Islam awr Khidmat e Insaniyat

باب 5 :خِدْمَۃُ الْبَشَرِیَّۃِ عَبْرَ إِعْلَاءِ الْقِیَمِ الإِنْسَانِیَّۃِ

اَلْبَابُ الْخَامِسُ

{انسانی اقدار کی سر بلندی کے ذریعے خدمتِ انسانیت}

٭ تخریج حامد الازھری صاحب نے چیک کی اس کے بعد فیض اللہ بغدادی صاحب نے ریویو کیا۔ اصلاحات کا اندراج حامد سمیع نے کر دیا گیا۔ جنہیں بعد ازاں کمپیوٹر میں اجمل علی مجددی نے چیک کیا۔

٭ حامد الازہری صاحب، اقبال چشتی، کالامی صاحب اور محمد علی صاحب نے باب چیک کیا۔ اصلاحات کے اندراج کے بعد کمپیوٹر میں چیک کر کے حافظ فرحان ثنائی نے باب فائنل کیا۔

٭ ڈاکٹر فیض اللہ بغدادی صاحب اور محمد فاروق رانا نے چیک کیا۔ محمد یامین، کاشف، حامد سمیع، نے اصلاحات کا اندراج کیا، جن کی توثیق زمان احمد مصطفوی نے کمپیوٹر میں چیک کرکے کی۔ بعد ازاں اجمل صاحب نے کمپیوٹر میں اصلاحات چیک کرکے باب کو فائنل کیا۔

اَلإِحْسَانُ إِلَی النَّاسِ وَفَضْلُہٗ

{لوگوں کے ساتھ اِحسان کرنے کی فضیلت}

اَلْقُرْآن

(1) وَ اَنْفِقُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ لَا تُلْقُوْا بِاَیْدِیْكُمْ اِلَی التَّهْلُكَةِ ۛۖۚ وَ اَحْسِنُوْا ۛۚ اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَo

(البقرۃ، 2/ 195)

اور اللہ کی راہ میں خرچ کرو اور اپنے ہی ہاتھوں خود کو ہلاکت میں نہ ڈالو، اور نیکی اختیار کرو، بے شک اللہ نیکوکاروں سے محبت فرماتا ہےo

(2) وَ مِنْهُمْ مَّنْ یَّقُوْلُ رَبَّنَاۤ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَةً وَّ فِی الْاٰخِرَةِ حَسَنَةً وَّ قِنَا عَذَابَ النَّارِo اُولٰٓىِٕكَ لَهُمْ نَصِیْبٌ مِّمَّا كَسَبُوْا ؕ وَ اللّٰهُ سَرِیْعُ الْحِسَابِo

(البقرۃ، 2/ 201-202)

اور انہی میں سے ایسے بھی ہیں جو عرض کرتے ہیں: اے ہمارے پروردگار! ہمیں دنیا میں (بھی) بھلائی عطا فرما اور آخرت میں (بھی) بھلائی سے نواز اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے محفوظ رکھo یہی وہ لوگ ہیں جن کے لیے ان کی (نیک) کمائی میں سے حصہ ہے، اور اللہ جلد حساب کرنے والا ہےo

(3) الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ فِی السَّرَّآءِ وَ الضَّرَّآءِ وَ الْكٰظِمِیْنَ الْغَیْظَ وَ الْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِ ؕ وَ اللّٰهُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَۚo

(آل عمران، 3/ 134)

یہ وہ لوگ ہیں جو فراخی اور تنگی (دونوں حالتوں) میں خرچ کرتے ہیں اور غصہ ضبط کرنے والے ہیں اور لوگوں سے (ان کی غلطیوں پر) درگزر کرنے والے ہیں، اور اللہ احسان کرنے والوں سے محبت فرماتا ہےo

(4) لَیْسَ عَلَی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ جُنَاحٌ فِیْمَا طَعِمُوْۤا اِذَا مَا اتَّقَوْا وَّ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ ثُمَّ اتَّقَوْا وَّ اٰمَنُوْا ثُمَّ اتَّقَوْا وَّ اَحْسَنُوْا ؕ وَ اللّٰهُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ۠o

(المائدۃ، 5/ 93)

ان لوگوں پر جو ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے اس (حرام) میں کوئی گناہ نہیں جو وہ (حکمِ حرمت اترنے سے پہلے) کھا پی چکے ہیں جب کہ وہ (بقیہ معاملات میں) بچتے رہے اور (دیگر اَحکامِ اِلٰہی پر) ایمان لائے اور اَعمالِ صالحہ پر عمل پیرا رہے، پھر (اَحکامِ حرمت کے آجانے کے بعد بھی ان سب حرام اَشیاء سے) پرہیز کرتے رہے اور (اُن کی حرمت پر صدقِ دل سے) ایمان لائے، پھر صاحبانِ تقویٰ ہوئے اور (بالآخر) صاحبانِ اِحسان (یعنی اللہ کے خاص محبوب و مقرب و نیکوکار بندے) بن گئے، اور اللہ اِحسان والوں سے محبت فرماتا ہےo

(5) وَ لَا تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ بَعْدَ اِصْلَاحِهَا وَ ادْعُوْهُ خَوْفًا وَّ طَمَعًا ؕ اِنَّ رَحْمَتَ اللّٰهِ قَرِیْبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِیْنَo

(الأعراف، 7/ 56)

اور زمین میں اس کے سنور جانے (یعنی ملک کا ماحولِ حیات درست ہو جانے) کے بعد فساد انگیزی نہ کرو اور (اس کے عذاب سے) ڈرتے ہوئے اور (اس کی رحمت کی) امید رکھتے ہوئے اس سے دعا کرتے رہا کرو، بے شک اللہ کی رحمت احسان شعار لوگوں (یعنی نیکوکاروں) کے قریب ہوتی ہےo

(6) لَیْسَ عَلَی الضُّعَفَآءِ وَ لَا عَلَی الْمَرْضٰی وَ لَا عَلَی الَّذِیْنَ لَا یَجِدُوْنَ مَا یُنْفِقُوْنَ حَرَجٌ اِذَا نَصَحُوْا لِلّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ ؕ مَا عَلَی الْمُحْسِنِیْنَ مِنْ سَبِیْلٍ ؕ وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌۙo

(التوبۃ، 9/ 91)

ضعیفوں (کمزوروں) پر کوئی گناہ نہیں اور نہ بیماروں پر اور نہ (ہی) ایسے لوگوں پر ہے جو اس قدر (وسعت بھی) نہیں پاتے جسے خرچ کریں جب کہ وہ اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) کے لیے خالص و مخلص ہو چکے ہوں، نیکوکاروں (یعنی صاحبانِ احسان) پر الزام کی کوئی راہ نہیں اور اللہ بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہےo

(7) اِنَّ اللّٰهَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَ الْاِحْسَانِ وَ اِیْتَآئِ ذِی الْقُرْبٰی وَ یَنْهٰی عَنِ الْفَحْشَآءِ وَ الْمُنْكَرِ وَ الْبَغْیِ ۚ یَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَo

(النحل، 16/ 90)

بے شک اللہ (ہر ایک کے ساتھ) عدل اور احسان کا حکم فرماتا ہے اور قرابت داروں کو دیتے رہنے کا اور بے حیائی اور برے کاموں اور سرکشی و نافرمانی سے منع فرماتا ہے، وہ تمہیں نصیحت فرماتا ہے تاکہ تم خوب یاد رکھوo

(8) هَلْ جَزَآءُ الْاِحْسَانِ اِلَّا الْاِحْسَانُۚo

(الرحمٰن، 55/ 60)

نیکی کا بدلہ نیکی کے سوا کچھ نہیں ہےo

اَلْحَدِیْث

208/ 1۔ عَنْ أَبِي ھُرَیْرَۃَ رضی اللہ عنہ أَنَّ رَجُلًا قَالَ: یَا رَسُوْلَ اللهِ، إِنَّ لِي قَرَابَۃً أَصِلُھُمْ وَیَقْطَعُونِي، وَأُحْسِنُ إِلَیْھِمْ وَیُسِیْئُوْنَ إِلَيَّ، وَأَحْلُمُ عَنْھُمْ وَیَجْهَلُوْنَ عَلَيَّ۔ فَقَالَ: لَئِنْ کُنْتَ کَمَا قُلْتَ، فَکَأَنَّمَا تُسِفُّهُمُ الْمَلَّ، وَلَا یَزَالُ مَعَکَ مِنَ اللهِ ظَهِیْرٌ عَلَیْھِمْ مَا دُمْتَ عَلٰی ذٰلِکَ۔

رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ وَابْنُ حِبَّانَ وَالطَّبَرَانِيُّ۔

208: أخرجہ مسلم في الصحیح، کتاب البر والصلۃ والآداب، باب صلۃ الرحم وتحریم قطیعتھا، 4/ 1982، الرقم/ 2558، وأحمد بن حنبل في المسند، 2/ 300، الرقم/ 7979، وابن حبان في الصحیح، 2/ 195، الرقم/ 450، والطبراني في المعجم الأوسط، 3/ 157- 158، الرقم/ 2786۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک شخص نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میرے (بعض) رشتہ دار ایسے ہیں کہ میں اُن سے تعلق جوڑتا ہوں اور وہ مجھ سے تعلق توڑتے ہیں، میں اُن کے ساتھ نیکی کرتا ہوں اور وہ میرے ساتھ برائی کرتے ہیں، میں اُن کے ساتھ بُردباری سے پیش آتا ہوں اور وہ میرے ساتھ جہالت آمیز سلوک کرتے ہیں۔ (اَب میرے بارے میں کیا حکم ہے؟) آپ ﷺ نے فرمایا: اگر تم ایسے ہی کرتے ہو جیسا تم نے کہا ہے تو گویا تم اُنہیں جلتی ہوئی راکھ کھلا رہے ہو، اور جب تک تم اِس رَوِش پر رہو گے، اللہ تعالیٰ کی طرف سے اُن کے مقابلہ میں ہمیشہ تمہارے ساتھ ایک مددگار (فرشتہ) رہے گا۔

اِسے امام مسلم، احمد، ابنِ حبان اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔

209/ 2۔ وَفِي رِوَایَۃِ شَدَّادِ بْنِ أَوْسٍ رضی اللہ عنہ، قَالَ: ثِنْتَانِ حَفِظْتُھُمَا عَنْ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ قَالَ: إِنَّ اللهَ کَتَبَ الْإِحْسَانَ عَلٰی کُلِّ شَيئٍ، فَإِذَا قَتَلْتُمْ فَأَحْسِنُوا الْقِتْلَۃَ، وَإِذَا ذَبَحْتُمْ فَأَحْسِنُوا الذَّبْحَ، وَلْیُحِدَّ أَحَدُکُمْ شَفْرَتَہٗ فَلْیُرِحْ ذَبِیْحَتَہٗ۔

رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ وَأَبُوْ دَاوٗدَ وَالتِّرْمِذِيُّ وَالنسايُّ وَابْنُ مَاجَہ۔

209: أخرجہ مسلم في الصحیح، کتاب الصید والذبائح، باب الأمر بإحسان الذبح والقتل وتحدید الشفرۃ، 3/ 1548، الرقم/ 1955، وأحمد بن حنبل في المسند، 4/ 123، 125، الرقم/ 17154، 17179، وأبو داود في السنن، کتاب الضحایا، باب في النھي أن تصبر البھائم والرفق بالذبیحۃ، 3/ 100، الرقم/ 2815، والترمذي في السنن، کتاب الدیات، باب ما جاء في النھي عن المثلۃ، 4/ 23، الرقم/ 1409، والنساي في السنن، کتاب الضحایا، باب الأمر بإحداد الشفرۃ، 7/ 227، الرقم/ 4405، وأیضًا في باب حسن الذبح، 7/ 229، الرقم/ 4412، وابن ماجہ في السنن، کتاب الذبائح، باب إذا ذبحتم فأحسنوا الذبح، 2/ 1058، الرقم/ 3170۔

ایک روایت میں حضرت شداد بن اوس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اُنہوں نے رسول اللہ ﷺ سے دو باتیں یاد کر رکھی ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: بے شک اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کے ساتھ حسنِ سلوک کا حکم دیا ہے، سو جب تم (جنگ میں یا بطور قصاص) کسی کو قتل کرو تو احسن طریقے سے قتل کرو (یعنی ایذا دے کر یا مسخ کر کے قتل نہ کرو)۔ جب تم (کسی جانور کو) ذبح کرو تو احسن طریقے سے ذبح کرو۔ تم میں سے (ذبح کرنے والے) ہر شخص کو چاہیے کہ وہ اپنی چھری کو تیز کر لے، اور اِس طرح ذبح ہونے والے اپنے جانور کو (ذبح کی تکلیف سے جلد نجات دلا کر) راحت پہنچائے۔

اِسے امام مسلم، احمد، ابو داود، ترمذی، نسائی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔

210/ 3۔ وَفِي رِوَایَۃِ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی اللہ عنہ أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ: انْطَلِقُوْا بِاسْمِ اللهِ وَبِاللهِ وَعَلٰی مِلَّۃِ رَسُوْلِ اللهِ۔ وَلَا تَقْتُلُوْا شَیْخًا فَانِیًا، وَلَا طِفْـلًا، وَلَا صَغِیْرًا، وَلَا امْرَأَۃً۔ وَلَا تَغُلُّوْا وَضُمُّوْا غَنَائِمَکُمْ۔ وَأَصْلِحُوْا، وَأَحْسِنُوْا؛ إِنَّ اللهَ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ۔

رَوَاهُ أَبُوْ دَاوُدَ وَالْبَیْهَقِيُّ۔

210: أخرجہ أبو داود في السنن، کتاب الجھاد، باب في دعاء المشرکین، 3/ 37، الرقم/ 2614، والبیھقي في السنن الکبری، 9/ 90، الرقم/ 17932، وابن عبد البر في التمھید، 24/ 233، والتمام الرازي في الفوائد، 1/ 90، الرقم/ 200، والزیلعي في نصب الرایۃ، 3/ 386۔

ایک روایت میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کا نام لے کر، اللہ تعالیٰ (کے دھیان) کے ساتھ اور رسول اللہ ﷺ کے طریقے (سنت) کے مطابق (جہاد کے لیے) چلا کرو۔ کسی بہت بوڑھے شخص، شیر خوار بچے، نابالغ لڑکے اور کسی عورت کو قتل نہ کرو۔ مالِ غنیمت میں خیانت نہ کرو اور اپنے مالِ غنیمت کو اکٹھا کر لو۔ نیز اصلاح کرو اور احسان کرو کیوں کہ اللہ تعالیٰ احسان کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔

اِسے امام ابو داود اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔

211/ 4۔ وَفِي رِوَایَۃِ حُذَیْفَۃَ رضی اللہ عنہ، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: لَا تَکُوْنُوْا إِمَّعَۃً۔ تَقُوْلُوْنَ: إِنْ أَحْسَنَ النَّاسُ أَحْسَنَّا، وَإِنْ ظَلَمُوْا ظَلَمْنَا، وَلٰـکِنْ وَطِّنُوْا أَنْفُسَکُمْ: إِنْ أَحْسَنَ النَّاسُ أَنْ تُحْسِنُوْا وَإِنْ أَسَائُوْا فَـلَا تَظْلِمُوْا۔

رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالْبَزَّارُ۔ وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: ھٰذَا حَدِیْثٌ حَسَنٌ۔

211: أخرجہ الترمذي في السنن، کتاب البر والصلۃ، باب ما جاء في الإحسان والعفو، 4/ 364، الرقم/ 2007، والبزار في المسند، 7/ 229، الرقم/ 2802، وذکرہ المنذري في الترغیب والترھیب، 3/ 231، الرقم/ 3812۔

ایک روایت میں حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تم ہر ایک کی رائے پر نہ چلو، یعنی یوں نہ کہو کہ اگر لوگ بھلائی کریں گے تو ہم بھی بھلائی کریں گے، اور اگر وہ ظلم کریں گے تو ہم بھی ظلم کریں گے، بلکہ اپنے آپ کو اس بات پر آمادہ رکھو کہ اگر لوگ بھلائی کریں تو تم بھی بھلائی کرو گے اور اگر برائی کریں تو تم ظلم نہیں کرو گے۔

اِسے امام ترمذی اور بزار نے روایت کیا ہے۔ نیز امام ترمذی نے فرمایا: یہ حدیث حسن ہے۔

212/ 5۔ عَنْ أَبِي شُرَیْحٍ الْخُزَاعِيِّ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: مَنْ کَانَ یُؤْمِنُ بِاللهِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ فَلْیُحْسِنْ إِلٰی جَارِہٖ۔

رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَابْنُ مَاجَہ وَالدَّارِمِيُّ۔

212: أخرجہ مسلم في الصحیح، کتاب الإیمان، باب الحث إلی إکرام الجار، 1/ 69، الرقم/ 48، وابن ماجہ في السنن، کتاب الأدب، باب حق الجار، 2/ 1211، الرقم/ 3672، والدارمي في السنن، 2/ 134، الرقم/ 2035، والطبراني في المعجم الکبیر، 22/ 192، الرقم/ 501۔

حضرت ابو شریح الخزاعی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جو شخص اللہ تعالیٰ اور روزِ آخرت پر ایمان رکھتا ہے، اُسے چاہیے کہ اپنے پڑوسی کے ساتھ حسنِ سلوک سے پیش آئے۔

اِسے امام مسلم، ابن ماجہ اور دارمی نے روایت کیا ہے۔

213/ 6۔ وَفِي رِوَایَۃِ عَبْدِ اللهِ رضی اللہ عنہ قَالَ: قَالَ رَجُلٌ: یَا رَسُوْلَ اللهِ، مَتٰی أَکُوْنُ مُحْسِنًا؟ قَالَ: إِذَا قَالَ جِیْرَانُکَ: أَنْتَ مُحْسِنٌ، فَأَنْتَ مُحْسِنٌ، وَإِذَا قَالُوْا: إِنَّکَ مُسِيئٌ فَأَنْتَ مُسِيئٌ۔

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَ ابْنُ مَاجَہ وَالْبَزَّارُ وَابْنُ حِبَّانَ واللَّفْظُ لَہٗ۔

213: أخرجہ أحمد بن حنبل في المسند، 1/ 402، الرقم/ 3808، وابن ماجہ في السنن، کتاب الزھد، باب الثناء الحسن، 2/ 1411، الرقم/ 4222، 4223، والبزار في المسند، 5/ 98، الرقم/ 1675، وابن حبان في الصحیح، 2/ 284، الرقم/ 525، والحاکم في المستدرک عن أبي ہریرۃ رضی اللہ عنہ، 1/ 534، الرقم/ 1399۔

ایک روایت میں حضرت عبد اللہ (بن مسعود) رضی اللہ عنہم بیان کرتے ہیں: ایک شخص نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میں صاحبِ احسان کب بنوں گا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: جب تیرا پڑوسی کہے: تم حسنِ سلوک کرنے والے ہو، تو تم محسن ہو؛ اور جب وہ کہے کہ تم برائی کرنے والے ہو تو تم برے ہو۔

اِسے امام احمد، ابن ماجہ، بزار اور ابن حبان نے روایت کیا ہے۔ مذکورہ الفاظ ابن حبان کے ہیں۔

214-215/ 7۔ وَفِي رِوَایَۃِ جَابِرٍ رضی اللہ عنہ، أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ: إِنَّ مِنْ أَحَبِّکُمْ إِلَيَّ وَأَقْرَبِکُمْ مِنِّي مَجْلِسًا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ، أَحَاسِنَکُمْ أَخْـلَاقًا۔

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالتِّرْمِذِيُّ وَاللَّفْظُ لَہٗ وَابْنُ حِبَّانَ۔ وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: ھٰذَا حَدِیْثٌ حَسَنٌ۔

214: أخرجہ أحمد بن حنبل في المسند عن عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہم، 2/ 185، 217، الرقم/ 6735، 7035، والترمذي في السنن، کتاب البر والصلۃ، باب ما جاء في معالي الأخلاق، 4/ 370، الرقم/ 2018، وابن حبان في الصحیح عن عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہم، 2/ 235، الرقم/ 485، والبیہقي في شعب الإیمان عن أبي ثعلبۃ الخشني رضی اللہ عنہ، 6/ 234، الرقم/ 7989۔

ایک روایت میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تم میں سے مجھے سب سے زیادہ محبوب اور قیامت کے دن میرے سب سے قریب بیٹھنے والے وہ لوگ ہیں جو تم میں سب سے بہتر اخلاق والے ہیں۔

اِسے امام احمد نے، ترمذی نے مذکورہ الفاظ کے ساتھ اور ابن حبان نے روایت کیا ہے۔ نیز امام ترمذی نے فرمایا: یہ حدیث حسن ہے۔

(215) وَفِي رِوَایَۃِ عَائِشَۃَ رضی اللہ عنہ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: إِنَّ الرَّجُلَ لَیُدْرِکُ بِحُسْنِ خُلُقِہٖ دَرَجَۃَ الصَّائِمِ الْقَائِمِ۔

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَأَبُوْدَاوُدَ وَالْحَاکِمُ وَابْنُ حِبَّانَ۔ وَقَالَ الْحَاکِمُ: ھٰذَا حَدِیْثٌ عَلٰی شَرْطِ الشَّیْخَیْنِ۔

215: أخرجہ أحمد بن حنبل في المسند، 6/ 187، الرقم/ 25578، وأبو داود في السنن، کتاب الأدب، باب في حسن الخلق، 4/ 252، الرقم/ 4798، والحاکم في المستدرک، 1/ 128، الرقم/ 199، وابن حبان في الصحیح، 2/ 228، الرقم/ 480، والبیہقي في شعب الإیمان، 6/ 236، الرقم/ 7997۔

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: آدمی حسنِ اخلاق کے ذریعے (دن کو) روزہ رکھنے والے اور (راتوں کو) قیام کرنے والے جیسا (بلند) درجہ حاصل کر لیتا ہے۔

اِسے امام احمد، ابو داود، حاکم اور ابن حبان نے روایت کیا ہے۔ امام حاکم فرماتے ہیں: یہ حدیث شیخین کی شرط پر (صحیح) ہے۔

216/ 8۔ وَفِي رِوَایَۃِ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی اللہ عنہ، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: إِذَا جَمَعَ اللهُ الْأَوَّلِیْنَ وَالآخَرِیْنَ، یُنَادِي مُنَادٍ فِي صَعِیْدٍ وَاحِدٍ مِنْ بُطْنَانِ الْعَرْشِ: أَیْنَ أَھْلُ الْمَعْرِفَۃِ بِاللهِ؟ أَیْنَ الْمُحْسِنُوْنَ؟ قَالَ: فَیَقُوْمُ عُنُقٌ مِنَ النَّاسِ حَتّٰی یَقِفُوْا بَیْنَ یَدَيِ اللهِ، فَیَقُوْلُ، وَھُوَ أَعْلَمُ بِذٰلِکَ: مَا أَنْتُمْ؟ فَیَقُوْلُوْنَ: نَحْنُ أَھْلُ الْمَعْرِفَۃِ الَّذِیْنَ عَرَّفْتَنَا إِیَّاکَ وَجَعَلْتَنَا أَھْلًا لِذٰلِکَ۔ فَیَقُوْلُ: صَدَقْتُمْ۔ ثُمَّ یَقُوْلُ لِلآخَرِیْنَ: مَا أَنْتُمْ؟ قَالُوْا: نَحْنُ الْمُحْسِنُوْنَ۔ قَالَ: صَدَقْتُمْ، قُلْتُ لِنَبِيٍّ: {مَا عَلَی الْمُحْسِنِیْنَ مِنْ سَبِیْلٍ} [التوبۃ، 9/ 91]، مَا عَلَیْکُم مِنْ سَبِیْلٍ، ادْخُلُوا الْجَنَّۃَ بِرَحْمَتِي۔ ثُمَّ تَبَسَّمَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ، فَقَالَ: لَقَدْ نَجَّاھُمُ اللهُ مِنْ أَھْوَالِ بِوَائِقِ الْقِیَامَۃِ۔

رَوَاهُ أَبُو نُعَیْمٍ فِي الْأَرْبَعِیْنَ۔

216: أخرجہ أبو نعیم في کتاب الأربعین/ 100، الرقم/ 51، وذکرہ المناوي في فیض القدیر، 1/ 420، الرقم/ 4۔

ایک روایت میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ جب اَوّلین و آخرین کو جمع فرمائے گا، تو ایک پکارنے والا عرش کے پایوں تلے ایک میدان سے صدا دے گا: کہاں ہیں اللہ تعالیٰ کی معرفت کا دم بھرنے والے؟ کہاں ہیں صاحبانِ اِحسان؟ آپ ﷺ نے فرمایا: تب لوگوں میں سے ایک گروہ اللہ تعالیٰ کے سامنے آکھڑا ہو گا، وہ (یعنی اللہ تعالیٰ اُنہیں) فرمائے گا، حالانکہ وہ بہتر جاننے والا ہے: تم کون ہو؟ وہ لوگ عرض کریں گے: ہم اَہلِ معرفت ہیں، جنہیں تو نے خود اپنی معرفت عطا فرمائی اور ہمیں اس معرفت کا اَہل بنایا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: تم نے سچ کہا۔ پھر دوسرے گروہ سے پوچھے گا: تم کون ہو؟ وہ عرض کریں گے: ہم صاحبانِ اِحسان ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: تم نے سچ کہا، میں نے اپنے نبی سے فرمایا تھا: {مَا عَلَی الْمُحْسِنِیْنَ مِنْ سَبِیْلٍ} ’صاحبانِ احسان پر الزام کی کوئی راہ نہیں‘؛ لہٰذا تم پر بھی اِلزام کی کوئی راہ نہیں۔ میری رحمت کے ساتھ (سیدھے) جنت میں داخل ہو جائو۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے تبسم فرمایا اور ارشاد فرمایا: یقینا اللہ تعالیٰ انہیں قیامت کی مصیبتوں کے خوف سے نجات دے دے گا۔

اِسے امام ابو نعیم نے ’کتاب الاربعین‘ میں روایت کیا ہے۔

اَلتَّعَامُلُ مَعَ الْوَالِدَیْنِ بِالْبِرِّ وَالْمُلَاطَفَۃِ

{والدین کے ساتھ حسنِ سلوک، نیکی اور ملاطفت}

اَلْقُرْآن

(1) وَ اِذْ اَخَذْنَا مِیْثَاقَ بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ لَا تَعْبُدُوْنَ اِلَّا اللّٰهَ ۫ وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا وَّ ذِی الْقُرْبٰی وَ الْیَتٰمٰی وَ الْمَسٰكِیْنِ وَ قُوْلُوْا لِلنَّاسِ حُسْنًا وَّ اَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتُوا الزَّكٰوةَ ؕ ثُمَّ تَوَلَّیْتُمْ اِلَّا قَلِیْلًا مِّنْكُمْ وَ اَنْتُمْ مُّعْرِضُوْنَo

(البقرۃ، 2/ 83)

اور (یاد کرو) جب ہم نے اولادِ یعقوب سے پختہ وعدہ لیا کہ اللہ کے سوا (کسی اور کی) عبادت نہ کرنا، اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرنا اور قرابت داروں اور یتیموں اور محتاجوں کے ساتھ بھی (بھلائی کرنا) اور عام لوگوں سے (بھی نرمی اور خوش خُلقی کے ساتھ) نیکی کی بات کہنا اور نماز قائم رکھنا اور زکوٰۃ دیتے رہنا، پھر تم میں سے چند لوگوں کے سوا سارے (اس عہد سے) رُوگرداں ہوگئے اور تم (حق سے) گریز ہی کرنے والے ہوo

(2) وَ قَضٰی رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْۤا اِلَّاۤ اِیَّاهُ وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا ؕ اِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ اَحَدُهُمَاۤ اَوْ كِلٰهُمَا فَلَا تَقُلْ لَّهُمَاۤ اُفٍّ وَّ لَا تَنْهَرْهُمَا وَ قُلْ لَّهُمَا قَوْلًا كَرِیْمًاo وَ اخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَ قُلْ رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّیٰنِیْ صَغِیْرًاؕo

(الإسراء، 17/ 23-24)

اور آپ کے رب نے حکم فرما دیا ہے کہ تم اللہ کے سوا کسی کی عبادت مت کرو اور والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کیا کرو، اگر تمہارے سامنے دونوں میں سے کوئی ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو انہیں ’اُف‘ بھی نہ کہنا اور انہیں جھڑکنا بھی نہیں اور ان دونوں کے ساتھ بڑے ادب سے بات کیا کروo اور ان دونوں کے لیے نرم دلی سے عجزوانکساری کے بازو جھکائے رکھو اور (اللہ کے حضور) عرض کرتے رہو: اے میرے رب! ان دونوں پر رحم فرما جیسا کہ انہوں نے بچپن میں مجھے (رحمت و شفقت سے) پالا تھاo

اَلْحَدِیْث

217/ 9۔ عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُودٍ رضی اللہ عنہ قَالَ: سَأَلْتُ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ: أَيُّ الْعَمَلِ أَحَبُّ إِلَی اللهِ؟ قَالَ: الصَّلَاۃُ عَلٰی وَقْتِھَا۔ قَالَ: ثُمَّ أَيٌّ؟ قَالَ: بِرُّ الْوَالِدَیْنِ۔

مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ۔

217: أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب الأدب، باب البر والصلۃ، 5/ 2227، الرقم/ 5625، وأیضًا في کتاب مواقیت الصلاۃ، باب فضل الصلاۃ لوقتھا، 1/ 197، الرقم/ 504، ومسلم في الصحیح، کتاب الإیمان، باب بیان کون الإیمان باللہ تعالی أفضل الأعمال، 1/ 89، الرقم/ 85۔

حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا: اللہ تعالیٰ کو کون سا عمل سب سے زیادہ پسند ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: وقت پر نماز پڑھنا۔ (راوی کہتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہم نے دوبارہ) عرض کیا: پھر کون سا (عمل)؟ آپ ﷺ نے فرمایا: والدین سے حسنِ سلوک کرنا۔

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

218/ 10۔ عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو رضی اللہ عنہم قَالَ: رضی اللہ عنہ م رَجُلٌ إِلَی النَّبِيِّ ﷺ فَاسْتَأْذَنَہٗ فِي الْجِھَادِ، فَقَالَ: أَحَيٌّ وَالِدَاکَ؟ قَالَ: نَعَمْ۔ قَالَ: فَفِیْھِمَا فَجَاھِدْ۔

مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ۔

218: أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب الجہاد والسیر، باب الجھاد بإذن الأبوین، 3/ 1094، الرقم/ 2842، ومسلم في الصحیح، کتاب البر والصلۃ والآداب، باب بر الوالدین وأنہما أحق بہ، 4/ 1975، الرقم/ 2549۔

حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک شخص نے حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہو کر جہاد پر جانے کی اجازت چاہی۔ آپﷺ نے فرمایا: کیا تمہارے ماں باپ زندہ ہیں؟ اس نے عرض کیا: جی ہاں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اُن کی خدمت میں (رہ کر ہی) جہاد کر۔

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

219/ 11۔ وَفِي رِوَایَۃٍ عَنْهُ رضی اللہ عنہ قَالَ: أَقْبَلَ رَجُلٌ إِلٰی نَبِيِّ اللهِ ﷺ فَقَالَ: أُبَایِعُکَ عَلَی الْهِجْرَۃِ وَالْجِھَادِ أَبْتَغِي الْأَجْرَ مِنَ اللهِ۔ قَالَ: فَھَلْ مِنْ وَالِدَیْکَ أَحَدٌ حَيٌّ؟ قَالَ: نَعَمْ، بَلْ کِلَاھُمَا۔ قَالَ: فَتَبْتَغِي الْأَجْرَ مِنَ اللهِ؟ قَالَ: نَعَمْ۔ قَالَ: فَارْجِعْ إِلٰی وَالِدَیْکَ، فَأَحْسِنْ صُحْبَتَھُمَا۔

رَوَاهُ مُسْلِمٌ۔

219: أخرجہ مسلم في الصحیح، کتاب البر والصلۃ والآداب، باب بر الوالدین وأنھما أحق بہ، 4/ 1975، الرقم/ 2549، وسعید بن منصور بن السنن، 2/ 164، الرقم: 2335۔

اور آپ ہی سے مروی ہے کہ ایک شخص نے اللہ تعالیٰ کے نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا: (یا رسول اللہ!) میں اجر و ثواب کے لیے آپ سے جہاد اور ہجرت کی بیعت کرنا چاہتا ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: کیا تمہارے والدین میں سے کوئی زندہ ہے؟ اس نے عرض کیا: جی ہاں، بلکہ دونوں زندہ ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: کیا تو (واقعی) اللہ تعالیٰ سے اجر و ثواب چاہتا ہے؟ اس نے عرض کیا: جی ہاں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اپنے والدین کے پاس جا اور حسنِ سلوک کے ساتھ اُن دونوں کی صحبت اختیار کر۔

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

220/ 12۔ وَفِي رِوَایَۃٍ عَنْهُ رضی اللہ عنہ قَالَ: رضی اللہ عنہ رَجُلٌ إِلٰی رَسُوْلِ اللهِ ﷺ فَقَالَ: جِئْتُ أُبَایِعُکَ عَلَی الْھِجْرَۃِ، وَتَرَکْتُ أَبَوَيَّ یَبْکِیَانِ۔ قَالَ: ارْجِعْ إِلَیْھِمَا فَأَضْحِکْھُمَا کَمَا أَبْکَیْتَھُمَا۔

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَأَبُو دَاوُدَ وَاللَّفْظُ لَہٗ وَالنسايُّ۔

220: أخرجہ أحمد بن حنبل في المسند، 2/ 160، 194، الرقم/ 6490، 6833، وأبو داود في السنن، کتاب الجھاد، باب في الرجل یغزو وأبواہ کارھان، 3/ 17، الرقم/ 2528، والنساي في السنن، کتاب البیعۃ، باب البیعۃ علی الھجرۃ، 7/ 143، الرقم/ 4163۔

آپ ہی سے مروی ہے کہ ایک شخص رسول اللہ ﷺ کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہو کر عرض کرنے لگا: (یا رسول اللہ!) میں آپ سے ہجرت پر بیعت کی غرض سے حاضر ہوا ہوں، درآنحالیکہ میں اپنے ماں باپ کو روتا ہوا چھوڑ آیا ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ان کی طرف واپس جاؤ اور اُنہیں اسی طرح ہنساؤ جیسے تم نے انہیں رُلایا ہے۔

اِسے امام احمد نے ابو داؤد نے مذکورہ الفاظ کے ساتھ اور نسائی نے روایت کیا ہے۔

221/ 13۔ عَنْ جَاھِمَۃَ رضی اللہ عنہ قَالَ: أَتَیْتُ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ أَسْتَشِیْرُہٗ فِي الْجِھَادِ۔ فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ: أَلَکَ وَالِدَانِ؟ قُلْتُ: نَعَمْ۔ قَالَ: إِلْزَمْھُمَا، فَإِنَّ الْجَنَّۃَ تَحْتَ أَرْجُلِھِمَا۔

رَوَاهُ النساءيُّ وَالطَّبَرَانِيُّ وَاللَّفْظُ لَہٗ، وَقَالَ الْھَیْثِمِيُّ: رِجَالُهُ الثِّقَاتُ۔

221: أخرجہ النساءي في السنن، کتاب الجہاد، باب الرخصۃ في التخلف لمن لہ والدۃ، 6/ 11، الرقم/ 3104، والطبراني في المعجم الکبیر، 2/ 289، الرقم/ 2202، وذکرہ المنذري في الترغیب والترھیب، 3/ 217، الرقم/ 3751، والہیثمي في مجمع الزوائد، 8/ 138۔

حضرت جاہمہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ وہ جہاد کا مشورہ لینے کے لیے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوتے۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: کیا تمہارے ماں باپ (زندہ) ہیں؟ میں نے عرض کیا: جی ہاں (زندہ ہیں)۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اُنہی کے ساتھ رہو کیونکہ جنت اُن کے پاؤں تلے ہے۔

اِسے امام نسائی نے اور طبرانی نے مذکورہ الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے۔ امام ہیثمی نے فرمایا: اِس کے رجال ثقہ ہیں۔

222/ 14۔ عَنْ أَنَسٍ رضی اللہ عنہ قَالَ: أَتٰی رَجُلٌ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ، فَقَالَ: إِنِّي أَشْتَهِي الْجِھَادَ وَلَا أَقْدِرُ عَلَیْهِ۔ قَالَ: هَلْ بَقِيَ مِنْ وَالِدَیْکَ أَحَدٌ؟ قَالَ: أُمِّي۔ قَالَ: فَأَبْلِ اللهَ فِي بِرِّھَا۔ فَإِذَا فَعَلْتَ ذٰلِکَ، فَأَنْتَ حَاجٌّ وَمُعْتَمِرٌ وَمُجَاهِدٌ۔ فَإِذَا رَضِیَتْ عَنْکَ أُمُّکَ، فَاتَّقِ اللهَ وَبَرَّھَا۔

رَوَاهُ أَبُو یَعْلٰی وَالطَّبَرَانِيُّ۔ وَقَالَ الْمُنْذِرِيُّ: رَوَاهُ أَبُو یَعْلٰی وَالطَّبَرَانِيُّ فِي الصَّغِیْرِ وَالْأَوْسَطِ، وَإِسْنَادُھُمَا جَیِّدٌ۔

222: أخرجہ أبو یعلی في المسند، 5/ 149، الرقم/ 2760، والطبراني في المعجم الأوسط، 3/ 199، الرقم/ 2915، وأیضاً في المعجم الصغیر، 1/ 144، الرقم/ 218، والمقدسي في الأحادیث المختارۃ، 5/ 226، الرقم/ 1855، وذکرہ المنذري في الترغیب والترہیب، 3/ 216، الرقم/ 3747۔

حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص رسول اللہ ﷺ کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوا اور عرض کیا: (یا رسول اللہ!) میں جہاد کرنے کا خواہش مند ہوں لیکن اس کی استطاعت نہیں رکھتا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: کیا تمہارے والدین میں سے کوئی زندہ ہے؟ اس نے عرض کیا: جی ہاں، میری والدہ زندہ ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اُس کے ساتھ حسنِ سلوک کر کے اللہ کے ساتھ اپنے عہد کو پورا کر، جب تُو نے ایسا کر دیا تو تُو حج کرنے والے، عمرہ کرنے والے اور جہاد کرنے والے کے درجے پر فائز ہوگا۔ جب تمہاری ماں تجھ سے راضی ہو جائے تو تُو اللہ سے ڈرتے رہنا اور اس کے ساتھ مزید بھلائی سے پیش آتے رہنا۔

اِسے امام ابو یعلی اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔ امام منذری نے کہا ہے: اس حدیث کو ابویعلی نے اور طبرانی نے ’المعجم الصغیر‘ اور ’المعجم الأوسط‘ میں اعلیٰ اسناد کے ساتھ روایت کیا ہے۔

223/ 15۔ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضی اللہ عنہا قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: نَوْمُکَ عَلَی السَّرِیْرِ بَرًّا بِوَالِدَیْکَ تُضْحِکُھُمَا وَیُضْحِکَانِکَ أَفْضَلُ مِنْ جِھَادِکَ بِالسَّیْفِ فِي سَبِیْلِ اللهِ سبحانہ وتعالیٰ۔

رَوَاهُ الْبَیْهَقِيُّ فِي الشُّعَبِ۔

223: أخرجہ البیہقي في شعب الإیمان، 6/ 179، الرقم/ 7836۔

حضرت (عبد اللہ) بن عمر رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تمہارا (گھر میں) بستر پر سونا اس حال میں کہ تم والدین کے ساتھ بھلائی سے پیش آتے ہوئے اُنہیں ہنساؤ اور وہ تمہیں ہنسائیں، تمہارے اللہ ل کی راہ میں جہاد بالسیف کرنے سے افضل ہے۔

اِسے امام بیہقی نے ’شعب الایمان‘ میں روایت کیا ہے۔

224/ 16۔ عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَکْرٍ رضی اللہ عنہا قَالَتْ: قَدِمَتْ عَلَيَّ أُمِّي وَهِيَ مُشْرِکَۃٌ فِي عَہْدِ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ۔ فَاسْتَفْتَیْتُ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ۔ قُلْتُ: وَهِيَ رَاغِبَۃٌ، أَفَأَصِلُ أُمِّي؟ قَالَ: نَعَمْ، صِلِي أُمَّکِ۔

مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ۔

224: أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب الہبۃ وفضلھا، باب الہدیۃ للمشرکین، 2/ 924، الرقم/ 2477، ومسلم في الصحیح، کتاب الزکاۃ، باب فضل النفقۃ والصدقۃ علی الأقربین والزوج والأولاد والوالدین ولو کانوا مشرکین، 2/ 696، الرقم/ 1003۔

حضرت اَسماء بنتِ ابی بکر رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: رسول اللہ ﷺ کے عہدِ مبارک میں میری والدہ میرے پاس آئی جب کہ وہ مشرکہ تھی۔ میں نے رسول اللہ ﷺ سے حکم پوچھا اور عرض کیا: وہ (عطیہ یا ہدیہ کی) خواہش مند ہیں، تو کیا میں اپنی والدہ سے صلہ رحمی کروں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ہاں اپنی (غیر مسلم) والدہ سے بھی صلہ رحمی کرو۔

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

225/ 17۔ عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو رضی اللہ عنہا قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: إِنَّ مِنْ أَکْبَرِ الْکَبَائِرِ أَنْ یَلْعَنَ الرَّجُلُ وَالِدَیْهِ۔ قِیْلَ: یَا رَسُوْلَ اللهِ، وَکَیْفَ یَلْعَنُ الرَّجُلُ وَالِدَیْهِ؟ قَالَ: یَسُبُّ الرَّجُلُ أَبَا الرَّجُلِ، فَیَسُبُّ أَبَاهُ، وَیََسُبُّ أُمَّہٗ فَیَسُبُّ أُمَّہٗ۔

مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ۔

225: أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب الأدب، باب لا یَسُبُّ الرَّجل والدیہ، 5/ 2228، الرقم/ 5628، ومسلم في الصحیح، کتاب الإیمان، باب بیان الکبائر وأکبرہا، 1/ 92، الرقم/ 90۔

حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: کبیرہ گناہوں میں سے ایک یہ ہے کہ آدمی اپنے والدین پر لعنت کرے۔ عرض کیا گیا: یا رسول اللہ! کوئی آدمی اپنے والدین پر کس طرح لعنت کر سکتا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ایک آدمی دوسرے آدمی کے والد کو گالی دیتا ہے تو وہ (جواباً) اس کے والد کو گالی دیتا ہے اور جب کوئی کسی کی ماں کو گالی دیتا ہے تو وہ (جواباً) اس کی ماں کو گالی دیتا ہے (گویا یہ خود اپنے ماں باپ کو گالی دینا ہے)۔

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

اَلتَّعَامُلُ مَعَ النِّسَاءِ بِالْبِرِّ وَالْمُلَاطَفَۃِ

{خواتین کے ساتھ حسنِ سلوک اور ملاطفت}

اَلْقُرْآن

(1) لِلرِّجَالِ نَصِیْبٌ مِّمَّا اكْتَسَبُوْا ؕ وَ لِلنِّسَآءِ نَصِیْبٌ مِّمَّا اكْتَسَبْنَ.

(االنساء، 4/ 32)

مردوں کے لیے اس میں سے حصہ ہے جو انہوں نے کمایا، اور عورتوں کے لیے اس میں سے حصہ ہے جو انہوں نے کمایا۔

(2) وَ یَسْتَفْتُوْنَكَ فِی النِّسَآءِ ؕ قُلِ اللّٰهُ یُفْتِیْكُمْ فِیْهِنَّ ۙ وَ مَا یُتْلٰی عَلَیْكُمْ فِی الْكِتٰبِ فِیْ یَتٰمَی النِّسَآءِ الّٰتِیْ لَا تُؤْتُوْنَهُنَّ مَا كُتِبَ لَهُنَّ وَ تَرْغَبُوْنَ اَنْ تَنْكِحُوْهُنَّ وَ الْمُسْتَضْعَفِیْنَ مِنَ الْوِلْدَانِ ۙ وَ اَنْ تَقُوْمُوْا لِلْیَتٰمٰی بِالْقِسْطِ ؕ وَ مَا تَفْعَلُوْا مِنْ خَیْرٍ فَاِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِهٖ عَلِیْمًاo

(النساء، 4/ 127)

اور (اے پیغمبر!) لوگ آپ سے (یتیم) عورتوں کے بارے میں فتویٰ پوچھتے ہیں۔ آپ فرما دیں کہ اللہ تمہیں ان کے بارے میں حکم دیتا ہے اور جو حکم تم کو (پہلے سے) کتابِ مجید میں سنایا جا رہا ہے (وہ بھی) ان یتیم عورتوں ہی کے بارے میں ہے جنہیں تم وہ (حقوق) نہیں دیتے جو ان کے لیے مقرر کیے گئے ہیں اور چاہتے ہو کہ (ان کا مال قبضے میں لینے کی خاطر) ان کے ساتھ خود نکاح کر لو اور نیز بے بس بچوں کے بارے میں (بھی حکم) ہے کہ یتیموں کے معاملے میں انصاف پر قائم رہا کرو اور تم جو بھلائی بھی کروگے تو بے شک اللہ اسے خوب جاننے والا ہےo

(3) وَ لَمَّا وَرَدَ مَآءَ مَدْیَنَ وَجَدَ عَلَیْهِ اُمَّةً مِّنَ النَّاسِ یَسْقُوْنَ ؗ۬ وَ وَجَدَ مِنْ دُوْنِهِمُ امْرَاَتَیْنِ تَذُوْدٰنِ ۚ قَالَ مَا خَطْبُكُمَا ؕ قَالَتَا لَا نَسْقِیْ حَتّٰی یُصْدِرَ الرِّعَآءُ ٚ وَ اَبُوْنَا شَیْخٌ كَبِیْرٌo فَسَقٰی لَهُمَا ثُمَّ تَوَلّٰۤی اِلَی الظِّلِّ فَقَالَ رَبِّ اِنِّیْ لِمَاۤ اَنْزَلْتَ اِلَیَّ مِنْ خَیْرٍ فَقِیْرٌo

(القصص، 28/ 23-24)

اور جب وہ (موسیٰ علیہ السلام ) مَدْیَن کے پانی (کے کنویں)پر پہنچے تو انہوں نے اس پر لوگوں کا ایک ہجوم پایا جو (اپنے جانوروں کو) پانی پلا رہے تھے اور ان سے الگ ایک جانب دو عورتیں دیکھیں جو (اپنی بکریوں کو) روکے ہوئے تھیں(موسیٰ علیہ السلام نے) فرمایا تم دونوں اس حال میں کیوں (کھڑی) ہو ؟ دونوں بولیں کہ ہم (اپنی بکریوں کو) پانی نہیں پلاسکتیں یہانتک کہ چرواہے (اپنے مویشیوں کو) واپس لے جائیں اور ہمارے والد عمر رسیدہ بزرگ ہیںo سو انہوں نے دونوں (کے ریوڑ)کو پانی پلا دیا پھر سایہ کی طرف پلٹ گئے اور عرض کیا: اے رب! میں ہر اس بھلائی کا جو تو میری طرف اتارے محتا ج ہوںo

اَلْحَدِیْث

226/ 18۔ عَنْ أَبِي بُرْدَۃَ رضی اللہ عنہ أَنَّہٗ سَمِعَ أَبَاهُ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: ثَـلَاثَۃٌ یُؤْتَوْنَ أَجْرَھُمْ مَرَّتَیْنِ (وَمِنْھُمْ:) اَلرَّجُلُ تَکُوْنُ لَهُ الْأَمَۃُ فَیُعَلِّمُھَا فَیُحْسِنُ تَعْلِیْمَھَا، وَیُؤَدِّبُھَا فَیُحْسِنُ أَدَبَھَا، ثُمَّ یُعْتِقُھَا فَیَتَزَوَّجُھَا، فَلَہٗ أَجْرَانِ۔

رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَابْنُ أَبِي شَیْبَۃَ وَأَبُو عَوَانَۃَ۔

226: أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب الجہاد، باب فضل من أسلم من أھل الکتابین، 3/ 1096، الرقم/ 2849، وابن أبي شیبۃ في المصنف، 3/ 118، الرقم/ 12635، وأبو عوانۃ في المسند، 1/ 96، الرقم/ 302۔

حضرت ابو بردہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، انہوں نے اپنے والد (حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ ) سے روایت کیا کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: تین اشخاص ایسے ہیں جنہیں دوہرے اجر سے نوازا جاتا ہے: (اُن میں سے) ایک وہ شخص ہے جس کے پاس کوئی لونڈی ہو، وہ اُسے اچھی تعلیم دلائے اور اس کو آدابِ (مجلس) بھی اچھے طریق سے سکھائے۔ پھر اُسے آزاد کر کے اُس سے نکاح کرے تو اس شخص کے لیے دوہرا اَجر ہے۔

اِسے امام بخاری، ابنِ ابی شیبہ اور ابو عوانہ نے روایت کیا ہے۔

227/ 19۔ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی اللہ عنہ قَالَ: إِنْ کَانَتِ الْأَمَۃُ مِنْ إِمَاءِ أَھْلِ الْمَدِیْنَۃِ لَتَأْخُذُ بِیَدِ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ، فَتَنْطَلِقُ بِہٖ حَیْثُ شَائَتْ۔

رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَأَحْمَدُ۔

227: أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب الأدب، باب الکبر، 5/ 2255، الرقم/ 5724، وأحمد بن حنبل في المسند، 3/ 98، الرقم/ 11960، وأبو نعیم في حلیۃ الأولیاء، 7/ 202۔

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ مدینہ طیبہ کی (بے سہارا) لونڈیوں میں سے اگر کوئی لونڈی (اپنے کسی کام کے سلسلے میں) رسول اللہ ﷺ کا ہاتھ پکڑ کر آپ کو کہیں لے جانا چاہتی تو لے جاتی تھی (اور آپ اُس پر شفقت فرماتے ہوئے اس کے کام کاج کے سلسلے میں اس کا سہارا بنتے تھے)۔

اِسے امام بخاری اور اَحمد بن حنبل نے روایت کیا ہے۔

228/ 20۔ وَفِي رِوَایَۃٍ عَنْهُ رضی اللہ عنہ أَنَّ امْرَأَۃً کَانَ فِي عَقْلِھَا شَيئٌ، فَقَالَتْ: یَا رَسُوْلَ اللهِ، إِنَّ لِي إِلَیْکَ حَاجَۃً۔ فَقَالَ: یَا أُمَّ فُـلَانٍ، انْظُرِي أَيَّ السِّکَکِ شِئْتِ، حَتّٰی أَقْضِيَ لَکِ حَاجَتَکِ، فَخَلَا مَعَھَا فِي بَعْضِ الطُّرُقِ، حَتّٰی فَرَغَتْ مِنْ حَاجَتِھَا۔

رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ وَأَبُوْ دَاوُدَ۔

228: أخرجہ مسلم في الصحیح، کتاب الفضائل، باب قرب النبي ﷺ من الناس وتبرکھم بہ، 4/ 1812، الرقم/ 2326، وأحمد بن حنبل في المسند، 3/ 119، الرقم/ 12218، وأبو داود في السنن، کتاب الأدب، باب في الجلوس في الطرقات، 4/ 257، الرقم/ 4818۔

اور حضرت انس رضی اللہ عنہ سے ہی مروی ہے کہ ایک عورت دماغی مریضہ تھی، وہ بارگاهِ رسالت میں عرض گزار ہوئی: یا رسول اللہ! مجھے آپ سے کچھ کام ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اے اُم فلاں! جس گلی میں جانا چاہو چلو، میں تمہارا مسئلہ حل کروں گا۔ پس آپ ﷺ (اُس سے گُفت و شُنید کرتے اور اس کے مسائل سنتے ہوئے) بعض راستوں میں اس کے ساتھ چلے، حتیٰ کہ اُس کی ضرورت پوری ہو گئی (اور وہ چلی گئی)۔

اِسے امام مسلم، احمد اور ابو داود نے روایت کیا ہے۔

اَلتَّعَامُلُ مَعَ الزَّوْجَۃِ بِالْبِرِّ وَالْمُلَاطَفَۃِ وَالإِحْسَانِ

{بیوی کے ساتھ حسنِ سلوک اور محبت و ملاطفت}

اَلْقُرْآن

(1) وَ لَهُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْهِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ ۪ وَ لِلرِّجَالِ عَلَیْهِنَّ دَرَجَةٌ ؕ وَ اللّٰهُ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ۠o

(البقرۃ، 2/ 228)

اور دستور کے مطابق عورتوں کے بھی مردوں پر اسی طرح حقوق ہیں جیسے مردوں کے عورتوں پر، البتہ مردوں کو ان پر فضیلت ہے، اور اللہ بڑا غالب بڑی حکمت والا ہےo

(2) وَ الْوَالِدٰتُ یُرْضِعْنَ اَوْلَادَهُنَّ حَوْلَیْنِ كَامِلَیْنِ لِمَنْ اَرَادَ اَنْ یُّتِمَّ الرَّضَاعَةَ ؕ وَ عَلَی الْمَوْلُوْدِ لَهٗ رِزْقُهُنَّ وَ كِسْوَتُهُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ ؕ لَا تُكَلَّفُ نَفْسٌ اِلَّا وُسْعَهَا ۚ لَا تُضَآرَّ وَالِدَةٌۢ بِوَلَدِهَا وَ لَا مَوْلُوْدٌ لَّهٗ بِوَلَدِهٖ ۗ وَ عَلَی الْوَارِثِ مِثْلُ ذٰلِكَ ۚ فَاِنْ اَرَادَا فِصَالًا عَنْ تَرَاضٍ مِّنْهُمَا وَ تَشَاوُرٍ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْهِمَا ؕ وَ اِنْ اَرَدْتُّمْ اَنْ تَسْتَرْضِعُوْۤا اَوْلَادَكُمْ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْكُمْ اِذَا سَلَّمْتُمْ مَّاۤ اٰتَیْتُمْ بِالْمَعْرُوْفِ ؕ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌo

(البقرۃ، 2/ 233)

اور مائیں اپنے بچوں کو پورے دو برس تک دودھ پلائیں یہ (حکم) اس کے لیے ہے جو دودھ پلانے کی مدت پوری کرنا چاہے، اور دودھ پلانے والی ماؤں کا کھانا اور پہننا دستور کے مطابق بچے کے باپ پر لازم ہے، کسی جان کو اس کی طاقت سے بڑھ کر تکلیف نہ دی جائے، (اور) نہ ماں کو اس کے بچے کے باعث نقصان پہنچایا جائے اور نہ باپ کو اس کی اولاد کے سبب سے، اور وارثوں پر بھی یہی حکم عائد ہوگا، پھر اگر ماں باپ دونوں باہمی رضا مندی اور مشورے سے (دو برس سے پہلے ہی) دودھ چھڑانا چاہیں تو ان پر کوئی گناہ نہیں اور پھر اگر تم اپنی اولاد کو (دایہ سے) دودھ پلوانے کا ارادہ رکھتے ہو تب بھی تم پر کوئی گناہ نہیں جب کہ جو تم دستور کے مطابق دیتے ہو انہیں ادا کر دو، اور اللہ سے ڈرتے رہو اور یہ جان لو کہ بے شک جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اسے خوب دیکھنے والا ہےo

(3) یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا یَحِلُّ لَكُمْ اَنْ تَرِثُوا النِّسَآءَ كَرْهًا ؕ وَ لَا تَعْضُلُوْهُنَّ لِتَذْهَبُوْا بِبَعْضِ مَاۤ اٰتَیْتُمُوْهُنَّ اِلَّاۤ اَنْ یَّاْتِیْنَ بِفَاحِشَةٍ مُّبَیِّنَةٍ ۚ وَ عَاشِرُوْهُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ ۚ فَاِنْ كَرِهْتُمُوْهُنَّ فَعَسٰۤی اَنْ تَكْرَهُوْا شَیْـًٔا وَّ یَجْعَلَ اللّٰهُ فِیْهِ خَیْرًا كَثِیْرًاo وَ اِنْ اَرَدْتُّمُ اسْتِبْدَالَ زَوْجٍ مَّكَانَ زَوْجٍ ۙ وَّ اٰتَیْتُمْ اِحْدٰىهُنَّ قِنْطَارًا فَلَا تَاْخُذُوْا مِنْهُ شَیْـًٔا ؕ اَتَاْخُذُوْنَهٗ بُهْتَانًا وَّ اِثْمًا مُّبِیْنًاo

(النساء، 4/ 19-20)

اے ایمان والو! تمہارے لیے یہ حلال نہیں کہ تم زبردستی عورتوں کے وارث بن جائو، اور انہیں اس غرض سے نہ روک رکھو کہ جو مال تم نے انہیں دیا تھا اس میں سے کچھ (واپس) لے جائو سوائے اس کے کہ وہ کھلی بدکاری کی مرتکب ہوں، اور ان کے ساتھ اچھے طریقے سے برتائو کرو، پھر اگر تم انہیں نا پسند کرتے ہو تو ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو ناپسند کرو اور اللہ اس میں بہت سی بھلائی رکھ دےo اور اگر تم ایک بیوی کے بدلے دوسری بیوی بدلنا چاہو اور تم اسے ڈھیروں مال دے چکے ہو تب بھی اس میں سے کچھ واپس مت لو، کیا تم ناحق الزام اور صریح گناہ کے ذریعے وہ مال (واپس) لینا چاہتے ہو؟o

(4) وَ اِنِ امْرَاَةٌ خَافَتْ مِنْۢ بَعْلِهَا نُشُوْزًا اَوْ اِعْرَاضًا فَلَا جُنَاحَ عَلَیْهِمَاۤ اَنْ یُّصْلِحَا بَیْنَهُمَا صُلْحًا ؕ وَ الصُّلْحُ خَیْرٌ ؕ وَ اُحْضِرَتِ الْاَنْفُسُ الشُّحَّ ؕ وَ اِنْ تُحْسِنُوْا وَ تَتَّقُوْا فَاِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرًاo وَ لَنْ تَسْتَطِیْعُوْۤا اَنْ تَعْدِلُوْا بَیْنَ النِّسَآءِ وَ لَوْ حَرَصْتُمْ فَلَا تَمِیْلُوْا كُلَّ الْمَیْلِ فَتَذَرُوْهَا كَالْمُعَلَّقَةِ ؕ وَ اِنْ تُصْلِحُوْا وَ تَتَّقُوْا فَاِنَّ اللّٰهَ كَانَ غَفُوْرًا رَّحِیْمًاo

(النساء، 4/ 128-129)

اور اگر کوئی عورت اپنے شوہر کی جانب سے زیادتی یا بے رغبتی کا خوف رکھتی ہو تو دونوں (میاں بیوی) پر کوئی حرج نہیں کہ وہ آپس میں کسی مناسب بات پر صلح کر لیں، اور صلح (حقیقت میں) اچھی چیز ہے اور طبیعتوں میں (تھوڑا بہت) بخل (ضرور) رکھ دیا گیا ہے اور اگر تم احسان کرو اور پرہیزگاری اختیار کرو تو بے شک اللہ ان کاموں سے جو تم کر رہے ہو (اچھی طرح) خبردار ہےo اور تم ہرگز اس بات کی طاقت نہیں رکھتے کہ (ایک سے زائد) بیویوں کے درمیان (پورا پورا) عدل کر سکو اگرچہ تم کتنا بھی چاہو۔ پس (ایک کی طرف) پورے میلانِ طبع کے ساتھ (یوں) نہ جھک جاؤ کہ دوسری کو (درمیان میں) لٹکتی ہوئی چیز کی طرح چھوڑ دو۔ اور اگر تم اصلاح کر لو اور (حق تلفی و زیادتی سے) بچتے رہو تو اللہ بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہےo

(5) یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ اِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآءَ فَطَلِّقُوْهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ وَ اَحْصُوا الْعِدَّةَ ۚ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ رَبَّكُمْ ۚ لَا تُخْرِجُوْهُنَّ مِنْۢ بُیُوْتِهِنَّ وَ لَا یَخْرُجْنَ اِلَّاۤ اَنْ یَّاْتِیْنَ بِفَاحِشَةٍ مُّبَیِّنَةٍ ؕ وَ تِلْكَ حُدُوْدُ اللّٰهِ ؕ وَ مَنْ یَّتَعَدَّ حُدُوْدَ اللّٰهِ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهٗ ؕ لَا تَدْرِیْ لَعَلَّ اللّٰهَ یُحْدِثُ بَعْدَ ذٰلِكَ اَمْرًاo فَاِذَا بَلَغْنَ اَجَلَهُنَّ فَاَمْسِكُوْهُنَّ بِمَعْرُوْفٍ اَوْ فَارِقُوْهُنَّ بِمَعْرُوْفٍ وَّ اَشْهِدُوْا ذَوَیْ عَدْلٍ مِّنْكُمْ وَ اَقِیْمُوا الشَّهَادَةَ لِلّٰهِ ؕ ذٰلِكُمْ یُوْعَظُ بِهٖ مَنْ كَانَ یُؤْمِنُ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ ؕ۬ وَ مَنْ یَّتَّقِ اللّٰهَ یَجْعَلْ لَّهٗ مَخْرَجًاۙo

(الطلاق، 65/ 1-2)

اے نبی! (مسلمانوں سے فرما دیں) جب تم عورتوں کو طلاق دینا چاہو تو اُن کے طُہر کے زمانہ میں انہیں طلاق دو اور عِدّت کو شمار کرو، اور اللہ سے ڈرتے رہو جو تمہارا رب ہے، اور انہیں اُن کے گھروں سے باہر مت نکالو اور نہ وہ خود باہر نکلیں سوائے اس کے کہ وہ کھلی بے حیائی کر بیٹھیں، اور یہ اللہ کی (مقررّہ) حدیں ہیں، اور جو شخص اللہ کی حدود سے تجاوز کرے تو بے شک اُس نے اپنی جان پر ظلم کیا ہے، (اے شخص!) تو نہیں جانتا شاید اللہ اِس کے (طلاق دینے کے) بعد (رجوع کی) کوئی نئی صورت پیدا فرما دےo پھر جب وہ اپنی مقررہ میعاد (کے ختم ہونے) کے قریب پہنچ جائیں تو انہیں بھلائی کے ساتھ (اپنی زوجیت میں) روک لو یا انہیں بھلائی کے ساتھ جدا کردو۔ اور اپنوں میں سے دو عادل مردوں کو گواہ بنالو اور گواہی اللہ کے لیے قائم کیا کرو، اِن (باتوں) سے اسی شخص کو نصیحت کی جاتی ہے جو اللہ اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتا ہے، اور جو اللہ سے ڈرتا ہے وہ اس کے لیے (دنیا و آخرت کے رنج و غم سے) نکلنے کی راہ پیدا فرما دیتا ہےo

(6) اَسْكِنُوْهُنَّ مِنْ حَیْثُ سَكَنْتُمْ مِّنْ وُّجْدِكُمْ وَ لَا تُضَآرُّوْهُنَّ لِتُضَیِّقُوْا عَلَیْهِنَّ ؕ وَ اِنْ كُنَّ اُولَاتِ حَمْلٍ فَاَنْفِقُوْا عَلَیْهِنَّ حَتّٰی یَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ ۚ فَاِنْ اَرْضَعْنَ لَكُمْ فَاٰتُوْهُنَّ اُجُوْرَهُنَّ ۚ وَ اْتَمِرُوْا بَیْنَكُمْ بِمَعْرُوْفٍ ۚ وَ اِنْ تَعَاسَرْتُمْ فَسَتُرْضِعُ لَهٗۤ اُخْرٰیؕo لِیُنْفِقْ ذُوْ سَعَةٍ مِّنْ سَعَتِهٖ ؕ وَ مَنْ قُدِرَ عَلَیْهِ رِزْقُهٗ فَلْیُنْفِقْ مِمَّاۤ اٰتٰىهُ اللّٰهُ ؕ لَا یُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا اِلَّا مَاۤ اٰتٰىهَا ؕ سَیَجْعَلُ اللّٰهُ بَعْدَ عُسْرٍ یُّسْرًا۠o

(الطلاق، 65/ 6-7)

تم اُن (مطلّقہ) عورتوں کو وہیں رکھو جہاں تم اپنی وسعت کے مطابق رہتے ہو اور انہیں تکلیف مت پہنچاؤ کہ اُن پر (رہنے کا ٹھکانا) تنگ کردو، اور اگر وہ حاملہ ہوں تو اُن پر خرچ کرتے رہو یہاں تک کہ وہ اپنا بچہ جَن لیں، پھر اگر وہ تمہاری خاطر (بچے کو) دودھ پلائیں تو انہیں اُن کا معاوضہ ادا کرتے رہو، اور آپس میں (ایک دوسرے سے) نیک بات کا مشورہ (حسبِ دستور) کر لیا کرو، اور اگر تم باہم دشواری محسوس کرو تو اسے (اب کوئی) دوسری عورت دودھ پلائے گیo صاحبِ وسعت کو اپنی وسعت (کے لحاظ) سے خرچ کرنا چاہیے، اور جس شخص پر اُس کا رِزق تنگ کردیا گیا ہو تو وہ اُسی (روزی) میں سے (بطورِ نفقہ) خرچ کرے جو اُسے اللہ نے عطا فرمائی ہے۔ اللہ کسی شخص کو مکلف نہیں ٹھہراتا مگر اسی قدر جتنا کہ اُس نے اسے عطا فرما رکھا ہے، اللہ عنقریب تنگی کے بعد کشائش پیدا فرما دے گاo

اَلْحَدِیْث

229/ 21۔ عَنْ عَمْرِو بْنِ الْأَحْوَصِ رضی اللہ عنہ قَالَ: أَنَّہٗ شَهِدَ حَجَّۃَ الْوَدَاعِ مَعَ رَسُولِ اللهِ ﷺ، فَحَمِدَ اللهَ وَأَثْنٰی عَلَیْهِ وَذَکَّرَ وَوَعَظَ۔ فَقَالَ: أَ لَا، وَاسْتَوْصُوْا بِالنساء خَیْرًا… أَلَا، إِنَّ لَکُمْ عَلٰی نِسَائِکُمْ حَقًّا، وَلِنِسَائِکُمْ عَلَیْکُمْ حَقًّا۔ فَأَمَّا حَقُّکُمْ عَلٰی نِسَائِکُمْ: فَـلَا یُوْطِئْنَ فُرُشَکُمْ مَنْ تَکْرَهُونَ وَلَا یَأْذَنَّ فِي بُیُوْتِکُمْ لِمَنْ تَکْرَهُوْنَ، أَلَا وَحَقُّهُنَّ عَلَیْکُمْ: أَنْ تُحْسِنُوْا إِلَیْهِنَّ فِي کِسْوَتِهِنَّ وَطَعَامِهِنَّ۔

رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَابْنُ مَاجَہ۔ وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: ھٰذَا حَدِیثٌ حَسَنٌ صَحِیْحٌ۔

229: أخرجہ الترمذي في السنن، کتاب الرضاع، باب ما جاء في حق المرأۃ علی الزوج، 3/ 467، الرقم/ 1163، وابن ماجہ في السنن، کتاب النکاح، باب حق المرأۃ علی الزوج، 1/ 594، الرقم/ 1851، والنساي في السنن الکبری، 5/ 372، الرقم/ 9169۔

حضرت عمرو بن اَحوص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ وہ حجۃ الوداع کے موقع پر رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ تھے، پس آپ ﷺ نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی اور وعظ و نصیحت فرمائی۔ پھر فرمایا: سن لو! عورتوں کے ساتھ اچھا سلوک کیا کرو۔ … آگاہ ہو جاؤ! تمہارے حقوق تمہاری عورتوں (بیویوں) پر اور تمہاری عورتوں (بیویوں) کے حقوق تم پر ہیں۔ تمہارا حق بیویوں پر یہ ہے کہ وہ تمہارے بستروں کو تمہارے ناپسندیدہ لوگوں سے پامال نہ کرائیں اور ایسے لوگوںکو تمہارے گھروں میں نہ آنے دیں جنہیں تم ناپسند کرتے ہو۔ آگاہ ہو جاؤ! تمہارے ذمہ اُن کا یہ حق ہے کہ تم لباس اور خوراک میں اُن سے حسنِ سلوک کرو۔

اِسے امام ترمذی اور ابنِ ماجہ نے روایت کیا ہے، اور امام ترمذی نے کہا ہے کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

230/ 22۔ وَفِي رِوَایَۃٍ عَنْ مُعَاوِیَۃَ بْنِ حَیْدَۃَ رضی اللہ عنہ قَالَ: قُلْتُ: یَا رَسُوْلَ اللهِ، مَا حَقُّ زَوْجَۃِ أَحَدِنَا عَلَیْهِ؟ قَالَ: أَنْ تُطْعِمَھَا إِذَا طَعِمْتَ، وَتَکْسُوْھَا إِذَا اکْتَسَیْتَ أَوِ اکْتَسَبْتَ، وَلَا تَضْرِبِ الْوَجْهَ، وَلَا تُقَبِّحْ، وَلَا تَھْجُرْ إِلَّا فِي الْبَیْتِ۔

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَأَبُو دَاوُدَ وَاللَّفْظُ لَہٗ۔

230: أخرجہ أحمد بن حنبل في المسند، 4/ 447، 5/ 3، الرقم/ 20027، 20036، وأبو داود في السنن، کتاب النکاح، باب في حق المرأۃ علی زوجہا، 2/ 244، الرقم/ 2142، والنساي في السنن الکبری، 5/ 373، الرقم/ 9171، وعبد الرزاق في المصنف، 7/ 148، الرقم/ 12583، والطبراني في المعجم الکبیر، 19/ 427، الرقم/ 1038۔

اور حضرت معاویہ بن حیدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہم میں سے کسی پر اس کی بیوی کا کیا حق ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: جب تم کھاؤ تو اسے بھی کھلاؤ، جب تم خود پہنو یا کماؤ تو اسے بھی پہناؤ، اس کے منہ پر نہ مارو، اُسے برے لفظ نہ بولو اور اسے خود سے الگ نہ کرو مگر گھر کے اندر ہی۔

اِسے امام احمد اور ابو داؤد نے روایت کیا ہے اور مذکورہ الفاظ ابو داؤد کے ہیں۔

231/ 23۔ وَفِي رِوَایَۃٍ عَنْ عَائِشَۃَ رضی اللہ عنہ: قَالَتْ: مَا ضَرَبَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ خَادِمًا لَہٗ وَلَا امْرَأَۃً، وَلَا ضَرَبَ بِیَدِہٖ شَیْئًا۔

رَوَاهُ النساءيُّ وَابْنُ مَاجَہ وَاللَّفْظُ لَہٗ۔

231: أخرجہ النساءي في السنن الکبری، کتاب عشرۃ النساء، باب ضرب الرجل لزوجتہ، 5/ 371، الرقم/ 9165، وابن ماجہ في السنن، کتاب النکاح، باب ضرب النساء، 1/ 638، الرقم/ 1984۔

ایک روایت میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے نہ تو کبھی اپنے کسی خادم کو مارا اور نہ ہی کسی زوجہ کو، اور نہ ہی آپ ﷺ نے کبھی کسی اور کو اپنے دستِ مبارک سے ضرب تک لگائی۔

اِسے امام نسائی نے اور ابنِ ماجہ نے مذکورہ الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے۔

232/ 24۔ وَفِي رِوَایَۃٍ عَنْ إِیَاسِ بْنِ عَبْدِ اللهِ بْنِ أَبِي ذُبَابٍ رضی اللہ عنہ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ ﷺ: لَا تَضْرِبُنَّ إِمَاءَ اللهِ۔

رَوَاهُ ابْنُ مَاجَہ.

232: أخرجہ ابن ماجہ في السنن، کتاب النکاح، باب ضرب النساء، 1/ 638، الرقم/ 1985۔

حضرت اِیاس بن عبد اللہ بن ابی ذُباب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اللہ کی باندیوں کو ہر گز نہ مارا کرو۔

اِسے امام ابنِ ماجہ نے روایت کیا ہے۔

233/ 25۔ عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ رضی اللہ عنہ أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ لَہٗ: إِنَّکَ لَنْ تُنْفِقَ نَفَقَۃً تَبْتَغِي بِھَا وَجْهَ اللهِ إِلَّا أُجِرْتَ عَلَیْھَا، حَتّٰی مَا تَجْعَلُ فِي فَمِ امْرَأَتِکَ۔

مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ۔

233: أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب الإیمان، باب ما جاء أَن الأعمال بالنیۃ والحِسبۃ، ولکل امریٔ ما نوی، 1/ 30، الرقم/ 56، وأیضًا في کتاب الجنائز، باب رِثَاء النبي ﷺ سعد بن خولۃ، 1/ 435، الرقم/ 1233، ومسلم في الصحیح، کتاب الوصیۃ، باب الوصیۃ بالثلث، 3/ 1250، الرقم/ 1628، ومالک في الموطأ، 2/ 763، الرقم/ 1456۔

حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اُن سے فرمایا: تم رضائے الٰہی کے لیے جو بھی خرچ کرتے ہو تمہیں اُس کا اجر دیا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ تم اپنی بیوی کے منہ میں جو لقمہ ڈالتے ہو (اس پر بھی تمہیں اجر دیا جاتا ہے)۔

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

234/ 26۔ عَنْ ثَوْبَانَ رضی اللہ عنہ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: أَفْضَلُ دِیْنَارٍ یُنْفِقُهُ الرَّجُلُ، دِیْنَارٌ یُنْفِقُہٗ عَلٰی عِیَالِہٖ، وَدِیْنَارٌ یُنْفِقُهُ الرَّجُلُ عَلٰی دَابَّتِہٖ فِي سَبِیْلِ اللهِ، وَدِیْنَارٌ یُنْفِقُہٗ عَلٰی أَصْحَابِہٖ فِي سَبِیْلِ اللهِ۔

رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ وَابْنُ مَاجَہ وَالنسايُّ فِي السُّنَنِ الْکُبْرٰی۔

234: أخرجہ مسلم في الصحیح، کتاب الزکاۃ، باب فضل النفقۃ علی العیال والمملوک، 2/ 691، الرقم/ 994، وأحمد بن حنبل في المسند، 5/ 277، الرقم/ 22434، وابن ماجہ في السنن، کتاب الجہاد، باب فضل النفقۃ في سبیل اللہ، 2/ 922، الرقم/ 2760، والنساي في السنن الکبری، 5/ 376، الرقم/ 9182۔

حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: انسان جو کچھ بھی (اللہ کی راہ میں) خرچ کرتا ہے (اس میں سے) سب سے افضل وہ دینار ہے جسے وہ اپنے اہل و عیال پر خرچ کرے، اور وہ دینار ہے جسے کوئی شخص اللہ تعالیٰ کی راہ میں (استعمال ہونے والی) اپنی سواری پر خرچ کرتا ہے، اور وہ دینار بھی ہے جسے وہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنے ساتھیوں پر خرچ کرتا ہے۔

اِسے امام مسلم، احمد اور ابنِ ماجہ نے جب کہ نسائی نے ’السنن الکبری‘ میں روایت کیا ہے۔

235/ 27۔ وَفِي رِوَایَۃٍ عَنْ أَبِي ھُرَیْرَۃَ رضی اللہ عنہ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: دِینَارٌ أَنْفَقْتَہٗ فِي سَبِیْلِ اللهِ، وَدِیْنَارٌ أَنْفَقْتَہٗ فِي رَقَبَۃٍ، وَدِیْنَارٌ تَصَدَّقْتَ بِہٖ عَلٰی مِسْکِیْنٍ، وَدِیْنَارٌ أَنْفَقْتَہٗ عَلٰی أَھْلِکَ۔ أَعْظَمُھَا أَجْرًا الَّذِي أَنْفَقْتَہٗ عَلٰی أَھْلِکَ۔

رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ وَابْنُ مَاجَہ وَالنسايُّ فِي السُّنَنِ الْکُبْرٰی۔

235: أخرجہ مسلم في الصحیح، کتاب الزکاۃ، باب فضل النفقۃ علی العیال والمملوک، 2/ 692، الرقم/ 995، وأحمد بن حنبل في المسند، 2/ 476، الرقم/ 10177، والنساي في السنن الکبری، 5/ 376، الرقم/ 9183۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ایک دینار وہ ہے جسے تم اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتے ہو، ایک دینار وہ ہے جسے تم غلام آزاد کرنے پر خرچ کرتے ہو، ایک دینار وہ ہے جسے تم مسکین پر صدقہ کرتے ہو اور ایک دینار وہ ہے جسے تم اپنے اہل و عیال پر خرچ کرتے ہو۔ اِن میں سب سے زیادہ اَجر اُس دینار پر ملے گا جسے تم نے اپنے گھر والوں پر خرچ کیا۔

اِسے امام مسلم اور احمد نے جب کہ نسائی نے ’السنن الکبری‘ میں روایت کیا ہے۔

236/ 28۔ عَنِ ابْنِِِ عَبَّاسٍ رضی اللہ عنہا قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَی النَّبِيِّ ﷺ، فَقَالَ: یَا رَسُوْلَ اللهِ، إِنِّي کُتِبْتُ فِي غَزْوَۃِ کَذَا وَکَذَا وَامْرَأَتِي حَاجَّۃٌ۔ قَالَ: ارْجِعْ، فَحُجَّ مَعَ امْرَأَتِکَ۔

مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ۔

236: أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب الجہاد والسیر، باب کتابۃ الإمام الناس، 3/ 1114، الرقم/ 2896، ومسلم في الصحیح، کتاب الحج، باب سفر المرأۃ مع محرم إلی حج وغیرہ، 2/ 978، الرقم/ 1341۔

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہا بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص حضور نبی اکرم ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہو کر عرض گزار ہوا: یا رسول اللہ! میرا نام فلاں فلاں غزوہ میں لکھ لیا گیا ہے مگر میری بیوی حج کرنا چاہتی ہے، (سو میرے لیے کیا حکم ہے؟) آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: تم واپس چلے جاؤ اور اپنی بیوی کے ساتھ حج کرو (کہ اُس کا بھی تم پر حق ہے)۔

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

237/ 29۔ عَنْ أَبِي ھُرَیْرَۃَ رضی اللہ عنہ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: أَکْمَلُ الْمُؤْمِنِیْنَ إِیْمَانًا أَحْسَنُھُمْ خُلُقًا، وَخِیَارُکُمْ خِیَارُکُمْ لِنِسَائِکُمْ۔

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالتِّرْمِذِيُّ وَالدَّارِمِيُّ۔ وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: ھٰذَا حَدِیْثٌ حَسَنٌ صَحِیْحٌ۔

237: أخرجہ أحمد بن حنبل في المسند، 2/ 472، الرقم/ 10110، والترمذي في السنن، کتاب الرضاع، باب ما جاء في حق المرأۃ علی زوجھا، 3/ 466، الرقم/ 1162، والدارمي في السنن، 2/ 415، الرقم/ 2792، والحاکم في المستدرک، 1/ 43، الرقم/ 2۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اہلِ ایمان میں سے کامل ترین مومن وہ ہے جو اُن میں سے بہترین اَخلاق کا مالک ہے، اور تم میں سے بہترین وہ ہیں جو اپنی بیویوں کے لیے (اخلاق اور برتاؤ میں) بہترین ہیں۔

اِسے امام احمد، ترمذی اور دارمی نے روایت کیا ہے اور امام ترمذی نے کہا ہے: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

238/ 30۔ وَفِي رِوَایَۃِ عَائِشَۃَ رضی اللہ عنہ قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: إِنَّ مِنْ أَکْمَلِ الْمُؤْمِنِینَ إِیْمَانًا أَحْسَنُھُمْ خُلُقًا، وَأَلْطَفُھُمْ بِأَھْلِہٖ۔

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالتِّرْمِذِيُّ وَالنسايُّ فِي السُّنَنِ الْکُبْرٰی۔

238: أخرجہ أحمد بن حنبل في المسند، 6/ 47، الرقم/ 24250، والترمذي في السنن، کتاب الإیمان، باب ما جاء في استکمال الإیمان وزیادتہ ونقصانہ، 5/ 9، الرقم/ 2612، والنساي في السنن الکبری، 5/ 364، الرقم/ 9154، والحاکم في المستدرک، 1/ 119، الرقم/ 173۔

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مؤمنوں میں سب سے زیادہ کامل ایمان والے لوگ وہ ہیں جن کے اَخلاق سب سے اچھے ہیں، اور وہ اپنے گھر والوں سے سب سے زیادہ نرمی و شفقت سے پیش آتے ہیں۔

اِسے امام احمد اور ترمذی نے اور نسائی نے ’السنن الکبریٰ‘ میں روایت کیا ہے۔

239/ 31۔ عَنْ عَائِشَۃَ رضی اللہ عنہ قَالَتْ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: خَیْرُکُمْ خَیْرُکُمْ لِأَھْلِہٖ، وَأَنَا خَیْرُکُمْ لِأَھْلِي۔

رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَابْنُ مَاجَہ وَابْنُ حِبَّانَ۔ وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: ھٰذَا حَدِیْثٌ حَسَنٌ صَحِیْحٌ۔

239: أخرجہ الترمذي في السنن، کتاب المناقب، باب فضل أزواج النبيﷺ، 5/ 709، الرقم/ 3895، وابن ماجہ في السنن، کتاب النکاح، باب حسن معاشرۃ النساء، 1/ 636، الرقم/ 1977، وابن حبان في الصحیح، 9/ 484، الرقم/ 4177۔

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تم میں سے بہتر شخص وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے لیے بہتر ہو، اور تم میں سے اپنے گھر والوں کے لیے میں سب سے بہتر ہوں۔

اِسے امام ترمذی، ابنِ ماجہ اور ابنِ حبان نے روایت کیا ہے۔ نیز امام ترمذی نے کہا ہے کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حُسْنُ مُعَامَلَۃِ النَّبِيِّ ﷺ مَعَ أَزْوَاجِہٖ

{حضور نبی اکرم ﷺ کا اپنی اَزواجِ مطہرات کے ساتھ حسنِ سلوک}

اَلْقُرْآن

یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ اِنَّاۤ اَحْلَلْنَا لَكَ اَزْوَاجَكَ الّٰتِیْۤ اٰتَیْتَ اُجُوْرَهُنَّ وَ مَا مَلَكَتْ یَمِیْنُكَ مِمَّاۤ اَفَآءَ اللّٰهُ عَلَیْكَ وَ بَنٰتِ عَمِّكَ وَ بَنٰتِ عَمّٰتِكَ وَ بَنٰتِ خَالِكَ وَ بَنٰتِ خٰلٰتِكَ الّٰتِیْ هَاجَرْنَ مَعَكَ ؗ وَ امْرَاَةً مُّؤْمِنَةً اِنْ وَّهَبَتْ نَفْسَهَا لِلنَّبِیِّ اِنْ اَرَادَ النَّبِیُّ اَنْ یَّسْتَنْكِحَهَا ۗ خَالِصَةً لَّكَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَ ؕ قَدْ عَلِمْنَا مَا فَرَضْنَا عَلَیْهِمْ فِیْۤ اَزْوَاجِهِمْ وَ مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُهُمْ لِكَیْلَا یَكُوْنَ عَلَیْكَ حَرَجٌ ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًاo تُرْجِیْ مَنْ تَشَآءُ مِنْهُنَّ وَ تُـْٔوِیْۤ اِلَیْكَ مَنْ تَشَآءُ ؕ وَ مَنِ ابْتَغَیْتَ مِمَّنْ عَزَلْتَ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْكَ ؕ ذٰلِكَ اَدْنٰۤی اَنْ تَقَرَّ اَعْیُنُهُنَّ وَ لَا یَحْزَنَّ وَ یَرْضَیْنَ بِمَاۤ اٰتَیْتَهُنَّ كُلُّهُنَّ ؕ وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ مَا فِیْ قُلُوْبِكُمْ ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ عَلِیْمًا حَلِیْمًاo لَا یَحِلُّ لَكَ النِّسَآءُ مِنْۢ بَعْدُ وَ لَاۤ اَنْ تَبَدَّلَ بِهِنَّ مِنْ اَزْوَاجٍ وَّ لَوْ اَعْجَبَكَ حُسْنُهُنَّ اِلَّا مَا مَلَكَتْ یَمِیْنُكَ ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ عَلٰی كُلِّ شَیْءٍ رَّقِیْبًا۠o

(الأحزاب، 33/ 50-52)

اے نبی! بے شک ہم نے آپ کے لیے آپ کی وہ بیویاں حلال فرما دی ہیں جن کا مهَر آپ نے ادا فرما دیا ہے اور جو (احکامِ الٰہی کے مطابق) آپ کی مملوک ہیں، جو اللہ نے آپ کو مالِ غنیمت میں عطا فرمائی ہیں، اور آپ کے چچا کی بیٹیاں، اور آپ کی پھوپھیوں کی بیٹیاں، اور آپ کے ماموں کی بیٹیاں، اور آپ کی خالاؤں کی بیٹیاں، جنہوں نے آپ کے ساتھ ہجرت کی ہے اور کوئی بھی مؤمنہ عورت بشرطیکہ وہ اپنے آپ کو نبی (ﷺ کے نکاح) کے لیے دے دے اور نبی (ﷺ بھی) اسے اپنے نکاح میں لینے کا ارادہ فرمائیں (تو یہ سب آپ کے لیے حلال ہیں)، (یہ حکم) صرف آپ کے لیے خاص ہے (امّت کے) مومنوں کے لیے نہیں، واقعی ہمیں معلوم ہے جو کچھ ہم نے اُن (مسلمانوں) پر اُن کی بیویوں اور ان کی مملوکہ باندیوں کے بارے میں فرض کیا ہے، (مگر آپ کے حق میں تعدّدِ ازواج کی حِلّت کا خصوصی حکم اِس لیے ہے) تاکہ آپ پر (امتّ میں تعلیم و تربیتِ نسواں کے وسیع انتظام میں) کوئی تنگی نہ رہے، اور اللہ بڑا بخشنے والا بڑا رحم فرمانے والا ہےo (اے حبیب! آپ کو اختیار ہے) ان میں سے جِس (زوجہ) کو چاہیں (باری میں) مؤخّر رکھیں اور جسے چاہیں اپنے پاس (پہلے) جگہ دیں، اور جن سے آپ نے (عارضی) کنارہ کشی اختیار فرما رکھی تھی آپ انہیں (اپنی قربت کے لیے) طلب فرما لیں تو آپ پر کچھ مضائقہ نہیں، یہ اس کے قریب تر ہے کہ ان کی آنکھیں (آپ کے دیدار سے) ٹھنڈی ہوں گی اور وہ غمگین نہیں رہیں گی اور وہ سب اس سے راضی رہیں گی جو کچھ آپ نے انہیں عطا فرما دیا ہے، اور اللہ جانتا ہے جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے، اور اللہ خوب جاننے والا بڑا حِلم والا ہےo اس کے بعد (کہ انہوں نے دنیوی منفعتوں پر آپ کی رضا و خدمت کو ترجیح دے دی ہے) آپ کے لیے بھی اور عورتیں (نکاح میں لینا) حلال نہیں (تاکہ یہی ازواج اپنے شرف میں ممتاز رہیں) اور یہ بھی جائز نہیں کہ (بعض کی طلاق کی صورت میں اس عدد کو ہمارا حکم سمجھ کر برقرار رکھنے کے لیے) آپ ان کے بدلے دیگر ازواج (عقد میں) لے لیں اگرچہ آپ کو ان کا حُسنِ (سیرت و اخلاق اور اشاعتِ دین کا سلیقہ) کتنا ہی عمدہ لگے مگر جو کنیز (ہمارے حکم سے) آپ کی مِلک میں ہو (جائز ہے) اور اللہ ہر چیز پر نگہبان ہےo

اَلْحَدِیْث

240/ 32۔ عَنْ عَائِشَۃَ رضی اللہ عنہ قَالَتْ: وَاللهِ، لَقَدْ رَأَیْتُ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ یَقُوْمُ عَلٰی بَابِ حُجْرَتِي، وَالْحَبَشَۃُ یَلْعَبُوْنَ بِحِرَابِھِمْ فِي مَسْجِدِ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ، یَسْتُرُنِي بِرِدَائِہٖ، لِکَيْ أَنْظُرَ إِلٰی لَعِبِھِمْ، ثُمَّ یَقُوْمُ مِنْ أَجْلِي حَتّٰی أَکُوْنَ أَنَا الَّتِي أَنْصَرِفُ، فَاقْدِرُوْا قَدْرَ الْجَارِیَۃِ الْحَدِیْثَۃِ السِّنِّ، حَرِیْصَۃً عَلَی اللَّھْوِ۔

مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ وَاللَّفْظُ لِمُسْلِمٍ۔

240: أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب النکاح، باب حسن المعاشرۃ مع الأھل، 5/ 1991، الرقم/ 4894، وأیضًا في باب نظر المرأۃ إلی الحبش ونحوھم من غیر ریبۃ، 5/ 2006، الرقم/ 4938، ومسلم في الصحیح، کتاب صلاۃ العیدین، باب الرخصۃ في اللعب الذي لا معصیۃ فیہ في أیام العید، 2/ 609، الرقم/ 892، والنساي في السنن، کتاب صلاۃ العیدین، باب اللعب في المسجد یوم العید ونظر النساء إلی ذلک، 3/ 195، الرقم/ 1595۔

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی قسم! میں (وہ منظر آج بھی) دیکھ رہی ہوں کہ رسول اللہ ﷺ میرے کمرے کے دروازے پر کھڑے تھے اور حبشی اپنے ہتھیاروں سے رسول اللہ ﷺکی مسجد میں کرتب دِکھا رہے تھے۔ آپ ﷺ مجھے اپنی چادر میں چھپائے ہوئے تھے تاکہ میں اُن کے کرتب دیکھ سکوں۔ آپ ﷺ میری وجہ سے (مسلسل) قیام فرما رہے یہاں تک کہ (میرا جی بھر گیا اور) میں خود وہاں سے چلی گئی۔ اب تم خود اندازہ کر لو کہ نو عمر لڑکی کتنی دیر تک کھیل کو دیکھنے کا شوق رکھتی ہے (یعنی آپ کافی دیر تک کھڑی رہیں۔ یہ حضور علیہ السلام کا اپنی ازواج کے ساتھ حسنِ معاملہ تھا)۔

یہ حدیث متفق علیہ ہے اور مذکورہ الفاظ مسلم کے ہیں۔

241/ 33۔ عَنْ عَائِشَۃَ رضی اللہ عنہ قَالَتْ: دَخَلَ أَبُوْ بَکْرٍ وَعِنْدِي جَارِیَتَانِ مِنْ جَوَارِيَ الْأَنْصَارِ، تُغَنِّیَانِ بِمَا تَقَاوَلَتِ الْأَنْصَارُ یَوْمَ بُعَاثَ، قَالَتْ: وَلَیْسَتَا بِمُغَنِّیَتَیْنِ۔ فَقَالَ أَبُوْ بَکْرٍ: أَمَزَامِیْرُ الشَّیْطَانِ فِي بَیْتِ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ؟ وَذٰلِکَ فِي یَوْمِ عِیْدٍ۔ فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: یَا أَبَا بَکْرٍ، إِنَّ لِکُلِّ قَوْمٍ عِیْدًا وَھٰذَا عِیْدُنَا۔

مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ۔

وَفِي رِوَایَۃِ مُسْلِمٍ: وَفِیْهِ جَارِیَتَانِ تَلْعَبَانِ بِدُفٍّ۔

241: أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب العیدین، باب سنۃ العیدین لأہل الإسلام، 1/ 324، الرقم/ 909، وأیضًا فيکتاب المناقب، باب مقدم النبي ﷺ وأصحابہ المدینۃ، 3/ 1430، الرقم/ 3716، ومسلم في الصحیح، کتاب صلاۃ العیدین، باب الرفعۃ في اللعب الذي لا معصیۃ فیہ في أیام العید، 2/ 607-608، الرقم/ 892، وابن ماجہ في السنن، کتاب النکاح، باب الغناء والدف، 1/ 612، الرقم/ 1898۔

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ روایت کرتی ہیں: حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ (میرے گھر) تشریف لائے تو میرے پاس انصار کی دو بچیاں بُعاث میں انصار کی بہادری کے گیت گا رہی تھیں۔ فرماتی ہیں کہ یہ (پیشہ ور) گانے والی نہ تھیں۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: بھلا رسول اللہ ﷺ کے گھر میں شیطانی باجے (کا کیا کام)؟ یہ عید کے دن کی بات ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اے ابو بکر! (رہنے دو) ہر قوم کی عید ہوتی ہے اور یہ ہماری عید ہے۔

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

اور امام مسلم کی روایت میں ہے: اس گھر میں دو باندیاں تھیں جو دف بجا کر گا رہی تھیں۔

242/ 34۔ عَنْ أَنَسٍ رضی اللہ عنہ أَنَّ جَارًا لِرَسُوْلِ اللهِ ﷺ فَارِسِیًّا، کَانَ طَیِّبَ الْمَرَقِ، فَصَنَعَ لِرَسُوْلِ اللهِ ﷺ، ثُمَّ جَاءَ یَدْعُوْهُ، فَقَالَ: وَھَذِہٖ لِعَائِشَۃَ؟ فَقَالَ: لَا۔ فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: لَا۔ فَعَادَ یَدْعُوْهُ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: وَھَذِہٖ؟ قَالَ: لَا۔ قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: لَا۔ ثُمَّ عَادَ یَدْعُوْهُ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: وَھَذِہٖ؟ قَالَ: نَعَمْ۔ فِي الثَّالِثَۃِ، فَقَامَ یَتَدَافَعَانِ حَتّٰی أَتَیَا مَنْزِلَہٗ۔

رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ۔

242: أخرجہ مسلم في الصحیح، کتاب الأشربۃ، باب ما یفعل الضیف إذا تبعہ غیر من دعاہ صاحب الطعام، 3/ 1609، الرقم/ 2037، وأحمد بن حنبل في المسند، 3/ 123، الرقم/ 12265۔

حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کا ایک فارسی پڑوسی بہت اچھا سالن بناتا تھا، ایک دن اُس نے رسول اللہ ﷺ کے لیے سالن بنایا، پھر دعوت دینے کے لیے حاضرِ خدمت ہوا تو آپ ﷺ نے دریافت فرمایا: یہ دعوت عائشہ کے لیے بھی ہے؟ اُس نے عرض کیا: نہیں۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: نہیں (میں بھی نہیں جائوں گا)۔ اس شخص نے دوبارہ آپ ﷺکو دعوت دی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: یہ بھی (یعنی عائشہ بھی شریک ہوگی)؟ اس آدمی نے عرض کیا: نہیں۔ تو رسول اللہ ﷺ نے پھر انکار فرما دیا۔ اُس شخص نے تیسری بار آپ ﷺ کو دعوت دی، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: یہ (عائشہ) بھی۔ اُس نے تیسری بار کہا: جی ہاں، ان کو بھی دعوت ہے۔ پس دونوں (یعنی آپ ﷺ اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ) ساتھ ساتھ چلتے ہوئے اُس کے گھر تشریف لے گئے۔

اِسے امام مسلم اور احمد نے روایت کیا ہے۔

243/ 35۔ عَنِ الْأَسْوَدِ رضی اللہ عنہ قَالَ: سَأَلْتُ عَائِشَۃَ رضی اللہ عنہ، مَا کَانَ النَّبِيُّ ﷺ یَصْنَعُ فِي بَیْتِہٖ؟ قَالَتْ: کَانَ یَکُوْنُ فِي مِہْنَۃِ أَھْلِہٖ، تَعْنِي خِدْمَۃَ أَھْلِہٖ، فَإِذَا حَضَرَتِ الصَّلَاۃُ خَرَجَ إِلَی الصَّلَاۃِ۔

رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَأَحْمَدُ وَالتِّرْمِذِيُّ۔ وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: ھٰذَا حَدِیْثٌ حَسَنٌ صَحِیْحٌ۔

243: أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب الأذان، باب من کان في حاجۃ أھلہ فأقیمت الصلاۃ فخرج، 1/ 239، الرقم/ 644، وأیضًا فيکتاب النفقات، باب خدمۃ الرجل في أھلہ، 5/ 2052، الرقم/ 5048، وأحمد بن حنبل في المسند، 6/ 49، الرقم/ 24272، والترمذي في السنن، کتاب صفۃ القیامۃ والرقائق والورع، باب (45) منہ، 4/ 654، الرقم/ 2489۔

حضرت اَسود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا: حضور نبی اکرم ﷺ اپنے کاشانۂ اقدس میں کیا کام کیا کرتے تھے؟ انہوں نے فرمایا: آپ ﷺ اہلِ خانہ کے کاموں میں معاونت میں مشغول رہتے اور جب نماز کا وقت ہوتا تو نماز کے لیے تشریف لے جاتے۔

اِسے امام بخاری، احمد اور ترمذی نے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے فرمایا: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

244/ 36۔ عَنْ عَائِشَۃَ رضی اللہ عنہ، أَنَّھَا کَانَتْ مَعَ النَّبِيِّ ﷺ فِي سَفَرٍ، قَالَتْ: فَسَابَقْتُہٗ، فَسَبَقْتُہٗ عَلٰی رِجْلَيَّ، فَلَمَّا حَمَلْتُ اللَّحْمَ سَابَقْتُہٗ، فَسَبَقَنِي۔ فَقَالَ: ہٰذِہٖ بِتِلْکَ السَّبْقَۃِ۔

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَأَبُوْدَاوُدَ وَاللَّفْظُ لَهُ وَابْنُ مَاجَہ وَالنسايُّ فِي السُّنَنِ الْکُبْرٰی۔

244: أخرجہ أحمد بن حنبل في المسند، 6/ 39، الرقم/ 24164، وأبوداود في السنن، کتاب الجھاد، باب في السبق علی الرجل، 3/ 29، الرقم/ 2578، وابن ماجہ في السنن، کتاب النکاح، باب حسن معاشرۃ النساء، 1/ 531، الرقم/ 1979، والنساي في السنن الکبری، 5/ 304، الرقم/ 8943۔

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ وہ ایک سفر میں حضور نبی اکرم ﷺ کے ہمراہ تھیں۔ وہ فرماتی ہیں: میں نے آپ ﷺ کے ساتھ دوڑ لگائی تو میں آپ ﷺ سے آگے نکل گئی۔ کچھ عرصہ بعد جب میرا وزن بڑھ گیا تو میں نے پھر آپ ﷺ کے ساتھ دوڑ لگائی۔ اس مرتبہ آپ ﷺ مجھ پر سبقت لے گئے اور فرمایا: (عائشہ!) یہ اُس جیت کا بدلہ ہوگیا ہے۔

اِسے امام احمد، ابو داؤد، ابن ماجہ اور نسائی نے روایت کیا ہے، مذکورہ الفاظ ابو داؤد کے ہیں۔

اَلتَّعَامُلُ مَعَ الْأَوْلَادِ بِالْبِرِّ وَالْمُلَاطَفَۃِ

{اولاد کے ساتھ شفقت اور احسان}

اَلْقُرْآن

(1) وَالْوَالِدٰتُ یُرْضِعْنَ اَوْلَادَهُنَّ حَوْلَیْنِ کَامِلَیْنِ لِمَنْ اَرَادَ اَنْ یُّتِمَّ الرَّضَاعَۃَط وَعَلَی الْمَوْلُوْدِ لَہٗ رِزْقُهُنَّ وَکِسْوَتُهُنَّ بِالْمَعْرُوْفِط لاَ تُکَلَّفُ نَفْسٌ اِلاَّ وُسْعَھَاج لاَ تُضَآرَّ وَالِدَۃٌم بِوَلَدِھَا وَلاَ مَوْلُوْدٌ لَّہٗ بِوَلَدِہٖ وَعَلَی الْوَارِثِ مِثْلُ ذٰلِکَج فَاِنْ اَرَادَا فِصَالاً عَنْ تَرَاضٍ مِنْھُمَا وَتَشَاوُرٍ فَلاَ جُنَاحَ عَلَیْهِمَاط وَاِنْ اَرَدْتُّمْ اَنْ تَسْتَرْضِعُوْآ اَوْلَادَکُمْ فَلاَ جُنَاحَ عَلَیْکُمْ اِذَا سَلَّمْتُمْ مَّآ اٰتَیْتُمْ بِالْمَعْرُوْفِط وَاتَّقُوْا اللهَ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللهَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌo

(البقرۃ، 2/ 233)

اور مائیں اپنے بچوں کو پورے دو برس تک دودھ پلائیں یہ (حکم) اس کے لیے ہے جو دودھ پلانے کی مدت پوری کرنا چاہے، اور دودھ پلانے والی ماؤں کا کھانا اور پہننا دستور کے مطابق بچے کے باپ پر لازم ہے، کسی جان کو اس کی طاقت سے بڑھ کر تکلیف نہ دی جائے، (اور) نہ ماں کو اس کے بچے کے باعث نقصان پہنچایا جائے اور نہ باپ کو اس کی اولاد کے سبب سے، اور وارثوں پر بھی یہی حکم عائد ہوگا، پھر اگر ماں باپ دونوں باہمی رضا مندی اور مشورے سے (دو برس سے پہلے ہی) دودھ چھڑانا چاہیں تو ان پر کوئی گناہ نہیں اور پھر اگر تم اپنی اولاد کو (دایہ سے) دودھ پلوانے کا ارادہ رکھتے ہو تب بھی تم پر کوئی گناہ نہیں جب کہ جو تم دستور کے مطابق دیتے ہو انہیں ادا کر دو، اور اللہ سے ڈرتے رہو اور یہ جان لو کہ بے شک جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اسے خوب دیکھنے والا ہےo

(2) رَبَّنَا وَ اجْعَلْنَا مُسْلِمَیْنِ لَكَ وَ مِنْ ذُرِّیَّتِنَاۤ اُمَّةً مُّسْلِمَةً لَّكَ ۪ وَ اَرِنَا مَنَاسِكَنَا وَ تُبْ عَلَیْنَا ۚ اِنَّكَ اَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُo

(البقرۃ، 2/ 128)

اے ہمارے رب! ہم دونوں کو اپنے حکم کے سامنے جھکنے والا بنا اور ہماری اولاد سے بھی ایک امت کو خاص اپنا تابع فرمان بنا اور ہمیں ہماری عبادت (اور حج) کے قواعد بتا دے اور ہم پر (رحمت و مغفرت کی) نظر فرما، بے شک تو ہی بہت توبہ قبول فرمانے والا مہربان ہےo

(3) یُوْصِیْكُمُ اللّٰهُ فِیْۤ اَوْلَادِكُمْ ۗ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِ ۚ فَاِنْ كُنَّ نِسَآءً فَوْقَ اثْنَتَیْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ ۚ وَ اِنْ كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُ ؕ وَ لِاَبَوَیْهِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَكَ اِنْ كَانَ لَهٗ وَلَدٌ ۚ فَاِنْ لَّمْ یَكُنْ لَّهٗ وَلَدٌ وَّ وَرِثَهٗۤ اَبَوٰهُ فَلِاُمِّهِ الثُّلُثُ ۚ فَاِنْ كَانَ لَهٗۤ اِخْوَةٌ فَلِاُمِّهِ السُّدُسُ مِنْۢ بَعْدِ وَصِیَّةٍ یُّوْصِیْ بِهَاۤ اَوْ دَیْنٍ ؕ اٰبَآؤُكُمْ وَ اَبْنَآؤُكُمْ لَا تَدْرُوْنَ اَیُّهُمْ اَقْرَبُ لَكُمْ نَفْعًا ؕ فَرِیْضَةً مِّنَ اللّٰهِ ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِیْمًا حَكِیْمًاo

(النساء، 4/ 11)

اللہ تمہیں تمہاری اولاد (کی وراثت) کے بارے میں حکم دیتا ہے کہ لڑکے کے لیے دو لڑکیوں کے برابر حصہ ہے، پھر اگر صرف لڑکیاں ہی ہوں (دو یا) دو سے زائد تو ان کے لیے اس ترکہ کا دو تہائی حصہ ہے، اور اگر وہ اکیلی ہو تو اس کے لیے آدھا ہے، اور مورث کے ماں باپ کے لیے ان دونوں میں سے ہر ایک کو ترکہ کا چھٹا حصہ (ملے گا) بشرطیکہ مورث کی کوئی اولاد ہو، پھر اگر اس میت (مورث) کی کوئی اولاد نہ ہو اور اس کے وارث صرف اس کے ماں باپ ہوں تو اس کی ماں کے لیے تہائی ہے (اور باقی سب باپ کا حصہ ہے)، پھر اگر مورث کے بھائی بہن ہوں تو اس کی ماں کے لیے چھٹا حصہ ہے (یہ تقسیم) اس وصیت (کے پورا کرنے) کے بعد جو اس نے کی ہو یا قرض (کی ادائیگی) کے بعد (ہوگی)، تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے تمہیں معلوم نہیں کہ فائدہ پہنچانے میں ان میں سے کون تمہارے قریب تر ہے یہ (تقسیم) اللہ کی طرف سے فریضہ (یعنی مقرر) ہے، بے شک اللہ خوب جاننے والا بڑی حکمت والا ہےo

(4) قَدْ خَسِرَ الَّذِیْنَ قَتَلُوْۤا اَوْلَادَهُمْ سَفَهًۢا بِغَیْرِ عِلْمٍ وَّ حَرَّمُوْا مَا رَزَقَهُمُ اللّٰهُ افْتِرَآءً عَلَی اللّٰهِ ؕ قَدْ ضَلُّوْا وَ مَا كَانُوْا مُهْتَدِیْنَ۠o

(الأنعام، 6/ 140)

واقعی ایسے لوگ برباد ہوگئے جنہوں نے اپنی اولاد کو بغیر علم (صحیح) کے (محض) بیوقوفی سے قتل کر ڈالا اور ان (چیزوں) کو جو اللہ نے انہیں (روزی کے طور پر) بخشی تھیں اللہ پر بہتان باندھتے ہوئے حرام کر ڈالا، بے شک وہ گمراہ ہوگئے اور ہدایت یافتہ نہ ہو سکےo

(5) قُلْ تَعَالَوْا اَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّكُمْ عَلَیْكُمْ اَلَّا تُشْرِكُوْا بِهٖ شَیْـًٔا وَّ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا ۚ وَ لَا تَقْتُلُوْۤا اَوْلَادَكُمْ مِّنْ اِمْلَاقٍ ؕ نَحْنُ نَرْزُقُكُمْ وَ اِیَّاهُمْ ۚ وَ لَا تَقْرَبُوا الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَ مَا بَطَنَ ۚ وَ لَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰهُ اِلَّا بِالْحَقِّ ؕ ذٰلِكُمْ وَصّٰىكُمْ بِهٖ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُوْنَo

(الأنعام، 6/ 151)

فرما دیجیے: آؤ میں وہ چیزیں پڑھ کر سنا دوں جو تمہارے رب نے تم پر حرام کی ہیں (وہ) یہ کہ تم اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہراؤ اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو اور مفلسی کے باعث اپنی اولاد کو قتل مت کرو۔ ہم ہی تمہیں رزق دیتے ہیں اور انہیں بھی (دیں گے) اور بے حیائی کے کاموں کے قریب نہ جاؤ (خواہ) وہ ظاہر ہوں اور (خواہ) وہ پوشیدہ ہوں اور اس جان کو قتل نہ کرو جسے (قتل کرنا) اللہ نے حرام کیا ہے بجز حقِ (شرعی) کے (یعنی قانون کے مطابق ذاتی دفاع کی خاطر اور فتنہ و فساد اور دہشت گردی کے خلاف لڑتے ہوئے)، یہی وہ (اُمور) ہیں جن کا اس نے تمہیں تاکیدی حکم دیا ہے تاکہ تم عقل سے کام لوo

(6) وَ لَا تَقْتُلُوْۤا اَوْلَادَكُمْ خَشْیَةَ اِمْلَاقٍ ؕ نَحْنُ نَرْزُقُهُمْ وَ اِیَّاكُمْ ؕ اِنَّ قَتْلَهُمْ كَانَ خِطْاً كَبِیْرًاo

(الإسراء، 17/ 31)

اور تم اپنی اولاد کو مفلسی کے خوف سے قتل مت کرو، ہم ہی انہیں (بھی) روزی دیتے ہیں اور تمہیں بھی، بے شک ان کو قتل کرنا بہت بڑا گناہ ہےo

اَلْحَدِیْث

245/ 37۔ عَنْ عَائِشَۃَ رضی اللہ عنہ، أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ کَانَ یُؤْتٰی بِالصِّبْیَانِ فَیُبَرِّکُ عَلَیْھِمْ وَیُحَنِّکُھُمْ۔

رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَبُو دَاوُدَ وَأَبُو عَوَانَۃَ۔

245: أخرجہ مسلم في الصحیح، کتاب الأدب، باب استحباب تحنیک المولود عند ولادتہ وحملہ إلی صالح یحنکہ، 3/ 1691، الرقم/ 2147، وأبو داود في السنن، کتاب الأدب، باب في الصبي یولد فیؤذن في أذنہ، 4/ 328، الرقم/ 5106، وأبو عوانۃ في المسند، 1/ 172، الرقم/ 518۔

اُمّ المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس (نو مولود) بچے لائے جاتے تو آپ اُن کے لیے برکت کی دعا فرماتے اور اُنہیں گھٹی دیتے۔

اِسے امام مسلم، ابو داؤد اور ابو عوانہ نے روایت کیا ہے۔

246/ 38۔ وَفِي رِوَایَۃٍ: عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رضی اللہ عنہ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: رَحِمَ اللهُ وَالِدًا أَعَانَ وَلَدَہٗ عَلٰی بِرِّہٖ بِالإِفْضَالِ عَلَیْهِ۔

رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شَیْبَۃَ وَابْنُ السَّرِّيِّ وَابْنُ أَبِي الدُّنْیَا مُرْسَلًا وَالسُّلَمِيُّ مَرْفُوْعًا وَاللَّفْظُ لَہٗ۔

246: أخرجہ ابن أبي شیبۃ في المصنف، 5/ 219، الرقم/ 25415، وابن السري في الزھد، 2/ 486، الرقم/ 995، وابن أبي الدنیا في العیال، 1/ 306، الرقم/ 150، والسلمي في آداب الصحبۃ وحسن العشرۃ/ 97، الرقم/ 137۔

حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ اُس والد پر رحم فرمائے جس نے اپنے بیٹے سے حسنِ سلوک کرتے ہوئے نیکی کے کام میں اُس کی مدد کی۔

اِسے امام ابنِ ابی شیبہ، ابن السری اور ابنِ ابی الدنیا نے مرسلاً روایت کیا ہے، جبکہ امام سلمی نے مذکورہ الفاظ کے ساتھ مرفوعاً روایت کیا ہے۔

247/ 39۔ وَفِي رِوَایَۃٍ: عَنْ أَبِي ھُرَیْرَۃَ رضی اللہ عنہ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: أَعِیْنُوْا أَوْلَادَکُمْ عَلَی الْبِرِّ، مَنْ شَاءَ اسْتَخْرَجَ الْعُقُوْقَ مِنْ وَلَدِہٖ۔

رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ۔

247: أخرجہ الطبراني في المعجم الأوسط، 4/ 237، الرقم/ 4076، وذکرہ الہندي في کنز العمال، 16/ 190، الرقم/ 45419، والمناوي في فیض القدیر، 2/ 13۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تم میں سے جو کوئی یہ چاہتا ہے کہ اپنی اولاد کو اپنے والدین کی نافرمانی سے محفوظ رکھے تو اُسے چاہیے کہ نیکی اور بھلائی کے کاموں میں اپنی اولاد کی مدد کرے (یعنی ان کی اچھی تربیت کرو، اُنہیں اچھے اخلاق سکھاؤ، اُن کے ساتھ شفقت و محبت سے پیش آؤ اور اُن کے مابین عدل و انصاف سے کام لو)۔

اِسے امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔

248/ 40۔ عَنْ أَیُّوْبَ بْنِ مُوْسٰی عَنْ أَبِیهِ عَنْ جَدِّہٖ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: مَا نَحَلَ وَالِدٌ وَلَدًا أَفْضَلَ مِنْ أَدَبٍ حَسَنٍ۔

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالتِّرْمِذِيُّ وَالْبَیْهَقِيُّ۔

248: أخرجہ أحمد بن حنبل في المسند، 4/ 78، الرقم/ 16763، والترمذي في السنن، کتاب البر والصلۃ، باب ما جاء في أدب الولد، 4/ 338، الرقم/ 1952، والبیہقي في السنن الکبری، 3/ 84، الرقم/ 4876۔

حضرت ایوب بن موسیٰ اپنے والد کے طریق سے اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کوئی والد اپنے بیٹے کو حسنِ ادب (یعنی اچھی تعلیم و تربیت اور عمدہ آداب سکھانے) سے بہتر کوئی تحفہ نہیں دے سکتا۔

اِسے امام احمد، ترمذی اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔

249/ 41۔ وَفِي رِوَایَۃٍ: عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی اللہ عنہ عَنْ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ قَالَ: أَکْرِمُوْا أَوْلَادَکُمْ، وَأَحْسِنُوْا أَدَبَھُمْ۔

رَوَاهُ ابْنُ مَاجَہ۔

249: أخرجہ ابن ماجہ فی السنن، کتاب الأدب، باب بر الوالد والإحسان إلی البنات، 2/ 1211، الرقم/ 3671، وذکرہ المنذري في الترغیب والترہیب، 3/ 51، الرقم/ 3038۔

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اپنی اولاد کی عزت افزائی کیا کرو اور اُنہیں اچھے آداب سکھایا کرو۔

اِسے امام ابنِ ماجہ نے روایت کیا ہے۔

250/ 42۔ وَفِي رِوَایَۃٍ: عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضی اللہ عنہا عَنِ النَّبِيِّ ﷺ: سَوُّوْا بَیْنَ أَوْلَادِکُمْ فِي الْعَطِیَّۃِ، فَلَوْ کُنْتُ مُفَضِّلًا أَحَدًا لَفَضَّلْتُ النساء۔

ذَکَرَهُ الْبُخَارِيُّ فِي التَّرْجَمَۃِ مُخْتَصَرًا وَرَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَالْبَیْهَقِيُّ۔

250: أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب الھبۃ وفضلہا، باب الہبۃ للولد وإذا أعطی بعض ولدہ شیئا لم یجز حتی یعدل بینہم ویعطي الآخرین مثلہ ولا یشہد علیہ وقال النبي ﷺ: اعدلوا بین أولادکم في العطیۃ، 2/ 913، والطبراني في المعجم الکبیر، 11/ 354، الرقم/ 11997، والبیہقي في السنن الکبری، 6/ 177، الرقم/ 11780، والطحاوي في شرح معاني الآثار، 4/ 86۔

حضرت (عبد اللہ) بن عباس رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اپنی اولاد میں تحائف کی تقسیم میں برابری رکھا کرو۔ اگر میں کسی کو کسی پر فضیلت دیتا تو عورتوں کو (یعنی بیٹیوں کو بیٹوں پر) فضیلت دیتا۔

اِسے امام بخاری نے ’الصحیح‘ کے ترجمۃ الباب میں مختصراً بیان کیا ہے اور امام طبرانی و بیہقی نے روایت کیا ہے۔

251/ 43۔ عَنْ أَبِي ھُرَیْرَۃَ رضی اللہ عنہ قَالَ: أَمَرَ النَّبِيُّ ﷺ بِالصَّدَقَۃِ۔ فَقَالَ رَجُلٌ: یَا رَسُوْلَ اللهِ، عِنْدِي دِیْنَارٌ۔ فَقَالَ: تَصَدَّقْ بِہٖ عَلٰی نَفْسِکَ۔ قَالَ: عِنْدِي آخَرُ۔ قَالَ: تَصَدَّقْ بِہٖ عَلٰی وَلَدِکَ۔ قَالَ: عِنْدِي آخَرُ۔ قَالَ: تَصَدَّقْ بِہٖ عَلٰی زَوْجَتِکَ۔ أَوْ قَالَ: زَوْجِکَ۔ قَالَ: عِنْدِي آخَرُ۔ قَالَ: تَصَدَّقْ بِہٖ عَلٰی خَادِمِکَ۔ قَالَ: عِنْدِي آخَرُ۔ قَالَ: أَنْتَ أَبْصَرُ۔

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَأَبُو دَاوُدَ وَاللَّفْظُ لَہٗ وَالنسايُّ۔

251: أخرجہ أحمد بن حنبل في المسند، 2/ 251، الرقم/ 7413، وأبوداود في السنن، کتاب الزکاۃ، باب في صلۃ الرحم، 2/ 132، الرقم/ 1691، والنساي في السنن، کتاب الزکاۃ، باب الصدقۃ عن ظہر غنی، 5/ 62، الرقم/ 2535، وأبو یعلی في المسند، 11/ 493، الرقم/ 6616۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے صدقہ کرنے کا حکم فرمایا تو ایک شخص عرض گزار ہوا: یا رسول اللہ! میرے پاس ایک دینار ہے (اس کا کیا کروں؟) آپ ﷺ نے فرمایا: اسے اپنے اوپر خرچ کرو۔ وہ شخص عرض گزار ہوا: میرے پاس اور بھی ہے۔ فرمایا: اسے اپنی اولاد پر خرچ کرو۔ وہ پھر عرض گزار ہوا: میرے پاس اور بھی ہے۔ فرمایا: اِسے اپنی بیوی پر خرچ کرو۔ عرض کیا: میرے پاس اور بھی ہے۔ فرمایا: اسے اپنے خادم پر خرچ کرو۔ وہ پھر عرض گزار ہوا: میرے پاس اور بھی ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: تم جہاں مناسب سمجھو (خرچ کر لو)۔

اِسے امام احمد نے، ابو داؤد نے مذکورہ الفاظ کے ساتھ اور نسائی نے روایت کیا ہے۔

252/ 44۔ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی اللہ عنہ قَالَ: مَا رَأَیْتُ أَحَدًا کَانَ أَرْحَمَ بِالْعِیَالِ مِنْ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ۔ قَالَ: کَانَ إِبْرَاهِیْمُ مُسْتَرْضِعًا لَہٗ فِي عَوَالِي الْمَدِیْنَۃِ، فَکَانَ یَنْطَلِقُ وَنَحْنُ مَعَہٗ، فَیَدْخُلُ الْبَیْتَ وَإِنَّہٗ لَیُدَّخَنُ وَکَانَ ظِئْرُہٗ قَیْنًا، فَیَأْخُذُہٗ، فَیُقَبِّلُہٗ، ثُمَّ یَرْجِعُ۔

مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ وَاللَّفْظُ لِمُسْلِمٍ۔

252: أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب الجنائز، باب قول النبي ﷺ: إنا بک لمحزونون، 1/ 439، الرقم/ 1241، ومسلم في الصحیح، کتاب الفضائل، باب رحمتہ الصبیان والعیال وتواضعہ وفضل ذلک، 4/ 1808، الرقم/ 2316، وأحمد بن حنبل في المسند، 3/ 112، الرقم/ 12123، والبیھقي في شعب الإیمان، 7/ 465، الرقم/ 11011۔

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: میں نے رسول اللہ ﷺ سے بڑھ کر کسی کو اپنی اولاد پر شفیق نہیں دیکھا۔ (آپ ﷺ کے صاحبزادے) حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ مدینہ کی بالائی بستی میں بغرضِ رضاعت قیام پذیر تھے۔ آپ ﷺ وہاں تشریف لے جاتے اور ہم بھی آپ ﷺ کے ساتھ ہوتے۔ آپ ﷺگھر کے اندر تشریف لے جاتے حالانکہ وہاں دھواں (بھرا) ہوتا تھا کیونکہ اُس دایہ کا خاوند لوہار تھا۔ آپ ﷺ حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ کو گود میں اُٹھاتے، بوسہ دیتے اور پھر لوٹ آتے۔

یہ حدیث متفق علیہ ہے، مذکورہ الفاظ مسلم کے ہیں۔

اَلتَّعَامُلُ مَعَ الْبَنَاتِ بِالْبِرِّ وَالْمُلَاطَفَۃِ

{بیٹیوں کے ساتھ شفقت اور احسان}

اَلْقُرْآن

(1) وَ اِذَا بُشِّرَ اَحَدُهُمْ بِالْاُنْثٰی ظَلَّ وَجْهُهٗ مُسْوَدًّا وَّ هُوَ كَظِیْمٌۚo یَتَوَارٰی مِنَ الْقَوْمِ مِنْ سُوْٓءِ مَا بُشِّرَ بِهٖ ؕ اَیُمْسِكُهٗ عَلٰی هُوْنٍ اَمْ یَدُسُّهٗ فِی التُّرَابِ ؕ اَلَا سَآءَ مَا یَحْكُمُوْنَo

(النحل، 16/ 58-59)

اور جب ان میں سے کسی کو لڑکی (کی پیدائش) کی خبر سنائی جاتی ہے تو اس کا چہرہ سیاہ ہو جاتا ہے اور وہ غصہ سے بھر جاتا ہےo وہ لوگوں سے چُھپا پھرتا ہے (بزعمِ خویش) اس بری خبر کی وجہ سے جو اسے سنائی گئی ہے، (اب یہ سوچنے لگتا ہے کہ) آیا اسے ذلت و رسوائی کے ساتھ (زندہ) رکھے یا اسے مٹی میں دبا دے (یعنی زندہ درگور کر دے)، خبردار! کتنا برا فیصلہ ہے جو وہ کرتے ہیںo

(2) فَجَآءَتْهُ اِحْدٰىهُمَا تَمْشِیْ عَلَی اسْتِحْیَآءٍ ؗ قَالَتْ اِنَّ اَبِیْ یَدْعُوْكَ لِیَجْزِیَكَ اَجْرَ مَا سَقَیْتَ لَنَا ؕ فَلَمَّا جَآءَهٗ وَ قَصَّ عَلَیْهِ الْقَصَصَ ۙ قَالَ لَا تَخَفْ ۫ۥ نَجَوْتَ مِنَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَo قَالَتْ اِحْدٰىهُمَا یٰۤاَبَتِ اسْتَاْجِرْهُ ؗ اِنَّ خَیْرَ مَنِ اسْتَاْجَرْتَ الْقَوِیُّ الْاَمِیْنُo

(القصص، 28/ 25-26)

پھر (تھوڑی دیر بعد) ان کے پاس ان دونوں میں سے ایک (لڑکی) آئی جو شرم و حیاء (کے انداز) سے چل رہی تھی۔ اس نے کہا: میرے والد آپ کو بلا رہے ہیں تاکہ وہ آپ کو اس (محنت) کا معاوضہ دیں جو آپ نے ہمارے لیے (بکریوں کو) پانی پلایا ہے۔ سو جب موسیٰ ( علیہ السلام ) ان (لڑکیوں کے والد شعیب علیہ السلام ) کے پاس آئے اور ان سے (پچھلے) واقعات بیان کیے تو انہوں نے کہا: آپ خوف نہ کریں آپ نے ظالم قوم سے نجات پا لی ہےo ان میں سے ایک (لڑکی) نے کہا: اے (میرے) والد گرامی! انہیں (اپنے پاس مزدوری) پر رکھ لیں بے شک بہترین شخص جسے آپ مزدوری پر رکھیں وہی ہے جو طاقتور امانتدار ہو (اور یہ اس ذمہ داری کے اہل ہیں)o

(3) وَ اِذَا الْمَوْءٗدَةُ سُىِٕلَتْ۪ۙo بِاَیِّ ذَنْۢبٍ قُتِلَتْۚo

(التکویر، 81/ 8-9)

اور جب زندہ دفن کی ہوئی لڑکی سے پوچھا جائے گاo کہ وہ کس گناہ کے باعث قتل کی گئی تھیo

اَلْحَدِیْث

253/ 45۔ عَنْ عَائِشَۃَ زَوْجِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَتْ: رضی اللہ عنہ متْنِي امْرَأَۃٌ وَمَعَھَا ابْنَتَانِ لَھَا، فَسَأَلَتْنِي، فَلَمْ تَجِدْ عِنْدِي شَیْئًا غَیْرَ تَمْرَۃٍ وَاحِدَۃٍ، فَأَعْطَیْتُھَا إِیَّاھَا، فَأَخَذَتْھَا، فَقَسَمَتْھَا بَیْنَ ابْنَتَیْھَا وَلَمْ تَأْکُلْ مِنْھَا شَیْئًا، ثُمَّ قَامَتْ فَخَرَجَتْ وَابْنَتَاھَا، فَدَخَلَ عَلَيَّ النَّبِيُّ ﷺ فَحَدَّثْتُہٗ حَدِیْثَھَا۔ فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ: مَنِ ابْتُلِيَ مِنَ الْبَنَاتِ بِشَیْئٍ فَأَحْسَنَ إِلَیْھِنَّ، کُنَّ لَہٗ سِتْرًا مِنَ النَّارِ۔

مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ وَاللَّفْظُ لِمُسْلِمٍ۔

253: أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب الأدب، باب رحمۃ الولد وتقبیلہ ومعانقتہ، 5/ 2234، الرقم/ 5649، ومسلم في الصحیح، کتاب البر والصلۃ والآداب، باب فضل الإحسان إلی البنات، 4/ 2027، الرقم/ 2629۔

حضور نبی اکرم ﷺ کی زوجہ مطہرہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتی ہیں: میرے پاس ایک عورت آئی اور اس کے ساتھ اس کی دو بیٹیاں بھی تھیں، اس نے مجھ سے (کھانے کا) سوال کیا، میرے پاس ایک کھجور کے سوا اور کوئی چیز نہ تھی، میں نے وہ کھجور اسے دے دی۔ اُس نے وہ (کھجور) لے کر اسے اپنی دونوں بیٹیوں میں (برابر برابر) تقسیم کر دیا اور خود اس میں سے کچھ نہ کھایا۔ پھر وہ اٹھی اور اپنی دونوں بیٹیوں کے ساتھ باہر چلی گئی۔ حضور نبی اکرم ﷺ میرے پاس تشریف لائے تو میں نے آپ کے سامنے اس کا واقعہ بیان کیا۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جس شخص کو ان بیٹیوں (کی پرورش اور تربیت) سے آزمایا جائے اور وہ ان کے ساتھ حسنِ سلوک کرے تو وہ (بچیاں) اس کے لیے جہنم سے حجاب (یعنی نجات کا ذریعہ) بن جاتی ہیں۔

یہ حدیث متفق علیہ ہے اور مذکورہ الفاظ امام مسلم کے ہیں۔

254/ 46۔ وَفِي رِوَایَۃٍ عَنْھَا رضی اللہ عنہ أَنَّھَا قَالَتْ: جَاءَ تْنِي مِسْکِیْنَۃٌ تَحْمِلُ ابْنَتَیْنِ لَھَا، فَأَطْعَمْتُھَا ثَـلَاثَ تَمَرَاتٍ، فَأَعْطَتْ کُلَّ وَاحِدَۃٍ مِنْھُمَا تَمْرَۃً وَرَفَعَتْ إِلٰی فِیْھَا تَمْرَۃً لِتَأْکُلَھَا، فَاسْتَطْعَمَتْھَا ابْنَتَاھَا، فَشَقَّتِ التَّمْرَۃَ الَّتِي کَانَتْ تُرِیدُ أَنْ تَأْکُلَھَا بَیْنَھُمَا، فَأَعْجَبَنِي شَأْنُھَا، فَذَکَرْتُ الَّذِي صَنَعَتْ لِرَسُولِ اللهِ ﷺ، فَقَالَ: إِنَّ اللهَ قَدْ أَوْجَبَ لَھَا بِھَا الْجَنَّۃَ أَوْ أَعْتَقَھَا بِھَا مِنَ النَّارِ۔

رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ وَابْنُ حِبَّانَ۔

254: أخرجہ مسلم في الصحیح، کتاب البر والصلۃ والآداب، باب فضل الإحسان إلی البنات، 4/ 2027، الرقم/ 2630، وأحمد بن حنبل في المسند، 6/ 92، الرقم/ 24655، وابن حبان في الصحیح، 2/ 193، الرقم/ 448۔

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ ہی سے مروی ہے کہ میرے پاس ایک غریب عورت آئی جس نے اپنی دو بیٹیاں اُٹھائی ہوئی تھیں۔ میں نے اسے تین کھجوریں دیں تو اس نے اُن میں سے ہر ایک کو ایک ایک کھجور دے دی اور تیسری کھجور خود کھانے کے لیے اپنے منہ کی طرف بڑھائی تو اس کی بیٹیوں نے وہ بھی کھانے کے لیے مانگ لی۔ سو جس کھجور کو وہ کھانا چاہتی تھی اُس نے اس کے دو ٹکڑے کر کے وہ بھی ان کو کھلا دی۔ مجھے اس واقعہ سے بہت تعجب ہوا۔ میں نے رسول اللہ ﷺ سے اس عورت کا اِیثار بیان کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے اس (اِیثار) کی وجہ سے اس عورت کے لیے جنت کو واجب کر دیا ہے؛ یا (فرمایا:) اسے اس (ایثار) کے سبب دوزخ سے آزاد کر دیا ہے۔

اِسے امام مسلم، احمد اور ابنِ حبان نے روایت کیا ہے۔

255/ 47۔ عَنْ أَبِي سَعِیْدٍ الْخُدْرِيِّ رضی اللہ عنہ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: مَنْ عَالَ ثَـلَاثَ بَنَاتٍ، فَأَدَّبَھُنَّ، وَزَوَّجَھُنَّ، وَأَحْسَنَ إِلَیْھِنَّ، فَلَهُ الْجَنَّۃُ۔

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَأَبُوْدَاوُدَ وَاللَّفْظُ لَہٗ وَأَبُو یَعْلٰی۔

255: أخرجہ أحمد بن حنبل في المسند، 3/ 97، الرقم/ 11943، وأبوداود في السنن، کتاب الأدب، باب في فضل من عال یتیما، 4/ 338، الرقم/ 5147، وأبویعلی في المسند، 4/ 342، الرقم/ 2457، وابن أبي شیبۃ في المصنف، 5/ 221، الرقم/ 25434، والطبراني في المعجم الکبیر، 11/ 216، الرقم/ 11542۔

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس نے تین بیٹیوں کی پرورش کی، اُن کی اچھی تربیت کی، پھر اُن کی شادی کی اور (بعد ازاں بھی) ان کے ساتھ اچھا سلوک کرتا رہا تو اُس کے لیے جنت (کی خوشخبری) ہے۔

اِسے امام احمد، ابو داؤد اور ابو یعلی نے روایت کیا ہے۔ مذکورہ الفاظ امام ابو داؤد کے ہیں۔

256/ 48۔ عَنْ عُقْبَۃَ بْنِ عَامِرٍ رضی اللہ عنہ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ یَقُوْلُ: مَنْ کَانَ لَہٗ ثَـلَاثُ بَنَاتٍ، فَصَبَرَ عَلَیْھِنَّ، وَأَطْعَمَھُنَّ وَسَقَاھُنَّ، وَکَسَاھُنَّ مِنْ جِدَتِہٖ، کُنَّ لَہٗ حِجَابًا مِنَ النَّارِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ۔

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَابْنُ مَاجَہ وَاللَّفْظُ لَہٗ۔

256: أخرجہ أحمد بن حنبل في المسند، 4/ 154، الرقم/ 17439، وابن ماجہ في السنن، کتاب الأدب، باب بر الوالد والإحسان إلی البنات، 2/ 1210، الرقم/ 3669، والطبراني في المعجم الکبیر، 17/ 299، الرقم/ 826۔

حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: جس شخص کی تین بیٹیاں ہوں اور وہ ان کے موجود ہونے پر صبر کرے، اُنہیں اچھا کھلائے پلائے اور اپنی استطاعت کے مطابق اچھا پہنائے، تو قیامت کے دن وہ (تینوں بیٹیاں) اُس کے لیے دوزخ سے نجات کا ذریعہ بن جائیں گی۔

اِسے امام احمد اور ابنِ ماجہ نے روایت کیا ہے جب کہ الفاظ ابنِ ماجہ کے ہیں۔

257/ 49۔ وَفِي رِوَایَۃٍ عَنْ أَبِي سَعِیْدٍ الْخُدْرِيِّ رضی اللہ عنہ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: مَنْ کَانَ لَہٗ ثَـلَاثُ بَنَاتٍ أَوْ ثَـلَاثُ أَخَوَاتٍ أَوِ ابْنَتَانِ أَوْ أُخْتَانِ، فَأَحْسَنَ صُحْبَتَهُنَّ، وَاتَّقَی اللهَ فِیْهِنَّ، فَلَهُ الْجَنَّۃُ۔

رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالْحُمَیْدِيُّ۔

257: أخرجہ الترمذي في السنن، کتاب البر والصلۃ والآداب، باب ما جاء في النفقۃ علی البنات والأخوات، 4/ 320، الرقم/ 1916، والحمیدي في المسند، 2/ 323، الرقم/ 738، وأبو عبد اللہ المروزي في البر والصلۃ/ 78، الرقم/ 150۔

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے ہی بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس شخص کی تین بیٹیاں یا تین بہنیں ہوں، یا دو بیٹیاں یا دو بہنیں ہوں، وہ اُن سے اچھا سلوک کرے اور اُن کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرے تو اس کے لیے جنت (کی خوشخبری) ہے۔

اِسے امام ترمذی اور حمیدی نے روایت کیا ہے۔

258/ 50۔ وَفِي رِوَایَۃٍ: عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی اللہ عنہ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: مَنْ عَالَ جَارِیَتَیْنِ حَتّٰی تَبْلُغَا، رضی اللہ عنہ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ أَنَا وَھُوَ؛ وَضَمَّ أَصَابِعَہٗ۔

رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَابْنُ أَبِي شَیْبَۃَ۔

258: أخرجہ مسلم في الصحیح، کتاب البر والصلۃ والآداب، باب فضل الإحسان إلی البنات، 4/ 2027، الرقم/ 2631، وابن أبي شیبۃ في المصنف، 5/ 222، الرقم/ 25439۔

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس شخص نے دو بچیوں کی بلوغت تک پرورش کی، قیامت کے دن میں اور وہ اس طرح آئیں گے۔ (یہ فرماتے ہوئے) آپ ﷺ نے اپنی انگلیوں کو ملا دیا۔

اِسے امام مسلم اور ابنِ ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔

259/ 51۔ وَفِي رِوَایَۃٍ لِلتِّرْمِذِيِّ وَالْحَاکِمِ، قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: مَنْ عَالَ جَارِیَتَیْنِ، دَخَلْتُ أَنَا وَھُوَ الْجَنَّۃَ کَھَاتَیْنِ وَأَشَارَ بِإِصْبَعَیْهِ۔

رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالْحَاکِمُ۔

259: أخرجہ الترمذي فی السنن، کتاب البر والصلۃ، باب ما جاء في النفقۃ علی البنات والأخوات، 4/ 319، الرقم/ 1914، والحاکم في المستدرک، 4/ 196، الرقم/ 7350، والطبراني في المعجم الأوسط، 1/ 176، الرقم/ 557۔

امام ترمذی و حاکم نے (حضرت انس رضی اللہ عنہ سے) یوں روایت کیا ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جس نے دو بچیوں کی پرورش کی، میں اور وہ جنت میں اِن دو (انگلیوں) کی طرح (اکٹھے) داخل ہوں گے۔ آپ ﷺ نے اپنی دو انگلیوں کو ملا کر اشارہ فرمایا۔

اِسے امام ترمذی اور حاکم نے روایت کیا ہے۔

260/ 52۔ وَفِي رِوَایَۃٍ: عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضی اللہ عنہا قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: مَا مِنْ رَجُلٍ تُدْرِکُ لَهُ ابْنَتَانِ، فَیُحْسِنُ إِلَیْهِمَا، مَا صَحِبَتَاهُ أَوْ صَحِبَھُمَا، إِلَّا أَدْخَلَتَاهُ الْجَنَّۃَ۔

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَابْنُ مَاجَہ وَاللَّفْظُ لَہٗ وَالْحَاکِمُ وَابْنُ حِبَّانَ۔ وَقَالَ الْحَاکِمُ: ھٰذَا حَدِیْثٌ صَحِیحُ الإِسْنَادِ۔

260: أخرجہ أحمد بن حنبل في المسند، 1/ 363، الرقم/ 3424، وابن ماجہ في السنن، کتاب الأدب، باب بر الوالد والإحسان إلی البنات، 2/ 1210، الرقم/ 3670، والحاکم في المستدرک، 4/ 196، الرقم/ 7351، وابن حبان في الصحیح، 7/ 207، الرقم/ 2945۔

اور حضرت (عبد اللہ) بن عباس رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس شخص کی دو بیٹیاں ہوں اور جب تک وہ اُس کے پاس رہیں یا وہ اُن کے ساتھ رہا، (اس دوران) وہ اُن کے ساتھ حسنِ سلوک کرتا رہا تو وہ دونوں اسے جنت میں لے جائیں گی۔

اِسے امام احمد، ابنِ ماجہ، حاکم اور ابنِ حبان نے روایت کیا ہے اور مذکورہ الفاظ ابنِ ماجہ کے ہیں۔ نیز امام حاکم نے کہا ہے کہ یہ حدیث صحیح الاسناد ہے۔

261/ 53۔ عَنْ أَنَسٍ رضی اللہ عنہ قَالَ: کَانَ مَعَ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ رَجُلٌ، فَ رضی اللہ عنہ ابْنٌ لَہٗ، فَقَبَّلَہٗ وَأَجْلَسَہٗ عَلٰی فَخِذِہٖ، ثُمَّ رضی اللہ عنہ متْ بِنْتٌ لَہٗ، فَأَجْلَسَھَا إِلٰی جَنْبِہٖ۔ قَالَ: فَهَـلَّا عَدَلْتَ بَیْنَھُمَا۔

رَوَاهُ الطَّحَاوِيُّ وَتَمَّامٌ الرَّازِيُّ وَالْبَیْھَقِيُّ۔

261: أخرجہ الطحاوي في شرح معاني الآثار، 4/ 89، وتمام الرازي في الفوائد، 2/ 237، الرقم/ 1616، والبیھقي في شعب الإیمان، 6/ 410، الرقم/ 8700، وأیضًا، 7/ 468، الرقم/ 11022، وابن عساکر في تاریخ مدینۃ دمشق، 13/ 396۔

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ کی بارگاہ میں ایک شخص حاضر تھا کہ اُس شخص کا بیٹا اُس کے پاس آیا، اُس شخص نے اُسے چوما اور اُسے اپنی گود میں بٹھا لیا۔ پھر اُس کی بیٹی آئی تو اُس نے اُسے اپنے پہلو میں بٹھا لیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: تم نے اِن دونوں کے درمیان عدل کیوں نہیں کیا۔

اِسے امام طحاوی، تمّام رازی اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔

اَلتَّعَامُلُ مَعَ الْأَطْفَالِ بِالْبِرِّ وَالْمُلَاطَفَۃِ

{بچوں کے ساتھ شفقت اور احسان}

اَلْقُرْآن

(1) وَ یَسْتَفْتُوْنَكَ فِی النِّسَآءِ ؕ قُلِ اللّٰهُ یُفْتِیْكُمْ فِیْهِنَّ ۙ وَ مَا یُتْلٰی عَلَیْكُمْ فِی الْكِتٰبِ فِیْ یَتٰمَی النِّسَآءِ الّٰتِیْ لَا تُؤْتُوْنَهُنَّ مَا كُتِبَ لَهُنَّ وَ تَرْغَبُوْنَ اَنْ تَنْكِحُوْهُنَّ وَ الْمُسْتَضْعَفِیْنَ مِنَ الْوِلْدَانِ ۙ وَ اَنْ تَقُوْمُوْا لِلْیَتٰمٰی بِالْقِسْطِ ؕ وَ مَا تَفْعَلُوْا مِنْ خَیْرٍ فَاِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِهٖ عَلِیْمًاo

(النساء، 4/ 127)

اور (اے پیغمبر!) لوگ آپ سے (یتیم) عورتوں کے بارے میں فتویٰ پوچھتے ہیں۔ آپ فرما دیں کہ اللہ تمہیں ان کے بارے میں حکم دیتا ہے اور جو حکم تم کو (پہلے سے) کتابِ مجید میں سنایا جا رہا ہے (وہ بھی) ان یتیم عورتوں ہی کے بارے میں ہے جنہیں تم وہ (حقوق) نہیں دیتے جو ان کے لیے مقرر کیے گئے ہیں اور چاہتے ہو کہ (ان کا مال قبضے میں لینے کی خاطر) ان کے ساتھ خود نکاح کر لو اور نیز بے بس بچوں کے بارے میں (بھی حکم) ہے کہ یتیموں کے معاملے میں انصاف پر قائم رہا کرو اور تم جو بھلائی بھی کروگے تو بے شک اللہ اسے خوب جاننے والا ہےo

(2) وَ اَمَّا الْجِدَارُ فَكَانَ لِغُلٰمَیْنِ یَتِیْمَیْنِ فِی الْمَدِیْنَةِ وَ كَانَ تَحْتَهٗ كَنْزٌ لَّهُمَا وَ كَانَ اَبُوْهُمَا صَالِحًا ۚ فَاَرَادَ رَبُّكَ اَنْ یَّبْلُغَاۤ اَشُدَّهُمَا وَ یَسْتَخْرِجَا كَنْزَهُمَا ۖۗ رَحْمَةً مِّنْ رَّبِّكَ ۚ وَ مَا فَعَلْتُهٗ عَنْ اَمْرِیْ ؕ ذٰلِكَ تَاْوِیْلُ مَا لَمْ تَسْطِعْ عَّلَیْهِ صَبْرًا ؕ۠o

(الکہف، 18/ 82)

اور وہ جو دیوارتھی تو وہ شہر میں (رہنے والے) دو یتیم بچوں کی تھی اور اس کے نیچے ان دونوں کے لیے ایک خزانہ (مدفون) تھا اور ان کا باپ صالح (شخص) تھا، سو آپ کے رب نے ارادہ کیا کہ وہ دونوں اپنی جوانی کو پہنچ جائیں اور آپ کے رب کی رحمت سے وہ اپنا خزانہ (خود ہی) نکالیں، اور میں نے (جو کچھ بھی کیا) وہ از خود نہیں کیا، یہ ان (واقعات) کی حقیقت ہے جن پر آپ صبر نہ کر سکےo

اَلْحَدِیْث

262/ 54۔ عَنْ عَائِشَۃَ رضی اللہ عنہ قَالَتْ: قَدِمَ نَاسٌ مِنَ الْأَعْرَابِ عَلٰی رَسُوْلِ اللهِ ﷺ فَقَالُوْا: أَتُقَبِّلُوْنَ صِبْیَانَکُمْ؟ فَقَالُوْا: نَعَمْ۔ فَقَالُوْا: لٰـکِنَّا، وَاللهِ، مَا نُقَبِّلُ۔ فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: وَأَمْلِکُ إِنْ کَانَ اللهُ نَزَعَ مِنْکُمُ الرَّحْمَۃَ؟

مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ وَاللَّفْظُ لِمُسْلِمٍ۔

262: أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب الأدب، باب رحمۃ الولد وتقبیلہ ومعانقتہ، 5/ 2235، الرقم/ 5652، وأیضًا في الأدب المفرد/ 48، الرقم/ 98، ومسلم في الصحیح، کتاب الفضائل، باب رحمتہ الصبیان والعیال وتواضعہ وفضل ذلک، 4/ 1808، الرقم/ 2317، وأحمد بن حنبل في المسند، 6/ 56، الرقم/ 24336، وابن ماجہ في السنن، کتاب الأدب، باب برّ الوالد والإحسان إلی البنات، 2/ 1209، الرقم/ 3665، والبیھقي في شعب الإیمان، 7/ 466، الرقم/ 11013۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں کچھ دیہاتی لوگ آئے اور اُنہوں نے پوچھا: کیا آپ لوگ اپنے بچوں کو بوسہ دیتے ہیں؟ حاضرین نے کہا: ہاں! اُنہوں نے کہا: بخدا ہم تو (اپنے بچوں کو) بوسہ نہیں دیتے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اگر اللہ تعالیٰ نے تمہارے دل سے رحمت نکال لی ہے تو میں کیا کروں؟

یہ حدیث متفق علیہ ہے، مذکورہ الفاظ مسلم کے ہیں۔

263/ 55۔ عَنْ أَبِي ھُرَیْرَۃَ رضی اللہ عنہ قَالَ: قَبَّلَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ الْحَسَنَ بْنَ عَلِيٍّ رضی اللہ عنہا وَعِنْدَهُ الأَقْرَعُ بْنُ حَابِسٍ التَّمِیْمِيُّ جَالِسًا۔ فَقَالَ الْأَقْرَعُ: إِنَّ لِي عَشَرَۃً مِنَ الْوَلَدِ مَا قَبَّلْتُ مِنْھُمْ أَحَدًا، فَنَظَرَ إِلَیْهِ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ، ثُمَّ قَالَ: مَنْ لَا یَرْحَمُ لَا یُرْحَمُ۔

مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ۔

263: أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب الأدب، باب رَحمۃ الولد وتقبیلہ ومعانقتہ، 5/ 2235، الرقم/ 5651، ومسلم في الصحیح، کتاب الفضائل، باب رحمتہ ﷺ الصبیان والعیال وتواضعہ وفضل ذلک، 4/ 1808، الرقم/ 2318۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہا کو چوما تو آپ ﷺ کے پاس اس وقت اَقرع بن حابس تمیمی بھی بیٹھا تھا، اَقرع بولا: میرے دس بیٹے ہیں میں نے تو کبھی اُن میں سے کسی کو نہیں چوما۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے اس کی طرف دیکھا، پھر فرمایا: جو رحم نہیں کرتااُس پر رحم نہیں کیا جاتا۔

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

264/ 56۔ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی اللہ عنہ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: إِنِّي لَأَدْخُلُ فِي الصَّلَاۃِ وَأَنَا أُرِیْدُ إِطَالَتَھَا، فَأَسْمَعُ بُکَائَ الصَّبِيِّ، فَأَتَجَوَّزُ فِي صَلَاتِي مِمَّا أَعْلَمُ مِنْ شِدَّۃِ وَجْدِ أُمِّہٖ مِنْ بُکَائِہٖ۔

مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ۔

264: أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب الجماعۃ والإمامۃ، باب من أخف الصلاۃ عند بکاء الصبي، 1/ 250، الرقم/ 677، ومسلم في الصحیح، کتاب الصلاۃ، باب أمر الأئمۃ بتخفیف الصلاۃ في تمام، 1/ 343، الرقم/ 470۔

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: میں نماز شروع کرتا ہوں تو چاہتا ہوں کہ اسے لمبا کروں۔ پھر کسی بچے کے رونے کی آواز سنتا ہوں تو اپنی نماز کو مختصر کر دیتا ہوں، یہ جانتے ہوئے کہ اُس کے رونے کی وجہ سے اس کی ماں کو پریشانی ہوگی۔

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

265/ 57۔ وَفِي رِوَایَۃٍ عَنْهُ رضی اللہ عنہ قَالَ: کَانَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ یَسْمَعُ بُکَائَ الصَّبِيِّ مَعَ أُمِّہٖ وَھُوَ فِي الصَّلَاۃِ، فَیَقْرَأُ بِالسُّوْرَۃِ الْخَفِیْفَۃِ أَوْ بِالسُّوْرَۃِ الْقَصِیْرَۃِ۔

رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ وَأَبُوْ یَعْلٰی۔

265: أخرجہ مسلم في الصحیح، کتاب الصلاۃ، باب أمر الأئمۃ بتخفیف الصلاۃ في تمام، 1/ 342، الرقم/ 470، وأحمد بن حنبل في المسند، 3/ 156، الرقم/ 12609، وأبو یعلی في المسند، 6/ 109، الرقم/ 3376، وأبو عوانۃ في المسند، 1/ 422، الرقم/ 1563، والبیھقي في السنن الکبری، 2/ 393، الرقم/ 3847۔

ایک اور روایت میں (حضرت انس رضی اللہ عنہ ہی) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نماز میں کسی ایسے بچہ کے رونے کی آواز سنتے جو اپنی ماں کے ساتھ ہوتا تو چھوٹی سورت پڑھ کر نماز میں تخفیف فرما دیتے۔

اِسے امام مسلم، احمد اور ابو یعلی نے روایت کیا ہے۔

266/ 58۔ عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو رضی اللہ عنہ قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: لَیْسَ مِنَّا مَنْ لَمْ یَرْحَمْ صَغِیْرَنَا، وَیَعْرِفْ شَرَفَ کَبِیْرِنَا۔

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَأَبُوْدَاوُدَ وَالتِّرْمِذِيُّ۔ وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: ھٰذَا حَدِیْثٌ حَسَنٌ صَحِیْحٌ۔

266: أخرجہ أحمد بن حنبل في المسند، 2/ 222، الرقم/ 7073، وأبوداود في السنن، کتاب الأدب، باب في الرحمۃ، 4/ 286، الرقم/ 4941، والترمذي في السنن، کتاب البر والصلۃ، باب ما جاء في رحمۃ الصبیان، 4/ 322، الرقم/ 1920، والبخاري عن أبي ھریرۃ رضی اللہ عنہ في الأدب المفرد/ 129، الرقم/ 353، والحاکم في المستدرک، 1/ 131، الرقم/ 209۔

حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: وہ شخص ہم میں سے نہیں ہے جو ہمارے چھوٹوں پر رحم نہ کرے اور ہمارے بڑوں کی قدر و منزلت نہ پہچانے۔

اِسے امام احمد، ابو داؤد اور ترمذی نے روایت کیا ہے۔ اور امام ترمذی نے فرمایا: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

267/ 59۔ وَفِي رِوَایَۃٍ: عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضی اللہ عنہا قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: لَیْسَ مِنَّا مَنْ لَمْ یَرْحَمْ صَغِیْرَنَا وَیُوَقِّرْ کَبِیْرَنَا، وَیَأْمُرْ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْهَ عَنِ الْمُنْکَرِ۔

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالتِّرْمِذِيُّ وَاللَّفْظُ لَہٗ وَابْنُ حِبَّانَ وَالْبَزَّارُ۔ وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: ھٰذَا حَدِیْثٌ حَسَنٌَ غریبٌ۔

267: أخرجہ أحمد بن حنبل في المسند، 1/ 257، الرقم/ 2329، والترمذي في السنن، کتاب البر والصلۃ، باب ما جاء في رحمۃ الصبیان، 4/ 322، الرقم/ 1921، وابن حبان في الصحیح، 2/ 203، الرقم/ 458، والبزار في المسند، 7/ 157، الرقم/ 2718، والطبراني في المعجم الأوسط، 5/ 107، الرقم/ 4812، وأیضًا في المعجم الکبیر، 11/ 449، الرقم/ 12276۔

حضرت (عبد اللہ) بن عباس رضی اللہ عنہم سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: وہ شخص ہم میں سے نہیں جو ہمارے چھوٹوں پر رحم نہ کرے اور ہمارے بڑوں کی عزت نہ کرے اور نیکی کا حکم نہ دے اور برائی سے نہ روکے۔

اِسے امام احمد نے، ترمذی نے مذکورہ الفاظ کے ساتھ، ابنِ حبان اور بزار نے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے فرمایا: یہ حدیث حسن غریب ہے۔

268/ 60۔ عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی اللہ عنہ أَنَّہٗ مَرَّ عَلٰی صِبْیَانٍ فَسَلَّمَ عَلَیْھِمْ، وَقَالَ: کَانَ النَّبِيُّ ﷺ یَفْعَلُہٗ۔

رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَالتِّرْمِذِيُّ۔

268: أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب الاستئذان، باب التسلیم علی الصبیان، 5/ 2306، الرقم/ 5893، والترمذي في السنن، کتاب الاستئذان، باب ما جاء في التسلیم علی الصبیان، 5/ 57، الرقم/ 2696، وابن الجعد في المسند، 1/ 260، الرقم/ 1725۔

حضرت ثابت بنانی حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ وہ بچوں کے پاس سے گزرے تو اُنہیں سلام کیا اور فرمایا: حضور نبی اکرم ﷺ کا معمول مبارک بھی یہی تھا۔

اِسے امام بخاری اور ترمذی نے روایت کیا ہے۔

269/ 61۔ وَفِي رِوَایَۃٍ: عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ جَعْفَرٍ رضی اللہ عنہم قَالَ: کَانَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ إِذَا قَدِمَ مِنْ سَفَرٍ تُلُقِّيَ بِصِبْیَانِ أَھْلِ بَیْتِہٖ۔ قَالَ: وَإِنَّہٗ قَدِمَ مِنْ سَفَرٍ فَسُبِقَ بِي إِلَیْهِ، فَحَمَلَنِي بَیْنَ یَدَیْهِ، ثُمَّ جِيئَ بِأَحَدِ ابْنَيْ فَاطِمَۃَ، فَأَرْدَفَہٗ خَلْفَہٗ، قَالَ: فَأُدْخِلْنَا الْمَدِیْنَۃَ ثَـلَاثَۃً عَلٰی دَابَّۃٍ۔

رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ وَالْبَیْهَقِيُّ۔

269: أخرجہ مسلم في الصحیح، کتاب فضائل الصحابۃ، باب فضائل عبد اللہ بن جعفر رضی اللہ عنہم، 4/ 1885، الرقم/ 2428، وأحمد بن حنبل في المسند، 1/ 203، الرقم/ 1743، والبیہقي في السنن الکبری، 5/ 260، الرقم/ 10154۔

حضرت عبد اللہ بن جعفر رضی اللہ عنہم سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب کسی سفر سے تشریف لاتے تو اہل بیت کے بچوں کے ساتھ آپ کا استقبال کیا جاتا۔ ایک بار آپ ایک سفر سے آئے تو مجھے جلدی سے آپ ﷺ کی بارگاہ میں لے جایا گیا۔ آپ نے مجھے اپنے آگے بٹھا لیا، پھر حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ کے صاحبزادگان میں سے ایک صاحبزادے کو لایا گیا تو آپ ﷺ نے انہیں اپنے پیچھے بٹھا لیا، پھر ہم تینوں کو ایک ہی سواری پر بیٹھے ہوئے مدینہ منورہ میں داخل کیا گیا۔

اِسے امام مسلم، احمد اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔

270/ 62۔ وَفِي رِوَایَۃٍ: عَنْ أَنَسٍ رضی اللہ عنہ قَالَ: کَانَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ یَزُوْرُ الْأَنْصَارَ فَیُسَلِّمُ عَلٰی صِبْیَانِھِمْ، وَیَمْسَحُ بِرُؤُوْسِھِمْ وَیَدْعُوْ لَھُمْ۔

رَوَاهُ النساءيُّ وَابْنُ حِبَّانَ وَأَبُوْ نُعَیْمٍ وَالْبَغَوِيُّ۔

270: أخرجہ النساءي في السنن الکبری، کتاب المناقب، أبناء الأنصار رضی اللہ عنہ، 5/ 92، الرقم/ 8349، وابن حبان في الصحیح، 2/ 205-206، الرقم/ 459، وأبو نعیم في حلیۃ الأولیاء، 6/ 291، والبغوي في شرح السنۃ، 12/ 224، والمقدسي في الأحادیث المختارۃ، 4/ 425، الرقم/ 1603۔

ایک روایت میں حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ انصار کے پاس تشریف لے جاتے، اُن کے بچوں کو سلام کرتے، اُن کے سر پر دستِ شفقت پھیرتے اور اُن کے لیے دعا فرماتے۔

اِسے امام نسائی، ابن حبان، ابو نعیم اور بغوی نے روایت کیا ہے۔

271/ 63۔ عَنْ أَبِي أَیُّوْبَ رضی اللہ عنہ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ یَقُوْلُ: مَنْ فَرَّقَ بَیْنَ الْوَالِدَۃِ وَوَلَدِھَا، فَرَّقَ اللهُ بَیْنَہٗ وَبَیْنَ أَحِبَّتِہٖ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ۔

رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالدَّارِمِيُّ وَالدَّارَقُطْنِيُّ۔ وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: ھٰذَا حَدِیْثٌ حَسَنٌ۔

271: أخرجہ الترمذي في السنن، کتاب البیوع، باب ما جاء في کراھیۃ أن یفرّق بین الأخوین أو بین الوالدۃ وولدھا في البیع، 3/ 580، الرقم/ 1283، والدارمي في السنن، 2/ 299، الرقم/ 2479، والدارقطني في السنن، 3/ 67، الرقم/ 256۔

حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: جس شخص نے ماں اور اس کی اولاد کے درمیان جدائی پیدا کی، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے اور اُس کے پیاروں کے درمیان جدائی پیدا کر دے گا۔

اِسے امام ترمذی، دارمی اور دارقطنی نے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے فرمایا: یہ حدیث حسن ہے۔

اَلتَّعَامُلُ مَعَ الْـجِیْرَانِ بِالْبِرِّ وَالْمُلَاطَفَۃِ

{ہمسایوں کے ساتھ حسنِ سلوک اور شفقت}

اَلْقُرْآن

وَ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَ لَا تُشْرِكُوْا بِهٖ شَیْـًٔا وَّ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا وَّ بِذِی الْقُرْبٰی وَ الْیَتٰمٰی وَ الْمَسٰكِیْنِ وَ الْجَارِ ذِی الْقُرْبٰی وَ الْجَارِ الْجُنُبِ وَ الصَّاحِبِ بِالْجَنْۢبِ وَ ابْنِ السَّبِیْلِ ۙ وَ مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُكُمْ ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ مَنْ كَانَ مُخْتَالًا فَخُوْرَاۙo

(النساء، 4/ 36)

اور تم اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرو اور رشتہ داروں اور یتیموں اور محتاجوں (سے) اور نزدیکی ہمسائے اور اجنبی پڑوسی اور ہم مجلس اور مسافر (سے)، اور جن کے تم مالک ہو چکے ہو، (ان سے نیکی کیا کرو)، بے شک اللہ اس شخص کو پسند نہیں کرتا جو تکبرّ کرنے والا (مغرور) فخر کرنے والا (خود بین) ہوo

اَلْحَدِیْث

272/ 64۔ عَنْ أَبِي ھُرَیْرَۃَ رضی اللہ عنہ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: مَنْ کَانَ یُؤْمِنُ بِاللهِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ، فَـلَا یُؤْذِ جَارَہٗ؛ وَمَنْ کَانَ یُؤْمِنُ بِاللهِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ، فَلْیُکْرِمْ ضَیْفَہٗ؛ وَمَنْ کَانَ یُؤْمِنُ بِاللهِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ، فَلْیَقُلْ خَیْرًا أَوْ لِیَصْمُتْ۔

مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ۔

272: أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب الأدب، باب من کان یؤمن باللہ والیوم الآخر فلا یؤذ جارہ، 5/ 2240، الرقم/ 5672، ومسلم في الصحیح، کتاب الإیمان، باب الحث علی إکرام الجار والضیف ولزوم الصمت إلّا عن الخیر وکون ذلک کلہ من الإیمان، 1/ 68، الرقم/ 47، وأحمد بن حنبل في المسند، 2/ 463، الرقم/ 9968، وأبو داود في السنن، کتاب الأدب، باب في حق الجوار، 4/ 339، الرقم/ 5154، وابن ماجہ في السنن، کتاب الأدب، باب حق الجوار، 2/ 1211، الرقم/ 3672، والدارمي في السنن، 2/ 134، الرقم/ 2036۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو شخص اللہ تعالیٰ اور روزِ قیامت پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے پڑوسی کو تکلیف نہ دے، جو شخص اللہ تعالیٰ اور قیامت پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے مہمان کی عزت کرے اور جو شخص اللہ تعالیٰ اور قیامت پر ایمان رکھتا ہو وہ اچھی بات کہے یا پھر خاموش رہے۔

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

273/ 65۔ وَفِي رِوَایَۃٍ: عَنْ أَبِي شُرَیْحٍ رضی اللہ عنہ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: وَاللهِ، لَا یُؤْمِنُ، وَاللهِ، لَا یُؤْمِنُ، وَاللهِ، لَا یُؤْمِنُ۔ قِیْلَ: وَمَنْ، یَا رَسُوْلَ اللهِ؟ قَالَ ﷺ: الَّذِي لَا یَأْمَنُ جَارُہٗ بَوَائِقَہٗ۔

رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ۔

273: أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب الأدب، باب إثم من لا یأمن جارہ بوائقہ، 5/ 2240، الرقم/ 5670۔

ایک روایت میں حضرت ابو شریح رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اللہ کی قسم! وہ ایمان والا نہیں، اللہ کی قسم! وہ ایمان والا نہیں، اللہ کی قسم! وہ ایمان والا نہیں۔ عرض کیا گیا: یا رسول اللہ! کون؟ فرمایا: جس کا ہمسایہ اُس کی ایذا رسانی سے محفوظ نہیں۔

اِسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔

274/ 66۔ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی اللہ عنہ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: لَا یُؤْمِنُ أَحَدُکُمْ حَتّٰی یُحِبَّ لِأَخِیْهِ - أَوْ قَالَ: لِجَارِہٖ - مَا یُحِبُّ لِنَفْسِہٖ۔

رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَابْنُ مَاجَہ۔

274: أخرجہ مسلم في الصحیح، کتاب الإیمان، باب الدلیل علی أن من خصال الإیمان أن یحب لأخیہ المسلم ما یحب لنفسہ من الخیر، 1/ 67، الرقم/ 45، وابن ماجہ في السنن، المقدمۃ، باب في الإیمان، 1/ 26، الرقم/ 66۔

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: تم میں سے کوئی شخص اُس وقت تک مومن نہیں ہو گا جب تک کہ اپنے بھائی - یا فرمایا: پڑوسی - کے لیے وہی چیز پسند نہ کرے جس کو خود اپنے لیے پسند کرتا ہے۔

اِسے امام مسلم اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔

275/ 67۔ عَنْ أَبِي ھُرَیْرَۃَ رضی اللہ عنہ أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ: لَا یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ مَنْ لَا یَأْمَنُ جَارُہٗ بَوَائِقَہٗ۔

رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ۔

275: أخرجہ مسلم في الصحیح، کتاب الإیمان، باب بیان تحریم إیذاء الجار، 1/ 68، الرقم/ 46، وأحمد بن حنبل في المسند، 2/ 372، الرقم/ 8842، وأبویعلی في المسند، 11/ 375، الرقم/ 6490، والقضاعي في مسند الشھاب، 2/ 56، الرقم/ 875، والحاکم في المستدرک، 1/ 53، الرقم/ 21۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس شخص کی ایذا رسانی سے اس کا پڑوسی محفوظ نہ ہو، وہ جنت میں نہیں جائے گا۔

اِسے امام مسلم اور احمد نے روایت کیا ہے۔

276/ 68۔ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی اللہ عنہ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: لَا یَسْتَقِیْمُ إِیْمَانُ عَبْدٍ حَتّٰی یَسْتَقِیْمَ قَلْبُہٗ، وَلَا یَسْتَقِیْمُ قَلْبُہٗ حَتّٰی یَسْتَقِیْمَ لِسَانُہٗ، وَلَا یَدْخُلُ رَجُلٌ الْجَنَّۃَ لَا یَأْمَنُ جَارُہٗ بَوَائِقَہٗ۔

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالْقُضَاعِيُّ۔

276: أخرجہ أحمد بن حنبل في المسند، 3/ 198، الرقم/ 13071، والقضاعي في مسند الشھاب، 2/ 62، الرقم/ 887، وذکرہ الھیثمي في مجمع الزوائد، 1/ 53، والھندي في کنز العمال، 9/ 25، الرقم/ 24925۔

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کسی بندے کا ایمان اس وقت تک درست نہیں ہوتا جب تک اس کا دل درست نہ ہو، دل اس وقت تک درست نہیں ہوتا جب تک اس کی زبان درست نہ ہو جائے اور وہ شخص جنت میں داخل نہیں ہوگا جس کا پڑوسی اس کی ایذا رسانیوں سے محفوظ نہ ہو۔

اِسے امام احمد اور قضاعی نے روایت کیا ہے۔

277/ 69۔ عَنْ أَنَسٍ رضی اللہ عنہ یَعْنِي ابْنَ مَالِکٍ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ ﷺ: الْمُؤْمِنُ؟ مَنْ أَمِنَهُ النَّاسُ، وَالْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُوْنَ مِنْ لِسَانِہٖ وَیَدِہٖ، وَالْمُھَاجِرُ مَنْ ھَجَرَ السُّوْءَ۔ وَالَّذِي نَفْسِي بِیَدِہٖ، لَا یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ عَبْدٌ لَا یَأْمَنُ جَارُہٗ بَوَائِقَہٗ۔

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَابْنُ حِبَّانَ وَالْحَاکِمُ۔

277: أخرجہ أحمد بن حنبل في المسند، 3/ 154، الرقم/ 12583، وابن حبان في الصحیح، 2/ 264، الرقم/ 510، والحاکم في المستدرک، 1/ 55، الرقم/ 25، والقضاعي في مسند الشھاب، 1/ 109، الرقم/ 130، وذکرہ المنذري في الترغیب والترھیب، 3/ 240، الرقم/ 3861، والھیثمي في مجمع الزوائد، 1/ 54۔

حضرت انس بن مالک ﷺ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: مومن وہ ہے جس سے لوگ امان میں رہیں، مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں اور مہاجر وہ ہے جس نے برائی کو چھوڑ دیا۔ اُس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے! وہ شخص جنت میں داخل نہیں ہو گا جس کا پڑوسی اُس کی اذیت سے محفوظ نہ ہو۔

اِسے امام احمد، ابن حبان اور حاکم نے روایت کیا ہے۔

278/ 70۔ عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ رضی اللہ عنہم، عَنْ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ أَنَّـہٗ قَالَ: خَیْرُ الْأَصْحَابِ عِنْدَ اللهِ خَیْرُھُمْ لِصَاحِبِہٖ، وَخَیْرُ الْجِیْرَانِ عِنْدَ اللهِ خَیْرُھُمْ لِجَارِہٖ۔

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالتِّرْمِذِيُّ وَالْحَاکِمُ۔ وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: ھٰذَا حَدِیثٌ حَسَنٌ غَرِیبٌ۔ وَقَالَ الْحَاکِمُ: ھٰذَا حَدِیْثٌ صَحِیْحٌ عَلٰی شَرْطِ الشَّیْخَیْنِ۔

278: أخرجہ أحمد بن حنبل في المسند، 2/ 167، الرقم/ 6566، والترمذي في السنن، کتاب البر والصلۃ، باب ما جاء في حق الجوار، 4/ 333، الرقم/ 1944، والدارمي في السنن، 2/ 284، الرقم/ 2437، والحاکم في المستدرک، 1/ 610، الرقم/ 1620، وابن حبان في الصحیح، 2/ 276، الرقم/ 518، وابن خزیمۃ في الصحیح، 4/ 140، الرقم/ 2539۔

حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہم سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے ہاں بہترین ساتھی وہ ہے جو اپنے ساتھی کے حق میں بہتر ہے اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک بہترین پڑوسی وہ ہے جو اپنے پڑوسی کے حق میں اچھا ہے۔

اِسے امام احمد، ترمذی اور حاکم نے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے فرمایا: یہ حدیث حسن غریب ہے۔ امام حاکم نے فرمایا: یہ حدیث شیخین کی شرائط پر صحیح ہے۔

279/ 71۔ عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُودٍ رضی اللہ عنہ، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: إِنَّ اللهَ قَسَمَ بَیْنَکُمْ أَخْـلَاقَکُمْ کَمَا قَسَمَ بَیْنَکُمْ أَرْزَاقَکُمْ، وَإِنَّ اللهَ سبحانہ وتعالیٰ یُعْطِي الدُّنْیَا مَنْ یُحِبُّ وَمَنْ لَا یُحِبُّ، وَلَا یُعْطِي الدِّیْنَ إِلَّا لِمَنْ أَحَبَّ۔ فَمَنْ أَعْطَاهُ اللهُ الدِّینَ فَقَدْ أَحَبَّہٗ۔ وَالَّذِي نَفْسِي بِیَدِہٖ، لَا یُسْلِمُ عَبْدٌ حَتّٰی یَسْلَمَ قَلْبُہٗ وَلِسَانُہٗ، وَلَا یُؤْمِنُ حَتّٰی یَأْمَنَ جَارُہٗ بَوَائِقَہٗ۔ قَالُوْا: وَمَا بَوَائِقُہٗ، یَا نَبِيَّ اللهِ؟ قَالَ: غَشْمُہٗ وَظُلْمُہٗ۔ وَلَا یَکْسِبُ عَبْدٌ مَالًا مِنْ حَرَامٍ، فَیُنْفِقَ مِنْهُ فَیُبَارَکَ لَہٗ فِیْهِ، وَلَا یَتَصَدَّقُ بِہٖ فَیُقْبَلَ مِنْهُ، وَلَا یَتْرُکُ خَلْفَ ظَہْرِہٖ إِلَّا کَانَ زَادَہٗ إِلَی النَّارِ۔ إِنَّ اللهَ سبحانہ وتعالیٰ لَا یَمْحُو السَّيِّئَ بِالسَّيِّئِ، وَلٰـکِنْ یَمْحُو السَّيِّئَ بِالْحَسَنِ، إِنَّ الْخَبِیْثَ لَا یَمْحُو الْخَبِیْثَ۔

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالْبَزَّارُ وَابْنُ أَبِي شَیْبَۃَ۔

279: أخرجہ أحمد بن حنبل في المسند، 1/ 387، الرقم/ 3672، والبزار في المسند، 5/ 392، الرقم/ 2026، وابن أبي شیبۃ في المسند، 1/ 232، الرقم/ 344، والبیھقي في شعب الإیمان، 4/ 395- 396، الرقم/ 5524، وذکرہ الھیثمي في مجمع الزوائد، 10/ 228، والمنذري في الترغیب والترھیب، 2/ 347، الرقم/ 2671۔

حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: بے شک اللہ تعالیٰ نے تمہارے درمیان اَخلاق اُسی طرح تقسیم فرمائے ہیں جیسے اُس نے تمہارے درمیان رزق تقسیم فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ اُسے بھی دنیا عطا فرما دیتا ہے جسے پسند فرماتا ہے اور اُسے بھی جسے ناپسند فرماتا ہے، لیکن دین صرف اُسی کو عطا فرماتا ہے جس سے محبت رکھتا ہے۔ جسے اُس نے دین کا علم عطا فرمایا اُسے اپنا محبوب بنا لیا۔ اُس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے! بندہ اُس وقت تک مسلمان نہیں ہو سکتا جب تک اُس کا دل اور زبان سلامتی والے نہ ہو جائیں۔ کوئی شخص اُس وقت تک صاحب ایمان نہیں ہو سکتا جب تک اُس کا ہمسایہ اُس کی ایذا رسانی سے محفوظ نہ ہو۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ م نے عرض کیا: اے اللہ کے پیارے نبی! اُس کی ایذا رسانی کیا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: اُس کی جہالت اور ظلم۔ کسی شخص کے لیے ایسا نہیں ہو سکتا کہ وہ مالِ حرام کمائے، پھر اُسے خرچ کرے تو اُس میں برکت ہو یا اُس سے صدقہ کرے اور وہ مقبول ہو۔ جو کچھ وہ مالِ حرام سے پیچھے چھوڑ جائے گا وہ اُس کے لیے دوزخ کا ایندھن ہی ہوگا۔ یقینا اللہ تعالیٰ برائی کو برائی کے ذریعے نہیں مٹاتا بلکہ برائی کو نیکی کے ذریعے مٹاتا ہے۔ بے شک گندگی کبھی گندگی کو صاف نہیں کر سکتی۔

اِسے امام احمد بن حنبل، بزار اور ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔

280/ 72۔ عَنْ أَبِي ھُرَیْرَۃَ رضی اللہ عنہ، قَالَ: قَالَ رَجُلٌ: یَا رَسُوْلَ اللهِ، إِنَّ فُـلَانَۃَ یُذْکَرُ مِنْ کَثْرَۃِ صَلَاتِھَا، وَصِیَامِھَا، وَصَدَقَتِھَا، غَیْرَ أَنَّھَا تُؤْذِي جِیْرَانَھَا بِلِسَانِھَا۔ قَالَ: هِيَ فِي النَّارِ۔ قَالَ: یَا رَسُوْلَ اللهِ، فَإِنَّ فُـلَانَۃَ یُذْکَرُ مِنْ قِلَّۃِ صِیَامِھَا، وَصَدَقَتِھَا، وَصَلَاتِھَا، وَإِنَّھَا تَصَدَّقُ بِالْأَثْوَارِ مِنَ الْأَقِطِ، وَلَا تُؤْذِي جِیْرَانَھَا بِلِسَانِھَا۔ قَالَ: هِيَ فِي الْجَنَّۃِ۔

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالْحَاکِمُ وَالْبُخَارِيُّ فِي الْأَدَبِ۔

280: أخرجہ أحمد بن حنبل في المسند، 2/ 440، الرقم/ 9673، والحاکم في المستدرک، 4/ 184، الرقم/ 7305، والبخاري في الأدب المفرد/ 54، الرقم/ 119، والبیھقي في شعب الإیمان، 7/ 78، الرقم/ 9545، وذکرہ الھیثمي في موارد الظمآن، 1/ 502، الرقم/ 2054، وأیضًا في مجمع الزوائد، 8/ 169۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے عرض کیا: یا رسول اللہ! فلاں عورت کثرت سے نماز پڑھنے، روزے رکھنے اور صدقہ کرنے کے حوالے سے مشہور ہے لیکن وہ اپنی زبان سے اپنے پڑوسیوں کو اذیت پہنچاتی رہتی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: وہ دوزخ میں جائے گی۔ اُس شخص نے دوبارہ عرض کیا: یا رسول اللہ! فلاں عورت کا کم روزے رکھنے، کم صدقہ کرنے، کم نمازیں پڑھنے کے حوالے سے ذکر کیا جاتا ہے لیکن کبھی پنیر کے چند ٹکڑے بھی صدقہ کرتی ہے؛ نیز اپنے پڑوسی کو اپنی زبان سے کبھی اذیت نہیں دیتی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: وہ جنت میں جائے گی۔

اِسے امام احمد اور حاکم نے اور بخاری نے الأدب المفرد میں روایت کیا ہے۔

281/ 73۔ عَنْ کَعْبِ بْنِ مَالِکٍ رضی اللہ عنہ، قَالَ: أَتَی النَّبِيَّ ﷺ رَجُلٌ، فَقَالَ: یَا رَسُوْلَ اللهِ، إِنِّي نَزَلْتُ فِي مَحَلَّۃِ بَنِي فُـلَانٍ، وَإِنَّ أَشَدَّھُمْ لِي أَذًی أَقْدَمُھُمْ لِي جِوَارًا۔ فَبَعَثَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ، أَبَا بَکْرٍ وَعُمَرَ وَعَلِیًّا۔ یَأْتُوْنَ الْمَسْجِدَ، فَیَقُوْمُوْنَ عَلٰی بَابِہٖ، فَیَصِیْحُوْنَ ثَـلَاثًا: أَ لَا إِنَّ أَرْبَعِیْنَ دَارًا جَارٌ، وَلَا یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ مَنْ خَافَ جَارُہٗ بَوَائِقَہٗ۔

رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ۔

281: أخرجہ الطبراني في المعجم الکبیر، 19/ 73، الرقم/ 143، وذکرہ المنذري في الترغیب والترھیب، 3/ 240، الرقم/ 3859، والھیثمي في مجمع الزوائد، 8/ 169، وابن حجر الھیتمي في الزواجر، 1/ 490۔

حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ کے پاس ایک آدمی آیا اور عرض کیا: یا رسول اللہ! میں فلاں قبیلے کے محلے میں داخل ہوا تو اُن میں سے جو شخص ہمسائیگی میں مجھ سے زیادہ قریب تھا اُسی نے مجھے سب سے زیادہ اذیت پہنچائی۔ رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابو بکر، حضرت عمر اور حضرت علی رضی اللہ عنہ م کو بھیجا۔ وہ مسجد میں آئے اور اُنہوں نے اُس کے دروازے پر کھڑے ہو کر بلند آواز میں تین بار یہ اعلان کیا: آگاہ ہو جاؤ! (اِرد گرد کے) چالیس گھر ہمسائیگی میں شامل ہیں، وہ شخص جنت میں داخل نہیں ہو گا جس کا پڑوسی اُس کی اذیت سے خوف زدہ ہو۔

اِسے امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔

عَنِ الإِمَامِ عُبَیْدِ اللهِ بْنِ الشُّمَیْطِ قَالَ: جَاءَ تِ امْرَأَۃٌ إِلَی الْحَسَنِ تَشْکُو الْحَاجَۃَ، فَقَالَتْ: إِنِّي جَارَتُکَ۔ قَالَ: کَمْ بَیْنِي وَبَیْنَکَ؟ قَالَتْ: سَبْعُ دُوْرٍ - أَوْ قَالَتْ: عَشْرٌ - فَنَظَرَ تَحْتَ الْفِرَاشِ فَإِذَا سِتَّۃُ دَرَاهِمَ أَوْ سَبْعَۃٌ، فَأَعْطَاھَا إِیَّاھَا وَقَالَ: کِدْنَا نَھْلِکُ.

رَوَاهُ ابْنُ أَبِي الدُّنْیَا فِي مَکَارِمِ الْأَخْلَاقِ۔

(1) ابن أبي الدنیا في مکارم الأخلاق/ 104، الرقم/ 335۔

امام عبید اللہ بن شُمیَط بیان کرتے ہیں: ایک عورت امام حسن بصری کے پاس اپنی حاجت بیان کرنے آئی اور عرض کیا: میں آپ کی ہمسائی ہوں، آپ نے پوچھا: تمہارے اور میرے گھر کے درمیان کتنے گھروں کا فاصلہ ہے؟ اُس نے عرض کیا: سات - یا: دس - گھروں کا فاصلہ ہے۔ امام حسن بصری نے بستر کے نیچے دیکھا تو وہاں چھ یا سات درہم موجود تھے۔ آپ نے وہ (سب) اُٹھا کر اُسے دے دیے اور فرمایا: قریب تھا کہ (حقِ ہمسائیگی ادا نہ کرنے کے سبب) ہم ہلاک ہو جاتے۔

اِسے امام ابن ابی الدنیا نے ’مکارم الأخلاق‘ میں روایت کیا ہے۔

282/ 74۔ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی اللہ عنہم قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: مَا آمَنَ بِي، مَنْ بَاتَ شَبْعَانًا وَجَارُہٗ جَائِعٌ إِلٰی جَنْبِہٖ وَھُوَ یَعْلَمُ بِہٖ۔

رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَأَبُوْ یَعْلٰی۔ وَقَالَ الْھَیْثَمِيُّ: رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَالْبَزَّارُ وَإِسْنَادُ الْبَزَّارِ حَسَنٌ۔

282: أخرجہ الطبراني في المعجم الکبیر، 1/ 259، الرقم/ 751، وأبویعلی في المسند، 5/ 92، الرقم/ 2699، وذکرہ الھیثمي في مجمع الزوائد، 8/ 167، والھندي في کنز العمال، 9/ 24، الرقم/ 24906۔

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: وہ شخص مجھ پر ایمان نہیں لایا جس نے شکم سیر ہو کر رات بسر کی، جبکہ اُس کے پہلو میں اُس کا پڑوسی (رات بھر) بھوکا رہا اور اُسے اِس بات کا علم بھی ہو (کہ اس کا پڑوسی بھوکا ہے)۔

اِسے امام طبرانی اور ابو یعلی نے روایت کیا ہے۔ امام ہیثمی نے فرمایا: اِسے طبرانی اور بزار نے روایت کیا ہے اور بزار کی سند حسن ہے۔

283/ 75۔ عَنْ عَبْدِ اللهِ بنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ رضی اللہ عنہم أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ: مَنْ أَغْلَقَ بَابَہٗ دُوْنَ جَارِہٖ مَخَافَۃً عَلٰی أَھْلِہٖ وَمَالِہٖ، فَلَیْسَ ذٰلِکَ بِمُؤْمِن۔ وَلَیْسَ بِمُؤْمِنٍ مَنْ لَمْ یَأْمَنْ جَارُہٗ بَوَائِقَہٗ۔ أَتَدْرُوْنَ مَا حَقُّ الْجَارِ؟ إِنِ اسْتَعَانَکَ أَعَنْتَہٗ، وَإِنِ اسْتَقْرَضَکَ أَقْرَضْتَہٗ، وَإِنِ افْتَقَرَ عُدْتَ عَلَیْهِ، وَإِنْ مَرِضَ عُدْتَہٗ، وَإِنْ مَاتَ شَهِدْتَ جَنَازَتَہٗ، وَإِنْ أَصَابَہٗ خَیْرٌ هَنَّأْتَہٗ، وَإِنْ أَصَابَتْهُ مُصِیْبَۃٌ عَزَّیْتَہٗ۔ وَلَا تَسْتَطِیْلَ عَلَیْهِ بِالْبِنَائِ، فَتَحْجُبَ عَنْهُ الرِّیْحَ إِلَّا بِإِذْنِہٖ۔ وَإِذَا شَرَیْتَ فَاکِهَۃً فَاہْدِ لَہٗ، فَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَأَدْخِلْھَا سِرًّا، وَلَا یَخْرُجْ بِھَا وَلَدُکَ لِیَغِیْظَ بِھَا وَلَدَہٗ، وَلَا تُؤْذِہٖ بِقِیْثَارِ قِدْرِکَ إِلَّا أَنْ تَغْرِفَ لَہٗ مِنْھَا۔

رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَالْبَیْھَقِيُّ۔

283: أخرجہ الطبراني في مسند الشامیین، 3/ 339، الرقم/ 2430، والبیھقي في شعب الإیمان، 7/ 83، الرقم/ 9560، وذکرہ المنذري في الترغیب والترھیب، 3/ 242، الرقم/ 3870، وابن رجب الحنبلي في جامع العلوم والحکم، 1/ 140۔

حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہم روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: وہ شخص مومن نہیں جس کی وجہ سے اُس کا ہمسایہ اپنے اہل و عیال اور مال کا خوف کرتے ہوئے اپنا دروازہ بند کر لے (کہ کہیں وہ اُسے کوئی نقصان نہ پہنچا دے)۔ وہ شخص بھی صاحبِ ایمان نہیں ہے جس کی اذیت سے اُس کا ہمسایہ محفوظ نہ ہو۔ کیا تمہیں معلوم ہے ہمسائے کا (تم پر) کیا حق ہے؟ (پھر خود ہی فرمایا:) جب وہ تم سے مدد مانگے تو تم اس کی مدد کرو۔ جب قرض کا سوال کرے تو اس کو قرض دو۔ جب محتاج ہو تو اس کا خیال کرو۔ جب کبھی بیمار ہو جائے تو اُس کی عیادت کرو۔ جب فوت ہو جائے تو اس کے جنازے کے ساتھ جاؤ۔ جب اُسے کوئی خوشی حاصل ہو تو اُسے مبارک باد دو۔ جب کسی صدمہ سے دوچار ہو تو اُس کے ساتھ تعزیت کرو۔ اُس کی اجازت کے بغیر اُس کے گھر کے ساتھ اتنا اونچا مکان نہ بناؤ کہ اس کے گھر کی ہوا بند ہوجائے۔ جب کوئی پھل خرید کے لاؤ تو تحفتاً اُسے بھی کچھ بھیجو۔ اگر ایسا نہیں کر سکتے تو اُس پھل کو چھپا کر (اپنے گھر میں) لے جاؤ۔ تمہارا بچہ وہ پھل لے کر باہر نہ نکلے کہ کہیں تمہارے ہمسائے کا بچہ اُسے دیکھ کر احساسِ کم تری کا شکار نہ ہو جائے۔ اپنی ہنڈیا کی خوشبو سے اُسے اذیت میں مبتلا نہ کرو یا پھر اُسے بھی اُس ہنڈیا سے کچھ حصہ بھیج دو۔

اِسے امام طبرانی اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔

مَا رُوِيَ عَنِ الْأَئِمَّۃِ مِنَ السَّلَفِ الصَّالِحِیْنَ

عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمٰنِ جَارِ الإِمَامِ مَالِکِ بْنِ دِیْنَارٍ وَکَانَ ثِقَۃً قَالَ: کَانَ لِبَعْضِ جِیْرَانِ مَالِکِ بْنِ دِیْنَارٍ کَلْبٌ ضَعِیْفٌ، فَکَانَ مَالِکٌ یُخْرِجُ لَہٗ کُلَّّ یَوْمٍ طَعَامًا، فَیُلْقِیْهِ إِلَیْهِ.

رَوَاهُ ابْنُ أَبِي الدُّنْیَا فِي مَکَارِمِ الْأَخْلَاقِ۔

(1) ابن أبي الدنیا في مکارم الأخلاق/ 104، الرقم/ 333۔

داؤد بن ابی عبد الرحمان، جو امام مالک بن دینار کے پڑوسی تھے اور ثقہ راوی تھے، بیان کرتے ہیں کہ امام مالک بن دینار کے کسی پڑوسی کے پاس ایک کمزور سا کتا تھا۔ حضرت مالک بن دینار روزانہ اُس کے لیے کھانا نکال کر اُس کے آگے ڈالتے تھے۔

اِسے امام ابن ابی الدنیا نے ’مکارم الأخلاق‘ میں روایت کیا ہے۔

عَنْ هِشَامٍ قَالَ: کَانَ الإِمَامُ حَسَّانُ بْنُ أَبِي سِنَانِ بْنِ ثَابِتٍ تَدْخُلُ الْعَنْزُ إِلٰی مَنْزِلِہٖ فَتَأْخُذُ الشَّيْئَ، فَإِذَا طُرِدَتْ، قَالَ لَھُمْ: لَا تَطْرُدُوْا عَنْزَ جَارِي، دَعُوْھَا تَأْخُذْ حَاجَتَھَا.

رَوَاهُ ابْنُ أَبِي الدُّنْیَا فِي مَکَارِمِ الْأَخْلَاقِ۔

(1) ابن أبي الدنیا في مکارم الأخلاق/ 104، الرقم/ 334۔

ہشام بیان کرتے ہیں کہ امام حسان بن ابی سنان بن ثابت کے گھر میں (اُن کے ہمسائے کی) بھیڑ بکریاں داخل ہو جاتیں اور وہاں سے اشیاء خورد و نوش کھا لیتی تھیں۔ ایک روز اُنہیں دھتکارا گیا تو امام حسان نے فرمایا: میرے ہمسائے کی بھیڑ بکریوں کو نہ دھتکارو، اُنہیں چھوڑ دو تاکہ وہ اپنی ضرورت کی چیز لے لیا کریں۔

اِسے امام ابن ابی الدنیا نے ’مکارم الأخلاق‘ میں روایت کیا ہے۔

قَالَ الإِمَامُ الْغَزَالِيُّ: أَنَّہٗ لَیْسَ حَقُّ الْجَوَارِ کَفَّ الْأَذٰی فَقَطْ، بَلِ احْتِمَالَ الْأَذٰی، فَإِنَّ الْجَارَ أَیْضًا قَدْ کَفَّ أَذَاهُ، فَلَیْسَ فِي ذٰلِکَ قَضَائُ حَقٍّ، وَلَا یَکْفِي احْتِمَالُ الْأَذٰی بَلْ لَا بُدَّ مِنَ الرِّفْقِ وَإِسْدَاءِ الْخَیْرِ وَالْمَعْرُوْفِ، إِذْ یُقَالُ إِنَّ الْجَارَ الْفَقِیْرَ یَتَعَلَّقُ بِجَارِهِ الْغَنِيِّ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ فَیَقُوْلُ: یَا رَبِّ، سَلْ ھٰذَا لِمَ مَنَعَنِي مَعْرُوْفَہٗ وَسَدَّ بَابَہٗ دُوْنِي؟

(2) الغزالي في إحیاء علوم الدین، 2/ 213۔

امام غزالی بیان فرماتے ہیں: ہمسائیگی کا حق صرف یہی نہیں ہے کہ اُسے اذیت نہ پہنچائی جائے بلکہ (اُس کی طرف سے) تکلیف کو برداشت کرنا بھی اس میں شامل ہے، کیونکہ پڑوسی بھی اُس شخص کی طرف سے اذیت برداشت کرتا ہے، گویا صرف اِس سے (اذیت کو روکنے سے) اُس کا حق ادا نہیں ہوجاتا۔ مزید برآں محض تکلیف برداشت کرنا ہی کافی نہیں ہے بلکہ اُس کے ساتھ نرمی سے پیش آنا اور حسن سلوک کرنا بھی اُس کا حق ہے۔ کہا جاتا ہے کہ فقیر ہمسایہ قیامت کے دن مال دار ہمسائے کا دامن پکڑ کر کہے گا: اے میرے رب! اِس سے پوچھ کہ اِس نے مجھے اپنے حُسن سلوک سے کیوں محروم رکھا اور مجھ پر اپنا دروازہ کیوں بند کیا؟

قَالَ الإِمَامُ الْغَزَالِيُّ: وَبَلَغَ ابْنَ الْمُقَفَّعِ، أَنَّ جَارًا لَہٗ یَبِیْعُ دَارَہٗ فِي دَیْنٍ رَکِبَہٗ، وَکَانَ یَجْلِسُ فِي ظِلِّ دَارِہٖ، فَقَالَ: مَا قُمْتُ إِذًا بِحُرْمَۃِ ظِلِّ دَارِہٖ إِنْ بَاعَھَا مُعْدِمًا، فَدَفَعَ إِلَیْهِ ثَمَنَ الدَّارِ وَقَالَ: لَا تَبِعْھَا.

(1) الغزالي في إحیاء علوم الدین، 2/ 213۔

امام غزالی بیان فرماتے ہیں: حضرت ابن مقفّع کو معلوم ہوا کہ اُن کا ہمسایہ اپنا قرض ادا کرنے کے لیے اپنا مکان بیچنا چاہتا ہے، آپ اُس کی دیوار کے سائے میں بیٹھا کرتے تھے، آپ نے سوچا کہ اگر اِس نے مفلسی کی وجہ سے اپنا مکان بیچ دیا تو گویا ہم نے اِس کی دیوار کے سائے میں بیٹھنے کا حق بھی ادا نہیں کیا، لہٰذا آپ نے اُسے مکان کی مکمل قیمت دے دی اور فرمایا (اپنا قرض ادا کرلو اور) اپنے مکان کو نہ بیچو۔

قَالَ الإِمَامُ الْغَزَالِيُّ: شَکَا بَعْضُھُمْ کَثْرَۃَ الْفَأْرِ فِي دَارِہٖ، فَقِیْلَ لَہٗ: لَوِ اقْتَنَیْتَ هِرًّا، فَقَالَ: أَخْشٰی أَنْ یَسْمَعَ الْفَأْرُ صَوْتَ الْهِرِّ، فَیَہْرُبُ إِلٰی دُوْرِ الْجِیْرَانِ، فَأَکُوْنُ قَدْ أَحْبَبْتُ لَھُمْ مَا لَا أُحِبُّ لِنَفْسِي.

(1) الغزالي في إحیاء علوم الدین، 2/ 213۔

امام غزالی بیان فرماتے ہیں: کسی بزرگ نے اپنے گھر میں چوہوں کی کثرت کی شکایت کی، کسی نے اُن سے کہا: اگر آپ بلی رکھ لیں تو یہ (چوہوں کے خاتمے کے لیے) اچھا ہو گا۔ اُنہوں نے فرمایا: مجھے ڈر ہے کہ (اگر میں بلی لے آیا تو) چوہے بلی کی آواز سن کر پڑوسیوں کے گھروں کی طرف بھاگ جائیں گے۔ اس طرح میں اُن کے لیے وہ بات پسند کرنے والا بن جاؤں گا جو اپنے لیے پسند نہیں کرتا۔

اَلتَّعَامُلُ مَعَ النَّاسِ بِالْبِرِّ وَالْمُلَاطَفَۃِ

{عام لوگوں کے ساتھ حسنِ سلوک اور احسان}

اَلْقُرْآن

(1) وَ اِذَا حُیِّیْتُمْ بِتَحِیَّةٍ فَحَیُّوْا بِاَحْسَنَ مِنْهَاۤ اَوْ رُدُّوْهَا ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلٰی كُلِّ شَیْءٍ حَسِیْبًاo

(النساء، 4/ 86)

اور جب (کسی لفظ) سلام کے ذریعے تمہاری تکریم کی جائے تو تم (جواب میں) اس سے بہتر (لفظ کے ساتھ) سلام پیش کیا کرو یا (کم از کم) وہی (الفاظ جواب میں) لوٹا دیا کرو، بے شک اللہ ہر چیز پر حساب لینے والا ہےo

(2) وَ الْمُؤْمِنُوْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتُ بَعْضُهُمْ اَوْلِیَآءُ بَعْضٍ ۘ یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَ یُؤْتُوْنَ الزَّكٰوةَ وَ یُطِیْعُوْنَ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ ؕ اُولٰٓىِٕكَ سَیَرْحَمُهُمُ اللّٰهُ ؕ اِنَّ اللّٰهَ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌo

(التوبۃ، 9/ 71)

اور اہلِ ایمان مرد اور اہلِ ایمان عورتیں ایک دوسرے کے رفیق و مددگار ہیں۔ وہ اچھی باتوں کا حکم دیتے ہیں اور بُری باتوں سے روکتے ہیں اور نماز قائم رکھتے ہیں اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) کی اطاعت بجا لاتے ہیں، ان ہی لوگوں پر اللہ عنقریب رحم فرمائے گا، بے شک اللہ بڑا غالب بڑی حکمت والا ہےo

(3) اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَۃٌ فَاَصْلِحُوْا بَیْنَ اَخَوَیْکُمْ وَاتَّقُوا اللهَ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَo

(الحجرات، 49/ 10)

بات یہی ہے کہ (سب) اہلِ ایمان (آپس میں) بھائی ہیں۔ سو تم اپنے دو بھائیوں کے درمیان صلح کرایا کرو، اور اللہ سے ڈرتے رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائےo

اَلْحَدِیْث

284/ 76۔ عَنْ أَبِي ھُرَیْرَۃَ رضی اللہ عنہ، أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ: حَقُّ الْمُسْلِمِ عَلَی الْمُسْلِمِ خَمْسٌ: رَدُّ السَّـلَامِ، وَعِیَادَۃُ الْمَرِیْضِ، وَاتِّبَاعُ الْجَنَائِزِ، وَإِجَابَۃُ الدَّعْوَۃِ، وَتَشْمِیْتُ الْعَاطِسِ۔

مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ۔

284: أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب الجنائز، باب الأمر باتباع الجنائز، 1/ 418، الرقم/ 1183، ومسلم في الصحیح، کتاب السلام، باب من حق المسلم للمسلم ردّ السلام، 4/ 1704، الرقم/ 2162، وأحمد بن حنبل في المسند، 2/ 540، الرقم/ 10979، وابن ماجہ في السنن، کتاب الجنائز، باب ما جاء في عیادۃ المریض، 1/ 461، الرقم/ 1435، وابن حبان في الصحیح، 1/ 476، الرقم/ 241، والحاکم في المستدرک، 1/ 500، الرقم/ 1292، والنساي في السنن الکبری، 6/ 64، الرقم/ 10049۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر پانچ حق ہیں: (1) سلام کاجواب دینا، (2) بیمار کی عیادت کرنا، (3) جنازہ کے ساتھ جانا، (4) دعوت قبول کرنا اور (5) چھینک کا جواب دینا۔

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

285/ 77۔ وَفِي رِوَایَۃٍ: عَنْ أَبِي ھُرَیْرَۃَ رضی اللہ عنہ أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ: حَقُّ الْمُسْلِمِ عَلَی الْمُسْلِمِ سِتٌّ۔ قِیْلَ: مَا هُنَّ، یَا رَسُوْلَ اللهِ؟ قَالَ: إِذَا لَقِیْتَہٗ فَسَلِّمْ عَلَیْهِ، وَإِذَا دَعَاکَ فَأَجِبْهُ، وَإِذَا اسْتَنْصَحَکَ فَانْصَحْ لَہٗ، وَإِذَا عَطَسَ فَحَمِدَ اللهَ فَشَمِّتْهُ، وَإِذَا مَرِضَ فَعُدْهُ، وَإِذَا مَاتَ فَاتَّبِعْهُ۔

رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ وَالدَّارِمِيُّ۔

285: أخرجہ مسلم في الصحیح، کتاب السلام، باب من حق المسلم للمسلم ردّ السلام، 4/ 1705، الرقم/ 2162، وأحمد بن حنبل في المسند، 2/ 372، الرقم/ 8832، والدارمي في السنن، 2/ 357، الرقم/ 2633، وابن حبان في الصحیح، 1/ 477، الرقم/ 242، والبیہقي في السنن الکبری، 5/ 347، الرقم/ 10691۔

ایک اور روایت میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر چھ حق ہیں۔ عرض کیا گیا: یا رسول اللہ! وہ کون سے حق ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: (1) جب تم اس سے ملو تو سلام کرو، (2) جب وہ تمہیں دعوت دے تو اسے قبول کرو، (3) جب وہ تم سے ہمدردی اور خیر خواہی کا طالب ہو تو اس کے ساتھ ہمدردی سے پیش آؤ، (4) جب اسے چھینک آئے اور وہ اَلْحَمْدُ ِﷲِ کہے تو تم بھی جواباً یَرْحَمُکَ اللهُ کہو، (5) جب بیمار ہو تو اس کی تیمارداری کرو اور (6) جب وہ وفات پا جائے تو اس کے جنازہ کے ساتھ رہو۔

اِسے امام مسلم، احمد اور دارمی نے روایت کیا ہے۔

286/ 78۔ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی اللہ عنہ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: انْصُرْ أَخَاکَ ظَالِمًا أَوْ مَظْلُوْمًا۔ فَقَالَ رَجُلٌ: یَا رَسُوْلَ اللهِ، أَنْصُرُہٗ إِذَا کَانَ مَظْلُوْمًا، أَفَرَأَیْتَ إِنْ کَانَ ظَالِمًا کَیْفَ أَنْصُرُہٗ؟ قَالَ: تَحْجُزُہٗ أَوْ تَمْنَعُہٗ مِنَ الظُّلْمِ، فَإِنَّ ذٰلِکَ نَصْرُہٗ۔

رَوَاهُ الْبُخَارِیُّ وَمُسْلِمٌ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ وَأَحْمَدُ وَالتِّرْمِذِيُّ۔

286: أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب الإکراہ، باب یمین الرجل لصاحبہ، إنہ أخوہ، إذا خاف علیہ القتل أو نحوہ، 6/ 2550، الرقم/ 6552، وأیضًا في کتاب المظالم، باب أعِن أخاک ظالماً أو مظلوما، 2/ 863، الرقم/ 2311-2312، ومسلم في الصحیح، کتاب البر والصلۃ والآداب، باب نصر الأخ ظالما أو مظلوما، 4/ 1998، الرقم/ 2584، وأحمد بن حنبل في المسند، 3/ 99، الرقم/ 11967، والترمذي في السنن، کتاب الفتن، باب (68)، 4/ 523، الرقم/ 2255، والدارمي في السنن، 2/ 401، الرقم/ 2753، وابن حبان في الصحیح، 11/ 570، الرقم/ 5166- 5168۔

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اپنے بھائی کی مدد کرو خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم۔ ایک شخص نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اگر وہ مظلوم ہو تب تو میں اس کی مدد کروں لیکن مجھے یہ بتایئے کہ جب وہ ظالم ہو تو میں اس کی مدد کیسے کروں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: تم اسے ظلم سے باز رکھتے ہو، یا فرمایا: اُسے (اس ظلم سے) روکتے ہو تو یہ بھی اس کی مدد ہے۔

اسے امام بخاری نے، مسلم نے حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے اور احمد اور ترمذی نے روایت کیا ہے۔

287/ 79۔ عَنْ أَبِي ھُرَیْرَۃَ رضی اللہ عنہ، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: إِنَّ اللهَ سبحانہ وتعالیٰ یَقُوْلُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ: یَا ابْنَ آدَمَ، مَرِضْتُ فَلَمْ تَعُدْنِي۔ قَالَ: یَا رَبِّ، کَیْفَ أَعُوْدُکَ وَأَنْتَ رَبُّ الْعَالَمِیْنَ؟ قَالَ: أَمَا عَلِمْتَ أَنَّ عَبْدِي فُـلَانًا مَرِضَ فَلَمْ تَعُدْهُ۔ أَمَا عَلِمْتَ أَنَّکَ لَوْ عُدْتَہٗ لَوَجَدْتَنِي عِنْدَہٗ؟ یَا ابْنَ آدَمَ، اسْتَطْعَمْتُکَ فَلَمْ تُطْعِمْنِي۔ قَالَ: یَا رَبِّ، وَکَیْفَ أُطْعِمُکَ وَأَنْتَ رَبُّ الْعَالَمِیْنَ؟ قَالَ: أَمَا عَلِمْتَ أَنَّهُ اسْتَطْعَمَکَ عَبْدِي فُـلَانٌ فَلَمْ تُطْعِمْهُ؟ أَمَا عَلِمْتَ أَنَّکَ لَوْ أَطْعَمْتَہٗ لَوَجَدْتَ ذٰلِکَ عِنْدِي؟ یَا ابْنَ آدَمَ، اسْتَسْقَیْتُکَ فَلَمْ تَسْقِنِي۔ قَالَ: یَا رَبِّ، کَیْفَ أَسْقِیْکَ وَأَنْتَ رَبُّ الْعَالَمِیْنَ؟ قَالَ: اسْتَسْقَاکَ عَبْدِي فُـلَانٌ فَلَمْ تَسْقِہٖ۔ أَمَا إِنَّکَ لَوْ سَقَیْتَہٗ وَجَدْتَ ذٰلِکَ عِنْدِي۔

رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالْبُخَارِيُّ فِي الْأَدَبِ۔

287: أخرجہ مسلم في الصحیح، کتاب البر والصلۃ والآداب، باب فضل عیادۃ المریض، 4/ 1990، الرقم/ 2569، والبخاري في الأدب المفرد/ 182، الرقم/ 517، وابن حبان في الصحیح، 1/ 503، الرقم/ 269، والبیہقي في شعب الإیمان، 6/ 534، الرقم/ 9182، وابن راھویہ في المسند، 1/ 115، الرقم/ 28۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: بے شک قیامت کے دن اللہ تعالیٰ فرمائے گا: اے ابن آدم! میں بیمار ہوا اور تو نے میری مزاج پرسی نہیں کی۔ بندہ عرض کرے گا: اے پروردگار! میں تیری بیمار پرسی کیسے کرتا جبکہ تو خود تمام جہانوں کا پالنے والا ہے؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: کیا تجھے معلوم نہیں کہ میرا فلاں بندہ بیمار ہوا اور تو نے اس کی مزاج پرسی نہیں کی۔ کیا تو نہیں جانتا کہ اگر تو اس کی بیمارپرسی کرتا تو مجھے اس کے پاس موجود پاتا؟ اے ابن آدم! میں نے تجھ سے کھانا طلب کیا اور تو نے مجھے کھانا نہ کھلایا۔ بندہ عرض کرے گا: اے پروردگار! میں تجھے کھانا کیسے کھلاتا جبکہ تو خود تمام جہانوں کا پالنہار ہے؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: کیا تجھے معلوم نہیں کہ میرے فلاں بندے نے تجھ سے کھانا مانگا اور تو نے اسے کھانا نہیں کھلایا؟ کیا تو نہیں جانتا کہ اگر تو اسے کھانا کھلاتا تو اس کا ثواب میری بارگاہ سے پاتا؟ اے ابن آدم! میں نے تجھ سے پانی مانگا اور تو نے مجھے پانی نہیں پلایا۔ بندہ عرض کرے گا: پروردگار! میں تجھے پانی کیسے پلاتا جبکہ تو رب العالمین ہے؟ تو وہ فرمائے گا: میرے فلاں بندے نے تجھ سے پانی مانگا اور تو نے اسے پانی نہیں پلایا۔ کیا تجھے معلوم نہیں کہ اگر تو اسے پانی پلاتا تو اس کا ثواب تجھے میری بارگاہ سے ملتا؟

اِسے امام مسلم نے جب کہ بخاری نے الأدب المفرد میں روایت کیا ہے۔

288/ 80۔ عَنْ عَبدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو رضی اللہ عنہ، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: اَلْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُوْنَ مِنْ لِسَانِہٖ وَیَدِہٖ۔

مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ۔

288: أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب الإیمان، باب المسلم من سَلِمَ المسلمون من لسانہ ویدہ، 1/ 13، الرقم/ 10، ومسلم في الصحیح، کتاب الإیمان، باب بیان تفاضل الإسلام وأيّ أمورہ أفضل، 1/ 65، الرقم/ 40، وأحمد بن حنبل في المسند، 2/ 163، الرقم/ 6515، وأبو داود في السنن، کتاب الجہاد، باب في الہجرۃ ہل انقطعت، 3/ 4، الرقم/ 2481، والنساي في السنن، کتاب الإیمان وشرائعہ، باب صفۃ المسلم، 8/ 105، الرقم/ 4996۔

حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ ہوں۔

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

289/ 81۔ وَفِي رِوَایَۃٍ عَنْ أَبِي مُوْسٰی رضی اللہ عنہ قَالَ: قَالُوْا: یَا رَسُوْلَ اللهِ، أَيُّ الْإِسْلَامِ أَفْضَلُ؟ قَالَ: مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُوْنَ مِنْ لِسَانِہٖ وَیَدِہٖ۔

مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ۔

289: أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب الإیمان، باب أي الإسلام أفضل، 1/ 13، الرقم/ 11، ومسلم في الصحیح، کتاب الإیمان، باب بیان تفاضل الإسلام وأي أمورہ أفضل، 1/ 66، الرقم/ 42، وأحمد بن حنبل عن جابر رضی اللہ عنہ في المسند، 3/ 372، الرقم/ 15037، والنساي في السنن، کتاب الإیمان وشرائعہ، باب أي الإسلام أفضل، 8/ 106، الرقم/ 4999۔

ایک روایت میں حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: لوگ حضور نبی اکرم ﷺ کی بارگاہ میں عرض گزار ہوئے: یا رسول اللہ! کون سا اسلام افضل ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: (بہترین اسلام اُس شخص کا ہے) جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

290/ 82۔ وَفِي رِوَایَۃٍ عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو رضی اللہ عنہ قَالَ: إِنَّ رَجُـلًا سَأَلَ النَّبِيَّﷺ: أَيُّ الْمُسْلِمِیْنَ خَیْرٌ؟ قَالَ: مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُوْنَ مِنْ لِسَانِہٖ وَیَدِہٖ۔

مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ۔

290: أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب الرقاق، باب الانتھاء عن المعاصي، 5/ 2379، الرقم/ 6119، ومسلم في الصحیح، کتاب الإیمان، باب بیان تفاضل الإسلام ونصف أمورہ أفضل، 1/ 65، الرقم/ 40۔

حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے ہی مروی ہے کہ ایک آدمی نے حضور نبی اکرم ﷺ سے عرض کیا: مسلمانوں میں سے کون بہترین ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: (وہ مسلمان بہترین ہے) جس کی زبان اور ہاتھ سے تمام مسلمان محفوظ رہیں۔

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

291/ 83۔ وَفِي رِوَایَۃٍ عَنْهُ رضی اللہ عنہ قَالَ: إِنَّ رَجُـلًا قَالَ: یَا رَسُوْلَ اللهِ، أَيُّ الْإِسْلَامِ أَفْضَلُ؟ قَالَ: مَنْ سَلِمَ النَّاسُ مِنْ لِسَانِہٖ وَیَدِہٖ۔

رَوَاهُ أَحْمَدُ۔

291: أخرجہ أحمد بن حنبل في المسند، 2/ 187، الرقم/ 6753۔

حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے ہی مروی ہے: ایک شخص نے حضور نبی اکرم ﷺ سے عرض کیا: یا رسول اللہ! کون سا اِسلام افضل ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: (اُس شخص کا اِسلام سب سے بہتر ہے) جس کی زبان اور ہاتھ سے تمام لوگ محفوظ رہیں۔

اِسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔

292/ 84۔ وَفِي رِوَایَۃٍ عَنْهُ رضی اللہ عنہ أَنَّ رَجُلًا سَأَلَ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ: أَيُّ الْمُسْلِمِیْنَ خَیْرٌ، یَا رَسُوْلَ اللهِ؟ قَالَ: مَنْ سَلِمَ النَّاسُ مِنْ لِسَانِہٖ وَیَدِہٖ۔

رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ۔

292: أخرجہ الطبراني في المعجم الأوسط، 3/ 287، الرقم/ 3170۔

ایک اور روایت میں حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ ہی بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا: یا رسول اللہ! مسلمانوں میں سے کون بہترین ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: (وہ مسلمان بہترین ہے) جس کی زبان اور ہاتھ سے تمام لوگ محفوظ رہیں۔

اِسے امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔

293/ 85۔ عَنْ أَبِي ھُرَیْرَۃَ رضی اللہ عنہ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: اَلْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُوْنَ مِنْ لِسَانِہٖ وَیَدِہٖ، وَالْمُؤْمِنُ مَنْ أَمِنَهُ النَّاسُ عَلٰی دِمَائِھِمْ وَأَمْوَالِھِمْ۔

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالتِّرْمِذِيُّ وَاللَّفْظُ لَہٗ وَالنساءُّ۔ وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: ھٰذَا حَدِیْثٌ حَسَنٌ صَحِیْحٌ۔

293: أخرجہ أحمد بن حنبل في المسند، 2/ 379، الرقم/ 8918، والترمذي في السنن، کتاب الإیمان، باب ما جاء في أن المسلم من سلم المسلمون من لسانہ ویدہ، 5/ 17، الرقم/ 2627، والنساي في السنن، کتاب الإیمان وشرائعہ، باب صفۃ المؤمن، 8/ 104، الرقم/ 4995، وابن حبان في الصحیح، 1/ 406، الرقم/ 180۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے (دوسرے) مسلمان محفوظ رہیں، اور مومن وہ ہے کہ جس کے پاس لوگ اپنے خون (یعنی جان) اور مال محفوظ سمجھیں۔

اِسے امام احمد نے، ترمذی نے مذکورہ الفاظ کے ساتھ اور نسائی نے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے فرمایا: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

294/ 86۔ وَفِي رِوَایَۃٍ عَنْ فَضَالَۃَ بْنِ عُبَیْدٍ رضی اللہ عنہ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ فِي حَجَّۃِ الْوَدَاعِ: أَلَا أُخْبِرُکُمْ بِالْمُؤْمِنِ؟ مَنْ أَمِنَهُ النَّاسُ عَلٰی أَمْوَالِھِمْ وَأَنْفُسِھِمْ، وَالْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ النَّاسُ مِنْ لِسَانِہٖ وَیَدِہٖ، وَالْمُجَاهِدُ مَنْ جَاهَدَ نَفْسَہٗ فِي طَاعَۃِ اللهِ، وَالْمُھَاجِرُ مَنْ ھَجَرَ الْخَطَایَا وَالذُّنُوْبَ۔

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالْحَاکِمُ، وَابْنُ حِبَّانَ وَابْنُ الْمُبَارَکِ۔

294: أخرجہ أحمد بن حنبل في المسند، 6/ 21، الرقم/ 24004، والحاکم في المستدرک، 1/ 54، الرقم/ 24، وابن حبان في الصحیح، 11/ 203، 204، الرقم/ 4862، وابن المبارک في المسند، 1/ 16، الرقم/ 29، والطبراني في المعجم الکبیر، 18/ 309، الرقم/ 796، والبیھقي في شعب الإیمان، 7/ 499، الرقم/ 11123۔

ایک روایت میں حضرت فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر فرمایا: کیا میں تمہیں نہ بتاؤں کے مومن کون ہے؟ (تو سنو!) مومن وہ ہے جس سے لوگ اپنے اَموال اور جانوں پر بے خوف و مطمئن ہوں (یعنی انہیں اس کی طرف سے کسی قسم کے مالی و جانی نقصان کا اندیشہ نہ ہو)، مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے انسان محفوظ رہیں، مجاہد وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں اپنے نفس (کی خواہشات) کے خلاف جہاد کرے، اور مہاجر وہ ہے جو خطاؤں اور گناہوں سے کنارہ کشی اختیار کرے۔

اِسے امام احمد، حاکم، ابن حبان اور ابن مبارک نے روایت کیا ہے۔

295/ 87۔ وَفِي رِوَایَۃٍ عَنْهُ رضی اللہ عنہ، أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: الْمُؤْمِنُ مَنْ أَمِنَهُ النَّاسُ عَلٰی أَمْوَالِھِمْ وَأَنْفُسِھِمْ، وَالْمُھَاجِرُ مَنْ ھَجَرَ الْخَطَایَا وَالذُّنُوبَ۔

رَوَاهُ ابْنُ مَاجَہ وَذَکَرَهُ ابْنُ مَنْظُوْرٍ۔

295: أخرجہ ابن ماجہ في السنن، کتاب الفتن، باب حرمۃ دم المؤمن ومالہ، 2/ 1298، الرقم/ 3934، وذکرہ ابن منظور في لسان العرب، 13/ 24۔

ایک اور روایت میں حضرت فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض گزار ہوا: مومن کون ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: مومن وہ ہے جس سے لوگ اپنے اموال اور جانوں پر بے خوف و مطمئن ہوں (یعنی انہیں اس کی طرف سے کسی قسم کے مالی و جانی نقصان کا اندیشہ نہ ہو) اور مہاجر وہ ہے جس نے خطاؤں اور گناہوں سے کنارہ کشی اختیار کی۔

اِسے امام ابن ماجہ نے روایت کیا ہے اور ابن منظور افریقی نے ذکر کیا ہے۔

296/ 88۔ عَنْ أَبِي ھُرَیْرَۃَ رضی اللہ عنہ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: کُلُّ الْمُسْلِمِ عَلَی الْمُسْلِمِ حَرَامٌ عِرْضُہٗ وَمَالُہٗ وَدَمُہٗ۔ التَّقْوٰی ھَاهُنَا۔ بِحَسْبِ امْرِی ئٍ مِنَ الشَّرِّ أَنْ یَحْتَقِرَ أَخَاهُ الْمُسْلِمَ۔

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالتِّرْمِذِيُّ وَاللَّفْظُ لَہٗ۔

296: أخرجہ أحمد بن حنبل في المسند، 2/ 277، الرقم/ 7713، والترمذي في السنن، کتاب البر والصلۃ، باب ما جاء في شفقۃ المسلم علی المسلم، 4/ 325، الرقم/ 1927، وذکرہ النووي في الأذکار/ 268، الرقم/ 1038، وأیضًا في ریاض الصالحین/ 60، الرقم/ 234، وابن رجب الحنبلي في جامع العلوم والحکم، 1/ 326۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے ہی مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ہر مسلمان پر دوسرے مسلمان کی عزت (کی پامالی)، اُس کا مال اور اُس کا خون حرام ہے۔ (آپ ﷺ نے قلبِ اطہر کی طرف اشارہ کر کے فرمایا:) تقویٰ یہاں ہے۔ کسی مسلمان کے (برا ہونے کے) لیے اتنی برائی ہی کافی ہے کہ وہ اپنے کسی مسلمان بھائی کو حقیر سمجھے۔

اِسے امام احمد نے اور ترمذی نے مذکورہ الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے۔

297/ 89۔ عَنْ عَبْدِ اللهِ رضی اللہ عنہ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: سِبَابُ الْمُسْلِمِ فُسُوْقٌ، وَقِتَالُہٗ کُفْرٌ۔

مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ۔

297: أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب الإیمان، باب خوف المؤمن من أن یحبط عملہ وھو لا یشعر، 1/ 27، الرقم/ 48، وأیضًا في کتاب الأدب، باب ما ینھی من السباب واللعن، 5/ 2247، الرقم/ 5697، ومسلم في الصحیح، کتاب الإیمان، باب بیان قول النبي ﷺ: سباب المسلم فسوق وقتالہ کفر، 1/ 81، الرقم/ 64، والترمذي في السنن، کتاب البر والصلۃ، باب ما جاء في الشتم، 4/ 353، الرقم/ 1983، والنساي في السنن، کتاب تحریم الدم، باب قتال المسلم، 7/ 121، الرقم/ 4105۔

حضرت عبد اللہ (بن مسعود) رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضورنبی اکرم ﷺ نے فرمایا: مسلمان کو گالی دینا گناهِ کبیرہ جب کہ اسے قتل کرنا کفر ہے۔

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

298/ 90۔ وَفِي رِوَایَۃٍ عَنْ عَبْدِ اللهِ رضی اللہ عنہ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: سِبَابُ الْمُسْلِمِ أَخَاهُ فُسُوْقٌ، وَقِتَالُہٗ کُفْرٌ، وَحُرْمَۃُ مَالِہٖ کَحُرْمَۃِ دَمِہٖ۔

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَأَبُوْ یَعْلٰی۔

298: أخرجہ أحمد بن حنبل في المسند، 1/ 446، الرقم/ 4262، وأبویعلی في المسند، 9/ 55، الرقم/ 5119۔

ایک اور روایت میں حضرت عبد اللہ (بن مسعود) رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مسلمان کا اپنے بھائی کو گالی دینا فسق ہے، اُسے قتل کرنا کفر ہے اور اُس (مسلمان بھائی) کے مال کی حرمت ایسے ہی ہے جیسے اُس کے خون کی حرمت ہے۔

اِسے امام احمد اور ابو یعلی نے روایت کیا ہے۔

299/ 91۔ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی اللہ عنہ أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ: لَا تَبَاغَضُوْا، وَلَا تَحَاسَدُوْا، وَلَا تَدَابَرُوْا، وَکُوْنُوْا عِبَادَ اللهِ إِخْوَانًا، وَلَا یَحِلُّ لِمُسْلِمٍ أَنْ یَہْجُرَ أَخَاهُ فَوْقَ ثَـلَاثِ لَیَالٍ۔

مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ۔

299: أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب الأدب، باب الھجرۃ وقول النبي ﷺ: لا یحل لرجل أن یھجر أخاہ فوق ثلاث، 5/ 2256، الرقم/ 5726، ومسلم في الصحیح، کتاب البر والصلۃ والآداب، باب تحریم التحاسد والتباغض والتدابر، 4/ 1983، الرقم/ 2559، وأحمد بن حنبل في المسند، 3/ 165، الرقم/ 12714، وأبو داود في السنن، کتاب الأدب، باب فیمن یھجر أخاہ المسلم، 4/ 278، الرقم/ 4910، والترمذي في السنن، کتاب البر والصلۃ، باب ما جاء في الحسد، 4/ 329، الرقم/ 1935، ومالک في الموطأ، 2/ 907، الرقم/ 1615۔

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: باہم بغض نہ رکھو، نہ ہی ایک دوسرے سے حسد کرو اور آپس میں غیبت نہ کرو۔ اللہ کے بندو! بھائی بھائی بن جائو۔ کسی مسلمان کے لیے یہ حلال نہیں کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو تین دن سے زیادہ عرصہ (بغیر کسی شرعی عذر کے) چھوڑے رکھے۔

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

300/ 92۔ عَنْ أَبِي أَیُّوْبَ الْأَنْصَارِيِّ رضی اللہ عنہ أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ: لَا یَحِلُّ لِرَجُلٍ أَنْ یَہْجُرَ أَخَاهُ فَوْقَ ثَـلَاثِ لَیَالٍ، یَلْتَقِیَانِ فَیُعْرِضُ ھٰذَا وَیُعْرِضُ ھٰذَا، وَخَیْرُھُمَا الَّذِي یَبْدَأُ بِالسَّلَامِ۔

مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ۔

300: أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب الأدب، باب الھجرۃ وقول النبي ﷺ: لا یحل لرجل أن یھجر أخاہ فوق ثلاث، 5/ 2256، الرقم/ 5727، ومسلم في الصحیح، کتاب البر والصلۃ والآداب، باب تحریم الھجر فوق ثلاث بلا عذر شرعي، 4/ 1984، الرقم/ 2560، وأحمد بن حنبل في المسند، 5/ 422، الرقم/ 23632، وأبو داود في السنن، کتاب الأدب، باب فیمن یھجر أخاہ المسلم، 4/ 278، الرقم/ 4915، والترمذي في السنن، کتاب البر والصلۃ، باب ما جاء في کراھیۃ الھجر للمسلم، 4/ 327، الرقم/ 1932، وابن حبان في الصحیح، 12/ 484، الرقم/ 5669۔

حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کسی مسلمان کے لیے یہ حلال نہیں ہے کہ وہ اپنے کسی مسلمان بھائی کے ساتھ تین دن سے زیادہ (بغیر کسی شرعی عذر کے) قطع تعلقی اختیار کرے کہ جب وہ آپس میں ملیں تو ایک ادھر اور دوسرا اُدھر منہ پھیر لے۔ ان دونوں میں سے بہتر وہ ہے جو سلام میں ابتداء کرے۔

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

اَلتَّعَامُلُ مَعَ الْأَرَامِلِ وَالْأَیْتَامِ بِالْبِرِّ وَالْمُلَاطَفَۃِ

{بیواؤں اور یتیموں کے ساتھ شفقت اور حسنِ سلوک}

اَلْقُرْآن

(1) لَیْسَ الْبِرَّ اَنْ تُوَلُّوْا وُجُوْهَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَ الْمَغْرِبِ وَ لٰكِنَّ الْبِرَّ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ الْمَلٰٓىِٕكَةِ وَ الْكِتٰبِ وَ النَّبِیّٖنَ ۚ وَ اٰتَی الْمَالَ عَلٰی حُبِّهٖ ذَوِی الْقُرْبٰی وَ الْیَتٰمٰی وَ الْمَسٰكِیْنَ وَ ابْنَ السَّبِیْلِ ۙ وَ السَّآىِٕلِیْنَ وَ فِی الرِّقَابِ ۚ وَ اَقَامَ الصَّلٰوةَ وَ اٰتَی الزَّكٰوةَ ۚ وَ الْمُوْفُوْنَ بِعَهْدِهِمْ اِذَا عٰهَدُوْا ۚ وَ الصّٰبِرِیْنَ فِی الْبَاْسَآءِ وَ الضَّرَّآءِ وَ حِیْنَ الْبَاْسِ ؕ اُولٰٓىِٕكَ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا ؕ وَ اُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْمُتَّقُوْنَo

(البقرۃ، 2/ 177)

نیکی صرف یہی نہیں کہ تم اپنے منہ مشرق اور مغرب کی طرف پھیر لو بلکہ اصل نیکی تو یہ ہے کہ کوئی شخص اللہ پر اور قیامت کے دن پر اور فرشتوں پر اور (اللہ کی) کتاب پر اور پیغمبروں پر ایمان لائے، اور اللہ کی محبت میں (اپنا) مال قرابت داروں پر اور یتیموں پر اور محتاجوں پر اور مسافروں پر اور مانگنے والوں پر اور (غلاموں کی) گردنوں (کو آزاد کرانے) میں خرچ کرے، اور نماز قائم کرے اور زکوٰۃ دے اور جب کوئی وعدہ کریں تو اپنا وعدہ پورا کرنے والے ہوں، اور سختی (تنگدستی) میں اور مصیبت (بیماری) میں اور جنگ کی شدّت (جہاد) کے وقت صبر کرنے والے ہوں، یہی لوگ سچے ہیں اور یہی پرہیز گار ہیںo

(2) یَسْـَٔلُوْنَكَ مَا ذَا یُنْفِقُوْنَ ؕ۬ قُلْ مَاۤ اَنْفَقْتُمْ مِّنْ خَیْرٍ فَلِلْوَالِدَیْنِ وَ الْاَقْرَبِیْنَ وَ الْیَتٰمٰی وَ الْمَسٰكِیْنِ وَ ابْنِ السَّبِیْلِ ؕ وَ مَا تَفْعَلُوْا مِنْ خَیْرٍ فَاِنَّ اللّٰهَ بِهٖ عَلِیْمٌo

(البقرۃ، 2/ 215)

آپ سے پوچھتے ہیں کہ (اللہ کی راہ میں) کیا خرچ کریں، فرما دیں جس قدر بھی مال خرچ کرو (درست ہے)، مگر اس کے حقدار تمہارے ماں باپ ہیں اور قریبی رشتہ دار ہیں اور یتیم ہیں اور محتاج ہیں اور مسافر ہیں، اور جو نیکی بھی تم کرتے ہو بے شک اللہ اسے خوب جاننے والا ہےo

(3) وَ یُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰی حُبِّہٖ مِسْکِیْنًا وَّیَتِیْمًا وَّاَسِیْرًاo اِنَّمَا نُطْعِمُکُمْ لِوَجْهِ اللهِ لَا نُرِیْدُ مِنْکُمْ جَزَآءً وَّلَا شُکُوْرًاo

(الدھر، 76/ 8-9)

(اور کہتے ہیں کہ) ہم تو محض اللہ کی رضا کے لیے تمہیں کھلا رہے ہیں، نہ تم سے کسی بدلہ کے خواستگار ہیں اور نہ شکرگزاری کے (خواہش مند) ہیںo

(4) فَـلَا اقْتَحَمَ الْعَقَبَۃَo وَمَآ اَدْرٰکَ مَا الْعَقَبَۃُo فَکُّ رَقَبَۃٍo اَوْ اِطْعٰمٌ فِیْ یَوْمٍ ذِیْ مَسْغَبَۃٍo یَّتِیْمًا ذَا مَقْرَبَۃٍo اَوْ مِسْکِیْنًا ذَا مَتْرَبَۃo ثُمَّ کَانَ مِنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ وَتَوَاصَوْا بِالْمَرْحَمَۃِo اُولٰٓـئِکَ اَصْحٰبُ الْمَیْمَنَۃِo

(البلد، 90/ 11-18)

وہ تو (دینِ حق اور عملِ خیر کی) دشوار گزار گھاٹی میں داخل ہی نہیں ہواo اور آپ کیا سمجھے ہیں کہ وہ (دینِ حق کے مجاہدہ کی) گھاٹی کیا ہےo وہ (غلامی و محکومی کی زندگی سے) کسی گردن کا آزاد کرانا ہےo یا بھوک والے دن (یعنی قحط و اَفلاس کے دور میں غریبوں اور محروم المعیشت لوگوں کو) کھانا کھلانا ہے (یعنی ان کے معاشی تعطل اور ابتلاء کو ختم کرنے کی جدوجہد کرنا ہے)o قرابت دار یتیم کوo یا شدید غربت کے مارے ہوئے محتاج کو جو محض خاک نشین (اور بے گھر) ہےo پھر (شرط یہ ہے کہ ایسی جدّو جہد کرنے والا) وہ شخص ان لوگوں میں سے ہو جو ایمان لائے ہیں اور ایک دوسرے کو صبر و تحمل کی نصیحت کرتے ہیں اور باہم رحمت و شفقت کی تاکید کرتے ہیںo یہی لوگ دائیں طرف والے (یعنی اہلِ سعادت و مغفرت) ہیںo

(5) اَلَمْ یَجِدْکَ یَتِیْمًا فَاٰوٰیo وَوَجَدَکَ ضَآلًّا فَھَدٰیo وَوَجَدَکَ عَآئِلًا فَاَغْنٰیo فَاَمَّا الْیَتِیْمَ فَـلَا تَقْھَرْo وَاَمَّا السَّآئِلَ فَـلَا تَنْھَرْo وَاَمَّا بِنِعْمَۃِ رَبِّکَ فَحَدِّثْo

(الضحی، 93/ 6-11)

(اے حبیب!) کیا اس نے آپ کو یتیم نہیں پایا پھر اس نے (آپ کو معزّز و مکرّم) ٹھکانا دیاo اور اس نے آپ کو اپنی محبت میں خود رفتہ و گم پایا تو اس نے مقصود تک پہنچا دیاo اور اس نے آپ کو (وصالِ حق کا) حاجت مند پایا تو اس نے (اپنی لذتِ دید سے نواز کر ہمیشہ کے لیے ہر طلب سے) بے نیاز کر دیاo سو آپ بھی کسی یتیم پر سختی نہ فرمائیںo اور (اپنے در کے) کسی منگتے کو نہ جھڑکیںo اور اپنے رب کی نعمتوں کا (خوب) تذکرہ کریںo

اَلْحَدِیْث

301/ 93۔ عَنْ أَبِي ھُرَیْرَۃَ رضی اللہ عنہ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: اَلسَّاعِي عَلَی الْأَرْمَلَۃِ وَالْمِسْکِیْنِ کَالْمُجَاهِدِ فِي سَبِیْلِ اللهِ، وَأَحْسِبُہٗ قَالَ: وَکَالْقَائِمِ لَا یَفْتُرُ، وَکَالصَّائِمِ لَا یُفْطِرُ۔

مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ وَاللَّفْظُ لِمُسْلِمٍ۔

301: أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب النفقات، باب فضل النفقۃ علی الأھل، 5/ 2047، الرقم/ 5038، وأیضًا فيکتاب الأدب، باب الساعي علی الأرملۃ، 5/ 2237، الرقم/ 5660، ومسلم في الصحیح، کتاب الزہد والرقائق، باب الإحسان إلی الأرملۃ والمسکین والیتیم، 4/ 2286، الرقم/ 2982، وأحمد بن حنبل فی المسند، 2/ 361، الرقم/ 8717، والترمذي عن صفوان بن سلیم رضی اللہ عنہ في السنن، کتاب البر والصلۃ، باب ما جاء في السعي علی الأرملۃ والیتیم، 4/ 346، الرقم/ 1969، والنساي في السنن، کتاب الزکاۃ، باب فضل الساعي علی الأرملۃ، 5/ 86، الرقم/ 2577، وابن ماجہ في السنن، کتاب التجارۃ، باب الحث علی المکاسب، 2/ 724، الرقم/ 2140۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضورنبی اکرم ﷺ نے فرمایا: بیوہ عورت اور مسکین کے (کاموں) کے لیے کوشش کرنے والا راهِ خدا میں جہاد کرنے والے کی طرح ہے -(راوی کہتے ہیں:) میرا خیال ہے کہ حضورنبی اکرم ﷺ نے یہ بھی فرمایا- وہ اُس قیامِ (عبادت) کرنے والے کی طرح ہے جو تھکتا نہیں اور اُس روزہ دار کی طرح ہے جو یکے بعد دیگرے روزے رکھتا ہے۔

یہ حدیث متفق علیہ ہے، مذکورہ الفاظ مسلم کے ہیں۔

302/ 94۔ عَنْ سَھْلِ بْنِ سَعْدٍ رضی اللہ عنہ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: أَنَا وَکَافِلُ الْیَتِیْمِ فِي الْجَنَّۃِ ھٰکَذَا۔ وَأَشَارَ بِالسَّبَّابَۃِ وَالْوُسْطٰی، وَفَرَّجَ بَیْنَھُمَا شَیْئًا۔

رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَأَحْمَدُ وَأَبُوْ دَاوُدَ وَالتِّرْمِذِيُّ۔

302: أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب الطلاق، باب اللّعان، 5/ 2032، الرقم/ 4998، وأیضًا فيکتاب الأدب، باب فضل من یعول یتیمًا، 5/ 2237، الرقم/ 5659، وأحمد بن حنبل في المسند، 5/ 333، الرقم/ 22871، وأبو داود في السنن، کتاب النوم، باب في من ضم الیتیم، 4/ 338، الرقم/ 5150، والترمذي في السنن، کتاب البر والصلۃ، باب ما جاء في رحمۃ الیتیم وکفالتہ، 4/ 321، الرقم/ 1918، ومالک في الموطأ، کتاب الشعر، باب السنۃ في الشعر، 2/ 948، الرقم/ 1700۔

حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا شخص جنت میں اِس طرح ہوں گے۔ یہ فرماتے ہوئے آپ ﷺ نے اپنی شہادت کی انگلی اور درمیانی انگلی سے اشارہ کیا اور دونوں کے درمیان کچھ فاصلہ رکھا۔

اِسے امام بخاری، احمد، ابو داود اور ترمذی نے روایت کیا ہے۔

303/ 95۔ عَنْ أَبِي ھُرَیْرَۃَ رضی اللہ عنہ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: کَافِلُ الْیَتِیْمِ، لَہٗ أَوْ لِغَیْرِہٖ، أَنَا وَھُوَ کَھَاتَیْنِ فِي الْجَنَّۃِ۔ وَأَشَارَ مَالِکٌ بِالسَّبَّابَۃِ وَالْوُسْطٰی۔

رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ۔

303: أخرجہ مسلم في الصحیح، کتاب الزھد والرقائق، باب الإحسان إلی الأرملۃ والمسکین والیتیم، 4/ 2287، الرقم/ 2983، وأحمد بن حنبل في المسند، 2/ 375، الرقم/ 8868، والبیھقي في شعب الإیمان، 7/ 471، الرقم/ 11030، وذکرہ المنذري في الترغیب والترھیب، 3/ 235، الرقم/ 3832۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: یتیم کی پرورش کرنے والا، چاہے وہ اُس کا رشتہ دار ہو یا نہ ہو، اور میں جنت میں اِس طرح ہوں گے۔ (حدیث کے راوی) مالک نے درمیانی انگلی اور شہادت کی انگلی کو ملا کر اشارہ کیا۔

اِسے امام مسلم اور احمد نے روایت کیا ہے۔

304/ 96۔ وَفِي رِوَایَۃٍ عَنْ مُرَّۃَ بْنِ عَمْرٍو الْفَھْرِيِّ رضی اللہ عنہ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: أَنَا وَکَافِلُ الْیَتِیْمِ، لَہٗ أَوْ لِغَیْرِہٖ، فِي الْجَنَّۃِ کَھَاتَیْنِ۔

رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَالْبُخَارِيُّ فِي الأَدَبِ۔

304: أخرجہ الطبراني في المعجم الکبیر، 20/ 320، الرقم/ 758، والبخاري في الأدب المفرد/ 60، الرقم/ 133، والحمیدي في المسند، 2/ 370، الرقم/ 838۔

ایک روایت میں حضرت مرہ بن عمرو فہری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: یتیم کی پرورش کرنے والا، خواہ وہ اُس کا (رشتہ دار) ہو یا نہ ہو، اور میں جنت میں اِس طرح ہوں گے۔

اِسے امام طبرانی نے جب کہ بخاری نے ’الادب المفرد‘ میں روایت کیا ہے۔

305/ 97۔ وَفِي رِوَایَۃٍ عَنْ أَبِي أُمَامَۃَ رضی اللہ عنہ أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ: مَنْ مَسَحَ رَأْسَ یَتِیْمٍ لَمْ یَمْسَحْهُ إِلَّا ِﷲِ، کَانَ لَہٗ بِکُلِّ شَعْرَۃٍ مَرَّتْ عَلَیْھَا یَدُہٗ حَسَنَاتٌ، وَمَنْ أَحْسَنَ إِلٰی یَتِیْمَۃٍ أَوْ یَتِیْمٍ عِنْدَہٗ، کُنْتُ أَنَا وَھُوَ فِي الْجَنَّۃِ کَھَاتَیْنِ۔ وَفَرَّقَ بَیْنَ أُصْبُعَیْهِ السَّبَّابَۃِ وَالْوُسْطٰی۔

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالطَّبَرَانِيُّ وَابْنُ أَبِي الدُّنْیَا۔

305: أخرجہ أحمد بن حنبل في المسند، 5/ 250، 265، الرقم/ 22207، 22338، والطبراني في المعجم الکبیر، 8/ 202، الرقم/ 7821، وأیضًا في المعجم الأوسط، 3/ 285، 286، الرقم/ 3166، وابن أبي الدنیا في العیال، 2/ 810، الرقم/ 609، وذکرہ المنذري في الترغیب والترھیب، 3/ 236، 237، الرقم/ 3843، والھیثمي في مجمع الزوائد، 8/ 160، والسیوطي في الدر المنثور، 2/ 528۔

ایک روایت میں حضرت ابو اُمامہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس نے صرف اللہ کی رضا کے حصول کے لئے کسی یتیم کے سر پر (شفقت سے) ہاتھ پھیرا تو اُس کے لیے ان تمام بالوں کے بدلے جن پر اُس کا ہاتھ گزرا تھا (اتنی ہی) نیکیاں ہیں۔ جس نے اپنی زیر کفالت کسی یتیم بچی یا بچے کے ساتھ اچھا سلوک کیا تو وہ اور میں جنت میں اِس طرح ہوں گے۔ (یہ فرماتے ہوئے) آپ ﷺ نے اپنی شہادت کی انگلی اور درمیانی انگلی میں تھوڑا سا فاصلہ رکھا۔

اِسے امام احمد، طبرانی اور ابن ابی دنیا نے روایت کیا ہے

306/ 98۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضی اللہ عنہم أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: مَنْ قَبَضَ یَتِیْمًا مِنْ بَیْنِ الْمُسْلِمِیْنَ إِلٰی طَعَامِہٖ وَشَرَابِہٖ، أَدْخَلَهُ اللهُ الْجَنَّۃَ إِلَّا أَنْ یَعْمَلَ ذَنْـبًا لَا یُغْفَرُ لَہٗ۔

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالتِّرْمِذِيُّ وَاللَّفْظُ لَہٗ وَالطَّیَالِسِيُّ۔

306: أخرجہ أحمد بن حنبل عن مالک بن الحرث رضی اللہ عنہ في المسند، 4/ 344، الرقم/ 19047، والترمذي في السنن، کتاب البر والصلۃ، باب ما جاء في رحمۃ الیتیم وکفالتہ، 4/ 320، الرقم/ 1917، والطیالسي في المسند، 1/ 187، الرقم/ 1322، وابن أبي الدنیا في العیال، 2/ 806، الرقم/ 605، والطبراني في المعجم الکبیر، 19/ 300، الرقم/ 668۔

حضرت (عبد اللہ) بن عباس رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جس نے کسی مسلمان یتیم بچے کے کھانے پینے کی کفالت کی ذمہ داری لی اللہ تعالیٰ ضرور اُسے جنت میں داخل کرے گا، مگر یہ کہ وہ کوئی ایسا گناہ کر لے جس کی بخشش نہ ہو۔

اِسے امام احمد نے، ترمذی نے مذکورہ الفاظ کے ساتھ اور طیالسی نے روایت کیا ہے۔

307/ 99۔ عَنْ أَبِي ھُرَیْرَۃَ رضی اللہ عنہ أَنَّ رَجُـلًا شَکَا إِلٰی رَسُوْلِ اللهِ ﷺ قَسْوَۃَ قَلْبِہٖ، فَقَالَ لَہٗ: إِنْ أَرَدْتَ تَلْیِیْنَ قَلْبِکَ، فَأَطْعِمِ الْمِسْکِیْنَ، وَامْسَحْ رَأْسَ الْیَتِیْمِ۔

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَابْنُ حُمَیْدٍ وَالْبَیْھَقِيُّ۔ وَقَالَ الْمُنْذِرِيُّ وَالْھَیْثَمِيُّ: رِجَالُہٗ رِجَالُ الصَّحِیْحِ۔

307: أخرجہ أحمد بن حنبل في المسند، 2/ 263، 387، الرقم/ 7566، 9006، وعبد بن حمید في المسند، 1/ 417، الرقم/ 1426، والبیھقي في السنن الکبری، 4/ 60، الرقم/ 6886، وأیضًا في شعب الإیمان، 7/ 472، الرقم/ 11034، وذکرہ المنذري في الترغیب والترھیب، 3/ 237، الرقم/ 3845، والھیثمي في مجمع الزوائد، 8/ 160۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے اپنے دل کے سخت ہونے کا ذکر کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا: اگر تم اپنے دل کو نرم کرنا چاہتے ہو تو مسکین کو کھانا کھلاؤ اور یتیم کے سر پر دستِ شفقت رکھا کرو۔

اِسے امام احمد، عبد بن حمید اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔ امام منذری اور ہیثمی نے فرمایا: اِس کے رجال ’صحیح مسلم‘ کے رجال ہیں۔

308/ 100۔ عَنْ أَبِي ھُرَیْرَۃَ رضی اللہ عنہ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: اللّٰھُمَّ، إِنِّي أُحَرِّجُ حَقَّ الضَّعِیْفَیْنِ: الْیَتِیْمِ وَالْمَرْأَۃِ۔

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَابْنُ مَاجَہ وَالنسايُّ فِي السُّنَنِ الْکُبْرٰی۔

308: أخرجہ أحمد بن حنبل في المسند، 2/ 439، الرقم/ 9664، وابن ماجہ في السنن، کتاب الأدب، باب حق الیتیم2/ 1213، الرقم/ 3678، والنساي في السنن الکبری، 5/ 363، الرقم/ 9149-9150، والحاکم في المستدرک، 1/ 131، الرقم/ 211، والبیھقي في السنن الکبری، 10/ 134، الرقم/ 20239۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اے اللہ! میں دو ضعیفوں کا حق (غصب کرنا) حرام کرتا ہوں: (1) یتیم کا حق اور (2) کسی عورت کا حق۔

اِسے امام احمد اور ابن ماجہ نے اور نسائی نے ’السنن الکبریٰ‘ میں روایت کیا ہے۔

309/ 101۔ وَفِي رِوَایَۃٍ عَنْ أَبِي ھُرَیْرَۃَ رضی اللہ عنہ، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: أَنَا أَوَّلُ مَنْ یُفْتَحُ لَہٗ بَابُ الْجَنَّۃِ إِلَّا أَنَّہٗ تَأْتِي امْرَأَۃٌ تُبَادِرُنِي، فَأَقُوْلُ لَھَا: مَا لَکِ؟ مَنْ أَنْتِ؟ فَتَقُوْلُ: أَنَا امْرَأَۃٌ قَعَدْتُ عَلٰی أَیْتَامٍ لِي۔

رَوَاهُ أَبُوْ یَعْلٰی وَالدَّیْلَمِيُّ۔ وَقَالَ الْمُنْذِرِيُّ: إِسْنَادُہٗ حَسَنٌ۔

309: أخرجہ أبو یعلی في المسند، 12/ 7، الرقم/ 6651، والدیلمي في مسند الفردوس، 1/ 34، الرقم/ 58، وذکرہ المنذري في الترغیب والترھیب، 3/ 236، الرقم/ 3842، والھیثمي في مجمع الزوائد، 8/ 162۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میں وہ پہلا شخص ہوں گا جس کے لیے جنت کا دروازہ کھولا جائے گا مگر ایک عورت مجھ سے پہلے گزرنے لگے گی، میں اُس سے پوچھوں گا: تمہارا کیا معاملہ ہے؟ تم کون ہو؟ وہ عرض کرے گی: میں وہ عورت ہوں جو اپنے یتیم بچوں کی پرورش کے لیے بیٹھی رہی (اور دوسرا نکاح نہیں کیا۔ اِس پر آپ ﷺ اسے جنت میں داخل فرما دیں گے)۔

اِسے امام ابو یعلی اور دیلمی نے روایت کیا ہے۔ امام منذری نے فرمایا: اِس کی سند حسن ہے۔

310/ 102۔ عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَبَّاسٍ رضی اللہ عنہم قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: مَنْ عَالَ ثَـلَاثَۃً مِنَ الْأَیْتَامِ کَانَ کَمَنْ قَامَ لَیْلَہٗ، وَصَامَ نَھَارَہٗ، وَغَدَا وَرَاحَ شَاهِرًا سَیْفَہٗ فِي سَبِیْلِ اللهِ، وَکُنْتُ أَنَا وَھُوَ فِي الْجَنَّۃِ أَخَوَیْنِ، کَھَاتَیْنِ أُخْتَانِ۔ وَأَلْصَقَ إِصْبَعَیْهِ السَّبَّابَۃَ وَالْوُسْطٰی۔

رَوَاهُ ابْنُ مَاجَہ۔

310: أخرجہ ابن ماجہ في السنن، کتاب الأدب، باب حق الیتیم، 2/ 1213، الرقم/ 3680، والدیلمي في مسند الفردوس، 3/ 489، الرقم/ 5520، وذکرہ المنذري في الترغیب والترھیب، 3/ 235، الرقم/ 3834۔

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہم بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس شخص نے تین یتیم بچوں کی کفالت کی وہ اُس شخص جیسا ہے جو رات بھر عبادت کرتا رہا، دن میں روزے رکھتا رہا اور صبح و شام تلوار لے کر جہاد کرتا رہا۔ میں اور وہ شخص جنت میں دو بھائیوں (کی طرح) ہوں گے جیسے یہ دو انگلیاں ہیں۔ پھر آپ ﷺ نے درمیانی اور شہادت کی انگلی کو ملایا۔

اِسے امام ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔

311/ 103۔ عَنْ جَابِرٍ رضی اللہ عنہ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: مَنْ کَفَلَ یَتِیْماً أَوْ أَرْمَلَۃً، أَظَلَّهُ اللهُ فِي ظِلِّہٖ وَأَدْخَلَہٗ جَنَّتَہٗ۔

رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ۔

311: أخرجہ الطبراني في المعجم الأوسط، 9/ 118، الرقم/ 9292، وذکرہ المنذري في الترغیب والترھیب، 4/ 175، الرقم/ 5305، والھیثمي في مجمع الزوائد، 3/ 21، والھندي في کنز العمال، 15/ 383، الرقم/ 43570۔

حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس نے یتیم یا بیوہ کی کفالت کی، اللہ تعالیٰ اُسے اپنا سایہ (رحمت) نصیب فرمائے گا اور اُسے جنت میں داخل فرما دے گا۔

اِسے امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔

312/ 104۔ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضی اللہ عنہم قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: إِنَّ أَحَبَّ الْبُیُوْتِ إِلَی اللهِ بَیْتٌ فِیْهِ یَتِیْمٌ مُکْرَمٌ۔

رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ۔

312: أخرجہ الطبراني في المعجم الکبیر، 12/ 388، الرقم/ 13434، وذکرہ المنذري في الترغیب والترھیب، 3/ 236، الرقم/ 3839۔

حضرت (عبد اللہ) بن عمر رضی اللہ عنہم بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: وہ گھر اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ پسند ہے جس میں کوئی یتیم باعزت (زندگی گزار رہا) ہو۔

اِسے امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔

313/ 105۔ عَنْ أَبِي ھُرَیْرَۃَ رضی اللہ عنہ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: وَالَّذِي بَعَثَنِي بِالْحَقِّ، لَا یُعَذِّبُ اللهُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ مَنْ رَحِمَ الْیَتِیْمَ، وَلَانَ لَہٗ فِي الْکَلَامِ، وَرَحِمَ یُتْمَہٗ وَضَعْفَہٗ۔ وَلَمْ یَتَطَاوَلْ عَلٰی جَارِہٖ بِفَضْلِ مَا آتَاهُ اللهُ تَعَالٰی۔

رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ۔

313: أخرجہ الطبراني في المعجم الأوسط، 8/ 346، الرقم/ 8828، والدیلمي في مسند الفردوس، 4/ 378، الرقم/ 7101۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اُس ذات کی قسم جس نے مجھے (دینِ) حق دے کر بھیجا! اللہ تعالیٰ اُسے قیامت کے دن عذاب نہیں دے گا جس نے یتیم پر شفقت کی، اُس سے نرم لہجے میں بات کی اور اس کی یتیمی اور کمزوری پر رحم کھایا۔ (نیز اللہ تعالیٰ اُسے بھی روزِ قیامت عذاب نہیں دے گا جس نے) اپنے ہمسائے کے سامنے اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ مال و دولت کی بنا پر اِظہارِ فخر نہ کیا۔

اِسے امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔

314/ 106۔ عَنْ بِشْرِ بْنِ عَقْرَبَۃَ رضی اللہ عنہ قَالَ: اسْتُشْهِدَ أَبِي مَعَ النَّبِيِّ ﷺ فِي بَعْضِ غَزَوَاتِہٖ، فَمَرَّ بِنَا النَّبِيُّ ﷺ وَأَنَا أَبْکِي۔ فَقَالَ لِي: أُسْکُتْ، أَمَا تَرْضٰی أَنْ أَکُوْنَ أَنَا أَبُوْکَ وَعَائِشَۃُ أُمُّکَ؟ قُلْتُ: بَلٰی، بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي، یَا رَسُوْلَ اللهِ۔

رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ فِي التَّارِیْخِ وَابْنُ حِبَّانَ فِي الثِّقَاتِ۔

314: أخرجہ البخاري في التاریخ الکبیر، 2/ 78، الرقم/ 1751، وابن حبان في الثقات، 3/ 31، الرقم/ 101، والبیہقي في شعب الإیمان، 7/ 475، الرقم/ 11044، وذکرہ الہیثمي في مجمع الزوائد، 8/ 161۔

حضرت بِشر بن عقربہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میرے والد کسی غزوہ میں حضور نبی اکرم ﷺ کے ساتھ شریک تھے کہ اُنہیں شہید کر دیا گیا۔ حضور نبی اکرم ﷺ میرے پاس سے گزرے تو میں رو رہا تھا۔ آپ ﷺ نے مجھ سے فرمایا: چپ ہو جاؤ، کیا تم اِس بات پر راضی نہیں کہ میں تمہارا باپ اور عائشہ تمہاری والدہ ہیں؟ میں نے عرض کیا: کیوں نہیں، یا رسول اللہ! میرے ماں باپ آپ پر قربان۔

اِسے امام بخاری نے التاریخ الکبیر میں اور ابن حبان نے الثقات میں روایت کیا ہے۔

اَلتَّعَامُلُ مَعَ الضُّعَفَاءِ وَالْمَسَاکِیْنِ بِالْبِرِّ وَالْمُلَاطَفَۃِ

{کمزوروں اور محتاجوں کے ساتھ شفقت اور حسنِ سلوک}

اَلْقُرْآن

(1) یَسْـَٔلُوْنَكَ مَا ذَا یُنْفِقُوْنَ ؕ۬ قُلْ مَاۤ اَنْفَقْتُمْ مِّنْ خَیْرٍ فَلِلْوَالِدَیْنِ وَ الْاَقْرَبِیْنَ وَ الْیَتٰمٰی وَ الْمَسٰكِیْنِ وَ ابْنِ السَّبِیْلِ ؕ وَ مَا تَفْعَلُوْا مِنْ خَیْرٍ فَاِنَّ اللّٰهَ بِهٖ عَلِیْمٌo

(البقرۃ، 2/ 215)

آپ سے پوچھتے ہیں کہ (اللہ کی راہ میں) کیا خرچ کریں، فرما دیں جس قدر بھی مال خرچ کرو (درست ہے)، مگر اس کے حقدار تمہارے ماں باپ ہیں اور قریبی رشتہ دار ہیں اور یتیم ہیں اور محتاج ہیں اور مسافر ہیں، اور جو نیکی بھی تم کرتے ہو بے شک اللہ اسے خوب جاننے والا ہےo

(2) اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَآءِ وَ الْمَسٰكِیْنِ وَ الْعٰمِلِیْنَ عَلَیْهَا وَ الْمُؤَلَّفَةِ قُلُوْبُهُمْ وَ فِی الرِّقَابِ وَ الْغٰرِمِیْنَ وَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ ابْنِ السَّبِیْلِ ؕ فَرِیْضَةً مِّنَ اللّٰهِ ؕ وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌ حَكِیْمٌo

(التوبۃ، 9/ 60)

بے شک صدقات (زکوٰۃ) محض غریبوں اور محتاجوں اور ان کی وصولی پر مقرر کیے گئے کارکنوں اور ایسے لوگوں کے لیے ہیں جن کے دلوں میں اسلام کی الفت پیدا کرنا مقصود ہو اور (مزید یہ کہ) انسانی گردنوں کو (غلامی کی زندگی سے) آزاد کرانے میں اور قرضداروں کے بوجھ اتارنے میں اور اللہ کی راہ میں اور مسافروں پر (زکوٰۃ کا خرچ کیا جانا حق ہے)۔ یہ (سب) اللہ کی طرف سے فرض کیا گیا ہے اور اللہ خوب جاننے والا بڑی حکمت والا ہےo

(3) اَرَءَیْتَ الَّذِیْ یُكَذِّبُ بِالدِّیْنِؕo فَذٰلِکَ الَّذِیْ یَدُعُّ الْیَتِیْمَo وَلَا یَحُضُّ عَلٰی طَعَامِ الْمِسْکِیْنِo

(الماعون، 107/ 1-3)

کیا آپ نے اس شخص کو دیکھا جو دین کو جھٹلاتا ہے؟o تو یہ وہ شخص ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے (یعنی یتیموں کی حاجات کو رد کرتا اور انہیں حق سے محروم رکھتا ہے)o اور محتاج کو کھانا کھلانے کی ترغیب نہیں دیتا (یعنی معاشرے سے غریبوں اور محتاجوں کے معاشی اِستحصال کے خاتمے کی کوشش نہیں کرتاo

اَلْحَدِیْث

315/ 107۔ عَنْ أَبِي ھُرَیْرَۃَ رضی اللہ عنہ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: إِذَا أَمَّ أَحَدُکُمْ لِلنَّاسِ فَلْیُخَفِّفْ، فَإِنَّ فِیْھِمُ الصَّغِیْرَ وَالْکَبِیْرَ وَالضَّعِیْفَ وَالْمَرِیْضَ، فَإِذَا صَلّٰی وَحْدَہٗ فَلْیُصَلِّ کَیْفَ شَاءَ۔

مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ وَاللَّفْظُ لِمُسْلِمٍ۔

315: أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب الأذان، باب إذا صلی لنفسہ فلیطوّل ما شائ، 1/ 248، الرقم/ 671، ومسلم في الصحیح، کتاب الصلاۃ، باب أمر الأئمۃ بتخفیف الصلاۃ في تمام، 1/ 341، الرقم/ 467، وأحمد بن حنبل في المسند، 2/ 486، الرقم/ 10311، وأبو داود في السنن، کتاب الصلاۃ، باب في تخفیف الصلاۃ، 1/ 211، الرقم/ 794، والترمذي في السنن، کتاب الصلاۃ، باب ما جاء إذا أم أحدکم الناس فلیخفف، 1/ 461، الرقم/ 236، والنساي في السنن، کتاب الإمامۃ، باب ما علی الإمام من التخفیف، 2/ 94، الرقم/ 823، ومالک في الموطأ، کتاب صلاۃ الجماعۃ، باب العمل في صلاۃ الجماعۃ، 1/ 134، الرقم/ 301۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی شخص لوگوں کی امامت کرے تو نماز میں تخفیف کرے، کیونکہ اُن میں بچے، بوڑھے، کمزور اور بیمار بھی ہو سکتے ہیں۔ مگر جب تم میں سے کوئی شخص تنہا نماز پڑھے تو پھر جس طرح چاہے پڑھے۔

یہ حدیث متفق علیہ ہے، مذکورہ الفاظ مسلم کے ہیں۔

316/ 108۔ وَفِي رِوَایَۃٍ عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ الْأَنْصَارِيِّ رضی اللہ عنہ قَالَ: قَالَ رَجُلٌ: یَا رَسُوْلَ اللهِ، لَا أَکَادُ أُدْرِکُ الصَّلَاۃَ مِمَّا یُطَوِّلُ بِنَا فُـلَانٌ، فَمَا رَأَیْتُ النَّبِيَّ ﷺ فِي مَوْعِظَۃٍ أَشَدَّ غَضَبًا مِنْ یَوْمِئِذٍ۔ فَقَالَ: أَیُّھَا النَّاسُ، إِنَّکُمْ مُنَفِّرُوْنَ، فَمَنْ صَلّٰی بِالنَّاسِ فَلْیُخَفِّفْ، فَإِنَّ فِیْھِمُ الْمَرِیْضَ وَالضَّعِیْفَ وَذَا الْحَاجَۃِ۔

مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ۔

316: أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب العلم، باب الغضب في الموعظۃ والتعلیم إذا رأی ما یکرہ، 1/ 46، الرقم/ 90، وأیضًا في کتاب الأحکام، باب ھل یقضي القاضي أو یفتي وھو غضبان، 6/ 2617، الرقم/ 6740، ومسلم في الصحیح، کتاب الصلاۃ، باب أمر الأئمۃ بتخفیف الصلاۃ في تمام، 1/ 340، الرقم/ 466، وأحمد بن حنبل في المسند، 4/ 218، الرقم/ 17106، والطبراني في المعجم الکبیر، 17/ 208، الرقم/ 561۔

ایک روایت میں حضرت ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: ایک آدمی عرض گزار ہوا: یا رسول اللہ! ہو سکتا ہے کہ میں نماز میں شامل نہ ہو سکوں، کیونکہ فلاں (امام) ہمیں لمبی نماز پڑھاتے ہیں۔ (حضرت ابو مسعود رضی اللہ عنہ ) بیان کرتے ہیں: میں نے حضور نبی اکرم ﷺ کو نصیحت فرماتے ہوئے اُس روز سے زیادہ جلال میں کبھی نہیں دیکھا۔ فرمایا: اے لوگو! تم لوگوں کو (دین سے) متنفر کرتے ہو۔ جو تم میں سے لوگوں کو نماز پڑھائے وہ ضرور تخفیف کرے کیونکہ اُن میں بیمار، کمزور اور حاجت مند بھی ہوتے ہیں۔

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

317/ 109۔ عَنْ أَبِي مُوْسَی الْأَشْعَرِيِّ رضی اللہ عنہ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: عَلٰی کُلِّ مُسْلِمٍ صَدَقَۃٌ۔ فَقَالُوْا: یَا نَبِيَّ اللهِ، فَمَنْ لَمْ یَجِدْ؟ قَالَ: یَعْمَلُ بِیَدِہٖ فَیَنْفَعُ نَفْسَہٗ وَیَتَصَدَّقُ۔ قَالُوْا: فَإِنْ لَمْ یَجِدْ؟ قَالَ: یُعِیْنُ ذَا الْحَاجَۃِ الْمَلْھُوْفَ۔ قَالُوْا: فَإِنْ لَمْ یَجِدْ؟ قَالَ: فَلْیَعْمَلْ بِالْمَعْرُوْفِ وَلْیُمْسِکْ عَنِ الشَّرِّ فَإِنَّھَا لَہٗ صَدَقَۃٌ۔

مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ۔

317: أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب الزکاۃ، باب علی کل مسلم صدقۃ، 2/ 524، الرقم/ 1376، ومسلم في الصحیح، کتاب الزکاۃ، باب بیان أن اسم الصدقۃ یقع علی کل نوع من المعروف، 6/ 699، الرقم/ 1008، وأحمد بن حنبل في المسند، 4/ 395، الرقم/ 19549، والنساي في السنن، کتاب الزکاۃ، باب صدقۃ العبد، 5/ 64، الرقم/ 2538، والدارمي في السنن، 2/ 399، الرقم/ 2747، وابن أبي شیبۃ في المصنف، 5/ 336، الرقم/ 26649، والبزار في المسند، 8/ 102، الرقم/ 3100، والطیالسي في المسند، 1/ 67، الرقم/ 495۔

حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ہر مسلمان پر صدقہ دینا لازم ہے۔ لوگ عرض گزار ہوئے: یا نبی اللہ! جس میں طاقت نہ ہو؟ آپ ﷺ نے فرمایا: وہ ہاتھ سے کام کرے، خود بھی نفع حاصل کرے اور صدقہ بھی دے۔ انہوں نے عرض کیا: اگر یہ بھی نہ کر سکے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: پھر مظلوم حاجت مند کی مدد کرے۔ انہوں نے عرض کیا: اگر یہ بھی نہ کر سکے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: نیکی کے کام کرے اور برے کاموں سے رُکا رہے، اُس کے لیے یہی صدقہ ہے۔

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

318/ 110۔ عَنْ مُعَاذٍ رضی اللہ عنہ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: مَنْ وَلِيَ مِنْ أَمْرِ النَّاسِ شَیْئًا، فَاحْتَجَبَ عَنْ أُوْلِي الضَّعَفَۃِ وَالْحَاجَۃِ، احْتَجَبَ اللهُ عَنْهُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ۔

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَابْنُ الْجَعْدِ۔

318: أخرجہ أحمد بن حنبل في المسند، 5/ 238، الرقم/ 22129، وابن الجعد في المسند، 1/ 336، الرقم/ 2309۔

حضرت معاذ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جسے لوگوں کے اُمور کا نگران (حکمران) بنایا گیا اور اُس نے کمزوروں اور حاجت مندوں سے کنارا کشی اختیار کر لی (تاکہ اُن کی ضروریات پوری نہ کرنی پڑیں) تو روزِ قیامت اللہ تعالیٰ بھی اُس سے کنارا کشی اختیار فرما لے گا (یا اُسے اپنی زیارت سے روک دے گا)۔

اِسے امام احمد اور ابن جعد نے روایت کیا ہے۔

319/ 111۔ وَفِي رِوَایَۃِ أَبِي مَرْیَمَ الْأَزْدِيِّ رضی اللہ عنہ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ یَقُوْلُ: مَنْ وَلَّاهُ اللهُ سبحانہ وتعالیٰ شَیْئًا مِنْ أَمْرِ الْمُسْلِمِیْنَ، فَاحْتَجَبَ دُوْنَ حَاجَتِھِمْ وَخَلَّتِھِمْ وَفَقْرِھِمِ، احْتَجَبَ اللهُ عَنْهُ دُوْنَ حَاجَتِہٖ وَخَلَّتِہٖ وَفَقْرِہٖ۔

رَوَاهُ أَبُوْ دَاوُدَ وَالتِّرْمِذِيُّ وَالْحَاکِمُ۔ وَقَالَ الْحَاکِمُ: ھٰذَا حَدِیْثٌ صَحِیْحُ الإِْسْنَادِ۔

319: أخرجہ أبو داود في السنن، کتاب الخراج والإمارۃ والفيئ، باب فیما یلزم الإمام من أمر الرعیۃ والحجبۃ عنہ، 3/ 135، الرقم/ 2948، والترمذي في السنن، کتاب الأحکام، باب ما جاء في إمام الرعیۃ، 3/ 619، الرقم/ 1332، والحاکم في المستدرک، 4/ 105، الرقم/ 7027، والطبراني في مسند الشامیین، 2/ 311، الرقم/ 1404، والبیھقي في شعب الإیمان، 6/ 21، الرقم/ 7385، وذکرہ المنذري في الترغیب والترھیب، 3/ 124، الرقم/ 3341، والنووي في ریاض الصالحین، 1/ 140، الرقم/ 658۔

حضرت ابو مریم ازدی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اُنہوں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے: جسے اللہ تعالیٰ مسلمانوں کے اُمور کا نگران (حکمران) بنائے اور وہ ان کی حاجت مندی، بے کسی اور غریبی میں اُن سے کنارا کشی اختیار کر لے تو اللہ تعالیٰ اُس کی حاجت مندی، بے کسی اور غریبی میں اُس سے اِعراض فرما لے گا۔

اِسے امام ابو داود، ترمذی اور حاکم نے روایت کیا ہے اور امام حاکم نے فرمایا ہے: یہ حدیث صحیح الاسناد ہے۔

320/ 112۔ عَنْ أَبِي ھُرَیْرَۃَ رضی اللہ عنہ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: أَحِبُّوْا الْفُقَرَاءَ وَجَالِسُوْھُمْ۔

رَوَاهُ الْحَاکِمُ۔ وَقَالَ: ھٰذَا حَدِیْثٌ صَحِیْحُ الْإِسْنَادِ۔

320: أخرجہ الحاکم في المستدرک، 4/ 368، الرقم/ 7947، وذکرہ المنذري في الترغیب والترھیب، 4/ 67، الرقم/ 4827۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: فقراء سے محبت کرو اور اُن کے پاس بیٹھا کرو۔

اِسے امام حاکم نے روایت کیا ہے اور فرمایا ہے: اس کی سند صحیح ہے۔

اَلتَّعَامُلُ مَعَ الْخُدَّامِ وَالْعَامِلِیْنَ بِالْبِرِّ وَالْمُلَاطَفَۃِ

{خدّام اور ملازمین کے ساتھ شفقت اور حسنِ سلوک}

اَلْقُرْآن

(1) لَیْسَ الْبِرَّ اَنْ تُوَلُّوْا وُجُوْهَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَ الْمَغْرِبِ وَ لٰكِنَّ الْبِرَّ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ الْمَلٰٓىِٕكَةِ وَ الْكِتٰبِ وَ النَّبِیّٖنَ ۚ وَ اٰتَی الْمَالَ عَلٰی حُبِّهٖ ذَوِی الْقُرْبٰی وَ الْیَتٰمٰی وَ الْمَسٰكِیْنَ وَ ابْنَ السَّبِیْلِ ۙ وَ السَّآىِٕلِیْنَ وَ فِی الرِّقَابِ ۚ وَ اَقَامَ الصَّلٰوةَ وَ اٰتَی الزَّكٰوةَ ۚ وَ الْمُوْفُوْنَ بِعَهْدِهِمْ اِذَا عٰهَدُوْا ۚ وَ الصّٰبِرِیْنَ فِی الْبَاْسَآءِ وَ الضَّرَّآءِ وَ حِیْنَ الْبَاْسِ ؕ اُولٰٓىِٕكَ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا ؕ وَ اُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْمُتَّقُوْنَo

(البقرۃ، 2/ 177)

نیکی صرف یہی نہیں کہ تم اپنے منہ مشرق اور مغرب کی طرف پھیر لو بلکہ اصل نیکی تو یہ ہے کہ کوئی شخص اللہ پر اور قیامت کے دن پر اور فرشتوں پر اور (اللہ کی) کتاب پر اور پیغمبروں پر ایمان لائے، اور اللہ کی محبت میں (اپنا) مال قرابت داروں پر اور یتیموں پر اور محتاجوں پر اور مسافروں پر اور مانگنے والوں پر اور (غلاموں کی) گردنوں (کو آزاد کرانے) میں خرچ کرے، اور نماز قائم کرے اور زکوٰۃ دے اور جب کوئی وعدہ کریں تو اپنا وعدہ پورا کرنے والے ہوں، اور سختی (تنگدستی) میں اور مصیبت (بیماری) میں اور جنگ کی شدّت (جہاد) کے وقت صبر کرنے والے ہوں، یہی لوگ سچے ہیں اور یہی پرہیز گار ہیںo

(2) اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَآءِ وَ الْمَسٰكِیْنِ وَ الْعٰمِلِیْنَ عَلَیْهَا وَ الْمُؤَلَّفَةِ قُلُوْبُهُمْ وَ فِی الرِّقَابِ وَ الْغٰرِمِیْنَ وَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ ابْنِ السَّبِیْلِ ؕ فَرِیْضَةً مِّنَ اللّٰهِ ؕ وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌ حَكِیْمٌo

(التوبۃ، 9/ 60)

بے شک صدقات (زکوٰۃ) محض غریبوں اور محتاجوں اور ان کی وصولی پر مقرر کیے گئے کارکنوں اور ایسے لوگوں کے لیے ہیں جن کے دلوں میں اسلام کی الفت پیدا کرنا مقصود ہو اور (مزید یہ کہ) انسانی گردنوں کو (غلامی کی زندگی سے) آزاد کرانے میں اور قرضداروں کے بوجھ اتارنے میں اور اللہ کی راہ میں اور مسافروں پر (زکوٰۃ کا خرچ کیا جانا حق ہے)۔ یہ (سب) اللہ کی طرف سے فرض کیا گیا ہے اور اللہ خوب جاننے والا بڑی حکمت والا ہےo

(3) وَ الْبُدْنَ جَعَلْنٰهَا لَكُمْ مِّنْ شَعَآىِٕرِ اللّٰهِ لَكُمْ فِیْهَا خَیْرٌ ۖۗ فَاذْكُرُوا اسْمَ اللّٰهِ عَلَیْهَا صَوَآفَّ ۚ فَاِذَا وَجَبَتْ جُنُوْبُهَا فَكُلُوْا مِنْهَا وَ اَطْعِمُوا الْقَانِعَ وَ الْمُعْتَرَّ ؕ كَذٰلِكَ سَخَّرْنٰهَا لَكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَo

(الحج، 22/ 36)

اور قربانی کے بڑے جانوروں (یعنی اونٹ اور گائے وغیرہ) کو ہم نے تمہارے لیے اللہ کی نشانیوں میں سے بنا دیا ہے ان میں تمہارے لیے بھلائی ہے پس تم (انہیں) قطار میں کھڑا کرکے (نیزہ مار کر نحر کے وقت) ان پر اللہ کا نام لو، پھر جب وہ اپنے پہلو کے بل گر جائیں تو تم خود (بھی) اس میں سے کھاؤ اور قناعت سے بیٹھے رہنے والوں کو اور سوال کرنے والے (محتاجوں) کو (بھی) کھلاؤ۔ اس طرح ہم نے انہیں تمہارے تابع کر دیا ہے تاکہ تم شکر بجا لاؤo

اَلْحَدِیْث

321/ 113۔ عَنْ أَنَسٍ رضی اللہ عنہ قَالَ: خَدَمْتُ النَّبِيَّ ﷺ عَشْرَ سِنِیْنَ، فَمَا قَالَ لِي أُفٍّ وَلَا لِمَ صَنَعْتَ؟ وَلَا أَ لَا صَنَعْتَ۔

مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ۔

321: أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب الأدب، باب حسن الخلق والسخاء وما یکرہ ما البخل، 5/ 2245، الرقم/ 5691، ومسلم في الصحیح، کتاب الفضائل، باب کان رسول اللہ ﷺ أحسن الناس خلقًا، 4/ 1804، الرقم/ 2309، وأحمد بن حنبل في المسند، 3/ 265، الرقم/ 131823، والترمذي في السنن، کتاب البر والصلۃ، باب ما جاء في خلق النبي ﷺ، 4/ 368، الرقم/ 2015، وابن حبان في الصحیح، 7/ 152، الرقم/ 2893، وأبو یعلی في المسند، 6/ 104، الرقم/ 3367۔

حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں نے دس سال حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت کی، آپ ﷺ نے مجھے کبھی اُف تک نہیں کہا۔ (کسی کام کرنے پر) یہ نہیں فرمایا کہ ’کیوں کیا‘؟ اور (نہ کرنے پر) یہ نہیں فرمایا کہ ’کیوں نہیں کیا؟‘

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

322/ 114۔ وَفِي رِوَایَۃٍ عَنْهُ رضی اللہ عنہ قَالَ: خَدَمْتُ النَّبِيَّ ﷺ عَشْرَ سِنِیْنَ، فَمَا أَمَرَنِي بِأَمْرٍ فَتَوَانَیْتُ عَنْهُ أَوْ ضَیَّعْتُہٗ فَـلَامَنِي، فَإِنْ لَامَنِي أَحَدٌ مِنْ أَھْلِ بَیْتِہٖ إِلَّا قَالَ: دَعُوْهُ فَلَوْ قُدِّرَ - أَوْ قَالَ: لَوْ قُضِيَ - أَنْ یَکُوْنَ کَانَ۔

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَابْنُ أَبِي عَاصِمٍ۔

322: أخرجہ أحمد بن حنبل في المسند، 3/ 231، الرقم/ 13442، وابن أبي عاصم في السنۃ، 1/ 157، الرقم/ 355، وابن عساکر في تاریخ مدینۃ دمشق، 50/ 65۔

ایک اور روایت میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: میں نے دس سال حضورنبی اکرم ﷺکی خدمت کی، سو آپ ﷺ جب مجھے کسی کام کرنے کا حکم دیتے اور میں وہ نہ کر سکتا یا کوئی کام خراب کر بیٹھتا تو کبھی مجھے ملامت نہ فرماتے بلکہ اگر آپ ﷺ کے اہلِ خانہ میں سے کوئی مجھے ملامت کرتا تو آپ ﷺ فرماتے: اِسے چھوڑ دو، اسی طرح مقدر میں ہوگا۔ یا فرماتے: اگر وہ کام (ہمارے) نصیب میں ہوتا تو ضرور ہو جاتا۔

اِسے امام احمد بن حنبل اور ابن ابی عاصم نے روایت کیا ہے۔

323/ 115۔ عَنْ أَبِي ذَرٍّ رضی اللہ عنہ قَالَ: قَالَ لِي النَّبِيُّ ﷺ: إِخْوَانُکُمْ خَوَلُکُمْ، جَعَلَھُمُ اللهُ تَحْتَ أَیْدِیْکُمْ۔ فَمَنْ کَانَ أَخُوْهُ تَحْتَ یَدِہٖ فَلْیُطْعِمْهُ مِمَّا یَأْکُلُ، وَلْیُلْبِسْهُ مِمَّا یَلْبَسُ، وَلَا تُکَلِّفُوْھُمْ مَا یَغْلِبُھُمْ، فَإِنْ کَلَّفْتُمُوْھُمْ فَأَعِیْنُوْھُمْ۔

مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ۔

323: أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب الإیمان، باب المعاصي من أمر الجاھلیۃ، 1/ 20، الرقم/ 30، وأیضًا فيکتاب العتق، باب قول النبي ﷺ: العبید إخوانکم فأطعموہم مما تأکلون، 2/ 899، الرقم/ 2407، ومسلم في الصحیح، کتاب الأیمان، باب إطعام المملوک مما یأکل وإلباسہ مما یلبس ولا یکلفہ ما یغلبہ، 3/ 1283، الرقم/ 1661، والبزار في المسند، 9/ 402، الرقم/ 3996، وأبو عوانۃ في المسند، 4/ 73، الرقم/ 6072۔

حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: حضور نبی اکرم ﷺ نے مجھے فرمایا: تمہارے غلام (خادم) بھی تمہارے بھائی ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے تمہارے ماتحت کیا ہے، سو جس کا بھائی اُس کے ماتحت ہے اُسے چاہیے کہ جو وہ خود کھاتا ہے اُس میں سے اُسے بھی کھلائے اور جو خود پہنتا ہے اُس میں سے اُسے بھی پہنائے۔ اُنہیں اُن کی طاقت سے بڑھ کر کسی کام کا مکلف نہ ٹھہراؤ اور اگر ایسا کوئی کام اُن کے ذمہ لگاؤ تو اُس کام میں خود بھی اُن کی مدد کرو۔

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

324/ 116۔ عَنْ أَبِي الْیَسَرِ رضی اللہ عنہ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: أَطْعِمُوْھُمْ مِمَّا تَأْکُلُوْنَ، وَأَلْبِسُوْھُمْ مِمَّا تَلْبَسُوْنَ، وَکَانَ أَنْ أَعْطَیْتُہٗ مِنْ مَتَاعِ الدُّنْیَا أَہْوَنَ عَلَيَّ مِنْ أَنْ یَأْخُذَ مِنْ حَسَنَاتِي یَوْمَ الْقِیَامَۃِ۔

رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالْبُخَارِيُّ فِي الأَدَبِ۔

324: أخرجہ مسلم في الصحیح، کتاب الزھد، باب حدیث جابر الطویل وقصۃ أبي الیسر، 4/ 2303، الرقم/ 3007، والبخاري في الأدب المفرد/ 75، الرقم/ 187، والطبراني في المعجم الکبیر، 19/ 169، الرقم/ 379، والقضاعي في مسند الشھاب، 1/ 283، الرقم/ 462، والطحاوي في شرح معاني الآثار، 4/ 356۔

حضرت ابو الیسر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اپنے غلاموں کو وہی چیز کھلائو جو تم خود کھاتے ہو اور اُنہیں وہی کپڑا پہنائو جو تم خود پہنتے ہو۔ میں اُسے دنیا کا سامان دے دوں یہ میرے لیے اس سے زیادہ آسان ہے کہ وہ قیامت کے دن میری نیکیاں لے لے۔

اِسے امام مسلم نے جب کہ بخاری نے الأدب المفرد میں روایت کیا ہے۔

325/ 117۔ وَفِي رِوَایَۃِ أَبِي ھُرَیْرَۃَ رضی اللہ عنہ عَنْ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ أَنَّہٗ قَالَ: لِلْمَمْلُوْکِ طَعَامُہٗ وَکِسْوَتُہٗ، وَلَا یُکَلَّفُ مِنَ الْعَمَلِ إِلَّا مَا یُطِیْقُ۔

رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ وَمَالِکٌ وَالشَّافِعِيُّ۔

325: أخرجہ مسلم في الصحیح، کتاب الأیمان، باب إطعام المملوک مما یأکل وإلباسہ مما یلبس ولا یکلفہ ما یغلبہ، 3/ 1284، الرقم/ 1662، وأحمد بن حنبل في المسند، 2/ 247، الرقم/ 7358، ومالک في الموطأ، 2/ 980، الرقم/ 1769، والشافعي في المسند، 1/ 305، وعبد الرزاق في المصنف، 9/ 448، الرقم/ 17967۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: خادم کا کھانا اور کپڑا (اس کے مالک کے ذمہ) ہے اور اُس کو ایسے کام پر مجبور نہ کیا جائے جس کی وہ طاقت نہ رکھتا ہو۔

اِسے امام مسلم، احمد، مالک اور شافعی نے روایت کیا ہے۔

326/ 118۔ وَفِي رِوَایَۃٍ: عَنْ سَلَّامِ بْنِ عَمْرٍو عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ ﷺ: أَرِقَّاؤُکُمْ إِخْوَانُکُمْ، فَأَحْسِنُوْا إِلَیْھِمْ، (وفي روایۃ: أَوْ فَأَصْلِحُوْا إِلَیْھِمْ) وَاسْتَعِیْنُوْھُمْ عَلٰی مَا غَلَبَکُمْ، وَأَعِیْنُوْھُمْ عَلٰی مَا غُلِبُوْا۔

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالْبُخَارِيُّ فِي الأَدَبِِ وَاللَّفْظُ لَہٗ وَأَبُوْ یَعْلٰی۔

326: أخرجہ أحمد بن حنبل في المسند، 5/ 58، 371، الرقم/ 20600، 23196، والبخاري في الأدب المفرد/ 76، الرقم/ 190، وأبویعلی في المسند، 2/ 221، الرقم/ 920۔

ایک روایت میں حضرت سلام بن عمرو، حضور نبی اکرم ﷺ کے کسی صحابی سے بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: تمہارے غلام (خادم) تمہارے بھائی ہیں، اُن کے ساتھ حسنِ سلوک کیا کرو۔ ( اور ایک روایت میں ہے: اُن کے ساتھ بہتر سلوک کرو۔ ) جو کام تمہارے لیے مشکل ہوں اُس میں اُن کی مدد لو اور جو کام اُن کے لیے مشکل ہوں اُن (کاموں) میں اُن کی مدد کیا کرو۔

اِسے امام احمد نے، بخاری نے الأدب المفرد میں مذکورہ الفاظ کے ساتھ اور ابو یعلی نے روایت کیا ہے۔

327/ 119۔ وَفِي رِوَایَۃٍ: عَنْ أَبِي ھُرَیْرَۃَ رضی اللہ عنہ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: اَلْمَمْلُوْکُ أَخُوْکَ، فَإِذَا صَنَعَ لَکَ طَعَامًا فَأَجْلِسْهُ مَعَکَ، فَإِنْ أَبٰی فَأَطْعِمْهُ، وَلَا تَضْرِبُوْا وُجُوْھَھُمْ۔

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالطَّیَالِسِيُّ وَاللَّفْظُ لَہٗ وَالْبَیْھَقِيُّ بِإِسْنَادٍ حَسَنٍ۔

327: أخرجہ أحمد بن حنبل في المسند، 2/ 505، الرقم/ 10574، والطیالسي في المسند، 1/ 312، الرقم/ 2369، والبیھقي في شعب الإیمان، 6/ 373، الرقم/ 8567۔

ایک روایت میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: غلام (خادم) بھی تمہارا بھائی ہے، جب وہ تمہارے لیے کھانا تیار کرے تو اُسے اپنے ساتھ بٹھاؤ اگر وہ پاس بیٹھنے سے انکار کرے تو پھر بھی اُسے کھانا (ضرور) کھلاؤ اور(اگر اُن سے کوئی خطا بھی ہو جائے تو) اُن کے چہروں پر نہ مارو۔

اِسے امام احمد نے، طیالسی نے مذکورہ الفاظ کے ساتھ اور بیہقی نے اسنادِ حسن کے ساتھ روایت کیا ہے۔

328/ 120۔ عَنْ أَبِي مُوْسَی الأَشْعَرِيِّ رضی اللہ عنہ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: ثَـلَاثَۃٌ لَھُمْ أَجْرَانِ: رَجُلٌ مِنْ أَھْلِ الْکِتَابِ آمَنَ بِنَبِیِّہٖ وَآمَنَ بِمُحَمَّدٍ ﷺ، وَالْعَبْدُ الْمَمْلُوْکُ إِذَا أَدّٰی حَقَّ اللهِ وَحَقَّ مَوَالِیْهِ، وَرَجُلٌ کَانَتْ عِنْدَہٗ أَمَۃٌ، فَأَدَّبَھَا فَأَحْسَنَ تَأْدِیْبَھَا، وَعَلَّمَھَا فَأَحْسَنَ تَعْلِیْمَھَا، ثُمَّ أَعْتَقَھَا فَتَزَوَّجَھَا، فَلَہٗ أَجْرَانِ۔

مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ۔

328: أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب العلم، باب تعلیم الرجل أمتہ وأھلہ، 1/ 48، الرقم/ 97، وأیضًا في الأدب المفرد/ 80، الرقم/ 203، ومسلم في الصحیح، کتاب الإیمان، باب وجوب الإیمان برسالۃ نبینا محمد ﷺ إلی جمیع الناس ونسخ الملل بملتہ، 1/ 134، الرقم/ 154، وأحمد بن حنبل في المسند، 4/ 395، الرقم/ 19550، والترمذي في السنن، کتاب النکاح، باب ما جاء في الفضل في ذلک، 3/ 424، الرقم/ 1116، والنساي في السنن، کتاب النکاح، باب عتق الرجل جاریتہ ثم یتزوجھا، 6/ 115، الرقم/ 3344، وابن ماجہ في السنن، کتاب النکاح، باب الرجل یعتق أمتہ ثم یتزوجھا، 1/ 629، الرقم/ 1956۔

حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تین آدمیوں کے لیے دو اجر ہیں: ایک وہ اہلِ کتاب جو اپنے نبی پر بھی ایمان لایا اور محمد مصطفی ﷺ پر بھی ایمان لایا۔ دوسرا وہ غلام (خادم) جو اللہ تعالیٰ کا حق بھی بجا لائے اور اپنے آقا کے حقوق بھی پورے کرے۔ تیسرا وہ شخص جس کے پاس لونڈی ہو، وہ اُسے بہترین ادب سکھائے اور اُسے بہترین تعلیم دے، پھر آزاد کر کے اُس سے نکاح کر لے تو اُس کے لیے بھی دوہرا اجر ہے۔

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

329/ 121۔ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی اللہ عنہ قَالَ: إِنْ کَانَتِ الْأَمَۃُ مِنْ إِمَاءِ أَھْلِ الْمَدِیْنَۃِ لَتَأْخُذُ بِیَدِ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ فَتَنْطَلِقُ بِہٖ حَیْثُ شَائَتْ۔

رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَأَحْمَدُ۔

329: أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب الأدب، باب الکبر، 5/ 2255، الرقم/ 5724، وأحمد بن حنبل في المسند، 3/ 98، الرقم/ 11960، وأبو نعیم في حلیۃ الأولیاء، 7/ 202، وذکرہ النووي في ریاض الصالحین، 1/ 133، الرقم/ 605۔

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ مدینہ طیبہ کی باندیوں میں سے اگر کوئی باندی رسول اللہ ﷺ کا ہاتھ پکڑ کر (آپ ﷺکو اپنے کسی مسئلہ کے حل کے لیے) کہیں لے جانا چاہتی تو لے جا سکتی تھی۔

اِسے امام بخاری اور احمد نے روایت کیا ہے۔

330/ 122۔ وَفِي رِوَایَۃٍ: عَنْ أُمِّ سَلَمَۃَ رضی اللہ عنہ قَالَتْ: کَانَ مِنْ آخِرِ وَصِیَّۃِ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ: اَلصَّلَاۃَ اَلصَّلَاۃَ، وَمَا مَلَکَتْ أَیْمَانُکُمْ۔ حَتّٰی جَعَلَ نَبِيُّ اللهِ ﷺ یُلَجْلِجُھَا فِي صَدْرِہٖ وَمَا یَفِیْضُ بِھَا لِسَانُہٗ۔

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَابْنُ مَاجَہ وَالنسايُّ فِي السُّنَنِ الْکُبْرٰی۔

330: أخرجہ أحمد بن حنبل في المسند، 6/ 290، الرقم/ 26526، وابن ماجہ في السنن، کتاب الجنائز، باب ما جاء في ذکر مرض رسول اللہﷺ، 1/ 519، الرقم/ 1625، والنساءی في السنن الکبری، 4/ 259، الرقم/ 7100، وأبو یعلی في المسند، 12/ 414، الرقم/ 6979، والطبراني في المعجم الکبیر، 23/ 379، الرقم/ 897۔

ایک روایت میں حضرت اُم سلمہ رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی آخری وصیت میں یہ بھی تھا: نماز، نماز اور جن کے تم مالک ہو (کے بارے میں تمہیں اچھے سلوک کی وصیت کرتا ہوں)۔ آپ ﷺ یہ مسلسل فرماتے رہے حتیٰ کہ (کمزوری کی وجہ سے) وہ آپ ﷺ کی زبان پر جاری نہ رہا تو آپ ﷺ دل میں اُسے دہراتے رہے۔

اِسے امام احمد اور ابن ماجہ نے اور نسائی نے ’السنن الکبریٰ‘ میں روایت کیا ہے۔

331/ 123۔ عَنْ أَبِي مَسْعُوْدٍ الْبَدْرِيِّ رضی اللہ عنہ قَالَ: کُنْتُ أَضْرِبُ غُـلَامًا لِي بِالسَّوْطِ، فَسَمِعْتُ صَوْتًا مِنْ خَلْفِي: اعْلَمْ أَبَا مَسْعُوْدٍ۔ فَلَمْ أَفْهَمِ الصَّوْتَ مِنَ الْغَضَبِ، قَالَ: فَلَمَّا دَنَا مِنِّي إِذَا ھُوَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ، فَإِذَا ھُوَ یَقُوْلُ: اعْلَمْ أَبَا مَسْعُوْدٍ، اعْلَمْ أَبَا مَسْعُوْدٍ۔ قَالَ: فَأَلْقَیْتُ السَّوْطَ مِنْ یَدِي۔ فَقَالَ: اعْلَمْ أَبَا مَسْعُوْدٍ، أَنَّ اللهَ أَقْدَرُ عَلَیْکَ مِنْکَ عَلٰی ھٰذَا الْغُـلَامِ۔ قَالَ: فَقُلْتُ: لَا أَضْرِبُ مَمْلُوْکًا بَعْدَہٗ أَبَدًا۔

رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالتِّرْمِذِيُّ۔

331: أخرجہ مسلم في الصحیح، کتاب الأیمان، باب صحبۃ الممالیک وکفارۃ من لطم عبدہ، 3/ 1281، الرقم/ 1659، والترمذي في السنن، کتاب البر والصلۃ، باب النھي عن ضرب الخدم وشتمھم، 4/ 335، الرقم/ 1948، وعبد الرزاق في المصنف، 9/ 439، 446، الرقم/ 17933، 17959، والطبراني في المعجم الکبیر، 17/ 245، الرقم/ 684۔

حضرت ابو مسعود بدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں اپنے ایک غلام کو چابک سے مار رہا تھا کہ اچانک میں نے اپنے پیچھے سے ایک آواز سنی: اے ابو مسعود! جان لو۔ میں غصے کی وجہ سے اُس آواز کو پہچان نہ سکا۔ جب وہ (آواز دینے والے) میرے قریب ہوئے تو میں نے پہچانا کہ وہ رسول اللہ ﷺ ہیں اور آپ ﷺ فرما رہے ہیں: اے ابو مسعود! جان لو؛ اے ابو مسعود! جان لو۔ (حضرت ابو مسعود رضی اللہ عنہ ) بیان کرتے ہیں کہ میں نے اپنے ہاتھ سے چابک پھینک دیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اے ابو مسعود! جان لو کہ جتنا تم اِس غلام پر قادر ہو اللہ تعالیٰ تم پر اُس سے زیادہ قادر ہے۔ (حضرت ابو مسعود رضی اللہ عنہ ) بیان کرتے ہیں کہ میںنے عرض کیا: میں آئندہ کبھی کسی غلام کو نہیں ماروں گا۔

اِسے امام مسلم، اور ترمذی نے روایت کیا ہے۔

332/ 124۔ وَفِي رِوَایَۃِ أَبِي دَاوُدَ: فَقُلْتُ: یَا رَسُوْلَ اللهِ، ھُوَ حُرٌّ لِوَجْهِ اللهِ تَعَالٰی۔ قَالَ: أَمَا إِنَّکَ لَوْ لَمْ تَفْعَلْ لَلَفَحَتْکَ النَّارُ أَوْ لَمَسَّتْکَ النَّارُ۔

332: أخرجہ أبو داود في السنن، کتاب الأدب، باب حق المملوک، 4/ 340، الرقم/ 5159۔

ابو داود کی روایت میں ہے (کہ حضرت ابو مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں): میں عرض گزار ہوا: یا رسول اللہ! یہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے آزاد ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اگر تم ایسا نہ کرتے تو آگ تمہیں چمٹ جاتی - یا فرمایا: آگ تم سے لپٹ جاتی۔

333/ 125۔ عَنْ هِـلَالِ بْنِ یَسَافٍ قَالَ: عَجِلَ شَیْخٌ فَلَطَمَ خَادِمًا لَہٗ، فَقَالَ لَہٗ سُوَیْدُ بْنُ مُقَرِّنٍ رضی اللہ عنہ: عَجَزَ عَلَیْکَ إِلَّا حُرُّ وَجْهِھَا، لَقَدْ رَأَیْتُنِي سَابِعَ سَبْعَۃٍ مِنْ بَنِي مُقَرِّنٍ۔ مَا لَنَا خَادِمٌ إِلَّا وَاحِدَۃٌ، لَطَمَھَا أَصْغَرُنَا۔ فَأَمَرَنَا رَسُولُ اللهِ ﷺ أَنْ نُعْتِقَھَا۔

رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ وَأَبُوْ دَاوُدَ وَالتِّرْمِذِيُّ وَالنسايُّ۔

333: أخرجہ مسلم في الصحیح، کتاب الأیمان، باب صحبۃ الممالیک وکفارۃ من لطم عبدہ، 3/ 1279، الرقم/ 1658، وأحمد بن حنبل في المسند، 5/ 444، الرقم/ 23793، وأبو داود في السنن، کتاب الأدب، باب في حق المملوک، 4/ 342، الرقم/ 5166، والترمذي في السنن، کتاب النذور والأیمان، باب ما جاء في الرجل یلطم خادمہ، 4/ 114، الرقم/ 1542، والنساي في السنن الکبری، 3/ 194، الرقم/ 5013۔

حضرت ہلال بن یساف رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے جلدی میں اپنے غلام کے منہ پر ایک تھپڑ مار دیا، حضرت سوید بن مقرن رضی اللہ عنہ نے اُن سے کہا: تمہیں (تھپڑ مارنے کے لیے) اِس کے چہرے کے علاوہ اور کوئی جگہ نہیں ملی تھی؟ مجھے یاد ہے کہ میں بنو مقرن (کے سات بیٹوں میں سے) ساتواں بیٹا تھا اور ہمارے پاس ایک عورت کے سوا اور کوئی خادم نہیں تھا۔ ہم میں سب سے چھوٹے نے اُس کنیز (خادمہ) کو تھپڑ مارا تو رسول اللہ ﷺ نے ہمیں اُس خادمہ کو آزاد کرنے کا حکم دے دیا تھا۔

اِسے امام مسلم، احمد، ابو داود، ترمذی اور نسائی نے روایت کیا ہے۔

334/ 126۔ وَفِي رِوَایَۃٍ: عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضی اللہ عنہم قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ یَقُوْلُ: مَنْ لَطَمَ مَمْلُوْکَہٗ أَوْ ضَرَبَہٗ، فَکَفَّارَتُہٗ أَنْ یُعْتِقَہٗ۔

رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَبُوْ دَاوُدَ۔

334: أخرجہ مسلم في الصحیح، کتاب الأیمان، باب صحبۃ الممالیک وکفارۃ من لطم عبدہ، 3/ 1298، الرقم/ 1657، وأبو داود في السنن، کتاب الأدب، باب في حق المملوک، 4/ 342، الرقم/ 5168، وأبو عوانۃ في المسند، 4/ 68، الرقم/ 6055۔

ایک روایت میں حضرت (عبد اللہ) بن عمر رضی اللہ عنہم بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: جو شخص اپنے غلام (خادم) کو تھپڑ مارے یا اُس کو پیٹے تو اُس کا کفارہ یہ ہے کہ اُسے آزاد کر دے۔

اِسے امام مسلم اور ابو داود نے روایت کیا ہے۔

335/ 127۔ وَفِي رِوَایَۃِ عَمَّارِ بْنِ یَاسِرٍ رضی اللہ عنہم قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: مَا مِنْ رَجُلٍ یَضْرِبُ عَبْدًا لَہٗ إِلَّا أُقِیْدَ مِنْهُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ۔

رَوَاهُ الْبَزَّارُ وَأَبُوْ نُعَیْمٍ۔ وَقَالَ الْمُنْذِرِيُّ: رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَرُوَاتُہٗ ثِقَاتٌ۔ وَقَالَ الْھَیْثَمِيُّ: رِجَالُہٗ ثِقَاتٌ۔

335: أخرجہ البزار في المسند، 4/ 237، الرقم/ 1399، وأبو نعیم في حلیۃ الأولیاء، 4/ 378، وذکرہ المنذري في الترغیب والترھیب، 3/ 148، الرقم/ 3441، والھیثمي في مجمع الزوائد، 10/ 353۔

ایک روایت میں حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہم بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس شخص نے بھی اپنے غلام (خادم) کو مارا تو روزِ قیامت اُس سے اِس کا حساب لیا جائے گا۔

اِسے امام بزار اور ابو نعیم نے روایت کیا ہے۔ امام منذری نے فرمایا: اِس حدیث کو امام طبرانی نے روایت کیا ہے اور اِس کے راوی ثقہ ہیں۔ امام ہیثمی نے فرمایا ہے: اِس کے رجال ثقہ ہیں۔

336/ 128۔ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی اللہ عنہ قَالَ: کَانَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ إِذَا صَلَّی الْغَدَاۃَ، رضی اللہ عنہ م خَدَمُ الْمَدِیْنَۃِ بِآنِیَتِھِمْ فِیْھَا الْمَائُ، فَمَا یُؤْتٰی بِإِنَائٍ إِلَّا غَمَسَ یَدَہٗ فِیْھَا، فَرُبَّمَا جَاؤُوْهُ فِي الْغَدَاۃِ الْبَارِدَۃِ، فَیَغْمِسُ یَدَہٗ فِیْھَا۔

رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ وَابْنُ حُمَیْدٍ۔

336: أخرجہ مسلم في الصحیح، کتاب الفضائل، باب قرب النبي ﷺ من الناس وتبرکھم بہ، 4/ 1812، الرقم/ 2324، وأحمد بن حنبل في المسند، 3/ 137، الرقم/ 12424، وعبد بن حمید في المسند، 1/ 380، الرقم/ 1274، والبیھقي في شعب الإیمان، 2/ 154، الرقم/ 1429۔

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب صبح کی نماز سے فارغ ہوتے تو مدینہ منورہ کے خدام پانی سے بھرے اپنے اپنے برتن لے آتے، جو برتن بھی آپ ﷺ کے پاس لایا جاتا، آپ ﷺ (اُنہیں برکت عطا کرنے کے لیے) اُس میں اپنا ہاتھ ڈبو دیتے، بسا اوقات وہ (سخت) سردیوں کی صبح پانی لے آتے، آپ ﷺ پھر بھی اُس میں اپنا ہاتھ ڈبو دیتے۔

اِسے امام مسلم، احمد اور ابن حمید نے روایت کیا ہے۔

337/ 129۔ عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عُمَرَ رضی اللہ عنہم قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَی النَّبِيِّ ﷺ فَقَالَ: یَا رَسُوْلَ اللهِ، کَمْ أَعْفُوْ عَنِ الْخَادِمِ؟ فَصَمَتَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ ثُمَّ قَالَ: یَا رَسُوْلَ اللهِ، کَمْ أَعْفُوْ عَنِ الْخَادِمِ؟ فَقَالَ: کُلَّ یَوْمٍ سَبْعِیْنَ مَرَّۃً۔

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَأَبُوْ دَاوُدَ وَالتِّرْمِذِيُّ وَاللَّفْظُ لَہٗ۔ وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: ھٰذَا حَدِیْثٌ حَسَنٌ غَرِیْبٌ۔

337: أخرجہ أحمد بن حنبل في المسند، 2/ 111، الرقم/ 5899، وأبوداود في السنن، کتاب الأدب، باب في حق المملوک، 4/ 341، الرقم/ 5164، والترمذي في السنن، کتاب البر والصلۃ، باب ما جاء في العفو عن الخادم، 4/ 336، الرقم/ 1949، وأبو یعلی في المسند، 10/ 133، الرقم/ 5760، وذکرہ المنذري في الترغیب والترھیب، 3/ 151، الرقم/ 3458۔

حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ ایک شخص بارگاهِ نبوی میں حاضر ہوا اور عرض کیا: یا رسول اللہ! میں اپنے خادم کو کتنی بار معاف کروں؟ رسول اللہ ﷺ خاموش رہے، اُس نے پھر عرض کیا: یا رسول اللہ! میں اپنے خادم کو کتنی بار معاف کروں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ہر روز ستر مرتبہ۔

اِسے امام احمد، ابو داود اور ترمذی نے روایت کیا ہے، مذکورہ الفاظ ترمذی کے ہیں۔

338/ 130۔ عَنْ عَمْرِو بْنِ حُرَیْثٍ رضی اللہ عنہ أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ: مَا خَفَّفْتَ عَنْ خَادِمِکَ مِنْ عَمَلِہٖ، کَانَ لَکَ أَجْرًا فِي مَوَازِیْنِکَ۔

رَوَاهُ ابْنُ حِبَّانَ وَأَبُوْ یَعْلٰی وَابْنُ حُمَیْدٍ۔

338: أخرجہ ابن حبان في الصحیح، کتاب العتق، باب صحبۃ الممالیک، 10/ 153، الرقم/ 4314، وأبویعلی في المسند، 3/ 50، الرقم/ 1472، وعبد بن حمید في المسند، 1/ 119، الرقم/ 284، والبیھقي في شعب الإیمان، 6/ 378، الرقم/ 8589، وذکرہ الھیثمي في موارد الظمآن، 1/ 293، الرقم/ 1204۔

حضرت عمرو بن حریث رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تم اپنے خادم کی ذمہ داریوں میں جتنی تخفیف کرو گے، اُس کے بدلہ میں تمہارے نامۂ اعمال کے پلڑے میں اتنا ہی اُس کا اجر ہو گا۔

اِسے امام ابن حبان، ابو یعلی اور ابن حمید نے روایت کیا ہے۔

اَلتَّعَامُلُ مَعَ الْعُصَاۃِ وَالْمُذْنِبِیْنَ بِالْبِرِّ وَالْمُلَاطَفَۃِ وَالإِْحْسَانِ

{خطا کاروں اور گناہ گاروں کے ساتھ شفقت اور حسنِ سلوک}

اَلْقُرْآن

(1) وَسَارِعُوْٓا اِلٰی مَغْفِرَۃٍ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَجَنَّۃٍ عَرْضُھَا السَّمٰوٰتُ وَالْاَرْضُلا اُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِیْنَo الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ فِی السَّرَّآءِ وَ الضَّرَّآءِ وَ الْكٰظِمِیْنَ الْغَیْظَ وَ الْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِ ؕ وَ اللّٰهُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَۚo وَ الَّذِیْنَ اِذَا فَعَلُوْا فَاحِشَةً اَوْ ظَلَمُوْۤا اَنْفُسَهُمْ ذَكَرُوا اللّٰهَ فَاسْتَغْفَرُوا لِذُنُوْبِهِمْ ۪ وَ مَنْ یَّغْفِرُ الذُّنُوْبَ اِلَّا اللّٰهُ ۪۫ وَ لَمْ یُصِرُّوْا عَلٰی مَا فَعَلُوْا وَ هُمْ یَعْلَمُوْنَo اُولٰٓىِٕكَ جَزَآؤُهُمْ مَّغْفِرَةٌ مِّنْ رَّبِّهِمْ وَ جَنّٰتٌ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَا ؕ وَ نِعْمَ اَجْرُ الْعٰمِلِیْنَؕo

(آل عمران، 3/ 133-136)

اور اپنے رب کی بخشش اور اس جنت کی طرف تیزی سے بڑھو جس کی وسعت میں سب آسمان اور زمین آجاتے ہیں، جو پرہیزگاروں کے لیے تیار کی گئی ہےo یہ وہ لوگ ہیں جو فراخی اور تنگی (دونوں حالتوں) میں خرچ کرتے ہیں اور غصہ ضبط کرنے والے ہیں اور لوگوں سے (ان کی غلطیوں پر) درگزر کرنے والے ہیں، اور اللہ احسان کرنے والوں سے محبت فرماتا ہےo اور (یہ) ایسے لوگ ہیں کہ جب کوئی برائی کر بیٹھتے ہیں یا اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھتے ہیں تو اللہ کا ذکر کرتے ہیں پھر اپنے گناہوں کی معافی مانگتے ہیں، اور اللہ کے سوا گناہوں کی بخشش کون کرتا ہے، اور پھر جو گناہ وہ کر بیٹھے تھے ان پر جان بوجھ کر اصرار بھی نہیں کرتےo یہ وہ لوگ ہیں جن کی جزا ان کے رب کی طرف سے مغفرت ہے اور جنتیں ہیں جن کے نیچے نہریں رواں ہیں وہ ان میں ہمیشہ رہنے والے ہیں، اور (نیک) عمل کرنے والوں کا کیا ہی اچھا صلہ ہےo

(2) فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللّٰهِ لِنْتَ لَهُمْ ۚ وَ لَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِیْظَ الْقَلْبِ لَا نْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِكَ ۪ فَاعْفُ عَنْهُمْ وَ اسْتَغْفِرْ لَهُمْ وَ شَاوِرْهُمْ فِی الْاَمْرِ ۚ فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَی اللّٰهِ ؕ اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ الْمُتَوَكِّلِیْنَo

(آل عمران، 3/ 159)

(اے حبیبِ والا صفات!) پس اللہ کی کیسی رحمت ہے کہ آپ ان کے لیے نرم طبع ہیں اور اگر آپ تُندخُو (اور) سخت دل ہوتے تو لوگ آپ کے گرد سے چھٹ کر بھاگ جاتے، سو آپ ان سے درگزر فرمایا کریں اور ان کے لیے بخشش مانگا کریں اور (اہم) کاموں میں ان سے مشورہ کیا کریں، پھر جب آپ پختہ ارادہ کر لیں تو اللہ پر بھروسہ کیا کریں، بے شک اللہ توکّل والوں سے محبت کرتا ہےo

اَلْحَدِیْث

339/ 131۔ عَنْ أَبِي ھُرَیْرَۃَ رضی اللہ عنہ قَالَ: بَیْنَمَا نَحْنُ جُلُوْسٌ عِنْدَ النَّبِيِّ ﷺ إِذْ رضی اللہ عنہ مہٗ رَجُلٌ فَقَالَ: یَا رَسُوْلَ اللهِ، هَلَکْتُ، قَالَ: مَا لَکَ؟ قَالَ: وَقَعْتُ عَلَی امْرَأَتِي وَأَنَا صَائِمٌ۔ فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: هَلْ تَجِدُ رَقَبَۃً تُعْتِقُھَا؟ قَالَ: لَا۔ قَالَ: فَھَلْ تَسْتَطِیْعُ أَنْ تَصُوْمَ شَہْرَیْنِ مُتَتَابِعَیْنِ؟ قَالَ: لَا۔ فَقَالَ: فَھَلْ تَجِدُ إِطْعَامَ سِتِّیْنَ مِسْکِیْنًا؟ قَالَ: لَا۔ قَالَ: فَمَکَثَ النَّبِيُّ ﷺ فَبَیْنَا نَحْنُ عَلٰی ذٰلِکَ، أُتِيَ النَّبِيُّ ﷺ بِعَرَقٍ فِیْھَا تَمْرٌ، وَالْعَرَقُ الْمِکْتَلُ۔ قَالَ: أَیْنَ السَّائِلُ؟ فَقَالَ: أَنَا۔ قَالَ: خُذْ ھٰذَا فَتَصَدَّقْ بِہٖ۔ فَقَالَ الرَّجُلُ: أَعَلٰی أَفْقَرَ مِنِّي، یَا رَسُوْلَ اللهِ؟ فَوَاللهِ، مَا بَیْنَ لَابَتَیْھَا، یُرِیْدُ الْحَرَّتَیْنِ، أَہْلُ بَیْتٍ أَفْقَرُ مِنْ أَھْلِ بَیْتِي۔ فَضَحِکَ النَّبِيُّ ﷺ حَتّٰی بَدَتْ أَنْیَابُہٗ، ثُمَّ قَالَ: أَطْعِمْهُ أَہْلَکَ۔

مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ۔

وَقَالَ أَبُوْ دَاوُدَ: زَادَ الزُّھْرِيُّ: وَإِنَّمَا کَانَ ھٰذَا رُخْصَۃً لَہٗ خَاصَّۃً فَلَوْ أَنَّ رَجُـلًا فَعَلَ ذٰلِکَ الْیَوْمَ لَمْ یَکُنْ لَہٗ بُدٌّ مِنَ التَّکْفِیْرِ۔

339: أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب الصوم، باب إذا جامع في رمضان ولم یکن لہ شيء فتصدق علیہ فلیکفر، 2/ 684، الرقم/ 1834، ومسلم في الصحیح، کتاب الصیام، باب تغلیظ تحریم الجماع في نھار رمضان علی الصائم ووجوب الکفارۃ الکبری فیہ، 2/ 817، الرقم/ 111، وأحمد بن حنبل في المسند، 2/ 241، الرقم/ 7288، وأیضًا، 6/ 276، الرقم/ 26402، وأبوداود في السنن، کتاب الصوم، باب کفارۃ من أتی أھلہ في رمضان، 2/ 313، الرقم/ 2390، والترمذي في السنن، کتاب الصوم، باب ما جاء في کفارۃ الفطر في رمضان، 3/ 102، الرقم/ 724، وابن ماجہ في السنن، کتاب الصیام، باب ما جاء في کفارۃ من أفطر یوما من رمضان، 1/ 534، الرقم/ 1671، والنساي في السنن الکبری، 2/ 212، الرقم/ 3117۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم حضور نبی اکرم ﷺکی بارگاہ میں بیٹھے تھے کہ ایک آدمی حاضر ہوا اور اس نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میں ہلاک ہو گیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: تمہیں کیا ہوا؟ اُس نے عرض کیا: (یا رسول اللہ!) میں روزے کی حالت میں اپنی بیوی سے صحبت کر بیٹھا ہوں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کیا تمہارے پاس آزاد کرنے کے لیے غلام ہے؟ اُس نے عرض کیا: نہیں۔ فرمایا: کیا تم دو مہینوں کے متواتر روزے رکھ سکتے ہو؟وہ عرض گزار ہوا: نہیں۔ آپ ﷺ نے دریافت فرمایا: کیا تم ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلا سکتے ہو؟ اُس نے عرض کیا: نہیں۔ تو آپ ﷺ کچھ دیر خاموش رہے اور ہم وہیں تھے کہ آپ ﷺکی خدمت میں ایک عرق (بورہ) پیش کیا گیا جس میں کھجوریں تھیں۔ عرق ایک پیمانہ ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: سائل کہاں ہے؟ وہ عرض گزار ہوا: میں حاضر ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اِنہیں لے جا کر خیرات کر دو (یہ تمہارا کفارہ ہے)۔ وہ آدمی عرض گزار ہوا: یا رسول اللہ! کیا اپنے سے (بھی) زیادہ غریب پر؟ خدا کی قسم! اِن دونوں سنگلاخ میدانوں کے درمیان (یعنی مدینہ منورہ کی وادی میں) کوئی گھر ایسا نہیں جو میرے گھر سے زیادہ غریب ہو۔ اِس پرآپ ﷺ ہنس پڑے یہاں تک کہ پچھلے دندان مبارک نظر آنے لگے۔ پھر آپ ﷺ نے اُسے فرمایا: جاؤ اپنے گھر والوں کو ہی کھلا دو (تمہارا کفارہ ادا ہو جائے گا)۔

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

امام ابو داود نے فرمایا: امام زہری نے اس میں یہ اضافہ کیا ہے: ’یہ رخصت (آپ ﷺکی طرف سے) اُس آدمی کے لیے خاص تھی، سو آج اگر کوئی آدمی اس طرح روزہ توڑ لے تو اُس کے لیے (شرعی) کفارہ ادا کرنا واجب ہے۔ ‘

340/ 132۔ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی اللہ عنہ قَالَ: رضی اللہ عنہ م أَعْرَابِيٌّ، فَبَالَ فِي طَائِفَۃِ الْمَسْجِدِ، فَزَجَرَهُ النَّاسُ، فَنَھَاھُمُ النَّبِيُّ ﷺ، فَلَمَّا قَضٰی بَوْلَہٗ، أَمَرَ النَّبِيُّ ﷺ بِذَنُوْبٍ مِنْ مَاءٍ، فَأُھْرِیْقَ عَلَیْهِ۔

مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ۔

340: أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب الوضوء، باب صب الماء علی البول في المسجد، 1/ 89، الرقم/ 219، ومسلم في الصحیح، کتاب الطھارۃ، باب وجوب غسل البول، 1/ 236، الرقم/ 284، والشافعي في المسند، 1/ 20۔

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دیہاتی آیا اور مسجد کے ایک گوشے میں پیشاب کرنے لگا۔ لوگوں نے اُسے ڈانٹا تو حضور نبی اکرم ﷺ نے اُنہیں منع کیا۔ جب وہ پیشاب سے فارغ ہو گیا تو آپ ﷺ نے ایک ڈول پانی لانے کا حکم فرمایا جو اُس (پیشاب) پر بہا دیا گیا۔

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

341/ 133۔ وَفِي رِوَایَۃٍ عَنْهُ رضی اللہ عنہ: قَالَ: بَیْنَمَا نَحْنُ فِي الْمَسْجِدِ مَعَ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ إِذْ رضی اللہ عنہ م أَعْرَابِيٌّ فَقَامَ یَبُوْلُ فِي الْمَسْجِدِ، فَقَالَ أَصْحَابُ رَسُوْلِ اللهِﷺ: مَہْ مَہْ۔ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: لَا تُزْرِمُوْهُ، دَعُوْهُ۔ فَتَرَکُوْهُ حَتّٰی بَالَ، ثُمَّ إِنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ دَعَاهُ، فَقَالَ لَہٗ: إِنَّ ہٰذِهِ الْمَسَاجِدَ لَا تَصْلُحُ لِشَيْئٍ مِنْ ھٰذَا الْبَوْلِ وَلَا الْقَذَرِ۔ إِنَّمَا هِيَ لِذِکْرِ اللهِ سبحانہ وتعالیٰ، وَالصَّلَاۃِ، وَقِرَائَۃِ الْقُرْآنِ؛ أَوْ کَمَا قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ۔ قَالَ: فَأَمَرَ رَجُـلًا مِنَ الْقَوْمِ، فَجَاءَ بِدَلْوٍ مِنْ مَاءٍ فَشَنَّہٗ عَلَیْهِ۔

رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَبُوْ عَوَانَۃَ۔

341: أخرجہ مسلم في الصحیح، کتاب الطھارۃ، باب وجوب غسل البول، 1/ 236، الرقم/ 285، وأبو عوانۃ في المسند، 1/ 182، الرقم/ 567، والبیھقي في السنن الکبری، 2/ 412، الرقم/ 3945۔

ایک اور روایت میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ مسجد میں بیٹھے تھے کہ اچانک ایک اعرابی آیا اور اُس نے کھڑے ہو کر مسجد میں پیشاب کرنا شروع کر دیا۔ رسول اللہ ﷺ کے بعض صحابہ نے اُسے روکنے کے لیے کہا: ٹھہر جا، ٹھہر جا۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اسے (پیشاب کرنے سے) مت روکو، اسے کرنے دو۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ م نے اُس کو چھوڑ دیا یہاں تک کہ اُس نے پیشاب کر لیا۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے اُسے اپنے پاس بلایا اور نصیحت فرمائی: یہ مساجد پیشاب اور دیگر نجاست سے آلودہ کرنے کے لیے نہیں ہیں، یہ اللہ تعالیٰ کے ذکر، نماز اور تلاوتِ قرآن کے لیے ہیں؛ یا جو رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا۔ پھر آپ ﷺ نے صحابہ میں سے ایک صحابی کو حکم دیا تو وہ پانی کا ایک ڈول لایا اور وہ پانی اُس پیشاپ پر بہا دیا۔

اِسے امام مسلم اور ابو عوانہ نے روایت کیا ہے۔

اِحْتَرَامُ الْجَنَائِزِ

{جنازہ کا احترام کرنا}

اَلْقُرْآن

وَلَقَدْ کَرَّمْنَا بَنِیٓ اٰدَمَ وَحَمَلْنٰـھُمْ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنٰـھُمْ مِّنَ الطَّیِّبٰتِ وَفَضَّلْنٰـھُمْ عَلٰی کَثِیْرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِیْلاًo

(الاسراء، 17/ 70)

اور بے شک ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی اور ہم نے ان کو خشکی اور تری (یعنی شہروں اور صحراؤں اور سمندروں اور دریاؤں) میں (مختلف سواریوں پر) سوار کیا اور ہم نے انہیں پاکیزہ چیزوں سے رزق عطا کیا اور ہم نے انہیں اکثر مخلوقات پر جنہیں ہم نے پیدا کیا ہے فضیلت دے کر برتر بنا دیاo

اَلْحَدِیْث

342/ 134۔ عَنْ عَامِرِ بْنِ رَبِیعَۃَ رضی اللہ عنہ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: إِذَا رَآی أَحَدُکُمْ جَنَازَۃً، فَإِنْ لَمْ یَکُنْ مَاشِیًا مَعَھَا، فَلْیَقُمْ حَتّٰی یُخَلِّفَھَا، أَوْ تُخَلِّفَہٗ أَوْ تُوْضَعَ مِنْ قَبْلِ أَنْ تُخَلِّفَہٗ۔

مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ۔

342: أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب الجنائز، باب متی یقعد إذا قام للجنازۃ، 1/ 441، الرقم/ 1246، ومسلم في الصحیح، کتاب الجنائز، باب القیام للجنازۃ، 2/ 660، الرقم/ 958، والطبراني في المعجم الأوسط، 1/ 123، الرقم/ 391۔

حضرت عامر بن ربیعہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی جنازہ دیکھے اور وہ اُس کے ساتھ نہ جا رہا ہو تو (اُس کے احترام میں) کھڑا ہو جائے یہاں تک کہ وہ اُس سے آگے یا پیچھے چلا جائے یا آگے جانے سے پہلے رکھ دیا جائے۔

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

343/ 135۔ وَفِي رِوَایَۃٍ: عَنْ أَبِي سَعِیْدٍ الْخُدْرِيِّ رضی اللہ عنہ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: إِذَا رَأَیْتُمُ الْجَنَازَۃَ فَقُوْمُوْا، فَمَنْ تَبِعَھَا فَـلَا یَقْعُدْ حَتّٰی تُوْضَعَ۔

مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ۔

343: أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب الجنائز، باب من تبع جنازۃ فلا یقعد حتی توضع، 1/ 441، الرقم/ 1248، ومسلم في الصحیح، کتاب الجنائز، باب القیام للجنازۃ، 2/ 660، الرقم/ 959، وأحمد بن حنبل في المسند، 3/ 25، الرقم/ 11211، والنساي في السنن، کتاب الجنائز، باب السرعۃ بالجنازۃ، 4/ 43، الرقم/ 1914۔

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ، حضور نبی اکرم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا: جب تم جنازہ دیکھو تو (اُس کے احترام میں) کھڑے ہو جائو۔ جو جنازے کے ساتھ جا رہا ہو وہ جنازہ کے زمین پر رکھ دیے جانے سے پہلے نہ بیٹھے۔

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

344/ 136۔ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ رضی اللہ عنہم قَالَ: مَرَّتْ بِنَا جَنَازَۃٌ، فَقَامَ لَھَا النَّبِيُّ ﷺ وَقُمْنَا لَہٗ، فَقُلْنَا: یَا رَسُوْلَ اللهِ، إِنَّھَا جَنَازَۃُ یَھُوْدِيٍّ۔ قَالَ: إِذَا رَأَیْتُمُ الْجَنَازَۃَ فَقُوْمُوْا۔

مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ۔

344: أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب الجنائز، باب من قام لجنازۃ یھودي، 1/ 441، الرقم/ 1249، ومسلم في الصحیح، کتاب الجنائز، باب القیام للجنازۃ، 2/ 660، الرقم/ 960، وأحمد بن حنبل في المسند، 3/ 319، الرقم/ 14467، والنساي في السنن، کتاب الجنائز، باب القیام لجنازۃ أھل الشرک، 4/ 45، الرقم/ 1922، وأیضًا في السنن الکبری، 1/ 626، الرقم/ 2049۔

حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہم بیان کرتے ہیں: ہمارے پاس سے ایک جنازہ گزرا تو حضور نبی اکرم ﷺ کھڑے ہو گئے اور آپ کے ساتھ ہم بھی کھڑے ہو گئے۔ پھر ہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ! یہ تو (کسی) یہودی کا جنازہ ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: جب تم جنازہ دیکھو تو کھڑے ہو جایا کرو۔

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

345/ 137۔ وَفِي رِوَایَۃٍ: عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ أَبِي لَیْلٰی رضی اللہ عنہ قَالَ: کَانَ سَہْلُ بْنُ حُنَیْفٍ وَقَیْسُ بْنُ سَعْدٍ رضی اللہ عنہم قَاعِدَیْنِ بِالْقَادِسِیَّۃِ، فَمَرُّوْا عَلَیْهِمَا بِجَنَازَۃٍ، فَقَامَا، فَقِیْلَ لَھُمَا: إِنَّھَا مِنْ أَھْلِ الْأَرْضِ أَي مِنْ أَھْلِ الذِّمَّۃِ۔ فَقَالَا: إِنَّ النَّبِيَّ ﷺ مَرَّتْ بِہٖ جَنَازَۃٌ، فَقَامَ، فَقِیْلَ لَہٗ: إِنَّھَا جَنَازَۃُ یَھُوْدِيٍّ۔ فَقَالَ: أَلَیْسَتْ نَفْسًا؟

مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ۔

345: أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب الجنائز، باب من قام لجنازۃ یھودي، 1/ 441، الرقم/ 1250، ومسلم في الصحیح، کتاب الجنائز، باب القیام للجنازۃ، 2/ 661، الرقم/ 961، وأحمد بن حنبل في المسند، 6/ 6، الرقم/ 23893، والنساي في السنن، کتاب الجنائز، باب القیام لجنازۃ أھل الشرک، 4/ 45، الرقم/ 1921، وأیضًا في السنن الکبری، 1/ 626، الرقم/ 2048، والطبراني في المعجم الکبیر، 6/ 90، الرقم/ 5606، وابن أبي شیبۃ في المصنف، 3/ 39، الرقم/ 11918، وابن الجعد في المسند/ 27، الرقم/ 70، والبیھقي في السنن الکبری، 4/ 27، الرقم/ 6672۔

حضرت عبد الرحمن بن ابی لیلیٰ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت سہل بن حُنَیف اور حضرت قیس بن سعد رضی اللہ عنہم قادسیہ میں بیٹھے ہوئے تھے کہ اُن کے پاس سے ایک جنازہ گزرا۔ آپ دونوں کھڑے ہو گئے۔ اُن سے کہا گیا کہ یہ تو یہاں کے غیر مسلم شہری کا جنازہ ہے۔ اُنہوں نے فرمایا: (ایک مرتبہ) حضور نبی اکرم ﷺ کے پاس سے جنازہ گزرا تو آپ ﷺ کھڑے ہو گئے۔ عرض کیا گیا: یہ تو یہودی کا جنازہ ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: کیا یہ (انسانی) جان نہیں ہے؟

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

Copyrights © 2025 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved