عرض کیا: میرے پاس ایک اور بھی ہے۔ فرمایا: اسے اپنے خادم پر خرچ کرو۔ عرض کیا: میرے پاس ایک اور بھی ہے۔ فرمایا:جس کے لیے تم زیادہ مناسب سمجھو (اس پر خرچ کرو)۔
اِسے امام ابوداؤد اور نسائی نے روایت کیا ہے اور امام حاکم نے کہا: یہ حدیث صحیح ہے۔
(1) لَیْسَ الْبِرَّ اَنْ تُوَلُّوْا وُجُوْهَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَ الْمَغْرِبِ وَ لٰكِنَّ الْبِرَّ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ الْمَلٰٓىِٕكَةِ وَ الْكِتٰبِ وَ النَّبِیّٖنَ ۚ وَ اٰتَی الْمَالَ عَلٰی حُبِّهٖ ذَوِی الْقُرْبٰی وَ الْیَتٰمٰی وَ الْمَسٰكِیْنَ وَ ابْنَ السَّبِیْلِ ۙ وَ السَّآىِٕلِیْنَ وَ فِی الرِّقَابِ ۚ وَ اَقَامَ الصَّلٰوةَ وَ اٰتَی الزَّكٰوةَ ۚ وَ الْمُوْفُوْنَ بِعَهْدِهِمْ اِذَا عٰهَدُوْا ۚ وَ الصّٰبِرِیْنَ فِی الْبَاْسَآءِ وَ الضَّرَّآءِ وَ حِیْنَ الْبَاْسِ ؕ اُولٰٓىِٕكَ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا ؕ وَ اُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْمُتَّقُوْنَo
(البقرۃ، 2/ 177)
نیکی صرف یہی نہیں کہ تم اپنے منہ مشرق اور مغرب کی طرف پھیر لو بلکہ اصل نیکی تو یہ ہے کہ کوئی شخص اللہ پر اور قیامت کے دن پر اور فرشتوں پر اور (اللہ کی) کتاب پر اور پیغمبروں پر ایمان لائے، اور اللہ کی محبت میں (اپنا) مال قرابت داروں پر اور یتیموں پر اور محتاجوں پر اور مسافروں پر اور مانگنے والوں پر اور (غلاموں کی) گردنوں (کو آزاد کرانے) میں خرچ کرے، اور نماز قائم کرے اور زکوٰۃ دے اور جب کوئی وعدہ کریں تو اپنا وعدہ پورا کرنے والے ہوں، اور سختی (تنگدستی) میں اور مصیبت (بیماری) میں اور جنگ کی شدّت (جہاد) کے وقت صبر کرنے والے ہوں، یہی لوگ سچے ہیں اور یہی پرہیز گار ہیںo
(2) كُتِبَ عَلَیْكُمْ اِذَا حَضَرَ اَحَدَكُمُ الْمَوْتُ اِنْ تَرَكَ خَیْرَا ۖۚ ِ۟الْوَصِیَّةُ لِلْوَالِدَیْنِ وَ الْاَقْرَبِیْنَ بِالْمَعْرُوْفِ ۚ حَقًّا عَلَی الْمُتَّقِیْنَؕo
(البقرۃ 2/ 180)
تم پر فرض کیا جاتا ہے کہ جب تم میں سے کسی کی موت قریب آپہنچے اگر اس نے کچھ مال چھوڑا ہو، تو (اپنے) والدین اور قریبی رشتہ داروں کے حق میں بھلے طریقے سے وصیت کرے، یہ پرہیزگاروں پر لازم ہےo
(3) یَسْـَٔلُوْنَكَ مَا ذَا یُنْفِقُوْنَ ؕ۬ قُلْ مَاۤ اَنْفَقْتُمْ مِّنْ خَیْرٍ فَلِلْوَالِدَیْنِ وَ الْاَقْرَبِیْنَ وَ الْیَتٰمٰی وَ الْمَسٰكِیْنِ وَ ابْنِ السَّبِیْلِ ؕ وَ مَا تَفْعَلُوْا مِنْ خَیْرٍ فَاِنَّ اللّٰهَ بِهٖ عَلِیْمٌo
(البقرۃ، 2/ 215)
آپ سے پوچھتے ہیں کہ (اللہ کی راہ میں) کیا خرچ کریں، فرما دیں جس قدر بھی مال خرچ کرو (درست ہے)، مگر اس کے حقدار تمہارے ماں باپ ہیں اور قریبی رشتہ دار ہیں اور یتیم ہیں اور محتاج ہیں اور مسافر ہیں، اور جو نیکی بھی تم کرتے ہو بے شک اللہ اسے خوب جاننے والا ہےo
(4) وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِّنْ شَیْءٍ فَاَنَّ لِلّٰهِ خُمُسَهٗ وَ لِلرَّسُوْلِ وَ لِذِی الْقُرْبٰی وَ الْیَتٰمٰی وَ الْمَسٰكِیْنِ وَ ابْنِ السَّبِیْلِ ۙ اِنْ كُنْتُمْ اٰمَنْتُمْ بِاللّٰهِ وَ مَاۤ اَنْزَلْنَا عَلٰی عَبْدِنَا یَوْمَ الْفُرْقَانِ یَوْمَ الْتَقَی الْجَمْعٰنِ ؕ وَ اللّٰهُ عَلٰی كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌo
(الأنفال، 8/ 41)
اور جان لو کہ جو کچھ مالِ غنیمت تم نے پایا ہو تو اس کا پانچواں حصہ اللہ کے لیے اور رسول (ﷺ) کے لیے اور (رسول ﷺ کے) قرابت داروں کے لیے (ہے) اور یتیموں اور محتاجوں اور مسافروں کے لیے ہے۔ اگر تم اللہ پر اور اس (وحی) پر ایمان لائے ہو جو ہم نے اپنے (برگزیدہ) بندے پر (حق و باطل کے درمیان) فیصلے کے دن نازل فرمائی وہ دن (جب میدان بدر میں مومنوں اور کافروں کے) دونوں لشکر باہم مقابل ہوئے تھے، اور اللہ ہر چیز پر قادر ہےo
(5) وَ اٰتِ ذَا الْقُرْبٰی حَقَّهٗ وَ الْمِسْكِیْنَ وَ ابْنَ السَّبِیْلِ وَ لَا تُبَذِّرْ تَبْذِیْرًاo
(الإسراء، 17/ 26)
اور قرابت داروں کو ان کا حق ادا کرو اور محتاجوں اور مسافروں کو بھی (دو) اور (اپنا مال) فضول خرچی سے مت اڑاؤo
179/ 29۔ عَنْ سَلْمَانَ بْنِ عَامِرٍ رضی اللہ عنہ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: اَلصَّدَقَۃُ عَلَی الْمِسْکِیْنِ صَدَقَۃٌ، وَھِيَ عَلٰی ذِي الرَّحِمِ ثِنْتَانِ: صَدَقَۃٌ وَصِلَۃٌ۔
رَوَاهُ النَّسَائِيُّ وَابْنُ مَاجَہ وَالْحَاکِمُ۔ وَقَالَ الْحَاکِمُ: صَحِیْحُ الإِسْنَادِ۔
179: أخرجہ النسائي في السنن، کتاب الزکاۃ، باب الصدقۃ علی الأقارب، 5/ 92، الرقم/ 2582، وابن ماجہ في السنن، کتاب الزکاۃ، باب فضل الصدقۃ، 1/ 591، الرقم/ 1844، والحاکم في المستدرک، 1/ 564، الرقم/ 1476، وابن حبان في الصحیح، 8/ 132، الرقم/ 3344۔
حضرت سلمان بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: کسی حاجت مند کو صدقہ دینا (صرف) ایک صدقہ ہے اور یہی (صدقہ) رشتہ دار کو دینا دو گنا (اجر رکھتا) ہے: ایک صدقہ اور دوسرا صلہ رحمی۔
اِسے امام نسائی، ابن ماجہ اور حاکم نے روایت کیا ہے اور امام حاکم نے اسے صحیح الاسناد قرار دیاہے۔
180/ 30۔ عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَبْدِ اللهِ بْنِ أَبِي طَلْحَۃَ: أَنَّـہٗ سَمِعَ أَنَسَ بْنَ مَالِکٍ رضی اللہ عنہ یَقُولُ: کَانَ أَبُوْ طَلْحَۃَ أَکْثَرَ الْأَنْصَارِ بِالْمَدِیْنَۃِ مَالًا مِنْ نَخْلٍ، وَکَانَ أَحَبُّ أَمْوَالِہٖ إِلَیْهِ بَیْرُحَاءَ، وَکَانَتْ مُسْتَقْبِلَۃَ الْمَسْجِدِ، وَکَانَ رَسُولُ اللهِ ﷺ یَدْخُلُھَا، وَیَشْرَبُ مِنْ مَاءٍ فِیھَا طَیِّبٍ۔ قَالَ أَنَسٌ: فَلَمَّا أُنْزِلَتْ ہٰذِہٖ الْآیَۃُ {لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰی تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ}، قَامَ أَبُوْ طَلْحَۃَ إِلٰی رَسُوْلِ اللهِ ﷺ، فَقَالَ: یَا رَسُوْلَ اللهِ، إِنَّ اللهَ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی یَقُوْلُ: {لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰی تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ} وَإِنَّ أَحَبَّ أَمْوَالِي إِلَيَّ بَیْرُحَاءَُ وَإِنَّھَا صَدَقَۃٌ لِلّٰهِ، أَرْجُوْ بِرَّھَا وَذُخْرَھَا عِنْدَ اللہ، فَضَعْھَا، یَا رَسُولَ اللهِ، حَیْثُ أَرَاکَ اللهُ۔ قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: بَخْ، ذٰلِکَ مَالٌ رَابِحٌ، ذٰلِکَ مَالٌ رَابِحٌ۔ وَقَدْ سَمِعْتُ مَا قُلْتَ، وَإِنِّي أَرٰی أَنْ تَجْعَلَھَا فِي الْأَقْرَبِینَ۔ فَقَالَ أَبُوْ طَلْحَۃَ: أَفْعَلُ، یَا رَسُوْلَ اللهِ۔ فَقَسَمَھَا أَبُوْ طَلْحَۃَ فِي أَقَارِبِہٖ وَبَنِي عَمِّہٖ۔
مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ۔
180: أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب الزکاۃ، باب الزکاۃ علی الأقارب، 2/ 530، الرقم/ 1392، ومسلم في الصحیح، کتاب الزکاۃ، باب فضل النفقۃ والصدقۃ علی الأقربین، 2/ 693، الرقم/ 998۔
اسحاق بن عبد اللہ بن ابی طلحہ روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ مدینہ منورہ میں کھجور کے باغات رکھنے کے لحاظ سے حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ انصار میں سب سے مالدار تھے اور انہیں اپنے سارے باغات میں بیرحاء زیادہ پسند تھا جو مسجد نبوی کے بالکل سامنے تھا۔ رسول اللہ ﷺ اس میں تشریف لے جاتے اور اس کا پاک صاف پانی نوش فرمایا کرتے تھے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ جب یہ آیت {لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰی تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ}’تم ہرگز نیکی کو نہیں پہنچ سکو گے جب تک تم (اللہ کی راہ میں) اپنی محبوب چیزوں میں سے خرچ نہ کرو‘ نازل ہوئی تو حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہو کر عرض گزار ہوئے: یا رسول اللہ! اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: {لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰی تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ} ’تم ہرگز نیکی کو نہیں پہنچ سکو گے جب تک تم (اللہ کی راہ میں) اپنی محبوب چیزوں میں سے خرچ نہ کرو‘، اور مجھے اپنے تمام مالوں میں بیرحاء باغ سب سے زیادہ پیارا ہے، لہٰذا وہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے (میری طرف سے) صدقہ ہے۔ میں اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کے اَجر و ثواب اور (نیکیوں کے) ذخیرے کی اُمید رکھتا ہوں۔ یا رسول اللہ! (اب یہ آپ کے تصرف میں ہے) آپ اس کو وہاں خرچ کیجیے جہاں آپ کو اللہ تعالیٰ (اس کی ضرورت) دکھائے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: شاباش! یہ سودا تو مفید اور نفع بخش ہے، یہ سودا تو مفید اور نفع بخش ہے۔ تم نے جو کہا وہ میں نے سن لیا۔ میرا خیال ہے کہ تم اسے اپنے قرابت داروں میں بانٹ دو۔ حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ عرض گزار ہوئے: یا رسول اللہ! میں اسی طرح کروں گا۔ لہٰذا حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے وہ باغ اپنے رشتہ داروں اور چچا زاد بھائیوں میں تقسیم کر دیا۔
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
(1) لَیْسَ عَلَیْكَ هُدٰىهُمْ وَ لٰكِنَّ اللّٰهَ یَهْدِیْ مَنْ یَّشَآءُ ؕ وَ مَا تُنْفِقُوْا مِنْ خَیْرٍ فَلِاَنْفُسِكُمْ ؕ وَ مَا تُنْفِقُوْنَ اِلَّا ابْتِغَآءَ وَجْهِ اللّٰهِ ؕ وَ مَا تُنْفِقُوْا مِنْ خَیْرٍ یُّوَفَّ اِلَیْكُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تُظْلَمُوْنَo لِلْفُقَرَآءِ الَّذِیْنَ اُحْصِرُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ لَا یَسْتَطِیْعُوْنَ ضَرْبًا فِی الْاَرْضِ ؗ یَحْسَبُهُمُ الْجَاهِلُ اَغْنِیَآءَ مِنَ التَّعَفُّفِ ۚ تَعْرِفُهُمْ بِسِیْمٰىهُمْ ۚ لَا یَسْـَٔلُوْنَ النَّاسَ اِلْحَافًا ؕ وَ مَا تُنْفِقُوْا مِنْ خَیْرٍ فَاِنَّ اللّٰهَ بِهٖ عَلِیْمٌ۠o
(البقرۃ، 2/ 272-273)
اور تم جو مال بھی خرچ کرو سو وہ تمہارے اپنے فائدے میں ہے اور اللہ کی رضاجوئی کے سوا تمہارا خرچ کرنا مناسب ہی نہیں ہے، اور تم جو مال بھی خرچ کرو گے (اس کا اجر) تمہیں پورا پورا دیا جائے گا اور تم پر کوئی ظلم نہیں کیا جائے گاo (خیرات) ان فقراء کا حق ہے جو اللہ کی راہ میں (کسبِ معاش سے) روک دیے گئے ہیں وہ (امورِ دین میں ہمہ وقت مشغول رہنے کے باعث) زمین میں چل پھر بھی نہیں سکتے ان کے (زُھداً) طمع سے باز رہنے کے باعث نادان (جو ان کے حال سے بے خبر ہے) انہیں مالدار سمجھے ہوئے ہے، تم انہیں ان کی صورت سے پہچان لو گے، وہ لوگوں سے بالکل سوال ہی نہیں کرتے کہ کہیں (مخلوق کے سامنے) گڑگڑانا نہ پڑے، اور تم جو مال بھی خرچ کرو تو بے شک اللہ اسے خوب جانتا ہےo
(2) اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَآءِ وَ الْمَسٰكِیْنِ وَ الْعٰمِلِیْنَ عَلَیْهَا وَ الْمُؤَلَّفَةِ قُلُوْبُهُمْ وَ فِی الرِّقَابِ وَ الْغٰرِمِیْنَ وَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ ابْنِ السَّبِیْلِ ؕ فَرِیْضَةً مِّنَ اللّٰهِ ؕ وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌ حَكِیْمٌo
(التوبۃ، 9/ 60)
بے شک صدقات (زکوٰۃ) محض غریبوں اور محتاجوں اور ان کی وصولی پر مقرر کیے گئے کارکنوں اور ایسے لوگوں کے لیے ہیں جن کے دلوں میں اسلام کی الفت پیدا کرنا مقصود ہو اور (مزید یہ کہ) انسانی گردنوں کو (غلامی کی زندگی سے) آزاد کرانے میں اور قرضداروں کے بوجھ اتارنے میں اور اللہ کی راہ میں اور مسافروں پر (زکوٰۃ کا خرچ کیا جانا حق ہے)۔ یہ (سب) اللہ کی طرف سے فرض کیا گیا ہے اور اللہ خوب جاننے والا بڑی حکمت والا ہےo
(3) وَ یُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰی حُبِّہٖ مِسْکِیْنًا وَّیَتِیْمًا وَّاَسِیْرًاo اِنَّمَا نُطْعِمُکُمْ لِوَجْهِ اللهِ لَا نُرِیْدُ مِنْکُمْ جَزَآءً وَّلَا شُکُوْرًاo اِنَّا نَخَافُ مِنْ رَّبِّنَا یَوْمًا عَبُوْسًا قَمْطَرِیْرًاo فَوَقٰـھُمُ اللهُ شَرَّ ذٰلِکَ الْیَوْمِ وَلَقّٰھُمْ نَضْرَۃً وَّسُرُوْرًاo وَ جَزٰھُمْ بِمَا صَبَرُوْا جَنَّۃً وَّحَرِیْرًاo
(الدہر، 76/ 8-12)
اور (اپنا) کھانا اللہ کی محبت میں (خود اس کی طلب و حاجت ہونے کے باوُجود اِیثاراً) محتاج کو اوریتیم کو اور قیدی کو کھلا دیتے ہیںo (اور کہتے ہیں کہ) ہم تو محض اللہ کی رضا کے لیے تمہیں کھلا رہے ہیں، نہ تم سے کسی بدلہ کے خواستگار ہیں اور نہ شکرگزاری کے (خواہشمند) ہیںo ہمیں تو اپنے ربّ سے اُس دن کا خوف رہتا ہے جو (چہروں کو) نہایت سیاہ (اور) بدنما کر دینے والا ہےo پس اللہ انہیں (خوفِ اِلٰہی کے سبب سے) اس دن کی سختی سے بچا لے گا اور انہیں (چہروںپر) رونق و تازگی اور (دلوں میں) سرور و مسرّت بخشے گاo اور اِس بات کے عوض کہ انہوں نے صبر کیا ہے (رہنے کو) جنت اور (پہننے کو) ریشمی پوشاک عطا کرے گاo
(4) وَ اَمَّا السَّآىِٕلَ فَلَا تَنْهَرْؕo
(الضحیٰ، 93/ 10)
اور (اپنے در کے) کسی منگتے کو نہ جھڑکیںo
181/ 31۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضی اللہ عنہم قَالَ: کَانَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ إِذَا دَخَلَ شَھْرُ رَمَضَانَ أَطْلَقََ کُلَّ أَسِیْرِہٖ وَأَعْطٰی کُلَّ سَائِلٍ۔
رَوَاهُ الْبَیْهَقِيُّ فِي الشُّعَبِ وَابْنُ عَسَاکِرَ۔
181: أخرجہ البیہقي في شعب الإیمان، 3/ 311، الرقم/ 3629، وابن عساکر في تاریخ مدینۃ دمشق، 4/ 25، وذکرہ الہیثمي في مجمع الزوائد، 3/ 150، والشعراني في الطبقات الکبری، 1/ 377۔
حضرت (عبد اللہ) بن عباس رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ جب رمضان المبارک کا مہینہ شروع ہوتا تو رسول اللہ ﷺ اپنے تمام قیدیوں کو رہا فرما دیتے اور ہر مانگنے والے کو (دامنِ مراد بھر کر) عطا فرماتے۔
اِسے امام بیہقی نے ’شعب الایمان‘ میں اور ابن عساکر نے روایت کیا ہے۔
قَالَ الإِْمَامُ السُّیُوْطِيُّ: ’وَأَعْطٰی کُلَّ سَائِلٍ‘: فَإِنَّہٗ کَانَ أَجْوَدَ مَا یَکُوْنُ فِي رَمَضَانَ۔ وَفِیْهِ نَدْبُ عِتْقِ الْأُسَارٰی عِنْدَ إِقْبَالِ رَمَضَانَ، وَالتَّوْسِعَۃِ عَلَی الْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاکِیْنِ
(1) السیوطي في الشمائل الشریفۃ، 1/ 142۔
امام سیوطی نے کہا: حدیث مبارکہ کے الفاظ کہ ’آپ ﷺ ہر مانگنے والے کو عطا فرماتے‘: بے شک آپ ﷺ رمضان میں سب سے زیادہ سخاوت فرماتے تھے۔ اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ ماہ رمضان کی آمدپر قیدیوں کو رہا کرنا اور فقراء و مساکین پر خرچ کو وسیع کرنا مستحب اور پسندیدہ عمل ہے۔
قَالَ الْمُلَّا عَلِيٌّ الْقَارِيُّ: ’وَأَعْطٰی کُلَّ سَائِلٍ‘ أَيْ زِیَادَۃٌ عَلٰی مُعْتَادِہٖ، وَإِلاَّ فَـلَا کَانَ عِنْدَہٗ ’لَا‘ ِفي غَیْرِ رَمَضَانَ أَیْضًا۔ فَقَدْ جَاءَ فِي صَحِیْحِ مُسْلِمٍ: إِنَّہٗ مَا سُئِلَ شَیْئاً إِلَّا أَعْطَاهُ، فَ رضی اللہ عنہ مہٗ رَجُلٌ فَأَعْطَاهُ غَنَماً بَیْنَ جَبَلَیْنِ، فَرَجَعَ إِلٰی قَوْمِہٖ، فَقَالَ: یَا قَوْمُ، أَسْلِمُوْا، فَإِنَّ مُحَمَّدًا یُعْطِي عَطَائَ مَنْ لَا یَخْشَی الْفَقْرَ۔ وَرَوَی الْبُخَارِيُّ مِنْ حَدِیْثِ جَابِرٍ، مَا سُئِلَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ عَنْ شَيْئٍ قَطُّ فَقَالَ: لَا۔
وَکَذَا عِنْدَ مُسْلِمٍ أَيْ مَا طُلِبَ مِنْهُ شَیئٌ مِنْ أَمْرِ الدُّنْیَا فَمَنَعَہٗ۔
قَالَ الْفَرَزْدَقُ:
مَا قَالَ لَا قَطُّ إِلَّا فِي تَشَهُدِہٖ
لَولَا التَّشَهُدُ کَانَتْ لَاؤُہٗ نَعَمْ
(1) الملا علي القاري في مرقاۃ المفاتیح، 4/ 399۔
ملا علی قاری نے فرمایا ہے: ’وَأَعْطٰی کُلَّ سَائِلٍ‘ سے مراد یہ ہے کہ آپ ﷺ (رمضان شریف میں) اپنی عام عادت مبارکہ سے زیادہ عطا فرماتے، ورنہ رمضان المبارک کے علاوہ بھی(کسی سائل کے لیے) آپ ﷺ کی بارگاہ میں لفظ ’نہیں‘ نہیں تھا۔ ’صحیح مسلم‘ میں تو یہاں تک ہے کہ آپ ﷺ سے جو کچھ بھی مانگا گیا آپ ﷺ نے وہی عطا فرمایا۔ آپ ﷺ کے پاس ایک شخص آیا تو(اس کی طلب پر) آپ ﷺ نے اسے دو پہاڑوں کے درمیان سمانے والا بکریوں کا ریوڑعطا فرمایا۔ وہ اپنی قوم کی طرف واپس گیا تو کہنے لگا: اے میری قوم! اسلام قبول کر لوکیونکہ پیارے محمدمصطفی ﷺ اتنی کثرت سے عطا فرماتے ہیں کہ فقر کا اندیشہ نہیں کرتے۔ امام بخاری نے حدیث جابر رضی اللہ عنہ کو روایت فرمایا ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے جو کچھ بھی مانگا گیا اس پر آپ ﷺ نے کبھی ’نہیں‘ نہ فرمایا۔
اسی طرح صحیح مسلم میں بیان کیا گیا ہے: حضور نبی اکرم ﷺ سے دنیاوی معاملات میں سے جو بھی چیز مانگی گئی آپ ﷺ نے کبھی انکار نہیں کیا۔
فرزدق شاعر نے کیا خوب کہا ہے:
آپ ﷺ نے تشہد کے علاوہ کبھی بھی لفظ ’نہیں‘ نہ فرمایا
اگر تشہد نہ ہوتا تو آپ ﷺ کا لفظ ’نہیں‘ بھی ’ہاں‘ ہوتا
Copyrights © 2025 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved