٭ تخریج کالامی صاحب نے چیک کی۔ اصلاحات کا اندراج حامد سمیع نے کیا، جنہیں بعد ازاں کمپیوٹر میں اجمل علی مجددی نے چیک کیا۔
٭ حامد الازہری صاحب، اقبال چشتی، کالامی صاحب اور محمد علی صاحب نے باب چیک کیا۔ اصلاحات کا اندراج کمپیوٹر میں ہی کر کے حافظ فرحان ثنائی نے باب فائنل کیا۔
٭ ڈاکٹر فیض اللہ بغدادی صاحب اور محمد فاروق رانا نے چیک کیا۔ حامد سمیع، فیض رسول اور زمان احمد مصطفوی نے اصلاحات کا اندراج کیا، جن کی توثیق زمان مصطفوی نے کمپیوٹر میں چیک کرکے کی۔ بعد ازاں اجمل صاحب نے کمپیوٹر میں اصلاحات چیک کرکے باب کو فائنل کیا۔
(1) وَ لَا تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ بَعْدَ اِصْلَاحِهَا وَ ادْعُوْهُ خَوْفًا وَّ طَمَعًا ؕ اِنَّ رَحْمَتَ اللّٰهِ قَرِیْبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِیْنَo
(الأعراف، 7/ 56)
اور زمین میں اس کے سنور جانے (یعنی ملک کا ماحولِ حیات درست ہو جانے) کے بعد فساد انگیزی نہ کرو اور (اس کے عذاب سے) ڈرتے ہوئے اور (اس کی رحمت کی) امید رکھتے ہوئے اس سے دعا کرتے رہا کرو، بے شک اللہ کی رحمت احسان شعار لوگوں (یعنی نیکوکاروں) کے قریب ہوتی ہےo
(2) وَ الَّذِیْنَ جَاهَدُوْا فِیْنَا لَنَهْدِیَنَّهُمْ سُبُلَنَا ؕ وَ اِنَّ اللّٰهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِیْنَ۠o
(العنکبوت، 29/ 69)
اور جو لوگ ہمارے حق میں جہاد (اور مجاہدہ) کرتے ہیں تو ہم یقینا انہیںاپنی (طرف سَیر اور وصول کی) راہیں دکھا دیتے ہیں، اور بے شک اللہ صاحبانِ احسان کو اپنی معیّت سے نوازتا ہےo
(3) وَ مَنْ یُّسْلِمْ وَجْهَهٗۤ اِلَی اللّٰهِ وَ هُوَ مُحْسِنٌ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقٰی ؕ وَ اِلَی اللّٰهِ عَاقِبَةُ الْاُمُوْرِo
(لقمان، 31/ 22)
جو شخص اپنا رخِ اطاعت اللہ کی طرف جھکا دے اور وہ (اپنے عَمل اور حال میں) صاحبِ احسان بھی ہو تو اس نے مضبوط حلقہ کو پختگی سے تھام لیا، اور سب کاموں کا انجام اللہ ہی کی طرف ہےo
(4) لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَنْ كَانَ یَرْجُوا اللّٰهَ وَ الْیَوْمَ الْاٰخِرَ وَ ذَكَرَ اللّٰهَ كَثِیْرًاؕo
(الأحزاب، 33/ 21)
فی الحقیقت تمہارے لیے رسول اللہ (ﷺ کی ذات) میں نہایت ہی حسین نمونۂِ (حیات) ہے ہر اُس شخص کے لیے جو اللہ (سے ملنے) کی اور یومِ آخرت کی امید رکھتا ہے اور اللہ س ضشکا ذکر کثرت سے کرتا ہےo
(5) قُلْ یٰعِبَادِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوْا رَبَّكُمْ ؕ لِلَّذِیْنَ اَحْسَنُوْا فِیْ هٰذِهِ الدُّنْیَا حَسَنَةٌ ؕ وَ اَرْضُ اللّٰهِ وَاسِعَةٌ ؕ اِنَّمَا یُوَفَّی الصّٰبِرُوْنَ اَجْرَهُمْ بِغَیْرِ حِسَابٍo
(الزمر، 39/ 10)
(محبوب میری طرف سے) فرما دیجیے: اے میرے بندو! جو ایمان لائے ہو اپنے رب کا تقویٰ اختیار کرو۔ ایسے ہی لوگوں کے لیے جو اس دنیا میں صاحبانِ احسان ہوئے، بہترین صلہ ہے، اور اللہ کی سرزمین کشادہ ہے، بلاشبہ صبر کرنے والوں کو اُن کا اجر بے حساب انداز سے پورا کیا جائے گاo
(6) وَ لَا تَسْتَوِی الْحَسَنَةُ وَ لَا السَّیِّئَةُ ؕ اِدْفَعْ بِالَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُ فَاِذَا الَّذِیْ بَیْنَكَ وَ بَیْنَهٗ عَدَاوَةٌ كَاَنَّهٗ وَلِیٌّ حَمِیْمٌo
(فصلت، 41/ 34)
اور نیکی اور بدی برابر نہیں ہو سکتی، اور برائی کو بہتر (طریقے) سے دور کیا کرو سو نتیجتاً وہ شخص کہ تمہارے اور جس کے درمیان دشمنی تھی گویا وہ گرم جوش دوست ہو جائے گاo
(7) وَ اِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍo
(القلم، 68/ 4)
اور بے شک آپ عظیم الشان خلق پر قائم ہیں (یعنی آدابِ قرآنی سے مزّین اور اَخلاقِ اِلٰہیہ سے متّصف ہیں)o
346/ 1۔ عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو رضی اللہ عنہ قَالَ: لَمْ یَکُنِ النَّبِيُّ ﷺ فَاحِشًا وَلَا مُتَفَحِّشًا، وَکَانَ یَقُوْلُ: إِنَّ مِنْ خِیَارِکُمْ أَحْسَنَکُمْ أَخْلَاقًا۔
مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ۔
346: أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب المناقب، باب صفۃ النبي ﷺ، 3/ 1305، الرقم/ 3366، ومسلم في الصحیح، کتاب الفضائل، باب تبسمہ ﷺ وحسن عشرتہ، 4/ 1810، الرقم/ 2321، وأحمد بن حنبل في المسند، 2/ 161، الرقم/ 6504، والترمذي في السنن، کتاب البر والصلۃ، باب ما جاء في الفحش والتفحش، 4/ 349، الرقم/ 1975۔
حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ بد زبان اور لڑنے جھگڑنے والے نہ تھے۔ آپ ﷺ فرمایا کرتے تھے: تم میں سب سے بہتر وہ شخص ہے جس کے اخلاق سب سے اچھے ہوں۔
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
347/ 2۔ عَنِ النَّوَّاسِ بْنِ سَمْعَانَ الْأَنْصَارِيِّ رضی اللہ عنہ قَالَ: سَأَلْتُ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ عَنِ الْبِرِّ وَالإِثْمِ، فَقَالَ: اَلْبِرُّ حُسْنُ الْخُلُقِ، وَالإِثْمُ مَا حَاکَ فِي صَدْرِکَ وَکَرِہْتَ أَنْ یَطَّلِعَ عَلَیْهِ النَّاسُ۔
رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ وَالتِّرْمِذِيُّ۔
347: أخرجہ مسلم في الصحیح، کتاب البر والصلۃ والآداب، باب تفسیر البر والإثم، 4/ 1980، الرقم/ 2553، وأحمد بن حنبل في المسند، 4/ 182، الرقم/ 17668، والترمذي في السنن، کتاب الزہد، باب ما جاء في البر والإثم، 4/ 597، الرقم/ 2389۔
حضرت نواس بن سمعان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: میں نے رسول اللہ ﷺ سے نیکی اور گناہ کے بارے میں پوچھا تو آپ ﷺ نے فرمایا: اچھا اخلاق نیکی ہے اور جو چیزتیرے دل میں کھٹکے اور جس عمل پر لوگوں کا مطلع ہونا تجھے ناپسند ہو وہ گناہ ہے۔
اِسے امام مسلم، احمد اور ترمذی نے روایت کیا ہے۔
348/ 3۔ عَنْ عَائِشَۃَ رضی اللہ عنہ ا قَالَتْ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: إِنَّ مِنْ أَکْمَلِ الْمُؤْمِنِیْنَ إِیْمَانًا أَحْسَنَھُمْ خُلُقًا وَأَلْطَفَھُمْ بِأَہْلِہٖ۔
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالتِّرْمِذِيُّ وَالْحَاکِمُ۔ وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: ھٰذَا حَدِیثٌ صَحِیحٌ۔
348: أخرجہ أحمد بن حنبل في المسند، 6/ 47، الرقم/ 024250، والترمذي في السنن، کتاب الإیمان، باب ما جاء في استکمال الإیمان وزیادتہ ونقصانہ، 5/ 9، الرقم/ 2612، والحاکم في المستدرک، 1/ 119، الرقم/ 173، وابن أبي شیبۃ في المصنف، 5/ 210، الرقم/ 25319۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ ا سے مروی ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: سب سے زیادہ کامل ایمان والے وہ لوگ ہیں جن کے اخلاق سب سے اچھے ہیں اور وہ اپنے گھر والوں سے سب سے زیادہ نرمی کے ساتھ پیش آتے ہیں۔
اِسے امام احمد، ترمذی اور حاکم نے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی فرماتے ہیں: یہ حدیث صحیح ہے۔
349/ 4۔ عَنْ جَابِرٍِ رضی اللہ عنہ أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ: إِنَّ مِنْ أَحَبِّکُمْ إِلَيَّ وَأَقْرَبِکُمْ مِنِّي مَجْلِسًا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ أَحَاسِنَکُمْ أَخْلَاقًا۔
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالتِّرْمِذِيُّ وَاللَّفْظُ لَہٗ وَابْنُ حِبَّانَ، وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: ھٰذَا حَدِیْثٌ حَسَنٌ غَرِیْبٌ۔
349: أخرجہ أحمد بن حنبل في المسند، 2/ 185، الرقم/ 6735، والترمذي في السنن، کتاب البر والصلۃ، باب ما جاء في معالي الأخلاق، 4/ 370، الرقم/ 2018، وابن حبان في الصحیح، 2/ 235، الرقم/ 485۔
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میرے نزدیک تم میں سے زیادہ محبوب اور قیامت کے دن میرے قریب ترین بیٹھنے والے وہ لوگ ہیں جو سب سے زیادہ خوش اخلاق ہیں۔
اِسے امام احمد، ترمذی اور ابن حبان نے روایت کیا ہے۔ مذکورہ الفاظ ترمذی کے ہیں۔ امام ترمذی فرماتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔
350/ 5۔ عَنْ أَبِي ھُرَیْرَۃَ رضی اللہ عنہ قَالَ: سُئِلَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ عَنْ أَکْثَرِ مَا یُدْخِلُ النَّاسَ الْجَنَّۃَ، فَقَالَ: تَقْوَی اللهِ وَحُسْنُ الْخُلُقِ۔ وَسُئِلَ عَنْ أَکْثَرِ مَا یُدْخِلُ النَّاسَ النَّارَ، فَقَالَ: اَلْفَمُ وَالْفَرْجُ۔
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالتِّرْمِذِيُّ وَاللَّفْظُ لَہٗ وَابْنُ مَاجَہ۔ وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: ھٰذَا حَدِیثٌ صَحِیحٌ غَرِیْبٌ۔
350: أخرجہ أحمد بن حنبل في المسند، 2/ 392، الرقم/ 9085، والترمذي في السنن، کتاب البر والصلۃ، باب ما جاء في حسن الخلق، 4/ 363، الرقم/ 2004، وابن ماجہ في السنن، کتاب الزہد، باب ذکر الذنوب، 2/ 1418، الرقم/ 4246۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے پوچھا گیا: کون سے اعمال ہیں جو لوگوں کو بکثرت جنت میںلے جائیں گے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کا خوف (تقویٰ) اور اچھے اخلاق۔ اُن چیزوں کے بارے میں پوچھا گیا جو لوگوں کو بکثرت جہنم میں لے جائیں گے تو آپ ﷺ نے فرمایا: زبان اور شرمگاہ۔
اِسے امام احمد، ترمذی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔ مذکورہ الفاظ ترمذی کے ہیں اور وہ فرماتے ہیں: یہ حدیث صحیح غریب ہے۔
351/ 6۔ عَنْ عَائِشَۃَ رضی اللہ عنہ ا عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: إِنَّ الرَّجُلَ لَیُدْرِکُ بِحُسْنِ خُلُقِہٖ دَرَجَۃَ الصَّائِمِ الْقَائِمِ۔
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَأَبُوْ دَاوُُدَ وَالْحَاکِمُ وَابْنُ حِبَّانَ۔ وَقَالَ الْحَاکِمُ: ھٰذَا حَدِیْثٌ صَحِیْحٌ عَلٰی شَرْطِ مُسْلِمٍ۔
351: أخرجہ أحمد بن حنبل في المسند، 6/ 187، الرقم/ 25578، وأبوداود في السنن، کتاب الأدب، باب في حسن الخلق، 4/ 252، الرقم/ 4798، والحاکم في المستدرک، 1/ 128، الرقم/ 199، وابن حبان في الصحیح، 2/ 228-229، الرقم/ 480، والبیہقي في شعب الإیمان، 6/ 236، الرقم/ 7997۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ ا روایت کرتی ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: مومن حسنِ اَخلاق کے ذریعے دن کو روزہ رکھنے والے اور راتوں کو قیام کرنے والے کا درجہ حاصل کر لیتا ہے۔
اِسے امام احمد، ابو داود، حاکم اور ابن حبان نے روایت کیا ہے۔ امام حاکم فرماتے ہیں: یہ حدیث امام مسلم کی شرط پر صحیح ہے۔
352/ 7۔ عَنْ أَبِي ھُرَیْرَۃَ رضی اللہ عنہ أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ: إِنَّمَا بُعِثْتُ ِلأُتَمِّمَ صَالِحَ الأَخْلَاقِ۔
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالْحَاکِمُ۔
352: أخرجہ أحمد بن حنبل في المسند، 2/ 381، الرقم/ 8939، والحاکم في المستدرک، 2/ 670، الرقم/ 4221۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مجھے نیک (یعنی عمدہ) اَخلاق کی تکمیل کے لیے بھیجا گیا ہے۔
اِسے امام احمد اور حاکم نے روایت کیا ہے۔
353/ 8۔ وَفِي رِوَایَۃٍ عَنْهُ رضی اللہ عنہ أَنَّہٗ قَالَ: إِنَّمَا بُعِثْتُ لِأُتَمِّمَ مَکَارِمَ الأَخْلَاقِ۔
رَوَاهُ الْبَیْهَقِيُّ۔
353: أخرجہ البیہقي في السنن الکبري، 10/ 191، الرقم/ 20571۔
ان ہی سے مروی ایک روایت میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: مجھے مکارم اخلاق کی تکمیل کے لیے بھیجا گیا ہے۔
اسے امام بیہقی نے روایت کیا ہے۔
354/ 9۔ عَنْ أَبِي ذَرٍّ رضی اللہ عنہ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ لَهُ: اتَّقِ اللهَ حَیْثُمَا کُنْتَ، وَاتَّبِعِ السَّیِّئَۃَ الْحَسَنَۃَ تَمْحُھَا، وَخَالِقِ النَّاسَ بِخُلُقٍ حَسَنٍ۔
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالتِّرْمِذِيُّ وَالدَّارِمِيُّ وَالْبَزَّارُ وَالْحَاکِمُ۔ وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: ھٰذَا حَدِیثٌ حَسَنٌ صَحِیحٌ۔
354: أخرجہ أحمد بن حنبل في المسند، 5/ 153، الرقم/ 21392، والترمذي في السنن، کتاب البر والصلۃ، باب ما جاء في معاشرۃ الناس، 4/ 355، الرقم/ 1987، والدارمي في السنن، 2/ 415، الرقم/ 2791، والبزار في المسند، 9/ 416، والحاکم في المستدرک، 1/ 121، الرقم/ 178۔
حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے ان سے فرمایا: تم جہاں کہیں بھی ہو اللہ تعالیٰ سے ڈرو، گناہ کے بعد نیکی کرو وہ اسے مٹا دے گی اور لوگوں سے اچھے اَخلاق کے ساتھ پیش آئو۔
اِسے امام احمد، ترمذی، دارمی، بزار اور حاکم نے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی فرماتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
355/ 10۔ وَفِي رِوَایَۃٍ عَنْهُ رضی اللہ عنہ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: لَا عَقْلَ کَالتَّدْبِیْرِ، وَلَا وَرَعَ کَالْکَفِّ، وَلَا حَسَبَ کَحُسْنِ الْخُلُقِ۔
رَوَاهُ ابْنُ مَاجَہ وَابْنُ حِبَّانَ۔
355: أخرجہ ابن ماجہ في السنن، کتاب الزہد، باب الورع والتقوی، 2/ 1410، الرقم/ 4218، وابن حبان في الصحیح، 2/ 79، الرقم/ 361، وأبونعیم في حلیۃ الأولیاء، 1/ 168، والقضاعي في مسند الشہاب، 2/ 39، الرقم/ 837۔
اور حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے ہی مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:: تدبیر جیسی کوئی عقل مندی نہیں، (معاصی سے) اجتناب جیسا کوئی تقویٰ نہیں اور حسنِ اَخلاق جیسا کوئی حسب نسب نہیں۔
اِسے امام ابن ماجہ اور ابن حبان نے روایت کیا ہے۔
356/ 11۔ عَنْ أُسَامَۃَ بْنِ شَرِیکٍ رضی اللہ عنہ قَالَ: قَالُوْا: یَا رَسُوْلَ اللهِ، مَا خَیْرُ مَا أُعْطِيَ الْعَبْدُ؟ قَالَ: خُلُقٌ حَسَنٌ۔
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَابْنُ مَاجَہ وَاللَّفْظُ لَہٗ وَابْنُ أَبِي شَیْبَۃَ وَالْحَاکِمُ۔
356: أخرجہ أحمد بن حنبل في المسند، 4/ 278، الرقم/ 18477، وابن ماجہ في السنن، کتاب الطب، باب ما أنزل اللہ داء إلا أنزل لہ شفائ، 2/ 1137، الرقم/ 3436، وابن أبي شیبۃ في المصنف، 5/ 210، الرقم/ 25314، والحاکم في المستدرک، 4/ 442، الرقم/ 8206، وابن حبان في الصحیح، 13/ 426، الرقم/ 6061، والطبراني في المعجم الکبیر، 1/ 181، الرقم/ 469۔
حضرت اُسامہ بن شریک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ صحابہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! انسان کو سب سے بہتر کون سی چیز عطا کی گئی ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: اچھے اَخلاق۔
اِسے امام احمد، ابن ماجہ، ابن ابی شیبہ اور حاکم نے روایت کیا ہے۔ مذکورہ الفاظ ابن ماجہ کے ہیں۔
357/ 12۔ عَنْ أَبِي أُمَامَۃَ رضی اللہ عنہ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: أَنَا زَعِیْمٌ بِبَیْتٍ فِي رَبَضِ الْجَنَّۃِ لِمَنْ تَرَکَ الْمِرَائَ وَإِنْ کَانَ مُحِقًّا، وَبِبَیْتٍ فِي وَسَطِ الْجَنَّۃِ لِمَنْ تَرَکَ الْکَذِبَ وَإِنْ کَانَ مَازِحًا، وَبِبَیْتٍ فِي أَعْلَی الْجَنَّۃِ لِمَنْ حَسَّنَ خُلُقَہٗ۔
رَوَاهُ أَبُو دَاوُدَ وَالطَّبَرَانِيُّ وَالْبَیْهَقِيُّ۔
357: أخرجہ أبو داود في السنن، کتاب الأدب، باب في حسن الخلق، 4/ 253، الرقم/ 4800، والطبراني في المعجم الکبیر، 8/ 98، الرقم/ 7488، وأیضا في المعجم الأوسط، 5/ 68، الرقم/ 4693، والبیہقي في السنن الکبری، 10/ 249، الرقم/ 20965، وأیضًا في شعب الإیمان، 6/ 242، الرقم/ 8017۔
ٗٗٗحضرت ابو اُمامہ رضی اللہ عنہ نے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میں اس شخص کے لیے جنت کے ابتدائی حصہ میں ایک گھر کا ضامن ہوں جو حق پر ہونے کے باوجود جھگڑنا چھوڑ دے، اُس شخص کے لیے جنت کے وسط میں گھر کا ضامن ہوں جو ہنسی مذاق میں بھی جھوٹ کو ترک کر دے اور اُس شخص کے لیے جنت کے اعلیٰ درجے میں گھر کا ضامن ہوں جو لوگوں کے ساتھ ہمیشہ اچھے اَخلاق سے پیش آئے۔
اِسے امام ابو داود، طبرانی اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔
358/ 13۔ عَنْ أَبِي ھُرَیْرَۃَ رضی اللہ عنہ قَالَ: إِنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ: أَوْحَی اللهُ سبحانہ وتعالیٰ إِلٰی إِبْرَاهِیْمَ علیہ السلام: یَا خَلِیْلِي، حَسِّنْ خُلُقَکَ وَلَوْ مَعَ الْکُفَّارِ، تَدْخُلْ مَدْخَلَ الأَبْرَارِ۔ فَإِنَّ کَلِمَتِي سَبَقَتْ لِمَنْ حَسُنَ خُلُقُہٗ أَنْ أُظِلَّہٗ تَحْتَ عَرْشِي وَأَسْقِیَہٗ مِنْ حَظِیْرَۃِ قُدْسِي وَأَنْ أُدْنِیَہٗ مِنْ جَوَارِي۔
رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَالدَّیْلَمِيُّ۔
358: أخرجہ الطبراني في المعجم الأوسط، 6/ 315، الرقم/ 6506، والدیلمي في مسند الفردوس، 1/ 140، الرقم/ 494۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرف وحی نازل فرمائی: اے میرے دوست! اپنے اخلاق عمدہ رکھ اگرچہ کفار کے ساتھ ہی کیوں نہ ہوں، تو نیکو کاروں کے داخل ہونے کی جگہ میں داخل ہو جائے گا۔ حسنِ اَخلاق کے مالک کے لیے میرا پیشگی وعدہ ہے کہ میں اُسے اپنے عرش کے سائے تلے رکھوں گا، اپنی جنت (کے چشموں) سے اسے سیراب کروں گا اور اُسے اپنے قریب کر لوں گا۔
اِسے امام طبرانی اور دیلمی نے روایت کیا ہے۔
359/ 14۔ عَنْ أَنَسٍ رضی اللہ عنہ قَالَ: دَخَلَ عَلَیْهِ قَوْمٌ یَعُوْدُوْنَہٗ فِي مَرَضٍ لَہٗ، فَقَالَ: یَا جَارِیَۃُ، هَلُمِّي لِإِخْوَانِنَا وَلَوْ بَسَرًا، فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ یَقُوْلُ: إِنَّ مَکَارِمَ الْأَخْلَاقِ مِنْ أَعْمَالِ الْجَنَّۃِ۔
رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَالْقُضَاعِيُّ۔ وَذَکَرَهُ الْمُنْذِرِيُّ فِي التَّرْغِیْبِ وَالتَّرْھِیْبِ وَقَالَ: رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ بِإِسْنَادٍ جَیِّدٍ۔
359: أخرجہ الطبراني في المعجم الأوسط، 6/ 313، الرقم/ 6501، والقضاعي في مسند الشھاب، 2/ 108، الرقم/ 985، وذکرہ المنذري في الترغیب والترھیب، 3/ 253، الرقم/ 3918۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ کچھ لوگ ان کی بیماری میں عیادت کے لیے آئے۔ اُنہوں نے کہا: اے خادمہ! ہمارے بھائیوں کے کھانے کے لیے کچھ لاؤ، چاہے روٹی کا ٹکڑا ہی ہو۔ بے شک میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے: اعلیٰ اَخلاقی خوبیاں، اَہلِ جنت کے اَعمال میں سے ہیں۔
اِسے امام طبرانی اور قضاعی نے روایت کیا ہے۔ امام منذری نے اسے ’الترغیب والترہیب‘ میں بیان کرتے ہوئے کہا ہے: اسے امام طبرانی نے جید اسناد کے ساتھ روایت کیا ہے۔
360/ 15۔ عَنْ عَائِشَۃَ رضی اللہ عنہ ا، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: حَقُّ الْوَلَدِ عَلٰی وَالِدِہٖ أَنْ یُحْسِنَ اسْمَہٗ، وَیُحْسِنَ مِنْ مُرْضَعِہٖ، وَیُحْسِنَ أَدَبَہٗ۔
رَوَاهُ الْبَیْهَقِيُّ۔
360: أخرجہ البیہقي في شعب الإیمان، 6/ 401، الرقم/ 8667، والقشیري في الرسالۃ، 405۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ ا بیان فرماتی ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: بیٹے کا باپ پر حق یہ ہے کہ وہ اُس کا اچھا نام رکھے، اس کی رضاعت خوب کرے اور اُسے حسنِ اَدب سکھائے۔
اِسے امام بیہقی نے روایت کیا ہے۔
361/ 16۔ عَنْ عَبْدِ اللهِ رضی اللہ عنہ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: إِنَّ اللهَ أَدَّبَنِي وَأَحْسَنَ أَدَبِي ثُمَّ أَمَرَنِي بِمَکَارِمِ الأَخْلَاقِ، فَقَالَ: {خُذِ الْعَفْوَ وَاْمُرْ بِالْعُرْفِ وَاَعْرِضْ عَنِ الْجٰهِلِیْنَo} ]الأعراف، 7/ 199[۔
رَوَاهُ السُّلَمِيُّ وَالْقُشَیْرِيُّ وَالسَّمْعَانِيُّ وَاللَّفْظُ لَہٗ۔
361: أخرجہ السلمي في آداب الصحبۃ، 1/ 124، الرقم/ 208، والقشیري في الرسالۃ، 405، والسمعاني في أدب الإملاء والاستملاء، 1/ 1۔
حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: بے شک اللہ نے مجھے ادب سکھایا اور میرے ادب کو خوبصورت بنایا۔ پھر مجھے اخلاق حسنہ کا حکم فرمایا۔ پھر فرمایا: {خُذِ الْعَفْوَ وَاْمُرْ بِالْعُرْفِ وَأَعْرِضْ عَنِ الْجٰهِلِیْنَ۔ } ’(اے حبیبِ مکرّم!) آپ درگزر فرمانا اختیار کریں، اور بھلائی کا حکم دیتے رہیں اور جاہلوں سے کنارہ کشی اختیار کرلیںo‘۔
اِسے امام سلمی اور قشیری نے جب کہ سمعانی نے مذکورہ الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے۔
قَالَ عَلِيٌّ رضی اللہ عنہ: حُسْنُ الْخُلُقِ فِي ثَـلَاثِ خِصَالٍ، اجْتِنَابِ الْمَحَارِمِ، وَطَلَبِ الْحَلَالِ، وَالتَّوسِعَۃِ عَلَی الْعِیَالِ.
ذَکَرَهُ الْغَزَالِيُّ فِي الإِحْیَاءِ۔
(1) الغزالي في إحیاء علوم الدین، 3/ 53۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: حسنِ اَخلاق تین چیزوں میں پایا جاتا ہے: حرام چیزوں سے اجتناب کرنا، حلال کی طلب کرنا اور اہل و عیال پر فراخ دلی کا مظاہرہ کرنا۔
اسے امام غزالی نے ’احیاء علوم الدین‘ میں بیان کیا ہے۔
عَنْ حَسَنِ بْنِ صَالِحٍ قَالَ: سُئِلَ الْحَسَنُ عَنْ حُسْنِ الْخُلُقِ، فَقَالَ: الْکَرَمُ وَالْبَذْلَۃُ وَالْاِحْتِمَالُ.
رَوَاهُ ابْنُ أَبِي الدُّنْیَا۔
(1) ابن أبي الدنیا في مداراۃ الناس/ 82، الرقم/ 90، وأبو الشیخ البرجلاني في الکرم والجود وسخاء النفوس/ 55، الرقم/ 64۔
حسن بن صالح بیان کرتے ہیں کہ حسن اخلاق کے بارے میں حضرت حسن بصری رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: سخاوت کرنا، (مال) خرچ کرنا اور (دوسروں کی سختی و زیادتی کو) برداشت کرنا (حسنِ اَخلاق ہے)۔
اِسے ابن ابی الدنیا نے روایت کیا ہے۔
عَنِ الْحُسَیْنِ بْنِ أَحْمَدَ بْنِ جَعْفَرٍ یَقُوْلُ: سَمِعْتُ الْکَتَّانِيَ یَقُوْلُ: التَّصَوُّفُ خُُلُقٌ، مَنْ زَادَ عَلَیْکَ بِالْخُلُقِ، فَقَدْ زَادَ عَلَیْکَ فِي التَّصَوُّفِ.
ذَکَرَهُ الْقُشَیْرِيُّ فِي الرِّسَالَۃِ۔
(2) القشیري في الرسالۃ/ 354۔
حضرت حسین بن احمد بن جعفر فرماتے ہیں کہ اُنہوں نے حضرت الکتانی کو یہ فرماتے ہوئے سنا: تصوف اَخلاقِ حسنہ کا نام ہے، جو اَخلاق میں آپ سے بڑھ گیا پس وہ تصوف میں آپ سے سبقت لے گیا۔
اسے امام قشیری نے ’الرسالۃ‘ میںبیان کیا ہے۔
قَالَ شَاہ الْکَرْمَانِيُّ: عَلَامَۃُ حُسْنِ الْخُلُقِ: کَفُّ الأَذٰی، وَاحْتِمَالُ الْمُؤَنِ۔ (3)
ذَکَرَهُ الْقُشَیْرِيُّ فِي الرِّسَالَۃِ۔
(3) القشیري في الرسالۃ/ 355۔
امام شاہ کرمانی فرماتے ہیں کہ (دوسروں سے) اذیت کو روکنا اور سختی و زیادتی کو برداشت کرنا حسن اخلاق کی علامت ہے۔
اسے امام قشیری نے ’الرسالۃ‘ میںبیان کیا ہے۔
قَالَ وَہْبٌ: مَا تَخَلَّقَ عَبْدٌ بِخُلُقٍ أَرْبَعِیْنَ صَبَاحًا إِلَّا جَعَلَهُ اللهُ طَبِیْعَۃً فِیْهِ. (4)
ذَکَرَهُ الْقُشَیْرِيُّ فِي الرِّسَالَۃِ۔
(4) القشیري في الرسالۃ/ 355۔
امام وہب فرماتے ہیں کہ جو شخص اچھے اخلاق پر چالیس دن (مداومت) اختیار کرے اللہ تعالیٰ اسے اُس کی فطرت بنا دیتا ہے۔
اسے امام قشیری نے ’الرسالۃ‘ میںبیان کیا ہے۔
قَالَ الْحَسَنُ الْبَصْرِيُّ فِي قَوْلِ اللهِ تَعَالٰی: {وَثِیَابَکَ فَطَھِّرْo}، أَيْ: وَخُلُقَکَ فَحَسِّنْ۔ (5)
ذَکَرَهُ الْقُشَیْرِيُّ فِي الرِّسَالَۃِ۔
(5) القشیري في الرسالۃ/ 355۔
امام حسن بصری رضی اللہ عنہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے بارے میں فرماتے ہیں: {وَثِیَابَکَ فَطَھِّرْo} ’اور اپنے (ظاہر و باطن کے) لباس (پہلے کی طرح ہمیشہ) پاک رکھیںo‘ یعنی آپ اپنے اخلاق کو خوبصورت بنائیں۔
اسے امام قشیری نے ’الرسالۃ‘ میںبیان کیا ہے۔
قَالَ أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْبَصْرِيُّ: سَمِعْتُ الْجَلَاجِلِيَّ الْبَصْرِيَّ یَقُوْلُ: اَلتَّوْحِیْدُ مُوْجِبٌ یُوْجِبُ الْإِیْمَانَ، فَمَنْ لَا إِیْمَانَ لَہٗ فَـلَا تَوْحِیْدَ لَہٗ، وَالْإِیْمَانُ مُوْجِبٌ یُوْجِبُ الشَّرِیْعَۃَ، فَمَنْ لَا شَرِیْعَۃَ لَہٗ فَـلَا إِیْمَانَ لَہٗ وَلَا تَوْحِیْدَ، وَالشَّرِیْعَۃُ مُوْجِبٌ یُوْجِبُ الْأَدَبَ، فَمَنَ لَا أَدَبَ لَہٗ لَا شَرِیْعَۃَ لَہٗ وَلَا إِیْمَانَ وَلَا تَوْحِیْدَ۔
ذَکَرَهُ الْقُشَیْرِيُّ فِي الرِّسَالَۃِ۔
(1) القشیري في الرسالۃ/ 406۔
امام احمد بن محمد البصری فرماتے ہیں کہ انہوں نے جلاجلی بصری کو فرماتے ہوئے سنا: توحید ایسا سبب ہے جو ایمان لانے کو واجب کرتا ہے؛ پس جس کا ایمان نہیں، اس کی توحید بھی نہیں۔ ایمان ایسا سبب ہے جو شریعت کو واجب کرتا ہے؛ جس کی شریعت نہیں، اس کا نہ ایمان ہے اور نہ توحید ہے۔ شریعت ایسا سبب ہے جو اچھے اَخلاق و آداب کو واجب قرار دیتا ہے۔ لہٰذا جس کے اخلاق و آداب اچھے نہیں، نہ اس کی شریعت ہے، نہ ایمان اور نہ ہی توحید۔
اسے امام قشیری نے ’الرسالۃ‘ میںبیان کیا ہے۔
قَالَ ابْنُ رَجَبٍ: حُسْنُ الْخُلُقِ قَدْ یُرَادُ بِهِ التَّخَلُّقُ بِأَخْلَاقِ الشَّرِیْعَۃِ وَالتَّأَدُّبُ بِآدَابِ اللهِ الَّتِي أَدَّبَ بِھَا عِبَادَہٗ فِي کِتَابِہٖ، کَمَا قَالَ لِرَسُوْلِہٖ ﷺ: {وَ اِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍo}۔ (6)
(6) ابن رجب الحنبلي في جامع العلوم والحکم/ 253۔
امام ابن رجب حنبلی فرماتے ہیں کہ حسنِ اَخلاق سے مراد شریعت کے اَخلاق اور اُن آداب کو اِختیار کرنا لیا جاتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں اپنے بندوں کو سکھائے ہیں۔ جیسے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے رسول ﷺ کے بارے میں فرمایا: {وَاِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍo} ’اور بے شک آپ عظیم الشان خُلق پر قائم ہیں (یعنی آدابِ قرآنی سے مزّین اور اَخلاقِ اِلٰہیہ سے متّصف ہیں)o‘۔
(1) وَ الْكٰظِمِیْنَ الْغَیْظَ وَ الْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِ ؕ وَ اللّٰهُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَۚo
(آل عمران، 3/ 134)
اور غصہ ضبط کرنے والے ہیں اور لوگوں سے (ان کی غلطیوں پر) درگزر کرنے والے ہیں، اور اللہ احسان کرنے والوں سے محبت فرماتا ہےo
(2) وَ لَا تُصَعِّرْ خَدَّكَ لِلنَّاسِ وَ لَا تَمْشِ فِی الْاَرْضِ مَرَحًا ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ كُلَّ مُخْتَالٍ فَخُوْرٍۚo
(لقمان، 31/ 18)
اور لوگوں سے (غرور کے ساتھ) اپنا رخ نہ پھیر، اور زمین پر اکڑ کر مت چل، بے شک اللہ ہر متکبّر، اِترا کر چلنے والے کو ناپسند فرماتا ہےo
(3) تَعْرِفُ فِیْ وُجُوْھِھِمْ نَضْرَۃَ النَّعِیْمِo
(المطففین، 83/ 24)
آپ ان کے چہروں سے ہی نعمت و راحت کی رونق اور شگفتگی معلوم کر لیں گےo
(4) اِنَّہٗ کَانَ فِیْٓ اَھْلِہٖ مَسْرُوْرًاo
(الإنشقاق، 84/ 13)
بے شک وہ (دنیا میں) اپنے اہلِ خانہ میں خوش و خرم رہتا تھاo
362/ 17۔ عَنْ کَعْبِ بْنِ مَالِکٍ رضی اللہ عنہ یُحَدِّثُ حِیْنَ تَخَلَّفَ عَنْ تَبُوْکَ، قَالَ: فَلَمَّا سَلَّمْتُ عَلٰی رَسُوْلِ اللهِ ﷺ وَھُوَ یَبْرُقُ وَجْھُہٗ مِنَ السُّرُوْرِ، وَکَانَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ إِذَا سُرَّ اسْتَنَارَ وَجْھُہٗ حَتّٰی کَأَنَّہٗ قِطْعَۃُ قَمَرٍ۔
مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ۔
362: أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب المناقب، باب صفۃ النبي ﷺ، 3/ 1305، الرقم/ 3363، ومسلم في الصحیح، کتاب التوبۃ، باب حدیث توبۃ کعب بن مالک وصاحبیہ، 4/ 2127، الرقم/ 2769، وأحمد بن حنبل في المسند، 3/ 458، الرقم/ 15827، والنسائي في السنن الکبری، 6/ 359-360 الرقم/ 11232۔
حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ جب غزوۂ تبوک سے پیچھے رہ گئے تھے، اُس وقت (کے احوال بیان کرتے ہوئے) فرماتے ہیں: (توبہ قبول ہونے کے بعد) جب میں نے رسول اللہ ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہو کر سلام عرض کیا تو آپ کا چہرئہ انور خوشی سے جگمگا رہا تھا اور رسول اللہ ﷺ جب بھی مسرور ہوتے تو آپ ﷺ کا چہرئہ مبارک یوں نور بار ہو جاتا تھا جیسے وہ چاند کا ٹکڑا ہے۔
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
363/ 18۔ عَنْ أَبِي ذَرٍّ رضی اللہ عنہ قَالَ: قَالَ لِيَ النَّبِيُّ ﷺ: لَا تَحْقِرَنَّ مِنَ الْمَعْرُوفِ شَیْئًا وَلَوْ أَنْ تَلْقٰی أَخَاکَ بِوَجْہٍ طَلْقٍ۔
رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ وَالتِّرْمِذِيُّ۔
363: أخرجہ مسلم في الصحیح، کتاب البر والصلۃ والآداب، باب استحباب طلاقۃ الوجہ عند اللقائ، 4/ 2026، الرقم/ 2626، وأحمد بن حنبل في المسند، 5/ 173، الرقم/ 21559، والترمذي في السنن، کتاب الأطعمۃ، باب ما جاء في إکثار ماء المرقۃ، 4/ 742، الرقم/ 1833۔
حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ مجھ سے حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ہرگز کسی نیکی کو حقیر نہ جانو خواہ اپنے بھائی کے ساتھ کشادہ روئی سے ملنا ہی کیوں نہ ہو۔
اِسے امام مسلم، احمد اور ترمذی نے روایت کیا ہے۔
364/ 19۔ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ رضی اللہ عنہم قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: کُلُّ مَعْرُوفٍ صَدَقَۃٌ، وَإِنَّ مِنَ الْمَعْرُوفِ أَنْ تَلْقٰی أَخَاکَ بِوَجْہٍ طَلْقٍ، وَأَنْ تُفْرِغَ مِنْ دَلْوِکَ فِي إِنَاءِ أَخِیکَ۔
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالتِّرْمِذِيُّ وَعَبْدُ بْنُ حُمَیْدٍ۔ وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: ھٰذَا حَدِیْثٌْ حَسَنٌ۔
364: أخرجہ أحمد بن حنبل في المسند، 3/ 360، الرقم/ 14920، والترمذي في السنن، کتاب البر والصلۃ، باب ما جاء في طلاقۃ الوجہ، 4/ 347، الرقم/ 1970، وعبد بن حمید في المسند، 1/ 329، الرقم/ 1090۔
حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ہر نیکی صدقہ ہے۔ یہ بھی ایک نیکی ہے کہ تو اپنے بھائی سے خندہ پیشانی کے ساتھ پیش آئے اور یہ کہ تو اپنے ڈول سے اپنے بھائی کے برتن میں پانی ڈال دے۔
اِسے امام احمد، ترمذی اورعبد بن حمید نے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی فرماتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے۔
365/ 20۔ عَنْ أَبِي ذَرٍّ رضی اللہ عنہ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: تَبَسُّمُکَ فِي وَجْهِ أَخِیکَ لَکَ صَدَقَۃٌ، وَأَمْرُکَ بِالْمَعْرُوفِ وَنَہْیُکَ عَنِ الْمُنْکَرِ صَدَقَۃٌ، وَإِرْشَادُکَ الرَّجُلَ فِي أَرْضِ الضَّلَالِ لَکَ صَدَقَۃٌ، وَبَصَرُکَ لِلرَّجُلِ الرَّدِیئِ الْبَصَرِ لَکَ صَدَقَۃٌ، وَإِمَاطَتُکَ الْحَجَرَ وَالشَّوْکَۃَ وَالْعَظْمَ عَنِ الطَّرِیقِ لَکَ صَدَقَۃٌ، وَإِفْرَاغُکَ مِنْ دَلْوِکَ فِي دَلْوِ أَخِیکَ لَکَ صَدَقَۃٌ۔
قَالَ التِّرْمِذِيُّ: وَفِي الْبَابِ عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ وَجَابِرٍ وَحُذَیْفَۃَ وَعَائِشَۃَ وَأَبِي ھُرَیْرَۃَ رضی اللہ عنہ۔
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَابْنُ حِبَّانَ۔ وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: ھٰذَا حَدِیثٌ حَسَنٌ غَرِیبٌ۔
365: أخرجہ الترمذي في السنن، کتاب البر والصلۃ، باب ما جاء في الشکر لمن أحسن إلیک، 4/ 339، الرقم/ 1956، وابن حبان في الصحیح، 2/ 221، الرقم/ 474، والبزار في المسند، 9/ 457، الرقم/ 4070۔
حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تمہارا اپنے مسلمان بھائی کا تبسم کے ساتھ سامنا کرنا صدقہ ہے، نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا صدقہ ہے، بھٹکے ہوئے کو راستہ بتانا صدقہ ہے، کسی کمزور بصارت والے کو راستہ دکھانا صدقہ ہے، راستے سے پتھر، کانٹا اور ہڈی (وغیرہ) کو ہٹانا صدقہ ہے اور اپنے ڈول سے دوسرے بھائی کے ڈول میں پانی ڈالنا بھی صدقہ ہے۔
امام ترمذی نے فرمایا: اس باب میں حضرت (عبد اللہ) بن مسعود، جابر، حذیفہ، عائشہ صدیقہ اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی روایات مذکور ہیں۔
اِسے امام ترمذی اور ابن حبان نے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی فرماتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔
366/ 21۔ عَنْ أَبِي ھُرَیْرَۃَ رضی اللہ عنہ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: إِنَّکُمْ لَنْ تَسَعَوُا النَّاسَ بِأَمْوَالِکُمْ، وَلٰـکِنْ یَسَعُھُمْ مِنْکُمْ بَسْطُ الْوَجْهِ۔
رَوَاهُ أَبُو یَعَلٰی۔
366: أخرجہ أبو یعلی في المسند، 11/ 428، الرقم/ 6550، وابن راہویہ في المسند، 1/ 461، الرقم/ 536، والحاکم في المستدرک، 1/ 212، الرقم/ 428، والبیہقي في شعب الإیمان، 6/ 254، الرقم/ 8054۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تم ہرگز اپنے مال کے ذریعے لوگوں کو گرویدہ نہیں کر سکتے مگر خندہ پیشانی کے ذریعے انہیں گرویدہ کر سکتے ہو۔
اِسے امام ابو یعلی نے روایت کیا ہے۔
عَنْ یَحْیَی بْنِ أَبِي کَثِیْرٍ، قَالَ: کَانَ رَجُلٌ یُکْثِرُ الضَّحِکَ، فَذُکِرَ عِنْدَ النَّبِيِّ ﷺ فَقَالَ ﷺ: أَمَا إِنَّہٗ سَیَدْخُلُ الْجَنَّۃَ وَھُوَ یَضْحَکُ.
رَوَاهُ ابْنُ أَبِي الدُّنْیَا۔
(1) أخرجہ ابن أبي الدنیا في الإخوان، 1/ 189، الرقم/ 135۔
حضرت یحییٰ بن ابی کثیر سے مروی ہے کہ ایک شخص بہت زیادہ ہنستا رہتا تھا۔ حضور نبی اکرم ﷺ کے سامنے اس کا ذکر کیا گیا تو آپ نے فرمایا: آگاہ ہو جاؤ! وہ شخص ہنستے مسکراتے جنت میں داخل ہوگا۔
اسے امام ابن ابی الدنیا نے روایت کیا ہے۔
عَنْ عِکْرِمَۃَ، قَالَ: کَانَ النَّبِيُّ ﷺ إِذَا لَقِيَ الرَّجُلَ فَرَآی فِي وَجْهِهِ الْبِشْرَ صَافَحَہٗ.
رَوَاهُ ابْنُ أَبِي الدُّنْیَا۔
(2) أخرجہ ابن أبي الدنیا في الإخوان، 1/ 190، الرقم/ 136۔
حضرت عکرمہ بیان کرتے ہیں کہ جب حضور نبی اکرم ﷺ کسی شحص سے ملتے اور اس کے چہرے پر خوشی و فرحت (کے آثار) دیکھتے تو (اس کی تحسین و تبریک کے لیے) اس سے مصافحہ فرماتے۔
اسے امام ابن ابی الدنیا نے روایت کیا ہے۔
عَنِ الْحَسَنِ، قَالَ: مِنَ الصَّدَقَۃِ أَنْ تَلْقٰی أَخَاکَ وَوَجْهُکَ إِلَیْهِ مُنْطَلِقٌ.
رَوَاهُ ابْنُ أَبِي الدُّنْیَا۔
(1) أخرجہ ابن أبي الدنیا في الإخوان/ 185، الرقم/ 132۔
امام حسن بصری فرماتے ہیں کہ اگر تو اپنے بھائی سے خندہ پیشانی سے پیش آئے تو یہ صدقہ ہے۔
اسے امام ابن ابی الدنیا نے روایت کیا ہے۔
عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ الْمُبَارَکِ، أَنَّہٗ وَصَفَ حُسْنَ الْخُلُقِ فَقَالَ: ھُوَ بَسْطُ الْوَجْهِ، وَبَذْلُ الْمَعْرُوفِ، وَکَفُّ الْأَذٰی.
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ۔
(2) أخرجہ الترمذي في السنن، کتاب البر والصلۃ، باب ما جاء في حسن الخلق، 4/ 363، الرقم/ 2005۔
حضرت عبد اللہ بن مبارک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے خوش اخلاقی کو بیان کرتے ہوئے فرمایا: کشادہ روئی، بھلائی کرنا اور ایذاء رسانی سے باز رہنا خوش اخلاقی ہے۔
اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔
عَنْ عُمَرَ أَبِي جَعْفَرٍ قَالَ: کَانَ یُقَالُ: أَوَّلُ الْمَوَدَّۃِ طَلَاقَۃُ الْوَجْهِ، وَالثَّانِیَۃُ التَّوَدُّدُ، وَالثَّالِثَۃُ قَضَائُ حَوَائِجِ النَّاسِ. (3)
رَوَاهُ ابْنُ أَبِي الدُّنْیَا۔
(3) أخرجہ ابن أبي الدنیا في الإخوان، 1/ 191، الرقم/ 138۔
حضرت عمر ابو جعفر فرماتے ہیں: کہا جاتا تھا کہ محبت کی ابتداء خندہ روئی ہے، دوسرا درجہ اُلفت ہے اور تیسرا (و اَعلیٰ ترین) درجہ لوگوں کی حاجت روائی کرنا ہے۔
اسے امام ابن ابی الدنیا نے روایت کیا ہے۔
(1) وَ اِذْ اَخَذْنَا مِیْثَاقَ بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ لَا تَعْبُدُوْنَ اِلَّا اللّٰهَ ۫ وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا وَّ ذِی الْقُرْبٰی وَ الْیَتٰمٰی وَ الْمَسٰكِیْنِ وَ قُوْلُوْا لِلنَّاسِ حُسْنًا وَّ اَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتُوا الزَّكٰوةَ ؕ ثُمَّ تَوَلَّیْتُمْ اِلَّا قَلِیْلًا مِّنْكُمْ وَ اَنْتُمْ مُّعْرِضُوْنَo
(البقرۃ، 2/ 83)
اور (یاد کرو) جب ہم نے اولادِ یعقوب سے پختہ وعدہ لیا کہ اللہ کے سوا (کسی اور کی) عبادت نہ کرنا، اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرنا اور قرابت داروں اور یتیموں اور محتاجوں کے ساتھ بھی (بھلائی کرنا) اور عام لوگوں سے (بھی نرمی اور خوش خُلقی کے ساتھ) نیکی کی بات کہنا اور نماز قائم رکھنا اور زکوٰۃ دیتے رہنا، پھر تم میں سے چند لوگوں کے سوا سارے (اس عہد سے) رُوگرداں ہوگئے اور تم (حق سے) گریز ہی کرنے والے ہوo
(2) قَوْلٌ مَّعْرُوْفٌ وَّ مَغْفِرَةٌ خَیْرٌ مِّنْ صَدَقَةٍ یَّتْبَعُهَاۤ اَذًی ؕ وَ اللّٰهُ غَنِیٌّ حَلِیْمٌo
(البقرۃ، 2/ 263)
(سائل سے) نرمی کے ساتھ گفتگو کرنا اور درگزر کرنا اس صدقہ سے کہیں بہتر ہے جس کے بعد (اس کی) دل آزاری ہو، اور اللہ بے نیاز بڑا حلم والا ہےo
(3) وَ قُلْ لِّعِبَادِیْ یَقُوْلُوا الَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُ ؕ اِنَّ الشَّیْطٰنَ یَنْزَغُ بَیْنَهُمْ ؕ اِنَّ الشَّیْطٰنَ كَانَ لِلْاِنْسَانِ عَدُوًّا مُّبِیْنًاo
(الاسراء، 17/ 53)
اور آپ میرے بندوں سے فرما دیں کہ وہ ایسی باتیں کیا کریں جو بہتر ہوں، بے شک شیطان لوگوں کے درمیان فساد بپا کرتا ہے، یقینا شیطان انسان کا کھلا دشمن ہےo
(4) وَ هُدُوْۤا اِلَی الطَّیِّبِ مِنَ الْقَوْلِ ۖۚ وَ هُدُوْۤا اِلٰی صِرَاطِ الْحَمِیْدِo
(الحج، 22/ 24)
اور انہیں (دنیا میں) پاکیزہ قول کی ہدایت کی گئی اور انہیں (اسلام کے) پسندیدہ راستہ کی طرف رہنمائی کی گئیo
367/ 22۔ عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ رضی اللہ عنہ قَالَ: ذَکَرَ النَّبِيُّ ﷺ النَّارَ فَتَعَوَّذَ مِنْھَا وَأَشَاحَ بِوَجْهِہٖ، ثُمَّ ذَکَرَ النَّارَ فَتَعَوَّذَ مِنْھَا وَأَشَاحَ بِوَجْهِہٖ۔
قَالَ شُعْبَۃُ: أَمَّا مَرَّتَیْنِ فَـلَا أَشُکُّ۔
ثُمَّ قَالَ: اتَّقُوا النَّارَ وَلَوْ بِشِقِّ تَمْرَۃٍ، فَإِنْ لَمْ تَجِدْ فَبِکَلِمَۃٍ طَیِّبَۃٍ۔
مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ۔
367: أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب الأدب، باب طیب الکلام، 5/ 2241، الرقم/ 5677، ومسلم في الصحیح، کتاب الزکاۃ، باب الحث علی الصدقۃ، 2/ 704، الرقم/ 1016، وأحمد بن حنبل في المسند، 4/ 256، الرقم/ 18279، والنسائي في السنن، کتاب الزکاۃ، باب القلیل في الصدقۃ، 5/ 75، الرقم/ 2553۔
حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے دوزخ کا ذکر فرمایا اور اس سے پناہ مانگی اور چہرۂ اقدس سے ناگواری کا اظہار فرمایا۔ پھر دوزخ کا ذکر فرمایا، اس سے پناہ مانگی اور ناگواری کا اظہار فرمایا۔
شعبہ کا بیان ہے کہ دو دفعہ حضور نبی اکرم ﷺ کے جہنم سے پناہ مانگنے کے بارے میں مجھے کوئی شک نہیں ہے۔
پھر آپ ﷺ نے فرمایا کہ دوزخ سے بچو خواہ آدھی کھجور ہی (کسی کو) صدقہ کر کے ہو سکے۔ اگر کسی کو یہ بھی میسر نہ ہو تو اچھی بات کہنے کے ذریعے ہی (دوزخ سے بچو)۔
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
368/ 23۔ عَنْ أَبِي ھُرَیْرَۃَ رضی اللہ عنہ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: کُلُّ سُلَامٰی عَلَیْهِ صَدَقَۃٌ کُلَّ یَوْمٍ۔ یُعِیْنُ الرَّجُلَ فِي دَابَّتِہٖ یُحَامِلُہٗ عَلَیْھَا أَوْ یَرْفَعُ عَلَیْھَا مَتَاعَہٗ صَدَقَۃٌ، وَالْکَلِمَۃُ الطَّیِّبَۃُ وَکُلُّ خُطْوَۃٍ یَمْشِیْھَا إِلَی الصَّلَاۃِ صَدَقَۃٌ، وَدَلُّ الطَّرِیْقِ صَدَقَۃٌ۔
مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ۔
368: أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب الجھاد والسیر، باب فضل من حمل متاع صاحبہ في السفر، 3/ 1059، الرقم/ 2734، ومسلم في الصحیح، کتاب الزکاۃ، باب بیان أن اسم الصدقۃ یقع علی کل نوع من المعروف، 2/ 699، الرقم/ 1009، وأحمد بن حنبل في المسند، 2/ 350، الرقم/ 8593۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ہر روز آدمی کے ہر جوڑ کا صدقہ ضروری ہے۔ جو کسی کو سوار ہونے میں مدد دے یا اُس کا سامان اُٹھوا کر سواری پر رکھوا دے تو یہ بھی صدقہ ہے۔ نیز اچھی بات کہنا بھی صدقہ ہے، نماز کے لیے جتنے قدم اٹھائے وہ بھی صدقہ ہیں اور کسی کو راستہ بتا دینا بھی صدقہ ہے۔
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
369/ 24۔ عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو رضی اللہ عنہ عَنْ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ قَالَ: إِنَّ فِي الْجَنَّۃِ غُرَفًا یُرٰی ظَاهِرُھَا مِنْ بَاطِنِھَا، وَبَاطِنُھَا مِنْ ظَاھِرِھَا۔ فَقَالَ أَبُومَالِکٍ الأَشْعََرِيُّ رضی اللہ عنہ: لِمَنْ، یَا رَسُوْلَ اللهِ؟ قَالَ: لِمَنْ أَطَابَ الْکَلَامَ، وَأَطْعَمَ الطَّعَامَ، وَبَاتَ قَائِمًا وَالنَّاسُ نِیَامٌ۔
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالْحَاکِمُ وَاللَّفْظُ لَہٗ وَابْنُ حِبَّانَ۔
369: أخرجہ أحمد بن حنبل في المسند، 5/ 343، الرقم/ 22956، والحاکم في المستدرک، 1/ 153، الرقم/ 270، وابن حبان في الصحیح، 2/ 262، الرقم/ 509۔
حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جنت میں ایسے کمرے بھی ہوں گے جن کا باہر اندر سے دکھائی دے گا اور اندر باہرسے دکھائی دے گا۔ ابو مالک اشعری رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! یہ کس کے لیے ہوں گے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: جو اچھی گفتگو کرے، کھانا کھلائے اور رات کو اُس وقت قیام کرے جب لوگ سو رہے ہوں۔
اِسے امام احمد نے، حاکم نے مذکورہ الفاظ کے ساتھ اور ابن حبان نے روایت کیا ہے۔
370/ 25۔ وَفِي رِوَایَۃٍ عَنِ ابْنِ ھَانِیئٍ رضی اللہ عنہ أَنَّ ھَانِئًا لَمَّا وَفَدَ إِلٰی رَسُوْلِ اللهِ ﷺ مَعَ قَوْمِہٖ فَسَمِعَھُمْ… قَالَ أَبُوْ شُرَیْحٍ رضی اللہ عنہ: یَا رَسُوْلَ اللهِ، أَخْبِرْنِي بِشَيئٍ یُوْجِبُ لِيَ الْجَنَّۃَ۔ قَالَ: طِیْبُ الْکَلَامِ، وَبَذْلُ السَّلَامِ، وَإِطْعَامُ الطَّعَامِ.
رَوَاهُ ابْنُ حِبَّانَ وَابْنُ أَبِي شَیْبَۃَ وَالطَّبَرَانِيُّ۔
370: أخرجہ ابن حبان في الصحیح، 2/ 257، الرقم/ 504، وابن أبي شیبۃ في المصنف، 5/ 211، الرقم/ 25332، والطبراني في المعجم الکبیر، 22/ 180، الرقم/ 467۔
حضرت ابن ہانی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب ہانی اپنی قوم کے ایک وفد کے ساتھ بارگاهِ رسالت مآب میں حاضر ہوئے تو آپ ﷺ نے ان کی گزارشات سماعت فرمائیں… ابو شریح رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! مجھے کوئی ایسی چیز بتا دیں جس سے جنت میرا مقدر بن جائے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اچھی گفتگو کرنا، سلام کو عام کرنا اور لوگوں کو کھانا کھلانا۔
اِسے امام ابن حبان، ابن ابی شیبہ اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔
371/ 26۔ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ رضی اللہ عنہ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: الْحَجُّ الْمَبْرُوْرُ لَیْسَ لَہٗ جَزَاءٌ إِلَّا الْجَنَّۃَ۔ قَالَ: وَمَا بِرُّہٗ؟ قَالَ: إِطْعَامُ الطَّعَامِ وَطِیْبُ الْکَلَامِ.
رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ۔
371: أخرجہ الطبراني في المعجم الأوسط، 8/ 203، الرقم/ 8405، والفاکہي في أخبار مکۃ، 1/ 408، الرقم/ 879
حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ نے حضور نبی اکرم ﷺ سے روایت کیا ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: حج مبرور کی جزا صرف جنت ہے۔ انہوں نے عرض کیا: کسی شخص کی نیکی کیا ہے؟ حضور ﷺ نے فرمایا: (لوگوں کو) کھانا کھلانا اور (ان سے) اچھی گفتگو کرنا۔
اِسے امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔
عَنْ یَحْیَی بْنِ جَعْدَۃَ قَالَ: قَالَ عُمَرُ رضی اللہ عنہ: لَوْلَا أَنْ أَسِیْرَ فِي سَبِیْلِ اللهِ، أَوْ أَضَعَ جَنْبِيَ ِﷲِ فِي التُّرَابِ، أَوْ أُجَالِسَ قَوْمًا یَلْتَقِطُونَ طِیْبَ الْکَلَامِ کَمَا یُلْتَقَطُ طِیْبُ التَّمْرِ، لَأَحْبَبْتُ أَنْ أَکُوْنَ قَدْ لَحِقْتُ بِاللهِ
رَوَاهُ ابْنُ أبِي شَیْبَۃَ۔
(1) أخرجہ ابن أبي شیبۃ في المصنف، 4/ 214، الرقم/ 19419۔
حضرت یحییٰ بن جعدہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اگر میں اللہ کی راہ کا مسافر نہ ہوتا، یا اللہ کے لیے اپنے پہلو کو خاک آلود نہ کرتا یا ایسے لوگوں کے ساتھ ہم مجلسی میسر نہ ہوتی جو خوش گوار اندازِ گفتگو کو ایسے منتخب کرتے ہیں جیسے اچھی کھجور کو منتخب کیا جاتا ہے، تو میں یقینا پسند کرتا کہ (دنیا چھوڑ کر) خالقِ حقیقی سے جا ملوں۔
اسے امام ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔
قَالَ أَبُوْ الدَّرْدَائِ: لَوْلَا ثَـلَاثٌ مَا أَحْبَبْتُ الْعَیْشَ یَوْمًا وَاحِدًا: الظَّمْأُ ِﷲِ بِالْهَوَاجِرِ، وَالسُّجُوْدُ ِﷲِ فِي جَوْفِ اللَّیْلِ، وَمُجَالَسَۃُ أَقْوَامٍ یَنْتَقُونَ أَطَایِبَ الْکَلَامِ کَمَا یَنْتَقِي أَطَایِبَ الثَّمَرِ.
ذَکَرَهُ الْغَزَالِيُّ فِي الإِحْیَاءِ۔
(2) الغزالي في إحیاء علوم الدین، 4/ 409۔
حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: اگر تین چیزیں (دنیا میں) نہ ہوں تو میں ایک دن بھی زندہ رہنا پسند نہ کرتا: (1) اللہ تعالیٰ کی خاطر (حالتِ روزہ میں) دوپہر کے وقت کی شدید پیاس، (2) رات کے وسط میں بارگاهِ خداوندی میں سجدہ ریزی اور (3) ایسے لوگوں کی مجلس میں بیٹھنا جو (گفتگو میں) اچھے کلام کو ایسے منتخب کرتے ہیں جیسے کوئی نفیس اور پاکیزہ پھل کو چنتا ہے۔
اسے امام ـغزالی نے ’إحیاء علوم الدین‘ میں ذکر کیا ہے۔
عَنْ وَہْبِ بْنِ مُنَبِّہٍ قَالَ: ثَـلَاثٌ مَنْ کُنَّ فِیْهِ أَصَابَ الْبِرََّ: سَخَاوَۃُ النَّفْسِ، وَالصَّبْرُ عَلَی الْأَذٰی، وَطِیْبُ الْکَلَامِ
رَوَاهُ ابْنُ أَبِي الدُّنْیَا۔
(1) أخرجہ ابن أبي الدنیا في الصمت وآداب اللسان/ 180، الرقم/ 315۔
امام وہب بن منبہ فرماتے ہیں: جس کے اندر تین خوبیاں پائی جائیں اس نے نیکی کو پا لیا: جود و سخا، مصیبت پر صبر و استقامت اور خوش گوار اندازِ گفتگو۔
اسے ابن ابی الدنیا نے روایت کیا ہے۔
عَنْ کَعْبٍ قَالَ: قِلَّۃُ الْمَنْطِقِ حُکْمٌ عَظِیْمٌ، فَعَلَیْکُمْ بِالصَّمْتِ، فَإِنَّہٗ رُعْۃٌ حَسَنَۃٌ، وَقِلَّۃُ وِزْرٍ، وَخِفَّۃٌ مِنَ الذُّنُوْبِ.
رَوَاهُ ابْنُ أَبِي الدُّنْیَا۔
(2) أخرجہ ابن أبي الدنیا في الصمت وآداب اللسان/ 221، الرقم/ 426۔
حضرت کعب بیان کرتے ہیں: کم بولنا بہت بڑی بات ہے۔ پس تم پر خاموش رہنا لازم ہے۔ بے شک یہ مہذب انداز ہے اور یہ بوجھ میں کمی اور گناہوں میں تخفیف (کا سبب) ہے۔
اسے ابن ابی الدنیا نے روایت کیا ہے۔
(1) وَقُوْلُوْا لِلنَّاسِ حُسْنًا.
(البقرہ، 2/ 83)
اور عام لوگوں سے (بھی نرمی اور خوش خُلقی کے ساتھ) نیکی کی بات کہنا۔
(2) وَ یَجْعَلُوْنَ لِلّٰهِ مَا یَكْرَهُوْنَ وَ تَصِفُ اَلْسِنَتُهُمُ الْكَذِبَ اَنَّ لَهُمُ الْحُسْنٰی ؕ لَا جَرَمَ اَنَّ لَهُمُ النَّارَ وَ اَنَّهُمْ مُّفْرَطُوْنَo
(النحل، 16/ 62)
اور وہ اللہ کے لیے وہ کچھ مقرر کرتے ہیں جو (اپنے لیے) ناپسند کرتے ہیں اور ان کی زبانیں جھوٹ بولتی ہیں کہ ان کے لیے بھلائی ہے، (ہر گز نہیں!) حقیقت یہ ہے کہ ان کے لیے دوزخ ہے اور یہ (دوزخ میں) سب سے پہلے بھیجے جائیں گے (اور اس میں ہمیشہ کے لیے چھوڑ دیے جائیں گے)o
(3) اِنَّ الَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ الْمُحْصَنٰتِ الْغٰفِلٰتِ الْمُؤْمِنٰتِ لُعِنُوْا فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِ ۪ وَ لَهُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌۙo یَّوْمَ تَشْهَدُ عَلَیْهِمْ اَلْسِنَتُهُمْ وَ اَیْدِیْهِمْ وَ اَرْجُلُهُمْ بِمَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَo
(النور، 24/ 23-24)
بے شک جو لوگ ان پارسا مومن عورتوں پر جو (برائی کے تصور سے بھی) بے خبر اور ناآشنا ہیں (ایسی) تہمت لگاتے ہیں وہ دنیا اور آخرت (دونوں جہانوں) میں ملعون ہیں اور ان کے لیے زبردست عذاب ہےo جس دن (خود) ان کی زبانیں اور ان کے ہاتھ اور ان کے پائوں انہی کے خلاف گواہی دیں گے کہ جو کچھ وہ کرتے رہے تھےo
(4) وَ الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ بِغَیْرِ مَا اكْتَسَبُوْا فَقَدِ احْتَمَلُوْا بُهْتَانًا وَّ اِثْمًا مُّبِیْنًا۠o
(الأحزاب، 33/ 58)
اور جو لوگ مومِن مَردوں اور مومِن عورتوں کو اذیتّ دیتے ہیں بغیر اِس کے کہ انہوں نے کچھ (خطا) کی ہو تو بے شک انہوں نے بہتان اور کھلے گناہ کا بوجھ (اپنے سَر) لے لیاo
(5) یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ قُوْلُوْا قَوْلًا سَدِیْدًاۙo
(الأحزاب، 33/ 70)
اے ایمان والو! اللہ سے ڈرا کرو اور صحیح اور سیدھی بات کہا کروo
(6) وَ لَا یَغْتَبْ بَّعْضُكُمْ بَعْضًا ؕ اَیُحِبُّ اَحَدُكُمْ اَنْ یَّاْكُلَ لَحْمَ اَخِیْهِ مَیْتًا فَكَرِهْتُمُوْهُ ؕ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ ؕ اِنَّ اللّٰهَ تَوَّابٌ رَّحِیْمٌo
(الحجرات، 49/ 12)
اے ایمان والو! زیادہ تر گمانوں سے بچا کرو بے شک بعض گمان (ایسے) گناہ ہوتے ہیں (جن پر اُخروی سزا واجب ہوتی ہے) اور (کسی کے عیبوں اور رازوں کی) جستجو نہ کیا کرو اور نہ پیٹھ پیچھے ایک دوسرے کی برائی کیا کرو، کیا تم میں سے کوئی شخص پسند کرے گا کہ وہ اپنے مُردہ بھائی کا گوشت کھائے، سو تم اس سے نفرت کرتے ہو۔ اور (اِن تمام معاملات میں) اللہ سے ڈرو بے شک اللہ توبہ کو بہت قبول فرمانے والا بہت رحم فرمانے والا ہےo
(7) مَا یَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ اِلَّا لَدَیْهِ رَقِیْبٌ عَتِیْدٌo
(قٓ، 50/ 18)
وہ مُنہ سے کوئی بات نہیں کہنے پاتا مگر اس کے پاس ایک نگہبان (لکھنے کے لیے) تیار رہتا ہےo
372/ 27۔ عَنْ أَبِي مُوْسٰی رضی اللہ عنہ قَالَ: قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللهِ، أَيُّ الْإِسْلَامِ أَفْضَلُ؟ قَالَ: مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِہٖ وَیَدِہٖ۔
مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ، وََاللَّفْظُ لِمُسْلِمٍ۔
372: أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب الإیمان، باب أي الإسلام أفضل، 1/ 13، الرقم/ 11، ومسلم في الصحیح، کتاب الإیمان، باب بیان خصال من اتصف بھن وجد حلاوۃ الإیمان، 1/ 66، الرقم/ 42، والترمذي في السنن، کتاب الإیمان، باب ما جاء في أن المسلم من سلم المسلمون من لسانہ ویدہ، 5/ 17، الرقم/ 2628، والنسائي في السنن، کتاب الإیمان وشرائعہ، باب أي الإسلام أفضل، 8/ 106، الرقم/ 4999۔
حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اُنہوں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا: یا رسول اللہ! کون سا (مسلمان ہے جس کا) اسلام افضل ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔
یہ حدیث متفق علیہ ہے اور الفاظ مسلم کے ہیں۔
373/ 28۔ وَفِي رِوَایَۃِ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو رضی اللہ عنہ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: الْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِہٖ وَیَدِہٖ، وَالْمُھَاجِرُ مَنْ ھَجَرَ مَا نَهَی اللهُ عَنْهُ۔
مُتَّفَقُ عَلَیْهِ۔
373: أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب الإیمان، باب المسلم من سلم المسلمون من لسانہ، 1/ 13، الرقم/ 10، ومسلم في الصحیح، کتاب الإیمان، باب تفاضل الإسلام وأي أمورہ أفضل، 1/ 65، الرقم/ 40، وأحمد بن حنبل في المسند، 2/ 209، الرقم/ 6953، وأبو داود في السنن، کتاب الجہاد، باب في الہجرۃ ہل انقطعت، 3/ 4، الرقم/ 2481، والنسائي في السنن، کتاب الإیمان وشرائعہ، باب صفۃ المسلم، 8/ 105، الرقم/ 4996۔
حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں اور مہاجر وہ ہے جس نے ان کاموں کو چھوڑ دیا ہو جن سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے۔
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
374/ 29۔ وَفِي رِوَایَۃٍ عَنْ أَبِي ھُرَیْرَۃَ رضی اللہ عنہ، أَنَّہٗ سَمِعَ رَسُولَ اللهِ ﷺ یَقُولُ: إِنَّ الْعَبْدَ لَیَتَکَلَّمُ بِالْکَلِمَۃِ یَنْزِلُ بِھَا فِي النَّارِ أَبْعَدَ مِمَّا بَیْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ۔
مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ، وََاللَّفْظُ لِمُسْلِمٍ۔
374: أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب الرقاق، باب حفظ اللسان، 5/ 2377، الرقم/ 6112، ومسلم في الصحیح، کتاب الزہد والرقائق، باب حفظ اللسان، 4/ 2290، الرقم/ 2988۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: جب کوئی آدمی (جھوٹ، ظلم، منافقت، دھوکہ دہی یا برائی کی) بات کہتا ہے (اور اس کے انجام پر غور نہیں کرتا) تو اس کی وجہ سے وہ جہنم میں اتنا دور جا گرتا ہے جتنا کہ مشرق و مغرب کے درمیان فاصلہ ہے۔
یہ حدیث متفق علیہ ہے اور الفاظ ’صحیح مسلم‘ کے ہیں۔
375/ 30۔ وَفِي رِوَایَۃٍ عَنْهُ رضی اللہ عنہ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: إِنَّ الْعَبْدَ لَیَتَکَلَّمُ بِالْکَلِمَۃِ مِنْ رِضْوَانِ اللهِ لَا یُلْقِي لَھَا بَالًا یَرْفَعُهُ اللهُ بِھَا دَرَجَاتٍ، وَإِنَّ الْعَبْدَ لَیَتَکَلَّمُ بِالْکَلِمَۃِ مِنْ سَخَطِ اللهِ لَا یُلْقِي لَھَا بَالًا یَہْوِي بِھَا فِي جَھَنَّمَ۔
رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَأَحْمَدُ وَالتِّرْمِذِيُّ وَالْمَالِکُ۔
375: أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب الرقاق، باب حفظ اللسان، 5/ 2377، الرقم/ 6113، وأحمد بن حنبل في المسند، 2/ 334، الرقم/ 8392، والترمذي في السنن، کتاب الزہد، باب في قلۃ الکلام، 4/ 559، الرقم/ 2319، ومالک في الموطأ، 2/ 985، الرقم/ 1781۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ہی مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: بے شک بندہ اللہ تعالیٰ کی رضا مندی کے لیے کوئی ایک بات زبان سے کہتا ہے ہر چند کہ وہ اسے کوئی اہمیت بھی نہیں دیتا لیکن اسی کے باعث اللہ تعالیٰ اُس کے درجات بلند کر دیتا ہے؛ اور دوسرا بندہ کوئی ایسی بات زبان سے نکالتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا باعث ہوتی ہے حالانکہ اسے اس کی سنگینی کا بھی ادراک نہیں ہوتا لیکن اُسی کے باعث وہ دوزخ میں چلا جاتا ہے۔
اِسے امام بخاری، احمد، ترمذی اور مالک نے روایت کیا ہے۔
376/ 31۔ عَنْ سَھْلِ بْنِ سَعْدٍ رضی اللہ عنہ عَنْ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ قَالَ: مَنْ یَضْمَنْ لِي مَا بَیْنَ لَحْیَیْهِ وَمَا بَیْنَ رِجْلَیْهِ أَضْمَنْ لَهُ الْجَنَّۃَ۔
رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَأَحْمَدُ وَالتِّرْمِذِيُّ۔
376: أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب الرقاق، باب حفظ اللسان، 5/ 2376، الرقم/ 6109، وأحمد بن حنبل في المسند، 5/ 333، الرقم/ 22874، والترمذي في السنن، کتاب الزھد، باب ما جاء في حفظ اللسان، 4/ 606، الرقم/ 2408۔
حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو مجھے اپنے دونوںجبڑوں کے درمیان (یعنی اپنی زبان) اور دونوں ٹانگوں کے درمیان (یعنی اپنی شرم گاہ کی حفاظت) کی ضمانت دے تو میں اسے جنت کی ضمانت دیتا ہوں۔
اِسے امام بخاری، احمد اور ترمذی نے روایت کیا ہے۔
377/ 32۔ وَفِي رِوَایَۃِ أَبِي مُوسٰی رضی اللہ عنہ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: مَنْ حَفِظَ مَا بَیْنَ فُقْمَیْهِ وَفَرْجَہٗ دَخَلَ الْجَنَّۃَ۔
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَأَبُوْ یَعْلٰی وَالْحَاکِمُ۔
377: أخرجہ أحمد بن حنبل، في المسند، 4/ 398، الرقم/ 19577، وأبویعلی في المسند، 13/ 259، الرقم/ 7275، والحاکم في المستدرک، 4/ 399، الرقم/ 8063۔
حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس نے اپنے دونوں جبڑوں کی درمیانی شے (یعنی زبان) اور اپنی شرم گاہ کی حفاظت کی وہ جنت میں داخل ہو گا۔
اِسے امام احمد، ابو یعلی اور حاکم نے روایت کیا ہے۔
378/ 33۔ عَنْ عُقْبَۃَ بْنِ عَامِرٍ رضی اللہ عنہ قَالَ: قُلْتُ: یَا رَسُوْلَ اللهِ، مَا النَّجَاۃُ؟ قَالَ: أَمْلِکْ عَلَیْکَ لِسَانَکَ، وَلَْیَسَعْکَ بَیْتُکَ، وَابْکِ عَلٰی خَطِیْئَتِکَ۔
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالتِّرْمِذِيُّ وَالطَّبَرَانِيُّ۔ وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: ھٰذَا حَدِیْثٌ حَسَنٌ۔
378: أخرجہ أحمد بن حنبل في المسند، 5/ 259، الرقم/ 22289، والترمذي في السنن، کتاب الزہد، باب ما جاء في حفظ اللسان، 4/ 605، الرقم/ 2406، والطبراني في المعجم الکبیر، 17/ 270، الرقم/ 741۔
حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! نجات کیا ہے؟ فرمایا: اپنی زبان کو (بُری باتوں سے) روکے رکھو، اپنا گھر خود پر کشادہ رکھو (یعنی گھر میں وقت گزارو اور بلا ضرورت گھر سے باہر نہ رہو) اور اپنے گناہوں پر رویا کر۔
اِسے امام احمد، ترمذی اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی فرماتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے۔
379/ 34۔ وَفِي رَوَایَۃٍ عَنْ ثَوْبَانَ رضی اللہ عنہ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: طُوْبٰی لِمَنْ مَلَکَ لِسَانَہٗ، وَوَسِعَہٗ بَیْتُہٗ، وَبَکٰی عَلٰی خَطِیْئَتِہٖ۔
رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَالدَّیْلَمِيُّ۔
379: أخرجہ الطبراني في المعجم الأوسط، 3/ 21، الرقم/ 2340، وأیضًا في المعجم الصغیر، 1/ 140، الرقم/ 212، والدیلمي في المسند، 2/ 447، الرقم/ 3930۔
حضرت ثوبان روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: خوش خبری ہے اس شخص کے لیے جس نے اپنی زبان پر گرفت رکھی (تاکہ کسی کے لیے بدگوئی نہ کرے)، (دوسرا وہ) جس کا گھر اس کے لیے کشادہ ہو گیا اور(تیسرا وہ) جو اپنے گناہوں پر روتا رہا۔
اِسے امام طبرانی اور دیلمی نے روایت کیا ہے۔
380/ 35۔ عَنْ أَبِي سَعِیْدٍ الْخُدْرِيِّ رضی اللہ عنہ رَفَعَہٗ قَالَ: إِذَا أَصْبَحَ ابْنُ آدَمَ فَإِنَّ الْأَعْضَاءَ کُلَھَا تُکَفِّرُ اللِّسَانَ، فَتَقُوْلُ: اتَّقِ اللهَ فِیْنَا، فَإِنَّمَا نَحْنُ بِکَ۔ فَإِنِ اسْتَقَمْتَ اسْتَقَمْنَا، وَإِنِ اعْوَجَجْتَ اعْوَجَجْنَا۔
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالتِّرْمِذِيُّ وَاللَّفْظُ لَہٗ۔
380: أخرجہ أحمد بن حنبل في المسند، 3/ 95، الرقم/ 11927، والترمذي في السنن، کتاب الزہد، باب ما جاء في حفظ اللسان، 4/ 605، الرقم/ 2407، وأبو یعلی في المسند، 2/ 403، الرقم/ 1185، والطیالسي في المسند، 1/ 293، الرقم/ 2209، وعبد بن حمید في المسند، 1/ 302، الرقم/ 979۔
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم ﷺ سے مرفوعاً روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا: جب انسان صبح کرتا ہے تو اس کے تمام اعضاء جھک کر زبان سے کہتے ہیں: ہمارے بارے میں اللہ تعالیٰ سے ڈر کیونکہ ہم تجھ سے متعلق ہیں۔ اگر تو سیدھی رہے گی تو ہم بھی سیدھے رہیں گے اور اگر تو ٹیڑھی ہوگی تو ہم بھی ٹیڑھے ہو جائیں گے۔
اِسے امام احمد اور ترمذی نے روایت کیا ہے۔ مذکورہ الفاظ ترمذی کے ہیں۔
381/ 36۔ عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ رضی اللہ عنہ فِي رِوَایَۃٍ طَوِیْلَۃٍ قَالَ: کُنْتُ مَعَ النَّبِيِّ ﷺ فِي سَفَرٍ، فَأَخَذَ بِلِسَانِہٖ۔ قَالَ: کُفَّ عَلَیْکَ ھٰذَا۔ فَقُلْتُ: یَا نَبِيَّ اللهِ، وَإِنَّا لَمُؤَاخَذُونَ بِمَا نَتَکَلَّمُ بِہٖ؟ فَقَالَ: ثَکِلَتْکَ أُمُّکَ یَا مُعَاذُ، وَهَلْ یَکُبُّ النَّاسَ فِي النَّارِ عَلٰی وُجُوهِھِمْ أَوْ عَلٰی مَنَاخِرِھِمْ إِلَّا حَصَائِدُ أَلْسِنَتِھِمْ۔
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالتِّرْمِذِيُّ وَاللَّفْظُ لَہٗ وَابْنُ مَاجَہ۔ وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: ھٰذَا حَدِیثٌ حَسَنٌ صَحِیْحٌ۔
381: أخرجہ أحمد بن حنبل في المسند، 5/ 231، الرقم/ 22069، والترمذي في السنن، کتاب الإیمان، باب ما جاء في حرمۃ الصلاۃ، 5/ 11، الرقم/ 2616، وابن ماجہ في السنن، کتاب الفتن، باب کف اللسان في الفتنۃ، 2/ 1314، الرقم/ 3973، والمستدرک في الحاکم، 2/ 447، الرقم/ 3548، وعبد الرزاق في المصنف، 11/ 194، الرقم/ 20303، والطبراني في المعجم الکبیر، 20/ 131، الرقم/ 266۔
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ ایک طویل روایت میں بیان کرتے ہیں: میں ایک سفر میں حضور نبی اکرم ﷺ کے ہمراہ تھا، آپ ﷺنے اپنی زبان مبارک کو پکڑ کر فرمایا: اسے بدگوئی سے روکے رکھو۔ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے پیارے نبی! کیا گفتگو کے بارے میں بھی ہمارا مواخذہ ہوگا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: اے معاذ! تجھے تیری ماں روئے، لوگوں کو جہنم میں منہ کے بل یا گھٹنوں کے بل گرانے والی زبان کی کاٹی ہوئی کھیتی (یعنی گفتگو) ہی ہوگی۔
اِسے امام احمد بن حنبل، ترمذی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔ مذکورہ الفاظ ترمذی کے ہیں، اور وہ فرماتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
382/ 37۔ وَفِي رِوَایَۃِ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی اللہ عنہ، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: لَا یَسْتَقِیْمُ إِیْمَانُ عَبْدٍ حَتّٰی یَسْتَقِیْمَ قَلْبُہٗ، وَلَا یَسْتَقِِیْمُ قَلْبُہٗ حَتّٰی یَسْتَقِیْمَ لِسَانُہٗ، وَلَا یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ رَجُلٌ لَا یَأْمَنُ جَارُہٗ بَوَائِقَہٗ۔
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالْبَیْهَقِيُّ۔
382: أخرجہ أحمد بن حنبل في المسند، 3/ 198، الرقم/ 13071، والبیہقي في شعب الإیمان، 1/ 41، الرقم/ 8، والقضاعي في مسند الشہاب، 2/ 62، الرقم/ 887۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کسی بندہ کا ایمان اس وقت تک درست نہیں ہوتا جب تک اس کا دل درست نہ ہو، دل اس وقت تک درست نہیں ہوتا جب تک اس کی زبان درست نہ ہو جائے، اور کوئی بھی شخص اس وقت تک جنت میں داخل نہیں ہو سکتا جب تک کہ اس کا پڑوسی اس کی اذیت سے محفوظ نہ ہو جائے۔
اِسے امام احمد اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔
383/ 38۔ وَفِي رِوَایَۃِ أَبِي ھُرَیْرَۃَ رضی اللہ عنہ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: مِنْ حُسْنِ إِسْلَامِ الْمَرْءِ تَرْکُہٗ مَا لَا یَعْنِیْهِ۔
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَابْنُ مَاجَہ۔
383: أخرجہ الترمذي في السنن، کتاب الزہد، باب منہ، 4/ 558، الرقم/ 2317، وابن ماجہ في السنن، کتاب الفتن، باب کف اللسان في الفتنۃ، 2/ 1315، الرقم/ 3976، والطبراني في المعجم الأوسط، 1/ 115، الرقم/ 359۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: انسان کے اسلام کی عمدگی اس بات میں ہے کہ وہ فضول باتوں کو ترک کردے۔
اِسے امام ترمذی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔
عَنْ قَیْسٍ، قَالَ: رَأَیْتُ أَبَا بَکْرٍ رضی اللہ عنہ آخِذًا بِطَرَفِ لِسَانِہٖ وَھُوَ یَقُوْلُ: ھٰذَا أَوْرَدَنِيَ الْمَوَارِدَ.
رَوَاهُ ابْنُ أَبِي الدُّنْیَا۔
(1) أخرجہ ابن أبي الدنیا فيالصمت وآداب اللسان/ 55، الرقم/ 19۔
حضرت قیس کہتے ہیں: میں نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو اپنی زبان کا کنارہ پکڑے ہوئے دیکھا اور وہ فرما رہے تھے: یہی (زبان) ہے جو مجھے ہلاکتوں کے گھاٹ اُتار سکتی ہے۔
اسے امام ابن ابی الدنیا نے روایت کیا ہے۔
عَنْ عِمْرَانَ بْنِ یَزِیْدَ، قَالَ: قَالَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ رضی اللہ عنہ: اللِّسَانُ قِوَامُ الْبَدَنِ۔ فَإِذَا اسْتَقَامَ اللِّسَانُ اسْتَقَامَتِ الْجَوَارِحُ، وَإِذَا اضْطَرَبَ اللِّسَانُ لَمْ یَقُمْ لَہٗ جَارِحَۃٌ.
رَوَاهُ ابْنُ أَبِي الدُّنْیَا۔
(2) أخرجہ ابن أبي الدنیا في الصمت وآداب اللسان/ 69، الرقم/ 58۔
حضرت عمران بن یزید بیان کرتے ہیں کہ حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا: زبان بدن کا اہم حصہ ہے، اگر زبان درست ہے تو (جسم کے سارے) اعضاء درست ہیں، اگر زبان لڑکھڑا جائے تو اس (بدن) کا کوئی عضو بھی درستگی پر قائم نہیں رہتا۔
اسے امام ابن ابی الدنیا نے روایت کیا ہے۔
عَنْ حُمَیْدِ بْنِ ھِلَالٍ قَالَ: کَانَ عَبْدُ اللهِ بنُ عَمْرٍو رضی اللہ عنہ یَقُوْلُ: دَعْ مَا لَسْتَ مِنْهُ فِي شَیْئٍ، وَلَا تَنْطِقْ فِیْمَا لَا یَعْنِیْکَ، وَاخْزُنْ لِسَانَکَ کَمَا تَخْزُنُ نَفَقَتَکَ. (3)
رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شَیْبَۃَ وَابْنُ السِّرِّيِّ وَالْبَیْهَقِيُّ۔
(3) أخرجہ ابن أبي شیبۃ في المصنف، 7/ 128، الرقم/ 34713، وابن السري في الزہد، 2/ 534، الرقم/ 1101، والبیہقي في شعب الإیمان، 4/ 260، الرقم/ 5007، وابن أبي الدنیا في الصمت وآداب اللسان/ 57، الرقم/ 24۔
حمید بن ہلال سے روایت ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے: اس چیز کو چھوڑ دو جس کے ساتھ آپ کا تعلق نہیں اور اس چیز کے بارے میں گفتگو نہ کرو جو آپ سے متعلق نہیں۔ اپنی زبان کو اس طرح سنبھالو جیسے تم اپنا خرچہ (یعنی مالی وسائل کو) سنبھالتے ہو۔
اِسے امام ابن ابی شیبہ، ابن سری اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔
(1) لَیْسَ الْبِرَّ اَنْ تُوَلُّوْا وُجُوْهَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَ الْمَغْرِبِ وَ لٰكِنَّ الْبِرَّ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ الْمَلٰٓىِٕكَةِ وَ الْكِتٰبِ وَ النَّبِیّٖنَ ۚ وَ اٰتَی الْمَالَ عَلٰی حُبِّهٖ ذَوِی الْقُرْبٰی وَ الْیَتٰمٰی وَ الْمَسٰكِیْنَ وَ ابْنَ السَّبِیْلِ ۙ وَ السَّآىِٕلِیْنَ وَ فِی الرِّقَابِ ۚ وَ اَقَامَ الصَّلٰوةَ وَ اٰتَی الزَّكٰوةَ ۚ وَ الْمُوْفُوْنَ بِعَهْدِهِمْ اِذَا عٰهَدُوْا ۚ وَ الصّٰبِرِیْنَ فِی الْبَاْسَآءِ وَ الضَّرَّآءِ وَ حِیْنَ الْبَاْسِ ؕ اُولٰٓىِٕكَ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا ؕ وَ اُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْمُتَّقُوْنَo
(البقرۃ، 2/ 177)
نیکی صرف یہی نہیں کہ تم اپنے منہ مشرق اور مغرب کی طرف پھیر لو بلکہ اصل نیکی تو یہ ہے کہ کوئی شخص اللہ پر اور قیامت کے دن پر اور فرشتوں پر اور (اللہ کی) کتاب پر اور پیغمبروں پر ایمان لائے، اور اللہ کی محبت میں (اپنا) مال قرابت داروں پر اور یتیموں پر اور محتاجوں پر اور مسافروں پر اور مانگنے والوں پر اور (غلاموں کی) گردنوں (کو آزاد کرانے) میں خرچ کرے، اور نماز قائم کرے اور زکوٰۃ دے اور جب کوئی وعدہ کریں تو اپنا وعدہ پورا کرنے والے ہوں، اور سختی (تنگدستی) میں اور مصیبت (بیماری) میں اور جنگ کی شدّت (جہاد) کے وقت صبر کرنے والے ہوں، یہی لوگ سچے ہیں اور یہی پرہیز گار ہیںo
(2) اَلَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَآ اِنَّنَآ اٰمَنَّا فَاغْفِرْ لَنَا ذُنُوْبَنَا وَقِنَا عَذَابَ النَّارِo اَلصّٰبِرِیْنَ وَالصّٰدِقِیْنَ وَالْقٰنِتِینَ وَالْمُنْفِقِیْنَ وَالْمُسْتَغْفِرِیْنَ بِالْاَسْحَارِo
(آل عمران، 3/ 16-17)
(یہ وہ لوگ ہیں) جو کہتے ہیں: اے ہمارے رب! ہم یقینا ایمان لے آئے ہیں سو ہمارے گناہ معاف فرما دے اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا لےo (یہ لوگ) صبر کرنے والے ہیں اور قول و عمل میں سچائی والے ہیں اور ادب و اطاعت میں جھکنے والے ہیں اور اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والے ہیں اور رات کے پچھلے پہر (اٹھ کر) اللہ سے معافی مانگنے والے ہیںo
(3) قَالَ اللّٰهُ هٰذَا یَوْمُ یَنْفَعُ الصّٰدِقِیْنَ صِدْقُهُمْ ؕ لَهُمْ جَنّٰتٌ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَاۤ اَبَدًا ؕ رَضِیَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوْا عَنْهُ ؕ ذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُo
(المائدۃ، 5/ 119)
اللہ فرمائے گا: یہ ایسا دن ہے (جس میں) سچے لوگوں کو ان کا سچ فائدہ دے گا۔ ان کے لیے جنتیں ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہیں۔ وہ ان میں ہمیشہ ہمیشہ رہنے والے ہیں۔ اللہ ان سے راضی ہوگیا اور وہ اس سے راضی ہوگئے، یہی (رضائے الٰہی) سب سے بڑی کامیابی ہےo
(4) یٰٓـاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللهَ وَکُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَo
(التوبۃ، 9/ 119)
اے ایمان والو! اللہ سے ڈرتے رہو اور اہلِ صدق (کی معیت) میں شامل رہوo
(5) وَ قُلْ رَّبِّ اَدْخِلْنِیْ مُدْخَلَ صِدْقٍ وَّ اَخْرِجْنِیْ مُخْرَجَ صِدْقٍ وَّ اجْعَلْ لِّیْ مِنْ لَّدُنْكَ سُلْطٰنًا نَّصِیْرًاo
(الإسراء، 17/ 80)
اور آپ (اپنے رب کے حضور یہ) عرض کرتے رہیں: اے میرے رب! مجھے سچائی (و خوش نودی) کے ساتھ داخل فرما (جہاں بھی داخل فرمانا ہو) اور مجھے سچائی (و خوش نودی) کے ساتھ باہر لے آ (جہاں سے بھی لانا ہو) اور مجھے اپنی جانب سے مدد گار غلبہ و قوت عطا فرمادےo
(6) وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِاَمٰنٰتِهِمْ وَ عَهْدِهِمْ رٰعُوْنَۙo
(المؤمنون، 23/ 8)
اور جو لوگ اپنی امانتوں اور اپنے وعدوں کی پاسداری کرنے والے ہیںo
384/ 39۔ عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ رضی اللہ عنہ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: إِنَّ الصِّدْقَ یَہْدِي إِلَی الْبِرِّ، وَإِنَّ الْبِرَّ یَہْدِي إِلَی الْجَنَّۃِ، وَإِنَّ الرَّجُلَ لَیَصْدُقُ حَتّٰی یَکُوْنَ صِدِّیْقًا، وَإِنَّ الْکَذِبَ یَہْدِي إِلَی الْفُجُورِ، وَإِنَّ الْفُجُوْرَ یَہْدِي إِلَی النَّارِ، وَإِنَّ الرَّجُلَ لَیَکْذِبُ حَتّٰی یُکْتَبَ عِنْدَ اللهِ کَذَّابًا۔
مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ۔
384: أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب الأدب، باب قول اللہ تعالیٰ: {یٰٓـاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللهَ وَکُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَo}، [التوبۃ، 9/ 119]، وما ینہی عَنِ الکَذِبِ، 5/ 2261، الرقم/ 5743، ومسلم في الصحیح، کتاب البر والصلۃ والآداب، باب قبح الکذب وحسن الصدق وفضلہ، 4/ 2013، الرقم/ 2607، وأحمد بن حنبل في المسند، 1/ 432، الرقم/ 4108، وأبو داود في السنن، کتاب الأدب، باب في التشدید في الکذب، 4/ 297، الرقم/ 4989، والترمذي في السنن، کتاب البر والصلۃ، باب ما جاء في الصدق والکَذِبِ، 4/ 347، الرقم 1971۔
حضرت (عبد اللہ) بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: بے شک سچائی آدمی کی بھلائی کی طرف رہنمائی کرتی ہے اور بھلائی جنت کی طرف لے جاتی ہے۔ آدمی ہمیشہ سچ بولتا رہتا ہے یہاں تک کہ صدیق کا لقب اور مرتبہ حاصل کر لیتا ہے۔ بلاشبہ جھوٹ گناہوں کی طرف لے جاتا ہے اور گناہ جہنم میں لے جاتے ہیں۔ آدمی ہمیشہ جھوٹ بولتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک کذَّاب (بہت جھوٹا) لکھ دیا جاتا ہے۔
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
385/ 40۔ وَفِي رِوَایَۃٍ عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو رضی اللہ عنہ أَنَّ رَجُلًا رضی اللہ عنہ م إِلَی النَّبِيِّ ﷺ فَقَالَ: یَا رَسُوْلَ اللهِ، مَا عَمَلُ الْجَنَّۃِ؟ قَالَ: الصِّدْقُ إِذَا صَدَقَ الْعَبْدُ بَرَّ، وَإِذَا بَرَّ أَمِنَ، وَإِذَا أَمِنَ دَخَلَ الْجَنَّۃَ۔
رَوَاهُ أَحْمَدُ۔
385: أخرجہ أحمد بن حنبل في المسند، 2/ 176، الرقم/ 6641۔
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں آیا اور عرض کیا: جنتی عمل کون سا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: سچائی، جب بندہ نے سچ بولا تو اس نے نیکی کی، جب نیکی کی تو (گناہ سے) محفوظ ہو گیااور جب (گناہوں سے) محفوظ ہوا تو وہ جنت میں داخل ہوگیا۔
اِسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔
386/ 41۔ عَنْ حَکِیْمِ بْنِ حِزَامٍ رضی اللہ عنہ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: الْبَیِّعَانِ بِالْخِیَارِ مَا لَمْ یَتَفَرَّقَا - أَوْ قَالَ: حَتّٰی یَتَفَرَّقَا - فَإِنْ صَدَقَا وَبَیَّنَا بُوْرِکَ لَھُمَا فِي بَیْعِهِمَا، وَإِنْ کَتَمَا وَکَذَبَا مُحِقَتْ بَرَکَۃُ بَیْعِھِمَا۔
مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ۔
386: أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب البیوع، باب إذ بین البیعان ولم یکتما ونصحا، 2/ 732، الرقم/ 1973، ومسلم في الصحیح، کتاب البیوع، باب الصدق في البیع والبیان، 3/ 1164، الرقم/ 1532، وأحمد بن حنبل في المسند، 3/ 402، الرقم/ 15357، وأبوداود في السنن، کتاب الإجارۃ، باب في خیار المتبایعین، 3/ 273، الرقم/ 3459، والترمذي في السنن، کتاب البیوع، باب ما جاء في البیعین بالخیار ما لم یتفرقا، 3/ 548-549، الرقم/ 1246، والنسائي في السنن، کتاب البیوع، باب ما یجب علی التجار من التوقیۃ في مبایعتہم، 7/ 244، الرقم/ 4457۔
حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: بیچنے والے اور خریدنے والے دونوں کو جدا ہونے تک (سودا ختم کرنے کا) اختیار ہے۔ اگر دونوں نے سچائی اور صاف گوئی سے کام لیا تو اُن کے سودے میں برکت ڈال دی جاتی ہے اور اگر عیب چھپایا یا جھوٹ بولا تو اُن کے سودے سے برکت ختم کر دی جاتی ہے۔
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
387/ 42۔ عَنْ سَہْلِ بْنِ حُنَیْفٍ رضی اللہ عنہ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: مَنْ سَأَلَ اللهَ الشَّھَادَۃَ بِصِدْقٍ، بَلَّغَهُ اللهُ مَنَازِلَ الشُّھَدَاءِ وَإِنْ مَاتَ عَلٰی فِرَاشِہٖ۔
رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَبُوْ دَاوُدَ وَالتِّرْمِذِيُّ وَالنَّسَائِيُّ وَابْنُ مَاجَہ۔
387: أخرجہ مسلم في الصحیح، کتاب الإمارۃ، باب استحباب طلب الشہادۃ في سبیل اللہ تعالی، 3/ 1517، الرقم/ 1909، وأبوداود في السنن، کتاب الوتر، باب في الاستغفار، 2/ 85، الرقم/ 1520، والترمذي في السنن، کتاب فضائل الجہاد، باب ما جاء فیمن سأل الشہادۃ، 4/ 183، الرقم/ 2653، والنسائي في السنن، کتاب الجہاد، باب مسألۃ الشہادۃ، 6/ 36، الرقم/ 3162، وابن ماجہ في السنن، کتاب الجہاد، باب القتال في سبیل اللہ سبحانہ وتعالی، 2/ 935، الرقم/ 2797۔
سہل بن حنیف روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جو شخص دل کی سچائی کے ساتھ شہادت کی طلب کرے اس کو اللہ تعالیٰ شہادت کے مرتبہ پر پہنچا دیتا ہے خواہ وہ اپنے بستر پر ہی فوت ہوجائے۔
اِسے امام مسلم، ابو داود، ترمذی، نسائی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔
388/ 43۔ عَنِْ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رضی اللہ عنہم قاَلَ: حَفِظْتُ مِنْ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ: دَعْ مَا یُرِیْبُکَ إِلٰی مَا لَا یُرِیْبُکَ، فَإِنَّ الصِّدْقَ طَمَأْنِیْنَۃٌ، وَالْکَذِبَ رِیْبَۃٌ۔
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالتِّرْمِذِيُّ وَاللَّفْظُ لَہٗ وَالنَّسَائِيُّ۔ وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: ھٰذَا حَدِیْثٌ حَسَنٌ صَحِیْحٌ۔
388: أخرجہ أحمد بن حنبل في المسند، 1/ 200، الرقم/ 1723، والترمذي في السنن، کتاب صفۃ القیامۃ والرقائق والورع، باب (60)، 4/ 668، الرقم/ 2518، والنسائي في السنن، کتاب الأشربۃ، باب الحث علی ترک الشبہات، 8/ 327، الرقم/ 5711، والدارمي في السنن، 2/ 319، الرقم/ 2532۔
امام حسن بن علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہم بیان کرتے ہیں کہ مجھے رسول اللہﷺکا یہ ارشاد گرامی آج بھی یاد ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: شک و شبہ والی چیز چھوڑ کر شک سے پاک چیز کو اختیار کرو، بے شک صِدق میں ہی اطمینان ہے اور جھوٹ سراسر شک و شبہ ہے۔
اِسے امام احمد، ترمذی اور نسائی نے روایت کیا ہے۔ مذکورہ الفاظ ترمذی کے ہیں اور وہ فرماتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
389/ 44۔ عَنْ عُبَادَۃَ بْنِ الصَّامِتِ رضی اللہ عنہ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: اضْمَنُوا لِي سِتًّا مِنْ أَنْفُسِکُمْ، أَضْمَنْ لَکُمُ الْجَنَّۃَ: اُصْدُقُوا إِذَا حَدَّثْتُمْ، وَأَوْفُوا إِذَا وَعَدْتُمْ، وَأَدُّوا إِذَا ائْتُمِنْتُمْ، وَاحْفَظُوا فُرُوجَکُمْ، وَغُضُّوا أَبْصَارَکُمْ، وَکُفُّوا أَیْدِیَکُمْ۔
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالْحَاکِمُ وَابْنُ حِبَّانَ وَالْبَیْهَقِيُّ۔ وَقَالَ الْحَاکِمُ: ھٰذَا حَدِیثٌ صَحِیحُ الإِسْنَادِ۔
389: أخرجہ أحمد بن حنبل في المسند، 5/ 323، الرقم/ 22809، والحاکم في المستدرک، 4/ 399، الرقم/ 8066، وابن حبان في الصحیح، 1/ 506، الرقم/ 271، والبیہقي في السنن الکبری، 6/ 288، الرقم/ 12471، وأیضا في شعب الإیمان، 4/ 320، الرقم/ 5256۔
حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: تم مجھے چھ چیزوں کی ضمانت دے دو، میں تمہیں جنت کی ضمانت دیتا ہوں: (1) جب تم گفتگو کرو تو سچ بولو، (2) جب تم وعدہ کرو تو اسے پورا کرو، (3) جب تمہارے پاس امانت رکھی جائے تو اسے ادا کرو، (4) اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرو، (5) اپنی نگاہوں کو جھکا کر رکھو (6) اور اپنے ہاتھوں کو (برائی کی طرف بڑھنے سے) روکو۔
اِسے امام احمد، حاکم، ابن حبان اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔ امام حاکم فرماتے ہیں: یہ حدیث صحیح الاسناد ہے۔
390/ 45۔ عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو رضی اللہ عنہم أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ قَالَ: أَرْبَعٌ إِذَا کُنَّ فِیْکَ فَـلَا عَلَیْکَ مَا فَاتَکَ مِنَ الدُّنْیَا: حِفْظُ أَمَانَۃٍ، وَصِدْقُ حَدِیْثٍ، وَحُسْنُ خَلِیْقَۃٍ، وَعِفَّۃٌ فِي طُعْمَۃٍ۔
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالْحَاکِمُ وَالْبُخَارِيُّ فِي الْأَدَبِ۔
390: أخرجہ أحمد بن حنبل في المسند، 2/ 177، الرقم/ 6652، والحاکم في المستدرک، 4/ 349، الرقم/ 7876، والبخاري في الأدب المفرد/ 108، الرقم/ 288، والبیہقي في شعب الإیمان، 4/ 321، الرقم/ 5257۔
حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اگر تمہارے اندر چار چیزیں ہوں تو تمہیں دنیا سے کسی بھی شے کے کھو جانے کا نقصان نہیں ہوگا۔ (وہ یہ ہیں:) (1) امانت کی حفاظت، (2)گفتگو میں سچائی، (3) اچھے اخلاق اور (4) کھانے میں پاکیزگی۔
اِسے امام احمد اور حاکم نے اور بخاری نے ’الادب المفرد‘ میں روایت کیا ہے۔
391/ 46۔ وَفِي رِوَایَۃِ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو رضی اللہ عنہ قَالَ: قِیلَ لِرَسُولِ اللهِ ﷺ: أَيُّ النَّاسِ أَفْضَلُ؟ قَالَ: کُلُّ مَخْمُومِ الْقَلْبِ، صَدُوْقِ اللِّسَانِ۔ قَالُوا: صَدُوْقُ اللِّسَانِ نَعْرِفُہٗ، فَمَا مَخْمُومُ الْقَلْبِ؟ قَالَ: ھُوَ التَّقِيُّ النَّقِيُّ لَا إِثْمَ فِیهِ وَلَا بَغْيَ وَلَا غِلَّ وَلَا حَسَدَ۔
رَوَاهُ ابْنُ مَاجَہ وَالطَّبَرَانِيُّ وَالْبَیْهَقِيُّ۔
391: أخرجہ ابن ماجہ في السنن، کتاب الزہد، باب الورع والتقوی، 2/ 1409، الرقم/ 4216، والطبراني في مسند الشامیین، 2/ 217، 1218، والبیہقي في شعب الإیمان، 5/ 264، الرقم/ 6604۔
حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ ایک اور روایت میں فرماتے ہیں: رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا گیا: کون سا شخص افضل ہے؟ آپ نے فرمایا: صاف دل اور زبان کا سچا شخص۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ م نے عرض کیا: یا رسول اللہ! یہ تو ہم جانتے ہیں کہ زبان کا سچا کون ہوتا ہے لیکن صاف دل سے کیا مراد ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: وہ شخص جو پاک باز اور پرہیزگار ہو؛ اس میں نہ گناہ ہو، نہ بغاوت، نہ کینہ اور نہ حسد ہو (یعنی اس کا دل ان تمام برائیوں سے پاک ہو کر قلب سلیم بن گیا ہو)۔
اِسے امام ابن ماجہ، طبرانی اور بیہقی نے روایت کیاہے۔
392/ 47۔ عَنْ إِسْمٰعِیلَ بْنِ عُبَیْدِ بْنِ رِفَاعَۃَ عَنْ أَبِیهِ عَنْ جَدِّہٖ أَنَّہٗ خَرَجَ مَعَ النَّبِيِّ ﷺ إِلَی الْمُصَلّٰی، فَرَأَی النَّاسَ یَتَبَایَعُونَ، فَقَالَ: یَا مَعْشَرَ التُّجَّارِ، فَاسْتَجَابُوا لِرَسُولِ اللهِ ﷺ، وَرَفَعُوا أَعْنَاقَھُمْ وَأَبْصَارَھُمْ إِلَیْهِ۔ فَقَالَ: إِنَّ التُّجَّارَ یُبْعَثُونَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ فُجَّارًا إِلَّا مَنِ اتَّقَی اللهَ، وَبَرَّ، وَصَدَقَ۔
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَابْنُ مَاجَہ وَالدَّارِمِيُّ وَالْحَاکِمُ، وَقَالَ التِّرْمِِذِيُّ: ھٰذَا حَدِیثٌ حَسَنٌ صَحِیحٌ۔
392: أخرجہ الترمذي في السنن، کتاب البیوع، باب ما جاء في التجار وتسمیۃ النبي ﷺ إیّاہم، 3/ 515، الرقم/ 1210، وابن ماجہ في السنن، کتاب التجارات، باب التوقي في التجارۃ، 2/ 726، الرقم/ 2146، والدارمي في السنن، 2/ 322، الرقم/ 2538، والحاکم في المستدرک، 2/ 8، الرقم/ 2144۔
اسماعیل بن عبید بن رفاعہ بواسطہ والد اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ وہ حضور نبی اکرم ﷺ کے ہمراہ عید گاہ کی طرف نکلے، آپ ﷺ نے لوگوں کو خرید و فروخت کرتے دیکھ کر فرمایا: اے تاجروں کی جماعت! انہوں نے لبیک کہتے ہوئے اپنی گردنیں اور نگاہیں آپ ﷺ کی طرف اُٹھائیں، آپ ﷺ نے فرمایا: تاجر، قیامت کے دن نافرمان اُٹھائے جائیں گے، سوائے اس شخص کے جو اللہ تعالیٰ سے ڈرا، نیک کام کیا اور سچ بولا۔
اِسے امام ترمذی، ابن ماجہ، دارمی اور حاکم نے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی فرماتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
393/ 48۔ عَنْ أَنَسٍ رضی اللہ عنہ قَالَ: قَلَّمَا خَطَبَنَا رَسُوْلُ اللهِ ﷺ إِلَّا قَالَ: لَا إِیْمَانَ لِمَنْ لَا أَمَانَۃَ لَہٗ، وَلَا دِیْنَ لِمَنْ لَا عَہْدَ لَہٗ۔
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَأَبُو یَعْلٰی وَابْنُ خُزَیْمَۃَ وَابْنُ حِبَّانَ۔
393: أخرجہ أحمد بن حنبل في المسند، 3/ 154، الرقم/ 12589، وأبویعلی في المسند، 5/ 246، الرقم/ 2863، وابن خزیمۃ في الصحیح، 4/ 51، الرقم 2335، وابن حبان في الصحیح، 1/ 422، الرقم/ 194، والطبراني في المعجم الأوسط، 3/ 98، الرقم/ 2606۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اکثر اوقات ہم سے خطاب میں یہ بات فرماتے تھے: اس شخص کا کوئی ایمان نہیں جو امانت دار نہ ہو، اور اس شخص کا کوئی دین نہیں جو اپنے وعدے کا پاس دار نہ ہو۔
اِسے امام احمد، ابو یعلی، ابن خزیمہ اور ابن حبان نے روایت کیا ہے۔
394/ 49۔ وَفِي رِوَایَۃِ أَبِي ھُرَیْرَۃَ رضی اللہ عنہ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: أَدِّ الْأَمَانَۃَ إِلٰی مَنِ ائْتَمَنَکَ، وَلَا تَخُنْ مَنْ خَانَکَ۔
رَوَاهُ أَبُو دَاوُدَ وَالتِّرْمِذِيُّ وَالْحَاکِمُ۔
394: أخرجہ أبو داود في السنن، کتاب الإجارۃ، باب في قبول الہدایا، 3/ 290، الرقم/ 3535، والترمذي في السنن، کتاب البیوع، باب: (38)، 3/ 564، الرقم/ 1264، والحاکم في المستدرک، 2/ 53، الرقم/ 2296۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس نے تمہارے پاس امانت رکھی اسے امانت واپس کردو اور جس نے تمہارے ساتھ خیانت کی تم (جواباً) اس کے ساتھ خیانت نہ کرو۔
اِسے امام ابو داود، ترمذی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔
قَالَ أَحْمَدُ بْنُ خِضْرَوَیْهِ: مَنْ أَرَادَ أَنْ یَکُوْنَ اللهُ تَعَالٰی مَعَہٗ، فَلْیَلْزَمِ الصِّدْقَ، فَإِنَّ اللهَ تَعَالٰی قَالَ: إِنَّ اللهَ مَعَ الصَّادِقِیْنَ.
ذَکَرَهُ الْقُشَیْرِيُّ فِي الرِّسَالَۃِ۔
(1) القشیري في الرسالۃ/ 318۔
امام احمد بن خضرویہ نے فرمایا ہے: جو شخص چاہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ ہو تو اسے چاہیے کہ صدق و سچائی کو اپنے اوپر لازم کرلے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ’بے شک اللہ تعالیٰ اَہلِ صدق کے ساتھ ہے‘۔
اسے امام قشیری نے ’الرسالۃ‘ میںبیان کیا ہے۔
(1) وَ كَذٰلِكَ جَعَلْنٰكُمْ اُمَّةً وَّسَطًا لِّتَكُوْنُوْا شُهَدَآءَ عَلَی النَّاسِ وَ یَكُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْكُمْ شَهِیْدًا ؕ وَ مَا جَعَلْنَا الْقِبْلَةَ الَّتِیْ كُنْتَ عَلَیْهَاۤ اِلَّا لِنَعْلَمَ مَنْ یَّتَّبِعُ الرَّسُوْلَ مِمَّنْ یَّنْقَلِبُ عَلٰی عَقِبَیْهِ ؕ وَ اِنْ كَانَتْ لَكَبِیْرَةً اِلَّا عَلَی الَّذِیْنَ هَدَی اللّٰهُ ؕ وَ مَا كَانَ اللّٰهُ لِیُضِیْعَ اِیْمَانَكُمْ ؕ اِنَّ اللّٰهَ بِالنَّاسِ لَرَءُوْفٌ رَّحِیْمٌo
(البقرۃ، 2/ 143)
اور (اے مسلمانو!) اسی طرح ہم نے تمہیں (اعتدال والی) بہتر امت بنایا تاکہ تم لوگوں پر گواہ بنو اور (ہمارا یہ برگزیدہ) رسول (ﷺ) تم پر گواہ ہو، اور آپ پہلے جس قبلہ پر تھے ہم نے صرف اس لیے مقرر کیا تھا کہ ہم (پرکھ کر) ظاہر کر دیں کہ کون (ہمارے) رسول (ﷺ) کی پیروی کرتا ہے (اور) کون اپنے الٹے پاؤں پھر جاتا ہے، اور بے شک یہ (قبلہ کا بدلنا) بڑی بھاری بات تھی مگر ان پر نہیں جنہیں اللہ نے ہدایت (و معرفت) سے نوازا، اور اللہ کی یہ شان نہیں کہ تمہارا ایمان (یونہی) ضائع کردے، بے شک اللہ لوگوں پر بڑی شفقت فرمانے والا مہربان ہےo
(2) وَ لَا تَجْعَلْ یَدَكَ مَغْلُوْلَةً اِلٰی عُنُقِكَ وَ لَا تَبْسُطْهَا كُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَ مَلُوْمًا مَّحْسُوْرًاo
(الإسراء، 17/ 29)
اور نہ اپنا ہاتھ اپنی گردن سے باندھا ہوا رکھو (کہ کسی کو کچھ نہ دو) اور نہ ہی اسے سارا کا سارا کھول دو (کہ سب کچھ ہی دے ڈالو) کہ پھر تمہیں خود ملامت زدہ (اور) تھکا ہارا بن کر بیٹھنا پڑےo
(3) وَ الَّذِیْنَ اِذَاۤ اَنْفَقُوْا لَمْ یُسْرِفُوْا وَ لَمْ یَقْتُرُوْا وَ كَانَ بَیْنَ ذٰلِكَ قَوَامًاo
(الفرقان، 25/ 67)
اور (یہ) وہ لوگ ہیں کہ جب خرچ کرتے ہیں تو نہ بے جا اڑاتے ہیں اور نہ تنگی کرتے ہیں اور ان کا خرچ کرنا (زیادتی اور کمی کی) ان دو حدوں کے درمیان اعتدال پر (مبنی) ہوتا ہےo
395/ 50۔ عَنْ عَائِشَۃَ رضی اللہ عنہ ا أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ قَالَ: سَدِّدُوا وَقَارِبُوا وَاعْلَمُوا أَنْ لَنْ یُدْخِلَ أَحَدَکُمْ عَمَلُهُ الْجَنَّۃَ، وَأَنَّ أَحَبَّ الْأَعْمَالِ إِلَی اللهِ أَدْوَمُھَا وَإِنْ قَلَّ۔
مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ۔
395: أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب الرقاق، باب القصد والمداومۃ علی العمل، 5/ 2373، الرقم/ 6099، ومسلم في الصحیح، کتاب صفۃ القیامۃ والجنۃ والنار، باب لن یدخل أحد الجنۃ بعملہ بل برحمۃ اللہ تعالی، 4/ 2171، الرقم/ 2818، وأحمد بن حنبل في المسند، 6/ 273، الرقم/ 26386۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ ا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: سیدھی راہ پر چلو اور (اپنے اعمال میں) میانہ روی اختیار کرو اور یہ ذہن نشین کر لو کہ تم میں سے کسی کا عمل اسے جنت میں داخل نہیں کر سکتا اور اللہ تعالیٰ کو سب سے پیارا وہ عمل ہے جو ہمیشہ کیا جائے اگرچہ کم ہی ہو۔
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
396/ 51۔ عَنْ أَبِي ھُرَیْرَۃَ رضی اللہ عنہ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: لَنْ یُنَجِّيَ أَحَدًا مِنْکُمْ عَمَلُہٗ۔ قَالُوْا: وَلَا أَنْتَ، یَا رَسُوْلَ اللهِ؟ قَالَ: وَلَا أَنَا إِلَّا أَنْ یَتَغَمَّدَنِيَ اللهُ بِرَحْمَۃٍ۔ سَدِّدُوْا وَقَارِبُوْا وَاغْدُوْا وَرُوْحُوا وَشَيْئٌ مِنَ الدُّلْجَۃِ، وَالْقَصْدَ الْقَصْدَ تَبْلُغُوا۔
رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَأَحْمَدُ۔
396: أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب الرقاق، باب القصد والمداومۃ علی العمل، 5/ 2373، الرقم/ 6098، وأحمد بن حنبل في المسند، 2/ 514، الرقم/ 10688۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تم میں سے کسی کو اُس کا عمل نجات نہیں دلا سکے گا۔ لوگ عرض گزار ہوئے کہ یا رسول اللہ! کیا آپ کو بھی؟ فرمایا: ہاں، مجھے بھی، مگر یہ کہ اللہ تعالیٰ مجھے اپنی رحمت میں ڈھانپ لے۔ سیدھی راہ پر چلو، میانہ روی اختیار کرو اور صبح و شام کے اوقات میں اور کچھ رات کی تاریکی میں بھی (نیک اعمال) کرتے رہو۔ نیز اعتدال اختیار کرو، اعتدال اختیار کرو، اسی سے (منزلِ مقصود تک) جا پہنچو گے۔
اِسے امام بخاری اور احمد نے روایت کیا ہے۔
397/ 52۔ عَنْ عَبْدِ اللهِ، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: هَلَکَ الْمُتَنَطِّعُوْْنَ؛ قَالَھَا ثَـلَاثًا۔
رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ۔
397: أخرجہ مسلم في الصحیح، کتاب العلم، باب ہلک المتنطعون، 4/ 2055، الرقم/ 2670، وأحمد بن حنبل في المسند، 1/ 386، الرقم/ 3655، وأبو داود في السنن، کتاب السنۃ، باب في لزوم السنۃ، 4/ 201، الرقم/ 4608۔
حضرت عبد اللہ (بن مسعود) رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے تین بار ارشاد فرمایا: انتہا پسندی اختیار کرنے والے ہلاک ہو گئے۔
اِسے امام مسلم اور احمد نے روایت کیا ہے۔
398/ 53۔ وَفِي رِوَایَۃِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضی اللہ عنہم قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: مَا عَالََ مُقْتَصِدٌ قَطُّ.
رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَالْبَیْهَقِيُّ۔
398: أخرجہ الطبراني في المعجم الکبیر، 12/ 123، الرقم/ 12656، وأیضا في الأوسط، 8/ 152، الرقم/ 12656، والبیہقي في شعب الإیمان، 5/ 255، الرقم/ 6570۔
حضرت (عبد اللہ) بن عباس رضی اللہ عنہم سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اعتدال اور میانہ روی اختیار کرنے والا کبھی مفلس اور محتاج نہیں ہوتا۔
اِسے امام طبرانی اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔
عَنْ زُبَیْدٍ قَالَ: قَالَ عَلِيٌّ رضی اللہ عنہ: خَیْرُ النَّاسِ ھٰذَا النَّمَطُ اْلأَوْسَطُ، یَلْحَقُ بِھِمُ التَّالِي وَیَرْجِعُ إِلَیْھِمُ الْغَالِي.
رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شَیْبَۃَ۔
(1) أخرجہ ابن أبي شیبۃ في المصنف، 7/ 100، الرقم/ 34498۔
حضرت زُبَید نے فرمایا: اعتدال اور میانہ روی کا طریقہ اختیار کرنے والی جماعت لوگوں میں بہترین ہے (کیونکہ) اس سے نیچے والے اس سے ملتے ہیں اور اوپر والے اس کی طرف لوٹتے ہیں۔
اِسے امام ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔
عَنْ وَہْبٍ یَقُوْلُ: إِنَّ لِکُلِّ شَيئٍ طَرَفَیْنِ وَوَسَطًا، فَإِذَا أَمْسَکَ بِأَحَدِ الطَّرَفَیْنِ مَالَ الآخَرُ، وَإِذَا أَمْسَکْتَ بِالْوَسَطِ اعْتَدَلَ الطَّرَفَانِ۔ وَقَالَ: عَلَیْکَ بِالْأَوْسَاطِ مِنَ الْأَشْیَاءِ.
رَوَاهُ أَبُوْ یَعْلٰی۔
(1) أخرجہ أبو یعلی في المسند، 10/ 501، الرقم/ 6115۔
حضرت وہب فرماتے ہیں: ہر شے کے دو کنارے اور ایک وسط ہوتا ہے۔ اگر کسی نے دو کناروں میں سے ایک کنارہ تھام لیا تو دوسرا کنارہ جھک جائے گا۔ اگر آپ نے درمیان سے پکڑ لیا تو دونوں کنارے برابر رہیں گے۔ نیز فرمایا: تمام اُمور میں اعتدال اور درمیانی راہ اختیار کیا کرو۔
اِسے امام ابو یعلی نے روایت کیا ہے۔
عَنْ مُطَرِّفٍ قَالَ: خَیْرُ الْأُمُوْرِ أَوْسَاطُھَا.
رَوَاهُ الْبَیْھَقِيُّ۔
(2) أخرجہ البیہقي في شعب الإیمان، 5/ 261، الرقم/ 6601۔
حضرت مطرف نے فرمایا: اعتدال اور میانہ روی اختیار کرنا بہترین اُمور میں سے ہے۔
اِسے امام بیہقی نے روایت کیا ہے۔
(1) قَوْلٌ مَّعْرُوْفٌ وَّ مَغْفِرَةٌ خَیْرٌ مِّنْ صَدَقَةٍ یَّتْبَعُهَاۤ اَذًی ؕ وَ اللّٰهُ غَنِیٌّ حَلِیْمٌo
(البقرۃ، 2/ 263)
(سائل سے) نرمی کے ساتھ گفتگو کرنا اور درگزر کرنا اس صدقہ سے کہیں بہتر ہے جس کے بعد (اس کی) دل آزاری ہو، اور اللہ بے نیاز بڑا حلم والا ہےo
(2) فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللّٰهِ لِنْتَ لَهُمْ ۚ وَ لَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِیْظَ الْقَلْبِ لَا نْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِكَ ۪ فَاعْفُ عَنْهُمْ وَ اسْتَغْفِرْ لَهُمْ وَ شَاوِرْهُمْ فِی الْاَمْرِ ۚ فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَی اللّٰهِ ؕ اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ الْمُتَوَكِّلِیْنَo
(آل عمران، 3/ 159)
(اے حبیبِ والا صفات!) پس اللہ کی کیسی رحمت ہے کہ آپ ان کے لیے نرم طبع ہیں اور اگر آپ تُندخُو (اور) سخت دل ہوتے تو لوگ آپ کے گرد سے چھٹ کر بھاگ جاتے، سو آپ ان سے درگزر فرمایا کریں اور ان کے لیے بخشش مانگا کریں اور (اہم) کاموں میں ان سے مشورہ کیا کریں، پھر جب آپ پختہ ارادہ کر لیں تو اللہ پر بھروسہ کیا کریں، بے شک اللہ توکّل والوں سے محبت کرتا ہےo
(3) وَ عِبَادُ الرَّحْمٰنِ الَّذِیْنَ یَمْشُوْنَ عَلَی الْاَرْضِ هَوْنًا وَّ اِذَا خَاطَبَهُمُ الْجٰهِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًاo
(الفرقان، 25/ 63)
اور (خدائے) رحمان کے (مقبول) بندے وہ ہیں جو زمین پر آہستگی سے چلتے ہیں اور جب ان سے جاہل (اکھڑ) لوگ (ناپسندیدہ) بات کرتے ہیں تو وہ سلام کہتے (ہوئے الگ ہو جاتے) ہیںo
399/ 54۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضی اللہ عنہم قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ لِلْأَشَجِّ - أَشَجِّ عَبْدِ الْقَیْسِ -: إِنَّ فِیْکَ خَصْلَتَیْنِ یُحِبُّھُمَا اللهُ تَعَالٰی: اَلْحِلْمُ وَالأَنَاۃُ۔
رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ وَالتِّرْمِذِيُّ۔
399: أخرجہ مسلم في الصحیح، کتاب الإیمان، باب الأمر بالإیمان باللہ تعالی ورسولہ ﷺ، 1/ 48، الرقم/ 17، وأحمد بن حنبل في المسند، 3/ 22، الرقم/ 11191، والترمذي في السنن، کتاب البر والصلۃ، باب ما جاء في التأني والعجلۃ، 4/ 366، الرقم/ 2011، وأبو یعلی في المسند، 12/ 242، الرقم/ 4868، والطبراني في المعجم الأوسط، 3/ 30، الرقم/ 2374، وأیضًا في المعجم الصغیر، 2/ 67، الرقم/ 792، وأیضًا في المعجم الکبیر، 12/ 230، الرقم/ 12969، والبیہقي في السنن الکبری، 10/ 104، الرقم/ 20060، وأیضًا في شعب الإیمان، 6/ 141، الرقم/ 7729۔
حضرت (عبد اللہ) بن عباس رضی اللہ عنہم سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اَشج عبد القیس سے فرمایا: تمہارے اندر دو خصلتیں ایسی ہیں جو اللہ تعالیٰ کو پسند ہیں: (ایک) حلم و بردباری اور (دوسری) وقار و تمکنت۔
اِسے امام مسلم، احمد اور ترمذی نے روایت کیا ہے۔
400/ 55۔ عَنْ عَائِشَۃَ رضی اللہ عنہ ا أَنَّھَا قَالَتْ: مَا خُیِّرَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ بَیْنَ أَمْرَیْنِ إِلَّا أَخَذَ أَیْسَرَھُمَا مَا لَمْ یَکُنْ إِثْمًا، فَإِنْ کَانَ إِثْمًا کَانَ أَبْعَدَ النَّاسِ مِنْهُ… الحدیث
مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ۔
400: أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب المناقب، باب صفۃ النبي ﷺ، 3/ 1306، الرقم/ 3367، وأیضًا في کتاب الأدب، باب قول النبي ﷺ: یسروا ولا تعسروا وکان یجب التخفیف والیسر علی الناس، 5/ 2269، الرقم/ 5775، ومسلم في الصحیح، کتاب الفضائل، باب مباعدتہ بلآثام، 4/ 1813، الرقم/ 2326، وأحمد بن حنبل في المسند، 6/ 114، الرقم/ 24874، وأبو داود في السنن، کتاب الأدب، باب في التجاوز في الأمر، 4/ 250، الرقم/ 4785۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ ا فرماتی ہیں کہ جب بھی رسول اللہ ﷺ کو دو کاموں میں سے ایک اپنانے کا اختیار دیا گیا تو آپ ﷺ نے ان میں سے آسان کام کو ہی اختیار فرمایا بشرطیکہ اس میں کوئی گناہ نہ ہو۔ کیونکہ اگر اس میں گناہ (کا شائبہ بھی) ہوتا تو آپ ﷺ دوسروں کی نسبت اُس کام سے بہت زیادہ دور رہنے والے ہوتے۔
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
401/ 56۔ وَفِي رِوَایَۃٍ عَنْھَا رضی اللہ عنہ: قَالَتْ: دَخَلَ رَہْطٌ مِنَ الْیَهُودِ عَلٰی رَسُولِ اللهِ ﷺ فَقَالُوا: اَلسَّامُ عَلَیْکُمْ، قَالَتْ عَائِشَۃُ: فَفَھِمْتُھَا، فَقُلْتُ: وَعَلَیْکُمُ السَّامُ وَاللَّعْنَۃُ۔ قَالَتْ: فَقَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: مَہْلًا یَا عَائِشَۃُ، إِنَّ اللهَ یُحِبُّ الرِّفْقَ فِي الْأَمْرِ کُلِّہٖ۔ فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللهِ، أَوَلَمْ تَسْمَعْ مَا قَالُوا؟ قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: قَدْ قُلْتُ وَعَلَیْکُمْ۔
مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ۔
401: أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب الأدب، باب الرفق في الأمر کلہ، 5/ 2242، الرقم/ 5678، ومسلم في الصحیح، کتاب السلام، باب النہي عن ابتداء أہل الکتاب بالسلام وکیف یرد علیہم، 4/ 1706، الرقم/ 5 216، وابن حبان في الصحیح، 14/ 353، الرقم/ 6441۔
آپ رضی اللہ عنہ ایک اور روایت میں فرماتی ہیں: یہودیوں کی ایک جماعت رسول اللہ ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوئی تو انہوں نے کہا: السام علیکم (تمہیں موت آئے)۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ میں اُن کی گفتگو کا مفہوم سمجھ گئی اور میں نے ان کا جواب دیا: تمہیں موت آئے اور تم پر لعنت ہو۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ ا کا بیان ہے کہ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اے عائشہ! جانے دو، اللہ تعالیٰ تمام معاملات میں نرمی کو پسند فرماتا ہے۔ میں عرض گزار ہوئی کہ یا رسول اللہ! شاید کہ آپ نے سنا نہیں جو انہوں نے کہا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میں نے کہہ دیا تھا کہ تم پر ہو۔
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
402/ 57۔ عَنْ أَبِي ھُرَیْرَۃَ رضی اللہ عنہ قَالَ: قَامَ أَعْرَابِيٌّ فَبَالَ فِي الْمَسْجِدِ فَتَنَاوَلَهُ النَّاسُ، فَقَالَ لَھُمُ النَّبِيُّ ﷺ: دَعُوْهُ وَھَرِیْقُوا عَلٰی بَوْلِہٖ سَجْلًا مِنْ مَائٍ أَوْ ذَنُوْبًا مِنْ مَائٍ، فَإِنَّمَا بُعِثْتُمْ مُیَسِّرِینَ وَلَمْ تُبْعَثُوا مُعَسِّرِیْنَ۔
رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَأَحْمَدُ وَأَبُوْ دَاوُدَ وَالتِّرْمِذِيُّ وَالنَّسَائِيُّ۔
402: أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب الوضوئ، باب صب الماء علی البول في المسجد، 1/ 89، الرقم/ 217، وأحمد بن حنبل في المسند، 2/ 282، الرقم/ 7786، وأبو داود في السنن، کتاب الطہارۃ، باب الأرض یصیبہا البول، 1/ 103، الرقم/ 380، والترمذي في السنن، کتاب أبواب الطہارۃ، باب ما جاء في البول یصیبہا الأرض، 1/ 275، الرقم/ 147، والنسائي في السنن، کتاب الطہارۃ، باب ترک التوقیت في المائ، 1/ 48، الرقم/ 56۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ایک اعرابی نے مسجد میں پیشاب کر دیا تو لوگ اس پر جھپٹنے لگے۔ (یہ دیکھ کر) حضور نبی اکرم ﷺ نے لوگوں سے فرمایا: اسے چھوڑ دو اور اس کے پیشاب پر پانی کا ایک بھرا ہوا ڈول یا کچھ کم بھرا ہوا ڈول بہا دینا کیونکہ تم آسانی مہیا کرنے کے لیے بھیجے گئے ہو سختی کرنے کے لیے نہیں۔
اِسے امام بخاری، احمد، ابو داود، ترمذی اور نسائی نے روایت کیا ہے۔
403/ 58۔ عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُودٍ رضی اللہ عنہ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: أَلَا أُخْبِرُکُمْ بِمَنْ یَحْرُمُ عَلَی النَّارِ أَوْ بِمَنْ تَحْرُمُ عَلَیْهِ النَّارُ؟ عَلٰی کُلِّ قَرِیْبٍ هَیِّنٍ سَھْلٍ۔
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالتِّرْمِذِيُّ وَاللَّفْظُ لَہٗ۔ وَقَالَ: ھٰذَا حَدِیْثٌ حَسَنٌ غَرِیبٌ۔
403: أخرجہ أحمد بن حنبل في المسند، 1/ 415، الرقم/ 3938، والترمذي في السنن، کتاب صفۃ القیامۃ والرقائق والورع، باب (45)، 4/ 654، الرقم/ 2488، وأبو یعلی في المسند، 8/ 467، الرقم/ 5053، وابن حبان في الصحیح، 2/ 215، الرقم/ 469۔
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: کیا تمہیں ایسا آدمی نہ بتاؤں جسے (جلانا) آگ پر حرام ہے یا جس پر آگ حرام ہوتی ہے؟ (یہ وہ شخص ہے) جو (خوش اخلاقی کے باعث) لوگوں کے قریب تر ہوتا ہے، (مزاج اور طبیعت میں) نرم ہوتا ہے اور (برتاؤ کے لحاظ سے) بہت آسان سمجھا جاتا ہے۔
اِسے امام احمد اور ترمذی نے روایت کیا ہے۔ مذکورہ الفاظ ترمذی کے ہیں، اور وہ فرماتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔
404/ 59۔ عَنْ أَبِي الدَّرْدَائِ رضی اللہ عنہ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: مَنْ أُعْطِيَ حَظَّہٗ مِنَ الرِّفْقِ فَقَدْ أُعْطِيَ حَظَّہٗ مِنَ الْخَیْرِ، وَمَنْ حُرِمَ حَظَّہٗ مِنَ الرِّفْقِ فَقَدْ حُرِمَ حَظَّہٗ مِنَ الْخَیْرِ۔
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالتِّرْمِذِيُّ وَاللَّفْظُ لَہٗ۔ وَقَالَ: ھٰذَا حَدِیْثٌ حَسَنٌ صَحِیْحٌ۔
404: أخرجہ أحمد بن حنبل في المسند، 6/ 451، الرقم/ 27593، والترمذي في السنن، کتاب البر والصلۃ، باب ما جاء في الرفق، 4/ 367، الرقم/ 2013، وإسحاق بن راہویہ في المسند، 5/ 263، الرقم/ 2417، والحمیدي في المسند، 1/ 193، الرقم/ 393۔
حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جس شخص (کی طبیعت) کو نرمی میں سے حصۂ وافر دیا گیا اسے بھلائی میں سے بڑا حصہ دیا گیا اور جس شخص (کی طبیعت) کو نرمی کے حصہ سے محروم کر دیا گیا اسے بھلائی کے حصہ سے بھی محروم کر دیا گیا۔
اِسے امام احمد اور ترمذی نے روایت کیا ہے۔ مذکورہ الفاظ ترمذی کے ہیں، اور انہوں نے فرمایا ہے: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
405/ 60۔ وَفِي رِوَایَۃٍ عَنْهُ رضی اللہ عنہ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّہٗ قَالَ: مِنْ فِقْهِ الرَّجُلِ رِفْقُہٗ فِي مَعِیْشَتِہٖ۔
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَابْنُ أَبِي شَیْبَۃَ وَالطَّبَرَانِيُّ۔
405: أخرجہ أحمد بن حنبل في المسند، 5/ 194، الرقم/ 21742، والطبراني في مسند الشامیین، 2/ 352، الرقم/ 1482 وابن أبي شیبۃ في المصنف، 7/ 124الرقم/ 34688۔
حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ نے حضور نبی اکرم ﷺ سے روایت کیا ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: آدمی کی سمجھ داری کی علامت اس کی دنیا داری میں نرم روش ہے۔
اِسے امام احمد، ابن ابی شیبہ اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔
406/ 61۔ عَنْ عَلِيٍّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رضی اللہ عنہ، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: إِنَّ الرَّجُلَ لَیُدْرِکُ بِالْحِلْمِ دَرَجَۃَ الصَّائِمِ الْقَائِمِ، وَإنَّ الرَّجُلَ لَیُکْتَبُ جَبَّارًا وَمَا یَمْلِکُ إِلَّا أَہْلَ بَیْتِہٖ۔
رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَالدَّیْلَمِيُّ۔
406: أخرجہ الطبراني في المعجم الأوسط، 6/ 232، الرقم/ 6273، والدیلمي في المسند، 1/ 194، الرقم/ 732، وابن أبي الدنیا في الحلم/ 24، الرقم/ 8، وأبو نعیم في حلیۃ الأولیاء، 8/ 289۔
حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ایک شخص محض حلم اور بردباری کے ذریعے حالت روزہ میں قیام کرنے والے عبادت گزار کا درجہ پا سکتا ہے۔ اور کوئی شخص محض اپنی بدخُوئی اور سخت مزاجی کی وجہ سے (اللہ تعالیٰ کے ہاں) جبار لکھ دیا جاتا ہے حالانکہ اس کا اپنے گھر والوں کے سوا کسی پر بھی بس نہیں چلتا۔
اِسے امام طبرانی اور دیلمی نے روایت کیا ہے۔
قَالَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ رضی اللہ عنہ: أَوَّلُ مَا عُوِّضَ الْحَلِیْمُ مِنْ حِلْمِہٖ أَنَّ النَّاسَ کُلَّھُمْ أَعْوَانُہٗ عَلَی الْجَاهِلِ.
رَوَاهُ ابْنُ أَبِي الدُّنْیَا۔
(1) أخرجہ ابن أبي الدنیا في الحلم/ 27، الرقم/ 12۔
سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: بردبار شخص کو اس کے حلم اور بردباری کا سب سے پہلا بدلہ یہ ملتا ہے کہ تمام لوگ جاہل شخص کے مقابلے میں اس کے مددگار بن جاتے ہیں۔
اِسے امام ابن ابی الدنیا نے روایت کیا ہے۔
قَالَ مُعَاوِیَۃُ رضی اللہ عنہ: لَا یَبْلُغُ الرَّجُلُ مَبْلَغَ الرَّأْيِ حَتّٰی یَغْلِبَ حِلْمُہٗ جَھْلَہٗ، وَصَبْرُہٗ شَہْوَتَہٗ، وَلَا یَبْلُغُ ذٰلِکَ إِلَّا بِقُوَّۃِ الْحِلْمِ.
رَوَاهُ ابْنُ أَبِي الدُّنْیَا۔
(1) أخرجہ ابن أبي الدنیا في الحلم/ 27، الرقم/ 13۔
حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کوئی آدمی رائے کے اعتبار سے پختہ نہیں ہوتا جب تک کہ اس کا حلم اور بردباری اس کی جہالت پر غالب نہ آجائے، اس کا صبر اس کی خواہشِ (نفس) پر غالب نہ آ جائے، اور یہ صرف بردباری کی طاقت ہی سے حاصل ہوتا ہے۔
اِسے امام ابن ابی الدنیا نے روایت کیا ہے۔
قَالَ حَبِیْبُ بْنُ حَجَرٍ الْقَیْسِيُّ: کَانَ یُقَالُ مَا أُضِیْفَ شَيئٌ إِلٰی شَيْئٍ مِثْلُ حِلْمٍ إِلٰی عِلْمٍ.
رَوَاهُ ابْنُ أَبِي الدُّنْیَا۔
(2) أخرجہ ابن أبي الدنیا في الحلم/ 28، الرقم/ 14۔
حبیب بن حجر قیسی نے کہا ہے: کہا جاتا تھا کہ کوئی چیز کسی چیزکے ساتھ اس طرح مربوط نہیں جس طرح حلم، علم کے ساتھ مربوط ہے (یعنی کوئی شے دوسری شے کے ساتھ ملنے سے اُسے اس قدر زینت نہیں دیتی جس قدر حلم، علم کو زینت دیتا ہے)۔
اِسے امام ابن ابی الدنیا نے روایت کیا ہے۔
عَنْ عُقْبَۃَ بْنِ سِنَانٍ أَنَّ أَکْثَمَ بْنَ صَیْفِيٍّ قَالَ: دِعَامَۃُ الْعَقْلِ: الْحِلْمُ۔ وَجِمَاعُ الْأَمْرِ: الصَّبْرُ۔ وَخَیْرُ الْأُمُوْرِ: مَغَبَّۃُ الْعَقْلِ۔ (3)
رَوَاهُ ابْنُ أَبِي الدُّنْیَا۔
(3) أخرجہ ابن أبي الدنیا في العقل وفضلہ/ 55، الرقم/ 50۔
عقبہ بن سنان سے روایت ہے کہ اَکثم بن صیفی نے کہا: عقل کا سب سے مضبوط سہارا حلم (اور تحمل) ہے، کسی بھی اَمر کی مضبوطی صبر ہے اور بہترین اَمر وہ ہے جسے عقل و تدبر سے انجام دیا جائے۔
اِسے امام ابن ابی الدنیا نے روایت کیا ہے۔
قَالَ عَمْرُو بْنُ الْعَاصِ لِابْنِہٖ عَبْدِ اللهِ رضی اللہ عنہم: مَا الرِّفْقُ؟ قَالَ: أَنْ تَکُوْنَ ذَا أَنَاۃٍ وَتَـلَایُنٍ۔ قَالَ: فَمَا الْخُرْقُ؟ قَالَ: مُعَادَاۃُ إِمَامِکَ وَمُنَاوَأَۃُ مَنْ یَقْدِرُ عَلٰی ضَرِّکَ.
ذَکَرَهُ الْمُنَاوِيُّ۔
(1) المناوي في فیض القدیر، 4/ 57۔
حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا: رِفق کیا ہے؟ انہوں نے جواب دیا: (اپنے ماتحتوں کے ساتھ) نرمی اور بردباری سے پیش آنا۔ انہوں نے پوچھا: بیوقوفی کیا ہے؟ انہوں نے جواب دیا: اپنے سربراہ اور ان لوگوں سے عداوت اور دشمنی رکھنا جو تجھے نقصان پہنچانے پر قادر ہوں۔
اِسے امام مناوی نے بیان کیا ہے۔
(1) الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ فِی السَّرَّآءِ وَ الضَّرَّآءِ وَ الْكٰظِمِیْنَ الْغَیْظَ وَ الْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِ ؕ وَ اللّٰهُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَۚo
(آل عمران، 3/ 134)
یہ وہ لوگ ہیں جو فراخی اور تنگی (دونوں حالتوں) میں خرچ کرتے ہیں اور غصہ ضبط کرنے والے ہیں اور لوگوں سے (ان کی غلطیوں پر) درگزر کرنے والے ہیں، اور اللہ احسان کرنے والوں سے محبت فرماتا ہےo
(2) فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللّٰهِ لِنْتَ لَهُمْ ۚ وَ لَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِیْظَ الْقَلْبِ لَا نْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِكَ ۪ فَاعْفُ عَنْهُمْ وَ اسْتَغْفِرْ لَهُمْ وَ شَاوِرْهُمْ فِی الْاَمْرِ ۚ فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَی اللّٰهِ ؕ اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ الْمُتَوَكِّلِیْنَo
(آل عمران، 3/ 159)
(اے حبیبِ والا صفات!) پس اللہ کی کیسی رحمت ہے کہ آپ ان کے لیے نرم طبع ہیںاور اگر آپ تُندخُو (اور) سخت دل ہوتے تو لوگ آپ کے گرد سے چھٹ کر بھاگ جاتے، سو آپ ان سے درگزر فرمایا کریں اور ان کے لیے بخشش مانگا کریں اور (اہم) کاموں میں ان سے مشورہ کیا کریں، پھر جب آپ پختہ ارادہ کر لیں تو اللہ پر بھروسہ کیا کریں، بے شک اللہ توکّل والوں سے محبت کرتا ہےo
(3) وَالَّذِیْنَ یَجْتَنِبُوْنَ کَبٰٓـئِرَ الْاِثْمِ وَالْفَوَاحِشَ وَاِذَا مَا غَضِبُوْا ھُمْ یَغْفِرُوْنَo
(الشوری، 42/ 37)
اور جو لوگ کبیرہ گناہوں اور بے حیائی کے کاموں سے پرہیز کرتے ہیں اور جب انہیں غصّہ آتا ہے تو معاف کر دیتے ہیںo
407/ 62۔ عَنْ أَبِي ھُرَیْرَۃَ رضی اللہ عنہ أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ: لَیْسَ الشَّدِیدُ بِالصُّرَعَۃِ، إِنَّمَا الشَّدِیدُ الَّذِي یَمْلِکُ نَفْسَہٗ عِنْدَ الْغَضَبِ۔
مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ۔
407: أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب الأدب، باب الحذر من الغضب، 5/ 2267، الرقم/ 5763، ومسلم في الصحیح، کتاب البر والصلۃ والأداب، باب فضل من یملک نفسہ عند الغضب وبأي شیء یذہب الغضب، 4/ 2014، الرقم/ 2609، وأحمد بن حنبل في المسند، 2/ 268، الرقم/ 7628، والنسائي في السنن الکبری، 6/ 105، الرقم/ 10226۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: طاقت وَر (پہلوان) وہ نہیں ہے جو (کُشتی میں) کسی کو پچھاڑ دے بلکہ اصلی پہلوان تو وہ شخص ہے جو غصہ کی حالت میں اپنے آپ پر قابو پا سکے۔
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
408/ 63۔ عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ صُرَدٍ رضی اللہ عنہ قَالَ: اسْتَبَّ رَجُلَانِ عِنْدَ النَّبِيِّ ﷺ وَنَحْنُ عِنْدَہٗ جُلُوسٌ، وَأَحَدُھُمَا یَسُبُّ صَاحِبَہٗ مُغْضَبًا قَدِ احْمَرَّ وَجْھُہٗ، فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ: إِنِّي لَأَعْلَمُ کَلِمَۃً لَوْ قَالَھَا لَذَهَبَ عَنْهُ مَا یَجِدُ۔ لَوْ قَالَ: أَعُوْذُ بِاللهِ مِنْ الشَّیْطَانِ الرَّجِیمِ۔ فَقَالُوا لِلرَّجُلِ: أَ لَا تَسْمَعُ مَا یَقُولُ النَّبِيُّ ﷺ؟ قَالَ: إِنِّي لَسْتُ بِمَجْنُونٍ۔
مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ۔
408: أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب الأدب، باب الحذر من الغضب، 5/ 2267، الرقم/ 5764، ومسلم في الصحیح، کتاب البر والصلۃ والآداب، باب فضل من یملک نفسہ عند الغضب وبأي شیء یذہب الغضب، 4/ 2015، الرقم/ 2610، وأحمد بن حنبل في المسند، 6/ 394، الرقم/ 27249، وأبو داود في السنن، کتاب الآدب، باب ما یقال عند الغضب، 4/ 249، الرقم/ 4781۔
حضرت سلیمان بن صُرد رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ حضور نبی اکرم ﷺ کی موجودگی میں دو آدمیوں نے جھگڑا کیا اور ہم بھی بارگاهِ نبوت میں حاضر تھے۔ ان میں سے ایک شخص دوسرے کو غصہ کی حالت میں گالی دے رہا تھا اور اُس کا چہرہ سرخ ہو گیا تھا۔ اس پر حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: میں ایک ایسا کلمہ جانتا ہوں کہ اگر یہ شخص اُسے کہہ لے تو اس (کے غصہ) کی یہ کیفیت دور ہو جائے۔ (فرمایا:) کاش کہ وہ أَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ پڑھ لے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ م نے اس سے کہا: تو نے سنا نہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ کیا فرما رہے ہیں؟ اُس نے جواب دیا: میں کوئی پاگل نہیں ہوں (کہ نہ سنوں)۔
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
409/ 64۔ عَنْ أَبِي ھُرَیْرَۃَ رضی اللہ عنہ أَنَّ رَجُلًا قَالَ لِلنَّبِيِّ ﷺ: أَوْصِنِي۔ قَالَ: لَا تَغْضَبْ فَرَدَّدَ مِرَارًا، قَالَ: لَا تَغْضَبْ۔
رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَأَحْمَدُ وَالتِّرْمِذِيُّ۔
409: أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب الأدب، باب الحذر من الغضب، 5/ 2667، الرقم/ 5765، وأحمد بن حنبل في المسند، 2/ 362، الرقم/ 8729، والترمذي في السنن، کتاب البر والصلۃ، باب ما جاء في کثرۃ الغصب، 4/ 371، الرقم/ 2020، وابن أبي شیبۃ في المصنف، 5/ 216، الرقم/ 25380۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے حضور نبی اکرم ﷺ کی بارگاہ میں عرض کیا: مجھے کوئی نصیحت فرما دیجئے۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: غصہ نہ ہوا کر۔ اس نے کئی مرتبہ یہی سوال کیا اور آپ ﷺ نے (ہر بار یہی) فرمایا کہ غصہ نہ ہوا کر (یعنی غصہ کی حالت میں خود پر قابو رکھو)۔
اِسے امام بخاری، احمد اور ترمذی نے روایت کیا ہے۔
410/ 65۔ وَفِي رِوَایَۃِ حُمَیْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: قَالَ رَجُلٌ: یَا رَسُوْلَ اللهِ، أَوْصِنِي۔ قَالَ: لَا تَغْضَبْ۔
قَالَ: فَفَکَّرْتُ حِیْنَ قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ مَا قَالَ، فَإِذَا الْغَضَبُ یَجْمَعُ الشَّرَّ کُلَّہٗ۔
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَعَبْدُ الرَّزَّاقِ وَالْبَیْهَقِيُّ۔
410: أخرجہ أحمد بن حنبل في المسند، 5/ 373، الرقم/ 23219، وعبد الرزاق في المصنف، 11/ 187، الرقم/ 20286، والبیہقي في السنن الکبری، 1/ 105، الرقم/ 20065۔
حُمَید بن عبد الرحمن حضور نبی اکرم ﷺ کے صحابہ میں سے ایک صحابی سے روایت کرتے ہیں: ایک شخص نے عرض کیا: یا رسول اللہ! مجھے کوئی وصیت فرما دیجئے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: غصہ نہ ہوا کر۔
(راوی) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے فرمان کے بارے میں غور کیا (تو اس نتیجے پر پہنچا ) کہ غصہ ہی تمام برائیوں کو جمع کرنے والا ہے۔ ۔
<اِسے امام احمد، عبد الرزاق اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔411/ 66۔ عَنِ ابْنِ عَمْرٍو رضی اللہ عنہ أَنَّہٗ سَأَلَ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ: مَا یُبَاعِدُنِي مِنْ غَضَبِ اللهِ؟ قَالَ: لَا تَغْضَبْ۔
رَوَاهَ أَحْمَدُ وَابْنُ حِبَّانَ۔
411: أخرجہ أحمد بن حنبل في المسند، 2/ 175، الرقم/ 6635، وابن حبان في الصحیح، 1/ 531، الرقم/ 296، والبیہقي في شعب الإیمان، 6/ 308، الرقم/ 8281۔
حضرت (عبد اللہ) بن عمرو رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ اُنہوں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا: کون سی چیز مجھے اللہ تعالیٰ کے غضب سے دور کر سکتی ہے (یعنی بچا سکتی ہے)؟ آپ ﷺ نے فرمایا: غصہ نہ ہوا کر (اللہ تعالیٰ کے غضب سے بچے رہو گے)۔
اِسے امام احمد اور ابن حبان نے روایت کیا ہے۔
412/ 67۔ عَنْ أَبِي ذَرٍّ رضی اللہ عنہ قَالَ: إِنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ لَنَا: إِذَا غَضِبَ أَحَدُکُمْ وَھُوَ قَائِمٌ فَلْیَجْلِسْ، فَإِنْ ذَهَبَ عَنْهُ الْغَضَبُ وَإِلَّا فَلْیَضْطَجِعْ۔
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَأَبُو دَاوُدَ وَابْنُ حِبَّانَ۔
412: أخرجہ أحمد بن حنبل في المسند، 5/ 152، الرقم/ 21386، أبوداود في السنن، کتاب الأدب، باب ما یقال عند الغضب، 4/ 249، الرقم/ 4782، وابن حبان في الصحیح، 12/ 501، الرقم/ 5688، والبیہقي في شعب الإیمان، 6/ 30، الرقم/ 828۔
حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں فرمایا: جب تم میں سے کسی کو کھڑے کھڑے غصہ آ جائے تو وہ بیٹھ جائے اور اگر پھر بھی غصہ ختم نہ ہو تو لیٹ جائے۔
اِسے امام احمد، ابو داود اور ابن حبان نے روایت کیا ہے۔
413/ 68۔ عَنْ أَبِي سَعِیْدٍ الْخُدْرِيِّ رضی اللہ عنہ قَالَ: صَلّٰی بِنَا رَسُولُ اللهِ ﷺ یَوْمًا صَلَاۃَ الْعَصْرِ بِنَھَارٍ، ثُمَّ قَامَ خَطِیبًا فَلَمْ یَدَعْ شَیْئًا یَکُوْنُ إِلٰی قِیَامِ السَّاعَۃِ إِلَّا أَخْبَرَنَا بِہٖ۔ حَفِظَہٗ مَنْ حَفِظَہٗ وَنَسِیَہٗ مَنْ نَسِیَہٗ، وَکَانَ فِیمَا قَالَ … أَلَا! وَإِنَّ مِنْهُمُ الْبَطِيئَ الْغَضَبِ سَرِیْعَ الْفَيْئِ، وَمِنْھُمْ سَرِیْعَ الْغَضَبِ سَرِیْعَ الْفَیْئِ، فَتِلْکَ بِتِلْکَ۔ أَلَا! وَإِنَّ مِنْھُمْ سَرِیْعَ الْغَضَبِ بَطِيئَ الْفَیْئِ، أَلَا! وَخَیْرُھُمْ بَطِيئُ الْغَضَبِ سَرِیْعُ الْفَیْئِ، أَلَا! وَشَرُّھُمْ سَرِیْعُ الْغَضَبِ بَطِيئُ الْفَیْئِ۔
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالتِّرْمِذِيُّ وَاللَّفْظُ لَہٗ وَابْنُ مَاجَہ، وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: ھٰذَا حَدِیثٌ حَسَنٌ صَحِیحٌ۔
413: أخرجہ أحمد بن حنبل في المسند، 3/ 19، الرقم/ 11159، وأیضًا 3/ 61، الرقم/ 11604، والترمذي في السنن، کتاب الفتن، باب ما جاء ما أخبر النبي ﷺ أصحابہ بما ہو کائن، 4/ 484، الرقم/ 2191، وابن ماجہ في السنن، کتاب الفتن، باب الأمر بالمعروف والنہي عن المنکر، 2/ 1328، الرقم/ 4007۔
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ایک دن رسول اللہ ﷺ نے ہمیں عصر کی نماز پڑھائی پھر خطبہ دینے کے لیے قیام فرما ہوئے اور ہمیں قیامت تک ہونے والے تمام واقعات کی خبر دے دی۔ جس نے یاد رکھا اسے یاد رہا اور جس نے بھلا دیا وہ بھول گیا۔ آپ ﷺ نے جو کچھ ارشاد فرمایا اس میں یہ بھی تھا: … سُن لو! بعض وہ ہیں جو دیر سے غصہ ہوتے ہیں اور اسے ختم کرنے میں جلدی کرتے ہیں، بعض جلدی غصہ ہوتے ہیں اور ختم کرنے میں بھی جلدی کرتے ہیں تو یہ اس کا بدلہ ہے۔ سن لو! ان میں سے بعض وہ بھی ہیں جو جلدی غصہ ہوتے ہیں اور ختم کرنے میں دیر کرتے ہیں۔ سن لو! ان میں سے بہتر وہ ہیں جن کو دیر سے غصہ آئے اور جلدی ختم ہو جائے اور برے وہ ہیں جن کو جلدی غصہ آئے اور دیر سے ختم ہو۔
اِسے امام احمد، ترمذی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔ مذکورہ الفاظ ترمذی کے ہیں اور وہ فرماتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
414/ 69۔ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضی اللہ عنہم قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: مَا مِنْ جُرْعَۃٍ أَعْظَمُ أَجْرًا عِنْدَ اللهِ مِنْ جُرْعَۃِ غَیْظٍ کَظَمَھَا عَبْدٌ ابْتِغَائَ وَجْهِ اللهِ۔
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَابْنُ مَاجَہ وَاللَّفْظُ لَہٗ۔
414: أخرجہ أحمد بن حنبل في المسند، 2/ 128، الرقم/ 6116، وابن ماجہ في السنن، کتاب الزہد، باب الحلم، 2/ 1401، الرقم/ 4189، والطبراني في المعجم الأوسط، 7/ 205، الرقم/ 7282۔
حضرت (عبد اللہ) بن عمر رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے نزدیک کوئی بھی گھونٹ اَجر و ثواب میں اس غصہ کے گھونٹ سے بڑھ کر نہیں جسے کسی بندے نے رضائے الٰہی کے حصول کے لیے پی لیا ہو۔
اِسے امام احمد اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔ مذکورہ الفاظ ابن ماجہ کے ہیں۔
415/ 70۔ عَنْ أَبِي وَائِلٍ الْقَاصِّ، قَالَ: دَخَلْنَا عَلٰی عُرْوَۃَ بْنِ مُحَمَّدٍ السَّعْدِيِّ فَکَلَّمَہٗ رَجُلٌ فَأَغْضَبَہٗ، فَقَامَ فَتَوَضَّأَ، ثُمَّ رَجَعَ وَقَدْ تَوَضَّأَ۔ فَقَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي عَنْ جَدِّي عَطِیَّۃَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: إِنَّ الْغَضَبَ مِنَ الشَّیْطَانِ، وَإِنَّ الشَّیْطَانَ خُلِقَ مِنَ النَّارِ، وَإِنَّمَا تُطْفَأُ النَّارُ بِالْمَائِ؛ فَإِذَا غَضِبَ أَحَدُکُمْ فَلْیَتَوَضَّأْ۔
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَأَبُوْ دَاوُد وَاللَّفْظُ لَہٗ وَالطَّبَرَانِيُّ۔
415: أخرجہ أحمد بن حنبل في المسند 4/ 226، الرقم/ 18014، وأبو داود في السنن، کتاب الأدب، باب ما یقال عند الغضب، 4/ 249، الرقم/ 4784، والطبراني في المعجم الکبیر، 17/ 167، الرقم/ 443۔
ابو وائل القاص کا بیان ہے کہ وہ عروہ بن محمد السعدی کی خدمت میں حاضر ہوئے تو ایک آدمی نے ان سے ایسی بات کی جس نے انہیں غصہ دلایا۔ وہ اُٹھے اور وضو کیا، پھر واپس آئے تو اُنہوں نے وضو کیا ہوا تھا۔ اُنہوں نے فرمایا: مجھ سے میرے والد ماجد نے میرے جد امجد حضرت عطیہ کے واسطہ سے حدیث بیان کی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: غصہ شیطان کی طرف سے آتا ہے، شیطان کو آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آگ پانی سے بجھائی جاتی ہے۔ لہٰذا جب تم میں سے کسی کو غصہ آئے تو اُسے چاہیے کہ وضو کر لے۔
اِسے امام احمد نے، ابو داود نے مذکورہ الفاظ کے ساتھ اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔
عَنْ عَبْدِ الْجَبَّارِ بْنِ النَّضْرِ السُّلَمِيِّ عَنْ بَعْضِ رِجَالِہٖ قَالَ: رضی اللہ عنہ م غُـلَامٌ لِأَبِي ذَرٍّ رضی اللہ عنہ قَدْ کَسَرَ رِجْلَ شَاۃٍ لَہٗ، فَقَالَ لَہٗ أَبُوْ ذَرٍّ: مَنْ کَسَرَ رِجْلَ ہٰذِهِ الشَّاۃِ؟ قَالَ: أَنَا۔ قَالَ: وَلِمَ؟ قَالَ: لِأَغِیْظَکَ فَتَضْرِبَنِي فَتَأْثَمَ۔ فَقَالَ أَبُوْ ذَرٍّ رضی اللہ عنہ: لَأَغِیْظَنَّ مَنْ حَرَّضَکَ عَلٰی غَیْظِي۔ قَالَ: فَأَعْتَقَہٗ.
رَوَاهُ ابْنُ عَسَاکِرَ.
(1) أخرجہ ابن عساکر في تاریخ مدینۃ دمشق، 66/ 211۔
حضرت عبد الجبار بن نضر السلمی نے کسی راوی سے بیان کیا ہے کہ حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ کا غلام ان کے پاس آیا جس نے اُن کی بکری کی ٹانگ توڑ دی تھی۔ حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ نے اُس سے پوچھا: اس بکری کی ٹانگ کس نے توڑی ہے؟ـ اس غلام نے جواب دیا: میں نے۔ انہوں نے پوچھا: ایسا کیوں کیا ہے؟ اُس نے جواب دیا: تاکہ میں آپ کو غصہ دلاؤں اور آپ مجھے مار پیٹ کریں اور گناہ گار ہوں۔ حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں اس پر غصہ نکالوں گا جس نے تجھ کو مجھے غصہ دلانے پر اُکسایا ہے۔ راوی نے بیان کیا ہے کہ پھر آپ نے اس غلام کو آزاد کر دیا۔
اِسے ابن عساکر نے روایت کیا ہے۔
عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ یَحْیَی الْمَرْوَزِيِّ قَالَ: قَالَ رَجُلٌ لِوَہْبِ بْنِ مُنَبِّہٍ: إِنَّ فُـلَانًا شَتَمَکَ. قَالَ: أَمَا وَجَدَ الشَّیْطَانُ بَرِیْدًا غَیْرَکَ.
رَوَاهُ ابْنُ أَبِي الدُّنْیَا۔
(1) ابن أبي الدنیا في الإشراف في منازل الأشراف/ 151، الرقم/ 97۔
حضرت محمد بن یحییٰ المروزی نے کہا کہ ایک شخص نے حضرت وہب بن منبہ سے شکایت کی کہ فلاں شخص نے آپ کو گالی دی ہے۔ انہوں نے کہا: کیا شیطان کو تیرے علاوہ کوئی قاصد نہیں ملا۔
اِسے امام ابن ابی الدنیا نے روایت کیا ہے۔
أَمَرَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِیْزِ بِضَرْبِ رَجُلٍ، ثُمَّ قَرَأَ قَوْلَہٗ تَعَالٰی {وَالْکَاظِمِیْنَ الْغَیْظَ} فَقَالَ لِغُـلَامِہٖ: خَلِّ عَنْهُ.
ذَکَرَهُ الْغَزَالِيُّ فِي الإِحْیَاءِ۔
(2) الغزالي في إحیاء علوم الدین، 3/ 173۔
حضرت عمر بن عبد العزیز نے ایک شخص کو سزا دینے کا حکم دیا، پھر یہ آیت کریمہ پڑھی: {وَالْکَاظِمِیْنَ الْغَیْظَ} ’اور (پرہیزگار) غصہ ضبط کرنے والے ہوتے ہیں‘۔ اس کے بعد آپ نے اپنے غلام کو حکم دیا کہ اس شخص کو چھوڑ دو۔
اِسے امام غزالی نے ’إحیاء علوم الدین‘ میں بیان کیا ہے۔
(1) اِنَّ رَحْمَتَ اللهِ قَرِیْبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِیْنَo
(الأعراف، 7/ 56)
بے شک اللہ کی رحمت احسان شعار لوگوں (یعنی نیکوکاروں) کے قریب ہوتی ہےo
(2) وَ اَلَّفَ بَیْنَ قُلُوْبِهِمْ ؕ لَوْ اَنْفَقْتَ مَا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا مَّاۤ اَلَّفْتَ بَیْنَ قُلُوْبِهِمْ وَ لٰكِنَّ اللّٰهَ اَلَّفَ بَیْنَهُمْ ؕ اِنَّهٗ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌo
(الأنفال، 8/ 63)
اور (اسی نے) ان (مسلمانوں) کے دلوں میں باہمی الفت پیدا فرما دی۔ اگر آپ وہ سب کچھ جو زمین میں ہے خرچ کر ڈالتے تو (ان تمام مادی وسائل سے) بھی آپ ان کے دلوں میں (یہ) الفت پیدا نہ کر سکتے لیکن اللہ نے ان کے درمیان (ایک روحانی رشتے سے) محبت پیدا فرما دی۔ بے شک وہ بڑے غلبہ والا حکمت والا ہےo
(3) وَاخْفِضْ لَھُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَۃِ وَقُلْ رَّبِّ ارْحَمْھُمَا کَمَا رَبَّیٰـنِیْ صَغِیْرًاo
(الإسراء، 17/ 24)
اور ان دونوں کے لیے نرم دلی سے عجزوانکساری کے بازو جھکائے رکھو اور (اللہ کے حضور) عرض کرتے رہو: اے میرے رب! ان دونوں پر رحم فرما جیسا کہ انہوں نے بچپن میں مجھے (رحمت و شفقت سے) پالا تھاo
(4) وَمَآ اَرْسَلْنٰـکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْنَo
(الأنبیاء، 21/ 107)
اور (اے رسولِ محتشم!) ہم نے آپ کو نہیں بھیجا مگر تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کرo
(5) وَ مِنْ اٰیٰتِهٖۤ اَنْ خَلَقَ لَكُمْ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ اَزْوَاجًا لِّتَسْكُنُوْۤا اِلَیْهَا وَ جَعَلَ بَیْنَكُمْ مَّوَدَّةً وَّ رَحْمَةً ؕ اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّتَفَكَّرُوْنَo
(الروم، 30/ 21)
اور یہ (بھی) اس کی نشانیوںمیں سے ہے کہ اس نے تمہارے لیے تمہاری ہی جنس سے جوڑے پیدا کیے تاکہ تم ان کی طرف سکون پاؤ اور اس نے تمہارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کر دی، بے شک اس (نظامِ تخلیق) میں ان لوگوں کے لیے نشانیاں ہیں جو غور و فکر کرتے ہیںo
416/ 71۔ عَنْ جَرِیرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ رضی اللہ عنہ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: لَا یَرْحَمُ اللهُ مَنْ لَا یَرْحَمُ النَّاسَ۔
مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ۔
416: أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب التوحید، باب قول اللہ تعالٰی: {قل ادعو اللہ أو ادعوا الرحمٰن}، 6/ 2686، الرقم/ 6941، ومسلم في الصحیح، کتاب الفضائل، باب رحمتہ الصبیان والعیال وتواضعہ وفضل ذلک، 4/ 1809، الرقم/ 2319، وأحمد بن حنبل في المسند، 4/ 358، الرقم/ 19189، والترمذي في السنن، کتاب البر والصلۃ، باب ما جاء في رحمۃ المسلمین، 4/ 323، الرقم/ 1922۔
حضرت جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ اُس شخص پر رحم نہیں فرماتا جو لوگوں پر رحم نہیں کرتا۔
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
417/ 72۔ وَفِي رِوَایَۃِ أَبِي ھُرَیْرَۃَ رضی اللہ عنہ قَالَ: قَبَّلَ رَسُولُ اللهِ ﷺ الْحَسَنَ بْنَ عَلِيٍّ رضی اللہ عنہم وَعِنْدَهُ الْأَقْرَعُ بْنُ حَابِسٍ التَّمِیْمِيُّ جَالِسًا۔ فَقَالَ الْأَقْرَعُ: إِنَّ لِي عَشَرَۃً مِنَ الْوَلَدِ۔ مَا قَبَّلْتُ مِنْھُمْ أَحَدًا۔ فَنَظَرَ إِلَیْهِ رَسُولُ اللهِ ﷺ ثُمَّ قَالَ: مَنْ لَا یَرْحَمُ لَا یُرْحَمُ۔
مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ۔
417: أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب الأدب، باب رحمۃ الولد وتقبیلہ ومعانقتہ، 5/ 2235، الرقم/ 5651، ومسلم في الصحیح، کتاب الفضائل، باب رحمتہ الصبیان والعیال وتواضعہ وفضل ذلک، 4/ 1808، الرقم/ 2318۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہم کو بوسہ دیا اور اس وقت اَقرع بن حابس آپ ﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔ اَقرع نے کہا: میرے دس بچے ہیں لیکن میں نے کبھی ان میں سے کسی کو بوسہ نہیں دیا۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کی طرف دیکھا اور پھر فرمایا: جو شخص رحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیا جاتا۔
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
418/ 73۔ وَفِي رِوَایَۃِ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو رضی اللہ عنہ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: اَلرَّاحِمُونَ یَرْحَمُهُمُ الرَّحْمٰنُ۔ ارْحَمُوا مَنْ فِي الْأَرْضِ یَرْحَمْکُمْ مَنْ فِي السَّمَاءِ۔ الرَّحِمُ شُجْنَۃٌ مِنَ الرَّحْمٰنِ فَمَنْ وَصَلَھَا وَصَلَهُ اللهُ، وَمَنْ قَطَعَھَا قَطَعَهُ اللهُ۔
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَأَبُوْ دَاوُدَ وَالتِّرْمِذِيُّ وَاللَّفْظُ لَہٗ۔ وَقَالَ: ھٰذَا حَدِیثٌ حَسَنٌ صَحِیْحٌ۔
418: أخرجہ أحمد بن حنبل في المسند، 2/ 160، الرقم/ 6494، وأبوداود في السنن، کتاب الأدب، باب في الرحمۃ، 4/ 285، الرقم/ 4941، والترمذي في السنن، کتاب البر والصلۃ، باب ما جاء في رحمۃ المسلمین، 4/ 323، الرقم/ 1924۔
حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: رحم کرنے والوں پر رحمن رحم فرماتا ہے، تم زمین والوں پر رحم کرو آسمان والا (خدا) تم پر رحمت فرمائے گا۔ رَحِم بھی رحمٰن سے مشتق ہے، جو اسے (یعنی رشتوں کو) جوڑتا ہے اللہ تعالیٰ اس شخص کو (اپنی رحمت سے) جوڑ لیتا ہے اور جو کوئی اسے توڑتا ہے اللہ تعالیٰ بھی اس سے (اپنا تعلق) توڑ لیتا ہے۔
اِسے امام احمد، ابو داود اور ترمذی نے روایت کیا ہے۔ مذکورہ الفاظ ترمذی کے ہیں اور انہوں نے کہا ہے: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
419/ 74۔ وَفِي رِوَایَۃٍ عَنْ قُرَّۃَ بْنِ إِیَاسٍ رضی اللہ عنہ أَنَّ رَجُـلًا قَالَ: یَا رَسُوْلَ اللهِ، إِنِّي لَأَذْبَحُ الشَّاۃَ وَأَنَا أَرْحَمُھَا، أَوْ قَالَ: إِنِّي لَأَرْحَمُ الشَّاۃَ أَنْ أَذْبَحَھَا۔ فَقَالَ: وَالشَّاۃُ، إِنْ رَحِمْتَھَا رَحِمَکَ اللهُ۔
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالْبَزَّارُ وَابْنُ أَبِي شَیْبَۃَ وَالْحَاکِمُ وَالْبُخَارِيُّ فِي الأَدَبِ الْمُفْرَدِ۔ وَقَالَ الْحَاکِمُ: ھٰذَا حَدِیْثٌ صَحِیْحُ الإِسْنَادِ۔
419: أخرجہ أحمد بن حنبل في المسند، 3/ 436، الرقم/ 15630، والبزار في المسند، 8/ 257، الرقم/ 3322، وابن أبي شیبۃ في المصنف، 5/ 214، الرقم/ 25361، والحاکم في المستدرک، 4/ 257، الرقم/ 7562، والبخاري في الأدب المفرد/ 136، الرقم/ 373، والطبراني في المعجم الکبیر، 19/ 23، الرقم/ 45۔
حضرت قرہ بن ایاس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں عرض کیا: یا رسول اللہ! جب میں بکری کو ذبح کرتا ہوں تو مجھے اُس پر رحم آتا ہے، یا یہ کہا کہ مجھے بکری کو ذبح کرنے سے اُس پر رحم آتا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اگر تجھے بکری پر رحم آتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی تجھ پر رحم فرمائے گا۔
اِسے امام احمد، بزار، ابن ابی شیبہ اور حاکم نے جب کہ بخاری نے ’الادب المفرد‘ میں روایت کیا ہے۔ امام حاکم نے فرمایا: یہ حدیث صحیح الاسناد ہے۔
420/ 75۔ عَنْ عَائِشَۃَ رضی اللہ عنہ ا قَالَتْ: قَدِمَ نَاسٌ مِنَ الْأَعْرَابِ عَلٰی رَسُوْلِ اللهِ ﷺ فَقَالُوْا: أَتُقَبِّلُوْنَ صِبْیَانَکُمْ؟ فَقَالُوْا: نَعَمْ۔ فَقَالُوْا: لٰـکِنَّا، وَاللهِ، مَا نُقَبِّلُ۔ فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: وَأَمْلِکُ إِنْ کَانَ اللهُ نَزَعَ مِنْکُمُ الرَّحْمَۃَ۔
مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ وَاللَّفْظُ لِمُسْلِمٍ۔
420: أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب الأدب، باب رحمۃ الولد وتقبیلہ ومعانقتہ، 5/ 2235، الرقم/ 5652، ومسلم في الصحیح، کتاب الفضائل، باب رحمتہ الصبیان والعیال وتواضعہ وفضل ذلک، 4/ 1808، الرقم/ 2317، وأحمد بن حنبل في المسند، 6/ 56، الرقم/ 24336، وابن ماجہ في السنن، کتاب الأدب، باب بر الوالد والإحسان إلی البنات، 2/ 1209، الرقم/ 3665، والبیھقي في شعب الإیمان، 7/ 466، الرقم/ 11013۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ ا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں (ملاقات کے لیے) کچھ دیہاتی لوگ آئے، اور اُنہوں نے (صحابہ کرام رضی اللہ عنہ م سے) پوچھا: کیا آپ اپنے بچوں کو چومتے ہیں؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ م نے کہا: ہاں! (ہم تو چومتے ہیں)۔ اُنہوں (یعنی دیہاتیوں) نے کہا: بخدا ہم تو (اپنے بچوں کو) نہیں چومتے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اگر اللہ تعالیٰ نے تمہارے دل سے رحمت نکال لی ہے تو میں کیا کر سکتا ہوں۔
یہ حدیث متفق علیہ ہے، مذکورہ الفاظ مسلم کے ہیں۔
421-422/ 76۔ وَفِي رِوَایَۃِ أُسَامَۃَ بْنِ زَیْدٍ رضی اللہ عنہم کَانَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ یَأْخُذُنِي فَیُقْعِدُنِي عَلٰی فَخِذِہٖ وَیُقْعِدُ الْحَسَنَ عَلٰی فَخِذِهِ الْأُخْرٰی، ثُمَّ یَضُمُّھُمَا، ثُمَّ یَقُوْلُ: اَللّٰھُمَّ، ارْحَمْھُمَا فَإِنِّي أَرْحَمُھُمَا۔
رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَأَحْمَدُ ُّ وَابْنُ حِبَّانَ۔
421: أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب الأدب، باب وضع الصبي علی الفخذ، 5/ 2236، الرقم/ 5657، وأحمد بن حنبل في المسند، 5/ 205، الرقم/ 21835، وابن حبان في الصحیح، 15/ 415، الرقم/ 6961۔
حضرت اُسامہ بن زید رضی اللہ عنہم سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ مجھے اُٹھا لیتے اور اپنی ایک ران پر بٹھا لیا کرتے تھے اور امام حسن رضی اللہ عنہ کو اپنی دوسری ران پر بٹھا لیا کرتے تھے، پھر دونوں کو اپنے ساتھ چمٹا لیتے اور دعا فرماتے: اے اللہ! اِن دونوں پر رحمت فرما کیونکہ میں بھی اِن پر رحم کرتا ہوں۔
اِسے امام بخاری، احمد، اور ابن حبان نے روایت کیا ہے۔
(422) وَفِي رِوَایَۃٍ لِلنَّسَائِيِّ: اَللّٰھُمَّ، أَحِبَّھُمَا فَإِنِّي أُحِبُّھُمَا۔
422: أخرجہ النسائي في السنن الکبری، 5/ 53، الرقم/ 8184۔
امام نسائی کی روایت میں ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اے اللہ! اِن دونوں سے محبت فرما کیونکہ میں بھی اِن سے محبت کرتا ہوں۔
423-424/ 77۔ وَفِي رِوَایَۃِ أَبِي ھُرَیْرَۃَ رضی اللہ عنہ قَالَ: قِیْلَ: یَا رَسُوْلَ اللهِ، ادْعُ عَلَی الْمُشْرِکِیْنَ۔ قَالَ: إِنِّي لَمْ أُبْعَثْ لَعَّانًا وَإِنَّمَا بُعِثْتُ رَحْمَۃً۔
رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالْبُخَارِيُّ فِي الْأَدَبِ۔
423: أخرجہ مسلم في الصحیح، کتاب البر والصلۃ والآداب، باب النھي عن لعن الدواب وغیرھا، 4/ 2006، الرقم/ 2599، والبخاري في الأدب المفرد، 1/ 119، الرقم/ 321، وأبو یعلی في المسند، 11/ 35، الرقم/ 6174۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ سے عرض کیا گیا: (یا رسول اللہ!) مشرکین کے خلاف دعا کیجئے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: مجھے لعنت کرنے والا بنا کر مبعوث نہیں کیا گیا، مجھے تو صرف رحمت بنا کر بھیجا گیا ہے۔
اِسے امام مسلم نے اور بخاری نے ’الادب المفرد‘ میں روایت کیا ہے۔
(424) وَفِي رِوَایَۃٍ: إِنَّمَا بُعِثْتُ رَحْمَۃً وَلَمْ أُبْعَثْ عَذَابًا۔
رَوَاهُ أَبُوْ نُعَیْمٍ وَالْبَیْهَقِيُّ وَابْنُ عَسَاکِرَ۔
424: أخرجہ أبو نعیم في دلائل النبوۃ، 1/ 40، الرقم/ 2، والبیہقي في شعب الإیمان، 2/ 144، الرقم/ 1403، وابن عساکر في تاریخ مدینۃ دمشق، 4/ 92۔
ایک روایت میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: مجھے رحمت بنا کر بھیجا گیا ہے نہ کہ عذاب بنا کر۔
اِسے امام ابو نعیم، بیہقی اور ابن عساکر نے روایت کیا ہے۔
425/ 78۔ عَنْ أَبِي ھُرَیْرَۃَ رضی اللہ عنہ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: بَیْنَا رَجُلٌ بِطَرِیقٍ اشْتَدَّ عَلَیْهِ الْعَطَشُ، فَوَجَدَ بِئْرًا، فَنَزَلَ فِیْھَا فَشَرِبَ۔ ثُمَّ خَرَجَ فَإِذَا کَلْبٌ یَلْھَثُ یَأْکُلُ الثَّرٰی مِنَ الْعَطَشِ۔ فَقَالَ الرَّجُلُ: لَقَدْ بَلَغَ ھٰذَا الْکَلْبُ مِنَ الْعَطَشِ مِثْلُ الَّذِي کَانَ بَلَغَ مِنِّي۔ فَنَزَلَ الْبِئْرَ، فَمَلَا خُفَّہٗ مَاءً، فَسَقَی الْکَلْبَ، فَشَکَرَ اللهُ لَہٗ۔ فَغَفَرَ لَہٗ۔ قَالُوْا: یَا رَسُولَ اللهِ، وَإِنَّ لَنَا فِي الْبَھَائِمِ لَأَجْرًا؟ فَقَالَ: فِي کُلِّ ذَاتِ کَبِدٍ رَطْبَۃٍ أَجْرٌ۔
مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ۔
425: أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب المظالم، باب الآبار علی الطریق إذا لم یتأذ بہا، 2/ 870، الرقم/ 2334، وأیضًا في کتاب الأدب، باب رحمۃ الناس والبھائم، 5/ 2238، الرقم/ 5663، ومسلم في الصحیح، کتاب السلام، باب فضل ساقي البہائم المحترمۃ وإطعامہا، 4/ 1761، الرقم/ 2244، وأحمد بن حنبل في المسند، 2/ 517، الرقم/ 10710، وأبو داود في السنن، کتاب الجہاد، باب ما یؤمر بہ من القیام علی الدواب والبہائم، 3/ 24، الرقم/ 2550۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: کوئی آدمی کسی راستے میں سفر کر رہا تھا کہ اسے سخت پیاس لگی تو اسے (راستے میں) ایک کنواں ملا، وہ اس میں اتر گیا اور پانی پیا، جب باہر نکل آیا تو دیکھا کہ ایک کتا ہانپ رہا ہے جوپیاس کے مارے کیچڑ چاٹ رہا تھا۔ اس آدمی نے سوچا کہ اس کتے کو بھی اتنی ہی پیاس ہو گی جیسے مجھے تھی۔ لہٰذا وہ کنوئیں میں اُترا، اپنے موزے میں پانی بھرا اور کتے کو پلا دیا۔ اللہ تعالیٰ نے اسے قبول کیا اور اسے بخش دیا۔ لوگ عرض گزار ہوئے: یا رسول اللہ! کیا جانوروں کے ساتھ حسنِ سلوک پر بھی ہمیں اجر ملتا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ہر جان دار کے ساتھ حسنِ سلوک کرنے پر اجر ملتا ہے۔
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
426/ 79۔ وَفِي رِوَایَۃِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِیْرٍ رضی اللہ عنہم قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: مَثَلُ الْمُؤْمِنِیْنَ فِي تَوَادِّھِمْ وَتَرَاحُمِھِمْ وَتَعَاطُفِھِمْ مَثَلُ الْجَسَدِ۔ إِذَا اشْتَکٰی مِنْهُ عُضْوٌ تَدَاعٰی لَہٗ سَائِرُ الْجَسَدِ بِالسَّهَرِ وَالْحُمّٰی۔
مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ وَاللَّفْظُ لِمُسْلِمٍ۔
426: أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب الأدب، باب رَحْمَۃِ النَّاسِ وَ البَھَائِمِ، 5/ 2238، الرقم، 5665، ومسلم في الصحیح، کتاب البر والصلۃ والآداب، باب تراحم المؤمنین وتعاطفھم وتعاضدھم، 4/ 1999، الرقم/ 2586، وأحمد بن حنبل في المسند، 4/ 270، الرقم/ 18398، والبیہقي في السنن الکبری، 3/ 353، الرقم/ 6223، وأیضًا في شعب الإیمان، 6/ 481، الرقم/ 8985، والبزار في المسند، 8/ 238، الرقم/ 3299، وابن مندہ في الإیمان، 1/ 455، 456 الرقم/ 319، 322 وابن سلیمان القرشي في ’من حدیث خیثمۃ‘/ 74۔
حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہم روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اہلِ ایمان باہم دوستی و محبت کرنے، ایک دوسرے پر مہربانی کرنے اور لطف و نرم خوئی کا مظاہرہ کرنے میں ایک جسم کی طرح ہیں۔ جب جسم کا کوئی بھی حصہ تکلیف میں ہوتا ہے تو سارا جسم بے خوابی اور بخار میں مبتلا ہو جاتا ہے۔
یہ حدیث متفق علیہ ہے اور مذکورہ الفاظ مسلم کے ہیں۔
427/ 80۔ عَنْ أَبِي ھُرَیْرَۃَ رضی اللہ عنہ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ، أَنَّ رَجُلًا زَارَ أَخًا لَہٗ فِي قَرْیَۃٍ أُخْرٰی فَأَرْصَدَ اللهُ لَہٗ عَلٰی مَدْرَجَتِہٖ مَلَکًا۔ فَلَمَّا أَتٰی عَلَیْهِ، قَالَ: أَیْنَ تُرِیدُ؟ قَالَ: أُرِیدُ أَخًا لِي فِي ہٰذِهِ الْقَرْیَۃِ۔ قَالَ: هَلْ لَکَ عَلَیْهِ مِنْ نِعْمَۃٍ تَرُبُّھَا؟ قَالَ: لَا غَیْرَ أَنِّي أَحْبَبْتُہٗ فِي اللهِ سبحانہ وتعالیٰ۔ قَالَ: فَإِنِّي رَسُوْلُ اللهِ إِلَیْکَ بِأَنَّ اللهَ قَدْ أَحَبَّکَ کَمَا أَحْبَبْتَہٗ فِیْهِ۔
رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ۔
427: أخرجہ مسلم في الصحیح، کتاب البر والصلۃ والآداب، باب في فضل الحب في اللہ، 4/ 1988، الرقم/ 2567، وأحمد بن حنبل في المسند، 2/ 408، الرقم/ 9280۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺنے فرمایا: ایک شخص اپنے بھائی سے ملنے ایک دوسری بستی میں گیا، اللہ تعالیٰ نے اس کے راستہ میں ایک فرشتہ کو اس کے انتظار کے لیے بھیج دیا، جب وہ اس کے پاس سے گزرا تو فرشتے نے پوچھا: کہاں جانے کا ارادہ ہے؟ اس نے کہا: اس بستی میں میرا ایک بھائی ہے اس سے ملنے کا ارادہ ہے۔ فرشتے نے پوچھا: کیا آپ نے اس پر کوئی احسان کیا ہے کہ جس کی تکمیل مقصود ہے؟ اس نے کہا: اس کے سوا اور کوئی بات نہیں کہ مجھے اس سے صرف اللہ تعالیٰ کے لیے محبت ہے۔ تب اُس فرشتے نے کہا: میں تمہارے پاس اللہ تعالیٰ کا یہ پیغام لایا ہوں کہ جس طرح تم محض اللہ تعالیٰ کی خاطر اس سے محبت کرتے ہو اللہ تعالیٰ بھی تم سے محبت کرتا ہے۔
اِسے امام مسلم اور احمد نے روایت کیا ہے۔
428/ 81۔ وَفِي رِوَایَۃٍ عَنْهُ رضی اللہ عنہ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: لَا تَدْخُلُوْنَ الْجَنَّۃَ حَتّٰی تُؤْمِنُوْا، وَلَا تُؤْمِنُوْا حَتّٰی تَحَابُّوْا، أَوَ لَا أَدُلُّکُمْ عَلٰی شَيئٍ إِذَا فَعَلْتُمُوْهُ تَحَابَبْتُمْ؟ أَفْشُوْا السَّـلَامَ بَیْنَکُمْ۔
رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ وَأَبُوْ دَاوُدَ وَالتِّرْمِذِيُّ وَابْنُ مَاجَہ۔
428: أخرجہ مسلم في الصحیح، کتاب الإیمان، باب بیان أنہ لا یدخل الجنۃ إلا المؤمنون وأن محبۃ المؤمنین من الإیمان وأن إفشاء السلام سبب لحصولھا، 1/ 74، الرقم/ 54، وأحمد بن حنبل في المسند، 2/ 512، الرقم/ 10658، وأبوداود في السنن، کتاب الأدب، باب في إفشاء السلام، 4/ 350، الرقم/ 5193، والترمذي في السنن، کتاب الاستئذان والآداب، باب ما جاء في إفشاء السلام، 5/ 52، الرقم/ 2688، وابن ماجہ في السنن في کتاب الأدب، باب إِفشاء السلام، 2/ 1217، الرقم/ 3692۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ہی سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تم جنت میں اس وقت تک داخل نہیں ہو سکتے جب تک کہ تم ایمان نہ لاؤ، اور تم اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتے جب تک تم ایک دوسرے سے محبت نہ کرو۔ کیا میں تمہیں ایک ایسی چیز نہ بتائوں جس پر تم عمل کرو تو ایک دوسرے سے محبت کرنے لگو؟ ( وہ عمل یہ ہے کہ) اپنے درمیان سلام کو پھیلایا کرو (یعنی کثرت سے ایک دوسرے کو سلام کیا کرو)۔
اِس حدیث کو امام مسلم، احمد، ابو داود، ترمذی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔
قَالَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِیْزِ رضی اللہ عنہ: اَللّٰھُمَّ، إِنْ لَمْ أَکُنْ أَہْلًا أَنْ أَبْلُغَ رَحْمَتَکَ، فَإِنَّ رَحْمَتَکَ أَہْلٌ أَنْ تَبْلُغَنِي، رَحْمَتُکَ وَسِعَتْ کُلَّ شَيْئٍ وَأَنَا شَيْئٌ۔ فَلْتَسَعْنِي رَحْمَتُکَ، یَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ۔ اَللّٰھُمَّ، إِنَّکَ خَلَقْتَ قَوْمًا فَأَطَاعُوْکَ فِیْمَا أَمَرْتَھُمْ، وَعَمِلُوْا فِي الَّذِي خَلَقْتَھُمْ لَہٗ، فَرَحْمَتُکَ إِیَّاھُمْ کَانَتْ قَبْلَ طَاعَتِھِمْ لَکَ، یَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ.
رَوَاهُ أَبُوْ نُعَیْمٍ۔
(1) أخرجہ أبو نعیم في حلیۃ الأولیاء، 5/ 299۔
حضرت عمر بن عبد العزیز نے دعا کی: اے اللہ! اگر میں تیری رحمت تک پہنچنے کا اہل نہیں تو تیری رحمت تو مجھ تک پہنچ سکتی ہے، تیری رحمت نے ہر چیز کو گھیر رکھا ہے اور میں بھی اُن میں سے ایک چیز ہوںــ؛ لہٰذا تو مجھے اپنی رحمت کے گھیرے میں لے لے۔ اے سب سے زیادہ رحم کرنے والی ذات! اے اللہ! تو نے ایک قوم کو تخلیق فرمایا، انہوں نے تیری اطاعت کی جس کا تو نے انہیں حکم دیا اور انہوں نے وہ اعمال کیے جن کے لیے تو نے انہیں پیدا فرمایا تھا۔ سو اُن پر تیری رحمت تیری اطاعت کرنے سے پہلے نازل ہوئی، اے سب سے بڑھ کر رحم کرنے والے!
اسے امام ابو نعیم نے روایت کیا ہے۔
قَالَ الْفَیْرُوْزَآبَادِيُّ: اَلرَّحْمَۃُ سَبَبٌ وَاصِلٌ بَیْنَ اللهِ وَبَیْنَ عِبَادِہٖ، بِھَا أَرْسَلَ إِلَیْھِمْ رُسُلَہٗ، وَأَنْزَلَ عَلَیْھِمْ کُتُبَہٗ، وَبِھَا هَدَاھُمْ، وَبِھَا أَسْکَنَھُمْ دَارَ ثَوَابِہٖ، وَبِھَا رَزَقَھُمْ وَعَافَاھُمْ.
(2) الفیروزآبادي في بصائر ذوي التمییز في لطائف الکتاب العزیز، 3/ 55۔
علامہ فیروز آبادی نے کہا: رحمت ہی اللہ تعالیٰ اور اس کے بندوں کو باہم ملانے کا سبب ہے۔ اسی لیے رُسلِ عظام f کو ان (بندوں) کی طرف مبعوث فرمایا اور ان پر کتابیں نازل فرمائیں، اور انہی کے ذریعے لوگوں کو ہدایت دی، اِسی واسطہ سے انہیں جنت میں ٹھہرائے گا اور اُنہی کے وسیلہ سے اُنہیں رزق عطا کیا اور اُن کی بخشش فرمائی۔
قَالَ ابْنُ حَجَرٍ تَعْلِیْقًا عَلٰی حَدِیْثِ (مَنْ لَا یَرْحَمُ لَا یُرْحَمُ): قَالَ ابْنُ بَطَّالٍ: فِیْهِ الْحَضُّ عَلَی اسْتِعْمَالِ الرَّحْمَۃِ لِجَمِیْعِ الْخَلْقِ فَیَدْخُلُ الْمُؤْمِنُ وَالْکَافِرُ وَالْبَھَائِمُ الْمَمْلُوْکُ مِنْھَا وَغَیْرُ الْمَمْلُوْکِ، وَیَدْخُلُ فِي الرَّحْمَۃِ التَّعَاهُدُ بِالإِطْعَامِ، وَالسَّعْيِ، وَالتَّخْفِیْفِ فِي الْحَمْلِ، وَتَرْکِ التَّعَدِّيِّ بِالضَّرْبِ.
(1) العسقلاني في فتح الباري، 10/ 440۔
حافظ ابن حجر عسقلانی نے حدیثِ مبارکہ ’جو کسی پر رحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیا جاتا‘ کی شرح کرتے ہوئے کہا ہے: ابن بطال فرماتے ہیں: اس حدیث میں تمام مخلوقات کو رحمت میں شامل کرنے کی ترغیب ہے۔ اس میں مسلمان، کافر، چوپائے خواہ اپنے ہوں یا دوسروں کے، سب شامل ہیں۔ اسی طرح رحمت میں (کسی محتاج کو) کھانا کھلانے کی ذمہ داری لینا، (اس کی محتاجی دور کرنے کی) کوشش کرنا، (کسی کے) بوجھ کو ہلکا کرنا اور سزا میں زیادتی کو ترک کرنا سب اعمال شامل ہیں۔
Copyrights © 2025 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved