Islam awr Khidmat e Insaniyat

باب 4 :خِدْمَۃُ الْبَشَرِیَّۃِ عَبْرَ نَشْرِ الْعِلْمِ وَالصَّلَاحِ

اَلْبَابُ الرَّابِعُ

{اِشاعتِ علم اور اصلاح و خیر خواہی کے ذریعے خدمتِ اِنسانیت}

٭ تخریج حامد الازھری صاحب نے چیک کی اس کے بعد فیض اللہ بغدادی صاحب نے ریویو کیا۔ اصلاحات کا اندراج کر دیا گیا۔ جنہیں بعد ازاں کمپیوٹر میں اجمل علی نے چیک کیا۔

٭ حامد الازہری صاحب، اقبال چشتی، کالامی صاحب اور محمد علی صاحب نے باب چیک کیا۔ اصلاحات کے اندراج کے بعد کمپیوٹر میں چیک کر کے حافظ فرحان ثنائی نے باب فائنل کیا۔

٭ ڈاکٹر فیض اللہ بغدادی صاحب اور محمد فاروق رانا نے چیک کیا۔ اصلاحات کے اندراج کے بعد زمان نے کمپیوٹر میں چیک کیا۔ بعد ازاں اجمل صاحب نے کمپیوٹر میں اصلاحات چیک کرکے باب کو فائنل کیا۔

أَفْضَلُ الصَّدَقَۃِ أَنْ یَتَعَلَّمَ الرَّجُلُ عِلْمًا ثُمَّ یُعَلِّمَہٗ

{کسی شخص کا علم سیکھنا اور سِکھانا بہترین صدقہ ہے}

اَلْقُرْآن

(1) یُّؤْتِی الْحِكْمَةَ مَنْ یَّشَآءُ ۚ وَ مَنْ یُّؤْتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ اُوْتِیَ خَیْرًا كَثِیْرًا ؕ وَ مَا یَذَّكَّرُ اِلَّاۤ اُولُوا الْاَلْبَابِo

(البقرۃ، 2/ 269)

وہ جسے چاہتا ہے دانائی عطا فرما دیتا ہے اور جسے (حکمت و) دانائی عطا کی گئی اسے بہت بڑی بھلائی نصیب ہو گئی، اور صرف وہی لوگ نصیحت حاصل کرتے ہیں جو صاحبِ عقل و دانش ہیںo

(2) وَ مَا كَانَ الْمُؤْمِنُوْنَ لِیَنْفِرُوْا كَآفَّةً ؕ فَلَوْ لَا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِّنْهُمْ طَآىِٕفَةٌ لِّیَتَفَقَّهُوْا فِی الدِّیْنِ وَ لِیُنْذِرُوْا قَوْمَهُمْ اِذَا رَجَعُوْۤا اِلَیْهِمْ لَعَلَّهُمْ یَحْذَرُوْنَ۠o

(التوبۃ، 9/ 122)

اور یہ تو ہو نہیں سکتا کہ سارے کے سارے مسلمان (ایک ساتھ) نکل کھڑے ہوں تو ان میں سے ہر ایک گروہ (یا قبیلہ) کی ایک جماعت کیوں نہ نکلے کہ وہ لوگ دین میں تفقُّہ (یعنی خوب فہم و بصیرت) حاصل کریں اور وہ اپنی قوم کو ڈرائیں جب وہ ان کی طرف پلٹ کر آئیں تاکہ وہ (گناہوں اور نافرمانی کی زندگی سے) بچیںo

(3) وَ مَاۤ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ اِلَّا رِجَالًا نُّوْحِیْۤ اِلَیْهِمْ فَسْـَٔلُوْۤا اَهْلَ الذِّكْرِ اِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَۙo

(النحل، 16/ 43)

اور ہم نے آپ سے پہلے بھی مَردوں ہی کو رسول بنا کر بھیجا جن کی طرف ہم وحی بھیجتے تھے سو تم اہلِ ذکر سے پوچھ لیا کرو اگر تمہیں خود (کچھ) معلوم نہ ہوo

اَلْحَدِیْث

182/ 1۔ عَنْ أَبِي ھُرَیْرَۃَ رضی اللہ عنہ، أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ: إِذَا مَاتَ الإِْنْسَانُ انْقَطَعَ عَنْهُ عَمَلُہٗ إِلَّا مِنْ ثَـلَاثَۃٍ: إِلَّا مِنْ صَدَقَۃٍ جَارِیَۃٍ، أَوْ عِلْمٍ یُنْتَفَعُ بِہٖ، أَوْ وَلَدٍ صَالِحٍ یَدْعُوْ لَہٗ۔

رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ وَأَبُوْ دَاوٗدَ وَالتِّرْمِذِيُّ وَالْبُخَارِيُّ فِي الْأَدَبِ۔

182: أخرجہ مسلم في الصحیح، کتاب الوصیۃ، باب ما یلحق الإنسان من الثواب بعد وفاتہ، 3/ 1255، الرقم/ 1631، وأحمد بن حنبل في المسند، 2/ 372، الرقم/ 8831، وأبو داود في السنن، کتاب الوصایا، باب ما جاء في الصدقۃ عن المیت، 3/ 117، الرقم/ 2880، والترمذي في السنن، کتاب الأحکام، باب في الوقف، 3/ 660، الرقم/ 1376، والنسائي في السنن، کتاب الوصایا، باب فضل الصدقۃ عن المیت، 6/ 251، الرقم/ 3651، وأیضًا في السنن الکبری، 4/ 109، الرقم/ 6478، وابن خزیمۃ في الصحیح، 4/ 122، الرقم/ 2494، وابن حبان في الصحیح، 1/ 295، الرقم/ 93، 7/ 286، الرقم/ 3016، والبخاري في الأدب المفرد/ 28، الرقم/ 38۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ بے شک رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب انسان فوت ہوجاتا ہے تو سوائے تین چیزوں کے اس کا ہر عمل منقطع ہو جاتا ہے (اور ان کا ثواب اسے پہنچتا رہتا ہے): (1) صدقہ جاریہ، یا (2) وہ علم جس سے فائدہ اٹھایا جائے، یا (3) نیک اولاد جو اس کے لیے دعا کرتی رہے۔

اسے امام مسلم، احمد، ابوداؤد اور ترمذی نے اور بخاری نے ’الادب المفرد‘ میں روایت کیا ہے۔

183/ 2۔ وَفِي رِوَایَۃٍ عَنْهُ رضی اللہ عنہ: أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: أَفْضَلُ الصَّدَقَۃِ أَنْ یَتَعَلَّمَ الْمَرْئُ الْمُسْلِمُ عِلْمًا، ثُمَّ یُعَلِّمَہٗ أَخَاهُ الْمُسْلِمَ۔

رَوَاهُ ابْنُ مَاجَہ بِإِسْنَادٍ حَسَنٍ۔

183: أخرجہ ابن ماجہ في السنن، المقدمۃ، باب ثواب معلم الناس الخیر، 1/ 89، الرقم/ 243، والدیلمي في مسند الفردوس، 1/ 354، الرقم/ 1421، والمقدسي في فضائل الأعمال، 1/ 132، الرقم/ 579، وذکرہ المنذري في الترغیب والترھیب، 1/ 54، الرقم/ 120، والمزي في تہذیب الکمال، 19/ 59، والمناوي في فیض القدیر، 2/ 37، والکناني في مصباح الزجاجۃ، 1/ 35۔

ایک دوسری روایت میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: سب سے افضل صدقہ یہ ہے کہ کوئی مسلمان شخص علم سیکھے اور پھر وہ اسے اپنے مسلمان بھائی کو سکھائے۔

اسے امام ابن ماجہ نے اسنادِ حسن سے روایت کیا ہے۔

184/ 3۔ وَفِي رِوَایَۃٍ عَنْهُ رضی اللہ عنہ، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: إِنَّ مِمَّا یَلْحَقُ الْمُؤْمِنَ مِنْ عَمَلِہٖ وَحَسَنَاتِہٖ بَعْدَ مَوْتِہٖ، عِلْمًا عَلَّمَہٗ وَنَشَرَہٗ، وَوَلَدًا صَالِحًا تَرَکَہٗ، وَمُصْحَفًا وَرَّثَہٗ، أَوْ مَسْجِدًا بَنَاهُ، أَوْ بَیْتًا لِابْنِ السَّبِیْلِ بَنَاهُ، أَوْ نَهَرًا أَجْرَاهُ، أَوْ صَدَقَۃً أَخْرَجَھَا مِنْ مَالِہٖ فِي صِحَّتِہٖ وَحَیَاتِہٖ۔ یَلْحَقُہٗ مِنْ بَعْدِ مَوْتِہٖ۔

رَوَاهُ ابْنُ مَاجَہ بِإِسْنَادٍ حَسَنٍ وَابْنُ خُزَیْمَۃَ وَالْبَیْهَقِيُّ۔

184: أخرجہ ابن ماجہ في السنن، المقدمۃ، باب ثواب معلم الناس الخیر، 1/ 88، الرقم/ 242، وابن خزیمۃ في الصحیح، 4/ 121، الرقم/ 2490، والبیہقي في شعب الإیمان، 3/ 248، الرقم/ 3448، والمقدسي في فضائل الأعمال، 1/ 69، الرقم/ 286، وذکرہ المنذري في الترغیب والترھیب، 1/ 55، 121، الرقم/ 123، 423، والکناني في مصباح الزجاجۃ، 1/ 35، الرقم/ 94، والمناوي في فیض القدیر، 2/ 540۔

اور آپ ایک دوسری روایت میں بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: بے شک مومن کے کچھ اعمال اور نیکیاں ایسی ہیں جن کا ثواب اسے اس کی وفات کے بعد بھی پہنچتا رہتا ہے۔ ان میں سے ایک وہ علم ہے جو اس نے سکھایا اور پھیلایا۔ (دوسرا) نیک بیٹا ہے جو اس نے پیچھے چھوڑا (جو اس کے لئے دعا کرے)۔ (تیسرا) قرآن مجیدہے، جو اس نے (اپنے وارث کے لئے) ورثہ میں چھوڑا۔ (چوتھی) مسجد جو اس نے تعمیر کی۔ (پانچواں) مسافر خانہ جو اس نے بنایا۔ (چھٹی) نہر جو اس نے جاری کرائی یا (ساتواں) صدقہ ہے جو اس نے اپنی زندگی میں صحت کی حالت میں اپنے مال سے نکالا۔ ان تمام اعمال کا ثواب اسے موت کے بعد بھی پہنچتا رہتا ہے۔

اِسے امام ابن ماجہ نے اسنادِ حسن سے اور ابن خزیمہ اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔

185/ 4۔ وَفِي رِوَایَۃِ سَھْلِ بْنِ مُعَاذِ بْنِ أَنَسٍ عَنْ أَبِیْهِ رضي الله عنهم أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: مَنْ عَلَّمَ عِلْمًا فَلَہٗ أَجْرُ مَنْ عَمِلَ بِہٖ، لَا یَنْقُصُ مِنْ أَجْرِ الْعَامِلِ۔

رَوَاهُ ابْنُ مَاجَہ وَالطَّبَرَانِيُّ۔

185: أخرجہ ابن ماجہ في السنن، المقدمۃ، باب ثواب معلم الناس الخیر، 1/ 88، الرقم/ 240، والطبراني في المعجم الکبیر، 20/ 198، الرقم/ 446، وأبو نعیم في المسند المستخرج، 1/ 51، الرقم/ 40، والمقدسي في فضائل الأعمال، 1/ 132، الرقم/ 577، وذکرہ المنذري في الترغیب والترھیب، 1/ 56، الرقم/ 129، والکناني في مصباح الزجاجۃ، 1/ 34، الرقم/ 92۔

اور ایک دوسری روایت میں حضرت سہل بن معاذ بن انس اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جس نے کسی کو علم سکھایا تو اسے اس پر عمل کرنے والے کے برابر اجر ملے گا، (جبکہ) عمل کرنے والے کے اجر میں بھی کوئی کمی نہ ہو گی۔

اسے امام ابن ماجہ اور طبرانی نے روایت کیا۔

186/ 5۔ عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو رضی اللہ عنہ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: بَلِّغُوْا عَنِّي وَلَوْ آیَۃً، وَحَدِّثُوْا عَنْ بَنِي إِسْرَائِیْلَ وَلَا حَرَجَ، وَمَنْ کَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا فَلْیَتَبَوَّأْ مَقْعَدَہٗ مِنَ النَّارِ۔

رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَأَحْمَدُ وَالتِّرْمِذِيُّ۔

186: أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب أحادیث الأنبیائ، باب ما ذکر عن بني إسرائیل، 3/ 1275، الرقم/ 3274، وأحمد بن حنبل في المسند، 2/ 159، الرقم/ 6486، والترمذي في السنن، کتاب العلم، باب ما جاء في الحدیث عن بني إسرائیل، 5/ 40، الرقم/ 2669، والطبراني في المعجم الصغیر، 1/ 281، الرقم/ 462۔

حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: میری طرف سے (ہر بات آگے دوسروں تک) پہنچا دو اگرچہ وہ ایک آیت ہی کیوں نہ ہو، اور بنی اسرائیل سے (قصص و واقعات پر مبنی) روایات آگے بیان کرو اس میں کوئی گناہ نہیں؛ اور جس نے جان بوجھ کر مجھ پر جھوٹ باندھا وہ اپنا ٹھکانہ دوزخ میں بنا لے۔

اسے امام بخاری، احمد اور ترمذی نے روایت کیا ہے۔

187/ 6۔ وَفِي رِوَایَۃِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ رضی اللہ عنہ قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ ﷺ یَقُوْلُ: نَضَّرَ اللهُ امْرَأً سَمِعَ مِنَّا شَیْئًا فَبَلَّغَہٗ کَمَا سَمِعَ۔ فَرُبَّ مُبَلَّغٍ أَوْعٰی مِنْ سَامِعٍ۔

رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَابْنُ مَاجَہ وَأَبُوْ حَنِیْفَۃَ۔ وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: ھٰذَا حَدِیْثٌ حَسَنٌ صَحِیْحٌ۔

187: أخرجہ الترمذي في السنن، کتاب العلم، باب ما جاء في الحث علی تبلیغ السماع، 5/ 34، الرقم/ 2657، وابن ماجہ في السنن، المقدمۃ، باب من بلغ علمًا، 1/ 85، الرقم/ 232، وأبو حنیفۃ عن أنس بن مالک رضی اللہ عنہ في المسند، 1/ 252، والدارمي عن أبي الدرداء رضی اللہ عنہ في السنن، 1/ 87، الرقم/ 230، وابن حبان في الصحیح، 1/ 268، الرقم/ 66، والبزار في المسند، 5/ 382، الرقم/ 2014، والبیہقي في شعب الإیمان، 1/ 274، الرقم/ 1738، والقزویني في التدوین في أخبار قزوین، 1/ 221، وذکرہ المنذري في الترغیب والترہیب، 1/ 61، الرقم/ 150، والہیثمي في مجمع الزوائد، 1/ 138۔

اور ایک دوسری روایت میں حضرت (عبد اللہ) بن مسعود رضی اللہ عنہ سے منقول ہے: میں نے حضور نبی اکرم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: اللہ تعالیٰ اس شخص کو خوش و خرم رکھے جس نے ہم سے کوئی بات سنی اور اُسے (دوسروں تک) ایسے ہی پہنچایا جیسے سنا تھا (کیونکہ) بہت سے لوگ جنہیں (علم) پہنچایا جائے (براهِ راست) سننے والے سے زیادہ یاد رکھنے والے (اور سمجھنے والے) ہوتے ہیں۔

اسے امام ترمذی، ابن ماجہ اور ابو حنیفہ نے روایت کیا۔ امام ترمذی نے کہا: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

188/ 7۔ وَفِي رِوَایَۃِ زَیْدِ بْنِ ثَابِتٍ رضی اللہ عنہ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ یَقُوْلُ: نَضَّرَ اللهُ امْرَأً سَمِعَ مِنَّا حَدِیْثًا فَحَفِظَہٗ حَتّٰی یُبَلِّغَہٗ۔ فَرُبَّ حَامِلِ فِقْہٍ إِلٰی مَنْ ھُوَ أَفْقَهُ مِنْهُ، وَرُبَّ حَامِلِ فِقْہٍ لَیْسَ بِفَقِیْہٍ۔

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَأَبُوْ دَاوُدَ وَالتِّرْمِذِيُّ وَاللَّفْظُ لَہٗ وَالنَّسَائِيُّ۔ وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: ھٰذَا حَدِیْثٌ حَسَنٌ۔

188: أخرجہ أحمد بن حنبل في المسند، 5/ 183، الرقم/ 21630، أبوداود في السنن، کتاب العلم، باب فضل نشر العلم، 3/ 322، الرقم/ 3660، الرقم/ 2656، والترمذي في السنن، کتاب العلم، باب ما جاء في الحث علی تبلیغ السماع، 5/ 33، والنسائي في السنن الکبری، 3/ 431، الرقم/ 5847، والدارمي في السنن، 1/ 86، الرقم/ 229، وابن حبان في الصحیح، 1/ 270، الرقم/ 67، والبزار في المسند، 8/ 342، الرقم/ 3416، والطبراني في المعجم الکبیر، 5/ 143، الرقم/ 4890، والبیھقي في شعب الإیمان، 2/ 274، الرقم/ 1736۔

ایک روایت میں حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: اللہ تعالیٰ اس شخص کے چہرے کی رونق کو دوبالا کرے جس نے ہم سے کوئی حدیث سن کر اسے یاد رکھا یہاں تک کہ اسے آگے پہنچا دیا۔ بہت سے فہم و بصیرت کے حامل افراد اپنے سے زیادہ فہم و بصیرت رکھنے والے افراد تک (حدیث) پہنچاتے ہیں اور بہت سے فہم و بصیرت کے حامل افراد درحقیقت فقیہ (یعنی احکام کا استنباط کرنے، انہیں یاد رکھنے اور آگے منتقل کرنے والے ) نہیں ہوتے۔

اسے امام احمد بن حنبل اور ابوداؤد نے اور ترمذی نے مذکورہ الفاظ کے ساتھ اور نسائی نے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی فرماتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے۔

189/ 8۔ وَفِي رِوَایَۃِ جُبَیْرِ بْنِ مُطْعِمٍ رضی اللہ عنہ قَالَ: قَامَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ بِالْخَیْفِ مِنْ مِنًی فَقَالَ: نَضَّرَ اللهُ امْرَأً سَمِعَ مَقَالَتِي، فَوَعَاھَا ثُمَّ أَدَّاھَا إِلٰی مَنْ لَمْ یَسْمَعْھَا۔ فَرُبَّ حَامِلِ فِقْہٍ لَا فِقْهَ لَہٗ، وَرُبَّ حَامِلِ فِقْہٍ إِلٰی مَنْ ھُوَ أَفْقَهُ مِنْهُ۔

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالدَّارِمِيُّ وَالْحَاکِمُ۔

189: أخرجہ أحمد بن حنبل في المسند، 4/ 80، الرقم/ 16784، والدارمي في السنن، 1/ 86، الرقم/ 228، والحاکم في المستدرک، 1/ 162، الرقم/ 294، وأبو یعلی في المسند، 13/ 408، الرقم/ 7413، والطبراني في المعجم الکبیر، 2/ 127، الرقم/ 1544، والقضاعي في مسند الشہاب، 2/ 307، الرقم/ 1421، وابن عبد البر في التمھید، 22/ 184، والفاکھي في أخبار مکۃ، 4/ 270، الرقم/ 2604۔

ایک روایت میں حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ منٰی میں مسجد خیف میں کھڑے ہو کر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ اس شخص کو شاد و آباد رکھے جس نے میری بات کو سن کر اسے یاد رکھا، پھر اُسے اُس تک پہنچا دیا جس نے اسے نہیں سنا تھا۔ پس بہت سے فقہ کے حامل (یعنی صاحبِ علم) درحقیقت گہرا فکر و تدبر نہیں رکھتے اور بہت سے سمجھ بوجھ کے حامل (میری بات کو) اس شخص تک پہنچا دیتے ہیں جو ان سے زیادہ فہم و بصیرت رکھتا ہے۔

اِسے امام احمد، دارمی اور حاکم نے روایت کیا ہے۔

190/ 9۔ وَفِي رِوَایَۃِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضی اللہ عنہم قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ یَقُوْلُ: اَللّٰھُمَّ، ارْحَمْ خُلَفَائَنَا۔ قُلْنَا: یَا رَسُوْلَ اللهِ، وَمَا خُلَفَاؤُکُمْ؟ قَالَ: اَلَّذِیْنَ یَأْتُوْنَ مِنْ بَعْدِي، یَرْوُوْنَ أَحَادِیْثِي وَسُنَّتِي، وَیُعَلِّمُوْنَھَا النَّاسَ۔

رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَذَکَرَهُ الْمُنْذِرِيُّ۔

190: أخرجہ الطبراني في المعجم الأوسط، 6/ 77، الرقم/ 5846، وذکرہ المنذري في الترغیب والترہیب، 1/ 62، الرقم/ 154، ومحب الدین الطبري في الریاض النضرۃ، 1/ 261، الرقم/ 106، والہیثمي في مجمع الزوائد، 1/ 126، والسیوطي في تدریب الراوي، 2/ 126، والزیلعي في نصب الرایۃ، 1/ 348۔

ایک روایت میں حضرت (عبد اللہ) بن عباس رضی اللہ عنہم بیان کرتے ہیں: میں نے رسول اللہ ﷺکو (دعا کرتے ہوئے) سنا: اے اللہ! ہمارے خلفاء پر رحم فرما۔ ہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ کے خلفاء کون ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: وہ لوگ جو میرے بعد آئیں گے، میری احادیث اور سنت بیان کریں گے اور لوگوں کو ان کی تعلیم دیں گے۔

اسے امام طبرانی نے روایت اور منذری نے بیان کیا ہے۔

191/ 10۔ وَفِي رِوَایَۃِ إِبْرَاهِیْمَ قَالَ: بَلَغَنِي أَنَّہٗ إِذَا کَانَ یَوْمُ الْقِیَامَۃِ تُوْضَعُ حَسَنَاتُ الرَّجُلِ فِي کَفَّۃٍ وَسَیِّئَاتُہٗ فِي الْکَفَّۃِ الْأُخْرٰی، فَتَشِیْلُ حَسَنَاتُہٗ۔ فَإِذَا أَیِسَ، وَظَنَّ أَنَّھَا النَّارُ۔ جَاءَ شَيئٌ مِثْلُ السَّحَابِ حَتّٰی یَقَعَ فِي حَسَنَاتِہٖ، فَتَشِیْلُ سَیِّئَاتُہٗ۔ قَالَ: فَیُقَالُ لَہٗ: أَتَعْرِفُ ھٰذَا مِنْ عَمَلِکَ؟ فَیَقُوْلُ: لَا۔ فَیُقَالُ: ھٰذَا مَا عَلَّمْتَ النَّاسَ مِنَ الْخَیْرِ، فَعُمِلَ بِہٖ مِنْ بَعْدِکَ۔

رَوَاهُ ابْنُ عَبْدِ الْبَرِّ۔

191: أخرجہ ابن عبد البر في جامع بیان العلم وفضلہ، 1/ 46، وذکرہ ابن القیم في مفتاح دار السعادۃ، 1/ 176۔

ایک روایت میں امام ابراہیم نخعی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: مجھے (حدیث) پہنچی ہے کہ جب قیامت کا دن ہو گا تو ایک شخص کی نیکیاں (ترازو کے) ایک پلڑے میں رکھی جائیں گی اور اس کے گناہ دوسرے پلڑے میں رکھے جائیں گے۔ اس کی نیکیوں کا پلڑا (وزن میں ہلکا ہونے کی وجہ سے) بلند ہو جائے گا۔ اس صورتحال سے وہ مایوس ہو کر گمان کرے گا کہ یہ (نیکیوں کا کم ہونا اس کے لیے) دوزخ کی آگ (کا باعث) ہے۔ پھر بادل کی مانند کوئی چیز آ کر اس کی نیکیوں میں شامل ہو جائے گی، جس سے اس کی برائیوں والا پلڑا بلند ہو جائے گا (اور نیکیوں والا پلڑا بھاری ہو جائے گا)۔ پس اس سے کہا جائے گا: کیا تو اپنے اس عمل کو پہچانتا ہے؟ وہ کہے گا: نہیں۔ اُسے بتایا جائے گا: یہ وہی عمل خیر ہے جس کی تو نے لوگوں کو تعلیم دی تھی۔ پس تیرے بعد اس پر عمل ہوتا رہا (جس کا تجھے یہ صلہ دیاگیا ہے)۔

اسے امام ابن عبد البر نے روایت کیا ہے۔

اَلإِصْلَاحُ بَیْنَ النَّاسِ

{لوگوں کے درمیان صلح جوئی}

اَلْقُرْآن

(1) كُتِبَ عَلَیْكُمْ اِذَا حَضَرَ اَحَدَكُمُ الْمَوْتُ اِنْ تَرَكَ خَیْرَا ۖۚ ِ۟الْوَصِیَّةُ لِلْوَالِدَیْنِ وَ الْاَقْرَبِیْنَ بِالْمَعْرُوْفِ ۚ حَقًّا عَلَی الْمُتَّقِیْنَؕo فَمَنْۢ بَدَّلَهٗ بَعْدَ مَا سَمِعَهٗ فَاِنَّمَاۤ اِثْمُهٗ عَلَی الَّذِیْنَ یُبَدِّلُوْنَهٗ ؕ اِنَّ اللّٰهَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌؕo فَمَنْ خَافَ مِنْ مُّوْصٍ جَنَفًا اَوْ اِثْمًا فَاَصْلَحَ بَیْنَهُمْ فَلَاۤ اِثْمَ عَلَیْهِ ؕ اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۠o

(البقرۃ 2/ 180-182)

تم پر فرض کیا جاتا ہے کہ جب تم میں سے کسی کی موت قریب آ پہنچے اگر اس نے کچھ مال چھوڑا ہو، تو (اپنے) والدین اور قریبی رشتہ داروں کے حق میں بھلے طریقے سے وصیت کرے، یہ پرہیزگاروں پر لازم ہےo پھر جس شخص نے اس (وصیّت) کو سننے کے بعد اسے بدل دیا تو اس کا گناہ انہی بدلنے والوں پر ہے، بے شک اللہ بڑا سننے والا خوب جاننے والا ہےo پس اگر کسی شخص کو وصیّت کرنے والے سے (کسی کی) طرف داری یا (کسی کے حق میں) زیادتی کا اندیشہ ہو پھر وہ ان کے درمیان صلح کرا دے تو اس پر کوئی گناہ نہیں، بے شک اللہ نہایت بخشنے والا مہربان ہےo

(2) وَ لَا تَجْعَلُوا اللّٰهَ عُرْضَةً لِّاَیْمَانِكُمْ اَنْ تَبَرُّوْا وَ تَتَّقُوْا وَ تُصْلِحُوْا بَیْنَ النَّاسِ ؕ وَ اللّٰهُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌo

(البقرۃ، 2/ 224)

اور اپنی قَسموں کے باعث اللہ (کے نام) کو (لوگوںکے ساتھ) نیکی کرنے اور پرہیز گاری اختیار کرنے اور لوگوں میں صلح کرانے میں آڑ مت بناؤ، اور اللہ خوب سننے والا بڑا جاننے والا ہےo

(3) لَا خَیْرَ فِیْ كَثِیْرٍ مِّنْ نَّجْوٰىهُمْ اِلَّا مَنْ اَمَرَ بِصَدَقَةٍ اَوْ مَعْرُوْفٍ اَوْ اِصْلَاحٍۭ بَیْنَ النَّاسِ ؕ وَ مَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِكَ ابْتِغَآءَ مَرْضَاتِ اللّٰهِ فَسَوْفَ نُؤْتِیْهِ اَجْرًا عَظِیْمًاo

(النساء، 4/ 114)

ان کے اکثر خفیہ مشوروں میں کوئی بھلائی نہیں سوائے اس شخص (کے مشورے) کے جو کسی خیرات کا یا نیک کام کا یا لوگوں میں صلح کرانے کا حکم دیتا ہے اور جو کوئی یہ کام اللہ کی رضا جوئی کے لیے کرے تو ہم اس کو عنقریب عظیم اجر عطا کریں گےo

(4) وَ اِنْ طَآىِٕفَتٰنِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اقْتَتَلُوْا فَاَصْلِحُوْا بَیْنَهُمَا ۚ فَاِنْۢ بَغَتْ اِحْدٰىهُمَا عَلَی الْاُخْرٰی فَقَاتِلُوا الَّتِیْ تَبْغِیْ حَتّٰی تَفِیْٓءَ اِلٰۤی اَمْرِ اللّٰهِ ۚ فَاِنْ فَآءَتْ فَاَصْلِحُوْا بَیْنَهُمَا بِالْعَدْلِ وَ اَقْسِطُوْا ؕ اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَo اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَۃٌ فَاَصْلِحُوْا بَیْنَ اَخَوَ یْکُمْ وَاتَّقُوا اللهَ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَo

(الحجرات، 49/ 9-10)

اور اگر مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں لڑائی کریں تو اُن کے درمیان صلح کرادیا کرو، پھر اگر ان میں سے ایک (گروہ) دوسرے پر زیادتی اور سرکشی کرے تو اس (گروہ) سے لڑو جو زیادتی کا مرتکب ہورہا ہے یہاں تک کہ وہ (قیامِ اَمن کے) حکمِ الٰہی کی طرف لوٹ آئے، پھر اگر وہ رجوع کر لے تو دونوں کے درمیان عدل کے ساتھ صلح کرا دو اور انصاف سے کام لو، بے شک اللہ انصاف کرنے والوں کو بہت پسند فرماتا ہےo بات یہی ہے کہ (سب) اہلِ ایمان (آپس میں) بھائی ہیں۔ سو تم اپنے دو بھائیوں کے درمیان صلح کرایا کرو، اور اللہ سے ڈرتے رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائےo

اَلْحَدِیْث

192/ 11۔ عَنْ أَبِي ھُرَیْرَۃَ رضی اللہ عنہ، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: کُلُّ سُلَامٰی مِنَ النَّاسِ عَلَیْهِ صَدَقَۃٌ کُلَّ یَوْمٍ تَطْلُعُ فِیْهِ الشَّمْسُ۔ یَعْدِلُ بَیْنَ الْاِثْنَیْنِ صَدَقَۃٌ، وَیُعِیْنُ الرَّجُلَ عَلٰی دَابَّتِہٖ فَیَحْمِلُ عَلَیْھَا أَوْ یَرْفَعُ عَلَیْھَا مَتَاعَہٗ صَدَقَۃٌ، وَالْکَلِمَۃُ الطَّیِّبَۃُ صَدَقَۃٌ، وَکُلُّ خُطْوَۃٍ یَخْطُوْھَا إِلَی الصَّلَاۃِ صَدَقَۃٌ، وَیُمِیْطُ الْأَذٰی عَنِ الطَّرِیْقِ صَدَقَۃٌ۔

مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ۔

192: أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب الجہاد والسیر، باب من أخذ بالرکاب ونحوہ، 3/ 1090، الرقم/ 2827، ومسلم في الصحیح، کتاب الزکاۃ، باب بیان أن اسم الصدقۃ یقع علی کل نوع من المعروف، 2/ 699، الرقم/ 1009، وأحمد بن حنبل في المسند، 2/ 316، الرقم/ 8168، وابن خزیمۃ في الصحیح، 2/ 374، الرقم/ 1493، والبیہقي في السنن الکبری، 4/ 187، الرقم/ 7609۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: انسان کے ہر جوڑ پر ہر دن جس میں سورج طلوع ہوتا ہے صدقہ واجب ہے، (اگر) وہ دو آدمیوں کے درمیان انصاف سے فیصلہ کرتا ہے تو یہ صدقہ ہے، کسی آدمی کو سوار ہونے میں مدد دیتا ہے یا اس کا سامان سواری پر رکھوا دیتا ہے تو یہ بھی صدقہ ہے۔ اچھی بات کہنا بھی صدقہ ہے۔ نماز کے لیے اٹھایا جانے والا ہر قدم بھی صدقہ ہے اور تکلیف دہ چیز کو راستے سے ہٹا دینا بھی صدقہ ہے۔

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

193/ 12۔ عَنْ أُمِّ کُلْثُومٍ بِنْتِ عُقْبَۃَ رضي الله عنها، قَالَتْ: إِنَّھَا سَمِعَتْ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ یَقُوْلُ: لَیْسَ الْکَذَّابُ الَّذِي یُصْلِحُ بَیْنَ النَّاسِ فَیَنْمِي خَیْرًا أَوْ یَقُوْلُ خَیْرًا۔

مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ۔

193: أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب الصلح، باب لیس الکذاب الذي یصلح بین الناس، 2/ 958، الرقم/ 2546، ومسلم في الصحیح، کتاب البر والصلۃ والآداب، باب تحریم الکذب وبیان المباح منہ، 4/ 2011، الرقم/ 2605، وأحمد بن حنبل في المسند، 6/ 403، الرقم/ 27313، والنسائي في السنن الکبری، 5/ 193، الرقم/ 8642، وابن حبان في الصحیح، 13/ 40، الرقم/ 5733۔

حضرت اُمّ کلثوم بنت عقبہ رضی اللہ عنہا نے روایت کیا کہ اُنہوں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: لوگوں میں صلح کروانے والا جھوٹا نہیں ہے، خواہ وہ (صلح کے لیے کسی کی طرف) کوئی اچھی بات منسوب کرے یا وہ (اپنی طرف سے کسی کے متعلق) کلماتِ خیر کہے۔

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

194/ 13۔ عَنْ حُمَیْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ عَنْ أُمِّہٖ: أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: لَمْ یَکْذِبْ مَنْ نَمٰی بَیْنَ اثْنَیْنِ لِیُصْلِحَ۔

رَوَاهُ أَبُوْ دَاوُدَ وَالتِّرْمِذِيُّ۔

194: أخرجہ أبو داود في السنن، کتاب الأدب، باب في إصلاح ذات البین، 4/ 280، الرقم/ 4920، والترمذي مختصراً في السنن، کتاب البر والصلۃ، باب ما جاء في إصلاح ذات البین، 4/ 331، الرقم/ 1938، وعبد الرزاق في المصنف، 11/ 158، الرقم/ 20196۔

حضرت حمید بن عبد الرحمن رضی اللہ عنہ نے اپنی والدہ ماجدہ سے روایت کیا ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جس نے دو آدمیوں کے درمیان صلح کرانے کے لیے پہلو دار بات کی اس نے جھوٹ نہیں بولا۔

اِسے امام ابوداود اور ترمذی نے روایت کیا ہے۔

وَقَالَ أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ وَمُسَدَّدٌ: لَیْسَ بِالْکَاذِبِ مَنْ أَصْلَحَ بَیْنَ النَّاسِ، فَقَالَ خَیْرًا أَوْ نَمٰی خَیْرًا

رَوَاهُ أَبُوْ دَاوُدَ۔

(1) أخرجہ أبو داود في السنن، کتاب الأدب، باب في إصلاح ذات البین، 4/ 280، الرقم/ 4920۔

احمد بن محمد اور مسدد نے کہا ہے:وہ شخص جھوٹا نہیں جس نے لوگوں کے درمیان صلح کرانے کی غرض سے (اپنی طرف سے) کوئی اچھی بات کہی یا (کسی کی طرف) کوئی اچھی بات منسوب کی۔

اسے امام ابوداود نے روایت کیا ہے۔

195/ 14۔ وَفِي رِوَایَۃٍ عَنْ أَبِي الدَّرْدَائِ رضی اللہ عنہ، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: أَلَا أُخْبِرُکُمْ بِأَفْضَلَ مِنْ دَرَجَۃِ الصَّلَاۃِ وَالصِّیَامِ وَالصَّدَقَۃِ؟ قَالُوْا: بَلٰی۔ قَالَ: إِصْلَاحُ ذَاتِ الْبَیْنِ، وَفَسَادُ ذَاتِ الْبَیْنِ ھِيَ الْحَالِقَۃُ۔

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَأَبُوْ دَاوُدَ وَالتِّرْمِذِيُّ وَابْنُ حِبَّانَ۔

195: أخرجہ أحمد بن حنبل في المسند، 6/ 444، الرقم/ 27548، وأبوداود في السنن، کتاب الأدب، باب في إصلاح ذات البین، 4/ 280، الرقم/ 4919، والترمذي في السنن، کتاب صفۃ القیامۃ والرقائق والورع، باب (56)، 4/ 663، الرقم/ 2509، وابن حبان في الصحیح، 11/ 489، الرقم/ 5092۔

حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کیا میں تمہیں ایسا کام نہ بتاؤں جو درجے میں نماز، روزہ اور زکوٰۃ سے بھی افضل ہے؟ لوگ عرض گزار ہوئے: (یا رسول اللہ!) کیوں نہیں! (ضرور بتائیے۔ ) آپ ﷺ نے فرمایا: لوگوں کے درمیان صلح کرانا، (کیونکہ) باہمی تعلقات کا بگاڑ امن و سلامتی کو تباہ کرنے (اور ظلم و زیادتی کو فروغ دینے) والا عمل ہے (اور رشتوں کی خرابی قطع رحمی کا باعث بنتی ہے)۔

اِسے امام احمد، ابو داود، ترمذی اور ابن حبان نے روایت کیا ہے۔

196/ 15۔ عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو رضی اللہ عنہ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: أَفْضَلُ الصَّدَقَۃِ إِصْلَاحُ ذَاتِ الْبَیْنِ۔

رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ فِي التَّارِیْخِ، وَالْقُضَاعِيُّ وَاللَّفْظُ لَہٗ۔

196: أخرجہ البخاري في التاریخ الکبیر، 3/ 295، الرقم/ 1007، والقضاعي في مسند الشہاب، 2/ 244، الرقم/ 1280، وعبد بن حمید في المسند، 1/ 135، الرقم/ 335۔

حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: سب سے بہترین صدقہ دو قرابت داروں میں صلح کرانا ہے۔

اِسے امام بخاری نے ’التاریخ الکبیر‘ میں اور قضاعی نے مذکورہ الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے۔

197/ 16۔ عَنْ أَبِي أُمَامَۃَ رضی اللہ عنہ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ لِأَبِي أَیُّوْبَ بْنِ زَیْدٍ: یَا أَبَا أَیُّوْبَ، أَلَا أَدُلُّکَ عَلٰی عَمَلٍ یَرْضَاهُ اللهُ وَرَسُوْلُہٗ؟ قَالَ: بَلٰی۔ قَالَ: تُصْلِحُ بَیْنَ النَّاسِ إِذَا تَفَاسَدُوْا، وَتُقَارِبُ بَیْنَھُمْ إِذَا تَبَاعَدُوْا۔

رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَالطَّیَالسِيُّ وَالْبَیْهَقِيُّ۔

197: أخرجہ الطبراني في المعجم الکبیر، 8/ 257، الرقم: 7999، والطیالسي في المسند، 1/ 81، الرقم/ 598، والبیہقي في شعب الإیمان، 7/ 490، الرقم/ 11094، وذکرہ الذہبي في الکبائر/ 212، والہیثمي في المجمع الزوائد، 8/ 80۔

حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابو ایوب بن زید سے فرمایا: اے ابو ایوب! کیا میں آپ کو ایسے عمل کے بارے میں نہ بتاؤں جس سے اللہ اور اس کا رسول راضی ہوتے ہیں؟ اُنہوں نے عرض کیا: کیوں نہیں (یا رسول اللہ صلی اللہ علیک وسلم)! آپ ﷺ نے فرمایا: جب لوگوں میں لڑائی ہو تو ان کے مابین صلح کراؤ اور جب ان میں دوریاں پیدا ہوں تو ان میں قربت پیدا کرو۔

اِسے امام طبرانی، طیالسی اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔

قَالَ الْفُضَیْلُ بْنُ عِیَاضٍ: إِذَا أَتَاکَ رَجُلٌ یَشْکُوْ إِلَیْکَ رَجُلًا فَقُلْ: یَا أَخِي، اعْفُ عَنْهُ، فَإِنَّ الْعَفْوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی۔ فَإِنْ قَالَ: لَا یَحْتَمِلُ قَلْبِيَ الْعَفْوَ وَلٰـکِنْ أَنْتَصِرُ کَمَا أَمَرَنِيَ اللهُ۔ قُلْ: فَإِنْ کُنْتَ تُحْسِنُ تَنْتَصِرُ مَثَـلًا بِمَثَلٍ وَإِلاَّ فَارْجِعْ إِلٰی بَابِ الْعَفْوِ، فَإِنَّہٗ بَابٌ أَوْسَعُ۔ فَإِنَّہٗ مَنْ عَفَا وَأَصْلَحَ فَأَجْرُہٗ عَلَی اللهِ۔ وَصَاحِبُ الْعَفْوِ یَنَامُ اللَّیْلَ عَلٰی فِرَاشِہٖ، وَصَاحِبُ الْاِنْتِصَارِ یَقْلِبُ الْأُمُوْرَ

ذَکَرَہٗ أَبُوْ نُعَیْمٍ فِي الْحِلْیَۃِ۔

(1) أبو نعیم في حلیۃ الأولیاء، 8/ 112۔

امام فضیل بن عیاض نے فرمایا: جب تمہارے پاس کوئی آدمی کسی دوسرے آدمی کی شکایت لے کر آئے تو اسے کہو: اے میرے بھائی! اسے معاف کر دو کیونکہ معاف کر دینا تقویٰ کے قریب تر ہے۔ اگر وہ کہے: میرا دل معاف کرنے کے لیے تیار نہیں ہے بلکہ میں اس پر فتح و غلبہ پائوں گا جیسا کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے حکم و اختیار دیا ہے۔ تو اُسے کہو: اگر تو اچھے طریقے سے فتح یاب ہونے والا ہوتا تو اس کے برابر ہوتا، وگرنہ بخشش کی طرف لوٹ آئو، یہ ایک وسیع باب ہے۔ جو معاف کرتا ہے اور صلح کرتا ہے تو اس کا اجر اللہ تعالیٰ پر ہے۔ صاحبِ بخشش رات کے وقت اپنے بستر پر سوتا ہے جب کہ فتح (پانے کی خواہش رکھنے) والا اپنے اُمور کو اُلٹ پلٹ کرتا ہے۔

اِسے امام ابو نعیم نے ’حلیۃ الأولیاء‘ میں بیان کیا ہے۔

اَلنَّصِیْحَۃُ لِلنَّاسِ

{لوگوں کی خیر خواہی}

اَلْقُرْآن

(1) فَعَقَرُوا النَّاقَةَ وَ عَتَوْا عَنْ اَمْرِ رَبِّهِمْ وَ قَالُوْا یٰصٰلِحُ ائْتِنَا بِمَا تَعِدُنَاۤ اِنْ كُنْتَ مِنَ الْمُرْسَلِیْنَo فَاَخَذَتْهُمُ الرَّجْفَةُ فَاَصْبَحُوْا فِیْ دَارِهِمْ جٰثِمِیْنَo فَتَوَلّٰی عَنْھُمْ وَقَالَ یٰـقَوْمِ لَقَدْ اَبْلَغْتُکُمْ رِسَالَۃَ رَبِّیْ وَنَصَحْتُ لَـکُمْ وَلٰـکِنْ لَّا تُحِبُّوْنَ النّٰصِحِیْنَo

(الأعراف، 7/ 77-79)

پس انہوں نے اونٹنی کو (کاٹ کر) مار ڈالا اور اپنے ربّ کے حکم سے سرکشی کی اور کہنے لگے: اے صالح! تم وہ (عذاب) ہمارے پاس لے آؤ جس کی تم ہمیں وعید سناتے تھے اگر تم (واقعی) رسولوں میں سے ہوo سو انہیں سخت زلزلہ (کے عذاب) نے آپکڑا پس وہ (ہلاک ہو کر) صبح اپنے گھروں میں اوندھے پڑے رہ گئےo پھر (صالح علیہ السلام نے) ان سے منہ پھیر لیا اور کہا: اے میری قوم! بے شک میں نے تمہیں اپنے رب کا پیغام پہنچا دیا تھا اور نصیحت (بھی) کر دی تھی لیکن تم نصیحت کرنے والوں کو پسند (ہی) نہیں کرتےo

(2) الَّذِیْنَ كَذَّبُوْا شُعَیْبًا كَاَنْ لَّمْ یَغْنَوْا فِیْهَا ۛۚ اَلَّذِیْنَ كَذَّبُوْا شُعَیْبًا كَانُوْا هُمُ الْخٰسِرِیْنَo فَتَوَلّٰی عَنْهُمْ وَ قَالَ یٰقَوْمِ لَقَدْ اَبْلَغْتُكُمْ رِسٰلٰتِ رَبِّیْ وَ نَصَحْتُ لَكُمْ ۚ فَكَیْفَ اٰسٰی عَلٰی قَوْمٍ كٰفِرِیْنَ۠o

(الأعراف، 7/ 92-93)

جن لوگوں نے شعیب ( علیہ السلام ) کو جھٹلایا (وہ ایسے نیست و نابود ہوئے) گویا وہ اس (بستی) میں (کبھی) بسے ہی نہ تھے۔ جن لوگوں نے شعیب ( علیہ السلام ) کو جھٹلایا (حقیقت میں) وہی نقصان اٹھانے والے ہوگئےo تب (شعیب علیہ السلام ) ان سے کنارہ کش ہوگئے اور کہنے لگے: اے میری قوم! بے شک میں نے تمہیں اپنے رب کے پیغامات پہنچا دیے تھے اور میں نے تمہیں نصیحت (بھی) کردی تھی پھر میں کافر قوم (کے تباہ ہونے) پر افسوس کیونکر کروں؟o

(3) قَالَ اِنَّمَا یَاْتِیْكُمْ بِهِ اللّٰهُ اِنْ شَآءَ وَ مَاۤ اَنْتُمْ بِمُعْجِزِیْنَo وَ لَا یَنْفَعُكُمْ نُصْحِیْۤ اِنْ اَرَدْتُّ اَنْ اَنْصَحَ لَكُمْ اِنْ كَانَ اللّٰهُ یُرِیْدُ اَنْ یُّغْوِیَكُمْ ؕ هُوَ رَبُّكُمْ ۫ وَ اِلَیْهِ تُرْجَعُوْنَؕo

(ھود، 11/ 33-34)

(نوح علیہ السلام نے) کہا: وہ (عذاب) تو بس اللہ ہی تم پر لائے گا اگر اس نے چاہا اور تم (اسے) عاجز نہیں کرسکتےo اور میری نصیحت (بھی) تمہیں نفع نہ دے گی خواہ میں تمہیں نصیحت کرنے کا ارادہ کروں اگر اللہ نے تمہیں گمراہ کرنے کا ارادہ فرما لیا ہو، وہ تمہارا رب ہے، اور تم اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گےo

اَلْحَدِیْث

198/ 17۔ عَنْ تَمِیْمٍ الدَّارِيِّ رضی اللہ عنہ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: اَلدِّیْنُ النَّصِیْحَۃُ۔ قُلْنَا: لِمَنْ؟ قَالَ: ِﷲِ وَلِکِتَابِہٖ وَلِرَسُوْلِہٖ وَلِأَئِمَّۃِ الْمُسْلِمِیْنَ وَعَامَّتِھِمْ۔

رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ فِي تَرْجَمَۃِ الْبَابِ وَمُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ وَالتِّرْمِذِيُّ وَالنَّسَائِيُّ۔

198: أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب الإیمان، باب قول النبي ﷺ: الدین النصیحۃ ﷲ ولرسولہ ولأئمۃ المسلمین وعامتہم وقولہ تعالی: {إذا نصحوا ﷲ ورسولہ}، 1/ 30، ومسلم في الصحیح، کتاب الإیمان، باب بیان أن الدین النصیحۃ، 1/ 74، الرقم/ 55، وأحمد بن حنبل في المسند، 4/ 102، الرقم/ 16983، وأبو داود في السنن، کتاب الأدب، باب في النصیحۃ، 4/ 286، الرقم/ 4944، والترمذي في السنن، کتاب البر والصلۃ، باب ما جاء في النصیحۃ، 4/ 324، الرقم/ 1926، والنسائي في السنن، کتاب البیعۃ، باب النصیحۃ للإمام، 7/ 156، الرقم/ 4197۔

حضرت تمیم الداری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: دین سراسر خیر خواہی (کا نام) ہے۔ ہم نے عرض کیا: کس کی خیر خواہی؟ آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے لیے، اُس کی کتاب اور اُس کے رسول کے لیے اور ائمہ مسلمین اور عام مسلمانوں کے لیے۔

اِسے امام بخاری نے ’الصحیح‘ کے ترجمۃ الباب میں اور امام مسلم، احمد، ترمذی اور نسائی نے روایت کیا ہے۔

199/ 18۔ عَنْ جَرِیْرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ رضی اللہ عنہ، قَالَ: بَایَعْتُ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ عَلٰی إِقَامِ الصَّلَاۃِ، وَإِیْتَائِ الزَّکَاۃِ، وَالنُّصْحِ لِکُلِّ مُسْلِمٍ۔

مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ۔

199: أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب الإیمان، باب قول النبي ﷺ: الدین النصیحۃ ﷲ ولرسولہ ولأئمۃ المسلمین وعامتہم وقولہ تعالی: إذا نصحوا ﷲ ورسولہ، 1/ 31، الرقم/ 57، ومسلم في الصحیح، کتاب الإیمان، باب بیان أن الدین النصیحۃ، 1/ 75، الرقم/ 56، وأحمد بن حنبل في المسند، 4/ 360، 364، الرقم/ 19214، 19248، والترمذي في السنن، کتاب البر والصلۃ، باب ما جاء في النصیحۃ، 4/ 324، الرقم/ 1925، والنسائي في السنن، کتاب البیعۃ، باب البیعۃ علی فراق المشرک، 7/ 147، الرقم/ 4175۔

حضرت جریر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں نے نماز پڑھنے، زکوٰۃ دینے اور ہر مسلمان کا خیر خواہ رہنے پر رسول اللہ ﷺ کی بیعت کی۔

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

200/ 19۔ عَنْ زِیَادِ بْنِ عِلَاقَۃَ، قَالَ: سَمِعْتُ جَرِیرَ بْنَ عَبْدِ اللهِ قَالَ: فَإِنِّي أَتَیْتُ النَّبِيَّ ﷺ قُلْتُ: أُبَایِعُکَ عَلَی الْإِسْلَامِ؛ فَشَرَطَ عَلَيَّ: وَالنُّصْحِ لِکُلِّ مُسْلِمٍ۔ فَبَایَعْتُہٗ عَلٰی ھٰذَا۔ وَرَبِّ ھٰذَا الْمَسْجِدِ، إِنِّي لَنَاصِحٌ لَکُمْ، ثُمَّ اسْتَغْفَرَ وَنَزَلَ۔

رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ۔

200: أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب الإیمان، باب قول النبي ﷺ: الدین النصیحۃ ﷲ ولرسولہ ولأئمۃ المسلمین وعامتہم وقولہ تعالی: إذا نصحوا ﷲ ورسولہ، 1/ 31، الرقم/ 58۔

زیاد بن علاقہ سے مروی ہے کہ انہوں نے حضرت جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے سنا۔ انہوں نے فرمایا: میں حضور نبی اکرم ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہو کر عرض گزار ہوا کہ میں اسلام پر آپ کی بیعت کرتا ہوں۔ آپ ﷺ نے مجھ پر ہر مسلمان کا خیر خواہ رہنے کی شرط عائد فرمائی۔ میں نے اس بات پر حضور نبی اکرم ﷺ سے بیعت کر لی۔ اِس مسجد کے رب کی قسم! میں تمہارا خیر خواہ ہوں۔ پھر دعائے مغفرت کی اور (منبر سے ) نیچے اُتر آئے۔

اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔

201/ 20۔ عَنْ مَعْقِلِ بْنِ یَسَارٍ رضی اللہ عنہ، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ ﷺ یَقُوْلُ: مَا مِنْ عَبْدٍ یَسْتَرْعِیْهِ اللهُ رَعِیَّۃً فَلَمْ یَحُطْھَا بِنَصِیْحَۃٍ إِلَّا لَمْ یَجِدْ رَائِحَۃَ الْجَنَّۃِ۔

رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ۔

201: أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب الأحکام، باب من استرعي رعیۃ فلم ینصح، 6/ 2614، الرقم/ 6731۔

حضرت معقل بن یسار رضی اللہ عنہ نے روایت کیا کہ اُنہوں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: ہر وہ بندہ جسے اللہ تعالیٰ نے رعایا کا حکمران بنایا مگر اس نے خیر خواہی کے ساتھ اُن کی نگہبانی کا فریضہ ادا نہ کیا، تو وہ جنت کی خوشبو تک نہ پا سکے گا۔

اِسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔

202/ 21۔ عَنْ أَبِي ھُرَیْرَۃَ رضی اللہ عنہ، أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ: حَقُّ الْمُسْلِمِ عَلَی الْمُسْلِمِ سِتٌّ۔ قِیْلَ: مَا ھُنَّ، یَا رَسُوْلَ اللهِ؟ قَالَ: إِذَا لَقِیْتَہٗ فَسَلِّمْ عَلَیْهِ، وَإِذَا دَعَاکَ فَأَجِبْهُ، وَإِذَا اسْتَنْصَحَکَ فَانْصَحْ لَہٗ، وَإِذَا عَطَسَ فَحَمِدَ اللهَ فَسَمِّتْهُ، وَإِذَا مَرِضَ فَعُدْهُ، وَإِذَا مَاتَ فَاتَّبِعْهُ۔

رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ۔

202: أخرجہ مسلم في الصحیح، کتاب السلام، باب من حق المسلم للمسلم رد السلام، 4/ 1705، الرقم/ 2162، وأحمد بن حنبل في المسند، 2/ 372، الرقم/ 8832۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مسلمان کے مسلمان پر چھ حقوق ہیں۔ پوچھا گیا: یا رسول اللہ! وہ کون سے (حقوق) ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: (1)جب تم اس سے ملو تو سلام کرو، (2)جب وہ تمہیں دعوت دے تو اسے قبول کرو، (3)جب وہ تم سے نصیحت (اور مشورہ)طلب کرے تو اسے نصیحت کرو، (4)جب وہ چھینک کے بعد الحمد للہ کہے تو اس کی چھینک کا جواب دو، (5)جب وہ بیمار ہو تو اس کی عیادت کرو اور (6)جب وہ فوت ہو جائے تو اس کے جنازے میں شرکت کرو۔

اِسے امام مسلم اور احمد نے روایت کیا ہے۔

203/ 22۔ وَفِي رِوَایَۃٍ عَنْ حَکِیْمِ بْنِ أَبِي یَزِیْدَ عَنْ أَبِیْهِ قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ قَالَ: دَعُوا النَّاسَ یُصِیْبُ بَعْضُھُمْ مِنْ بَعْضٍ، فَإِذَا اسْتَنْصَحَ أَحَدُکُمْ أَخَاهُ، فَلْیَنْصَحْهُ۔

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالطَّیَالِسِيُّ وَالطَّبَرَانِيُّ۔

203: أخرجہ أحمد بن حنبل في المسند، 3/ 418، الرقم/ 15493، والطیالسي في المسند، 1/ 185، الرقم/ 1312، والطبراني في المعجم الکبیر، 22/ 354، الرقم/ 888۔

ایک روایت میں حکیم بن ابی یزید اپنے والد سے روایت کرتے ہیں۔ اُنہوں نے کہا: مجھے میرے والد نے بتایا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: لوگوں میں سے بعض کو بعض سے فائدہ اُٹھانے دو، اور جب تم میں سے کوئی اپنے بھائی سے نصیحت (اور مشورہ) طلب کرے (اور خیر خواہی چاہے) تو اسے اس (بھائی) کی خیر خواہی کرنی چاہیے۔

اِسے امام احمد، طیالسی اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔

204/ 23۔ عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُوْدٍ رضی اللہ عنہ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: نَضَّرَ اللهُ امْرَأً سَمِعَ مَقَالَتِي فَوَعَاھَا وَحَفِظَھَا وَبَلَّغَھَا۔ فَرُبَّ حَامِلِ فِقْہٍ إِلٰی مَنْ ھُوَ أَفْقَهُ مِنْهُ۔ ثَـلَاثٌ لَا یُغِلُّ عَلَیْھِنَّ قَلْبُ مُسْلِمٍ: إِخْلَاصُ الْعَمَلِ ِﷲِ، وَمُنَاصَحَۃُ أَئِمَّۃِ الْمُسْلِمِیْنَ، وَلُزُوْمُ جَمَاعَتِھِمْ، فَإِنَّ الدَّعْوَۃَ تُحِیْطُ مِنْ وَرَائِھِمْ۔

رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَابْنُ مَاجَہ وَالدَّارِمِيُّ۔

204: أخرجہ الترمذي في السنن، کتاب العلم، باب ما جاء في الحث علی تبلیغ السماع، 5/ 34، الرقم/ 2658، وابن ماجہ عن جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ في السنن، کتاب المناسک، باب الخطبۃ یوم النحر، 2/ 1015، الرقم/ 3056، والدارمي عن أبي الدرداء رضی اللہ عنہ في السنن، 1/ 87، الرقم/ 230، والطبراني في المعجم الأوسط، 5/ 233-234، الرقم/ 5179۔

حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ اس شخص کو شاد و آباد رکھے جس نے میری حدیث سنی، اسے اپنے ذہن میں محفوظ کر لیا اور اسے اچھی طرح یاد کر لیا اور پھر اسے آگے پہنچا دیا۔ کئی حاملینِ فقہ اپنے سے زیادہ فقیہ تک بات پہنچا دیتے ہیں۔ تین چیزیں ایسی ہیں جن میں مسلمان کا دل خیانت نہیں کرتا: (اوّل) عمل کا صرف اللہ (کی رضا) کے لئے ہونا، (دوسرا) مسلمان حکمرانوں کی بھلائی چاہنا، اور (تیسرا) مسلمانوں کی جماعت کے ساتھ ملے رہنا کیونکہ (انکی) دعائیں انہیں پیچھے سے حفاظت کے حصار میں لئے رکھتی ہیں۔

اسے امام ترمذی، ابن ماجہ اور دارمی نے روایت کیا ہے۔

مَا رُوِيَ عَنِ الأَئِمَّۃِ مِنَ السَّلَفِ الصَّالِحِیْنَ

قَالَ الْحَسَنُ الْبَصْرِيُّ: مَا زَالَ ِﷲِ تَعَالٰی نُصَحَاءُ، یَنْصَحُوْنَ ِﷲِ فِي عِبَادِہٖ، وَیَنْصَحُوْنَ لِعِبَادِ اللهِ فِي حَقِّ اللهِ، وَیَعْمَلُوْنَ ِﷲِ تَعَالٰی فِي الْأَرْضِ بِالنَّصِیْحَۃِ۔ أُوْلٰئِکَ خُلَفَاءُ اللهِ فِي الْأَرْضِ

ذَکَرَهُ الْفَیْرُوْزُآبَادِيُّ فِي البَصَائِرِ۔

(1) الفیروزآبادي في بصائر ذوي التمییز، 5/ 67-68۔

امام حسن بصری نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے ہمیشہ کچھ خیر خواہ بندے ہوتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی خاطر اس کے بندوں کی خیر خواہی کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ کے بندوں کو اللہ تعالیٰ کے حق میں نصیحت کرتے ہیں اور اس روئے زمین پر اللہ تعالیٰ کی خاطر نصیحت کا عمل بجا لاتے ہیں۔ وہی لوگ اس زمین پر اللہ تعالیٰ کے خلفاء ہیں۔

اسے فیروزآبادی نے ’بصائر ذوي التمییز‘ میں بیان کیا ہے۔

قَالَ الشَّافِعِيُّ:

تَعَمَّدْنِي بِنُصْحِکَ فِي الْفُرَادٰی
وَجَنِّبْنِي النَّصِیْحَۃَ فِي الْجَمَاعَہ

فَإِنَّ النُّصْحَ بَیْنَ النَّاسِ نَوْعٌ
مِنَ التَّوْبِیْخِ لَا أَرْضَی اسْتِمَاعَہ

فَإِنْ خَالَفْتَنِي وَعَصَیْتَ قَوْلِي
فَـلَا تَجْزَعْ إِذَا لَمْ تُعْطَ طَاعَہ

(1) الشافعي في الدیوان/ 91۔

امام شافعی نے فرمایا ہے:

(اے نصیحت کرنے والے!) تم مجھے تنہائی میں نصیحت کیا کرو اور اجتماع میں مجھے نصیحت کرنے سے اجتناب کرو کیونکہ عوام الناس کے درمیان نصیحت کرنا ایک قسم کی ڈانٹ ہے جسے میں سننا پسند نہیں کرتا۔ پس اگر تم نے میری مخالفت کی اور یہ بات نہ مانی تو پھر جب تمہاری اطاعت اور پیروی نہ ہو تو اس پر رنجیدہ مت ہونا۔

قَالَ الآجُرِّيُّ: لَا یَکُوْنُ نَاصِحًا ِﷲِ تَعَالٰی وَلِرَسُوْلِہٖ وَلِأَئِمَّۃِ الْمُسْلِمِیْنَ وَعَامَّتِھِمْ إِلَّا مَنْ بَدَأَ بِالنَّصِیْحَۃِ لِنَفْسِہٖ۔ وَاجْتَهَدَ فِي طَلَبِ الْعِلْمِ وَالْفِقْهِ لِیَعْرِفَ بِہٖ مَا یَجِبُ عَلَیْهِ۔ وَیَعْلَمُ عَدَاوَۃَ الشَّیْطَانِ لَہٗ وَکَیْفَ الْحَذَرُ مِنْهُ۔ وَیَعْلَمُ قَبِیْحَ مَا تَمِیْلُ إِلَیْهِ النَّفْسُ حَتّٰی یُخَالِفَھَا بِعِلْمٍ.

ذَکَرَهُ الْفَیْرُوْزُآبَادِيُّ فِی الْبَصَائِرِ۔

(2) الفیروزآبادي في بصائر ذوي التمییز، 5/ 67۔

امام آجری نے فرمایا: صرف وہی شخص اللہ تعالیٰ، اس کے رسول مکرمﷺ، اَئمہ مسلمین اور عامۃ الناس کا خیر خواہ ہو سکتا ہے جس نے اپنی ذات سے خیر خواہی کا آغاز کیا ہو۔ اس نے علم و فقہ کے حصول کی کوشش کی ہو تاکہ وہ اس کے ذریعے ان (اُمور) کی معرفت حاصل کر سکے جن کو (حاصل کرنا) اس پر واجب ہے اور شیطان کی اس کے ساتھ عداوت اور اس (کی دشمنی) سے بچنے (کا راستہ) جان سکے اور اس قباحت کو جان سکے جس کی طرف نفس مائل ہوتا ہے تاکہ وہ علم کے ذریعے اس کی مخالفت کرے۔

اِسے فیروزآبادی نے ’بصائر ذوي التمییز‘ میں بیان کیا ہے۔

قَالَ الْفُضَیْلُ بْنُ عِیَاضٍ: اَلْحُبُّ أَفْضَلُ مِنَ الْخَوْفِ۔ أَلَا تَرٰی إِذَا کَانَ لَکَ عَبْدَانِ، أَحَدُھُمَا یُحِبُّّکَ وَالآخَرُ یَخَافُکَ، فَالَّذِي یُحِبُّکَ، یَنْصَحُکَ شَاهِدًا کُنْتَ أَوْ غَائِبًا لِحُبِّہٖ إِیَّاکَ؛ وَالَّذِي یَخَافُکَ، عَسٰی أَنْ یَنْصَحَکَ إِذَا شَهِدْتَ لِمَا یَخَافُکَ، وَیَغُشُّکَ إِذَا غِبْتَ وَلَا یَنْصَحُکَ.

ذَکَرَهُ ابْنُ رَجَبٍ الْحَنْبَلِيُّ۔

(2) ابن رجب الحنبلي في جامع العلوم والحکم/ 78۔

امام فضیل بن عیاض بیان کرتے ہیں: محبت خوف سے بہتر ہے، کیا تو نہیں دیکھتا جب تیرے دو غلام ہوں، ان میں سے ایک تجھ سے محبت کرتا ہے اور دوسرا تجھ سے ڈرتا ہے، پس جو تجھ سے محبت کرتا ہے وہ تمہارے ساتھ اپنی محبت کی وجہ سے تمہاری موجودگی اور غیر موجودگی میں تمہارا خیرخواہ رہے گا؛ اور جو تجھ سے ڈرتا ہے ممکن ہے وہ تمہاری موجودگی میں تمہارے خوف کی وجہ سے تمہارا خیر خواہ ہو لیکن جب تم موجود نہ ہو تو وہ تمہیں دھوکہ دے اور تمہاری خیر خواہی نہ چاہے۔

اسے علامہ ابن رجب حنبلی نے بیان کیاہے۔

قَالَ مَعْمَرُ بْنُ رَاشِدِ بْنِ هَمَّامٍ الصَّنْعَانِيُّ: کَانَ یُقَالُ: أَنْصَحُ النَّاسِ لَکَ مَنْ خَافَ اللهَ فِیْکَ

ذَکَرَهُ ابْنُ رَجَبٍ الْحَنْبَلِيُّ۔

(1) ابن رجب الحنبلي في جامع العلوم والحکم/ 81۔

معمر بن راشد بن ہمام صنعانی بیان کرتے ہیں کہ کہاجاتا تھا: تمہارا سب سے بڑا خیر خواہ وہ شخص ہے جو تمہارے بارے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے۔

اسے علامہ ابن رجب حنبلی نے بیان کیا ہے۔

قَالَ ابْنُ عَبْدِ الْبَرِّ: مَحِّضْ أَخَاکَ النَّصِیْحَۃَ وَإِنْ کَانَتْ عِنْدَہٗ فَضِیْحَۃٌ

ذَکَرَهُ الْفَیْرُوْزُآبَادِيُّ فِي الْبَصَائِرِ۔

(1) الفیروزآبادي في بصائر ذوی التمییز، 3/ 605۔

ابن عبد البرنے فرمایا ہے: اپنے بھائی کو سچی نصیحت کر، اگرچہ وہ اس نصیحت کو اپنے ہاں (اپنے لیے وقتی طور پر) رسوائی ہی جانے۔

اِسے فیروزآبادی نے ’بصائر ذوي التمییز‘ میں بیان کیا ہے۔

قَالَ ابْنُ رَجَبٍ الْحَنْبَلِيُّ: اَلْوَاجِبُ عَلَی الْمُسْلِمِ أَنْ یُحِبَّّ ظُهُوْرَ الْحَقِّ وَمَعْرِفَۃَ الْمُسْلِمِیْنَ لَہٗ، سَوَاءٌ کَانَ ذٰلِکَ فِي مُوَافَقَتِہٖ أَوْ مُخَالَفَتِہٖ: وَھٰذَا مِنَ النَّصِیْحَۃِ ِﷲِ وَلِکِتَابِہٖ وَرَسُوْلِہٖ وَدِیْنِہٖ وَأَئِمَّۃِ الْمُسْلِمِیْنَ وَعَامَّتِھِمْ، وَذٰلِکَ ھُوَ الدِّیْنُ کَمَا أَخْبَرَ النَّبِيُّ ﷺ.

(2) ابن رجب الحنبلي في الفرق بین النصیحۃ والتعبیر/ 64۔

ابن رجب حنبلی نے فرمایا ہے: مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ حق کے ظہور اور مسلمانوں کے حق کے لیے معرفت کو پسند کرے خواہ وہ اس کی موافقت میں ہو یا اس کی مخالفت میں۔ یہ اللہ تعالیٰ، اس کی کتاب، اس کے رسول ﷺ، اس کے دین اور مسلمانوں کے اَئمہ اور عامۃ الناس کی خیر خواہی میں سے ہے، اور یہی وہ دین ہے جسے حضور نبی اکرم ﷺ نے بیان فرمایا ہے۔

اَلْمُبَادَرَۃُ إِلَی الْخَیْرَاتِ وَالْحَسَنَاتِ لِخِدْمَۃِ الْبَشَرِیَّۃِ

{خدمتِ انسانیت کے لیے اچھے کاموں میں سبقت لے جانا}

اَلْقُرْآن

(1) یُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَ یُسَارِعُوْنَ فِی الْخَیْرٰتِ ؕ وَ اُولٰٓىِٕكَ مِنَ الصّٰلِحِیْنَo

(آل عمران، 3/ 114)

وہ اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان لاتے ہیں اور بھلائی کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے منع کرتے ہیں اور نیک کاموں میں تیزی سے بڑھتے ہیں، اور یہی لوگ نیکوکاروں میں سے ہیںo

(2) فَاسْتَجَبْنَا لَهٗ ؗ وَ وَهَبْنَا لَهٗ یَحْیٰی وَ اَصْلَحْنَا لَهٗ زَوْجَهٗ ؕ اِنَّهُمْ كَانُوْا یُسٰرِعُوْنَ فِی الْخَیْرٰتِ وَ یَدْعُوْنَنَا رَغَبًا وَّ رَهَبًا ؕ وَ كَانُوْا لَنَا خٰشِعِیْنَo

(الأنبیاء، 21/ 90)

تو ہم نے ان کی دعا قبول فرما لی اور ہم نے انہیں یحییٰ ( علیہ السلام ) عطا فرمایا اور ان کی خاطر ان کی زوجہ کو (بھی) درست (قابلِ اولاد) بنا دیا۔ بے شک یہ (سب) نیکی کے کاموں (کی انجام دہی) میں جلدی کرتے تھے اور ہمیں شوق و رغبت اور خوف و خشیّت (کی کیفیتوں) کے ساتھ پکارا کرتے تھے، اور ہمارے حضور بڑے عجزو نیاز کے ساتھ گڑگڑاتے تھےo

اَلْحَدِیْث

205/ 24۔ عَنْ أَبِي ھُرَیْرَۃَ رضی اللہ عنہ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَی النَّبِيِّ ﷺ فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللهِ، أَيُّ الصَّدَقَۃِ أَعْظَمُ أَجْرًا؟ قَالَ: أَنْ تَصَدَّقَ وَأَنْتَ صَحِیحٌ شَحِیحٌ، تَخْشَی الْفَقْرَ وَتَأْمُلُ الْغِنٰی۔ وَلَا تُمْھِلُ حَتّٰی إِذَا بَلَغَتِ الْحُلْقُوْمَ۔ قُلْتَ: لِفُـلَانٍ کَذَا وَلِفُـلَانٍ کَذَا، وَقَدْ کَانَ لِفُـلَانٍ۔

مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ۔

205: أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب الزکاۃ، باب أي الصدقۃ أفضل وصدقۃ الشحیح الصحیح، 2/ 515، الرقم/ 1353، ومسلم في الصحیح، کتاب الزکاۃ، باب بیان أن أفضل الصدقۃ الصحیح الشحیح، 2/ 716، الرقم/ 1032، وأحمد بن حنبل في المسند، 2/ 231، الرقم/ 7159، والنسائي في السنن، کتاب الوصایا، باب الکراہیۃ في تأخیر الوصیۃ، 6/ 237، الرقم/ 3611۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان فرمایا: ایک آدمی حضور نبی اکرم ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہو کر عرض گزار ہوا: یا رسول اللہ! کون سا صدقہ ثواب کے لحاظ سے سب سے بڑھ کر ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: یہ کہ تم صدقہ اس حال میں دو جب تم تندرست ہو حالانکہ تمہیں مال کی ضرورت بھی ہو تم تنگ دستی سے خائف بھی ہو اور غنا کے اُمیدوار بھی ہو۔ اس (خیرات) میں اتنی دیر نہ کرو کہ جان گلے میں آ پھنسے اور تب کہو کہ اتنا مال فلاں کے لیے اور اتنا فلاں کے لیے ہے، حالانکہ اب تو وہ (تمہارے کہے بغیر بھی) فلاں کا ہو چکا ہے۔

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

206/ 25۔ وَفي رِوَایَۃٍ عَنْهُ رضی اللہ عنہ، أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ: بَادِرُوْا بِالْأَعْمَالِ فِتَنًا کَقِطَعِ اللَّیْلِ الْمُظْلِمِ، یُصْبِحُ الرَّجُلُ مُؤْمِنًا وَیُمْسِي کَافِرًا، أَوْ یُمْسِي مُؤْمِنًا وَیُصْبِحُ کَافِرًا، یَبِیْعُ دِیْنَہٗ بِعَرَضٍ مِنَ الدُّنْیَا۔

رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ وَالتِّرْمِذِيُّ وَابْنُ حِبَّانَ۔

206: أخرجہ مسلم في الصحیح، کتاب الإیمان، باب الحث علی المبادرۃ بالأعمال قبل تظاھر الفتن، 1/ 110، الرقم/ 118، وأحمد بن حنبل في المسند، 2/ 303، الرقم/ 8017، والترمذي في السنن، کتاب الفتن، باب ما جاء ستکون فتن کقطع اللیل المظلم، 4/ 487، الرقم/ 2195، وابن حبان في الصحیحِ، 15/ 96، الرقم/ 6704، وأبویعلی في المسند، 11/ 396، الرقم/ 6515، والطبراني في المعجم الأوسط، 3/ 156، الرقم/ 2774۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے ہی مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ان فتنوں کے واقع ہونے سے پہلے نیک اعمال کر لو جو اندھیری رات کی طرح چھا جائیں گے۔ ایک شخص صبح مومن ہو گا اور شام کو کافر ہو جائے گا، یا شام کو مومن ہو گا اور صبح کو کافر ہو جائے گا۔ اور معمولی سی دُنیاوی منفعت کے عوض اپنی متاعِ ایمان فروخت کر ڈالے گا۔

اِسے امام مسلم، اَحمد، ترمذی اور ابن حبان نے روایت کیا ہے۔

207/ 26۔ وَفِي رِوَایَۃٍ عَنْهُ رضی اللہ عنہ أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ: بَادِرُوْا بِالْأَعْمَالِ سَبْعًا: هَلْ تَنْتَظِرُوْنَ إِلَّا فَقْرًا مُنْسِیًا، أَوْ غِنًی مُطْغِیًا، أَوْ مَرَضًا مُفْسِدًا، أَوْ هَرَمًا مُفَنِّدًا، أَوْ مَوْتًا مُجْھِزًا، أَوِ الدَّجَّالَ، فَشَرُّ غَائِبٍ یُنْتَظَرُ أَوِ السَّاعَۃَ، فَالسَّاعَۃُ أَدْهٰی وَأَمَرُّ۔

رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالْبَیْهَقِيُّ۔ وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: ھٰذَا حَدِیثٌ حَسَنٌ غَرِیبٌ۔

207: أخرجہ الترمذي في السنن، کتاب الزہد، باب ما جاء في المبادرۃ بالعمل، 4/ 552، الرقم/ 2306، والبیہقي في شعب الإیمان، 7/ 357، الرقم/ 10572۔

اور آپ رضی اللہ عنہ ہی سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: سات باتوں کے آنے سے پہلے اعمالِ صالحہ میں جلدی کرو: (1) کیا تم بھلا دینے والے فقر کا انتظار کرتے ہو، یا (2) سرکش کر دینے والی امیری کا، یا (3) فاسد کر دینے والی بیماری کا انتظار کرتے ہو، یا (4) مخبوط الحواس کر دینے والے بڑھاپے کا، یا (5) جلد رخصت کرنے والی موت کے منتظر ہو، یا (6) دجال کے (آنکھوں سے) اُوجھل شر کا انتظار کیا جا رہا ہے یا (7) قیامت کے دن کا حالانکہ قیامت تو بہت ہی سخت اور کڑوی ہے۔

اِسے امام ترمذی اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی فرماتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔

Copyrights © 2025 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved